FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم: امن وسلامتی کے پیغمبر

 

 

               محمد حماد کریمی ندوی

 

 

 

 

 

 

مقدمہ

 

بسمہٖ تعالیٰ

الحمد للّٰہ رب العالمین و الصلاۃ والسلام علی سیدالمرسلین و بعد۔

امن، امان، شانتی، سلامتی ایسے الفاظ ہیں جن کو ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ ہر فرد بشر کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے معانی سے وہ فائدہ اٹھائے، اور سکون و چین کی زندگی گزارے۔ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تواس وقت یہ الفاظ اپنے معانی سے عاری ہو چکے تھے، الفاظ تو تھے لیکن معانی کا کہیں وجود نہیں تھا، اور لوگ اس کو ترستے تھے۔ اللہ نے انسانیت پر رحم فرمایا اور انسانوں کی ہدایت کے لئے نبی رحمتﷺ کو مبعوث فرمایا۔ اب کیا تھا جہاں جنگل کا راج تھا وہاں امن و امان کی فضا چھا گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف صلح و آشتی اور امن و شانتی کا آوازہ بلند ہونے لگا۔ اور دنیا صحیح طور پر ان الفاظ کے معانی سے آشنا ہوئی۔

اسلام کے لفظ ہی سے سلامتی ٹپکتی ہے اور ایمان کے مادہ ہی سے امن و امان رستا ہے۔ اسلام کی ہر تعلیم امن وسلامتی کی مظہر اور ہرمسلم آشتی اور شانتی کا پیام بر ہے۔ باوجود اس کے انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ دشمنان اسلام نے تعلیمات اسلام کو امن مخالف بلکہ دہشت گردی کو فروغ دینے والی قرار دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا۔ مگرساتھ ہی ساتھ علمائے اسلام نے بھی اسلامی تعلیمات کی حقیقت کو واشگاف کرنے اور مقاصد اسلام کو آشکارا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور چھوٹے بڑے مضامین، رسالے اور کتابیں دنیا کی اکثر زبانوں میں اتنی تیار کیں کہ اب سوائے ضدی اور معاند کے کوئی بھی حقیقت سے ناآشنا نہیں رہ سکتا۔

یہ رسالہ بھی اسی ضروری سلسلے کی ایک کڑی ہے جو ہمارے عزیز مولوی حماد کریمی ندوی نے تیار کی ہے۔ اس میں انھوں نے نہایت اختصار کے ساتھ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت امن وسلامتی کے پیغمبر‘‘ کے عنوان سے کچھ حقائق سے پردہ اٹھانے کی ایک اچھی کوشش کی ہے۔ جس سے کم وقت میں امن وسلامتی والے اسلامی مزاج سے اچھی واقفیت ہوسکتی ہے۔

اللہ اس کو مفید بنائے اور لکھنے والے کو مزید بہتر سے بہتر کام کرنے کی توفیق دے۔

فیصل احمد ندوی

۲۳/۸/۱۴۳۴؁ھ مطابق ۳/۷/۲۰۱۳ء؁

مدرس دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

 

 

 

 

تمہید

 

خدا نے انسانوں تک اپنی ہدایت کو پہنچانے اور اس کو برت کر دکھانے کے لئے انسانوں ہی میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کا انتخاب کیا، حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت محمدﷺ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر انسانوں کی رہنمائی کے لئے اللہ کی طرف سے منتخب کئے گئے۔ حضرت محمدﷺ پر دین کا اتمام کر دیا گیا اور آپ کو خاتم النبیین بنایا گیا۔ اس سے پہلے جو انبیاء آئے وہ کسی خاص قوم یا علاقے کے لئے تھے لیکن رسول اکرمﷺ کی بعثت تمام انسانوں کے لئے اور قیامت تک آنے والے تمام زمانوں کے لئے ہوئی۔ آپ پر اتاری ہوئی کتاب قرآن مجید بھی اللہ کی آخری کتاب اور زندگی گزارنے کے لئے ایک مکمل ہدایت نامہ ہے، آپﷺ نے اپنی تئیس(۲۳) سالہ نبوی زندگی میں اس کتاب کی روشنی میں ایک مکمل اسلامی زندگی گزار کر زندگی کے ہر شعبے اور ہر فرد کے لئے مکمل اور جامع اسوہ چھوڑا ہے، قرآن اللہ کے رسولﷺ کو بنی نوع انسانیت کے لئے رحمۃ للعالمین قرار دیتا ہے۔ (وما أرسلناک إلا رحمۃ للعالمین) پھر آپ کو پوری انسانیت کے لئے قابل تقلید بنا کر پیش کرتے ہوئے آپ کو بہترین نمونہ قرار دیتا ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ أسوۃ حسنۃ‘‘ (سورہ احزاب ۲۱) آپ ﷺ کی حدیث ہے: ’’ سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر طریقۂ زندگی محمد کا طریقہ ہے‘‘ (مسلم) نبی کریم ﷺ کی زندگی مختلف حیثیتوں سے ہر انسان کے لئے ایک بہترین نمو نہ ہے، آپ کا لایا ہوا دین انسانوں کے خالق ومالک کا عطا کردہ ہے، اس لئے وہی زندگی گزارنے کا سیدھا اور سچا راستہ ہے، لہذا مسائل ومصائب کی ماری اضطراب اور بے چینی میں مبتلا دنیا کو اگر کہیں پناہ مل سکتی ہے تو وہ صرف محسن انسانیت کے اسوہ ہی میں مل سکتی ہے۔

امن وسلامتی کا مفہوم قرآن وحدیث کی روشنی میں

جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ذات نبوی حیات انسانی کے ہر گوشے کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے، تو لامحالہ ذات نبوی میں اور آپ کے لائے ہوئے احکام وتعلیمات میں امن وسلامتی سے متعلق بھی احکام ہوں گے، اور آپﷺ نے عملی زندگی میں بھی اس کو برتا ہو گا، ذیل میں ’’امن اور اسلامی تعلیمات‘‘ کے نام سے ایک مضمون نقل کیا جاتا ہے جو ماہنامہ ’’افکارملی‘‘ میں ستمبر ۲۰۱۰ئ؁ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔

’’ شریعت میں دو اصطلاحی لفظ ہیں، اسلام اور ایمان، ایک کا مادہ ’’سِلْمٌ‘‘ہے اور دوسرے کا ’’امْنٌ‘‘ اور ان دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی ’ امن وسلامتی‘۔ اسی طرح مسلمانوں کے تعارف کے لئے بھی دو لفظ استعمال کئے جاتے ہیں : ’مسلم‘ اور ’مومن‘ جو پہلے دو لفظوں ہی سے مشتق ہیں، اور ان کے معنی بھی تقریباً وہی ہوتے ہیں، یعنی امن وسلامتی ہی کے دوسرے نام ہیں اسلام اور ایمان، اور اسی طرح جو شخص خود اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو خود اپنے لئے اور دوسروں کے لئے امن چاہتا ہے وہ مومن ہے۔ (جس مذہب کی لفظی بنیاد تک امن وسلامتی پر مبنی ہو اور جس کے ماننے والے کو امن وسلامتی کا علمبردار کہا جائے غور کیجئے کہ امن وسلامتی کو اس کی تعلیمات اور احکام میں کتنا دخل ہو گا)۔

خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے مسلمان اور مومن کی وضاحت اس طرح فرمائی تھی۔

۱- المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔ (الہیثمی ج:۳، ص:۲۶۸) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔

۲- المؤمن من أمنہ الناس علی أموالہم وأنفسہم (حوالہ سابق) مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کا جان و مال امن و عافیت میں رہے۔

پر امن بقائے باہم ( Coexistence) کے سلسلے میں قرآن کی ہدایات نہایت صاف اور واضح ہیں۔ چند تعلیمات درج ذیل ہیں :۔

۱- لا إکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی۔ (البقرۃ: ۲۵۶) دین میں کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں۔ اب ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔

۲- ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبوا اللّٰہ عدوا بغیر علم۔ (الأنعام: ۱۰۸) جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ان کے خداؤں کو برا مت کہو نہیں تو وہ بھی نادانی اور دشمنی میں اللہ کو برا کہیں گے۔

اس سے بڑھ کر پر امن بقائے باہم ( Coexistence) کی تعلیمات اور کیاہوسکتی ہیں، مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں کسی قسم کی کوئی زبردستی جائز نہیں۔

۳- أدع إلی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی أحسن۔ (النحل: ۱۲۵)اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو بلاؤ انتہائی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ اور ان کے ساتھ بہتر طریقے پر مباحثہ (Dialogue) کرو۔

پہلی دوسری آیت میں دنیا کے تمام انسانوں کو ان مشترک باتوں اور ان مسلّمات کی دعوت دی جا رہی ہے جن کے قبول کرنے میں کسی کو کوئی عار نہیں جب کہ تیسری آیت میں مسلمانوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی بات دوسروں کے سامنے نہایت حکمت اور موعظت کے ساتھ رکھیں۔ یعنی دانشمندی اور ہمدردی کے ساتھ۔

رہی بات دہشت گردی (Terrorism) کی تو یہ از اول تا آخر اسلام کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں صاف وضاحت ملتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کہیں سے کہیں تک بھی جائز نہیں۔ قرآن میں ہے۔

۱- من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا ومن أحیاہا فکأنما أحیا الناس جمیعا۔ (المائدۃ: ۳۲)

جس نے کسی انسان کو بلاوجہ قتل کیا یا دنیا میں فساد پیدا کیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا، اور جس نے ایک انسان کی زندگی بچالی گویا اس نے پوری انسانیت کی زندگی بچا لی۔

۲- ولا تبغ الفساد فی الأرض إن اللّٰہ لا یحب المفسدین۔ (القصص: ۷۷)اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ کیونکہ اللہ فساد پھیلانے والوں والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

۳- تعالوا إلی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ألا نعبد إلا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضاً أربابا من دون اللّٰہ۔ (آل عمران:۶۴)آؤ ہم سب ایک ایسے کلمہ پر اتفاق کر لیں جو ہمارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ کے بجائے ہم خود آپس ہی میں ایک دوسرے کو معبود نہ بنا لیں۔

اس آیت کو ہم صرف دعوتی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں اسی لئے ہم سب کو اپنی طرف بلاتے ہیں تاہم اس میں دعوتی نقطۂ نظر کے بعد ایک اور نکتہ بھی پوشیدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اس کو تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھیں یعنی ابتداء میں تو سب کا دین ایک ہی تھا، سب لوگ ایک ہی نفس کی اولاد ہیں، وہ تو بعد میں لوگوں نے الگ الگ راہیں نکال لیں، تو اس آیت میں وضاحت ہے کہ پہلے تو ہم سب ایک ہی نقطے اور ایک ہی کلمہ پر جمع تھے آؤ پھر اسی کلمے کی طرف لوٹ چلیں، اور اسی نقطے پر جمع ہو جائیں۔ قرآن میں ہے: ’’وماکان الناس إلا أمۃ واحدۃ فاختلفوا‘‘ (یونس: ۱۹)

’’لوگ ابتداء ہی میں ایک امت تھے بعد میں لوگوں نے اختلاف پیدا کیا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے۔

ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے کو اگر چہ وہ باغی اور سرکش ہو اپنی طرف بلائے اور اس کی آنکھوں میں اس کے لئے محبت اور پیار نہ ہو۔ اسی طرح ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اسلام دوسروں کو اپنی طرف بلائے اور اس کی نگاہوں میں ان کے لئے پیار نہ ہو، ہمدردی نہ ہو، اس کے لہجے میں محبت کے جذبات کی گرمی نہ ہو اور انسیت و اپنائیت کا شائبہ نہ ہو۔

ذرا درج ذیل تعلیمات نبوی پر ایک نظر ڈالئے:۔

۱- رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندوں میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام ٹھہرایا ہے، تم بھی آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (مسلم رواہ ابوذر رضی اللہ عنہ)

۲- رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ سب سے پہلے لوگوں کے جن معاملات کا فیصلہ فرمائے گا وہ قتل کے معاملات ہوں گے۔ (بخاری ومسلم، رواہ عبداللہ بن مسعود)

۳- تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اس کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے۔ (البیھقی فی شعب الإیمان: ۶؍۴۶، رقم الحدیث: ۷۴۴۴)(ماہنامہ افکار ملی، ستمبر۲۰۱۰ء)

 

 

حضورﷺ کی مختلف زمانوں میں امن کی کوششیں : ایک جائزہ

 

مذکورہ بالا تعلیمات سے یہ حقیقت آشکارا ہو گئی کہ مذہب اسلام کی تعلیمات کا کتنا بڑا حصہ امن وسلامتی کی تعلیمات اور اس کے متعلق احکامات سے وابستہ ہے۔ لیکن اگر صرف احکامات و تعلیمات و اصول و ضوابط اور قوانین سے متعلق کتابیں ہدایت واتباع کے لئے کافی ہوتیں تو اللہ ہدایت کے لئے نبیوں کو نہ بھیجتا، لیکن خلّاقِ علیم انسان کی فطرت سے واقف تھا کہ جب تک عملی نمونہ نہ ہو وہ کسی کے سامنے جھکتا نہیں ہے۔ اسی بناء پر اگر آپ غور کریں تو بہت سے مذاہب ہیں جن کی کتابوں کی تعلیمات ان کے میدان عمل سے ذرا برابر بھی میل نہیں کھاتی۔ مثلاً عیسائیت جن کی تعلیمات میں عفو و صفح کا بہت اونچا مقام ہے، لیکن اس مذہب کے متبعین میں بہت کم لوگ اس پر گام زن ہیں، اور یہ چیز اس مذہب کی مقبولیت میں مانع بننے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن چوں کہ دین اسلام ابدی وسرمدی دین ہے۔ لہٰذا اس کے متعدد ولا تعداد امتیازات میں ایک یہ بھی ہے کہ جس طرح اس مذہب میں قانون کے لئے ایک کتاب قرآن ہے جو افضلِ کتب ہے اسی طرح اس کو عملاً ثابت کرنے کے لئے حضورﷺ کی ذات مبارکہ کی مکمل زندگی ہے، جو کہ افضلِ خلائق ہیں۔ اور حضورﷺ کی مکمل زندگی تاریخ وسیرت اور حدیث کی کتابوں میں موجود و محفوظ ہے، اس سلسلہ میں حضورﷺ کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱- زمانہ جاہلیت میں امن کی کوششیں۔

۲- مکی زندگی، بعد نبوت کا پر امن ماحول۔

۳- مدنی زندگی اور امن وسلامتی کے چند نمونے۔

 

 

 

 

۱- زمانہ جاہلیت میں امن کی کوشش

 

نبوت سے پہلے کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ کچھ لوگ عبداللہ بن جُدعان کے گھر میں اس مقصد سے جمع ہوئے کہ سب لوگ مل کر ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش کریں اور مظلوم کی مدد کریں، اس معاہدہ کو’’ حلف الفضول‘‘ کہتے ہیں آپﷺ بھی ا س میں شریک ہوئے، آپ کو یہ معاہدہ اس قدر پسند تھا کہ آپﷺ نبوت کے بعد بھی فرماتے تھے کہ اگر اب بھی مجھے ایسے معاہدہ کی طرف دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ مذکورہ واقعہ اور واقعہ پر بعد نبوت تبصرہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امن وسلامتی کی محبت آپ کے اندر فطری و طبعی طور پر ودیعت کر دی گئی تھی۔ جب کہ یہ واقعہ بعدِ نبوت پیش آئے امن وسلامتی کے واقعات کے سامنے عشر عشیر کی بھی حیثیت نہیں رکھتا، اس کے باوجود حضورﷺ نے اس کی مدح کی۔ (تلخیص ماخوذ از: زاد المعاد۔ سیرت کا پیام وغیرہ)

۲- جب عمر مبارک ۲۵؍ سال کی ہوئی تو خانہ کعبہ میں بارش کی وجہ سے شگاف پڑ جانے کے سبب کعبۃ اللہ کی تعمیر نو انجام پائی۔ اس میں جب حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے کا موقع آیا تو مختلف قبائل کے درمیان کشمکش شروع ہوئی، اور قتل و قتال کا اندیشہ پیدا ہو گیا، ایسے موقع پر مکہ کے ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبۃ اللہ میں آئے وہ حجر اسود کو اپنی جگہ رکھے، کل سب سے پہلے کعبہ میں آنے والی شخصیت آپﷺ کی تھی، چنانچہ آپﷺ نے ایک چادر منگوائی، اس کے وسط میں پتھر رکھا، ہر ہر قبیلے سے ایک ایک نمائندہ طلب کیا، اور ان سب سے کہا کہ وہ چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اس جگہ تک لے جائیں، جہاں اسے نصب کیا جانا ہے پھر جب وہاں پہنچے تو اپنے دست مبارک سے پتھر کو اس کی جگہ نصب فرما دیا، اس طرح ایک بڑے فتنہ کاسد باب ہوا، اور امن کی فضا قائم رہی۔

مکہ کے ماحول کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہو گا کہ اگر حضورﷺ کے علاوہ اور کوئی شخص ہوتا تو پہلے تو لوگ اسے تسلیم ہی نہ کرتے، وہ تو حضورﷺ کی ذات تھی جن کا صدق و امانت مسلم تھی، اور اگر تسلیم کر بھی لیتے تو وہ ترکیب جو حضورﷺ نے اپنائی کہ کسی قبیلہ کو شکایت نہ رہی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا، اس کے ذہن میں نہ آتی، اور کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا جو اختلاف کا سبب بن جاتا۔ اگر حضورﷺ چاہتے تو اپنے قبیلے کے لئے اس شرف کو خاص کر دیتے لیکن امن کی فضا کو باقی رکھنے کے لئے آپ نے ایسا نہ کیا۔

۳- اسی طرح جب حضرت خدیجہؓ نے زید بن حارثہ کو حضورﷺ کی خدمت میں دے دیا، جو یمن کے ایک قبیلے کے سردار حارثہ بن شرحبیل کے صاحبزادے تھے، جنھیں ڈاکوؤں نے زبردستی آٹھ سال کی عمر میں اغوا کر کے بیچ دیا تھا، پھر جب ان کے والد و چچا تلاش کرتے ہوئے حضورﷺ کے پاس پہنچے تو حضور نے امن کی بحالی کے لئے جو ترکیب اختیار کی وہ واقعی قابل تقلید ہے، کہ حضورﷺ نے خود زید بن حارثہ کو اختیار دے دیا کہ جس کو چاہے اختیار کرے، اور انہوں نے حضورﷺ کی صحبت کو ترجیح دی، اگر حضورﷺ والد و چچا کو دینے سے صاف انکار کر دیتے اور اس کا حق بھی تھا تو وہ زمانہ جس میں بات بات پر سالوں جنگ چلتی، گھوڑے کے پانی پلانے میں سبقت کرنا جنگ کا سبب بن جاتا تو کوئی بعید نہ تھا کہ ان کے والد بھی غصے میں آ جاتے وہ بھی سردار قبیلہ تھے اور پھر یہ واقعہ جنگ کا سبب بن جاتا۔

۴- قبل از نبوت حضورﷺ کی زندگی میں امن کے نمونوں میں ایک نمونہ یہ بھی ہے کہ جب حضورﷺ ۱۴- ۱۵سال کے تھے تو حرب الفجار نامی مشہور جنگ پیش آئی، جس کو آپ نے دیکھا اور ناپسند کیا، چونکہ آپ اس جنگ میں شریک تھے اور چھوٹے تھے اس کے باوجود امن پسند طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا کہ ا پنے ہتھیار سے بذات خود کسی پر وار کریں، اسی بنا پر کہ چوں کہ خاندانی جنگ تھی اس لئے شریک تو ہوئے لیکن صرف یہ کرتے کہ تیر اٹھا کر چچا کو دیتے رہے خود حملہ نہ کیا، اور بعد میں اس کو بھی ناپسند کیا، اور زندگی بھر سوائے ایک دو واقعہ کے بذات خود کسی پر وار نہ کیا۔

 

۲- مکی زندگی۔ بعد نبوت کا پر امن ماحول

 

مذکورہ واقعات زمانہ قبل از نبوت کے تھے جو معاشرتی سطح کے تھے، لیکن جب حضورﷺ کو بعثت ملی تو اس کے بعد بھی آپ کے امن پسندی کے نمونے ظاہر ہوتے رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوا، قبل اس کے کہ ان واقعات پر روشنی ڈالی جائے یہ جاننا ضروری ہے کہ حضورﷺ نے بعد نبوت مکی زندگی میں جو امن کی بقا کی کوشش کی وہ عدیم المثال ہے، اور اس کا سبب یہ نہیں کہ حضورﷺ کچھ نہ کر سکتے تھے اس لئے صبر کر جاتے بلکہ اگر دیکھا جائے تو حضورﷺ منٹوں بلکہ سکنڈوں میں مخالفین کے خلاف کارروائی کر سکتے تھے، دنیوی اعتبار سے بعد نبوت اگرچہ اکثر لوگوں نے حمایت چھوڑ دی تھی لیکن پھر بھی آپ کا قبیلہ آپ کے ساتھ تھا، آپ چاہتے تو مدد کے لئے ان کو آواز دیتے پھر جنگ چھڑ جاتی، اور اخروی اعتبار سے آپ کا تعلق تو آسمانی دنیا سے اور اس عالم و کائنات کے خالق سے تھا اگر آپ چاہتے تو ایک بد دعا میں پوری قوم کو ہلاک کر دیتے، جیسا کہ بعض سابقہ انبیاء کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے، لیکن امن پسند طبیعت نے اس کو گوارا نہیں کیا۔

تو آئیے اس دور کے واقعات پر سرسری نظر کی جائے:

۱-نبوت کے ملنے کے بعد سب سے پہلے جب آپ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر لوگوں کو دعوت دی، تو جواب میں ابولہب نے جب کہا کہ غارت ہو جاؤ کیا یہی بات تھی جس کے لئے تم نے ہم سب کو یہاں اکٹھا کر لیا تھا، دعوت کا یہ پہلا قدم تھا جس پر مخالف کے شور و واویلا کرنے پر حضورﷺ نے مکمل سکوت کیا، اگر اس موقعے پر ایک لفظ بھی کہتے تو پھر معاملہ طول اختیار کر جاتا، اور امن کی فضا مکدر ہو جاتی۔

۲- اسی دعوت عام کی مہم کا دوسرا قدم جو حضورﷺ نے اٹھایا وہ وہ ہے جب آپﷺ نے تمام خاندان عبدالمطلب کو کھانے پر بلوایا، فراغت طعام کے بعد آپ نے اپنے تعاون کی تشکیل کی اور جب حضرت علی نے کھڑے ہو کر اپنے تعاون کا اعلان کیا تو تمام سرداران قہقہہ لگانے لگے، لیکن پھر بھی حضور نے سکوت کیا۔

۳- اسی طرح جب ایک مرتبہ نماز پڑھتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کو ایک مشرک نے زخمی کر دیا جو کہ خون کی سب سے پہلی دھار تھی جو مکہ کی خاک پر خدا کی راہ میں بہی، اس پر بھی کوئی رد عمل نہ کیا گیا۔

۴- پھر جب ایک مرتبہ حضورﷺ نے کعبہ میں کھڑے ہو کر اس دعوت کا اعلان کیا تو مشرکین نے آپ کو برا بھلا کہا کسی نے شاعر تو کسی نے کاہن کہا، لیکن حضورﷺ اپنی دعوت دیتے رہے، اور بذات خود کوئی جواب نہ دیا، بلکہ اللہ تعالی نے معجزانہ انداز میں ان باتوں کی تردید کی۔

۵- نیز حضورﷺ کو ستانے کے لئے انتشار انگیزی، کٹ حجتیاں، دلائل، استہزائ، غنڈہ گردی ہر ممکنہ صورت کو اختیار کیا گیا، محلہ کے پڑوسی جو بڑے بڑے سردار تھے آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے، نماز پڑھتے وقت شور مچاتے، اوجھڑیاں لا کر ڈالتے، گلا گھونٹتے لیکن ان سب پر صبر کیا۔

۶-یہاں تک کہ مشرکوں نے آپ کو لاچار و مجبور کرنے کے لئے بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں قید کر دیا گیا اس پر بھی صبر سے کام لیا۔

۷- پھر جب مکہ سے دلبرداشتہ ہو کر طائف گئے، تو وہاں جو برتاؤ کیا گیا اگر آپ چاہتے تو فرشتوں کی پیش کردہ تجویز پر عمل کر کے پورے طائف کے امن کو خاکستر کر دیتے لیکن امن کی بحالی کے لئے ایک لفظ ان کے خلاف نہ کہا۔ (محسن انسانیت ص: ۲۱۰)

۸-اسی طرح امن کی بحالی میں شب ہجرت بھی بہت ہی واضح و بین دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے حصار سے حضورﷺ کو بحفاظت نکال دیا اگر حضورﷺ چاہتے تو ان کے لئے بد دعا کر دیتے یا اپنے خاندان کی دہائی دیتے، پھر جنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا لیکن آپ اور آپ کے صحابہ نے سب کچھ برداشت کیا اور گھر بار وطن دولت سب کو چھوڑنا گوارا کر لیا۔

مکی زندگی( بعد نبوت )کے اس طویل دور میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں حضورﷺ یا آپ کے صحابہ کی طرف سے کوئی ایسا اقدام کیا گیا ہو جو امن کی فضا کو مکدر کرتا، حالانکہ اخیر زمانہ میں تو حضرت عمر و حضرت حمزہ جیسے صاحب وقار وذی اقتدار حضرات مشرف باسلام ہو چکے تھے جو حضورﷺ کے ایک اشارے کے منتظر تھے، لیکن خدا کا حکم تھا اور حضورﷺ کی امن پسند طبیعت کہ چاہتے تھے کہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہو جائے، اور اسی امن کی بحالی کے لئے ہجرت کو ترجیح دی، اس سے زیادہ امن کی مثال اور کون سی ذات اور کون سی جماعت پیش کر سکتی ہے، وہ بھی اس زمانہ میں جو کہ بات بات پر جنگ اور لڑائی کا زمانہ تھا، لیکن اگر یہ طریقہ اختیار نہ کیا جاتا تو مقصد میں کامیابی ناممکن تھی۔

 

 

 

مدنی زندگی اور امن وسلامتی کے چند نمونے

 

یوں تو حضورﷺ کی پوری زندگی ہی امن وسلامتی کے نمونوں سے بھر پور ہے، لیکن مدنی زندگی میں امن وسلامتی کا گوشہ نہایت ہی وسیع ہو گیا، مکی زندگی میں اپنی قوم سے واسطہ تھا تو مدنی زندگی میں آپ کے تعلقات عالمی ہو گئے، مختصر عرصے میں چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہونے کے باوجود جس طرح امن کو بحال رکھتے ہوئے اپنے مقصد اصلی کو پورا کیا اس پر دنیا حیران ہے، ایک طرف مکہ کے مشرکین تھے دوسری طرف داخلی منافقین، تیسری طرف یہود، چوتھے مخالف نصاریٰ کے بعض قبائل اور پھر آخر میں وقت کی دو طاقتور سلطنتوں کی مخالفت ان سب کے درمیان ایک پرامن نظام کو قائم کرنا ایک ایسا کارنامہ ہے جو آپ سے پہلے نہ کسی نے انجام دیا اور نہ آپ کے بعد کوئی اس کے بارے میں سوچ سکتا ہے، چونکہ مدنی زندگی نہایت ہی وسیع اور لامحدود ہے اس بنا پر الگ الگ مختلف گوشوں سے جائزہ لینا زیادہ مناسب ہو گا۔

۱- ذاتی زندگی: اس سطح پر یہ جان لینا کافی ہو گا کہ آپ کی پوری زندگی اور خاص طور پر مدنی دور میں کسی کو آپ سے یا آپ کو کسی سے ذاتی دشمنی یا عناد نہ تھا، آپ اپنی ذات کے اعتبار سے مجسم رحمت تھے، قرآن میں ہے:’’ فبما رحمۃ من اللّٰہ لنت لہم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک‘‘ (سورہ آل عمران) یہ چیز امن کے قیام میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔

۲- خانگی زندگی:خانگی معاملات میں ازواج مطہرات کے درمیان مساوات، غلاموں سے ملاطفت، بدوؤں کے جاہلانہ رویوں پر عفو و درگذر اور صحابہ کی صحیح تربیت کے ذریعے حضورﷺ نے جو پر امن فضا قائم کی یہ آپ ہی کا حصہ تھا، حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں دس سال حضورﷺ کی خدمت میں رہا کبھی آپ نے اف تک نہ کیا اور نہ کسی کام کے بارے میں کہا کہ یہ تم نے کیوں کیا، اور یہ کیوں نہیں کیا؟ اسی طرح ایک بدو آ کر چادرسے آپ کی گردن کھینچنے لگا تو آپ نے کچھ نہ کہا۔

۳-معاشرتی سطح پر بطور نمونہ صرف اخوت کی اس نادر و نایاب مثال کا ذکر کافی ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، جب مہاجرین ہجرت کر کے سب کچھ چھوڑ کر مدینہ آئے تو سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا تھا، جس کا حل اللہ کے رسولﷺ نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت کے ذریعے نکالا، اگر اس میں تھوڑی بھی تاخیر ہوتی تو یہ چیز بہت سے مفاسد کے وجود کا ذریعہ بن جاتی، اس سلسلے میں آپ کی وہ حدیث امن کے قیام کی اعلیٰ مثال ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا : ’’ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی أحمر ولا لأحمر علی أسود إلا بالتقویٰ‘‘ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی سے۔ (الحدیث)

قیام امن کے لئے معاشرتی زندگی کا ایک اہم اصول:۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرے کے استحکام اور امن کے قیام کا دارومدار اس پر ہے کہ معاشرے کے افراد خیر کے لئے ایک دوسرے کے معاون بنیں، قرآن میں اس اصول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ’’ تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان‘‘ نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ وزیادتی میں باہم کسی کی مدد نہ کرو۔

۴ -ملکی سطح پر مدنی زندگی میں امن کے لئے جو کوششیں حضورﷺ نے کیں ان میں سب سے بہتر کوشش یہ تھی کہ آپ نے مدینہ آتے ہی وہاں کے یہود سے عہد کیا کہ ہم آپس میں امن و امان کے ساتھ رہیں گے، اگر کوئی خارجی حملہ ہو گا تو ہم سب مل کر اس کا دفاع کریں گے، اسی طرح کا معاہدہ حضورﷺ نے آس پاس کے دیگر قبائل سے بھی کیا۔

۵-عالمی سطح پر حضورﷺ نے جو کو شش کی ان میں ایک حضورﷺ کے وہ خطوط ہیں جو آپ نے دنیا کے مختلف بادشاہوں کو امن کی تعلیمات سے متعلق بھیجے اور ان کو ایک کلمے کی دعوت دی اور امن و سلامتی کی طرف بلایا۔

۶- اس سلسلے میں کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ جب حضورﷺ کی پوری زندگی امن وسلامتی کی دعوت پر قائم تھی تو پھر غزوات وسرایا کیونکر وجود میں آئے جس میں قتل ہوا۔ بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں۔

بظاہر یہ اعتراض صحیح بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن جب کہ ایسا شخص کرے جو سیرت سے نابلد اور تاریخ سے لا علم ہو، اگر دور بین نظروں سے دیکھا جائے، تو جتنے غزوے ہوئے ان سب کی بناء امن وسلامتی پر ہی ہے، آئیے چند غزوات کے پس منظر پر غور کریں تاکہ حقیقت واشگاف ہو جائے۔

۱- غزوۂ بدر:جب مسلمان مدینہ جا کر امن و امان سے رہنے کی کوشش کرنے لگے اور تمام ممکنہ صورتیں اختیار کیں، تو مشرکین مکہ کے دلوں کا سکون چھن گیا اور انھوں نے مسلمانوں کو پریشان کرنا شروع کر دیا، ایک تو مسلمان معاشی اعتبار سے تنگ تھے جو بھی کچھ قوت ملی ہی تھی کہ ان مشرکین نے پھر انتشار انگیزی شروع کر دی، یہاں تک کہ بعض مرتبہ چھوٹے چھوٹے گروہ کی شکل میں مدینہ کے قریب آتے اور حملہ کر کے چلے جاتے، جس سے امن کا ماحول فساد میں بدل رہا تھا، جس کی روک تھام ضروری تھی، اسی دوران میں خبر ملی کہ ایک قافلہ قریش کا مع سازوسامان کے آنے والا ہے، تو حضورﷺ نے محض دھمکانے کے لئے اور ان کو متنبہ کرنے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا، جس کا مقصد جنگ ہر گز نہ تھا بلکہ صرف مخبری یا زیادہ سے زیادہ اس کو روکنا و متنبہ کرنا تھا، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جھڑپ ہو گئی اور ایک آدمی مارا گیا جب یہ خبر مشرکین مکہ کو پہنچی تو باوجود قافلہ کے بچ نکلنے کے وہ واپس نہ گئے بلکہ بدر کے مقام پر جمع ہو گئے، پھر مجبوراً مسلمانوں کو بھی نکلنا پڑا۔ اور یہ غزوہ پیش آیا۔

۲- غزوۂ احد اس میں تو پورا ہاتھ مشرکین کا تھا جو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے لیکن حضورﷺ اور صحابہ نے مشورہ کے بعد شہر سے باہر نکل کر مقابلے کو مناسب سمجھا اور یہ غزوہ پیش آیا۔ اسی جنگ میں حضور کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، لیکن آپ نے صرف اتنا کہا: ’’اللّٰھم اھد قومی فإنہم لا یعلمون‘‘۔ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے، بے شک وہ نہیں جانتے۔

۳- غزوۂ خندق: اس میں بھی مشرکین نے خود مدینے کا حصار کیا اور جنگ کی۔

۴- صلح حدیبیہ: امن و شانتی کی سب سے واضح مثال صلح حدیبیہ ہے جب مہاجرین کو ہجرت کئے ایک مدت ہو گئی تو ان کے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہو تاکہ اپنے خاندان اپنے بیوی بچوں سے ملاقات کریں، بیت اللہ کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈا کریں، اسی ارادے سے حضورﷺ صحابہ کی ایک جماعت کو لے کر جانب مکہ روانہ ہوئے، اور مشرکین کو غلط گمان نہ ہو اس لئے اونٹوں کو قلائد لگوائے، ہتھیار بھی کم سے کم لئے، اور سیدھے مکہ نہ گئے بلکہ مقام حدیبیہ پر قیام کیا اور اطلاع کے لئے حضرت عثمان کو بھیجا، پھر جب قریش کی طرف سے سھیل بن عمرو امن کا پیغام لے کر آئے، تو ان کی ہر شرط قبول کی، اور اتنا دب کر صلح کی کہ بعض صحابہ تک اس پر دل برداشتہ ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہم حق پر نہیں ؟لیکن حضورﷺ نے صلح کو مع کل شرائط قبول کیا، اگر آپ چاہتے تو زبردستی اپنی طاقت کے بل بوتے پر عمرہ کر لیتے، سابقہ جنگوں سے اہل مکہ پر رعب طاری ہو چکا تھا، ان کے بہت سے سردار مارے جاچکے تھے، اور مسلمانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی لیکن بغیر ادائیگی عمرہ کے واپس چلے گئے۔

۵-قبائل یہود کا اخراج : جب حضور نے یہودیوں سے معاہدہ کر لیا تو یہودیوں کو چاہئے تھا کہ وہ اس معاہدہ کا خیال رکھتے اور اس کو پورا کرتے، اور اگر تعاون نہ کرتے تو عداوت کا اظہار بھی نہ کرتے لیکن ان خبیث طینت یہودیوں کی طبیعت کو اسلام کی ترقی دیکھ کر کہاں چین آتا جب بھی موقع ملتا غداری اور نقضِ عہد کرتے جس کی بنا پر ایک ایک کر کے ان کو جلاوطن کر دیا گیا تاکہ مدینہ کی پر امن فضا مسموم نہ ہو، اگر آپ چاہتے تو ان کے ہر قبیلہ کو قتل کرا دیتے البتہ ایک قبیلے کے بالغ مردوں کو قتل کیا اور یہ قتل خود یہودیوں کے قانون کے مطابق تھا، لیکن رحم و کرم کی داد دیجئے کہ معاف کیا پھر سامان لے جانے کی بھی اجازت دی۔

۶-غزوۂ خیبر:جب یہودیوں کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا گیا تو ان میں سے بہت سوں نے مقام خیبر میں اپنی بستیاں آباد کیں اور پھر وہاں سے انھوں نے انتشار انگیزیاں اور فساد شروع کر دیا جس کی سرکوبی اور بقائے امن کے لئے ان کی خبر لینا ضروری تھا، اسی لئے اس غزوہ کی ضرورت پیش آئی۔

۷-فتح مکہ:پیچھے گزرچکا ہے کہ صلح حدیبیہ میں حضورﷺ نے ان کی تمام شرائط کو منظور کر لیا تھا ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو قبیلہ جس فریق کا چاہے ساتھ دے، اس سلسلے میں بنو خزاعہ نے مسلمانوں کا ساتھ دیا، لیکن مشرکین مکہ نے کچھ عرصے میں معاہدہ کی پامالی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کا قتل عام کیا اور نقض عہد کر دیا، اس بنا پر مسلمانوں پر ضروری ہو گیا کہ وہ اپنے حلیف کا بدلہ لیں اور ان کی مدد کریں اور اس کی یہی صورت تھی کہ مکہ جا کر مسئلہ کو حل کیا جائے، اسی ضرورت کے پیش نظر یہ واقعہ وجود میں آیا، اور اسی واقعے میں آپ نے ’’ لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا أنتم الطلقاء‘‘ (آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو)کا مژدہ سنا کر امن کے قیام کی نادر مثال پیش کی۔

یہ تو تھے کچھ غزوات کے پس منظر، اس کے علاوہ اگر غزوات کی اسلامی تعلیمات پر نظر ڈالی جائے تو حضورﷺ نے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو مارنے سے منع فرمایا اسی طرح جو اطاعت قبول کر لے اس کو بھی معاف کرنے کا حکم دیا، نیز بدر کی جنگ کے بعد قیدیوں سے حسن سلوک کر کے فتح مکہ کے بعد عام امن و امان کا اعلان کر کے، یہودیوں کی سازشوں کے بعد جلاوطنی پر اکتفا کر کے، خیبر کی فتح کے بعد کاشت کے لئے ان کو زمین دے کر امن و امان اور سلامتی وشانتی کی جو مثالیں قائم کی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اتنے غزوات کے باوجود دونوں کے مقتولین کی جو تعداد ہے اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد بعد کی امن پسندی کا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان ہوئی، جنگوں میں سے ایک جنگ میں مقتول ہوئی، انھی سب مساعی جمیلہ کا نتیجہ تھا کہ حضورﷺ نے محض چند سالوں کے عرصے میں جو کارنامہ انجام دیا ان کے انجام دینے سے پوری کی پوری جماعت ایک لمبے عرصے میں بھی عاجز و بے بس ہے، اس لئے کہ آپ تو رحمۃ للعالمین ہیں۔

 

 

 

تربیت یافتہ صحابہ اور امن عالم

 

حضور کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنے بعد صحابہ کی ایسی جماعت چھوڑی جو ایک عرصے تک سوفیصد تعلیمات نبوی خاص طور پر تعلیمات امن پر گامزن رہی، لہٰذا ضروری ہے کہ اس جماعت کے بعض اہم نمونوں کا ذکر باختصار کر دیا جائے، یوں تو ہر صحابی امن کا پیغامبر اور سلامتی کا خوگر تھا، ہر ایک کا ذکر دشوار ہے لہٰذا چند پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

۱- حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ، جب حضورﷺ کا انتقال پر ملال ہوا تو ہر مسلمان فطری طور پر ایک غم و اندوہ کی کیفیت کا شکار ہو گیا، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی یہ کہہ بیٹھے کہ جو یہ کہے کہ محمد ؐ کا انتقال ہو گیا اس کا سر قلم کر دوں گا، لیکن اتنے بڑے صدمہ سے دوچار ہونے کے باوجود اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے جس جوانمردی کا ثبوت دیا، وہ بھی امن کے قیام کی ایک بیّن مثال ہے، سب سے پہلے آپ نے دلائل سے حضورﷺ کی موت کو ثابت کیا، پھر منصب امامت کو سنبھالا اس کے بعد تجہیز و تکفین کے کام انجام پائے اور یہ حقیقت ہے کہ اس میں ذرا بھی تاخیر ہوئی تو بہت سے مفاسد وجود میں آتے، پھر اپنی خلافت کے زمانے میں ہر سو امن کو عام کیا، اور عند الوفات حضرت عمرؓ کو خلیفہ مقرر کر کے امن کی راہ کو ہموار کیا۔

۲- حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے زمانۂ خلافت میں نظام امن کے قیام کے لئے بہت سی نئی چیزیں ایجاد کیں، راتوں کو گشت کرتے، ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کی بات کو غورسے سنتے، اور صحیح ہو تو اس پر عمل کرتے، امن کی بقا کے لئے ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وفات کے وقت آئندہ کون خلیفہ ہو گا اس کو طے نہیں کیا بلکہ چھ رکنی ٹیم تشکیل دی جس میں ان کے فرزند بھی تھے، لیکن فرمایا کہ وہ مشورہ میں تو شریک ہوں گے لیکن خلیفہ ان کو نہ بنایا جائے گا اگر چاہتے تو بنا دیتے اور وہ اس کے اہل بھی تھے، لیکن فساد کا خدشہ تھا، اس کا سد باب کر دیا۔

۳-حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ اپنے سابقہ دو خلیفوں کی راہ پر ہی گام زن تھے، یہاں تک کہ جب فتنہ انگیزیوں کا دور شروع ہوا اور بلوائیوں نے ان سے منصب خلافت سے الگ ہو جانے کا مطالبہ کیا، تو انھوں نے جان دے دی، لیکن ان کا مطالبہ پورا نہ کیا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر خلافت ان فسادیوں کے ہاتھ جائے گی تو رہا سہا امن بھی غارت ہو جائے گا۔

۴- حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ آپ کا دور فتنوں سے بھر پور اور آزمائشوں کا دور تھا، غیر تو غیر اپنے بھی مخالف ہو گئے تھے اور یہ خلافت راشدہ کا آخری دور تھا جس کی حضورﷺ نے اپنی حدیث میں پیشین گوئی فرمائی تھی لیکن ان تمام فتنوں کے باوجود حضرت علی نے آخری دم تک خلافت کے کاروبار کو سنبھالے رکھا۔ اور امن و امان کے قیام کی ہر ممکن کوشش کی۔

انھی بزرگوں کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج تک وہ حکومتیں جہاں ان کا قائم کردہ نظام باقی ہے زیادہ امن و امان میں ہے، بالمقابل ان حکومتوں کے جن میں ان اصول و قوانین کو نظر انداز کر کے نئے اصول اپنائے گئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، اور پھر وہ دور لائے جو امن و امان کا دور کہلائے۔ آمین۔

 

 

 

 

حضورﷺ کا قیام امن کے لئے امکانات فساد کا قلع قمع کرنا

 

جس طرح اللہ کے رسولﷺ نے اپنے اقوال و تعلیمات اور اخلاق و کردار کے ذریعے امن کی تعلیم دی، اسی طرح اس نبی رحمت نے ظلم و شقاوت کی دنیا کو امن وسعادت کا گہوارہ بنانے کے لئے دنیا میں بدامنی و خونریزی کے جواسباب ہوسکتے تھے ایک ایک کر کے ان کو ختم کر دیا۔

۱- شہنشاہیت: دنیا میں فتنہ وفساد کا بڑا سرچشمہ شہنشاہیت رہا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ قصر شاہی کی آبادی و رونق کے لئے رعیت کی جھونپڑیاں ہمیشہ اجڑتی رہی ہیں، پیغمبر اسلام نے سب سے پہلے فتنے کی اس جڑ کو صاف کیا، قرآن میں ہے : ’’ ولا یتخذ بعضنا بعضاً أربابا من دون اللّٰہ‘‘ اور خدا کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا پروردگار قرار نہ دے۔ یہاں تک کہ جب وفدِ بنی عامر نے آپ سے کہا : ’’ أنت سیدنا‘‘ آپ ہمارے سردار ہیں تو آپ نے جواب دیا: ’’ السید اللّٰہ تبارک و تعالیٰ‘‘ سردار تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔

۲- سرمایہ داری یہ بھی امنِ عالم کے لئے بڑا فتنہ رہی ہے، اسلام نے ہر انسان کو وسائلِ معیشت سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا، لیکن کمانے اور خرچ کرنے کے طریقوں اور شکلوں پر ایسی پابندیاں عائد کر دیں جس سے دولت چند افراد کا سرمایہ بن کر نہ رہ جائے، قرآن میں ہے: ’’ کی لا یکون دولۃ بین الأغنیاء منکم‘‘ اسلام نے ذخیرہ اندوزی، سود، قمار(جوا) وغیرہ کو ممنوع قرار دے کر وراثت، زکوٰۃ عشر وغیرہ، تقسیم دولت کی صورتوں کو لازمی قرار دیا۔

۳- وطنیت: یہ بھی ہمیشہ سے ایک ایسا بت رہی ہے، جس پر ہزار ہا انسانوں کے سروں کے چڑھاوے چڑھتے رہے، اس سلسلے میں حضورﷺ نے فرمایا: ’’ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لأحمر علی أسود‘‘ عربی النسل کو عجمی النسل پر اور سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔

۴- مذہبی منافرت : اسلام نے پیغام محمدی کے قبول کرنے والے کے لئے تمام پچھلے پیغمبروں اور ان کے صحیفوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا، اس اقرار کے بغیر کوئی شخص مسلم تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

۵- انتقام در انتقام: یہ چکر بھی ہمیشہ دنیا میں خون کے طوفان برپا کرتا رہا، خود جزیرۃ العرب بعثت محمدی سے پہلے اس طوفان کی موجوں میں گھرا ہو ا تھا، چراگاہوں میں، میلوں میں یا شاعروں کی مجلس میں کسی بات پر جھڑپ ہو جاتی تو سیکڑوں تلواریں نیام سے باہر نکل آتی تھیں، اور پھر برسوں اور صدیوں تک ان کی برق افشانی جاری رہتی تھی، انتقام کے اس مجنونانہ جذبے میں مجرم و غیر مجرم اور حق و ناحق کا کوئی فرق باقی نہ رہتا تھا، اسلام نے سب سے پہلے اس حقیقت کا اعلان کر دیا کہ خدا کی مخلوق کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کا فیصلہ خدا ہی کے مقرر کردہ قانون کے مطابق اس حکومت کے ذریعے ہونا چاہئے، جو اس قانون کے نفاذ کے لئے قائم ہوئی ہے، قرآن میں ہے : ’’ إن الحکم إلا للّٰہ‘‘ حکومت اور فیصلہ کا حق صرف خدا ہی کو حاصل ہے۔ (نقوش رسول نمبر، ج۳، ص:۴۶۴-۴۷۰، مضمون زین العابدین سجاد میرٹھی، بعنوان پیغمبراسلام کا پیغام امن وسلام)

 

 

 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات امن اور دیگر مساعی امن : ایک موازنہ

 

انسان چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو وہ امن وسکون کا طالب ہوتا ہے، یا پھر ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو امن و امان سکون اور شانتی اور سلامتی کے خوگر ہوتے ہیں، اسی بنا پر شروع زمانے سے اللہ تعالیٰ نے بھی ہر زمانے میں اس مقصد کی تکمیل کے لئے انبیاء کو بھیجا، چوں کہ حضورﷺ سے پہلے جو انبیاء آئے، ان کا ایک محدود دائرہ مکان و زمان کے اعتبار سے ہوتا اور ان کی تعلیمات اس دائرے سے خارج نہیں ہوتی، اس لئے مختلف زمانوں میں انسانوں میں سے خود بھی بعض مصلح بن کر ابھرے جیسے حضرت عیسیٰؑ کے دور نبوت کے بعد سکھ مذہب، جین مذہب، بدھ مذہب وغیرہ کا وجود ان میں سے ہر ایک کے بانی کا مقصد اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں امن و امان کو قائم کرنا ہی تھا، لیکن بعد کو ان کے متبعین نے ان تعلیمات کو اپنایا نہیں اور انھیں باتوں میں وہ گرفتار ہو گئے جس سے ان کو روکا گیا تھا، اسی طرح حضورﷺ کے زمانے میں دو نبیوں کی امتیں موجود تھیں ایک حضرت موسیٰ کے ماننے والے یہود تو دوسرے حضرت عیسیٰ کو ماننے والے نصاریٰ۔ لیکن یہ بھی اپنی تعلیمات کو کھو چکے تھے، بجائے امن و امان کے فساد و تخریب کے داعی بن گئے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے کچھ مذاہب کا وجود بر وقت اور بر محل بھی ہوا لیکن اس کو دوام حاصل نہ ہوسکا، اسی طرح حضورﷺ کی آمد کے بعد بھی حضورﷺ کی تعلیمات کو صحیح نہ سمجھنے کی بنا پر مختلف زمانے میں امن وسکون کے حصول کے لئے مختلف کوششیں کی گئیں، کبھی جمہوریت کو ہر مرض کی دوا سمجھا گیا، تو کبھی اشتراکیت کا نعرہ لگایا گیا، لیکن ان میں سے کسی کو دوام نہ حاصل ہوسکا، یہودیوں نے اپنے مذہب میں اتنی سختیاں کر لیں کہ جو انسان برداشت نہ کر سکے، عیسائیت میں امن و امان اور عفو و در گذر پر اتنا زور دیا گیا کہ انصاف و عدل کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا، جین مت و بدھ مت و دیگر مذاہب میں ایک تو مکمل تعلیمات تھی ہی نہیں، اگر تھی بھی تو انسانی فطرت کے مطابق نہ تھی، کیوں کہ وہ ایک انسان کے تجربات کا نتیجہ تھا، جس میں ہر لمحہ غلطی کا امکان ہے، جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو بقول علامہ اقبال: شہنشاہیت کے چہرے پر جمہوریت کی نقاب ڈال دی گئی، ایک مہذب اور ہر طرح سے مکمل دستوری ڈھانچہ ایسا تیار ہوا جس میں مہذب انسان کو فریب اور   دھوکہ بازی کے سوا کچھ نہ ملا، ایک دو یا اس سے زیادہ سر برآوردہ طبقات نے تمام طبقات کے حقوق چھین کر اپنی تجوریاں بھر لیں، پہلے نوابوں اور راجاؤں کا دور دورہ تھا، جمہوری نظام میں وزرائے عالی مقام نے وہ پوزیشن سنبھال لی۔

اشتراکیت کا بھرم بھی کھل گیا، ایک خونی ڈرامہ جو ستر سال تک جمہور کے نام پر جمہور کو جانوروں کی سطح پر رکھنے کا چل رہا تھا، وہ ختم ہوا اور پھر اشتراکیت کی تفسیر ہر ملک میں نئی ہے، ایک اشتراکیت جرمن وطن پرستوں کی تھی، جو نازی حکمرانی کے زیرِ سایہ پلی بڑھی اور تاریخ کی تاریکیوں میں گم ہو گئی، اور یہ بھی معلوم ہو کہ سویت یونین کی اشتراکیت اور نازی اشتراکیت کے درمیان سخت جنگ تھی۔

اس سائنس و ٹکنالوجی کے زمانے میں ایجادات کو امن کا ذریعہ سمجھا گیا، اور امن کی بحالی کے لئے اس کا استعمال کیا گیا، لیکن ہم اپنے گرد و پیش کے حالات سے بے خبر نہیں ہیں، ہمیں بھی وہ ایجادات نظر آتے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان ایجادات نے انسان کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا ہے جس قدر ان سے نقصانات ہوئے ہیں، فیکس انٹرنیٹ و ٹی وی سے صرف خبریں اور کتابیں ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ رذائل کا ایک سیلاب بھی گھر گھر داخل ہو گیا ہے، ہر ملازم پیشہ مقروض ہے، سود کی وبا اس قدر عام ہے کہ کوئی شخص چائے کی ایک پیالی بھی پیتا ہے تو اس میں سود کا تخم موجود ہے۔

اسلام نے زندگی کا پیغام زندگی کے ہر میدان میں دیا ہے، اس کا نظام عقوبت بھی عدل پر قائم ہے، قتل کا بدلہ قتل عادلانہ نظام ہے، کیوں کہ اسی سے قاتلوں کی ہمت شکنی ہوتی ہے، اور دوسروں کو عبرت ہوتی ہے، اس کے برخلاف رومن قانون پر چلنے والی عدالتوں میں ہر جرم کی پرورش ہوتی ہے، کیوں کہ قاتل کو معلوم ہے کہ ضروری نہیں کہ اس کو سزا ملے، سفارش، رشوت اور وکلاء کی مہارت سے ہزاروں قاتل بچ گئے اور سینکڑوں بے گناہ مارے گئے، چور کی سزا اسلام نے جو مقرر کی ہے اس پر ساری دنیا میں واویلا ہے، اسلامی قانون کو جنگل کا قانون بے رحمی اور شقاوت کا عنوان دیا جاتا ہے، سعودی عرب میں جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں وہاں دس پندرہ برس میں کہیں ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے، اور ایک واقعہ کا نتیجہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں اطمینان کی نیند سوتے ہیں، چند سال پہلے تک یہ عالم تھا کہ گھروں میں تالہ لگانے کی ضرورت نہ پڑتی تھی لیکن ادھر چند سال سے امن و امان کی اس مثالی شکل میں فرق آ گیا ہے، لیکن اس کے باوجود جتنی واردات امریکہ میں ایک روز میں ہوتی ہیں، سعودی عرب میں دس سال میں بھی نہیں ہوتیں۔

طلاق کے مسئلہ کو لیجیے یورپ اور افریقہ میں تو ایک عورت کی حیثیت اس گندے اور میلے تولیہ کی ہے جو کسی تھرڈ کلاس کی ریسٹورنٹ میں واش بیسن کے ساتھ لٹکا دیا جاتا ہے ہے، ہر کھانے والا اپنے ہاتھ پونچھتا ہے، اسی طرح سفید چمڑی والے یوروپین اور   سیاہ چمڑے والے افریقین جب چاہتے ہیں ذراسی بات پر طلاق دے کر کورٹ میں رجسٹری کرا لیتے ہیں۔

اسلام جو حقیقت پسند دین ہے اور انسان کے خالق کا بتایا ہوا دین ہے وہ اپنی مخلوق کی نفسیاتی کشائش سے واقف ہے اور انسانی زندگی کی اونچ نیچ کو جانتا ہے اس نے طلاق و خلع کو ایک خاص قانون کے اندر کنٹرول میں رکھا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حضورﷺ کے امن کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے، کہ اس میں دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی مضمر ہے۔

وماتوفیقی إلا باللّٰہ

٭٭٭

مصنف کے شکریے کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید