FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ٹُک ٹُک دیدم

 

 

سعید نقوی

 

ماخذ: کتاب ایپ

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ٹک ٹک دیدم

 

بڑا گھنٹا گھر شہر کے بالکل وسط میں تھا۔ شروع میں شاید اس کا رنگ سرخ رہا ہو مگر اب وقت کی گرد نے اسے ایک ایسا رنگ دے دیا تھا جو صرف وقت ہی چن سکتا ہے۔ بلند اتنا کہ میلوں دور سے نظر آ جائے۔ چوکور مینار کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی ہر سمت پر لگی گھڑی بلکہ گھڑیال ہی کہیئے، بھی جہازی تھے۔ اہلیانِ شہر کے لئے فخر کی بات تھی کہ کوئی سو سالہ پرانے اس گھنٹا گھر کی سوئیاں کبھی نہیں رکی تھیں۔ اور پابند ایسی کی جب چاہیں سوئیاں ملا لیں۔ کہنے والے تو یہاں تک بتاتے ہیں کہ جب گورے یہاں سے گئے تو انہوں نے بی بی سی کی سوئیاں اس سے ملا لی تھیں اور اب بھی ہر سال موازنہ کر لیتے ہیں کہ کہیں ان کا وقت پیچھے نہ رہ جائے۔ حالانکہ ذرا سوچئیے اس بات کا کتنا امکان ہے۔ تو خیر، اس گھنٹا گھر کے اطراف کی عمارتیں بھی ذرا جگہ چھوڑ کر تعمیر کی گئی تھیں۔ شہر کی شان و شوکت بڑھانے لئے کچھ ایسی پلاننگ کی گئی تھی کہ کسی بھی وقت یہاں ہزاروں شہری جمع ہو سکتے ہیں یوں اسے مرکزیت سی حاصل ہو گئی تھی۔ آپ اسے قاہرہ کا طاہری چوک یا چین کا تیانامن چوک کہہ سکتے ہیں، لیکن جو تاریخ زمین کے ان گول ٹکڑوں میں لکھی گئی تھی یہ گھنٹا گھر چوک ہنوز اس سے محروم تھا۔ حالانکہ لوگ اکثر آس لگا لیتے تھے کہ بھئی چوک تو مل گیا ہے اب ذرا سی ہی آنچ کی کسر باقی ہے۔ نادان یہ نہیں جانتے کہ اس ذرا سی آنچ کو خون جگر درکار ہوتا ہے۔

عموماً گھنٹا گھر چوک پر چند درجن افراد موجود ہوتے تھے۔ چند ہاکر حضرات، کچھ بے فکرے، اور کچھ لوگ اپنی جلدی میں ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف نکلنے کی فکر میں۔ روز کے معمول کے بر خلاف اس وقت گھنٹا گھر چوک شہریوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ دائرے کی شکل کے چوک میں لوگ قطار اندر قطار کھڑے تھے۔ دائرے کے اندرونی حصے میں جو لوگ تھے وہ سب ٹکٹکی لگائے بڑے گھڑیال کو دیکھ رہے تھے، جیسے ابھی اس میں سے کوئی پرندہ نکل کر تبدیلی کی نوید دے گا۔ جب کہ بیرونی دائروں میں جمع لوگ اندرونی دائرے والوں کی پشت پر نظریں جمائے تھے، کہ اس بات کا علم کسی کو نہیں تھا کہ یہ سب لوگ یہاں کیوں جمع ہیں۔ یہ بھی عام سے انسانوں کا اجتماع تھا اور وہی انسانی نفسیات یہاں بھی کارگر تھی۔ چند لوگ ٹکٹکی باندھے ایک سمت میں دیکھنے لگیں تو تھوڑی سی دیر میں ایک اجتماعی تجسس وہاں جمع ہو کر اسی سمت دیکھنے لگتا ہے۔ بلکہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو سب مل کر آسمان پر تلوار دیکھ سکتے ہیں، گزرتے رتھ بھی دیکھے گئے ہیں اور چرخہ کاٹتی بڑھیا بھی، یہ سب دیکھنے والوں کے حسنِ ظن پر ہے اور کچھ اس ضرورت پر کہ آسمان پر اس وقت کس معجزے کے نظر آنے کی ضرورت ہے۔ کچھ بیو وقوف اسے اجتماعی نظر بندی کا نام دیتے ہیں مگر کہنے والوں کی زبان کس نے روکی ہے اور ہمارے ہاں تو ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں۔

یہ گھنٹا چوک میری روزانہ کی گزرگاہ ہے۔ یہاں سے کوئی چوتھائی میل کے فاصلے پر ایک بلند قامت عمارت کی بائیسویں منزل پر ایک دفتر میں کام کرتا ہوں۔ دوپہر کے کھانے کے لئے تقریباً روز ہی یہاں آ جاتا۔ اور گھنٹا گھر چورا ہے کے اطراف کسی ریسٹورانٹ میں کھانا کھا لیتا۔ باہر کی تازہ ہوا مل جاتی اور ذرا چہل قدمی بھی ہو جاتی۔ آج جو یہاں پہنچا ہوں تو یہ چوراہا ایسا کھچا کھچ بھرا ہوا ہے کہ دوسری طرف پہنچنا نا ممکن ہو گیا۔

‘‘کیا قصہ ہے بھائی یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہیں ‘‘  میں نے اپنے سامنے کھڑے ایک شخص سے دریافت کیا۔

‘‘پتہ نہیں میں خود بھی یہی معلوم کرنے کے لئے رک گیا ہوں ‘‘ ۔

جب معلوم نہیں تو یہاں رک کر کیوں اپنا وقت برباد کر رہے ہو۔ میں نے اپنا سوال زبان تک نہیں آنے دیا۔ ہمارے شہر میں لوگوں کے پاس ایک ہی چیز کی فراوانی ہے اور وہ ہے وقت۔ دن کے کسی بھی وقت اگر آپ اپنے گھر، دکان یا دفترسے باہر نکلیں تو ایسے سینکڑوں لوگ جنہیں کسی کام میں مصروف ہونا چاہئیے تھا، آپ کو بیکار اور بے مصرف بیٹھے، کھڑے یا لیٹے ملیں گے۔ وقت ان کے دائیں بائیں تیزی سے گزر رہا ہو گا، مگر وقت کی پر واہ وہی کرے جس کی پرواہ خود وقت کر رہا ہو۔

‘‘ارے صاحب لگتا ہے گھنٹا گھر خراب ہو گیا ہے، وقت رک گیا ہے ‘‘  میرے دائیں ہاتھ پر موجود ایک صاحب بولے

‘‘وقت رک گیا ہے، کیا مطلب؟‘‘

‘‘یہی کئی کئی گھنٹوں سے یہ گھنٹا گھر کام نہیں کر رہا‘‘

‘‘ارے تو گھنٹا گھر خراب ہو گیا ہو گا، انتظامیہ ٹھیک کروا دے گی، یہاں لوگوں کو تو بس مجمع لگانے کے لئے بہانہ چاہئیے ‘‘ ۔

‘‘نہیں جناب گھنٹا گھر خراب نہیں ہوا۔ وقت رک گیا ہے، شہر کی تمام گھڑیاں رک گئی ہیں۔ وقت آگے نہیں بڑھ رہا‘‘

‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘  میری نظر فوراً اپنی کلائی پر پڑی۔ واقعی میری گھڑی رکی ہوئی تھی اور دو گھنٹے پہلے کا وقت بتا رہی تھی۔

‘‘لیکن‘‘

‘‘لیکن کیا؟‘‘

‘‘لیکن وقت رک گیا ہے کا مطلب ہے۔ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ رک گیا ہے تو رک جائے ؟‘‘  میرے سامنے کھڑے ایک شخص نے الجھ کر کہا۔

‘‘یہی کہ اب ہم انسانی اور تہذیبی تاریخ میں جمود کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب تک وقت کا پہئیہ دوبارہ اپنی گردش شروع نہیں کرے گا، ہم تاریخ کے اسی گوشے میں پھنسے رہیں گے !‘‘

‘‘لیکن میرا کیا ہو گا؟ میری تو آج چھ بجے شادی ہے۔ گھڑی کی سوئی تو بارہ پرہی اٹکی ہوئی ہے۔ بارہ بج کر ایک سیکنڈ ہونے سے انکاری ہے۔ اگر چھ نہیں بجیں گے تو میری شادی کیسے ہو گی‘‘  ایک طرف سے روہانسی آواز آئی۔

‘‘ارے میاں اسے عطیۂ خداوندی سمجھو کہ تمھیں بیوی سے بچا لیا ‘‘ کسی بیوی جلے کی آواز آئی۔

‘‘اور مجھے اپنے بچوں کو چار بجے ہی اسکول سے لینا ہے۔ کیا وہ اسکول میں ہی رہیں گے، نہ چار بجے گا نہ بچوں کو اسکول سے لے سکوں گا۔ ‘‘  ایک اور آواز ابھری۔ اب سارے مجمع کو پتہ چل گیا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ہر طرف سے قسم قسم کی بولیاں سنائی دے رہیں تھیں۔ خلقت کو سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وقت نے ہمسفری سے انکار کر دیا تو وہ تاریخ کے اس موڑ سے کیسے آگے بڑھیں گے۔

‘‘یہ وقت رک گیا ہے یا ہم اس کی مخالف سمت میں جا رہے ہیں ‘‘ کسی دیوانے نے آگ لگائی۔

‘‘کیا مطلب ہم پیچھے کی سمت کیسے لوٹ سکتے ہیں ؟‘‘

‘‘بھئی اگر وقت ایک گھنٹہ آگے جا رہا ہو، لیکن ہم اس سے ایک گھنٹہ پیچھے، تو ان دونوں سمتوں کی کشمکش میں ہمیں تو یہی لگے گا کہ وقت جیسے رک گیا ہو‘‘  میرے دائیں جانب جو صاحب کھڑے تھے وہ کافی ذہین معلوم ہوتے تھے۔

‘‘یعنی وقت کو دوبارہ چلانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم واپسی کا سفر روک دیں ‘‘  کسی اور فرزانے نے آواز لگائی۔

اب چورا ہے پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، جتنے منہ اتنے مشورے۔ کہنا تو یہ چاہئیے کہ جتنے ذہن اتنے مشورے مگر اس کے لئے ذہن اور زبان میں ربط درکار ہو گا جو کچھ اتنا عام بھی نہیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ اگر وقت رک گیا ہے تو مجھے اب بھوک کیوں محسوس ہو رہی ہے، صبح کا کھایا ہوا کھانا معدے میں ہی رک کیوں نہیں گیا۔ شاید بھوک وقت کی قید سے آزاد ہے۔ بھوک نے کتنی ہی بار ثابت کیا ہے کہ وہ زمان و مکان، جن اور عمر کی قید سے بالاتر ہے۔ میں نے بے چارگی سے پیٹ پر ہاتھ پھیرا، اس جمِ غفیر کو چیر کر اس وقت کسی غذا کی توقع رکھنا معجزے سے کم نہ ہوتا۔ میں نے بیچارگی سے کندھے اچکائے۔ وقت سے انسان کا رشتہ تو بڑے بڑے فلسفیوں کی سمجھ میں نہیں آیا، میں کیوں اپنے آپ کو ہلکان کر رہا ہوں، میں نے اپنے آپ کو سمجھالیا۔ مجھے اب نوکری کے لئے واپس لوٹنا چاہئیے۔ لیکن وقت اگر تھم گیا ہے تو مجھے واپس جانے کی کیا ضرورت ہے، جس وقت میں کھانے کے وقفے کے لئے نکلا تھا، وقت تو اس سے آگے بڑھا ہی نہیں ہے۔ جب جانے کا وقت آئے گا تو چلا جاؤں گا اور جانے کا وقت اب آئے گا نہیں۔ لیکن اگر مینیجر کی گھڑی چل رہی ہوئی تو کیا ہو گا؟

‘‘ارے جناب یہ زمان و مکان کا مسئلہ تو آئن اسٹائن سے بھی حل نہیں ہوا تھا۔ آپ کیوں فکر کر رہے ہیں، سارے شہر کی گھڑیاں بند ہیں ‘‘  میرے برابر میں کھڑے ہوئے صاحب واقعی بہت ذہین تھے، مجھے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی جانب بار بار دیکھنے سے وہ میری بے چینی کو بھانپ گئے تھے۔ گھنٹا گھر کے اطراف مجمع اب زمین پر بیٹھ گیا تھا، لگتا تھا سارا شہر امڈ آیا ہے۔

‘‘ان لوگوں کو ویسے بھی کہاں جانا ہے ؟‘‘  میرے پڑوسی نے زہر خند لہجے میں طنز کیا۔  ‘‘گھر گئے تو بھوک منہ پھاڑے کھڑی ہو گی۔ ان کے لئے وقت کا منجمد ہونا تو گویا آسمانی تحفہ ہے۔ شام ہو گی تب ہی تو اگلے وقت کی بھوک کا انتظام کرنا ہو گا۔ آنے والے کل کی مصیبتوں اور صعوبتوں سے بھی محفوظ ہو گئے۔ ‘‘

میں اس قنوطیت کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔

‘‘ارے صاحب یہ کیا بات ہوئی۔ آنے والے کل میں کسی کی شادی، کسی کی پیدائش، کسی کی نئی نوکری، کسی کی پہلی تنخواہ، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ کل تو اتنا دلفریب، اتنا پر امید،

اتنا پر کشش ہوتا ہے۔ کل کی آس ہی تو ہمیں رواں رکھتی ہے۔ ‘‘  میں نے احتجاج کیا۔

‘‘میاں، کیا مریخ سے اترے ہو؟‘‘ میرا پڑوسی اب مڑ کر پوری طرح میری طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

‘‘ کیا مطلب؟‘‘

‘‘بھائی، بہت سیدھا سادھا سا سوال ہے، کیا مریخ سے اترے ہو؟‘‘

‘‘ارے مریخ سے کیوں اترتا؟ اسی شہر کی پیدائش ہے میری۔لیکن اس شہر میں بھی لوگ کل کے انتظار میں جیتے ہیں کہ شاید، شاید۔۔ ‘‘ میری آواز میں ناراضگی تھی

‘‘تو کیا اس شہر کے کسی کنویں میں رہائش ہے آپ کی جو اس قسم کی گفتگو کر رہے ہو۔ مستقبل میں بہتری۔ لگتا ہے تمھارے گھر میں لغت نہیں۔ جا کر دیکھ لینا۔ م سے مستقبل ضرور ہوتا ہے لیکن ب سے بہتری نہیں۔ ‘‘ ۔ پھر وہ اچانک ہنس پڑا۔  ‘‘تم یقیناً گرامر اسکول میں پڑھے ہو گے، مجھے یاد ہے آکسفورڈ کی انگریزی لغت میں ایف سے فیوچر اور بی سے بیٹرمینٹ کے الفاظ موجود ہیں۔ ‘‘

میں منہ کھولے پڑوسی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اسے کیسے پتہ چلا کہ میں گرامر اسکول میں پڑھا ہوں۔

‘‘ارے میاں بقراط اب اس وقت کو کیسے چلایا جائے ؟‘‘ بہت سے لوگ اب ہماری گفتگو کی جانب متوجہ ہو گئے تھے، ان ہی میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں آواز اٹھائی۔ باقی مجمع تو اب بھی گھنٹا گھر کی جانب متوجہ تھا لیکن ہمارے اطراف میں ایک بڑھتا ہوا مجمع ہم دونوں کے ساتھ گفتگو میں شریک ہو گیا تھا۔

‘‘بھئی جس خدا نے ہر چیز بنائی ہے، اسی نے وقت بھی۔ استخارہ کر لیں وہی یقیناً راہ بھی سجھا دے گا۔ ‘‘ کسی صاحب نے صلاح دی۔

میرے پڑوس میں کھڑے شخص کی حیثیت اب ایک لیڈر کی سی ہو گئی تھی۔ لوگ جو جملے اچھال رہے تھے، سوال کر رہے تھے، حل بتا رہے تھے، ان سب کا رخ خود بخود اس کی طرف ہو گیا تھا۔ وہ بھی اس غیر متوقع سر افرازی پر بہت خوش نظر آتا تھا۔ جو ساری عمر محنت کر کے لیڈری کماتے ہیں ان کی مسرت تو چھپائے نہیں چھپتی، یہاں تو حادثاتاً مل گئی تھی۔ اس نے ایک غیر محسوس طریقے سے یہ مرکزیت قبول کر لی تھی۔ اس نے اس جملے کا جواب نہیں دیا صرف مسکرا کر نفی میں سر ہلا دیا۔

‘‘کیا مطلب آپ نفی میں کیوں سر ہلا رہے ہیں، کیا خدا کے پاس اس کا حل نہیں ؟ کسی اور سمت سے آواز آئی۔

‘‘بھئی دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں خدا بھی نہیں چھیڑتا، ایک تاریخ اور دوسرا وقت‘‘  میں اپنے پڑوسی کی مدد کو آیا۔

‘‘نہیں چھیڑتا یا نہیں چھیڑ سکتا‘‘  کہیں سے چیلنج کیا گیا۔

اب لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہماری طرف متوجہ ہو چکی تھی۔

‘‘یہ آپ کی ذہنی کیمیا پر منحصر ہے ‘‘  میں نے اطمینان سے جواب دیا۔ میں اس خطرے سے بے خبر تھا جو مجھے گھیر رہا تھا۔ اپنے لئے یہ خندق کھودتے دیکھ کر، میرا پڑوسی جیسے سرگوشی میں بولا:

‘‘میاں مریخ سے نہیں تو باہر سے ضرور آئے ہو۔ ذرا دور ہٹ کے کھڑے ہو ورنہ اپنے ساتھ مجھے بھی مروا دو گے۔ اب اپنی یہ سیکولر چونچ بند رکھنا اور مجمعے کے کسی سوال کا جواب مت دینا۔ ‘‘

‘‘کیوں مرواؤں گا، کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘  مجھے اپنی خوفزدہ سی آواز سنائی دی۔

‘‘ہائے گرامر اسکول کے یہ گھامڑ۔ بند ذہنوں سے آزاد خیالی کی امید رکھتے ہیں۔ بھئی بند کمرے میں تو گھٹن ہی رہے گی ناں، تازہ ہوا کے لئے کوئی کھڑکی یا دروازہ تو کھولنا ہی پڑے گا۔ یہاں تو معمار یہ کہہ گئے ہیں کہ دروازہ یا کھڑکی کھولی تو گھر مسمار۔ ‘‘

میرے چہرے پر شاید حماقت منجمد دیکھ کر وہ بے بسی سے بولا:

‘‘بھائی کسی نادیدہ سمت سے کوئی گولی، کوئی جنت کا دلدادہ خود کش تمھاری سوچ کے پر کتر دے گا، چپ رہو یا پرے ہٹ کے کھڑے ہو۔ میں ابھی جینا چاہتا ہوں۔ وقت جاری ہو یا ساکت میں نے ابھی جینے کی آس نہیں چھوڑی، اور ہاں جینے کے گر بھی سیکھ گیا ہوں ‘‘  مجھے لگا اس نے مجھے آنکھ ماری ہے۔

‘‘ارے بھئی آپ لوگ کس بحث میں پڑ گئے ہیں۔ اس امتحان میں ہمیں جب اللہ نے ڈالا ہے، تو وہ خود کیوں نکالے گا۔ وہ تو غالباً یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی دی ہوئی عقل ہم کیسے استعمال کرتے ہیں اور ہم کیا سبب پیدا کرتے ہیں ‘‘  اس نے مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے کہا۔

‘‘تو بقراط تم ہی کوئی ترکیب نکالو‘‘  اس طنزیہ جملے میں بھی ایک التجا ایک امید ضرور تھی۔

‘‘ارے صاحب کمشنر صاحب کے انتظار میں ہی تو یہ مجمع جمع ہے، وہ ہی آ کر کوئی صورت نکالیں گے ‘‘ کسی اور صاحب نے آواز بلند کی۔

‘‘کمشنر صاحب‘‘  اب میرے پڑوسی سے بھی چپ نہ رہا گیا  ‘‘بلی سے دودھ کی رکھوالی کی امید کی جا رہی ہے ‘‘ ۔

مجمع یہ سن کر ہنس پڑا۔ اب قسم قسم کی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ زندہ باد مردہ باد کے نعرے بھی لگنے لگے۔ لوگوں میں دبا دبا سا جوش با آسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔

‘‘بقراط اپنی بات واضح کرو‘‘ ایک آواز آئی۔ اب مجمع کا موڈ ذرا سا بہتر ہو چکا تھا، توجہ مجھ پر سے ہٹ چکی تھی۔

‘‘بھئی ان ہی لوگوں کی وجہ سے تو وقت رک گیا ہے۔ یہ وقت سے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ ان کے تعاقب میں تو وقت بھی ہانپ جاتا ہے۔ دوسری سمت بہت سے لوگ وقت کو گویا پیچھے کھینچ رہے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں اور کیا ہوتا۔ حکمراں آگے بھاگ رہے ہوں اور وقت ان کے تعاقب میں۔ دوسری طرف ایک طبقہ وقت کو پیچھے کھینچ رہا ہو۔ تو وقت کا انجماد کیوں کر حیرت کا باعث ہے۔ ‘‘  بقراط واقعی بقراط تھا۔

‘‘پھر اس کا حل تو بہت دشوار نہ ہوا‘‘ میرے ذہن میں ذہانت کی ایک بجلی سی کوندی۔ لوگ فوراً مڑ کر میری طرف متوجہ ہو گئے۔ پڑوسی نے غیر محسوس طریقے سے میرا ہاتھ دبایا، گویا میری گرامر اسکول کی اپج کو وارننگ دے رہا ہو۔ حدِ ادب یہاں زبان سینے، کاٹنے اور کھینچنے کے ماہرین جمع ہیں۔

‘‘یا تو وقت کے آگے بھاگنے والوں کی طنابیں کاٹ دو تاکہ یہ وقت کے آگے بھاگنا بند کر دیں۔ نہ بھی بند کریں تو ہماری اوقات کا ان کے وقت سے رشتہ ٹوٹ جائے، وہ اپنے وقت کی لہر میں رہیں ہم اپنے وقت کی۔ انہیں قابو نہ کر سکیں تو آزاد کر دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وقت کو پیچھے کی سمت کھینچنے والوں کو ماضی سے حال میں لے آئیں۔ صدیوں کی محرومیاں۔۔ ‘‘  اس سے پہلے کہ میری بات مکمل ہوتی میرے بقراط پڑوسی نے میرا ہاتھ اس سختی سے دبایا کہ درد سے میرا منہ بند ہو گیا۔ کیا کہا آپ نے، درد سے منہ بند نہیں ہوتا بلکہ تکلیف کی شدت سے چیخ نکل جاتی ہے۔ آپ درست کہہ رہے ہیں مگر اس کے چیخ کے بعد کا مرحلہ بھول رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے اطراف کی خاموشی پر کان دھریے۔

‘‘تجویز تو گرامر کی اچھی ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘  بقراط نے میرا مذاق اڑا کر گویا میری بات کی تمام تلخیوں کو مزاح کے مصالحہ تشرف سے دھو دیا۔

‘‘بھئی بقراط اپنے دوست کو تو خاموش ہی رکھو‘‘  نہ جانے کیوں مجھے یہ آواز جانی پہچانی سی لگی۔ پیروں کے بل اچک کر دیکھا تو اپنے مینیجر کی شکل نظر آئی، نظریں ملتے ہی اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی۔

‘‘بقراط تم بولتے رہو، ان صاحب کی باتیں تو احمقانہ ہیں ‘‘ مینیجر نے پھر آواز لگائی۔

اب گویا خاموشی میرے ذاتی مفاد میں تھی۔ مینیجر کی ناراضگی مول لینا وقت کو کھو دینے کے مترادف تھا انجماد کو تو جانے ہی دیجئیے۔

‘‘وقت کو پیچھے کھینچ لینے میں حرج ہی کیا ہے، صرف آگے بھاگنے والوں کی طنابیں کاٹ دو۔ صدیوں پہلے بھی تو وقت چلتا ہی تھا، اسی رفتار سے چلتا رہے گا، ذرا نیکیوں کے امکانات کا تصور کیجئیے۔ جو لوگ ہمارے شاندار ماضی، ہمارے نظامِ راشدین سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ان کا وقت آ گیا ہے ‘‘  ایک باریش نوجوان جس کے کاندھے پر ایک انگوچھا پڑا تھا مجمعے کو کہنیوں سے ہٹا تا آگے بڑھنے لگا، اس کی نگاہیں مجھ پر پیوست تھیں۔

‘‘ہاں بھئی بقراط کیا طریقہ نکالیں کہ وقت کا پہیہ دوبارہ گھومنے لگے ‘‘  مجھے تو لگتا تھا جیسے اب سارا مجمع اپنا رخ گھنٹا گھر سے موڑ کر ہماری طرف متوجہ ہو چکا ہے۔ ہزاروں کے اس مجمعے میں ہماری معمول کی آواز کی بحث کیسے ان تک پہنچ رہی تھی۔ یہ بہت حیرت انگیز بات تھی۔ شاید سارا مجمع ہی اپنے آپ سے اس بحث میں الجھا ہوا تھا۔ ہماری گفتگو تو بس ایک بازگشت تھی۔ ابھی بقراط نے کوئی جواب دیا بھی نہیں تھا کہ مجمع میں ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی۔

‘‘کمشنر صاحب آ گئے، کمشنر صاحب آ گئے ‘‘  لوگوں میں ایک دبا دبا جوش تھا۔ آنکھوں میں امید کے دیپ جل اٹھے تھے۔ گھنٹا گھر کی منجمد سوئیاں مذاق اڑا رہی تھیں۔

بائیں جانب کا مجمع کائی کی طرح پھٹنے لگا۔ انسانوں کا سمندر حکمرانی کے لئے پھٹنے لگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ موسیٰ اکیلے ہی اس راستے پر چل کر اپنی کھال بچا لیتے ہیں۔ درمیان میں جو جگہ بنی تو کمشنر صاحب اس سے گزرتے گھنٹا گھر کی جانب بڑھنے لگے، لیکن ان کے دائیں بائیں آگے پیچھے بہت سے بھاری بوٹ چل رہے تھے۔ مجمعے میں جو انبساط کی لہر سی دوڑی تھی وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ جوتوں کی آواز اور سنگینوں کے سر کیا نظر آئے، تبدیلیِ اوقات کے امکانات معدوم ہونے لگے۔

‘‘ابھی تو پچھلے قدموں کی دھول بھی نہیں جمی تھی کہ پھر‘‘  بقراط نے شاید اپنے آپ سے کہا تھا۔ وہ زور سے کہتا تب بھی شاید کوئی نہ سنتا۔ سب آوازیں بھاری جوتوں کی دھمک میں دب گئی تھیں۔ ان جوتوں کی بناوٹ میں اس خوبی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ باقی سب آوازیں دب جائیں۔ میں نے داہنی جانب دیکھا تو وہ انگوچھا بردار جوان مجمعے کو کہنیوں سے ہٹاتا، اس سمندر میں خود اپنی جگہ بناتا تیزی سے ہماری سمت بڑھ رہا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو ایسے کئی نوجوان ہماری طرف بڑھتے نظر آئے۔

‘‘ہاں بھئی بقراط کیا حل نکالیں ‘‘  ہمارے اطراف کا مجمع ان تبدیلیوں سے جیسے ناواقف بقراط سے حل طلب کرہا تھا۔ لوگ جیسے ایک مسیحا کے انتظار میں خود اپنی ذہنی سوجھ بوجھ کھو بیٹھے تھے۔

بھاری جوتوں، باریش جنت کے طلب گاروں اور وقت کے آگے بھاگتے کمشنروں کے درمیان منجمد وقت کو دوبارہ چلانے کی کیا امید رہ گئی تھی۔ بقراط، اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ اس کی گرفت میں میرا ہاتھ بہت تکلیف میں تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکال کر بھاگنا چاہا، تو اس نے پکڑ کر کھینچ لیا اور ہم دونوں نیچے بیٹھ گئے۔ نہ چیونٹی دیکھو گے نہ کچلنے کو دل چاہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

دامِ آگہی

 

تیزی سے پیچھے کی سمت بھاگتے درختوں کا درمیانی فاصلہ بڑھنے لگا، ٹرین کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے اب تھمنے کو تھی۔ پہیوں کی پٹری پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ایک سیٹی کے ساتھ ٹرین رک گئی۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا مگر صبح کے دھندلکے میں اسٹیشن کا نام صاف پڑھا نہ جا سکا۔ کیا یہی میرا آخری اسٹیشن ہے، کیا میری منزل آ گئی۔ میں عجیب تذبذب میں تھا اتروں کہ نہیں اتروں۔ اگر ہمیں اسٹیشن آنے سے پہلے معلوم ہو جائے کہ یہی ہمارا آخری اسٹیشن ہے تو آدمی اپنا زادِ راہ سمیٹ لے اور اترنے کا انتظام کرے۔ سفر میں کتنی بار ٹرین آہستہ ہوتی ہے اور پانی لینے، دم بھرنے یا ہمسفر لینے کو سواری رکتی ہے مگر اترتا تو آدمی اپنے اسٹیشن پر ہی ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ پورے پیٹ کی گندمی رنگ کی حاملہ سامنے آ گئی۔ چہرے پر مسکان سجائے جیسے مجھ پر ہنس رہی ہو۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہی ہے کہ اتر جاؤ یہی تمھارا اسٹیشن ہے۔ مگر مجھے پتہ ہے وہ جھوٹ بول رہی ہے، مجھے وقت سے پہلے اتار دینا چاہتی ہے۔ دشمن کی سچی بات بھی جھوٹی لگتی ہے، اگر یہ واقعی میرا اسٹیشن ہوتا بھی تو بھی شاید میں نہ اترتا۔ کوئی فیصلہ ہو نہ پایا تھا کہ ٹرین ایک جھٹکے سے پھر چل پڑی، وہ حاملہ عورت ایسی غائب ہوئی جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ ٹرین کے جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ یہ خواب مجھے اب ایک سال سے متواتر تنگ کر رہا ہے، گھر واپس آ گیا ہوں مگر اس سے جان نہیں چھوٹی۔ ذہن بیدار ہوا تو تقریباً سال بھر پیچھے چلا گیا:

پہلا ریڈار چوکی سے کوئی آدھے میل کے فاصلے پر تھا، پھر دوسرا کوئی پانچ سو گز کے فاصلے پر۔ نیلے رنگ کی یہ پرانی سی ٹیوٹا بہت تیزی سے چوکی کی طرف آ رہی تھی۔ ڈیوڈ نے آدھے میل کے ریڈار پر اس کی رفتار دیکھی تو چلا کر مجھے باخبر کیا۔ قصبے سے شہر کی سمت کئی سڑکیں آتی تھیں، یہ سب سے چھوٹی سڑک تھی اور شاذ و نادر ہی استعمال ہوتی تھی۔ نیم پختہ مٹی کی یہ سڑک کثرت آمد و رفت سے شاید خود ہی بن گئی تھی۔ دھول اور مٹی اتنی کہ گرد کا ایک بگولہ کار کے ساتھ ساتھ رقص کرتا آگے بڑھ رہا تھا لیکن کار سے آگے نہیں نکل پاتا تھا۔ دور دور تک میدانی زمین تھی اور کسی شے کا مستور رہنا نا ممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ اسی لئے صرف میں اور ڈیوڈ ہی اس پر معمور تھے۔ چوکی کے قریب آنے سے پہلے غالباً اس کی رفتار آہستہ ہو گئی تھی۔ کم از کم ڈیوڈ نے بعد میں مجھے یہی بتایا۔ شاید اس نے چیخ کر مجھے کہا تھا کہ اب کار آہستہ ہو رہی ہے مگر میری سماعت پرتو طاقت کا پہرہ بیٹھا ہوا تھا۔ کار چوکی کے نزدیک ہوئی تو میں چوکی سے باہر آ کر خود کار مشین گن اس کی سمت میں تان کر کھڑا تھا۔ دونوں پاؤں کے درمیان تقریباً تین فٹ کا فاصلہ، آنکھ شست پر اور انگلی لبلبی پر۔ خون میری کنپٹیوں میں رگوں سے باہر آیا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے میں نے کار کو رکنے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ کو میری بات ماننی چاہئیے، میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔ مجھے لگا جیسے کار کے ڈرائیور نے حکم ماننے میں چند ساعتوں کی تاخیر کی ہو، یہ گندمی رنگ کے جاہل اور نافرمان لوگ بات سمجھتے کیوں نہیں۔ اس شبہ میں کہ گاڑی رک نہیں رہی اور میرے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، لبلبے پر دبی انگلی حرکت میں آ گئی۔ فضا میں مشین گن کی آواز سے سلامتی کا سناٹا ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی۔ بارود کی بو نے انصاف اور رواداری کے حواس مختل کر دئیے۔ ایک ادھیڑ شکل کا انسانی ڈھیر کار سے نکل کر کچی سڑک پر لڑھک گیا۔ پچھلا دروازہ کھلا اس میں سے ایک پورے پیٹ کی حاملہ بلند آواز سے نوحہ کرتی اور اپنا سینہ کوٹتی برآمد ہوئی اور کار کی اگلی مسافر نشست والے دروازے کی جانب لپکی۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ اس میں سے کوئی ہتھیار نکالے گی، ابھی میں نے اپنی مشین گن بلند کی ہی تھی کہ ڈیوڈ نے ’شٹِ‘ کہہ کر میری مشین گن کا رخ نیچے کر دیا۔ عورت نے مسافر سمت کا دروازہ کھولا تو اس کے منہ سے ایک طویل چیخ نکلی جو گھٹ کر ایک ناقابلِ بیان فریاد میں بدل گئی۔ کار میں سے ایک لڑکا لڑھک کر سڑک پر گرنا ہی چاہتا تھا کہہ عورت دھب سے زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ لڑکے کی عمر کوئی بارہ سال کے قریب رہی ہو گی۔ اس کی منہ اور ناک سے خون جاری تھا اور وہ کسی قسم کی مدد سے بے گانہ ہو چکا تھا۔

’یہ تم نے کیا کیا جم ؟‘ ڈیوڈ کی آنکھوں میں وحشت تھی۔

’کیا کیا، ‘ مجھے اپنی آواز کسی کنویں سے آتی سنائی دی۔ ’اس سے پہلے کہہ یہ دہشت گرد ہمیں مار سکتے، میں نے اس کا سدِ باب کر دیا‘

’ لیکن یہ تو ایک حاملہ عورت غالباً اپنے خاندان کے ساتھ اپنے ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی۔ اور اس لڑکے کا کیا قصور تھا؟‘

’احمقانہ باتیں مت کرو۔ اگر ان کی نیت صاف تھی تو رک کیوں نہیں رہے تھے ؟‘

’ رک تو رہے تھے، میں تمھیں چیخ کر بتایا بھی تھا کہ کار آہستہ ہو رہی ہے، اور یہ بارہ سالہ لڑکا‘

’سنپولیا ہے یہ بھی۔ میں نے اچھا کیا ابھی سے اس کا سر کچل دیا‘۔

’ اب کیا کریں، انکوئری ہوئی تو دونوں پھنسیں گے۔ میں اس کار کے پیچھے جا کر دو چار فائر تمھاری سمت میں کروں گا جس سے لگے کہ گاڑی ہم لوگوں پر فائر کر رہی تھی۔ ‘

’لیکن اس کی کیا ضرورت ہے، ہمارا فرض ہے یہاں قانون نافذ کریں اگر کوئی اس سے روگردانی کرے تو اس کو قرار واقعی سزا دیں ‘

’ہاں لیکن اگر روگردانی کرے تو ناں ‘ یہ کہہ کر ڈیوڈ کار کے پیچھے چلا گیا اور چوکی کی سمت دو فائر کئیے۔ پھر بھاگتا ہوا آیا اور اس حاملہ عورت کا وزن ہلکا کرنا چاہا۔ اس عورت نے حقارت سے ہماری جانب دیکھ کر زمین پر تھوک دیا اور لڑکے کا سرگود میں رکھے بیٹھی رہی۔ پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ کر زمین پر لیٹ گئی۔ مکر کر رہی ہے یقیناً۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جیسے ہی میں اس کے قریب جاؤں گا یہ شاید خود کش حملہ کر دے۔ ابھی میں اس ادھیڑ بن میں ہی تھا ڈیوڈ مجھے دھکا دے کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

’جم فوراً جا کر ایمبولنس کے لئے وائرلیس کرو، مجھے بچے کا سر نظر آ رہا ہے ‘۔ مجھے تذبذب میں دیکھ کر گویا بے بسی سے بولا۔ مجھے ہچکچاتا دیکھ کر پھر گویا ہوا۔

’اگر ان سب کو مار دیا تو جمہوریت کس کو سکھائیں گے ‘۔

جتنی دیر میں ایمبولنس پہنچتی قدرت نے مزید انتظار سے انکار کر دیا۔ ایک نومولود زندگی نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو ڈیوڈ نے مجھے اس کی ناف کاٹنے پر مجبور کیا۔ ہر نئی زندگی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان رو کر کیوں کرتی ہے، کبھی ہنستے گاتے کیوں نہیں آتی۔ ایمبولنس آ کر اسے لے گئی، مجھے اور ڈیوڈ کو شام میں سارجنٹ میجر کے پاس اپنے بیان قلم بند کرانے کی ہدایت مل گئی۔

’ میری سمجھ میں نہیں آتا تم ان لوگوں سے کس چیز کا انتقام لے رہے ہو‘ ڈیوڈ نے ایمبولنس جانے کے بعد مجھے گھیر لیا۔

’ انتقام کس چیز کا لینا ہے، کوئی تمھارے گھر پتھر پھینکے تو تم اس کا جواب دو گے یا نہیں ؟‘

’ضرور دوں گا لیکن یہ خیال ضرور رکھوں گا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے ‘

’دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے ‘ میں نے ہنس کر جواب دیا۔

’تمھاری سوچ میں طاقت زہر گھول رہی ہے ‘ ڈیوڈ نہ جانے کس کی حمایت کر رہا تھا

’طاقت سے لہجے نہیں بدلا کرتے۔ ہم یہاں اپنے ملک سے اتنی دور ان جانوروں کو جمہوریت اور تہذیب سکھا رہے ہیں، انہیں تو ہمارا شکر گذار ہونا چاہئیے ‘

’طاقت اور دولت دونوں سے لہجے بدل جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ایک کا نشہ ہو اور گفتگو میں نہیں جھلکے اس کے لئے بہت ظرف بہت وسعت درکار ہوتی ہے۔ اور جہاں تک ان کے جانور ہونے کا تعلق ہے تو جانور بھی بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہ جو پالتو ہوتے ہیں، دوسرے وہ جنگل میں راج کرتے ہیں اور جنہیں سدھایا نہیں جا سکتا۔ ایک قسم وہ ہے جو کانچ کی دکان میں توڑ پھوڑ مچا دے تو اک وہ جن کی دلچسپ حرکتوں سے ہم اپنے بچوں کا دل بہلاتے ہیں۔ جنگل میں راج کرنے والوں کو سدھانے کی کوشش خطرناک بھی ہو سکتی ہے ‘ ڈیوڈ کا لہجہ معنی خیز تھا، مجھے لگتا تھا اس نے بات غیر مکمل چھوڑ دی ہے۔

’ڈیوڈ تم آخر کس کی طرفداری کر رہے ہو‘ مجھ سے رہا نہیں گیا۔

’تمھاری طرف نہیں ہوتا تو ٹیوٹا کی سمت سے فائرنگ کر کے تمھارے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولا

اس کی بات نے مجھے ایک لمحے کے لئے لاجواب سا کر دیا، پھر اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے پوچھا ’میرے جرم پر، میں نے کیا جرم کیا ہے ؟

’اس بارہ سالہ لڑکے اور اس کے باپ کی ہلاکت کو کس کھاتے میں ڈالو گے جم؟‘

’اگر وہ وقت پر کار روک لیتے تو میں کیوں اپنی گولیاں برباد کرتا‘۔

ڈیوڈ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ ہماری شفٹ ختم ہونے کا وقت آ رہا تھا۔ کمپنی ہیڈ کوارٹر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔ عموماً گشت پر جانے والی ٹولیاں اٹھارہ سے بیس جوانوں کی ہوتیں، بڑی چوکیوں پر پانچ سے چھ فوجیوں کی ضرورت ہوتی۔ یہ چوکی کیوں کہ چھوٹی تھی اس لئے یہاں صرف دو ہی جوانوں کی ضرورت تھی۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد سائمن اور جیسن مجھے اور ڈیوڈ کو فارغ کر دیتے۔ ڈیوڈ ایسے منہ بنائے پھرتا رہا جیسے کوئی بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہو۔ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔ ظاہر ہے جنگ میں جانیں نہیں جائیں گی تو اور کیا ہو گا۔ پھر شاید اس نے دیکھا ہی نہیں ایک سنپولئے کے مرنے سے پہلے ہی ایک اور وہیں سڑک پر پیدا ہو گیا تھا، قدرت کہاں تک حساب برابر کرے گی۔

شام میں ہم دونوں کا بیان لیا گیا۔ میں نے شکر کا سانس لیا جب ڈیوڈ نے بھی وہی بیان دیا جو میں نے دیا تھا۔

ٹرین اب پھر آہستہ تو ہو رہی تھی مگر لگتا تھا رکے گی نہیں۔ کھڑکی سے باہر اکا دکا گھر نظر آ رہے تھے، جن میں چراغ جل اٹھے تھے۔ میں اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ چھوٹے اسٹیشن پر گاڑی بہت تھوڑی ہی دیر رکتی ہے۔ مگر دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ پھر میرا راستہ روکے کھڑی تھی۔ پورے دنوں سے، لگتا تھا اس کا پیٹ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔

ہونٹوں پر وہی تاؤ دلانے والی مسکراہٹ۔ انگوٹھے کے اشارے سے دروازے کی طرف اشارہ ہے کہ اتر جاؤ۔ مگر ٹرین بجائے رکنے کے اب دوبارہ تیز ہو گئی، میں نے طنزیہ اس کی جانب مڑ کر دیکھا مگر وہ اب کہاں تھی۔

دوسرے دن ہم دونوں کی ڈیوٹی گشت پر تھی۔ بازار میں جانے والی گشتی پارٹی میں آج نو جوان شامل تھے۔ دو، دو کی ٹولیوں میں آگے پیچھے دائیں بائیں۔ بازار کھل چکا تھا۔ یہ علاقہ فتح ہوئے اب تقریباً آٹھ ماہ ہو چکے تھے اور ہماری کمپنی کا ایک دستہ روز گشت کرتا تھا لیکن پھر بھی وہ لوگ ہمارے عادی نہیں ہوئے تھے۔ اب بھی ہمارے داخل ہوتے ہی بازار کا ماحول تناؤ کا شکار ہو جاتا۔ لوگ کام کاج چھوڑ کر دکانوں کے سامنے آ کھڑے ہوتے۔ بازار کا بھاؤ تاؤ رک جاتا۔ مقامی لوگ اب بھی ہم سے بیماری کی طرح بچتے تھے۔ بازار میں ڈیوڈ بلاوجہ لوگوں سے گھلنے ملنے کی کوشش کرتا۔ اس سے بول اس سے ہنس۔ بلاوجہ کی چھیڑ چھاڑ۔ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ وہ ان سے فاصلہ کیوں نہیں رکھتا۔

’ڈیوڈ تم ان لوگوں سے بلاوجہ اتنا گھلنا ملنا کیوں چاہتے ہو‘

’بھئی ان کے دل و دماغ جیتیں گے تب ہی کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔ زبردستی کی لائی تبدیلی تو عارضی ہو گی‘ ڈیوڈ ہمیشہ کا فلاسفر تھا نہ جانے فوج میں کہاں سے گھس آیا تھا۔

’لیکن ہمیں دل و دماغ جیتنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ فاتح اور مفتوح میں کچھ تو فاصلہ ہونا چاہئیے۔ انہیں خود سمجھ میں نہیں آتا ہم جو انہیں سمجھا رہے ہیں ان ہی کے بھلے کے لئے ہے۔ بالکل گنوارو لوگ ہیں۔ دیکھا ہے کیسے سڑپ سڑپ آواز نکال کر طشتری میں چائے پیتے ہیں ؟‘

’تو طشتری میں چائے پینے میں کیا حرج ہے، ہو سکتا ہے یہی چائے پینے کا صحیح طریقہ ہو۔ بھئی چائے جلدی ٹھنڈی ہو جاتی ہے، منہ نہیں جلتا۔ آخر ہم بھی تو چائے دانی میں چائے نہیں پیتے، اسے پیالی میں نکال کر پیتے ہیں، یہ پیالی میں نہیں پیتے اسے طشتری میں نکال کر پیتے ہیں ‘ ڈیوڈ کی ایسی بے تکی منطق ہوا کرتی تھی۔

گشت کے دوران ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور اچانک ہمارے سامنے سے راستہ کاٹ کر گذر گیا، ابھی یہ فیصلہ کر ہی رہے تھے کہ اس خطرے کی نوعیت کیا ہے کہ ایک اور سر پھرا اس کے تعاقب کرتے سامنے سے دوڑا۔ جیکب نے بندوق سیدھی کر کے چلا کے کہا رکو، ورنہ گولی مار دوں گا۔ پیچھے بھاگنے والا بچہ ٹھٹک کر رکا، جب اسے سمجھ ہی نہیں آیا ہو کہ اپنے دوست کے پیچھے بھاگنے میں حرج ہی کیا ہے۔ بچوں کو ایک دو منزلہ عمارت میں غائب ہوتے دیکھا تو ڈیوڈ نے بندوق کا نشانہ تان لیا، فائر کرنا ہی چاہتا تھا کہ کپتان نے آرڈر دے کر اسے روک لیا۔ اس قسم کی چالبازی اکثر خطرے کا سائرن ہوتی ہے۔ سپاہیوں کو اپنے تعاقب میں الجھا کر بھاگتے اور پھر کسی ویران یا سنسان جگہ باقی پارٹی سے علیحدہ رہ جانے والے سپاہیوں کو اپنی بقا کی جنگ کرنی پڑتی۔ کپتان کے اشارے پر سپاہیوں نے مورچے بنا لئے، پھر کپتان کے حکم پر میں اور ڈیوڈ ان کے تعاقب میں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ لینڈنگ پر وہ دونوں بچے ایک عورت کے عقب میں چھپ رہے تھے۔ عورت خاصی ہراساں نظر آ رہی تھی۔ مرغی کی طرح دونوں بچوں کو اپنے پروں میں سنبھال کسی بھی ممکنہ صورتِ احوال سے نبٹنے کو لئے تیار۔ پانی کی ایک دھار بچے کی نیکر کو گیلا کر کے پیر سے ہوتی، اس کے جوتے سے بہہ کر فرش کو گیلا کر رہی تھی۔ ڈیوڈ نے مجھے کور دینے کا اشارہ دیا اور سامنے والی فلیٹ کے دروازے کے ٹھوکر سے کھالا۔ نیچے بازار میں اب سناٹے کا راج تھا حالانکہ لوگوں کی تعداد اب یقیناً پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی۔

ڈیوڈ نے عورت کو ایک طرف دھکا دیا کہ سیڑھی پر راستہ صاف ہو سکے تو وہ فلیٹ کی تلاشی لے سکے۔ عورت بچے کی حفاظت کے لئے کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے کھڑی تھی کہ اپنا توازن نہ سنبھال سکی۔ بچہ جو عورت کی گھیر دار شلوار پیچھے سے تھامے تھا، بروقت خود کو علیحدہ نہ کر سکا اور سیڑھیوں پر لڑھکنے لگا۔ اس کا سر ایک دیوار کو ٹکرایا اور اس کی گردن عجیب غیر فطری سے انداز میں ایک طرف کو ڈھلک گئی۔ ڈیوڈ بہت دور اندیش تھا، اس نے فوراً نیچے واکی ٹاکی پر بات کر کے کیپٹن سے کمک طلب کر لی۔ بچے پر دھیان دینے کا اب وقت نہیں تھا، سب سے پہلے یہ ضروری تھا کہ فلیٹ کی تلاشی لے کر عمارت کو محفوظ کیا جائے۔ ڈیوڈ ایک اور سپاہی کے ساتھ فلیٹ میں داخل ہوا تو وہاں صرف ماتمی سناٹا تھا۔ پہلا بچہ ہاتھ میں ٹینس کی گیند لئے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہیوں کو دیکھ کر اس نے ہاتھ بڑھا کے ٹینس کی گیند ان کی طرف پھینکنا چاہی تو ڈیوڈ نے چیخ کر سب کو زمین پر لیٹنے کا اشارہ کیا اور بندوق بچے کی سمت تان لی۔ اپنے دوسرے بچے کو سیڑھیوں پر چھوڑ کر وہ عورت لپک کر فلیٹ میں داخل ہوئی اور گیند بچے کے ہاتھ سے نکال اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور سر سے اوپر بلند کر کے کھڑی ہو گئی۔ ڈیوڈ کی درخواست پر نیچے سے ایک بم کو ناکارہ بنانے والا ماہر آیا۔ وہ گیند واقعی صرف گیند ہی نکلی۔ سپاہیوں نے وقت کے زیاں پر بچے کو گھورا اور ایک کے پیچھے ایک اتر گئے۔ سیڑھیوں پر گرا بچہ اب کسی مدد سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ چلو ایک سنپولیا اور گیا۔

یہ شاید کوئی بڑا جنکشن تھا۔ کافی لوگ اتر اور چڑھ رہے تھے۔ شاید یہی میری منزل ہے۔ میں تیزی سے دروازے کی سمت بڑھا مگر اندر آنے والے مسافروں کے ریلے نے واپس اندر دھکیل دیا۔ ’مجھے یہاں اترنا ہے میں نے چیخ کر کہا مگر لگتا تھا سب مسافر جیسے بہرے ہو گئے ہوں یا میں انہیں نظر ہی نہیں آ رہا ہوں۔ ان سب آنے والے مسافروں کے اوپر وہ ایسے تیر رہی تھی جیسے کوئی بادل اپنے پانی کے بوجھ کے باوجود اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سبب کرتا ٹرین پھر چل پڑی اور وہ حاملہ بھی نہ جانے کہاں اُڑ   گئی۔ میں تھک کر بنچ پر کیا بیٹھا میرا ذہن پھر ماضی میں بھٹکنے لگا۔

گھر سے دور صحرا میں رات کا وقت بہت دشوار ہوتا تھا۔ دن بھر میں کچھ سوچنے کا موقع ملتا تو شاید دن بھی طویل ہو جاتے۔ لیکن دن بھر تو فوجی مشغولیات میں آناً فاناً گزر جاتا، رات کاٹنی مشکل ہو جاتی۔ دن کاتپتا  رتیلہ صحرا رات میں ٹھنڈا ہو جاتا تو چاروں سمت سناٹے کا راج دل میں اتھل پتھل مچا دیتا۔ میں نے سرہانے سے لوسی کی تصویر نکالی اور ہونٹوں سے لگا لی۔ ابھی ہماری شادی کو چار ہی سال ہوئے تھے۔ میری پہلی بیوی سے ایک لڑکا تھا جو تقریباً بارہ سال کا تھا۔ پہلی بیوی کینسر سے کیا مری کہ لڑکے کیذ مہ داری بھی میرے کاندھوں پر آن پڑی۔ لوسی سے ملاقات ہوئی تو لگا قدرت نے یہ ملاقات کسی مقصد سے ہی کروائی ہے۔ لوسی کے اپنے پہلے شوہر سے دو بچے تھے۔ یوں چار سال میں اب ہم تین بچوں کے والدین تھے۔ لوسی کی یاد کیا آئی میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے خفت سے دائیں بائیں دیکھا اور کمبل منہ کے اوپر کر لیا۔ سپاہی رویا نہیں کرتے۔ اور وہ بھی فاتح سپاہی۔ کیا ہم کبھی یہ جنگ جیت بھی سکیں گے۔ اس قسم کے سوالات ہمیں اپنے خیال و خواب میں کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ فتح تو ہمارا مقدر ہے۔ ہم ایک بہتر تہذیب، بہتر مذہب اور بہت زیادہ بہتر فوجی طاقت کے حامل تھے۔ کیا لوسی اب سو گئی ہو گی۔ میرے اپنے شہر میں اس وقت شام کے چار بج رہے ہیں۔ ہفتے میں تین فون کالوں کی اجازت تھی۔ ایک کال میں پرسوں اتوار کو کر چکا تھا، اب دونوں کالیں بچا کر رکھ رہا تھا، غالباً جمعہ اورا توار کو کروں گا۔ ا توار کو چرچ سے آ کر لوسی سے بات ہوتی تو وہ سب کا مختصر احوال بھی بتا دیتی۔ میں خود تو شاذونادر ہی چرچ جاتا تھا لیکن اب یہاں صحرا میں گھر سے دور خیال آتا کہ کتنا وقت ضائع کیا ہے میں نے۔ واپس جا کر باقاعدگی سے چرچ جاؤں گا۔ لوسی اب کیا کر رہی ہو گی۔ ہمارے سامنے والے گھر میں جان اکیلا رہتا ہے۔ اس نے کبھی شادی کی ہی نہیں۔ کہتا ہے جب اس کے بغیر کام چل رہا ہے تو یہ جنجال کیوں پالوں۔ لوسی ہے بہت خوبصورت اور تھوڑی سی فلرٹ بھی۔ پب میں وہ خود ہی میری طرف متوجہ ہوئی تھی اور اس ہی نے مجھ سے ڈانس کی فرمائش بھی کی تھی۔ میں اسے پہلی رات ہی گھر لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں، اب تو لوسی بہت خوش ہے میرے ساتھ۔ اس وقت تو تنہا تھی، اب وہ تنہا نہیں ہے، اب یقیناً اس میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ نہیں لوسی غالباًاس وقت بچوں کو باغ میں لے گئی ہو گی۔ میرے بیٹے کو بیس بال کا بہت شوق ہے وہ بیس بال کے کھیل میں گیا ہو گا۔ لوسی میرے ساتھ بہت خوش ہے، لیکن مجھے یہاں آئے بھی تو آٹھ مہینے گذر چکے ہیں۔ میں نے آتے وقت جان سے کیوں کہا تھا کہ وہ لوسی کا خیال رکھے ؟

آج کا دن کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آج پھر ایک چوکی پر پوسٹنگ ہے۔ آج میرے ساتھ ڈیوڈ تعینات ہے۔ میری ڈیوڈ سے زیادہ بنتی ہے۔ وہ بھی مقامیوں کو ان کے مقام پر رکھنا پسند کرتا ہے۔ ہم دونوں آج تک یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ قبائلی بدو ہمارے شکر گزار کیوں نہیں۔ انہیں تو ہمارا بہت مشکور ہونا چاہئیے کہ ہم انہیں کمپیوٹر دور میں لے جائیں گے۔ یہ احمق سمجھتے ہیں ہم ان کی معدنی دولت کے لئے یہاں آئے ہیں۔ وہ خود اتنے پیچھے ہیں کہ اس سے استفادہ کر بھی نہیں سکتے تھے، پھر اگر یہ معدنیات نکال بھی لی جائیں تو اس سے مقامی لوگوں کو ہی تو روزگار ملے گا۔ ان کی ترقی اور بہتری کے لئے یہ سارے اقدامات ہیں۔ اور یہ اپنی پہلی فرصت میں ہمیں نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہیں جیسے ہم کوئی بیرونی حملہ آور ہیں کہ جس نے ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کو بے دخل کر دیا ہو۔

پچھلے چند دنوں کے واقعات سے فضا کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ایک باہمی خوف سے امن قائم ہے۔ ہم نے جنگجو قبائلیوں کو عبرتناک سزائیں دے کر جتا دیا ہے کہ ہم یہاں کھیلے نہیں آئے اور سرکشی برداشت نہیں کی جائے گی۔ لیکن سرکشی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ اپنے آگے کسی کو گردانتے ہی نہیں، صرف وقت کی بات ہے یہ پھر جمع ہو کر اپنی سی کوشش کریں گے۔ چوکسی اور بے رحمی سے ہی ان سے نبٹا جا سکتا ہے۔ نہ معلوم کیوں مجھے ہمیشہ یہاں چوکی کی ڈیوٹی پر بھیج دیتے ہیں۔ ہر آنے والی گاڑی سے خطرہ ہوتا ہے کہ چلتا پھرتا میزائل ہی نہ ہو۔ وہ کپتان ہے بھی تو بہت متعصب۔ ایک تو کمبخت جنوب کا ہے اور پھر ہے بھی یہودی۔ میرے خیال میں یہ عیسائیوں سے پرخاش رکھتا ہے۔ جم بھی یہودی ہے اسے اکثر کیوں ہیڈ کوارٹر میں ہی ڈیوٹی ملتی ہے۔ میں یقیناً واپس جا کر کمانڈنٹ کو ایک مراسلہ بھیجوں گا، وہ شمال کا ہے اور پروٹسٹنٹ بھی، وہ سمجھے گا میری بات کو۔

آج کا دن بھی روز جیسا ہی ہے۔ حالتِ جنگ میں ہر روز ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ خواہ یہ جنگ ایک طرفہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اپنے خودساختہ خطرات سے ہوشیار، خوفزدہ، تنہا، مقامی آبادی کو سرنگوں کرنے کا عزم لئے روز صبح اٹھتے اور رات گئے اپنے زخم اور دشمن کی لاشیں گن کر اطمینان سے سو جاتے۔ یہی روز مرہ کا معمور رہا۔ خود اپنی طاقت اور فراست سے آگاہی ہے ادھر دشمن تقریباً غاروں کے زمانے کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ لیکن ڈر اس کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس کے جذبوں سے ہے۔ اسی طاقت کے زعم اور جذبوں کے خوف کی ملی جلی کیفیت میں پھر گشت کی تیاری ہے۔ آج کی گشت نسبتاً آسان ہونی چاہئیے۔ یہ علاقہ اتنا گنجان نہیں اور پچھلے کئی دنوں سے اس علاقے سے اچھی رپورٹیں آ رہی تھیں۔ لگتا ہے لوگوں نے مطیع ہو کر اب سرگرانی چھوڑ دی تھی۔ سارا ملک اسی عقلمندانہ روئیے کو اختیار کرے تو کتنا اچھا ہو۔ میں واپس جا سکوں لوسی اور اپنے بیٹے تھامس کے پاس۔ آج کل ان کی یاد کچھ زیادہ ہی تنگ کر رہی ہے۔ نہ معلوم یہ لوسی کی یاد ہے یا میری محبت کی بے یقینی۔ میں واپس جاؤں گا تو وہ یقیناً میرا انتظار کر رہی ہو گی۔ گشت پارٹی گیارہ سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ چار، تین چار کی فارمیشن میں۔ میں درمیان میں تین کی قطار میں تھا۔ ہم نسبتاً مطمئن تھے لیکن پھر بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے بڑھتے رہے۔ دائیں ہاتھ کی ایک دو منزلہ عمارت سے ایک عورت پیٹ پکڑے باہر آئی۔ سب کی بندوقیں تن گئیں، عورت درد کی شدت سے کراہ رہی تھی۔ ’یہ پورے دنوں سے ہے، وقت ہو گیا ہے ‘ اس کے پیچھے ایک نسبتاً بڑی عمر کی عورت نے کہا۔ غالباً اس کی ماں ہو گی۔

’جم تم دیکھو، باقی لوگ اپنی جگہ پر رہیں لیکن کور کریں ‘ سارجنٹ نے ہدایت کی۔

میں جانا نہیں چاہتا تھا لیکن ایک تو سارجنٹ کا حکم ٹالنا ممکن نہیں تھا، دوسرے سب کو میرے ماضی میں نرس ٹریننگ کا علم تھا۔ عورت اب درد کی شدت سے وہیں سڑک کے کنارے لیٹ چکی تھی۔ بڑی عمر کی عورت بھی وہیں پھسکڑ مار کے بیٹھ گئی اور حاملہ عورت کا سر گود میں رکھ کر رونے لگی۔ میری ہچکچاہٹ دیکھ کر سارجنٹ نے پھر آواز دی۔ ’جم کس بات کا انتظار ہے ؟‘

آس پاس کی عمارتوں سے کچھ سر باہر جھانکنے لگے تھے۔ یہ بات یقینی تھی کہ کئی لوگ پردے کے عقب سے ہمارا ردِ عمل دیکھ رہے تھے۔ اس بات نے سارجنٹ پر دباؤ بڑھا دیا تھا کہ وہ کوئی عملی قدم اٹھائے۔ اب مزید تاخیر سے میرے ساتھیوں کو پتہ چل جاتا کہ میں کتنا خوفزدہ ہوں۔ میں نے اپنی خودکار بندوق اپنے ساتھی کو پکڑائی اور اس عورت کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔ جس لمحے مجھے احساس ہوا کہ اس عورت کی شکل دیکھی بھالی ہے، اس عورت سے کتنا ملتی ہے جو اس دن چیک پوسٹ پر ملی تھی، اسی لمحے میرے داہنے ہاتھ کو پتہ چل گیا کہ اس کے پیٹ کا ابھار مصنوعی ہے۔ اس کے انتقام کی رفتار میری حفاظتی پسپائی سے زیادہ تیز نکلی۔ اس کا جسم ایک دھماکے سے پھٹ گیا، مجھے لگا میرے دماغ میں کسی نے ہتھوڑا دے مارا ہو، آنکھوں کے سامنے ایک سفید پردہ آ گیا پھر میں ہر احساس سے بے گانہ ہو گیا۔ میری آنکھ فیلڈ ہسپتال میں کھلی۔ سارا جسم پٹیوں میں بندھا ہوا تھا۔ جسم کے ہر انچ پر لگتا تھا کوئی ہتھوڑے مار رہا ہو۔ پپوٹوں کی دراز سے کچھ ہیولے سے نظر آئے اور بس۔

’جم کو ہوش آ گیا ہے ‘ آواز کچھ مانوس سی تھی لیکن کس کی تھی یہ میں اندازہ نہیں کر سکا۔

’بھئی اب تو معجزوں پر یقین کرنا پڑے گا‘ ایک سفید کوٹ میں ملبوس شخص نے مجھ پر جھک کر اپنا اسٹیتھسکوپ میرے سینے پر رکھ دیا۔

’ڈاکٹر‘ میرے حواس تیزی سے واپس آ رہے تھے۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر اس سے مصافحہ کرنے کی کوشش کی تو بھک سے فیوز اڑ گیا۔ داہنا ہاتھ محسوس تو ہو رہا تھا مگر وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ کہنی سے نیچے جہاں کبھی، میرا ہاتھ تھا وہاں صرف ایک خلا تھی۔ فوراً تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ مگر ڈاکٹر میری ذہنی کیفیت کو بھانپ گیا۔

’معاف کرنا جم، تمھارا بچ جانا ایک معجزہ ہے، تمھیں یاد ہے تمھارے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘

میرے ذہن میں ایک حاملہ عورت کی شبیہ اتر آئی۔ وہ شاید مجھ پر ہنس رہی تھی۔ دل تو چاہا ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے یہ ہنسی اڑانے والی مسکراہٹ چھین لوں، مگر جتنی تیزی سے اس کی تصویر بنی تھی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو گئی۔ ’وہ ایک حاملہ عورت۔۔ ۔ ‘

’ہاں وہ کتیا حاملہ نہیں تھی‘ ڈاکٹر کا لہجہ زہر آلود تھا۔ ’اس نے اپنے آپ کو اڑا کے تمھیں مار ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی، مجھے افسوس ہے کہ ہمیں تمھارا داہنا ہاتھ اور داہنا پیر کاٹنا پڑا، مگر تم کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ‘۔

’آجکل تو ایسے مصنوعی اعضا نکل آئے ہیں کہ تم بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ گے۔ میرا مطلب ہے بیساکھی کے سہارے چل سکو گے ‘ اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری نے اسے واپس حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ تمھارے معدے کا آپریشن کر کے وہاں ایک نالی لگا دی ہے جس کے سہارے تمھاری خوراک چلتی رہے گی۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ پیشاب کی نلکی بھی فی الحال ایک دو سال رہے گی پھر دوبارہ صورتِ احوال کا جائزہ لیں گے ‘۔ اسے ساری تفصیل بتانے کی اتنی جلدی کیا تھی۔

’تم تو کہہ رہے تھے تم نے مجھے بچا لیا؟‘ میرا دماغ پوری طور پر کام کر رہا تھا۔

’ہاں، ہمیں امید تو نہیں تھی‘ ڈاکٹر کا دماغ شاید پوری طرح کام نہیں کر رہا تھا۔

اس رات وہ پہلی بار مجھے خواب میں نظر آئی تھی۔ میں ٹرین میں واپس گھر کی طرف رواں دواں تھا، اپنی معذوری سے بے خبر۔ یونیفارم پہنے، ہولڈال اٹھائے خوش خوش ٹرین میں جا بیٹھا ہوں میں نے اپنے حصے کی ڈیوٹی جو پوری کر لی ہے۔ لوسی سے ملنے کا اشتیاق، وطن کی بوباس۔ ایسے میں وہ دونوں ہاتھ پھیلائے اس تیزی سے میری سمت آئی تھی کہ میں ڈر کے پیچھے ہو گیا۔ مجھے ڈرتا دیکھ کر وہ ہنس پڑی، میری سامنے والی برتھ پر بیٹھ کر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ نہ جانے میں اس سے کیوں اتنا خوفزدہ ہوا تھا کہ چیخ کر اٹھ بیٹھا۔ نرس دوڑتی ہوئی آئی اور میں سمجھا اس نے شاید کہا تھا Post Traumatic Stress  پھر بازو میں ایک انجکشن کی چبھن یاد ہے۔

اس کے بعد کی کہانی ایک معذور و مفلوج کی کہانی ہے۔ نرسوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ دن میں تین وقت میرے معدے کی نالی میں مائع خوراک انڈیل دی جاتی۔ کھانا تو سامنے تھا مگر میرا منہ اس کی لذت کو ترستا تھا۔ مجھے دو فزیو تھیراپسٹ اٹھا کر وہیل چئیر میں بٹھا دیتے، جیسے آپ کسی بھاری بوری کو ادھر سے ادھر منتقل کر دیں۔ ڈاکٹر کی امید کے برخلاف جہاں سے پیر کٹا تھا وہاں زخم میں پس پڑ گئی تھی اور میں مصنوعی پیر نہیں لگوا سکا۔ نہ معلوم کیوں مجھے ہر لحظہ یہی لگتا کہ حاملہ میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ ایک دفعہ میں نے اسے وہیل چئیر سے جھپٹ کر پکڑنا چاہا تو وہ غائب ہو گئی اور میں منہ کے بل زمین پر گرا۔ ڈاکٹر نے البتہ مجھے ڈپریشن کی دوائیں شروع کر وا دیں، اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ فیلڈ ہسپتال کے علاج سے اتنا ہوا کہ میری حالت ’نازک‘ سے ’خطرناک‘ پھر ’اطمینان بخش‘ ہو گئی۔

’اب تمھیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔ باقی کا علاج گھر کے پاس فوجیوں کے ہسپتال میں ہوتا رہے گا‘ ڈاکٹر نے اپنے تئیں مجھے خوش خبری دی۔ لوسی کو میری حالت کے بارے میں اطلاع پہلے ہی دیجا چکی تھی۔ کیا ساری زندگی لوسی مجھے وہیل چئیر پر سنبھال پائے گی۔ وہ تو صفائی ستھرائی کی اتنی عادی ہے، ذرا سی بو اسے ناگوار گذرتی ہے، میرے مستقل پیشاب کی نالی سے کیسے سمجھوتا کرے گی۔ وہ حاملہ عورت پھر مجھے چڑانے آ گئی۔ کاش میں اسے مار سکتا۔ کیسے ہوتے ہیں یہ لوگ، اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں۔ کوئی مہذب آدمی بھلا کیسے خود کش بمبار بن سکتا ہے۔ یہ کیوں اپنا اچھا برا نہیں پہچانتے۔ ہم انہیں جمہوریت دیں گے، بہتر تہذیب اور تمدن دیں گے۔ انہیں نہ جانے خود مختاری اور آزادی کی ایسی کیا مار ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو اڑا دیں۔

ایرپورٹ پر لوسی میری منتظر تھی۔ مجھے وہیل چئیر پر آتے دیکھا تو بھاگ کر پاس آ گئی۔

’آ گیا میرا بہادر شوہر۔ مجھے تم پر کتنا فخر ہے جم، تم جیسے سپاہیوں کی قربانی سے ہی ہماری آزادی بر قرار ہے ‘، اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی، آنکھوں میں آنسو۔ پھر بھی مجھے لگا وہ یہ جملے میرے لئے نہیں اپنی تسلی کے لئے بول رہی ہے۔ ’میرے جسم سے آتی پیشاب کی بو کے باوجود وہ میرے جسم سے لپٹ گئی۔ میرا منہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بے تحاشہ چومنے لگی۔ ’ذرا فکر مت کرو میں نے گھر پر سب انتظام کر لیا ہے، تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘۔ اس نے میرا ہاتھ دبایا۔ میرے سارے خدشات دور ہو گئے۔ مجھے لوسی پر پیار بھی آیا اور فخر بھی محسوس ہوا۔ اس نے اپنا آپ میرے لئے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اگلے کئی روز مجھے نہ ٹرین کا سفر ملا نہ ہی وہ حاملہ مجھے پریشان کرنے آئی۔ زندگی بیساکھیوں کے سہارے پہر چل پڑی۔ ایک اپاہج کی زندگی، کھانے، پینے، رفع حاجت کے لئے کسی کی محتاج زندگی۔ مجھے لگا جیسے گزرتے دنوں کے ساتھ لوسی کی تندہی میں کمی آ رہی ہے۔

’جم تمھاری پیشاب کی نالی بدلنے کا وقت ہو گیا ہے ‘ اس نے نلکی مجھے پکڑا دی۔ اس سے پہلے ہمیشہ نلکی لوسی نے خود بدلی تھی نلکی بدلتے وقت مذاق بھی کرتی، ایک بار تو اس نے سہلا نا شروع کیا مگر میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بات بدل دی۔

’ نلکی بدل لو تو مجھے آواز دے دینا‘ شاید مصروف ہو گی میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ اس رات وہ حاملہ پھر آ دھمکی۔ گندمی رنگ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، جن میں اداسی گھُلی ہوئی تھی۔ میں اس سے نگاہیں ملا نہیں پاتا تھا۔ اس بار ٹرین اسٹیشن پر رکی تو وہ باقاعدہ مجھے کھینچنے لگی کہ گو یا ٹرین سے نیچے کھینچ لے گی۔ وہ تو میری چیخوں کی آواز سن کر لوسی نے مجھے اٹھا دیا ورنہ آج شاید کچھ ہو جاتا۔

میرے پیر کے زخم میں ابھی تک پس پڑی ہوئی تھی۔ ہر تیسرے روز پٹی تبدیل کی جاتی۔ آج تیسرا روز تھا۔ شروع شروع میں ایک نرس آ کر گھر پر پٹی بدل جاتی پھر اس نے لوسی کو سکھا دیا کہ زخم پر پٹی کیسے بدلی جائے گی۔ حکومت ایک اپاہج پر اب مزید اخراجات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’ میں آ رہی ہوں گرم پانی لے کر جم، پٹی بدلوانے کے لئے تیار ہو جاؤ‘ مجھے لوسی کی آواز سنائی دی۔ مجھے کیا تیاری کرنی تھی بس ذہنی طور پر اس درد کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گیا  جو پٹی بدلنے سے ہوتی تھی۔ لوسی کا شاید مقصد بھی یہی تھا۔ وہ پانی کا تسلہ، قینچی، پٹی اور مرہم لے کر آئی تو میں اسے دیکھ کر پہلے تو بھونچکا رہ گیا پھر ہنس پڑا، اس نے چہرے پر ڈھاٹا باندھ رکھا تھا۔

’یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ‘ میں نے پوچھا

’وہ در اصل، جم‘ اس کی آواز میں ہچکچاہٹ تھی۔ ’در اصل زخم سے بہت بدبو آتی ہے ‘ اس نے بالآخر جملہ پورا کیا۔ میری آنکھوں میں آنسو سے بے خبر وہ پٹی بدلنے میں مصروف ہو گئی۔ درد کی شدت سے میری تو چیخیں ہی بدل گئیں۔ ’بس ذرا صبر ابھی تمھیں درد کا انجکشن دے دوں گی‘ اس نے مجھے پچکارا۔ پٹی بدل کر اس نیک بخت نے واقعی مجھے انجکشن لگا دیا۔ میں درد کے اندھیرے سے نکل کر خواب کی وادی میں کیا گھسا کہ ٹرین کا سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ ٹرین پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی، میں نے قریبی ڈنڈا پکڑ لیا کہ گر نہ پڑوں۔ ’یہ بیت الخلا کے نزدیک کیوں بیٹھے ہو، یہاں سیٹ خالی ہے یہاں آ جاؤ‘ کسی نے آواز دی۔ بیت الخلا کی بو میں میری بو دب جائے گی، اب میں اسے کیا بتاتا ’بس یہیں ٹھیک ہوں ‘ بس اتنا ہی کہہ سکا۔ وہ حاملہ آج نہیں نظر آ رہی۔ میں نے چاروں طرف مڑ مڑ کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تو اچانک لوسی سامنے آ گئی۔

’جم تمھارا اسٹیشن آ گیا ہے ‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پیار سے مجھے سمجھایا۔

’واقعی، لیکن میرے خیال میں تو ابھی بہت دور ہے، یہ اسٹیشن تو میرا نہیں ‘، اس سے پہلے کہ میں اس سے مزید الجھتا وہ غائب ہو چکی تھی۔ پٹی والا پیر شاید مسہری کے پائے سے ٹکرایا کہ درد کی شدت سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنی پتلون سے بیلٹ کھینچی اور پنکھے سے باندھ کر اس کی مضبوطی کا اندازہ کرنے لگا کہ انسانی وزن سے کہیں ٹوٹ تو نہیں جائے گی۔ میرا اسٹیشن آ گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

بے دخلی

 

کسی آواز سے میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا، وہ باہر برآمدے میں کھڑا تھا۔ یقیناً میری آنکھ اس کی موجودگی سے ہی کھلی تھی۔ پہلے تو میں اسے پہچان نہیں سکا۔ آنکھ کھلتے ہی ہر چیز ایک سی نظر آتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ذہن کے کسی گوشے میں شناسائی کے خلئے بیدار ہوتے ہیں تو شکل کے ساتھ ذہن میں ایک نام ابھر آتا ہے۔ اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ آنکھیں مل کر دیکھا تو جیبوں میں ہاتھ ڈالے برآمدے میں کھڑا ہے۔ بہت سارے سوال بیک وقت ہی ذہن میں ابھرے۔ یہ کیسے گھر کے اندر گھس آیا، بیچ رات میں کیوں آیا ہے اور سب سے اہم یہ کہ اب میں اس کو ٹالوں کیسے۔

’ یہ کیا طریقہ ہے جناب آپ گھر میں کیسے گھس آئے، مجھے یاد ہے سونے سے پہلے میں نے صدر دروازہ تو بند کر دیا تھا‘ میں نے ناگواری سے سوال کیا۔

’ صدر دروازہ بند کرنے سے گھر محفوظ ہو جاتا ہے کیا؟ ہلکے سے دباؤ سے پچھلا دروازہ کھل گیا اور میں اندر آ گیا‘ اس نے ایسی لاپروائی سے کہا جیسے یہ ایک فطری عمل ہے جو اس کو کرنا ہی چاہئے تھا۔

’ اب آ ہی گئے ہیں تو فرمائیے کیسے زحمت کی دن کی روشنی شاید آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے ‘ میں ذرا طنز سے کہا۔ نیک بخت جو اس کی آواز سن کر لحاف میں کچھ اور نیچے دبک گئی تھی اس نے ہلکے سے میری ران پر چٹکی بھری گویا انتباہ کر رہی ہو۔

’ نہیں میاں دن کی روشنی مجھے تو نہیں کھلتی، لیکن آپ ضرور مجھے پہچان کر دروازہ بند کر لیتے یا آپ کو کوئی ضروری کام یاد آ جاتا۔ رات کی تاریکی میں آپ کی مدافعت پر بھی ذرا غنودگی سی طاری ہو جاتی ہے، پھر یہ کہ ملنا بھی ضروری تھا۔ آپ سے آخر ہمارے بہت دیرینہ تعلقات ہیں، بیٹھنے کو نہیں کہیں گی؟‘

’ اب آپ اندر آ ہی گئے ہیں، چور دروازے سے اور وہ بھی رات کی تاریکی میں تو ذرا بتائیے میں اس وقت آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟‘اس کو بیٹھنے کی دعوت دینا ایسا ہی تھا گویا کوئی عرب اونٹ کو خیمے میں گردن گھسانے کی اجازت دے دے۔ وہ وہیں برآمدے میں کھڑا رہا اور میں کمرے کی کھڑکی کے اس پار۔

’ آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں ‘

’ مجھے واقعی نہیں معلوم، سب خیریت تو ہے آپ کے گھر میں ‘ میں انجان بنا رہا۔

’ جی میرے گھر میں تو سب خیریت ہے، یوں کہئے آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتا ہوں ‘ لگتا تھا اشاروں کنائے میں یہ بھی پی ایچ ڈی کر کے آیا ہے۔

’ میں سمجھا نہیں ؟‘ میں بھی ڈھیٹ بنا رہا۔

میں اپنا قرضہ واپس لینے آیا ہوں ‘۔

اس کے منہ سے وہی نکلا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بیچ رات میں بلا بلائے کوئی اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑا ملتا تو بقول پطرس بخاری، میں بھی عدم تشدد کو خیر آباد کہہ دیتا۔ مگر یہاں دو مسائل ذرا گھمبیر تھے، ایک تو یہ جسمانی طور پر وہ مجھ سے بہت زیادہ طاقتور تھا، دوسرے میں اس کا مقروض تھا۔ لفظ مقروض شاید اس دلدل کو بیان نہ کر سکے جس میں گھرا تھا۔ میرا بال بال نہیں بلکہ یوں کہئیے میرا رواں رواں قرض میں جکڑا ہوا تھا۔ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا، معاملہ اس حد تک کیسے پہنچا فی الوقت یہ بحث فضول ہے۔ میں نے لفظ فی الوقت بہت سوچ سمجھ کر اور  ارادتاً استعمال کیا ہے۔ دیکھئیے جب کہیں آگ لگی ہو تو فوری مسئلہ آگ بجھانے کا ہے۔ آگ کیوں لگی یہ تحقیق بعد کی بات ہیں۔ اس تحقیق کی اہمیت سے انکار نہیں کہ بہتری ابتری سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ تو فوری مسلہ آگ پر قابو پانے کا ہے۔ یہ قرضہ بیوی کی شاہ خرچی کی وجہ سے ہوا ہے یا میری جمع تفریق میں نالائقی کی وجہ سے، فی الوقت یہ بات خارج از بحث ہے۔ دوسرے یہ کہ اس بحث سے میرے اور اس نیک بخت کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا اندیشہ ہے۔ سب سے آسان حل یہ ہو گا کہ ہم ایک دوسرے کو الزام دیں، تم یہ نہ کرتیں تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا وغیرہ، وغیرہ۔ جب کہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر اس بری گھڑی کو ٹالیں۔

لیکن سیٹھ صاحب یہ تو بیچ رات ہے اور اس وقت تو میرے پاس پیسے بھی نہیں ہیں، ابھی فوراً کہاں سے دوں کچھ وقت کی مہلت اور دے دیں ‘۔

’کچھ روز کی مہلت، یہ جملہ تو سمجھئے پارلیمانی لہجے سے باہر ہو گیا ہے، اس نکتے پر مذاکرات اب نہیں ہوں گے۔ سیٹھ کی اپنی ایک الگ بھاشا تھی۔ اتنے سالوں اس سے معاملہ کرنے کے بعد میں یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ نکتہ اب مزید کام نہیں آئے گا۔

’ اگر مہلت ممکن نہیں اور میرے پاس پیسے بھی نہیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے ‘ عجیب سادیت پسند طبعیت تھی میری۔

’ ایک صورت ضرور ممکن ہے اور وہ ہے قرقی۔ وہ پھر اپنی سرمایہ دارانہ لہجے میں بولا۔ اس کی زبان سے وہ الفاظ نکل رہے تھے جن سے میرے کان یا تو نا آشنا تھے یا اس وقت ایسے بن گئے تھے جیسے کسی اسکیمو کان میں عبرانی انڈیلی جا رہی ہو۔

’قرقی؟‘ میرا لہجہ سوالیہ تھا۔

’ جی قرقی کوئی نیا قانون تو نہیں ہے۔ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جب لوگ اپنی اوقات سے زیادہ خرچ کرنے لگتے ہیں تو اکثر ان کی جائیداد اور وراثت قرق ہو جاتی ہے ‘۔

’آپ کون ہوتے ہیں مجھے اوقات یاد دلانے والے ‘ میں نے ایک بے تیغ سپاہی کی طرح جوابی حملہ کیا۔

’ اگر آدمی خود اپنی اوقات نہ بھولے تو دوسروں کو اسے اوقات یاد دلانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘۔ طاقت اور دولت نے اس کے لہجے میں خوداعتمادی، طنز، کنایہ، ٹھہراؤ سب ہی تو بھر دیا تھا۔ کیا کوئی طاقتور، امیر آدمی حلیم الطبع ہو سکتا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ شکر ہے رات کی تاریکی میں وہ انہیں دیکھنے سے قاصر تھا۔ یا صرف یہ کمزور کی زود رنجی ہوتی ہے کہ طاقت کا لہجہ کھل جاتا ہے۔ گفت و شنید یا مذاکرات تب ہی متوازن ہو سکتے ہیں جو برابری کی بنیاد پر ہوں۔ اگر ایک فریق بہت زیادہ طاقتور ہو یا دولت مند ہو تو توازن نہ بگڑنا باعثِ حیرت ہو گا۔

’کیا آپ مجھے بے گھر کر دیں گے ‘ مجھے لگا جیسے نیک بخت نے لحاف کے اندر کروٹ لی ہو۔

’ اس کے علاوہ کیا چارہ ہے۔ اگر اس وقت مجھے پیسوں کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو میں یہ انتہائی قدم کبھی نہ اٹھاتا۔ آپ خود ہی سوچئیے سارے دروازے تو آپ نے خود ہی بند کر دئیے۔ اب میں خود اپنے مفادات کو تباہ کر لوں یا آپ کے مکان کی فروخت سے ان کا تحفظ کر سکوں، آپ کسی چھوٹی جگہ منتقل ہو جائیے ‘ اس نے ہمدردی سے کہا۔ مجھے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ برآمدے تک آنے والی چاندنی میں اس کے سامنے کے دو دانت اچانک لمبے ہو کر اس کے بند منہ سے باہر نکل آئے تھے۔ خون آشام نے تازہ شکار کی بو سونگھ لی تھی۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی اپنی جائداد ایک وسیع اراضی پر پھیلی ہے۔ میرے مکان پر اس کی نظر صرف اس کی توسیع پسندی کے پیٹ کا ایندھن ہے۔ شکاری کا پیٹ بھرا ہوا بھی ہو تو بھی وہ عادتاً ہراس ہرنی پر تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔ لیکن اس سے کیا بحث کروں، قصور میرا اپنا ہے۔ اپنے آپ کو اس گرداب میں پھنسانے کا ذمہ دار میں خود ہی تو ہوں۔ عدالت کا رخ کروں تو کس برتے پر۔ میرا مقدمہ اتنا کمزور ہے کہ سمجھئے ہے ہی نہیں، جگ ہنسائی کا سبب بنوں گا۔ بچت کا صرف یہی طریقہ تھا کہ اس کی کسی نیک خصلت کو ابھاروں۔ اس کو جذباتی ہیجان اور پشیمانی میں مبتلا کروں شاید مہلت دے دے۔

’ آپ میرا گھر قرق کر کے کیا حاصل کریں گے۔ کوئی اور راستہ سوچتے ہیں ادائیگی کی قسطوں میں اضافہ کر دیجئیے۔ شرحِ سود بڑھا لیں، میں ہر صورت میں راضی ہوں، خدارا ہم کو بے گھر تو نہ کیجئے ‘۔ میری آواز میں بے چارگی تھی۔ مجھے لگا لحاف میں گھسی نیک بخت نے بھی ایک سسکی بھری ہے۔ شاید یہ سسکی اس نے بھی سن لی تھی۔ اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے ایک توقف کے بد جواب دیا۔

’ ایک صورت اور ہو سکتی ہے ‘

’ وہ کیا صورت ہے ؟‘ امید کی کرن پھوٹ پڑی۔ انسانیت اور شرافت پر پھر میرا اعتماد بحال ہونے لگا۔ وہ دوسرا حل بتانے سے ہچکچا رہا تھا۔

’بتائیں تو جناب وہ دوسرا حل کیا ہے ؟‘

’دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنے بچے مجھے دیدیں، میں انہیں پال لوں گا۔ لکھاؤں گا، پڑھاؤں گا، میرے کام آئیں گے، میرے بھروسے کے آدمی بنیں گے ‘۔ میری امیدوں پر پانی پڑ گیا۔ جہاں معاملہ ہوس اور توسیع پسندی سے ہو وہاں شرافت اور انسانیت کی امید کرنا، شرافت اور انسانیت کی توہین ہے۔

’ نہیں ‘ اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا، نیک بخت نے لحاف پھینک کر دوسری پلنگ پر لیٹے دونوں بچوں کو سینے سے لپٹا لیا۔ ’ نہیں آپ یہ بچے ہم سے نہیں لے سکتے، یہی تو ہمارا مستقبل، یہی تو سہارا ہیں ‘۔

’ بھابی جان قرضہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ یہ بچے بڑے ہو کر بھی میرے مقروض رہیں گے۔ انہیں وہی کرنا ہو گا جو میں کہوں گا۔ ابھی سے میرے حوالے کر دیں تو میں قرض معاف کرنے کو تیار ہوں۔ ذرا دور اندیشی سے کام لیجئیے ‘ اس نے نہایت سلاست سے سمجھایا۔

’ بھابی جان ‘ کمبخت کیسی شرافت اور اپنائیت سے مخاطب تھا۔ میں بالکل نہیں چاہتا کہ یہ میری بیوی کو بھابی جان کہے۔ بہتر یہ ہے کہ اسے اس کے نام سے پکارے۔ اپنے خون آشام

لہجے میں، بڑے بڑے دانتوں، لمبی سی ناک اور ڈراؤنے چہرے کے ساتھ۔ کم از کم پتہ تو ہو گا کہ ہم کس سے معاملہ کر رہے ہیں، چھری کس سمت سے آ رہی ہے۔ ’بھابی جان‘ سے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی مغل دربار میں کوئی فرنگی تاجر بادشاہ سلامت کو مخمل میں لپٹا خنجر پیش کر رہا ہے۔ شیطان اصلی شکل میں ہو تو پہچان کر اس سے بچا جا سکتا ہے۔ یہاں معاملہ ایسے موذی سے تھاجس کے چہرے پر معصومیت اور زبان میں شیرینی تھی۔

’نہیں میں اپنے بچے کسی قیمت پر نہیں دوں گی، مر جاؤں گی مگر نہیں دوں گی‘ نیک بخت کسی شیرنی کی طرح دونوں بچوں پر سایہ کئے تھی۔

’آپ کی اولاد ہے، آپ کو پورا حق ہے جو چاہے فیصلہ کریں۔ میں تو صرف زمینی حقائق کی نشاندہی کر رہا ہوں۔ ساری عمر مقروض رہنے والی اولاد میری غلام نہیں رہے گی اور کیا ہو گی۔ اور اگر میرا حساب اتنا کمزور نہیں ہے تو، یہ تو کیا آپ کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی انشاء اللہ میرے بچوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو بٹھا کر کھلائیں گے۔ میں تو آپ کو گلو خلاصی کا راستہ دکھا رہا ہوں۔ یہ حل قبول نہیں ہے تو قرقی کا راستہ کھلا ہی ہے ‘۔

نیک بخت کچھ کہتی یا نہیں یہ راستہ خود مجھے بھی قبول نہیں تھا۔ ذہن بالکل ماؤف تھا۔ اب مجھے سمجھ آ رہا تھا لوگ خود کشی کیوں کر لیتے ہیں۔ لیکن میرے خود کشی کر لینے سے نیک بخت اور میرے نام لیوا بھی سکون نہ پاتے، یہ مسئلہ جوں کا توں رہتا، کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔

’ کوئی اور حل سوچئے، کوئی اور طریقہ ضرور ہو گا۔ آپ جو کہیں گے وہ میں کرنے کو تیار ہوں ‘ میں نے کہہ تو دیا مگر ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں تو کیا گھنٹا گھر پورے زور سے بج رہے تھے، گویا کسی ہونے والی فوتگی کا اعلان کر رہے ہوں۔

’جو میں کہوں گا وہ تو آپ کریں گے ہی لیکن اس سے میرا قرض تو ادا نہیں ہو گا۔ اب اس قرض کی ادائیگی کسی طرح تو آپ کریں گے یا نہیں ؟‘ اس کے لہجے میں تیزی تھی۔ ’یوں سمجھئیے کہ یہ مکان قرق کر کے بھی مجھے گھاٹے کا سودا ہی رہے گا‘۔

’ وہ کیسے، میں پوچھے بنا نہ رہ سکا۔

’ وہ ایسے کہ اب اس مکان میں بچا کیا ہے، کوئی اس کی کیا قیمت دے گا‘، میری آنکھوں میں بے یقینی دیکھی تو اس نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی زور سے کھڑکی پر ماری تو اس کا پٹ نیچے آ گرا۔

’ دیکھا کس قدر سالخوردہ ہے، آپ میری بات پر یقین نہیں کر رہے تھے ‘

’ معاف کیجئے گا، کمبخت دیمک چاٹ گئی اس کو، بس میں بدلوانے ہی والا تھا کھڑکیاں ‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔

’ اور بدلوانے کے پیسے کہاں سے آتے، مجھ سے ہی مزید ادھار مانگتے ‘

اس کا یقیناً مذہب مختلف ہے کہ گرے ہوئے کو اس وقت تک مارتے رہو جب تک کہ وہ دم نہ دے دے۔ وہ پورے پندرہ راؤنڈ کا قائل نہیں تھا، غالباً کہیں اور بھی جانا تھا وصولی کے لئے۔

آپ کہیں تو مزید نمونے پیش کروں۔ اس کی منحوس آواز کانوں میں گونجی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہ سکتا، اس نے چھڑی دیوار میں گھسا دی۔ چھڑی دیوار کے آر پار ہو گئی۔ میری آنکھیں تقریباً باہر نکل آئیں۔ میری دیواریں اتنی بوسیدہ ہو چکی ہیں، ابھی کچھ زیادہ دن تو نہیں ہوئے اس گھر کو بنے۔ معمار بھی بہت دیکھے بھالے تھے، بہت خون پسینے کا گارا لگا تھا، پھر یہ حال کیے ہو گیا۔ کیا موسم بہت نا موافق تھا، میں نے متوحش نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ فاتحانہ نظروں سے مجھے ہی دیکھ رہا تھاجیسے چیلنج کر رہا ہو، اب بھی یقین نہ آیا ہو تو اور مثالیں پیش کروں۔

’ یہ کیسے ہو سکتا ہے ‘ میں نے بے اعتباری سے پوچھا

’ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو۔ اپنے آپ سے پوچھو۔ یہ سب ایک دن میں تو نہیں ہو گیا۔ لگتا ہے بہت محنت کی ہے تم نے اسے بگاڑنے میں۔ یقین جانو تو مجھے بھی اس قدر بری حالت کی امید نہیں تھی، لگتا ہے میرا تو سارا پیسہ ڈوب گیا‘۔

’ نہیں، نہیں میں نے تو بہت خیال رکھا تھا‘ مجھے خود اپنی بات جھوٹ لگی۔

’ کیا خیال رکھا تھا بتاؤ، ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو، سوچو، بتاؤ کیا خیال رکھا تھا؟‘

’ ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے، کیا رکھا ہے اس میں۔ ہم آگے بھی نہیں دیکھتے۔ بھئی حال میں زندہ رہنے میں جو مزا ہے وہ کہیں اور ممکن نہیں ‘ میں نے اسے فخر سے سمجھایا۔

’ صحیح کہہ رہے ہو، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئیے لیکن اگلا پچھلا حساب تو رکھنا چاہئیے۔ کبھی مرمت بھی کی تھی اس کی۔ کہیں کا پلستر ادھڑ جائے تو اسے فوراً رفو کرنا پڑتا ہے، نیا پلستر لگانا پڑتا

ہے، ورنہ بارش رس رس کر ساری دیوار خراب کر دیتی ہے۔ تمھارے پاس کوئی کاپی، کوئی رجسٹر کوئی رسیدیں ہیں کہ تم نے کہاں کہاں درستگی کرائی تھی‘

’ نہیں میں نے حساب تو نہیں رکھا، زیادہ ضرورت پڑی ہی نہیں ‘ میں نے ذرا شرمندگی سے کہا۔

’ ضرورت نہیں پڑی، تو وقتاً فوقتاً جو تم مکان کے نام پر قرض لیتے رہے ہو مجھ سے اس کا کیا کیا؟‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔ میں نے اور نیک بخت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور شرمندگی سے ہماری آنکھیں ایک ساتھ جھک گئیں۔ میں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا اور دیتا بھی تو کیا۔ پیسے لئے تو ضرور تھے لیکن کبھی کہیں سیاحت کے لئے نکل گئے، کچھ نیک بخت کو زیور کا شوق بھی زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ میں بھی ذرا نئی گاڑی اور ٹیپ ٹاپ کا خیال رکھتا ہوں۔ آدمی اپنی ظاہری حیثیت سے ہی پہچانا جاتا ہے، بہت خیال رکھنا پڑتا ہے اپنی ظاہری حالت کا۔ ہیرے کو ٹاٹ کے ٹکڑے میں لپیٹ کر رکھ دیجئے کوئی دوسری نظر نہیں ڈالے گا۔ کچھ پیسہ پرانے قرضے اتارنے میں خرچ ہو گیا۔ ہزار خرچے ہوتے ہیں کوئی ایک خرچ ہو تو بتاؤں۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ بجٹ کے وقت اخراجات منہ پھاڑے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب میں اسے کیا سمجھاؤں، مجھ پر جھنجلاہٹ طاری ہونے لگی۔

’ تم نہیں سمجھو گے، تم کبھی ان حالات سے گذرے ہی نہیں، منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہو گے ‘ میں نے اپنی بے بسی کا انتقام گویا لہجے کی کاٹ سے لیا۔

’ نہیں ایسا تو نہیں۔ ہمارا گھر بھی ایک بار دھوئیں سے بھر گیا تھا۔ مگر ہم گھر کو چھوڑ کر بھاگے نہیں، سب نے مل کر آگ بجھائی، پھر جہاں جہاں آگ سے نقصان ہوا تھا اس جگہ کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بس ذرا خیال رکھا تھا کہ چولہا اور باورچی خانہ ذرا دور ایک کونے میں تعمیر کریں کہ اگر آگ لگے بھی تو پھیلے نہیں۔ مقامی آگ پر نسبتاً آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے، پھر یہ بھی کوشش کی کہ چولہے کو ہوا کے رخ سے ذرا دور رکھیں۔ بھئی چولہا تو ہر گھر میں ہوتا ہے اس سے تو مفر نہیں لیکن ہوا کے رخ سے اسے الگ کر دیا تو یہ آگ دوبارہ پھیلی نہیں ‘ وہ اپنی سوچ میں بہت دور نکل گیا تھا۔

’نقصان تو بہت ہوا ہو گا‘

’ ہاں نقصان تو بہت ہوا تھا۔ جانیں بھی بہت ضائع ہوئی تھیں۔ لیکن اس سے ہمیں سبق ملا۔ مکان کے نقشے کا دوبارہ جائزہ لیا، چہار دیواری دوبارہ مضبوط کی، دیواریں کھڑکیاں ٹھوک بجا کر دیکھیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ اپنا گھر مضبوط کر لیا ہے۔ اب ہم دوسری سالخوردہ یا خطرے میں گھری عمارتیں خرید کر یا تو انہیں مسمار کر دیتے ہیں۔ اگر زمین اچھی جگہ اور مہنگی ہو تو اس پر نیا ڈھانچہ کھڑا کر لیتے ہیں۔ ورنہ پرانا فرنیچر، لکڑی وغیرہ بیچ کر اچھے پیسے بن جاتے ہیں۔ اکثر تو اس کباڑ سے ایسی ایسی نادر چیزیں ملتی ہیں کہ ساری محنت وصول ہو جائے ‘۔ وہ اپنے جذب کے عالم میں مجھے اتنا کچھ بتا گیا جو شاید ویسے نہ بتاتا، اسے شاید خود بھی اس بات کا احساس ہو گیا۔

’ اس وقت بات میری نہیں آپ کی ہو رہی ہے ‘اس نے لہجے میں تلخی کے باوجود طرزِ تخاطب شائستہ ہی رکھا۔

’ بھئی کچھ کوشش تو میں نے اپنے مکان کو اچھا رکھنے کی ضرور کی تھی لیکن یہاں شب خون اتنی بار پڑا کہ دیواریں ہمیشہ کے لئے شکستہ ہو گئیں۔ یہ جو تم نے اپنی چھڑی دیوار میں گھسائی تھی یہیں ایک بار نقب لگ چکی ہے۔ ایک بار نقب لگ جائے تو پھر دیوار میں وہ مضبوطی کہاں سے آتی؟‘

’ لیکن تمھارے محلے میں تو اتنی چوریاں نہیں ہوتیں۔ تمھارے پڑوسی بھی میرے مقروض ہیں، ان کے احوال سے میں واقف ہوں، کبھی نقب زنی کی اطلاع تو نہیں آئی‘

’ بس اب کیا بتاؤں ‘ میں شرمندگی سے اپنی بات مکمل نہ کر سکا۔

’ نہیں بتاؤ، بتاؤ، میرے لئے جاننا بہت ضروری ہے۔ جانکاری اور معلومات میرے کاروبار میں سمجھو کامیابی کی کلید ہیں ‘ اس نے میرا حوصلہ بڑھایا۔

’ بھئی اندر سے ہی نقب لگتی رہی۔ میرے کچھ سسرالی رشتہ دار ایسے نکلے کہ یہاں رہتے اور نقب لگاتے رہے۔ ہم نے تنگ آ کر کئی دفعہ چوکیدار بھی رکھا۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے کہ وہ ان سب سے بڑے چور نکلے ‘ وہ میری داستان بہت دلچسپی سے سن رہا تھا۔

’ اب جو بھی ہے، قرضے کی واپسی کی طرف آؤ، مجھے پیسے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ میں دو حل تجویز کر چکا ہوں، لگتا ہے قرقی ہی ہو گی۔ یہ نقب کی کہانی میں کئی گھرانوں میں سن چکا ہوں، تم لوگوں کو سبق سیکھنا چاہئیے تھا۔ اب اس مکان کو دیکھ کر اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں میرے آدمیوں نے اس جائداد کے عوض اتنی رقم کیسے دیدی۔ بھئی یہاں تو بنیادی ڈھانچے میں بھی مسائل ہیں ‘۔

’نہیں ڈھانچہ بہت مضبوط ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ‘ میں نے زرا ناگواری سے کہا۔

’ یہ چھت اتنی نیچی کیوں ہے، آجکل تو اونچی چھتوں کا فیشن ہے ‘

’ بھئی کیا بتاؤں اونچی چھتوں میں آواز گونجتی ہے۔ میری بیوی کے کچھ رشتہ دار یہاں رہتے ہیں وہ اپنی آواز سنننا نہیں چاہتے، تمھیں تو معلوم ہی ہے اونچی چھت سے بازگشت پیدا ہوتی ہے اور ہم اپنی بازگشت برداشت نہیں کر پاتے۔ ویسے آپ صحیح کہہ رہے ہیں، چھت اونچی ہی رکھوانی چاہئیے تھی۔ اب نیچی چھت ہونے کی وجہ سے سیدھا کھڑا ہونے میں دشواری ہوتی ہے، فوراً سر ٹکرا جاتا ہے۔

’ اور خرابیاں گنواؤں ڈھانچے کی؟‘

’ بھئی جیسا بھی ہے میرا گھر ہے۔ تمھیں کچھ پتہ ہے نہیں بلا وجہ خرابیاں گنوا رہے ہو۔ در اصل ابا میاں کو ان کے خالو نے پالا تھا۔ جب خالو کا انتقال ہوا تو ابا میاں کو وہ گھر مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ بیوی بچوں کے ساتھ سر پر چھت تھی نہیں، جلدی میں جو نقشہ بن سکا بن گیا، اس پر فوراً تعمیر شروع ہو گئی۔ میری غلطی یہ ہے کہ میں اس کی مرمت اور مضبوطی پر توجہ نہیں دے سکا۔ بس بیرونی آرائش و رنگ و روغن سے کام چلا لیا۔ لگتا ہے اندر سے یہ کھوکھلا ہوتا رہا اور باہر سے دیکھنے والے اسے مضبوط سمجھتے رہے، قصور میرا اپنا ہے ‘۔

’ مجھے انگلیاں اٹھانے اور الزام تراشی کی نہ فرصت ہے نہ عادت۔ تم میاں بیوی یہ کام کرتے رہو۔ قصور کس کس کا ہے، یہ سب کیوں ہوا، اب عذر تراشنے بند کرو۔ مجھے اپنا قرضہ واپس چاہئے۔ اتنی لمبی بحث اور کہانی سے کیا فائدہ۔ میں نے حجت تمام کر لی، میرا ضمیر مطمئن ہے۔ میرا قرض واپس کر دو، تم اپنے گھر خوش میں اپنے گھر خوش۔ نہیں واپس کر سکتے تو اپنی نسل مجھے دے دو، یہ بھی نہیں کرنا چاہتے تو مکان قرق تو ہو گا اور ہو گا بھی آج ہی کی تاریخ میں۔ شکر ہے تم مجھے اس سے نہیں روک سکتے۔ قانون میرا ساتھ دے گا، یہ تو تمھیں بھی علم ہے۔ اگر تم نے قانون سے آنکھ بند کر لی ہے تو قانون تو تمھاری طرف سے اندھا نہیں ہو گیا ‘ اس نے گویا بات تمام کر دی۔

’ جب تم نے ٹھان ہی لی ہے تو پھر جو چاہو کرو، لیکن اب یہاں سے دفعان ہو‘ شکست خوردہ لہجہ جارحانہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ صبح سے پہلے تو یہ کچھ کر نہیں سکتا، صبح ہو گی عدالت کھلے گی، یہ قرق نامہ حاصل کرے گا پھر آئے گا۔ ان چھ آٹھ گھنٹوں میں کوئی ترکیب ذہن میں آ جائے گی۔ مجھے اپنی ہشیاری پر پورا بھروسہ تھا، یہ نوبت اس سے پہلے بھی کئی بار آ چکی تھی۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا تھا۔

’ چلو اب نکلو یہاں سے ‘، میں نے اسے باہر نکال کر اندر سے چٹخنی لگا لی۔ حالات نے ثابت کیا کہ میں اپنے آپ کو جتنا عقلمند سمجھتا تھا، اتنا میں تھا نہیں۔ صبح سے شام ہو گئی کوئی صورت نہیں بنی۔ دوسرے ساہوکاروں نے بھی قرضہ دینے سے انکار کر دیا۔ کچھ میرے حالات سے واقف تھے اور کچھ بڑے سیٹھ سے خوفزدہ۔ میں مرتے قدموں گھر واپس لوٹا کہ پھر اس سے خوشامد کروں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جہاں میرا گھر تھا وہاں اب صرف ملبے کا ڈھیر ہے۔ ایک بلڈوزر بچے کچے گھر کو مسمار کر رہا ہے۔ وہ بد بخت اس ملبے پر اکڑوں بیٹھا ہے۔ ملبے پر ایک بورڈ لگا دیا ہے جس پر جلی حروف میں لکھا ہے ’نئی ملکیت‘۔

’یہ میرا گھر تھا، یہ تم نے کیا کیا؟‘ میرے منہ سے بین کی سی آواز نکلی

’گھر اس کا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کر سکے، ورنہ ملکیت بدل جاتی ہے۔ اب میں یہاں جو نیا مکان بناؤں گا تم چاہو تو بحیثیت کرائے دار اس میں رہ لینا‘ اس نے بہت رسانیتے مجھے سمجھایا، میرا بریف کیس ہاتھ سے لے کر رکھا اور مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔

٭٭٭

 

 

 

پرایا جرم

 

میں کمرے میں داخل ہوا تو گفتگو ایک لمحے کے لئے رک گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا تھا۔ جہاں میں کسی کمرے، برآمدے، صحن میں داخل ہوا ایک لمحے کے لئے گویا وقت رک جاتا تھا۔ پھر ایک لحظہ ٹھٹک کر جیسے دوبارہ چل پڑتا۔ یہ لحظہ اتنا مختصر بھی ہو سکتا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہ ہو کہ یہ ہونے والا ہے تو آپ اسے محسوس بھی نہ کر سکیں اور بعض اوقات اتنا طویل ضرور ہوتا کہ کوئی کہہ دیتا  ‘‘تو میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ دیکھئے میرے سر پر سینگ نہیں ہیں، میں بھی دوسروں کی مانند ایک ناک اور دو کان رکھتا ہوں، اپنے پیروں پر چلتا ہوں، سر پر بال بھی ہیں، مگر نجانے وہ کون سی بات ہے کہ میں محفل میں داخل ہوا اور گفتگو ایک شرمندہ سے لمحے کے لئے رک گئی۔ شروع میں تو مجھے کئی سال اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا، پھر مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی، میں بار بار کمرے میں جاتا، لوگوں کے منع کرنے سے اور زیادہ جاتا کہ دیکھوں کیا اب پھر، اور یقین کیجئیے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی۔ رفتہ رفتہ مجھے اس بات سے بہت کوفت ہونے لگی۔ میرے دل میں ایک خلش سی بیٹھ گئی، مجھ میں کیا کمی ہے ؟

اس وقت بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ صاحب ہمارے پڑوس میں نئے آئے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تھا کہ ان کے بھی دو بچے میری ہی عمر کے ہیں۔ جب وہ ہمارے گھر آئے تو میں صحن میں اپنے بھائی کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ صمد مجھ سے صرف ایک ہی سال بڑا ہے۔ ہاں میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ جب صمد کمرے میں داخل ہوتا ہے تو وقت ٹھہرتا نہیں، وقت پہچان جاتا ہے۔ نہیں پہچانے تو ہم اس کی یقین دہانی کرا دیتے ہیں کہ ہم وقت کو پہچانیں یا نہ پہچانیں وقت ہمیں ضرور پہچان لے، اور ہمارے ساتھ وہی سلوک کرے جو ہمارے ہم جنسوں نے ہمارے لئے طے کیا ہے۔ میں اپنے نئے پڑوسیوں سے ملنے کے لئے بے چین تھا۔ یہ نئے پڑوسی اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لائے تھے، تقریباً میری ہی عمر کا تھا، جب کہ اس دن کھڑکی سے جو لڑکی نظر آئی تھی وہ آج ان کے ساتھ نہیں آئی تھی۔ صمد مجھے ان لوگوں کے پاس نہیں جانے دے رہا تھا۔ کسی نہ کسی بہانے روک لیتا۔ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ نہیں چاہ رہا میں اندر کمرے میں ان لوگوں کے پاس جاؤں۔ اس سے میرا شوق اور تیز ہو رہا تھا۔ ہاں یہ ایک اور بات ہے۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ جب کوئی ہمارے گھر آتا ہے تو صمد اچانک میرے ساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں اندر کمرے میں نہ جاؤں۔ اگر آنے والا نیا ہے اور پہلے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا تو یہ کوشش اور زیادہ شدید ہوتی ہے، جتنا میرا اشتیاق بڑھتا ہے اتنا ہی صمد کا اضطرار۔ لیکن زیادہ تر جیت میری ہی ہوتی ہے، میں ہوں بھی بہت پھرتیلا، کسی نہ کسی طرح اسے غچہ دے کر کمرے میں گھس ہی جاتا ہوں۔ آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کبھی کبھی تو بیچارے کی پٹائی بھی ہو جاتی ہے کہ اس نے مجھے کیوں جانے دیا۔

خیر تو میں نے جان بوجھ کر اسے معمول سے زیادہ تیز گیند پھینی، ظاہر ہے وہ سنبھال نہیں سکا۔ گیند اس کے پیچھے گئی تو وہ اسے پکڑنے دوڑا۔ وہ ادھر مڑا اور میں ادھر پڑوسی سے ملنے کے اشتیاق میں کمرے میں جا گھسا۔ تو جیسے کہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں گفتگو ایک لمحے کے لئے ٹھٹھر گئی۔ پڑوسی نے مجھ پر نظر ڈالی اور غیر ارادی طور پر اس کی گرفت اپنے بیٹے کی کمر کے گرد سخت ہو گئی، میں کچھ سمجھ نہ سکا۔

‘‘آؤ بیٹا، بھئی یہ ہمارا چھوٹا بیٹا ارشد ہے۔ ‘‘

نہ جانے کیوں مجھے ابو کا لہجہ شکایتی سا لگا۔ میں اپنے والد کے پاس زمین پر بیٹھ گیا اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔ یہ میرا پسندیدہ وقت ہے کہ میں نیچے بیٹھا ہوں اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہے ہوں۔ لیکن ایسا اکثر نہیں ہوتا، میری کسی نہ کسی بات پر انہیں غصہ آ جاتا اور شفقت کا یہ لمحہ بہت عارضی ثابت ہوتا۔ نئے پڑوسی کی نظریں مجھ پر پڑیں پھر ہٹ گئیں دوبارہ مجھ پر پڑنے کے لئے۔ ایک خفیف سے توقف کے بعد گفتگو کا سلسلہ پھر بحال ہو گیا لیکن اب پڑوسی ہر ایک سیکنڈ کے بعد دزدیدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ جیسے مجھ سے خوفزدہ ہو۔ ہاں آپ یقین کیجئیے وہ مجھ سے خوفزدہ تھا۔ اتنا بڑا لحیم شحیم آدمی بھلا مجھ سے خوفزدہ کیوں ہے ؟وہ گاہے گاہے میری طرف دیکھتا رہا۔ مجھے پتہ ہے میری وجہ سے اس کا دھیان بٹ گیا تھا لیکن میں نے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ مجھے اجنبیوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں ہے۔ میں نے ان کے بیٹے کو انگلی سے اشارہ کیا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔ میں نے اسے اتنی دفعہ آؤ آؤ آؤ آؤ کہا لیکن مجھے لگا کہ وہ اگر اٹھنے بھی چاہتا تو اپنی کمر کے اطراف اپنے والد کی سخت گرفت میں گرفتار بیٹھا تھا۔ میں اٹھ کر ان کے قریب چلا گیا کہ اس کا ہاتھ پکڑ اسے اٹھا لوں۔

‘‘نہیں بیٹا یہ بہت تھکا ہوا ہے۔ ابھی سامان کھول رہے تھے اس میں بہت تھک گیا، پھر کسی وقت کھیلے گا‘‘ ۔ مجھے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہے ہیں، بہانے بنا رہے ہیں۔

میں نے ہاتھ بڑھایا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا لوں تو میرے پڑوسی نے نرمی سے میرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دیا۔ اب یہ فعل ایسے کیا گیا تھا کہ کمرے میں موجود دوسرے لوگوں کو لگا کہ جیسے نرمی سے میرا ہاتھ ہٹا دیا ہو۔ لیکن اصل بات فعل کی نہیں، فعل تو کیا فاعل کی بھی نہیں، بات تو نیت کی ہے۔ میں نے بھی بلبلا کر ان کی کلائی پر کاٹ کھایا۔ پڑوسی نے جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑایا اور شکایتی نظروں سے میرے والد کی جانب دیکھا۔ وہ پہلے ہی  ‘‘ہائیں ہائیں ‘‘  کی آوازیں نکالتے مجھے پشت سے اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔ میرے والد کے بہت معذرت کے باوجود، پڑوسی پھر نہ بیٹھے اور فوراً چلے گئے۔ ہاں میں یہ تو آپ کو بتانا بھول ہی گیا کہ اس دن پھر صمد کی بہت پٹائی ہوئی۔ یہ سین ہمارے گھر میں بہت بار دہرایا جا چکا ہے۔

آپ کا تو مجھے نہیں معلوم لیکن میری اپنی یاد داشت تقریباً چار، پانچ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تو اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ لوگ ہمارے یہاں آتے، ہم لوگوں کے یہاں جاتے، میں سب بچوں کے ساتھ کھیلتا، بہت ہلکا ہلکا یاد ہے۔ یا شاید سنُ سنُ کر ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے مجھے یاد ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس وقت بھی یہ جملہ ضرور کان میں پڑتا رہتا کہ:

‘‘ بہت شریر بچہ ہی، بھئی‘‘ ، یا یہ کہ

‘‘آپ کا یہ بیٹا بہت شیطان ہے، ماشا اللہ۔ ‘‘

یہ شاید کسی ڈاکٹر کے مطب کی بات ہے کہ جب میرے کان سب سے پہلے اس لفظ "autistic” سے مانوس ہوئے، پھر تو یہ گویا میرے نام کا ایک حصہ ہی بن گیا۔ میرے نام کے ساتھ جیسے وہ قابلیت لکھی جانے لگی جس میں میرا اپنا کوئی دخل نہیں تھا، قدرت کی مہربانی تھی۔ مجھے وہ دن تو خیر خوب یاد ہے جب ابا مجھے اسکول میں داخل کرانے لے گئے۔ میرا حساب غیر معمولی طور پر اچھا ہے، یہ شہر کا ایک پرائیوٹ اور اچھا اسکول ہے۔ مجھے پوری گنتی اور انگریزی کی اے بی سی یاد تھی۔ بلکہ حساب میں تو میں پہاڑے بھی سنا لیتا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ میں آسانی سے پہلی جماعت میں داخل ہو جاؤں گا۔ لیکن میرے ٹیسٹ کے بعد نہ جانے کیا ہوا کہ ابا نے مجھے اور صمد کو کمرے سے باہر بھیج دیا، پھر کمرے سے ان کے زور زور سے غصہ کرنے کی آوازیں آتی رہیں، اس میں صرف یہی لفظ "autistic” بار بار دہرایا جاتا رہا۔ ہم لوگ گھر واپس آ گئے تو کسی طرح مجھے یہ پتہ چل گیا کہ صرف صمد اس اسکول میں پڑھے گا۔

‘‘ بیٹا تمھیں ایک خاص، اچھے اسکول میں داخل کرائیں گے ‘‘ ۔ میں اس دن بہت رویا تھا۔ مجھے تو یہ دکھ تھا کہ صمد اس اچھے اسکول میں نہیں جا سکے گا۔ وائے نادانی، کاش میں اس دن ہی آئینہ دیکھ لیتا تو آئندہ آنے والے کئی صدموں سے جانبر ہونے میں اتنا وقت نہ لگتا۔ میں واقعی صمد کے اسکول میں ہی پڑھنا چاہتا تھا۔ اس دن ابا بہت دیر تک میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے رہے۔ میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ مجھے اس میں کتنا مزہ آتا ہے۔ اس دن بھی بہت مزا آیا۔ دل چاہتا تھا بس وہ انگلیاں پھیرتے رہیں۔ یوں اس دن میں بہل گیا اور اس دن کیا اس قسم کے کئی دن زندگی میں ایسے آئے جب سر سہلا کر ابا نے مجھے بہلا لیا۔ نیا اسکول بہت خراب تھا۔ میری دوسرے بچوں سے بہت جنگیں ہوتیں۔ اس اسکول کے تو دروازے پر ہی وہ لفظ "Autistic” کندہ تھا۔

کچھ دن تو ایسے ہوتے ہیں کہ آپ کی یادداشت میں نقش ہو جاتے ہیں، کوشش کے باوجود و یادیں دفن ہونے سے انکاری رہتی ہیں۔ میری کتابِ زندگی تو ایسے ایام سے بھری ہوئی ہے۔ اسی اسکول میں میری ناصر سے دوستی ہو گئی۔ میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں میری کبھی کسی سے دوستی نہیں ہو پاتی۔ صمد کے تو بہت دوست ہیں۔ وہ ان کے ساتھ باہر کھیلتا بھی ہے۔ میں نے آج تک باہر جا کر نہیں کھیلا۔ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں گھر کے پیچھے گلی میں بہت کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ صمد بھی خوب کھیلتا ہے۔ میں نے اکثر کھڑکی سے دیکھا ہے۔ مگر میں نے آج تک باہر جا کر نہیں کھیلا، معلوم نہیں کیوں۔ ہاں میں اور صمد اکثر اپنے صحن میں کھیلتے ہیں۔ لیکن اس میں بھی اکثر صمد کا کھیل باہر شروع ہو جائے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ کتنی بری بات ہے ناں ؟ تو خیر ناصر سے میری دوستی ہو گئی۔ وہ اس طرح کہ ایک دن میری برابر والی کرسی پر جمیل بیٹھتا تھا، میں نے غلطی سے اس کی پنسل لے لی۔ اس کو تو اتنا برا لگا کہ اس نے وہی پنسل بس میرے بازو میں گھونپ دی۔ وہ تو ناصر ہمارے پیچھے بیٹھا تھا اس نے اچانک رونا شروع کر دیا، اس کے زور زور سے رونے سے ٹیچر کی توجہ ہماری طرف ہوئی تو ناصر میرے بازو کی طرف اشارہ کر کے اور زیادہ رونے لگا۔ ٹیچر نے اس دن جمیل کی خوب پٹائی کی۔ ساتھ ساتھ وہ اسے جنگلی بھی کہتے جاتے تھے۔ یہ جنگلی کیا ہوتا ہے ؟ بہت سے لوگ مجھے بھی اس نام سے بلاتے ہیں یوں آٹسٹک اور جنگلی ساتھ ساتھ میری بھی پہچان بن گئے۔ شاید یہ پیار کے نام ہیں، اسی لئے تو ارشد اور ناصر کی جگہ لوگ ہمیں اسی نام سے بلاتے ہیں۔ صرف امی ابا نے کبھی ان ناموں سے نہیں بلایا، وہ ہمیشہ ارشد یا میرا ارشد کہتے ہیں۔ ویسے میں ان کا بہت لاڈلا ہوں۔ نہ ہوتا تو وہ میرے لئے الگ سے آیا کیوں رکھتے۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب امی رو رہی تھیں اور ابا سے کہتی تھیں  ‘‘بس اب مجھ سے نہیں ہوتا، بہت تھک گئی ہوں۔ ‘‘  پھر ابا نے میرے لئے آیا رکھ دی۔ نہیں نہیں، امی اب بھی میرا بہت خیال کرتی ہیں، لیکن اب آیا میرا اور بھی زیادہ خیال رکھتی ہے۔

ہمارے اس نئے اسکول میں بہت سے لوگ آتے تھے۔ ہمیں سب کے سامنے نعت، گیت یا قومی ترانہ سنانا پڑتا۔ اس روز ٹیچر ہمیں پہلے سے سمجھا دیتے کہ آج بہت اچھا بچہ بننا ہے۔

بالکل جنگلی نہیں۔ میں اور ناصر تو بہت خوش ہوتے، اس دن ٹیچر ہماری ہر بات مان لیتے۔ کسی بچے کی پٹائی بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ بہت خاص بات تھی کہ کسی بچے کی پٹائی نہ ہو۔ ناصر کو ویسے بھی اسکول میں کبھی سزا نہیں ملتی، وہ تو بس چپ ہی رہتا ہے۔ میری طرح ہر چیز کی ضد نہیں کرتا۔ ضد تو میں بھی بس تھوڑی دیر کے لئے ہی کرتا ہوں۔ اصل میں جب مجھے کوئی چیز بہت عجیب لگتی ہے تو میں اسے بہت قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ بس اس کے پاس لھڑا رہتا ہوں، اس میں حرج بھی کیا ہے۔ میں لوگوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں کرتا۔ بس مجھے شرم آتی ہے۔ صرف ناصر سے بات کرنے میں مجھے کوئی مشکل نہیں ہوتی۔

اب میں دسویں جماعت میں آ گیا ہوں۔ صمد نے کچھ سال پہلے دسویں کا امتحان پاس کیا تھا، تو گھر میں بہت ہنگامہ ہوا تھا، سب کتنا خوش تھے۔ ہر وقت صمد کے کالج کی باتیں ہو رہی تھیں۔ صمد کو اس کالج میں جانا چاہئیے یا اس کالج میں، صمد انجینئیر بنے، نہیں صمد کو ڈاکٹر بننا چاہئیے۔ اس دن ہمارے پڑوسی بھی مبارکباد دینے آئے تھے۔ ان کا ایک سال کا بچہ بھی ساتھ تھا۔ اتنا خوبصورت بچہ تھا۔ مجھے تو بہت پیارا لگا۔ میں تو بس قریب جا کر اسے دیکھتا ہی رہا۔ میں نے چاہا اسے گود میں لے کر دیکھوں مگر اس کی امی کہنے لگیں ابھی دودھ پی کر سویا ہے، اٹھ جائے گا۔ پچھلی بار بھی انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اس سے پچھلی بار کچھ اور۔ میں تو بس اس بچے کو تھوڑی دیر اپنی گود میں لینا چاہتا تھا، مگر شاید وہ بھی مجھ سے ڈرتی ہیں۔ مگر میں نے اس بچے کے چٹکی بھی نہیں کاٹی۔ امی اس وقت باورچی خانے میں چائے بنا رہی تھیں۔ جب میں کمرے سے نکلنے لگا تو وہ پڑوسن کہنے لگیں  ‘‘جنگلی‘‘ ۔ پتہ نہیں کیوں، حالانکہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا۔

صمد اب میرے ساتھ کم سے کم وقت گزارتا تھا۔ مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا تھا، یہ مجھے اچھی طرح پتہ تھا۔ لیکن جب سے کالج گیا تھا اس کی پڑھائی بہت بڑھ گئی تھی۔ اس لئے اب وہ اکثر ہمارے پڑوس میں رہنے والی حمیرا کے ساتھ پڑھنے لگا تھا۔ وہ اکثر اس کے ساتھ رات میں پڑھتا، امی ابو کے سو جانے کے بعد۔

‘‘ارشد، یہ بات امی ابو کو نہیں بتانا‘‘  صمد نے مجھ سے لجاجت سے کہا

‘‘کیوں ‘‘  میں کچھ الجھ سا گیا

‘‘پھر میں تمھارے ساتھ کبھی نہیں کھیلوں گا‘‘

اس کی یہ دھمکی ایسی تھی کہ میں نے اپنا منہ بند ہی رکھا۔ یہاں تک کہ جب میں نے صمد کو حمیرا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے دیکھا، گو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا لیکن میں نے امی ابو سے کچھ نہیں کہا، صمد بہت عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا تھا، حمیرا کا سینہ ایسے ٹٹول رہا تھا جیسے کوئی گیند کو چھو کر دیکھ رہا تھا کہ کتنی سخت ہے، چوٹ تو نہیں آئے گی۔

پہلے تو ندا بھی کبھی کبھی اپنی امی کے ساتھ آ جاتی تھی، اب بالکل نہیں آتی۔ ندا مجھ سے صرف ایک سال ہی چھوٹی تھی۔ نہ جانے کیوں ندا آتی تو میرے دل میں عجیب سے جذبات جاگنے لگتے۔ جی چاہتا اسے ہی دیکھتا رہوں۔ وہ بھی دوسروں کے مقابلے میں مجھ سے تھوڑی دیر کھیلنے کے لئے تیار ہو جاتی۔ میں بالنگ کرتا تو وہ صمد کے پیچھے کھڑی ہو جاتی وکٹ کیپنگ کرنے۔ گیند لیتے ہوئے میری انگلیاں اس کی انگلیوں کو چھو جاتیں تو مجھے بہت اچھا محسوس ہوتا۔ جتنی دیر وہ ہمارے گھر رہتی، اس کی امی بھی وہیں برآمدے میں بیٹھی رہتیں۔ مجھے بالکل برا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ اگر وہ اٹھیں تو ندا کو بھی جانا ہو گا۔ اب تو اس کو ہمارے گھر آئے تقریباً ایک سال ہو گیا۔ اس دن بھی ہم تینوں کرکٹ ہی کھیل رہے تھے۔ ندا مجھے گیند کرا رہی تھی اور صمد پیچھے وکٹ کیپنگ کر رہا تھا۔ میں رن بنانے کے لئے دوڑا تو ندا سے ٹکرا گیا۔ میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے سینے سے ٹکرایا تو تو اس نے بہت غور سے مجھے دیکھا۔ مجھے بہت عجیب سا لگا۔ جیسے کوئی بہت نرم سی گیند پکڑ لی ہو۔ انگلی کی پور سے شعلہ سا اٹھا جو پورے جسم میں ایک عجیب آگ سی بھر گیا۔ خواہش کے باوجود میں اس گیند کو چھونے اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکا۔ ندا مجھے بہت عجیب طرح سے دیکھ رہی تھی، پھر جیسے مطمئن ہو کر گیند کرانے دوبارہ پلٹ گئی۔ میری اب یہی کوشش تھی کہ کسی طرح گیند ندا کے پاس جائے تو میں بھاگتا ہوا اس سے ٹکرا جاؤں۔ زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، میں نے گیند کو ایسی ہٹ لگائی کہ وہ ندا سے تھوڑی دور جا گری، میں نے دوڑ لگائی تو ندا سے ٹکرا گیا۔ گیند چھو لینے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ میں اپنی انگلیوں پر قابو نہ پا سکا۔ جستجو، احتیاط پر غالب آ گئی۔ میں بھول گیا کہ صمد اور ندا کی امی بھی کمرے میں موجود ہیں۔ میری انگلیاں اس گیند کی طرف ایسے بڑھ رہی تھیں جیسے کوئی بچہ پہلی بار انگلی سے بجلی کا پلگ چھو رہا ہو، دل میں یقین ہو کہ کرنٹ لگ جائے گا، لیکن لمس کی حسئیت، لمس سے ہی مکمل ہو سکتی تھی۔ ندا کی امی بجلی کی سی تیزی سے اٹھیں، اور ندا کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتی باہر لے گئیں۔

‘‘جنگلی، سور‘‘ ندا کی امی کے صرف یہی دو الفاظ ہوا میں تیرتے میرے کانوں میں سوراخ کر گئے۔ اس دن نہ جانے صمد نے ابو سے کیا کہا کہ انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ تو اور مارتے اگر امی مجھے نہ بچا لیتیں:

‘‘اب اس کی وجہ سے کیا گھر میں بچیاں آنا بند کر دیں گی‘‘  ابو نے ہانپتے ہوئے کہا

‘‘ اس میں اس کا کیا قصور ہے، اسے کس نے بٹھا کر سمجھایا ہے، آپ کو سمجھانا چاہئیے تھا‘‘  امی نے میرا دفاع کیا۔

‘‘ پھر بھی صمد اس سے بڑا ہے، اس کی وجہ سے تو کبھی کوئی شکایت نہیں آئی‘‘

‘‘تو کیا مجھے خود شرمندگی نہیں ہے ؟‘‘  امی نہ جانے کیوں رو پڑیں۔ میں جو سر جھکائے خود رو رہا تھا، ایک دم سے ان سے لپٹ گیا۔ انہوں نے مجھے خود سے علیحدہ نہیں تھا، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔

‘‘میں اسے کیسے سمجھاؤں ؟‘‘  ابو کے لہجے میں بے بسی تھی

‘‘خود بات نہیں کر سکتے تو صمد سے کہیں آہستہ آہستہ سمجھائے ‘‘ ۔

اس دن کے بعد سے ندا ہمارے گھر نہیں آئی۔ سامنے ہی تو گھر تھا۔ اس کے اسکول آنے یا جانے کا وقت ہوتا تو میں چپکے سے کھڑکی میں اسے دیکھتا رہتا۔ اس کی امی اس وقت تک دروازے پر کھڑی رہتیں جب تک اس کی وین نہ آ جاتی۔ آج بھی جمعرات تھی، مجھے پتہ ہے وہ صبح اسکول گئی تھی۔ میں نے خود اسے وین میں جاتے دیکھا تھا۔ مجھے پتہ تھا اب اس کے آنے کا وقت ہونے والا ہے۔ میں چھپ کر کھڑکی کے پردے کے پیچھے سے اسے دیکھنے لگا۔ مجھے پتہ ہے کہ امی میری اس تانک جھانک سے واقف تھیں۔ وہ آس پاس منڈلاتی رہتیں۔ شوق کیوں کہ بے ضرر تھا، شاید اس لئے انہوں نے ابھی تک دخل اندازی نہیں کی تھی۔ ندا کی وین آتی نظر آئی، لیکن اس کی امی ابھی تک دروازے پر نہیں آئی تھیں۔ میرے دل میں ایک تمنا سی اٹھی کہ ان کے آنے میں دیر ہو جائے۔ جیسے ہی ندا کی وین رکی، وہ اتر کر اندر جانے لگی، میں نے اسے تنہا دیکھا تو آواز دینے کی کوشش کی، لیکن آواز نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر اسے ہاتھ ہلایا، اسی لمحے اس کی امی بھی دروازے پر آ گئیں۔ انہوں نے بھنویں اچکا کر میری جانب دیکھا تو ندا سے استفسار کیا۔

‘‘امی وہی جنگلی ہے، پاگل روز کھڑا رہتا ہے۔ سمجھتا ہے مجھے پتہ ہی نہیں ‘‘  ندا کی آوازسے میرا ہاتھ فضا میں ہی جم گیا، میں کھڑکی سے ہٹ آیا۔ جنگلی، پاگل، جنگلی پاگل یہ الفاظ میرے لئے نئے تو نہیں تھے، لیکن نہ جانے کیوں آج درد کچھ زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ اب صمد بھی کالج سے آ گیا تھا۔ اس نے میرا لمبا چہرا دیکھا تو پوچھنے لگا  ‘‘کرکٹ کھیلو گے ‘‘ ۔ مجھے لگا جیسے پوچھ رہا ہو  ‘‘ جنگلی، پاگل تم کیا کرکٹ کھیلو گے ‘‘ ۔ ابو نے کھانے پر آواز دی تو نہ جانے کیوں آج پہلی بار انہوں نے بھی یہی کہا  ‘‘جنگلی، پاگل آ کر کھانا کھالو۔ ‘‘ یہ آوازیں اتنی بڑھیں کہ میں نے کانوں میں انگلیاں گڑو لیں، مگر پھر بھی بند نہ ہوئیں۔ مجھے کچھ نہ سوجھا تو قریب ہی پڑی اون کی سلائی اٹھائی اور کان میں گھسا لی۔ درد کی شدت سے میری چیخ نکل گئی۔ میری چیخ سن کر امی، ابو، صمد تینوں ہی دوڑے آئے۔ میرے کان سے خون بہتا دیکھ کر، امی نے تو خود ہی رونا شروع کر دیا۔ صمد نے میرے ہاتھ سے اون کی سلائی لے لی، ابو نے مجھے لپٹا لیا، مجھے پتہ ہے وہ خود بھی بمشکل آنسو روک رہے تھے، درد سے میری چیخیں نکل رہی تھیں۔

‘‘یہ کیا کیا بیٹا، کیا ہو گیا تھا‘‘  مجھے ابو کے ہونٹوں سے لگا کہ شاید وہ یہی کہہ رہے تھے، لیکن مجھے ان کی آواز بہت مدھم سنائی دے رہی تھی۔ اب تمام ناگوار آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں، میرے ہونٹوں پر اس تکلیف کے باوجود مسکراہٹ سی دوڑ گئی، میں نے اپنا گوشۂ عافیت ڈھونڈ لیا تھا، ابو میری مسکراہٹ سے نہ جانے کیا سمجھے، انہوں نے مجھے اور زیادہ سختی سے لپٹا لیا۔

اب میری زندگی نارمل ہو گئی تھی۔ میں نے جنگلی اور پاگل کو شکست دے دی تھی۔ اگر مخاطب کی بات سننی ہوتی تو میں اس کے ہونٹوں کی جنبش سے بات سمجھ لیتا۔ اگر نہ سننی ہو تو مخاطب کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اب سننا میرے اختیار میں تھا۔ آپ نہیں سمجھ سکتے یہ میرے لئے کتنی بڑی تبدیلی تھی۔ اب میں نے ضد کر کے کالج کی کلاسیں لینا بھی شروع کر دیں۔ خدا بھلا کرے انٹر نیٹ کا کہ میں اکثر کورس کمپیوٹر پر ہی پڑھ لیتا۔ ان آوازوں نے کیا پیچھا چھوڑا کہ میرے ذہن نے دوسری آوازوں کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ خواہ یہ آوازیں آنکھوں کے راستے ہی ذہن تک پہنچ رہی ہوں۔ امی، ابو اور صمد بھی میری اس تبدیلی سے بہت خوش تھے۔

میں نے پرائیوٹ بی اے کیا تو مجھے لگا امی، ابو اتنے ہی خوش ہوئے جتنا وہ صمد کے پاس ہونے پر خوش ہوئے تھے۔ اب صمد کی بات پکی ہو چکی تھی اور اگلے ماہ ہی اس کی شادی تھی۔ پھر شہناز بھابھی گھر آ گئیں۔ مجھے لگا کہ شروع میں وہ مجھ سے کچھ خوفزدہ تھیں مگر اب میں وہ پہلے والا ارشد نہیں تھا۔ مجھے بے ضرر اور محبت کا بھوکا پا کر، شہناز بھابھی نے بھی مجھے بھائیوں جیسا ہی پیار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب شہناز بھابی ننھے خالد کو لے کر گھر آئیں تو مجھے اس سے حسد محسوس ہوا۔ مگر جب شہناز بھابھی نے اسے میری گود میں ڈال دیا تو میرا دل محبت سے بھر گیا۔ یہ پہلا بچہ تھا جو کسی نے مجھے چھونے دیا تھا، مجھے اپنی گود میں لینے دیا تھا۔

میرا دل خالد کے لئے محبت سے بھر گیا اور میں ڈرے ڈرتے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے، سب اسی طرح تو پیار کرتے ہیں بچوں کو۔

بھابی خالد کو ڈاکٹر کے مطب سے لے کر آئیں تو رو رہی تھیں۔ صمد کا منہ بھی لٹکا ہوا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر خالد کو گود میں لے لیا۔

‘‘کیا ہوا بیٹا‘‘  خیریت تو ہے ‘‘  امی نے گھبرا کر پوچھا

صمد نے کوئی جواب نہ دیا، بھابی اور رونے لگیں ۔

‘‘ارے بیٹا، کیا کہا ڈاکٹر نے ‘‘  ابو بھی گھبرا گئے

‘‘ابو ڈاکٹر نے خالد کو autisticبتایا ہے۔ ‘‘

میں جو صمد کے ہونٹ پڑھ رہا تھا، اچانک شدید خواہش ہوئی کہ کاش مجھ میں لبوں کی حرکت سے بات سمجھ میں آنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔ بچپن سے اب تک کا تمام سفر میری نگاہوں کے سامنے گھوم گیا۔ میں خالد کو لے کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ سب باتوں میں ایسے مصروف تھے کہ کسی نے توجہ ہی نہ دی۔ ابھی میں اون کی سلائی خالد کے کان میں گھسانا چاہتا ہی تھا کہ صمد نے پیچھے سے میرے ہاتھ سے سلائی چھین لی۔

‘‘جنگلی، نجانے کیا کرنے جا رہا تھا‘‘  کاش میں نے اس کے لبوں کی جنبش نہ دیکھی ہوتی، ذات کا ایک سراب تو باقی رہتا۔ قدرت کے کھیل میں بے ایمانی ضرور کی تھی لیکن پھر بھی ہار گیا۔

٭٭٭

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں