فہرست مضامین
سمرقند
امین مالوف
ترجمہ: محمد عمر میمن
پیش لفظ
بحرِ اوقیانوس کی تہ میں ایک کتاب ہے۔ میں آپ کو اس کی سرگزشت سنانے والا ہوں۔
آپ کو شاید کہانی کے انجام کا علم ہے۔ معاصر اخباروں نے اس کی بابت لکھا تھا، جس طرح دوسروں نے بعد میں۔ جب 14 اپریل 1921 کی شب ٹائٹینک نئی دنیا کے ساحل سے تھوڑے فاصلے پر غرق ہوا، تو اس کا سب سے بلند مرتبت شکار ایک کتاب تھی، عمر خیّام، دانائے ایرانی، شاعر اور عالمِ ہیئت کی رباعیات کا اکلوتا نسخہ۔
میں جہاز کی تباہی کے ذکر پر طولِ کلام نہیں کروں گا۔ دوسروں نے پہلے ہی ڈالروں میں اس کی قیمت کا تخمینہ لگا دیا ہے، مرنے والوں کی فہرست بنا دی ہے اور لوگوں کے آخری الفاظ قلم بند کر دیے ہیں۔ اس واقعے کے چھ سال گزرنے کے بعد بھی گوشت و سیاہی کی اس شے کا خیال جس کا میں نا اہل نگہبان تھا ہنوز مجھ پر مسلّط ہے۔ کیا یہ میں، بینجامن او۔ لیسیج، ہی نہیں تھا جس نے اس کو اس کی ایشیائی زاد بوم سے اُچک لیا تھا؟ کیا یہ میرے سامان میں نہیں تھی کہ اسے ٹائٹینک پر سفر کے لیے نکلنا پڑا؟ اور کیا اس کے زمانوں کے سفر میں میری صدی کی نخوت پسندی نے دخل اندازی نہیں کی تھی؟
اس وقت سے دنیا روز بہ روز لہو اور اداس اندھیروں میں اور زیادہ ڈوبتی جا رہی ہے، اور زندگی نے مجھ پر مسکرانا چھوڑ دیا ہے۔ مجھے خود کو لوگوں سے دور کرنا پڑا ہے تاکہ اپنی یاد کی آواز کو سن سکوں، ایک سادہ لوح امید اور ضدّی وہم کی پرورش کر سکوں کہ کل یہ قلمی نسخہ مل جائے گا۔ اپنے زرّیں بکسے میں مامون، یہ سمندر کی تاریک گہرائیوں سے صحیح سلامت برآمد ہو گا، اس حال میں کہ اس کی قسمت ایک نئے جوکھوں بھرے طویل سفر سے مالا مال ہو چکی ہو گی۔ لوگ اسے اپنی انگلیوں سے الٹ پلٹ سکیں گے، اسے کھول سکیں گے اور اس میں خود کو گم۔ مقیّد آنکھیں اس کی مہمات کے وقائع کا حاشیہ حاشیہ تعاقب کریں گی، وہ شاعر کو دریافت کریں گی، اس کے اولین کلام، اس کی اولین مد ہوشیوں کے دورے اور اس کے اولین خوفوں کو، اور فرقۂ حشّاشین۔ پھر وہ ایک تصویر پر آ کر رک جائیں گی، متأمل، جو ریت اور زمرّد کے رنگ کی ہے۔
اس پر نہ تاریخ پڑی ہے نہ کسی کے دستخط ہی ہیں، کچھ بھی تو نہیں، سواے ان لفظوں کے جو پُر جوش بھی ہو سکتے ہیں یا مایوسانہ: "سمرقند، حسین ترین چہرہ جو زمین نے کبھی سورج کو دکھایا ہو۔ ”
پہلی کتاب
شعراء اور عشّاق
ناکردہ گناہ در جہان کیست بگو
وآنکس کہ گنہ نکرد چون زیست بگو
من بَد کنم و تو بَد مکافات بدہی
پس فرق میانِ من و تو چیست بگو
عمر خیّام
باب ۱
کبھی کبھار سمرقند میں، ایک سست رو اور بے کیف دن کی شام، اہالیان شہر وقت گزاری کے لیے دو میخانوں والی سڑک کے آخر پر آ نکلتے جہاں مرچ بازار کے قریب آ کر راستہ ختم ہو جاتا تھا۔ وہ یہاں سُغد کی شراب کا ذائقہ چکھنے کے لیے نہیں آتے تھے جس سے مشک کی مہک اٹھتی تھی، بلکہ آمد و رفت کا نظارہ کرنے یا کسی بدمست کی گھات میں، جسے زمین پر پٹخا جاتا، خوب ذلیل کیا جاتا، اور ایسے جہنّم بھیجنے کی بد دعا دی جاتی جس کی آتش، دنیا کے ختم تک، شراب کی ترغیبات کی گلگونی کی یاد دلاتی رہے۔
1027کی گرمیوں میں ایسے ہی کسی واقعے سے "رباعیات”کا مخطوطہ معرضِ وجود میں آنے والا تھا۔ عمر خیام چوبیس سال کا تھا اور حال ہی میں سمرقند میں وارد ہوا تھا۔ کیا اُس شام وہ میخانے کا قصد کرے یا آرام آرام سے مٹر گشت؟ ڈھلتے دن کے ہزار تماشوں کی ہم راہی میں اس نے ایک نادیدہ شہر میں سڑکیں ناپنے کے شیریں لطف و نشاط کا انتخاب کیا۔ ریوندِ چینی کے کھیتوں والی سڑک پر ایک چھوٹا سا لڑکا بڑی تیزی سے اس کے پاس سے گزر گیا۔ وہ چوڑی سِلوں سے پٹے راستے پر ننگے، دبے پاؤں ایک سیب مضبوطی کے ساتھ گردن سے چپکائے ہوئے تھا جو اس نے کسی خوانچے سے اُچک لیا تھا۔ پارچہ فروشوں کے بازار میں، ایک ذرا اونچے سے دکانچے پر، نرد بازوں کی ایک ٹولی روغنی مشعل کی روشنی میں بیٹھی اپنی بحثا بحثی میں لگی رہی۔ دو پانسے اچھلے، جس کے بعد لعنت ملامت، اور پھر دبی دبی سی ہنسی۔ ریسمان سازوں کے مسقّف راستے پر، ایک خچّر بان ایک فوارے کے پاس آ کر رک گیا، ٹھنڈے پانی کو اپنی اوک میں گرنے دیا، پھر جھکا، ہونٹ یوں باہر کو نکلے ہوئے جیسے کسی محوِ خواب بچّے کی پیشانی کو چومنے کو ہوں۔ پیاس بجھا کر اس نے اپنی گیلی ہتھیلیاں چہرے پر پھرائیں اور بڑ بڑا کر خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر وہ ایک جوف دار تربوز لے کر آیا، اسے پانی سے بھرا اور اپنے جانور کے پاس لے گیا تاکہ پانی پینے کے لیے اس کی باری بھی آ جائے۔
پکے پکائے کھانوں کے بازار کے چوک میں ایک پندرہ سالہ لڑکی نے جو امید سے تھی اور جس کی نقاب الٹی ہوئی تھی خیام کو مخاطب کیا۔ اپنے بھولے بھالے چہرے پر مسکراہٹ لائے یا ایک لفظ کہے بغیر اس نے اس کے ہاتھوں سے چند سِکی ہوئی بادامیں چپکے سے کھسکا دیں جو اس نے ابھی ابھی خریدی تھیں، لیکن سیر کرنے والے کو اس پر تعجب نہیں ہوا۔ سمرقند میں یہ قدیم عقیدہ ہے کہ جب کسی ہونے والی ماں کی کسی من بھاؤنے اجنبی سے سڑک پر مڈ بھیڑ ہوتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کے کھانے میں شریک ہو تاکہ بچّہ اتنا ہی خوش شکل نکلے، اس کا پہلو کا رخ بھی اتنا ہی نازک اندام ہو، اس کے خط و خال بھی اتنے ہے نجیب اور ہموار ہوں۔
عمر وہیں لٹکا رہا، فخر سے بقیہ بادامیں چباتے ہوئے اس ناشناسا عورت کو دور جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اچانک کسی آواز نے اسے وہاں سے جلدی کرنے کی تحریک دلائی۔ جلد ہی وہ ایک بے قابو ہجوم کے بیچوں بیچ میں تھا۔ ایک پیرِ فرتوت، جس کے لمبے لمبے استخوانی اعضا تھے، پہلے سے زمین پر چت پڑا ہوا تھا۔ اس کا سر ننگا تھا اور بس اس کی دھوپ سے سنولائی ہوئی چندیا پر گنے چنے سفید بال منتشر تھے۔ طیش اور خوف کی جو چیخیں اس کے منھ سے نکل رہی تھیں ان کی حیثیت ایک لمبی سسکی سے زیادہ نہ تھی اور اس کی آنکھوں نے نووارد کو بڑی عاجزی سے دیکھا۔
اُس بد قسمت کے چاروں طرف بیسیوں باریش بڑے انتقامی انداز میں اپنی جریبیں لہرا رہے تھے، اور کچھ فاصلے پر ایک اور ٹولی بڑے جوش و خروش سے اس منظر کو دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے خیام کے چہرے پر خوف و ہراس کا تأثر دیکھ کر اسے تسلّی دی، "پریشان مت ہو۔ یہ تو بس جابرِ لاغر ہے !” عمر ٹھٹھکا اور ندامت کی ایک لہر اس کے جسم میں سنسنا گئی۔ "جابر، ابو علی کا رفیق!” وہ بڑبڑایا۔
یوں تو ابو علی ناموں میں کا بے حد عام سا نام تھا، لیکن جب بخارا، قرطبہ، بلخ یا بغداد میں کوئی صاحبِ علم و فضل اسے اتنے مانوس لحاظ اور پاسِ ادب کے لہجے میں ادا کرتا، تو اس کے مشار الیہ کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ یہ ابو علی ابن سینا تھا، جو مغرب میں Avicenna کے نام سے مشہور تھا۔ عمر کی اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، کیونکہ وہ اس کی پیدائش سے گیارہ سال پہلے ہی راہی ملکِ عدم ہو چکا تھا، تاہم وہ اس کی اپنی نسل کے بلا حجت استادِ گرامی، صاحبِ علم، عَلم بردارِ عقل و منطق ہونے کی حیثیت سے تکریم کرتا تھا۔
خیام پھر بڑبڑایا، "جابر، ابو علی کا منظورِ نظر چیلا!” اگرچہ وہ اسے پہلی ہی بار دیکھ رہا تھا، اسے اس رقّت آمیز اور عبرت انگیز عقوبت کا علم تھا جو اس پر عائد کی گئی تھی۔ ابو سینا نے جلد ہی طب اور مابعد الطبیعیات کے دائروں میں اسے اپنا جانشین تصور کر لیا تھا، اس نے اس کی قدرتِ استدلال کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا تھا اور صرف اس بات پر اس کی سرزنش کی تھی کہ وہ اپنے نظریات کی تشریح کے انداز میں ذرا زیادہ ہی خود بیں اور بد لحاظ واقع ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں جابر کو کئی بار حوالات کی سیر کرنی پڑی تھی اور تین بار عوام الناس کی زد و کوب کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا، جس میں کی آخری سمرقند کے بڑے چوک میں واقع ہوئی جہاں اسے اپنے اہلِ خانہ کے سامنے ڈیڑھ سو کوڑے لگائے گئے۔ اس شرمساری سے وہ کبھی جانبر نہ ہو سکا۔ وہ ٹھیک کس لمحے کنارے سے لڑھک کر پاگل پن کی حد میں جا گرا تھا؟ بیشک اپنی بیوی کی وفات پر۔ اسے اِدھر اُدھر چیتھڑوں میں ڈگمگاتے دیکھا جا سکتا تھا، چیختے چلاتے ہوئے، بے ادبی سے اول فول بکتے ہوئے۔ بچوں کے غول اس کا پیچھا کرتے چلے آتے، تالیاں بجاتے اور اس پر سنگ برساتے، حتیٰ کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتیں۔
اس منظر کو دیکھتے ہوئے عمر یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا، "اگر میں نے احتیاط سے کام نہیں لیا، تو میرا بھی یہی حشر ہو سکتا ہے۔ ” یہ بات نہیں تھی کہ اسے مد ہوشی کا خوف تھا، کیونکہ وہ اور شراب ایک دوسرے کا پاس رکھنا سیکھ چکے تھے، اور ایک، دوسرے کو کبھی بھی سبک سر کرنے والا نہیں تھا۔ اسے خوف تھا تو اس بات کا کہ کہیں مجمع اس کے ناموس کی دیوار کو نہ ڈھا دے۔ اس آبرو باختہ آدمی کی حالت نے اسے کچھ زیادہ ہی ہراساں کر دیا اور اسے اس سے گریز کی خواہش محسوس ہوئی۔ اس کے باوجود اسے یہ احساس بھی تھا کہ وہ ابن سینا کے رفیق کو یوں مجمعے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتا۔ اس نے تین با وقار قدم اٹھائے، غیر جانبدارانہ انداز اختیار کیا اور شاہانہ اشارے کے ساتھ مستحکم آواز میں کہا۔
"اس غریب کی جان چھوڑو۔ ”
ٹولی کا سرغنہ جو جابر پر جھکا ہوا تھا، دخل اندازی کرنے والے کے پاس آیا اور سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی داڑھی کے سر تا سر، دائیں کان سے لے کر ٹھوڑی کی نوک تک، ایک گہرے زخم کا نشان پڑا تھا، اور یہ شکن آلود نیم رخ تھا جو اس نے عمر کے آگے بڑھاتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا، "یہ آدمی شرابی ہے، ایک کافر، ” پھر آخری لفظ کسی کوسنے کی طرح سسیاتے ہوئے ادا کیا، "ایک فیلَسوف!”
"سمرقند میں ہمیں فیلَسوف نہیں چاہئیں !”
بھیڑ سے تائید کی بڑبڑاہٹ ابھری۔ ان لوگوں کے نزدیک "فلسفی” کی اصطلاح ہر اس چیز پر دلالت کرتی تھی جو یونانی ملحدانہ علوم سے قریبی تعلق رکھتی ہو، اور اس سے بھی زیادہ ہر وہ چیز جو نہ دین ہو نہ ادب۔ اپنی کم عمری کے باوجود خیام پہلے ہی سے ایک نامی گرامی فیلَسوف تھا اور یوں دیکھا جائے تو بے چارے جابر کے مقابلے میں کہیں زیادہ شکار کے قابل۔
زخم رسیدہ آدمی نے یقیناً اسے نہیں پہچانا تھا، کیونکہ وہ دوبارہ جابر کی طرف متوجہ ہو گیا جس کی زبان ہنوز گنگ تھی۔ اس نے اسے بالوں سے پکڑ لیا، سر کو تین چار جھٹکے دیے یوں جیسے کسی قریبی دیوار سے مار کر پاش پاش کر دینے کو ہو، لیکن پھر اچانک اسے چھوڑ دیا۔ اگرچہ سفّاک، یہ پھر بھی خود پر قابو رکھنے کی ایک وضع تھی، جیسے کہ یہ شخص اپنے عزم کا مظاہرہ کرنے کے باوجود ارتکابِ قتل سے ہچکچا رہا ہو۔ خیام نے دوبارہ مداخلت کے لیے اس لمحے کا انتخاب کیا۔
"اس بڈھے کی جان چھوڑو۔ یہ رنڈوا ہے۔ بیمار ہے —ایک دیوانہ۔ نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے لبوں کو جنبش تک دینے سے عاجز ہے۔ ”
ٹولی کا سرغنہ اچھل کر خیام کی طرف آیا، اور اس کی داڑھی میں انگلی گھسیڑ دی۔
"لگتا ہے تم اسے خوب جانتے ہو! ہاں تو جناب کی ذاتِ شریف؟ تم سمرقند کے تو نہیں ! اس شہر میں تمھیں کسی نے کبھی نہیں دیکھا!”
عمر نے حقارت کے ساتھ اس کا ہاتھ اپنے سے جھٹک دیا لیکن اب اتنی بے لختگی سے بھی نہیں کہ جس سے اسے لڑنے کا بہانہ مل جائے۔ آدمی ایک قدم پیچھے ہٹا پھر بھی اَڑا رہا، "تمھارا کیا نام ہے، اجنبی؟”
خیام نے خود کو انھیں سپرد کرنے میں تأمل کیا۔ اس نے بچ نکلنے کی کوئی ترکیب سوچی۔ اس نے آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں جہاں ہلکے سے بادل نے ابھی ابھی ماہِ ہلال کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ خاموش رہا، پھر ایک گہری سانس لی۔ اس نے خود کو غور و فکر میں غرق کرنے کی تمنا کی، اختر شماری کرنے کی، کہیں دور ہونے کی، بھیڑ بھاڑ سے محفوظ و مامون رہنے کی!
ٹولی نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور کچھ ہاتھ اس کے جسم سے چھُلنے بھی لگے تھے۔ وہ واپس اپنی دنیا میں آ گیا۔
"میں عمر ہوں، نیشاپور کے ابراہیم کا بیٹا۔ اور تم کون ہو؟”
سوال محض ایک رسم نبھانے کو کیا گیا تھا۔ اس آدمی کی خود کو متعارف کرانے کی کوئی نیّت نہیں تھی۔ وہ اپنے موطن میں تھا اور سوال وہی کر رہا تھا۔ بعد میں جا کر عمر کو اس کا نام معلوم ہونے والا تھا۔ یہ ایک طالب علم تھا اور "زخمی چہرہ” کے لقب سے مشہور تھا۔ ہاتھوں میں لاٹھی اور لبوں پر ایک قول لیے وہ جلد ہی پورے سمرقند میں خوف و ہراس کی تھراہٹ دوڑانے والا تھا لیکن فی الوقت اس کی دھاک کا دائرہ اپنے ارد گرد پھیلے نوجوانوں سے آگے نہیں بڑھا تھا جو اس کے ہر لفظ اور ہر اشارے پر آمنّا و صدقّنا کہتے تھے۔
یک بارگی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ اپنے چیلوں کی طرف لوٹا، اور پھر فتح مندی سے مجمعے کی طرف رخ کر کے چلایا، "یا اللہ، میں کیوں عمر ابن ابراہیم خیام نیشاپوری کو پہچاننے سے عاجز رہا؟ عمر، ستارۂ خراسان، نابغۂ فارس و عراق، امیرِ فلاسِفہ!”
جب وہ خوب جھک کر کورنش بجا لانے کی نقّالی کر رہا تھا، تو اس نے اپنی دستار کے دونوں جانب اپنی انگلیاں پھڑپھڑائیں اور ناظرین کو بے تحاشہ قہقہہ لگوانے میں کامیاب ہو گیا، "میں کیوں کر اس شخص کو پہچاننے میں ناکام رہا جس نے اتنی متقیانہ اور عبادت گزار رباعی کہی ہے:
ابریقِ مئے مرا شکستی ربّی
برمن درِ عیش را بہ بستی ربّی
بر خاک فگندی مئے گلگونِ مرا
خاکم بدہن، مگر تو مستی ربّی
عمر نے یہ سخت برہمی سے سنا اور فکرمند ہوا۔ یہ اشتعال انگیزی اسی جگہ قتل کا بہانہ بن سکتی ہے۔ بغیر ایک لمحہ ضائع کیے، اس نے بڑی بلند اور واضح آواز میں جواب دیا تاکہ کوئی اُس شخص کے جھانسے میں نہ آ جائے۔ ” میں اس رباعی کو نہیں پہچانتا۔ حقیقت میں پہلی بار اسے سن رہا ہوں۔ لیکن یہ رہی ایک رباعی جو میں نے خود کہی ہے:
نہ کچھ جانیں، نہ جاننا چاہیں
تہی از علم یہ جو دنیا پہ حکمرانی کریں
ان میں سے نہیں، تو کافر کہلاؤ
نظر انداز کرو، خیام، اپنی راہ لگو
"تہی از علم” کہتے وقت عمر کو واقعی اپنے حریفوں کی طرف استہزا سے اشارہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہاتھ اس کی طرف اٹھے، اس کی عبا کو کھسوٹا، جو پھٹنے لگی۔ وہ ڈگمگا گیا، اس کی کمر کسی کے گھٹنے سے ٹکرائی اور وہ سنگِ سڑک پر جا پڑا۔ جب وہ اس غولِ بیابانی کے نیچے کچلا پڑا تھا، اس نے نبرد آزما ہو کر گلو خلاصی مناسب خیال نہیں کی بلکہ چارو نا چار اپنے لباس کو جسم سے پھٹ جانے دیا، اعضا سے چندی چندی ہو جانے دیا، اور اب تو اس نے اپنے کو اس مفلوج کیفیت کے سپرد کر دیا تھا جو کسی قربانی کے جانور کی ہوتی ہے۔ اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا، کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ اپنے میں سمٹا سمٹایا پڑا تھا، اور برہنہ۔
یہاں تک کہ اس نے ان دس مسلّح آدمیوں کو جو اس قربانی کے مجمعے کو منتشر کرنے آئے تھے داخل اندازی کرنے والوں میں ہی گردانا۔ یہ سمرقند کے بلدی فوجی رضاکار(ملیشیا)تھے جن کی نمدے کی ٹوپیوں پر "احداث” کا شناختی نشان جَڑا ہوا تھا۔ اِنھیں دیکھتے ہی خیام پر حملہ کرنے والے پیچھے ہٹنے لگے، ساتھ ساتھ اپنے طرزِ عمل کو برحق دکھانے کی خاطر یہ بھی چلانے لگے "کیمیا گر! کیمیا گر!”، اور ہجوم سے اس کی شہادت چاہی۔
اربابِ اقتدار کی نگاہ میں فلسفی ہونا کوئی جرم نہیں تھا، لیکن کیمیا گری کی عملیات کا مطلب موت نکل سکتا تھا۔
خیر، پہرے کا سربراہ بحثا بحثی میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
"اگر یہ شخص واقعی کیمیا گر ہے، ” اس نے فیصلہ صادر کیا، "تو ضروری ہے کہ اسے قاضی القضاۃ ابو طاہر کے پاس لے جایا جائے۔ ”
جب جابرِ لاغر، جسے اس درمیان میں سب بھول بھال گئے تھے، قریب ترین میخانے کی طرف رینگنے لگا، اور بتدریج اندر داخل ہوا، اس عزم کے ساتھ کہ اب ہرگز کبھی باہر نہیں نکلے گا، عمر کسی کی مدد کے بغیر خود ہی لشٹم پشٹم کھڑا ہو گیا۔ وہ ناک کی سیدھ میں چلنے لگا، عالمِ سکوت میں۔ اس کے تار تار لباس اور اس کے خون آلود چہرے کو اس کے انداز کی برتری نے کسی حجاب کی طرح ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کے آگے آگے فوجی رضاکار مشعلیں اُٹھائے چل رہے تھے۔ دنبالے میں اس کے حملہ آور چلے آ رہے تھے، اور ان کے عقب میں منھ پھاڑ کر دیکھنے والوں کا ایک گروہ۔
عمر کو نہ وہ نظر آئے نہ سنائی دیے۔ جہاں تک اس کا تعلق تھا، راستے ویران پڑے تھے، ملک خاموش تھا، آسمان بے ابر، اور سمرقند ہنوز خوابوں کی وہ سرزمین تھاجسے اس نے چند سال پہلے دریافت کیا تھا۔
وہ یہاں تین ہفتوں کا سفر کر کے پہنچا تھا اور تھوڑا سا بھی آرام کیے بغیر گزرے وقتوں کے سیّاحوں کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر ڈالا تھا۔ قہندرز کے مرتفع پر جاؤ، انھوں نے صلاح دی تھی۔ اطراف و اکناف پر خوب اچھی نظر ڈالو اور تمھیں پانی اور سبزہ دکھائی دے گا، پھولوں کے قطعے، سرو جنھیں فنّان مالیوں نے بیلوں، فیلوں، جفا کش شتروں، یا جنگ آمدہ پلنگوں کے قالب میں تراشا ہو گاجو بالکل چھلانگ مارتے ہوئے لگتے ہوں۔ بیشک، اندرونِ فصیل، خانقاہ کے پھاٹک سے، مغرب اور بابِ صین تک، عمر نے کبھی اتنے گھنے باغات اور شفاف چشمے نہیں دیکھے تھے۔ پھر، جہاں تہاں، ایک مینارۂ خشت بلند ہو رہا تھا، اپنے گنبد کے ساتھ جسے سایے نے تراشا تھا، کسی سیر بین مہتابی کی دیوار کی سفیدی اور، ایک جھیل کے کنارے، جو اپنے بیدِ مجنوں کے سایوں میں جانے کن سوچوں میں غلطاں تھی، ایک ننگی پیراک جھلستی ہوئی ہوا میں اپنے بال پھیلائے ہوئے تھی۔
کیا یہ بہشت کا وہی منظر تو نہیں تھا جس کی، بہت بعد میں، "رباعیات” کے قلمی نسخے کو مصوّر کرنے کی کوشش کے وقت وہ گم نام مصور یاد آوری کرانا چاہتا تھا؟ کیا یہ سب وہی نہیں تھا جو اس وقت اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا، اس وقت جب اسے اسفزار کے علاقے لے جایا جا رہا تھا جہاں سمرقند کے قاضی القضاۃ ابو طاہر کی اقامت گاہ تھی؟ وہ بار بار اپنے سے یہی دہرا رہا تھا، "میں اس شہر سے نفرت نہیں کروں گا۔ چاہے میری وہ پیراک دوشیزہ ایک سراب ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے حقیقت سرد مہر اور زشت ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے یہ سرد رات میری آخری رات ہی کیوں نہ ہو۔ ”
باب ۲
قاضی کے طویل و عریض دیوان میں دور کے شمع دان خیام پر ایک عاج رنگ کی چھوٹ ڈال رہے تھے۔ ابھی وہ داخل ہوہی رہا تھا کہ دو ادھیڑ عمر کے پہرے داروں نے اسے کندھوں سے یوں جکڑ لیا جیسے وہ کوئی خونخوار پاگل ہو—اور اس حالت میں اسے دروازے کے پاس انتظار کرنا پڑا۔
قاضی جو کمرے کے دوسرے سرے پر بیٹھا ہوا تھا اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔ وہ کسی قضیے پر حکم سنا رہا تھا، مدعیان سے محوِ مناقشہ تھا، ایک سے استدلال اور دوسرے کی سرزنش۔ قرینے سے یہ دو ہمسایوں کے مابین کوئی پرانا جھگڑا لگ رہا تھا، فرسودہ و دیرینہ شکوے شکایات اور کٹ حجتی سے متعلق۔ ابو طاہر نے بڑے اعلانیہ طور پر اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کار روائی لپیٹ دی، دونوں خاندانوں کے سربرا ہوں کو گلے لگنے کا حکم دیا، وہیں ابھی ابھی اس کے سامنے، یوں جیسے وہ کبھی ایک دوسرے سے نہ جھگڑے ہوں۔ ان میں سے ایک نے قدم آگے بڑھایا لیکن دوسرے نے، جو ایک تنگ پیشانی والا لحیم شحیم آدمی تھا، مزاحمت کی۔ قاضی نے اس کے منھ پر زور کا تھپڑ مارا جس کے باعث حاضرین کانپنے لگے۔ لحیم شحیم نے اس گول مٹول، برہم، چلبلے آدمی پر ایک فوری نظر ڈالی جو اس تک پہنچنے کے لیے خود کو اوپر اٹھا رہا تھا، پھر اپنا چہرہ نیچے کیا، اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرا اور حکم بجا لایا۔
اس جماعت کو رخصت کر کے ابو طالب نے اپنے رضاکاروں کو قریب آنے کا اشارہ کیا۔ انھوں نے جلدی جلدی اپنی روداد پیش کی اور سوالوں کا جواب دیا، اور بتانا پڑا کہ انھوں نے اتنے بڑے مجمعے کو سڑک پر جمع ہونے ہی کیوں دیا۔ پھر زخمی چہرہ کی باری آئی کہ اپنا بیان دے۔ وہ قاضی کی طرف جھکا جو لگتا تھا جیسے ایک زمانے سے اس سے واقف ہو، اور بڑی جوشیلی خود کلامی شروع کر دی۔ ابو طاہر اپنے احساسات ظاہر کیے بغیر بڑے غور سے سنتا رہا۔ پھر، کچھ دیر غور کرنے کے بعد، حکم دیا، "مجمعے سے منتشر ہو جانے کے لیے کہو۔ ہر آدمی سے کہو کہ کوتاہ ترین راہ سے گھر واپس جائے اور، ” حملہ آوروں سے مخاطب ہو کر، "تم سب بھی گھر واپس جاؤ۔ کل سے پہلے کوئی فیصلہ نہیں ہو گا۔ مدعا علیہ رات یہیں ٹھہرے گا اور صرف میرے آدمی، کوئی دوسرا نہیں، اس کی رکھوالی کریں گے۔ ”
اس پر متعجب کہ اسے یوں چٹ پٹ رفو چکر ہو جانے کے لیے کہا جا رہا تھا، زخمی چہرہ نے مِن منا کر احتجاج کرنا چاہا لیکن پھر اصرار نہ کرنے ہی میں بہتری سمجھی۔ دانائی کے ساتھ اس نے اپنے لبادے کا پلّو سمیٹا اور احتراماً کمر جھکا کر الٹے قدم پلٹ گیا۔
جب ابو طاہر عمر کے ساتھ تنہا رہ گیا، شاہدین میں اس کے محرم و معتمد ہی باقی بچ رہے، تو اس نے خوش آمدید کا ایک پراسرا فقرہ ادا کیا، "مشہور و معروف عمر خیامِ نیشاپوری کا خیر مقدم کرنا میرے لے باعثِ صد احترام ہے۔ ”
اس کے فقرے سے کسی بھی جذبے کے شائبے کی غمازی بھی نہیں ہو رہی تھی۔ اس میں نہ طنز کی چبھن تھی نہ کوئی گرم جوشی۔ اس کا لہجہ بالکل غیر جانبدارانہ تھا اور آواز سپاٹ۔ وہ ایک لالہ شکل دستار پہنے ہوئے تھا، بھویں گنجان تھیں اور بے مونچھوں کی سفید داڑھی تھی، اور وہ خیام کو طویل، برماتی نظر سے دیکھ رہا تھا۔
سب سے زیادہ الجھن میں ڈالنے والی بات تو خیر مقدم تھا کیونکہ عمر وہاں ان چیتھڑوں میں کوئی گھنٹہ بھر سے کھڑا تھا، کہ سب دیکھ سکیں اور اس پر خندہ زن ہو سکیں۔
خاموشی کے کئی بڑی مہارت سے حساب لگائے ہوئے لمحوں کے بعد ابو طاہر نے یہ اضافہ کیا، "عمر، تم سمرقند میں نا آشنا نہیں ہو۔ کم عمری کے باوجود، تمھارے علم و فضل کے پہلے ہی یہاں چرچے ہیں، اور مدرسوں میں تمھارے گُن گائے جاتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کے تم نے اصفہان میں ابن سینا کا ایک ادق رسالہ سات بار پڑھا، اور نیشاپور لوٹنے پر حرف بہ حرف حافظے سے دہرا دیا؟”
خیام کو یہ بات بے حد باعثِ تسکینِ نفس معلوم ہوئی کہ وہ مستند کارنامہ لوگوں کو ماوراء النہر (طبرستان) معلوم تھا، لیکن اس کی فکروں میں ہنوز کوئی کمی نہیں ہوئی۔ شافعی مذہب کے قاضی کے منھ سے ابن سینا کا حوالہ کوئی بہت قابلِ اطمینان بات نہیں تھی، پھر یہ بھی کہ ہنوز اسے بیٹھنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ ابو طاہر نے کلام جاری رکھا "یہ صرف تمھارے کارنامے ہی نہیں جو زبان زدِ خاص و عام ہیں بلکہ چند عجیب و غریب رباعیاں بھی تم سے منسوب کی جا رہی ہیں۔ ”
فقرہ کسی جذبے سے عاری تھا۔ وہ اس پر تہمت نہیں دھر رہا تھا، لیکن وہ اسے بری الذمہ بھی قرار نہیں دے رہا تھا—وہ تو صرف و محض اس سے کنایتاً ایک سوال کر رہا تھا۔ عمر نے اپنی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔ "وہ رباعی جو زخمی چہرہ سنا رہا تھا میری رباعیوں میں سے نہیں۔ ”
قاضی نے اس احتجاج کو بے صبری سے رد کر دیا، اور پہلی بار اس کے لہجے میں سختی آ گئی۔ "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے تم نے یہ بیت کہا ہے یا وہ بیت۔ مجھے اتنے فحش شعروں کی خبر ملی ہے کہ میں انھیں سن کر خود کو اتنا ہی مجرم گردانوں گا جتنا وہ شخص جس نے انھیں شائع کیا ہے۔ میں تم پر کوئی سزا لاگو کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن یہ کیمیا گری کے اتہامات، تو انھیں ایک کان میں ڈال کر دوسرے کان سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ ہم اس وقت تنہا ہیں۔ ہم دو اصحابِ فضیلت ہیں اور میں صرف سچ کا طلب گار ہوں۔ ”
عمر کو اس سے بالکل بھی تسلّی نہیں ہوئی۔ اسے ایک دام کا احساس ہوا اور اس نے جواب دینے میں تأمل کیا۔ وہ اپنے کو بہ خوبی دیکھ سکتا تھا کہ جلّاد کے سپرد کیا جا رہا ہے، تاکہ ہاتھ پاؤں بریدہ کر دیے جائیں، آختہ کر دیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے۔ ابو طاہر نے آواز بلند کی اور تقریباً چلا کر کہا، "عمر، ولد ابراہیم، خیمہ سازِ نیشاپور، کیا تم ایک دوست کو پہچاننے سے عاجز ہو؟”
اس کے لہجے کے خلوص نے خیام کے اوسان خطا کر دیے۔ "ایک دوست کو پہچاننے سے ؟” اس نے موضوع پر خوب غور و خوض کیا، قاضی کے چہرے کا گہرا مشاہدہ کیا، اس انداز پر متوجہ ہوا جس میں وہ دانت باہر کیے ہنس رہا تھا اور اس کی داڑھی مرتعش تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے کو قائل ہو جانے دیا۔ اس کے چہرے کا تناؤ ڈھیلا پڑ گیا۔ اس نے خود کو پہرے داروں کی گرفت سے آزاد کیا جنھوں نے، قاضی کا اشارہ پا کر، اسے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر بغیر دعوت دیے وہ بیٹھ گیا۔ قاضی دوستانہ انداز میں مسکرایا لیکن کسی تاخیر کے بغیر پھر جرح شروع کر دی۔ "کیا تم وہ کافر ہو جس کا بعض لوگ تمھارے باب میں دعویٰ کرتے ہیں ؟”
یہ سوال سے زیادہ ہی کچھ تھا۔ یہ ابتلا کی وہ پکار تھی جسے عمر نظر انداز نہیں کر سکا۔ "مجھے پارساؤں کے جوش و خروش سے نفرت ہے، لیکن میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ’ایک، ‘ دو ہے۔ ”
"کیا کبھی ایسا سوچا ہے ؟”
"کبھی نہیں، اور خدا میرا شاہد ہے۔ ”
"جہاں تک میرا تعلق ہے، یہ میرے لیے کافی ہے، اور میرا خیال ہے کہ خالق کے لیے بھی۔ لیکن عوام الناس کے لیے بھلا کہاں۔ وہ تمھارے الفاظ پر نظر رکھتے ہیں، تمھاری ادنیٰ ترین حرکات پر—خود میرے افعال و حرکات پر بھی، امرا کے الفاظ اور اشاروں تک پر۔ تم یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہو، ’میں کبھی کبھی ایسی مسجدوں میں جاتا ہوں جہاں جھپکی لینے کے لیے چھاؤں اچھی ہوتی ہے۔ ‘ ”
"عبادت گاہ میں صرف وہی آدمی سو سکتا ہے جو اپنے خالق سے راضی خوشی ہو۔ ”
قاضی کی خشم گینی اور اس میں بھرے شک کے باوجود عمر جوش میں آ گیا اور اپنا بیان جاری رکھا، "میں ان میں سے نہیں جن کے لیے دین محض یوم الحساب کا خوف ہے۔ میری عبادت کا کیا ڈھنگ ہے ؟ میں ایک گلاب کا بہ نظرِ غائر مشاہدہ کرتا ہوں، میں اختر شماری کرتا ہوں، میں کائنات کے حسن پر تعجب کرتا ہوں اور اس پر کہ یہ کس قدر منظم ہے، انسان پر، جو خالق کی حسین ترین صنعت ہے، انسان کے دماغ پر جو علم کا پیاسا ہے، اس کے دل پر جو محبت کا بھوکا ہے، اس کے حواس پر، چاہے یہ بیدار ہوں یا آسودہ۔ ”
فکرمند آنکھوں کے ساتھ قاضی اٹھا اور آ کر خیام کے برابر بیٹھ گیا، پھر پدرانہ شفقت سے ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ محافظوں نے ایک دوسرے کی طرف گم سُم نگاہوں سے دیکھا۔
"میرے نوجوان رفیق، سنو۔ قادرِ مطلق نے تمھیں ان نایاب چیزوں سے نوازا ہے جو کسی ابنِ آدم کو میسّر ہوں —ذہانت، قادر الکلامی، صحت، وجاہت، طلبِ علم اور حرصِ حیات، مردوں کی ستائش اور، میں سمجھتا ہوں، عورتوں کی آرزومند آہیں۔ مجھے امید ہے کہ اُس نے خاموشی کی دانائی سے بھی تمھیں محروم نہیں رکھا ہو گا، جس کے بغیر، سابق الذکر میں سے کسی کی بھی قدر دانی ہو سکتی ہے نہ اسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ ”
"تو کیا جو میں سوچتا ہوں اس کے اظہار کے لیے اپنے پیرِ فرتوت ہو جانے کا انتظار کروں ؟”
"قبل اس کے کہ وہ سب جو تم سوچتے ہو اس کا اظہار کر سکو، تمھارے بچوں کے بچوں کے بچے بوڑھے ہو چکے ہوں گے۔ ہم رازوں اور خوف کے عہد میں زندگی کر رہے ہیں۔ تمھارے لیے ضروری ہے کہ تمھارے دو چہرے ہوں۔ ایک کا رخ عوام الناس کی طرف کرو، دوسرے کو اپنے اور اپنے خالق کے لیے رکھو۔ اگر تم اپنی آنکھوں، کانوں اور زبان کی سلامتی چاہتے ہو تو بھول جاؤ کہ تم ان کے مالک ہو۔ ”
قاضی اچانک خاموش ہو گیا، لیکن اس لیے نہیں کہ عمر کو بولنے دے، بلکہ اپنی تنبیہ کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے۔ عمر نے اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور منتظر رہا کہ دیکھیں قاضی اور کیا کیا خیالات اپنے سر سے برآمد کرتا ہے۔
اس کے بر خلاف ابو طاہر نے ایک گہری سانس لی اور اپنے آدمیوں کو بڑی کراری آواز میں رخصت ہونے کا حکم دیا۔ جوں ہی انھوں نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا، وہ دیوان کے کونے کی طرف آیا، مشجّر کپڑے (ٹیپسٹری) کا ایک حصہ اوپر اٹھایا اور دمشقی نقاشی کا ایک ڈبا کھولا۔ اس نے ایک کتاب نکال کر عمر کو ایسے رسمی تپاک سے پیش کی جسے پدرانہ تبسم نے گداز کر دیا تھا۔
تو یہ کتاب بالکل وہی تھی جسے میں، بنجامن او۔ لیسیج، ایک دن خود اپنے ہاتھوں میں لینے والا تھا۔ میرا خیال ہے اپنے ناہموار و دبیز چرم سمیت— جس کے نقوش کسی طاؤس کی دم جیسے لگ رہے تھے —اور اپنے اوراق کے ساتھ —جن کے کنارے ناہموار اور خستہ تھے —اس کا لمس بالکل ویسا ہی رہا ہو گا۔ جب خیام نے گرما کی اُس ناقابلِ فراموش شب کو اسے کھولا ہو گا تو اسے صرف دو سو چھپن کورے صفحے ہی نظر آئے ہوں گے جو ابھی اشعار، تصاویر، حاشیاتی تفاسیر یا طلا کاری سے پُر نہیں ہوئے تھے۔
اپنے جذبات کو مخفی رکھنے کی خاطر ابو طاہر کسی فروش کار کے لہجے میں بولا۔
"چینی کاغذ کی ہے، نفیس ترین کاغذ جو سمرقند کی کار گاہوں میں کبھی تیار ہوا ہو۔ ماترید علاقے کے ایک یہودی نے اس اسے ایک قدیم نسخے کے مطابق فرمائشی بنایا ہے۔ یہ کل کا کل توت سے بنا ہے۔ ذرا چھو کر تو دیکھو۔ اس میں وہی صفات ہیں جو ریشم میں ہوتی ہیں۔ ”
کلام جاری رکھنے سے پہلے اس نے کھانس کر گلا صاف کیا۔
"میرا ایک بھائی ہوا کرتا تھا، مجھے سے دس سال بڑا۔ جب وہ تمھاری سی عمر کا تھا، اس کی وفات ہو گئی۔ اسے ایک نظم کہنے پر، جس سے حکمرانِ وقت ناراض ہو گیا تھا، بلخ جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ اس پر بد عقیدگی بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ بات درست تھی یا نہیں، یہ مجھے نہیں معلوم، لیکن میں ضرور آزردہ ہوں کہ اس نے محض ایک نظم کے پیچھے اپنی جان گنوا دی، ایک بد بخت نظم جو بہ مشکل ایک دو بیتی جتنی دراز ہو گی۔ ”
اس کی آواز لرزنے لگی، اور وہ بے دم بولے گیا۔
"اس کتاب کو اپنے پاس رکھو۔ جب کبھی کوئی شعر تمھارے دماغ میں متشکل ہونے لگے، یا تمھاری نوکِ زبان تک آ جائے، اسے روکے رکھو۔ ان اوراق پر اسے نقل کر لو، اور جب نقل کر رہے ہو، ابو طاہر کو یاد کر لینا۔ ”
کیا قاضی کو معلوم تھا کہ اس اشارے اور ان الفاظ کے ساتھ وہ تاریخِ ادب میں ایک سب سے زیادہ مخفی راز کو جنم دے رہا ہے، کہ عمر خیام کی پر شکوہ شاعری کو دریافت کرنے کے لیے عالم کو پوری آٹھ صدیاں انتظار کرنا ہو گا، کہ "رباعیات” کی دنیا کے سب سے زیادہ طبعزاد کارناموں میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے تکریم ہو گی، اس سے بھی پہلے کہ سمرقندی مخطوطے کی عجیب قسمت کا حال دریافت ہو؟
باب ۳
اس رات عمر نے ایک منظرے میں، جو ابو طاہر کے بڑے کشادہ باغ کے وسط میں ٹیلے پر تعمیر کیا گیا ایک چوبی مقصورہ تھا، کچھ سو لینے کی بے سود کوشش کی۔ اس کے قریب ہی ایک پستہ سی میز پر پَر کا قلم اور دوات پڑی تھی، ایک چراغ جسے ابھی روشن نہیں کیا گیا تھا، اور اس کی کتاب—پہلے صفحے پر کھلی ہوئی جو ابھی تک کورا تھا۔
صبحِ کاذب کے دھندلکے میں ایک سایہ سا تیر گیا۔ ایک خوب صورت کنیز رکابی میں خربوزے کی قاشیں اس کے لیے لائی، لباس کا ایک نیا جوڑا اور اس کی دستار کے لیے زَندان کے ریشم کا گھماؤ پارچہ۔ اس نے سرگوشی میں ایک پیغام دیا۔
"آقا نمازِ فجر کے بعد آپ کا انتظار کریں گے۔ ”
کمرا پہلے ہی سے مدّعیوں، حاجت مندوں، درباریوں، رفقا اور بھانت بھانت کے ملاقاتیوں سے بھرا تھا۔ ان میں زخمی چہرہ بھی شامل تھاجیو یقیناً سن گن لینے وہاں پہنچا تھا۔ عمر کے دروازے سے داخل ہوتے ہی قاضی کی آواز نے ہر کس کی نظر اور تبصرے کا رخ اس کی جانب موڑ دیا۔
"امام عمر خیام کو خوش آمدید، جس کا حدیثِ نبوی کے علم میں کوئی ہم سر نہیں، ایک مرجع جس میں کسی کو کلام نہیں، ایک آواز جس کی کوئی تردید نہیں ہو سکتی۔ ”
حاضرین یکے بعد دیگرے کھڑے ہو گئے، تکریم سے جھکے اور پھر بیٹھنے سے پہلے دبی زبان سے کوئی فقرہ ادا کیا۔ عمر نے اپنی آنکھ کے گوشے سے زخمی چہرہ کا جائزہ لیا جو اپنے کونے میں بھیگی بلّی بنا بیٹھا تھا، اس کے باوجود اس کا چہرہ خفیف سا شکن آلود بھی تھا۔
ابو طاہر نے بے حد رسمی انداز میں عمر کو اپنی دائیں طرف آ بیٹھنے کی دعوت دی، اور اپنے پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے انھیں بڑے ظاہری طور پر وہاں سے رخصت کیا۔ اس کے بعد اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھا، "ہمارے بلند مرتبت مہمان کو کل شام ایک حادثہ پیش آیا۔ یہ آدمی جس کی خراسان، فارس اور مازندران میں عزّت ہوتی ہے، جس کی پذیرائی کا خواہش مند ہر شہر ہے اور جسے ہر امیر اپنے دربار سے وابستہ کرنے کا حریص، تو اس آدمی پر کل سمرقند کی سڑکوں پر دست اندازی کی گئی۔ ”
لوگوں نے اس پر دم بہ خود رہ جانے کا اظہار کیا، اس کے بعد افرا تفری سی مچ گئی جسے قاضی نے کسی قدر فزوں ہونے دیا اور پھر کہیں جا کر اسے تھمنے کا اشارہ کیا، اور کلام جاری رکھا۔
"اس سے بد تر یہ کہ بازار میں تقریباً بَلوا ہو گیا۔ بَلوا اور وہ بھی ہمارے باعثِ تکریم حکمراں، نصر خان، شمس الملک، کی آمد سے ایک دن پہلے، جو انشاء اللہ! ٹھیک آج صبح ہی بخارا سے آنے والا ہے۔ اگر ہجوم بر قابو پا کر اسے منتشر نہ کر دیا گیا ہوتا تو میں تصوّر بھی نہیں کر سکتا کہ آج ہم کس مصیبت سے دوچار ہوتے۔ میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ کوئی سر اپنے کندھوں پر مطمئن نہ ہوتا!”
اس نے سانس لینے کے لیے توقّف کیا، اور اس لیے بھی کہ بات لوگوں کے دلوں میں اتر جائے، خوف حاضرین کے دلوں میں اپنا کام کر سکے۔
"خوش قسمتی سے میرے ایک پرانے تلمیذ نے، جو اس وقت یہاں موجود ہے، عالی مرتبت مہمان کو پہچان لیا اور مجھے آ کر خبر کر دی۔ ”
اس نے زخمی چہرہ کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور اسے کھڑے ہونے کی دعوت دی۔
"تم نے امام عمر کو کیسے پہچان لیا؟”
اس نے چند لفظ جواب میں بڑبڑا دیے۔
"ذرا زور سے بولو! یہ ہمارے عمر رسیدہ عمّ تمھاری بات سن نہیں پا رہے ہیں !” قاضی نے اپنی بائیں طرف ایک سفید ریش کہن سالہ فرد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلا کر کہا۔
"میں بلند مرتبت مہمان کو ان کی قادر الکلامی کے باعث پہچان گیا، ” زخمی چہرہ بہ مشکل ہی یہ الفاظ منھ سے نکال سکا۔ "اور میں نے انھیں قاضی کے پاس لانے سے پہلے ان کی شناخت کی بابت پوچھا۔ ”
"خوب کیا۔ اگر فساد جاری رہتا تو خوں ریزی ہو سکتی تھی۔ تم اس کے حق دار ہو کہ یہاں آ کر ہمارے مہمان کے برابر بیٹھو۔ ”
جب زخمی چہرہ جھوٹ موٹ کی اطاعت گزاری کی ادا سے قریب آنے لگا تو ابو طاہر نے عمر کے کان میں کہا، "چاہے تمھارا دوست نہ بھی بنے، لیکن اب یہ تمھیں عوام الناس کے سامنے لتاڑے گا بھی نہیں۔ ”
وہ بلند آواز میں بولے گیا، "کیا میں امید کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ان پر گزری ہے اس کے باوجود، خواجہ عمر سمرقند سے بری یاد لے کر نہیں جائیں گے ؟”
"کل شام کا واقعہ میں پہلے ہی بھول بھال چکا ہوں، ” خیام نے جواب دیا۔ "مستقبل میں مَیں جب بھی اس شہر کو یاد کروں گا تو ایک بالکل ہی مختلف تصویر ذہن میں آئے گی، ایک بے حد نفیس انسان کی تصویر۔ میں ابو طاہر کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔ اعلیٰ ترین ستائش جو کسی قاضی کو پیش کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اوصاف کی مدح آرائی نہ کی جائے بلکہ ان لوگوں کی دیانت داری کی جو اُس کی ذمّے داری ہیں۔ اسے اتّفاق کہہ لیجیے، جس دن میں یہاں وارد ہوا تو میرا خچّر بابِ کش کو جانے والی آخری چڑھائی سے جد و جہد کر رہا تھا، اور خود میں نے ابھی بہ مشکل ہی اپنے قدم زمین پر رکھے تھے کہ ایک آدمی نے مجھے مخاطب کیا۔
” ’اس شہر میں آنا مبارک ہو، ‘ وہ بولا۔ ’کیا یہاں آپ کے کوئی خاندان والے یا دوست احباب ہیں ؟‘
” اس ڈر سے کہ یہ کہیں کوئی چلتا پرزہ یا کم از کم کوئی بھکاری یا ناگوار آدمی نہ ہو، میں نے بغیر رکے ہوئے جواب دیا کہ نہیں، لیکن وہ آدمی بولے گیا:
” ’میرے اصرار پر شک و شبہ نہ کریں، مہمانِ شریف۔ یہ تو میرے آقا کا حکم ہے کہ یہاں ہر آنے والے کا انتظار کروں اور تمام آ نکلنے والے مسافروں کو مہمان نوازی پیش کروں۔ ‘
"یہ آدمی واجبی حیثیت کا نظر آتا تھا، لیکن صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور عزّت داروں کے آداب سے ناواقف نہیں تھا۔ میں اس کے پیچھے ہولیا۔ کچھ دور کے بعد وہ مجھے ایک بھاری دروازے سے اندر لایا اور ایک مسقّف راہداری عبور کر کے میں کسی کارواں سرائے کے صحن میں آ گیا جس کے وسط میں ایک کنواں تھا اور مرد و زن اِدھر اُدھر چہل پہل کر رہے تھے۔ کناروں پر، اوپر اور نیچے کی منزلوں میں مسافروں کے لیے کمرے تھے۔ آدمی نے کہا، ’جب تک جی چاہے یہاں قیام فرمائیں، چاہے ایک رات یا پورا موسم۔ آپ کو فراش، طعام اور اپنے خچّر کے لیے چارہ مہیّا ملے گا۔ ‘
"جب میں نے پوچھا کہ میرے ذمّے کتنی رقم واجب الادا ہے تو یہ بات اسے ناگو ار گزری۔
” ’آپ میرے آقا کے مہمان ہیں۔ ‘
” ’اچھا تو بتاؤ کہ میرے فیّاض میزبان کہاں ہیں تاکہ ان کا شکریہ ادا کر سکوں۔ ‘
” ’میرے آقا کا سات سال پہلے انتقال ہو گیا ہے۔ وہ میرے پاس ایک رقم چھوڑ گئے ہیں تاکہ سمرقند کی ہر زیارت کرنے والے کی تعظیم و تکریم پر خرچ کروں۔ ‘
” ’تمھارے آقا کا کیا نام ہے ؟ بتاؤ تاکہ دوسروں سے ان کی مہربانیوں کا ذکر تو کر سکوں۔ ‘
” ’آپ کو صرف قادرِ مطلق کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اسے خوب علم ہے کہ اس کے توسّط سے کس کی مہربانیاں پوری ہو رہی ہیں۔ ‘
"تو یوں میں کئی دن اس آدمی کے پاس رہا۔ میں باہر گھومتا گھامتا، لیکن جب بھی واپس آتا مجھے ایک سے بڑھ کر ایک لذیر کھانوں کے انبار لگے ملتے اور میرے خچّر کی نگہداشت اس سے بہتر ہو رہی تھی جو میں کر سکتا تھا۔ ”
عمر نے کسی ردِ عمل کی امید میں اپنے حاضرین پر نظر ڈالی لیکن اس کی کہانی سے نہ کسی آنکھ میں تعجب ابھرا نہ ہی کسی اسرار نے راہ پائی۔ قاضی نے عمر کی الجھن دیکھ کر وضاحت کی۔
"بہتیرے شہر یہی سوچنا پسند کرتے ہیں کہ تمام عالمِ اسلام میں وہی سب سے زیادہ مہمان نواز ہیں، لیکن صرف اہلیانِ سمرقند ہی اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، یہاں کسی مسافر کو اپنے قیام یا طعام کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑی ہے۔ مجھے جانے کتنے ایسے خانوادوں کا علم ہے جو یہاں آنے والوں یا حاجت مندوں کی مہمان نوازی میں اپنا سب کچھ لٹا کر برباد ہو گئے ہیں، لیکن تم کبھی بھی انھیں اس کی شیخی مارتے ہوئے نہیں سنو گے۔ کاشی، تانبے اور چینی مٹّی کے بنے ہوئے جو فوارے تم ہر سڑک کے نکّڑ پر دیکھتے ہو، شہر میں جن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے، جن کا شیریں پانی ہر راہ گیر کی پیاس بجھانے کے لیے ہے، تو یہ سب کے سب سمرقند کے باشندوں ہی نے مہیّا کیے ہیں۔ لیکن کیا تمھیں کسی ایک آ دمی کے نام کا کتبہ بھی ان پر نظر آتا ہے جو اپنی حمد و ثنا کرانے کا خواہاں ہو؟”
"مجھے اعتراف ہے کہ ایسی فیّاضی مجھے کہیں نظر نہیں آئی ہے۔ کیا آپ مجھے ایک سوال پوچھنے کی اجازت دیں گے جو مجھے پریشان کر رہا ہے ؟”
قاضی نے لفظ اس کے منھ سے اچک لیے، "مجھے معلوم ہے تم کیا پوچھنا چاہتے ہو: یہی نا کہ وہ لوگ جو مہمان نوازی کے وصف کا اتنا مان کرتے ہیں انھوں نے تم جیسے مسافر کے ساتھ اتنے تردّد کا مظاہرہ کیسے کیا؟”
"یا جابرِ لاغر جیسے بے چارے بڈھے کے ساتھ؟”
"جو جواب میں تمھیں دینے والا ہوں اس کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جا سکتا ہے —خوف۔ ہمارے دین پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں: بحرین میں قرامطہ، قم کے امامی، بہتّر فرقے، قسطنطنیہ میں رومی، بھانت بھانت کے کفّار، اور سب سے بڑھ کر مصر کے اسماعیلی جن کے متّبعین کی بڑی بھاری تعداد ٹھیک بغداد کے قلب میں موجود ہے اور خود یہاں سمرقند میں بھی۔ یہ مت بھولو کہ ہمارے اسلامی شہر—مکہ، مدینہ، اصفہان، بغداد، دمشق، بخارا، مَرو، قاہرہ، سمرقند—تو ان کی حقیقت نخلستانوں سے زیادہ نہیں اور اگر ایک لمحے بھی ان سے غفلت برتی جائے تو واپس ریگستان میں بدل جائیں گے۔ یہ ہمیشہ ہی ریتیلی آندھیوں کے رحم و کرم پر رہے ہیں !”
اپنی بائیں طرف کے جھروکے سے قاضی نے بڑی مہارت کے ساتھ گزرانِ آفتاب کا قیاس کیا اور کھڑا ہو گیا۔
"حکمراں سے جا کر ملنے کا وقت ہو گیا ہے، ” وہ بولا۔
اس نے ہاتھ سے تالی بجائی۔
"ہمارے لیے کچھ زادِ راہ مہیّا کرو۔ ”
یہ اس کی عادت تھی کہ راستے میں چبانے کے لیے اپنے ساتھ کِشمش رکھ لیتا تھا، ایک عادت جس کی نقّالی اس کے مقرّبین اور اس کے ملاقاتی دونوں ہی کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو تانبے کی بڑی سی سینی اس کے پاس لائی گئی جس پر اس زردی مائل نعمت کا بڑا اونچا سا ڈھیر لگا تھا تاکہ ہر متنفس اس سے اپنی جیبیں اچھی طرح بھر لے۔
جب زخمی چہرہ کی باری آئی، تو اس نے چھوٹی سی مٹھی بھر کِشمشیں اٹھا کر خیام کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھائیں، "میرا خیال ہے تم چاہو گے کہ میں یہ تمھیں شراب کے عوض پیش کروں۔ ”
گو اس نے یہ بات بلند آواز سے نہیں کہی تھی، لیکن جیسے کسی سحر کے نتیجے میں ہر متنفس بالکل بت بن گیا۔ ہر شخص دم بہ خود کھڑا عمر کے لبوں کو دیکھتا رہا۔
عمر نے جواباً کہا، "جب کوئی شراب پینا چاہتا ہے تو بڑی احتیاط سے اپنے ساقی اور ندیموں کا انتخاب کرتا ہے۔ ”
زخمی چہرہ کی آواز کچھ بلند ہو گئی۔
"جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں ایک قطرہ بھی چھونے والا نہیں۔ میں تو جنت الفردوس میں جگہ پانے کا آرزو مند ہوں۔ لگتا ہے تم وہاں میری رفاقت کے متمنّی نہیں۔ ”
"ایک پوری ابدیّت، اور وہ بھی ثقہ علما کی رفاقت میں ؟ نہیں صاحب، شکریہ۔ خدا نے تو ہم سے کسی اور چیز کا وعدہ کیا ہے۔ ”
یہ تبادلہ وہیں رک گیا۔ عمر سرعت سے قاضی کی طرف چل دیا جو اسے بلا رہا تھا۔
"یہ ضروری ہے کہ شہر والے تمھیں میرے برابر برابر سوار دیکھیں۔ اس سے ان کا کل شام کا تاثر زائل ہو جائے گا۔ ”
رہائش گاہ کے گرد مجتمع ہجوم میں عمر کو یوں لگا جیسے اسے ایک ناشپاتی کے درخت کے سایے میں کوئی بادام فروش نظر آ رہی ہو۔ اس نے رفتار سست کر دی اور اس کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، لیکن ابو طاہر نے اسے چھیڑا۔
"اور تیز چلو۔ اگر خان ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی پہنچ گیا تو تمھاری شامت آ جائے گی۔ ”
باب ۴
"وقت کی تخلیق سے نجومی اعلان کرتے آئے ہیں کہ چار شہر ہیں جو بغاوت کی علامت کے زیر سایہ وجود میں آئے ہیں۔ سمرقند، مکہ، دمشق اور پالیرمو، اور ان کا قول عین صداقت ہے ! اگر یہ شہر کبھی حکومت کے آگے سِپر انداز ہوئے ہیں تو صرف اس کی طاقت کے باعث۔ یہ صراطِ مستقیم کی پیروی اسی وقت کرتے ہیں جب اسے تلوار کے ذریعے بچھایا گیا ہو۔ آنحضرتؐ نے مکے کے گھمنڈ کو تلوار سے ہی کم کیا تھا، اور تلوار ہی سے میں بھی اہالیانِ سمرقند کے گھمنڈ کو کم کروں گا!”
نصر خان، والیِ ماوراء النہر، ایک کانسی رنگ دیو جو کارچوبی کا لہراتا جبہ پہنے ہوئے تھا، اپنے تخت کے سامنے کھڑا لقمہ چبا رہا تھا۔ اس کی آواز گھر والوں اور ملاقاتیوں میں لرزہ پیدا کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں حاضرین میں کسی شکار کو ڈھونڈ نکالتیں، ایک ہونٹ جو کپکپانے کی جرأت کر سکے، ایک نگاہ جس میں مناسب پشیمانی کی کمی ہو، کسی غدّاری کی یاد۔ جبلّی طور پر ہر کس و ناکس اپنے برابر والے کی آڑ میں سرک جاتا، اپنی پشت، گردن اور کندھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیتا، اور طوفان کے گزر جانے کا انتظار کرتا۔
اپنے چنگل کے لیے کوئی شکار نہ پا کر ناصر خان نے ہاتھ بھر بھر کے اپنی تقریباتی قبائیں اٹھائیں اور انھیں طیش کے عالم میں ایک کے بعد ایک اپنے پیروں کے پاس پھینک کران کا انبار لگا دیا، اور کاشغر کی بلند آہنگ ملی جلی ترک اور منگول بولی میں ایک کے بعد ایک ہتک آمیز فقرے داغنے لگا۔ رواج کے مطابق حکمراں سہ تہی، چہار تہی اور بعض اوقات ہفت تہی کارچوبی کی عبائیں پہنتے، جنھیں دن میں بدن سے جدا کرتے اور جن کی عزّت افزائی مقصود ہوتی ان کی پشت پر بڑی تمکنت سے ڈال دیتے۔ لیکن اپنے موجودہ طرزِ عمل سے ناصر خان نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اُس دن اپنے کسی ملاقاتی کی آرزو کو تکمیل سے شاد کرنے کی اس کی کوئی نیّت نہیں۔
جیسا کہ ہر حکمراں کی سمرقند آمد پر ہوتا تھا، اسے بھی جشن اور خوش خرمّی کا دن ہونا چاہیے تھا، لیکن اولین لمحوں ہی میں مسرت کا ہر شائبہ جیسے بجھ کر رہ گیا تھا۔ دریائے سیاب سے اوپر کو جانے والی پکّی سڑک چڑھتے ہی خان شہر کے شمال میں بابِ بخارا سے متانت کے ساتھ داخل ہوا۔ وہ کھل کر مسکرایا، جس سے اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور بھی اندر کو دھنسی نظر آنے لگیں، اور ہمیشہ سے زیادہ ترچھی، جس کی وجہ سے اس کے رخساروں کی ہڈیاں آفتاب کے عنبریں انعکاس میں چمکنے لگیں۔ لیکن بھر یک بارگی اس کے ساری شگفتگی رخصت ہو گئی۔ وہ کوئی دو سو کے لگ بھگ امرا کی طرف بڑھا جو قاضی ابو طاہر کے گِرد جمع تھے، اور اس گروہ پر جس کے درمیان عمر خیام بھی تھا ایک مضطرب اور تقریباً شک بھری نظر گاڑ دی۔ بہ ظاہر جن کا طلب گار تھا انھیں نہ پا کر، اس نے یک لخت اپنے گھوڑے کو الف کیا، لگام کو زور سے کھٹکا اور ناقابلِ سماعت طور پر کچھ غرّاتے ہوئے وہاں سے دور ہو جانے کے لیے حرکت کی۔ اپنی کالی گھوڑی پر اکڑے ہوئے براجمان وہ اب اور نہیں مسکرا رہا تھا، اور نہ ادنیٰ سے اشارے سے ان ہزارہا شہریوں کے مکرر نعرۂ تحسین کا جواب دے رہا تھا جو اس کی پذیرائی کے لیے جمع ہو رہے تھے، اور بعض تو منھ اندھیرے سے۔ ان میں سے کچھ نے عرض داشتیں اٹھائی ہوئی تھیں، جنھیں عوامی منشیوں نے رقم کیا تھا۔ بے سودہی کیونکہ کسی کی بھی اپنی عرض داشت حکمران کو پیش کرنے کی جرات نہیں ہوئی، بلکہ یہ انھوں نے حاجب کے حوالے کیں جسے ان اوراق کو قبول کرنے کے لیے بار بار آگے کو جھکنا پڑا، اس مبہم وعدے کے ساتھ کہ ان پر عمل درآمد ہو گا۔
آگے آگے چار گھڑ سوار، جو دودمان کا کتھئی عَلم بلند کیے ہوئے تھے، پیچھے پیچھے ایک کمر تک ننگا پا پیادہ غلام جو ایک دیو ہیکل دھوپ چھتری اٹھائے ہوئے تھا، خان نے بغیر کہیں توقف کیے کشادہ شاہراہیں طے کیں جن کے دو رویہ توت کے بَل کھاتے ہوئے درختوں کی قطار لگی تھی۔ اس نے بازاروں سے اجتناب کیا اور آبپاشی کی بڑی نہروں کے سہارے سہارے چلا جنھیں اریق کہا جاتا ہے، تا آنکہ اسفیزار کے علاقے میں پہنچ گیا۔ یہاں اس نے ایک عارضی محل بنا رکھا تھا، جو ابو طاہر کی اقامت گاہ سے بالکل متّصل تھا، لیکن چونکہ حالیہ جنگوں نے اسے بہت زیادہ شکستہ کر دیا تھا، اسے ترک کرنا پڑا تھا۔ اب یہاں صرف ترکی محافظ فوج وقتاً فوقتاً اپنے خیمے نصب کرتی تھی۔ [اصلی لفظ "یرٹ” (yurt) ہے، جو کھال یا نمدے سے بنا ہوتا ہے ، اسے وسط ایشیا کے خانہ بدوش قبائل استعمال کرتے ہیں۔ ]
حکمراں کے مزاج کو بگڑا ہوا دیکھ کر عمر کو محل جا کر اپنی تہنیت پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی، لیکن قاضی نے اصرار کیا کہ ضرور جائے، یقیناً اس امید میں کہ اتنے بلند مرتبت رفیق کی موجودگی ایک خوش گوار مشغولیت فراہم کر دے گی۔ راستے میں ابو طاہر نے جو ابھی ابھی پیش آیا تھا اس سے خیام کو تفصیلاً آگاہ کرنے کی ذمّے داری اپنے سر لی۔ شہر کے ممتاز دینی اشخاص نے استقبالیے کے مقاطعے کا فیصلہ کیا تھا، اس لیے کہ خان نے بخارا کی جامع مسجد کو جلا دیا تھا جہاں مسلّح مخالفین نے مورچہ قائم کر کے پناہ لی تھی۔ "حکمراں اور مذہبی محکمے کے درمیان، ” قاضی نے وضاحتاً بتایا، "ہمیشہ کی طرح شدید جنگ جاری ہے۔ بعض اوقات یہ کھلم کھلا اور خونین ہوتی ہے، لیکن زیادہ تر خفیہ اور اندر اندر۔ ”
یہ افواہ بھی سننے میں آئی تھی کہ علما نے متعدد افسروں سے رابطہ قائم کیا تھا جو امیر کے طرزِ عمل سے سخت تنگ آئے ہوئے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ اس کے اجداد سپاہ کے ساتھ طعام تناول فرماتے تھے اور کوئی موقع یہ اعتراف کیے بغیر جانے نہیں دیتے تھے کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ ان کی عوام کے جنگجو ہیں۔ لیکن ایک نسل سے دوسری تک ترکی خانوں نے ایرانی شہنشاہوں کی قابلِ مذمّت عادات اختیار کر لی تھیں۔ وہ خود کو نیم دیوتا گرداننے لگے تھے، اور اپنے گرد ایسی پیچیدہ پر تکلف تقریباتی رسومات کھڑی کر لی تھیں جو ان کے افسران کے لیے ناقابلِ فہم ہی نہیں بلکہ ہتک آمیز بھی تھیں۔ چنانچہ موخر الذکر میں سے بہت سوں نے مذہبی سربرا ہوں سے رجوع کیا تھا۔ یہ لوگ مذہبی سربراہ افسروں کی زبانی نصر کی ہجو سن کر اور یہ کہ اس نے اسلامی طور و طریق تج دیے ہیں حظ اٹھاتے۔ فوج کے دل میں خوف ڈالنے کے لیے حکمراں علاء کے خلاف سختی سے پیش آیا۔ کیا اس کے باپ نے، جو بنا بریں ایک متّقی تھا، اپنے دورِ سلطنت کا آغاز ایک دستار پوش کا سر قلم کر کے نہیں کیا تھا؟
۲۷۰۱ کے اس سال میں ابو طاہر ان معدودے چند مذہبی اکابر میں سے تھا جس نے کسی نہ کسی طرح امیر سے قریبی روابط قائم کیے ہوئے تھے۔ وہ اکثر اس سے ملاقات کرنے بخارا کے قلعے میں جاتا، جو اس کی صدر رہائش گاہ تھی، اور جب بھی وہ سمرقند آتا تو اس کی بڑے پر وقار انداز میں پذیرائی کرتا۔ بعض علما ابو طاہر کے مصالحانہ رویّے کو محتاط نظر سے دیکھتے لیکن بیشتر اس ثالث کی موجودگی کو مبارک بھی سمجھتے۔
قاضی کو اپنی ثالثی کا کردار ادا کرنے کا موقع دوبارہ بڑی آسانی سے مل گیا۔ اس نے نصر کی تردید کرنے سے احتراز کیا، اس کے مزاج میں بہتری کی ادنیٰ جھلک کی تاک میں رہا تاکہ اس کی پژمردہ ہمّت کو حوصلہ دے۔ وہ منتظر رہا تا آنکہ وہ صبر آز ما لمحے بیت گئے، اور جب حکمراں اپنے تخت پر لوٹا اور ابو طاہر نے دیکھا کہ وہ ایک نرم گاؤ تکیے سے خوب ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ہے، تو اس نے ایک بے حد لطیف اور غیر محسوس بازیافت کے ساتھ قابو اپنے ہاتھ میں لے لیا جسے عمر نے اطمینان کے ساتھ دیکھا۔ قاضی کا اشارہ پا کر حاجب ایک نوخیز کنیز کو بلا لایا کہ وہ ان عباؤں کو اٹھا لے جو کسی جنگ کے بعد لاشوں کی طرح زمین پر چھوڑ دی گئی تھیں۔ فوراً ہی فضا کی گھٹن قدرے کم ہو گئی، لوگوں نے سنبھل سنبھل کر اپنے بازو سیدھے کیے اور بعضوں نے تو اپنے سے قریبی کان میں کچھ کھسر پھسر بھی۔
پھر قاضی نے کمرے کے وسط میں جو جگہ تھی اس کی طرف قدم بڑھائے، شاہ کے سامنے نشست سنبھالی، سر جھکا لیا، اور کچھ کہا نہیں۔ یہ داؤں اتنی مہارت سے لگایا گیا تھا کہ ایک طویل خاموشی کے بعد، جب نصر نے بالآخر اعلان کیا، "جاؤ جا کر شہر کے سارے علماسے کہو کہ کل فجر کے وقت آ کر میرے قدموں میں سر جھکائیں۔ جو سر نہیں جھکے گا قلم کر دیا جائے گا، سو کوئی بھی فرار ہونے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ کوئی زمین بھی اسے میرے قہر سے امان نہیں دے سکتی، ” تو ہر فرد و بشر سمجھ گیا کہ طوفان فرو ہو چکا ہے اور تصفیے کی امید کی جا سکتی ہے۔ علمائے دین کو بس تلافی کرنے کی حاجت ہے اور شاہ شدید اقدامات کرنے سے باز رہے گا۔
اگلے دن جب عمر پھر قاضی کے ہم راہ دربار گیا تو فضا مشکل سے پہچاننے میں آتی تھی۔ نصر اپنے تخت پر براجمان تھا، جو ایک طرح کا اونچا سا چبوترہ تھا جس پر کسی گہرے رنگ کے قالین کا غلاف پڑا تھا۔ اس کے برابر ایک غلام گلاب کی قندیائی ہوئی پنکھڑیوں کی سینی اٹھائے کھڑا تھا۔ حکمراں ایک پنکھڑی اٹھاتا، اپنی زبان پر رکھتا، اور تالو کے نیچے اسے تحلیل ہونے دیتا، قبل اس کے کہ لاپروائی سے ہاتھ ایک دوسرے غلام کی طرف بڑھا دے جو اس کی انگلیوں پر معطّر پانی چھڑکتا اور توجہ سے انھیں پونچھاتا۔ یہ گردان کوئی بیس تیس بار دہرائی گئی، دریں اثنا وفود ایک کے بعد ایک گزرتے رہے۔ یہ شہر کے علاقوں کے نمائندے تھے، خاص طور پر اسفیزار، پنج خین، زگریماچ، ماترید، بازاروں کی انجمنوں، نحّاسوں، کاغذ سازوں، ریشم کے کیڑے کی افزائش کرنے والوں اور سقّوں کی تجارتی اصناف کے، اور ان کے علاوہ ذمّی جماعتوں کے بھی: یہودی، پارسی اور نسطوری عیسائی۔
یہ پہلے فرش کو بوسہ دیتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے اور ایک بار اور تعظیماً جھکتے اور جھکے رہتے تا آنکہ شاہ انھیں اٹھنے کا اشارہ کرتا۔ ان کا سربراہ چند فقرے ادا کرتا اور وہ الٹے قدم لوٹ جاتے، چونکہ کمرے سے رخصت ہوتے وقت حکمراں کی طرف پیٹھ کرنا ممنوع تھا۔ ایک عجیب و غریب رسم۔ کیا یہ کسی ایسے شاہ نے رائج کی تھی جو عزّت کروانے کا کچھ زیادہ ہی رسیا تھا، یا کسی خاص طور پر شکّی ملاقاتی نے ؟
اب دینی معزّزین آئے، جن کا تجسّس سے انتظار کیا جا رہا تھا تاہم خوف و ہراس کے ساتھ بھی۔ یہ تعداد میں بیس سے زائد تھے۔ ابو طاہر کو انھیں آنے پر قائل کر لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے جذبات کا وافی و شافی اظہار پہلے ہی کر چکے تھے، اس راہ پر مزید گامزن رہنا اپنی شہادت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، جس کی کسی کو خواہش نہیں تھی۔
اب انھوں نے بھی خود کو تخت کے سامنے پیش کیا، ہر ایک اتنا نیچا جھکتا جتنا اس کی عمر اور جوڑ اجازت دیتے، منتظر کہ امیر اٹھنے کا اشارہ کرے۔ لیکن اشارہ ہو کر نہ دیا۔ دس منٹ گزر گئے اور ان میں سے سب سے کم عمر بھی اس غیر آرام دہ حالت میں غیر معیّنہ مدّت تک نہیں رہ سکتا تھا۔ پس چہ باید کرد؟ اگر بلا اجازت اٹھتے ہیں تو شاہ کی ملامت کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک وہ اپنے گھٹنوں کے بَل ٹِک گئے، ایک ایسی حالت جو اتنی ہی پر تعظیم تھی لیکن قدرے کم مضمحل کر دینے والی۔ جب تک آخری چپنی بھی زمین سے نہ لگ گئی حکمراں نے اٹھنے اور فوری وہاں سے روانہ ہو جانے کا اشارہ نہ کیا۔ جو پیش آ رہا تھا اس پر کسی کو بھی تعجّب نہیں ہوا۔ سو شاہی عملداری کے معاملات یہ تھے۔
اس کے بعد ترکی افسراور معزّزین کی جماعتیں آگے بڑھے، اور کچھ دہقان بھی جو قریبی دیہاتوں کے سربراہ تھے۔ ہر ایک نے اپنے مرتبے کے مطابق حکمراں کی قدمبوسی کی یا شانہ چوما۔ پھر ایک شاعر آگے آیا اور شاہ کی عظمت پر بڑا ٹھسّے دار قصیدہ پڑھا جسے سن کر وہ ظاہرا بہت جلد ہی بے زار نظر آنے لگا۔ اس نے اشارے سے شاعر کی مدح سرائی قطع کی اور حاجب کو اشارہ کیا کہ جھک کر جو حکم اسے تفویض کیا گیا تھا سنائے۔ "ہمارے آقا کی یہ خواہش ہے کو وہ ان شعرا کو جو یہاں مجتمع ہیں بتائیں کہ وہ ایک ہی موضوعات کی تکرار سنتے سنتے تھک گئے وہ نہ خوکو شیر سے تشبیہہ دلانا چاہتے ہیں نہ عقاب سے، اور اس سے بھی کم آفتاب سے۔ وہ جو اس کے ماسوا کہنے سے عاجز ہیں، براہ کرم تشریف لے جائیں۔ ”
باب ۵
حاجب کے کلام کے بعد کوئی بیس سے زائد شعرا کی دبی دبی سی آوازیں، کڑکڑاہٹ اور پھر عام شور و غل اٹھا جو اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ بعضے تو دو الٹے قدم اٹھا کر خاموشی سے کھسک گئے۔ قطار سے صرف ایک عورت ہی نکلی اور بڑی مستحکم چال سے آگے بڑھی۔ عمر کی آنکھوں میں تجسّس کو تیرتے دیکھ کر، قاضی نے سرگوشی کی، "بخارا کی ایک شاعرہ ہے۔ اپنے کو ’جہان‘ کہلواتی ہے، یعنی کہ عالمِ کل۔ یہ ایک متلوّن مزاج نو عمر بیوہ ہے۔ ”
اس کے لہجے میں ملامت کا رنگ تھا، لیکن اس نے عمر کی دلچسپی کو اور بھی ہوا دی اور وہ اس سے اپنے نگاہیں نہ پھیر سکا۔ اس وقت تک جہان نے اپنی نقاب کا زیریں حصہ اوپر اٹھا دیا تھا اور اس کے آرائش سے معریٰ ہونٹ نظر آنے لگے تھے۔ اس نے ایک پُر لطف نظم پڑھ کر سنائی جس میں، عجیب بات ہے، خان کا نام ایک مرتبہ بھی نہیں آیا تھا۔ ستائش تو دریا سوگدہ کی کی گئی تھی جو اپنی فیّاضی سمرقند پر نثار کرتا ہے، پھر بخارا پر، قبل اس کے کہ خود کو ریگ زار میں گم کر دے، کیونکہ کوئی سمندر بھی اس کے پانیوں کی پذیرائی کے قابل نہیں۔
"بہت خوب کہا ! واجب ہے کہ تمھارا منھ سونے سے بھر دیا جائے، ” نصر نے اپنا رواجی فقرہ دہراتے ہوئے کہا۔
شاعرہ طلائی دیناروں سے بھرے ایک بڑے سے طشت پر جھک گئی اور ایک ایک کر کے سکّے اپنے منھ میں بھرنے لگی جب کہ حاضرین بہ آوازِ بلند گنتے گئے۔ جب جہان نے ہچکی لی اور تقریباً گلا گھٹنے کو ہوا، تو شاہ سمیت پورا دربار قہقہہ زن ہو گیا۔ حاجب نے شاعرہ کو اپنی جگہ پر لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ انھوں نے چھیالیس دینار گنے تھے۔
صرف خیام ہی نہیں ہنسا۔ نگاہیں جہان پر ثبت کیے وہ اس کے بارے میں اپنے جذبات کو بھانپنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کا شعر اس قدر خالص تھا، اس کی قادر الکلامی اس قدر باقر، اس کی چال اس قدر دلیرانہ، لیکن وہ اپنے منھ میں دھات کے پیلے پیلے سکّے ٹھونسے جا رہی تھی اور خود کو اس قدر ہتک آمیز انعام کا نشانہ بننے دے رہی تھی۔ نقاب دوبارہ واپس ڈالنے سے پہلے اس نے اسے ایک ذرا سا اوپر اٹھایا اور ایک نگاہ ڈالی جو عمر کی توجہ میں آئی۔ اس نے اسے تنفس کے ساتھ اپنے میں اتر جانے دیا اور اسے وہیں روکے رکھنے کی کوشش کی۔ یہ ایک اتنا زود گزر لمحہ تھا کہ ہجوم کی نظر میں تو کیا آتا لیکن کسی عاشق کے لیے ابدیّت سے کم نہیں تھا۔ وقت کے دو چہرے ہوتے ہیں، خیام نے اپنے سے کہا۔ اس کی دو ابعاد ہیں، اس کی طوالت کو حرکتِ آفتاب سے ناپا جا سکتا ہے لیکن اس کی گہرائی کو صرف جذبے کے ہیجانی آہنگ ہی سے۔
ان کے درمیان رفعت کا یہ لمحہ قاضی کی مداخلت سے ٹوٹ گیا جو خیام کا شانہ تھَپ تھَپا کر اسے واپس ہوش و حواس میں لا رہا تھا۔ لیکن اب کیا ہوتا ہے، عورت جا چکی تھی۔ صرف حجاب ہی باقی رہ گئے تھے۔
ابو طاہر اپنے دوست کو خان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بندھے ٹکے الفاظ میں کہا، "آپ کی سقفِ عالی آج خراسان کی عظیم ترین خرد پر سایہ فگن ہے، عمر خیام، جس سے نباتات کا کوئی راز مخفی نہیں، نہ نجوم کا کوئی اسرار۔ ”
یہ کوئی خوش گوار اتّفاق نہیں تھا کہ قاضی نے ان تمام علوم میں سے جن میں عمر کو فضل و تبحّر حاصل تھا صرف طب اور نجوم ہی کا ذکر کیا، کیونکہ بس یہی دو علم ایسے تھے جن کے امرا شیفتہ و گرویدہ تھے ، اوّل الذکر تو اس لیے کہ یہ ان کی صحت و زندگی کی بقا کے لیے ضروری تھا، اور موخر الذکر ان کی دھن دولت کی بقا کے لیے۔
امیر کے مزاج میں شگفتگی آ گئی اور بولا کہ یہ بات اس کے لیے باعثِ عزّت ہے۔ اس کے باوجود، سردست کسی ذہنی بحث و تمحیص میں پڑنے کے لیے طبیعت کو مائل نہ پا کر یا ملاقاتی کے مقاصد کی بابت غلط قیاس آرائی کے باعث اس نے وہی گھسا پٹا فقرہ دہرانا پسند کیا، "اس کا منھ زر سے بھر دیا جائے !”
عمر ہکّا بکّا رہ گیا اور بہ مشکل ابکائی کو دبا پایا۔ یہ بات ابو طاہر کی توجہ میں آ گئی اور پریشان ہو گیا۔
اس خوف سے کہ کہیں انکار حکمراں کو ناگوار خاطر نہ محسوس ہو، اس نے اپنے رفیق پر بڑی تاکیدی اور گمبھیر نظر ڈالی اور شانے سے آگے کی طرف بے سود دھکیلا۔ خیام پہلے ہی اپنا فیصلہ کر چکا تھا۔
"براہِ مہربانی، کیا میرے آقا مجھے معاف رکھیں گے۔ میں روزے سے ہوں اور اپنے منھ میں کچھ ڈالنے سے عاجز۔ ”
"لیکن روزوں کا مہینہ، اگر مجھ سے غلطی نہیں ہو رہی، تو تین ہفتے پہلے ہی ختم ہو چکا ہے !”
"رمضان کے دنوں میں میں نیشاپور سے سمرقند کا سفر کر رہا تھا۔ میں نے اس عہد کے ساتھ اس وقت روزے نہیں رکھے کہ بعد میں یہ فرض پورا کر لوں گا۔ ”
قاضی دہشت زدہ رہ گیا اور سارے مجتمعین کسمسانے لگے، لیکن حکمراں کا چہرہ بالکل سپاٹ رہا۔ اس نے ابو طاہر سے سوال کرنا پسند کیا۔
"کیا تم جسے مذہب کی تمام تفصیلات کا علم ہے بتا سکتے ہو کہ اگر طلائی سکّے اس کے منھ میں ڈال کر فوراً ہی نکال لیے جائیں تو کیا اس سے خواجہ عمر کا روزہ ٹوٹ جائے گا؟”
قاضی نے غایت درجے کے غیر جانب دارانہ لہجے میں کہا، "صحیح معنی میں، ہر چیز جو منھ میں جائے روزہ توڑ سکتی ہے۔ ایسا ہوا ہے کہ سکّہ اتفاقاً حلق سے نیچے اتر گیا تھا۔ ”
نصر نے دلیل قبول کر لی، لیکن اس سے اس کی تشفّی بہرحال نہیں ہوئی۔ اس نے عمر سے مزیداستفسار کیا:
"کیا تم نے مجھے اپنے انکار کی اصل وجہ بتائی ہے ؟”
خیام لمحے بھر تذبذب کرتا رہا پھر بولا:
"صرف یہی وجہ نہیں ہے۔ ”
"صاف صاف کہو، ” خان نے کہا۔ "مجھ سے خوف زدہ ہونے کی حاجت نہیں۔ ”
پھر عمر نے یہ شعر سنائے:
یہ غربت نہیں جو مجھے آپ کے در پہ لائی ہے
میں مفلس نہیں کہ میری خواہشیں سادہ سی ہیں
آپ سے صرف عزّت کا خواہاں ہوں
ایک آزاد اور مستقل مزاج انسان کی عزّت کا
"خیام، خدا تیرے دن تاریک کرے !” ابو طاہر نے بڑبڑا کر کہا، جیسے خود اپنے سے۔
اسے معلوم نہیں تھا کہ سوچے تو کیاسوچے، لیکن اس کا خوف بالکل واضح تھا۔ ایک حالیہ طیش کی گونج ہنوز اس کے کانوں میں جھنجھنا رہی تھی، اور اسے یقین نہیں تھا کہ وہ وحشی کو دوبارہ قابو میں رکھ سکے گا۔ خان خاموش و بے حرکت رہا، جیسے کسی بے تھاہ سوچ میں منجمد ہو گیا ہو۔ خان کے مقربّین اس کے پہلے لفظ کے منتظر تھے جیسے یہ کوئی حتمی فیصلہ ہو گا، اور بعض نے تو طوفان کی آمد سے قبل ہی وہاں سے رخصت ہو جانے میں عافیت سمجھی۔
عمر نے اس عام افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہان کی آنکھوں کو تلاش کیا۔ وہ ایک ستون سے اپنی پشت ٹِکائے کھڑی تھی اس طرح کہ چہرہ ہاتھوں میں دفن تھا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی خاطر لرزہ بر اندام ہو؟
بالآخر خان بلند ہوا، ثابت قدمی سے عمر کی طرف آیا، اس سے بڑا جاندار معانقہ کیا، ہاتھ تھاما اور اس لے کر وہاں سے چل دیا۔
"حاکم ماوراء النہر کے دل میں، ” وقائع نگاروں نے اپنی روداد میں رقم کیا، "عمر خیام کی عزّت اتنی بڑھ گئی کہ اسے تخت پر اپنے پاس آ کر بیٹھنے کی دعوت دی۔ ”
"تو اب تم خان کے دوست ہو، ” جب وہ محل سے نکلے تو ابو طاہر نے خیام سے کہا۔
اس کی خوش مزاجی اتنی ہی شدید تھی جتنا وہ ذہنی عذاب جس نے اس کا حلق جکڑ دیا تھا، لیکن خیام نے سرد لہجے میں جواب دیا: "کیا ہو سکتا ہے کہ آپ وہ ضرب المثل بھول رہے ہوں جس کے مطابق، ’سمندر کسی پڑوسی کو نہیں پہچانتا، اور امیر کسی دوست کو‘؟”
"کھلے دروازے کی تحقیر نہ کرو۔ مجھے تمھیں دربار میں ملازمت ملنے کے آثار نظر آ رہے ہیں !”
"درباری زندگی میرے لیے نہیں بنی، میری صرف اتنی ہی آرزو ہے کہ کبھی میری ایک رصد گاہ ہو اور ایک گلاب کا باغ اور میں خود کو آسمان کے مشاہدے میں غرق کر سکوں، مینا ہاتھ میں ہو اور پہلو میں ایک حسین عورت۔ ”
"اتنی ہی حسین جتنی وہ شاعرہ تھی؟” ابو طاہر نے زیر لب ہنستے ہوئے کہا۔
عمر سواے اس عورت کے کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے سے قاصر تھا، پھر بھی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسے ڈر تھا کہ لاپروائی میں منھ سے نکلا ادنیٰ سا لفظ اس کی چغلی کھا دے گا۔ خود کو کسی قدر بشّاش محسوس کر کے قاضی نے نہ صرف اپنا لہجہ بلکہ موضوع بھی بدل دیا:
"تم سے ایک عنایت کی درخواست کرنا چاہتا ہوں !”
"یہ تو آپ ہیں جنھوں نے مجھے اپنی عنایات سے مالا مال کر دیا ہے۔ ”
"ابو طاہر نے بلا حیل و حجت یہ مان لیا۔ "اچھا تو یوں سمجھو کہ میں اس کے بدلے میں کچھ چاہتا ہوں۔ ”
اب وہ اس کی رہائش گاہ کے پھاٹک پر پہنچ گئے تھے۔ اس نے طرح طرح کے کھانوں سے بھری میز کے گِرد خیام کو دونوں کی گفتگو جاری رکھنے کی دعوت دی۔
"میں نے تمھارے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے۔ کیوں نہ فی الوقت تمھاری’ رباعیات‘ سے صرفِ نظر کریں۔ جہاں تک میرا تعلّق ہے، میں تو انھیں عبقریت کی ناگزیر للک سمجھتا ہوں۔ وہ میدان جن میں تمھیں واقعی فضیلت حاصل ہے طب، علمِ نجوم، ریاضی اور ہندسہ، طبیعیات اور مابعد الطبیعیات ہیں۔ میں یہ کہنے میں غلط تو نہیں کہ ابن سینا کی وفات کے بعد کوئی اور انھیں تم سے بہتر نہیں جانتا؟”
خیام خاموش رہا۔ ابو طاہر نے اپنی بات جاری رکھی:
"میں چاہتا ہوں کہ تم ان علوم پر ایک قاطع تصنیف رقم کرو اوراسے میرے نام معنون کرو۔ ”
"میرے خیال میں تو ان علوم پر کوئی قاطع کتاب نہیں لکھی جا سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ میں صرف پڑھنے اور حصول علم پر ہی اکتفا کرتا ہوں، خود کچھ لکھے بغیر۔ ”
"یعنی!”
"چلیے قدما کا تصوّر کریں —یونانیوں کا، اہلِ ہند اور مسلمانوں کا جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ان علوم پر بہ کثرت لکھا ہے۔ اگر میں وہی دہرا دیتا ہوں جو وہ پہلے لکھ چکے ہیں، تو میرا کام فالتو ہو گا، اگر میں ان کی تردید کرتا ہوں، جس کی مجھے رہ رہ کر ترغیب محسوس ہوتی ہے، تو دوسرے میرے بعد آ کر خود میری تردید کر دیں گے۔ دانشوروں کی نگارشات میں کا آئندہ کل کیا باقی رہ جائے گا؟ صرف وہ عیب جوئی جو انھوں نے اپنے سے پہلے والوں کے بارے میں کی تھی۔ لوگوں کو صرف یہی یاد رہے گا کہ انھوں نے دوسروں کے کون سے نظریات منہدم کیے ہیں، لیکن وہ نظریات جو خود انھوں نے وضع کیے ہیں، آنے والے انھیں منہدم تو خیر کریں گے ہی، ان کا تمسخر بھی اڑائیں گے۔ علم کا قانون یہی ہے۔ لیکن شاعری کا ایسا کوئی قانون نہیں۔ یہ جو پہلے کہا جا چکا ہے اسے ہرگز مسترد نہیں کرتی اور جو اس کے بعد آنے والا ہے اس سے کبھی جھوٹی نہیں پڑتی۔ صدیوں صدیوں شاعری مکمل سکون کی حالت میں رہتی ہے۔ اسی لیے میں نے اپنی’ رباعیات ‘لکھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ علم کی بابت کونسی چیز مجھے من بھاؤنی لگتی ہے ؟ یہی کہ مجھے اس میں عظیم ترین شاعری ملی ہے: اعدادِ ریاضی کی سرشار کر دینے والی سرمستی، اور فلکیات میں کائنات کی پراسرا سرسراہٹ۔ لیکن، آپ کی اجازت ہو تو کہوں کہ براہِ کرم مجھ سے ’ سچ ‘کیا ہے کی بات نہ کریں۔ ”
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہا:
"یہ اتفاقاً سمرقند کے اِرد گِرد چہل قدمی کر رہا تھا تو مجھے پرانے کھنڈرات اور ان کے کتبے نظر آئے جنھیں آج کوئی پڑھ بھی نہیں سکتا۔ میں نے تعجب سے سوچا، ’وہ شہر جو کبھی یہاں آباد تھا، اس کا کیا باقی بچ رہا ہے ؟‘ تو چلیے لوگوں کی باتیں نہ کریں، کیونکہ وہ تخلیق میں سب سے زیادہ آنی جانی شے ہیں، لیکن ان کی تہذیب کا کیا بچا ہے ؟ یہاں کس سلطنت، علم، قانون اورسچائی کا وجود تھا؟ کچھ بھی تو نہیں، میں بے سود ہی ان قدیم آثار میں جہاں تہاں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرا اور ہاتھ آیا تو صرف کسی سفالی ظرف کا ٹوٹا ہوا پارہ ہی جس پر ایک چہرہ کندہ تھا یا کسی ستون کے آرائشی حاشیے کا ایک ٹکڑا۔ اور ہزار سال بعد میری نظموں کی بھی یہی حالت ہونے والی ہے —پارے، ریزے، ٹکڑے، اس دنیا کا ملبہ جو ابد تک مدفون ہو چکی ہے۔ شہر کا کچھ باقی رہتا ہے تو یہ وہ بے تعلّق نگاہ ہے جس سے کسی نیم مد ہوش شاعر نے اسے دیکھا ہوتا ہے۔ ”
"میں تمھاری بات سمجھتا ہوں، ” ابو طاہر نے ہکلا کر کہا، بلکہ چکرا کر۔ ” اس کے باوجود، تم ایک شافعی مذہب کے قاضی کے نام لگی بندھی نظمیں تو معنون کرنے سے رہے جن سے شراب کی بو آ رہی ہو!”
حقیقت یہ ہے کہ عمر کا رویّہ مصالحتی اور تشکرانہ ثابت ہونے والا تھا۔ بہ الفاظ دیگر، وہ اپنی شراب کی تندی کو کم کرنے والا تھا۔ آنے والے مہینوں میں اس نے کعبی مساوات (cubic equations) سے متعلق ایک بے حد گمبھیر رسالے کی تصنیف میں خود کو غرق کر لیا۔ الجبر کے اس رسالے میں لا معلوم کی نمائندگی کے لیے، خیام نے عربی لفظ "شے "مقرّر کیا، جس کا مطلب "چیز” ہے۔ یہ لفظ، جو ہسپانوی کی علمی تصانیف میں xay کے طور پر املا ہوا، رفتہ رفتہ صرف اپنے پہلے حرف، x، سے بدل دیا گیا جو ساری دنیا میں لامعلوم قدر کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
خیام کا یہ علمی پارہ سمرقند میں تکمیل کو پہنچا اور اپنے محافظ کے نام یوں معنون ہوا: "ہم ایک ایسے عہد کے کشتہ ہیں جسے میں اربابِ علم بے اعتبار ہیں اور ان میں بس معدودے چند ہی خالص تحقیق کے لیے اپنے کو وقف کرنے کے امکانات سے بہرہ ور ہیں۔ وہ تھوڑا سا علم جو دورِ حاضر کے دانش وروں کو حاصل ہے، وہ مادّی اغراض کی تگ و دو میں کھپ جاتا ہے۔ چنانچہ میں اس عالم میں کسی ایسے کے حصول سے مایوس ہو چکا تھا جس کی دلچسپی علمی چیزوں میں بھی اتنی ہی ہو جتنی دنیوی چیزوں میں، ایک فرد جو انسانی تقدیر کی فکر میں غرق ہو، تا آنکہ خدا نے مجھے قاضی، امام ابو طاہر، سے ملنے کا موقع عنایت فرمایا۔ یہ ان کی نوازشوں کے طفیل ہے کہ میں خود کو ان کاموں میں لگا سکا ہوں۔ ”
اس رات جب خیام اپنے منظرے کی طرف واپس آ رہا تھا جہاں ان دنوں اس کی رہائش تھی، تو اس نے یہ سوچ کر کہ اب کچھ پڑھنے لکھنے کا وقت کہاں رہا ہے چراغ ساتھ نہیں لیا تھا۔ اس کے باوجود اس کے راستے پر چاند کی روشنی کا مدّھم سا اجالا تھا، ماہِ شوال کے ختم کا لاغر سا ہلال۔ جوں جوں وہ قاضی کی مسکن سے کچھ آگے بڑھا، اسے باقاعدہ ٹٹول ٹٹول کر اپنا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ ایک سے زائد بار اسے ٹھوکر لگی، جھاڑیوں کو پکڑ کر اپنے کو گرنے سے روکا اور ٹھیک منھ پر بیدِ مجنوں کے سخت طمانچے کو سہا۔
اس نے ابھی بہ مشکل ہی اپنے کمرے میں قدم رکھا تھا کہ اسے میٹھی میٹھی سی سرزنش کی آواز سنائی دی۔ "میں ذرا اس سے پہلے تمھارے آنے کی متوقع تھی۔ ”
تو کیا اس نے اس عورت کے بارے میں اتنی شدّت سے سوچا تھا کہ اب یہ گمان کر رہا ہے کہ اسے سن بھی رہا ہے ؟ دروازے کے سامنے کھڑے کھڑے، جسے اس نے دھیرے سے بھیڑ دیا، اس نے کسی نیم رخ کو پہچاننے کی کوشش کی۔ بے سود ہی، کیونکہ دوبارہ صرف آواز ہی آئی، قابلِ سماعت پھر بھی مبہم۔
"تم خاموش ہو۔ یہ یقین کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ کوئی عورت یوں بے باکانہ تمھارے کمرے میں در آنے کی جرات کر سکتی ہے۔ محل میں ہماری نظریں ملی تھیں اور جگمگا اٹھی تھیں، لیکن خان وہاں موجود تھا، اور قاضی اور درباری بھی، اور تم نے اپنی نظر پھیر لی تھی۔ بہت سے مردوں کی طرح تم نے بھی رکنا پسند نہیں کیا۔ لیکن تقدیر کی مزاحمت سے کیا ملے گا۔ صرف ایک عورت کی خاطر امیر کے غیظ و غضب کو مول لینے سے کیا ہاتھ آئے گا، ایک بیوہ کی خاطر جو جہیز میں صرف ایک منھ پھٹ زبان اور ایک مشتبہ ناموس ہی لا سکتی ہو؟”
کسی پراسرا طاقت نے عمر کو باز رکھا،۔ وہ نہ کوئی جنش کر سکا نہ ہونٹوں کو ڈھیلا ہی۔
"تم تو کچھ بھی نہیں بول رہے، ” جہان نے بڑے گداز طنزِ خفی کے ساتھ تبصرہ کیا۔ "اچھا، خیر، میں خود ہی بولتی رہوں گی، اور یوں بھی اب تک صرف میں نے ہی کوئی قدم اٹھایا ہے۔ جب تم دربار سے جا رہے تھے، میں نے تمھاری پوچھ گچھ کی اور تمھاری قیام گاہ کا پتا لگایا۔ میں نے یہ عذر پیش کیا کہ اپنی عم زادی کے پاس رہنے جا رہی ہوں جس کی شادی سمرقند کے ایک متموّل سوداگر سے ہوئی ہے۔ عام طور پر جب میری نقل و حرکت دربار کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے تو جا کر حرم میں سوتی ہوں۔ وہاں میری کچھ سہیلیاں ہیں جو میری رفاقت پسند کرتی ہیں۔ بڑے اشتیاق سے میری لائی ہوئی خبریں سنتی ہیں۔ مجھے اپنا رقیب نہیں سمجھتیں کیونکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ خان کی بیوی بننے کی میری کوئی خواہش نہیں۔ اگر میں چاہتی تو اسے رجھا پرچا سکتی تھی، لیکن میں شاہ کی بیگمات کے ساتھ اتنا زیادہ وقت گزار چکی ہوں کہ اس قسم کی قسمت مجھے لبھا نہیں سکتی۔ میرے لیے زندگی مردوں سے اس قدر زیادہ اہم ہے ! جب تک میں کسی اور کی بیوی ہوں، یا کسی کی بھی نہیں، حکمراں اپنے دیوان میں میری، میرے اشعار کی اور میری خندہ زنی کی نمائش کا مشتاق رہے گا۔ لیکن جس دن بھی مجھ سے شادی کرنے کا خواب دیکھا، وہ شروعات مجھے تالے چابی میں ڈال کر کرے گا۔ ”
اپنی مجہول کیفیت سے بہ مشکل باہر آتے ہوئے عورت کا ایک لفظ بھی عمر کی سمجھ میں نہیں آیا، اور جب اس نے کچھ کہنے کا فیصلہ کیا تو وہ اُس سے کم، بلکہ اپنے سے یا کسی سائے سے زیادہ بول رہا تھا:
"اپنی جوانی میں، یا اس کے بعد بھی، بارہا کوئی نگاہ مجھ پر اٹھی ہے، یا کوئی مجھے دیکھ کر مسکرایا ہے۔ پھر رات کو میں نے خواب میں اسی نگاہ کو جمسم ہوتے ہوئے دیکھا ہے، گوشت پوست میں بدل تے ہوئے۔ ایک عورت، اندھیرے میں دمکتی ہوا ایک پیکر۔ اچانک، اس رات کے اندھیارے میں، اس غیر حقیقی منظرے میں، اس غیر حقیقی شہر میں، تم یہاں ہو—ایک حسین عورت، اس پر مستزاد ایک شاعرہ، اور مہیّا۔ ”
وہ ہنس پڑی۔
"مہیّا! یہ تمھیں کیسے معلوم ہوا؟ تم نے تو مجھے ہاتھ بھی نہیں لگایا، مجھے دیکھا تک نہیں، اور یقیناً دیکھو گے بھی نہیں کیونکہ اس سے پہلے کہ سورج مجھے بھگا دے، میں خود ہی یہاں سے رخصت ہو جاؤں گی۔ ”
اس دبیز تاریکی میں ریشم کی بے ترتیب سی سرسراہٹ ہوئی اور خوشبو سی لہرائی۔ عمر دم بہ خود رہ گیا، اس کا جسم جاگ گیا تھا۔ وہ کسی طفلِ مکتب کی سادہ لوحی سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا:
"کیا تم اب بھی نقاب پہنے ہوئے ہو؟”
"تنہا نقاب جو پہنے ہوں وہ رات ہی ہے۔ ”
باب ۶
ایک عورت اور ایک مرد۔ گمنام مصور نے انھیں نیم رخ میں تصوّر کیا تھا، پھیلے ہوئے اور ایک دوسرے میں پیوست۔ اس نے منظرے کی دیواریں ہٹا دی تھیں، انھیں بسترِ گیاہ مہیّا کر دیا تھا جس کا حاشیہ گلابوں کا تھا اور ایک سیمیں چشمہ جو ان کے پاؤں کے قریب اُبل رہا تھا۔ اس نے جہان کے پستان کسی ہندو دیوی جیسے خوش وضع بنائے تھے۔ عمر اس کی زلفوں کو ایک ہاتھ سے ہلکے ہلکے چھو رہا ہے اور دوسرے میں ایک جام سنبھالے ہے۔
ہر روز محل میں ان کی مڈ بھیڑ ہوتی، لیکن وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے اجتناب کرتے کہ مبادا اپنی چغلی نہ کھا دیں۔ ہر شام خیام بہ عجلت منظرے لوٹ آتا اور اپنی محبوب کا انتظار کرتا۔ قسمت نے انھیں کتنی راتیں ارزانی کی تھیں ؟ ہر چیز کا انحصار حکمراں پر تھا۔ جب وہ خیمہ اٹھا دے گا، جہان اس کے ساتھ ساتھ چلی جائے گی۔ وہ کبھی پیشگی کوئی اطلاع نہیں دیتا تھا۔ کسی صبح یہ ابنِ خانہ بدوش چھلانگ مار کر اپنے راہوار پر جا سوار ہو گا اور بخارا کی راہ لے گا، کِش یا پنج قند کی، اور دربار میں افراتفری مچ جائے گی کہ اسے جا لیں۔ عمر اور جہان کو اس لمحے سے خوف آتا تھا اور ان کے ہر بوسے میں الوداع کا ذائقہ ہوتا، ہر ہم آغوشی میں دم بہ خود فرار کا رنگ۔
گرمیوں کی ایک حد درجہ اُمس زدہ رات خیام منظرے کی مہتابی میں انتظار کی گھڑیاں گزارنے پہنچا کہ اسے کہیں نزدیک ہی قاضی کے پہرے داروں کے ہنسنے کی آواز سنائی دی اور وہ بے چین ہو گیا۔ لیکن یہ بے چینی بلا وجہ تھی، کیونکہ جہان آ پہنچی اور اسے اطمینان دلایا کہ کسی کی بھی نظراس پر نہیں پڑی ہے۔ انھوں نے ایک دوسرے کا پہلے چوری چوری بوسہ لیا، بعد میں ایک اور شدید تر۔ اسی طرح وہ دن کو اس کے اختتام تک پہنچاتے تھے جس میں وہ دوسروں کی ملکیت ہوتے اور اُس رات کی ابتدا کرتے جو ان کی ملکیت تھی۔
” کیا خیال ہے، اس شہر میں کتنے ایسے عاشق ہوں گے جو ہماری طرح محوِ وصل ہوں ؟” جہان نے شرارت سے سرگوشی کی۔ عمر نے ماہرانہ طور پر اپنا مشروبِ شب تیار کیا، گال پھلائے اور غور و فکر کے انداز میں کہا:
"چلو اس پر توجہ سے غور کریں: اگر ہم بے زار بیویوں کو منہا کر دیں، اطاعت گزار باندیوں، بازاری کسبیوں کو جو اپنے کو بیچتی ہیں یا کرائے پر اٹھاتی ہیں، اور آہیں بھرتی باکراؤں کو، تو کتنی عورتیں باقی بچ رہتی ہیں، کتنی عورتیں جو اس آدمی سے محوِ وصل ہیں جسے انھوں نے خود پسند کیا ہے ؟ اسی طرح، ایسے کتنے مرد ہوں گے جو اس عورت کے برابر سوئیں گے جس سے انھیں عشق ہے، ایک ایسی عورت جو خود کو اپنی مرضی سے پیش کر رہی ہے، اس لیے نہیں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ؟ کون جانے، آج رات شاید پورے سمرقند میں صرف ایک ہی ایسا مرد اور ایک ہی ایسی عورت ہے۔ صرف تم ہی کیوں اور صرف میں ہی کیوں ؟ اس لیے کہ خدا نے ہمیں محبت میں گرفتار کیا ہے، بالکل جس طرح اس نے بعض پھولوں کو زہر ناک بنایا ہے۔ ”
وہ ہنسا اور وہ رو پڑی۔
"چلو اندر چلیں اور دروازہ بند کر دیں۔ انھیں ہماری خوشیوں کی آواز کان پڑ جائے گی۔ ”
بہت سی ہم آغوشیوں کے بعد، جہان کمر سیدھی کر کے بیٹھ گئی، اپنے کو کچھ ڈھانپ لیا، اور بڑی نرمی کے ساتھ اپنے کو اپنے عاشق کی آغوش سے علاحدہ کر لیا۔
"مجھے ایک راز تمھیں بتا دینا چاہیے جو میں نے خان کی بڑی بیگم سے سنا ہے۔ معلوم ہے وہ سمرقند کیوں آیا ہوا ہے ؟”
عمر نے اسے روک دیا، اس خیال سے کہ حرم کی کوئی گپ شپ ہو گی۔
"امرا کے رازوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ اپنے سننے والوں کے کان جلا دیتے ہیں۔ ”
"میری بات سنو تو سہی۔ اس راز کا اثر ہم پر بھی پڑتا ہے، کیونکہ یہ ہماری زندگی میں خلل اندازی کر سکتا ہے۔ نصر خان مورچوں کے معائنے کے لیے آیا ہے۔ گرما کے ختم پر، جب گرمی کا زور ٹوٹ چکا ہو گا، وہ سلجوق فوج کی حملہ آوری کا متوقع ہے۔ ”
سلجوق، خیام ان سے خوب واقف تھا۔ یہ اس کے بچپن کی اولین یادوں میں جاگزین تھے۔ مسلمان ایشیا کے مالک بن بیٹھنے سے بہت پہلے، وہ اس کے پیدائشی شہر پر حملہ آور ہوئے تھے اور اپنے پیچھے، نسلہا نسل تک، ایک خوفِ عظیم کی یاد چھوڑ گئے تھے۔
یہ واقعہ اس کی پیدائش سے دس سال پہلے رونما ہوا تھا۔ نیشاپور کے باشندے ایک صبح اٹھے تو دیکھا کہ ان کے شہر کے گرد ترکی جنگجوؤں نے پورا پورا محاصرہ کیا ہوا ہے، اور ان کی سربراہی دو بھائی کر رہے ہیں، طغرل بیگ باز اور چغری بیگ شِکرا، میخائیل ابن سلجوق کے فرزند، جو اس وقت غیر معروف سے خانہ بدوش سردار تھے اور ابھی حال ہی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ شہر کے سربرآوردگان کو پیغام ملا: "کہا جاتا ہے کہ تمھارے نوجوان اپنے فخر پر ناز کرتے ہیں اور میٹھا پانی تمھاری قناتوں میں بہتا ہے۔ اگر تم نے مزاحمت کی کوشش کی تو جلد ہی تمھاری قناتوں کے منھ سوئے فلک کھل جائیں گے اور تمھارے جوان زیرِ زمیں ہوں گے۔ ”
اس قسم کی لاف زنی محاصرے کے وقت عام تھی۔ اس کے باوجود اکابرِ نیشاپور نے اس وعدے کے عوض ہتھیار ڈالنے میں عجلت دکھائی کہ اہالیان شہر کی جان کو کوئی گزند نہ پہنچے اور ان کا مال، ان کے گھر اور ان کی قناتیں محفوظ رہیں۔ لیکن ایک فاتح کے وعدوں کا کیا بھروسا؟ جب لشکر شہر میں داخل ہوا، چغری اپنے سپاہ کو سڑکوں اور بازاروں میں کھلے بندوں چھوڑ دینا چاہتا تھا۔ طغرل کی صلاح مختلف تھی۔ وہ ماہِ رمضان کا احترام کرنا چاہتا تھا کیونکہ اس ماہِ صوم میں ایک اسلامی شہر میں قتل و غارت گری حرام تھی۔ جیت بہرکیف اسی دلیل کی ہوئی، تاہم چغری قائل نہیں ہوا اور چارو ناچار اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب آبادی اس مذہبی کیفیت سے نکل آئے گی۔
جب اہالیان شہر کو برادران کی نا اتّفاقی کی ہوا لگی اور احساس ہوا کہ ماہِ آئندہ کے آغاز میں ان کی غارتگری، زنا بالجبر اور قتلِ عام ہونے والا ہے، تو بس یہیں سے خوفِ عظیم کی ابتدا ہوئی۔ زنا بالجبر سے زیادہ ہتک آمیز اس کی ناگزیری کا اعلان ہے، جس پر ہونی کا انفعالی اور باعثِ ذلّت انتظار مستزاد۔ دکانیں خالی ہو گئیں، مرد جا چھپے اور ان کی بیوی بیٹی نے انھیں اپنی بیچارگی کا ماتم کرتے دیکھا۔ کیا کریں ؟ کیسے فرار ہوں ؟ کس راہ سے ؟ قابض ہر طرف دندناتا پھر رہا تھا۔ چوٹی دار سپاہ صدر چوک کے بازاروں میں، مختلف علاقوں، مضافات اور بابِ سوختہ کے اکناف میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ وہ مسلسل پیے ہوتے اور زرِ مخلصی اور لوٹ کھسوٹ کے متلاشی، اور ان کے بے قابو جتّھے دیہی علاقوں میں جراثیم کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔
کیا آدمی روزوں کے ختم ہونے اور عید کی آمد کی خواہش نہیں کرتا؟ اس سال وہ چاہتے تھے کہ صیام کبھی ختم نہ ہو اور امید کرتے کہ عید کبھی نہ آئے۔ جب نئے ماہ کا ہلال نظر آیا، کسی کو خوشی منانے یا بھیڑ ذبح کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔ پورا شہر ہی کسی دیو ہیکل بھیڑ کی طرح نظر آ رہا تھا جسے خوب کھلا پلا کر قربانی کے لیے فربہ کیا گیا ہو۔
عید سے پچھلی رات، جب ہر امید پوری ہوتی ہے، شبِ عذاب تھی، ہزاروں خاندانوں نے مسجدوں اور اولیاء کی درگاہوں کی مشتبہ امان میں آنسو بہائے اور دعائیں مانگیں۔
اس وقت قلعے کے اندر دونوں سلجوق بھائیوں کے درمیان بڑی قیامت خیز بحث جاری تھی۔ چغری چلّا رہا تھا کہ اس کے سپاہ کو مہینوں سے مشاہرہ نہیں ملا ہے، کہ وہ صرف اس لیے لڑنے کے لیے آمادہ ہوئے تھے کہ ان سے اس ثروت مند شہر میں آزادانہ تصرّف کا وعدہ کیا گیا تھا، کہ وہ بغاوت کی کگر پر کھڑے ہوئے تھے اور کہ وہ، چغری، ان کو مزید روکے رکھنے سے قاصر تھا۔
لیکن طغرل کسی اور ہی زبان میں بات کر رہا تھا:
” ہماری فتوحات کی ابھی باسم اللہ ہی ہوئی ہے۔ قبضۂ اختیار میں لانے کے لیے ابھی بہتیرے شہر باقی ہیں۔ اصفہان، شیراز، ری، تبریز اور ان سے آگے دوسرے۔ اگر ہم نیشاپور کے سپر انداز ہو جانے کے بعد اس میں لوٹ مار مچاتے ہیں، اپنے سارے وعدوں کے باوجود، تو کوئی اور دروازہ ہمارے لیے نہیں کھلے گا، کوئی اور قلعہ بند شہر اپنی محافظ فوج کے ساتھ ذرہ برابر بھی کم زوری نہیں دکھائے گا۔ ”
” اگر ہم اپنی فوج ہی سے ہاتھ دھوئے بیٹھے اور ہمارے سپاہ ہمیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ جو تم اتنے بہت سے شہروں کے خواب دیکھ رہے ہو تو یہ کیسے فتح ہوں گے ؟ وفادار ترین سپاہی بھی اب شکایت کر رہے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں۔ ”
دونوں بھائی اپنے سپہ سالاروں اور قبیلے کے بزرگوں میں گھرے ہوئے تھا، جن میں سے ایکو ایک نے چغری کی بات کی تصدیق کی۔ اس سے ہمت پا کر وہ کھڑا ہوا اور معاملہ کو یکسو کرنے کا فیصلہ کر ڈالا:
"بہت باتیں ہو لیں۔ میں اپنے آدمیوں سے جا کر کہتا ہوں کہ شہر کے ساتھ جو کرنا ہے کریں۔ اگر تم اپنے آدمیوں کو باز رکھنا چاہتے ہو تو تمھاری مرضی۔ تم اور تمھارے سپاہ الگ، میں اور میرے سپاہ الگ۔ ”
اس مخمصے میں پھنس کر، اس نے کوئی جنبش نہیں کی۔ وہ یک بارگی ان کے درمیان سے اچھل کر دور ہوا اور ایک خنجر اٹھا لیا۔
خود چغری نے بھی اس درمیان میں اپنی تلوار نیام سے باہر کر لی تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ مداخلت کریں یا، جیسا کہ رواج تھا، سلجوق بھائیوں کو اپنا حساب خون سے طے کر لینے دیں، کہ طغرل نے پکار کر کہا:
"برادر، میں تمھیں اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ میں تمھارے سپاہ کو روک نہیں سکتا، لیکن اگر تم نے انھیں اس شہر پر چھوڑ دیا تو میں یہ خنجر اپنے سینے میں اتار لوں گا۔ ”
یہ کہتے ہوئے اس نے خنجر کا قبضہ دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا اور انی کو کو نیچے اپنے سینے کی طرف کر دیا۔ اس کا بھائی قدرے ہچکچایا، لیکن بازو پھیلا کر اس کی طرف قدم بڑھا کر آیا اور دیر تک اس سے بغل گیر رہا۔ وعدہ کیا کہ اس کی مرضی کے خلاف نہیں کرے گا۔ نیشاپور کی جاں بخشی ہو گئی، لیکن وہ رمضان کے خوفِ عظیم کو کبھی نہیں بھولے گا۔
٭٭٭
ماخذ:
http: //www.urduchannel.in/samarqand-amin-maalouf/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید