FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

قطر ہ قطرہ دریا

نازیہ انور شہزاد

یہ چار کمروں اور بڑے سے صحن والا ایک گھر ہے۔ یہاں جہاں آرا بیگم اپنے دو بیٹوں اور ان کے بیوی بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ بڑے بیٹے فرقان اپنی بیوی اور دو پیاری سی جڑواں بیٹیوں کے ساتھ اوپر کی منزل میں رہتے ہیں۔ فراز اپنی بیوی شائستہ اور تین بیٹوں شجاع، دانش اور بلال کے ہمراہ رہتے تھے۔ جہاں آرا بیگم نیچے رہتی تھیں۔ عرصہ ہوا، دانش کے فوجی دادا  دوران جنگ شہید ہو چکے تھے۔ دادی جہاں آرا بیگم فخر سے بتاتی تھیں کہ میں ایک شہید کی بیوہ ہوں۔ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو مرحوم شوہر کی خواہش پر فوج میں ہی بھرتی کرایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے، اگر اسے اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے تو اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہو گی۔

ایک دن شجاع اور بلال اسکول سے گھر آئے تو ان دونوں کے منہ پھولے ہوئے تھے۔ شائستہ بیگم نے آگے بڑھ کر پوچھا: "کیا ہوا؟ کیا اسکول سے مار کھا کر آ رہے ہو؟”

شجاع بولا: "امی جان! آپ دانش کو سمجھا کر اسکول بھیجا کریں۔ وہ روزانہ ہماری بےعزتی کروا دیتا ہے۔” بلال نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

امی نے پوچھا: "مگر ہوا کیا ہے۔ اور دانش کہاں ہے؟”

شجاع نے بتایا: "صبح جب ہم اسکول پہنچے تو گیٹ کے پاس ایک میلی کچیلی سی بڑھیا بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے کپڑے بھی گندے اور بدبو دار تھے۔ دانش نے اسے دیکھا تو فوراً اپنا لنچ بکس نکالا اور بڑھیا کے حوالے کر دیا۔ سارے بچے اس پر ہنس رہے تھے۔ سب نے دانش کا خوب مذاق اڑایا، جس کی وجہ سے ہم بھی شرمندہ ہوئے۔”

شائستہ بیگم کو بھی غصہ آ گیا اور وہ بولیں: "آنے دو ذرا اسے۔ اس کے تو میں خوب کان کھینچوں گی۔ چلو، تم دونوں کپڑے بدلو، میں کھانا لگا رہی ہوں۔” یہ کہہ کر وہ کچن میں چلی گئیں۔

تھوڑی دیر بعد دانش گھر آ گیا۔بلال نے اونچی آواز میں کہا: "آ گئے لاٹ صاحب!”

شائستہ بیگم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی دانش سے پوچھا: "کیوں بھئی! یہ کیا سن رہی ہوں میں۔ تمہیں  ہماری عزت کا ذرا احساس نہیں ہے، اتنے مہنگے اسکول میں تمہیں پڑھانے کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں؟”

دانش حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا: "مگر میں نے کیا کیا ہے امی جان؟”

شجاع نے طنزیہ انداز میں کہا: ” معصوم تو ایسے بن رہے ہو جیسے تم نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔”

دانش سمجھ گیا کہ صبح والی بات یہاں بھی پہنچ گئی ہے۔ اس نے کہا: "اوہو امی! میں نے کوئی غلط کام تو نہیں کیا۔ کسی مجبور کی تھوڑی بہت مدد کرنے سے ہمارا کیا جاتا ہے؟”

شائستہ بیگم نے تنک کر کہا: "لیکن خود تو بھوکے رہے نا۔”

"میں نے جو کیا، صحیح کیا ہے۔” یہ کہہ کر دانش اپنے کمرے میں چلا گیا۔

دانش نے احتجاجاً دوپہر کا کھانا نہیں کھایا۔ جب لاکھ کہنے پر بھی وہ رات کے کھانے کے لیے نہیں آیا تو جہاں آرا بیگم نے سب کو ڈانٹا کہ کیوں دانش کے پیچھے پڑ گئے ہو۔ پھر خود جا کر اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھانا کھلایا۔ کھانا کھا کر دانش دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ دادی پیار سے اس کا سر سہلانے لگیں۔ دانش نے پوچھا: "دادی! کیا ضرورت مندوں کی مدد کرنا بری بات ہے؟”

دادی نے اس کی پیشانی چوم لی اور بولیں: "نہیں میرے بچے! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم بہت اچھا کرتے ہو، جو دوسروں کے کام آتے ہو۔  تم کسی کی پرواہ  مت کرو۔ لوگ تو پتا نہیں کیا کیا کہتے رہتے ہیں۔”

دادی کے سمجھانے پر دانش پرسکون ہو گیا۔ وہ بچپن سے ہی ایسا تھا، ہر کسی کے کام آ کر اسے بڑا سکون ملتا، مگر اس کے دونوں بھائی اس بات پر اسے امی سے ڈانٹ پڑواتے تھے، مگر وہ پھر بھی باز نہیں آتا۔ اسی طرح دوسروں کی مدد کرتے اور تعلیمی میدان میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دانش جوان ہو گیا۔ اس کے والد ریٹائر ہو چکے تھے۔ دانش کی عادتیں اور مزاج اب بھی ویسا ہی تھا۔شجاع، بلال اور دانش نے اپنی اپنی تعلیم مکمل کر لی تھی اور اب وہ اچھی نوکری کی تلاش میں تھے۔ شجاع اور بلال کو اپنی تعلیم پر بہت غرور تھا، اسی وجہ سے وہ چھوٹی موٹی نوکریاں خاطر میں نہیں لاتے تھے، جب کہ دانش کا نظریہ مختلف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ شروعات ہمیشہ تھوڑے سے ہوتی ہے۔ انسان زینہ بہ زینہ چڑھ کر ہی اوپر پہنچتا ہے اور جو لوگ ایک ہی چھلانگ میں اوپر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے مقصد میں کبھی کام یاب نہیں ہوتے۔

دانش کے والد کو ریٹائرمنٹ پر جو روپے ملے تھے وہ سب دادی کی بیماری پر خرچ ہو گئے، جس کی وجہ سے وہ کوئی کاروبار بھی نہ کر سکے تھے۔ گھر میں مالی تنگی ہونے لگی، تب ایک دن دانش نے کہا: "امی جان! اگر آپ اجازت دیں تو میں ٹیکسی چلا لوں؟ میرے ایک دوست کے پاس ٹیکسی ہے۔ میں اس سے ٹیکسی لے کر چلا لوں گا۔”

شجاع نے تیز آواز میں کہا: "کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے ہی تمھاری وجہ سے ہمیں اتنی شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اور اب تم ڈرائیوری کر کے خاندان میں ہماری ناک کٹواؤ  گے۔” بلال نے بھی شجاع کی تائید کی۔ بلال کی امی بےبسی سے اسے دیکھتی رہ گئیں۔ کہتی تو کیا کہتیں، کیونکہ یہ سب انہی کی تربیت کا نتیجہ تھا۔کچھ دن اور گزر گئے۔ دانش، شجاع اور بلال روزانہ نوکری کی تلاش میں جاتے، مگر مایوس لوٹ آتے۔  آخر نوبت یہاں تک آ گئی کہ ایک وقت میں دال پکتی تو  دو وقت چلانی پڑتی۔ آخر  ایک دن شائستہ بیگم بےبسی کے عالم میں فراز صاحب کے سامنے رو پڑیں: "میں کیا کروں، کہاں سے پکاؤں؟ اب تک تو میں نے اپنا  زیور وغیرہ بیچ کر گھر چلایا، مگر اب تو ذرا بھی پیسے نہیں ہیں۔”

ان کی باتوں سے فراز صاحب بھی دکھی ہو گئے اور بولے: "بیگم! سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے گھر کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ اب تو کسی سے ادھار مانگتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔”

وہ دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ دانش ان کی باتیں سن رہا ہے۔ اچانک دانش نے ایک فیصلہ کیا اور باہر نکل گیا۔ رات کے ایک بجے لوٹا تو فراز صاحب اور شائستہ بیگم نے اسے خوب ڈانٹا۔ شجاع اور بلال بھی باتیں سنا رہے تھے کہ ہم نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں اور یہ صاحب آوارہ گردی کر رہے ہیں۔

دانش نے چپ چاپ سب کی باتیں سنیں اور پھر جیب میں سے سو سو کے تین نوٹ نکال کر ماں کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ وہ سب حیران رہ گئے کہ اس کے پاس پیسے کہاں سے آئے ، کیوں کہ وہ تو بس کے کرائے کے لیے بھی ماں سے پیسے مانگتا تھا۔ شائستہ بیگم نے شک بھری نرکوں سے اسے گھورتے ہوئے کہا: "کہاں سے آئے یہ نوٹ، کہیں چوری تو نہیں کی؟”

دانش نے سعادت مندی سے سر جھکا کر کہا: "امی جان! یہ پیسے میری حلال کی کمائی کے ہیں۔ میں نے ٹیکسی چلا کر یہ پیسے کمائے ہیں اور جب تک مجھے کوئی نوکری نہیں مل جاتی میں یہ کام کرتا رہوں گا، کیوں کہ ہمارے پیارے بنی صلی اللہ علیہ و سلم محنت کو پسند فرماتے تھے۔”

فراز صاحب نے آگے بڑھ کر دانش کو گلے سے لگا لیا اور کہا: "مجھے فخر ہے تم پر۔ اللہ تمہارے جیسی اولاد سب کو دے۔”

شجاع اور بلال شرمندہ ہو گئے۔ آج انہیں اپنی غلط سوچ کا بہت احساس ہوا۔ گھر میں اتنی تنگی ہو گئی، مگر بہترین کی تلاش میں وہ بہتر بھی چھوڑتے چلے گئے۔ اگر وہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کر بھی لیتے تو کم از کم آج ان کے پاس تجربہ تو ہوتا۔ کچھ ہی دنوں بعد بلال اور شجاع نے بھی مناسب سی نوکریاں تلاش کر لیں۔ پھر ایسا وقت بھی آ گیا کہ اپنے ماں باپ کی دعاؤں کے طفیل وہ ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے۔ دیر سے ہی صحیح، مگر ان کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ قطرہ قطرہ کر کے دریا بھی بن سکتا ہے۔
٭٭٭

٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات
پروف ریڈنگ  اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید