فہرست مضامین
- وصل کی جل پری
- اکبر معصوم
- یہ سارے پھُول یہ پتھر اُسی سے ملتے ہیں
- نہیں اس کا نام و نشاں دور تک
- مجھ کو کسی خیال کے پیکر میں ڈھال دے
- عشق کے بعد ہنر کیا کرتے
- رات ہے اور ماہ تاب ہے اور
- معاملہ نہیں تجھ سےکوئی بھی تو کوئی ہو
- وحشت نہیں اب صرف بتانے کی مری جان
- بھول کر اس کو دوبارہ یاد کرنا چاہیے
- تو سر گراں ہے جہاں سے، تو کنجِ ذات میں بیٹھ
- ہنسنے نہیں دیتا،کبھی رونے نہیں دیتا
- تو نے یہ بھی کبھی سوچا کہ کہاں رہتا ہے
- عشق کرنے کو کم نہیں جاناں
- اگر وہ آپ ہی میرا خیال کرتا نہیں
- مجھ کو واپس جانا ہے
- عجیب سلسلۂ حادثات سے آیا
- لفظوں میں بھلا کیا ہے معانی کے علاوہ
- بدن کو خواب پہ،آنکھوں کو حیرانی پہ رکھے گا
- گل تو اس خاک داں سے آتے ہیں
- ہے اب گواہ مری خاک پر لہو میرا
- لے آؤں ایک پل میں گذشتہ کو حال میں
- ہم کو یقین نہیں تھا فنا کے عذاب پر
- مجھ کو دکھائی دے کبھی میری حدود میں
- چھوڑ، یہ بود و باش کسی دن
- یہ جو اِک شاخ ہے ہری تھی ابھی
- نہ اپنا نام ، نہ چہرہ بدل کے آیا ہُوں
- زور چلتا نہیں خداؤں پر
- عجب انداز حیرانی سے اٹھا
- خود پہ کھلتا ہوں،خود پہ بند ہوں میں
- دل بر ہے دلدار ہے دل
- گھر کے لوگوں کو جگاتا کیوں نہیں
- اس کے سوا کوئی مجھے آزار نہیں ہے
- حال اور ماضی مستقبل میں بوتا ہوں
- دھُوپ سے چاندنی بناتا ہوں
- اس فضا میں جو مجھ کو راس نہیں
- جنوں کے بعد کوئی دوسرا ہنر نہ کیا
- گر کسی شے کو بھی ثبات نہیں
- میں سمجھتا تھا کہ تو حاصل ہے
- کتنے کام کئے ہیں کچھ بھی کئے بغیر
- یہ الجھن گردشِ افلاک سے ہے
- جو مجھ کو باعثِ آزار ہے مرا ہونا
- یہ نہیں ہے ملال کم تھا مجھے
- عمر بھر میں یہی کمایا ہے
- تو کون ہے یہاں کس کے لئے ملال میں ہے
- وہ جو معدوم ہے،وہ بھی یہاں معدوم نہیں
- پسِ فصیل زمانوں کا انتظار نہ ہو
- دل فقط ہجر سے آباد نہیں رکھ سکتا
- کسی بلا میں گرفتار ہونے والا ہے
- آ کہ وسعت میں کم نہیں ہوں میں
- سر اٹھاتا ہوں اسی خاک کی دشواری پر
- اکبر معصوم
وصل کی جل پری
اکبر معصوم
یہ سارے پھُول یہ پتھر اُسی سے ملتے ہیں
تو اے عزیز ہم اکثر اُسی سے ملتے ہیں
خُدا گواہ کہ ان میں وہی ہلاکت ہے
یہ تیغ و تیر یہ خَنجر اُسی سے ملتے ہیں
وہ ایک بار نہیں ہے ہزار بار ہے وہ
سو ہم اُسی سے بچھڑ کر اُسی سے مِلتے ہیں
یہ دھُوپ چھاؤں، یہ آب رواں، یہ ابر یہ پھُول
یہ آسماں یہ کبوتر اُسی سے ملتے ہیں
ہے خاص سازِ ازل سے وہ دجلۂ آہنگ
یہ نیل و زمزم و کوثر اُسی ملتے ہیں
یہ موتیا ، یہ چنبیلی ، یہ موگرا ، یہ گُلاب
یہ سارے گہنے،یہ زیور اُسی سے ملتے ہیں
عقیق و گوہر والماس و نیلم و یاقوت
یہ سب نگینے ، یہ کنکر اُسی سے مِلتے ہیں
مہک اُسی کی ہے کافور اور صندل میں
یہ زعفران ،یہ عنبر اُسی سے ملتے ہیں
یہ نیل کنٹھ ، یہ کوئل ، یہ راج ہنس ، یہ مور
یہ سب فرشتے سراسر اُسی سے ملتے ہیں
اُسی سے ملتے ہیں یکسر یہ سارے موزوں قد
یہ سارے سرو صنوبر اُسی سے مِلتے ہیں
یہ شعر گر ، یہ مصّور ، یہ سارے بد اوقات
یہ سب خیال کی چھت پر اُسی سے مِلتے ہیں
٭٭٭
نہیں اس کا نام و نشاں دور تک
کہ اب میں ہی میں ہوں یہاں دور تک
نہیں مجھ کو معلوم کس نے کیا
یہ بے منظری کا سماں دور تک
بہت دور تک ہو کے آیا ہوں میں
کوئی بھی نہیں ہے یہاں دور تک
وہی اک تسلسل شب و روز کا
وہی اک رنگ زیاں دور تک
فقط اس کے ہونے کا احساس ہے
مکاں ہے نہ اب لا مکاں دور تک
٭٭٭
آزار جسم و جاں سے بہت سر گراں ہوں میں
مجھ کو کسی خیال کے پیکر میں ڈھال دے
میں کب سے اپنی ذات کی دہشت میں قید ہوں
مجھ کو مرے وجود سے باہر نکال دے
گر تجھ سے میں سوال کروں ایک بوند کا
اے چشم یار مجھ پہ سمندر اچھال دے
آتا نہیں نظر تو اندھیرے میں تیر پھینک
کوئی نشان رات کے چہرے پہ ڈال دے
٭٭٭
عشق کے بعد ہنر کیا کرتے
کچھ بھی کر لیتے،مگر کیا کرتے
کیا سناتے تجھے اپنا احوال
اب تجھے تیری خبر کیا کرتے
ہم کہ خود بیت گئے اوروں پر
ہم بھلا تجھ کو بسر کیا کرتے
ہم جو نغمہ تھے نہ نالہ اے دوست
تجھ پہ کرتے تو اثر کیا کرتے
ہم نہ گر ڈوبنے والے ہوتے
تیری باتوں کے بھنور کیا کرتے
٭٭٭
رات ہے اور ماہ تاب ہے اور
آج حیرت سرائے خواب ہے اور
رُو بہ رُو ہے اُسی کا مصحفِ رُخ
پڑھ رہا ہوں جو میں کتاب ہے اور
چیزے دیگر ہے پردہ داری ء ذات
اور ہم سے ترا حجاب ہے اور
خُوب اہلِ فراق جانتے ہیں
موجِ دریا کا پیچ و تاب ہے اور
اے مصوّر کہیں دکھائی تو دے
وہ جو تصویر میں گلاب ہے اور
ہم ہوّس پیشگاں یہ کیوں نہ کہیں
ہجر میں ہم کو اضطراب ہے اور
٭٭٭
معاملہ نہیں تجھ سےکوئی بھی تو کوئی ہو
میں چاہتا ہوں کہ تجھ سا ہی ہو بہو کوئی ہو
کسی کے ساتھ گذاروں میں ایک ویسی ہی شب
شراب ہو میرے مطلب کی، ہاں سبو کوئی ہو
جو کارِ عشق ہو پھر ذات کون پوچھتا ہے
مجھے غرض نہیں اس سے، مرا عدو کوئی ہو
میں چپ رہوں بھی مگر میرے چاہنے والے
مجھے شریک سمجھتے ہیں گفتگو کوئی ہو
٭٭٭
وحشت نہیں اب صرف بتانے کی مری جان
حالت تو ہے اب تم کو دکھانے کی مری جان
اک لمحہ بھی اب جاگا نہیں جائے گا مجھ سے
اور نیند تو مجھ کو نہیں آنے کی مری جان
جس طرح گذاری ہے وہ بس ہم کو خبر ہے
بس ایک کہانی ہے سنانے کی مری جان
جائے گی تو لے کر ہی کہیں جائے گی مجھ کو
ایسے تو مری جاں،نہیں جانے کی مری جان
٭٭٭
بھول کر اس کو دوبارہ یاد کرنا چاہیے
کچھ تو اپنے آپ پر بیداد کرنا چاہیے
دیکھ لینا چاہیے اک بار پھر دل کا نگر
کیا خبر آباد ہو،برباد کرنا چاہیے
اس کے ہی دم سے ہیں، جب پم شاد بھی، ناشاد بھی
پھر تو ہر موسم میں اس کو یاد کرنا چاہیے
پھر بسانا چاہیئے، اک شہر دشتِ ذات میں
اور اس کی یاد کو بنیاد کرنا چاہیے
٭٭٭
تو سر گراں ہے جہاں سے، تو کنجِ ذات میں بیٹھ
سوادِ صُبح سے اُٹھ، اور جا کے رات میں بیٹھ
نہیں ہے جو تری دنیا میں، وہ بھی ہو جائے
کبھی سکوں سے کہیں، شامِ ممکنات میں بیٹھ
چراغ یوں بھی بھلا، تیرگی میں لگتا ہے
ذرا سی دیر تو، یارانِ بے صفات میں بیٹھ
جو اس فسوں کا،جو تیرے جنوں کا باعث ہے
اسے بھی سوچ،کسی لمحۂ نجات میں بیٹھ
خبر تو کیا،کسی کو ترا گماں بھی نہ ہو
جو بیٹھنا ہے،تو یوں بزمِ کائنات میں بیٹھ
٭٭٭
ہنسنے نہیں دیتا،کبھی رونے نہیں دیتا
ہلکا کسی صورت مجھے ہونے نہیں دیتا
احساس کچھ اتنا ہے اسے میرے جنوں کا
پایا جو نہیں اس کو بھی کھونے نہیں دیتا
ہے ایسا ہنساتا ہے مجھے اپنی ہنسی بھی
اور مجھ کو مرے اشک بھی رونے نہیں دیتا
اک نیند مرے خواب کو رکھتی ہے پریشاں
اک خواب مجھے چین سے سونے نہیں دیتا
ہے میرے تصرف میں تر و خشک تو پھر کیوں
صحرا کو سمندر میں ڈبونے نہیں دیتا
٭٭٭
تو نے یہ بھی کبھی سوچا کہ کہاں رہتا ہے
جو ترے شہر میں بے نام و نشاں رہتا ہے
اب بھی اک عکس پسِ وہم و گماں ہے موجود
اب بھی اک نقش سرِ آبِ رواں رہتا ہے
تیری اک بات ہے رکھے ہوئے ہم کو ورنہ
آب و دانے کے لئے کون یہاں رہتا ہے
مطمئن یوں ہیں کہ اس خاک کی ویرانی میں
ایک ہم ہی تو نہیں ،سارا جہاں رہتا ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ پاس ہی ہوتا ہے کہیں
عمر بھر جس کے نہ ہونے کا گماں رہتا ہے
٭٭٭
عشق کرنے کو کم نہیں جاناں
ہم جو خود کو بہم نہیں جاناں
چل سکیں ہم ترے خیال کے ساتھ
ہم میں اتنا تو دم نہیں جاناں
ہم میں جو دو قدم کا فاصلہ ہے
کیا کریں دو قدم نہیں جاناں
وصل میں کیوں ہے یہ ادھورا پن
تم نہیں ہو کہ ہم نہیں جاناں
٭٭٭
اگر وہ آپ ہی میرا خیال کرتا نہیں
میں دستِ شوق کو دستِ سوال کرتا نہیں
جسے بھی مجھ سے بچھڑنا ہو وہ بچھڑ جائے
کوئی بھی ہو،میں کسی کا ملال کرتا نہیں
میں ٹوٹتا ہوں اسی واسطے کہ وہ ہر بار
مجھے بنا کے مری دیکھ بھال کرتا نہیں
وہ شخص کچھ تو مرا حال جانتا ہو گا
جو میرا ذکر مرے حسبِ حال کرتا نہیں
٭٭٭
مجھ کو واپس جانا ہے
لیکن پہلے آنا ہے
بیت گیا سو بیت گیا
پر تجھ کو دھرانا ہے
بھٹک گیا ہوں رستے سے
تجھ کو راہ پہ لانا ہے
اپنے گھور اندھیرے میں
تیرا دیا جلانا ہے
تو نے کیا،میں نے بھی تجھے
مشکل سے پہچانا ہے
پوچھتی ہے اب وحشت بھی
اور کہاں تک جانا ہے؟
٭٭٭
عجیب سلسلۂ حادثات سے آیا
میں دکھ اٹھا کے تری کائنات سے آیا
زمیں پہ چاروں طرف خامشی کا صحرا تھا
کہ پھر میں ٹوٹ کر شاخِ ثبات سے آیا
جہانِ ممکن و موجود بھی بجا لیکن
ترا یقین مجھے اپنی ذات سے آیا
مثالِ سنگ ہوں اور آئینے سے نازک ہوں
مگر یہ عیب بھی مجھ میں صفات سے آیا
٭٭٭
لفظوں میں بھلا کیا ہے معانی کے علاوہ
میں کچھ بھی نہیں ایک کہانی کے علاوہ
جب موج میں آتی ہیں بہا دیتی ہیں سب کچھ
ہیں اور بھی چیزیں یہاں پانی کے علاوہ
اب صرف دوا سے نہ مرا کام چلے گا
ہے اور بھی کچھ سر میں گرانی کے علاوہ
مُبہم سا میں اک نقش سہی حال میں لیکن
تو کیا ہے گذشتہ کی نشانی کے علاوہ
٭٭٭
بدن کو خواب پہ،آنکھوں کو حیرانی پہ رکھے گا
مجھے اب وہ کسی منظر کی ویرانی پہ رکھے گا
وہ ہشیاری سے میری آرزو کا خون کر دے گا
مگر الزام سارا میری نادانی پہ رکھے گا
چلا جائے گا یوں اک دن،مجھے بے آسرا کر کے
مرے ہی سائے کو میری نگہبانی پہ رکھے گا
میں اس کو بھول جاؤں،اور اس کو یاد بھی رکھوں
وہ میرے روز و شب کو ایسی یکسانی پہ رکھے گا
کرے گا پھر مجھے تعمیر وہ میرے ہی اشکوں سے
مری بنیاد ہی اس بار وہ پانی پہ رکھے گا
٭٭٭
گل تو اس خاک داں سے آتے ہیں
رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں
ساری چیزیں بدل سی جاتی ہیں
جب یقیں پر گماں سے آتے ہیں
باہر آتے ہیں آنسو اندر سے
جانے اندر کہاں سے آتے ہیں
کون کہتا تھا خاک اڑتی ہے
یہ سمندر جہاں سے آتے ہیں
پھول بھی بھیجتا ہے تحفے میں
تیر جس کی کماں سے آتے ہیں
تم بھی شاید وہیں سے آئے ہو
اچھے موسم جہاں سے آتے ہیں
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
کون سے آسماں سے آتے ہیں؟
٭٭٭
ہے اب گواہ مری خاک پر لہو میرا
کہ میرے بعد نہیں ہے کوئی عدو میرا
یہیں کہیں ہے کسی پھول میں شراب مری
یہیں کہیں ہے اسی خاک میں سبو میرا
ذرا تو دیر سے آیا ہے آبیاری کو
جلا چکا ہے مجھے شعلۂ نمو میرا
وہی چراغ سے جلتے ہیں ہر طرف تیرے
وہی غبار سا اڑتا ہے چار سو میرا
بکھر گیا ہے کہیں مجھ میں میرے خواب کا رنگ
چھلک گیا ہے کہیں مجھ میں ہی سبو میرا
تجھے خبر ہی نہیں جیسا چاہتا تھا میں
تو کر چکا ہے وہی حال،ہو بہو میرا
٭٭٭
لے آؤں ایک پل میں گذشتہ کو حال میں
لیکن اب اتنا زور نہیں ہے خیال میں
مدت ہوئی کہ میں یہیں آباد تھا کہیں
شاید اسی وجود کےدشتِ محال میں
چھو لینا چاہیے مجھے حدِ کمال کو
ویسے بھی کتنی دیر لگے گی زوال میں
یہ میرا مسئلہ ہے کہ میں ہوں بھی یا نہیں
تو کیوں الجھ رہا ہے مگر اس سوال میں
اس طرح میں گذار رہا ہوں میں زندگی
تیرے فراق میں ہے، نہ تیرے وصال میں
٭٭٭
ہم کو یقین نہیں تھا فنا کے عذاب پر
سو لکھ دیا ہے اس نے ہمیں سطحِ آب پر
اک یاد بہہ رہی ہے لہو کے بہاو میں
اک پھول کھل رہا ہے ہوا کے سراب پر
کیا آئنہ کہ رکھا ہوا ہے غبار میں
کیا عکس ہے کہ ٹھہرا ہوا چشمِ خواب پر
وہ آشنا تو ہو گا کبھی اپنے آپ سے
اپنی مہک کبھی تو کھُلے گی گلاب پر
٭٭٭
مجھ کو دکھائی دے کبھی میری حدود میں
کب سے بھٹک رہا ہوں میں شہرِ وجود میں
مثلِ گلاب کھل کبھی شاخِ گلاب پر
سر سبز کر مجھے کبھی اپنی نمود میں
اک بار جھلملا سا اٹھوں سر سے پاؤں تک
روش ہو اس طرح سے لہو کی کشود میں
اے میری مشتِ خاک مجھے بھی تلاش کر
ٹھہرا ہوا ہوں میں بھی کہیں ہست و بود میں
شامِ وصال تجھ سے مکر ہی نہ جاؤں میں
اب اور کتنی دیر ہے،تیرے ورود میں
٭٭٭
چھوڑ، یہ بود و باش کسی دن
خود کو کریں تلاش کسی دن
لگے ٹھکانے خاک ہماری
بلواؤ فرّاش کسی دن
کیوں سب کو اچھے لگتے ہو
راز کرو یہ فاش کسی دن
پیارے پنچھی! اُڑتے اُڑتے
بن جاؤ آکاش کسی دن
دیکھنا ہجر زدوں کو آ کر
کہیں گے وہ شاباش کسی دن
ہم پر بھی اکرام کرے گا
وہ دستِ گل پاش کسی دن
پتھر کی قسمت جاگے گی
آئے گا نقاش کسی دن
کھُل جائیں گی شہر کی آنکھیں
بولے گی یہ لاش کسی دن
رنج گزیدہ، خاک رسیدہ
اُٹھّیں گے خوش باش کسی دن
٭٭٭
یہ جو اِک شاخ ہے ہری تھی ابھی
اس جگہ پر کوئی پری تھی ابھی
سر بہ سر رنگ و نُور سے لب ریز
اک صراحی یہاں دھری تھی ابھی
اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے
آہ کس نے یہاں بھری تھی ابھی
سانحہ کیا یہاں پہ گذرا ہے
یہ فضا کیوں ڈری ڈری تھی ابھی
میں بناتا تھا اُس کے دل میں گھر
اور قسمت میں بے گھری تھی ابھی
٭٭٭
نہ اپنا نام ، نہ چہرہ بدل کے آیا ہُوں
کہ اب کی بار میں رستہ بدل کے آیا ہُوں
وہ اور ہونگے جو کارِ ہوس پہ زندہ ہیں
میں اُس کی دھُوپ سے سایہ بدل کے آیا ہُوں
ذرا بھی فرق نہ پڑتا مکاں بدلنے سے
وہ بام و در وہ دریچہ بدل کے آیا ہوں
مُجھے خبر ہے کہ دُنیا بدل نہیں سکتی
اسی لیے تو میں چشمہ بدل کے آیا ہُوں
وہی سلُوک ، وہی بھیک چاہتا ہُوں مَیں
وہی فقیر ہُوں، کاسہ بدل کے آیا ہوں
مُجھے بتاؤ کوئی کام پھر سے کرنے کا
میں اپنا خُون پسینہ بدل کے آیا ہُوں
میں ہو گیا ہوں کسی نیند کا شراکت دار
میں اِک حسِین کا تکیہ بدل کے آیا ہُوں
سنو کہ جونک لگائی ہے میں نے پتھر میں
میں اِک نگاہ کا شیشہ بدل کے آیا ہُوں
مرا طریقہ، مرا کھیل ہی نرالا ہے
نہ میں زبان ، نہ لہجہ بدل کے آیا ہوں
وہی اسیر ہُوں اور ہے مری وہی اوقات
میں اس جہان میں پنجرہ بدل کے آیا ہوں
٭٭٭
زور چلتا نہیں خداؤں پر
ہاتھ رہتے ہیں تیرے پاؤں پر
ایسے گھر کی بھی خیریت معلوم
جس کی بنیاد ہو ہواؤں پر
ننگے پاوں چلا گیا جوگی
خاک اڑتی ہے اب کھڑاؤں پر
کوئی ہم میں پکارتا تھا ہمیں
کیسے رکتے تری صداؤں پر
دل میں اک بوند سی مچلتی ہے
دیکھ کر ابر خوش اداؤں پر
آؤ کوئی دیا جلاتے ہیں
رات ہو گی اب اس کے گاؤں پر
٭٭٭
عجب انداز حیرانی سے اٹھا
میں آب و گل کی ویرانی سے اٹھا
میں خود ناآشنا تھا اپنے شر سے
یہ فتنہ تیری نادانی سے اٹھا
یہ تیری یاد مجھ میں کیسے آئی
یہ شعلہ کس طرح پانی سے اٹھا
نئے امکاں نئے آثار لے کر
میں روز و شب کی یکسانی سے اٹھا
یہ تیرا عالم اسباب کیا ہے
کہ جو اٹھا پریشانی سے اٹھا
٭٭٭
خود پہ کھلتا ہوں،خود پہ بند ہوں میں
ہاں کچھ ایسا ہی خود پسند ہوں میں
اپنی ہی خاک سے اٹھایا ہے
جس ستارے سے ارجمند ہوں میں
کیا ہیں یہ کاسہ و کلہ تیرے
اپنے خوابوں سے سر بلند ہوں میں
کوئی روئے تو ہنسنے لگتا ہوں
کس قیامت کا درد مند ہوں میں
واقعہ ہے کہ پست ہوں خود سے
ورنہ تجھ سے بہت بلند ہوں میں
ہوں اسی بات پر میں شرمندہ
تجھ کو جس بات پر پسند ہوں میں
٭٭٭
دل بر ہے دلدار ہے دل
دیکھ تو کیا تہہ دار ہے دل
بیچ میں آنکھیں پڑتی ہیں
سات سمندر پار ہے دل
درد کا اک گہرا بادل
بارش کی بوچھار ہے دل
جتنا ہی کار آمد ہے
اتنا ہی بے کار ہے دل
ایسا تو میں خود بھی نہیں
جیسا دنیا دار ہے دل
اک جان اس پر سو آزار
اس پر اک آزار ہے دل
ہم پر تو کھلتا ہی نہیں
در ہے یا دیوار ہے دل
یار *ندیم ترے جیسا
اپنا بھی اک یار ہے دل
*انعام ندیم
٭٭٭
گھر کے لوگوں کو جگاتا کیوں نہیں
مر چکا ہے تُو، بتاتا کیوں نہیں
رات دن دیوار و در کے حال پر
رونے والے، مسکراتا کیوں نہیں
ہے خموشی ہی خموشی کا جواب
بات کو آگے بڑھاتا کیوں نہیں
باغ کا کیا ہے، ابھی کھِل جائے گا
جس کا موسم ہے وہ آتا کیوں نہیں
حُسن کوئی ابر کا محتاج ہے
اپنی خوشبو میں نہاتا کیوں نہیں
آپ کہئیے، خسروِ شیریں مقال
دل پرندہ ہے تو گاتا کیوں نہیں
٭٭٭
اس کے سوا کوئی مجھے آزار نہیں ہے
جو مجھ کو میسر ہے وہ درکار نہیں ہے
آباد ہے یہ عالمِ خاکی میرے دم سے
لیکن مجھے اس بات پہ اصرار نہیں ہے
اب مجھ سے تیرا بار اٹھایا نہیں جاتا
لیکن یہ میرا عجز ہے انکار نہیں ہے
لے تیرے کہے پر میں تجھے چھوڑ رہا ہوں
اور یہ بھی بتا دوں کہ یہ ایثار نہیں ہے
چپ ہوں کہ نہ ہونے ہی میں ہے فائدہ میرا
ورنہ مجھے ہونا کوئی دشوار نہیں ہے
٭٭٭
حال اور ماضی مستقبل میں بوتا ہوں
روز میں کوئی سپنا دیکھ کے سوتا ہوں
جیون ایک بے انت سمندر ہے جس میں
روز میں اپنا ایک جہاز ڈبوتا ہوں
روز نئے موسم کے رنج اٹھاتا ہوں
روز نئے منظر کی قید میں ہوتا ہوں
تجھ سے وعدے کر کے پورے کرتا ہوں
رنگ ملا کر مٹی میں خوش ہوتا ہوں
آنکھوں میں کچھ اور ابھر کر آتی ہے
جس تصویر کو اپنے ذہین سے دھوتا ہوں
٭٭٭
عظمی ممتاز ننیاں صاحبہ کی فرمائش پر
دھُوپ سے چاندنی بناتا ہوں
آنسوؤں سے ہنسی بناتا ہوں
رات کی کھنچتا ہوں تصویریں
چاند سے شاعری بناتا ہوں
اور اِس ہجر کے سمندر میں
وصل کی جل پری بناتا ہوں
کر رہا ہوں میں ایک پھول پہ کام
روز اِک پنکھڑی بناتا ہوں
میں وہ پاگل ہوں جاتے لمحے سے
آنے والی صدی بناتا ہوں
پوچھتے کیا ہو اپنے آپ کو میں
روز ہی آدمی بناتا ہوں
مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو
جیسے، میں زندگی بناتا ہوں
برسوں پہلے بنا رہا تھا جو شے
میں تو اب تک وہی بناتا ہوں
٭٭٭
اس فضا میں جو مجھ کو راس نہیں
خوش ہوں اتنا کہ بس اداس نہیں
اب تو اتنی برہنگی ہے یہاں
جو برہنہ ہے بے لباس نہیں
مری دانائی کو جنوں ہی سمجھ
عقل پیمانۂ حواس نہیں
تیرے بارے میں جانتا ہوں بہت
میں جو تیرا ادا شناس نہیں
خیر تیرا تو آسرا کیا ہے
مجھ کو خود سے بھی کوئی آس نہیں
وہ بھی مجھ میں گذر رہا ہے کہیں
ایک موسم جو میرے پاس نہیں
٭٭٭
جنوں کے بعد کوئی دوسرا ہنر نہ کیا
بنوں میں پھرتے رہے اور گھر کو گھر نہ کیا
وہ رات مجھ پہ قیامت کی رات تھی،جس رات
مرے بدن سے ترے خواب نے گذر نہ کیا
یقیں غبار ہوا،تو گمان سے پھوٹا
کسی بھی رُت میں مجھے اس نے بے ثمر نہ کیا
تھی اس کے بعد وہی عمرِ رائیگاں میری
سوتیرے وصل کا لمحہ کبھی بسر نہ کیا
٭٭٭
گر کسی شے کو بھی ثبات نہیں
پھر تو الجھن کی کوئی بات نہیں
دن نکلنے سے کچھ نہیں ہو گا
تیرگی ہے،زمیں پہ رات نہیں
یہ عدم اور یہ وجود بھی کیا
ایک ہی شے کی کیفیات نہیں
کیا خبر دل کو چشمِ بینا پر
صرف بارِ تحیرات نہیں
روح کا مسئلہ نہ بیچ میں لا
کیا بدن کی ضروریات نہیں
تیرے ہونے سے ایک عالم تھا
اب تو کچھ بھی درونِ ذات نہیں
٭٭٭
اب یہ جانا مجھے درکار ہے تو
میں سمجھتا تھا کہ تو حاصل ہے
بھول جانا تجھے آسان نہیں
یاد رکھنا تو بہت مشکل ہے
دیکھنے والا ہے اب حال مرا
کوئی ماضی ہے نہ مستقبل ہے
کیوں دکھائی نہیں دیتا سب کچھ
کوئی پردہ تو کہیں حائل ہے
کبھی اک بہتی ہوئی ناؤ ہے دل
کبھی دریا ہے،کبھی ساحل ہے
٭٭٭
تین شعر
کتنے کام کئے ہیں کچھ بھی کئے بغیر
سارا جیون بیت گیا ہے جیے بغیر
ان کی آنکھوں کی مستی کیا اور ساغر کیا
ہم تو بھائی گھوم گئے ہیں پیے بغیر
کھیل عجیب ہے وقت کے بہتے پانی کا
سب کچھ لے جاتا ہے کچھ بھی لئے بغیر
٭٭٭
یہ الجھن گردشِ افلاک سے ہے
یا تیری زلف کے پیچاک سے ہے
میں کتنا خوش تھا جب تک بے خبر تھا
یہ سارا دکھ مجھے ادراک سے ہے
وہی رشتہ ہے میرے سات تیرا
جو شعلے کا خس و خاشاک سے ہے
اگرچہ خاک کی توقیر کیا ہے
مگر جو کچھ بھی ہے وہ خاک سے ہے
دریدہ جسم اوڑھے پھر رہا ہوں
مری حرمت اسی پوشاک سے ہے
دلِ بے وصل سے اٹھی ہے یہ شام
ستارہ دیدۂ نمناک سے ہے
٭٭٭
جو مجھ کو باعثِ آزار ہے مرا ہونا
ترے لئے بھی تو دشوار ہے مرا ہونا
مری نمود اگر میری دسترس میں نہیں
تو اس نواح میں بے کار ہے مرا ہونا
اور اب تو حد سے زیادہ خیال کر میرا
مرا نہیں،ترا اظہار ہے،مرا ہونا
اٹھا کے یاں سے نہ ہونے تلک مجھے لے جا
ترے لئے بھی اگر بار ہے مرا ہونا
ترے سبب سے ہوں لیکن میں اس لئے بھی ہوں
کہ میری خاک کا اسرار ہے مرا ہونا
٭٭٭
یہ نہیں ہے ملال کم تھا مجھے
لیکن اس کا خیال کم تھا مجھے
اپنی وحشت سے میں زیادہ تھا
اور وہ خوش جمال کم تھا مجھے
میں جو ماضی میں جا ہوا آباد
بات یہ تھی کہ حال کم تھا مجھے
خوب برسا ہوں ابر سا خود بھی
موسمِ برشگال کم تھا مجھے
مر رہا تھا میں ہجر میں اس کے
پھر بھی شوقِ وصال کم تھا مجھے
٭٭٭
عمر بھر میں یہی کمایا ہے
دل ہی مٹی ہے،دل ہی مایا ہے
کھول بیٹھے ہیں خواب آنکھوں میں
اب نہ وہ دھوپ ہے،نہ سایا ہے
کیا برا ہے جو تیری چھاؤں سے
ہم نے اپنا شجر بنایا ہے
ایک آسان زندگی کا ہنر
اک مشقت کے بعد آیا ہے
ایک دل سے لئے ہیں سارے کام
اک دیا عمر بھر جلایا ہے
میرے ٹوٹے ہوئے پروں کے لئے
اب وہ سات آسمان لایا ہے
٭٭٭
تو کون ہے یہاں کس کے لئے ملال میں ہے
یہ سارا شہر کسی اور ہی خیال میں ہے
یہ واقعہ ہے کہ الجھن میں ایک تو ہی نہیں
ہر ایک چیز یہاں حالتِ سوال میں ہے
علاج کیا ہے اب اس کا کہ آرزو کا زیاں
کبھی فراق میں ہے اور کبھی وصال میں ہے
کھُلا کہ حسن کی تفہیم ہو نہیں سکتی
مگر وہ حسن جو آئینۂ مثال میں ہے
جواز پر اسے لایا ہے کس کا دستِ ہنر
جو اضطرابِ نمو آتش و سفال میں ہے
٭٭٭
وہ جو معدوم ہے،وہ بھی یہاں معدوم نہیں
ایسا کیوں ہے؟یہ مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں
میں جو ہر بات پہ مغموم نظر آتا ہوں
سچ تو یہ ہے، میں کسی بات پہ مغموم نہیں
رات اور دن کی ترے کوئی خبر کیا ہو مجھے
میں تو اک پل بھی یہاں خواب سے محروم نہیں
اس خرابے میں کہیں تجھ کو دکھائی بھی نہ دوں
اتنی موہوم،مری ہستیء موہوم نہیں
خوب ہے یہ تری دنیا بھی مگر میرے لئے
اب یہ اک لفظ ہے،جس کا کوئی مفہوم نہیں
٭٭٭
پسِ فصیل زمانوں کا انتظار نہ ہو
یہ شہر اور کسی شہر کا غبار نہ ہو
یہ خواب بھی نہ کسی خواب کا اشارہ ہو
یہ نیند اور کسی نیند کا خمار نہ ہو
یہ دشت اور کسی دشت کا سراب سہی
یہ باغ اور کسی باغ کی بہار نہ ہو
بہت دنوں سے یہی سوچ کر پریشاں ہوں
کہ تو بھی میرے گماں کا ہی اعتبار نہ ہو
کوئی تو وصل کی ساعت ہو جو ٹھہر جائے
کوئی تو سانس لوں ایسی جو شمار نہ ہو
٭٭٭
دل فقط ہجر سے آباد نہیں رکھ سکتا
جانِ جاں اب میں تجھے یاد نہیں رکھ سکتا
تو چاہے تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا ہے
اس سے بڑھ کر میں تجھے شاد نہیں رکھ سکتا
تو اگر ہے تو کسی لمحۂ موجود میں آ
وہم پر میں تیری بنیاد نہیں رکھ سکتا
پہلے خود اس کی اسیری کا طلب گار تھا میں
اور اب وہ مجھے آزاد نہیں رکھ سکتا
میرا وعدہ ہے تیرا ساتھ نبھاؤں گا ضرور
ہاں مگر میں کوئی میعاد نہیں رکھ سکتا
٭٭٭
کسی بلا میں گرفتار ہونے والا ہے
یہ شہر بے در و دیوار ہونے والا ہے
جو دیکھنا ہے اسے دیکھ لے کہ یہ منظر
ذرا سی دیر میں ہموار ہونے والا ہے
جو بھولنا ہے اسے بھول جا کہ کچھ پل بعد
یہ کام اور بھی دشوار ہونے والا ہے
میں کہہ رہا ہوں میرے دل کو فقط دل مت جان
یہ آئینہ چمن آثار ہونے والا ہے
بدل رہی ہے سفید و سیاہ کی تصویر
یہ کون خواب سے بے دار ہونے والا ہے
٭٭٭
آ کہ وسعت میں کم نہیں ہوں میں
بس یہ اک دو قدم نہیں ہوں میں
اور ہی بار ہے کوئی دل پر
شدتِ غم سے خم نہیں ہوں میں
تر بہ تر ہو رہی ہے روح مری
صرف باہر سے نم نہیں ہوں میں
جو بھی ہوں میں وہ رفتہ رفتہ ہوں
میری جاں ایک دم نہیں ہوں میں
دیکھ لے آب و تاب کھو کر بھی
اپنی قیمت سے کم نہیں ہوں میں
دیکھ سکتا ہے تو مری تاریخ
بے چراغ و علم نہیں ہوں میں
٭٭٭
سر اٹھاتا ہوں اسی خاک کی دشواری پر
اب مجھے دیکھ میں آیا ہوں نموداری پر
خواب کا رنگ مرے دیدۃء بے رنگ پہ ہے
خوب لایا ہوں شب و روز کو ہمواری پر
سر میں سودا ہے مگر ہاتھ میں رکھتا ہوں یہ دل
کیا سبک دست ہوں میں اپنی گراں باری پر
اس کو مقصود ہلاکت تھی مری سو اس نے
مجھ کو مامور کیا میری نگہداری پر
صرف میرا نہیں اس کا بھی زیاں ہے اس میں
خوش ہوں میں دستِ ہنر مند کی بے کاری پر
٭٭٭
ماخذ:
https://www.facebook.com/AkbarMasoomOfficial/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید