FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

شکنیں

اور

دوسرے افسانے

 

 

انور ظہیر رہبر

 

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

شکنیں

 

 

"سنی!! تم بغیر استری کی شرٹ مت پہنا کرو”۔ آج نیلا نے یہ بات کلاس میں مجھ سے کہی تو مجھے یوں لگا جیسے وہ میرا مذاق اڑا رہی ہے۔ میں نے اس کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی- میں سوچنے لگا کہ یورپ میں زندگی گزارنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ پڑھائ کے ساتھ ساتھ کام کرنا اور دونوں چیزوں کو یکساں وقت دینا کتنا مشکل ہے۔ پھر ایسے میں بھلا آدمی کپڑوں کا کیا خیال کرے گا۔ استری کرنا کپڑوں میں اتنا ضروری تو نہیں۔ ہاں پاکستان میں تھا تو بغیر استری کیے کپڑے پہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر یہاں کہاں۔ سارا کام خود کرنا۔ ” ارے کیا تم ناراض ہو گئے؟” نیلا نے مجھے خاموش دیکھ کر دوبارہ سوال کیا۔ ” نہیں مجھے ناراض ہونے کی عادت ہی نہیں ہے”۔ ” پھر تم کیا سوچ رہے ہو، میں نے تو یہ سب کچھ اس لئے کہا تھا کہ تمہیں یاد ہو گا پرسوں ہمارے ٹیچر نے بھی تمہیں کہا تھ ا”۔ نیلا کا بھی تعلق ایشیا کے ایک غریب ملک برما سے تھا اور وہ مسلمان بھی تھی۔ اردو بھی بول لیتی تھی۔ اس لئے وہ اپنا فرض سمجھتی تھی یہ ساری باتیں بتانا۔ ” ہاں۔ ہاں ” میں نے کہا۔ ” ٹیچر نے معذرت بھی تو کر لی تھی۔ بہرحال چھوڑو، تمہیں میری قمیض کی شکنیں نظر آ گئیں لیکن میرے اندر کی شکنیں نظر نہ آئیں "۔ ” کیا کیا؟ سنی میں کچھ سمجھی نہیں ؟ "۔ اسے اردو اتنی اچھی آتی بھی نہ تھی۔ اکثر گھنٹوں گھنٹوں فون پر مختلف لفظوں کا مطلب پوچھا کرتی تھی۔ اپنی اردو ٹھیک کر رہی تھی۔ ” نیلا ! وقفے میں بات کریں گے”۔ میں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ٹیچر کی طرف متوجہ ہو گیا۔ وقفے میں اس نے پھر بات چھیڑی۔ ” بتاؤ کیا کہ رہے تھے”۔ میں نے بولنا شروع کیا۔ ” نیلا ! میں بڑی مسافت طے کر کے یہاں تک پہنچا ہوں۔ اپنی تعلیمی پیاس بجھانے کے لئے نہ جانے کہاں کہاں پھرا ہوں۔ اپنے وطن کے ہر ایک شہر میں چاہا، کوشش کی لیکن داخلہ ہی نہ ہوا ، کیوں کہ کوئ بڑی سورس نا تھی، اور اب ہاں اب ساری محبتوں، ساری چاہتوں کی قربانی دے کر دیار غیر میں آ بیٹھا ہوں۔ اب صرف ہاں اب صرف وہی منزل میرے سامنے ہے جس کی روشنی میں نے بچپن میں دیکھی تھی "۔ میرے جواب کو سن کر اس نے ایک لمبی سانس لی۔ ” ہاں تم ٹھیک کہتے ہو ، خوب تمھارے خیالات اچھے ہیں۔ میں نے صرف اس لئے کہا تھا سنی کہ یہ یورپ والے ہمیں کمتر سمجھتے ہیں اور ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان سے کسی طرح کم نہیں ہیں”۔ "تمہارا کہنا بھی ٹھیک ہے "۔ میں نے جواباً کہا اور اپنا بیگ اٹھا کر آج جلدی گھر چلا آیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اب تک تھی کہاں…..

 

 

میں ساحل سمندر کے کنارے بیٹھا سمندر کی گیلی اور دلدلی مٹی سے کھیل رہا تھا – سمندر کی پر شور اور بےتاب لہریں کسی الھڑ دوشیزہ کی مانند اچھل اچھل کر اٹھکھلیاں کرتے ہوئے مجھ سے ٹکرا رہی تھیں اور میں اپنی پر ہیجان کیفیت میں پانی کے لمس کو ایسی ہی کسی دوشیزہ کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر رہا تھا— مجھے ہمبرگ سے آئے ہوئے پندرہ دن ہوئے تھے اور یہاں تقریباً آٹھ دن سے میں ہٹ میں مقیم تھا۔ میں جاتا بھی کہاں، پورا کراچی شہر شور شرابے میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ اور مجھے تنہائ و سکون کی تلاش پیراڈائیز پوائینٹ کی اس ہٹ تک کھینچ لائ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی کراچی شہر کی روشنیاں میرے لئے اجنبی نہ تھیں- میں ساحل پر بیٹھا وقت گزار رہا تھا اور شاید اس کے غیر ارادی انتظار میں — جو میرے ہٹ سے چوتھے ہٹ میں مقیم تھی۔ میں اسے کئ دنوں سے دیکھ رہا تھا – وہ تنہا تھی اور میں بھی۔ میں اور وہ اکثر شام کے وقت ساحل کے اسی کنارے آتے اور وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی بھیگتی رہتی۔ سمندر کی لہروں سے کھیلتے ہوئے میں بھی کبھی اس کے قریب پہنچ جاتا ، وہ مسکرا کر دیکھتی اور پھر سمندر کی لہریں مجھے گھسیٹ لے جاتیں—– آج بھی میری آنکھیں اس کی متلاشی تھیں—– سورج اپنی کرنوں کو سمیٹ کر چھپ گیا تھا اور چاند اپنے حسن کے ساتھ جلوہ گر ہو رہا تھا، لیکن میں آج اپنے غمناک آنکھیں لیکر وہاں سے اٹھ گیا—- آج دوسرے دن بھی وہ نہ آئ تو میں یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ رہ شہر واپس جاچکی ہے —– ہوں—— میں نے ٹھنڈی سانس لیتے سوچا، میں بھی کتنا احمق ہوں، چند شام سمندر پر ملاقات ہو گئ تو میں اس کا منتظر ہو گیا- ——- میں تو نہ جانے کس کے انتظار میں ہمبرگ میں وقت گزارتا رہا اور پھر اسی کی تلاش میں پاکستان چلا آیا، نہ جانے مجھے کس کی تلاش ہے – میں نے خود سے سوال کیا- تیسری شام اچانک وہ مجھے نظر آئ، مگر ساحل سمندر پر نہیں بلکہ اپنے ہٹ کے برآمدے میں ایزی چئیر پر بیٹھی جھول رہی تھی- ڈوبتے ہوئے سورج کی ترچھی کرنیں اس کے چہرے پر پڑتی ہوئ عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔ سورج کی گستاخ کرنوں پر وہ بھنویں سکیڑ کر یوں بیٹھی تھی جیسے کرنوں کی گستاخی اسے گراں گزر رہی ہو۔ اگرچہ چہرے پر زلفیں بکھری ہوئیں تھیں لیکن ناکافی چلمن سے اس کا چہرہ جھانک رہا تھا- میرے قدم غیر ارادی طور پر اس کے ہٹ کے جانب اٹھ گئے، میں جب تک قریب پہنچا وہ سورج کی کرنوں کی وجہ سے اپنا چہرہ کتاب سے ڈھانپ چکی تھی اور اسی لئے شاید اس نے مجھے آتے ہوئے نہیں دیکھا- میں نے ذرا زور سے آداب کہا تو وہ اچانک ہڑ بڑا اٹھی۔ میرے چہرے پر اک نظر ڈالی لیکن خاموش رہی۔ میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا، آپ کے آرام میں مخل ہوا معافی چاہتا ہوں، میں تو بس صرف یہی پوچھنے آیا تھا کہ آپ تین چار دن سے ساحل پر نظر نہیں آ رہی ہیں خیریت تو ہے—- – میں اک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا- آپ بیٹھیں تو مسٹر—— نہال میں نے لقمہ دیا- جی شکریہ کہہ کر میں سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر اس نے اپنے لب کو حرکت دی، ذرا مجھے حرارت ہو گئ تھی، سمندر کے پانی میں بھیگنے سے، اس لئے میں اپنے ہٹ میں آرام کر رہی ہوں۔ اب کیسی طبعیت ہے، میں نے پوچھا— ہاں اب تو بہتر ہوں۔۔ اک مختصر سا جواب آیا۔ اور پھر خاموشی کا اک طویل سلسلہ چل نکلا، شاید ہم دونوں ہی اپنے اپنے خیالات کے محتاط اظہار کے لئے لفظوں کے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ مجھ سے زیادہ دیر خاموشی برداشت نہ ہو سکی اور میں سے اس سلسلے کو توڑا، معاف کیجے گا محترمہ —— میں نے بولنے کے لئے لب کھولا ہی تھا کہ اب کی بار اس نے لقمہ دیا۔ جی میرا نام نوشی ہے!! ” بہت پیارا نام ہے آپ کا” میرے منہ سے بے اختیار نکلا- جی شکریہ، اس نے اپنے نام کے سراہنے جانے کا قطعی برا نہ منایا- غالباً اس نے جذبے کی اس لطافت کو محسوس کر لیا تھا جو میرے دل میں اس کے قیمتی وجود کیلئے جنم لے چکا تھا- کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اس ہٹ میں اتنے دن سے تنہا کیوں مقیم ہیں- ابھی میرا سوال مکمل ہوا بھی نہیں تھا کہ نوشی بول پڑی ، اگر یہی سوال میں آپ سے کروں تو۔۔۔۔۔۔ مجھ سے یہ سوال نہ ہی کریں تو۔۔۔۔۔ اچھا جی میں آپ سے کچھ نہ پوچھوں اور آپ مجھ سے سب کچھ دریافت کر لیں۔ اس نے اپنے شوخ انداز میں کہا کہ میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ نہیں ایسی کوئ بات نہیں میں نے زیر لب کہا، میں دراصل لا ابالی اور تنہائ پسند انسان ہوں، یہ سب کچھ دراصل اسوجہ سے ہے کہ میری زندگی میں اک خلاء ہے جسے پر کرنے والا مجھے کوئ نظر نہیں آتا۔۔۔۔ او۔۔۔۔ میرے خاموش ہونے پر وہ بولی، میں دراصل رنگینیوں اور شور سے پیچھا چھڑانے کے لئے یہاں مقیم ہوں، میں امریکہ سے یہاں آئ ہوں اور پرسوں واپس جا رہی ہوں- نوشی نے بات مکمل کی۔ دیکھیں یہ بھی کتنی مشترک بات ہے میں بھی جرمنی سے آیا ہوں اور جلد ہی واپس چلا جاؤں گا۔ پھر تو ہماری منزل بھی جدا جدا ہے، نوشی نے جواباً کہا- بات بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی سو میں نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا—- وہ تو ہماری وقتی منزل ہے، اصل منزل تو ہماری یہ سرزمین ہے، جس سرزمین کی کوکھ سے ہم نے جنم لیا ہے- کیا آپ پاکستان میں گھر بسانا نہیں چاہتیں؟ میں تو اسی مقصد سے آیا تھا لیکن —— میں نے اک منٹ کے توقف کے بعد پھر سے بولنا شروع کیا، میں ہمبرگ میں 5 سال سے ہوں لیکن ایسی کوئ بات نہیں ہوئ، کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری سرزمین جس نے مجھے جنم دیا ہے وہیں میرے قسمت کا فیصلہ بھی ہو گا اور شاید مجھے وہ مل گیا جس کی مجھے تلاش تھی ایسی ہی سکون اور تنہا پسند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں بھی کسی ایسے ہی حادثے کی امید میں پاکستان آئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا۔

٭٭٭

 

 

 

سپنوں کے ساحل پر

 

 

تم سپنے دیکھتے ہو؟ ہاں! مت دیکھا کرو کیوں؟ سپنے وقت کو بہا لے جاتے ہیں ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن اس بہتے وقت میں ہم بہت کچھ دیکھ لیتے ہیں کیا دیکھنے سے تسکین ہو جاتی ہے؟ ہاں بالکل ——— نہیں! صرف دیکھنے سے وہ بھی سپنے میں ارے یہ بھی تو سوچو، حقیقت میں جو دیکھ چکے ہوتے ہیں وہی تو سپنے میں نظر آتے ہیں ہمیشہ تو ایسا نہیں ہوتا ہاں ہمیشہ نہیں لیکن زیادہ تر مگر جذبوں کی تسکین جو حقیقت میں۔۔۔۔۔ ہاں جو حقیقت میں نہیں کر پاتے وہی سپنوں میں کرتے ہیں جذبوں کی تسکین سپنے میں تو نہیں ہو سکتی لیکن ان جذبوں کی نو خیزی کو کسی حد تک قرار آ جاتا ہے! کیا زندگی سپنوں میں ہی گزار رہے ہو؟ زندگی کو جیتا جاگتا رکھنے کے لئے سپنے ضروری ہیں زندگی کی تلخیاں بھی تو۔۔۔۔۔۔۔ ہاں لیکن یہ کیا کم ہے سپنوں سے دل بہل جاتا ہے مگر محبت دل بہلانے کو تو نہیں کہتے میرے نزدیک دل بہلانا ہی محبت ہے کم ہمت ہو نہ اس لئے شائد!! تو پھر محبت کرنا چھوڑ دو! مگر اس کے بغیر زندہ کیسے رہوں گا رہ لیتے ہیں لوگ نہیں! میں نہیں رہ سکتا نہیں رہ سکتے تو محبت کو حقیقت کا رنگ دو، محبت کو سپنوں میں مت گزارو اب تک۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

ہاتھ سے جنت بھی گئی……

 

لبادہ اُس کے چیتھڑے اڑ چکے تھے ، سر دھڑ سے جدا ہو چکا تھا، عجیب سا دھماکا ہوا تھا بہت زور کی آواز ہوئی تھی، اس کے تن کے خون کا رنگ بھی سیاہ ہو گیا تھا جیسے خون میں آکسیجن کی آمیزش بند ہو گئ ہو، پھر بھی اس کا جسم کانپ رہا تھا جیسے ابھی کوئی رمق باقی ہو۔ ہر طرف اندھیرا چھا چکا تھا ایسے میں اُسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اُس سے کچھ پوچھ رہا ہو۔ ’’ یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ ’’میں نے !میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘ اُس نے اُس انجانی آواز کو جواب دیا۔ ’’لیکن پہلے یہ تو بتاؤ تم ہو کون اور تم مجھ سے اس قسم کا سوال کیوں کر رہے ہو؟ ‘‘ اُس نے اُس انجانی آواز سے پوچھا۔ ’’ میں ، میں تو موت کا فرشتہ ہوں اس لئے تم مجھے بالکل صحیح صحیح جواب دو۔‘‘ ’’کیا تم موت کا فرشتہ۔۔۔۔۔۔‘‘ ڈر سے اس کا جواب بھی ادھورا ہی رہ گیا۔۔مو ت کے فرشتے نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ ’’ ہاں بتاؤ یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے آخر ان معصوموں کی جان کیوں لی؟کیوں بے قصوروں کو تم نے اس بے دردی سے مار ڈالا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بھی جان لے لی۔۔ آخر کیوں؟ ‘‘ ’’ میں نے۔۔۔ میں نے وہ خوف سے ہکلا رہا تھا۔‘‘ موت کا فرشتہ پھر بولا۔ ’’ اچھا یہ تم ڈر کیوں رہے ہو؟ ڈرنا تو تم کو اُس وقت چاہیے تھا جب تم نے اپنے جسم میں بم باندھا تھا ، اب کیوں؟ اب تو تم مر چکے ہو، اب کیسا ڈرنا؟ ‘‘ ’’ میں مر چکا ہوں تو تم مجھ سے اتنے سوال کیوں کر رہے ہو؟ مجھے تو میری تنظیم نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے میں سیدھا جنت میں جاؤں گا، پھر یہ سوال جواب کیوں؟ تم موت کا فرشتہ ہو تو مجھے فوراً جنت میں لے کر چلو۔۔۔‘‘ ’’ ہا ہا ہا۔۔‘‘ موت کے فرشتے نے اُس کی یہ بات سن کر بہت زور سے قہقہہ لگایا۔۔ ’’آہا تم جنت میں جانا چاہتے ہو، بہت خوب، معصوم بچوں، عورتوں اور مردوں کو ناحق قتل کر کے تم جنت میں جا نا چاہتے ہو، ارے تم نے تو اپنے جسم کا بھی خیال نہ رکھا جو خدا نے تمھیں امانت کے طور پر دیا تھا اور اس خودکش حملے میں خود کی بھی جان لے لی اور کہتے ہو کہ جنت میں جاؤ گے۔‘‘ ’’ہاں مجھے جنت میں لے چلو۔۔۔۔۔میری تنظیم نے مجھ سے یہی کہا تھا کہ ایسا کرنے پر مجھے فوراً جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘ ’’اچھا یہ تم بار بار میری تنظیم میری تنظیم کی رٹ کیوں لگا رہے ہو ، آخر یہ تنظیم ہے کون؟ یہ تو بتاؤ۔۔‘‘ موت کے فرشتے نے سوال کیا۔ ’’ نہیں نہیں میں نہیں بتا سکتا اپنی تنظیم کا نام۔‘‘ ’’ اچھا یعنی کہ تم اب بھی اپنی تنظیم کے وفادار ہو؟‘‘ ’’ ہاں میں وفادار ہوں، کیونکہ انھوں نے مجھے بہت کچھ بتایا تھا، بہت سارے وعدے کیے تھے انھوں نے مجھ سے۔‘‘ ’’ آہا ، اچھا یہ تو بتاؤ کیا وعدے کیے تھے ؟ ’’ بتا تو رہا ہوں، تم مجھے جنت میں لے چلو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔‘‘ ’’جنت میں اور تم کو؟‘‘ موت کا فرشتہ پھر عجیب سے انداز میں ہنسا۔ ’’ارے تم تو ایسے گنہگار قاتل ہو جس کا جسم بھی مکمل نہیں، سر دھڑ سے الگ ہے، بازوں پیروں کا کچھ پتہ نہیں ہے، میں تمہیں کہاں کہاں سے اکٹھے کروں، تم تو تم ہو ہی نہیں، اتنی بکھری لاشوں میں تو اب تفریق کرنے کو بھی نہیں ہے، جب تمھارے مکمل وجود کا پتہ ہی نہیں ہے تو تم اس حالت میں جنت میں کہاں جا سکتے ہو۔ یہ تو تم بھول جاؤ۔‘‘ ’’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ میرا جس مذہب سے تعلق ہے اُسکے لوگ ایسا کرنے پر بھی جنت میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ ’’آہ کاش تم نے مذہب کو سمجھا ہوتا۔۔ مذہب ، دنیا میں تو ایسا کوئی مذہب ہے ہی نہیں جو معصوم انسانوں کی جان لینے کی تبلیغ کرتا ہو، چہ جائکہ تمہارا مذہب ، اور کوئی مذہب یہ بھی نہیں کہتا کہ ایسا کرنے والے کو جنت ملے گی۔‘‘ ’’لیکن میں کیا کرتا مجھے تو اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا، انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ایسا کروں گا تو میرے گھر والوں پر سے غریبی کا سایہ اٹھ جائے گا اور سب ٹھاٹ کریں گے۔اور دوسری طرف جنت بھی ملے گی، سو میں نے یہ قربانی دے دی۔‘‘ ’’اچھا یعنی دنیا کی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی۔۔۔دونوں چیزوں کا وعدہ کیا تھا تمہاری تنظیم نے؟‘‘ ’’ ہاں میرا تعلق غریب گھرانے سے ہے ، بڑی محنت کر کے میں اپنے دوسرے بھائی بہنوں کا اور ماں کا پیٹ پالتا تھا، انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ میر ے بعد وہ میرے گھر والوں کا بہت خیال رکھیں گے اور وہ لوگ وہاں ٹھاٹ کریں گے اور میں یہاں جنت میں۔۔۔‘‘ ’’آہ کاش ایسا ہی ہوتا۔۔لیکن تم کتنے احمق ہو! محنت مزدوری کر کے خود اور اپنے گھر والوں کو پالتے رہتے تو شاید محنت کر کے تم ایک دن اچھے دن بھی دیکھ لیتے۔لیکن۔۔۔‘‘ ’’لیکن کیا ہوا۔۔۔میرے بعد میرے گھر والے تو دیکھ رہے ہوں گے اچھے دن۔‘‘ ’’تمھیں یقین ہے کہ وہ ایسا ہی کریں گے؟‘‘ ’’ ہاں کریں گے وہ تو اُس وقت سے ہی کرنا شروع کر دیا تھا جب میں اس حملے کی ٹریننگ لے رہا تھا۔‘‘ ’’اچھا، پر اب وہ ایسا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ‘‘ ’’ نہیں نہیں وہ ایسا ہی کر رہے ہوں گے ، میرے گھر والے اب ٹھاٹ سے زندگی گزار رہے ہوں گے۔‘‘ ’’ اچھا اگر تمھارا یہی خیال ہے تو کچھ دن تک یہیں پڑے سڑتے رہو۔۔میں پھر بعد میں آؤ ں گا۔‘‘ یہ کہتے ہی اچانک موت کے فرشتے کی آواز آنا بند ہو گئی۔ ’’ سنو تو۔۔۔تم سنو تو۔۔۔‘‘وہ آواز دیتا ہی رہ گیا۔اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی لمبی خاموشی چھا گئی ہو۔۔۔اک لمبا عرصہ تیزی سے گزر گیا ہو۔۔۔موت کا فرشتہ ابھی تک واپس کیوں نہیں آیا۔۔۔۔جس موت کے فرشتے سے اُسے پہلے ڈر لگ رہا تھا وہ اب اُسی کا بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔۔۔پھر اسے لگا کہ کچھ ہو رہا ہے۔۔۔۔ ’’ کوئی ہے یہاں کیا؟‘‘ اُس نے آواز لگائی۔ ’’ہاں میں ہوں۔۔ میں واپس آ گیا ہوں۔‘‘ موت کے فرشتے نے جواباً کہا۔ ’’ آؤ میرے ساتھ چلو ، میں تم کو لے کر چلتا ہوں تمھارے خاندان کے پاس، تم خود دیکھ لینا کہ تمھارے گھر والے کس طرح ٹھاٹھ سے زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ موت کے فرشتے نے بات ختم کی ہی تھی کہ اُسے ایسا لگا جیسے وہ بڑی تیزی سے کسی اونچائی سے نیچے کی جانب جا رہا ہو۔ ’’ارے ارے یہ تم کہاں لے جا رہے ہو۔‘‘ ’’ چلو تو میں دکھاؤ ں تم کو۔۔۔‘‘ ’’ ارے ارے مجھے یاد آ رہا ہے۔۔یہ تو یہ تو میرے گھر کے قریب کا علاقہ ہے۔‘‘ ’’ ہاں یہ تمھارے گھر کے قریب کا ہی علاقہ ہے، دیکھو اُس شخص کو پہچانتے ہو؟‘‘ ’’ ہاں ہاں یہ تو میرا چھوٹا بھائی ہے جو اسکول میں پڑھتا تھا۔۔۔ہاں دیکھو وہ کیا کر رہا ہے۔۔۔ٹریفک سگنل پر کھڑی گاڑیوں کے درمیان چل چل کر ہاتھ پھیلا رہا ہے۔‘‘ ’’ارے کیا یہ بھیک مانگ رہا ہے ؟‘‘ ’’ہاں دیکھا تم نے، اور دیکھو گے۔۔۔آگے چلو۔۔۔وہ دیکھو اُس عورت کو جانتے ہو؟‘‘ ’’ ارے ہاں یہ تو میرا ہی گھر ہے اور یہ میری ماں ہے۔ اس کو کیا ہوا ہے ؟ یہ بستر سے کیوں لگ گئی ہے ؟ اتنی بیمار لگ رہی ہے۔ ارے یہ تو درد سے تڑپ رہی ہے اس کو کوئی دوا کیوں نہیں دیتا؟ ’’ ہاں دیکھ لیا تم نے اپنے خاندان کے ٹھاٹ۔‘‘ ’’ او میرے خدا۔۔۔یہ سب میں کیا دیکھ رہا ہوں، میں جب زندہ تھا تو میری محنت سے گھر تو چل رہا تھا، روکھی سوکھی میں گزارا تو ہوہی رہا تھا۔۔۔کم از کم بھیک مانگنے کی ضرورت تو نہیں آئی تھی۔۔۔۔یا خدا یہ کیا ہوا یہ میں نے کیا کیا۔۔‘‘وہ چیخ پڑا۔ ’’ نہیں۔۔‘‘ اچانک سے اُسکے جسم میں حرارت پیدا ہوئی۔۔۔خون کا رنگ پھر سے سرخ ہونے لگا، جیسے کہ آکسیجن کی ملاوٹ پھر سے شروع ہو گئی ہو۔۔لیکن جسم کی کپکپی میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔۔اُس نے اپنے آپ کو چھونا شروع کیا۔۔ارے میرے ہاتھ پاؤں، سر سبھی سا لم ہیں۔۔۔میں تو شاید سانس بھی لے رہا ہوں۔۔۔او میرے خدا۔۔۔یہ میں کیا کوئی خواب دیکھ رہا تھا؟۔۔۔او ہاں یہ اک خواب ہی تھا کتنا بھیانک خواب۔۔۔ او میرے خدا یہ میں کیا کرنے جا رہا تھا۔۔۔؟ پھر عامر جان اپنے خاندان کو لے کر نہ جانے کونسی بستی میں چلا گیا۔۔۔کسی کو کچھ بتائے بغیر۔۔۔شاید تنظیم کے ڈر سے۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

3/2 حصہ

 

 

میں بچپن سے ہی انقلابی تھا اور ہمیشہ اپنے ساتھ یا کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کرتا تھا- بھائ بہن میں بھی اگر کسی کو اچھی چیز ملتی اور مجھے نہیں تو میں اس زیادتی کے خلاف بہت احتجاج کرتا- اسی انقلابی اور زیادتی کے خلاف بغاوت نے مجھے آج اس دیار غیر تک پہنچا دیا ہے –

آج میں جرمنی آ کر سوچ رہا ہوں کہ پچھلے دو سال سے میں یہاں ہوں، یہ دو سال میں نے کیا کئے؟ کچھ بھی تو نہیں- پورے دو سال میرے ضائع ہو گئے اچھے دنوں کی امید میں- تقریباً ایک سال کی مشقت کے بعد تو میں یہاں تک پہنچا تھا- کتنا عذاب تھا یہ سفر بھی- کاش میں باغی طبعیت کا نہ ہوتا تو اپنے ہی ملک میں رائج نظام میں کہیں فٹ ہو چکا ہوتا۔

لیکن اب افسوس کا کیا فائدہ اب تو میں اپنے ملک کو چھوڑ چکا ہوں- اور اگر نہیں چھوڑتا تو پھر اپنی جان سے تو ہاتھ دھو ہی چکا ہوتا- میں کیا کرتا میرے پاس اور دوسرا کوئ راستہ بھی تو نہیں تھا-

اے کاش میں۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے میرے ذہن میں کیا ہل چل تھی- میرا ماضی کسی فلم کے سین کی طرح پردہ پر چل رہا تھا-

چک نمبر 59 میں جب میں  نے رحیم دین کے گھر آنکھ کھولی تو میری ماں بتاتی ہے کہ میں بہت خوبصورت بچہ تھا۔ گاؤں کی دوسری عورتیں آ آ کر مجھے دیکھتی تھیں اور بلائیں لیتی تھیں کہ کتنا خوبصورت بچہ ہے یہ- اور یہ بھی کہتی تھیں کہ ایک نہ ایک دن یہ ضرور کوئ بڑا آدمی بنے گا- کاش انکی دعائیں خدا سن لیتا۔لیکن ایسا ہوا نہیں۔ میں ایک غریب کسان رحیم دین کے گھر میں پل بڑھ رہا تھا-

باپ دن بھر کھیت میں ہل جلاتا اور مجھے اسکول بھیجتا کہ میں چند جماعتیں پڑھ لوں۔ بہن کلثوم کو تو اسکی بھی اجازت نہیں تھی۔ بچاری صرف گھر سے کھیت اور کھیت سے گھر ہی کرتی رہتی تھی۔ باپ کو کھانا پہنچانا، کھیتوں میں پانی دینا، یہی اس کا روز کا معمول تھا۔

آٹھویں جماعت جب میں پڑھ لی تو باپ نے میرا بھی اسکول جانا چھڑا دیا یہ کہہ کر کہ اب مجھے بھی اس کے ساتھ کھیت میں اس کا ہاتھ بٹانا ہو گا۔ کھیتی باڑی کرنا ہو گی۔ مجھے اپنے محنتی باپ کے ساتھ کام کرنے میں کوئ عذر نہیں تھا۔ میں بھی صبح سے شام تک باپ کے ساتھ مل کر کھیتی باڑی کرتا تھا-

ہماری 9 مرلہ زمین تھی- یوں ہم کوئ بہت بڑے کسان نہیں تھے۔ کھیتی باڑی میں ہم لوگ موسم کے لحاظ سے چیزیں اگاتے تھے- کبھی گندم، کبھی آلو، کبھی چاول اور کبھی سبزیاں۔

شروع شروع میں مجھے یہ بات سمجھ ہی نہ آتی تھی کہ ہم اتنی محنت کرتے ہیں اچھی خاصی فصل بھی اگالیتے ہیں۔ لیکن غربت کا جو سایہ گھنے درخت کی طرح ہمارے سروں پر ہے وہ کہیں سے کم نہیں ہوتا- لیکن آہستہ آہستہ مجھے سب کچھ سمجھ میں آنے لگا تھا۔

میں باپ سے ضد بھی کرتا کہ جتنی فصل ہے وہ مجھے دے میں جا کر اسے مارکیٹ میں خود بیچوں گا تاکہ کچھ پیسے اچھے مل جائیں- لیکن باپ مجھے کہتا کہ تو ابھی چھوٹا ہے تجھے نہیں معلوم کہ یہ سارے گورکھ دھندے کیا ہیں۔ بس تو اپنا کام کرتا جا اور کھیتی باڑی میں میری مدد کرتا جا۔ باقی کام تو مجھ پر چھوڑ دے۔ لیکن باغی طبیعت نے یہاں بھی اپنے باپ کی نہ سنی۔

میں نے باپ سے کہا کہ آخر جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو تو یہ بڑے زمیندار کے پاس کیا لینے جاتا ہے- تب اس نے مجھے بتایا کہ” بیٹا لینے نہیں دینے جاتا ہوں”۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ساری باتیں تو میں خود ہی نوٹ کر رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے لیکن میں اس وقت کا انتظار کر رہا تھا جب میں کوئ فیصلہ کر سکوں، کوئ قدم اٹھا سکوں-

مگر باپ کی عاجزی طبیعت کے سامنے میں اکثر بےبس ہو جاتا تھا- لیکن یہ کب تک ہوتا۔  میں شاید پیدا ہی اسی لئے ہوا تھا کہ کچھ کر گزروں۔  لیکن کاش کرنے سے پہلے کچھ اور سوچ لیتا یا طبیعت میں نرمی پیدا کر لیتا- لیکن  ایسا نہ ہوا-

آج سے تین سال پہلے موسم اور بارش نے اس قدر ساتھ دیا کہ ہماری فصل بہت ہی اچھی ہوئ- فصل کو دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ شاید یہ سال ہماری قسمت ہی بدل دے گا- اس لئیے میں نے باپ سے ضد کی کہ اس سال میں ہر حال میں خود جا کر اپنی فصل کی قیمت مارکیٹ سے لگاؤں گا- اور کچھ نہیں سنوں گا- باپ کی ضد تھی کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے-

ہم جتنا اگاتے ہیں وہ سب کا سب بڑے زمیندار کو پتہ ہوتا ہے اور اس میں سے 3/2 دو تہائ حصہ اس کے نذر کرنا ہو گا- ورنہ ہم یہ کھیتی باڑی وغیرہ سب بھول جائیں۔  میں نے فورا بغاوت کی اور کہا کہ نہیں اب یہ سب کچھ نہیں ہو گا- باپ نے مجھے سمجھایا کہ میں پاگل نہ بنوں- اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا- لیکن میں ماننے کے لئیے بالکل تیار نہ تھا-

آخر کار باپ نے کہا کہ اچھا جب فصل کٹے گی تو تو میرے ساتھ بڑے زمیندار کے پاس چلنا اور ان سے بات کرنا- فصل کٹ گئ – باپ نے مجھے ساتھ لیا اور ہم بڑے زمیندار کے پاس گئے –

بڑے زمیندار سے براہ راست میری یہ پہلی ملاقات تھی- ویسے تو میں نے اس کو بہت مرتبہ دیکھا تھا جب وہ کبھی کبھار ہماری زمین پر ٹہلنے آتا تھا- نہ جانے کیوں وہ مجھے کبھی بھی اچھا نہ لگا- عجیب ہیبت ناک قسم کا آدمی تھا- لمبا چوڑا، بڑی بڑی مونچھیں اور ساتھ میں کئ سارے حالی موالی جو کہ ہر قدم پر اس کے ساتھ ہوتے اور کوئ پنکھا جھل رہا ہوتا تو کوئ پانی لیے کھڑا ہوتا تھا۔

اسکی کوٹھی بھی کسی محل سے کم نہ تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی ملک کے بادشاہ کے محل کے اندر آ گئے ہیں اور لمبے طویل راستے سے گزرنے کے بعد کہیں وہ کمرہ آیا جس میں زمیندار بیٹھا تھا- اس نے ہمیں دیکھتے ہی کہا ” ہاں رحیم دین سنا ہے تمھاری فصل اس بار بہت شاندار ہوئی ہے” –  میں نے سوچا کہ اس کا مطلب ہے اس کو سب کچھ پہلے ہی سے معلوم ہے –

یہ ساری باتیں آخر کیونکر معلوم کر لیتا ہے- لیکن  یہ معمہ مجھے آج تک سمجھ میں نہ آیا- میرے باپ نے جواباً صرف ہاں کہا- ایسا لگ رہا تھا کہ کوئ عدالت سجی ہے اور ہم مجرم کی طرح ایک جج کے سامنے کھڑے ہیں اور فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں- وہ دوبارہ اپنی کرخت دار آواز میں بولا تو پھر کیا بولنے آئے ہو- ایسا لگ رہا تھا کہ اسے میری بغاوت کا بھی پتہ چل گیا ہے لیکن وہ ہم سے سننا چاہتا ہے- کچھ نہیں باپ نے دبی دبی آواز میں کہا- تو پھر یہاں کیوں آئے ہو- وہ چیخا- کچھ نہیں مالک، صرف یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کی آواز درمیان میں ہی دبی رہ گئ-

مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں نے باپ کا جملہ پورا کیا ،صرف یہ کہ اس سال ہم آپ کو دو تہائ حصہ نہیں دے سکتے-” کیا وہ گرجا اور اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا ——– اچھا تو چیونٹی کو پر نکل آئے ہیں، یہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کا چھوکرا میرے سامنے زبان کھول رہا ہے-

رحیم دین تم اپنے اس بیٹے کو سمجھا دو- یہ اس گاؤں کی رسم و ریت ہے اگر دو تہائ حصہ نہیں دینا ہے تو یہ گاؤں چھوڑ کر چلے جاؤ، یہ زمیں یہیں رہے گی، تم جہاں چاہے جا سکتے ہو” – کیا یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا، میں نے کہا، کھیت ہمارا ہے ہم صبح سے شام تک اس پر محنت کرتے ہیں اور اس کا پھل کوئ اور کھائے، یہ سب کچھ اب تک ہوتا رہا لیکن اب نہیں ہو گا-

زمیندار چیخا اگر تم کو اپنی زندگی عزیز ہے تو اب اور ایک لفظ بھی نہ بولنا اور یہاں سے دفع ہو جاؤ-

باپ اور میں عدالت کا فیصلہ سن کر واپس لوٹ آئے – باپ نے میری ماں سے کہا کہ اس کو سمجھاؤ ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا- یہ سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے جھگڑ رہا ہے-

دوسرے دن زمیندار کے ایک شخص نے آ کر ہمیں بتایا کہ زمیندار نے چار دن کی مہلت دی ہے اگر اس کا دو تہائ حصہ نہ پہنچا تو وہ زبردستی پوری فصل پر قابض ہو جائے گا-

ہمارے گھر میں تو جیسے طوفان آ چکا تھا کہ نہ جانے اب کیا ہو گا، ان چار دنوں میں ایک دن میرا باپ چپکے سے زمیندار کے پاس گیا اور اس سے معافی مانگی اور بتایا کہ یہ سب کچھ میرا کیا دھرا ہے اور وہ دو تہائ حصہ دینے کے لئے بالکل تیار ہے اور یہ بھی کہ میں یہ مان نہیں رہا ہوں- لیکن زمیندار نے میرے باپ سے کہا کہ اسے منانا آتا ہے وہ سب کچھ اس پر چھوڑ دے-

اسی لئے آج باپ مجھ سے گڑگڑا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ جوان ہوتی بہن کا واسطہ دے رہا تھا کہ میں گھر چھوڑ کر خالو کے پاس  دوسرے چک نمبر 70 میں چلا جاؤں- چک نمبر 70 ہمارے گاؤں سے صرف 75 کلومیٹر دور ہی تھا- جب بہن کی بات آئ تو پھر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا اور میں باپ کی خواہش پر راتوں رات خالو کے گھر منتقل ہو گیا-

خالو کے گھر آئے ہوئے ابھی چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ کئ مسلح افراد نے خالو کے گھر کو گھیر لیا اور میرا نام لے کر للکارا کہ میں باہر آؤں- خالو کی حالت بھی دیکھنے کے قابل تھی سو ہنگاموں اور بلوں سے بچنے کے لئے میں نے فورا ہی خود کو ان غنڈوں کے حوالے کر دیا- انھوں نے مجھے بہت مارا پیٹا اور گاڑی میں ڈال کر نہ جانے کہاں لے گئے-

اندھیری کوٹھری میں دوسرے دن کچھ روشنی آئ تو میں سمجھا کہ شائد مجھے کوئ بچانے کے لئے آیا ہے لیکن یہ وہی غنڈے تھے جو مجھے اٹھا کر لائے تھے اور انھوں نے مجھے پھر مارنا شروع کر دیا- اتنا مارا کہ میں بےہوش ہو گیا اور وہ یہ سمجھے کے میں مر گیا ہوں- مجھے مردہ جان کر وہ ایک نہر کے کنارے چھوڑ کر بھاگ گئے- مجھے نہیں معلوم کہ میرے باپ کو کیسے خبر ہوئ کہ میں کہیں پڑا ہوا ہوں-

اس نے مجھے وہاں سے قریبی بڑے شہر منڈی بہاؤالدین کے اسپتال میں داخل کر دیا- مجھے نہیں معلوم کہ نہ جانے اس نے کہاں سے اتنی بڑی رقم اکٹھے کی اور مجھے ایک ایجینٹ کے حوالے کر دیا کہ یہ مجھے باہر ملک لے جائے گا-

ایجنٹ نے ایک پاسپورٹ میرے حوالے کیا اور میں اس جعلی پاسپورٹ پر اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا- کبھی ہوائ جہاز کا سفر کیا تو کبھی پیدل، تو کبھی ٹرک پر، مہینوں کسی جھونپڑی میں دو وقت کی روٹی کے ساتھ سردی میں گزارتا رہا اور پھر ایک دن اچانک ٹرک سے یہ کہہ کر اتار دیا کہ جاؤ تم جرمنی آ گئے ہو اب یہاں سیاسی پناہ کے لئے درخواست دے دو-

جس روڈ پر اس نے مجھے اتارا تھا وہیں پر کوئ ہندوستانی میرا انتظار کر رہا تھا اور اس نے پھر مجھے اس دفتر پہنچا دیا جہاں مجھے درخواست دینی تھی-

میں نے اپنی داستان جو بالکل سچ تھی وہاں سنا  دی- لیکن ایک سال کے طویل عرصے کے  بعد  میری درخواست خارج کر دی گئ یہ کہہ کر کہ ایسا کوئ ثبوت نہیں ملا ہے- اس سے پہلے بھی  لوگوں نے یہاں جھوٹ بول کر اسی طرح کی کہانی سنائ تھی اور یہ سب کچھ ایسا نہیں ہے ، کوئ کاغذی ثبوت نہ ہونے اور سیاسی طور پر کسی قسم کی مشکلات نہ ہونے کی بناء پر میرا  کیس خارج ہو گیا-

ایک سال سے مجھے انہوں نے ایک وقتی ویزہ دیا ہے، میں صرف اس وقت تک رہ سکتا ہوں جب تک کہ میرے کاغذات نہ تیار ہو جائیں- ایک سال اسی طرح اور گزر گئے ہیں اور ابھی تک کاغذات مکمل نہیں ہوئے ہیں- دو سال   کا طویل عرصہ جرمنی میں اور ایک سال تقریباً سفر میں۔۔۔۔۔میرے تین سال ضائع ہو گئے اور نہ جانے ابھی زندگی کے اور کتنے سال یوں ہی برباد ہو جائیں گے-  مجھے ابھی تک نہیں پتہ کہ میں کہاں رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ کیا کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاش میری طبعیت میں یہ انقلابی اور اپنے جاری سسٹم سے بغاوت کرنے والی خاصیت نہ ہوتی تو میں اپنی زندگی کے تین سال برباد کرنے کے بجائے آج اپنی فصل کا صرف 3/2  دو تہائ حصہ دیکر وہیں روکھی سوکھی روٹی سب کے ساتھ کھا رہا ہوتا۔۔۔۔

٭٭٭

پوسٹر والا

 

 

وہ بڑی محنت سے الیکشن کے پوسٹر، پوسٹر لگانے کی بنی ہوئ جگہوں پر لگا رہا تھا۔ یہ ایک”  ڈی پی او” پارٹی کا پوسٹر تھا، جس میں اس پارٹی کے مشہور لیڈر کی بڑی سی تصویر نظر آ رہی تھی اور پوسٹر کے اوپر جعلی حروف میں لکھا تھا” نوکری ہر کسی کے لئے”۔ ابھی وہ گوند سے بھرا برش پوسٹر پر پھیر ہی رہا تھا کہ اچانک ایک شخص اس کے قریب آیا اور بہت زور سے چیخنے چلانے لگا۔

” تم کو شرم نہیں آتی اس پارٹی  ڈی پی او کا پوسٹر لگا رہے ہو، جو ایک چھوٹی پارٹی ہونے کے باوجود اتنی مالدار پارٹی ہے اور اس کے وعدے صرف کھوکھلے ہوتے ہیں”۔

وہ شخص بہت ہی غصے میں لگ رہا تھا۔ چیخنے چلانے کے ساتھ ساتھ وہ ہاتھ پاؤں کا بھی استعمال کر رہا تھا تا کہ کسی طرح سے پوسٹر کو نقصان پہنچا سکے۔

” ارے ارے آپ یہ کیا کر رہے ہیں”۔ پوسٹر چپکانے والے نے اسے روکنا چاہا۔

لیکن وہ تو جیسے کسی لاوا کے مانند پھٹ چکا تھا۔ ” ارے ارے یہ پارٹی، مجھے سخت نفرت ہے اس پارٹی سے، اس پارٹی کے لوگوں سے ،  یہ صرف وعدے کرتے ہیں، اب انکو کتنا آزمایا جائے گا”۔

ارے آپ ذرا شانت رہیں، ذرا تو چپ ہو جائیں”۔ پوسٹر والا پھر اس شخص سے مخاطب ہوا۔ ” دیکھیں یہ میری جاب ہے، میری نوکری، ادھر دیکھیں، میرے پاس تو اور بہت ساری دوسری پارٹیوں کے بھی بینر، پوسٹر ہیں، پوسٹر چپکانا میرا کام ہے "۔

یہ سن کر وہ شخص کچھ شانت ہوا، لگ رہا تھا کہ کچھ کچھ اسے سمجھ آ رہا ہے۔

” اچھا اچھا! لیکن تم اس پارٹی کا پوسٹر لگانے سے منع بھی تو کر سکتے ہو”۔ غصہ ابھی تک موجود تھا۔

پوسٹر والے نے کہا ”  او بھائیجان! آپ غصہ تھوک دیں "، اور سامنے پڑے بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ وہاں بیٹھیں، میں ذرا یہ پوسٹر  لگا لوں تو پھر آپ سے بات کرتا ہوں”۔

دوسرا شخص غصے کو جیسے کے نگل رہا ہو اور پوسٹر والے شخص کے صبر سے شاید متاثر ہو رہا تھا اسی لیے چپکے سے وہاں سے ہٹ کر بینچ پر بیٹھ گیا۔

پانچ منٹ ہی لگے ہوں گے اس  شخص کو پوسٹر کے تمام کونوں کو چپکانے میں۔ اس کے بعد وہ بھی آ کر اس شخص کے برابر میں اسی بینچ پر بیٹھ گیا۔  ” ہاں اب بتائیں کہ آپ مجھ پر کیوں ناراض ہو رہے تھے۔ دیکھیں یہ تو میرا کام ہے، اس نے بڑی محبت سے اس دوسرے شخص کو کہا کہ دوسرا شخص بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور کہنے لگا ” بھائ میں شرمندہ ہوں بس اچانک سے مجھے غصہ آ گیا تھا۔ مجھے معاف کرنا "۔

” کوئ بات نہیں "۔ پوسٹر والے نے جواباً کہا ” سچ پوچھیں تو یہ پارٹی مجھے بھی پسند نہیں ہے”۔

” اچھا” دوسرے شخص کو اچانک سے جیسے ایک جھٹکا سا لگا ہو۔

” ہاں اس پارٹی کو کون نہیں جانتا، لیکن کیا کیا جائے، ملک کی تیسری بڑی پارٹی کہلاتی ہے اور اس کو ووٹ ڈالنے والے بھی بہت ہیں”۔۔۔۔

” ہاں اسی کا تو رونا ہے، نہ جانے ہماری بھولی عوام کو کب عقل آئے گی”۔ دوسرے    شخص نے بہت ہی جذباتی انداز میں اپنا موقف بیان کیا۔

"ہاں بات تمھاری ٹھیک ہے "۔ پوسٹر والے شخص نے کہا۔ ” اب دیکھو دن بھر پوسٹر لگاتا ہوں تب جا کر کچھ روپے کما پاتا ہوں، سوچو ذرا ایک ایک پوسٹر چھپوانے میں پارٹی ملین ملین  تو خرچ کرتی ہو گی، لیکن لگانے والوں کو کتنے کم پیسے دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔”    اسکی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئ تھی کہ دوسرا شخص  بول پڑا

” ہاں دیکھو تو نعرہ لگاتے ہیں نوکری ہر کسی کے لئے، لیکن یہاں نوکری ملتی ہی کب ہے اور جب ملتی ہے تو پھر تمھاری طرح اتنے کم آمدنی کی۔۔۔ اب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالے؟؟

” ہاں بھائ!! پوسٹر والے نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔ یہ سارے نعرے صرف الیکشن کے وقت لگائے جاتے ہیں، الیکشن جیتنے کے بعد کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا نعرہ اسکی پارٹی نے لگایا تھا۔”

” بس یہی تو بات ہے جس سے مجھے اس پارٹی کا پوسٹر دیکھ کر غصہ  آ گیا تھا "۔ دوسرے شخص نے جواباً کہا، ” میں بتا رہا ہوں تم کو یہ اس مرتبہ بھی جھوٹے وعدے کر رہے ہیں اور عوام کو بےوقوف بنا رہے ہیں”۔   اچانک سے اس شخص کا لہجہ پھر گرم ہو رہا تھا، غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اسکی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔

” کیا کروں” ! اس نے پھر سے بولنا شروع کیا ” میرا تو خون جلتا ہے ان پارٹی والوں سے، سب کے سب  ایک جیسے ہیں، نہ عوام کی تکلیف کا ہوش نہ ملک سے محبت”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانے وہ غصے میں کیا کیا بڑبڑانے لگا تھا۔

پوسٹر والا شخص بینچ سے اٹھا اور اس شخص سے کہنے لگا۔ ” اگر ہم لوگ یہاں بیٹھ کر اسی طرح اپنے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہیں گے تو آج سو روپے بھی نہیں بن پائیں گے۔ پتہ ہے ابھی مجھے بہت سارے پوسٹر لگانے ہیں اور پورے نہ لگا سکا تو وہ گنتی کریں گے اور پیسے پورے نہیں دیں گے۔۔۔”

” اوہو یہ بھی مصیبت ہے !  ہاں بھائ  !! اچھا تو تم اب کام کرو، میں چلتا ہوں، میں تو پینشن والا آدمی ہوں، وقت ہی وقت ہے، بس اسی لئے زیادہ  اس آگ میں جلتا ہوں، اچھا خدا حافظ”۔ یہ کہتے ہوئے وہ شخص اپنی راہ کو نکل پڑا۔

پورے پوسٹر لگانے کے بعد تھک ہار کر پوسٹر والا شخص گھر پہنچا۔  نہا دھوکر اس نے شام کا کھانا کھایا۔ کھانے پر اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ آج کیا ہوا اس کے ساتھ۔۔۔   بستر پر جا کر بھی وہ اس شخص کا خیال دل سے نہ نکال سکا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس شخص نے بات تو بہت پتہ کی کہی تھی کہ کم از کم میں اس پارٹی کا پوسٹر لگانے سے انکار تو کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اس کو کچھ سمجھ  نہیں آ رہا تھا۔ اسکی نوکری کا معاملہ ہے۔ ویسے بھی الیکشن کے دنوں میں ہی تو اسے یہ اضافی کمائ کا موقع ملتا ہے، اگر یہ نہ کرے گا وہ تو پھر کلرکی کی جاب میں کیسے گزار کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہنگائ آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بجلی کے نرخ بڑھ چکے ہیں، پانی مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔۔۔  ـ بچوں کی فیس بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔  رشتے داروں کے توقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ہی پریشانی میں، کروٹ بدلتے ، اسے  جانے کب نیند نے آ گھیرا۔

صبح ہوئ تو اسکی حالت کچھ بوجھل سی تھی۔ اسکی بیوی نے پوچھا کہ کیا وہ آج پوسٹر لگانے نہیں جائے گا؟  دفتر سے اس نے مہینے بھر کی چھٹی لی ہوئ تھی  اور اس چھٹی میں وہ پوسٹر لگانے کا کام کر رہا تھا۔۔۔۔ "نہیں آج میں نہیں جاؤں گا۔ اس نے تھکی تھکی آواز میں جواب دیا۔ ”       کیا! اسکی  بیوی  حیرت  سے اس کا منہ دیکھ رہی تھی اور پھر بولنے لگی "تم کل کی بات کو بھولے نہیں  شاید۔ پتہ نہیں کس کی باتوں میں آ گئے ہو۔ اپنے گھر کے حالات دیکھو اور  اپنی مالی حالت،  یہ کام نہ کرو گے تو اضافی کمائ کہاں سے ہو گی اور پھر بچوں کے بہتر مستقبل کا بھی تو  سوچو۔ ”

پوسٹر والے شخص کی حالت بہت عجیب سی ہو رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے کیا نہ کرے۔ پھر وہ اٹھا، پوسٹر کے تھیلے اٹھائے اور اپنی بیوی کو خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکل پڑا۔۔۔ تھکے تھکے قدموں سے وہ اسطرح جا رہا تھا جیسے کہ وہ یہ قدم سخت مجبوری میں اٹھا رہا ہے۔

ایک مہینے کے بعد الیکشن ہوئے اور پی ڈی او پھر سے ایک تیسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئ۔ اس مرتبہ اس پارٹی کو اور بھی زیادہ ووٹ ملے تھے۔ پوسٹر والے کو رہ رہ کر آج پھر وہی شخص یاد آ رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا آخر پھر عوام بے وقوف بن گئ، یہ بدھو عوام!! کیا ہو گا ان کا، ہر بار یہ پارٹی والے نئے نعرے لگا کر نئے طریقے سے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور یہ عوام پھر سے انکے کھوکھلے نعروں، وعدوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چار سال گزر چکے ہیں، ملک میں بہت ساری نئ نئ پارٹی منظر عام پر آ چکی ہیں اور وہ پوسٹر والا ایک بار پھر بڑی امیدوں اور بڑے انہماک سے پوسٹر کو لگاتا ہوا محبت سے اسطرح ہاتھ پھیر رہا تھا جیسے کوئ عاشق اپنے محبوبہ کے گالوں کو سہلا رہا ہو۔

٭٭٭

ماخذ:

عالمی اخبار

اور

آن لائن اردو ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید