FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 (مجلّہ نخلستان کے حوالے سے)

               عذرا بتول

Abstract

            The first intermediate college in Multan was established in 1926 with its name as "Multan College”. Mr. Tomlinson was appointed as its first principal. In 1923 (under the governorship of Sir Herbert Emerson) the status of the College was raised to degree level and it was renamed as Emerson College Multan. In 1932 the first literary journal of the college started its publication under the title of Nakhlistan. Initially this magazine used to be published in 3 languages i.e. (English, Urdu and Hindi). Since the partition, it is being published in two languages i.e. English and Urdu. Nakhlistan used to inspire the promising students to take interest in the Fine Arts, who contributed to the magazine their compositions in the form of prose, poetry, short story and essays. Undoubtedly there has been a great deal of contribution of Emerson College Multan in the promotion of all the creative arts. Hence the services of the journal Nakhlistan shall remain unforgettable in the history of the college and also in the history of our beloved city Multan. This article with briefly examine the contents of the available issues of Nakhlistan and its contribution towards educational and literary ethos of the region.

            پاکستان کے قدیم ترین شہر ملتان کو اس مادرِ گیتی کے دیگر بلاد پر یہ تقدّم حاصل ہے کہ یہ ہزاروں برس سے آباد چلا آ رہا ہے۔اس سلسلے میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دستیاب شواہد کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ آج سے ساڑھے پانچ ہزار سال قبل بھی ملتان ایک آباد شہر تھا۔(۱)محمّد بن قاسم کی ملتان آمد کے بعد یہ شہر عرب و ایران سے بّرِصغیر پاک و ہند میں داخل ہونے والے مختلف گروہوں کامسکن رہا۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر یہ شہر صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین کی خصوصی توجّہ کا مرکز بھی قرار پایا  اور دریائی گزرگاہ پر واقع ہونے کے باعث اسے ازمنۂ قدیم ہی سے بین الاقوامی تجارتی مرکز ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔(۲)تجّار و مشائخ کے مقامی آبادی سے میل جول کے نتیجے میں یہاں اردو زبان کی لسانی تشکیلات کا آغاز ہوا۔ ’’اردو زبان کے ابتدائی فقرے اور جملے ملتان کے صوفی شاعر غلام فرید گنج شکر ؒسے منسوب ہیں ‘‘ ۔(۳)

            اردو زبان نے، جو یہاں مقامی لہجوں اور عربی وفارسی کے ملاپ سے ابتدائی تشکیلی صورت اختیار کر رہی تھی، ترقّی کی منازل دکن، دہلی اور لکھنؤ میں طے کیں اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں رابطے کی زبان قرار پائی۔  ۷۱۲  ء میں مسلمانوں کی یہاں آمد اور اس کے بعد صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین کے ورودِ مسعود کے سبب ملتان بّرِ صغیر میں ایک روحانی ، علمی ، ادبی اور ثقافتی و تہذیبی مرکز کی صورت اختیار کر گیا۔یہاں کی درسگاہوں اور یہاں کے کتب خانوں کی شہرت چار دانگِ عالَم میں پھیل گئی (۴)اور ہزاروں کی تعداد میں تشنگانِ عِلم نے حصولِ عِلم کے لئے ملتان کا رُخ کرنا شروع کر دیا۔یہاں کے مکاتب ومدارس میں تعلیم کے علاوہ مستحق و نادار طلبہ کے لئے قیام و طعام کا انتظام و انصرام بھی کیا جاتا تھا۔(۵)ثقہ علما اور نامور بزرگانِ دِین رات دن تعلیم و تعلّم میں مصروف رہتے تھے۔علمی و اَدَبی محفلوں کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔ملتان کی عِلمی، اَدَبی اور تہذیبی زندگی کا یہ رُخ مُتعیّن کرنے میں بلاشبہ صوفیائے کرام اور علمائے عُظّام کی مساعیٔ جمیلہ ہی مُحرّکِ اوّل ثابت ہوئیں اور یہ شہر صدیوں تک اِسی علمی و روحانی حوالے سے جانا پہچانا جاتا رہا۔سچ تو یہ کہ اسے ’’مدینۃ الاولیا‘‘ کا نام بھی اسی نسبت سے دیا گیا۔

            بّرِصغیر پر برطانوی تسلّط کے بعد جب  ۸۴۹۱ء میں ملتان پر بھی انگریزوں کا قبضہ ہو گیا (۶) اور مارچ۱۸۴۹ء میں کیپٹن ہو جیمزاورستمبر۱۸۴۹ء میں کیپٹن ماریسن یہاں ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے تو اس کے فوری بعد ہی سے یہاں کے عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اصلاحات کے نام پر متعدد تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔ملتان کے عوام کو جدید تعلیمی سہو لتوں سے روشناس کرانے کے لئے یہاں انگریزی طرز کا پہلا اسکول  ۱۸۶۱ء میں حسین آگاہی کے قریب قائم ہوا۔(۷)  ۱۹۲۱ء میں یہ سکول نواں شہر منتقل ہو گیا۔ملتان میں پہلا انٹر میڈیٹ کالج  ۱۹۲۰ء میں ’’ملتان کالج ‘‘ کے نام سے قائم ہوا۔ اس کالج کے پہلے پرنسپل مسٹر ٹاملنسن مقرر ہوئے۔(۸) ۱۹۲۳ء میں (سرہربرٹ ایمرسن کی گورنری کے دَور میں ) اِس کالج کو ڈگری کا درجہ دے دیا گیا اور اِس کا نام بدل کر ’ ’ایمرسن کالج ملتان‘‘ رکھ دیا گیا۔ (۹)  ۱۹۳۲ء سے کالج کے علمی و ادبی مجلّے نخلستان کا اجرا عمل میں آیا۔(۱۰)ابتدا میں یہ مجلّہ تین زبانوں (انگریزی، اردو اور ہندی) میں شائع ہوتا تھا۔(۱۱)تقسیم کے بعدسے یہ مجلّہ تا حال انگریزی اور اردو حصوں پر مبنی چلا آتا ہے۔

             نخلستان کے چند قدیم شماروں کے مطالعے ہی سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف یہ مجلّہ علم وادب کے فروغ کے لئے کوشاں تھا بلکہ ایمرسن کالج بھی اِس علاقے میں ایسے تعلیمی اور فلاحی ادارے کا درجہ حاصل کر چکا تھا جو طلبہ کو نصابی اور ہم نصابی سر گرمیوں کے مواقع کی فراہمی کے علاوہ ایسے سماجی نوعیت کے کام بھی سرانجام دے رہا تھا جو اہلِ ملتان اور اطرافِ ملتان کے عوام کے لئے فیض رساں تھے۔ اِس نوعیت کے مفید کاموں میں سرِ فہرست ’’دیہات سدھار‘‘ پروگرام تھا، جس کے تحت ’’مبلّغینِ دیہات‘‘ کے مخصوص نام سے موسوم منتخب طلبہ ملتان کے دیہی علاقوں کے دورے کر کے وہاں کے باشندوں کو حفظانِ صحت کے اُصولوں سے آگاہی دلاتے تھے، انہیں زرعی مسائل میں مشاورت فراہم کرتے تھے اور ان کی تفریحِ طبع کے لئے ہلکے پھلکے ڈرامے بھی پیش کِیا کرتے تھے۔مؤخرالذّکرسرگرمی میں کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی نہایت فعال کردار ادا کرتی تھی۔

            ایمرسن کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بزمِ ادب کے تحت اَدَبی مباحثوں اور مقابلہ ہائے تقاریر کا اِہتمام بھی بہ کثرت کیا جاتا تھا۔کالج کا علمی و ادبی مجلّہ نخلستان اِس درسگاہ کے نوجوان طلبہ کے ادبی ذوق کی تربیت اور شعر وسخن میں دلچسپی پیدا کرنے کے علاوہ بعض باصلاحیت طلبہ کو علمی و تخلیقی نثری اصناف میں تصنیف و تالیف پر آمادہ رکھنے کی تعمیری سرگرمی کے فروغ میں بھی کامیاب رہا۔لہٰذا ملتان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں ایمرسن کالج ملتان کے مجّلے نخلستان کی خدمات ناقابلِ فرا مو ش قرار پاتی ہیں۔یہاں ہم  نخلستان کے دستیاب شماروں کا سر سر ی جائزہ لیں گے تا کہ ملتان میں اِس مجلے کی علمی و ادبی خدمات کا درست اندازہ کیا جا سکے۔

شمارہ نومبر ۱۹۳۷ء:          نگران :             ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ     ( پرنسپل)

                                    ایڈیٹرز:             محمد  رمضان صوفی (سال چہارم)  ابو ظفر حنیف(سال سوم)

                                    ضخامت  حصۂ اردو:          چالیس صفحات

            مقالہ نگار کو نخلستان  کے جو شمارے دستیاب ہوئے ہیں ، اُن میں اِس شمارے کو تاریخی تقدّم حا صل ہے۔ ادارۂ تحریر (ایڈیٹرز)نے ’’ملاحظات‘‘ کے عنوان سے کالج کی علمی ، ادبی اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کی تفصیلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ ا ن میں ۱۵ جون ۱۹۳۷ء کو کا لج میں ہیلتھ آفیسر میونسپل کمیٹی ملتان کے ’’ حفظانِ صحت کے اصول‘‘ پر لیکچر ، ۱۰/اکتوبر  ۱۹۳۷ء کو کا لج کی اسپیکر ز یونین کے الیکشن ، کا لج کے پرنسپل ، ہروفیسر ز اور طلبہ کے ہمراہ               ’’ دیہات سدھار‘‘ پروگرام کے تحت ملتان کی نوا حی بستی (بُچ) کے دورے ، کالج کے طلبہ اور دیہاتیوں کے درمیان کُشتی ، کبڈّی کے مقابلے ، دیہاتیوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں ، کھا د گڑھوں میں جمع کر نے کے طریقوں اور زراعت سے متعلق مشوروں کی فراہمی ، کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی کی طرف سے دیہاتیوں کے لئے سٹیج ڈرامے ’’دینے کی جنج ‘‘ کی پیشکش اور پذیرائی ، اکتوبر ۱۹۳۷ء کے آخری ہفتے میں کالج میں ٹینس ٹورنامنٹ کے انعقاد اور ڈپٹی کمشنر ملتان کی تقسیمِ انعامات کی تفصیلات ہیں۔ادارۂ تحریر نے  نخلستان کے مصنفین کا شکریہ اِس طرح ادا کیا ہے :

 ’’جن اصحا ب نے  نخلستان کے لئے مضامین لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے، ادارۂ تحریر ان کا بے حد ممنون ہے‘‘ ( ۱۲ )

             نخلستان کے اس یادگار تاریخی شمارے میں ہروفیسر  عبد اللطیف تپش، عکاّس اور ہروفیسر  تاج محمد  خیال کی غزلیں ، عبد القیوم (سال چہارم )کا انشائیہ ’’نو وارد‘‘ ، پانچ افسا نے : ’’ستم ظریف‘‘ از محمد  حیات خان مگھیانوی(سالِ چہارم) ’’غنچۂ نا شگفتہ‘‘ از سیّد ناظر حسین بٹالوی( سالِ چہارم)’ ’قربان گاہِ مفلس ‘‘ از سیّد اشفاقاحمد  گردیزی (سالِ سوم) ’’غریب کا دل‘ ‘ از سردار جے سنگھ( سال دوم) اور ’’بے نیاز‘‘ از سیّد امیر فاروق     (سالِ اوّل) شا مل ہیں۔ملک اللہ بخش (سالِ چہارم) کی ایک مختصر مزاحیہ تحریر ’’بخارکیسے ہوتا ہے اور کب ہوتا ہے ‘‘ ، ٹیگور کے ایک گیت کا اردو ترجمہ از حبیب اللہ( سالِ دوم) اور غلا م رسو ل( سا ل دوم )کا افسانچہ ’’سکونِ قلب ‘‘ بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔اس مجلے کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قیامِ پاکستان سے ایک دہائی قبل اس خِطّے میں اردو کی تخلیقی نثر کے لئے اولین سرمایہ عبد القیوم اور محمد  حیات خان سیال جیسے نوجوان انشائیہ وافسانہ نگاروں نے ہی فراہم کیا ہو گا لہٰذا جب تک تحقیق اس قیدِ زمانی میں افسانہ و انشائیہ کی اصناف میں کچھ اور نام سامنے نہیں لاتی ہمیں انہی دو اصحاب ہی کو یہاں ان اصناف کے ابتدائی اہلِ قلم کے طور پر لینا ہو گا۔ نثر و نظم سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

 ’’کیلاش ہر تیسرے دن اسے سیرگاہ میں پاتا اور اس سے باتیں کیا کرتا۔ اتنا طویل عرصہ محبت کہ صرف ایک مرحلے میں رہ کر وہ کچھ اُکتا سا گیا تھا اور اب اسے گویا یقین سا ہو گیا تھا کہ سوشیلا اسے کبھی بھی صاف جواب نہیں دینے کی۔ جی میں بارہا سوچا کہ اس کا کیا علاج کیا جائے مگر کچھ بن نہ آئی ان کی ملاقات کا انجام ہمیشہ ایک ہی جیسا ہوتا اور کیلاش بیم و رجا کے سے متضاد احساسات سے بھرپور واپس ہوتا۔۔۔ وہ مایوس بھی تھا اور کامیاب بھی۔ (ستم ظریف، ص ۱۶)

تیری رہِ طلب میں کھوئے گئے ہیں ایسے

دل ہم کو ڈھونڈتا ہے ہم دل کو ڈھونڈتے ہیں

(تپشؔ ، ص ۸)

شمارہ مارچ۱۹۳۸ء:                       نگران:             ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ   ( پرنسپل)

                                                ایڈیٹر:               محمد  رمضان صوفی               (سالِ چہار م)

                                                ضخامت حصّۂ اردو :          چوالیس صفحات

             ’’ملاحظات ‘‘ میں ایڈیٹر نے کالج کی علمی ، ادبی اور دیگر ہم نصابی سر گرمیوں کا ذکر کر تے ہوئے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ کو حکومت کی طرف سے ’’خاں صاحب ‘‘ کا خطاب ملنے ، بابا گورو نا نک کی زندگی پر طلبہ کے ما بین مقابلۂتقاریر، کالج میں ’’لوہڑی‘‘ کے تہوار کی تقریبات بزمِ ادب کی جانب سے سیرتِ رسولﷺپر مقابلۂ تقاریر، پمفلٹوں کی تقسیم، ۶فروری۱۹۳۸ء کالج ہال میں ڈاکٹر عنایت اللہ کے ’’مسلمانوں کی علمی ترقی‘‘ کے موضوع پر لیکچر اور ’’دیہات سُدھار‘‘ پروگرام کے تحت طلبہ کے ’’دورۂ بصیرہ‘‘ کی تفصیلات ہیں۔نخلستان کے حوالے سے محمد  رمضان صوفی لکھتے ہیں :

 ’’نخلستان کے لئے جو کچھ بھی ہم سے ہوسکا، ہم نے کیا۔اسے ا پنا خون سینچ کر سیراب کیا اور اسے سرسبز دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔‘‘ (۱۳)

شمارے کے حصہ نثر میں یوں تو سیّد مبارک علی (سالِ سوم) کا تحقیقی مضمون ’’تاریخ رقص‘‘ محمد  حیات خان کا افسانچہ ’’مسافر‘‘ عبدالرحیم خان ترین کا ’’دیوتا سے خطاب‘‘ ناظرحسین بٹالوی (سالِ چہارم) کا ’’وفادار دوست‘‘ ابو ظفر حنیف (سالِ سوم) کا ’’تیغ و قلم‘‘ قابل توجہ تحریر ہیں لیکن نورالحسن ہاشمی(سالِ سوم) کے افسانے ’’اُدھار مردہ باد‘‘ کی شان ہی اور ہے۔

 ’’نہ تو لالہ جی نے مجھے پہچانا تھا اور نہ ہی ان کی کھانسی کا مطلب پیسوں کی یاددہانی تھا۔ چور کی داڑھی میں تنکے والی بات۔ وہ کھانسے اور میں سمجھا پیسوں کا مطالبہ۔‘‘ (ص ۱۱)

شمارہ جون۱۹۳۸ء:           نگران:             ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ   ( پرنسپل)

                                    ایڈیٹرز :            نورالحسن ہاشمی ( سالِ چہار م)ابو ظفر حنیف ( سالِ چہار م)

                                                ضخامت اردو گو شہ :         اکتیس صفحات

 ’’ملاحظات ‘‘ میں ایڈیٹرز نے ایمرسن کالج میں ’’بَوٹ کلب‘‘ کے قیام اور بزمِ ادب کی فعالیت کو ہروفیسر  اشفاقاحمد  خان کا مرہونِ منّت قرار دیا ہے۔تفصیلات فراہم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’۲۸ مئی کو  بزمِ ادب کا اجلاس ہروفیسر  موصوف کی صدارت میں منعقد ہوا۔موضوع زیرِ بحث یہ تھا ’’جذبۂ وطنیت انسانی ترقّی کے منافی ہے‘‘ جو تقاریر ہوئیں ، اُن سے پتہ چلتا تھا کہ اردو میں طلبہ کافی بلند خیالات کا اظہار خوبی اور آسانی سے کر سکتے ہیں۔تقاریر کا معیار کافی بلند تھا۔‘‘ (۱۴ )

آگے چل کر نورالحسن ہاشمی نے دو ہندو طلبہ کی اردو سے دلچسپی کا ذکر یوں کیا ہے:

 ’’مسٹر مُول چند(فورتھ ائر) اورمسٹر چیتن آنند(فورتھ ائر)نے بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔آپ ہندی پڑھنے کے علاوہ اردو زبان میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔اردو خواں حضرات بھی اگر ہندی میں خاطر خواہ دلچسپی کا اظہار کرنے لگیں تو ہندوستان کا ایک بڑا مسٔلہ حل ہو سکتا ہے۔اردو اور ہندی زبانوں کی ملاوٹ سے خوبصورت ہندوستانی زبان پیدا ہوسکتی ہے اور ایک ہندوستانی کے لئے اصل زبان ہندوستانی ہی ہونی چاہئیے۔منشی پریم چند مرحوم، پنڈت سدرشن، پنڈت اندر جیت شرما، حفیظ ہوشیار پوری اور اختر شیرانی کے قیمتی رشحاتِ قلم سے ٹھیٹھ ہندوستانی زبان کی بھینی بھینی مہک آتی ہے اور یہ چیز ہمارے لئے چِراغِ راہ ثابت ہونی چاہئیے۔‘‘ ( ۱۵ )

            زیرِ نظر شمارے میں ابو ظفر حنیف اور ہروفیسر عبداللطیف تپش کی غزلیں ، چار افسانے: ’’دولت کا غرور‘‘ ازنورالحسن ہاشمی(سالِ چہارم)، ’’خوفناک رات ‘‘ از موہن لال(سال چہارم)، ’’ملاپ‘‘ از محمد  فاضل(سالِ چہارم) اور ’’پُجارن‘‘  از عبدالرحمٰن عابد، ایک مزاحیہ مضمون ’’اہمک خان کی پہلی مہم‘‘ از ابوظفر حنیف(سالِ چہارم)، ایک انشائیہ بعنوان ’’گلاب‘‘ از ٹھاکرداس (سالِ دوم) اور ایک افسانچہ ’’رقیب‘‘ از شہزادہ سیال(سالِ چہارم) شامل ہیں۔

شمارہ خزاں ۱۹۳۸ء:         نگران:             ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ   ( پرنسپل)

                                    ایڈیٹرز:             نورالحسن ہاشمی ( سالِ چہار م)ابو ظفر حنیف ( سالِ چہار م)

                                                  ضخامت اردو گو شہ:         اٹھائیس صفحات

 ’’ملاحظات‘‘ میں ابو ظفر حنیف نے یونیورسٹی ٹینس ٹورنامنٹ میں کالج ٹیم کی لاہور روانگی اور کالج یونین کے سالانہ انتخابات کے تذکرے کے بعد  نخلستان کا یوں ذکر کیا ہے:

 ’’اس مرتبہ مضامین اور نظموں کی ہمارے ہاں بہت بھرمار رہی اور کانٹ چھانٹ کا کام اتنا صبر آزما ثابت ہوا کہ پناہ بخدا۔۔۔۔۔۔۔ ہم کئی دفعہ اس نکتے کو دہرا چکے ہیں کہ نخلستان کے لئے مضامین مختصر، دلچسپ، شستہ، سلیس، رواں اور مزاحیہ رنگ میں ہونے چاہئیں۔ مضامین میں ’’ مقامی چاشنی‘‘ ہو  تو کیا ہی کہنا۔ اگر مزاحیہ نہ بھی ہوں تو کم از کم طبع زاد پاکیزہ افسانے ہوں ، ادبِ لطیف کے نمونے ہوں ، علمی چٹکلے ہوں۔اس قسم کی چیزیں ہو سکتی ہیں جو   نخلستان کو دیدہ زیب بنا سکتی ہیں۔‘‘ (۱۶)

            اس شمارے میں حسبِ سابق ہروفیسر  عبد اللطیف تپش اور ہروفیسر  تاج محمد  خیال کی غزلیں ، محمد  فاضل( سالِ چہارم) کا مزاحیہ مضمون ’’چچا چھکّن نے ٹائم پیس خریدا‘‘ ، نورالحسن ہاشمی ( سالِ چہار م) کا مزاحیہ مضمون ’’بدانی صاحب کا سائیکل‘‘ ابو ظفر حنیف ( سالِ چہار م)کا افسانہ ’’افشائے راز‘‘ محمد  انور( سالِ چہار م)کا مضمون ’’فیشن پرستی‘‘ ، سوم دت (سالِ دو م)کامکالمہ ’’بیسویں صدی کے ڈاکٹر‘‘ اور الٰہی بخش( سالِ دو م)کی ایک مختصر تحریر ’’یہ ترقی کا زمانہ ہے‘‘ شاملِ مجلّہ ہیں۔

شمارہ بہار  ۱۹۳۹ء:             نگران:             ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ  ( پرنسپل)

                                    ایڈیٹرز:             نورالحسن ہاشمی ( سالِ چہار م)ابو ظفر حنیف ( سالِ چہار م)

                                                ضخامت اردو گو شہ:         چوبیس صفحات

             ’’ملاحظات‘‘ میں ابو ظفر حنیف نے کالج کے بیالوجی کے لیکچرر ملک بالکرشن اور کالج کے دو نوجوانوں کی موت پر رنج و الم کا اظہار کیا ہے۔اس کے بعد کالج کی ٹینس ٹیم کے خالصہ کالج کو ہرانے اور ٹورنامنٹ میں اسلامیہ کالج لاہور سے ہار جانے کا تذکرہ ہے۔پھر بتایا گیا ہے کہ فٹبال کی ٹیم لاہور سے کامیاب لَوٹنے کے بعد ملتان میں لائل پور کی ٹیم سے ہار گئی۔امتحان کے بعد دریا  پر ’’بَوٹ کلب‘‘ کے  ٹورنامنٹ کے انعقاد اور کالج کی سالانہ دوڑوں میں حفیظ نامی طالبِ علم کے اوّل آنے اور بہترین اتھلیٹ دئیے جانے کی تفصیلات کے بعد بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دنوں یونین کی میٹنگ میں ’’مقامی اور فرنگی لباس ‘‘ کے موضوع پر ایک مباحثہ منعقد ہوا جس میں دھوتی والے جیت گئے۔پھر بزمِ ادب کے حوالے سے یہ نوید دی گئی ہے کہ وسطِ مارچ میں ہونے والے انگریزی ڈرامے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔آخر میں ہروفیسر  عبداللطیف تپش اور ہروفیسر  تاج محمد  خیال کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جن کا کلام نخلستان کے  بیشتر شما روں میں شائع ہوا۔

            اس شمارے میں تین مضامین: ’’عورتوں کی تعلیم اور آزادی‘‘ از مبارک علی( سالِ چہار م)، ’’اس کے پڑھنے سے بہتوں کا بھلا ہو گا‘‘ از محمد  فاضل (سالِ چہارم)، ’’کالج کے نوجوان‘‘ از علمدار حسین گیلانی، تین افسانے ’’اوہو‘‘ ازاحمد  نواز خان (سالِ چہار م) ’’انتقام کیسے لوں ‘‘ از مُول چند کتیال(سالِ چہار م)، ’’میری عید‘‘ از عبدالرحمٰن عابد(سالِ دوم) اورہروفیسر  عبداللطیف تپشؔ اور شیخ تاج محمد  خیالؔ کی شاعری اس شمارے میں شامل کی گئی ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو:

گفتگو پردہ دار ہے دل کی

خامشی عرضِ حال ہے گویا

اُن کا حُسن و جمال کیا شے ہے

میرے دل کا خیال ہے گویا

(تاج محمد خیالؔ، ص ۱۵)

شمارہ جون۱۹۴۸ء:نگران :            سعادت علی شاہ    (  پرنسپل)

جلد۸ ، شمارہ ۱      ایڈیٹر :              سیداحمد  افضل

                        ایڈیٹوریل بورڈ: سیداحمد  افضل، جمیل الدین، چوہدری نذیراحمد  ، گلزاراحمد  علوی ، سلطان رفعت

                        ضخامت اردو گو شہ:         بتیس صفحات

            یہ شمارہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے حالات و واقعات کاعکس اس میں نہایت گہرا ہے۔اداریے کے مشمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے مجلے کی اشاعت میں سال بھر کا وقفہ رہا ہے۔ اس ضمن میں مدیرِمجلّہ نے لکھا ہے کہ:

 ’’اس ایک سال (یعنی مارچ۱۹۴۷ء سے اپریل ۱۹۴۸ء تک)کی داستان نہایت طویل، الم انگیز اور جاں گداز ہے۔ چشمِ فلک نے آج تک وہ مصائب و مظالم نہیں دیکھے جو ہندوستان خصوصاً مشرقی پنجاب کے نہتّے مسلمانوں کو برداشت کرنے پڑے۔ان کی زندگی کی اقدار تباہ  و برباد کی گئیں ، لاکھوں مسلمان سکھ درندوں کے ناخنِ استبدادکاشکار ہوئے۔آبروریزی اور عصمت دری کے بہیمانہ واقعات دیکھ کر فلکِ پیر کانپ اٹھا اور زمین لرز کر رہ گئی۔آفتاب نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ان بیچارے مظلوم مسلمانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان تھے اور مسلمانوں کی نوزائیدہ سلطنت پاکستان کے حامی اور موید‘‘ (۱۷ )

            ان مصائب کے تذکرے کے بعد مدیرنخلستان نے اغیار کی ان سازشوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اس نوزائیدہ ملک کوغیرمستحکم کرنے کے لئے کیں۔پھر بتایا گیا ہے کہ پاکستان دشمن قوّتوں نے ہزار چاہا کہ اس ملک پر ایسی ضربِ کاری لگائیں جس سے یہ ملک سنبھل نہ سکے لیکن خدا کے فضل و کرم سے تمام کوششیں ناکام رہیں اورپاکستان اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔ مدیرنخلستان  لکھتے ہیں :

 ’’پاکستان بن گیا۔پاکستان سنبھل گیا۔پاکستان اپنے پاؤں پر جم کر کھڑا ہو گیا اور آج خدا کے فضل و کرم سے اپنی مدافعت اور حفاظت کے لئے اس طرح تیار ہے کہ اغیار و کُفّار جارحانہ اقدام کی جرأت نہیں کر سکتے۔زندہ باد پاکستان۔پائندہ باد پاکستان‘‘ ۔(۱۸ )

            نخلستان کے اس شمارے کے مدیر نے قیامِ پاکستان کے بعد اردو زبان کے قومی زبان قرار دئیے جانے کو پاکستان کے لئے نہایت مفید قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ مشترکہ ہندوستان میں جب بھی کسی مشترکہ زبان کاسوال پیدا ہوتا تھا، ہندو اپنی ہندی کواورسِکھ گرمکھی کو اردو پر ترجیح دینے کے لئے جِدال  و قِتال پر آمادہ ہو جاتے تھے حالانکہ ان دونوں زبانوں پر اردو کی فضیلت اظہر من الشمس ہے۔اردو زبان کو مفید ذریعۂ تعلیم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

 ’’اردو ہرقسم کے علوم و فنون کے لئے نہایت مفیداورسہل ذریعۂ تعلیم ہے۔سینکڑوں غیرمسلم جن کا دماغ تعصب کی عفونت سے قدرے پاک ہے، اردو کی برتری اور فوقیت کا اقرار کر چکے ہیں …… اس لئے اردو کے بہی خواہوں اور حامیوں کو چاہئیے کہ وہ ہر ممکن طریق سے اردو کو فروغ دیں۔کالج کے طلبہ کواس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئیے کہ ہر وقت وہ اردو بولیں ، اردو پڑھیں ، اردو لکھیں ‘‘ ۔( ۱۹)

            اداریے کے آخر میں مدیرِ شمارہ نے کالج میں منعقدہ کئی پُر لطف مشاعروں کا ذکر کرتے ہوئے جواں سال طلبہ سے یہ اُمید باندھی ہے کہ وہ شاعری میں قدیم رسم و رواج کی پابندی نہیں کریں گے بلکہ ملک وقوم کے لئے مفید شاعری کی نئی راہیں نکالیں گے۔اس شمارے میں پرنسپل کی وہ تقریر بھی شاملِ اشاعت کی گئی ہے جو انہوں نے کالج کی تقریبِ تقسیمِ اسناد( منعقدہ۲۱مئی۱۹۴۸ء)کے آخر میں کی تھی۔اس تقریر میں بھی اہلِ اسلام کے ماضی کا تجزیہ کرنے کے بعد مستقبل کے لئے فکر افروز اشارے کیے گئے ہیں۔اگر پاکستانی انہی خطوط پرسفرکرتے تو آج پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔چنداقتباسات ملاحظہ ہوں :

 ’’آج بعض مسلمان ایسے ہیں جو دو قومی نظریے اور ہندوستان کی تقسیم کو اپنی بدقسمتی کا باعث تصور کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ہندوؤں اورسِکھوں کے ساتھ رہ کر ہی مسلمان زیادہ ترقی کر سکتے تھے۔انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ اگر ہم اس جال میں پھنس جاتے تو رفتہ رفتہ ہماری تہذیب، ہمارا تمدّن اور ہمارا مذہب بالکل تباہ ہو جاتا اور ہماری وہی حالت ہوتی جو سپین میں مسلمانوں کی ہوئی تھی۔ایک خودمختار اسلامی سلطنت کے قیام کے بغیر ہندو تہذیب اور تحریکِ مذہب ہمیں جڑسے اُکھاڑ پھینکتی… آج وقت کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان مرد اور عورتیں ملک کے اعلیٰ اور تعمیری مفاد کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور جس طرح اسلامی اصول کے مطابق ہمیں باہمی معاونت کی ضرورت ہے، اسی طرح ہمارے رہنماؤں اور لیڈروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کواسلامی معیار کے مطابق  بنائیں اور اپنی زندگی کواسلامی قالب کے مطابق ڈھال کر ایک نئی روح کا احساس پیدا کریں۔‘‘ ( ۲۰)

زیرِ نظر شمارے میں سیدعلی نواز گردیزی کا ایک مکتوب بھی شامل ہے جو عمدہ ادبی نثر کا شاہکار سمجھاجا سکتا ہے۔سیدعلی نواز گردیزی ملتان کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے۔واضح رہے کہ موصوف ایمرسن کالج سے       فارغ التحصیل ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے لندن چلے گئے تھے۔ان کا یہ خط غلام ربّانی عزیز کے نام ہے۔۲۰فروری۱۹۴۸ء کو تحریر کیے جانے والے اس خط میں مہاتما گاندھی کی موت پر نہایت دلچسپ پیرائے میں یہ تبصرہ کیا گیا ہے:

 ’’مہاتما گاندھی کی موت حقیقت میں مرگِ ناگہاں تھی۔خیال میں نہ آتا تھا کہ مہاتما بھی کبھی یہ منزلت حاصل کریں گے۔مارنے والے نے جلا دیا۔یہاں لوگ ان کی نسبت ایسی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے مگر اس موت نے انہیں مغرب کی نظر میں بھی آدمِ پختہ کار بنا دیا۔‘‘ (۲۱)

اس خط میں قومی صورتِ حال پر بھی طنزیہ انداز میں خامہ فرسائی کی گئی ہے لیکن بین السطورقومی زبوں حالی پر رنج و الم کا اظہار بھی نمایاں ہے:

 ’’خدا ہمارے لوگوں کو بھی طوفاں سے آشنا کر دے ورنہ یہ ناؤ یونہی ڈوبتی معلوم ہوتی ہے۔ جب تک یہ قبروں کے تاجر ہماری سیاست پرمسلّط ہیں ، متاعِ قوم کوڑیوں کے بھاؤ بکتی رہے گی۔ ’’دلیری بے قاہری ‘‘ تو ہو چکی ، اب ’’دلیری با قاہری ‘‘ کی ضرورت ہے۔کہنے کو تو اقبال کہہ گئے کہ مغرب کے خداؤں میں بڑاسب سے وطن ہے مگر یہ نہ سوچاکہ یہ لوگ کوئی خدا تو رکھتے ہیں۔اُس کی پرستش اِن کی نماز ، اُس کی عبادت اِن کا وضو۔مگر ہم تو وہ خدا رکھتے ہیں جو ہمارے خیال میں بس ’’لعبتِ خاک ساختن‘‘ میں مصروف ہے۔‘‘ (۲۲)

            جون۱۹۴۸ء کے اس شمارے میں دوافسانے ہیں :نذیراحمد (ایم اے)کا ’’قہوہ خانے میں ‘‘ اور محمد  نادر خان خاکوانی (سالِ دوم )کا ’’سفر‘‘ ۔ان میں سید نذیراحمد (ایم اے)کا افسانہ ’’قہوہ خانے میں ‘‘ فسادات  ۱۹۴۷ء کے سلسلے کا نہایت اثر انگیز افسانہ ہے۔مرکزی کردار حمید کی ایک قہوہ خانے میں اپنے کالج کے زمانے کے ایک دوست سے اچانک ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ اپنے اس دوست کو وہ دلدوز واقعات سناتا ہے جن کا سامنا اس کے خاندان کو کرنا پڑا اور وہ تنہا بڑی مشکلوں سے گزر کر پاکستان پہنچا۔اس افسانے میں سکھوں کے حملے کو یوں موضوع بنایا گیا ہے:

 ’’جب سِکھوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو ان کے ایک گروہ نے عورتوں والے مکان پر بھی حملہ کیا اور نوجوان لڑکیوں کو پکڑنا شروع کیا۔وہ مکان تین منزلہ تھا۔بعض لڑکیاں اور عورتیں بھاگ نکلیں لیکن بعض بالائی منزل کی چھت پر چڑھ گئیں اور جب حملہ آور وہاں پہنچے تو اپنی عصمت بچانے کے لئے لڑکیوں نے چھت سے نیچے چھلانگیں لگا دیں۔میری بیوی اور بہن نے پہل کی۔فرش پختہ تھا، گرتے ہی سر پاش پاش ہو گئے۔‘‘ (۲۴)

محمد  شریف اشرف کا  مضمون ’’آپ گھبرائیں نہیں ‘‘ نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کے شہریوں میں خوف ومایوسی کے بجائے امیّد اور رجائیت پیدا کرنے کی عمدہ کاوش ہے۔اس میں ملک کے مخالفین کے اس پراپیگنڈے کا مؤثر توڑ کیا گیا ہے جو وہ یہ کہہ کر پھیلا رہے تھے کہ پاکستان زیادہ دیر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا۔مصنّف نے اس کامسکت جواب دیا ہے:

 ’’پاکستان کو دنیا کی نظروں میں ذلیل (کذا)کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک مفلس اور محتاج ملک ہے۔ اس کا مستقبل نہایت ہی تاریک ہے۔ یعنی اس قسم کی باتوں سے یہ لوگ ہماری قوم کے نوجوانوں کے حوصلے پست کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کو تعمیرِ پاکستان کا خیال تک نہ آئے۔ میرے نوجوان دوستوں کو ان لغویات سے ہرگز نہیں گھبرانا چاہئیے۔‘‘ (۲۵)

اس کے بعد مضمون نگار نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، زراعت اور زرعی پیداوار، اشیائے خام کی موجودگی، معدنیات کی فراوانی ایسے عناصرکوپاکستان کی دولت قرار دیتے ہوئے عوام الناس کی توجّہ ان ذمّہ داریوں کی طرف دلائی ہے جو نئے وطن کے آزاد شہریوں کی حیثیت میں ان پر عائد ہوتی ہیں۔لکھتے ہیں :

 ’’ایک انقلاب آ چکا ہے۔اب ذہنی انقلاب کی ضرورت ہے۔ہمیں پرانی غلامانہ ذہنیتوں کو ترک کرنا ہو گا۔اب یہ ملک آپ کاہے اور آپ مُلک کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی کوششوں سے یہ مُلک خوشحال ہو گا۔‘‘ ( ۲۶ )

شمارہ اپریل۱۹۵۴ء:                     نگران:             سید سعادت علی شاہ  (پرنسپل)

جلد ۱۴، شمارہ ۱                            مدیر:                 آصف علی شاہ (بی اے آنرز)

                                                ضخامت حصّۂ اردو:          ۴۶ صفحات

 ’’ عرضِ حال‘‘ میں مدیر نے مجلّے کے حوالے سے ان توقعات کا اظہار کیا ہے:

 ’’ہمیں کالج کے طلبہ سے اس بات کی توقع ہے کہ وہ یہاں کی باقی عمدہ روایات کو برقرار رکھیں گے۔۔۔ ہم یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مجلے کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گے۔‘‘ (۲۷)

اس شمارے کے آغاز میں ظریف(حال ابنِ حنیف)کا آثاریاتی تحقیقی مضمون ’’سندھ کی وادیوں میں ‘‘ اس شمارے کی واحد تحریر ہے جس میں وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کے مرکزی شہروں ہڑپہ اور موہنجو ڈارو کے طرزِ تعمیر، فنون، صنعت و حرفت، تجارت اور زیورات وغیرہ کی تفصیلات فراہم کی گئیں ہیں۔شمارے میں دوسوانحی مضامین ’’بہادر شاہ‘‘ از سیدعلی اختر(سالِ چہارم) ’’حجاج بن یوسف‘‘ ازتمکیناحمد  (سالِ چہارم)، آرزو چودھری کا افسانہ ’’درختوں کی گھنی چھاؤں میں ‘‘ ، ایک مختصرافسانہ ’’دوست کے نام‘‘ از ضیاء الرحمٰن(سالِ چہارم) ایک تنقیدی مضمون ’’اردو افسانہ‘‘ از ولی(سالِ چہارم)مسلمانوں کی اجتماعی حالتِ زار کے حوالے سے ایک تحریر ’’کچھ دیر نیندسے پہلے‘‘ از محمد  احسن، رحمانی بسمل مگھیانوی اور عبدالمجید خان ساجد (لائبریرین)کی غزلیں ، ا۔ع کلیم سال چہارم کی نظم بعنوان ’’جہنم‘‘ اور ایک ڈرامہ
’دل ہی تو ہے ‘‘ از مشتاقاحمد (سال چہارم) شامل ہیں۔

شمارہ جون ۱۹۵۷ء:          سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

جلد ۱۷، ِ شمارہ ۱                نگران :             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے) ، سیّد علی عباس(ایم اے)

                                    مدیر:                 محمد  شفیع(سال چہارم)

                                    جوائنٹ ایڈیٹر :   گل محمد  (سال دوم)

                                    ضخامت حصۂ اردو :          ۵۳ صفحات

 اس شمارے  میں تین تحقیقی مضامین، ’’فنِ غزل گوئی ‘‘ از ہروفیسر  ارشاداحمد  ارشد، ’’اسلامی تہذیب ‘‘ از راؤ طفیلاحمد  خان(بی اے آنرز) اور ’’علامہ اقبال اور نژادِ نو‘‘ از محمد  اعظم ترین(سالِ چہارم)عمدہ تحقیقی ہیں۔اداریہ میں ’’اشارات‘‘ کے زیرِ عنوان ایڈیٹر نے ان مضامین کے تذکرے میں لکھا ہے:

شمارۂ زیرِ نظر میں چند بلند پایہ تحقیقی مضامین پیش کئے جا رہے ہیں جو یقیناً طلبہ کی معلومات میں گراں قدر اضافہ کا باعث ہوں گے۔ ان میں طفیلاحمد  کا مضمون ’’اسلامی تہذیب‘‘ خاص طور سے قابلِ ذکر ہے… وسعتِ نظر، تنقیدی بصیرت اور مؤرخانہ ژرف نگاہی کے لحاظ سے یہ مقالہ کسی بھی نوخیز مفکّر کے لئے باعثِ فخرہوسکتا ہے۔‘‘ (۲۸)

اس کے علاوہ اس شمارے میں قمر(سالِ دوم)، ہروفیسر  عبد العزیز بٹ اور اخترحسیناحمد  پوری(سالِ دوم)کی غزلیں ، ہروفیسر ارشاد احمد ارشد کی نظمیں اور ایک افسانہ بعنوان ’’ایک اور‘‘ از حافظ اشفاقاحمد  خاں (سالِ دوم ) قابلِ ذکر ہیں۔ ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۵۶ء کو کالج کے تیس لڑکوں پر مشتمل گروپ کالج کے پرنسپل خواجہ عبدالحمید اور ہروفیسر منوّرعلی خان کی سرکردگی میں ملتان سے روہڑی، لاڑکانہ، موہنجوڈارو، ٹھٹھہ اور کراچی کے دورے پر روانہ ہوا۔اس دورے کی تفصیلات محمد  خان(سالِ اوّل )نے ’’گذشتہ تاریخی دورے پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے تحریر کی ہیں۔اس تحریر کو ملتان میں سفرنامہ نگاری کی ابتدائی کاوش قرار دیا جا سکتا ہے۔سفرنامہ نگار قیامِ کراچی کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

 ’’کراچی کے دورانِ قیام میں ہم دُخانی کشتیوں میں بیٹھ کرسمندر کا نظارہ کرتے ہوئے منوڑہ پہنچے اور ایک گھنٹے تک وہاں لہروں کا تماشا دیکھتے رہے۔‘‘ (۲۹)

مجلّے کا اختتام عبدالستّار (سالِ دوم) کے مختلف شعرا کے انتخابِ اشعار پر ہوا ہے۔

شمارہ مئی جون ۱۹۵۸ء        سرپرست:        خواجہ عبدالحمید (پرنسپل)

جلد ۱۸، شمارہ ۱                نگران:             ارشاداحمد  ارشد، سیّد علی عباس

                                    مدیر:                 محمد  شفیع (سالِ چہارم)، نائب مدیر، گل محمد  (سالِ دوم)

                                    ضخامت حصہ اردو:          ۷۴ صفحات

اس شمارے کی انفرادیت یہ ہے کہ صرف ایک ترجمہ افسانے ’’تنہا گریستن‘‘ کو چھوڑ کر (جو ہروفیسر  شاہد حمید نے کیتھرین مینسفیلڈ کا کیا ہے) تمام تحریریں طلبہ و طالبات کی ہیں جنھوں نے سائنسی و علمی مقالات کے ساتھ ساتھ تخلیقی اصنافِ نثر و نظم پر خصوصی توجہ صرف کی ہے۔ گوشۂ ’’منثورات‘‘ میں ’’کوہِ نور کی دلچسپ داستان‘‘ اور ’’ جغرافیہ کی حقانیت ‘‘ عام تاریخی و جغرافیائی اندازِ بیان کی یبوست سے الگ رہ کر تحریر میں دلچسپی پیدا کرنے کی مستحسن مساعی ہیں۔ سنجیدہ مضامین میں ’’موجودہ نظامِ تعلیم‘‘ از غلام رسول (بی۔اے آنرز، سالِ چہارم) ’’عورت‘‘ از محبوب علی (سالِ سوئم) ’’ہمارا سفر‘‘ از ملک خیر محمد  (بی۔اے فائنل) ’’فنِ شعر خوانی‘‘ از حمیداحمد  باغی (سالِ دوئم) اور ’’ریڈیو کیا ہے؟‘‘ از ایم منیر(سالِ اوّل) نے تجزیاتی انداز پر مبنی، توجہ طلب اور معلومات افزا مقالات ہیں۔ افسانوں میں منیراحمد  (سال اوّل) کا ’’جی نہیں ‘‘ خاکے کا اسلوب لئے ہوئے ہے۔ طاہر زیدی (سالِ اوّل) کی کہانی ’’ انگوٹھی‘‘ کو مدیران نے ’’ اشارات‘‘ (صفحہ ۲) میں صیقل طلب بتایا ہے۔ تخلیقی نثر میں فرید اﷲ صدیقی(سال سوم) نے ’’آہ! آصف‘‘ کے عنوان سے سانحۂ گیمبر پر اشک افشانی کی ہے۔ آغا سکندر علی (سال اوّل) نے افکار لطیف کے ’’چنے ہوئے پھول‘‘ پیش کر کے ان کی مہک سے قارئین کے دل و دماغ معطر کرنا چاہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ مدیران نے حسب سابق تنوع، ادبیت اور افادیت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر محنت سے ترتیب دیا ہے۔

            منظومات میں انوار انجم (سال اوّل) کی نظم ’’فصلِ گل‘‘ کا لب و لہجہ ایک اور اولڈ سٹوڈنٹ آنسہ شمسہ بانو کی نظم ’’خزاں کی ایک رات‘‘ کے استفسارات کا جواب دیتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اوّل الذکر کی ایک اور نظم ’’ایک ویرانے میں ہے میرے کونسی بات‘‘ بھی اسی شمارے کی زینت ہے۔ اسلم انصاری (سال سوم) کی نظم ’’کشمیر‘‘ ایک دیرینہ مسئلے کو عالمی اُفق پر محسوس کرانے کی سعی بلیغ ہے۔ اس حصے کی دیگر نظموں اور غزلوں میں ’’رونے والے یوں بھی روئے ‘‘ / ’’چراغ یاد سے روشن کیا شبِ غم کو‘‘ / ’’آج کی رات‘‘ / ’’وعدہ‘‘ / ’’گل ہائے رنگا رنگ‘‘ / ’’ہماری دسترس بھی ہے کہاں تک‘‘ اور ’’سمجھے ہو اہلِ دہر کوتم غمگسار کیوں ‘‘ لائق مطالعہ ہیں۔ دیگر لکھنے والوں میں انواراحمد  نغمی، ارشاداحمد  نسیم(اولڈ بوائز) سلطان یار خان جوگی نیز واحد علی قریشی، عقیل اشرف گورگانی، صفدر علی انور(سال سوم) محمد  اسلام چوہدری(سال دوم) اور جی ایم سرائی، مسلم بجنوری (سال اوّل) کی تخلیقات شاملِ مجلہ ہیں۔

شمارہ جنوری ۱۹۵۹ء:        سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

جلد ۱۹، شمارہ ۱                 نگران :             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے) ، ارشاداحمد  ارشد

                                    مدیر:                 محمد  اسلم انصاری(سال چہارم)

                                    ضخامت حصۂ اردو:          ۱۰۷ صفحات

شمارے کا آغاز گوشۂ ’’ذِکرِ حبیبؐ ‘‘ سے ہوتا ہے، جس میں ہروفیسر  صفدر علی کا مضمون ’’سیرتِ طیّبہ میں طلبہ کے لئے ہدایات‘‘ شامل کیا گیا ہے۔ بعد ازاں ادبی اور تحقیقی مضامین کے گوشے ’’بزمِ خیال‘‘ میں چھ نثر پارے سامنے آتے ہیں جن میں ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ اقبالیات کے سلسلے کا عمدہ مقالہ ہے جسے ہروفیسر تاج محمد  خان نے تحریر کیا ہے۔ اس مقالے کے بعد ’’حالی کا اسلوبِ نثر‘‘ ازہروفیسر افتخارحسین شاہ، ’’پاکستان میں اُردو کا مستقبل‘‘     ازاسلم انصاری، (سال چہارم)، ’’امیرخسرو‘‘ ازآغامحسن(سال دوم)، عربوں کی فتوحات سے قبل ایران میں شعر کا وجود‘‘ از جاوید افضل (سال چہارم)، ’’باغ و بہار اوراس کا مآخذ ‘‘ از محمد  یعقوب بسمل(سال سوم)بالترتیب آئے ہیں۔مجلّے میں ’’گھر گھر‘‘ کے عنوان سے جو گوشہ ترتیب دیا گیا ہے، اس میں محمد  افضل(سال چہارم)کا ’’مُلتان‘‘ اور محمد  عاقل خان (سال سوم)کا ’’مُظّفرآباد‘‘ ایسے مضامین ہیں جو کہ اِن بلادِ کہنہ کی تاریخ اور ان کے حالات پر مفصّل روشنی ڈالتے ہیں۔گوشۂ ’’انشا‘‘ میں ہروفیسر  انورنسیم کا مضمون ’’سعیٔ ناتمام‘‘ شگفتہ نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ ’’تمثیل وافسانہ‘‘ کے حصّے میں ظفر اقبالاحمد  خان(سال دوم)کا  ڈرامہ ’’رقابت‘‘ ، محمد سرور(سال چہارم)کاموپساں کے ایک افسانے کا ترجمہ بعنوان ’’فروخت‘‘ اوراحمد  رضا(سال چہارم)کی طبعزادکہانی ’’سازِ شکستہ‘‘ قابلِ توجّہ ہیں۔شعریات کے لئے ’’نوائے سرو‘‘ شکے عنوان سے اس شمارے کا ایک الگ حصہ مخصوص کیا گیا ہے۔ابتدا میں شیلے کی ایک مشہور نظم(Ode to the west wind) کا منظوم ترجمہ ازہروفیسر ارشاد احمد ارشدشاملِ اشاعت ہے۔اس کے بعد کی نظموں میں ہروفیسر جابر علی کی نظم ’’میک اپ روم میں ‘‘ ، انوار انجم(سال دوم) کی ’’پنگھٹ‘‘ سحررومانی(سالِ  اوّل)کی ’’چناب‘‘ سلطان یار خان (سال چہارم)کی ’’اُداس ہیں ‘‘ اہم ہیں۔غزلیہ حصّے میں ہروفیسر عبدالعزیز بٹ، ہروفیسر سیّد جابر علی، ہروفیسر افتخارحسین شاہ، شریف کنجاہی، سحررومانی(سال اوّل)، اسلم انصاری(سال چہارم)، عقیل اشرف (سالِ چہارم) اور ظفراقبال (سال دوم ) کی غزلیں شامل کی گئی ہیں۔

شمارہ جون۱۹۵۹ء :           سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

جلد ۱۹، شمارہ ۲                نگران:             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے)، ارشاداحمد  ارشد

                                    مدیر:                 محمد  اسلم انصاری(سال چہارم)

                                    ضخامت حصۂ اردو:          ۵۸صفحات

زیرِ نظر شمارے شروع میں دئیے گئے گوشۂ نثر میں جو علمی و فکری مقالات قارئین کی توجّہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں ، ان میں ہروفیسر بشیرالرحمٰن کا ’’غزل کی بات‘‘ ہروفیسر  افتخار حسین شاہ کا ’’شاعری میں تشبیہ واستعارہ کی ضرورت و اہمیت‘‘ اور محمد اسلم انصاری (سال چہارم)کا مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ شامل ہیں۔گوشۂ اقبالیات میں عقیل اشرف گورگانی(سالِ چہارم )کا  مضمون ’’اقبال کا انسانِ کامل‘‘ اور خالد نصیر(سالِ چہارم)کا مضمون ’’آبِ روانِ کبیر‘‘ کے بعد گوشہ انشا میں ہروفیسر  انور نسیم کی تحریر ’’ایک سہانہ سپنا ٹوٹا‘‘ اور انوار انجم(سالِ دوم)کی تحریر ’’رومانیت‘‘ کو جگہ دی گئی ہے۔ گوشۂ فسانہ میں صفدر علی انور(سالِ چہارم)کا افسانہ ’’انتقام‘‘ جب کہ ’’نگر نگر‘‘ کی ذیل میں گل محمد (سالِ دوم)کا مضمون ’’سیاحت‘‘ ، ’’نوائے سروش‘‘ میں نظموں اور غزلوں کو یکجا  کیا گیا ہے۔ابتدا میں ہروفیسر  تاج محمد  خان کی نظم  ۱۹۳۱ء میں خریدی ہوئی با ئیسکل کی مدح و ذم میں لکھی گئی ہے۔اس کے بعد آغا ارسطوجاہی کی دو نظمیں ’’کالیداس کے ساتھ‘‘ اور ’’ہمیشہ آج کی مجلس یہ یادگار رہے‘‘ ، سیّدجابرعلی کی نظم ’’نادیدہ‘‘ ، انوار انجم(سالِ دوم)کی نظم ’’تنہائی‘‘ اور جلیل حسین کے ایک گیت کے بعد حافظ لدھیانوی، عبدالعزیز بٹ، سحررومانی(سالِ اوّل)اور شہزاد انور(سالِ اوّل)کی غزلیں دی گئی ہیں۔آخر میں  انوار انجم(سالِ دوم)کے چند قطعات شامل اشاعت کیے گئے ہیں۔

شمارہ جنوری ۱۹۶۰ء:        سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

جلد ۲۰، شمارہ ۱                نگران:             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے)، ارشاداحمد  ارشد

                                    مدیر:                 خالد نصیر(سالِ چہارم)

                                    ضخامت حصۂ اردو:          ۱۲۵ صفحات

یہ شمارہ اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں  ۱۹۳۲ء کے نخلستان  میں شائع ہونے والے          تاج محمد  بلوچ(سالِ دوم)کے ایک مزاحیہ مضمون ’’مرزا شب بیدار اور ہماری سیر‘‘ کو شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ اس طالبِ علم کے نام کی کالج کے ایک معروف اہلِ قلم استاد کے نام سے مماثلت اکثر خلطِ مبحث کا باعث بنتی رہی ہے۔مذکورہ استاد جو خیال تخلص کرتے تھے، ترقّی کی منازل طے کرتے کرتے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے۔اس خلطِ مبحث کی وجہ یہ ہے کہ اس طالبِ علم نے بھی فارغ التحصیل ہو کر تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور ایمرسن کالج ہی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔چنانچہ تاج محمد  خیال اور تاج محمد  بلوچ کو دو الگ الگ شخصیتوں کے طور پر لینا چاہئے۔

            اس شمارے میں پانچ تحقیقی و تنقیدی مضامین ’’علّامہ اقبال کا نظریۂ تعلیم‘‘ ازہروفیسر ارشاد احمد ارشد، ’’تعلیم اور پاکستان‘‘ ازمحمد سلیم بھٹی(سالِ سوم) ’’ساقی نامہ‘‘ ازہروفیسر افتخارحسین شاہ ’’اُمیّد کا پیغام بر‘‘ از خالد نصیر(سالِ چہارم)، ’’بحری روئیں ‘‘ از جمیلاحمد (سالِ دوم)اور ’’کاغذ‘‘ ازاخترحسین (سالِ سوم)شائع ہوئے۔دوافسانے ’’دھرتی کے مہمان‘‘ از محمد  نصیراحمد  چیمہ(سالِ چہارم)اور ’’انعام‘‘ از شوکت حسین مرزا(سالِ چہارم)دو ڈرامے ’’کچّی دیوار‘‘ از حافظ اشفاقاحمد (سالِ چہارم)اور ’’علاج‘‘ از ظفر اقبالاحمد (سالِ سوم)، ایک مزاحیہ مضمون ’’قلمی دوستی کا چکّر‘‘ از منظور بٹالوی(سالِ سوم)اور تفریحی دورے کی روداد ’’ایک دلچسپ سفر‘‘ ازسکندرحیات چیمہ بھی اس شمارے کا اہم حصہ ہیں۔منظومات کے لئے ’’نوائے سروش‘‘ کے عنوان سے الگ گوشہ ترتیب دیا گیا ہے۔اس میں سیّد محمد  صادق نعمت، ہروفیسر افتخارحسین شاہ، سلطان الطاف علی(سالِ سوم)محمد  شریف اشرف(سالِ سوم)سحررومانی(سالِ دوم)  فیّاض تحسین(سالِ اوّل)شہزاد انور(سالِ دوم) منظور  نظر(سالِ چہارم) ، اکرم ندیم زیدی کی غزلیں اورسیّدآغاحسین ارسطوجاہی کی نظم ’’کالی داس کے ساتھ چند لمحے‘‘ ، انوار انجم(سالِ سوم) کے چار قطعات اور بشیراحمد (سالِ سوم) کی نظم ’’بانسری‘‘ شاملِ اشاعت ہیں۔

شمارہ جون   ۱۹۶۰ء:           سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

 جلد ۲۰، شمارہ ۲                نگران:             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے)،  ارشاداحمد  ارشد

                                    مدیر:                 خالد نصیر(سالِ چہارم)

                                    ضخامت حصۂ اردو:          ۱۱۴صفحات

اس شمارے میں چھ تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ان مضامین میں ہروفیسر غلامِ شبّیر کا مضمون ’’عربوں کا فنِ تاریخ نویسی‘‘ ، ہروفیسر اظہرحمیدکامضمون ’’ڈاروَن اوراس کا نظریۂ ارتقا‘‘ ، محمد  یعقوب (سال چہارم) کا ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ، محمد  جمیل بھٹی کا ’’پاکستان ترقی کی راہ پر‘‘ محمد اسلم(سالِ چہارم)کا تحقیقی مضمون ’’دوَرِ جاہلیت میں عربی شاعری‘‘ فیّاض الدیناحمد تحسین(سالِ اوّل) کا مضمون ’’تمدنی ترقّی میں مذہب کی اہمیت‘‘ اور حشمت عبّاس نقوی (سالِ چہارم) کا تحقیقی مضمون ’’اُردو شعر میں طنز و مزاح‘‘ عمدہ تحقیقی کاوش کہے جا سکتے ہیں۔ اس شمارے میں چار افسانے ہیں۔ محمد  شریف اشرف کے ’’کفرانِ نعمت ‘‘ کے بعدسیدہ آسیہ کا افسانہ  ’’گیلی لکڑیاں ‘‘ ایمرسن کالج کی کسی طالبہ کی پہلی نثری تحریر ہے  جو مجلّے کی زینت بنی۔ ریاض الحق(سالِ دوم)نے ایک انگریزی افسانے کا ترجمہ ’’اندھا‘‘ کے عنوان سے کیا ہے لیکن اصل افسانے کی تفصیلات یعنی انگریزی افسانے اور اصل مصنّف کے نام ترجمے کے ہمراہ درج نہیں کیے۔شیخ مبارکاحمد (سالِ دوم)کا افسانہ ’’نفرت‘‘ بھی اسی شمارے میں شائع ہوا ہے۔ نثری حصّے میں عبدالحکیم(سالِ دوم)کا ڈرامہ ’’غربت‘‘ طاہر زیدی(سالِ سوم)کا مزاحیہ مضمون ’’ایسے بھی ہیں کُچھ لوگ‘‘ اور غلام یزدانی(سالِ اوّل)کا احوالِ سفربعنوان ’’ساعاتِ سفر‘‘ (لاہور، کھیوڑ ہ اور لائل پور)شامل ہیں۔

            اس شمارے کے گوشۂ شعر میں چار نظمیں ، ’’ من و تُو‘‘ ازہروفیسر عرش صِدّیقی، ’’خدشہ‘‘ ازہروفیسر ارشاد احمد ارشد ’’کیا چمن میں آ گئی ہے پھر بہار‘‘ از مظہر نواز کلیم(سالِ دوم)اور ’’ماہتاب‘‘ از انوار انجم شامل کی گئیں ہیں۔شمارے کی پانچ منتخب غزلوں کے شاعر بالترتیب ہروفیسر عبدالعزیزبٹ، اکرم ندیم زیدی(سالِ سوم)سحررومانی(سالِ سوم) شہزاد انور(سالِ دوم) اور یحییٰ امجد کندیانی(سالِ اوّل)ہیں۔

شمارہ جنوری   ۱۹۶۱ء :       سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

جلد ۲۱، شمارہ ۱                نگران:             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے)، ارشاداحمد  ارشد

                                    مدیر:                 انوار انجم(سالِ چہارم)

                                    ضخامت حصہ اردو:          ۱۱۴ صفحات

اس شمارے میں نثر و نظم کے لئے مختلف عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ ’’اخلاقیات‘‘ کی ذیل میں سکندرحیات چیمہ(سالِ دوم)کی منتخب کردہ احادیث اور ’’حکمت کی باتیں ‘‘ ہیں۔ ’’اقبالیات‘‘ میں ہروفیسر افتخار حسین شاہ کا مضمون ’’علّامہ اقبال کی قرآن دوستی کا جائزہ‘‘ عمدہ تنقیدی کاوش ہے۔ ’’ادبیات کے حصّے میں نذیر پرویز(سالِ چہارم)کا مضمون ’’اُردُو غزل‘‘ ، انوار انجم کا مضمون ’’جگر اور غزل‘‘ (یومِ جگرپرپاکستان رائٹرز گلڈ کے مقابلۂ مضمون نویسی منعقدہ اکتوبر  ۱۹۶۰ء میں اوّل انعام یافتہ)، اختر علی مرتضیٰ(سالِ چہارم)کا مضمون ’’عرب کا ادب‘‘ محمد  امیر زاہد(سالِ  دوم)کا مضمون ’’فارسی نظم کے مراحل‘‘ اور سلیم بھٹی(بی اے آنرز)کا مضمون ’’پنجابی شاعری اوراحمد  راہی‘‘ کو یکجا کیا گیا ہے۔ ’’کام کی باتیں ‘‘ کے زیرِ عنوان ضیاء الحسن(سالِ دوم)کا معلوماتی مضمون ’’شہد کی مکھّی‘‘ اورعبدالستّار(سالِ چہارم)کا مضمون ’’اعشاری نظامِ زر‘‘ شامل کیے گئے ہیں۔اس مجلّے میں ’’عالمِ احساس‘‘ کے زیرِ عنوان افسانوں اور ڈراموں کو یکجائی کی صورت دی گئی ہے۔ ان میں زیڈ ایچ خواجہ (سالِ اوّل ڈگری) کا افسانہ’ ’دمِ واپسیں ‘‘ ثناء الرحمٰن (سالِ دوم) کا  ’’مجسّمہ‘‘ سعادت حسین عنبر (سالِ سوم) کا  ’’فتح یا شکست‘‘ اور سردارظفراقبالاحمد  خان(سالِ چہارم) کا  ڈرامہ’ ’فرعون کا ضمیر‘‘ شامل ہیں۔ گوشۂ ’’تیر و نشتر‘‘ میں دو طنزیہ مضامین ’’آتا ہے یاد مجھ کو‘‘ از منظور بٹالوی(بی ایس سی سالِ دوم) اور ’’دال بڑا مال‘‘ از مختاراحمد شاکریزدانی(سالِ سوم) کے بعد ’’سلکِ گوہر‘‘ کے عنوان سے ہروفیسر سیّداحمد  افضل کی نظم ’’کالج میں سالِ نو‘‘ ہروفیسر عرش صِدّیقی کی نظم ’’پیاس‘‘ ہروفیسر ارشاد احمد ارشد کی نظم ’’اُلجھن‘‘ ہروفیسر انوارانجم (سالِ چہارم)کی نظم ’’مُوڈ‘‘ سحررومانی (سالِ سوم)کی نظم ’’چاند‘‘ مسعودہاشمی(سالِ دوم)اور محمد  سلطان محمود(سالِ دوم)کے قطعات شاملِ اشاعت کیے گئے ہیں۔ ’’زمزمۂ تغزّل‘‘ میں ہروفیسر افتخار حسین شاہ، ہروفیسر یوسف خورشید، سحررومانی(سالِ سوم)، مظہر نواز کلیم(سالِ سوم)، ریاض لطیفی(سالِ سوم)شریف اشرف(سالِ چہارم)عقیل روبی(سالِ سوم) اور منظوربٹالوی(سالِ چہارم)کی غزلوں کے بعد ’’کھِلتی کلیاں ‘‘ میں کالج کے نو مشق اصحاب کی غزلوں سے انتخاب شاملِ اشاعت کیا گیا ہے۔ان نو مشق شعرا میں سلطان الطاف علی،       فیض عابد عمیق، اقبال ارشد، خالد شہرتی، سعادت حسین عنبر اور امجد کندیانی کے نام آج معروف شعرا کے طور پر لیے جاتے ہیں۔اس شمارے کے آخر میں انوار انجم اورمسعود ہاشمی کے دوہے اور گیت خاصے کی چیز ہیں۔

شمارہ جون   ۱۹۶۱ء:            سرپرست:        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

جلد ۲۱، شمارہ ۲                نگران:             ملک بشیر الرحمٰن(ایم اے) ، ارشاداحمد  ارشد

                                    مدیر :                انوار انجم(سالِ چہارم)

                                    ضخامت حصۂ اردو:          ۱۰۱صفحات

زیرِ نظر شمارے میں ’’اخلاقیات‘‘ کے عنوان کے تحت محمد اسلم مسرور(سالِ سوم) کے ’’ حرف ہائے زرّیں ‘‘ اور  محمد  جمیل بھٹی (سالِ چہارم) کا مضمون ’’قرآن اور جغرافیہ‘‘ گوشے کے آغاز میں شامل کیے گئے ہیں۔ ’’اقبالیات‘‘ کے گوشے میں ہروفیسر ارشاد احمد ارشد کا مضمون ’’افکارِ اقبال کے ارتقائی مراحل  ساقی نامہ کی روشنی میں ‘‘ ، ہروفیسر افتخارحسین شاہ کا مضمون ’’علامہ اقبال کا پیامِ تسخیرِفطرت‘‘ انوار انجم (سالِ چہارم) کا مضمون ’’اقبال اور ترقی پسندی‘‘ ، شریف اشرف(سالِ چہارم) کا مضمون ’’اقبال اور عشق‘‘ ، اکرم ندیم زیدی (سالِ چہارم) کا مضمون ’’اقبال اور اردو غزل ‘‘ شامل ہیں۔ گوشۂ ’’بیادِفرید‘‘ میں ہروفیسر ارشاداحمد  ارشد کا تحقیقی مضمون ’’ابن العربی،      شیخاحمد سرہندی اور خواجہ فرید‘‘ ، حصۂ ’’بیادِ حشر‘‘ میں طاہر زیدی(سالِ چہارم) کا مضمون ’’آغا حشر بحیثیت شاعر‘‘ ، گوشۂ ’’طنز و مزاح میں طفیل کمالوی کا ’’فن کار‘‘ ، منظور بٹالوی (سالِ چہارم) کا ’’ہوتا ہے شب و روز تماشامر ے آگے‘‘ اہم ہیں۔ عبد الحفیظ(سالِ چہارم) کا ’’نیا جنم‘‘ جو کہ سفرِ  لاہور کی روداد ہے، مجلّے کے حصّۂ ’’سیربین‘‘ کی زینت بنائی گئی ہے۔گوشۂ ’’معلومات‘‘ میں شامل غلام یزدانی(سالِ دوم)کے مضمون ’’پانی کی دنیا‘‘ کے بعد تین افسانے ’’بیوی‘‘ (ترجمہ )ازمحمد اسلم مسرور(سالِ سوم) ’’نقلی ہار‘‘ (ترجمہ)از صراحت جمیل (سالِ اوّل)، ’’سندرسپنے‘‘ از ریاض مرزا(سالِ سوم)نثری ادب کا حصّہ ہیں۔منظومات میں خواجہ فریدؒ کی ایک کافی کا ترجمہ ہروفیسر ارشاد احمد ارشد نے ’’سفر‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ایک انگریزی نظم(Lover,s resolution)کا ترجمہ ہروفیسر  سیداحمد  افضل نے ’’عزمِ عاشق‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔اس کے بعدہروفیسر عرش صِدیقی کی نظم ’’بازگشت‘‘ ہروفیسر  ارشاد احمد ارشد کی نظم ’’دستک‘‘ ، انوار انجم(سالِ چہارم )کی نظم ’’شاعر‘‘ ، سحررومانی کی نظم ’’خواہش‘‘ ، امجد کندیانی (سالِ دوم)کی نظم ’’عید کے چاند‘‘ شاملِ اشاعت ہیں۔سعادت حسین عنبر(سالِ دوم)کے ایک قطعے کے بعد دی گئی غزلوں میں صابر دہلوی، انوار انجم(سالِ چہارم )، سحررومانی(سالِ سوم)، عقیل روبی(سالِ سوم)، سعادت حسین عنبر(سالِ سوم )، اکرم ندیم زیدی اور منظور بٹالوی کا غزلیہ کلام ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد ’’لخت لخت‘‘ کا عنوان دے کر مجلّے کے لئے موصولہ چند گوارا اشعار کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ان میں فضل کریم افضل، ریاض لطیفی، منظور بٹالوی، سعادت حسین عنبر، خالد شہرتی اور امجد کندیانی کے اشعار شامل ہیں۔

شمارہ جون   ۱۹۶۲ء:           سرپرست :        خواجہ عبدالحمید(پرنسپل)

 جلد ۲۲، شمارہ ۱                 نگران:             ملک بشیر الرحمٰن، ارشاد احمد ارشد

                                    مدیر:                 سحر رومانی(سالِ چہارم)

                                    ضخامت حصۂ اردو:          ۹۱صفحات

            اس شمارے کے آغاز میں نو مضامین ہیں۔ان میں ہروفیسر  افتخارحسین شاہ کا ’’پریم چند کی خدماتِ نثرِ اردو‘‘ ہروفیسر  محمد  نواز کا ’’انسانِ کامل‘‘ فیاض الدین تحسین (سالِ سوم)کا ’’انسانی معاشرت کی کَل سائنس اور فلسفہ سے نہیں بلکہ جذبات سے چل رہی ہے‘‘ امجد کندیانی(سالِ سوم)کا ’’کرشن چندر کا فن ‘‘ محمد  سلیم جہانگیر(سالِ دوم)کا ’’مولانا حالی کی ادبی خدمات‘‘ ملک واحد بخش صابر(سالِ چہارم)کا ’’عرب شاعر ی میں وصف نگاری و ندرتِ تشبیہ ‘‘ اے دی ملک (سالِ اول)کا ’’تاریخ‘‘ اور محمد  جمیل بھٹی(سالِ چہارم)کا ’’اعتراض اور جواب‘‘ (اسلام اور مشرکین کے حوالے سے)شامل ہیں۔ ’’رپورتاژ‘‘ میں ہروفیسر  ارشاد احمد ارشد نے لاہور میں منعقدہ اُردوتدریس کانفرنس کی روداد لکھی ہے۔شمارے میں شامل دوافسانوں میں سے پہلاسعادت حسین عنبر کا ’’کورا کاغذ‘‘ اوردوسراعقیل روبی کا ’’جوگندرسنگھ‘‘ ہے۔ ڈرامہ ’’انگوٹھی‘‘ بشیر احمد خان  کا تحریر کردہ ہے۔ نظموں میں ہروفیسر عرش صدیقی کی ’’کدھر جائے اولادِ آدم مسیحا‘‘ سحررومانی کی ’’راج محل‘‘ یحییٰ امجد کی ’’چمن کی یاد‘‘ اور مسعودہاشمی کی ’’احساس‘‘ شاملِ اشاعت ہیں۔ رابرٹ براؤننگ کی مشہور نظم (The Patriot )کا ترجمہ ہروفیسر  ارشاد احمد ارشد نے ’’وطن پرست ‘‘ کے عنوان سے اور سلمان قریشی کی نظم "Breaking the Mirror” کا آزاد ترجمہ سحررومانی نے ’’شکستِ شیشہ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہروفیسر عرش صدیقی، سحررومانی، عقیل روبی ، اقبال ارشد، نثار خاور، سعادت حسین عنبر کی غزلوں کے بعد عقیل روبی کا ایک گیت اور گوشۂ’ ’لخت لخت‘‘ میں کالج کے جن نو مشق شعرا کی غزلوں کا انتخاب کیا گیا ہے، ان میں یحییٰ امجد، ریاض لطیفی ، مسعودہاشمی، نوازش احمر، فقیر محمد جاوید، مقتدر قریشی اور ممتاز علی ممتاز شامل ہیں۔ مجلّے کے انگریزی حصّے میں ہروفیسر  حمید احمد خان کے اس خطبے کا اردو متن دیا گیا ہے جو انہوں نے تقریبِ عطائے اسنادوانعامات کے موقع پر۸؍ اپریل۱۹۶۲ء کو دیا تھا۔

            ۱۹۶۳ء میں ایمرسن کالج کا نام بدل کر ’’گورنمنٹ کالج ملتان کر دیا گیا۔کالج کا مجلّہ نخلستان ہی کے نام سے آج بھی جاری ہے، تاہم اس مقالے میں مجلّے کے ایمرسن کالج دَور کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایمرسن کالج کے گورنمنٹ کالج ملتان ہو جانے کے ابتدائی بارہ برسوں میں کالج کے اس مجلّے کا یہی علمی، ادبی اور تحقیقی مزاج و معیار مثالی منہاج پراُستوار رہا ہے۔ اس دورانیے میں جس پر ابھی تحقیق کی ضرورت ہے، بہت سے اساتذہ اور طلبہ نے ’’نخلستان‘‘ کے ذریعے علمی و ادبی اُفق پر طلوع کیا اور ان میں سے بعض آگے چل کر انفرادیت سے ہم کنار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس دورانیے کے اہم ناموں میں فرخ درانی، ریاض زیدی، سلیم اختر، شبنم نشاط، اعجاز آصف، نوشابہ نرگس، اقبال ظہیر تاشی، انوار احمد ، نسیم قریشی، خالدہ نزہت، خیر محمد  بدھ، اے آر ضیاء، عبدالحکیم مصباح، شاہد زبیر، سیّد ضیاء الحسن، اظہار گیلانی، کوثر افتخار، شاہ پرویز، ذوالفقار حسین، افتخار حسین طارق، سلیم ہوشیارپوری، آصف رسول، عزیزالرحمن، نیر ضیاء، اے بی اشرف، محسن نقوی، اصغر عابد، نذیر احمد ، انعام الٰہی فاروقی، صادق صابر، عابد صدیق، طاہر فاروقی، اصغر ندیم سیّد، اﷲ نواز درانی، تنویر اقبال، محمد  افضال، منظر گیلانی، زاہد حسین زاہد، گوہر شبنم، فاروق تسنیم، شاہد مبشر، صفدر حسین صفدر، ضیاء شبنمی، عقیل حیدر، مسعود کاظمی، اسلم ادیب، شاہد راحیل، لطیف الزمان خان، خلیل صدیقی، اصغر علی شاہ، صفدر سلیم سیال، طارق جامی، رؤف شیخ، شاہدہ ملک، خالد شیرازی، فیروز طاہر، شفیق احمد  آتش، ترنم جلالی، سعید ایاز ملک، نوشین جمیل، فاروق مشہدی، وحید کمال، شاہد جمال اور نصیرالدین ہمایوں شامل ہیں۔ چنانچہ نئے محققین کے لئے اس روشن عہد پر الگ سے کام کی گنجائش موجود ہے۔

٭٭٭

 

حواشی و حوالہ جات

۱۔        ابنِ حنیف، سات دریاؤں کی سرزمین (لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز۱۹۸۵ء)۲۲۵

۲۔       ابنِ حنیف، سات دریاؤں کی سرزمین  ، ۲۲۳

۳۔       محمد شکیل پتافی، بہاول پور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے قدیم اردو شعرا  (غیر مطبوعہ تحقیقی مقالہ برائے ایم فِل اردو(سال۱۹۹۵ء)، علّامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد)۱۶۸

۴۔       عبدالرحمٰن، منشی، آئینۂ ملتان(ملتان، اشرف المعارف ، اوّل )۲۰۹

۵۔       نور احمد فریدی، تاریخِ ملتان(ملتان، قصرالادب، ج۱، اوّل،  ۱۹۷۱ء)۱۴۷

۶۔       اکرام الحق ، شیخ، ارضِ ملتان(ملتان، شعبۂ نشر و اشاعت ’’الاکرام‘‘ ، اوّل  ۱۹۷۲ء)۹۵

۷۔       اکرام الحق ، شیخ، ارضِ ملتان، ۹۶

۸۔       عبدالمجیدساجد، ’’رودادِ چمن‘‘ نخلستان ( ملتان، گورنمنٹ کالج ، پاکستان گولڈن جوبلی

            نمبر، ۹۷۔  ۱۹۹۶ء)۱۲۲

۹۔        اکرام الحق ، شیخ، ارضِ ملتان، ۱۱۵

۱۰۔      ڈاکٹر اسلم انصاری سے مقالہ نگار کا مکالمہ۱۹مارچ۲۰۰۲ء

۱۱۔       اس دورانیے کے اکّا دکا شمارے ایسے بھی ہیں جو صرف انگریزی حصّے پر مشتمل ہیں۔

۱۲۔      محمد رمضان صوفی ، ابو ظفر حنیف (مدیران) نخلستان(ایمرسن کالج ملتان ، شمارہ نومبر۱۹۳۷ء) ۷

۱۳۔      محمد رمضان صوفی ، ’’ملاحظات‘‘ نخلستان( شمارہ مارچ۱۹۳۸ء) ۳

۱۴۔      نورالحسن ہاشمی، ’’ملاحظات‘‘ نخلستان(  شمارہ جون۱۹۳۸ء)۴

۱۵۔      حوالۂ مذکور۴

۱۶۔      ابو ظفر حنیف ، ’’ملاحظات‘‘ نخلستان ( شمارہ خزاں ۱۹۳۸ء )۳، ۴

۱۷۔     سید احمد افضل، (مدیر) ’’اداریہ‘‘ نخلستان (شمارہ جون۱۹۴۸ء) ۲

۱۸۔      حوالۂ مذکور، ۲

۱۹۔      حوالۂ مذکور، ۳

۲۰۔     سعادت علی شاہ، پرنسپل ’’تقریبِ تقسیمِ اسناد سے خطاب‘‘ نخلستان ( شمارۂ مذکور) ۶، ۷

۲۱۔      سید علی نواز گردیزی، ’’مکتوب بنا م ہروفیسر غلام ربّانی عزیز‘‘ نخلستان ( شمارہ  مذکور) ۸

۲۲۔     حوالۂ مذکور، ۷

۲۳۔     ممتازمحمد خان، ’’مجاہدین کشمیر کے نام‘‘ نخلستان (شمارہ  مذکور) ۲۹

۲۴۔     نذیر احمد ، ایم اے، ’’قہوہ خانے میں ‘‘ نخلستان (شمارۂ مذکور) ۱۸

۲۵۔     محمد شریف اشرف، ’’آپ گھبرائیں نہیں ‘‘ نخلستان(شمارۂ مذکور)۲۳

 ۲۶۔    حوالۂ مذکور، ۲۶

۲۷۔    آصف علی شاہ، ’’عرضِ حال‘‘ نخلستان(شمارہ اپریل ۱۹۵۴ء)۲

۲۸۔      محمد شفیع، (مدیر) ’’اشارات‘‘ نخلستان(شمارہ جون۱۹۵۷ء)۳

۲۹۔      محمد خان، (سالِ اوّل) ’’گذشتہ تاریخی دورے پر ایک نظر‘‘ نخلستان(شمارۂ مذکور)۵۱

٭٭٭

ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید