FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

یا حیرت

مظفر حنفی

چراغ اپنے ہوا دینے سے پہلے

جلانے تھے بجھا دینے سے پہلے

میاں کیا لازمی تھا خاک اُڑانا

کسی کو راستا دینے سے پہلے

نسیمِ صبح کو آیا پسینہ

خزاں کو بد دعا دینے سے پہلے

ملا سکتے ہو کیا ہم سے نگاہیں

بغاوت کی سزا دینے سے پہلے

مناسب ہے کہ پڑھ لی جائے تختی

کسی در پر صدا دینے سے پہلے

ہمارا ہارنا طے ہو چکا تھا

تمھارے ہاتھ اٹھا دینے سے پہلے

سخی مشہور تھے ہم بھی مظفرؔ

مگر سب کچھ لٹا دینے سے پہلے

٭

جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑتا ہے

یہ پردہ تیرے مرے درمیاں بھی پڑتا ہے

کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو

کہ اک اَنا کا سمندر یہاں بھی پڑتا ہے

مزا تو آتا ہے مرمر کے زیست کرنے میں

کبھی کبھار یہ سودا گراں بھی پڑتا ہے

حسین چہروں پہ ہم سینک لیتے ہیں آنکھیں

بلا سے کم نظری کا دھواں بھی پڑتا ہے

اب اتنا خوش بھی نہ ہو ڈھا کے چار دیواریں

بدن فصیل میں اک شہرِ جاں بھی پڑتا ہے

ترے نثار، کچھ اتنا کیا ہے سر افراز

کہ سرے سے نیچے ترا آستاں بھی پڑتا ہے

میں اپنی ذات کی پیچیدگی سے عاجز ہوں

اسی میں ورطۂ کون و مکاں بھی پڑتا ہے

٭

تمھیں وہ تابِ تگ و تاز ہی نہیں دیتا

ہمیں اجازتِ پرواز ہی نہیں دیتا

خدا کے فضل سے تہذیب آ گئی ہے اُسے

کسی کو دعوتِ شیراز ہی نہیں دیتا

تِرے سِوا جو کوئی میرے دل کو چھیڑتا ہے

عجیب ساز ہے آواز ہی نہیں دیتا

مِرا وجود ہے اظہار کے لیے بیتاب

زمانہ موقعۂ آغاز ہی نہیں دیتا

ستم ظریفی تو دیکھو کہ تخت و تاج کے ساتھ

وہ بعض لوگوں کو دمساز ہی نہیں دیتا

مظفرؔ اہلِ نظر بے خبر نہیں کہ خدا

سزا بھی دیتا ہے اعزاز ہی نہیں دیتا

٭

(عین رشید کی یاد میں )

اب اتنا بُرد بار نہ بن میرے ساتھ آ

بدلیں گے مل کے چرخِ کہن میرے ساتھ آ

پیوندِ خاک ہونا ہے بارے ابھی نہیں

پھیلا ہوا ہے نیل گگن میرے ساتھ آ

پلکیں بچھی ہیں میری ہر اِک موجِ آب میں

اس پالکی پہ چاند کرن میرے ساتھ آ

اے روحِ بے قرار، ابھی جان مجھ میں ہے

زخموں سے چور چور بدن میرے ساتھ آ

ویسے بھی اپنے دستِ ہُنر کھا رہے ہیں زنگ

پھیکا پڑا ہے رنگِ چمن میرے ساتھ آ

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

یاروں نے انقلاب تو نیلام کر دیئے

اب چھوڑ کر یہ دار و رسن میرے ساتھ آ

٭

ہاں بادِ صبا سچ ہے پریشاں رہے ہم

غنچوں کے بہر حال نگہ بان رہے ہم

شبنم نے کیا پاک تو کانٹوں نے سیے چاک

ہر چند کہ مفلس کا گریبان رہے ہم

سر تا بہ قدم زخم ہے اب کیسے بتائیں

گلدان رہے ہم کہ نمکدان رہے ہم

واللہ کہ بچنے کے لیے سر نہ جھکایا

ناوک فگنی کے لیے آسان رہے ہم

بسمل تھے مگر رقص کیا، رنگ اڑائے

دنیا تِری تفریح کا سامان رہے ہم

یہ کیا کہ جدھر دیکھیے خود ہی سے لڑے آنکھ

اس آئینہ خانے میں تو حیران رہے ہم

تھے خاک بسر کِرمکِ شب تاب مظفرؔ

ظلمت میں تری ذات کی پہچان رہے ہم

٭

وہ گلدستوں میں اشعار لگاتا ہے

اور یہاں لہجے پر دھار لگاتا ہے

غرقابوں نے دیکھا دریا کا انصاف

زندہ مردہ سب کو پار لگاتا ہے

کون زمانے کو سمجھائے چلنے دو

چلنے والے ہی کو آر لگاتا ہے

کہلاتے ہیں دنیا بھر میں ظِل اللہ

جن پر چھاتا خدمت گار لگاتا ہے

خوشبو قید نہیں رہ سکتی گلشن میں

دیکھیں وہ کتنی دیوار لگاتا ہے

ماضی سے تا حال مظفرؔ ظالم ہی

تاج پہنتا ہے ، دربار لگاتا ہے

٭

مولا خشک آنکھیں تر کر دے

جھولی جھولی موتی بھر دے

شہپر دے بازو کٹنے پر

اونچا رہنے والا سر دے

انکھوے پھر سے پھوٹ رہے ہیں

زخمی ڈالی کو خنجر دے

آگ زنوں کے دل کو پانی

ہم بے گھر لوگوں کو گھر دے

خوشبو لٹ جاتی ہے ساری

رنگ نہیں ہم کو پتھر دے

مر جائیں گے بے تیشہ بھی

تیشہ دے تو دستِ ہنر دے

تتلی مانگ رہی ہے خوشبو

پھول دعا کرتے ہیں پردے

٭

سر میں سما گئی تھی ہوا کج نہاد کے

ذرّوں نے بل نکال دیئے گرد باد کے

بے احتجاج ظلم کو سہنا روا نہیں

چپ رہ کے حوصلے نہ بڑھاؤ فساد کے

اُن کے سوا کسی پہ بھروسہ نہ کیجیو

وہ پَر تراش دیں گے ترے اعتماد کے

ہم نے تعلقات کی قلمیں لگائی تھیں

انکھوے یہ کیسے پھوٹ رہے ہیں عناد کے

جتنے گھروندے تم نے بنائے تھے ریت پر

پنجے گڑے ہیں ان پہ کسی دیو زاد کے

٭

جلوہ بھی اس کا پردہ ہے ۔ محرومی ، محرومی

میں نے اس کو کب دیکھا ہے ۔ محرومی ، محرومی

وہ خوشبو کا چنچل جھونکا میں سوکھی ڈالی کا پھول

اس کا میرا کیا ناتا ہے ۔ محرومی ، محرومی

چاند نگر میں دھول اڑائی تارے تارے پھینکے جال

اب میری جھولی میں کیا ہے ۔ محرومی، محرومی

فتح و ظفر کے نقاروں میں اپنا پرچم اُڑتا ہے

اندر کتنا سنّاٹا ہے ۔ محرومی، محرومی

اک مجمع ہے چاروں جانب ماتم کرنے والوں کا

جو بھی ہے وہ چیخ رہا ہے ۔ محرومی ، محرومی

پیچھے میرے نقشِ کفِ پا جھلمل جھلمل کرتے ہیں

لیکن آگے کوہِ ندا ہے ۔ محرومی، محرومی

٭

دھوپ نے کھیت کیا ہے مرے آنگن سے ادھر

کتنی مرجھائی ہوئی آگ ہے دامن سے ادھر

مل گئی تھیں مرے بچپن سے بڑھاپے کی حدیں

اور کچھ لوگ نہ آ پائے لڑکپن سے ادھر

جیٹھ بیساکھ میں سیلاب ادھر آتے ہیں

ڈیرہ زردی نے جما رکھا ہے ساون سے ادھر

نخلِ امید میں کونپل ہی نہیں آ پاتی

درد کی بادِ صبا سن سے ادھر سن سے ادھر

دل کی دھڑکن بھی اسی شور میں دب جاتی ہے

کون یہ چیختا ہے جلتے ہوئے بن سے ادھر

خار ہی بوتی رہی باغِ سخن میں تنقید

شعر کھلتے رہے تقطیع کی قد غن سے ادھر

٭

کر گئے ہجرت پرندے پھر چلی ٹھنڈی ہوا

ہے شگوفوں کا دمِ آخر چلی ٹھنڈی ہوا

آستیں شبنم نے تَرکی سبزۂ بیگانہ کی

غنچۂ نورستہ کی خاطر چلی ٹھنڈی ہوا

زرد رو مال اپنا جھٹکا تھا خزاں سے اُس طرف

گلستاں سے کہہ کے ’جی حاضر‘ چلی ٹھنڈی ہوا

دیکھ لینا بیچ ہی میں دھجیاں اڑ جائیں گی

اس طرف مسجد اُدھر مندر ، چلی ٹھنڈی ہوا

جب خفا تھیں اس کی یادیں حبس تھا دل میں بہت

پھر گھٹا گھر آئیں بالآخر، چلی ٹھنڈی ہوا

٭

ہر طرف ریت نہ تھی راہ میں دریا تھے کئی

اس خرابے میں کبھی اپنے شناسائے تھے کئی

اس کو دیکھا تو طبیعت نہ بھری دیکھنے سے

جگمگاتا تھا وہی یوں تو ’ستارا‘ تھے کئی

آئینہ کہتا تھا دھندلی ہے بصیرت میری

دل میں جھانکا تو وہاں عکس ہویدا تھے کئی

گرد اڑانے کا مزہ آبلہ پا سے پوچھو

ورنہ بسنے کے لئے شہرِ تمنّا تھے کئی

لائقِ دید تھا منظر مری غرقابی کا

کوئی تنکا نہ بنا، محوِ تماشا تھے کئی

وہ جو کھلتے ہی نہ تھے دُزدِ حنا کی مانند

شعر سنتے ہی مرے آگ بگولا تھے کئی

٭

ہمارے گھر پہ کبھی سائبان پڑتا نہیں

یہ وہ زمیں ہے جہاں آسمان پڑتا نہیں

پڑاؤ کرتے چلے راہ میں تو چلنا کیا

سفر ہی کیا ہے اگر ہفت خوان پڑتا نہیں

بجھانی ہو گی ہمیں خود ہی اپنے گھر کی آگ

کہیں سے آئے گی امداد جان پڑتا نہیں

مزے میں ہو جو تمھیں بے زمین رکھا ہے

کہ فصل اگاتے نہیں ہو، لگان پڑتا نہیں

عطا خلوص نے کی ہے یقین کی دولت

گمان اس کے مرے درمیان پڑتا نہیں

ہم احتجاج کسی رنگ میں نہیں کرتے

ہمارے خون سے کوئی نشان پڑتا نہیں

٭

دریا اتھلے پانی میں کیا کرتے ہیں

تنکے اس طغیانی میں کیا کرتے ہیں

پتھر ہیں تو شیش محل پر جائیں نا!

گھاؤ مِری پیشانی میں کیا کرتے ہیں

تنگی میں وہ سجدے کرتے رہتے تھے

دیکھیں تن آسانی میں کیا کرتے ہیں

رہنے دیں ویرانے کو ویرانہ ہی

دیوانے نادانی میں کیا کرتے ہیں

سب اچھے لگتے ہیں اپنی کرسی پر

چاند ستارے پانی میں کیا کرتے ہیں

کھِلتے ہیں وہ ، حیرانی میں دنیا ہے

پھول یہاں ویرانی میں کیا کرتے ہیں

٭

کسی سرحد، کسی بندش کو ہوا مانے کیا

آج وحشت کا ارادہ ہے خدا جانے کیا

ناؤ منجدھار میں کیوں ساتھ چلی آتی ہے

کہہ دیا کان میں کچھ اس کے بھی دریا نے کیا

ایک ہی نام لکھا میں نے کئی زاویوں سے

میری غزلیں ، مری نظمیں ، مرے افسانے کیا

مصلحت ہے کہ عداوت ہے کہ سچائی ہے

سو نقابوں میں چہرہ، کوئی پہچانے کیا

گھُوم پھر کر وہی اک بات کہ برحق ہو تُم

سب سمجھتا ہوں ، مجھے آئے ہو سمجھانے کیا

دل جہاں آپ ہی جھکتا ہو مظفرؔ جھک جاؤ

آنکھ والوں کو حرم کیا ہے ، صنم خانے کیا

٭

ہر اک سانس پابند کر دی گئی

پھر اک دن ہوا بند کر دی گئی

محبت کے حق میں دعا کیجیے

سُنا ہے دَوا بند کر دی گئی

سخاوت کا اب کوئی موقع نہیں

وہ مٹھی حنا بند کر دی گئی

فنا کے مسافر لگے چیخنے

جو کھڑکی ذرا بند کر دی گئی

کسے منہ دکھائیں کہاں جائیں ہم

ہماری سزا بند کر دی گئی

خدا پر نہ قابو چلا آپ کا

تو خلقِ خدا بند کر دی گئی

مظفرؔ سے حق گوئیوں کے سبب

سلام و دعا بند کر دی گئی

٭

ہم کہ مُجرم دو ملاقاتوں کے ہیں

گھاؤ دل پر سیکڑوں باتوں کے ہیں

پھُول، پتّے ، پھل، سبھی مٹّی ہوئے

پیڑ پر احسان برساتوں کے ہیں

کہکشاں پر ثبت ہیں میرے قدم

چاند پر دھبّے مِرے ہاتھوں کے ہیں

وہ مسافر آندھیوں سے خوف کھائیں

جن پہ سائے مہرباں چھاتوں کے ہیں

سال بھر کی گرد آئینے پہ ہے

سامنے انبار سوغاتوں کے ہیں

چودھویں کے چاند کی مانند ہم

اور مہماں ایک دو راتوں کے ہیں

دل دُکھاتے ہیں مظفرؔ شعر سے

مستحق ہم لوگ صلواتوں کے ہیں

٭

ٹھوکر لگی تو خود ہی سمجھ آ گئی ہمیں

اب ایک بوجھ لگتی ہے اپنی خودی ہمیں

چلنے میں آ رہا تھا مزا آبلوں کے ساتھ

منزل خود آ گئی کوئی عجلت نہ تھی ہمیں

دِل پر ہمارا بس ہے نہ آنکھوں پہ اختیار

کب تک ہر اک بات پہ آئے ہنسی ہمیں

پوچھا کسی نے نام نہ دَر وَا ہُوا کوئی

پہچاننے لگی ہے تمھاری گلی ہمیں

اپنوں کے وار جھیلنے کیا غیر آتے ہیں

یلغار اپنے خون کی سہنی پڑی ہمیں

پینے کے بعد ہم سے کہا پارساؤں نے

کیا چیز تھی میاں ، بہت اچھی لگی ہمیں

صدیوں کریں گے راج مظفرؔ دِلوں پہ ہم

حاصل ہے سلطنت کی جگہ شاعری ہمیں

٭

منزل سے کٹ کے دشت کو رَستا نکل گیا

لگتا ہے جیسے پاؤں سے کانٹا نکل گیا

سائے مچل رہے ہیں چراغوں کی گود میں

سمجھے تھے ہم کہ گھر سے اندھیرا نکل گیا

خود ہی جمالیات میں کمزور رہ گئے

یا تتلیوں کا رنگ بھی کچّا نکل گیا

وا حسرتا کہ سانس کی مہلت نہیں مجھے

پھر سَر سَرا کے عیش کا جھونکا نکل گیا

ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں غلط اثر

بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے بیٹا نکل گیا

تم رخ بدل رہے تھے زمانے کے ساتھ ساتھ

کیسا نظر بچا کے زمانہ نکل گیا

دنیا سے مختلف ہے مظفرؔ کا راستہ

اتنا لٹے کہ نام ہمارا نکل گیا

٭

سیلابوں کو شہ دینے میں ، طوفاں کو اکسانے میں

کتنے ہاتھوں کی سازش ہے اک دیوار گرانے میں

تو نے بہتیرا سمجھایا، موٹی کھال ، گِرَہ میں مال

اے دُنیا، کیسے آ جاتے ہم تیرے بہکانے میں

فن کو مہکائے رکھتے ہیں زخمی دل کے تازہ پھول

ٹوٹی تختی کام آتی ہے نیّا پار لگانے میں

تتلی جیسے رنگ بکھیرو گھایل ہو کر کانٹوں سے

مکڑی جیسے کیا الجھتے ہو غم کے تانے بانے میں

بیزاری کے ہاتھ نہ مرنا، سو حیلے ہیں جینے کے

پیارے ، سر میں وحشت ہو تو گرد بہت ویرانے میں

بجھتے بجھتے بھی ظالم نے اپنا سر جھکنے نہ دیا

پھول گئی ہے سانس ہوا کی ایک چراغ بجھانے میں

کھویا جی کا چین مظفرؔ اُن سے ترکِ تعلق پر

آ پہنچے گرداب کے منہ تک، دریا سے کترانے میں

٭

میں اٹھ گیا تو شورِ فغاں بھی نہیں اُٹھا

لیکن کرائے پر وہ مکاں بھی نہیں اٹھا

مذہب نہیں بتایا نہ امداد کی قبول

کشتی میں اک حبابِ رواں بھی نہیں اُٹھا

بستی جلانے والو تمھیں کیا بتاؤں میں

مدّت سے میرے گھر میں دھواں بھی نہیں اُٹھا

ہم دم بخود تھے اور ادھر لُٹ رہے تھے لوگ

جب ہم کٹے تو شور و ہاں بھی نہیں اُٹھا

بڑھتے ہوئے قدم کو نہیں روکتا کوئی

بیٹھا تو پھر قدم کا نشاں بھی نہیں اُٹھا

٭

ہوا ناراض تھی ہم سے کنارا دور تھا ہم سے

سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھر پور تھا ہم سے

خودی، خود آگہی، خودرائی جس میں جلوہ گر ہوتے

وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے

محبت اور جو آنا مرگ ۔ رونا داستاں گو کا

گھنی باتوں کا جنگل رات بھر پُر نور تھا ہم سے

مزا بھی ہے سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں

مگر ہم رقص ہم تھے آسماں مجبور تھا ہم سے

خود اپنے کو بھی اک پردے میں رہ کر دیکھنا ہو گا

یہی جو آئینے میں ہے ابھی مستور تھا ہم سے

مظفرؔ اب یہی دنیا ہمیں نابود کر دے گی

یہ پیمانہ لبالب تھا کبھی، معمور تھا ہم سے

٭

اک ستارہ ہے جو بیدار کیا کرتا ہے

رات بھر تذکرۂ یار کیا کرتا ہے

بیٹھنے پاتے نہیں سایۂ دیوار میں ہم

کوئی گریہ پسِ دیوار کیا کرتا ہے

وہ بھڑکتا ہے مرے سینے میں شعلے جیسا

پھر اسی آگ کو گلزار کیا کرتا ہے

اک ناسور ہے احساس میں حق تلفی کا

جو مری ذات کو مسمار کیا کرتا ہے

بادباں کھول کے دیکھو تو سفینے والو

خشک دریا بہت اصرار کیا کرتا ہے

کوئی خوشبو کی طرح نام ترا لے لے کر

پھول کے کان میں گنجار کیا کرتا ہے

اُس کو ارمان تھا اڑنے کا مظفرؔ، لیکن

اب پرندوں کو گرفتار کیا کرتا ہے

٭

درد نے دل کو گدگدایا تو

کچھ شرارہ سا تلملایا تو

آپ دریا کے ساتھ جاتے ہیں

اور وہ لوٹ کر نہ آیا تو

دیکھنا، آسماں کی خیر نہیں

خاکساری نے سر اُٹھایا تو

شاخ کانٹوں بھری سہی لیکن

ہاتھ اس نے ادھر بڑھایا تو

کیوں اُٹھاتے ہو ریت کی دیوار

آ گیا کوئی زیرِ سایہ تو

دُور تک لہریں کھِلکھِلانے لگیں

اک دِیا نہر میں بہایا تو

٭

مر جائے کوئی ان کو غم نئیں ہونا

اُن دو قاتل آنکھوں میں نم نئیں ہونا

پٹتا ہے تو لاشوں سے پٹ جانے دو

دیکھو اس کوچے میں ماتم نئیں ہونا

کالا بادل گھور نراشا کا ہوں میں

پیارے تم بھی بجلی سے کم نئیں ہونا

جنگل کا قانون چلے گا سنتے ہیں

بستی میں اب آدم وادم نئیں ہونا

ہم بھی استقبال کو جانے والے تھے

وہ کہتا ہے کالا پرچم نئیں ہونا

قطرہ ہوں تو شبنم جیسے جی لوں گا

لوگو مجھ کو دریا میں ضم نئیں ہونا

وہ مجھ کو بے شک ٹھنڈا کر سکتے ہیں

آگ مظفرؔ غزلوں میں کم نئیں ہونا

٭

خداوندا، یہ پابندی ہٹا کر خوش خرامی دے

کہ دریا سر کے بل جائے، سمندر کو سلامی دے

نہ ایسے سست ہوں بادل کہ فصلیں زرد ہو جائیں

نہ موجوں کو سنامی جیسی بے حد تیز گامی دے

میں شاعر ہوں، تمنّا ہے مجھے مقبول ہونے کی

مگر مقبولیت سے پہلے مجھ کو نیک نامی دے

مری حق گوئی خامی ہے خرد مندوں کی نظروں میں

یہ بے حد قیمتی خامی ہے مولا اور خامی دے

اگر درکار ہے تاثیر تجھ کو اپنے شعروں میں

انھیں رنگت مقامی دے انھیں لہجہ عوامی دے

مظفرؔ کیوں بہاروں میں بھی کانٹے سوکھ جاتے ہیں

کوئی موسم انھیں بھی شادمانی شادکامی دے

٭

بہانہ وفا کا نکالا گیا

بہت خون میرا نکالا گیا

شرارے اُچھلتے رہے سنگ سے

چٹانوں سے دریا نکالا گیا

مرا زخم بڑھ جائے گا اور کچھ

اگر اب یہ نیزا نکالا گیا

بغاوت نہیں دب سکے گی حضور

جو کانٹے سے کانٹا نکالا گیا

تپکتی تھی دنیا مرے پاؤں میں

بمشکل یہ چھالا نکالا گیا

محبت سے وہ باز آئے نہیں

تو بستی سے کنبہ نکالا گیا

٭

اس روشنیِ طبع نے دھوکا دیا ہمیں

اپنے لہو کی آنچ نے جھلسا دیا ہمیں

کیوں اتنے چھوٹے خود کو نظر آ رہے ہیں ہم

یارب یہ کس مقام پہ پہنچا دیا ہمیں

آئے تھے خالی ہاتھوں کو پھیلائے ہم یہاں

دنیا نے خالی ہاتھ ہی لوٹا دیا ہمیں

ٹھنڈی ہوا نے توڑ دیا تھا درخت سے

پھر گرد باد آئے سہارا دیا ہمیں

زخمی ہوئے تھے جنگ میں دشمن کے وار سے

احباب نے تو زندہ ہی دفنا دیا ہمیں

کاغذ کی ناؤ پر تھے ہمیں ڈوبنا ہی تھا

جو موج آئی ایک جھکولا دیا ہمیں

ہم تاکہ کائنات پہ قابو نہ پا سکیں

اس نے طلسمِ ذات میں اُلجھا دیا ہمیں

٭

آگ پر چل کے دکھایا تو کبھی پانی پر

گولیاں کھائی ہیں فنکار نے پیشانی پر

کون تاریخ میں احوال ہمارا لکّھے

ہم تو ٹھوکر بھی لگاتے نہیں سلطانی پر

کیا سمجھتا تھا کہ مل جائے گا ثانی اس کا

میں تو حیران ہوں آئینے کی حیرانی پر

گدگداتا ہے شگوفوں کو وہ پوشیدہ ہات

جس نے کانٹوں کو لگایا ہے نگہبانی پر

وہ مجھے دولتِ کونین عطا کرتا ہے

اس طرف ناز مجھے بے سر و سامانی پر

عمر کے آٹھویں عشرے میں کرو سجدۂ شکر

آمدِ طبع مظفرؔ جو ہے طُغیانی پر

٭

پاؤں تو مسندِ سلطانی پہ رکھا ہوا ہے

سر مرا بے سر و سامانی پہ رکھا ہوا ہے

عالم الغیب نمائش کو نہیں کرتا قبول

آپ کا سجدہ تو پیشانی پہ رکھا ہوا ہے

اے ہوا خوش نہ ہو فانوس اگر ہیں بے نور

اک دِیا اور ادھر پانی پہ رکھا ہوا ہے

ہے تو ہو سامنے انبار پریشانی کا

حوصلہ بھی تو پریشانی پہ رکھا ہوا ہے

کیا تعجب ہے اگر خاک بسر ہیں ہم لوگ

ہم نے تکیہ بھی تو نادانی پہ رکھا ہوا ہے

ایک بھی پھول کھلایا ہے جہاں قدرت نے

ان گِنت کانٹوں کو نگرانی پہ رکھا ہوا ہے

ہم نے سوراخ بھی کشتی میں بہت رکھے ہیں

اس نے دریا کو جو طغیانی پہ رکھا ہوا ہے

شہر میں امن رہے گا کہ بپا ہو گا فساد

سارا قضیہ مری قربانی پہ رکھا ہوا ہے

٭

کبھی تو صدقہ مرا خاک سے اتارا جائے

مجھے بلندیِ افلاک سے اتارا جائے

ادھر بھی لاش تڑپتی ہے دفن ہونے کو

یہ سر بھی نیزۂ سفاک سے اتارا جائے

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

مجھے سنبھال کے اس چاک سے اتارا جائے

مِلا یہ حکم کہ سسکاریاں نہ لے کوئی

کوئی بھی رنگ ہو پوشاک سے اتارا جائے

قریب آؤ کہ مہندی رچی ہتھیلی پر

ستارہ دیدۂ غمناک سے اتارا جائے

انام کے دم سے ہی آباد ہے خرابۂ جاں

اسی کو مسندِ ادراک سے اتارا جائے

اُسے چھُپاؤ مظفرؔ سخن کے پردے میں

غلاف کیوں حرمِ پاک سے اتارا جائے

٭

مدافعت میں بھی تلوار اگر اٹھاتا ہوں

تو بے قصور کہاں ہوں کہ سر اٹھاتا ہوں

خفا ہیں اہلِ فلک میری چیرہ دستی پر

ستارے بو کے زمیں سے ضر ر اٹھاتا ہوں

مِرا کمالِ ہُنر میری صاف گوئی ہے

صعوبتیں بھی اسی بات پر اٹھاتا ہوں

ثمر بدست شجر پر چلائے تھے پتھر

گِرے ہیں پھل تو انھیں چوم کر اٹھاتا ہوں

اگرچہ دل پہ ٹپکتی ہے یاد کی شبنم

خفیف ہوں کہ دھواں رات بھر اٹھاتا ہوں

گزر گیا وہ بگولہ، وہ ریت بیٹھ گئی

میں بیٹھتا ہوں نہ رختِ سفر اٹھاتا ہوں

سخنوروں میں مظفرؔ کو سُرخ رو رکھیو

ترے حضور کفِ بے ہنر اٹھاتا ہوں

٭

ایک نظم

دن چڑھ آیا،

چل ہم زاد،

میرے بستر پر تو آ جا۔

کالی نفرت،

سُرخ عقیدت،

بھوری آنکھوں والی حیرت،

بھولی بھالی زرد شرافت،

نیلا نیلا اندھا پیار،

رنگ برنگے غم کے تار،

خوشیوں کے چمکیلے ہار،

دھانی، سبز،

سپید، سنہرے،

اپنے سارے نازک جذبے،

پھر دن کو تجھ کو سونپے،

مصلحتوں کے شہر میں ان کے،

لاکھوں ہیں جلّاد۔

دن چڑھ آیا،

چل ہم زاد!

سند باد کی واپسی

فوم ربر کے ایوانوں سے سر ٹکرا کر،

لوہے کے تپتے بازاروں سے گھبرا کر،

اپنی ذات کی بھول بھلیوں سے اکتا کر،

عہدِ نو کے فلسفیوں سے آنکھ بچا کر،

فن کاروں کی اُلجھی باتوں سے چکرا کر،

سہلانے والے ہاتھوں سے چوٹیں کھا کر،

اندر سے باہر کی جانب،

سند باد جب واپس لوٹا،

اس نے چاروں جانب پھیلی دنیا کو،

جب غور سے دیکھا۔

پیدل چلنے والے پہلے سے زاید تھے !

ننگے پھرنے والے پہلے سے زاید تھے !!

بھوکوں مرنے والے پہلے سے زاید تھے !!!

٭

ڈوبنے جاؤں تو دریا…….

کرارے نوٹ

چھن چھن بولتے سکّے ،

شیئر، ہُنڈی،

چمکتی میز، الماری،

نگر کے سیٹھ، افسر اور پھر ان کے حواری،

کلرکوں کی زبان پر موٹے موٹے ہندسے جاری،

قلم بھاری۔

فضا میں بینک کی ہر سمت اک سنجیدگی طاری۔

نہ جانے کیسے چوکیدار کی آنکھیں بچا کر،

نیم خبطی اک بھکاری،

کب بڑے صاحب کے کمرے میں در آیا،

لگا تھا پیٹھ سے جو پیٹ، دکھلایا۔

کہا:

سرکار مل جائے اگر اک نوٹ دس کا،

میں چنے لے کر چبا لوں ،

پیٹ کا دوزخ بجھا لوں ۔

جواباً گونج اٹھی قہقہوں سے بینک کی بلڈنگ وہ ساری،

کھل گئی جیسے کمانی…..

جی!

سمندر میں نہ تھا پینے کا پانی!!!

٭

ہابیل کی منطق

کوٹھے سے ،

حوّا کی بیٹی جھانک رہی تھی۔

اس نے اپنا بٹوہ دیکھا۔

ٹھنڈے دل سے غور کیا۔

پہلے جانے میں پیسے زائد لگتے ہیں ،

اور سمَے بھی کم ملتا ہے ۔

لہجے میں ایثار سمو کر،

وہ اپنے ساتھی سے بولا:

پہلا حق تو تیرا ہے ،

بھائی قابیل!

٭

فیڈنگ پرابلم

شہر میں کرفیو لگا ہے ۔

میری ہمسایہ کے گھر طوفاں بپا ہے ۔

دودھ اس کی چھاتیوں سے بہہ رہا ہے

بھوک سے بے حال اس کا بچہ کپڑے نوچتا ہے

دودھ کا ٹِن اس طرف خالی پڑا ہے ۔

شہر میں کرفیو لگا ہے

٭

رستا ہوا بوسہ

میں نے اس کے تھر تھراتے ہونٹ پر،

کچھ اس طرح آہستگی سے ،

رکھ دیے تھے ہونٹ اپنے ،

جیسے چوڑی پر کوئی چوڑی بٹھائے ۔

ذہن میں ہلکی سی شیرینی کا خوش کن ذائقہ ہے ۔

سانس میں خوشبو گھلی ہے ،

شہد میں دوبی ہوئی چمپا کی پنکھڑیوں کا عالم،

پھر مرے احساس میں کیوں ……..

کانچ کا ٹکڑا سا چبھ کر رہ گیا ہے ،

میرے ہونٹوں پر،

یہ سُرخی کس لیے ہے ؟!

٭

جھولنا حاتم کے سر کا………

…………..

اور حاتم طائی نے جب،

اسم اعظم پڑ ھ کے ،

ان پر دم کیا۔

پیڑ پر لٹکے ہوئے سر،

گر پڑے تالاب میں ،

اپنے جسموں سے گلے مل کر،

نہایت خوش ہوا پریوں کا غول۔

مہ لقاؤں میں جو سب سے خوب تھی،

شکریے کے طور پر حاتم سے ہم بستر ہوئی۔

یہ بدن ہی سے بدن کا تھا ملاپ،

جسم اور سر کا نہیں ۔

اس واسطے ،

اسم اعظم کا اثر جاتا رہا،

تب سے ،

حاتم طائی کا سر،

جھُولتا ہے پیڑ پر۔

اور،

دھڑ تالاب میں ڈوبا ہوا ہے !

اسے دیکھ کر

ساری تہذیب جیسے ہوا ہو گئی۔

میں اسے دیکھ کر،

دیکھتا رہ گیا۔

جی میں آیا کہ سینے میں رکھ لوں اسے ،

واقعی نا مکمل ہے میرا وجود۔

مجھ سے چھینی گئی تھی جو روزِ ازل،

وہ یہی ہے ۔

مری بائیں پسلی،

یہی ہے !!

٭

مشرقی چیخیں

عرفی،

مرا چہیتا چالیس دن کا بیٹا،

آغوش میں ہے میری۔

آنکھیں گھما گھما کر،

لاتیں چلا چلا کر

جذبے ابھارتا ہے ۔

ہنس کر، ہمک ہمک کر کلکار مارتا ہے ۔

لیکن ذرا سنو تو!

کلکار کے عقب سے یہ کون چیختا ہے ۔

عصّو ،

مری نہایت خدمت گار بیوی،

میں جس کی ہر ادا پر،

دل سے فریفتہ ہوں ،

عرصے کے بعد،

گھر کے جنجال سے بچا کر تھوڑا سا وقت،

میرے بستر پہ آ گئی ہے ،

سرگوشیوں میں ،

پچھلے بارہ برس میں پل کر چھتنار ہونے والے ،

بے لوث پیار کا اک قصہ سنا رہی ہے ۔

لیکن ذرا سنو تو،

سرگوشیوں کے پیچھے یہ کون چیختا ہے ،

یہ کون چیختا ہے ۔

یہ کون…

٭

دوسری جلا وطنی

جب گیہوں کا دانا جنس کا سمبل تھا،

اس کو چکھنے کی خاطر،

میں جنت کو ٹھکرا آیا تھا۔

اب گیہوں کا دانہ،

بھوک کا سمبل ہے ۔

جس کو پانے کی خاطر،

میں اپنی جنت سے باہر ہوں !

٭

صور اسرافیل

اب تو بستر کو جلدی سے تہہ کر چکو

لقمہ ہاتھوں میں ہے تو اسے پھینک دو

اپنے بچوں کی جانب سے منھ پھیر لو

اس گھڑی بیویوں کی نہ پروا کرو

راہ میں دوستوں کی نظر سے بچو

اس سے پہلے کہ تعمیل میں دیر ہو

سائرن بج رہا ہے ۔ چلو دوستو!

٭

رباعیاں

مرنا ہے تو بے موت نہ مرنا بابا

دم سادھ کے اس پُل سے گزرنا بابا

سنتے ہیں کہ ہے موت سفر کا وقفہ

اس پار ذرا بچ کے اترنا بابا

٭٭

موتی نہ تھے دریا میں تو ہم کیا کرتے

آنسو ہی نہیں آنکھ میں غم کیا کرتے

ہاتھ آوے کھوکھلے لفظوں کے صدف

گہرائی کی رُوداد رقم کیا کرتے

٭٭

تقدیر پہ الزام نہیں دھر سکتے

خاکے میں سیہ رنگ نہیں بھر سکتے

ہر لوح پہ تحریر کہ جینا ہے حرام

آواز لگا دو کہ نہیں مر سکتے

٭٭

ہاتھوں میں لیے تیغ و سناں بیٹھا ہے

ہمزاد نہیں دشمنِ جاں بیٹھا ہے

جس جا بھی متاعِ فکر لے کر بیٹھو

لگتا ہے کوئی اور وہاں بیٹھا ہے

٭٭

 

محدود فضاؤں میں کدھر جاؤں میں

مجلس میں کہیں گھٹ کہ نہ مر جاؤں میں

لازم ہے پَر وبال سنبھالے رکھنا

ایسا نہ ہو آپے سے گزر جاؤں میں

٭٭

ٹوٹے ہوئے پَر چھوڑ گیا ہے راہی

جلتا ہوا گھر چھوڑ گیا ہے راہی

منزل پہ پہنچنا تھا اسے عجلت میں

رستے میں یہ سر چھوڑ گیا ہے راہی

٭٭

یہ موسمِ گُل اور یہ لُو کے جھکّڑ

پُر نور فضاؤں میں یہ کالے اندھڑ

اس چاند کی چودہ کو لگا ہے کرفیو

چلنے لگی بندوق کہیں تڑ تڑ تڑ

٭٭

بھوکا تھا مگر چھوڑ دیا روٹی کو

کس ڈھنگ سے سمجھاؤں میں اپنے جی کو

غلّے کے تقاضے پہ الجھ کر آخر

ہمسائے نے پھر پیٹ دیا بیوی کو

٭٭

چینی کہیں غائب ہے کہیں گھی غائب

غلّہ کہیں عنقا کہیں ہلدی غائب

پیسہ ہو اگر پاس تو اِک نسخہ ہے

اخبار نہ پڑھیے تو غریبی غائب

٭٭

لفظوں میں نہ وسعت ہے نہ گرمی نہ عمق

ترسیل کو ہر گام پہ سو سو خندق

کہنے کو بہت، اور کہا جائے نہ کچھ

جذبہ ہے کہ احساس میں پھولی ہے شفق

٭٭

یہ آن یہ تیور یہ جبینوں کے بل

حالاں کہ تم آگے ہو سفینوں کے بل

اک ہم ہیں کہ امواج بلا خیز میں ہیں

اور پھر بھی بڑھے آتے ہیں سینوں کے بل

٭٭

یکساں ہیں مرے واسطے جینا مرنا

کیوں سر پہ احسان کسی کا دھرنا

اے موت مرا ہاتھ نہ تھام، آگے بڑھ

میں ڈوب رہا ہوں تو تجھے کیا کرنا

٭٭

سچ ہے کہ ابھی عمر پڑی ہے مجھ کو

دھُن زود نویسی کی بری ہے مجھ کو

ڈرتا ہوں قلم کو بھی مرے چاٹ نہ جائے

احساس کی دیمک جو لگی ہے مجھ کو

٭٭

وحشت کی ذرا چوٹ پڑی، ٹوٹ گئی

زنجیر کی ایک ایک کڑی، ٹوٹ گئی

انگڑائی ابھی لی تھی رہائی پا کر

اتنے میں وہ موتی کی لڑی ٹوٹ گئی

٭٭

جس روز بھی دھوکے سے چڑھا لیتا ہوں

احساس کی لَو اور بڑھا لیتا ہوں

اس طرح بہکتا ہوں کہ اپنے اوپر

شیطان سے لاحول پڑھا لیتا ہوں

٭٭

ثانی تھے نہ دارا و سکندر میرے

ہوتی یہ زمیں اور سمندر میرے

افسوس کہ یلغار کو جب اٹھتا ہوں

ہنستا ہے کوئی جسم کے اندر میرے

٭٭

آفت ہے یہ الحاد مظفرؔ صاحب

خود ساختہ بے داد مظفرؔ صاحب

مشکل میں خدا کو یاد کرتے ہیں لوگ

ہم کس کو کریں یاد مظفرؔ صاحب

٭٭

گر خود کو سنبھالوں نہ میں آنسو کی طرح

یہ فن بھی ہے تاثیر میں جادو کی طرح

دن رات گھمائے مجھے صحرا صحرا

خوشبوئے سخن، نافۂ آہو کی طرح

٭٭

بھڑکی ہوئی اِک مشعلِ غم رکھتا ہوں

شبنم کی طرح دیدۂ نم رکھتا ہوں

دُکھتی ہوئی رگ اپنی چھپا لے دنیا

مجبور ہوں کاغذ پہ قلم رکھتا ہوں

٭٭

شعلہ ہے ، اُسے چوم رہا ہوں پھر بھی

خالی ہے سُبو، جھوم رہا ہوں پھر بھی

وہ مجھ سے گریزاں ہے ہوا کی مانند

پنکھے کی طرح گھوم رہا ہوں پھر بھی

٭٭

پندارِ خودی توڑے ہوئے بیٹھا ہوں

تخلیق سے منھ موڑے ہوئے بیٹھا ہوں

احباب میں شہرہ مری پرواز کا ہے

حالاں کہ میں پَر جوڑے ہوئے بیٹھا ہوں

٭٭

کہنے کے لئے صبر تو کر جاؤں گا

لیکن یہ گھٹن بڑھی تو مر جاؤں گا

فطرت سے میں بادل ہوں برس جانے دو

پھر جھیل کے اس پار اتر جاؤں گا

٭٭

اس دھوپ کو دیوار سے ڈھل جانے دے

مغرور کے ارمان نکل جانے دے

پھر ہاتھ لگاتے ہی نہ بل ہوں گے نہ وہ

رسی کو ذرا ٹھیک سے جل جانے دے

٭٭

ہم درد ملے تو درد دونا ہو گا

بستر بھی جہنم کا نمونا ہو گا

بے کاری کا یہ زخم یہ کھجلاتے ہاتھ

بجلی کے کھلے تار کو چھونا ہو گا

٭٭

نیچا رکھنا مزار اونچا رکھنا

جتنا چا ہو حصار اونچا رکھنا

تسلیم ہر اِک جرم، مگر میرے لیے

اوروں سے صلیب و دار اونچا رکھنا

٭٭

ملنا ہو جسے اپنے پرستاروں سے

دروازے سے رکتا ہے نہ دیواروں سے

وہ موت ہو یا صبح مگر ہے کوئی

آتی ہے قدم کی چاپ اندھیاروں سے

٭٭

ماحول سے جس وقت نہیں کھاتی میل

اس وقت دکھاتی ہے انا کیا کیا کھیل

سنگینیِ حالات سے جھکتی ہے مگر

جس طرح کسی پُل سے گزر جائے ریل

٭٭

گھنگھور گھٹا ٹوپ اندھیرا اور موت

ہر سمت وہی آہنی گھیرا اور موت

گھبرا کے جو اندر سے چٹخنی کھولی

در آئے بہ یک وقت سویرا اور موت

٭٭

دیکھا کہ ہر اک شخص لہو میں تر تھا

اور بحرِ شجاعت مرا کف آور تھا

پھر آنکھ کھلی، چونک پڑا، یا حیرت

خود اپنی ہی گردن پہ مِرا خنجر تھا

٭٭

ہر چند کہ منظور نہیں ہے آرام

آمد میں رکاوٹ ہے نہ جذبہ ہے خام

لیکن وہ بہت دنوں کے بعد یاد آئے ہیں

فی الحال تو اے فکر شعر، تجھ کو سلام

٭٭

صحرا مجھے ہر گام پہ زک دیتا ہے

منزل مرے ہاتھوں سے جھٹک دیتا ہے

لیکن مرے پاؤں جمنے لگتے ہیں جہاں

شفقت سے مری پیٹھ تھپک دیتا ہے

٭٭

گھیرے میں لیے ہوں تجھے ہالا بن کر

لپٹا ہوں ترے پاؤں سے چھالا بن کر

اے روشنیِ طبع جھجکتی کیوں ہے

ظلمت ہوں، مجھے کاٹ اجالا بن کر

٭٭

مصنف اور پرویز مظفر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ، جنہوں نے مواد کی فائلیں فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید