فہرست مضامین
گالی
اور دوسرے افسانے
راجندر سنگھ بیدی
گالی
چٹھی رساں کچھ نئے تھے اور کچھ پُرانے— لیکن ان سب لوگوں کا بلا لحاظ مذہب و ملّت ایک قبیلہ سا بن چکا تھا۔ان میں رحمت نور اور پرتاپ سنگھ کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔
’’63 الف نہیں آیا؟‘‘ پرتاپ سنگھ نے دن بھر کے کام کے بعد اپنی ’’واپسی‘‘ میز پر بکھیرتے ہوئے کہا۔
خواجہ — کلرک نے نفی میں سر ہلا دیا اور آنکھ کے ایک گوشے سے پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ خواجہ جانتا تھا کہ تریسٹھ الف یعنی رحمت نور اور پرتاپ سنگھ میں جب تک جوتی پیزار نہ ہولے، کسی کو کام کا مزا ہی نہیں آئے گا۔
’’کھا جا — ‘‘ پرتاپ سنگھ نے خواجہ میں رحمت نور کا ایک مہنگا بدل تلاش کرتے ہوئے پکارا۔ خواجہ کو معلوم تھا کہ پرتاپ سنگھ نے جان بوجھ کر اس کے نام کو بگاڑا ہے۔ اس نے ایک بڑی ہوشیار نگاہ سے پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھا اور بولا
’’کیوں بڑی خارش ہو رہی ہے سردار؟‘‘
اچانک پنگ پانگ کی سی بڑی میز کے دوسری طرف رحمت نور اپنی شکاری جالی اور غیرتقسیم شدہ پارسل رکھتا ہوا دکھائی دیا۔ گرمی کی شدّت سے اس کی بُری حالت تھی۔ پسینہ کولھوں کے فراز سے نشیب میں گرتا ہوا خاکی پتلون کے بیچوں بیچ پنڈلیوں پر قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہا تھا۔ اس کے جہلمی تراش کے بال پگڑی کی لپیٹ میں سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ پرتاپ سنگھ نے ’’کھاجا‘‘ سے ٹکّر لینی مناسب بھی نہ سمجھی اور فوراً تریسٹھ الف کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا
’’ابے رحمت نور — دیکھ تیری عقل کے بخیے اُدھڑ رہے ہیں۔‘‘
رحمت نور نے اپنی ذات اور اپنے اردگرد سے باخبر ہوتے ہوئے اپنے بال پگڑی میں دبانے شروع کیے۔ بکھرے ہوئے بالوں کے متعلق عقل کے بخیے کا کنایہ غالباً پرتاپ سنگھ نے— خدا گنجے کو ناخن نہ دے، اگر دے گا تو عقل کے بخیے ادھیڑ دے— کی ضرب المثل سے لیا تھا۔ اس میں رمز یہ بھی تھی کہ رحمت نور چندیا سے چٹیل تھا اور یہی اس کی دُکھتی رگ تھی۔
پرتاپ سنگھ نے اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے کہا ’’اڑھائی بال ہیں سالے کے، اور وہ بھی تو سنبھالے نہیں جاتے‘‘ اور یہ سب کچھ اس طور پر کہا کہ کوئی سُنے یا نہ سُنے، لیکن حق حقدار کو پہنچ جائے۔ ’’کھاجا‘‘ سُن کر مسکرایا تو پرتاپ سنگھ کو اس مسکراہٹ میں تائید اور شہ دکھائی دی۔ پھر پرتاپ سنگھ اپنے لمبے کیسوں (بالوں) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
’’دیکھو واہگورو نے اُدھر کتنی عقل دی ہے، مگر کیا مجال کہ بخیہ اُدھڑا ہوا نظر آئے۔‘‘
خواجہ نے دل ہی دل میں اس خوش مذاقی پر داد دی اور کہا ’’تم نے اپنی عقل کے ناخن اُتروا لیے ہیں، لیکن تریسٹھ الف نے نہیں۔‘‘
رحمت نور نے میدان ہاتھ سے جاتے دیکھا تو بولا
’’خواجہ جی— سُنا ہے اب سکھوں کے بارہ نہیں بجیں گے؟‘‘
ان دنوں حکومت نے جنگی مصلحت کی بنا پر اسٹینڈرڈ ٹائم میں ایک گھنٹہ کا اضافہ کیا تھا اور رحمت نور کا اسی بات کی طرف اشارہ تھا۔ پرتاپ سنگھ نے یہ حربہ اپنے اوپر لے کر اس کی وقعت کو کم کر دیا۔ اپنے آپ پر ہنسنا ایک بہت بڑا فن ہے۔ پرتاپ سنگھ بولا۔
’’بلکہ ایک دن میں دو دفعہ بجا کریں گے۔ ایک دفعہ جب کہ بارہ بجا کرتے تھے اور دوسری بار جب کہ ایک بجے بجا کریں گے۔‘‘
اب تک سب پرتاپ سنگھ اور رحمت نور کی ان باتوں میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ اُن کو دیکھ کر ہیڈ کلرک کے نائب صاحب بھی تشریف لے آئے۔ آپ اُن معدودے چند آدمیوں میں سے تھے جو اندر سے شریف ہوں، لیکن یوں بدمعاش نظر آئیں۔ بڑی بڑی سیندھیا مونچھیں، گھنے ابرو، ناک بھدی اور پچکی ہوئی۔ آپ نے آتے ہوئے اپنی اہمیت جتائی۔ ادھر اُدھر دیکھ کر ضبط و احتساب کا سماں پیدا کرتے ہوئے بولے— ’’ہیڈ کلرک صاحب بہت خفا ہو رہے ہیں۔ شور نہ مچائیے‘‘— اور پھر اُن کے شور میں شریک ہو گئے خود بھی۔طبیعت شاہانہ پائی تھی بلکہ اکبرانہ۔ کیونکہ اس دن باگھ اور ہوائی میں لڑائی اٹھتی دیکھ کر آپ کے کئی جذبات کو آسودگی ہوتی تھی۔ ہیڈ کلرک صاحب تو اپنی سیٹ سے ہلتے ہی نہیں تھے۔ انھیں ہمیشہ مثال قائم کرنے کی پڑی رہتی تھی۔ تقلید کی عیاشی کا حظ نہیں اُٹھایا تھا۔ نئے نئے ڈویژن سے بدل کر آئے تھے۔ نہایت شریف، دُبلے پتلے، حسناتِ متبرکہ کے حامل۔ دفتر میں دو منٹ کی بھی فرصت ہوتی تو آنکھیں بند کر کے اپنے اللہ کو یاد کرنے لگتے۔ مثنوی مولانا روم اور تذکرۃ الاولیاء سے تعلیم شروع ہو کر انہی دو کتابوں پر ختم ہو جاتی تھی۔ خشوع و خضوع کے بڑے قائل تھے۔ ذرا جذبات کو کسی نے چھیڑا تو آنسو ہیں کہ بہے چلے جا رہے ہیں۔ خیر آپ وہیں بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے۔ جب پرتاپ سنگھ نے رحمت نور کا حربہ اپنے اوپر لے لیا،تو رحمت نور نے منی آرڈروں کی رسیدیں اکٹھی کیں اور کانوں کو چھوتے ہوئے بولا
’’چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی۔‘‘
پرتاپ سنگھ تلملایا۔ فارسی اس کے باپ دادا کو نہیں آتی تھی اور رحمت نور منشی آدھی آدھی بات پر گلستاں کے حوالے دے۔ اس نے نہایت بے بسی کے عالم میں چاروں طرف دیکھا، گویا کہہ رہا ہے، یہ ظلم ہے، سراسر ظلم ہے۔ پنجابی بولے پنجابی میں جواب لے، ذرا میدان میں آئے۔ پرتاپ سنگھ ہر غیرملکی زبان کو کالا علم کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ سٹپٹاتے ہوئے بولا ’’یہ کیا کالا علم ہے خواجہ صاحب؟‘‘ اور اب کے خواجہ صاحب کا نام بڑے ادب اور تپاک سے لیا گیا۔ خ علاحدہ اور واؤ معدولہ ۔ اور پرتاپ سنگھ بالکل اس طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا جیسے کوئی ڈوبتا ہوا آدمی مدد کے لیے اپنی وحشت ناک اور پھٹی پھٹی نگاہیں اِدھر اُدھر چاروں طرف ڈالتا ہے۔ خواجہ اور نائب ہیڈ کلرک، جسے ڈاکخانہ کی اصطلاح میں تحصیلدار کہتے تھے، بولے — رحمت نور کہہ رہا ہے— ’’اگر کفر کعبہ سے ہی پیدا ہونے لگے، تو مسلمانی کدھر جائے گی— ؟‘‘
پرتاپ سنگھ نے بدلہ چکاتے ہوئے کہا ’’تو مسلمانی میرے پاس چلی آئے گی۔ اِدھر واہگورو کا دیا بہت کچھ ہے‘‘— اس پر سب خاموش ہو گئے۔
رحمت نور اور پرتاپ سنگھ، کرپا اور عنایت مسیح، یہ سب لوگ ہنستے کھیلتے، چیختے چلاّتے ایک سانس میں دعائے خیر اور دوسرے میں فحش گالی بکتے اپنا اپنا کام کیے جاتے۔ ان کا سینگ فرا، ان کا کورس ایک قومی ترانہ کی طرح پُر جوش اور جمود شکن ہوتا۔ ان کی گالی ہمیشہ مختصر ہوتی،لیکن دعاؤں کے دفتروں سے زیادہ بلیغ اور پھر زود اثر— !
ان چٹھی رسانوں میں سے کچھ شہر کے بسنے والے تھے۔ لیکن اکثر دیہات میں سے آئے تھے۔ سب کے سب سیدھے سادے تھے، اور بڑے احتیاط سے نا تراشیدہ،مگر ان کی تہذیب چیونٹی اور شہد کی مکھی سے بھی زیادہ پُرانی تھی۔ جس فنی مہارت اور پُرکاری سے یہ الفاظ کے گھروندے بناتے، اس کے لیے اب زیادہ تراش خراش کی ضرورت بھی تو نہ رہی تھی۔ یہ بنا جانے بوجھے گالی کے لطیف فن سے واقف تھے اور صدیوں سے اس ادارے کی اہمیت سے آشنا اور اس بڑی سچائی تک پہنچنے کے لیے کہ گالی بعض دفعہ اپنے اظہارِ خیال کا مختصر، جامع اور واحد طریقہ ہے۔ سوچنے کے لیے نہ کسی درمیانی عمل کی ضرورت تھی، نہ تجزیہ اور جواز کی۔
ڈاک خانہ کی جوت کے یہ دو سو بیل اسی طرح ہنس کھیل کر اپنے دبے ہوئے جذبات کو فحاشی سے آسودہ کر کے جب ایک ساتھ اور ایک سمت زور لگاتے تو ڈاک خانے کا یہ چھکڑا چلتا رہتا، لیکن اس واقعہ کے دوسرے روز ان کی گاڑی کی رفتار ناہموار ہو گئی۔
دوسرے دن پھر رحمت نور قدرے دیر سے برانچ میں داخل ہوا، لیکن پرتاپ سنگھ کو دیکھ کر اس کی پیشانی کے تمام شکن استوار ہو گئے۔ پرتاپ سنگھ نے بھی رحمت نور کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ رحمت نور نے قمیص کا تکمہ ڈھیلا کیا اور قمیص کو پنکھا بنا کر ہلاتے ہوئے کہا ’’اُف! کتنی گرمی ہے!— الامان!— الحفیظ!‘‘ لیکن آج پرتاپ سنگھ کی حالت غیر تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے لو‘ لگ گئی ہے۔ رحمت نور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آج خالصہ جی کی بکری بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
پرتاپ سنگھ خاموش رہا۔ رحمت نور بولا ’’ابے جھکّڑ سنگھ!‘‘
پرتاپ سنگھ نے پھر رحمت نور کی طرف دیکھا۔ مسکرایا اور بولا ’’خالصہ جی کی بکری نہیں بکرا ہوتا ہے۔‘‘اور پھر وہ بکرے کی طرح ممیایا۔
سب ہنس دیے اور گویا لوگوں کی دیوالی ہوتی ہے، سردار جی کا دیوالہ۔‘‘ خواجہ نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا ’’جواب مسکت دیا ہے پرتاپ سنگھ نے۔ مان لیا ہم نے اسے۔ آج حالت غیر ہے لیکن پھر بھی — ہاتھی جیتا ایک لاکھ کا اور مرا ہوا سوا لاکھ کا۔‘‘
پرتاپ سنگھ نے فخر سے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ خواجہ نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر رحمت نور کو جھڑکتے ہوئے بولا۔ ’’رحمت نور! بھئی واپسی جلدی دو۔ دیکھو سردار سب کچھ لَوٹا چکا ہے۔‘‘
’’جھک مارتا ہے سردار۔‘‘ رحمت نور نے کہا۔
خواجہ نے اپنے آپ سردار کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ’’بہتّر منی آرڈروں میں سے صرف تین واپس لایا ہے، صرف تین!‘‘
پرتاپ سنگھ نے فاتحانہ انداز سے رحمت نور کی طرف دیکھا اور کہا ’’رحمت نور اور کام!… اب بیچاری رنڈیوں کو بھی کاتنا پڑ گیا ہے۔‘‘
رحمت نور نے خواجہ کی طرف دیکھا، خواجہ مسکرا دیا اور رمز و کنایہ میں گویا اجازت دے دی۔ رحمت نور نے اس سرکاری تائید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تھیلے کو میز سے سرکا دیا۔ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے اور بائیں ہاتھ سے میز پر طبلے کی تھاپ دیتے ہوئے گانے لگا۔
بھائی جی دی کچھ وچ گوہ ڈر گئی
اک کڈھن لگے دو جی ہور ڈر گئی
(سردارجی کے کچہرے (سکھوں کی ایک شرعی پوشش) میں گوہ داخل ہو گئی ہے۔ ایک گوہ کو نکالنے لگتے ہیں، تو دوسری داخل ہو جاتی ہے)
سب کے سب اس زٹل قافیہ پر ہنسنے لگے۔ جنگ کی وجہ سے قیمتوں کی مہنگائی اور مشاہرے کی کئی سماجی دباؤ کی وجہ سے جذبات کا ضبط، سب کچھ ان ہی کلرکوں اور چٹھی رسانوں کے چہرے پر لکیروں کی صورت میں لکھا اور ہوائیوں کی صورت میں چھایا ہوا تھا۔ لیکن افسوس فحاشی اور دشنام طرازی کی وجہ سے انھیں یہ بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا اور وہ ہنسی خوشی اپنا کام کیے جاتے، بلکہ کام باقاعدگی اور تیزی سے ہوتا تھا۔ اس علیک سلیک کے بعد رحمت نور، پرتاپ سنگھ، ان کے ساتھی اور کلرک سب آسودہ خاطر ہو گئے۔ سارے دن کی مشقت کے بعد گویا تازہ دم ہو گئے۔
رحمت نور کا علاقہ— حلقہ جسے دفتری زبان میں تریسٹھ الف کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا، بہت گندہ علاقہ تھا۔ یہ شہر کی نئی آبادی تھی۔ آج اگر سفید زمین ہوتی تو کل وہاں ایک خاصا محل کھڑا ہوتا— کہاں کی اینٹ، کہاں کا روڑا، بھان متی نے کُنبہ جوڑا— کوئی ملتانی میں ’’روٹی میکو ڈھے‘‘ کہتا تو کوئی ’’کڈھائی و سنجنی‘‘کوئی پوٹھو ہار کی تہذیب کا باشندہ ہوتا، تو کوئی کشمیری ککے زئی، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ، نتیجہ موسیقی نہیں، ایک بے ہنگم سا شور، نیم بورژوا سے لوگ جو محض اس بات پر خوش رہتے، کہ انھیں کسی کی پروا نہیں ہے، جو کسی کے مکان سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس کا پتہ بتانے میں اپنی سُبکی سمجھتے۔ ایسے علاقے میں ڈاک تقسیم کرنا رحمت نور کا ہی کام تھا، اور پرتاب سنگھ کا علاقہ اس سے بھی بڑا تھا۔ صاف تھا، سُتھرا تھا، لیکن ریلوے کالونی کے ہر باشندے نے ایک کُتّا رکھا ہوا تھا جو ہر روز بلا ناغہ پرتاپ سنگھ کی گردن دبوچتا۔ دونوں نے اس کا حل نکالا ہوا تھا۔ رحمت نور نے علاقے کی عورتوں میں ہر دلعزیزی حاصل کر لی تھی اور پرتاپ سنگھ کتّوں سے بچنے کے لیے ایک آنہ روز کے چھیچھڑے خرید لیتا اور جب کوئی کتّا کاٹنے آتا تو پچکار کر چھیچھڑوں کی رشوت دے دیتا۔ اس کے باوجود گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں ان کی جان نکل جاتی۔ کہیں بخشش مل جاتی تو ایک آدھ گلاس سکنجبین کا پیا جاتا، نہیں تو ٹھنڈا پانی اور گھر کی رانی—
دھوپ کی شدّت سے آج پرتاپ سنگھ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ اس کی مسلسل خاموشی کے باوجود رحمت نور نے اسے دبوچے رکھا اور پوچھنے لگا۔’’آج دیر سے کیوں آئے ہو پرتاپ سنگھ؟‘‘
’’تمھاری ماں کے ساتھ سو رہا تھا‘‘ پرتاپ سنگھ نے ایک غصیلے کتّے کی طرح باچھیں اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ رحمت نور ناراض نہیں، خوش ہوا کہ وہ پرتاپ سنگھ کو چڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ اچانک بائیں طرف سے ایک بادل کی گرج سنائی دی۔ یہ بادل نہیں تھا، رشید الدین ہیڈ کلرک صاحب تھے۔ لبوں کے کنارے کف کی ایک کافوری تحریر سی دکھائی دے رہی تھی۔ آنکھوں کے ڈبل کنکھیوں کے پیچھے سے چندھی سی آنکھیں یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے دو چھوٹے چھوٹے پائپوں میں سے چنگاریاں نکل رہی ہوں۔ بولے ’’یہ دفتر ہے یا فحاشی کا اڈّہ؟ میں یہاں کسی کو گالیاں نہیں بکنے دوں گا۔‘‘
’’بات یہ ہے جناب‘‘ پرتاپ سنگھ نے جوابِ دعویٰ کے انداز میں کہا ’’میں … میں…‘‘
’’میں میں کا بچہ— خبردار جو آئندہ ایسا ویسا لفظ نکالا تو…،،
’’میری بات…‘‘
’’میں کوئی بات وات سُننا نہیں چاہتا۔ سمجھے— میں پوسٹ ماسٹر کے سامنے اس امر کی شکایت کروں گا۔‘‘
سب خاموش ہو گئے۔ رپٹ پوسٹ ماسٹر صاحب کے حضور میں پیش کی گئی۔ پرتاپ سنگھ اور رحمت نور پر چارج شیٹ لگا۔ لیکن معاملہ تنبیہ سے آگے نہ بڑھا۔ بڑی خیر ہوئی۔ ایک باقاعدہ آفس آرڈر نکالا گیا جس میں اخلاقیات کے متعلق ایک فحش ابتدائیہ تھا اور اس کے بعد ایک غیر مرکب حکم تھا ۔’’جو کوئی چٹھی رساںمنی آرڈروں، چٹھیوں، بیرنگوں، پارسلوں، رجسٹریوں کی واپسی دیتے ہوئے فحش کلامی کرے گا، اسے فوراً معطل کر دیا جائے گا‘‘ اور ایمرجنسی پر قابو پانے کے لیے ہیڈ کلرک کے اختیارات بھی وسیع کر دیے گئے۔
اب دفتر ایک اچھا خاصا قبرستان بن گیا تھا۔ کان مقابل کی خاموشی کو پاکر سارا دن سائیں سائیں کرتے رہتے اور ہیڈ کلرک رشیدالدین آنکھیں بند کر کے رُوحانی منازل طے کرتا اور اپنے نفس کی بانگِ درا سُن کر حظ اٹھا تا۔ اس کی روح کا جو وقار تکلم سے ضائع ہوتا تھا، اب محفوظ تھا۔
رحمت نور ایک روز معمول سے زیادہ دیر میں آیا۔ اس کے چہرے کی لکیریں زیادہ گہری تھیں۔ آتے ہی اس نے اپنی تھیلی نیچے رکھ دی اور پنگ پانگ والی میز کے کنارے بیٹھ گیا اور واپسی کے کاغذ اور چیزیں بکھیر لیں—
رحمت نور نے دونوں ہاتھ باندھ دیے اور منّت کے لہجہ میں بولا
’’خواجہ جی! اللہ رسول کے لیے مجھے تریسٹھ الف سے نکالیے۔ میں مر جاؤں گا۔‘‘
خواجہ نے روکھے پھیکے انداز میں کہا ’’یہ تم لوگوں کا بہانہ ہے، میں تمھاری شکایت کروں گا۔ کیا اس سے پہلے تم نے اس حلقے میں کام نہیں کیا— ؟‘‘
’’خواجہ جی‘‘ رحمت نے اسی طرح منّت سے کہا ’’اب اس رقبہ میں آبادی دوگنی ہو گئی ہے، شاید یہ آپ نہیں جانتے۔ اور اگر میرے کہنے پر آپ کو یقین نہیں ہے تو ٹاؤن انسپکٹر صاحب کو کہیے کہ وہ چل کر دیکھ لیں— ‘‘
اور پھر رازدارانہ لہجے میں بولا
’’آپ جانتے ہیں اوورسیئر بھی اپنے دفتر کے کیس کرنے کے لیے مجھے دیتا ہے اور خالد صاحب ٹاؤن انسپکٹر صاحب بھی۔‘‘
اور پھر رحمت نور سفید خاکی دیوار کی طرف دیکھنے لگا، جہاں ایک کیلنڈر کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن رحمت نور کو اس دیوار پر جانے کیا کچھ دکھائی دے رہا تھا، وہ کچھ دیر چُپ رہا، پھر بولا
’’خواجہ صاحب میری سفارش کیجیے۔ میرے چھوٹے چھوٹے بال بچّے ہیں۔‘‘
اور رحمت نور منی آرڈروں کی رسیدیں پکڑ کر پھر دیوار کی طرف دیکھنے لگا۔ پرتاپ سنگھ آیا۔ اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور آتے ہی رحمتِ نور سے کچھ دور ہٹ کر بولا۔
’’چودھری صاحب سلام۔‘‘
چودھری صاحب نے لمبا سا مُنھ بناتے ہوئے کہا
’’وعلیکم السلام۔ کہیے مزاج تو اچھے ہیں‘‘؟
’’رحمت نور اور پرتاپ سنگھ اس رسمی گفتگو سے اتنے مایوس نہیں ہوئے، جتنے خواجہ صاحب۔ وہ ہکّا بکّا ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک لمحہ کے لیے انھوں نے پن ہولڈر اپنے دانتوں میں دبایا، اور پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایک لمحہ کے لیے انھوں نے پن ہولڈر اپنے دانتوں میں دبایا، اور پرتاپ سنگھ کی طرف دیکھے بغیر بولے۔
’’پرتاپ سنگھ واپسی دے دو۔‘‘
پرتاپ سنگھ نے خواجہ صاحب کی طرف نہ دیکھا اور جلدی جلدی اپنے تھیلے میں سے منی آرڈر نکالنے لگا۔ ہیڈ کلرک صاحب نہ جانے کیوں ہانپتے سے اُٹھ کھڑے ہوئے، اور دونوں ہاتھ بغل میں دے کر کمرے کے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے اور منھ میں بڑبڑانے لگے۔
’’آج بہت دیر ہو گئی ہے— بہت دیر— ‘‘
خواجہ صاحب نے تائید کرتے ہوئے کہا ’’جی ہاں— ہیڈ کلرک صاحب— پتہ نہیں کیا بات ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دن چھوٹے ہو گئے ہیں۔‘‘
پرتاپ سنگھ نے منی آرڈر میز پر بکھیر دیے۔ خواجہ صاحب نے ایک نظر منی آرڈروں کی طرف دیکھا اور پھر قلم کو منھ میں رکھ لیا— رشیدالدین صاحب نے رسیدوں کی طرف دیکھا اور بولے— ’’پرتاپ سنگھ اتنی واپسی کیوں لائے ہو؟‘‘
پرتاپ سنگھ نے ہکلاتے ہوئے کہا۔’’سرکار، یا بندے دوہری تہری کوشش کے باوجود نہیں ملتے۔ نہ جانے لوگ کدھر چلے گئے ہیں؟‘‘
ہیڈکلرک نے سراجی کبوتر کی طرح گردن پھُلاتے ہوئے کہا۔
’’ہوں— ‘‘
رشیدالدین اپنی میز کی طرف جا رہے تھے، لیکن نہ جانے انھیں کیا خیال آیا، یکلخت پلٹ پڑے اور خواجہ صاحب سے خطاب کرتے ہوئے بولے’ ’خواجہ یار! ان کی کوتاہیوں کو ایرر بک میں نوٹ کر دینا۔ خواجہ اپنی کرسی سے اٹھا اور میاں صاحب تک پہنچتے ہوئے بولا— ’’میاں جی جھاڑ جھپٹ سے کام چل جاتا ہے تو کیا ضرورت ہے دفتری کارروائی کی؟ ریکارڈ خراب ہو جائے گا بے چاروں کا۔‘‘
ہیڈ کلرک نے کڑی نگاہوں سے خواجہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ سب شرارت ہو رہی ہے۔‘‘
٭٭٭
ایک عورت
ٹاؤن ہال کے سامنے نسیم باغ کے اندر دو تین چیزیں ہی میری توجہّ کا مرکز تھیں۔ایک لمبا سا سُنبل کا درخت جو بھیگی ہوئی سبز چھال کا ایک خوبصورت کوٹ پہنے تھا اور جو ہَوا میں دور دیہڑھ رام دھن کے قدرتی نشیب سے ایک شرابی کی طرح جھومتا نظر آتا تھا۔ ایک کھلندڑا احمق سا طالب علم، جو اپنی کتابوں کو دور پھینک کر ہمیشہ ایک ہی انگریزی گانا گیا کرتا تھا، جس کا مطلب ہے— جب سردی آتی ہے تو بہار دور نہیں رہتی۔
ان دونوں کے علاوہ بیس بائیس برس کی ایک عورت دکھائی دیا کرتی، جو اپنے لقوہ زدہ بچّہ کے رال سے آلودہ چہرے کو چومتے ہوئے دیوانی ہو جاتی۔ وہ عموماً ایک ہی طرح کی سفید ویل کی سادہ ساڑھی پہنا کرتی، اور اس کے تیوروں کے درمیان کہیں لکھا تھا— پرے ہٹ جاؤ۔
پہلے پہل جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ وہ بھوکی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی اس نے کچھ مالٹے خریدے اور اپنے بچّے کے سامنے بکھیر دیے۔ اگر وہ بھوکی ہوتی تو ضرور ان مالٹوں میں سے ایک آدھ مالٹا کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھا لیتی۔پھر میں نے سوچا کہ شاید وہ جنسی بھوک کی شکار ہے لیکن اگر میرا یہ خیال درست ہوتا تو اس کے ماتھے پر وہ تیور نہ ہوتے اور وہ نوّے فیصدی عورتوں کی طرح اپنے لیے بھی کوئی شوخ رنگ منتخب کرتی۔
لقوہ زدہ ہونے کے باعث اس کا بچّہ بدصورت تھا اور اس کا چہرہ ہمیشہ رال سے آلودہ ہوتا تھا۔ اس کی ماں بیسیوں دفعہ رُومال سے اس کا منھ اور ٹھوڑی صاف کرتی، لیکن بچّہ ایک احتجاج سے اِدھر اُدھر سر ہلانے لگتا اور صاف کیے جانے کے فوراً بعد ہی لعاب کے بُلبُلے اُڑانے لگتا، جو ہَوا سے بکھرتے ہوئے اس کی ماں اور اس کے اپنے چہرے پر آ کر گرتے اور ایک عجیب نفرت انگیز کیفیت پیدا ہو جاتی۔ اس کے بعد وہ ایک بے معنی احمقانہ ہنسی ہنسنے لگتا، اور وہ عورت خوشی سے رونے لگتی۔
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایک سیاہ موٹر، جو ہر روز نسیم باغ کے دروازے پر آ کر کھڑا ہوتا ہے اور جس کا ڈرائیور بڑی بدتمیزی سے ہارن کو زور زور سے بجاتا ہے، اسی عورت کو لینے آتا ہے۔ اس کار میں سے ایک لمبا چوڑا مرد ایک چوڑی دار پاجامہ، جس کا ازار بند ململ کی قمیص کے نیچے سے جھانکا کرتا، پہنے آتا۔ اس کی گرگابی کا پینٹ چمڑا بہت چمکتا تھا۔ اس کا منھ پان کی پیک سے بھرا ہوا ہوتا۔ زیادہ قریب ہونے سے اس کی سُرخ آنکھوں اور اس کے سانس کے تعفّن سے اس کے شرابی ہونے کا پتہ چلتا۔ شاید وہی آدمی اس بچّے کے لقوہ زدہ ہونے کا باعث تھا۔ وہ اس عورت کے قریب آ کر اسے بہت گرسنہ نگاہوں سے دیکھا کرتا اور اسے بازو سے پکڑ کر موٹر کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا۔ ان حرکتوں سے وہ اس عورت کا خاوند تو دکھائی دیتا تھا، مگر اس بچّے کا باپ نہیں۔
اپنے خاوند کے بلانے پر بھی وہ عورت اپنے مخصوص دیوانے پن سے اس بچّے کے ساتھ کھیلتی جاتی اور اس کا خاوند بسا اوقات ایک ٹھنٹھ پر بیٹھ کر ٹانگیں پھیلائے اپنی بیوی کی مجنونانہ حرکتوں کو دیکھتا۔ کچھ عرصہ بعد بیوی ان ہی دور باش نگاہوں سے اپنے خاوند کی طرف دیکھتی اور بچے کے چھوٹے موٹے کپڑے، مالٹے، سیلولائڈ کے کھلونے سمیٹنے لگتی۔ اُدھر ہارن کی آواز بلند ہوتی جاتی، ادھر عورت اپنے کام میں تیزی سے منہمک ہو جاتی۔
مجھے اس عورت سے ایک قسم کا اُنس ہو گیا تھا۔ ایک قسم کی دلچسپی، جس کی بنا پر میں اس کی حرکت میں معانی تلاش کر لیتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ عورت واقعی خوبصورت تھی یا نہیں، لیکن میرے تخیل نے اسے بے حد حسین بنا لیا تھا۔ اس کا بالوں کو سنوارنے کا انداز مجھے بہت پسند تھا۔ وہ جھٹکے سے اپنے بے ترتیب بالوں کو پیچھے کی طرف پھینک دیتی اور اپنی انگلیاں پھیلا کر شانہ کی طرف ان میں داخل کرتی ہوئی اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف لے جاتی اور میرے لیے یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ اس کی حرکتیں ارادی ہیں یا غیر ارادی۔
مجھے اس کے خاوند کی طرح اس کے بچّے اور اس کے لعاب آلودہ چہرے سے بے حد نفرت تھی۔ البتہ بچّے کی بے چارگی پر رحم بہت آتا، جو میرے دل میں محبت کے جذبہ کو اُکسا دیتا، لیکن اس قسم کی محبت جس کی تہ میں ہزاروں نفرتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوں ۔اس سے تو محبت نہ کرنا ہی اچھا ہے۔
بہت دنوں تک میں کسی ایسے موقع کا منتظر رہا جب میں اس عورت سے ہم کلام ہو سکوں، جیسا بازاری محبت میں ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کی کوئی چیز گر جاتی ہے اور کوئی لڑکا اُسے اُٹھا کر صاف کرتے ہوئے کہتا ہے
’’محترمہ — آپ کا رومال یا آپ کی کتاب!‘‘
پھر وہ لڑکی مسکرا کر شکریہ ادا کرتی ہے اور بس محبت شروع ہو جاتی ہے۔ میں بہت دنوں تک دیکھتا رہا کہ اس عورت کی کوئی چیز گرے اور میں کہوں ——
’’محترمہ — آپ کی … آپ کی … آپ کی …‘‘
اور پھر محبت شروع ہو جائے۔ مگر وہ عورت بہت محتاط تھی اور اس نے مجھے کوئی ایسا موقع نہ دیا۔ اکثر وہ مجھے ارد گرد منڈلاتے ہوئے دیکھتی، لیکن میں اس کو متوجہ نہ کرسکا۔
آخر اُسے ایک دن مالٹے خریدنے کی ضرورت پیش آ گئی۔ اس وقت بچّے کی جرابیں، ربڑ کی گڑیاں اور کھانے کی چند چیزیں، جن کے آس پاس کوّے منڈلا رہے تھے، پڑی تھیں۔ اگر وہ بچے اور ان چیزوں کو چھوڑ کر جاتی تو یقینا کوّے ان چیزوں کو کھا جاتے اور شاید بچّے کی چمکتی ہوئی آنکھوں کو ٹھونگ بھی لیتے۔ بچّے میں پہچاننے کی صلاحیت پیدا ہو رہی تھی اور وہ مالٹوں کا سُرخ رنگ پسند کرتا تھا۔ اس عورت نے کئی مرتبہ اٹھنا چاہا لیکن ان سب باتوں کی وجہ سے وہ اٹھ نہ سکی۔ میں نے موقع پاکر اسے کچھ کہنا چاہا لیکن چند دنوں سے اسے مخاطب کرنے کے لیے جو الفاظ میں نے حفظ کر رکھے تھے، بھول گئے اور میں فقط یہی کہہ سکا۔
’’محترمہ! … آپ کیا چاہتی ہیں —؟‘‘
اور اس عورت کے تیور بدستور قائم رہے، تاکہ اسے میری آنکھوں میں وہی کچھ دکھائی نہ دے جو اسے اپنے خاوند کی آنکھوں میں دکھائی دیتا تھا۔ اس نے پھر اسی نفرت سے بھری ہوئی آواز میں کہا
’’جی نہیں، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں۔‘‘
— اور میری محبت مقفل پڑی رہی۔
اس عورت کا خاوند مویشیوں کے ہسپتال میں معلّم تھا۔ کم از کم اس کی شکل اور باتوں سے تو یہی پتہ چلتا تھا۔ ہر وقت حیوانوں کے ساتھ رہنے سے اس میں ایک خاص قسم کی حیوانیت پیدا ہو چکی تھی۔ اُسے اپنے لقوہ زدہ بچّے پر کبھی پیار نہیں آتا تھا اور جب اس کی بیوی بچّے کو اس کے بازوؤں میں دھکیلنے کی کوشش کرتی تو وہ گھبراتا ہوا پیچھے ہٹ جاتا … ہے ہے! میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ میرے،میرے …
اور پھر وہ ان ہی گرسنہ نگاہوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتا ہوا کہتا’’ چلو میری جان، شوفر اب بہت شور مچا رہا ہے۔‘‘
اس عورت کا نام دمو تھا۔ خاوند اور بیوی کی باہم گفتگو سے مجھے اس کے نام کا پتہ چل گیا تھا۔ دمو کتنا خوبصورت نام ہے۔ آہستہ سے پکارا جائے تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ اور جب دمو ناراض ہو جائے تو یہ نام لے کر اُسے پچکارنے میں کتنا لطف ہے … یا شاید یہ سب کچھ مجھے ہی محسوس ہوتا تھا —
ایک دن اس کا خاوند کہہ رہا تھا —
’’ہمارے اسپتال میں یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’تو ہوا کرے‘‘ دمو نفرت سے بولی ’’وہ کوئی انسان تھوڑے ہی ہیں ——‘‘
’’وہ بہتر انسان ہیں— ‘‘ خاوند نتھنے پھُلاتے ہوئے بولا — ’’کیا تمھارا خیال ہے کہ ایک گھوڑے کو لنگڑا ہو جانے پر مارنا نہیں چاہیے۔ کیا یہ اچھا ہے کہ اس کا مالک اس سے برابر کام لیتا ہوا اُسے ہر روز چابکوں سے زخمی کرتا رہے؟‘‘
دمو نے بدستور نفرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تو کیا اُسے کھُلا نہیں چھوڑسکتے؟‘‘
دموں کا خاوند اپنے بیٹے کی طرح احمقانہ ہنسی ہنسنے لگا اور بولا۔
’’اس طرح کوئی اسے کھانے کے لیے کچھ نہ دے گا اور وہ بھوکوں مر جائے گا۔ اب یہ فیصلہ تمھارے ہاتھ رہا کہ اس کے ایک دفعہ گولی مار کر اذیت دینا بھلا ہے، یا اس کا روز روز کا مرنا۔‘‘
دمو لاجواب ہو گئی۔ اس سے لعاب سے بھرے ہوئے اپنے بچے کی طرف دیکھا اور پھر اسے ایک گہرے مادرانہ جذبہ سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچ لیا اور بچّہ خوخو کرتا ہوا خلاء میں ہاتھ پانو ہلانے لگا۔ دمو نے اسے اتنا پیار کیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں ان سب باتوں سے ڈاکٹر کے خوفناک ارادوں سے مطلع ہو چکا تھا۔ ایک ڈاکٹر کے لیے یہ بات کون سی مشکل ہے۔ وہ دو تین دن تک سب کو کہتا پھرے گا — بچّہ بیمار ہے — اور پھر ایک دن چپکے سے اسے سُلا دے گا— اس وقت بچّہ گھناؤنے انداز میں خو خو کرنے لگا اور اپنے ہاتھ پانو موت و حیات کی کش مکش میں اِدھر اُدھر ہلائے گا۔اس کی ماں جہاں کہیں بھی بیٹھی ہو گی، اُسے اپنے بچّے کی تکلیف کا احساس ہو جائے گا۔ وہ یقینا اپنے وحشی ہوس راں شرابی خاوند کے اس جرم کو برداشت نہ کرسکے گی۔
اگلے دن میں بینک سے واپسی پرحسبِ معمول سُنبل کے سائے میں پہنچ گیا۔ وہاں وہی طالب علم اپنے مخصوص کھلنڈرے انداز میں دو گیندوں کو بیک وقت اچھال کر پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کی کتابیں ہمیشہ کی طرح بند، قریب کے درخت کے سائے میں پڑی تھیں۔ دمو اپنے بچّے کو لیے موجود تھی اور اپنے بچے کے ساتھ اس کے پیار کی ہر لپٹ سے ظاہر ہوتا تھا کہ گذشتہ دن کی تمام باتیں اس کے ذہن میں محفوظ ہیں اور وہ محبت کی ہر کروٹ کے ساتھ اپنے بچّے کو زندہ کر لیتی ہے۔
اس وقت وہ بچّہ رینگتا ہوا گاڑی سے کچھ دور سُنبل کے نیچے آ گیا تھا اور سُنبل کے پھیکے بے مزہ پھل کو اپنے دانتوں سے پپول رہا تھا اور اس کی ماں بچّے کو زندگی میں پہلی دفعہ چند قدم رینگتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔ میں اس وقت صنوبر کے سائے سے نکلا اور مارکیٹ سے چند قیمتی سُرخ مالٹے خرید کر نسیم باغ کو لوٹ آیا۔ وہ بچّہ ابھی تک سرخ پھل کو پپول رہا تھا۔ میں نے مالٹے اس کی طرف بڑھا دیے اور بچّہ رینگتا ہوا میری طرف آنے لگا۔ آخر اس نے ایک مالٹا ہاتھ میں تھام لیا، اور میرے ہاتھ سے دوسرا مالٹا لینے کے لیے میری طرف بڑھنے لگا۔ دمو میری طرف متوجہ ہوئی —مجھے اس کے چہرے سے اس کے جذبات کا پتہ چل رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی، شاید اس کا بچّہ جسے کل ہی اس کا وحشی شوہر محض اس بناء پر مار ڈالنا چاہتا تھا کہ وہ ان کی محبت کے راستے میں خلل انداز تھا۔ کسی آسمانی برکت کے نزول سے چلنے لگے۔ اس کے چہرے پر امید و بیم کے تاثرات دکھائی دینے لگے۔
اگلے دن میں نے بازار سے چند ایک رنگ دار غبارے خریدے اور انھیں دھاگے سے باندھ کر بچّے کے پاس رکھ دیا اور جب وہ نزدیک آ کر انھیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگا تو میں نے دھاگا کھینچنا شروع کر دیا اور غبارے میری طرف سرکنا شروع ہو گئے اور بچہ آہستہ آہستہ رینگتا رینگتا ان غباروں کی طرف بڑھنے لگا۔
دمو نے قریب آتے ہوئے کہا
’’دھاگہ کو ذرا آہستہ آہستہ کھینچیے۔‘‘
میں نے دھاگہ کو آہستہ کھینچتے ہوئے کہا — ’’نہیں تو … اسے ذرا تیز چلنے کی مشق کرنی چاہیے۔‘‘
اس کے بعد وہ خاموش ہو گئی اور اپنی پرانی جگہ، جہاں کہ وہ ہر روز بیٹھا کرتی تھی، واپس چلی گئی۔ پھر آئی اور پھر چلی گئی۔ لیکن یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ وہاں بیٹھ نہیں سکتی۔ کچھ دیر بعد بچے کا لعاب آلودہ فراک بدلنے کی غرض سے وہ پھر چلی آئی اور میں نے کہا۔
’’محترمہ!— کون جانے اس کا لقوہ بھی اچھا ہو جائے۔‘‘
دمو کا چہرہ چمک اُٹھا۔
کئی روز ایسا ہی ہوتا رہا۔ میں ہر زور بینک سے لوٹتے ہوئے اس بچّے کے لیے کچھ نہ کچھ لے جاتا۔ آخر ایک دن میں نے بہت دیر تک بچّہ کو گود میں اُٹھائے رکھا۔ میں نے اپنی جیب سے رُومال نکال اور اس کا لعاب سے بھرا ہوا منھ پونچھا۔ اس کے بعد میں نے بچّہ کا منھ چوم لیا۔
دمو کا چہرہ حیا سے سُرخ ہو گیا۔ تھوڑے سے گومگو کے بعد وہ میرے قریب آ گئی اور مسکرانے لگی۔
اس وقت سنبل کا درخت تیز ہَوا کی وجہ سے زور زور سے ہل رہا تھا اور وہ کھلنڈرا طالب علم سرد ہَوا کے جھونکوں سے متاثر ہو کر وہی گیٹ گنگنانے لگا۔
جب سردی آتی ہے تو بہار دور نہیں رہ جاتی۔
اس وقت لقوہ زدہ بچّہ میری گود سے اتر کر ہمارے پاؤں میں رینگنے لگا۔ اور ہم دونوں جانتے تھے کہ اس کا لقوہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭
خطِ مستقیم اور قوسین
پے در پے مقابلے کے چھ امتحانوں میں ناکام سعادت، ٹیلر ماسٹر کی دُکان پر کھڑا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اچھے کپڑوں کے ذریعے سے کمیشن کے ممبروں پر رعب ڈالنا ضروری ہے اور اسی لیے اس نے اپنا سوٹ باسط کے ہاں سلوایا تھا۔ اس نے دکان پر کھڑے ہو کر زولوٹاپ میں لکھے ہوئے بورڈ کی طرف دیکھا— ’’باسط لندن ڈپلومیڈکٹر…‘‘
دکان میں داخل ہوتے ہوئے اس نے دائیں اور بائیں جھانکا۔ اس کے دل کے کسی کونے میں خواہش تھی کہ اس کی جان پہچان والا کوئی شخص اُسے باسط کی دکان میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لے۔ باسط کٹنگ کے لحاظ سے بڑا استاد تھا۔ کٹنگ کی انگریزی فرم کے علاوہ کوئی اس کا لگا نہ کھاتا تھا اور شہر کے سب درزی اس کے نام کا کلمہ پڑھتے تھے۔ لیکن اس وقت بازار میں دفتر جانے والوں کے سوا اور کوئی دکھائی نہ دیتا تھا اور وہ دفتر جانے والے، انٹرویو کی حد سے گزر چکے تھے۔ وہ اس وقت باسط یا ماجد کی دکان پر کیوں آتے؟
لیکن اب انٹرویو،سعادت کے لیے ایک عام چیز ہو چکے تھے، اگرچہ اچھے سوٹ کا خیال اس بات کو جھٹلاتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک اور صرف ایک بار وہ اچھی ’’فال‘‘ پتلون اور گردن پر جم کر آنے والے کوٹ پہن کر کمیشن کے سامنے چلا جائے۔ اس کے بعد چاہے وہ لیا جائے یا نہ لیا جائے، اس میں اس کا کوئی قصور نہ ہو گا۔ وہ اپنے سر سے ایک خوبصورتی کے ساتھ ایک الزام ہٹانا چاہتا تھا… دکان پر جاتے ہوئے اس نے باسط کی طرف دیکھا، جس کے چہرے پر تموّل کے آثار نظر آتے تھے۔ سعادت کو دیکھتے ہی باسط ایک لمحہ کے لیے ٹھٹکا۔
’’اوہ — آئیے — آ … پ ر ک کیوں گئے؟‘‘
’’یوں ہی‘‘سعادت نے لاپروائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’کہیے میرا کام ہوا یا نہیں؟‘‘
’’جی ہاں — اتنے تنگ وقت کے باوجود …‘‘
’’تو لائیے دیجیے … مجھے کہیں پہنچنا ہے۔‘‘
ماسٹر باسط نے معذرت کے انداز میں کہا ’’صرف بٹن ٹانکنے باقی ہیں آغا صاحب۔‘‘
’’اوہو‘‘ سعادت نے بیزار ہوتے ہوئے کہا — ’’درزیوں کی یہ عادت نہ گئی — کہ بس صاحب ایک سیکنڈ کا کام ہے۔ بس آدھے سیکنڈ کا، اور وہ سیکنڈ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جاتا ہے۔ درزی خواہ لندن سے کام سیکھ آئے یا ٹورنٹو سے، یہ آدھ سکینڈ …‘‘
باسط نے بات کاٹتے ہوئے کہا ’’گستاخی معاف آغا صاحب، آپ جانتے ہیں کہ سوٹ کا کپڑا ہمیں وقت پر دیا تھا — لیکن استر کے لیے اٹیلین آپ دو دن کے بعد دینے آئے تھے اور وہ بھی دو اڑھائی بجے کے قریب ۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ تیسرا دن بھی آپ کے ذمہ پڑا …‘‘
’’اچھا، اچھا ‘‘… سعادت نے خاموش ہوتے ہوئے کہا ’’اب آپ باتوں میں زیادہ وقت نہ لگائیے … اور کاریگر کو کہیے کہ وہ بٹن جلد ٹانک دے۔‘‘
باسط نے ایک کی جگہ دو کاریگروں کو سعادت کا سوٹ دے دیا اور کہا ’’صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔ یہ کام پلک جھپکتے میں تیار ہو جائے‘‘ اور اس کے بعد ماسٹر باسط نے بڑے احترام سے آغا سعادت کو دکان کے اندر بٹھا دیا۔ خدا جانے اس جگہ پر بٹھانے کے لیے باسط کی طرف سے اہتمام ہوا تھا یا نہیں، لیکن یہ بات درست تھی کہ وہاں سے دُکان کا کونہ کونہ نظر آتا تھا۔ اور تمام وہ تصویریں جن میں اچھے سے اچھے سوٹوں میں ملبوس اکثر نوجوان انگریز کسی خوبصورت بلانڈ یا برونیٹ کے ساتھ ہوا خوری کے لیے جا رہے تھے، نظر آ رہی تھیں۔سامنے چار خانے کی ہٹنگ کوٹ میں گھوڑے پر، یا پلس فور میں گولف کی چھڑی کو کندھوں سے اوپر اٹھائے کوئی صاحب دکھائی دیتے تھے۔ ایک بڑی سی تصویر میں کارنروں کی ڈائنا اپنے کتّے کو تھامے کھڑی نظر آتی تھی، اور اس کا گون ہوا میں اڑا جا رہا تھا۔ ڈائنا کا جسم لباس میں ہونے کے باوجود لباس سے علاحدہ نظر آتا تھا۔ اس کی پوشاک میں بہ ظاہر درزی کی قدرت سے زیادہ خدا کی قدرت نظر آتی تھی۔ لیکن چونکہ ہر فن کار کا مقصد خالق کی قدرت کو سامنے کرنا اور آپ خالق کے انداز میں چھپ جانا ہے، اس لیے کسی ہوشیار کاریگر نے احتیاط کے ساتھ ایک بے احتیاطی سی پیدا کر دی تھی، ورنہ اگر وہ تصویر صرف خدا کی ہوتی تو باسط — لندن ڈپلومیڈکٹر… کی بجائے شہر کے کسی ک لال خانے میں ہوتی۔
اور یہ ڈائنا کی تصویر پر ہی موقوف نہیں تھا، جہاں سعادت بیٹھا تھا وہاں سے شیشوں کے اندر قد آدم مجسمے نظر آتے تھے، جو اتنے سرخ سپید اور چپ تھے کہ ان سے ڈر لگتا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ چپ تھے، اگرچہ بولتے تھے، تمام کے تمام مختلف شیڈ کی لیڈی ہملٹین پہنے اپنے سراپا کو دیکھ رہے تھے اور ان کے قریب ان بے آوازوں کی آواز، ماسٹر باسط فیتے کو بے پروائی سے گلے میں ڈالے، ڈائنا اور لیڈی ہملیٹن سے بے خبر اپنا حساب کتاب کر رہا تھا۔
ابھی دن شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ بل بھی وصول ہونے لگے۔ دو تین آدمی تو اس خاموشی کے ساتھ ہاتھ میں پیسے تھما گئے کہ وہاں چور بازار ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ اگرچہ وہاں ایسا بازار ہونے کی گنجائش نہ تھی، صرف سینے سلانے کا کام تھا۔ شاید اچھی دکان کی نشانی یہی تھی کہ اس کے چور بازار ہونے کا پتہ چلے۔ سعادت کے دیکھتے دیکھتے ماسٹر باسط نے دو اڑھائی سو روپے اپنے رومال ٹاپ کی میز کے ایک ڈبے میں رکھ دیے، اور ٹاپ کو کھینچ کر میز کی سطح کے برابر کر دیا۔ چابی بدستور گچھے میں تالے کے اندر لٹکی رہی۔ ان رپوں میں ساٹھ روپوں کا سعادت خود اضافہ کرنے والا تھا۔
سعادت جھلاّ گیا۔ آخر اس نے گناہ کیا کیا ہے جو اسے روپئے نہیں ملتے، وہ انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوتا۔ سوچتے سوچتے وہ صرف یہی سوچ سکا— آخر ماسٹر مجھے ممنون کرنے کے لیے میرا سوٹ جلدی نہیں تیار کرسکتا تھا؟ وہ ایک کاریگر کو زیادہ عرصہ بٹھا لیتا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ اسے چار چھ آنے اوور ٹائم کے دینے پڑتے لیکن چیز تو مجھے وعدہ پر مل جاتی۔ شاید باسط — لندن ڈپلو میڈ — ہونے کی وجہ سے کاریگروں کو وقت پر بلاتا اور وقت پر چھٹی دیتا ہے۔ لیکن لندن سے ڈپلوما اس نے کپڑا کاٹنے کا حاصل کیا ہے۔ وقت کا ڈپلوما تو اپنا ہی ہے اور اسے کاریگروں کی نسبت اپنے گاہکوں کو زیادہ خوش رکھنا چاہیے۔ حالاں کہ کام کرنے والوں کے اوقات، سرکاری طور پر تصدیق ہونے کے بعد ڈائنا کی تصویر کے نیچے لٹکے ہوئے تھے، تاہم اس وقت سعادت شاپ اسسٹنٹس ایکٹ کی بابت غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
’’پیسے کو میری زندگی میں دخل ہی نہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے‘‘ سعادت نے پھر سوچا اور اب وہ باسط کی دکان سے باہر اس منی سیاہ سڑک پر دیکھنے لگا،جو سیدھی کمیشن کے دفتر تک چلی گئی تھی، جیسے کسی نے پیمانہ رکھ کر اس دکان اور دفتر کے درمیان پون ایک میل لمبا سیدھا خط لگا دیا ہو۔ سعادت نے غنودگی کی سی حالت میں پہلے اپنے سوٹ اور پھر اس سیدھی سڑک کی طرف دیکھا، گویا وہ اتنے اچھے کپڑے پہن کر اس سیدھی سڑک پر چلتا ہوا گیارہ بجے کمیشن کے دفتر میں پہنچ جائے گا، اور ہر مہینے چپکے سے اڑھائی سو روپئے جیب میں ڈال لیا کرے گا۔
پھر سعادت کی خود ہی ’’چپکے سے‘‘ کے الفاظ پر اعتراض ہوا۔ شاید اس لیے کہ رول ٹاپ پھر اٹھایا گیا تھا اور ایک خانہ میں مزید روپئے ڈالے گئے تھے اور باسط مسکرا رہا تھا اور سعادت بوکھلا رہا تھا۔ سوٹ قریب قریب تیار تھا … سعادت نے اپنی سبز فلیٹ کو ماتھے پر سرکایا اور باسط کی جنونی ہاتھوں کو نوٹ گنتے ہوئے دیکھا —— سعادت نے سوچا —— ’’اگر میں ٹیلر ماسٹر ہوتا—‘‘
’’کھنڈے‘‘ ماسٹر باسط نے اپنے ایک شاگرد کو پکارا۔
ایک شاگرد سامنے آیا جس کا ہونٹ کٹا ہوا تھا۔ وہ بہت دُبلا پتلا اور نحیف و نزار تھا۔ اس نے گلو بند کے گرے ہوئے پلّے کو گلے میں ڈالا اور کٹے ہوئے ہونٹ کے احساس کی وجہ سے نیچے کا ہونٹ اوپر کے ہونٹ کے ساتھ بھینچنے لگا۔ اس نے گلو بند میں تھوڑا سا منھ چھپایا اور بولا۔ ’’جی! بس تیار ہے۔ اور کھنڈے کے کانوں میں طلائی بیربلیاں تھیں۔ وہ مسلمان تھا، لیکن وہ سونے کی ہندوانہ بیربلیاں، اس کے کانوں میں ایک ایسے سوال کی صورت لٹک رہی تھیں، جس کا جواب ہندو اور مسلمان لیڈر دینے کے ناقابل تھے۔ ’’شام کے صاحب ‘‘ کی طرح اپنے منھ سے نکلتی ہوئی بھاپ کو دیکھتے ہوئے کھنڈا بولا — ’’صبح سے انگلیاں سیدھی نہیں ہوئیں‘‘ اور اس نے انگلیوں کو دبایا اور بولا ’’پھر بھی آغا صاحب کو ساڑھے دس بجے تک سوٹ پہنا دوں گا …‘‘
سعادت نے خوشنودی کے اظہار میں سر ہلایا۔
ماسٹر باسط نے رول ٹاپ کے قریب ایک صاف سطح پر فلالین ڈالی ہوئی تھی ۔ اس نے فلالین پر ایک سفید خط ڈالتے ہوئے کہا ’’ہاں بس مجھے یہی کہنا تھا۔‘‘
سعادت اپنی جگہ اور اس کے ماحول کی منظم سازش سے نکلا۔ آخر اسے اور سوٹ تو سلوانا ہی نہیں تھا، اس لیے وہ وہاں سے اُٹھ کر دکان سے باہر چوبی تختے پر ٹہلنے لگا اور بازار، اور باہر کی غیر منظم چیزوں کو دیکھنے لگا، بے ربط شور سننے لگا۔ دفتر جانے والوں کے ساتھ اب اسکول کی چھوکریاں بھی نکل آئی تھیں اور اپنے سبک پانو پر پھسلتی ہوئی کمیشن کے مخالف سمت چلنے لگیں۔ کہیں کہیں ایک دو جوڑے شاپنگ کرتے ہوئے دکھائی دینے لگے۔ چمڑے اور آئل کلاتھ کی دکان کا نوکر اور ایک کیمسٹ اپنی اپنی دکان کے بورڈ صاف کر رہے تھے۔
باسط کے ہاں دو اور نوجوان داخل ہوئے۔ ایک کا سوٹ سِل چکا تھا اور دوسرا چسٹر کے لیے کپڑا لایا تھا۔ دکان کے اندر ایک درجن مشینوں کی آواز کے ساتھ باسط کہتا ہوا سنائی دیا— دوڑ چودہ —کمر بتیس—چھاتی پونے چھتیس! لیکن یہ چیز بھی سعادت کو متوجہ کرنے کے لیے کافی نہ تھی۔ وہ جمائی لے کر بازار کا غیر منظم اور بے ربط ماحول دیکھنے لگا۔ آخر پھر اسے وہ ربط پسند آیا اور دکان کے اندر جا کر ڈائنا کے بجائے اس کے کتّے کی طرف دیکھنے لگا۔ آخر انگریزی تہذیب کے مطابق بات کتے سے شروع ہوتی ہے اور پھر ڈائنا یا ایڈنا تک پہنچتی ہے—!
انگریزی کا مقولہ ہے — ’’مجھ سے محبت کرو، میرے کتّے سے محبت کرو‘‘ اور کتا لیلیٰ کے کے کتّے سے سراسر مختلف ہے۔ کیونکہ ایک وقت میں لیلیٰ کا کتا ہوتا ہے یا لیلیٰ، دونوں ایک ساتھ نہیں ہوتے۔ سعادت نے پھر سوچا کہ تصویر اس دکان میں کس قدر موزوں ہے۔ لباس کی طرف اتنی توجہ آخر مغربی چیز ہے۔ ہمارے ہاں تو محبت کی خاطر محبت سکھائی جاتی ہے۔ بیوی سے کہو، تم اچھے کپڑے پہنو تو وہ کہتی ہے’ ’میں جانتی ہوں — آپ کو مجھ سے محبت تھوڑی ہے۔ محبت میرے کپڑوں سے ہے‘‘ انھوں نے مغربی فیشنوں کی تقلید سیکھ لی ہے۔ لیکن مجھ سے محبت کرو، میرے کتے سے محبت کرو‘‘ کا حسین مقولہ نہیں سیکھا۔
اب تک سعادت باسط کا اور بھی قائل ہو چکا تھا ۔ لیکن …
اس وقت دو لڑکیاں جو ابھی ابھی دکان میں داخل ہوئی تھیں، ایک چھوٹے سے کیس میں شیشے کے سامنے اپنا سراپا دیکھنے لگیں۔ ایک نے کوٹ سلوایا تھا اور دوسری نے شلوار اور قمیص۔ یہ بُت بولتے بھی تھے۔ ان کی وجہ سے کمرے میں ایک خوشگوار سی گرمی پھیل گئی تھی اور وہ سردی اور بے رونقی جو اس سے پہلے وہاں مسلط ہو چکی تھی، دور ہو گئی تھی۔ کھنڈے کا ہاتھ سیدھا ہو گیا تھا اور دوسرے نوجوان کی پتلون کی کریز بہت حد تک درست ہو گئی تھی — اور سعادت کو وہ نوجوان بلانڈ اور برونیٹ کے ساتھ ہوا خوری کر رہے تھے، حرکت کرتے ہوئے نظر آنے لگے۔
اور کیبن کی تصویروں میں کتا بہت پیارا معلوم ہو رہا تھا — کتا — کوٹ، کیونکہ اس سیٹنگ میں مغربی رواج کے مطابق لیلیٰ اور سگِ لیلیٰ۔ ’’مجھ سے محبت کرو، میرے کتے سے محبت کرو‘‘ کے انداز میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ معلوم ہوتا تھاکارنروان کی ڈائنا اس تصویر سے اتر کر کیبن میں چلی آئی ہے اور باسط کا رول ٹاپ آہستہ آہستہ اوپر اُٹھ رہا ہے۔
’’یہ پھُندنا سا کیا لگا دیا ہے، سوداں۔‘‘
دوسری لڑکی جواب دیتی ہوئی دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ پہلی لڑکی جس کی پیٹھ سعادت کی طرف تھی کا منھ آئینہ میں نظر آنے لگا اور سعادت ایک جذب کے ساتھ بیٹھا رہا۔ دوسری لڑکی بولی۔
’’ارے رواج ہے —— پیٹھ پر بھی پھول سا اُبھار دیتے ہیں اور سینے پر بھی …‘‘
’’مجھے تو تمھارا کپڑا بہت پسند ہے۔
’’نرا ٹاٹ معلوم ہوتا ہے — سلا اچھا ہے۔ باسط جو ہوا … ‘‘
دونوں ایک دوسرے کے کپڑے اور سلائی کو بہتر سمجھتی تھیں۔ لڑکی، جس کا نام سوداں — مسعودہ بیگم تھا،اس نے اپنے بال کوئن کرسٹائنا کی طرح بنائے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا چہرہ لمبا کم تھا اور چوڑا زیادہ تھا اور یوں توازن قائم رہتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے قدرتی بلوّر میں سرمے کی ہلکی سی تحریر دکھائی دیتی تھے —— وہی ’’مجھ سے محبت کرو، میرے کتے سے محبت کرو‘‘ انداز کی —دوسری لڑکی رمز کی طرح کم گو اور تیکھی تھی۔ ٹھوڑی اور منھ کے درمیان ایک پھوڑے کا ہلکا سا داغ تھا۔ لیکن اتنا ہی جتنا زیادہ نہیں ہوتا اور ایک خوبصورت، امتناعی حکم والے چہرے سے کم ہوتا ہے۔ اس کا نام سلطان تھا۔ بہتی ہوئی لکیروں والا کوٹ اس کے جسم کے ابھار پر اُبھرتا اور دباؤ پر دبتا پنڈلیوں کے وسط تک چلا آیا تھا۔ چھاتی پر خوبصورت قوسین بن رہی تھیں۔ سعادت قوسوں کے لیے ذکی الحس واقع ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ سے بے خبر،چھاتی اور کمر کی قوسوں کی طرف دیکھنے لگا۔
سعادت سلطان اور سوداں کو دیکھتا رہا، حتیٰ کہ ان لڑکیوں کو اپنی بے پردگی کا احساس ہونے لگا۔ سلطان نے بڑھ کر ہاتھ مارا، اور پلائی ووڈ کے کمرے کا پردہ پیتل کے چھلوں کو پورے پھیلاؤ میں لے کر تن گیا۔ صرف ایک معمولی سی درز باقی رہ گئی۔
اس وقت کھنڈا سعادت کا سوٹ لے کر آیا اور ایک علاحدہ کیبنٹ میں لے جا کر پہنانے لگا۔ سعادت نے فیلٹ کو سیدھا کیا تاکہ وہ ایک شریف انسان نظر آئے اور اس نے جلدی جلدی نیا سوٹ پہنا۔ سوٹ بالکل درست تھا۔ لیکن سعادت نے اس بات کا اعتراض ضروری نہ سمجھا۔ کاروباری طور پر یہ بات درست نہ تھی۔ ’’بغلوں کے قریب دبتا ہے‘‘— اس نے کھنڈے کو دکھاتے ہوئے کہا ’’اور یہ دیکھو — فال سیدھی نہیں پڑتی … لیکن … لیکن… مجھے جلدی ہے…‘‘
کھنڈے نے گھٹنوں کے قریب سے قینچی سرکائی۔ انگشتانہ اُتارا اور سوٹ کی جیبوں سے تمام کچے دھاگے نکال دیے۔ اُس وقت لڑکیوں نے کھنڈے کو اشارے سے بلایا۔ کھنڈا معذرت کیے بغیر ادھر چلا گیا — لیکن سعادت نے احتجاج نہ کیا۔ کھنڈے کی وجہ سے سعادت اور ان لڑکیوں میں ایک رابطہ پیدا ہو گیا تھا۔ سعادت کے پاس سے ان لڑکیوں کے کیبن تک جانے میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ان دو جگہوں کے درمیان ایک غیر مرئی خط لگ گیا ہے …… اور یہی خط ہیں، جو راستہ کاٹتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
لڑکیوں کے کیبن میں بے احتیاطی سے داخل ہونے پر پردہ سر گیا۔اب سلطان کی پیٹھ سعادت کی طرف تھی۔ وہ پنجابی قمیص پہنے ہوئے تھی اور کمر کے نیچے قوسین بڑی بڑی اور کچھ خوفناک تھیں۔ ان لڑکیوں نے پردے کو اُٹھا رہنے دیا۔ شاید ان کی بے احتیاطی تھی۔ وہ سیدھا تکنا نہ چاہتی تھیں۔ اسی قدر بے حجابی کے ساتھ جیسے سعادت دیکھ رہا تھا۔ لیکن سعادت کیا کرسکتا تھا۔ مرد کا انداز ہی کچھ سیدھا سیدھا، اجڈ اجڈ ہوتا ہے۔ لیکن عورت نگاہیں جھپکا کر ڈالتی ہے۔ جیسے اس کا جسم حسین قوسین کا مجموعہ ہے، ویسے ہی اس کی نگاہیں اور اس کے افعال…
سعادت کے جسم میں خون حرکت کرنے لگا۔ اسے اپنے کانوں کے کنارے جلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ کھنڈے نے لڑکیوں کے کیبن میں داخل ہوتے ہی سلطان کا کوٹ کھینچا اور پھر اپنے آپ ایک بازو کی دوری پر جا کھڑا ہوا— ’’یہ کالر کیسے ہے، ذرا ٹھیک کر دو‘‘—سلطان بولا۔ کھنڈے نے ہاتھ بڑھا کر کالر ٹھیک کر دیا۔ اور پھر باہر نکلتے ہوئے بولا— ’’بس بی بی جی — آپ کو کوٹ ایسا پسند آئے گا — جیسے … کبھی پسند نہیں آیا‘‘ کھنڈا رُک گیا اور بڑے زور سے دونوں ہونٹ بھینچنے لگا۔ اس وقت لڑکیاں ہنس رہی تھیں۔
یہ سازش تھی سب سازش تھی — سعادت نے کہہ دیا، صاف کہہ دیا ۔ لیکن وہ کوٹ اُتار کر خود کچے دھاگے اتارنے میں مصروف ہو گیا۔ وہ ابھی تک اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔ مسعودہ نے بھی کوٹ اُتار دیا تھا ۔وہ کہہ رہی تھی ’’باسط صاحب۔‘‘
باسط نے حساب کتاب کا رجسٹروہیں پھینکا اور کیبن کی طرف آیا۔ ایک لڑکی نے کپڑے کے ایک پلندے کو اٹھاتے ہوئے کہا ’’ہمیں اور بھی کپڑے سلوانا ہیں— لیکن ایک شرط پر آج دوسرے ہفتہ کے روز مل جائیں۔ مسعودہ بیگم کی شادی ہے … مسعودہ شرما گئی اور کہنے لگی۔ ’’یوں کپڑے مانگ لیتی ایک خاص تاریخ کو —— میری شادی کا ذکر بھی کیا اتنا ضروری ہے کہ دنیا بھر——‘‘
’’چلو ہٹو — ہٹو—‘‘ سلطان نے کہا۔
باسط نے مسکرائے بغیر کہا ’’شنیل ہے— شنیل کَے گز لائیں کپڑا آپ؟‘‘
’’ایک گز عرض ہے— اور ساڑھے چھ گز ہے۔‘‘
باسط اور کھنڈا دونوں کھڑے تھے۔ کھنڈے نے ایک نظر سے سوداں کے تندرست جسم کی طرف دیکھا، گویا کہہ رہا ہو… ’’پونے سات گز ہو جاتا تواچھا تھا‘‘ لیکن وہ کچھ نہ بولا، شاید کھینچ کھانچ کر گزارا ہو جائے گا۔ مسعودہ کا چہرہ ابھی تک گلابی ہو رہا تھا۔ باسط نے آگے بڑھتے ہوئے سلطان سے کہا ’’آپ کی قمیص شلوار کا ماپ تو ہے —مگر ان کا ……
مسعودہ نے کہا — ’’تو ماپ لیجیے۔‘‘
باسط نے کچھ دور جا کر اپنے رول ٹاپ کی چابی گھمائی، اور اسے گچھے سمیت اُچھالتے اُچھالتے ادھر چلا آیا، کمرے کے پاس پہنچتے ہی ماسٹر باسط نے گلے سے فیتہ نکالا اور بولا۔
’’آپ ذرا ہاتھ اُٹھا دیں۔‘‘
مسعودہ بیگم نے دونوں ہاتھ پھیلا دیے اور سعادت کے گلے میں لعاب خشک ہو گیا۔ مسعودہ سامنے کھڑی تھی۔ ایک خوبصورت عورت — اپنی تمام قوسِ قزح کے ساتھ۔ لیکن ماسٹر نے مسعودہ بیگم کے پیچھے سے فیتہ نکالا اور اس کا دوسرا سرا اس کے ہاتھ میں دے دیا اور سامنے لاتے ہوئے بولا ’’کھنڈے لکھ لے۔‘‘
’’چھاتی اڑتیس۔‘‘
پھر کمر تیتس …… کراس بیک پندرہ، بازو بارہ، کلائی ساڑھے چار اور قمیص کی لمبائی کیا رکھوائیں گی آپ؟— گز سے اوپر؟— رواج نہیں — خیر پسند اپنی اپنی، شنیل اچھی ہے، اچھا انتخاب ہے ہپ؟ لیکن اس کے ماپ کی کیا ضرورت ہے؟ اور شلوار— یہ فیتہ رکھیے، ہاں ہاں رکھیے — اور فیتے کو مسعودہ بیگم کے گلابی پانو پر چھوڑتے ہوئے باسط اُٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اس نے فیتے کو گلے میں ڈالا اور چلتا بنا۔
’’عجیب ہونق ہے! ’’سعادت نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے سوچا‘‘ کتنا جذبات سے کورا— غیر شاعرانہ انسان ہے۔ اتنا بھی نہیں کہ ان خوبصورت قوسوں، ان گولائیوں کو دیکھ لے…‘‘
اور سعادت مبہوت کھڑا سلطان اور مسعودہ کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو کہنیاں مارتی ہوئی چل دیں۔ سعادت کو کچھ یاد آیا اور اس نے ماسٹر باسط کے رول ٹاپ پر ساٹھ روپئے رکھے اور گھبرا کر باہر نکلا —— انگلش واچ کمپنی کا کلاک پونے بارہ بجا رہا تھا—— اور انٹرویو کا وقت گزر چکا تھا۔
٭٭٭
آگ
آسنسول ابھی بہت دور تھا۔ یہی کوئی سات ایک میل کے قریب۔
سات میل کا فاصلہ کوئی بڑا فاصلہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس دھان پاتی کے لیے،جو پہلے ہی ٹوٹ چکا ہو، یہ فاصلہ ایک خاصی منزل کے برابر ہے۔ اپنے من من کے پانو سمیٹ کر اوتن اونٹ کے کجاوے کی طرح تاڑ کے نیچے بیٹھ گیا۔ تاڑ اُس علاقے میں بیشمار تھے۔ جدھر دیکھو تاڑ ہی کے درخت نظر آتے تھے اور ان کے مہاسوں سے اپنے آپ جھاگ پھوٹ رہی تھی۔
کچھ دور سڑک کے پاس خاکستری زمین پر کوئلوں کے دھبّے نظر آتے تھے۔ یہ کوئلوں کے گڑھے تھے جو اب بیکار ہو گئے تھے۔ ان گڑھوں کو ملاتی ہوئی سڑک آسن سول کی طرف جا رہی تھی۔ ہر آدھ پون گھنٹے کے بعد اس سڑک پر کوئی گاڑی آ کر رکتی اور پھر اُس پاس کے بھوکوں سے بے خبر چل دیتی۔ ’’ٹھہرو دادا، رک جاؤ دادا … اوتن پورے زور سے چلاّتا اور پھر عاجز آ کر کجاوے پالان کی طرح دُہرا تہرا ہو کر تاڑ کے نیچے جا پڑتا اور زبان کی نوک سے پسینہ چاٹنے لگتا … دُور… دُور … جہاں زمین آسمان سے کٹتی نظر آتی تھی، وہ ایک باڑ یاں دکھائی دے رہی تھیں جن کے ساتھ اُوس کی فصل چھدری چھدری، بوڑھے کے دانتوں کی طرح میلی میلی اُگ رہی تھی۔ فاقوں کے مارے لوگوں نے اُوس کی پیلی پیلی کمزور بالیاں نوچ لی تھیں۔ اب ان میں کچھ بھی نہ تھا،بلکہ اس مہا ماری سے بہت پہلے، ہمالیہ پھاند کر تینگری نور سے آنے والے جانوروں نے کھپریلوں تک سے دھان ڈھونگ لیا تھا۔
اب دھان پاتی مرے ہوئے جانوروں کی ہڈیاں اُبال رہے تھے۔ وہ اور کیا کرتے؟
تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک بھنبھناہٹ سی سنائی دی اور ایک لاری آ کر رُکی۔
’’رُک جاؤ …… رُک جاؤ …… ٹھہرو ……‘‘ اوتن چلاّیا ……’’ ٹھہرو!‘‘
پھر اوتن نے کالی کا واسطہ دیکر گاڑی کو روکنا چاہا، لیکن ایک دم اس کے دماغ نے فیصلہ کر لیا کہ اب کالی کا واسطہ بیکار ہے، اس مہاماری کے سامنے، کالی اور بھگوان دونوں بے بس ہیں، کالی اور بھگوان ظالم اور مظلوم،دونوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اوتن نے اپنا واسطہ دینا چاہا۔ لیکن اسے کیا غرض تھی …… وہ چپ رہا۔
ڈرائیور نے فریاد سن لی۔ اس نے کھڑکی میں سے سر نکال کر پوچھا… ’’کہاں جاؤ گے؟‘‘ … آسن سول؟ کیا دو گے آسن سول کا؟‘‘
اوتن نے ایک ہی سانس میں کہا۔ ’’جو کچھ میرے پاس ہے، دے دوں گا۔ تمھارا غلام رہوں گا ساری عمر۔ ساری عمر تمھارا غلام رہوں گا ساری عمر …‘‘ اور پھر وہ ہانپنے لگا۔
ڈرائیور تھوڑی دیر کے لیے رکا ۔ موبل آئیل گاڑی سے نیچے ٹپک رہا تھا۔ نیچے اُتر کر اُس نے انجن کا ڈھکنا اُٹھایا۔ موبل آئیل گیج کو ٹینک میں داخل کیا اور بولا: — ’’کافی ہے، کافی …‘‘ پیچھے سے اس کے ساتھی نے آواز دی … ’’نصیبوں کی جان کو رو رہے ہو دادا؟‘‘ ڈرائیور نے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا ’’ہاں‘‘ اور پھر اوتن کی طرف مُڑتے ہوئے کہا … ’’ساری جندگی کی مصیبت کون مول لے ‘‘، ’’نگد‘‘ کیا دو گے؟ بولو دس روپئے دو گے؟‘‘
اوتن نے جلدی سے ہاتھ جیب کے اندر ڈالا اور جیب سمیت نقدی کو باہر لے آیا۔ ایک روپئے کا بوسیدہ سا نوٹ تھا اور کچھ سکّے۔ ڈرائیور بات کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اوتن اپنی جگہ کھڑا کھڑا جھپٹا۔ پھر جیسے اسے ہاتھی پانو کی بیماری ہو،پانو زمین پر گڑے کے گڑے رہ گئے اور ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ وہیں کھڑے کھڑے اوتن گر پڑا اور اس کے منھ سے جھاگ پھوٹنے لگی۔
لیکن اوتن اکیلا نہ تھا۔ اس کے پاس ایک اور آدمی بھی کھڑا تھا۔
یہ سب کچھ اس خواب کی مانند تھا، جس میں ایک آدمی دہشت کے مارے بھاگنا چاہتا ہو، لیکن پانو زمین میں گڑ جاتے ہوں، اور بھاگ نکلنے کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہوں۔ البتہ ایسی تفصیلات نظر آ جاتی ہوں، جیسے تاڑ کے پتّے جھوم رہے ہیں اور کوئی آدمی پاس کھڑا … لیکن وہ آدمی بولنے لگا، اصل انداز میں،جیسے اصل اور نقل، خواب اور بیداری ایک دوسرے میں گھل مل رہے ہوں۔ یہ خواب نہ تھا۔ کوئلے کے گڑھے پر بیکار چرخی جھکڑے ساتھ برابر چل رہی تھی … صاف چکر لگاتی ہوئی نظر آ رہی تھی ۔ وہ آدمی جو اس بیداری اور خواب کی حدوں کو ملاتا ہوا آ رہا تھا، گنگنا رہا تھا … من پگلو ہو گیورے، تمرو گورنگ روپ دیکھے……
اس آخری کشمکش کے بعد اوتن بلبلانے لگا۔ میں مر جاؤں گا دادا۔ گویا زندگی میں اُسے پہلی بار گیان ہوا کہ وہ مر بھی سکتا ہے۔ مشکل سے مشکل گھڑیوں میں بھی اسے امید رہی کہ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ وہ نہیں مرسکتا۔ آخر اس نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ۔ اب دہشت سے اس کی آنکھیں پھیل رہی تھیں اور اسے یقین ہونے لگا کہ مرنے کے لیے ضروری نہیں کہ کسی کا کچھ بگاڑا جائے… وہ آدمی کھڑا اوتن کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ اگرچہ اس کا من گورنگ روپ دیکھے پگلا ہو رہا تھا، تاہم وہ اپنے گرد و پیش سے بے خبر نہیں تھا، وہ آدمی تھا، پتھر تھوڑے تھا۔ یہ بول تو یوں ہی زبان پر چلے آئے تھے، جیسے صبح اُٹھتے ہی کوئی بول بے ساختہ زبان پر آ جائے۔ اچھا یا بُرا۔ آدمی دن بھر کاروبار کرتا ہے اور بنا جانے بوجھے اس بول کو گنگناتا ہے… مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بھی گاتا ہے… ایک مرگ ناگہانی اور ہے! …
’’تمی کتوباڑی چھے‘‘؟ اس نے پوچھا۔
اوتن نے پاگل ہوتے ہوئے جواب دیا۔’’میں مر جاؤں گا، دادا!۔‘‘ اور وہ اور بھی متوحش نظر آنے لگا۔ متر مہاشے نے یہ سوال بھی اسی انداز میں کیا تھا جس میں گورنگ روپ، گنگنایا تھا۔ اب اس نے ایک دم دلاسا دیتے ہوئے کہا … ارے تم مرجاؤ گے تو کیا بگڑ جائے گا … بتاؤ؟
’’کیا دنیا کا کار بیوبار بند ہو جائے گا؟‘‘
’’تمھارے مرجانے سے لوگ بھی مرجائیں گے؟‘‘
’’اس مہاماڑی میں بتیس لاکھ مرگئے۔‘‘
’’تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو……؟‘‘
اوتن کے ہونٹوں پر جانے مہر لگ گئی۔ کل اس کے سامنے پونم مرا تھا۔ لیکن اس گھڑے پر بیکار چرخی جھکڑ میں ویسے ہی گھومتی رہی۔ گویا اسے بھی رک جانا چاہیے تھا۔ تاڑ ہوا میں اسی طرح جھومتے رہے تھے، اور اپنے مہاسوں سے نشیلی تاڑی کی جھاگ بدستور اگلتے رہے تھے اور پیٹ بھرے آدمیوں کو متوالا کرتے رہے تھے۔ مکھیا ویسے ہی حواصلوں کی طرح نوالے نگلتا رہا تھا … بچوں کو تکلیف ہوئی۔ اوتن نے سوچا ۔ لیکن اس کے مر جانے سے وہ تھوڑے ہی مر جائیں گے۔ زندگی کے ساتھ ٹکر لیں گے تو وہ اور بھی اچھے آدمی بن جائیں گے۔ پدما ان بچوں کے آسرے پر جیتی رہے گی۔ ہو سکتا ہے وہ دوسری شادی کر لے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اسی منھ سے دوسرے آدمی کے سامنے انہی الفاظ میں محبت کا اقرار کرے، جن الفاظ میں اس نے اوتن کے سامنے کیا تھا؟… لیکن اگر ایسا ہو جائے تو آخر کیا ہو جائے گا؟…
تھوڑی دیر کے بعد اوتن کو پتہ چلا، اس کا ساتھی سرکاری آدمی ہے۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ امید اور خوف کے ساتھ۔ اس آخری زور کو خرچ کر دینے پر اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ گھٹنے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے، جیسے ذبح ہونے سے پہلے مرغ کی چونچ کھل جاتی ہے، اور تنفس کی تیزی کی وجہ سے اس کی زبان، اس کا گلا، اس کی اوجھڑی تک پھڑپھڑانے لگتی ہے۔ ایسے ہی اوتن کا منھ کھل گیا تھا اور زبان تالو سے نرخرے تک کانپ رہی تھی۔ آخر وہ سیدھا بیٹھ گیا اور اپنی آنکھوں پر زور ڈالتے ہوئے متر مہاسے کی طرف دیکھنے لگا۔ اچانک اُسے کچھ یاد آیا۔ اور بولا۔
’’امی براہمن باڑیا آچھے۔‘‘
’’اوہ، براہمن باڑیا آچھے‘‘سترمہاشے نے کہا۔
کچھ دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔ اس اثنا میں ایک اور گاڑی آئی اور بھنبھناتی ہوئی گزر گئی۔ اس دفعہ نقاہت کے باعث اوتن نے اسے کھڑا ہونے کی کوشش نہ کی۔ شاید دوسرے آدمی کو پاس کھڑے دیکھ کر اُسے حوصلہ ہو گیا تھا۔ پھر اسی مبہم سے احساس نے اس کا احاطہ کر لیا تھا کہ وہ مر نہیں سکتا۔ آخر اس نے کون سا قصور کیا ہے؟
جھکڑ کے ساتھ ایک دھول سی چھا گئی۔ تینگری نور سے آئے ہوئے پرندے بڑے بڑے پہاڑی کوّے ہوا کی اوپر کی سطح پر پَر تولنے لگے۔ وہ جس مقام پر اُترنا چاہتے تھے، اس سے گزوں دور جا پڑتے۔ لیکن وہ اپنے حساب سے منزل سے بہت ورے اُترنے کی کوشش کرتے اور ہوا انھیں ڈھکیل کر عین مطلوبہ جگہ پر بٹھا دیتی۔ اوتن اور مترمہاشے میں کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں ۔ اوتن کی جان میں جان سی آ گئی تھی۔ اس نے اپنی بڑھی ہوئی داڑھی سے دھول جھاڑتے ہوئے کہا۔ ’’اب ہمارے پاس کچھ نہیں رہا، دادا۔ امّن کی فصل لینے کے لیے ہم نے اپنا سب کچھ بیچ دیا۔ لیکن وہ فصل بھی کنگلوں نے لوٹ لی۔ اوس بونے کی ہمت کس میں تھی۔‘‘
متر مہاشے نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ تعجب ہے، آسن سول کے لوگ بھی بھوکوں مریں۔‘‘
’’کیوں‘‘ آسن سول میں کیا ہے؟‘‘
’’آسن سول میں کیا ہے ؟— سارا بنگال بھوکوں مر گیا، لیکن سرکار کو جنگ کے لیے یہاں سے کوئلہ لینا تھا۔ وہ آس سول کے مزدوروں کو کیسے مارسکتی تھی؟‘‘
’’ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘ اوتن نے کہا ’’لیکن اس علاقے میں جو سفید پوش لوگوں کا حال ہوا وہ تم نہیں جانتے۔ مانگنا وہ عار سمجھتے تھے اور دینا ان کے بس میں نہیں تھا۔ کان کے مالکوں تک کو کچھ نہ ملتا تھا۔ وہ مزدوروں سے چھین جھپٹ کر کھاتے تھے …‘‘ یہاں اوتن سانس لینے کی غرض سے رکا۔
’’یہ چھینا جھپٹی وہ ہمیشہ کرسکتے تھے ‘‘ مترمہاشے نے اوتن کو کم بات کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں متر مہاشے …‘‘ اوتن نے رُکتے ہوئے کہا ’’انھیں اتنا کم ملنے لگا کہ مشکل سے ان کا پیٹ بھرتا تھا۔ ہم سب کچھ چور بازار سے پیسے کے زور خریدتے، لیکن اب اس ایماندار سرکار نے نیچے سے چور بازار بھی ختم کر دیا… چور بازاری بری چیز ہے نا!‘‘
اور پھر جانے اوتن کو شک سا گزرا ۔غصہ بھی نشے سے کم نہیں۔ پھر اوتن میں طاقت عود کر آئی۔
’’تم چور بازار بند کرنے آئے ہو؟‘‘ اس نے پوچھا ’’تم چوربازار بند کرنے آئے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ۔ یہاں سب لوگ بھوکوں مر جائیں گے… سب … مزدور … مزدور وں کے مالک … سب۔‘‘
میں چور بازار بند کرنے نہیں آیا۔‘‘
’’تو پھر تم چور بازار میں نفع کمانے آئے ہو؟‘‘ اوتن نے اور غصہ ہوتے ہوئے کہا … لیکن اس کے منھ پر کف سی آ گئی۔ اوتن نے مترمہاشے کا چہرہ ٹٹولنے کی غرض سے ہاتھ بڑھایا، لیکن اس کے ہاتھ پانو نے اسے ہلنے نہ دیا ۔ایک پسپائیت اس پر چھا گئی اور اس نے کہا ’’ہماری جان بچانا تمھارا فرض ہے … تم سرکاری آدمی ہو …‘‘
مترمہاشے بتر بتر اوتن کی طرف دیکھتے رہے۔
اوتن بولا۔ ’’تم مجھے آسن سول بھجوا سکتے ہو۔ ضرور بھجوا سکتے ہو … مرنے سے پہلے…‘‘
مترمہاشے نے سوچتے ہوئے کہا ’’میں لوگوں کی جان بچانے نہیں آیا۔‘‘
’’نہیں‘‘؟ اوتن نے پھر گھٹنے سکیڑتے ہوئے کہا ’’تم کیا کرنے آئے ہو؟‘‘
’’مجھے مرنے والوں کی تعداد گننے پر لگایا گیا ہے۔‘‘
اوتن نے اپنی دھندلائی ہوئی آنکھوں میں سے دیکھا۔ متر مہاشے آنکھوں سے نمی پونچھ رہے تھے۔ اس نے دیکھا مترمہاشے کسی اچھے خاندان کے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے خاندان کے آدمی، جسے اس مہاماری میں بھوک کے لیے جدوجہد نہیں کرنا پڑی۔ جس کی بہنوں کو دبے پانو اپنے ہاں کے چور دروازے سے رات کے وقت جانا اور آنا نہیں پڑا۔ وہ رحم دل تھے۔ ان کی آنکھیں نمناک تھیں … لیکن اوتن نے سوچا۔ ان کے رحم دل ہونے کا اسے کیا فائدہ؟ اس قسم کا ترحم بھی عیاشی تھی۔
تاڑ کے اوپر سے بتاشوں کی طرح کے جھاگ کے قطرے گرے— سائیں سائیں کی آواز میں اوتن کی آواز گم ہو گئی،وہ پھر بلبلانا چاہتا تھا، اور مترمہاشے کو کہنا چاہتا تھا … پھر یہاں کیوں کھڑے ہو … جاؤ ۔ اپنے کاغذوں میں ایک اور نام لکھ لو۔ مترمہاشے دیکھنے میں آنسو بہا رہے تھے۔ جیسے کوئی گدھ ہو اور کسی جانور کے مر جانے کا انتظار کر رہا ہو۔ اگر وہ چلے جاتے تو خانہ پری کے لیے پھر انھیں لوٹنا پڑتا۔
مترمہاشے نے اوتن کے کندھے چھوئے اور کہا۔
’’اوتن دادا … تم لوگ خود کچھ بھی تو نہیں کرتے۔ ہر کوئی اپنی مدد آپ کرے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔
اوتن نے ہلکے سے سر ہلا دیا۔ متر مہاشے بولے
’’اوتن دادا، تم کلکتے کیوں نہیں چلے جاتے… کلکتے۔‘‘
اوتن پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی۔ اس کے اوجھڑی پھڑک پھڑک کر ہار چکی تھی اور اس کا دماغ ایک جالا سا بننے لگا تھا۔ اس کے ذہن کے افق پر ایک دھول سی چھا گئی۔ پھر کچھ ہوش آئی۔ اب کے مترمہاشے خواب کے عالم میں تھے …… اوتن کسی زمانے میں خود مترمہاشے تھا۔
اوتن کے بزرگ براہمن باڑیا کے گانو اوبی میں رہتے تھے۔ اوتن کا باپ ایک معمولی حیثیت سے ریلوے ورکشاپ میں نوکر ہوا تھا۔ وہ صرف بجلی کے پنکھوں پر آرمیچربنا کرتا تھا۔ اس زمانے میں پنکھے صرف رؤسا کے ہاں ہوتے تھے۔ اس لیے ایک پنکھا معمولی سا خراب ہو جانے پر جیتندر ناتھ، اوتن کے باپ کی رسائی گورنر تک ہو جاتی تھی۔
جوتن بابو ورکشاپ سے اکثر تاریں، سوچ، گاڑیوں کا روغن اور ایسی کئی ایک چھوٹی موٹی چیزیں اُڑا لیا کرتے تھے۔ ایندھن کی ان کے ہاں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی، کیونکہ تیل میں بسے ہوئے چیتھڑے، جن سے انجن صاف کیے جاتے تھے، بکثرت مل جاتے تھے۔ بیٹری کے ذریعے ان کے ہاں بتیاں جلتیں۔ اور یہ بات آس پاس کے دس بیس گانووں کے لیے عجوبہ تھی۔ اس کے باوجود اکثر طالب علموں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ بہرے کی حیثیت سے صاحب کے ہاں نوکر ہو جائیں اور جان بوجھ کر انگریزی کا کوئی لفظ نہ بولیں، اور پھر میم صاحب یا صاحب کو کہیں کہ انھیں انگریزی پڑھا دے۔ پھر ایک دن میں انگریزی کی پرائمر اس حد تک پڑھ جائیں کہ صاحب ان کی ’’خدا داد لیاقت‘‘ کا قائل ہو جائے اور فوراً کہے، تم پلیٹیں دھونا چھوڑ دو … تم ناحق رکابیاں چمکاتے ہو۔ حالاں کہ تم ہندستان کی قسمت چمکا سکتے ہو …… اور پھر صاحب فرلو پر ولایت جائیں تو انھیں بھی ساتھ لے جائیں۔ اور انھیں آکسفورڈ میں داخل کرا دیں … اپنے خرچ پر … صاحب جو ہوئے اور ہر صاحب فراخ دل ہوتا ہے… پھر آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر کے لوٹیں تو قریب قریب وہی مرتبہ حاصل کر لیں، جو ان کے صاحب کو حاصل تھا۔ وہ لوگوں کو حیران کر دیں اور پھر ان تمام بھائیوں سے بدلہ میں، جن کے ساتھ تین پشت سے مقدمہ چل رہا تھا، یا جنھوں نے نوکری کے سلسلے میں ان سے بات تک کرنا گوارا نہ کیا تھا۔
کرسمس کے دنوں میں اپنے ہاں ڈالی لے جانے اور
May God bless you! May God shower good luck on you and your near and dear ones. may God…..
ایسے الفاظ کہنے والوں کو صاحب لوگوں نے ابھی نفرت کرنا شروع ہی کیا تھا۔ بظاہر خوش ہوتے تھے، لیکن جوں ہی خوشامدی لوگ کوٹھی کے احاطے سے باہر نکلتے، صاحب لوگ، میم لوگ اور باوا لوگ ہنستے اور نفرت سے "Bloody swines these” اس قسم کے خطابات سے ان لوگوں کو یاد کرتے۔ لیکن ایک اور طریقہ بھی تھا، جسے جوتن بابو نے کامیابی کے ساتھ اختیار کیا۔ اس نے گورنر کی بیوی کے ہاں تھیلی دار گھنٹی لگا دی۔ گورنر صاحب بہادر کے سلام بولنے پر ہزایکسیلینسی جاگ بھی پڑتیں اور ان کے اعصاب پر گھنٹی کی کرخت آواز سے کوئی بُرا اثر بھی نہ پڑتا۔ ہزایکسیلینسی نے فوراً کہا ’’مانگ کیا مانگتا ہے۔‘‘ جوتن نے کہا ’’میم صاحب، آپ کا دیا بہت کچھ ہے۔ آپ کے جوتوں کے صدقے سب کچھ حاصل ہے۔ جب میم صاحب نے تیسری مرتبہ کہا تو جوتن بولا ’’یور ایکسیلینسی! میرا عہدہ بڑھا دیا جائے۔‘‘ اسی دن ملٹری سیکرٹری کے نام چٹھی لکھی گئی۔ ملٹری سیکرٹری نے ایجنٹ صاحب کے نام لکھا۔ اور جوتن بابو شدہ شدہ جرنی مین کے عہدہ تک جا پہنچے وہ فورمین بھی ہو سکتے تھے، بشرطیکہ وہ عہدہ انگریز کے لیے وقف نہ ہوتا۔
تو گھر بھر میں اس قدر فراغت تھی۔ اوتن ا بھی اسکول سے نکلے ہی تھے۔ صحت بنانے کا انھیں خوب خیال تھا۔ آخر تمام زندگی یہی صحت خرچ کرنا تھی۔ وہ دن رات ڈنٹر پیلا کرتے، مالش کرتے۔پہلے تو وہ صبح دہی کا بھرا ہوا ایک کٹورہ پی جاتے۔ پھر سورج نکلتے سمے پچاس بادام الائچی کے ساتھ کوٹ کر لڈو سا بنا لیتے اور کھا جاتے۔ پھر میاں شمس الدین کے ہاں کا سا بونٹ پلاؤ اور مرغن چیزیں کھائی جاتیں۔ پھر دودھ پیا جاتا۔ پیٹ پر اتنا بوجھ ہونے سے رات کو اکثر سوپن دوش ہو جاتا۔ اور اس کمزوری کو پورا کرنے کے لیے اگلے روز اور کھایا جاتا —
جسم میں قوت وافر تھی۔ جذبات کا خزینہ بھی بہت تھا۔ معمولی سی بات پر آنسو اُمڈ آتے تھے۔ چونکہ طاقت ور آدمی ہر کسی کو معاف کر دیا کرتا ہے، اس لیے اوتن کسی کو کچھ نہ کہتا۔ہر ایک کو معاف کر دیتا اور معاف کر دینے کے بعد وہ سوچتا۔ خدایا میں تیرا کتنا عاجز بندہ ہوں اور پھر آنسو اس کی آنکھوں میں چھلکنے لگتے۔ اسے اکثر خیال آتا، اگر میں چاہتا تو ایک پل میں اس شخص کا کچومر نکال سکتا تھا، لیکن میں نے اسے مارا نہیں …… اس کی بیوی ہے جو ہمیشہ بیمار رہتی ہے اور پھر یہ اناتھ آلیہ کا منتری ہے اور ہر سال اس کے ہاں ایک بچّہ پیدا ہو جاتا ہے … اور پھر آنسو …
چنانچہ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ سانیالوں کے مزارع نرپیندر کی بیوی منیکا بیمار پڑی تھی۔ اس کا خاوند، بوڑھے والدین، نصف درجن بچوں اور وقت بے وقت کی نوکری کے درمیان کس قدر پریشان پھرتا تھا۔ اوتن اکثر اس کے ساتھ ہسپتال جایا کرتا تھا۔ اسے تمام مریضوں کی حالت پر رحم آتا … … وہ لوگ چاہتے تو تندرست ہو سکتے تھے۔ وہ ہوا خوری کرتے، پھل کھاتے تو چند دنوں میں راضی ہو جاتے… ایک دن اوتن ایف وارڈ میں، جہاں اسٹیشن ماسٹر گروپ کے لوگ اور ان کے وابستگان بیمار پڑے تھے منیکا کے پاس پہنچا ۔ منیکا کو کثیر الاولادی سے دق ہو چکی تھی۔
’’میں تمھیں علاج بتاؤں دیدی؟ … ‘‘ اوتن نے آناً فاناً سوال کیا۔
’’ہاں اوتن بھیّا — اگر تم مجھے صحت دے سکو تو میں آرام سے بچّے پال سکوں — مجھے اپنی جان کی پروا نہیں۔‘‘
اس وقت نرپیندر آ گیا ۔وہ دفتر سے چھٹی لے کر آیا تھا۔ چونکہ ہر روز اسے اپنی بیمار بیوی کے لیے ڈبہ پہنچانا پڑتا تھا، اس لیے دفتر سے دیر ہو جایا کرتی تھی، او ر اس کے آفیسر دھمکی دیتے تھے۔ نرپیندر اپنے اسٹیشن کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہاں لگے بندھے آمدنی ہو جاتی تھی۔ ورنہ اتنے بچوں کا پیٹ کہاں سے پل سکتا تھا۔ اس لیے وہ چاہتا، پیسے بھی آتے رہیں اور منیکا بھی بچ جائے۔ البتہ اسے منیکا کی زیادہ پروا تھی اور وہ بچوں کو نہیں چاہتا تھا، جو بن بلائے مہمان کی طرح پیچھا ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ نرپیندر کو سامنے دیکھ کر اوتن جھینپ گیا۔ لیکن اوتن کی نیت صاف تھی۔ اس لیے وہ بہت جلد سنبھل گیا۔ منیکا کے دُبلے پتلے نحیف و زار مالک نے بھی ایک تیکھی نظر سے اوتن کی طرف دیکھا، کیونکہ وہ اس کی غیر حاضری میں بھی ہسپتال پہنچنے لگا تھا۔نرپیندر تن کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی نیت بھی صاف تھی۔
اوتن نے کہا۔’’منیکا میری بہن ہے۔‘‘
منیکا کے خاوند نے کہا۔ ’’وہ میری بیوی ہے اور وہ دق سے مری جا رہی ہے؟‘‘
’’اس کی علاج تو بتانے آیا ہوں دادا… سنو گے؟‘‘
’’کہو کیا دارو بتاتے ہو؟‘‘
’’دیکھو پیٹ بیماری کا مرکز ہے۔ ہر بیماری پیٹ سے پیدا ہوتی ہے۔اگر تمھارا پیٹ صحیح کام کرنے لگے، تو تمھارا دل و دماغ اور اعضائے رئیسہ ٹھیک کام کرنے لگیں گے، پھر تم کبھی بوڑھے نہ ہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے۔ہم نے پیٹ کو مصنوعی قسم کی گرمی سے تباہ اور برباد کر رکھا ہے۔ ہم چائے پیتے ہیں انگریزوں کی نقل میں، لیکن تم نہیں جانتے چائے کتنا نقصان کرتی ہے اور انگریز چائے کے ساتھ کتنا مکھن کھاتے ہیں۔ چائے پیٹ میں انتڑیوں کے اندر ایک چکنی اور غلیظ سی تہ جما دیتی ہے جو کبھی دور نہیں ہوتی۔ سو اگر چائے پینا اتنا ہی ضروری ہے، تو مکھّن کھایا کرو۔
’’تم لوگوں کے پیٹ جلے ہوئے ہیں۔ میں انھیں ہرا کرسکتا ہوں۔ مثلاً اگر تم مٹی کو اپنے پیٹ پر باندھنے لگو، صاف اور شدھ مٹی کو تو مٹی مساموں کے راستے سے تمھارے پیٹ کی تمام غلاظت کو کھینچ لے گی۔ مٹی میں صاف اور شدھ کرنے کی بہت طاقت ہے۔ تم سیمنٹ پر غلاظت پھینکو فوراً بدبو پھیل جائے گی۔ خدا کی زمین کروڑوں انسانوں کی غلاظت سے ہر روز خراب ہوتی ہے، لیکن اس میں سے بدبو نہیں آتی اور پھر مٹی پر کون سے دام لگتے ہیں۔ خدا کی سب بڑی بڑی نعمتیں تمھیں مفت ملتی ہیں۔ لیکن چونکہ انسان دام خرچ کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ اسے یقین ہی نہیں کہ مفت بھی آرام ہو سکتا ہے … ہر روز آسمان پر ستارے نمودار ہوتے ہیں، اور چاند اپنی کرنوں سے ساری دنیا کو منور کرتا ہے۔ کوئی چاہے تو انھیں پہروں دیکھتا رہے … مفت … بالکل مفت … برخلاف اس کے کوئی مصور ان کی نقل اتارے تو اسے ایک نظر دکھانے کے لیے دام وصول کر لیتا ہے… روشنی … پانی … ہوا … قدرت کی سب نعمتیں مفت ملتی ہیں۔ اتنی کثرت سے، اتنی بہتات سے —
پھر اوتن نے ہاتھ لگائے بغیر لکڑی کی قمچیوں کی مدد سے پٹ سے ایک پٹ سن کے ایک کپڑے پر مٹی کی تہیں جما کر دیکھیں۔
پٹاں بنا چکنے کے بعد اوتن کہنے لگا ’’تمھیں مٹی اوبی گانو سے نہیں لینا ہو گی۔ مٹی چکنی ہو۔ گنگا کے کنارے کی ہو تو بہتر ہے۔ سب سے اچھی مٹی گنگا کے کنارے ملتی ہے۔ ہمارے گانو کے ارد گرد کی مٹی غلاظت سے پٹی پڑی ہے اور بہت ریت ہونے کے باعث مفید نہیں ہو سکتی۔‘‘
منیکا کے خاوند نے کہا۔ ’’جو گنگا کے کنارے مٹی لینے جائیں تو …‘‘
اوتن نے سنی اَن سنی ایک کرتے ہوئے کہا۔ ’’تو یہیں کسی صاف جگہ سے مٹی لے لی جائے۔‘‘
’’پٹیوں کے بعد دوسرا علاج سنٹر باتھ ہے۔‘‘ اوتن کہا’’ آؤ میں تمھیں سنٹر باتھ کا طریقہ بتاؤں۔ منیکا میری بہن ہے۔ آخر اس میں شرم کی کون سی بات ہے‘‘ ۔ پھر وہ جھجھک کر بولا ’’منیکا کپڑے اُتار کر پانی میں بیٹھ جائے۔ پانی ہمیشہ ٹھنڈا ہو تو اچھا ہے۔ ہمارے میدانوں کے دریا تو یہاں تک پہنچتے پہنچے گرم اور گندے ہو جاتے ہیں…‘‘
’’دیکھو یوں بیٹھ جاؤ … یوں … ہاں! سب جگہ پانی میں ڈوبی رہے۔ پھر بائیں ہاتھ سے دونوں جگہوں کے درمیان پانی لو، ارے اس میں شرم کی کون سی بات ہے۔ یہاں اعصاب کی گانٹھ ہوتی ہے۔ یہاں سے مصنوعی، غیر قدرتی گرمی نکل جانی چاہیے۔ ہم نے ان جگہوں کو غیر قدرتی اور کثرت استعمال سے بیماری کا مسکن بنا دیا ہے … پھر شرم …!‘‘
منیکا نے اپنا منھ شرم سے تکیے میں چھپا لیا۔
اوتن نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’یہ سب جھوٹی شرم ہے دیدی! اور پھر اوتن نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میرا تو ارادہ ہے کہ ایک ایسی بستی بساؤں جس میں سب لوگ ننگے رہیں۔ آج ہم نے خدا کے دیے ہوئے خوبصورت جسم کو طرح طرح کے روگ لگا رکھے ہیں۔ آج کون آدمی ہے اور کون عورت ہے جو کسی کے سامنے ننگی کھڑی ہو سکتی ہے … کون کہہ سکتا ہے کہ جس قسم کا خوبصورت جسم اُسے خدا نے دیا تھا، اُسے اُس نے برقرار رکھا ہے—‘‘
’’بھیّا ! کپڑے پہننے میں مساوات کہاں؟ ننگے پن میں مساوات ہے۔ سب لوگ، بہن بھائیوں کی طرح رہ سکتے ہیں … ہاں … ہاں!‘‘ اور پھر اوتن نے سر جھکا دیا، اور بولا ’’بلکہ یہ کہ نانگوں کی اس بستی میں جب کوئی نیا آدمی آئے تو اس کے اعزاز میں محبت اور اخوت کا ایک گیت گایا جائے تاکہ آنے والے کو پتہ چلے کہ وہ چیرنے پھاڑنے والے جلادوں اور نرسوں کے پاس نہیں جا رہا ہے، بلکہ ایسے لوگوں میں جا رہا ہے جو اسے بہن بھائی سمجھتے ہیں … صرف محبت سے انسان کی بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔‘‘
منیکا کے خاوند نے ایک اور کڑی نگاہ اوتن پر ڈالی۔
محبت اور جوش کے ساتھ اوتن کا گلا بھر آیا۔ ایک مصمم ارادے کے ساتھ اس نے گلا صاف کیا اور بولا ’’ننگا رہنے سے خواہشات کم ہو جاتی ہیں، بلکہ حُکما ء کا خیال ہے کہ عورت اور مرد کی ایک دوسرے کے لیے کشش ہی نہیں رہتی۔ اگر رہے گی تو اتنی، جتنی قدرتی طور پر ہونی چاہیے۔ اس وقت سب کچھ غیر قدرتی ہے، مصنوعی …… ہمارا رہنا سہنا، کھانا پینا، پہننا، بچے ّپیدا کرنا… ہمارے علاج کے سب طریقے مصنوعی اور غیر قدرتی ہیں۔‘‘
پھر اسی طرح اوتن سنٹر باتھ کے متعلق ہدایات دینے لگا۔ ’’کسی قسم کا بیمار میرے پاس آئے، تو وہ چند دنوں میں تندرست ہو جائے گا۔ پیٹ ٹھیک ہو جائے تو پھیپھڑے اپنے آپ درست ہو جائیں گے۔ تم منیکا کو میرے پاس لاؤ۔ سنٹر باتھ میں اپنے ہاتھ سے نہیں دوں گا۔ یہ کام تمھارا ہے۔ تم اس کے خاوند ہو۔ سچ پوچھو تو میں اپنے ہاتھ سے علاج کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا، بشرطیکہ … سب عورتیں میری بہنیں ہیں۔
ہو سکتا ہے میں ہندستان میں ننگے لوگوں کی بستی قائم کروں، تو پہلے پہل مردوں اور عورتوں کو مصلحت کی بنا پر ایک دوسرے سے علاحدہ رکھوں۔ ممکن ہے عورت اور مرد لنگوٹ باندھے رہیں اور پھر ایک سماں آئے کہ وہ کپڑے اُتار کر کھڑے ہو جائیں ۔ ننگے … ایسے ننگے جیسے وہ خدا کے پاس سے آئے تھے۔
اس قسم کی بستی پہاڑ کے دامن میں ہونی چاہیے۔ ایسی جگہ پر جہاں نہ پہاڑ ہو اور نہ بالکل میدان۔ نہ بہت سردی ہو اور نہ بہت گرمی۔ وہاں پھل پھول کثرت سے اُگائے جائیں۔ وہاں انسان صرف پلنے کے لیے جائے۔ گھناؤنی سے گھناؤنی بیماری کے مریض کو پہاڑ پر بھیج دیا جائے تاکہ وہ چشموں پر نہائے، پھل کھائے، چٹّان پر بیٹھ کر دھوپ تاپے، ہنسے اور کھیلے … اور پھر جب تندرست ہو جائے تو لوٹ آئے۔‘‘
اس آخری فقرے پر نرپیندر ناتھ کو بہت غصّہ آیا۔ منیکا لوٹ نہ آئے گی تو آخر کہاں چلی جائے گی۔ منیکا کا تصوّر چمک اُٹھا تھا۔ اسے اپنے صحن میں بچے ہنستے کھیلتے، کودتے دکھائی دے رہے تھے۔ اور وہ …… ان کی مغرور ماں، ان کے درمیان بیٹھی فرحت کے احساس سے ککُ ککُ کر رہی تھی۔ منیکا نے نرپیندر کو روکا بھی، لیکن وہ نہ مانا۔ اس نے اوتن کو خوب گالیاں دیں۔
’’کیا بک رہا ہے … فلاں فلاں کے جنے …‘‘
’’پھر وہ بولا ’’پھل تیری ماں کے پاس سے آئے گا اور پہاڑ پر تیرا باپ لے جائے گا۔ بچے تیرے کون ہوتے سنبھالیں گے اور دادی ماں…؟ نوکری میں پہلے ہی ایک چوتھائی تنخواہ پر چھٹی لے چکا ہوں۔ چھٹی کے نئے قوانین کے مطابق اوّل تو چھٹی ملے گی نہیں اور جو مل بھی گئی تو بغیر تنخواہ کے… نوکری کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا۔ اور پنشن میں فرق پڑے گا … اڈے پر نہ رہیں گے تو کل ہی کیرتی، زمین کی دوسری مینڈھ پر بھی اپنا ہل چلا دیں گے…‘‘
ایک لمحے کے لیے اوتن کو غصہ آیا، لیکن وہ غصہ اپنے آپ اتر گیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ وہ ان لوگوں کو زندہ رہنے کا راستہ بتا رہا تھا اور وہ اُسے گالیاں دے رہے تھے۔ وہ ان لوگوں پر اپنا آپ قربان کر رہا تھا۔ مخلوق کے لیے اس کے دل میں کتنا درد تھا… اوتن کا منھ سرخ ہو گیا … اوتن نے منیکا اور نرپیندر کو معاف کر دیا۔
لیکن اس کے معاف کر دینے سے کیا ہوتا تھا۔ منیکا اس کی باتیں سن کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بچ جانے کے خیال نے اس کے دل میں طاقت پیدا کر دی تھی کہ وہ اپنے سوجے ہوئے پانو کے باوجود چلنے لگی۔ لیکن جب نرپیندر نے اسے اپنی مجبوریوں کا احساس دلایا تو وہ ایک دم بیٹھ گئی … کچھ دیر بعد اس پر بحران طاری ہو گیا … پھر ماں کا غرور اور تکبّر ہمیشہ کے لیے خاک میں مل گیا… اور اسی غنودگی کے عالم میں دوسرا واقعہ جو اوتن کو یاد آیا وہ ستیندر سانیال کے ہاں کی آگ تھی۔ سانیال،جو آبائی درباری تھا، کسی زمانے میں خاصے امیر تھے، لیکن چند قانونوں کی زد میں آ کر مفلس اور قلاش ہو گئے۔
اوبی باڑیا میں، یا اوتن کا گھر اچھا گنا جاتا تھا، یا سانیال کا۔ لیکن جب سے ستیندر کے چھوٹے بھائی راہو نے پہلے پہل ہوٹل کھولا اور بعد میں چینی کے برتن بنانے کا کارخانہ بنایا تب سے وہ مکان بھی رہن رکھ دیا گیا۔ یہی بہت تھا کہ جس شخص کے پاس مکان رہن رکھا گیا، اس نے انھیں وہاں رہنے کی اجازت دے دی ۔ جس آدمی کا دماغ ساہوکاری سے ہوٹل تک پہنچتا ہے اور جسے ہوٹل اور بھٹے کے درمیان اور کوئی کاروبار نظر نہیں آتا، وہ کیا کام کرے گا ……
جیسے عام طور پر ہوتا ہے … بھئی فلاں کاروبار شروع کر دو۔ ہاں بھئی شروع کر دو۔ اور یہ کوئی جانتا پوچھتا نہیں کہ جو آدمی کاروبار کرتا ہے، وہ اس کام کی استعداد بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہوٹل کنفیکشنری کے آسرے پر چلتا تھا۔ تمام ٹافیاں، کینڈی اور پیسٹری بہرے لے گئے۔ گاہکوں میں سے جو بہروں کو زیادہ ٹپ کرتے تھے، بہرے انھیں اور چیزیں اُٹھا کر سستے داموں میں دیدیتے۔ اسی طرح چینی کے برتنوں کا پورا بھٹہ ناہموار آنچ کی وجہ سے خراب ہو گیا۔
ایک دن اوتن اپنے ہاں بیٹھا نارنگی میں لوکاٹ کا پیوند لگا رہا تھا، کہ کوئی دوڑا دوڑا آیا— ’’آگ لگ گئی … آگ!‘‘
’’کہاں؟‘‘اوتن نے اپنا کام چھوڑتے ہوئے کہا— ’’کہاں آگ لگ گئی—؟‘‘
اوتن نے غور سے دیکھا۔ وہی راہو تھا جو دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔ بھاگتے ہوئے اس نے کہا —
’’ہمارے ہاں، اوتن دادا… ہم کہیں کے نہ رہے۔‘‘
اوتن نے سانیالوں کے گھر کی طرف دیکھا۔ اس دن ہوا کا رُخ پچھم کی طرف تھا۔ سانیالوں کے مکان سے لیکر دور پچھم تک دھوئیں کے پرے تیرتے نظر آتے تھے۔ اگرچہ اوبی باڑیا میں اوتن کے مکان اور سانیال کے مکان کے درمیان دو تین ٹیلے تھے، لیکن آگ کا تیج وہیں سے محسوس ہو رہا تھا۔ دھوئیں کے ساتھ ایک ہلکی سی سُرخی بھی آسمان پر نظر آ رہی تھی۔ چونکہ ابھی دن تھا، اس لیے وہ سرخی اتنی تیکھی دکھائی نہ دیتی تھی۔
اوتن دونوں ٹیلے پھاند کر اوبی باڑیا کے دونوں طرف سانیال کے مکان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ آگ کے شعلے بڑی بڑی اور خون آلودہ زبانوں کی طرح لپک رہے تھے۔ خونخوار جانور کی طرح اس آگ نے اپنے شکاروں کو دہشت زدہ کر رکھا تھا، اور وہ مکان میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑ رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔ شعلوں کے پیچھے گھر کی نوجوان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کے اُڑتے ہوئے بال شہابی ہو رہے تھے —
پائیں تالاب میں پانی کم تھا۔ شکایت یہ تھی کہ پانی کم آتا تھا اور کیچڑ زیادہ لیکن آگ بجھانے کے لیے کیچڑ بھی غنیمت تھی۔ اوتن نے اپنے اردگرد دیکھا۔ اس وقت سورج پچھم میں آدھا کٹ چکا تھا، اس لیے پورب کی طرف سے گویا امڈے ہوئے اندھیرے کے ساتھ آگ کی روشنی مل کر ارغوانی ہو رہی تھی۔ اردگرد کھڑے لوگوں کے چہرے تمتما رہے تھے۔
لوگ باہر سے پانی، کیچڑ، دھول پھینکتے تھے، لیکن کسی کو اندر جانے کی ہمّت نہ پڑتی تھی۔ آگ لگ گئی …… آگ آگ … آگ …
دور سے آواز آئی۔ معلوم ہوتا ہے۔ آگ لگ گئی ہے۔
اتنے کریہناک منظر کے باوجود ایک قہقہہ بلند ہوا۔
’’آگ … آگ… اور باہر کھڑے لوگ آگ میں گھرے ہوئے لوگوں کی سراسیمگی میں اضافہ کرنے لگے۔ چاروں طرف سے چیخ و پکار ہونے لگی۔ بچے اور عورتیں اور کچھ مرد بدستور مکان کے اندر اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔
اوتن بدستور باہر کھڑا ان سراسیمہ لوگوں کی طرف دیکھتا رہا۔ ترحم سے اس کا جی بھر آیا۔ اس وقت آگ کے اندر کودتا تو وہ خود جل جاتا …… وہ باہر کھڑا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ آگ کھڑکیوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے شعلوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے لوگوں کی طرف حیرت سے دیکھا — وہ سوچنے لگا۔
’’یہ لوگ بھاگ کیوں نہیں جاتے؟‘‘
اوتن نے پھر کجاوے کی صورت میں اپنا تن بدن سیکڑلیا اور خالی خولی نگاہوں سے تاڑ کے درختوں کی طرف دیکھنے لگا۔ ہوا کے تیز ہونے سے دھول سی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ مترمہاشے کی شکل دھندلی دھندلی سی نظر آنے لگی۔ اتنے میں ایک لاری آئی اور ہارن بجاتی ہوئی گریبوں کے پاس سے گزر گئی۔ اوتن کی ہمت جواب دے چکی تھی،جب کہ مترمہاشے نے اپنا سوال دُہرایا۔
’’تم کلکتے کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
اوتن کے ہونٹوں پر غصّے اور کف کی ایک ہلکی سی تحریر دکھائی دی۔ وہ کچھ نہ بول سکا۔ کچھ دیر بعد اس کا کجاوہ اپنے آپ سیدھا ہونے لگا۔
مترمہاشے اس کا مطلب نہ سمجھا۔ اس نے سوچا، شاید اوتن آرام کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنی سلک کی چادر کا ایک پلّو اُٹھایا۔ اس نے اپنی آنکھیں پونچھیں اور — ’’من پگلو ہو گیو رے۔‘‘ گنناتا ہوا سامنے نظر آنے والی باڑی کی طرف چل دیا۔
٭٭٭
لاجونتی
’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)
—— ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی ……
گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی ——
اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملاّ شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہو گئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندر لال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کرسکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندر لال کی اپنی بیوی اغوا ہو چکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو —— لاجونتی۔
چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے —— ’’ہتھ لائیاں کمھلان نی لاجونتی دے بوٹے…‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہو جاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا —— جانے وہ کہاں ہو گی، کس حال میں ہو گی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہو گی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟… اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔
اور اب تو یہاں تک نوبت آ گئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اس کا غم اب دُنیا کا غم ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کر دیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا —— انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اُٹھنے بیٹھنے، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اُس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دُبلا پن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مار پیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اُس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اُداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اُس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اُٹھتی — ’’پھرمارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی …‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مارپیٹ بھول چکی ہے۔ گانو کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں — ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی ……‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگالی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گانو۔‘‘ چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا —— ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہو گی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بُوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے!
اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتا دوں —— ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہو جانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہو جانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا —— ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کر دینا چاہیے …… وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا،جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا —— انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں —— کیوں کہ ان کے دِل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح —— ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے …
گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملاّ شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی اُلجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے —— او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہگین پروپگنڈ ے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔
لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا۔ پر گُنگناتا چلا جاتا ہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملاّ شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندر لال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے … اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے ……
لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماں باپ، بہن اور بھائیوں نے اُنھیں پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟وہ بُزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لُٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھیں سے موت کو گھُور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک اُنھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی —— سہاگ ونتی —— سہاگ والی … اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی …… تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے …… اور بہاری چلاّ دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔
لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندر لال نے امید و بیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کر دیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جُلی ایک تقریر کر دیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اُٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پُرانوں کا حوالہ دیتے، اُتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اُٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رُک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھا جاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے ———
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہو رہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا —— میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا —— ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘——نارائن باوا نے کہا —— ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رُک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اُٹھا ——
’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا!‘‘
’’چُپ رہو جی‘‘ —— ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ —— ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا —— ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
پھر ملی جُلی آوازیں آئیں —— ’’خاموش!‘‘ —— ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی —— ’’مار دیں گے۔‘‘
نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا —— ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!‘‘
سندر لال نے کہا —— ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا — رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘
انہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اُٹھے۔ ’’سُنو، سُنو، سُنو……‘‘
رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے— ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کر پائے؟‘‘
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا — ’’اِس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا —— ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اُسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا… آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے … اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے … اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے… سیتا … لاجونتی … اور سندر لال بابو نے رونا شروع کر دیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سُرخ جھنڈے اُٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندر لال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا — ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی — ’’شری رام چندر ‘‘……
اور پھر بہت سی آوازیں آئیں— ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میں شامل ہو گئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جا رہے تھے، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے —— اور ان کے درمیان کہیں سندر لال جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے ۔
’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے…!‘‘
ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہو پائی تھی اور محلہ ملاّ شکور کے مکان 414 کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘ لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپو لے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا—
’’بدھائی ہو سندر لال۔‘‘
سندر لال نے میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا — ’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
’’میں نے لاجو بھابی کو دیکھا ہے۔‘‘
سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا —— ’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘ اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑ دیا۔
’’واگہ کی سرحد پر۔‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا ’’کوئی اور ہو گی۔‘‘
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو …‘‘
’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اُٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا،اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حُقّے پر سے اُٹھا لی اور بولا— ’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘
’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر—‘‘
’’ہاں ہاں ہاں‘‘ اور سندر لال نے خود ہی کہہ دیا ’’تیسرا ماتھے پر۔‘‘ وہ نہیں چاہتا تھا، اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندولے یاد آ گئے، جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوا لیے تھے، جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرما جاتی تھی — اور گم ہو جاتی تھی، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہو گئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لُٹ جانے سے وہ مفلس ہو گئی ہو … سندر لال کا سارا جسم ایک اَن جانے خوف، ایک اَن جانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پھُنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا—
’’لاجو واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘
لال چند نے کہا — ’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا نا ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا — ؟‘‘ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا پھر؟‘‘
رسالو بھی اپنی چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا— ’’سچ مچ آ گئی ہے لجونتی بھابی؟‘‘
لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں —لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہمارے والنٹیر اعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں، ان میں ادھیڑ، بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہو گئے۔ اس وقت اُدھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابی کو دکھاتے ہوئے کہا — ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو … دیکھو … جتنی عورتیں تم نے دی ہیں، ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی ؟’’ اور وہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چھُپا رہی تھی۔‘‘
پھر جھگڑا بڑھ گیا ۔ دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘ واپس لے لینے کی ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا — ’’لاجو — لاجو بھابی …‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔
اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا، جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام چُپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لاجو آئی بھی پر نہ آئی… اور سندر لال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا، جیسے وہ بیکانیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھانو میں، زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ مُنھ سے اتنا بھی نہیں نکلتا — ’’پانی دے دو۔‘‘ اسے یوں محسوس ہوا، بٹوارے سے پہلے بٹوارے کے بعد کا تشدّد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو، سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہا کرتا تھا اور اس کی بھابی بنتو — تو وہ جھٹ سے کہتا ’’مر گئے‘‘ اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بے خبر بالکل عاری آگے چلاجاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر، انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑا ہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔
اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشدّد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘ کر لیتے۔ گویا رومال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہو جاتا تھا۔ اب ’’گپتی‘‘ کا رومال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا کاروبار پُرانے زمانے کی داستان معلوم ہو رہا تھا، جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فروخت کا قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک اَن گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا اُن کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو اُنگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑ جاتا ہے اور اس کے اردگرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سُرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں … ازبیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابلِ قبول عورت ایک اعترافِ شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سِسکیاں لیتی ہے…
سندر لال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا، لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے، لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اُس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا،کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔
اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندر لال کو جانتی تھی،اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیر مرد کے ساتھ زندگی کے دن بِتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا؟ سندر لال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئے تھی … عادتاً محض عادتاً —— دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیّاد کے دام سے بھاگ جانے کی آسانی تھی اور وہ سندر لال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق — دائیں بُکل اور بائیں بُکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اب وہ سندر لال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی، ایک اُمید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ —
سندر لال کو دھچکا سا لگا۔ اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھا اور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں ۔ وہ موٹی ہو گئی تھی — سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا، وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گھُل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہو چکی ہو گی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہو گی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا،لیکن وہ چُپ رہا کیونکہ اس نے چُپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا —— لیکن ایک چیز وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولایا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ غم کی کثرت سے ’’موٹی‘‘ ہو گئی تھی اور ’’صحت مند‘‘ نظر آتی تھی، لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے…‘‘
مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوا۔ لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا —— ’’ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت ——‘‘
اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گُم ہو کر رہ گئی ۔ ان سب آوازوں سے الگ کالکا پرشاد کی پھٹتی اور چلاّتی آواز آ رہی تھی۔ وہ کھانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی حقیقت، اس نئی شدھی کا شدّت سے قائل ہو چکا تھا۔ یُوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیا وید، کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنانا چاہتا ہے… ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھِرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جا رہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیّت دیے جانے پر تاسف بھی۔
لاجونتی کے چلے آنے پر بھی سندر لال بابو نے اسی شدّ و مد سے ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھا دیا تھا اور وہ لوگ جنھیں سندر لال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی، قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔ مکان 414 کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملاّ شکور کی بہت سی عورتیں سندر لال بابو سوشل ورکر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔
لیکن سندر لال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آ چکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندر لال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کر لیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لاجو جو پہلے خوف سے سہمی رہتی تھی، سندر لال کے غیر متوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھُلنے لگی۔
سندرلال، لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک اَن جانی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی کہ سندر لال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دھُل جائیں۔ لیکن سندرلال، لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کھُل جانے میں بھی ایک طرح سے سِمٹی رہتی۔ البتہ جب سندر لال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندر لال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘ ’’یو نہیں‘‘ ’’اونھوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندر لال پھر اونگھ جاتا… البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندر لال نے لاجونتی کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا ——
’’کون تھا وہ؟‘‘
لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا —— ’’جُمّاں‘‘ —— پھر وہ اپنی نگاہیں سندر لال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلارہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کر لیں اور سندر لال نے پُوچھا ——
’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مارتا تو نہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں‘‘… اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی … اب تو نہ مارو گے؟‘‘
سندر لال کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا —— ’’نہیں دیوی! اب نہیں … نہیں ماروں گا…‘‘
’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، لیکن سندر لال نے کہا —— ’’جانے دو بیتی باتیں۔ اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا، اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کی من کی من ہی میں رہی۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’’دیوی‘‘ کا بدن ہو چکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ۔ لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔ وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی، جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکا ایکی اس کی طرف متوجہ ہو جائے …
جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندر لال بابو نے پھر وہی پرانی بدسلوکی شروع کر دی تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ لاجو سے بہت ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی … وہ سندر لال کی، وہ پرانی لاجو ہو جانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندر لال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ — لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے، جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی… اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہو سکتی ہے، پر لاجو نہیں ہو سکتی۔ وہ بس گئی، پر اُجڑ گئی … سندر لال کے پاس اُس کے آنسو دیکھنے کے لیے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لیے کان!… پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّ شکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اُسی آواز میں گاتا رہا ——
’’ہتھ لائیاں کملان نی، لاجونتی دے بُوٹے…‘‘
٭٭٭
کلیانی
اب اسے ان کالی،بھوری راہوں پہ چلنے سے کوئی ڈر نہ آتا تھا، جہاں بے شمار گڑھے تھے، جن میں کالا پانی، بمبئی کے اس صنعتی شہر کی میل ہمیشہ جمع رہتی تھی اور کبھی تہ پہ تہ بیٹھتی۔ بے شکل سے پتھّر، اِدھر سے اُدھر جیسے شوقیہ پڑے تھے۔ بے کار، آخری روڑا ہونے کے لیے—اور وہ — شروع کے دن جب ٹانگیں کانپتی تھیں اور تنکے بھی روکنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گلی کے موڑ پہ دیسی صابن کے بڑے بڑے چاک بنانے والا اور اس کے پڑوس میں کا حجّام دیکھ رہے ہیں، اور برابر ہنس رہے ہیں۔ کم سے کم رو بھی نہیں رہے ہیں۔ پھر ’باجو‘ کا کوئیلے والا، جو آپی تو شاید اس چکلے میں کبھی نہ گیا تھا، اس پہ بھی اس کا منھ کالا تھا…
بغل میں پہلے مالے پہ کلب تھی، جہاں چوری کی رَم چلتی تھی اور یاری کی رَمی۔ اس کی کھڑکیاں کسی یوگی آنکھوں کی طرح سے باہرکی بجائے اندر من کے چکلے میں کھلتی تھیں اور ان میں سگریٹوں کے دھوئیں کی صورت میں آہیں نکلتی تھیں۔ لوگ یوں تو جوئے میں سیکڑوں کے ہاتھ دیتے تھے، مگر سگریٹ ہمیشہ گھٹیا پیتے تھے — بلکہ بیڑی، صرف بیڑی، جس کا جوئے کے ساتھ وہی تعلق ہوتا ہے جو پنسلین کا آتشک سے… یہ کھڑکیاں اندر کی طرف کیوں کھلتی تھیں؟ نہ معلوم کیوں؟ مگر کوئی خاص فرق نہ پڑتا تھا،کیونکہ اندر کے صحن میں آنے والے مرد کی صرف چھایا ہی نظر آتی، جس سے معاملہ پٹائی ہوئی لڑکی اسے اندر لے جاتی، بٹھاتی اور ایک بار ضرور باہر آتی۔ نل پر سے پانی کی بالٹی لینے، جو صحن کے عین بیچوں بیچ لگا ہوا تھا اور دونوں طرف کی کھولیوں کی طرح طرح کی ضرورتوں کے لیے کافی تھا۔ پانی کی بالٹی اُٹھانے سے پہلے لڑکی ہمیشہ ہمیشہ اپنی دھوتی یا ساری کو کمر میں کستی اور گاہک لگ جانے کی اکڑ میں کوئی نہ کوئی بات اپنی ہم پیشہ بہن سے ضرور کہتی—اے گرجا! جرا چاول دیکھ لینا، میرے کو گاہک لگا ہے … پھر وہ اندر جا کر دروازہ بند کر لیتی۔ تبھی گرجا سندری سے کہتی—کلیانی میں کیا ہے ری،آج اسے دوسرا کسٹمر لگا ہے؟ لیکن سندری کے بجائے جاڑی یا کھُرسید، جواب دیتی —— اپنی اپنی قسمت ہے نا؟… تبھی کلیانی والے کمرے سے زنجیر لگنے کی آواز آتی اور بس۔ سندری ایک نظر بند دروازے کی طرف دیکھتی اور اپنے سنے ہوئے بالوں کو چھانٹتی، تولیے سے پونچھتی ہوئی گنگنانے لگتی —’رات جاگی رے بلم، رات جاگی…، اور پھر ایکا ایکی گرجا سے مخاطب ہو اُٹھتی— اے گرجا! کلیانی کے چاول اُبل رہے ہیں۔ دیکھتی نہیں کیسی گڑ گڑ کی آواز آ رہی ہے۔ اس کے برتن سے؟ اور پھر تینوں چاروں لڑکیاں مل کر ہنستیں اور ایک دوسری کے کولھے میں چپّے دینے لگتیں۔ تبھی گرجا بلبلا اُٹھتی اور کہتی—ائیا جور سے کیوں مارا، رنڈی! جانتی ہے، ابھی تک دُکھ رہا ہے میرا پھُول؟ کان کو ہاتھ لگایا، بابا! میں تو کیا میری آل اولاد بھی کبھی کسی پنجابی کے ساتھ نہ بیٹھے گی۔ پھر گرجا بغل کی کھولی میں کسی چھوکری کو آواز دیتی—
گنگی تیرا پوپٹ کیا بولتا—؟
گنگی کی شکل تو نہ دکھائی دیتی، صرف آواز آتی—میرا پوپٹ بولتا، بھج من رام، بھج من رام …
—مطلب گنگی کو یاتو سر میل ہے اور یا پھر کوئی کسٹمرنہیں لگا۔
مہی پت لال اب کے مہینوں کے بعد ادھر آیا ہے۔ بیچ میں منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے وہ یہاں سے کچھ ہی فرلانگ دور ایک نیپالی لڑکی چونی لا کے پاس چلا گیا تھا اور اس کے بعد چھیانوے نمبر کی ایک کرشچین چھوکری میں پھنس گیا، جس کا اصلی نام تو کچھ اور تھا لیکن وہاں کی دوسری لڑکیاں اور دلاّل اسے اولگا کے نام سے پکارتے تھے۔ ادھر کلیانی کو کچھ پتہ بھی نہ تھا، کیوں کہ اس دھندے میں تو دوچار مکانوں کا فاصلہ بھی سیکڑوں میل کا ہوتا ہے۔ لڑکیاں زیادہ سے زیادہ پکچر دیکھنے کو نکلتی تھیں اور پھر واپس … جس منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مہی پت دوسری لڑکیوں کے پاس چلا گیا تھا، اسی کے لیے اس اڈّے پر لوٹ آیا۔ لیکن یہ بات طے تھی کہ اتنے مہینوں کے بعد وہ کلیانی کو بھول چکا تھا۔ حالانکہ ’ملک‘ جانے کے لیے اس نے کلیانی کو دو سو روپئے بھی دیے تھے، تب شاید نشے کا عالم تھا، جیسا کہ اب تھا۔ بیئر کا پورا پیگ پی جانے کے کارن مہی پت لال کے دماغ میں کسی اور ہی عورت کی تصویر تھی، اور وہ بھی نا مکمل۔ کیونکہ اسے مکمّل تو مہی پت ہی کو کرنا تھا—ایک مصور کی طرح سے، جو کہ مرد ہوتا ہے اور تصویر،جو کہ عورت ہوتی ہے…
اندر آتے ہی مہی پت نے صحن کے پہلے پیرا پٹ کو پھلانگا۔ تین چار سیڑھیاں نیچے اُترا— لوگ سمجھتے ہیں پاتال، نرک کہیں دور، دھرتی کے اندر ہیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ وہ صرف دو تین سیڑھیاں نیچے ہیں۔ وہاں کوئی آگ جل رہی ہے اور نہ اُبلتے، کھولتے ہوئے کنڈ ہیں۔ ہو سکتا ہے سیڑھیاں اُترنے کے بعد پھر اسے کسی اوپر کے تھڑے پہ جانا پڑے، جہاں سامنے دوزخ ہے، جس میں ایسی ایسی اذیتیں دی جاتی ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سیڑھیاں اُترنے کے بعد، صحن میں پانو رکھنے کے بجائے مہی پت لال کھولیوں کے سامنے والے تھڑے پہ چلا گیا، کیونکہ پکا ہونے کے باوجود صحن میں ایک گڑھا تھا، جس میں ہمیشہ ہمیشہ پانی جمع رہتا تھا۔ برس ڈیڑھ برس پہلے بھی یہ گڑھا ایسا تھا اور اب بھی ایسا ہی۔ لیکن گڑھے کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ اس کا پتہ ہو۔ اوپر صحن کے کھلے ہونے کی وجہ سے دشمی کا چاند گڑھے کے پانی میں جھلملا رہا تھا، جیسے اُسے میل، سر میل کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ نل سے پانی کا چھینٹا اس پر پڑتا تو چاند کی چھبی کانپنے لگتی، پوری کی پوری …
کچھ گاہک لوگ گرجا، سندری اور جاڑی کو یوں ٹھونک بجا کے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچّے پکّے گھڑے ہوں۔ ان میں سے کچھ اپنی جیبیں ٹٹول رہے تھے۔ مستری جاڑی کے ساتھ جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ گرجا، سندری، کھُرسید سے زیادہ بدصورت تھی، مگر تھی آٹھ اینٹ کی دیوار۔ حیرانی تو یہ تھی کہ لڑکیوں میں سے کسی کو حیرانی نہ ہو رہی تھی۔ وہ مرد اور اس کے پاگل پن کو اچھی طرح سے جانتی تھیں۔ مہی پت نے سندری کو دیکھا جو ویسے تو کالی تھی، مگر عام کونکنی عورتوں کو طرح تیکھے نقش نینوں والی۔ پھر کمر سے نیچے اس کا جسم، ’باپ رے‘ ہو جاتا تھا، تبھی مہی پت کے کرتے کو کھینچ پڑی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے کلیانی کھڑی تھی اور ہنستے ہوئے اپنے دانتوں کے موتی رول رہی تھی۔ مگر وہ دُبلی ہو گئی تھی۔ کیوں؟ نہ معلوم کیوں؟ چہرہ یوں لگ رہا تھا، جیسے دو آنکھوں کے لیے جگہ چھوڑ کر کسی نے ڈھولک پہ چمڑہ مڑھ دیا۔ چونکہ عورت اور تقدیر ایک ہی بات ہے، اس لیے مہی پت کلیانی کے ساتھ تیسری کھولی میں چلا گیا۔
کلب گھر کی کھڑکی میں سے کسی نے جھانکا اور اوبھ کر بساط اُلٹ دی۔ کلیانی نے باہر آ کر نل پہ بالٹی بھری، دھوتی کو کمر میں کسا اور آواز دی—او گرجا، تھوڑا ہمارا گھڑی سنبھالنا اور پھر وہ پانی لے کر کھولی میں چلی گئی…
پاس کی کھولی سے میڈم کی آواز آئی— ایک ٹیم کا، دو ٹیم کا؟
اندر کلیانی نے مہی پت کو آنکھ ماری اور میڈم والی کھولی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ ایک ٹیم، اور پھر اس نے پیسوں کے لیے مہی پت کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا، جسے پکڑ کر مہی پت اسے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ پھر اُٹھ کر اُس نے پان سے پٹی، لال لال مہر سی کلیانی کے ہونٹوں پہ لگادی جسے دھوتی کے پلو سے پونچھتی ہوئی وہ ہنسی — اتنے بے صبر؟
اور پھر ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی — تم ہم کو تیس روپئے دے گا، پر ہم میڈم کو ایک ٹیم کا بولے گا۔ تم بھی اس کو نہیں بولنے کا— آں؟
مہی پت نے ایسے ہی سر ہلا دیا — آں
بدستور ہاتھ پھیلائے ہوئے کلیانی بولی — جلّی نکال۔
پیسے؟ — مہی پت بولا۔
کلیانی نے اب کے رسم نہیں ادا کی، وہ سچ مچ ہنس دی۔ نہیں، وہ شرما گئی۔ ہاں، وہ دھندا کرتی تھی۔ اور شرماتی بھی تھی۔ کون کہتا ہے، وہاں عورت عورت نہیں رہتی؟ وہاں بھی حیا اس کا زیور ہوتا ہے اور حربہ — جس سے وہ مرتی ہے اور مارتی بھی۔ مہی پت نے تیس روپئے نکال کر کلیانی کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ کلیانی نے ٹھیک سے گِنا بھی نہیں۔ اس نے تو بس پیسوں کو چوما، سر اور آنکھوں سے لگایا، بھگوان کی تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑے اور میڈم کو ایک ٹائم کے پیسے دینے اور اپنے حصّے کے پانچ لے کر رکھنے، اندر کے دروازے کی طرف سے اور بھی اندر چلی گئی۔ مہی پت کو جلدی تھی۔ وہ بے صبری سے دُرگا میّا کی تصویر کو دیکھ رہا تھا، جو شیر پہ بیٹھی تھی اور جس کے پانو میں راکھشس مرا پڑا تھا۔ دُرگا کی درجنوں بھجائیں تھیں، جن میں سے کسی میں تلوار تھی اور کسی میں برچھی اور کسی میں ڈھال۔ ایک ہاتھ میں کٹا ہوا سر تھا، بالوں سے تھاما ہوا۔ اور مہی پت کو معلوم ہو رہا تھا، جیسے وہ اس کا اپنا سر ہے۔ لیکن دُرگا کی چھاتیاں اس کے کولھے اور رانیں بنانے میں مصوّر نے بڑے جبر سے کام لیا تھا۔ دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ وہ کوئی بات نہ تھی لیکن ان پہ لپکتی ہوئی سیل اور اس میں گڈ مڈ کائی نے عجیب بھیانک سی شکلیں بنا دی تھی، جن سے طبیعت بیٹھ بیٹھ جاتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ دیواریں نہیں، تبتی اسکول ہیں، جن پر نرک اور سورگ کے نقشے بنے ہیں۔ گنہگاروں کو اژدھے ڈس رہے ہیں اور شعلوں کی لپلپاتی ہوئی زبانیں انھیں چاٹ رہی ہیں۔ پورا سنسار کال کے بڑے بڑے دانتوں اور اس کے کھوہ ایسے منھ میں پڑا ہے۔
— وہ ضرور نرک میں جائے گا… مہی پت … جانے دو!
کلیانی لوٹی اور لوٹتے ہی اس نے اپنے کپڑے اُتارنے شروع کر دیے۔
یہ کھیل مرد اور عورت کا ——جس میں عورت کو اذیّت نہ بھی ہو، تو بھی اس کا ثبوت دینا پڑتا ہے اور اگر ہو تو مرد اُسے نہیں مانتا۔
مہی پت پہلے تو ایسے ہی کلیانی کو نوچتا کاٹتا رہا۔ پھر وہ کود کر پلنگ سے نیچے اُتر گیا۔ وہ کلیانی کو نہیں، کائنات کی عورت کو دیکھنا چاہتا تھا، کیونکہ کلیانیاں تو آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ مہی پت بھی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن عورت وہیں رہتی ہے اور مرد بھی۔کیوں؟ یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ حالانکہ اس میں سمجھ کی کوئی بات ہی نہیں۔
ایک بات ہے ست جگ، ددا پر اور ترتیا جگوں میں تو پورا نیائے تھا، پھر بھی عورتیں محبت میں کیوں چوری کرجاتی تھیں؟ جب گنکا ویشیاکیوں تھیں؟ آج تو انیائے ہے— پگ پگ پہ انیائے۔ پھر انھیں کیوں روکا جاتا ہے؟ کیوں ان پر قانون لگائے جاتے ہیں؟ جو روپیہ ٹکسال سے آتا ہے، اُس کی قیمت آٹھ آنے رہ جاتی ہے۔ افلاس اور وافر پیسے کے میل جول کی جتنی ضرورت آج ہے، تاریخ میں کبھی ہوئی ہے؟… دبا لیں اسے تاکہ گھر کی لکشمی باہر نہ جائے مگر دولت، پیسہ تو Goddess Bitch ہے، وہ کُتیا بو پہ آئے گی تو جائے گی ہی…
مہی پت کو الجھاوے کی ضرورت تھی، اسی لیے اُسے کائنات کی عورت کے پیچ و خم کھا گئے۔ اس نے ایک بیئر کے لیے کہا، لیکن اس سے پہلے کہ کلیانی کا کالا وجود اُٹھ کر لڑکے کو آواز دے، وہ خود ہی بول اُٹھا — رہنے دو، اور اس نظارے کو دیکھنے لگا جو نشے سے بھی زیادہ تھا۔ پھر جانے کیا ہوا، مہی پت نے جھپٹ کر اتنے زور سے کلیانی کی ٹانگیں الگ کیں کہ وہ بلبلا اُٹھی۔ اپنی بربریت سے گھبرا کر مہی پت نے خود ہی اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ اب کلیانی پلنگ پر پڑی تھی او ر مہی پت گھٹنوں کے بل نیچے فرش پہ بیٹھا ہوا تھا اور اپنے منھ میں زبان کی نوک بنا رہا تھا… کلیانی لیٹی ہوئی اور چھت کو دیکھ رہی تھی، جہاں پنکھا جالے میں لپٹا ہوا، ایک آہستہ رفتار سے چل رہا تھا۔ پھر ایکا ایکی کلیانی کو کچھ ہونے لگا۔ اس کے پورے بدن میں مہی پت اور اس کی زبان کے کارن ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ اور وہ اس چیونٹے کی طرح سے تلملانے لگی، جس کے سامنے بے رحم بچّے جلتی ہوئی ماچس رکھ دیتے ہیں…
جبھی اپنے آپ سے گھبرا کر مہی پت اوپر چلا آیا۔ اس کے بدن میں بے حد تناؤ تھا، اور بجلیاں تھیں، جنھیں وہ کیسے بھی جھٹک دینا چاہتا تھا۔ اس کے ہاتھوں کی پکڑ اس قدر مضبوط تھی کہ جابر سے جابر آدمی اس سے نہ نکل سکتا تھا۔ اس نے ہانپتی ہوئی کلیانی کی طرف دیکھا۔ اُسے یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ ایک پیشہ ور عورت کی چھاتیوں کا وزن بھی ایکا ایکی بڑھ سکتا ہے اور ان پہ کے حلقے اور دانے پھیل کر اپنے مرکز، ابھرے ہوئے مرکز کو بھی معدوم کرسکتے ہیں۔ ان کے اردگر اور کولھوں اور رانوں پر سیتلا کے داغ اُبھر سکتے ہیں۔ اپنی وحشت میں وہ اس وقت کائنات کی عورت کو بھی بھول گیا اور مرد کو بھی۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہ رہا کہ وہ خود کہاں ہے اور کلیانی کہاں؟ وہ کہاں ختم ہوتا ہے اور کلیانی کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ وہ اس قاتل کی طرح سے تھا جو چھت پر سے کسی کو ڈھکیل دیتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے نا کہ اتنی بلندی سے گر کر وہ بیان دینے کے لیے بھی زندہ نہ رہے گا اور وہ اس پہ خودکشی کا الزام لگا کر خود بچ نکلے گا۔ ایک جست کے ساتھ اس نے اپنا، پورے بدن کو کلیانی پہ پھینکنا شروع کر دیا۔
ایک دلدوز سی چیخ نکلی اور بلبلاہٹ سنائی دی۔ سیل اور کائی سے پٹی دیواروں پہ پنکھوں کے پر اپنی بڑی بڑی پرچھائیاں ڈال رہے تھے۔ جانے کس نے پنکھے کو تیز کر دیا تھا؟ مہی پت پسینے سے شرابور تھا اور شرمندہ بھی، کیونکہ کلیانی رو رہی تھی، کراہ رہی تھی۔ یا وہ ایک عام کسبی کی طرح سے گاہک کو لات مارنا نہ جانتی تھی اور یا پھر وہ اتنے اچھے گاہک کو کھو دینے کے لیے تیا ر نہ تھی۔
سرہانے میں منھ چھپائے، کلیانی اُلٹی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے شانے پھڑکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ تبھی یہی مہی پت ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے کلیانی کے چہرے کو ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی، مگر کلیانی نے اسے جھٹک دیا۔ وہ سچ مچ رو رہی تھی۔ اس کے چہرے کو تھامنے میں مہی پت کے اپنے ہاتھ بھی گیلے ہو گئے تھے۔ آنسو تو اپنے آپ نہیں نکل آتے۔ جب جبر اور بے بسی خون کی ہولی کھیلتے ہیں، تبھی آنکھیں چھان پٹک کر اس لہو کو صاف کرتی ہوئی چہرے پہ لے آتی ہیں۔ اگر اسے اپنے ہی رنگ میں لے آئیں تو دنیا میں مرد دکھائی دے نہ عورت۔
کلیانی نے پھر اپنا چہرہ چھڑا لیا۔
مہی پت پہلے صرف شرمندہ، پھر سچ مچ شرمندہ تھا۔ اس نے کلیانی سے معافی مانگی اور مانگتا ہی چلا گیا۔ کلیانی نے پلنگ کی چادر سے آنکھیں پونچھیں اور بے بسی سے مہی پت کی طرف دیکھا۔ پھر وہ اُٹھ کر دونوں بازو پھیلاتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ اس کی چوڑی چکلی چھاتی پر اپنے گھنگھریالے بالوں والا کونکنی سر رکھ دیا۔ پھر اس کی گھگھی بندھ گئی، جس سے نکالنے میں مہی پت کو اور بھی تلذّذ کا احساس ہوا— اور کلیانی کو بھی۔ اس نے اپنے گھاتک ہی کی پناہ ڈھونڈ لی۔ مرد تو مرد ہو گا ہی، باپ بھی تو ہے، بھائی بھی تو ہے… عورت عورت ہی سہی، مگر وہ بیٹی بھی تو ہے، بہن بھی تو ہے…
—— اور ماں …
مہی پت کی آنکھوں میں سچ مچ کے پچھتاوے کو دیکھتے ہی تصویر اُلٹ گئی۔ اب اس کا سر کلیانی کی چھاتی پر تھا اور وہ اسے پیار کر رہی تھی ۔ مہی پت چاہتا تھا کہ ہ اس عمل کو انجام پہ پہنچائے بغیر ہی وہاں سے چلا جائے، لیکن کلیانی اس توہین کو برداشت نہ کرسکتی تھی۔
کلیانی نے پھر اپنے آپ کو اذیت ہونے دی۔ بیچ میں ایک دو بار وہ درد سے کراہی بھی اور پھر بولی … ہائے میرا پھول … بھگوان کے لیے … میرے کو سوئی لگوانا پڑتا… پھر آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ اُس نے دکھ اور سکھ سہتے ہوئے کائنات کے مرد کو ختم کر دیا اور اُسے بچّہ بنا کر گود میں لے لیا۔ مہی پت کے ہر اُلٹے سانس کے ساتھ کلیانی بڑی نرمی، بڑی ملائمیت اور بڑی ہی ممتا کے ساتھ اُس کا منھ چوم لیتی تھی، جس سے سگریٹ اور شراب کا تعفّن لپک رہا تھا۔
دھونے دھلانے کے بعد مہی پت نے اپنا ہاتھ کپڑوں کی طرف بڑھا دیا، مگر کلیانی نے تھام لیا اور بولی —میرے کو بیس روپیہ جیاستی دو۔
بیس روپیہ؟
ہاں— کلیانی نے کہا — ہم تمھارا گن گائے گا۔ ہم بھولا نہیں، او دن جب ہم ’ملک‘ گیا تھا، تو تم ہم کو دو سو روپیہ روکڑا دیا— ہم کاردار کا بڑا مندر میں ایک ٹانگ سے کھڑا ہو کے تمھارے واسطے پرارتھنا کیا اور بولا — میرا مہی کا رکھشا کرنا بھگوان— اس کو لمبا جندگی دینا، پیسہ دینا—
اور کلیانی امید بھری نظروں سے پہلی اور ابکی پرارتھنا کا اثر دیکھنے لگی۔
مہی پت کے نتھنے نفرت سے پھولنے لگے… پیشہ ور عورت ! پچھلی بار دو سو روپئے لینے سے پہلے بھی ایسے ہی ٹسوے بہائے تھے اس نے— یوں روئی چلاّئی تبھی، جیسے میں کوئی انسان نہیں جانور ہوں، وحشی ہوں… مگر، اور بیس روپئے؟ پھر رونے کی کیا ضرورت تھی، آنسو بہانے کی؟ ویسے ہی مانگ لیتی تو کیا میں انکار کر دیتا؟… جانتی بھی ہے، میں پیسے سے انکار نہیں کرتا۔ دراصل انکار مجھے آتا ہی نہیں۔ اسی لیے تو بھگوان کا سو شکر کرتا ہوں کہ میں عورت پیدا نہیں ہوا، ورنہ —— میں تو یہاں منھ مانگے دینے کا قائل ہوں، جس سے پھر گناہ کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسے ہی آدمی کا تو انتظار کیا کرتی ہیں یہ — اور جب وہ آتا ہے تو اس سے جھوٹ بولنے، اس کے کپڑے اُتارنے سے بھی نہیں چوکتیں… کہتی ہیں، میں نے سوچا تھا تم منگل کو جرور آؤ گے… منگل کو کیا ہے بھائی؟ … منگل کو میں نے بھگوان سے پرارتھنا کی تھی!… یہ رونا … شاید سچی روئی ہو— میں نے بھی تو ایک اندھے کی طرح سے کہیں بھی چلنے دیا اپنے آپ کو۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ تاؤ کتنا اچھا تھا!… مگر میں نے جو اذیّت دی ہے اُسے، اس سے نجات پانے کا ایک ہی طریقہ ہے — دے دو روپئے— مگر کیوں؟ پہلے ہی میں نے اُسے دو ٹیم کے پیسے دیے اور ایک ہی ٹایم بیٹھا۔
مہی پت کے حیص بیص کو دیکھ کر کلیانی نے کہا—کیا سوچنے کو لگ گیا؟ دے دو نا— میرا بچّہ تم کو دعا دے گا…
تیرا بچّہ؟!
ہاں—تم نے نہیں دیکھا؟
نہیں— کہاں، کس سے لیا؟
کلیانی ہنس دی۔ پھر وہ لجا گئی۔ اس پہ بھی بولی — کیا مالم کس کا ؟ میرے کو سکل تھوڑا دھیان میں رہتا؟ کیا کھبر تمھارا ہو—
مہی پت نے گھبرا کر کرتے کی جیب میں سے بیس روپئے نکال کر کلیانی کے ہاتھ پر رکھ دیے، جو ابھی تک برہنہ کھڑی تھی اور جس کی کمر اور کولھوں پر پڑا ہوا چاندی کا پٹکا چمک رہا تھا۔ ایک ہلکا سا ہاتھ کلیانی کے پیچھے تھپتھپاتے ہوئے مہی پت نے کچھ اور سوچ لیا۔ کلیانی نے ساری پکڑ کر لپیٹی ہی تھی کہ وہ بولا— اگر ایک ٹائیم اور بیٹھ جاؤں تو؟ (پیسے دے دیے ہیں)
بیٹھو— کلیانی نے بنا کسی جھجھک کے کہا اور اپنی ساری اُتار کر پلنگ پر پھینک دی۔ چُلوں چُلوں کرتا ہوا اس کا گوشت سب مار بھول چکا تھا۔ عقل حیوانی سے بھی تجاوز کر چکا تھا… لیکن مہی پت نے سر ہلا دیا— اب دم نہیں رہا!
ہوں— کلیانی نے کہا — بہت جن آتا میرے ادھر، پر تم سا کڑک ہم نہیں دیکھا، سچی— تم جاتا تو بہت دن یہ (ناف) ٹھکانے پہ نہیں آتا۔
… چاند گڑھے پر سے سرک گیا تھا۔ کوئی بالکل ہی لیٹ جائے، تو اسے دیکھ پائے۔ تبھی کلیانی مہی پت کا ہاتھ پکڑ کر اس کمرے میں لے آئی، جہاں گرجا، سندری، جاڑی وغیرہ تھیں۔ جاڑی، مستری اور اس کے بعد ایک بوہرے کو بھی بھگتا چکی تھی۔ ایک سردار سے جھگڑا کر چکی تھی۔ جب مہی پت آیا تو اُس نے کھُرسید کے کہنی ماری اور بولی — آیا، کلیانی کا مرد!… اس لیے کہ پہلے جب مہی پت ادھر آیا تھا، تو ہمیشہ کلیانی ہی کے پاس—
کلیانی کے ساتھ کھولی میں آتے ہوئے، مہی پت نے باتھ روم کے پاس پڑی ہوئی گٹھری کو دیکھا، جس کے پاس بیٹھی ہوئی گرجا اپنے پلّو سے اُسے ہوا کر رہی تھی۔ کلیانی نے گٹھری کو اُٹھا لیا اور مہی پت کے پاس لاتے ہوئے بولی—
دیکھو، دیکھو میرا بچّہ…
مہی پت نے اس لجلجے چار پانچ مہینے کے بچّے کی طرف دیکھا، جسے گود میں اُٹھائے ہوئے کلیانی کہہ رہی تھی— اسی ہلکٹ کو پیدا کرنے، دودھ پلانے سے ہم یہ ہو گیا۔ کھانے کو کچھ ملتا نہیں نا — اس پہ تم آتا تو —
پھر ایکا ایکی مہی پت کے کان کے پاس منھ لاتے ہوئے کلیانی بولی —سندری کو دیکھتا؟ تم بولے گا تو ہم اگلے ٹائیم سندری کو لادے گا… نہیں، نہیں، پرسوں ہم آپی اچھا ہو جائے گا۔ یہ سب جگہ بھر جائے گا نا … اور کلیانی نے اپنی چھاتی اور اپنے کولھوں کو چھوتے ہوئے کہا— یہ سب، جن سے تم اپنا ہاتھ بھرتا، اپنا باجو بھرتا—ٹھیک ہے۔ کچھ ہاتھ میں بھی تو آنا مانگتا—سندری کو لینا ہوئیں گا، تو میرے کو بولنا۔ ہم سب ٹھیک کر دے گا۔ پر تم کو آنے کا میرے پاس۔ گرجا کے پاس نہیں آنے کا۔ اوجھنا اوں آں بوت کرتا، بوت نکھرا اس کا… اور پھر بچّے کو اپنے بازوؤں میں جھلاتے ہوئے کلیانی بولی— ہم اس کا نام اچمی رکھا۔
اچمی ۔ اچمی کیا۔
یہ تو ہم کو نہیں مالم— کلیانی نے جواب دیا۔ اور پھر تھوڑا ہنسی… کوئی آیا تھا کسٹمر، بولا— میرا تیرے کو ٹھہر گیا تو اس کا نام اچمی رکھنے کا۔ یہ تو ہم نہیں بولنے سکتا، اسی کا ٹھہرا کہ کس کا، پر نام یاد رہ گیا میرے کو۔ او تو پھر اَیاچ نہیں اور تم بھی کوچھ نہیں بولا… اور پھر اور ہنستے ہوئے بولی— اچھا، اگلے ٹیم دیکھیں گا…
مہی پت نے ایک نظر اچمی کی طرف دیکھا اور پھر اردگرد کے ماحول کی طرف۔ یہاں پلے گا یہ بچّہ! بچّہ— میں تو سمجھتا تھا، ان لڑکیوں کے پاس آتا ہوں تو میں کوئی پاپ نہیں کرتا۔ یہ دس کی آشا رکھتی ہیں، تو میں بیس دیتا ہوں— یہ بچّہ؟!
—یہاں تو دم گھٹتا ہے … جاتے سمے تو گھٹتا ہی ہے—
مہی پت نے جیب سے پانچ کا نوٹ نکالا اور اسے بچّے پہ رکھ دیا— یہ اس دنیا میں آیا ہے، اس لیے یہ اس کی دکشنا۔
نہیں نہیں— یہ ہم نہیں لیں گا۔
لینا پڑے گی، تم انکار نہیں کرسکتیں۔
پھر واقعی کلیانی انکار نہ کرسکی۔ بچّے کی خاطر؟ مہی پت نے کلیانی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا — مجھے معاف کر دو کلیانی۔ میں نے سچ مچ آج تم سے جانوروں کا سلوک کیا ہے، لیکن مہی پت کی بات سے یہ بالکل پتہ نہ چلتا تھا کہ اب وہ ایسا نہ کرے گا۔ ضرور کرے گا وہ۔ اسی بات کا تو نشہ تھا اُسے، بیئر تو فالتو سی بات تھی۔
کلیانی نے جواب دیا— کوئی بات نہیں۔ پر تم آج کھلاس کر دیا، مار دیا میرے کو۔ اور وہ یہ شکایت کچھ اس ڈھب سے کر رہی تھی، جیسے مرنا ہی تو چاہتی تھی وہ۔ کیا اس لیے کہ پیسے ملتے ہیں، پیٹ پلتا ہے؟ … نہیں … ہاں، جب بھوک سے پیٹ دْکھتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے، دنیا میں سارے مرد ختم ہو گئے۔ عورتیں مر گئیں…
مہی پت نے پوچھا— یہ اچمی لڑکا ہے یا لڑکی؟
ایک عجیب سی کرن نے کلیانی کے پٹے، مار کھائے ہوئے چہرے کو منور کر دیا اور وہ چہرے کی پنکھڑیاں کھولتے ہوئے بولی—چھوکرا!
پھر کلیانی نے جلدی اچمی کا لنگوٹ کھولا اور دونوں ہاتھوں سے اُٹھا کر اچمی کے لڑکے پن کو مہی پت کے سامنے کرتی، اتراتی ہوئی بولی— دیکھو، دیکھو…
مہی پت کے منھ موڑتے ہی کلیانی نے پوچھا—اب کبھی آئیں گا؟
جلدی… مہی پت نے گھبرا کر جواب دیا اور پھر وہ باہر کہیں روشنیوں میں منھ چھپانے کے لیے نکل گیا۔
٭٭٭
مِتھُن
بازار ہی لمبا ہو گیا تھا اور یا پھر کاروبار چھوٹا … معلوم ہوتا تھا۔پچھم کی طرف، جہاں سڑک تھوڑا اُٹھتی، آسمان سے لپٹتی اور آخر ایک دم نیچے گرجاتی ہے، وہیں دنیا کا کنارہ ہے، جہاں سے ایک جست کر لیں گے، اس جینے کے ہاتھوں مر لیں گے۔
دن بھر سر دھننے کے بعد مگن ٹکلے —کباڑیے کو دو ہی چیزیں ہاتھ لگی تھیں۔ ایک فلورنٹین اور دوسری جیمنی رائے۔ فلورنٹین کو تو شاید کوئی سَر پھرا فلم پروڈیوسر کرایے پر لے بھی جاتا، مگر جیمنی رائے؟ کوئی بات نہیں۔ آج وہ اسے چھپا کر رکھے گا تو کل اس کے پوتے پڑپوتے اس سے کروڑوں کمائیں گے، جیسے آج بھی پچھم میں کسی کے ہاں سے لیونارڈو کے اسکیچ نکل آئیں تو آرٹ کے بازاروں میں ان کی بولی لاکھوں تک جاتی ہے۔ ان لاکھوں کروڑوں کے خیال ہی سے مگن لال کی آنکھوں میں بجلیاں کوندنے لگیں اور وہ یہ بھول ہی گیا کہ وہ چالیس بیالیس سال کا اور ٹکلا—گنجا ہونے کے باوجود کنوارہ ہے، اس لیے پوتوں اور پڑپوتوں کی بات ہی نہیں۔ مگن کرتا بھی کیا؟ وہ ایک عام ہندو تھا، اتنے بڑے فلسفے کا مالک ہونے کے باوجود جس کے اندر کا بنیاپن نہیں جاتا۔ وہ باتوں میں مایا اِت آدِ کہہ کر اُسے پرے دھکیل دیتا ہے، لیکن بھیتر سے اسے جی جان سے لگاتا ہے۔ دنیا بھر میں پیسے کی اگر کوئی پوجا کرتا ہے تو ہندو۔ آج بھی اس کے ہاں دیوالی کے روز پرات کے نیچے، جیوتی کے ساتھ، دودھ پانی میں نہایا، سندور میں لگایا ہوا روپیہ ملے گا۔ دسہرے کے دن اس کی گاڑی پہ صد برگ کے ہار ہوں گے اور سب نر ناری مل کر لکشمی کے مندر کو جائیں گے— پوجا کے لیے، پیسے کے لیے تو وہ یوسف سا برَ اور پدمنی ایسی پتنی کو بھی بیچنے کے لیے تیار ہو جائے۔
اور سامنے تھا سراجا— اِیوز بیٹری کا ایجنٹ۔ اس کی دکان تھوڑا پیپل کے گھیر کے پیچھے چھپی ہوئی تھی، لجلجے ہندو جس پہ صبح کے وقت آ کر پانی میں ملے دودھ کے لوٹے ڈال جاتے تھے اور دکان اور سڑک کے بیچ کی جگہ کیچ سے اَٹ جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد ہندستان میں رہ جانے والے سراجو کو لجلجے ہندوؤں کی اس رسم کا احترام کرنا ہی پڑتا تھا ۔ البتہ نہیں کرتے تھے تو دوغلے کتّے، جو دن بھر ٹانگ اُٹھا اُٹھا کر اس پیڑ پہ پیشاب کرتے رہتے تھے، جس کے بارے میں بھگوان نے کہا تھا— اور ورکشوں میں میں پیپل ہوں۔ ضرور وہ پچھلے جنم میں مسلمان ہوں گے جو سینتالیس کے فسادوں میں ہندوؤں کے ہاتھوں مارے گئے۔
سراجا ہمیشہ پیپل کی گولریں کھاتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی وجہ بازار کا مندہ ہونا یا بھوک نہ تھی۔ سراجا ہر اس چیز کو کھاتا تھا جو اس کی منی کو مغلّظ کر دے۔ ہاں، مسلمان لِنگ کٹوں کا یہی ہے نا۔ کھانا، پینا اور سمبھوگ کرنا۔ وہ دماغی طور پر کوئی ہو بو، کوئی خانہ بدوش ہیں، جو ہندستان میں رہیں تو پاکستان کی باتیں کریں گے۔ پاکستان میں ہوں گے تو —میرے مولا بُلا لو مدینے مجھے۔ انھیں کسی چیز سے لگاؤ نہیں۔مگن ٹکلے نے کئی بار اس بارے میں سوچا بھی — ان کا اللہ خوب عیش کرتا ہے۔ ایک اپنا بھگوان ہے، جو نیچے کے بجائے اوپر تِرکُٹی کے آس پاس ہی منزل ہوتا رہتا ہے۔ شاید سراجا جانے بوجھے بنا ایک تانترک تھا، جو بند دُرکھشا کے لیے کنڈنسی کو جگاتے اور اوپر کا راستہ بناتے تھے۔ وہ عورت کے اندر اکڑے پڑے رہتے، لیکن کسی طرح اپنے جوہرِ حیات کو نہ جانے دیتے۔ نجات کو اس خود غرضانہ طریقے سے پانے والوں، عورت کو صرف ایک ذریعہ بنانے والوں نے کبھی یہ سوچا کہ اس بیچاری کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اسے بھوکا، پیاسا، روتا، تڑپتا رکھ کر کیسے موکش کو پہنچ سکتا ہے کوئی؟ کس پرماتما کو پا سکتا ہے؟ پھر جو نجات بنددسے چھٹکارہ پا لینے میں ہے— پُرش کے لیے، استری کے لیے؟ سواتی بوند تو موتی نہیں، نہ سیپی موتی ہے، موتی تو بوند کے گرنے اور سیپی کے اسے اپنے اندر لے کر منھ بند کر لینے میں ہے۔
رات لپک آئی تھی۔ باہر وہ دنیا کا کنارا اندھیرے کے ساتھ کچھ اور بھی پاس رینگ آیا تھا۔ ریشم والے ولایتی رام، کشمیری بڈشاہ، حتیٰ کہ اڈپی کے چکر پانی کی دکان بھی بند ہو گئی تھی۔ ہو سکتا ہے مہینے کا دوسرا سنیچر ہونے کی وجہ سے اس کے سب اِدلی دوسے، سانبر ردا کسیری بک گئے ہوں۔ صرف سراج کی دکان کھلی تھی۔ نہ جانے وہ کس مار پہ تھا؟ شاید اس لیے کہ بیڑی کی ضرورت رات ہی کو پڑتی ہے، مگر وہ صبح، صبح کاذب ہی کو دکان کھول لیتا تھا، جو رات ہی کا حصّہ ہوتی ہے، اس کا آخری حصّہ۔ ورنہ صبح کہاں کسی کی رہی، وہ کمیونسٹوں کی ہولی۔ شاید سراج، ٹورسٹ ایجنٹ مائیکل کی انتظار میں تھا تاکہ وہ دونوں مل کر اگلے روز کہیں آگرے، کھجوراہو کا پروگرام بنا لیں، تھوڑے پیسے کما لیں۔ نہیں، سراج پیسے کے پیچھے تھوڑا جاتا تھا؟ وہ تو جاتا تھا ان پچھمی عورتوں کے پیچھے جو کثیر الازدواجی کی وجہ سے بھوکی پیاسی آتی تھیں اور یہاں آ کر ممتاز کی محبت کو اِدھر کے کسی بھی شاہجہاں طبیعت والے مرد پہ آزماتیں اور کھجوراہو کے متھن کو زندہ کرتی تھیں۔
جبھی سراج کی آواز نے مگن لال کو چونکا دیا۔
’’ہیلو، سویٹی پائی …‘‘
سراج تقریباً اَن پڑھ تھا، مگر ٹورسٹوں کے ساتھ رہنے سے اتنی انگریزی سیکھ گیا تھا۔ اس کی آواز سے مگن سمجھ گیا۔ کیرتی آئی ہے۔
وہ سچ مچ کیرتی ہی تھی، جو چھوٹے قد، گٹھے ہوئے بدن اور موٹے نقوش والی ایک اداس لڑکی تھی۔ اس کا رنگ پکا تھا۔ پھر اوپر سے جامنی رنگ کی دھوتی پہن رکھی تھی۔ جب وہ آئی تو یوں لگا جیسے اندھیرے کا کوئی ٹکڑا متشکل ہو کر سامنے آ گیا۔ وہ ہمیشہ رات ہی کو آتی تھی، جیسے اُسے اپنا آپ چھپانا ہے اور شاید اسی لیے سراجو کی دکان کھلی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح سے اس کی طرف دیکھے، اس سے بات کیے بغیر نکل آئی تھی۔ اس کے باوجود سراج سیٹیاں بجا رہا تھا۔
مگر کیرتی بات ہی کہاں کرتی تھی۔اِس سے، اُس سے، کسی سے بھی نہیں۔ اس سے بات کرنے کے لیے سوال کچھ یوں وضع کرنے پڑتے تھے کہ ان کا جواب ہاں ہو یا نہ۔ صرف اوپر سے نیچے یا دائیں سے بائیں سر ہلانے سے بات بن سکے۔ سراج کا اسے چھیڑنا مگن کو بہت ناپسند تھا۔ اس نے کئی بار مگن سے کہا بھی تھا —تو کہیں عشق کے چکّر میں تو نہیں پڑ گیا؟ جوان لڑکی ہے۔ کھینچ ڈال۔ بہت اِدھر اُدھر رہا، لکے کبوتر کی طرح سے تو وہ اُڑ جائے گی۔ لیکن مگن نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔
درحقیقت مگن ٹکلے کا دھندہ سدِّ باب ہوتا تھا۔ کیرتی کوئی لکڑی کا کام یا شلپ بنا کر بیچنے کی غرض سے اس کے پاس لاتی، تو وہ اس میں بہت کیڑے نکالتا۔ کبھی کہتا ایسی چیزوں کی آج مانگ ہی نہیں اور کبھی یہ کہ وہ فن کے معیار و محک پہ پوری نہیں اُترتیں۔ کیرتی اور بھی منھ لٹکا لیتی، حالانکہ ان سب باتوں سے مگن لال کا ایک ہی مقصد ہوتا کہ وہ سو کی چیز پانچ دس میں دے جائے اور پھر یہ اُسے سیزن کر کے سیکڑوں میں بیچے۔
کیرتی نے یہ کام کسی آرٹ اسکول میں نہ سیکھا تھا۔ اس کا باپ نارائن ایک شلپی تھا،جو بھاؤداجی اور جیمزبرگس وغیرہ کے ساتھ نیپال اور جانے کہاں کہاں ہندستان کی وراثت کو ڈھونڈتا پھرا تھا، جو کہ دراصل لندن کے میوزیم، نیویارک اور شکاگو کی اینٹیک کی دکانوں میں رُل رہی تھی ۔ ہر سال ہمارے مندروں اور صنم خانوں سے سیکڑوں مورتیاں غائب ہوتیں اور ہزاروں میل دور کیوریو وغیرہ کی دکانوں میں جگہ پاتیں۔ نارائن مسلسل سفر سے تنگ آ کر لوٹ آیا تھا اور گھر ہی میں شلپ بنانے شروع کر دیے تھے، جنھیں کیرتی بڑے انہماک سے دیکھتی رہتی تھی اور بیچ میں اوزار پکڑانے اور رف ورک کرنے میں باپ کی مدد بھی کرتی تھی۔ یوں گھر بیٹھ جانے میں نارائن اس بات کو بھول ہی گیا کہ کھویا ہوا ورثہ پائے ہوئے سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور اس کے دوگنے چوگنے ہی نہیں، سو گنا دام ملتے ہیں۔ شاید وہ جانتا بھی تھا لیکن وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو پیسے کی ماہیت کو سمجھ جاتے ہیں اور زندگی کے پھیلاؤ میں نہیں دیکھتے۔وہ شلپ بناتا اور مشکل سے روٹی کماتا تھا۔ آخر ایک دن دو روٹیوں کے درمیان اس کی موت واقع ہو گئی۔ وہ جگدمبا کا بُت بنا رہا تھا،جب کہ اس کا اپنا ہی چنرل اس کے ہاتھ میں لگ گیا جس سے اُسے ٹیٹانس ہو گیا اور وہ قریب کے چھاؤنی کے اسپتال میں مر گیا۔ کہتے ہیں وہ کتّے کی موت مرا۔ کیوں نہ ایسی موت مرتا؟ جب وہ دیوی کا بت بناتا تھا تو دنوں، مہینوں اس کی چھاتیوں، اس کے کولھوں اور رانوں پہ ٹھہرا رہتا۔ چھوٹے شلپوں میں تو چھاتیاں خلا میں گھومتے ہوئے لٹّو معلوم ہوتی تھیں، لیکن بڑوں میں ٹانگیں اور ٹارسو ایک طرح کی گھڑونچی تھے۔ اصل بات وہ دودھ کے بڑے بڑے مٹکے تھے، جو اس پہ رکھے ہوتے تھے اور کولھے ہتھنی کے ماتھے کی طرح سے، جس کے نیچے سے ایک کی بجائے دو سونڈیں نکلتی تھیں۔ اس نے دُرگا کا شلپ بھی بنایا تھا، جو بڑی جبر جنگ دیو سی ہے۔ ایسی دیویوں کے بدن بناتے ہوئے نارائن کتّے کی نہیں تو کیا ہماری آپ کی موت مرتا؟
’’کیا لائی ہو؟‘‘ مگن ٹکلے نے کیرتی سے پوچھا۔
کیرتی نے اپنی دھوتی کے پلّو سے لکڑی کا کام نکالا اور دھیرے سے اسے مگن کے سامنے رول ٹاپ کی میز پر رکھ دیا۔ کیونکہ اوپر کے لیمپ کی روشنی وہیں مرکوز ہو رہی تھی۔ اسے دیکھنے سے پہلے مگن نے ایک بیروق کرسی کیرتی کے سامنے سرکا دی۔ مگر وہ بدستور کھڑی رہی۔
’’تمھاری ماں کیسی ہے؟‘‘
کیرتی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے ایک بار پیچھے اس طرف دیکھا جہاں سڑک نیچے گرتی تھی اور جب چہرہ مگن کی طرف کیا،تو اس کی آنکھیں نم تھیں۔
کیرتی کی ماں وہیں چھاؤنی کے اسپتال میں پڑی تھی، جہاں اس کے باپ نارائن نے دم توڑا تھا۔ بڑھیا کو مقعد کا سرطان تھا۔ اس کے پیٹ میں سوراخ کر کے ایک نلی لگا دی گئی تھی اور اس کے اوپر ایک بوتل باندھ دی گئی تھی، تاکہ بول و براز نیچے جانے کے بجائے اوپر بوتل میں چلے جائیں۔ پہلی بوتل کسی وجہ سے خراب ہو گئی تھی اور اب دوسری کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ اگر وہ مگن کو بتا دیتی تو وہ شاید دوسرے طریقے سے بات کرتا، لیکن اس وڈورک کو دیکھ کر وہ ویسے ہی بھڑک گیا تھا۔
’’پھر وہی‘‘ اس نے کہا ’’میں نے تم سے کَے بار کہا ہے۔ آج کل ان چیزوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ لیٹے ہوئے وشنو، اوپر شیش ناگ—— لکشمی پانو داب رہی ہے…‘‘
کیرتی نے بڑی بڑی آنکھوں سے مگن کی طرف دیکھا، جن میں سوال تھا —اور کیا بناؤں؟
’’وہی —جو آج کل ہوتا ہے۔‘‘
’’آج کل … کیا ہوتا ہے؟‘‘ کیرتی نے آخر منھ کھولا۔ مشکل سے اس کی آواز سنائی دی، جیسے کینری(Canary) کی چونچ ہلتی دکھائی دیتی ہے، مگر آواز سنائی نہیں دیتی۔
مگن نے کچھ رُکتے، کچھ راستہ پاتے ہوئے کہا ’’اور کچھ نہیں ہوتا تو گاندھی ہی بناؤ، نہرو بناؤ—‘‘ اور پھر جیسے اسے کوئی غلطی لگی اور وہ اپنے آپ کو درست کرتے ہوئے بولا ’’کوئی نیُوڈ…‘‘
’’نیُوڈ؟‘‘
’’ہاں—آج کل لوگ نیوڈ پسند کرتے ہیں۔‘‘
کیرتی چُپ ہو گئی۔ کنواری ہونے کے ناتے وہ شرما سکتی تھی، لجا سکتی تھی مگر یہ سب باتیں اس لڑکی کے لیے تعیش تھیں، اسے فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ مگن اس کے وُڈورک کو خریدتا، پیسے دیتا ہے یا نہیں؟ کچھ سوچتے، رُکتے ہوئے اُس نے کہا— ’’مجھے نہیں آتا۔‘‘
’’کیا بات کرتی ہو؟ تمھارے باپ نے بیسیوں بنائے۔‘‘
’’وہ تو—دیوی ماں کے تھے۔‘‘
’’فرق کیا ہے؟‘‘ مگن ٹکلے نے کہا ’’دیوی بھی تو عورت ہوتی ہے۔ تم وہی بناؤ،مگر بھگوان کے لیے کوئی دیومالا اس کے ساتھ نتھی مت کرو۔ انہی حرکتوں سے ہی تو تمھارے پِتا ایسی موت مَر— سرگباش ہوئے۔‘‘
کیرتی نے اپنے جیون کے پچھواڑے میں جھانکا۔ اب جیسے وہ کھڑی نہ رہ سکتی تھی۔ کسی اور خطرے سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا، جسے وہی جانتی تھی، کوئی دوسرا نہیں۔ پھر بھی وہ بیروق کرسی پر بیٹھی نہیں، اس کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔ اس طرف سے اس کے بدن کے حسین مگر جارحانہ خط دکھائی دے رہے تھے۔ کیا شلپ تھا، جسے اوپر کے نہیں، نیچے کے نارائن نے بنایا تھا۔ مگن لال کے دماغ میں اختیار اور بے اختیاری آپس میں نبرد آزما ہو رہے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ برابر والی لڑکی کے اندر بھی وہی چارہ اور لاچاری آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ اس کا منھ سوکھ گیا تھا۔ کوئی گھونٹ سا بھرنے کی کوشش میں وہ بولی۔
’’میں—میرے پاس موڈل نہیں۔‘‘
’موڈل؟‘‘مگن نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا ’’سیکڑوں ملتے ہیں۔ آج تو کسی بھی جوان، خوب صورت لڑکی کو پیسے کی جھلک دکھاؤ تو وہ ایک دم—‘‘
کیرتی نے کچھ کہا نہیں۔ مگر مگن نے صاف سن لیا ’’پیسے؟‘‘ اور خود ہی کہنے لگا ’’آدمی پیسہ خرچ کرے، تبھی پیسہ بنا سکتا ہے نا۔‘‘
اس بات نے کیرتی کو اور بھی اداس کر دیا۔ اس کی روح، زندگی کے اس جبر کے نیچے پھڑپھڑا رہی تھی۔ پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ عورت کا یہی عالم تو ہوتا ہے، جو مرد کے اندر باپ اور شوہر کو جگا دیتا ہے۔ چنانچہ مگن نے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے بازوؤں میں لے لے اور چھاتی سے لگا کر کہے— ’’میری جان، تم فکر نہ کرو… میں جو ہوں۔‘‘ لیکن کیرتی نے اسے جھٹک دیا۔ مگن کٹ گیا۔ اس نے یوں ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ تُرپ اس کے ہاتھ میں تھا۔ رول ٹاپ پر سے اس نے وُڈورک کو اُٹھایا اور اسے کیرتی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
جب تک کیرتی نے بھی کچھ سوچ لیا تھا۔ اس نے پہلے نیچے دیکھا اور پھر ایکا ایکی سر اوپر اُٹھاتے ہوئے بولی ’’اگلی بار نیوڈ ہی لاؤں گی۔ ابھی تم اسے ہی لے لو۔‘‘
’’شرط ہے؟‘‘ مگن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کیرتی نے سر ہلا دیا۔ مگن ٹکلے کا خیال تھا، کیرتی ساتھ ہنس پڑے گی مگر وہ تو کچھ اور بھی سنجیدہ ہو گئی تھی۔ اس نے رول ٹاپ کو اُٹھایا اور میز کے اندر سے دس روپئے کا چُرمرا سا نوٹ نکالا اور اُسے کیرتی کی طرف بڑھا دیا — لو! ‘‘
’’دس روپئے؟‘‘ کیرتی نے کہا۔
’’ہاں تمھیں بتایا نا، میرے لیے یہ سب بیکار ہے۔ میں اور نہیں دے سکتا۔‘‘
’’ان سے تو—‘‘ اور کیرتی نے جملہ بھی پورا نہ کیا۔ اس کے اندر گویائی، الفاظ سب تھک گئے تھے۔ پر مطلب صاف تھا۔ مگن سمجھ گیا ’’اس سے تو بوتل بھی نہ آئے گی‘‘ ’’دوا کا خرچ بھی پورا نہ ہو گا‘‘ ’’روٹی بھی نہ چلے گی‘‘ قسم کے فقرے ہوں گے، سب مجبور اور نادار جن کی قے کیا کرتے ہیں۔ اس نے کیرتی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’مجھے بس وہ لا دو تو میں اچھے پیسے دوں گا۔‘‘
اور ایسا کہنے میں اس نے ہاتھ کی دو انگلیوں کا چھلاّ بنایا، تھوڑی آنکھ ماری جیسی ڈوم، سازندے نائیکہ کو داد دیتے ہوئے مارتے ہیں۔
کیرتی باہر نکلی تو اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے، وہ تھوڑا ہانپ رہی تھی۔ لوٹنے پہ کیرتی ہمیشہ اُلٹی طرف سے جاتی تھی، حالانکہ اس میں اسے میل ڈیڑھ میل کا چکّر پڑتا تھا۔ وہ نہ چاہتی تھی سراج سے اس کی ٹکّر ہو، لیکن آج وہ اسی طرف سے گئی، جیسے اس میں کوئی مدافعت ابھر آئی تھی۔ مائیکل چلا آیا تھا اور سراج کے ساتھ مل کر کچھ کھا رہا تھا، جب کہ کیرتی منھ اوپر اُٹھائے، ناک پھُلائے ہوئے پاس سے گزر گئی۔ سراج نے کچھ کہا جو مگن کو سُنائی نہ دیا۔ کیرتی میں وہ بغاوت ہی کا جذبہ تھا اور یا پھر وہ ان مصیبت زدہ لوگوں میں سے تھی، جو دشمن کے ساتھ بھی بنا کر رکھنے کی سوچتے ہیں، مبادا انھیں سے کوئی کام آ پڑے۔ شاید یہ عورت کی فطرت کا خاصا تھا جو اس مرد کو بھی اپنے پیچھے لگائے رکھتی ہے جس سے اسے کچھ لینا دینا نہیں۔ صرف اس لیے کہ اسے دیکھ کر ایک بار اس نے سیٹی بجائی تھی، یا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر سرد آہ بھری تھی۔
سراجا ضرور کوئی ’’ایفروڈیزیاک‘‘ کھا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے پائے ہوں، جو مائیکل اس کے لیے لایا تھا۔ شاید وہ دونوں مل کر مگن ٹکلے کے پاس آتے اور اُسے کچھ داؤ گھات بتاتے، لیکن مگن نے دکان ہی بڑھا لی تھی۔ دروازوں کو اندر سے بند کرتے ہوئے اس نے کیرتی کے وڈورک کو دیکھا جو بہت عمدہ تھا۔ شیش ناگ کا نچلا حصّہ تو خوبصورت تھا ہی لیکن اوپر کی چتکبری کھال میں اس نے صرف گودنوں سے رنگ بھر دیے تھے۔ وشنو بھی وہی تھا جو کوئی بھی عقیدت مند عورت کسی مرد میں دیکھنا چاہتی ہے۔ البتہ لکشمی ڈھیر سی پڑی تھی اور اس کے بدن کے خط واضح نہ تھے۔ شاید کیرتی لکشمی کو اس کے کسی بھی معنی میں نہ جانتی تھی۔ حالانکہ اسے روچک بنانا کتنا آسان تھا ۔جب عورت پانو دبانے کے لیے جھکتی ہے تو ظاہر ہے اس کے ہاتھ بازو بدن سے الگ ہوتے ہیں اور مخصوص عورت صاف اور سامنے دکھائی دیتی ہے۔ پھر پہلو پہ بیٹھی ہوئی اوپر کی عورت،نیچے والی سے کتنی کٹ جاتی ہے اور مرد کی نظروں کو کیا کیا اونچ نیچ سمجھاتی ہے۔ اگر یہ کہیں،کیرتی خود عورت تھی اس لیے اسے عورت کی بہ نسبت مرد میں زیادہ دل چسپی تھی، تو یہ غلط ہو گا۔ کیوں کہ عورت اپنے حُسن کے سلسلے میں اوّل اور آخر تک خودپرست ہوتی ہے اور جب اس کی یہ خودپرستی اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے، تو کسی بھی مرد کی مدد سے اسے جھٹک دیتی ہے۔
مگن نے کیرتی کے وُڈورک کو ایک ہاتھ میں لیا اور دوسرے میں چاقو لے کر اس پر ’’سدہم نمہ‘‘ کے الفاظ کندہ کر دیے اور پھر پچھلے کمرے میں پہنچ گیا،جہاں کچی زمین تھی، جسے کھود کر اس نے وڈورک کو نیچے رکھا، ایک اور موتی کو نکالا جو کیرتی ہی کی بنائی ہوئی تھی اور پھر گڈھے پہ مٹی ڈال کر اس پر کتھے کا پانی چھڑک دیا۔ پرانے بُت کی مٹی جھاڑ کر اُسے دیکھا تو بڑی بڑی دراڑیں اس میں چلی آئی تھیں اور وہ صدیوں پُرانا معلوم ہو رہا تھا۔ اگلے دن جب وہ اسے لے کر ٹورسٹوں کے پاس گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مگن نے انھیں بتایا کہ اس کا ذکر کالی داس کے رگھوونش میں آتا ہے۔ رگھو جی نے کونکن کے علاقے میں تُرکٹ نام کا ایک شہر بسایا تھا، جہاں سے یہ بُت برآمد ہوئے۔ کچھ میسور کے چما راجہ وڈیار کے پاس ہیں اور کچھ اپنے پاس۔ چنانچہ اس بُت کو مگن ٹکلے نے ساڑھے پانچ سو روپئے میں بیچ دیا،جس کے لیے اُس نے کیرتی کو صرف پانچ روپئے دیے تھے۔
اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر کیرتی نیوڈ لے آئی۔ وہ بدستور بدحواس تھی۔ اس کی ماں تو بیمار تھی ہی، وہ بھی بیمار ہو گئی تھی۔ اسے قریب قریب نمونیہ ہو رہا تھا۔ وہ کھانس رہی تھی اور بار بار اپنا گلا پکڑ رہی تھی، جس پر اس نے روئی کا لوگڑ ایک پھٹے پُرانے کپڑے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔
کیرتی نے معمول کے طرح سے شلپ کو مگن ٹکلے کے سامنے رکھا ۔اب کے اس نے اُسے لکڑی میں نہیں، پتھر میں بنایا تھا۔ اب وہ پھر امید و بیم کے ساتھ مگن کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مگن اگر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا تو بہت بڑا جھوٹ ہوتا۔ اس لیے اس نے نہ صرف اسے پسند کیا بلکہ جی بھر کر داد دی۔ اعتراض تو صرف اتنا کہ وہ بہت چھوٹا تھا۔ کاش وہ اسے قد آدم میں بناتی تو نہ صرف اسے بلکہ خود مگن کو بھی بہت فائدہ ہوتا۔
اس نے شلپ یکشی کو ہاتھ میں لیا اور غور سے دیکھا۔ کیرتی پھر بھی سچ مچ کا نیوڈ نہ بنا سکی تھی۔ بُت کے بدن پہ کپڑا تھا جو گیلا تھا۔ کمال یہ تھا کہ اس کپڑے سے اب بھی پانی کے قطرے ٹپکتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ کہیں تو بدن کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور کہیں علاحدہ ۔ بظاہر چھپانے کے عمل میں وہ عورت کے جسم کو اور بھی عیاں کر رہا تھا۔
شلپ پر سے نظریں ہٹا کر مگن ٹکلے نے کیرتی کی طرف دیکھا اور بے اختیار اس کے منھ سے نکلا۔ ’’اوہ!‘‘ کیرتی جھینپ گئی اور اس جامنی ساری کو آگے کھینچنے، پیچھے سے ڈھانپنے لگی لیکن مگن سب جان گیا تھا کہ وہ برہنہ ہو کر خود کو آئینہ میں دیکھتی اور اُسے بناتی رہی ہے، کے بار اس نے کپڑا بھگو کر اپنے بدن پر رکھا ہو گا، جس سے اُسے سردی ہو گئی اور اب وہ کھانس رہی ہے۔ یہ صرف پیسے ہی کی بات نہیں۔ عورت میں نمائش اور خودسپردگی کا جذبہ بھی تو ہے۔ مگن سب سمجھ گیا تھا مگر تجاہل برتتے ہوئے اس نے پوچھا— ’’ماں کیسی ہے؟‘‘
کیرتی جیسے ایک دم برافروختہ ہو گئی۔ اُسے کھانسی کا فِٹ سا پڑا اور خود کو سنبھالنے میں خاصی دیر لگی۔ مگن گھبرا گیا تھا اور شرمندہ بھی تھا۔ اس کے بعد سر ہلاتے ہوئے جو اس نے سوال کیا، وہ بہت غیر ضروری تھا— ’’تو موڈل مل گیا تمھیں؟‘‘
کیرتی نے پہلے تو نظریں گرا دیں اور پھر دکان سے باہر اس طرف دیکھنے لگی، جہاں سڑک آسمان کو چھوتی ہوئی ایکا ایکی نیچے گرتی تھی۔ مگن نے چاہا کہ اسے اس کمزوری کے عالم میں پکڑ لے اور وہ داد دے جس کی وہ مستحق تھی اور جو شاید وہ چاہتی بھی تھی مگر اس نے سوچا، ایسے میں دام بڑھ جائیں گے۔ اس نے اپنے دل میں اب کے کیرتی کو سو روپئے دینے کا فیصلہ کیا۔ بوتل اور باقی کی چیزیں شاید سو کی نہ ہوں، مگر وہ سو ہی دے گا۔ اندر ہی اندر وہ ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں کیرتی زیادہ کا مطالبہ نہ پیش کر دے۔
’’کیا دام دوں اس کے؟‘‘ اس نے یوں ہی سرسری طریقے سے پوچھا۔ کیرتی نے اُچٹتی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور بولی ’’اب کے میں پچاس روپئے لوں گی۔‘‘
’’پچاس؟‘‘
’’ہاں۔ پائی کم نہیں۔‘‘
مگن نے تسکین کے جذبے سے رول ٹاپ اُٹھایا اور چالیس روپئے نکال کر کیرتی کے سامنے رکھ دیے اور بولا — ’’جو تم کہو —مگر ابھی چالیس ہی ہیں میرے پاس۔ دس پھر لے لینا۔‘‘
کیرتی نے روپئے ہاتھ میں لے لیے اور کہا — ’’اچھا۔‘‘
وہ جانے ہی والی تھی کہ مگن نے اسے روک لیا— ’’سنو‘‘
کیرتی گِت کے بیچ تھم کر اس کی طرف ’’مجھے تھام لو‘‘ کے انداز میں دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پہ اُداسیاں چھٹ جانے کے بجائے کچھ اور کھنڈ گئی تھیں، جب کہ مگن ٹکلے نے پوچھا ’’اتنے پیسوں میں تمھارا کام چل جائے گا؟‘‘
کیرتی نے سر ہلا دیا اور پھر ہاتھ پھیلائے جس کا مطلب تھا — اور کیا کرنا—؟پھر اس نے بتایا۔ ماں کا آپریشن آ رہا ہے، جس کے لیے سیکڑوں روپئے چاہئیں۔
’’میں تو کہتی ہوں‘‘ اس نے کہا اور پھر کچھ رک کر بولی ’’ماں جتنی جلد مر جائے، اُتنا ہی اچھا۔‘‘ اور پھر وہ کھڑی پانو کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ آخر وہ خود ہی بول اُٹھی— ’’ایسے ایڑیاں رگڑنے سے تو موت اچھی ہے۔‘‘
جب مگن نے اس سے آنکھ نہ ملائی تو کیرتی اٹھارہ اُنیس برس کی لڑکی کے بجائے پینتیس چالیس برس کی بھر پور عورت نظر آنے لگی جو زندگی کا ہر وار اپنے اوپر لیتی اور اسے بیکار کر کے پھینک دیتی ہے۔
’’ایک بات کہوں‘‘ مگن ٹکلے نے پاس آتے ہوئے کہا ’’تم مِتھن بناؤ، آپریشن کا سب خرچا میں دوں گا۔‘‘
’’میتھن؟‘‘ کیرتی نے کہا اور لرز اٹھی۔
’’ہاں‘‘ مگن بولا ’’اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ ٹورسٹ اس کے لیے دیوانے ہوتے ہیں۔‘‘
’’لیکن—‘‘
’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ مگن نے سر ہلاتے ہوئے کہا ’’تم نہیں جانتیں تو ایک بار کھجوراہو چلی جاؤ، اور دیکھ لو۔ میں اس کے لیے تمھیں پیشگی دینے کو تیار ہوں۔‘‘
’’تم؟‘‘ کیرتی نے نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دیر کے بعد بولی ’’تم تو کہہ رہے تھے، تمھارے پاس اور پیسے نہیں؟‘‘
مگن نے فوراً جھوٹ تراش لیا—
’’میرے پاس سچّی پیسے نہیں‘‘ وہ بولا ’میں نے دکان کا کرایہ دینے کے لیے کچھ الگ رکھے تھے…‘‘
پھر اس نے پیسے دینے کی کوشش کی، مگر کیرتی نے اپنے زعم میں نہ لیے اور وہاں سے چلی گئی۔ مگن ٹکلے نے لوٹ کر ’’یکشی‘‘ کو دیکھا اور پھر ایک چھوٹی سی ہتھوڑی لے کر اس کی ناک توڑ دی۔ پھر ایک بازو توڑا۔ پھر ٹانگ توڑی اور اس کے سر کے سنگار پر ہلکی ہلکی ضربیں لگائیں، جس سے کچھ کرچیں گریں۔ پھر اندر جا کر اس نے اسے رسّی میں باندھا اور نمک کے تیزاب میں ڈبو دیا۔ دھوئیں کے بادل سے اُٹھے۔ مگن نے رسّی کو کھینچا اور یکشی کو نکال کر پانی میں ڈال دیا۔ اب جو اُسے نکالا تو ’’یکشی‘‘ کے خد و خال دھندلے ہو گئے تھے اور کہیں کہیں بیچ میں سوراخ چٹاخ سے پڑ گئے تھے۔ اب وہ ہزار ایک روپئے میں بِکنے کے لیے تیار تھی۔
اب کے کیرتی جو شلپ لائی وہ متھن ہی تھا۔ اور قد آدم۔ وہ ایک بوری میں بندھا ہوا تھا اور ٹھیلے پر آیا تھا ۔ کچھ مزدوروں نے اُٹھا کر مگن ٹکلے کی دکان پر رکھا۔ پھر اپنی مزدوری لے کر وہ لوگ چلے گئے۔
کیرتی اور خود کو تنہا پاکر، تیز سانسوں کے بیچ مگن ٹکلے نے بوری کی رسّیاں کاٹیں، اور کچھ وارفتگی سے ٹاٹ کو شلپ پر سے ہٹایا۔ اب شلپ سامنے تھا۔ پرفیکٹ… مگن نے اسے دیکھا تو اس کے گلے میں لعاب سوکھ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کیرتی اس کے سامنے اس شلپ کو نہ دیکھے گی مگر وہ وہیں کھڑی تھی۔ اس کے سامنے، کسی بھی ہیجان سے عاری۔ شلپ میں کی عورت تکمیل (Orgasm) کو پہنچ رہی تھی،جب کہ مرد خود رفتگی کے عالم میں اُسے دونوں کاندھوں سے پکڑے ہوئے تھا، جسے مگن ٹکلے نے توجہ سے نہ دیکھا۔ وہ شاید اسے فرصت میں دیکھنا چاہتا تھا۔
’’کتنے پیسے چاہئیں، آپریشن کے لیے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’آپریشن کے لیے نہیں۔ اپنے لیے۔‘‘
’’اپنے لیے؟ ماں—‘‘
’’مر گئی— کوئی ہفتہ ہوا۔‘‘
مگن نے اپنے چہرے بہ دُکھ اور افسوس کے جذبے لانے کی کوشش کی، مگر شاید کیرتی نہ چاہتی تھی۔ اس کے ہونٹ ویسے ہی بھنچے ہوئے تھے۔ وہ ویسے ہی اُداس تھی جب کہ اس نے کہا ’’میں اس کا ہزار روپیہ لوں گی۔‘‘
مگن بھونچکا سا رہ گیا۔ اس کی زبان میں لکنت تھی، جب اس نے کہا۔ ’’اس کے ہزار روپئے بھی کوئی دے سکتا ہے؟‘‘
’’ہاں‘ کیرتی نے جواب دیا۔ ’’میں بات کر کے آئی ہوں… شاید مجھے زیادہ بھی مل جائیں، لیکن میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’میں تو … میں تو پانسو ہی دے سکتا ہوں۔‘‘
’نہیں‘‘ اور کیرتی نے مزدوروں کے لیے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ مگن نے اسے روکا— ’’سو ایک اور لے لو۔‘‘
’’ہزار سے کم نہیں۔‘‘
مگن نے حیران ہو کر کیرتی کی طرف دیکھا جس کے آج تیور ہی دوسرے تھے۔ کیا وہ کھجوراہو گئی تھی؟ ٹورسٹوں سے ملی تھی؟ کسی بھی قیمت پہ کلاکار کو اس کی مارکیٹ سے جدا رکھنا چاہیے… مگر خیر… اس نے رول ٹاپ اٹھایا اور آٹھ سو کے نوٹ گن کر کیرتی کے سامنے رکھ دیے۔ کیرتی نے جلدی سے گِنے اور اس کے منھ پر پھینک دیے۔
میں نے کہا نا۔ ہزار سے کم نہ لوں گی۔‘‘
’’اچھا— نو سو لے لو۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘
’’ساڑھے نو سو — نو سو پچھتّر …‘‘ اور پھر کیرتی کی نگاہوں میں کوئی عزم دیکھ کر اس نے سو سو کے دس نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیے، اور نشے کی حالت میں متھن کی طرف لپک گیا۔ کیرتی کھڑی تھی — جیسے وہ اپنے فن کی داد لینے کے لیے ٹھٹک گئی تھی۔ مگن نے متھن میں کی عورت کی طرف دیکھا جو پھر کیرتی تھی۔ اس کی آنکھ میں آنسو کیوں تھے؟ کیا وہ لذّت کی گراں باری تھی یا کسی جبر کا احساس؟ کیا وہ دکھ اور سکھ، درد اور راحت کا رشتہ تھا جو کہ پوری کائنات ہے؟ پھر اس نے مرد کی طرف دیکھا جو اوپر سے لطیف تھا مگر نیچے سے بے حد کثیف۔ کیوں، کیرتی نے کیوں مرد— انسان کی ’’حماریت‘‘ پہ زور دیا تھا؟… یہ متھن ہے… مگر وہ متھن تو نہیں، جو پُرش اور پرکرتی میں ہوتا ہے…؟ ٹھیک ہے۔ اُلٹا زیادہ پیسے ملیں گے…
مگن ٹکلے نے اوپر کی بتی کو کھینچ کر پھر مرد کی طرف دیکھا اور بول اُٹھا— ’’یہ —میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔‘‘
کیرتی نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’تم—‘‘ مگن نے جیسے پتہ پاتے ہوئے کہا ’’تم سراج کے ساتھ باہر گئی تھیں؟‘‘
کیرتی نے آگے بڑھ کر زور سے ایک تھپّڑ مگن ٹکلے کے منھ پر لگا دیا اور نوٹ ہاتھ میں تھامے دکان سے نکل گئی۔
٭٭٭
سونفیا
سونفیے کی خوشبو گاڑھی دھند کی طرح چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ آم کے اس قسم کے بیسیوں پیڑ تھے، جو گور پرساد نام کے اس بنگلے میں لگے ہوئے تھے۔ کتا گھاس اور ڈاھلیا وغیرہ سے تو کیا ہوتا، موگرے اور گارڈینیا کی خوشبو بھی سونفیے نے دبا دی تھی، ایسے ہی جیسے لیلا مانک کی جوانی نے مندر کے بھجنوں کی قدر گھٹا دی تھی۔
یہ آم کی اس تیز تر خوشبو ہی کی وجہ سے تھا کہ مکندی نے اچھی بھلی بھگوان کی اس لیلا کا نام سونفیا رکھ دیا تھا، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ کوئی ماں کا بیٹا بنگلے سے فرلانگ بھر ادھر ہی (اپنی) چھاتی پر ہاتھ رکھ کہ کہہ دے کہ سونفیا اس وقت گھر ہی پہ ہے۔ جن مردوں کی ناک کے بالوں میں عورت کی بو سے کھجلی نہیں ہوتی، وہ تو قرائن ہی سے کہتے تھے —مثلاً یہ کہ سونفیا کا ریلے سائیکل برآمدے میں اپنے اسٹینڈ پر کھڑا ہے اور اس کا پچھلا پہیہ بودھ لوگوں کے تقدیر کے چکر کی طرح اپنے آپ ہی دھُرے پہ گھومتا جا رہا ہے، اس کی ٹیلی فنکن میں کہیں کرناٹکی سنگیت کا بکرا ذبح ہو رہا ہے اور یا پھر اُتر پچھم کی طرف اس کے کمرے کی خس تھوڑی اٹھی ہوئی ہے، البتہ بلائیند کھنچے ہوئے…
شام کے پانچ بجے تھے۔ لُو ابھی تک زوروں پر تھی۔ پرماتما تو جیسے اپنا کرم دھرم ہی بھول گیا تھا اور مانس کے بدن پر سے کھال کھینچ کر نرممتا سے اسے کسی نمک کی کان میں دھکیل رہا تھا۔ اَن گنت باریک باریک سے اگنی بان تھے، جو بدن کے پور پور میں دھنسے جا رہے تھے۔ وہ دراصل ریت کے چھوٹے چھوٹے ذرّے تھے، جو لُو کے ساتھ دریا کی طرف سے اُڑ اُڑ آتے تھے اور جسم میں پیوست ہو جاتے تھے۔ گری لال، مکندی کے دوست، نے کہا بھی تھا کہ لُو تھم جائے گی تو چلیں گے، لیکن مکندی ڈرتا تھا کہ لُو کے تھمتے ہی سونفیا دریا کی طرف نکل جائے گی، جہاں ایسے بھبھاکا سے موسم میں پھر تھوڑی تسکین کی ہوا چلتی ہے۔ دریا کا جوبن ماتا حصہ چھوڑ کر، اس جگہ پہ جہاں پانی چھوٹے چھوٹے پوکھروں اور نالیوں میں بٹ جاتا ہے، انسان اور حیوان ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ کتّے اپنے عضو، اپنے خصیے اور پیٹ پانی میں ڈبو کر، بڑی بڑی زبانیں باہر نکالے ہانپ رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے پسینے کے بڑے بڑے قطرے باہر ٹپکتے ہیں۔ لوگ باڑ سے بچے ہوئے تربوز ریت میں سے نکلوا کر لاتے ہیں اور کسی جبر کے عالم میں خالی ہاتھوں ہی سے انھیں پھاڑ کر بڑے بڑے کھپڑ بناتے ہوئے اپنے منھ اس میں گاڑ دیتے ہیں۔ کچھ دور سے دیکھنے پہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ تربوز کہاں ختم ہوتا ہے اور ان کا منھ کہاں سے شروع ؟ پہلے یوں لگتا ہے جیسے وہ تربوز کھارہے ہیں، پھر تربوز انھیں کھاتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ گودا، بیج، منھ، سب بے تحاشا بکھرے ہوئے نیچے بالو میں دھنستے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ جن لوگوں میں صبر ہوتا ہے وہ تربوز کو ایسے ہی سر کے نیچے رکھ کر ٹھنڈی میٹھی ریت پہ لیٹ جاتے ہیں اور اپنے نفسانی ہاتھ اس کے گولائیوں پر پھیرنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے ہاتھوں کی حدت سے تربوز بھی جل اُٹھتا ہے، پھر وہ نہیں جانتے کہ اسے کھائیں یا پھینک دیں۔ کچھ جذباتی ناکتخدا ایسے ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر لیموں کو ملتے جاتے ہیں جو کہ لُو کا پورا حملہ خود پر لے کر پہلے تو لال ہو اُٹھتا ہے لیکن آخر میں کالا پڑ جاتا ہے۔
لُو سے بچنے کا ایک ڈھنگ یہ بھی ہوتا ہے البتہ، ایک یہ بھی رسائین کہ آدمی چلتا ہوا خواہ مخواہ سردی محسوس کرنے لگے۔ اور اگر سوچ بچار کی اتنی رسائی نہ ہو تو لُو کے تیروں اور دانتوں کو کند اور بے اثر کرنے کے لیے ایسے ہی ہمک ہمک کر، اچھل اچھل کر گانے لگے!
لل لو، لل لو، لل لو، لل لو……
— پھر لُو کا کہیں نام و نشان نہیں رہتا، اور نہ انسان کا، کیونکہ جب تک لُو یوگ مایا ہو چکی ہوتی ہے اور بے چارہ انسان یوگی!
گورپرساد کی باڑیں اور بیلیں سب جھلس چکی تھیں، کہیں نام کے لیے اوپر کوئی پتّا ہرا رہ گیا تھا۔ اس دبی ہوئی، نا محسوس مسکراہٹ کی طرح جو دل میں کسی شرارت سے اپنے آپ ہونٹوں پہ چلی آتی ہے۔ گری لال تو پھاٹک کے باہر ہی رُک گیا اور کہنے لگا: ’’نا بھیا، میں تو نہ جاتا، اندر۔‘‘
’’کیوں یار؟ ‘‘ مکندی نے پوچھا ’’کیا مصیبت ہے؟‘‘
گری نے پھاٹک کی طرف اشارہ کیا جو یوں تو ہرے رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا،لیکن اس پہ سفیدے سے پتی ہوئی ایک تختی لگی تھی جس پہ کالے حرفوں میں لکھا تھا: کتے سے بچو!
مکندی گری لال کو کیسے بتاتا کہ کتا دراصل جانور نہیں ہوتا وہ صرف ایک احساس ہوتا ہے جو کثیف ہو کر چار ٹانگوں، ایک دم اوربڑے بڑے جبڑوں کو پھیلائے ہوئے بھونکتا چلا آتا ہے۔ ایسی بات نہیں، بیچ میں کہیں بدن بھی ہوتا ہے اس کا جسے وہ اپنے اندر کی وافر صحت سے اجنبی پہ یوں پھینک دیتا ہے جیسے غلیل مٹّی کے ڈھیلے کو ۔ ایک پل کے لیے مکندی کو اپنا آپ جاہل، بے معنی اور بے وقوف لگا۔ اور کتا۔ لیکن آخر سمجھ چلی آئی جو کہ نزع میں بھی بے اختیار اور مجبور ہو کر چلی آتی ہے اور سونفیے کی زندہ خوشبو سے گڈ مڈ ہو جاتی ہے۔ سمبل کے نرم نرم، سفید سفید، گداز گداز پری کہانی کی طرح گولے پھاٹک کے آہنی کلیمپ میں پھنسے ہوئے تھے۔ مکندی نے ایک ہاتھ سے کلیمپ کو اُٹھایا اور دوسرے سے پھاٹک کھولتے ہوئے کہنے لگا: ’’تم آؤ تو…‘‘
گری لال وہیں رُکا ایک ڈرے ہوئے بچے کی طرح انکار میں سر ہلاتا رہا۔
مکندی نے گری کے گرد ہاتھ ڈالا اور کہنے لگا: ’’کاٹے گا تو میرا ذمّہ، تمھارے کیا دانت نہیںہیں!‘‘ اور پھر وہ ہنس دیا۔
گری لال کو اب تک یقین نہ تھا ۔ پچھلی بار جب دت کے مونگرل نے اسے کاٹا تھا تو پورے چودہ ٹیکے لگوانے پڑے تھے۔ نہ صرف پیچھا سوج گیا تھا بلکہ ٹانگ میں بھی ایک طرح کا لنگ سا پیدا ہو گیا تھا، جو کسی علاج سے نہ جا رہا تھا اور جس کے کارن گری کی طبیعت ہمیشہ گری گری سی رہتی تھی۔ اس پہ طرفہ یہ کہ موتی دت کا مونگرل، اس کا دوست ہو گیا تھا۔ موتی کا رنگ کالا تھا، اس لیے صبح کے وقت جب گری لال ہوا خوری کے لیے نکلتا اور موتی اس کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر دیتا، تو ایسے معلوم ہوتا جیسے وہ یدھشٹر ہے اور موتی وہ کالا کتا جو یدھشٹر کے ساتھ ہمالہ کی بلندیوں پہ چلا گیا تھا، جہاں وہ اور اس کا مالک دونوں برفوں میں گل کر مر گئے تھے۔ مکندی کے مجبور کرنے پہ گری بنگلے کے اندر چلا گیا، لیکن اس انداز میں کہ اگر ضرورت پڑے تو بھاگ بھی سکے۔ پھر وہ حیران بھی ہو رہا تھا کہ مکندی اپنی لڑکی سے ملنے آیا ہے، تو ساتھ اسے کیوں لے آیا ہے؟ شاید مکندی کے اندر بھی کوئی کتا تھا جس سے وہ ڈر رہا تھا اور جس سے بچنے کے لیے اسے کسی بھی دوسرے آدمی کے ساتھ کی ضرورت تھی۔ ہاں، انسان کو انسان کی ضرورت تو ہے ہی، ورنہ سب مردے اپنے آپ اُٹھ کر اپنی اپنی قبر میں لیٹیں… خود کو وافر لگنے کے باوجود ایک تحیر گری لال کو اندر لیے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کسی سر ریلسٹ تصویر میں کے مرد کی آنکھوں کی طرح پپوٹوں سے دو دو انچ باہر نکلی ہوئی تھیں، اور ان پہ پیٹ بنا ہوا تھا۔ وہ سونفیا کو دیکھنا، نظروں سے اسے ٹوہنا اور اس کے ساتھ لپٹنا چاہتا تھا۔ سونفیا— جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہرگز ہرگز خوبصورت نہیں ہے،لیکن اس قدر متناسب اعضا اور بھرپور صحت والی ہے کہ… (یہاں سے تحریر کا عجز شروع ہو جاتا ہے!)
جن لوگوں نے گورے رنگ پہ جان دی ہو، جانتے ہیں کہ اس میں آپ کچّے گوشت کے احساس سے نہیں بچ سکتے۔ لیکن سونفیا کا سا کالا، نہ گورا رنگ ہمیشہ تندرستی کا نہ صرف لبالب بلکہ چھلکتا ہوا جام ہوتا ہے جو مرد کے گوگاں کو دور افتادہ جنوب مشرقی جزائر میں لے جاتا اور وہاں پوری زندگی گزارنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔ سونفیا کے ملایم اور چکنے بدن کی تعریف گری لال نے کان پور میں سُنی تھی، جہاں کے چمڑہ رنگنے والے اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سب سے اچھی جلد کون سی ہوتی ہے۔ پھر لڑکی کو کنواری چاہنے کے باوجود قریبی سے قریبی دوست بھی خوبصورت عورت کے سلسلے میں اپنے آپ کو بدل کے طور پر رکھتے ہیں۔ وہ دیور کہلواتے اور بھابی کہتے ہیں اور جو بھی تھوڑی بہت لذت ہاتھ آئے، لے کر چل دیتے ہیں، اور اب تو سونفیے کی خوشبو اور بھی تیز اور بوجھل ہو گئی تھی۔ بنگلے کا واحد سمبل ہوا اور لُو کے جھونکوں کے ساتھ اپنا رواں چاروں طرف بکھیر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا، خوشبو چھوٹے چھوٹے خواب بن کر چاروں طرف بکھر رہی ہے، یا وہ کوئی کنفیٹی ہے جو عشق کو خوش آمدید کہنے کے لیے اوپر کے کسی حکم سے مکندی پہ گرائی جا رہی ہے، لیکن پھر — لُو؟
عشق سے بڑی لُو اور کون سی ہوتی ہے؟ دونوں دوست، مکندی اور گری لال، اس راستے پہ چلنے لگے جو دو طرفہ ہو کر، بیچ کے سوکھے سڑے باغیچے اور خشک فوارے کو لپیٹ میں لے کر، سامنے کے پورچ میں مل جاتا تھا اور جس پہ لال لال راجستھانی بجری پڑی جوتوں کے منھ میں کچر پچر کر رہی تھی۔ آخر وہی ہوا۔ مکندی اور گری کی بو پاتے ہی جبرو، سونفیا کے گریٹ ڈین، منھ پھاڑے ہوئے ان کی طرف لپکا۔ کتے کی آواز کتے ہی کی سی ہوتی ہے، لیکن جبرو کی کچھ شیر کی سی تھی۔ چونکہ کتے اور شیر میں کراس ہو ہی نہیں سکتا،اس لیے جبرو آخر کار کتا ہی تھا۔ وہ دس برس اور بھی جیتا رہتا تو کتا ہی رہتا، پِلّے ہی پیدا کرتا لیکن اس کے باوجود اسے یوں خونخوار طریقے سے لپکتے دیکھ کر مکندی اور گری لال وہیں تھم گئے۔ گری تو مکندی کے پیچھے چھپ گیا اور منھ میں استوتر پڑھنے لگا لیکن مکندی ویسے ہی نڈر کھڑا تھا، البتہ ہاتھ اس کے بھی صلح کی جھنڈی میں اُٹھے ہوئے تھے اور وہ پکار رہا تھا: جبرو، جبرو، جبرو…
جو لو گ کتے کی نفسیات سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ آپ تھم جائیں تو کتا بھی تھم جاتا ہے اور مشکوک انداز سے دیکھتا ہوا کچھ دور کھڑا بھونکتا ہے۔ وہ کبھی تو ایک ٹک نو وارد کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی پیچھے کی طرف منھ کر کے مالکوں کو کچھ کہتا ہوا معلوم دیتا ہے۔ بیچ میں وہ اگلے پنجوں کے بل نیچا ہو ہو کے زمین کھڈیرتا، چھوٹی سی جست لیتا، آگے بڑھتا، پیچھے ہٹتا، سر کو چھوٹے بڑے جھٹکے دیتا ہوا مسلسل بھونکتا چلا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہہ رہا ہے: آبیٹا، ماں کا دودھ پیا ہے تو آ مقابلے پہ۔ وہ شہ دیتا ہے اور مات کھاتا ہے، لیکن یہ سب برابر والے کی اینڈوکرین گلٹی پہ نربھر ہے۔ اگر اس کی گلٹی جلدی جلدی اور تیز تیز ڈر کے لعاب کو خارج کرنے لگے تو کتا، جس کی سونگھنے کی قوت بے پناہ ہوتی ہے، پہلے معاملے کی تہہ پہ پہنچ جاتا ہے اور آخر آدمی کہ تہہ پر۔
مکندی بالکل نہ ڈرا۔ اس نے ایک نظر اپنے اور پھر گری کے کپڑوں کی طرف دیکھا۔ وہ کسی چپراسی، بھنگی یا بھک منگے کے تو نہ تھے جن سے کتوں کو خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ کمینہ! خود چاہے سارا دن کیچڑ اور گندگی میں کودتا پھاندتا پھرے، لیکن سامنے والے کو برابر صاف اور سُتھرا دیکھنا چاہتا ہے جو کہ بدمعاشی اور نا انصافی کی انتہا ہے۔ مکندی بدستور — جبرو، جبرو— پکارتا ہوا آگے بڑھا۔ جبرو نے کچھ رُک کر ایک غیریقینی انداز سے بھونکا، پھر پاس آیا اور مکندی کو سونگھا، پیچھے کی طرف دیکھ کر بھونکا۔ یہی عمل اس نے گری کے پاس پہنچ کر دُہرایا۔ قریب ہی تھا کہ گری اُلٹے پانو بھاگ نکلے، لیکن مکندی نے مضبوطی کے ساتھ اسے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور بولا: ’’سونگھ لینے دے، ایک بار اسے سونگھ لینے دے، گری۔‘‘ ہو سکتا ہے گری کی پتلون کو سونگھنے پہ جبرو کو کچھ دھندلی دھندلی شکلیں نظر آئی ہوں۔ پھر اس نے منھ اُٹھا کر گری کی طرف دیکھا۔ کیا یہ وہی ہے؟ بیچ میں مکندی آ گیا۔ اب جبرو دُم ہلا رہا تھا اور اِدھر اُدھر پھر کر ایک عجیب طرح کی بے بس اور گڑل آوازیں نکال رہا تھا، جیسے اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا ہو۔ پھر وہ بھاگتا ہوا لکڑی کے کھمبے کے پاس پہنچ گیا جس کے اوپر رات کو روشنی کے لیے بتی لگی تھی۔ جب ہی اس نے ٹانگ اُٹھائی اور دنیا بھر کے کتوں کی طرح اپنے تناؤ کی تسکین کر لی۔
سامنے، برآمدے میں، سونفیا کی خادمہ جامن کھڑی تھی۔ اسے دیکھتے ہی مکندی آگ بگولا ہو اُٹھا: ’’باندھ کے کیوں نہیں رکھتیں اس باپ کو؟‘‘
جامن ہریانے کے علاقے کی ایک نوخیز لڑکی تھی۔ اس کا بدن گٹھا ہوا تھا اور رنگ سیاہی مائل ۔ سونفیا نے اسے شاید اپنا رنگ، اپنا بدن آف سیٹ کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا اور مالش میں اپنی گرمی اس تک منتقل کرنے کے سلسلے میں اسے ٹھنڈائی سردائی وغیرہ پلاتی رہتی تھی۔مکندی کی بات کے جواب میں جامن شرما دی۔ بھلا شرمانے کی کیا بات تھی اس میں؟ لیکن وہ بے چاری عمر کے اس حصے میں تھی جس میں لڑکی کو کچھ بھی کہیں، تو وہ شرما جاتی ہے۔ آپ اسے مونگ کی کہیں تو وہ موٹھ کی سمجھ لیتی ہے اور پھر شرما جاتی ہے۔ آپ پوچھیں: ’’تم شرمائیں کس بات سے؟‘‘ تو اس کے جواب میں بھی وہ شرما جاتی ہے۔
جامن نے برآمدے میں بید کی دو کرسیاں مہمانوں کے لیے سرکا دیں اور خود مالکن کو اطلاع کرنے کے لیے اندر چلی گئی حالاں کہ جبرو کے بھونکنے سے اسے ضرور پتہ چل گیا ہو گا کہ کوئی آیا ہے۔ لیکن کسی بھی لڑکی سے، خاص طور پر جب کہ وہ جوان ہو، یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ یوں دھڑ سے باہر چلی آئے گی۔ پہلے وہ اپنا آپ ٹھیک ٹھاک کرتی ہے، گڑیا کی آنکھ سے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتی ہوئی وہ اس پہ کے ایک ہی مہاسے کو پاؤڈر سے کوستی ہے اور پھر پاس پڑی کالی پنسل کو اُٹھا کر ٹھوڑی کے بائیں طرف، دیکھنے والے کی آنکھ کی پتلی کے برابر، ایک تل سا بناتی، اپنے قاعدے سے پٹے ہوئے بالوں میں سے چند ایک کو سرکش کرتی، آخری بار آئینے میں دیکھتی ہے کہ اس کے بدن، اس کے لباس میں رات کا تو کچھ نہیں؟ وہ یہ سب کرتی ہے، چاہے اسے اپنے ملاقاتی سے اس ناخن برابر بھی دل چسپی نہ ہو جسے وہ ابھی ابھی مینی کیور یا پالش کرتی آئی ہے۔
جب تک مکندی اور گری لال بیٹھ گئے، بالکل ہی۔ جب ہی گری نے مکندی سے پوچھا: ’’جبرو نے شروع میں بھی کبھی تمھیں کاٹنے کی کوشش نہیں کی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ مکندی نے جواب دیا۔
’’کیوں؟ کتے تو…‘‘
’’بات یہ ہے کہ جب آدمی نے خود کتا رکھا ہو، اسے دوسرے کا کتا کبھی نہیں کاٹتا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب، اپنے کتے کی بو اس میں رس بس جاتی ہے نا، جس کا ہمیں تمھیں پتہ نہیں چلتا لیکن کتے کو ہمیشہ چل جاتا ہے۔ پھر وہ دُم ہلانے، چاٹنے لگتا ہے۔ کتّا ہمیشہ اسے پیار کرتا ہے جس کے پاس کتا ہو۔‘‘
’’ہاں، تمھارا وہ براؤں ڈاشنڈ، رکی … بڑا پیارا کتّا ہے!‘‘
جبھی سونفیا اپنے لانبے بالوں کا جوڑا بناتی، دونوں ہاتھوں سے اسے دباتی ہوئی باہر آئی۔ وہ یہ کام اندر بھی کرسکتی تھی لیکن شاید وہ یہیں، باہر ہی، اچھا تھا۔ دونوں بازوؤں کے اُٹھنے سے سونفیا کا اصل دکھائی دیتا تھا، گرانے سے نقل۔ گری لال اور مکندی تعظیماً اُٹھ کھڑے ہوئے اور نمستے کی، لی۔
گری لال کا تعارف کراتے ہوئے مکندی نے کہا: گری لال، میرے دوست ہیں، کانپور میں ایل آئی سی میں کام کرتے ہیں۔‘‘
سونفیا نے سر ہلا دیا اور جان بوجھ کر اپنی آنکھوں میں سے غائب ہو گئی، جیسا کہ وہ اکثر کیا کرتی تھی اور جس سے اس کے کئی گملٹ پیے ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ پھر اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا’’ بیٹھیے۔‘‘
سونفیا بیس بائیس برس کی ایک کھلے ہاتھ پیر والی لڑکی تھی—— مطمئن بالذات۔ اس کے اس اطمینان میں فن کتنا تھا اور نیچر کتنی، اس کا اندازہ آسانی سے نہ ہو سکتا تھا۔ اس میں کی آگ کا صرف اتنا ہی پتہ چلتا تھا جتنا کہ بجلی کے تار کو دیکھنے— صرف دیکھنے سے اس میں کی قوت اور جوش کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے چہرے کے نقوش موٹے موٹے اور بھرے پُرے تھے۔ وہ اپنی عام حرکت میں بھنگڑہ ناچنے والوں کی طرح سے قوت کو اندر کھینچنے کی بجائے باہر پھینکتی ہوئی معلوم ہوتی تھی، یا شاید ویسے ہی اس کی صحت عام ہندستانی لڑکیوں سے اچھی تھی۔ جامن —جو دیہاتی خوبصورتی کا اچھا نمونہ تھی —اس کے سامنے یوں ہی معلوم ہوتی تھی جیسے آم کے سامنے جامن۔ وہ گوری تھی یا گندمی یا کچھ اور بھی، اس کا فیصلہ کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ دھوپ میں ہوتی تو تانبا ہو جاتی، سایے میں ہوتی تو سفید، دریا کے کنارے سانولی اور اپر انڈیا کلب میں سلونی۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود وہ روز صبح مندر ضرور جاتی تھی، شاید اس لیے نہیں کہ اس میں اس کی آتما کو شانتی ملتی تھی، بلکہ اس لیے کہ مندر جانے والا آدمی وقت پہ سوتا اور وقت ہی پہ جاگتا ہے جس سے بدن کی رطوبتیں خشک نہیں ہوتیں اور وہ ہرا بھرا اور شاداب رہتا ہے، اندر کا فرجڈیئر، جو جسم کے اعضا کو یکجا اور تر و تازہ رکھتا ہے، اچھی طرح کام کرتا ہے۔ اسی لیے جب مندر سے، سفید ساری میں ملبوس، سونفیا باہر آتی تو دیوی لگتی اور کلب میں جاتی تو صوفیا لارین۔ اس کی آواز میں سے کئی ریزے، کئی دانے غائب تھے۔ شاید وہ اپنے ارادے سے انھیں غائب کر دیتی تھی۔ بہرحال، اس کی آواز میں ایک انگیخت پیدا کرنے والا کھرکھرا پن، ایک اٹوٹ رکھب سا رہتا تھا جو کبھی مدھم پہ نہ پہنچتا، جیسے وہ بیٹھے بیٹھے اپنی آنکھوں سے مفرور ہو جاتی تھی، ایسے ہی گلے سے بھی۔
جامن نے ایک اور بید کی کرسی سرکا دی لیکن سونفیا نے بیٹھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ یوں ہی کھڑے کھڑے وہ مغایرت کے انداز میں بولی: ’’کہیے؟‘‘
مکندی نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا— مطلب یوں تھوڑے کہتے ہیں؟
پھر سونفیا نے بازو اُٹھا کر اپنے جوڑے میں ایک سوئی کو دبایا اور انگریزی میں روکھے پھیکے انداز سے کہا: ’’میں آپ کے لیے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘
مکندی کے اوسان اور بھی خطا ہو گئے۔ گری ساتھ نہ ہوتا تو وہ اُسے جوتا بھی مار دیتی تو کوئی پروا نہ تھی،لیکن اس وقت… مکندی کو غصہ آیا مگر وہ کیا کرسکتا تھا؟ قدرت میں کتنی بے رحمی تھی جو مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے بے نیاز نہ ہونے دیتی تھی۔ کاش وہ اپنے آپ میں مکمل ہوتے۔ سونفیا نے ہمیشہ اس سے ایسی ہی بے رُخی برتی تھی۔ آخر اس کی وجہ کیا تھی!وہ تعلیم یافتہ تھا۔ لکھنؤ سے ایل ایل ڈی کر چکا تھا۔ پھر وہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی اچھا تھا۔ پچھلے ہی سال وہ صحت کے مقابلے میں مسٹر لکھنؤ قرار دیا گیا تھا۔ مکندی نے اپنے آپ کو روکا۔ اندر کے جبرو کو تہذیب و اخلاق کی ایک موٹی سی زنجیر کے ساتھ باندھ دیا، ورنہ اگر کوئی لڑکا بڑھ کر کسی لڑکی سے کہہ دے: آپ میرے لیے کر ہی کیا سکتی ہیں؟ تو پھر لڑکی کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اس کا رنگ پیلا پڑ جائے اور منھ پر کف لاتے ہوئے وہ اپنے بازو کی سویپ کے ساتھ باہر کی طرف انگلی کرتے ہوئے کہے: چلے جائیے، نکل جائیے میرے یہاں سے۔ مصلحت… مکندی نے کہا تو صرف یہ: ’’اس دن… آج میں ادھر سے گزر رہا تھا تو سوچا لیلا دیوی ہی کو سلام کرتے چلیں۔ اس دن اپر انڈیا کلب کے فینسی ڈریس میں تو آپ نے کمال ہی کر دیا! بالکل مریہ گونڈ لڑکی معلوم ہوتی تھیں۔‘‘ اور پھر دل میں کہا:ایک موتیاری جسے سر پہ چٹائی رکھے ہوئے اس کا چیلک سرِشام ہاتھ سے پکڑ کر گھوٹل میں لے آتا ہے۔ رات بھر وہ کنوارے ایک دوسرے سے لپٹتے، پیار کرتے ہیں۔صبح ہوتے ہی بیلوسا انھیں باہر دھکیل دیتی ہے، سورج کی روشنی سے پہلے کیونکہ وہ رات کی شرارتوں کو یاد کرتے ہوئے بہت زیادہ ہنستے اور کھلکھلاتے ہیں۔
سونفیا نے کہا بھی تو صرف اتنا: ’’شکریہ!‘‘
وہ ٹھنڈی تھی؟ برف کا تودہ؟ پتھر میں بھی تیل ہوتا ہے۔ شاید کسی بو، کسی لمس نے اس کے اندر کی آگ کو نہیں بھڑکایا تھا۔ اتنی لُو میں بھی وہ پگھل اور پسیج نہ رہی تھی۔ مکندی نے کچھ اور باتیں کرنے کی کوشش کی۔ ایسی باتیں جن کا جواب لمبا ہو، لیکن سونفیا جانے اختصار کی روح کو پا گئی تھی۔ وہ ایک چھوٹا سا جواب دیتی، بلکہ ٹکا سا۔ مکندی نے اسے وہ سماں یاد دلایا جب وہ سفید ساری میں ملبوس نروتم کے مندر سے نکلی تھی اور صبح کے دھندلکے کی طرح سے حسین معلوم ہو رہی تھی اور شانت۔ مندر کی سیڑھیوں پر کوئی سور داس اکتارے پر ولمپت لَے میں بھیرویں کے سُر اَلاپ رہا تھا۔ اور دل میں کہا: جب تم سے لپٹنے، تمھیں پکڑنے کے بجائے تمھارے قدموں پہ لوٹنے کو جی چاہتا ہے۔
مندر سے لوٹنے والی یوتی سے بات مت کرو کیوں کہ وہ آفاقی ہو چکی ہے۔ اس وقت کا انتظار کرو جب ایک بار پھر اس میں مقامیت لوٹ آئے…
لیکن کیسے؟ سونفیا تو جیسے مندر سے نکلتی ہی نہ تھی، مقامیت کو لوٹتی ہی نہ تھی۔ کسی کو سامنے پاتے ہی وہ کہیں دور پہنچ جاتی۔ دریا کے کنارے اس کی سہیلیوں کا جمگھٹ اس کے ارد گرد رہتا تھا اور کلب میں منچلوں کا۔ اور وہ کسی کی پکڑ میں نہ آتی تھی۔ وہ اَنیک سے ایک ہوتی تو بات بنتی۔ وہ اپنے بدن کو صحت سے بھرتی جا رہی تھی جو کہ اب تک قارون کا خزانہ ہو چکی تھی۔ وہ اس سیدھی سادی حقیقت کو نہ جانتی تھی کہ عورت نام ہے خرچ ہونے کا، گھٹنے اور بڑھنے کا، مناسب وقت کے بعد خاک اور خون میں لت پت ہونے کا —ورنہ وہ عورت نہیں رہتی، لیونارڈو کا شہکار ہو کر رہ جاتی ہے۔
یا شاید مکندی اناڑی تھا اور نہیں جانتا تھا کہ لڑکی سے بات کیسے کی جاتی ہے؟ بات کر بھی لی جائے تو آگے کیسے بڑھائی جاتی ہے؟ شرافت سے بات بنتی ہے یا غنڈہ گردی سے؟ اسے صحیح تو ایک طرف، غلط سلط طریقے سے بھی لڑکی کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ غالباً وہ ان مردوں میں تھا جو کسی طرح سے اپنے چال چلن کو خراب نہیں ہونے دیتے اور سمجھتے ہیں، یہ بات عورت کو بہت متاثر کرتی ہے۔
جانے سونفیا اس سے اس لیے بات نہیں کرتی کہ وہ خوبصورت تھا اور مسٹر لکھنؤ۔ ایسے آدمی کے بارے میں لڑکی کو یقین نہیں آتا۔ یا پھر اس میں ایسا کوئی جذبہ ہے جس سے وہ بدصورت اور جنگلی قسم کے آدمی کو ترجیح دیتی ہے۔ کیا اس لیے کہ حسن اور خوبصورتی، نرمی اور گدازپن اور مظلومیت اسی کا اجارہ ہیں اور بدصورتی اور کرختگی اور بربریت مرد کا؟
مکندی نے سوچ لیا کہ اب اس کی دوڑ دھوپ سے کوئی کام نہیں بنتا۔ گورپرساد ہی کچھ ہو تو ہو۔ بنگلے سے نکلتے وقت جبرو نے منھ اٹھا کر بھی تو نہ دیکھا: کہاں وہ شور و شغب کے زلزلے لے آیا تھا۔ پھاٹک کی طرف بڑھتے وقت یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سمبل نے اپنی پری کہانیاں روک کر ان کے گھٹیا، جاسوسی قصے بنا دیے تھے اور انھیں ریلوے کے بُک اسٹالوں پہ بیچنا شروع کر دیا تھا۔ ڈھلتی ہوئی شام میں وہ گالے Nuns کی طرح سے سفید اور پاکیزہ خیالات کی بجائے کالے بھجنگ، گندے اور فحش د لال ہو گئے تھے۔ آم گلنے، سڑنے لگے تھے اور انسان کے کام و دہن نے ذایقے سے منھ موڑتے ہوئے انھیں پیڑ ہی پہ متعفن ہونے کے لیے چھوڑ دیا تھا، اور جامن کو اس بات کے لیے مجبور کر دیا تھا کہ وہ جبرو سے مجامعت کرے اور بار بار کرے۔
اسی شام اپر انڈیا کلب میں بڑی رونق تھی۔ بمبئی سے ارشاد پنجتن (Mime) نقال چلا آیا تھا، جس نے حال ہی میں مغرب کا نہایت کامیاب دورہ کیا تھا۔ ہر دار الخلافے میں اس کی کمانڈ پر فارمنس ہوئی تھی جو تیقن کی چمک اس کی آنکھوں میں اور خوش حالی کی سرخی گالوں پہ لے آئی تھی۔ اس نے لوگوں کی تمام تر توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ صرف مکندی ان سب سے کٹا ایک طرف بیٹھا گملٹ میں اپنی کچھ دیر پہلے کی ہزیمت کو ڈبو رہا تھا۔ گری لال جان بوجھ کر سٹک گیا تھا۔ ہاں، ہارے ہوئے آدمی کے ساتھ ہمدردی کرو تو بُرا، نہ کرو تو بُرا۔ اور اس ہاں اور نہ کے بیچ کا فن نہایت گھٹیا اور بھونڈا ہوتا ہے۔ نہ معلوم سونفیا کے سلسلے میں مکندی نے اس کے سامنے کیا کچھ ڈینگیں ماری تھیں، جو —
برج اور شطرنج کھیلنے والے بھی اپنے اپنے کھیل چھوڑ کر تھیٹر کارنر میں ارشاد پنجتن کی نقالی دیکھنے چلے گئے تھے۔ بیرے بے کاری کے عالم میں وہسکی، شیری یا رَم کی بوتل کے ساتھ خالی گلاس اور سوڈا ٹرے پہ رکھے اور چابی ہاتھ میں لیے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ آرکسٹرا کا گوانی لیڈر اپنے ریگولیشن سوٹ میں کوئی اذیت سی محسوس کر رہا تھا۔ دن کے مقابلے میں اس وقت گرمی کم تھی کیوں کہ لُو چلنا بند ہو گئی تھی، لیکن اس پہ بھی شرابی کے اُلٹے سانس کی طرح سے بیچ بیچ میں گرم اور متعفن ہوا کا جھونکا چلا آتا تھا،کیوں کہ کلب کے نیچے ہی شہر کا گندا نالہ تھا جس کا پانی کوئی سو ڈیڑھ سو گز پرے دریا میں گرتا تھا۔ وہ بار بار اپنا سفید رومال نکال کر اپنا منھ اور اپنی گردن پونچھتا تھا اور پھر، نہ جانے کیوں، اس رومال کو دیکھتا تھا جس پہ مٹی اور پسینے کی میل چلی آئی تھی۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ اس کا کالا رنگ جانے لگا ہے اور کچھ دنوں میں وہ گورا ہو جائے گا۔ پھر وہ جھلّا کر ڈبل بیس پہ اپنا ہاتھ مار دیتا تھا جس سے عجیب طرح کی بیزار کر دینے والی آواز نکلتی تھی۔ اکیلا ساز اور وہ بھی بے وقت،بے ہنگم طریقے سے بجے تو ایک اینٹی میوزک کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جتنا میوزک سے لطف آتا ہے، اتنی ہی اینٹی میوزک سے بے لطفی پیدا ہوتی ہے۔ آخر سارا سلسلہ ساز و آہنگ ہی کا ہے نا!
شیلو، گورنر کے . اے. ڈی. سی کی لڑکی تھی، اس لیے وہ اپنے آپ کو گورنر ہی سمجھتی تھی، اور یہ تھا بھی ٹھیک کیونکہ بڈھا گورنر جب بھی دورے پہ جاتا تھا، شیلو کو اپنے خاص سیلون میں ساتھ لے جاتا تھا اور کسی کو پتہ نہ چلتا تھا کہ کسی گھاتک کو پھانسی کی سزا سے عمر قید میں بدل جانے یا بالکل ہی چھوٹ جانے میں شیلو کا کتنا ہاتھ تھا۔ شیلو کی عمر کوئی تیس ایک برس کی تھی مگر وہ کنواری تھی۔ شادی کے سلسلے میں اس کی عمر ممکن شوہر وں کو آزمانے ہی میں گزر گئی تھی۔ لڑکیوں کے لیے اکثر ان کے بڑے باپ کی بیٹی ہونا، زیادہ خوبصورت اور پڑھی لکھی ہونا، ان کی شادی کے منافی ہوتا ہے۔ شیلو یوں کوئی ایسی فلرٹ نہ تھی لیکن اس وقت، ساز اور آہنگ کے کھیل میں، وہ اس کم بخت مائیم کے آ جانے سے صرف ساز ہو کر رہ گئی تھی۔ کچھ ہی دیر پہلے، سدھانت، شہر کے چیمبر آف کامرس کے پریذیڈنٹ کے ساتھ وہ والٹس ناچتی رہی تھی، لیکن مائیم کے منظر پہ آتے ہی سدھانت نے شیلو کو یوں چھوڑ دیا جیسے انگریز لوگ ہاتھ سے گرم گرم آلو چھوڑ دیتے ہیں اور والٹس کا آہنگ شیلو کے بدن میں تھم کر رہ گیا تھا۔ کسی لڑکی میں آہنگ شروع ہی نہ ہو تو وہ برسوں کسی تان پرے کی طرح سے گھر میں ایک کھونٹی پہ لٹکی ہوئی رہ سکتی ہے، لیکن اگر وہ شروع ہو جائے یا اسے کوئی چھیڑ دے تو پھر وہ دھُن یا ڈانس نمبر کو تکمیل تک پہنچائے بغیر نہیں رہ سکتی—— اور والٹس کا آہنگ شیلو کے تقریباً کنوارے بدن میں تھم کر رہ گیا تھا جسے وہ کہیں بھی، کیسے بھی جھٹک دینا چاہتی تھی۔
اور سامنے مکندی بیٹھا تھا — خوبصورت اور مسٹر لکھنؤ!
اور اکیلا!
جانے اکائی عورت کو کیوں ہمیشہ پریشان کرتی ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ دوئی کی نمایندہ ہے اور اسے بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ ہندسوں میں دو، تین، چار—ان سے زیادہ کی دلیل ہے، اس لیے جب کہیں کوئی رشتے کی بات چلتی ہے تو اس کا استمرار دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور وہ فوراً حرکت میں آ جاتی ہے۔ وہ —جمع اور ضرب کی قائل—خیر، یہ حساب کی باتیں ہیں۔ شیلو دونوں ہاتھ اُٹھا کر، ان سے اپنے سر کے بالوں کو کچھ اور ڈھیلا اور بے ربط کرتی ہوئی مکندی کے پاس چلی آئی۔
’’آپ… آپ نہیں دیکھنا چاہتے پینٹو مائیم؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ مکندی نے سر ہلا دیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے نقل اچھی نہیں لگتی۔‘‘
’’اصل اچھی لگتی ہے؟‘‘ شیلو نے معنی خیز انداز سے کہا اور پھر اپنے آپ ایک کرسی سرکاتی ہوئی مکندی کے پاس بیٹھ گئی اور بولی:’’مجھے بھی یہ نقل پسند نہیں، زندگی کی نقل۔‘‘ وہ خفیف سا ہانپ بھی رہی تھی، جیسے حالات پہ کچھ غصّہ تھا۔ اس نے بیرے کو آواز دی جو پہلے ہی کہیں بھی، کوئی بھی کام چاہتا تھا۔ وہ بھاگا ہوا آیا، دست بستہ۔ ابھی اس نے مایوس ہو کر ٹرے بار کے کونٹر پہ جا رکھی تھی۔ شیلو نے آرڈر دیا: ’’ایک شیری، ڈبل!‘‘
نہ چاہتے ہوئے بھی مکندی نے بیرے سے کہا: ’’میرے حساب میں۔‘‘
’’نہیںنہیں‘‘ شیلو نے احتجاج کیا اور پھر مکندی کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر بیرے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی، ’’اوکے، مورس!‘‘
اور بیرہ ’’یس میڈم‘‘ کہہ کر بار کی طرف چل دیا، تیز تیز۔
ارشاد پنجتن ایک دندان ساز کی نقل اُتار رہا تھا۔ پہلے اس نے دور سے مریض— فرضی مریض — کو آتے دیکھا اور خوش ہوا کہ گاہک پھنسا۔ اس کے آنے سے پہلے اس نے کرسی ورسی ٹھیک کی، ہاتھوں سے ہی گرد کو جھاڑا اور جیسے ہی مریض آیا، اس نے مودّب طریقے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر ایسے ہی منھ ہلا ہلا کر اس کی دردناک باتیں سنتا رہا۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ بے چارہ درد کی شدّت سے رات بھر نہیں سویا، لیکن دندان ساز بے نیازی سے اس کی داستان سنتا رہا۔ پھر اس نے اشارہ کیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور اسے ڈینٹسٹ کی کرسی پہ بیٹھنے کے لیے کہا جس کے بعد اس نے مریض کو منھ کھولنے کی ہدایت دی۔ مائیم چونکہ دندان ساز بھی خود تھا اور مریض بھی خود ہی، اپنا منھ کچھ اس طریقے سے کھولا کہ وہ زمانہ یاد آ گیا جب انسان غاروں میں رہا کرتا تھا۔ دندان ساز نے غار کی قسم کے اس منھ میں ہاتھ ڈالا اور دوسرے ہاتھ سے فرضی بتی کو کھینچ کر مریض کے برابر کیا اور روشنی میں اندر جھانکا۔ کیا ہوکا سا اندھیرا ہو گا کہ ڈاکٹر کو منھ میں انگلی ڈال کر مسوڑھوں اور دانتوں کو ٹوہنا پڑا۔ جب ہی وہ فرضی مریض ایک دم ٹیس سے بلبلاتا دکھائی دیا۔ غالباً دندان ساز کا ہاتھ اندر ہلتے، جھولتے ہوئے دانت اور اس کے پاس کی کسی ننگی رگ کو جا لگا تھا۔ ہاتھ نکالتے ہوئے ڈاکٹر نے اسے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب جب کہ وہ شہر کے سب سے بڑے اور سب سے قابل دندان ساز کے پاس آ گیا ہے، اسے کسی فکر کی ضرورت نہیں۔ پھر اس نے آنکھوں میں دہشت سمو کر دو تین بار کی مدراسے بتایا کہ اندر بہت بڑی Cavity ہے جس میں سے اکبر کے زمانے کا پورا لشکر مع ہاتھی، ہودے اور گھوڑے وغیرہ کے گزر سکتا ہے—لیکن چنتا کی کوئی بات ہی نہیں!
پھر اس نے مشین کے اوپر ایک فرضی بوتل سے روئی کے پھوئے نکالے اور ایک کے بعد دوسرا منھ میں ڈالتے ہوئے اس نے دانت اور اس کے نواح کو آلایشوں سے پاک کیا۔ پھر دیکھا—بتی کو اور نزدیک کرتے ہوئے—اور سر ہلایا کہ دانت نکالے بغیر گزارہ نہیں اور چپکے سے اوزاروں کی پلیٹ میں سے زنبور اُٹھایا،جسے دیکھتے ہی مریض کی رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ ڈینٹسٹ کو پھر اسے تسلی دینا پڑی۔ پچکاری سے دانت اور اس کے نواح کے علاقے کو بے حس اور مردہ کرنا پڑا۔ آخر جب دانت، اس کے اردگرد کا حصّہ، حتیٰ کہ مریض بھی مردہ ہو گئے، تو اس نے زنبور اندر ڈال کر مضبوطی سے دانت کو پکڑا اور ایک دو جھٹکوں ہی سے اسے باہر نکال دیا۔ اس کے جھٹکوں کے ساتھ مریض اُچھلتا، بلبلاتا تھا، لیکن اب وہ ایک طرف ڈاکٹر اور دوسری طرف زنبور کی پکڑ میں تھا! وہ کر کیا سکتا تھا۔ تڑپ کر رہ گیا بے چارہ۔ ڈاکٹر بہت خوش تھا۔ اس نے دانت کو آنکھوں کے سامنے لا کر دیکھا اور اس کے چہرے پر سے کوئی پرچھائیں سی گزری۔ جب ہی مریض کے منھ میں اپنا ہاتھ ڈالا تو اسے پتہ چلا کہ ڈاکٹر نے صحیح و سالم دانت کو نکال دیا تھا۔ ٹوٹا ہوا اور کرم خوردہ دانت ابھی وہیں تھا، جوں کا توں!
اب مریض اور ڈاکٹر دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اسی مشین، اسی فرضی کرسی کے اردگرد اور لوگ بے تحاشا ہنس رہے تھے، تالیاں بجا رہے تھے۔ وہ مائیم اس قدر کمینہ تھا کہ مریض اور ڈاکٹر دونوں کی چال اور دونوں کی دوڑ کا ایک دم الگ الگ اور بے حد کامیاب نقشہ کھینچ رہا تھا۔
بیچ میں کہیں سونفیا بھی آ گئی۔ ظاہر ہے کہ تھیٹر کارنر میں جانے سے پہلے وہ کلب ہال ہی سے گزر کر آئی ہو گی۔ آج اس نے معمول سے زیادہ دل کش میک اَپ کر رکھا تھا، اس پہ بھی وہ کچھ ایسی کھلی ہوئی نہ تھی جیسی کہ وہ عام طور پر ہوتی تھی۔ کیا وہ آج صبح مندر نہیں گئی تھی؟
مائیم نے اپنے پروگرام کی دوسری مد شروع کی جو کہ ایک فرسٹریٹڈ یعنی کہ محروم و مہجور عاشق کے بارے میں تھی۔ سب سے پہلے سدھانت سونفیا کو دیکھ کر مجمعے سے باہر چلا آیا، پھر رشید علی، کلب کا منیجر ۔ آرکسٹرا کے لوگ چوکنّے ہو گئے اور گوانی لیڈر اپنی ٹائی کی ناٹ کو کستا ہوا ڈبل بیس کے پیچھے آ بیٹھا۔ بیرہ لوگ بھی مستعد ہو گئے۔ پھر ابھینکر نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا اور اسے مجمعے میں سے کھینچ لایا اور کشاں کشاں بساط پر لے آیا، بظاہر اگلی چال کے لیے۔ بے چارے مائیم کے کھیل کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دوسروں کا کھیل دیکھ رہا تھا!
سدھانت اور کچھ دوسرے لوگوں نے دیکھا، مکندی اور شیلو وہاں سے غائب تھے۔ مرمر کے میز کی ٹاپ پہ دو گلاس خالی پڑے تھے۔ ایش ٹرے میں بہت سی سگریٹوں کے بچے ہوئے ٹکڑے اور ایک طرف دستخط کیا ہوا بِل،جس پہ پانچ کا ٹپ پڑا تھا اور جو صدر دروازے سے آنے والی ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا!
کچھ دن بیت گئے ۔ مکندی اور گری لال آپس میں ملے اور اور ایک دوسرے کی کمر میں ٹہوکے دے دے کر ہنستے ہنساتے رہے۔
چند لوگوں کو صرف سنیچر کی شام کو چھٹی کا احساس ہوتا ہے، کیوں کہ اگلے روز کہیں آنا جانا تو ہوتا نہیں، مزے سے آدمی بستر پر پڑا منھ میں پرانی یادوں کی خوبانیاں پپول سکتا ہے اور اس کے ذائقے سے قندِ مکرر کا لطف اُٹھا سکتا ہے—جو قند سے بھی زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
سنیچر کی شام کو جب گری لال مکندی کے ہاں شری نواس میں آیا تو دیکھا مکندی کا چہرہ کانوں کی لووں تک لال ہو رہا ہے۔ وہ خوش بھی تھا اور نہیں بھی۔ گری لال نے اس کی وجہ پوچھی تو دیکھا کہ جواب دینے میں مکندی بھی ایکا ایکی اپنی نظروں سے کہیں غائب ہو گیا ہے اور ہر بات کا جواب ’’ایں؟‘‘ سے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے کے طور پر پوچھنے والے کو خواہ مخواہ اپنی بات دُہرانی پڑتی ہے۔
بیزار ہو کر گری لال نے مکندی کو دونوں شانوں سے پکڑ لیا اور زور زور سے جھنجھوڑتے ہوئے بولا: ’’مکندی، بات کیا ہے آخر؟‘‘
’’کچھ نہیں‘‘ پہلے تو مکندی نے کہا اور پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر اپنی کرسی گری لال کے پاس سرکائی اور بولا ’’سن یار، ایک عجیب سی بات ہوئی‘‘ اور پھر وہ رُک گیا، جیسے سوچ رہا ہو کہ اب بھی بتائے یا نہ بتائے۔
’’بڑا کمینہ ہے، یار تو‘‘ گری نے کہا ’’ایسی بھی کیا بات ہے جو تو گری سے چھپائے گا؟‘‘
’’بتاتا ہوں‘‘ مکندی راز داری کے انداز میں اپنا منھ گری لال کے کانوں کے پاس کرتے ہوئے بولا، ’’وہ سونفیا…‘‘
’’ہاں ہاں، سونفیا؟!‘‘
’’ہم جتنا اسے برف کا تودہ سمجھ رہے تھے،اتنی ہی وہ آگ نکلی۔‘‘
’’سچ؟‘‘ اور گری لال کا چہرہ بھی تمتمانے لگا اور پھر اس نے حیران ہو کر کہا ’’کہاں، کیسے ہوا یہ سب؟ اسے کیا شیلو اور تمھارے بارے میں پتہ چل گیا تھا؟‘‘
’’نہیں‘‘ مکندی نے جواب دیا ’’ہم تو اس کے کلب میں آنے سے پہلے ہی وہاں سے نکل کر دریا کے کنارے چلے گئے تھے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر‘‘ مکندی نے کہا، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سونفیا کے رام ہو جانے کی کوئی بڑی لمبی چوڑی وجہ بیان کرنے جا رہا ہے لیکن جبھی سامنے، برآمدے کی طرف اس کا ڈاشنڈ، رکی، کوئی اجنبی بو پاتا، بھونکتا ہوا چلا آیا۔
’’رکی—رکی۔‘‘ مکندی نے پکارا،لیکن وہ گری کے پاس پہنچ کر اسے سونگھ چکا تھا۔ پھر مکندی کے پاس آتے ہوئے اس نے اسے سونگھا، سر اُٹھا کر اس کے منھ کی طرف دیکھا اور دُم ہلا ہلا کر وہ اس کے ہاتھ اور پانو چاٹنے لگا۔ مکندی نے مسکراتے ہوئے گری لال کی طرف دیکھا اور پھر رکی کو اُٹھا کر اس کے بدن پہ ہاتھ پھیرنے، اس سے پیار کرنے لگا۔
٭٭٭
وہ بُڈھا
میں نہیں جانتی۔ میں جا رہی تھی مزے سے۔ میرے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا پرس تھا، جس میں کچھ چاندی کے تار کڑھے ہوئے تھے اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں میں اُچک کر فٹ پاتھ پہ ہو گئی، کیونکہ مین روڈ پر سے اِدھر آنے والی بسیں ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اڈے پر پہنچنے اور ٹائیم کیپر کو ٹائیم دینے کے لیے ۔ جبھی اس موڑ پر ہمیشہ ایکسیڈنٹ ہوتے تھے۔
بس تو خیر نہیں آئی، اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میری دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے اُدھر مکان تھے اور میرے اُلٹے ہاتھ پر اسکول کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اُس پار مشنری اسکول کے فادر لوگ ایسٹر کے سلسلے میں کچھ سجا بنا رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن ایکا ایکی جانے مجھے کیوں محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں— جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میں نہیں جانتی، مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے کہ ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس میں کا ہر پور دیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا شریر ہنسنے مچلنے لگتا ہے۔ کوئی چوری چپکے دیکھے بھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہزاروں سوئیاں ایک ساتھ چبھنے لگیں، جن سے تکلیف ہوتی ہے اور مزا بھی آتا ہے۔ البتہ کوئی سامنے بے شرمی سے دیکھے تو دوسری بات ہے۔
اُس دن کوئی میرے پیچھے آ رہا تھا، جسے میں نے دیکھا تو نہیں پر ایک سنسناہٹ سی میرے جسم میں دوڑ گئی۔ جہاں میں چل رہی تھی، وہاں برابر میں ایک پرانی شیورلے گاڑ رُکی، جس میں ادھیڑ عمر کا بلکہ بوڑھا مرد بیٹھا تھا۔ وہ بہت معتبر اور رُعب داب والا آدمی تھا۔ عمر نے جس کے چہرے پر لوڈو کھیلی تھی، اس کی ایک آنکھ تھوڑی دبی ہوئی تھی جیسے کبھی اسے لقوہ ہوا ہو، لیکن وٹامن سی اور بی کمپلیکس کے ٹیکے وغیرہ لگوانے، شیر کی چربی سے مالش کرنے یا کبوتر کا خون ملنے سے ٹھیک ہو گیا ہو۔ لیکن پورا نہیں۔ ایسے لوگوں پہ بڑا ترس آتا ہے کیونکہ وہ نہیں مارتے، اس پر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ جب اس نے میری طرف دیکھا تو پہلے میں بھی اسے غلط سمجھ گئی، لیکن چونکہ میرے اپنے گھر میں چچا گووند اس بیماری کے مریض ہیں، اس لیے میں جان گئی اور دیر تک مجھے کچھ وہ نہ رہا۔ میں اپنے آپ میں شرمندہ سی محسوس کرنے لگی۔ اس بڈھے کے داڑھی تھی جس میں روپئے کے برابر ایک سپاٹ سی جگہ تھی۔ ضرور کسی زمانے میں اس کے وہاں کوئی بڑا سا پھوڑا نکلا ہو گا، جو ٹھیک تو ہو گیا لیکن بالوں کو جڑ سے ہی غائب کر گیا۔ اس کی ڈاڑھی سر کے بالوں سے زیادہ سفید تھی۔ سر کے بال کھچڑی تھے— سفید زیادہ اور کالے کم، جیسے کسی نے مونگ کی دال تھوڑی اور چاول زیادہ ڈال دیے ہوں۔ اس کا بدن بھاری تھا،جیسے کہ اس عمر میں سب کا ہو جاتا ہے۔ میرا بھی ہو گا۔ کیا میٹرن لگوں گی۔ لوگ کہتے ہیں تمھاری ماں موٹی ہے، تم بھی آگے چل کر موٹی ہو جاؤ گی۔ عجیب بات ہے نا کہ کوئی عمر کے ساتھ آپ ہی اپنی ماں ہو جائے یا باپ۔ بڈھے کے قد کا پتہ نہ چلا البتہ، کیونکہ وہ موٹر میں ڈھیر تھا۔ رُکتے ہی اُس نے کہا — ’’ سُنو۔‘‘
میں رُک گئی، تھوڑا جھک بھی گئی، اُس کی بات سننے کے لیے—
’’میں نے تمھیں دور سے دیکھا‘‘ وہ بولا۔
میں نے جواب دیا ’’جی؟‘‘
’’میں جو تم سے کہنے جا رہا ہوں، اس پہ خفا نہ ہونا۔‘‘
’’کہیے‘‘ میں نے سیدھی کھڑی ہو کر کہا۔
اس بڈھے نے پھر مجھے ایک نظر دیکھا، لیکن مجھے زیادہ کچھ وہ نہ ہوا۔ کیوں کہ وہ بڈھا تھا۔ پھر اس کے چہرے سے کوئی ایسی ویسی بات نہ معلوم ہو رہی تھی، نہیں لوگ کہتے ہیں بڈھے بڑے لاگی ہوتے ہیں۔
’’تم جا رہی تھیں‘‘ وہ شروع ہوا ’’اور تمھاری یہ ناگن، دایاں پانو اُٹھنے پر بائیں اور بایاں اُٹھنے پر دائیں طرف جھوم رہی تھی۔‘‘
میں اک دم کانشس ہو گئی۔ میں نے اپنی چوٹی کی طرف دیکھا جو اس وقت نہ جانے کیسے سامنے چلی آئی تھی۔ میں نے بغیر کسی ارادے کے سر کو جھٹکا دیا اور ’’ناگن‘‘ پھر پیچھے چلی گئی۔ جیسے پھنکارتی ہوئی۔ بڈھا کہے جا رہا تھا ’’میں نے گاڑی آہستہ کر لی اور پیچھے سے تمھیں دیکھتا رہا۔‘‘
اور آخر ایک دم بولا وہ بڈھا— ’’تم بہت خوبصورت لڑکی ہو‘‘!
میرے بدن میں جیسے کوئی تکلّف پیدا ہو گیا اور میں کروٹ کروٹ اسے چرانے لگی۔ بڈھا منتر مُگدھ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نہ جانتی تھی، اس کی بات کا کیا جواب دوں ؟ میں نے سنا ہے، باہر کے دیسوں میں کسی لڑکی کو کوئی ایسی بات کہہ دے تو وہ بہت خوش ہوتی ہے، شکریہ ادا کرتی ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی ایسا رواج نہیں۔ اُلٹا ہمیں آگ لگ جاتی ہے— ہم کیسی بھی ہیں، کسی کو کیا حق پہنچتا ہے ہمیں ایسی نظروں سے دیکھے؟ اور وہ پھر یوں—سڑک کے کنارے، گاڑی روک کر، اور شروع ہو جائے۔ بدیس کی لڑکیوں کا کیا ہے، وہ تو بڈھوں کو پسند کرتی ہیں۔ اٹھارہ بیس برس کی لڑکی ساٹھ ستر کے بوڑھے سے شادی کر لیتی ہے۔
’’یہ بڈھا آخر چاہتا کیا ہے؟‘‘ میں نے سوچا۔
’’میں اس خوبصورتی کی بات نہیں کرتا‘‘ وہ بولا ’’جسے عام آدمی خوبصورتی کہتے ہیں۔ مثلاً وہ گورے رنگ کو اچھا سمجھتے ہیں۔‘‘
مجھے جھرجھری سی آ گئی۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں میرا رنگ کوئی اتنا گورا بھی نہیں۔ سانولا بھی نہیں۔ بس — بیچ کا ہے۔ میں نے … میں تو شرما گئی۔ ’’آپ؟‘‘ میں نے کہا اور پھر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟
بس دندناتی ہوئی آئی اور یوں پاس سے گزر گئی کہ کار اور اس کے بیچ انچ بھر کا ہی فرق رہ گیا۔ لیکن وہ بڈھا دنیا کی ہر چیز سے بے خبر تھا۔ آخر کو ہر ایک کو مرنا ہے، لیکن وہ اس وقت تو بیکار اور فضول موت سے بھی بے خبر تھا۔ جانے کن دنیاؤں میں کھویا ہوا تھا وہ؟
دو تین تھائی — راما لوگ وہاں سے گزرے، کسی نوکری پگار کے بارے میں جھگڑا کرتے ہوئے جو ایسٹر کی گھنٹی میں گم ہو گیا۔ دائیں طرف کے مکان کی بالکنی پر ایک دُبلی سی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرتی ہوئی آئی اور ایک بڑا سا گچھا بالوں کا کنگھی میں سے نکال کر نیچے پھینکتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ کسی نے خیال بھی نہ کیا، سڑک کے کنارے میرے اور اس بڈھے کے درمیان وہ کیا بریسق چل رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ لوگ اسے میرا کوئی بڑا سمجھتے تھے۔ بوڑھا کہتا رہا — ’’تمھارا یہ سنولایا ہوا، کُندنی رنگ، گٹھا ہوا بدن جو ہمارے ملک میں ہر لڑکی کا ہونا چاہیے‘‘ اور پھر ایکا ایکی بولا— ’’تمھاری شادی تو نہیں ہوئی؟‘‘
’’نہیں‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کرنا بھی تو کسی گبرو جوان سے۔‘‘
’’جی؟‘‘
اب لہو میرے منھ کو آنے لگا تھا۔ آپ ہی سوچیے، آنا چاہیے تھا یا نہیں؟ پر اس سے پہلے کہ میں اس بڈھے سے کچھ کہتی، اس نے ایک نئی ہی بات شروع کر دی— ’’تم جانتی ہو، آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں؟‘‘
’’چور!‘‘ میں نے کہا ’’کیسے چور؟‘‘
’’جو بچّوں کو چُرا کر لے جاتے ہیں۔ انھیں بے ہوش کر کے ایک گٹھری میں ڈال لیتے ہیں۔ ایک ایک وقت میں چار چار۔ پانچ پانچ۔‘‘
میں بڑی حیران ہوئی۔ میں نے کہا بھی تو صرف اتنا— ’’تو؟‘‘مطلب، مجھے—میرا اس بات سے کیا تعلق؟
جبھی اس بڈھے نے کمر سے نیچے میری طرف دیکھا اور بولا ’’دیکھنا کہیں پولس تمھیں ہی پکڑ کر نہ لے جائے۔‘‘
اور اس کے بعد اس بڈھے نے ہاتھ ہوا میں ہلایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔ میں بے حد حیران کھڑی تھی … چور … گٹھری، جس میں چار چار، پانچ پانچ بچّے … جبھی میں نے خود بھی اپنے نیچے کی طرف دیکھا اور سمجھی — میں ایک دم جل اُٹھی — پاجی، کمینہ۔ شرم نہ آئی اسے؟ میں اس کی پوتی نہیں تو بیٹی کی عمر کی تو ہوں ہی اور یہ مجھ سے ایسی باتیں کر گیا، جو لوگ بدیس میں بھی نہیں کرتے۔ اسے حق کیا تھا ایک لڑکی کو سڑک کے کنارے کھڑی کرے اور ایسی باتیں کرے؟ کسی بھی عزت والی، سوابھیمانی لڑکی سے۔ اس کی ہمت کیسے پڑی؟ آخر کیا تھا مجھ میں؟ یہ سب مجھی سے کیوں کہا؟ ایک بے عزتی کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ میں کیا ایک اچھے گھر کی لڑکی دکھائی نہیں دیتی؟ میں نے لباس بھی کوئی ایسا نہیں پہنا جو بازاری قسم کا ہو۔ قمیص تھوڑی فٹ تھی البتہ، جیسی عام لڑکیوں کی ہوتی ہے اور نیچے شلوار۔ کیوں؟ یہ ایسا کیوں ہوا؟ ایسے کو تو پکڑ کر مارنا اور مار مار کر سُور بنا دینا چاہیے۔ پولس میں اس کی رپورٹ کرنی چاہیے۔ آخر کوئی تک ہے؟ … اس کی گاڑی کا نمبر؟ مگر جب تک گاڑی موڑ پر نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ میں بھی کتنی مورکھ ہوں، جو نمبر بھی نہیں لیا۔ ایسا ہی ہوتا ہے میرے ساتھ، ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وقت پر دماغ کام نہیں کرتا۔ بعد میں خیال آتا ہے تو خود ہی سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ میں نے سائیکا لوجی کی کتاب میں پڑھا ہے، ایسی حرکت وہی لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی عزت کرتے ہیں، اپنی عزت کرتے ہیں۔ اسی لیے مجھے وقت پر نمبر لینا یاد نہ آیا۔ میں رونکھی سی ہو گئی، سامنے سے پودار کالج کے کچھ لڑکے گاتے، سیٹیاں بجاتے ہوئے گزر گئے۔ انھوں نے تو ایک نظر بھی میری طرف نہ دیکھا مگر یہ بڈھا…؟!
میں دراصل دادر اُون کے گولے خریدنے جا رہی تھی۔ میرا فسٹ کزن بیگل سویڈن میں تھا، جہاں بہت سردی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ میں کوئی آٹھ پلائی کی اُون کا سوئیٹر بُن کر اسے بھیج دوں۔ کزن ہونے کے ناتے وہ میرا بھائی تھا، لیکن تھا بدمعاش۔ اس نے لکھا —تمھارے ہاتھ کا بُنا ہوا سوئیٹر بدن پر رہے گا تو سردی نہیں لگے گی!… مجھے گھر میں کوئی اور کام بھی تو نہ تھا۔ بی اے پاس کر چکی تھی اور پاپا کہتے تھے، آگے پڑھائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں، اگر کسی لڑکی کو پروفیشن میں جانا ہو تو ٹھیک ہے، لیکن اگر ہر ہندستانی لڑکی کی طرح سے شادی ہی اس کا پروفیشن ہے تو پھر کیا فائدہ؟ اس لیے میں گھر ہی میں رہتی اور آلتو فالتو کام کیا کرتی تھی، جیسے سوئیٹر بُننا یا بھیا اور بھابی بہت رومینٹک ہو جائیں اور سینما کا پروگرام بنالیں تو پیچھے بِندو، ان کی بچّی کو سنبھالنا۔ اس کے گیلے کپڑوں، پوتڑوں کو دھونا سکھانا وغیرہ۔ لیکن بڈھے سے اس مڈبھیڑ کے بعد میں جیسے ہل ہی نہ سکی۔ میرے پانومیں جیسے کسی نے سیسہ بھر دیا۔ پتہ نہیں آگے چل کر کیا ہو —؟ اور میں گھر لوٹ آئی۔
اتنی جلدی گھر لوٹتے ہوئے دیکھ کر ماں حیران رہ گئی۔ اُس نے سمجھا میں اُون کے گولے خرید بھی لائی ہوں۔ لیکن میں نے قریب قریب روتے ہوئے اُسے ساری بات کہہ سنائی۔ اگر گول کر گئی تو وہ چار چار پانچ پانچ بچّوں والی بات۔ کچھ ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو بیٹی ماں سے بھی نہیں کرسکتی۔ ماں کو بڑا غصّہ آیا اور وہ ہوا میں گالیاں دینے لگی۔ عورتوں کی گالیاں، جن سے مردوں کا کچھ نہیں بگڑتا اور جو انھیں اور ایکسائیٹ کرتے ہیں۔ آخر ماں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا— ’’اب تجھے کیا بتاؤں، بٹیا۔ یہ مرد سب ایسے ہی ہوتے ہیں — ’’کیا جوان، کیا بڈھے؟‘‘
’’پر ماں ‘‘ میں نے کہا ’’پاپا بھی تو ہیں۔‘‘
ماں بولی — ’’اب میرا منھ مت کھُلواؤ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’دیکھا نہیں تھا اُس دن …کیسے راما لِنگم کی بیٹی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔‘‘
کچھ بھی ہو، ماں کے اس مردوے کے گالیاں دینے سے ایک حد تک میری تسلّی ہو گئی تھی۔ مگر بڈھے کی باتیں رہ رہ کر میرے کانوں میں گونج رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی— کہیں پھر مل جائے تو میں … اور اس کے بعد میں اپنی بے بسی پر ہنسنے لگی۔ جبھی میں اُٹھ کر اندر گئی۔ سامنے قد آدم آئینہ تھا جس کے سامنے میں رُک گئی اور اپنے سراپے کو دیکھنے لگی۔ کولھوں سے نیچے نظر گئی تو پھر مجھے اس کی چار چار پانچ پانچ بچّوں والی بات یاد آ گئی اور میرے کانوں کی لویں تک گرم ہونے لگیں۔ وہاں کوئی نہیں تھا، پھر میں کس سے شرما رہی تھی؟ ہو سکتا ہے، بدن کا یہی حصہ جسے لڑکیاں پسند نہیں کرتیں، مردوں کو اچھا لگتا ہو۔ جیسے لڑکے ایک دوسرے کے سیدھے اور ستواں بدن کا مذاق اڑاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ عورتوں کو اچھا لگتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد کو سوکھا سڑا ہونا چاہیے۔ نہیں، ان کا بدن ہو تو اوپر سے پھیلا ہوا۔ مطلب چوڑے کاندھے، جھکی چھاتی اور مضبوط بازو۔ البتہ نیچے سے سیدھا اور ستواں۔
پاپا ایکا ایکی بیچ والے کمرے میں چلے آئے، جہاں میں کھڑی تھی اور خیالوں کا وہ تار ٹوٹ گیا۔ پاپا آج بڑے تھکے تھکے سے نظر آ رہے تھے۔ کوٹ جو وہ پہن کر دفتر گئے تھے، کاندھے پر پڑا ہوا تھا۔ ٹوپی کچھ پیچھے سرک گئی تھی۔ انھوں نے اندر آ کر ایسے کہا — ’’بٹیا‘‘ اور پھر ٹوپی اُٹھا کر اپنے گنجے سر کو کھجایا۔ ٹوپی پرے رکھنے کے بعد وہ باتھ روم کی طرف چلے گئے، جہاں انھوں نے قمیص اتاری۔ ان کی بنیائن پسینے سے پٹی تھی۔ پہلے تو انھوں نے منھ پر پانی کے چھینٹے مارے اور پھر اوپر طاق سے یوڈی کلون نکال کر بغلوں میں لگائی اور ایک نیپکن سے منھ پونچھتے ہوئے لوٹ آئے اور جیسے بے فکر ہو کر خود کو صوفے میں گرا دیا۔ ماں نے پوچھا —— ’’شکنجبین لو گے؟‘‘ جس کے جواب میں انھوں نے کہا — ’’کیوں؟ وہسکی ختم ہو گئی؟—ابھی پرسوں ہی تو لایا تھا، میکن کی بوتل۔‘‘
جب میں بوتل اور گلاس لائی تو ماں اور پاپا آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میرے آتے ہی وہ خاموش ہو گئے۔ میں ڈر گئی۔ مجھے یوں لگا، جیسے وہ اُس بڈھے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن نہیں — وہ چچا گووند کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے۔ آخری بات سے مجھے یہی اندازہ ہوا چچا اندر سے کچھ اور ہیں، باہر سے کچھ اور۔
پھر کھانا وانا — جس میں رات ہو گئی۔ بیچ میں بے موسم کی برسات کا کوئی چھینٹا پڑ گیا تھا اور گھر کے سامنے لگے ہوئے اشوک پیڑ کے پتے، گِرے گِرے اور لمبوترے تھے، زیادہ ہرے اور چمکیلے ہو گئے تھے۔ سڑک پر کی کمیٹی کی بتی اور اس کی روشنی ان پر پڑتی تھی تو وہ چمک چمک جاتے تھے۔ ہوا ایک ساتھ نہیں چل رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ جھونکوں میں آ رہی ہے اور جب اشوک کے پتوں پر جھونکا آتا، شاں شاں کی آواز پیدا ہوتی، تو یوں لگتا جیسے ستار کا جھالا ہے۔ نانکو— نوکر نے بستر لگا دیا تھا۔ میری عادت تھی کہ ادھر بستر پر لیٹی، اُدھر سو گئی۔ لیکن اُس دن نیند تھی کہ آہی نہ رہی تھی۔ شاید اس لیے کہ سڑک پر کی روشنی عین میرے سرہانے پہ پڑتی تھی اور جب میں دائیں کروٹ لیتی تو وہ میری آنکھوں میں کھبنے لگتی۔ میں نے آنکھیں لَوٹ کر دیکھا تو بجلی کا بلب ایک چھوٹا سا چاند بن گیا تھا، جس میں ہالے سے باہر کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ میں نے اُٹھ کر بیڈ کو تھوڑا پرے سرکا لیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کرنیں وہیں تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب وہ خود میرے اپنے اندر سے پھوٹ رہی تھیں۔ آپ تو جانتے ہیں، جیوتی شبد ہو جاتا ہے اور شبد جیوتی۔ جبھی وہ کرنیں آواز میں بدل گئیں، اس بڈھے کی آواز میں!
’’دھت!‘‘ میں نے کہا اور اسی کروٹ پر لیٹے لیٹے مَن میں گائیتری کا پاٹھ کرنے لگی۔ لیکن وہی کرنیں چھوٹے چھوٹے، گول گول، گدرائے گدرائے بچوں کی شکل میں بدلنے لگیں۔ ان کے پیچھے گبرو جوان کا چہرہ نظر آ رہا تھا، لیکن دھندلا دھندلا سا جیسے وہ ان بچّوں کا باپ تھا۔ اس کی شکل اس بڈھے سے ملتی جُلتی تھی… نہیں تو…
جبھی اُس نوجوان کی شکل صاف ہونے لگی۔ وہ ہنس رہا تھا۔ اس کی بتیسی کتنی سفید اور پکّی تھی۔ اس نے فوج کی لفٹیننٹ کی وردی پہن رکھی تھی۔ نہیں— پولس انسپکٹر کی۔ نہیں—سکرٹ، ایوننگ سوٹ، جس میں وہ بے حد خوبصورت معلوم ہو رہا تھا۔میں نے ٹیچر کا بتایا ہوا نسخہ استعمال کرنا شروع کیا— اپنی نیندیں واپس لانے کے لیے۔ میں فرضی بھیڑیں گننے لگی۔ مگر بے کار تھا، سب کچھ بے کار۔ پرماتما جانے اُس بڈھے نے کیا جادو جگا دیا تھا یا میری اپنی ہی قسمت پھوٹ گئی تھی۔ اچھی بھلی جا رہی تھی، اُون کے گولے خریدنے، بیگل کے لیے۔ … بیگل! دھت… وہ میرا بھائی تھا۔ پھر گولے کی اُون کے موٹے موٹے اور بٹے ہوئے دھاگے پتلے ہو گئے۔ مکڑی کے جال کی طرح سے اور میرے دماغ میں اُلجھ گئے۔ پھر جیسے سب صاف ہو گیا۔ اب سامنے ایک چٹیل سا میدان تھا، جس میں کوئی ولی، اوتار بھیڑیں چرا رہا تھا۔ وہ بش شرٹ پہنے ہوئے تھا— تندرست، مضبوط اور خوب صورت ۔ ایک لا اُبالی پن میں اُس نے شرٹ کے بٹن کھول رکھے تھے اور چھاتی کے بال صاف اور سامنے نظر آ رہے تھے، جن میں سر رکھ کر اپنے دکھڑے رونے میں مزا آتا ہے۔ وہ بھیڑیں کیوں چرا رہا تھا؟ اب بھی مجھے یاد ہے وہ بھیڑیں گنتی میں تہتّر تھیں۔ میں سوگئی۔
مجھے کچھ—ہو گیا۔ نہ صرف یہ کہ میں بار بار خود کو آئینے میں دیکھنے لگی بلکہ ڈر نے بھی۔ بچے بری طرح میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور میں پکڑے جانے کے خوف سے کانپ رہی تھی۔ گھر میں میرے رشتے کی باتیں چل رہی تھیں۔ روز کوئی نہ کوئی دیکھنے دکھانے کو چلا آتا تھا۔ لیکن مجھے ان میں سے کوئی بھی پسند نہ تھا۔ کوئی ایسے ہی مرامر نکلا تھا اور کوئی تندرست بھی تھا تو اس نے کنویکس شیشوں والی عینک پہن رکھی تھی۔ اس نے صاحب کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ہے — کی ہو گی۔ نہیں چاہیے کیمسٹری۔ ان میں سے کوئی بھی تو نہیں تھا، جو میری نظر میں جچ سکے، جو اب تک میری نہیں، اُس بڈھے کی نذر ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا، اب سینما تماشے میں جانے کو بھی میرا من نہ چاہتا تھا، حالانکہ شہر میں کئی نئی اور اچھی پکچریں لگی تھیں اور وہی ہیرو لوگ ان میں کام کر رہے تھے، جو کل تک میرے چہیتے تھے۔ لیکن اب ایکا ایکی وہ مجھے سِسی دکھائی دینے لگے۔ وہ ویسے ہی پیڑ کے پیچھے سے گھوم کر لڑکی کے پاس آتے تھے اور عجیب طرح کی زنانہ حرکتیں کرتے ہوئے اسے لبھانے کی کوشش کرتے تھے۔ بھلا مرد ایسے تھوڑے ہوتے ہیں؟ عورت کے پیچھے بھاگتے ہوئے… اُسے موقع ہی نہیں دیتے کہ وہ ان کے لیے روئے، تڑپے حد ہے نا؟ مرد ہی نہیں جانتے کہ مرد کیا ہے؟ ان میں سے ایک بھی تو میری کسوٹی پہ پورا نہ اترتا تھا—جو میری کسوٹی بھی نہ تھی۔
انہی دنوں میں نے اپنے آپ کو کوپریج کے میدان میں پایا، جہاں ہند اور پاکستان کے بیچ ہاکی میچ ہو رہا تھا۔ پاکستان کے گیارہ کھلاڑیوں میں سے کم از کم چار پانچ تو ایسے تھے جو نظروں کو لوٹے لیتے تھے۔ اِدھر ہند کی ٹیم میں اتنے ہی— چار پانچ، جن میں سے دو سکھ تھے۔ چار پانچ ہی کیوں؟— مجھے ہنسی آئی ——پاکستان کا سنٹر فارورڈ عبد الباقی— کیا کھلاڑی تھا۔ اس کی ہاکی کیا تھی، چمبک پتھر تھی جس کے ساتھ گیند چمٹا ہی رہتا تھا۔ یوں پاس دیتا تھا جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ چلتا تو یوں جیسے نومینزلینڈ میں جا رہا ہے۔ ہندستانی سائیڈ کے گول پر پہنچ کر ایسا زبردست نشانہ بٹھاتا کہ گولی کی سب محنتیں بے کار، گیند پوسٹ کے پار—گول! تماشائی شور مچاتے۔ بمبئی کے مسلمان نعرے لگاتے، بغلیں بجاتے۔ یہی نہیں، اُتری بھارت کے ہندستانی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ ہندستانی ٹیم کا شنگار آنند تھا—کیا کارنر لیتا تھا۔ جب اُس نے گول کیا تو اس سے بھی زیادہ شور ہوا۔ اب دونوں طرف کے فاؤل کھیلنے لگے۔ وہ آزادانہ ایک دوسرے کے ٹخنے، گھٹنے توڑنے لگے، لیکن میچ چلتا رہا۔
پاکستانی ٹیم ہندستان پر بھاری تھی۔ ان میں سے کسی کے ساتھ لَو لگانا بھی ٹھیک نہ تھا۔ جات تو جات، وہ ہمارے دیس کے بھی نہ تھے۔ لیکن ہر وہ چیز انسان کو ایکسائٹ کرتی ہے، جسے کرنے سے اُسے منع کیا جائے۔ ہندو لڑکی کسی مسلمان کے ساتھ شادی کر لیتی ہے یا مسلمان یا سِکھ کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو کیا شور مچتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا تو اس لڑکی سے، کہ اسے کیا تکلیف تھی۔ چاہے وہ لڑکی خود ہی بعد میں کہے—کیا ہندو، کیا مسلمان اور کیا سِکھ ۔ سب ایک ہی سے کمینے ہیں۔ ہندستانی ٹیم میں ایک اسٹینڈبائی تھا، جو سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور گبھرو جوان… اسے کھِلا کیوں نہیں رہے تھے؟
کھیل کے بعد جب میں آٹوگراف لینے کے لیے کھلاڑیوں کے پاس گئی، تو اپنی کاپی اس اسٹینڈبائی کے سامنے بھی کر دی جس سے وہ بہت حیران ہوا۔ وہ تو کھیلا ہی نہ تھا۔ میں نے اس سے کہا—تم کھیلو گے۔ ایک دن کھیلو گے۔ کوئی بیمار پڑ جائے گا، مر … تم کھیلو گے۔ سب کو مات دو گے۔ ٹیم کے کیپٹن ہو گے!
اسٹینڈبائی کا تو جیسے دل پگھل کر باہر آ گیا۔ نم آنکھوںسے اُس نے میری طرف دیکھا، جیسے میں جو کچھ کہہ رہی ہوں، وہ بھوش وانی ہے!… اور وہ تھی بھی کیوں کہ وہ سب کچھ میں تھوڑے کہہ رہی تھی؟ میرے اندر کی کوئی چیز تھی جو مجھے مجبور کر رہی تھی،وہ سب کہنے کو۔ پھر میں نے اسے چائے کی دعوت دی، جو اس نے مان لی اور میں اسے ساتھ لے کر گیلارڈ پہنچ گئی۔ جب میں اس کے ساتھ چل رہی تھی تو ایک سنسناہٹ تھی، جو میرے پورے بدن میں دوڑ دوڑ جاتی تھی۔ کیسے ڈر خوشی ہو جاتا ہے اور خوشی ڈر۔میں نے چذیری کی جو ساری پہن رکھی تھی، بہت پتلی تھی۔ مجھے شرم آ رہی تھی اور شرم کے بیچ میں ایک مزا۔ کبھی کبھی مجھے یاد آتا تھا اور پھر بھول بھی جاتی تھی کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ آخر دنیا میں کوئی نہیں تھا، میرے اور اُس اسٹینڈبائی کے سوا جس کا نام جے کشن تھا لیکن اُسے سب پرونٹو کے نام سے پکارتے تھے۔
جبھی ہم دونوں گیلارڈ پہنچ گئے اور ایک سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ایک دوسرے کے وجود سے ہم دونوں جیسے شرابی ہو گئے تھے۔ ہم ساتھ لگ کے بیٹھے تھے کہ پرے ہو گئے اور پھر ساتھ لگ کر بیٹھ گئے۔ بدنوں میں سے کوئی بو مہک رہی تھی — سوندھی سوندھی، جیسے تنور میں پڑی ہوئی روٹی سے اُٹھتی ہے۔ میں چاہتی تھی کچھ ہو جائے ہم دونوں کے بیچ—پیار، جیسے پیار کوئی آلا کارت ڈِش ہوتی ہے۔ چائے آئی، جسے پیتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہ چور نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہے—میرے بدن کے اس حصے کو جہاں اُس بڈھے کی نظریں ٹِکی تھیں۔ وہ بڈھا تھا؟ ماں نے کہا تھا—مرد سب ایک ہی سے ہوتے ہیں، کیا جوان اور کیا بڈھے؟
ہو سکتا تھا ہماری بات آگے بڑھ جاتی۔ لیکن پرونٹو نے سب بنٹادھار کر دیا۔ پہلے اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دبا دیا۔ جسے میں پیار کی بارہ کھڑی سمجھی۔ لیکن اس کے بعد وہ سب کی نظریں بچا کر اپنا ہاتھ میرے شریر کے اُس حصے پہ دوڑانے لگا، جہاں عورت مرد سے جدا ہونے لگتی ہے۔ میرے تن بدن میں کوئی آگ سی لپک آئی اور آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں—نفرت کی، محبت کی۔ میرا چہرہ لال ہونے لگا۔ میں باتیں بدلنے لگی۔ میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا، تو اس نے مایوس ہو کر، رات بیک بے میں ملنے کی دعوت دی، جسے فوراً مانتے ہوئے میں نے ایک طرح سے انکار کر دیا۔ وہ ’مجھے‘ عورت کو بالکل غلط سمجھ گیا تھا، جو ڈھرّے پر تو آتی ہے مگر سیدھے نہیں۔ اس کی تو گالی بھی سیدھی نہیں ہوتی۔ بے حیا مرد کی گالی کی طرح۔ اس کا سب کچھ گول گول ہوتا ہے، ٹیڑھا ٹیڑھا ۔ روشنی سے وہ گھبراتی ہے۔ اندھیرے سے اسے ڈر لگتا ہے۔ آخر اندھیرا رہتا ہے نہ ڈر، کیوں کہ وہ ان آنکھوں سے پرے، ان روشنیوں سے پرے ایک ایسی دنیا میں ہوتی ہے جو بالغوں کی دنیا یوگ کی دنیا ہوتی ہے، جسے آنکھوں کے بیچ کی تیسری آنکھ ہی گھورسکتی ہے۔
گیلارڈ سے باہر نکلے تو میرے اور پرونٹو کے بیچ سوائے تندرستی کے اور کوئی بات سانجھی نہیں رہ گئی تھی۔ میرے کھسیائے ہونے سے وہ بھی کچھ کھسیا چکا تھا۔ جبھی سڑک پر جاتی ہوئی ایک ٹیکسی کو میں نے روکا۔ پرونٹو نے بڑھ کر میرے لیے دروازہ کھولا اور میں لپک کر اندر بیٹھ گئی۔
’’بیک بے‘‘ پرونٹو نے مجھے یاد دلایا۔
میں نے طوطے کی طرح سے رٹ دیا— ’’بیک بے۔‘‘ اور ٹیکسی ڈرائیور کی طرف منھ موڑتے ہوئے بولی— ’’ماہم۔‘‘
ڈرائیور نے پیچھے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر حیرانی تھی۔
’’بیک بے نہیں؟‘‘ وہ بولا۔
’’نہیں۔‘‘ میں نے کرخت سی آواز میں جواب دیا—— ’’ماہم۔‘‘
’’آپ تو ابھی…‘‘
’’چلو، جہاں میں کہتی ہوں۔‘‘
ٹیکسی چلی تو پرونٹو نے میری طرف ہاتھ پھیلایا،جو اتنا لمبا ہو گیا کہ محمد علی روڈ، بھائی کھلہ، پریل، دادر، ماہم، سیتلا دیوی ٹمپل روڈ تک میرا پیچھا کرتا، مجھے گدگداتا رہا۔ آخر میں گھر پہنچ گئی۔
اندر، یادو بھیّا ایک جھٹکے کے ساتھ بھابی کے پاس سے اُٹھے۔ میں سمجھ گئی کیونکہ ماں کا کڑا حکم تھا کہ میرے سامنے وہ اکٹھے نہ بیٹھا کریں— ’’گھر میں جوان لڑکی ہے۔‘‘
میں نے لپک کر بندو کو جھولے میں سے اُٹھایا اور اس سے کھیلنے لگی۔ بندو مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ ایک پل کے لیے تو میں گھبرا گئی—جیسے اُسے سب کچھ معلوم تھا۔ کچھ لوگ کہتے بھی ہیں کہ بچوں کو سب پتہ ہوتا ہے۔ صرف وہ کہتے نہیں۔
گھر میں گووند چاچا بھی تھے جو پاپا کے ساتھ اسٹڈی میں بیٹھے تھے اور ہمیشہ کی طرح سے ماں کی جان ناک میں کیے ہوئے تھے۔ عجیب تھا دیور بھابی کا یہ آپسی رشتہ ۔جب ملتے تھے ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔لڑنے جھگڑنے، گالی گلوج کے سوا کوئی بات ہی نہ ہوتی۔ پاپا ان کی لڑائی میں کبھی دخل نہ دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے نا کہ ایک روز کی بات ہو تو کوئی بولے بکے بھی۔ لیکن روز روز کا یہ جھگڑا کون مٹائے؟ اور وہ سب ٹھیک ہی تو تھا، کیوں کہ اس ساری لے دے کے باوجود ماں اتنا سا بھی بیمار ہوتی تو ہمیشہ گووند ہی کو یاد کرتی۔ اور بھی تو دیور تھے ماں کے، جن کے بیچ ’’پائے لاگن‘‘ اور ’’جیتے رہو‘‘ کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ وہ ماں کو تحفوں کی گھوس بھی دیتے تھے، لیکن وہاں کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ دینا تو ایک طرف گووند چاچا ماں کو ٹھگتے ہی رہتے تھے، لیکن اس پر بھی وہ اسے سب سے سوا سمجھتی تھی۔ اور وہ لے کر اُلٹا ماں کو یہ احساس دلاتے تھے جیسے اس کے مِتّروں پہ کوئی احسان کر رہے ہیں۔ کئی بار ماں نے کہا —گووند اس لیے اچھا ہے کہ اس کے دل میں کچھ نہیں۔ اور پاپا جواب میں ہمیشہ یہی کہتے تھے — دماغ میں بھی کچھ نہیں۔ اور ماں اس بات پر لڑنے، مرنے مارنے پر تیار ہو جاتی۔ اور جب وہ گووند چاچا سے اپنی دیورانی کے بارے میں پوچھتی— تم اجیتا کو کیوں نہیں لاتے؟ تو یہی جواب ملتا—کیا کروں لا کر؟ پھر تم سے اس کی چوٹی کھنچوانا ہے؟ جلی کٹی سنوانا ہے؟… ماں جواب میں گالیاں دینے لگتی، گالیاں کھاتی اور چاچا کے چلے جانے کے بعد دھاڑیں مار کر روتی اور پھر وُہی—کہاں ہے گووندا؟اسے بلاؤ۔ میرا تو اس گھر میں وہی ہے۔ اپنے پاپا کا کیا پوچھتی ہو؟ وہ تو ہیں ہی بھولے مہیش، گوبر گنیش۔ ان کے تو کوئی بھی کپڑے اتروا لے… اور یہ میں نے ہر جگہ دیکھا ہے، ہر بیوی اپنے میاں کو بہت سیدھا، بہت بے وقوف سمجھتی ہے۔ اور وہ چُپ رہتا ہے۔ شاید اسی میں اس کا فائدہ ہے۔
اس دن گووند چاچا ڈائرکٹرجنرل شپنگ کے دفتر میں کام کرنے والے کسی مسٹر سولنکی کی بات کر رہے تھے اور اصرار کر رہے تھے— ’’میری بات آپ کو ماننا پڑے گی۔‘‘
’’تم بِجنس مین ہونا‘‘ ماں کہہ رہی تھی ’’اس میں بھی کوئی سوارتھ ہو گا تمھارا۔‘‘
اس پر گووند چاچا جل بھُن گئے۔ چلاّتے ہوئے اُنھوں نے کہا ’’تم کیا سمجھتی ہو، کامنی تمھاری بیٹی ہے، میری نہیں ہے۔‘‘
جب مجھے پتہ چلا کہ وہ مسٹر سولنکی کے لڑکے کے ساتھ میرے ہی رشتے کی بات چل رہی ہے اور اس کے بعد کنڈم اسپنڈل کی طرح سے اور بھی دھاگے کھُلنے لگے، جن کا مجھے آج تک پتہ نہ تھا۔ گووند چاچا کے منھ پر جھاگ تھے اور وہ بک رہے تھے۔ ’’تو … تو نے اجیتا کے ساتھ میری شادی کر دی، میں نے آج تک چوں چرا کی؟… کہتی ہے، میری مائیکے سے ہے، دور کے میرے ماما کی لڑکی ہے—کہاں رکھوں؟ زندگی کیا آنکھوں سے بناتے ہیں؟ وہی آنکھیں اب وہ مجھے دکھاتی ہے۔ اور تو اور،تمھیں بھی دکھاتی ہے۔‘‘
پہلی بار میں نے گووند چاچا کا بریک ڈاؤن دیکھا۔ میں سمجھتی تھی وہ آدرش آدمی ہیں اور اجیتا چاچی سے پیار کرتے ہیں۔ آج یہ راز بھی کھُلا کہ ان کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا۔ کینٹب نیوجن تو ایک نام تھا۔
ماں نے کہا — ’’کامنی تمھاری بیٹی ہے۔ اسی لیے تو نہیں چاہتی اسے کسی بھی کھڈے میں پھینک دو۔‘‘
میرا خیال تھا کہ اس پر اور تو تو میں میں ہو گی۔ اور گووند چاچا بائیں بازو کی پارٹی کی طرح سے واک آؤٹ کر جائیں گے۔ لیکن وہ اُلٹا قسمیں کھانے لگے— ’’تمھاری سوگند بھابی۔ اس سے اچھا لڑکا تمھیں نہ ملے گا۔ وہ بڑودہ کی سنٹرل ریلوے ورکشاپ میں فورمین ہے۔ بڑی اچھی تنخواہ پاتا ہے۔‘‘
میں سب کچھ سُن رہی تھی اور اپنے آپ میں جھلاّ رہی تھی۔ لڑکا اچھا ہے، تنخواہ اچھی ہے لیکن شکل کیسی ہے، عقل کیسی ہے، عمر کیا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی کچھ کہتا ہی نہیں۔ فورمین بنتے بنتے تو برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ ہمارا دیس ۔ پچاس سال کا مرد بھی بیاہنے آئے تو یہاں کی بولی میں اُسے لڑکا ہی کہتے ہیں۔ اس کی صحت کیسی ہے۔ کہیں انٹلیکچویل تو نہیں معلوم ہوتا۔ جبھی مجھے پرونٹو کا خیال آیا، جو اس وقت بیک بے پر میرا انتظار کر رہا ہو گا—اسٹینڈبائی! جو زندگی بھر اسٹینڈبائی ہی رہے گا۔ کبھی نہ کھیلے گا۔ اُسے کھیل آتا ہی نہیں۔ اس میں صبر ہی نہیں۔ پھر مجھے اس غریب پر ترس آنے لگا۔ جی چاہا بھاگ کر اس کے پاس چلی جاؤں۔ اسے تو میں نے دیکھا اور پسند بھی کیا تھا، لیکن اس فورمین کو جو بیک گراؤنڈ میں کہیں مسکرا رہا تھا۔
پھر جیسے من کے اندھیرے میں مچھّر بھنبھنانے لگے۔ مس گیتا سے مسز سولنکی کہلائی تو کیسی لگوں گی—بکواس!
گووند چاچا کہہ رہے تھے—لڑکا تن کا اُجلا ہے، من کا اُجلا ہے۔ اس کی آتما کتنی اچھی ہے اس کا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بچّوں سے پیار کرتا ہے، بچّے اُس پر جان دیتے ہیں، اس کے اِردگرد منڈلاتے—ہی ہی، ہو ہو، ہاہا کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ان کے ساتھ غی غی، غُوغُو، غاں غاں—
بس …میں اندر کے کسی سفر سے اتنا تھک چکی تھی کہ رات مجھے بھیڑیں گننے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ ایک سپاٹ، بے رنگ، بے خواب سی نیند آئی مجھے، جو لمبے رَت جگوں کے بعد آتی ہے۔
دو ہی دنوں میں وہ لڑکا گھر پہ موجود تھا۔ ارے؟… میرے سب اندازے کتنے غلط نکلے۔ وہ ہاکی ٹیم کے لڑکوں، کیا کھیلنے والے اور کیا اسٹینڈبائی۔ ان سب س زیادہ گبھرو، زیادہ جوان تھا۔ اس نے صرف کسرت ہی نہ کی تھی، آرام بھی کیا تھا۔ اس کا چہرہ اندر کی گرمی سے تمتمایا ہوا تھا اور رنگ کندنی تھا—میری طرح۔ مضبوط دہانہ، مضبوط دانتوں کی بیڑھ۔ جیسے بے شمار گنّے چوسے ہوں، گاجر مولیاں کھائی ہوں، شاید کچّے شلغم بھی۔ وہ گھبرا رہا تھا ایک طرف اور اپنی گھبراہٹ کو بہادری سے چھپا رہا تھا دوسری طرف۔ آتے ہی اس نے مجھے نمستے کی، میں نے جواب میں کر ڈالی۔ ماں کو پرنام کیا۔ جب وہ میری طرف نہ دیکھتا تھا، تو میں اسے دیکھ لیتی تھی۔ یہ اچھا ہوا کسی کو پتہ نہ چلا۔ میری ٹانگیں کپکپانے لگی ہیں۔ دل دھڑام سے شریر کے اندر ہی کہیں نیچے گر گیا ہے۔ آج کل کی لڑکی ہونے کے ناتے مجھے ہسٹریا کا ثبوت نہ دینا تھا، اس لیے ڈٹی رہی۔ بیچ میں مجھے خیال آیا، ایسے ہی بے کار کی بغاوت کر دی ہے، میں نے تو اپنے بال بھی نہیں بنائے۔
اس کے ساتھ اس کی ماں بھی آئی تھی اور بچھی جا رہی تھی، جیسے بیٹوں کی شادی سے پہلے مائیں بچھتی ہیں۔ مجھے تو ایسے لگا جیسے وہ لڑکا نہیں، اس کی ماں مجھ پہ مر مٹی ہے اور جانے مجھ میں اپنے ہوش کا کیا دیکھ رہی ہے؟ اس کی اپنی صحت بہت خراب تھی اور وہ اپنی کبھی کی خوبصورتی اور تندرستی کی باتیں کر کے اپنے بیٹے کے لیے مجھے مانگ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے اپنے ’’مال‘‘ پر بھروسہ نہیں… وہ بھکارن!کہہ رہی تھی لڑکوں کی خوبصورتی کس نے دیکھی ہے؟ لڑکے سب خوبصورت ہوتے ہیں۔ بس اچھے گھر کے ہوں، کماؤ ہوں… اور وہ اپنی ماں کی طرف یوں دیکھ رہا تھا، جیسے وہ اس کے ساتھ کوئی بہت بڑا ظلم کر رہی ہے۔ میری ماں کے کہنے پر وہ کچھ شرماتا ہوا میرے پاس آ کے بیٹھ گیا اور ’’باتیں کرو‘‘ کے حکم سے مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ پہلے تو میں چُپ رہی اور جب بولی تو صرف یہ ثابت ہوا کہ میں گونگی نہیں ہوں۔ سفید قمیص، سفید پتلون اور سفید ہی بوٹ پہنے وہ کرکٹ کا کھلاڑی معلوم ہو رہا تھا۔ وہ کیپٹن نہیں تو بیٹس مین ہو گا، نہیں بولر… بولر، جو تھوڑا پیچھے ہٹ کر آگے آتا ہے۔ اور بڑے زور کے سسپنس سے گیند کو پھینکتا ہے اور وکٹ صاف اُڑ جاتی ہے۔ ہاں بیٹس مین اچھا ہو تو چوکسی کے ساتھ گیند کو باؤنڈری سے بھی پرے پھینک دیتا ہے، نہیں تو خود ہی آؤٹ۔
ماں کے اشارے پہ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ چائے پئیں گے؟‘‘
’’جی؟‘‘ اس نے چونک کر کہا اور پھر جیسے میری بات کہیں بھوگول کا چکر کاٹ کر اس کے دماغ میں لوٹ آئی اور وہ بولا ’’آپ پئیں گی؟‘‘
میں ہنس دی — ’’میں نہ پیؤں گی تو کیا آپ نہیں پئیں گے؟‘‘
’’آپ پئیں گی تو میں بھی پی لوں گا۔‘‘
میں حیران ہوئی، کیوں کہ وہ بھی ایسا ہی تھا جیسے میرے پاپا— ماں کے سامنے۔ لیکن ایسا تو بہت بعد میں ہوتا ہے، یہ شروع ہی میں ایسا ہے۔
چائے بنانے کے لیے اُٹھی تو سامنے آئینے پر میری نظر گئی—وہ مجھے جاتے دیکھ رہا تھا۔ میں نے ساری سے اپنے بدن کو چھپایا۔ اور پھر مجھے اس بڈھے کے الفاظ یاد آ گئے— ’’آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں… دیکھنا کہیں پولس تمھیں ہی پکڑ کر نہ لے جائے۔‘‘
بس، کچھ ہی دنوں میں میں پکڑی گئی۔ شادی ہو گئی میری۔ میرے گھر کے لوگ—یوں تو بڑے آزاد خیال ہیں، لیکن دیدے پہ بٹھاتے ہوئے انھوں نے جیسے مجھے بوری میں ڈال رکھا تھا تاکہ میرے ہاتھ پانو پر کسی کی نظر ہی نہ پڑے۔ میں پردے کو پسند کرتی ہوں، لیکن ایک حد تک۔ مثلاً گھونگھٹ مجھے بڑا اچھا لگتا ہے لیکن صرف اتنا جس میں دکھائی بھی دے اور شرم بھی رہے۔ زندگی میں ایک ہی بار تو ہوتا ہے کہ وہ دبے پانو آتا ہے اور کانپتے ہاتھوں سے اس گھونگھٹ کو اُٹھاتا ہے جسے بیچ میں سے ہٹائے بنا پرماتما بھی نہیں ملتا۔
شادی کے ہنگامے میں میں نے تو کچھ نہیں دیکھا—کون آیا، کون گیا؟ بس چھوٹے سولنکی میرے من میں سمائے ہوئے تھے۔ میں نے جو بھی کپڑا، جو بھی زیور پہنا تھا، جو بھی افشاں چُنی تھی، انہی کی نظروں سے دیکھ کر۔ جیسے میری اپنی نظریں ہی نہ رہی تھی؟ میں سب سے بچنا،سب سے چھُپنا چاہتی تھی تاکہ صرف ایک کے سامنے کھُل سکوں، ایک پہ اپنا آپا وار سکوں۔ جب برات آئی تو میری فرینڈز نے بہت کہا—بالکونی پر آ جاؤ، برات دیکھ لو۔ لیکن میں نے ایک ہی نہ پکڑ لی۔ میں نے ایک روپ دیکھا تھا، جس کے بعد کوئی دوسرا روپ دیکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
آخر میں نے سسرال کی چوکھٹ پر قدم رکھا۔ سب میرے سواگت کے لیے کھڑے تھے۔ گھر کی عورتیں، مرد…بچوں کی ہنسی سنائی دے رہی تھی اور وہ مجھے گھونگھٹ میں سے دھندلے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔ سب رسمیں ادا ہوئیں، جیسی کہ ہر شادی میں ہوتی ہیں۔ لیکن جانے کیوں مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میری شادی اور ہے، میرا گھونگھٹ اور، میرا بر اور۔ گھر کے ایشٹ دیو کو ما تھا ٹکانے کے بعد میری ساس مجھے اپنے کمرے میں لے گئی، تاکہ میں اپنے سسر کے پانو چھوؤں، ان سے اسیس لوں۔ کچھ اور شرماتے، کچھ اور سر جھکاتے ہوئے میں نے ان کے چرنوں کو ہاتھ لگایا۔ انھوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے—
’’سو تم — آ گئیں، بیٹی؟‘‘
میں نے تھوڑا چونک کر اس آواز کے مالک کی طرف دیکھا اور ایک بار پھر ان کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ کچھ اور بھی آنسو ہوتے تو میں اُن قدموں کو دھو دھو کر پیتی۔
٭٭٭
جنازہ کہاں ہے
کہیں سے سِسکیوں کی آواز آ رہی ہے۔ کہیں کوئی رو رہا ہے اور میں گھبرا کر جاگ اُٹھتا ہوں …اس وقت صبح کے ساڑھے تین بجے ہیں…
نہیں تو ۔ میرا لڑکا تو سو رہا ہے۔ شاید… میں اس کے بیڈ روم میں جا کر اپنا کان اس کے منھ کے پاس لے جاتا ہوں۔ وہ سو رہا ہے، مزے کی نیند۔ پھر یہ کس کے رونے، کس کے سسکیاں لینے کی آواز ہے؟ایسی ہی ایک آواز، بلکہ آوازیں میں نے برسوں پہلے سنی تھیں۔ وہ دن، وہ قہر کا عالم، آپ کو بھی یاد ہو گا، جب دن کو سورج ڈوبا تھا اور ہر چہار سو‘ سے ہائے ہائے کی آوازیں سُنائی دے رہی تھیں۔ جب گاندھی جی کا قتل ہوا تھا۔
یہ آواز —کہیں خفتی، میری بیوی کی تو نہیں؟ نہیں اس کی آواز کیسے ہو سکتی ہے یہ؟ وہ تو یہاں بمبئی سے ہزار میل دور پنجاب کے کسی گانو میں بیٹھی ہے۔ اپنے بھائی کے پاس۔ ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے یہ اسی کی آواز ہو، جو زمان و مکان کی وسعتوں کو چیرتی پھاڑتی ہوئی میری سائیکی میں چلی آئی ہو، کیوں کہ میں نے قریب قریب اُسے چھوڑ رکھا ہے۔ میں کیا کرتا؟ وہ بہت زیادہ بکواس کرنے لگی تھی اور سوال سے پہلے ہی جواب دینے لگتی تھی۔ اس لیے میں نے اُس کا نام خفتی رکھ دیا تھا۔ حالانکہ وہ دُلاری ہے، ایک سیدھی سادی گھریلو عورت۔ لیکن کیا آج کی عورت کے لیے صرف گھریلو ہونا کافی ہے؟
گھریلو عورت!…گھریلو عورت وہی ہوتی ہے نا جو گھر ہی میں رہے۔ میاں کے لیے روٹیاں پکائے۔ سفر سے اس کی واپسی پر اس کے بوٹ کے تسمے کھولے، اس کا بستر بچھائے اور اشارہ پاتے ہی اس پہ چلی آئے۔ نتیجہ؟— بچّے، پھر اور بچّے۔ لیکن باہر کی ہوا اُسے نہ لگنے پائے، جس سے پھپھوندی لگ جائے۔ جب اسے اور کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا تو کیا وہ دیواروں سے لڑے گی، دروازوں سے ٹکرائے گی۔ کچھ دن کے بعد یوں معلوم ہو گا، جسے آپ نے عورت سمجھ کر شادی کی تھی، وہ چھچھوندر نکلی۔ آج کی بیوی… جانے کیا ڈر بیٹھ گیا ہے اس کے دل میں کہ وہ دنیا کی ہر بگڑی بات کے لیے خود کو دوشی سمجھنے لگی ہے، ورنہ ہر بات میں وہ یوں مداخلت پر اتر آئے؟ اور اب جب کہ عاجز آ کر میں نے اس سے کنارہ کشی کر لی ہے، تو وہ گانو میں بیٹھ کر اپنی یا میری جان کو رو رہی ہے۔ کیوں نہ روئے؟ ہم مرد بھی تو ہر بار کسی ’تازہ عورت‘ کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔ تازہ، جیسے وہ عورت نہیں، بھنڈی ہے۔ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ بچپن سے ہی ہم نے تجرّد پہ لکچر سُنے ہیں اور جب شادی ہوئی تو بیوی کے ساتھ پیار کرنے پر کانپے ہیں…خیر، میں بھی اس تازہ عورت کے ساتھ راس رچا کر اس کے بارے میں اپنے سے سوال کرتا ہوں۔ کیا یہ بیوی کے فرائض انجام دے سکتی ہے؟ تو اندر سے ایک مسکت جواب آتا ہے۔ نہیں۔ تو پھر؟ اگر میری بیوی کو اتنا ہی دُکھ ہے تو وہ مجھے لکھتی کیوں نہیں؟شاید وہ دنیا کی ہر بیوی کی طرح سمجھتی ہے کہ ایک دن میں جھک مار کے آؤں گا اور اس کے پانو پڑ کر اسے منا کے لے جاؤں گا۔ عجیب بھونڈا اعتماد ہے اسے میری محبت پہ … جیسے اس دنیا میں نہ کوئی کلب ہے نہ سینما، تماشا، نہ ہوٹل، نہ قحبہ خانہ۔ نہیں، شاید مجھ سے خلاصی پاکر وہ خوش ہو، ہنستی ہو۔ ہو سکتا ہے میں نے اُسے نہیں، اُسی نے مجھے چھوڑ دیا ہو۔ ہو سکتا ہے اس کا رونا دھونا میرا وہم ہو اور یا پھر خواہش ہو میری ہی…
ارے کہیں میں خود تو نہیں رو رہا؟ یہ جنھیں میں سانس سمجھ رہا ہوں، کہیں میری اپنی ہی سسکیاں تو نہیں؟ شاید… کیا بے ہودگی ہے۔ معلوم ہوتا ہے میں خبط الحواسی کا مریض ہو گیا ہوں…
عجیب جذبے ہیں، عجیب خواہشیں اور ان سے زیادہ عجیب ڈر۔ مثلاً کل ہی شام میں نے چند البیلوں کے ساتھ کوکا واچینی ریستوران میں کھانا کھایا۔ ہم اپنے سیٹلمنٹ آفس کے کچھ دوست، پرتگیز چرچ کے سایے تلے، ایک موٹی گوانی عورت کے گھر میں ملے، جو چوری کی شراب بیچتی تھی۔ اس نے ہمیں بڑی تیز مسیرا پلائی اور میرے دوست نند لال کے ہاتھ کچھ اسمگل کی ہوئی گھڑیاں بیچ دیں۔ میں نے صرف ایک سگریٹ لائٹر خریدا۔ وہ تو نند لال کو ایسا سونا بھی بیچ دیتی، مگر اس غریب کے پاس صرف پانچ سو روپئے تھے جو آج دفتر میں ایک ریفیوجی بڑھیا کا کیس ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے سلسلے میں اس نے اینٹھے تھے۔ بہرحال مسیرا سے دھت ہو کر ہم نے اپنے ایک گجراتی دوست سے کار مانگی، جو اس نے کسی سفارت خانے کی معرفت امپورٹ کی تھی۔ اگر وہ کسی کے نام پر گاڑی خرید سکتا تھا، تو کیا ہم اس کے نام پہ اسے چلا بھی نہ سکتے تھے؟ چنانچہ ہم سب بے کار دوست اس گجراتی کی کالی چمکیلی گاڑی میں بیٹھ کر چلے۔ راستے بھر ہمیں ایک پل کے لیے بھی محسوس نہ ہوا کہ وہ گاڑی ہماری اپنی نہیں ہے۔ کوکاوا پہنچے تو اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے بیرے نے مجھے سلام کیا، جس سے ایک عجیب سی گدگدی میرے اندر پیدا ہوئی کیوں کہ میں سلام لینے کا نہیں، دینے کا عادی تھا۔ کھانے میں ہم نے شارک فِن ملے ہوئے کیکڑے کا سوپ پیا، جس سے مردمی بڑھتی ہے۔ پھر بھنے ہوئے چاولوں کے ساتھ ہم نے کھٹی میٹھی جھینگا مچھلی کھائی اور دوسرا بہت کچھ الّم غلّم۔ اس پہ نند لال نے نوڈل کا آرڈر دے دیا۔ ہم سب کا پیٹ پھٹ رہا تھا، اس پہ بھی اس نے نوڈل کیوں منگوا لیے؟ اب ہمارے سامنے وہ نوڈل، بے شمار کینچوؤں کی طرح پڑے تھے اور ہم انھیں کھا نہ سکتے تھے۔ لیکن نند لال کو ایک عجیب طرح کی تسلّی تھی۔ یہ گھر پہنچ کر ہماری سمجھ میں آیا کہ ہم نے اس قدر پیٹ کیوں ٹھونسا؟ اتنا جھوٹا کیوں چھوڑا؟ بات یہ تھی، صبح میں نے، نند لال نے اور دوسرے میرے سب دوستوں نے بہار میں اور یوپی کے کچھ ضلعوں میں سوکھے کی خبریں پڑھیں تھیں اور وہ تصویر بھی دیکھی تھی، جس میں ایک ڈھانچہ سا لڑکا کھڑا کسی پیڑ کی چھال کھا رہا تھا۔ اسی بھوک کے خیال نے شاید ہمارے دماغ میں کوئی اونٹ کا سا کوہان پیدا کر دیا، جسے ہم نے ہفتوں کے کھانے سے بھر لیا۔
یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیوں خفتی جانے سے دو دن پہلے مجھ سے لڑی تھی۔ ہمارا جس بات پہ جھگڑا ہوا،وہ ایک نہایت فضول سی چیز تھی مٹی کا تیل، جو گھر میں چولھا جلانے یا خودکشی کے کام آتا ہے۔ خفتی بکے جا رہی تھی۔ تیل کی ایک بوند نہیں ہے۔ پھر مجھے مت کہنا کھانا نہیں پکایا۔ میں نے کہا، میں نہیں کہوں گا۔ بھوکا مروں گا پر تمھیں نہیں کہوں گا۔ مجھ سے تیل کے کیو میں کھڑا نہیں ہوا جاتا۔
میں دراصل عورت کے اس جذبے سے فائدہ اُٹھا رہا تھا، جس سے وہ مرد کو کبھی بھوکا نہیں دیکھ سکتی۔ وہ لڑے گی، جھگڑے گی، گالیاں دے گی لیکن پھر کیسے بھی کہیں سے بھی بندوبست کر کے آپ کا پیٹ بھرے گی۔ پھر گالیاں دے گی، پھر وہی کرے گی۔ اس میں اچنبے کی کوئی بات نہیں۔ مرد جب بچّہ ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی چھاتی سے دودھ پلاتی ہے۔ بڑا ہوتا ہے تو اس کے لیے روٹیاں پکاتی ہے۔ اس کی ہر بھوک کا سامان کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کسی کے گھر میں جائیں تو یہ عورت ہی ہے جو سب سے پہلے پوچھے گی۔ آپ کیا کھائیں گے؟ کیا پئیں گے؟ بعض وقت تو پوچھے گی بھی نہیں اور گھر میں جو سب سے اچھی چیز بنی ہے آپ کے سامنے رکھے گی۔آپ یہ مت سمجھیے کہ وہ آپ پر کوئی احسان کر رہی ہے۔ کھا کر اپنی بھوک مٹا کر اُلٹا آپ اس پہ احسان کر رہے ہیں۔
چنانچہ اس دن میں مٹی کا تیل نہیں لایا، لیکن گھر لوٹا تو خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ صبح جب میں دفتر جانے کے لیے نکلا تو میرے ہاتھ میں اخبار تھا، جسے میں آج کل کے حالات جاننے کے لیے کم اور اجابت کے لیے زیادہ استعمال کرتا ہوں۔ ہاں، اخبار ساتھ لیے جائے بغیر مجھے ٹھیک سے باتھ روم نہیں ہوتا نا۔ اس دن کے اخبار میں سیاسی خبروں کے ساتھ معمول کے قتل، دھوکہ دہی، اور ریل کے ایکسیڈنٹ وغیرہ کی خبریں چھپی تھیں۔ ریل کے ایکسیڈنٹ تو خیر ریل کام گاروں، سیاسی پارٹیوں کے ڈسپلن کی وجہ سے روز ہوتے ہیں، مگر ایک بات جو مجھے خدائی قہر سے بھی زیادہ لگی، وہ بمبئی میں پانی کا قحط تھی۔
پانی کا قحط؟ جی ہاں، یہ بیسیوں صدی کے ہندستان کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے، ورنہ ہم نے اپنی تاریخ میں ابھی غلّے کے قحط تک ہی ترقی کی تھی۔ بمبئی کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر اور یہاں پانی کا کال، ہمیں فیثا غورث کے اس آدمی کو یاد دلاتا تھا جو نچلے ہونٹ تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن جب پینے کے لیے اپنا منھ نیچے کرتا ہے تو ساتھ ہی پانی کی سطح بھی نیچی ہو جاتی ہے اور وہ پانی میں پیاسا مر جاتا ہے۔ ایک ہی دن پہلے میں نے کیو میں کھڑے ہونے اور مٹی کا تیل لانے سے انکار کیا تھا۔ لیکن اب جب کہ میں نے خفتی کو بتایا کہ کچھ دیش بھگت بمبئی سے اُتری لوگوں کو پانی نہ ہونے کی وجہ سے نکال رہے ہیں تو وہ مجھ پر برس پڑی، جیسے میرا قصور تھا اس میں… پھر وہ اپنے آپ خود گالیاں دینے لگی، جیسے میں نے اس پہ کوئی بہت بڑا الزام لگا دیا۔ اس میں الزام کی کیا بات تھی؟ زندگی خود ایک الزام ہے بھائی، ایک بہت بڑی تہمت جو مرد پہ کم اور عورت پہ کچھ زیادہ ہی لگائی گئی ہے۔ پھر اتنے بڑے ملک، اس کے اتنے بڑے کلچر، فلسفے، پرانی تاریخ کے وارث ہونا ہے تو یہ قیمت تو دینا ہی پڑے گی۔ نہیں دینا تو جایئے امریکہ، جہاں کی اصلی تاریخ ہی تین سو سال پُرانی ہے۔ کیسے وہ پاگل کی طرح سے دوڑے ہیں، مادّی ترقی کی پریڈ گراؤنڈ پہ۔ آخر روحانی ترقی بھی تو کوئی چیز ہے…
ہم جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟— خفتی رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی۔ اُنیس برس ہوئے ہم کو خوشاب، پنجاب سے نکلے، اپنے پتروں کی مرجادا، ان کی سمپتی چھوڑ کر، راستے میں مرے کٹے، کنوئیں ہماری لاشوں سے پٹے، پر چلتے رہے۔ نجر ایک ہی طرف تھی کہ بھارت کی شش شاملا، اس کی ہری بھری گود میں جائیں گے تو سب دکھ دلدّر دور ہو جائیں گے۔ یہاں آئے تو صرف جوتے کھائے، بھگوڑے کہلائے، کچھ کھانے کو نہیں، ہر چیز کو آگ لگی ہے۔ آج ایک چیز کے دام پندرہ پیسے ہیں، تو دس ہی دن میں پچاس پیسے ہو جاتے ہیں۔ چادر چھوٹی، مانُس لمبا، آدھا ڈھانپنے پہ بھی پورا ننگا۔ تم ہی مجھے یہاں لے آئے۔ بمبئی میں بِجنس بہت ہے، اب کرو بِجنس۔ میں تو ہوں ہی بھاگوں جلی، جو ایک تمھارے ساتھ چلی، دوجے اس سروپ نکھا کے دیس میں باسا کیا۔ اپنی ناک تو کٹے ہی کٹے۔ ہم نے یہاں اتنا پیسہ لگایا، کھون پسینہ بہایا اور کھاری کی سی کھادر، کھاری جمین کو لاہور کی انارکلی بنا دیا اور اب اِدھر کے گھاٹی لوگ بولتے ہیں۔ مومبئی کُنئے چی؟ ہم چی— تم پنجابی، سندھی لوگ جاؤ۔ اب ہم کدھر جائیں؟ بولو؟ اپنا بھارت دیس کدھر ہے، بولو جی…؟
میں کیا بولتا؟ بنگال ہے تو بنگالیوں کا۔ گجرات گجراتیوں کا، دکھن دکھنیوں کا، ہمارا تو کچھ بھی نہیں۔ ہم تو تیرتی ہوئی آبادی کہلانے لگے، کچھ دیر بعد اُڑتی ہوئی کہلائیں گے۔ میں اخبار ہاتھ میں لیے دفتر جانے کے لیے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں، باہر چالی کے میدان میں نل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مٹی میں ملا ہوا ایک قطرہ ٹپکتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہیں مٹی کا تیل ہی نہ ہو۔ لیکن نہیں وہ پانی ہے۔ نل اپنی سانس روک کر سوں سوں کرنے لگتا ہے۔ اس کے نیچے لوٹس گھی کا ایک خالی ٹین رکھا ہے اور اس کے بعد لائن میں کچھ نہیں تو پچاس ساٹھ مٹکے، بالٹیاں، ٹھلیاں پڑی ہیں، اور کچھ نہیں تو پتھرہی پڑے ہیں جو کسی کی باری کی نشانی ہیں۔ ان کے مالک یا مالکنیں آئیں گی تو برتن کے آگے پیچھے ہو جانے سے ایک دوسرے کے بال نوچیں گی۔ لڑتی ہوئی چھچھوندریں معلوم ہوں گی — خفتیاں سب کی سب …
اس سنسار کا سارا سوندریہ انسان کے کارن ہے اور جب انسان نہ ہو تو اس کی چیزیں کتنی بھیانک معلوم ہوتی ہیں۔ آپ نے کسی مرنے والے کی پشواز دیکھی ہے؟ میں نے دیکھی ہے۔ یہ ہندو مسلم فسادات کے بعد کی بات ہے۔ میں ان دنوں جمّوں میں تھا اور ایسے ہی چلتے ہوئے تو ی دریا کے کنارے جا نکلا۔ وہاں بریتے میں ایک ڈھانچ پڑا تھا، جس کا کچھ حصہ تو ریت میں تھا اور کچھ باہر۔ ڈھانچ دیکھنے سے کیا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرد کا ہے یا عورت کا۔ ایک عام آدمی کو پیلوس (Pelvis) دیکھنے سے اندازہ نہیں ہوتا۔ لیکن صاحب، اس ڈھانچ کی ٹانگوں کے ساتھ پشواز کے چیتھڑے چپکے ہوئے تھے اور ایک بازو کی ہڈّی پہ چوڑیاں تھیں، جو آب و ہوا اور باد و باراں سے کالی پڑچکی تھیں۔ میں وہاں سے بھاگ نکلا… جیسا کہ میں حقیقت کو دیکھ کر ہمیشہ کرتا ہوں۔ لیکن بھارت دیس ہی اتنا بڑا ہے کہ جہاں سے بھاگیں وہ بھارت، اور جہاں پہنچیں وہ بھی بھارت، اور پھر بھارت کہیں بھی نہیں… ہاں، تو میں ان برتنوں کی بات کر رہا تھا… وہ برتن موجود اور برتن والیاں غائب! نل میں پانی شاید دو بجے چھوٹتا تھا۔ ڈیڑھ بجے کے قریب منظر انگڑائی لے کر جاگے گا اور بھر پور ہو جائے گا۔ جھگڑے ہوں گے، مار پٹائی ہو گی اور پھر جا کے کہیں خون پانی ہو گا۔ جو بھی ہو گا، اچھا ہی ہو گا کیوں کہ اس مردہ ہول سے وہ زندہ ہول اچھا… وہ خالی برتن جن کے منھ کھلے تھے اور کنارے تُڑے مُڑے، ٹوٹے ہوئے، جیسے محبت کے پے در پے ضربوں سے کسی چھنال کے ہونٹ…میں اخبار ہاتھ میں لیے وہاں سے بھی بھاگ نکلا۔
بس کا کیا کیو خاصا لمبا تھا اور دفتر سے پہلے ہی دیر ہو چکی تھی۔ اس پر بھی کیو میں لگے بغیر چارہ نہ تھا۔ ڈر کے کارن وہ کیو مجھے ایک بہت بڑا اژدہا معلوم ہو رہا تھا۔ ہاں، ڈر اور امید۔ اندھیرا اور روشنی۔ اس لیے ڈر کی صورت ہمارے مذہبی پیشواؤں نے اژدہے کی بنائی ہے، جو منھ پھاڑے، دانت نکالے، اپنے چار پانووں سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا ہم پہ رینگ آتا ہے۔ کیوں کہ ہم گناہ گار ہیں۔ زندگی کے گناہ سے آلودہ ۔ اگر ہم اژدہے کے کھُلے ہوئے منھ، اس کے بڑے بڑے دانتوں اور آگ برساتی ہوئی آنکھوں سے بچ بھی جائیں، تو اس کی دُم کی مار سے کہاں بچ سکتے ہیں، جو کوریا سے لے کر چین، جاپان اور بیچ میں ہندستان سے لے کر لنکا تک پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن یہ کیو ایک عجیب اجگر تھا جو سرکتا ہی نہ تھا اور ہم جہاں کے تہاں کھڑے تھے۔ معلوم ہوتا تھا حالات کی جادوگرنی نے انسان کو مکھّی بنایا اور دیوار پہ لگایا۔ پھر کیو تھوڑا سا ہلا، جیسے مرے ہوئے سانپ کی دُم بھی ایکا ایکی کسی بدنی اضطرار سے اپنے آپ ہل جاتی ہے لیکن اگلے ہی لمحے وہ ساکت ہو گیا، کیوں کہ بس نہیں آئی تھی۔ ایسے میں اخبار کا وہ حصہ بہت کام آتا ہے جس میں کوئی سکینڈل چھپی ہوتی ہے، اور ایک ادیب کی تحریر کے ساتھ تقریباً ننگی لڑکی کی تصویر۔ میں اس ننگی لڑکی میں اتنا غرق ہو گیا کہ کوئی ہوش ہی نہ رہا، جبھی سامنے سے آواز آئی۔
’’ٹین کہاں ہے؟‘‘
’’ایں—؟‘‘ میں نے اخبار سے سر اٹھایا۔ ’’ٹین؟‘‘
’’ہاں ہاں—ٹین، کنستر، کنستر۔‘‘
—جبھی مجھے پتہ چلا کہ میں مٹی کے تیل والے کیو میں لگ گیا ہوں۔ شاید خفتی کی بات میرے دماغ کے کسی کونے میں رہ گئی، جیسے کوئی مصرعہ شاعر کے دماغ میں رہ جاتا ہے۔ جبھی میرے ساتھ والے نے نہ معلوم مجھ سے کیوں پوچھا۔’’آپ شادی شدہ ہیں؟‘‘… ’’جی ہاں، جی نہیں… ‘‘ میں نے جواب دیا ’’میں صرف شدہ ہوں۔ اور پھر دکان دار سے کچھ ایسی ہی مہمل بکتے ہوئے میں وہاں سے بھاگا اور بس کے کیو میں جا لگا جو تیل کی دکان کے برابر ہی تھا۔
دفتر سے اور بھی دیر ہو جانے کی وجہ سے اب مجھ سے اخبار بھی نہ اٹھایا جا رہا تھا۔ میں نے ایک نظر پھر اس کے آخری صفحے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا، انہی چند لمحوں کے بیچ کسی نے اس ننگی لڑکی کو کپڑے پہنا دیے ہیں اور تصویر کے ساتھ چھپی ہوئی ادبی تحریر فحش معلوم ہو رہی ہے۔
میری حیرانی، میری پریشانی تو تھمتی ہی نہیں۔ دفتر میں سپرنٹنڈنٹ نے مجھے کہا بھی تو صرف اتنا سا ’’گجن سنگھ، آج تم پھر لیٹ آئے؟‘‘
’’ایسے ہی، اسرانی صاحب—‘‘ میں نے لنگ سی عذر داری کرتے ہوئے کہا ’’بات یہ ہے آج میں غلطی سے غلط کیو میں لگ گیا۔ ہی! اور ساتھ ہی میں دل میں سوچ رہا تھا کہ دو بار نفی کا استعمال مثبت ہو جاتا ہے۔
’’ہو جاتا ہے‘‘ اسرانی نے کہا ’’کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’کیا ایسا ہو جاتا ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’یہی—زندگی میں آدمی کبھی غلط کیو میں بھی لگ جاتا ہے‘‘… اور پھر اسرانی نے اپنے آپ کو کسی فائل میں ڈبو دیا۔ اور میں اپنے ٹیبل پر لوٹ آیا۔ کسی بیوہ کا کیس تھا جسے ڈھونڈنے کے لیے میں نے پُرانے ریکارڈوں کی سب خاک اپنے سر پر ڈال لی تھی۔ بات یہ تھی کہ لنک فائلیں نہیں مل رہی تھیں۔ بیوہ کے کئی دیور جیٹھ تھے جو ہندستان بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ ایک لینس ڈون کی چھاؤنی میں ٹھیکے دار تھا۔ دوسرا کٹک میں کہیں سرپٹک رہا تھا اور ایک تو ہانڈی میں تھا۔ پھر ایسے ہی کئی بہنیں تھیں، جن میں سے ایک نے تیسرا شوہر کر لیا تھا اور تینوں میں سے دو دو، تین تین بچّے تھے۔ شاید چار بھی ہوں۔
مجھے اپنا آپ ایک ہاتھی لگا، جو پہلے تو سونڈ سے سب مٹّی، سب کوڑا کرکٹ اپنے بدن پر پھینک لیتا ہے اور ارنف ارنف کرتا ہوا پانی میں چلا جاتا ہے اور پھر ویسے ہی سونڈ کی مدد سے بانی کے فوارے کو اپنے بدن پہ چھوڑنے لگتا ہے۔ بیوہ کی مدد تو میرے لیے گنگا اشنان سے بھی زیادہ تھی۔ چنانچہ میں نے سب لنک فائلیں جانے کہاں کہاں سے ڈھونڈھ نکالیں۔ کیس کے باقی کوبڑ سیدھے کیے اور اس کا کلیم خود جا کر کمشنر صاحب سے پاس کروا دیا۔ لیکن وہ بیوہ صرف میرا شکریہ ادا کر کے چلتی بنی۔ بیوہ جو مجھے ایکسائیٹ کرتی ہے، جاتے ہوئے اس نے ایک مسکراہٹ بھی تو میرے پلّے نہ ڈالی۔ شاید وہ مسکرا ہی نہ سکتی تھی، کیوں کہ اس کے ہونٹوں کے اِردگِرد کی رگیں اور پٹھے ایک مسلسل مصیبت میں جامد ہو چکے تھے اور ہر راہرو ِ محبت نے اس کے لیے محبت کے سے حسین و جمیل جذبے کو ایک بے معنی سی گردان بنا دیا تھا…
جبھی مجھے سپرنٹنڈنٹ اسرانی کی ہمدردی سمجھ میں آئی۔ اس نے ریز، میری بجائے نند لال کو دے دیا تھا جو بہت چالو آدمی تھا۔ نند لال اوپر سے جو کچھ کماتا تھا اس میں اسرانی کی بھی پتی تھی۔ میرا لیٹ آنا تو ایک بہانہ تھا۔ پھر نند لال نے اسرانی سے خاندانی تعلق پیدا کر رکھا تھا اور مہینے میں دو تین بار وہ اپنی بیوی کے ساتھ اسرانی کے کنوارے کوارٹر ز میں جاتا تھا۔
سیٹلمنٹ آفس اچھا خاصا کبوتر خانہ تھا۔ اس میں زیادہ تر تو سندھی اور پنجابی ہی کام کرتے تھے، لیکن اب کچھ مدراسیوں نے آنا شروع کر دیا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ ایک بار دفتر میں مدراسی آ جائیں تو پھر پورا دفتر مدراسیوں سے بھر جاتا ہے۔ مگر یہ تو بنگالیوں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے اور مراٹھیوں کے بارے میں بھی۔ اس سلسلے میں پنجابی بہت اچھا ہے ۔وہ ایک بار کسی دفتر میں آ جائے تو مجال ہے جو کسی اور پنجابی کو پاس بھی پھٹکنے دے، چاہے وہ کتنا ہی قابل ہو… دفتر میں آزادانہ ایک دوسرے کی ماں بہن ہوتی تھی اور ہر قومیت، قوم بننے کے کرب میں مبتلا تھی۔
وہ دن بہت گندہ تھا یا شاید مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کیونکہ اسرانی نے میری ترقی کے سب راستے روک دیے تھے اور میری بیوی بدصورت اور بوڑھی ہو گئی تھی اور مجھے مسکراہٹوں کو سکّے میں ڈھالنے کا فن نہ آتا تھا۔ دفتر میں جو کچھ ہو رہا تھا، وہ ہندو مسلم فسادات سے کہیں زیادہ تھا۔ قتل سے زیادہ تھا اور خون سے بھی زیادہ۔ بعض وقت تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کسی چیز، کسی جذبے کی ضرورت سے زیادہ نفی کرنا ہی اُسے قبول کرنا ہے۔ ہندو جتنا زیادہ اس دنیا کو مایا سمجھتا ہے، اتنا ہی وہ پیسے کا پجاری ہے۔ ہندستان میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں اس نے دولت کو ایک دیوی، لکشمی دیوی نہ بنا دیا ہو اور ایک گندے اور بھونڈے طریقے سے اس کی پوجا نہ کی ہو۔ وہ پوجا میں اس کی پوجا کرتا ہے۔ دیوالی میں پوجا۔ دسہرے میں اپنی کار پہ صد برگ کے ہار ڈالتا ہے، جو دنیا کا کوئی بشر نہیں ڈالتا۔ کیسے مورتی پوجا اور پیسے کی پوجا آپس میں گڈمڈ ہو گئے ہیں۔ بہر حال اپنے دیس میں ایک نیا ضمیر جاگا ہے، ایک نئے انتاکرن نے انگڑائی لی ہے۔
اور پیسہ ہے کہ دن بدن میلا ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی جو نیا چھپا ہوا نوٹ ہاتھ آتا ہے تو اپنا کتنا سُتھرا اور کتنا صاف معلوم ہوتا ہے۔ یا شاید میرا اپنا من گندہ ہے۔ جب بھی میرے ہاتھ میں میلا اور چُر رمُرر سا نوٹ آتا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے، اسے دق کے مریض نے چھُوا ہے، یہ رنڈی کے کوٹھے سے آیا ہے۔ لیکن جب حوصلہ کر کے اُسے ہاتھ میں لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے، میرے ہاتھ میں روپیہ نہیں، چھ آٹھ آنے ہیں جنھیں میں چار آنے میں نکال دینا چاہتا ہوں۔
وہ تنخواہ کا دن تھا اور مجھے ’’ریز‘‘ کی امید تھی۔ امید کیا، میری باری تھی ۔ لیکن … میں پیسے ہاتھ میں لیے ہوئے نکلا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں عورت ہوں اور ابھی ابھی میری آبروریزی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی مرضی، اپنی خوشی اور محبت سے اپنے بدن کو پیار کرنے والے کے حوالے نہیں کیا۔ بلکہ کسی نے زبردستی میری عزّت لوٹی ہے۔ بدن کی بات چھوڑیے، روح کے تکبّر کا کیا ہوا۔ شاعر کے لفظوں میں ہم تو ’’کوچہ و بازار کا مال‘‘ ہو گئے۔ جو بھی نگاہ ہم پہ اُٹھتی ہے، خریدار کی طرح سے اُٹھتی ہے،… رونا دل سے اُٹھتا ہے، مگر آنسو کہیں گلے میں پھنس کے رہ جاتے ہیں۔ اِردگِرد کے سب لوگ رنڈیاں ہیں، جو اپنے اپنے دھندے کے سلسلے میں گاہکوں کو پھنسا رہے ہیں۔ آنکھ مار رہے ہیں اور بیچ بیچ میں اپنے بدن کے وہ حصّے دکھاتے ہیں جن سے مرد کے دماغ میں ایک محشر برپا ہو جاتا ہے۔
دفتر سے لوٹنے پر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بازار — ’پکاسُو‘ نے بنایا ہے۔ آرٹ نہ ہوتے ہوئے بھی کتنا بڑا آرٹ ہے اس میں۔ ہوٹل میں ا سٹیشنری دکھائی دے رہی ہے اور کہیں فولاد کی لیتھ پر کوئی حسینہ الارپو ناچ رہی ہے۔ پرائمری رنگوں میں وصال کسی ربط سے نہیں۔ وہ دھبّے سے ہیں، ایسے ہی ایک دوسرے سے دست و گریباں۔ اگر آپ نے نیل کو نارنجی میں حل ہوتے نہیں دیکھا تو چلیے میں دکھاتا ہوں۔ غالباً آپ نے بمبئی میں سمندر کے بیچ حاجی علی حسین مسجد پہ شالیمار بسکٹوں کا بڑا سا نیون سائن نہیں دیکھا جس نے خدا کو بسکٹ بنا دیا۔ وکٹوریہ والے کی وہ گالی نہیں سُنی جو ٹھمری کے ریکارڈ،’ جمنا کے تیر‘ پہ سُپرامپوز ہو رہی ہے۔ میری قمیص پہ یہ گل کاری کسی حسینہ کی کشیدہ کاری نہیں،پان کی پیک ہے جو کسی نے چلتی بس پرسے مجھ پر پھینکی ہے۔ سڑک پہ کیلے کے چھلکے اور ردّی کاغذ دیوالیے کی دستاویزیں بنے اُڑتے پھر رہے ہیں اور یہ کتاب جو آپ میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہیں،گرما گرم نسخہ ہے جو سڑک کے کنارے والی اسٹال کا مالک میرے ہاتھ میں تھما گیا ہے۔ اسے پڑھیے اور پھر آ جائیے ٹیگور، ٹالسٹائی اور چیخوف…
اپنے جسمانی اور ذہنی افلاس کی وجہ سے میں بہت سی اِدھر اُدھر کی چیزیں خریدتا ہوں۔ میں پیسہ رکھ ہی نہیں سکتا نا۔ پیسہ وہی رکھتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو۔ اب میں لٹل ہٹ میں جاؤں گا اور ریتا کا ناچ دیکھوں گا،جو اپنے بدن پہ انجیر کا پتہ، صرف انجیر کا پتہ لٹکائے پھرتی ہے، ایک گلابی تاگے سے جو بدن کا ہم رنگ ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتا۔ نہیں، نہیں میں نہیں جاؤں گا۔ خفتی ناراض ہو گی۔ جب مجھے کیا پتہ تھا، وہ پھر بھی ناراض ہو جائے گی اور پورے دیس کا الزام خود پہ لیتی ہوئی گانو جا کر اپنے بھائی کے پاس بیٹھ جائے گی اور پھر کبھی نہیں آئے گی اور میں اپنی خفّت کو چھپانے کے لیے سب سے کہتا پھروں گا۔ میں نے خفتی کو نکال دیا۔ بہت بک بک کرنے لگی تھی وہ …
میں گھر تک پیدل جانے کی سوچتا ہوں۔ ایسے ہی اپنے آپ کو اذیّت دینے کے لیے، جیسے یوگی اپنے چاروں طرف آگ جلا کر بیچ میں تپ کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ یا اپنے آپ کو زندہ درگور کر لیتا ہے۔ خود کو اذیّت دینے سے کون سا کام ہے جو ہمارے ملک میں نہیں ہو سکتا۔ آپ آج سے کھانا چھوڑ دیجیے، دیکھیے کیسے گؤ ہتیا بند نہیں ہوتی؟ ایک صوبے کے دو یا دو کا ایک نہیں بن جاتا؟ سرکش طالب علم بکری بن کر اپنے کلاس روم میں نہیں لوٹ جاتے؟ چنانچہ اسی تپسیّا کے عمل میں اپنے وجود سے نکلنے والی برقیات کی مدد سے بھارت کا بھوشیہ سنوارتے ہوئے میں چلتا گیا۔ جبھی گرے رنگ کی مرسڈیز کار کا مجھے دھکّا لگا اور میں بجلی کے ایک کھمبے سے جا ٹکرایا۔ اب برقی روئیں میرے بدن سے نکلنے کے بجائے اُلٹا میرے بدن میں آ رہی تھیں۔ ہندستان کا مستقبل ستیاناس ہو رہا تھا۔ میں فٹ پاٹھ پہ جا گرا تھا جو کہ میری اصلی جگہ تھی۔ خون نکلا تھا مگر تھوڑا سا۔ وہ زیادہ نکلنا چاہیے تھا۔ فصد کچھ اور بھی کھلنا چاہیے تھی۔ ہاں میری اذیت پسندی یہی چاہ رہی تھی اور اسی میں ملک اور قوم کا بھلا تھا۔ اس لیے میں تو نہ چاہتا تھا کہ کار کے مالک کو کچھ بھی کہا جائے،لیکن لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور مارنے لگے۔ اب جو بھی آتا تھا اسے ایک لگا کر چل دیتا تھا۔ یہ کوئی نہ پوچھ رہا تھا، قصور کس کا ہے؟ حالاں کہ قصور میرا تھا۔ سراسر میرا، جس نے اپنی اصلی جگہ چھوڑ کر سڑک پر چلنا شروع کر دیا تھا، لیکن لوگ — جانے کہاں کی مار کہاں نکال رہے تھے۔ وہ اندر سے کتنے ممنون نظر آ رہے تھے کہ میں نے انھیں ایک موقع دیا۔ وہی نہیں، ایک طرف سے کوئی ٹوٹا پھوٹا بوڑھا پارسی چلا آیا جس کے بدن میں رعشہ تھا۔ اُس نے بھی ایک ہاتھ سے اپنا دوسرا ہاتھ پکڑا اور اس غریب امیر کے جڑ دیا۔ وہ مار رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔ ہت، تھے آئیں شوں کریو؟… ہت تھے آئیں شوں کریو؟… جانے یہ کیسی نامردی تھی جس کا وہ بدلہ لے رہا تھا۔
جبھی میری نظر کار کے مالک پہ پڑی اور اپنے ماتھے سے خون پونچھتے ہوئے میں لپک کر کھڑا ہو گیا اور چلاّنے لگا … چھوڑ دو، چھوڑ دو اسے۔
اب اس کے خون بہہ رہا تھا۔ غالباً اتنا ہی جتنا میرے بہا۔ بے شک کوئی تول کے دیکھ لیتا۔ سر پر سے خون بہنے سے اس کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں، جنھیں پونچھتے، کھوستے ہوئے اس نے میری طرف اور میں نے اس کی طرف دیکھا۔
’’شانتی…‘‘ میں نے پکارا۔
شانتی لال نے کانپتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولا، ’’گجن! مجھے بچاؤ، مجھے بچاؤ اور پھر دہشت کے عالم میں وہ مجھ سے لپٹ گیا۔
لوگ حیران ہو رہے تھے اور جو حیران نہیں تھے، مجھے ماں بہن کی گالیاں دینے لگے…
’’تم کہاں، شانتی ……یہ کار؟‘‘
’’ہاں یار…‘‘وہ ابھی تک ہانپ رہا تھا۔
’’یہ کس کی کار ہے؟‘‘
’’میری!‘‘
’’تم …؟‘‘
میں سوچ رہا تھا یہ آدمی، جس نے میرے ساتھ فاقے کیے ہیں اور رے روڈ کے ایک گندے سے ہوٹل میں میرے ساتھ رہا ہے، کار کا مالک کیسے ہو گیا؟ لیکن جلد ہی بات میری سمجھ میں آ گئی۔ وہ مرکز میں کسی ڈپٹی منسٹر کا بھانجا تھا۔
شانتی نے بہت منت کی کہ میں اس کی کار میں چلا آؤں، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ اس کی وجہ ؟——یہ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں۔ شاید شانتی ڈر رہا تھا کہ میں پولس میں رپورٹ کروں گا۔ لیکن میں نے اُسے یقین دلایا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔ اس نے جیب سے دس روپئے نکال کر دو کانسٹبلوں کو دے دیے اور مجھے ٹاٹا کہہ کر چل دیا۔ قاعدے سے مجھے چاہیے تھا وہاں جاتا اور اینٹی ٹیٹانس انجکشن لیتا، لیکن میں تو چاہتا تھا مجھے ٹیٹانس ہو جائے۔ خود کو بچانے کا جو فطری جذبہ انسان میں ہوتا ہے، میں اور میری قبیل کے ہندستانی اس سے بہت آگے نکل چکے تھے۔
سڑک پہ چوہے جا رہے تھے اور چھچھوندریں۔ کسی چوہے نے سوٹ پہن رکھا تھا اور چھچھوندر کاشٹا لگائے گھوم رہی تھی۔ ان میں سے کسی کے چہرے پر رونق نہ تھی۔ کہیں خون کے آثار نہ تھے … اور میں سوچ رہا تھا، جب بمبئی میں پانی ختم ہو جائے گا تو یہ سب کیسے بھاگیں گے، ایک دوسرے پہ گرتے پڑتے، نوچتے، کاٹتے… چوہے!
جبھی میں پریل کے علاقے میں جا پہنچا۔
بیس پچیس آدمی سرگرائے ہوئے جا رہے تھے، ایک سُست سی رفتار سے۔ ان کے چہروں پر ماتم تھا۔ ضرور ان غریبوں کا کوئی مر گیا تھا اور یہ اس ماتمی جلوس کا حصّہ تھے۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو مجھے کوئی ارتھی، کوئی جنازہ دکھائی نہ دیا۔ تھوڑا آگے، اُن سے کچھ ہی فاصلے پر تیس پینتیس آدمی اور بھی دکھائی دیے،جو ویسے ہی سر جھکائے ہوئے جا رہے تھے۔ ضرور وہ اِن پہلے آدمیوں کا حصہ ہوں گے۔ ضرور اِن کا کوئی بہت ہی محبوب، بہت ہی چہیتا مرگیا ہو گا، ورنہ سوائے لیڈر کے ایک عام آدمی کے جنازے کے ساتھ بمبئی میں اتنے لوگ کہاں جمع ہوتے ہیں؟…
میں نے گھوم کر دیکھا، لیکن مجھے پھر کوئی جنازہ دکھائی نہ دیا۔
ہمّت کر کے میں نے اُن میں سے ایک سے پوچھا ’’…آپ لوگ… جنازہ کہاں ہے؟‘‘
’’جناجا؟‘‘ اُس نے حیرانی سے کہا۔
’’ہاں ہاں۔ جنازہ، ارتھی!…کوئی مرگیا ہے نا؟‘‘
’’نہیں…‘‘ اس نے ہر قسم کے جذبے سے عاری، بے رنگ سا چہرہ اوپر اُٹھاتے، میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’…ہم لوگ مجور ہوتا… مل سے آیا نا، کیا؟‘‘
میں اسی طرف جا رہا تھا، لیکن معلوم ہوتا تھا انہی لوگوں کے ساتھ جا رہا ہوں،جن کا جنازہ بھی غائب ہے…
٭٭٭
تعطّل
اُس سال میں جس ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا تھا، اُس کا نام سمفنی تھا۔
مجھے ہنسی اس لیے آتی ہے کہ سمفنی انگریزی میں نغمے کو کہتے ہیں اور اِس ہاؤس بوٹ سمفنی میں نغمہ نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ ٹورِزم کے محکمے کے حساب سے یہ بوٹ تیسرے درجے کا تھا۔ یہ بات نہیں کہ میں اس سے اوپر کے درجے کا بوٹ کرایے پہ لینے کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ قصّہ صرف یہ تھا کہ اُس سال کشمیر میں ٹورسٹ ہی ٹوٹ کے پڑا تھا اور اچھے درجے کے سب ہاؤس بوٹ پہلے آنے والوں اور کالے بازاریوں نے لے لیے تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا ہوٹل تک، سیر سپاٹے والوں سے پٹا پڑا تھا۔ سمفنی کی دیودار پرانی ہونے کی وجہ سے سڑ گل گئی تھی اور برسات اُس کی دیواروں پر چھا جوں رُوگئی تھی۔ کاریڈور میں چلتے تھے تو پوری ناؤ ایک طرف ڈول ڈول جاتی تھی اور پانو کے نیچے تختے ایک عجیب طرح کی چوں چیخ کی آواز پیدا کرتے تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ کوئی ہنی مون جوڑا ایک دور ات سے اوپر اس میں نہ رہتا تھا۔ پھر غسل خانے میں تو بڑی بڑی دراڑیں تھیں جن کے نتیجے سے جھیل کا گدلا پانی انسان کے ننگے پن کا منھ چڑاتا تھا۔
یوں جھیل کا پانی گدلا نہ تھا۔ برسات سے اِدھر تو وہ ہمیشہ گوری کے بدن میں وریدوں کی خُنک سی نیلاہٹ لیے رہتا تھا، لیکن حمدیا—غلام حمدانی، سمفنی کے مالک اور پڑوس کے ’فلائنگ جیک‘ اور ’پِن اَپ‘ کے مخدوم، اندر کا کوڑا کرکٹ اور گندگی باہر جھیل ہی میں پھینکتے اور پھر کھانا بنانے کے سلسلے میں وہی پانی استعمال کرنے کے عادی سے ہو گئے تھے۔ ہم ہندستانی تو خیر لگاتار گندگی میں رہنے کی وجہ سے دافعِ جراثیم ہو گئے ہیں۔ لیکن صرف زکام ہی سے چھُٹّی پاجانے والے مغربی ٹورِسٹ ان جراثیموں کو برداشت نہ کرسکتے تھے۔ چنانچہ ’فلائنگ جیک‘ میں رہنے والے سینیؤرکارڈیرو نے اپنے بوٹ کے مالک غلام قادِرے کے خلاف شکایت کر دی، جس سے اُن بوٹ والوں اور ہانجی لوگوں کی نظر میں مَیں اور بھی بڑا فرشتہ ہو گیا۔
پھر یہ ’سمفنی‘ فلائنگ جیک‘ اور ’پِن اَپ‘ جھیل میں ایسی جگہوں پہ کھم گڑے تھے کہ ایک طرف تو سامنے کی پہاڑی شنکر آچاریہ منظر کی خوبصورتی کو قتل کیے دیتی تھی اور دوسری طرف ڈل جھیل اور جہلم دریا کے بیچ کا لاکِنگ سسٹم جذبوں کے سیلاب کا گلا گھونٹ گھونٹ دیتا تھا۔
البتہ سمفنی کی چھت سے بائیں طرف دور ہر مکھ سے ادھر کی پہاڑیوں میں کبھی کوئی سُرخ سفید پنچھی اپنے سُبک سے پروں پر تیرتا ہوا نیچے کی زمرّدیں رِداؤں میں گم ہوتا، تو یوں لگتا، جیسے میری رتنا کے چہرے پر کوئی شرارت کا خیال آیا اور نکل گیا۔
یہ رتنا کون تھی؟… کوئی نہیں۔
فلائنگ جیک کا سینیؤر کارڈیرو گواٹے مالا سے آیا تھا اور ٹوٹی پھوٹی امریکن انگریزی جانتا تھا۔ وہ ناٹے قد کا آدمی تھا، جس کا چہرہ کچّے گوشت کی طرح سرخ اور پھولا ہوا تھا، جیسا کہ زیادہ شراب نوشی اور عیّاشی سے ہو جاتا ہے۔ اُس کے پورے سر پر بال نہیں تھے، البتہ ماتھے پر ایک چھوٹا سا گپھّا تھا، جو سینیؤریتا کے ساتھ لڑائی کے بعد اور بھی چھوٹا ہو جاتا تھا۔
سینیؤریتا کارڈیرو ایک دُبلی پتلی عورت تھی، جو ہمیشہ لنگری پہنے فلائنگ جیک میں اِدھر اُدھر جاتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ اکثر دن کے وقت وہ کھڑکی میں اوندھی پڑی جھیل کے پانی میں اپنی انگلیوں کے کیکڑے چلاتی رہتی اور رات کو وہیں پڑی پڑی پانی میں چاند کا عکس دیکھا کرتی۔
مجھے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ ہفتے بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہیں گے، کیونکہ راتیں دھیرے دھیرے اماوس کی طرف لپک رہی تھیں۔
سینیؤرکارڈیرو کیوں تیسرے درجے کے ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا؟—یہ کوئی بھید بھری بات تھی۔ سامنے بُولے وارڈ پر یونائٹیڈ نیشنز کے کچھ افسر اپنی ٹوپیوں پر ہلکے نیلے رنگ کی پٹّیاں جمائے ہوٹل پیلیس اوبرائے کو جاتے اور لوٹتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ کبھی ان میں سے کسی کی جیب بُولے وارڈ پر ہمارے سامنے کے حصّے پہ رُکتی اور افسر اتر کر کنارے پر سے آواز دیتا—سینیؤر … سینیؤر کارڈیروووو…
آواز گونجتی تو یوں معلوم ہوتا، جیسے کوئی کہے جا رہا ہے—رو رو رو رو…
ایک دن ایسی ہی آواز آئی اور میں نے دیکھا سینیؤریتا پانی سے اپنی انگلیوں کا کیکڑا نکال کر ’فلائنگ جیک‘ میں اندر کی طرف لپکی۔ لِنگری میں اُس کے جسم کا بھُوتیا ڈھانچہ دکھائی دے رہا تھا۔
مجھے یوں لگا، جیسے بولے وارڈ پر کھڑے جنرل کو سینیؤر کے جواب کی ضرورت ہی نہیں۔ اُس نے پیٹھ ہماری طرف کر کے شنکر آچاریہ کی پہاڑی کو دیکھا، جہاں کہیں سے آئینے کا عکس کانپ رہا تھا۔ عکس کبھی دھیرے دھیرے ہلتا، کانپتا اور کبھی تیز تیز۔ وہ بجلی کی طرح ایک کھوہ میں گُم ہو گیا، اور پھر لوٹ کر پہاڑی پر پھولوں کو ایک کیاری کو روشن کرنے لگا۔ پوست کے پھولوں کی سرخی اس روشنی میں ایک دم فلوریسینٹ ہوا اُٹھی تھی۔
جنرل نے مُڑ کر ’فلائنگ جیک‘ کی طرف دیکھا، ہاتھ اُٹھا کر ٹوپی چھوئی اور جیسے سینیؤریتا کو سلام کرتا ہو، جیپ میں بیٹھ کر سرحدوں پر لگی ’آگ بجھانے‘ کے لیے چل دیا اور میں ایک معمولی ہندستانی کی طرح ’’اپنا کیا ہے؟‘‘ کے جذبے سے سرشار، مڑ کر سمفنی کے اندر گلدان میں پڑے سوکھے سڑے گلیڈی اولا کو نکالنے، پھینکنے اور گنگنانے لگا۔
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
جب کہ تم بن نہیں کوئی موجود،
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا؟
کیا ہے…؟ کیا ہے؟ یہ کیا —کیا ہے؟
شہر میں ہنگامہ ہو رہا تھا۔ ایک طرف سے مولوی فاروق کے حواری نکل آئے تھے اور دوسری طرف سے مندوبین کی بھاری تعداد، جو کسی کانفرنس کے سلسلے میں ریاست کے دور افتادہ علاقوں، جمّوں کی تحصیل اور کشتواڑ کی طرف سے آئی تھی۔ ان میں ڈوگرے تھے، پھر گوجر، بروالے، استصوابیے…
اس جم غفیر میں کالج کے طالب علم، یہاں تک کہ طالبات بھی بُرقعے وُرقے پھینک کر شامل ہو گئی تھیں۔ جب اتنے سارے لوگ ایک دم لال چوک، ریذیڈنسی روڈ کے نزدیک جمع ہو جائیں، تو تانگے کا دھُرا ٹوٹنا بھی جھگڑے کا بہانہ بن سکتا ہے۔ اور لڑکی کی تو بات ہی مت کیجیے جو اپنے وجود ہی سے اتنی خستہ اور بھُربھُری ہوتی ہے کہ ہاتھ تو ایک طرف، نظر ہی اُسے ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہے۔ اُسے ہی نہیں، اُس قوم یا قومیت کی آبرو کو بھی، جس کی پیداوار ہونے کا اُسے شرف حاصل ہوتا ہے۔
یہ میں نے اپنے ہی ملک میں دیکھا ہے کہ لڑکی کی عزّت اتنا سماجی حیثیت نہیں رکھتی، جتنا سیاسی—— ابھی پچھلے ہی دنوں ایک ہندو لڑکی کسی مسلمان لڑکے کے ساتھ بھاگی تھی، جس سے ایکا ایکی ہندوؤں کی اقلیت کو خطرہ پیدا ہو گیا اور وے ڈیپیوٹیشن پر ڈیپیوٹیشن چیف منسٹر کے پاس جانے لگے۔ مرکز سے افسر لوگ جانچ کے لیے آنے لگے۔ اقلیت تو ایک طرف، اکثریت بھی ڈر سے مِلی جُلی فتح کے احساس سے کانپ رہی تھی۔ کیونکہ فتح اتنی مشکل نہیں، جتنا کہ اُس کے حصول کو برقرار رکھنا جوکھِم ہے۔
اُس دن وادی کے سیکڑوں سال پُرانے چِنار خاموش کھڑے اس نئی صورتِ حال کو دیکھ رہے تھے اور ہوا اُن کے سروں پر رکھی ہوئی راج ترنگنی اور للّا عارفہ کے صفحے اُلٹ رہی تھی…
ایسی حالت میں اگر میں کشمیر کے جمالیاتی حُسن کا ذکر کرو ں بھی، تو کیسے؟ میں ایک ہندو ہوں، ازل ہی سے بُت پرست، جو دلّی کے ایک مضاف میں رہتا ہوں۔ یہاں کشمیر کی خوبصورتی کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے خود ہی یہ احساس ہونے لگتا ہے، جیسے میں کسی مسلمان لڑکی کو چھیڑ رہا ہوں، جس سے جھگڑا ہونے کا ڈر ہے اور اِدھر کی اکثریت، گلا گھونٹ کر مجھے مار دے گی۔ پھر سوچتا ہوں، ڈل، وُولر اور گگری بل کب سے مسلمان ہوئے۔ یہ سامنے کی پہاڑی شنکر آچاریہ ہے تو تختِ سلیمان بھی۔ اسلام آباد ہے، تو اننت ناگ نام بھی چل رہا ہے۔ پِٹن کے پنڈت لوگ اس وقت بھی مٹن کھا رہے ہیں۔ پامپور کے زعفران کا رنگ اسلامی سبز کیوں نہیں؟ انسانی محنت اور آسمانی برکت وادی میں جو گیہوں اور شالی—چاول کے دانے پیدا کرتی ہے، اُن کا ختنہ کر کے کیوں نہیں بھیجتی؟
ہاں، یہ سرپھرے پن، بے عقلی کی باتیں ہیں۔ لیکن اس عقل کے تعطل ہی کے سلسلے میں تو آدمی کشمیر آتا ہے، تہذیب کا پورا شور، شہروں کا کثیف دھواں پیچھے چھوڑتے ہوئے۔ اب اگر وہ اکیلا ہو اور اپنے من کے اندھیرے اور تنہائی سے گھبرا کر کہیں باہری خوبصورتی پر جھپٹ پڑے، تو اُس میں اُس ایک شخص کا قصور ہوا، پوری قوم کا کیسے ہو گیا؟ بات اخلاقی اور سماجی سے سیاسی کیسے ہو گئی؟
تعطل… آپ بچّے سے کیوں کھیلتے ہیں؟ اس لیے نا کہ کچھ دیر کے لیے زندگی کا صرف و نحو بھول سکیں۔ شراب کیوں پیتے ہیں؟ اس لیے نا کہ وجود میں کچھ کم پڑتا ہے، یا پھر زیادہ ہو جاتا ہے۔ عورت سے محبت کیوں کرتے ہیں؟ اسی لیے نا کہ … میں پوچھتا ہوں، بنا ان سب باتوں کے آپ جی سکتے ہیں؟
یہ تعطل کشمیر میں دساور ہی سے نہیں آتا، یہاں کی اپنی پیداوار بھی ہے، ہوائیں اور نظارے جس کی پوری مدد کرتے ہیں۔ آدمی، مرغِ کباب، بلکہ میں تو کہتا ہوں، کبابِ مرغ ہو تو بھی اُس کے بال و پر لوٹ آتے ہیں۔ برسوں سے سویا ہوا جمال ایکا ایکی انگڑائی لے کر جاگ اُٹھتا ہے۔ ہرا بجلی رنگ کا ہرا ہو جاتا ہے اور سرخ بجلی کا رنگ سرخ۔ اور محبت کے گہرے احساس سے آنکھیں چشمے اور جھیلیں ہو جاتی ہیں۔ جذبے ایک ازلی اور ابدی مسرت کے احساس سے شوخ و شنگ پہنے ڈونگوں اور شکاروں میں کہیں بھی چل نکلتے ہیں۔ جیسے ہی ڈل اور نگین کے کناروں پر بُنی ہوئی سفیدوں کی جھالر سے شکارا پرے جاتا ہے، پانی میں آسمان کی وسعت اور اس میں چھپی ہوئی ٹھنڈی، نیلی پرواز منعکس ہونے لگتی ہے۔ اگر بادل ہوتے ہیں، تو پھر شکارا نہیں ہوتا اور شکارا ہوتا ہے، تو بادل… آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگتی ہیں۔ اور کان سماعت کی حدوں سے پرے کی سننے لگتے ہیں۔ پہلے تُمبک ناڑی سنائی دیتی ہے، پھر سنطور۔ فضا میں ایکا ایکی بچ نغمے اور رُف جاگ اُٹھتے ہیں اور الفاظ معنی کی تلاش میں دور نکل جاتے ہیں۔ پھر گُلریزؔ اور مہجورؔی کہیں گھاٹیوں، پہاڑیوں میں سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اُنھیں واپس لاتے ہیں…
اُس دن جب حمدیا بازار سے پیاز گوشت لایا، تو اُس کی حالت ہی دوسری تھی۔ اُس کے پانو زمین پر یقینی انداز سے نہ پڑ رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا، جیسے وہ بہت زیادہ تمباکو پی گیا ہے، یا کوئی ایسا نشہ کیا ہے، جس سے اُس کے ہاتھ کی انگلیوں میں رعشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ہو سکتا ہے، وہ زینب سے ملا ہو…
زینب حمدیا کی معشوقہ تھی اور ہبّہ کدل کے پاس اپنے آبائی مکان میں رہتی تھی۔ ایک منظم یور، جس کا نام شاید غلام رسول تھا، کی معرفت اس کے باپ کو پیغام بھیجا گیا، جو تھوڑی لے دے کے بعد منظور ہو گیا۔ پھر حسب معمول بند نوٹ میں چینی سے بنا ہوا ایک بڑا سا طشت بانٹا گیا۔ شال دی گئی۔ خدا اور رسول ہوا۔ مگر نشانی کی تاریخ تک پہنچتے پہنچتے سب کباڑا ہو گیا۔
—بات یہ ہوئی کہ بیچ میں زینب کا ممیرا بھائی کود پڑا، جو یہیں سامنے کے ہوٹل میں بیرا گری کرتا تھا۔ افلاس اور عشرت اُس میں گلے ملی تھیں۔ مگر شریعت کی رو سے اُس کا زینب پر حق زیادہ تھا۔ چونکہ قسمیں لی جاچکی تھیں، شیرینی بٹ چکی تھی، اس لیے معاملہ قاضی کے پاس پہنچا۔
فریقین میں صلح کرانے کے سلسلے میں ایک تیسری ہی بات ہوئی جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی گھن آتی ہے… دیکھیے آپ اصرار نہ کیجیے… ایسی ہی بات ہے، تو پھر سنیے…—اٹھارہ انیس برس کی زینب اپنے ماں باپ کی ایک ہی اولاد تھی۔ ان کی تمام جائیداد کی وارث، جو دو مکانوں اور شالٹینگ کے پاس بیس ایک بیگھا زمین پر مشتمل تھی اور جو چوری چھپے وڈداری میں دی ہوئی تھی۔
زینب حمدیا کے لیے گو شتابہ ہو گئی— دودھ میں پکا ہوا گوشت، جو ایک طرف تو بہت ہی لذیذ ہوتا ہے اور دوسری طرف کشمیر طعمہ کا آخری حصّہ۔ جب اُسے مہمان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اُس کے بعد اور کچھ نہیں آئے گا۔
صلح کرانے والے قاضی صاحب نے ایک دن اس کھانے کو دیکھ لیا، جب کہ وہ ڈھکا ہوا نہیں تھا اور …
اب زینب کو حمدیا قبول کرتا ہے اور نہ اُس کا ممیرا بھائی، ممّا۔ ہاں، جب زمین جائیداد کی وجہ سے ممّا مان جاتا ہے، تو حمدیا تن کے کھڑا ہو جاتا ہے اور قانون کے سب کاغذ وغیرہ نکال لاتا ہے اور اگر حمدیا اُسے نکاح میں لینے پر راضی ہو جاتا ہے، تو ممّا حق شفعہ کی عرضی دے دیتا ہے۔ قاضی محلہ بدر ہو چکا ہے اور زینب مکان کے بُخارچے میں بیٹھی ایک ایسی شال پر باریک کام کر رہی ہے، جس کا کوئی گاہک نہیں…
میں نے حمدیا کو سمجھانے کی کوشش کی—— دیکھو حمدیا، اس میں اس غریب زینب کا تو کوئی قصور نہیں…!
حمدیا نے میری طرف یوں دیکھا، جیسے میں لاطینی میں بات کر رہا ہوں۔ بالکل غیر متعلق طریقے سے اس نے بات شروع کی——آپ نہیں جانتے، مہاراج؟
—میں؟… میں کیا نہیں جانتا؟
—آج کا قتل!؟
—قتل؟ کس کا؟ کس نے؟ کون؟ میں نے ایک دم اُٹھتے ہوئے کہا… میز سے نیچے اخروٹ کی لکڑی سے بنی ہوئی کرسی تڑخ گئی۔ کیا زینب …؟
—زینب نہیں—ایک آدمی، سامنے ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔
—پھر؟
—اس کا کٹا ہوا سروہاں چار چِناری میں ملا اور دھڑ ہوٹل کی ٹٹّی میں۔
—نہیں!
—ہاں مہاراج!
میں نے گھوم کر دور، بائیں طرف چار چناری کی طرف دیکھا، جو جھیل ڈل کے ٹھیک بیچ ایک چھوٹے سے ٹاپو کی شکل میں تھی اور جس پر چنار کے چار پیڑ کھڑے تھے۔
دن کے وقت لوگ وہاں پِک نِک کرتے اور چاندنی راتوں میں رومانٹک جوڑے دودھ اور پانی کے چھینٹے اُڑاتے… وہاں، چار چناری میں کٹا ہوا سر … اب وہ جگہ میرے لیے کبھی رومان پرور نہ ہو گی، حالاں کہ میرا ارادہ تھا کہ ایک دن…
سامنے بولے وارڈ پر جیپ نیلا سفید جھنڈا لہراتے ہوئے نکل گئی۔ پھر ایک ٹورسٹ بس گزری، جو شاید مرد عورتوں کو نشاط، شالیمار کی طرف لے جا رہی تھی۔ ایک تانگہ رُکا اور اس میں سے سیر کرنے والے کچھ لوگ نکلے اور سمفنی کے سامنے والے اڈّے کی طرف مڑے۔
اُنھیں دیکھتے ہی شکارے والوں نے اپنے اپنے چپّو چلانے شروع کر دیے اور کشتیوں کو کنارے کی دلدل اور پتھروں میں یوں کھُبو دیا، جیسے مہمان لوگ کھانا کھانے کے بعد خلال،پھر سے اسٹینڈ میں کھُبو دیں۔ شکارے والے زندگی اور موت سے بے خبر گاہکوں کے لیے جھپٹ رہے تھے۔ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ گالیاں بک رہے تھے… دَل سا، ہئیا ر مضانہ! چھٹس…
—مقتول شخص کون تھا؟ میں نے حمدیا سے پوچھا۔
—سنتے ہیں آندھرا کا تھا۔
—ہندو ہو گا؟
—راجو نام تھا۔ ہو سکتا ہے، معرا ج دین——
—نہیں۔
—میری نا امیدی بڑھ گئی—نہیں، وہ ہندو ہو گا، ضرور ہندو ہو گا… میں نے ہنکارا۔
حمدیا اور میں، دونوں ہی ایسے آدمی تھے جو حالات میں بد سے پہلے بدترین کو دیکھ لیتے ہیں۔ اُس کے خیال ہی سے ڈرتے، کپکپاتے ہیں۔ لیکن آخر اسی میں سنسنی آمیز تسکین پاتے ہیں۔ یہ چار چناری … میں تو کبھی رتنا کو وہاں نہ لے جا سکوں…
رتنا کوئی نہیں تو کیا؟ کبھی تو ہو گی… یہ ملک، کشمیر جس کے بارے میں کچھ کہتے ہی اُس کا حُسن محدود ہو جائے، یا میری ماں کے سیدھے سادے لفظوں میں—اتنا خوبصورت، جتنا کہ کوئی جھوٹ بولے…اور اس میں ایک کٹا ہوا سر، جیسے کسی شریف گھرانے کی عورت نے کوئی نہایت ہی غلیظ گالی بک دی۔
سامنے کی تیرتی ہوئی کھیتی اور قریب آ گئی تھی۔ ابھی دو تین دن پہلے وہ کچھ نہیں تو سات آٹھ فٹ پرے تھی اور اب مشکل سے چھ انچ ۔ ہم سمفنی سے اُس پر لپک سکتے تھے اور کرسی رکھ کر اس پر بیٹھے ہوئے دھوپ تاپ سکتے تھے۔ پیری میسن یا پلے بوائے پڑھ سکتے تھے… تعطل… اخبار پڑھ سکتے تھے، مگر نہیں… اُس میں قتل کی خبر ہو گی… کشمیر میں قتل …
مرڈر اِن دی کیتھیڈرل!
تبھی مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے حمدیا سے پوچھا—کس نے کیا یہ قتل؟ کیوں کیا؟
حمدیا نے کوئی جواب نہ دیا۔
—کیا کسی لڑکی کی بات ہے؟ میں نے پوچھا۔ حمدیا نے ’’ہاں‘‘ میں سر ہلا دیا۔
—مسلمان لڑکی؟
حمدیا نے پھر کوئی جواب نہ دیا، جس کا مطلب تھا—ضرور وہ مسلمان ہو گی۔ اب یہاں آٹے میں نمک کے برابر ہندو کیسے بچیں گے؟ میں ہی بے وقوف ہوں، جو یہاں کی بہت ہی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے بھی چلا آیا۔
مان لو دنگا نہ بھی ہو، تو ہو سکتا ہے دشمن الپتھّر، گل مرگ کی رداؤں میں سے ہوتا ہوا بڑ گام اور اننت ناگ یا اسلام آباد کی طرف پھیل جائے اور وطن کو بھاگنے کی ایک ہی سڑک کو کاٹ دے۔ ہوائی جہاز سے کتنے لوگ جا سکیں گے؟ مگر نہیں، فوج کے جیالے بھی تو ہیں، جو اُولوں اور برف کے بیچ میں ڈٹے ہوئے سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں…
بہت کُریدنے پر مجھے پتہ چلا کہ مقتول راجو کی بیماری، عقل کا تعطل، ایک خطرناک صورت اختیار کر گئی تھی۔ تیسرے درجے کی ٹی بی یا کینسر کی طرح۔ طوائفوں کا بازار—تاشا دان تو قانوناً بند تھا، اس لیے بیرا اُسے اپنی پہچان کی کسی دھندے والی کے پاس لے گیا، جہاں اُس نے جیب سے نوٹ نکالے، جو گنتی میں تین ہزار کے قریب تھے اور اُس بیرے نے دیکھ لیے۔ پھر جب وہ اپنے ہوٹل کو لوٹ کر آیا، تو وہی —دھڑ ہوٹل کی ٹٹّی میں اور سر چارچناری میں …
یکایک مجھے ایک خیال آیا اور میں نے حمدیا سے پوچھا—کون تھا؟ کون تھا وہ بیرا؟
حمدیا نے ہچکچاتے ہوئے کہا—ممّا۔
—کہاں لے گیا تھا اُسے؟
اب حمدیا کے ہونٹ بھی کانپ رہے تھے۔
یہی تو ہے نہ کشمیر، جہاں کی بدصورت سے بدصورت چیز بھی ایک خوبصورت پس منظر لیے ہوتی ہے۔ تھانہ بھی ایک پہاڑی کی گود میں تھا، جہاں گلاب کی کیاریوں کے بیچ ایک چھوٹا سا راستہ بل کھاتا ہوا اوپر ہی اوپر جاتا نظر آتا تھا۔ میں اب تک اتنا ڈر چکا تھا کہ خطرے کے بیچ میں پہنچ گیا… یہ دیکھنے کہ دنگا ہوتا ہے، یا نہیں؟ انسان کا کٹا ہوا سر کیسا دکھائی دیتا ہے؟!…
انسپکٹر غلام یزدانی چھ فٹ کا ایک لچکیلا مگر مضبوط آدمی تھا۔ اُس کی ناک بہت تیکھی اور رئیسانہ تھی اور کناروں سے ایک دم سُرخ اور نمناک دکھائی دیتی تھی۔ وہ مجھے بڑے تپاک سے ملا، جس سے اس بات کی تائید ہوئی کہ ٹورسٹ لوگ کیسے بھی ہوں، خلوص سے پیش آنا ہر کشمیری اپنا فرض سمجھتا ہے—
راجو کا سر ایک منقش تھالی میں رکھا تھا۔ اُس کی آنکھیں کھلی تھیں… پتھرائی ہوئی، مردہ آنکھیں، جن میں کسی چیز کا عکس نہیں پڑتا۔ سپاٹ، کالے رنگ کے چہرے کی وجہ سے آنکھوں کی سفیدی اور بھی سفید دِکھ رہی تھی۔ ڈوروں تک سے خون نچڑ چکا تھا…
یہ ماں کا لال، کشمیر میں سیر کی غرض سے آیا تھا! جب گھر سے چلا ہو گا، تو اِسے کیا پتہ ہو گا؟… سنسناتے ہوئے تار اُس کے قتل کی خبر اس کے سگے سمبندھیوں تک پہنچا چکے ہوں گے… تبھی میں نے دیکھا کہ سر کو دیکھنے کے لیے جمع لوگوں میں سے ایک آدمی ڈر کر پیچھے ہٹ گیا، پھر دوسرا ہٹ گیا۔
مجھے اس کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ انسپکٹر غلام یزدانی مسکرا رہا تھا۔ ٹھیک ہی تھا۔ پولس والوں کے لیے یہ روز مرّہ ہے۔ اُس نے ہنستے ہوئے مقتول کا منھ میری طرف کر دیا۔ اب وہ کٹا ہوا سر مجھے گھور رہا تھا۔ مجھے اچانک یوں لگا، جیسے وہ کہہ رہا ہے —میرا قتل تم نے کیا ہے، تم نے… میں ایک دم پیچھے ہٹا اور اُس مہذب انسپکٹر کو سلام دعا کیے بنا وہاں سے بھاگ آیا۔
میں نے کافی ہاؤس میں کافی پی۔ ریڈیو اور اُس کی ڈراما یونٹ کے کچھ لوگوں سے ملا۔ کچھ جرنلسٹوں اور پروفیسروں سے بات کی۔ احدُو کے یہاں کھانا کھایا، حالاں کہ کھانا میں پہلے بھی سمفنی میں کھا چکا تھا۔
پھر میں بندھ پر ٹہلنے کے لیے نکل گیا۔ یہاں کئی رتنائیں شوخ اور بھڑکیلے کپڑے پہنے گھوم رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک نے لال رنگ کا سوئیٹر پہن رکھا تھا۔ میں نے اُسے دیکھا اور انکار میں سر ہلا دیا… انسان کتنا ہی سر پٹخے، خون کے رنگ سے زیادہ سرخ رنگ نہیں پیدا کرسکتا۔ پھر ڈاک خانے جا کر دیکھا، میرے نام کا کوئی خط آیا ہے، یا نہیں؟…کسی کے بیٹے کا مُنڈن کا دعوت نامہ تھا۔ جوری ڈائریکٹ ہو کر یہاں پہنچ گیا۔ ایک بات میں نے دیکھی کہ میں جہاں بھی جاتا تھا، لوگ اسی قتل کی باتیں کرتے تھے اور اس کے بعد مجھے دیکھ لیتے تھے، جیسے…
میں نے پہلے سے سنیؤر کارڈیرو کا ڈنر منظور نہ کیا ہوتا، تو کبھی فلائنگ جیک میں نہ جاتا، جس کے عین مین سامنے وہ ہوٹل ہے، جس میں مقتول آ کر رہا۔ راجو کا سر اور اُس کی آنکھیں میرے دماغ کی فوٹو پلیٹ پر کچھ یوں نقش ہو گئی تھیں کہ ماضی کی خوبصورت اور بدصورت یادیں اور مستقبل کی امید و بیم بھی انھیں نہ مٹا سکتی تھیں۔ اُسے حال ہی دھوسکتا تھا… کوئی اور منظر دیکھوں، کچھ اور لوگوں سے ملوں، لیکن ہر ایک منظر، ہر ایک چہرے پر وہی کٹا ہوا سر سُپراِمپوز کیا ہوا دکھائی دیتا تھا۔
سنیؤر کارڈیرو نے کچھ اور بھی مہمان بُلا رکھے تھے۔ اُن میں سے کچھ یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور علی گڑھ سے آئے تھے، طالب علموں کو اُردو پڑھانے، کیونکہ کشمیر کی سرکاری زبان اُردو ہے، مادری چاہے کچھ بھی ہو۔ کچھ سیاسی قسم کے لوگ بھی تھے، جن میں زیادہ باہر سے آئے تھے۔ ایک ریاست کی اسمبلی کے اسپیکر کا چمچا تھا، جو اپنے طریقے سے کشمیر کا ایک چھوٹا موٹا لیڈر تھا۔ ایک تیس بتیس سال کی سلونی سی ہندو عورت تھی—مسز داس، جس کا پتہ نہ چلتا تھا کہ وہ پنجابن ہے یا بنگالن۔
یہ نہیں کہ مسٹر داس نہیں تھے۔ وہ بھی تھے۔ لیکن صرف تھے۔ مسز داس اور سنیؤریتا مل کر ایک ایسی زبان میں باتیں کر رہی تھیں جو الفاظ سے بے بہرہ ہوتی ہے۔ وہاں کا ڈرائینگ روم ہمارے سمفنی کے ڈرائینگ روم سے تھوڑا بڑا تھا۔ اور اسی میں وہسکی کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں دی جا رہی تھیں۔
سنیؤریتا نے آج ایک ساڑھی پہن رکھی تھی، جس نے اُس کے جسم کے جملہ عیوب کو ڈھک دیا تھا۔ اور اب وہ جذبہ خیز عورت نظر آتی تھی۔ ایک بات مجھے حیران کیے دے رہی تھی اور وہ یہ کہ سنیؤریتا کھانے کی کوئی چیز کسی بھی مہمان کے سامنے رکھتی، تو روسی زبان کا ایک لفظ ضرور استعمال کرتی—پشرالستہ…
سنیؤریتا کارڈیرو، اور یہ پشرالستہ؟!
کیا سنیؤریتا ایک روسی عورت تھی، جو اپنے ملک سے بھاگ کر امریکہ، گواٹے مالا چلی گئی تھی؟ یا سنیؤر…؟ مگر یہ سب شخصی سوال تھے، جنھیں میں پوچھ نہیں سکتا تھا۔ البتہ ایک اور بات، جس نے مجھے حیران کر دیا، وہ یہ تھی کہ سنیؤر کشمیر کے پھول پتّوں، کیڑے مکوڑوں، مچھلیوں اور جانوروں کے بارے میں کسی بھی کشمیری سے زیادہ جانتا تھا۔ مزے کی بات یہ کہ ایک گانو(کہ وہ کہاں پر بسا ہے) کے سلسلے میں چمچہ صاحب سے بحث ہو گئی۔
سنیؤر کہہ رہا تھا کہ وہ گانو اُڑی، چکوٹھی کے پاس جہلم دریا کے دائیں کنارے پر بسا ہے اور چمچہ صاحب کے مطابق بائیں پہ۔ آخر جانچ پڑتال کی گئی۔ نقشے منگوائے گئے اور پتہ چلا کہ سنیؤر کارڈیرو ٹھیک کہتا ہے۔ تب میرے دل نے مجھ سے بیسوں سوال کر ڈالے۔ کیا حاکم لوگ جانتے ہیں کہ یہ آدمی کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کشمیر کے بارے میں اتنی جانکاری رکھنے کی کیا وجہ؟ ایک اور بات۔ کارڈیرو نے نیلی پٹّی والے جنرل کو کیوں نہیں بلایا؟ کیا اس لیے کہ وہ لوگ صرف آئینے ہی کی زبان سمجھتے ہیں؟
ان لوگوں میں ایک سیدھا سادہ کشمیری بھی تھا، جو اپنے سر پر کالے رنگ کی کراکُلی ٹوپی پہنے بیٹھا تھا۔ معلوم ہوتا تھا وہ کوئی دیہاتی ہے، اتفاق سے جس کی فصل اب کے سال اچھی ہوئی ہے۔ مگر اُس کو یہاں کے اتنے پڑھے لکھے لوگوں میں بُلانے کا مطلب؟
وہ مجھ سے غلام رضا کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اور میں اُن کشمیریوں کے بارے میں سوچنے لگا، جو اب تک مجھ سے ملے تھے، یا جن کا نام میں نے سنا تھا —غلام ہمدانی، غلام محمد (ممّا)، غلام علی… یہاں یہ کیا خاندانِ غلاماں اکٹھّا ہو گیا تھا؟
پھروہی کٹا ہوا سر، جس کی یاد کشمیر کے سیاسی نزاع نے بھُلا دی۔ سب اِسی اطمینان کے ساتھ کہ شہر میں دنگا نہیں ہوا، کشمیر کے ماضی و مستقبل کے بارے میں لے دے کر رہے تھے۔ ایک کہہ رہا تھا کہ استصواب رائے سے کشمیر پاکستان کو جانا چاہیے۔ دوسرا برس پڑا—اس میں استصواب رائے کا سوال ہے یا دستور کا؟… مسز داس نے ایک اور ہی بات شروع کر دی— کیوں چھوڑ دیں؟ ہم کشمیر کیوں چھوڑ دیں؟ کیوں بیکار جانے دیں اُن کروڑوں، اربوں کو، جو ہم نے یہاں کے ڈیفنس کے لیے خرچ کیے ہیں؟ مسز داس یوں ظاہر کر رہی تھیں، جیسے کسی نے اُن کے پرس سے پیسے نکال کر اُسے خالی کر دیا ہے۔ اُن کی یہ بات عورت ہونے کے ناتے معاف کر دی گئی—
مسٹر داس، جو اپنے کوٹے سے زیادہ پی گئے تھے، ہُنکار اُٹھے— انجو! تم عورتیں صرف ایک ہی کام کے لیے بنی ہو…!
اس پر جب سنیؤریتا نے بھی صدمے سے چھاتی پر ہاتھ رکھ کر ’ہو‘ کہا، تو مسٹر داس نے مسکراکر اُس کی طرف دیکھا اور بولا— پیار کے لیے! پھر زیادہ پیے ہونے کی وجہ سے وہ پیار لفظ کا ہر ایک غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنے لگا—آمور، لیبلُو، حُبّ…!
سنیؤریتا چھاتی پر ہاتھ رکھے فرانسیسی لہجے میں کہہ رہی تھی— فیودل، مسٹر داس، ویری فیودل… اور مسزداس کا چہرہ غم و غصّے سے لال ہو رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ گھر پین ایم، پہنچ کر مسٹرداس کی خوب ہی پٹائی کرے گی۔
باتیں چل رہی تھیں—ایک کلمہ، ایک قرآن، ایک نبی… اور آپ کا سب پروپگینڈہ بیکار… کیوں نہ کشمیری لوگ ہندستان کو گالی دیں؟ وہ جان گئے ہیں نا، گالی دیں گے، تو پیسہ ملے گا… یہ سب غلطی پنڈت جی کی ہے۔ شروع ہی میں وہ جرنیلوں کے ہاتھ نہ روکتے، تو کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا…آرٹیکل 370 … پاکستان سے آئے ہوئے سبھی مہاجرین کو یہاں کشمیر میں بسا دیتے، تو … سردار پٹیل نہ ہوتے، تو ہندستان کبھی کا بلقایا گیا ہوتا…
—وہ تو بادشاہ ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے، شیخ صاحب…
—اجی ہٹاؤ، بخشی صاحب نے ڈنڈے سے حکومت کی۔ کشمیری ایک ہی زبان سمجھتا ہے اور وہ ہے ڈنڈے کی زبان۔ ایسے ہی تو نہیں تواریخ میں کشمیری کو ظلم پرست کہا گیا؟ صادق صاحب ٹھیک ہی تو کہتے ہیں—جس چیز کو دبایا جائے گا، وہ اور اُبھرے گی۔ کیوں نہ اُسے منظرِ عام پہ لا کر تحلیل کر دیا جائے؟ پھر پرتاپ سنگھ، شیاما پرساد مکھرجی، دیک فیلڈ ملکہ پُکھراج، ہری سنگھ… ہر طرح کی باتیں ہو رہی تھیں۔ خطرناک اور خطرے سے خالی، ہر ایک شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ کشمیر کی جملہ بیماریوں کا علاج اُس کے پاس ہے۔ اُن سب میں سے صرف غلام رضا چُپ تھا۔ جب بھی کوئی بات کرتا، تو وہ اپنا سر اُس کی طرف موڑ لیتا اور خالی خولی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگتا۔ میں نے بات شروع کی—میرا خیال ہے…
تبھی غلام رضا نے اپنی نظریں میرے چہرے پر گاڑ دیں۔اور میں بھول ہی گیا، میں کیا بڑی بات کہنے جا رہا تھا؟ جیسے پروفیسر کول نے میری بات کاٹی، رضا نے اُس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ ویسے ہی خاموش، ویسے ہی جامد، ویسے ہی ساکت، غیرمعکوس انداز سے… ایک ٹھنڈا پسینہ میری پیشانی پہ دوڑ گیا۔ جی چاہا کہ اُٹھوں اور ایک دم چیخ کر کہوں —— بولو… رضا، یا ہتز! بولو، تم بھی تو کچھ بولو… ! میں نے اُس کا نام ہی لیا تھا کہ اس کی نظروں کی بے نور، مردہ اور بے رحم ٹکٹکی مجھ پر تھی۔ میں نے سنیؤر سے معافی مانگی اور نہ سنیؤرتا سے اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا——
اگلے ہی روز میں دلّی میں تھا، جہاں میری طرف کوئی نہیں دیکھتا۔
٭٭٭
مکتی بودھ
یقین مانیے، اس میں نند لال کا ذرا بھی قصور نہ تھا۔ وہ کیا کرتا—؟ اس کی فلم اَمبِکا، چل گئی تھی۔
میں بھی حد ہوں جو ہندی فلم کے سلسلے میں منطق کی بات کرنے جا رہا ہوں! اس پر میں کہوں گا کہ جس منطق سے ہندی فلم فیل ہوتی ہے، اسی سے چل بھی جاتی۔ جیسے اسے کوئی ضد ہو جاتی ہے، چلنے یا نہ چلنے کی۔ ایسی ہی ضد میں نند لال کی پہلی دو فلمیں پٹ گئی تھیں، حالانکہ ان میں سے ایک میں ہیروئن، اسٹوڈیو کی برسات میں بھیگی بھی تھی، کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکے بھی تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے کپڑے ایکا ایکی کہیں نیچے چلے گئے ہیں اور بدن چھٹپٹا کے اوپر آ گیا ہے۔ بھیگنے سے پہلے کتنی مفلس اور نادار سی معلوم ہوتی تھی، لیکن جب کیا مال دار نظر آ رہی تھی وہ۔ دوسری فلم میں ہیرو نے خالی ہاتھوں، گلدانوں، صوفے کی ٹانگوں، لیمپ شیڈ شزیلیر کی زنجیروں اور جانے کن کن ہتھیاروں سے کاؤ بوائے ولین اور اس کے درجن بھر ساتھیوں کو فراش کر دیا تھا۔ کیسے وہ اُلٹے شاٹ میں اچھل کر میزنین فلور پر پہنچ جاتا تھا، جہاں ایک رسّہ ہوتا ہے۔ ہمیشہ ہوتا ہے، جس پر وہ جھولتا ہوا پھر نیچے کے دوزخ میں کود جاتا ہے۔ جبھی وِرودھی دَل میں سے کسی نے آناً فاناً اُٹھ کر پانگے سے ہیرو کا سر کاٹ دیا—جی، بالکل ہی کاٹ دیا۔ یعنی سر الگ اور دھڑ الگ۔ لوگ ہراساں ہو گئے۔ اب کیا ہو گا؟ ارے یہ تو بالکل ہی مر گیا! وہ جانتے تھے کہ فلم کا ہیرو مر ہی نہیں سکتااور پھر ہراساں بھی ہونا چاہتے تھے۔ ہیروئن کو شادی کیے بنا ہی وِدھوا کر گیا تو اس سنسار کا کیا ہو گا؟ سرشٹی کیسے چلی گی؟ مگر مانیے تو … کہاں مرا وہ ؟ جبھی دیکھنے میں کنکریٹ کی دیوار سے دیوی پرکٹ ہو گئی اور نرتیہ کے سب نیموں کا پالن کرتے ہوئے، ہیرو کے پاس چلی آئی۔ اس کے کٹے ہوئے سر کو مُدرا میں اُٹھایا۔ ایسے دھیرج سے کہ اُسے درد نہ ہو، اور پھر اسے دھڑ کے ساتھ لگا دیا۔ سر لگتے ہی ہیرو نے پہلے ایک چھینک ماری، پھر اُٹھا اور ہری بول، کہتا ہوا ایک طرف یوں چل دیا، جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ کوئی دعا نہ سلام، شکریہ نہ ڈنڈوت۔ لیکن جب ہال میں کیا تالیاں پِٹی تھیں۔ اگر فلم کے آخر میں لوگوں نے نند لال کو پیٹ ڈالا، تو اس کی وجہ اسکرین پلے کی غلطی تھی … بات یوں ہوئی کہ دیوی کے ہاتھوں سے تو وہ بچ گیا، لیکن کچھ دیر بعد باہر جا کر سمندر میں ڈوب گیا!
جب نند لال کوئی بی اے فیل نہ تھا، جیسے اب ’امبِکا‘ کے بعد وہ پاس نہیں۔ وہ تو وہی تھا۔ فنانس بروکر، جو اپنی حاجتوں کے پیش نظر، روپیا لوٹا دیے جانے پہ بھی ہُنڈی واپس نہ کرتا۔ کہیں سال ایک کے بعد اسے پھر اپنی بھلکڑ اسامی کے سامنے پیش کر دیتا۔ مگر، ایک بات ہے، نند لال جب بھی پہلے خود ہرکسی کو نمسکار کرتا تھا جیسے آج بھی کرتا ہے، ورنہ فلموں میں یہ خلاف وضع فطری بات ہے۔ یہاں تو جو آپ کے سلام کا جواب نہ دے، سمجھو اس کی فلم چل گئی اور اگر آپ سے پہلے وِش کرے تو گھوٹالا ہوا۔
نند لال کی شکل میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ ہماری آپ کی طرح کا آدمی تھا وہ۔ عام ہندستانی قد، وہی رنگ رو‘پ، وہی چیچک کے داغ جو بچپن میں بہت نمایاں ہوتے ہیں، لیکن جوانی میں طاقت پکڑنے میں اپنی ہی ایک داب، ایک چھاپ ہو کر رہ جاتے ہیں، بیچ میں عضلات کی سُکڑن چھوڑ جاتے ہیں۔ البتہ جس میں آدمی بات کرنے میں سر کو چھوٹے چھوٹے جھٹکے دیتا ہے، آپ اس سے اُدھار لینے جائیں تو آخر دم تک یہی لگتا ہے وہ دے گا، نہیں دے گا، دے گا، نہیں دے گا…
گونپھا سے گدیوں تک آپ ہندستانی سنوں کو جمع کریں اور ان کی تعداد سے حاصل جمع کو تقسیم کریں تو جو اوسط نکلتا ہے، وہ نند لال کی شکل ہے۔ نہیں، ایسے شاید میں آپ کو سمجھا نہیں پاؤں گا۔ آپ یہاں سے ایرانی ہوٹل کُولار کی طرف چلیں تو راستے میں د و نکّڑ پڑتے ہیں۔ ان پر لڑنے والے ہر تیسرے اللّ ٹپ آدمی کی شکل نند لال کی سی ہو گی۔ اب سمجھے نا آپ؟—ٹھیک ہے کرشن کنھیا کا ایک نام نند لال بھی ہے، مگر کرشن کہاں کے گورے چِٹّے تھے؟ وہ بھی تو بھارت ورش میں اُتّر اور دکن کے میل کی ایک ناکام سی کوشش تھے۔
نند لال کو اپنے نام کے عامیانہ ہونے سے بہت چِڑ تھی۔ مگر وہ کیا کرتا؟ نام بھی تو وجود کی طرح آدمی کے ساتھ یوں چپک جاتا ہے کہ ایک ہی بار اترتا ہے۔ وہ چِڑ دراصل پیدا کی گئی تھی۔ ایسی حرکتیں بالعموم عورتیں کرتیں ہیں، اپنے وجود کو بھول کر — فلمی لڑکیاں اسے کہتیں—کیا مہابھارت کے زمانے کا نام رکھ دیا تمھارے ماں باپ نے۔ اب اشونی کمار کو دیکھو۔ ہم اسے پیار سے اشو اشو تو پکارسکتی ہیں۔ نندو کیا اچھا لگتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے جیسے ٹھینگا ہے۔ چنانچہ نند لال نے باقاعدہ اور قانونی طور پر اپنا نام دیویندر کمار رکھ لیا، اس امید میں کہ ریحانہ اور جے شری اسے دیبو دیبو کہہ کر پکاریں گی تو کتنا اچھا لگے گا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک پارٹی بھی کی جس میں اسکاچ چلی، کباب کارنر سے افغانی کباب اور ٹکِّے بھی آئے۔ پانچ ساڑھے پانچ ہزار کا خرچ بھی ہوا، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ہر دوسرے تیسرے اسے کوئی مِل جاتا اور کہتا—ارے نند لال، سنا ہے تو نے اپنا نام بدل لیا ہے ؟ایک دن رینُو آئی جو پارٹی کے دن آؤٹ ڈور کر رہی تھی ۔ بولی—اتنی بڑی پارٹی کر دی، نند لال جی اور ہمیں پوچھا ہی نہیں۔ بیوی کہتی—میں نے تو اسی سے شادی کی تھی، میں کوئی دوسرا نہیں جانتی۔ کوئی میم تھوڑے ہوں میں،جو آج ایک کے ساتھ ہو اور کل دوسرے کے ساتھ۔ میرا تو وہی ہے— اور پھر پاس بیٹھی ہوئی عورت نام لے دیتی— نند لال —! رول مانگنے کے لیے ایکٹر لوگ دفتر میں آتے ہی تھے، چنانچہ اُس دن بھی دیویندر کمار ایسر کا نام پڑھ کر ایک چلا آیا۔ باہر اسٹول پر بیٹھے ہوئے چپراسی نے کہا۔ ہاں، صاحب اندر ہیں۔ ایکٹر اندر جاتے ہی انھیں پانْو پر واپس چلا آیا—وہاں تو کوئی نہیں، وہی نند لال بیٹھا ہے!
نند لال کا مکان معمولی تھا اور بیوی بھی معمولی، مگر کچھ نو دولتوں کی باتیں چلی آئی تھیں اُس میں اِمبکائے جانے کے بعد۔ اس نے نئی کار خریدی، لیکن اسے بیوی کی اردل میں دے دیا اور خود اسی کھٹارے میں گھِچ گھِچ کرتا رہا۔ کیونکہ وہ لکّی تھا۔ سپیئر جوتوں کی طرح سے رہنے پر بھی نند لال بڑا مکان لینے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے نہیں کہ کل کلاں شاید اسی میں لوٹنا پڑے، بلکہ اس لیے کہ اس کے بھاگیہ اُودے ہونے کی شری گنیش اسی لاطور بھون میں کے دو کمروں اور بالکونی سے ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی کی دیواروں پر اس نے سخت چمکیلے، بھڑکیلے، چکو مارواڑی رنگ پوت لیے تھے۔ فِرج، ٹیلی وژن تو آج ہر اننت رام، بے انت سنگھ کے پاس ہوتے ہیں، اس لیے کہیں تو امتیازی شان پانے کی پھڑپھڑاہٹ اور بیوی کو خوش کرنے کی لالسا میں اس نے اپنے ڈبل بیڈ کے پاے چاندی سے مڑھوا لیے اور بیوی بار بار پہلو بدل کر اپنے پتی کی بے خوابی کا ساتھ دینے لگی۔ سب کچھ کتنا فراواں اور کم کم معلوم ہوتا تھا۔ ایک وہ وقت تھا جب فرش بھی عرش تھا ان کے لیے اور ایک یہ، جس میں عرش بھی سر پیٹ کر رہ گیا تھا۔ بہرحال نند لال کو جو بھی کرنا تھا، انہی دو کمروں میں اور جو نہیں کرنا تھا وہ بھی انہی میں۔
نند لال کے اِردگرد کی سب چیزیں عامیانہ بلکہ سوقیانہ ہونے کے باوجود ایک چیز بڑی اچھی تھی جو پوربلے جنم کے کسی پھل میں چلی آئی تھی، اور وہ تھی مورننگ گلوری کی بیل جو کیسی بے خودی سے اس کے گھر کی دیواروں پر لپکی تھی۔ اس میں اسکارلٹ اوہارا کے پھول پھوٹ کر ہر آتے جاتے کے اندر لال بخار پیدا کرتے تھے۔ لوگ عام طور سے یہی سمجھتے تھے کہ اس گھر کے باسی کتنے تازہ ہیں، کتنے خوش مذاق ہیں۔ پھر ان کے جلوے میں ریاض کرتی ہوئی کسی لڑکی کی آواز مل جاتی۔
پنگھٹ پہ نند لال مجھے چھیڑ گیؤ رہے
اور سدھا، نند لال کی بیوی اُٹھ کر سب کھڑکیوں کے پٹ بند کر دیتی۔
فلمی اشتراکیت میں کوئی اکیلا نہیں کھاتا —کھا بھی نہیں سکتا۔ کسی کے امبکائے جاتے ہی سب کے کان ہو جاتے ہیں اور وہ گنگٹوک کی جونکوں کی طرح سے کچھ یوں چمٹتے ہیں کہ آدمی کو پتا ہی نہیں چلتا۔ ادھر آدمی گرتا ہے، اُدھر جونکیں گر جاتی ہیں—نند لال کا سا اصیل آدمی یہی کہتا ہوا پایا جاتا ہے—اچھا، تم میرے تاؤ کے ممیرے بیٹے ہو،اچھا؟ ہاں، ہاں، سنا تھا تمھارے بارے میں کیا کروں یار، جب سے امبکا چلی ہے، میرا فیوز ہی اُڑ گیا ہے۔ بس، دیوی ماں کی مہربانی ہے— کیا پیو گے؟ اور وہ ممیرا بھائی پینے کی بجائے کھانے بیٹھ جاتا ہے اور ہمیشہ کھاتا رہتا ہے۔
رات بیوی جب میاں کے ساتھ بھنچ کر لیٹتی ہے تو کہتی ہے—ہائے جی! تمھارے پِتا کا تو بڑا بھائی تھا ہی نہیں کوئی—
ایں؟ نند لال کہتا ہے—ان کا کوئی دوست ہو گا۔ سو جاؤ، سر مت کھاؤ میرا۔
ہیرا لال پانچواں ورن ہے جو آد سے چلا آیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ وہ منو مہاراج کی گنتی میں کیوں نہیں آیا؟ پیڑ الگ، پتے الگ تو دیمک اور ارض بھی الگ ہوتے ہیں۔
اور آج تو اس پانچویں ورن کے بنا وافر پیسے اور ’امبکا‘ کا کوئی حل ہی نہیں—
جتنا آپ اس کاسہ لیس نسل کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، اتنی ہی اس میں لچک، اتنا ہی چونچال پن اور مقاومت پیدا ہو جائے گی۔ کچھ دیر کے بعد کاکروچ اور چوہے زہر کی گولیاں ہضم کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ آج کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسے خوشامد پسند نہیں۔ نہیں وہ خدا سے بھی بڑا ہو گیا۔ پھر آپ اگر پہلو بدلتے ہیں تو یہ ورن بھی نیا پینترا پیش کرنا جانتا ہے۔ آج کا طفیلیا کبھی بھی سیدھے سیدھے مرد کو عقل مند اور عورت کو خوبصورت نہیں کہتا۔ وہ ہمیشہ کہتا ہے—ناک کیسی بھی ہے، مگر تمھارے چہرے پر پھبتی ہے، بھابی—خوبصورتی کا یہی مطلب نہیں کہ رنگ گورا ہو— آج کل تو۔
رنڈ سالا —سارا دن اپنی زبان اور سامنے والے کے کان کی مالش کرتا رہتا ہے۔ یہ جو آدمی سُدھا اور نند لال کے پاس آیا تھا، اس کا نام ہیرا تھا۔ شاید لال بھی ہو—ہیرا لال ۔ ناصر، جوشی، پانڈے، رام نواس کے طریقے الگ تھے اور ہیرا لال کے الگ ۔ وہ فلموں میں پلے بیک سنگر ہونے آیا تھا۔ ہیرا آج کے زمانے کا آدمی تھا۔ اس کی شکل ماڈ تھی اور عقل بھی ماڈ۔ اس کے بال بے طرح لمبے تھے اور گھنے، گھناؤنے۔ انسان کے ہونے کے بجائے وہ کسی گھوڑے کے معلوم ہوتے تھے۔ مگر برل کریم کی کرشمہ سازی سے اطاعت پذیر ہو کر وہ کنڈل اور کڑیاں بن کر کاندھے اور گلے میں لٹک رہے تھے ۔ ہیرا لال جس کا مقدر پانچواں ورن تھا، یوں پہلے ورن کا آدمی تھا۔ براہمن، اس کا رنگ کھِلتا ہوا تھا اور سرخ بھی، جیسے پَلّے سے پی ہو۔ گول چہرے کو لمبی قلموں نے فلینک کر رکھا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ راج بھون ہے جس کے پھاٹک پر گارڈ ہاتھوں میں بندوقیں لیے کھڑے ہیں۔ بشرٹ عنابی، فلنیئرز سیمابی۔ ایسا تضاد ناداری کی وجہ سے ہوتا ہے اور یا پھر اس وقت جب آدمی کپڑے کی حد سے گزر جاتا ہے اور فن کے اوج کو چھو لیتا ہے۔ اس کی سپتم کا ’سا‘ کہیں گلے میں بیٹھ گیا تھا۔ جب وہ گاتا تو عورتوں میں کوئی بے نام سے جذبے پیدا ہو جاتے۔
ہیرا لال کی بھی انٹری فلم جگت میں آبائی جائیداد کو بیچ کر آنے سے ہوئی۔ اس نے بھی فلم بنائی اور خدا آپ کا بھلا کرے، مار کھائی۔ اس کے گرد بھی پانچویں ورن کے بیسیوں آدمی جمع ہو گئے اور اسے جینئس ثابت کر کے چلتے بنے۔ کتنے سانپ لوٹے ہوں گے ہیرا لال کے سینے پر جب اپنی ہی فلم میں اسے پاپولر پلے بیک سنگر کو لینا پڑا کیونکہ میوزک ڈائرکٹر نامی تھا اور اس نے ضد پکڑ لی تھی۔ یہاں کوئی کسی نئے آدمی کو آزمانے کی ہمت نہیں رکھتا، یہ جانتے ہوئے کہ کسی وقت وہ بھی تو نیا تھا اور کسی نے اسے چانس دینے کی حماقت کی تھی۔ ایک خلا اور خوف ہیں جو ہر آن فلم انڈسٹری کے اذہان کا احاطہ کیے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے بھی کسی دوسرے بڑے کے سہارے بڑے پکاتے ہیں۔
ہیرا کو غلط فہمی تھی کہ اس کی فلم اس بڑے پلے بیک سنگر کی وجہ سے پٹی۔ اس کا یہ وہم خودپرستی پر نہیں تو اور کس بات پر مبنی تھا؟ وہ یہ جاننا ہی نہ چاہتا تھا کہ فلم کی آمریت میں پلے بیک سنگر تو ایک معدنی شے ہے، پیسے کی آکسیجن بنانے کے لیے جسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل بات تو ہیرو ہے اور ہیروئن— اور کہیں کہیں بیچ میں ڈائرکٹر۔
رہ رہ کر ہیرا کو مکتی بودھ کی یاد آتی تھی۔ وہ ہوتے تو اس کی یہ دُرگت نہ ہوتی۔ مکتی بودھ اپنے زمانے کے ٹاپ کے میوزک ڈائرکٹر تھے۔ کبھی پورے دیس میں ان کی دھُنیں گونجی تھیں۔ لیکن جب سے چوری یاری رواج ہوئے، وہ پچھڑ گئے۔ تعیش کے اس قانون میں وہ یک زوجہ آدمی— عمر بھر ایک ہی محبوبہ کو نہارتے رہے،جو اب اُن کا منھ چڑاتی، انھیں گالی دیتی تھی اور جس کا نام تھا، سنگیتا بھارتی!
اس پر بھی مکتی بودھ اسی جوش و خروش سے خلاقی کی باتیں کرتے تھے۔ لوگ انھیں منھ پر تو کچھ نہ کہتے، لیکن کچھ دور جا کر ہنس دیتے۔ ان کی غزل تک کا بھیس اب بھی پہاڑی، تلک کامود،یا گوڑی پوربی ہوتا، حالاں کہ آج کا تقاضا تھا کہ سرشوپاں کا ہو، دھڑ ہریسن کا اور پانْو— کسی کے بھی۔
ہیرا کا بال بال قرض میں بندھ گیا تھا اور اب وہ اس منزل پر پہنچ گیا تھا، جس میں آدمی آخر بے حیائی اختیار کر لیتا ہے۔ کپڑے جھاڑ کر اُٹھتا اور تشنجی انداز میں پورے بازو پھیلا کر کہتا ہے۔ کچھ نہیں ہے میرے پاس دینے کو۔ بگاڑ لو جو بگاڑنا ہے میرا۔ سیٹھ لوگ سوچتے اب اس کا اور بگڑ ہی کیا سکتا ہے؟ حوصلے والے اس کے لیے دعا کرتے، پچیس پچاس اور بھی دے کر جاتے، تھُڑوِلے دیواروں سے سر ٹکراتے اور یا پھر کچہریوں میں دھکّے کھاتے۔
کبھی ایک ہاتھی میرے ساتھی کو ہیرا نے فلیٹ لے کر دیا تھا۔ احتیاج میں ہیرا اُسی میں اُٹھ آیا، لیکن وہاں بھی فون پر فون آنے لگے۔ یہ آلہ جو کروڑوں کا کاروبار کرتا ہے اور یا پھر عاشقوں کی چُوچُو مُومُو کی ترسیل، ہیرا کے لیے پھنیرا سانپ ہو گیا۔ آخر ایک سہانی صبح کو ہیرا کے اس پروردے نے اس کا سامان اٹھا کر سڑک پر رکھ دیا، جو سامان بھی نہ تھا۔
وہاں، راشن کی دُکان کے نکّڑ سے، جو اب ہیرا کا رین بسیرا ہو گیا تھا، ایک ہی خوبصورت چیز دکھائی دیتی تھی —نند لال کے مکان پر لپکی ہوئی بیل!
مگر جب ’امبکا‘ شروع بھی نہیں ہوئی تھی تو ہیرا نے نند لال کو آتے جاتے دیکھا تھا۔ یہ ’مبادا‘ کے انداز میں اسے نمستے کرتا تھا اور وہ ’شاید‘ کے انداز میں جواب دیتا۔ پھر پبلک لیٹرن کے نل سے دھوئے بنائے ہوئے کپڑوں میں ہیرا لال، شری روکڑا کے پاس گیا، جو بہت ہی نامی پروڈیوسر تھا۔ لیکن اس نے اپنے اس نیازمند کو دیکھنے تک کی پروا نہ کی۔ ہیرا کچھ سمجھ گیا—جب تک کوئی آدمی خود کو کسی کے لیے ناگزیر نہ بنا لے، کام چلتے ہیں بھلا؟ اس نے رگھو د لال سے دوستی دہرا لی اور ناز سینما کے پاس کافی ہاؤس میں جانے لگا۔ جہاں کسیلی کافی کی ایک پیالی اور بھُنے سڑے ہوئے کیشونٹ کے چند دانوں پہ فلم والوں کی قسمت بن یا بگڑ جاتی ہے۔ رگھو نے ہیرا کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ ہیرا آخر دم تک یہی سمجھتا رہا، رگھو وہ سب میرے لیے کر رہا ہے —مگر وہ تو روکڑا کے انگوٹھے کا نشان چاہتا تھا۔
اپنے سیٹھ سے بات کر لینے کے بعد رگھو، ہیرا کے ساتھ روکڑا کے ہاں پہنچا۔ اتنے کم سود پر کسی کو پیسا ملے تو کون چھوڑتا ہے؟ جتنا بڑا پروڈیوسر ہو، اتنا ہی سود کم لگتا ہے اور جتنا سود زیادہ ہو، اتنا ہی پروڈیوسر کم ہو جاتا ہے۔
روکڑا کو فون ہو چکا تھا۔ جب ہیرا اور رگھو، بلکہ رگھو اور ہیرا اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے خود آ کر دروازے پر اس جوڑی کو رِسیو کیا۔ اپنے فلمی سیٹ کے سے آفس میں چیک ٹی سیٹ میں انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے بنائی اور پلائی۔ باتوں میں جب روکڑا صاحب نے کہا—ہاں، ہاں، میں ہیرا لال جی کو بڑی اچھی طرح سے جانتا ہوں، تو دونوں ہیرا لال اور رگھو نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ہیرا نے ناز سے، رگھو نے نیاز سے۔ پھر انگوٹھے کا نشان یعنی دستخط وغیرہ ہوئے، رقم اس جیب سے اُس جیب میں گئی اور دونوں خوش خوش لوٹے۔ کچھ ہی دِنوں میں ہیرا لال کو پتا چل گیا—
ہیرا لال نے دیکھا اس کی اصل جگہ وہی ہے، جہاں روکڑا صاحب کا چپراسی بیٹھتا ہے۔ باہر وہی دروازے پر کی سُرخ بتی صاحب کے مصروف ہونے کی نشاندہی کر رہی تھی۔ ہیرا باہر بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ صاحب مصروف بھی رہے گا تو کتنا — دو گھنٹہ، چار —پانچ—اسے خبر نہ تھی، گھنٹے دن میں بدل سکتے ہیں اور دن مہینوں میں۔
بیچ میں رگھو نے ہیرا کو اس عالم میں دیکھا بھی اور کہا —تُو تو کہتا تھا روکڑا تیرا بڑا یار ہے، یار؟ وہ تو میں اب بھی یہی کہتا ہوں— ہیرا لال نے گھبرا کر جواب دیا، آخر انسان ہے، اس سے کبھی مصروفیت ہو ہی جاتی ہے—
ہے بھگوان —مجھے آخر چاہیے کیا تھا— یہی نا، ایک پلے بیک، روکڑا کے پاس!
یہ ایسے ہی تھا، جیسے کوئی مفلس اوپر دیکھ کر کہتا ہے— اللہ! میں تجھ سے آخر مانگتا ہی کیا ہوں، یہی دو روٹیاں نا؟
ہیرا کی فریاد اس مفلس کی فریاد سے بھی زیادہ اندوہگیں تھی۔ غریب، خدا کے ساتھ جُوا کھیلتا بھی ہے، تو اسٹیک کیا ہوتا ہے اس کا —یہی دس پیسے نا—؟
روکڑا دوسرے کروڑ کی فکر میں ہے۔ میں ابھی پہلے کروڑ کی—اور ہنسی، جو رونا بھی نہ تھی۔
پیسا اس کے پاس آتا ہے، جس کے پاس پیسا ہو۔ اس لیے ہیرا بھیک مانگ کر بھی کچھ پیسے جیب میں ڈال لیتا تھا، سوگند لے کر کہ وہ اس گداگری کو پیشے کے طور پر کبھی اختیار نہیں کرے گا۔
کام اس کے پاس آتا ہے، جس کے پاس پہلے ہی کام ہو۔ اس لیے ہیرا صریحاً جھوٹ بولتا تھا—پانچ پکچروں میں پلے بیک دے رہا ہوں میں۔ کوئی شروع نہیں ہوئی، کوئی ہو رہی ہے۔ گویا اس نے تین روپے کمائے، جن میں دو کھوٹے تھے اور ایک چل نہیں رہا تھا۔ جو چل نہیں رہا تھا، اسے تین صرّافوں کو دکھایا، جن میں سے دو اندھے تھے اور ایک کو دکھائی نہیں دے رہا تھا، وغیرہ ……
بیچ میں ہیرا کی مکتی بودھ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہ کہ ان کی حالت اور بھی خستہ ہو گئی ہے۔ ہیرا لال کو ان کی باتوں سے پتا چلا —برپشم قلندر! جسے میرے پاس آنا ہے آئے، نہیں آنا نہ آئے۔ میں نا گیا کسی کے پاس۔ غضب خدا کا، یہ گھمسان کا میوزک دینے کے بعد بھی اگر لوگ مجھے بھول گئے ہیں تو بھول جائیں۔ اور پھر، یہ ہو کیا رہا ہے دنیا میں۔ جھوٹ کا مول ہے، سچ انمول ہو کر رہ گیا ہے!
مکتی بودھ کو چاہیے تھا گھر سے باہر نکلتے،تاکہ اسے دیکھ کر ہی کسی کو تو بھولے بسرے یاد آ جائے اور کچھ نہیں تو کھلی ہوا سے پھیپھڑے ہی صاف ہو جائیں۔
ایک بار وہ نکلے بھی —اور تو اور اسی سنگیتا بھارتی نے کُوڑے کی ٹوکری ان کے سر پہ خالی کر دی!
پیسے کو عورت چاہیے، تو عورت کو بھی تو پیسا چاہیے!
اس کے بعد مکتی بودھ اندر ہی اندر، اور اندر اپنے آپ میں سمٹ گئے، جہاں انھیں اپنے ہی لہو کا سنگیت سنائی دینے لگا۔
ہیرا لال ان کے پاس بیٹھا تھا، جب مکتی بودھ نے اپنے مستک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا—جو یہاں لکھا ہے، ہیرا، وہ مل کر رہے گا۔
ہیرا لال نے مکتی بودھ کے ماتھے کی طرف دیکھا، جہاں چند بے ربط لکیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ بائیں طرف ایک گھنڈی سی بنی تھی۔ شاید اسی نے قسمت کے بہاؤ کو روک لیا تھا۔ جبھی کُنڈلی دیکھنے والے پنڈت، مکتی بودھ کے پاس سے اُٹھ کر چلے گئے۔ جیسے اُن کا بھی سہارا چلے جانے پر اُنھوں نے جھلّا کر ہاتھ ہارمونیم پر مارا اور تھوڑی آ آ آ کے بعد ایک غزل شروع کر دی، جو پیلو میں باندھی گئی تھی۔
کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
خشوع و خضوع کے آنسو مکتی بودھ کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے، جس نے ہیرا کے بھی بندھ کھول دیے۔یہ وہ دن تھے جب نند لال کی ’امبکا‘ ہٹ ہو گئی تھی۔ ہیرا نے جلد سے اپنے آنسو پونچھے— آئیڈیا!
نند لال بُری طرح سے پانچویں ورن میں گھِرا ہوا تھا، جب کہ ہیرا لال بڑی خامشی سے آ کر نیاز مندانہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ صاحب سلامت تو ہو ہی چکی تھی، مگر نند لال اسے آگے بڑھنے دینا نہ چاہتا تھا۔ وہ پہلے ہی گجُو، ڈانڈیکر، فیروز اور ان کی قبیل کے لوگوں سے گھبرایا ہوا تھا۔ جیسے ہر امیر آدمی کی بیماری میں ملاقاتی ڈاکٹر، حکیم اور وید بن جاتے ہیں، ایسے ہی سب لوگ اسے آیندہ کے لیے مشورے دے رہے تھے۔ اگر ناکامی میں نند لال کچھ سوچ بھی سکتا تھا، تو اب کامیابی میں وہ بالکل کنفیوز ہو گیا۔
نند لال جب دوسروں سے باتیں کر رہا تھا تو ہیرا لال اپنی کمین گاہ سے نظر یں اس پر فوکس کرنے لگا، جیسے وہ کسی مسمریزم، تانترک ودّیا کے گُر جاننے لگا ہو۔ احتیاج آدمی کو کیا کچھ نہیں سکھا دیتی؟
اُچٹ کر نند لال کی نظر جو ہیرا پر پڑی تو وہ اپنی نگاہیں ہٹا ہی نہ سکا۔ جیسے اس نو وارد میں کوئی خاص بات ہو۔
کیا حال ہے؟—نند لال نے تکلفاً پوچھ ہی لیا۔
اپنی جگہ پر کسمساتے ہوئے ہیرا نے وہیں سے ڈوری پکڑ لی— بس کِرپا ہے امباجی کی۔
نند لال چونک گیا۔ اُسے یوں لگا جیسے امبا ماں نے خاص طور پر اسے اس کے ہاں بھیجا ہے۔ امبا ماں، جس نے چھ لاکھ کے خرچ پر کروڑ لوٹائے۔ پھر وہ ڈر گیا—کہیں یہ بھی تو وہ نہیں ہے؟!
مہینہ بھر ہیرا نے اپنا عندیہ نند لال سے چھپائے رکھا، جس سے نند لال میں ایک عجیب نفسیاتی اُلجھن پیدا ہو گئی۔ وہ اب تک لوگوں کی فرمایش اور اپنے انکار کا عادی ہو چکا تھا۔ ہیرا نے کام بھی پکڑا تو نند لال کے نئے دفتر کا۔ وہ پائی پائی پر انٹیریر ڈیکوریٹر سے لڑتا۔ پچیس ہزار کے خرچ پر نند لال اُسے پانچ ہزار ایڈوانس دینا چاہتا تھا، لیکن ہیرا لال نے اس کے ہاتھ روک لیے اور اُسے پانچ سو میں نپٹا لیا۔ کچھ دن کے بعد پھر اسے ایک ہزار دے دیا—آخر سامان تو ہمیں ہی دینا ہے، اسے تو سب اپنے دماغ ہی سے نکالنا ہے نا۔ وہی دلیل جس کی وجہ سے کوئی فن کار اپنے پیشے سے روٹیاں نہیں نکال سکا۔ لیکھک کو ساتھ میں پیاز کی دُکان ضرور کھولنی چاہیے۔
اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ جو آدمی پیسے کے لیے لٹکایا جاتا ہے، زیادہ تندہی سے کام کرتا ہے۔ پھر ہیرا نے سُدھا بھابی سے پوجا کا معاملہ طے کیا۔ نند لال سُدھا کو ہمیشہ اِگنور کیا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ ہیرا ہی کی وجہ سے تھا کہ سُدھا کو دفتر کے مہورت پر مُکھ رکھا گیا۔ پوجا میں تو وہ تھی ہی تھی، لیکن دوسری باتوں میں بھی سب سے آگے۔ اصل میں وہی دیوی تھی جس کے پانْو کی خیرات سے نند لال بنا۔ سینکڑوں لوگ نند لال کے لیے نہیں، ’امبکا‘ کی کامیابی کی خاطر آتے تھے۔ وہ پہلے سُدھا کو نمسکار کرتے تھے، جس سے اسے اپنا وجود ضروری، خوبصورت اور امبکا معلوم ہونے لگا تھا۔
ہیرا نے اس قدر خوبصورت طریقے سے نند لال کو گرگوں سے بچایا تو نند لال کے دل میں اس کے لیے عزت بڑھ گئی۔ پھر آیا وہ آئیڈیا کا دن!
دن ابھی شام میں ڈھل نہ پایا تھا کہ نند لال ہی کے گھر میں ہیرا نے عشاء کی نماز کی تیاری شروع کر دی۔ اس وقت وہ وضو کر رہا تھا، جب کہ نند لال چونکا—تم مسلمان ہو؟
نہیں تو
توپھر—یہ؟
میں سیکھ رہا ہوں، نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟
وہ کس لیے؟
میں ایک مسلم سبجیکٹ بنا رہا ہوں، نند لال جی—ہیرا نے کچھ رُکتے ہوئے کہا—در اصل میں اس کا ٹائیٹل اِمپا میں رجسٹرڈ کروا آیا ہوں اور اس نے جیب میں سے رسید نکالی۔ واقعی ٹائیٹل ہیرا لال پنڈت کے نام رجسٹرڈ تھا، اور وہ تھا—سجدہ!
ارے!—ہیرا نے ایک دم کہا، جیسے کوئی بھولی ہوئی بات ایک دم اُسے یاد آ گئی اور جو پہلے ہی کوندے کی طرح سے لپک کر نند لال کے دماغ میں آ چکی تھی اور اسی لیے منطبق ہو گئی—یہ فلم آپ کو بنانی چاہیے۔ آپ جو کسی بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، آج ہو گیا—فیصلہ ! بات یہ ہے ’امبکا‘ بنانے کے بعد آپ نے پوری ہندو قوم کو رام کر لیا ہے۔ ’سجدہ‘ سے پوری مسلمان قوم کو رحیم کرسکتے ہیں۔
ہیرا لال—
جی، نند لال جی؟
ٹائیٹل…
ٹائیٹل میرے نام ہے تو کیا ہوا؟ —آپ کے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔
نہیں، میں سوچ رہا تھا—ٹائیٹل بہت دھانسو ہے۔
جب ہی ہیرا لال کو پتا چل گیا کہ وہ نشانے سے تھوڑا آگے ہی نکل گیا ہے۔ چنانچہ اس نے باتوں میں اُلجھائے رکھنے کی بات سوچی۔ یوں بھی دن بھر اِدھر اُدھر جھک مارنے سے نند لال کی مدافعت کی سب قوتیں ختم ہو چکی تھیں۔ پھر اُس وقت وہاں کوئی دوسرا تھا بھی نہیں۔ سُدھا بھابی جی کے ساتھ سازش کر کے اُس نے آنے جانے والوں کے تانتے کو بکھیر دیا تھا۔ اس وقت وہ نند لال اور اس کے خدا یا دیوی کے بیچ ’اکیلے‘ تھے— ہیرا کہے جا رہا تھا،مسلمانوں کے اُٹھنے بیٹھنے، ان کے کلچروں میں وہ بات ہے جو ہندوؤں کو بھی بہت پسند آتی ہے— دیکھو نا، بیٹی کیسے باپ کو آداب کہتی ہے اور ساتھ میں ابّا حضور بھی۔ سامنے آ کر بھی کتنا خوبصورت پر دہ ہے، جو آج کے ننگے پن میں کہاں ہے؟
میں سمجھ گیا۔
نہیں، آپ نہیں سمجھے— مسلمان جو بھاشا استعمال کرتے ہیں، وہ کتنی سندر ہے۔ شکیلہ بانو بھوپالی جب قوالی کرتی ہیں تو گجراتی ہندو بھی پاگلوں کی طرح سے داد دیتے ہیں، چاہے ایک لفظ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
اُس کی بات چھوڑو—وہ سب سمجھا دیتی ہے۔
اس پر نند لال اور ہیرا دونوں مل کر ہنسے۔ انھوں نے دیکھا کہ سُدھا ہی کبارڈ کے پیچھے کھڑی ہنس رہی ہے!
پھر مشاعرے پر بات چلی آئی، جس کے سامنے کوی سمیلن کا رنگ نہیں جمتا۔
تو—’امبکا‘ کے بعد ’سجدہ‘ —بیچ میں نعت، قوالی، مشاعرہ، کوٹھا، غزلیں، چوڑی دار مقیش لگے، لہراتے ہوئے دوپٹّے اور آخر — پیسا!
بات ہو چکی تھی، مگر نند لال کا قدرتی حربہ آڑے آ رہا تھا، یعنی کہ سر کے جھٹکے۔ کبھی لگتا تھا فلم بنے گی، کبھی نہیں بنے گی، بنے گی، نہیں بنے گی—
میوزک ڈائرکٹر کے طور پر مکتی بودھ جی کا نام تجویز ہوا تھا، اس لیے کہ وہی ایک ایسے آدمی تھے، جو ہیرا لال کے پلے بیک سنگر بننے کے خواب پورے کرسکتے تھے۔ ہیرا نے نند لال کے سامنے اپنی بات ہی نہ کی، کیونکہ اندر سے وہ جانتا تھا کہ مکتی بودھ آ جائیں گے تووہ خود بھی آ جائے گا۔ اس کا چانس سینٹ پَر سینٹ ہے۔ نند لال کا اعتراض تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکتی بودھ ایسا سنگیت کار انڈیا نے ابھی تک پیدا نہیں کیا، لیکن آج کل وہ بِکتے نہیں۔ دوسرا،ہندو ہونے کے ناطے وہ نعت کیسے بنائیں گے؟ پلے بیک سنگر بھی چوٹی کا ہونا چاہیے کیونکہ اردو بھاشا میں ’ک‘ دو طرح کے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک گلے سے نکلتا ہے اور دوسرا — دوسرا نامعلوم کہاں سے؟ ایسے ہی ’سا‘ آ —عرق عشبہ کو ٹھیک سے بولیں تو اَتار (عطار) کا لڑکا کہے گا—ہے تو میرے پاس، پر اتنا گاڑھا نہیں ہے —اور ہیرا کانپ گیا۔
لیکن جیسے تیسے اتنے بڑے آدمی کو، جس کی ’امبکا‘ ہِٹ ہو گئی تھی، مکتی بودھ کے گھر لے ہی آیا۔ نند لال نے بڑی عقیدت سے ان کے چرن چھُوئے۔ مکتی بودھ جی نے وہسکی اور دوسرے لوازمات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ جتنی دیر یہ سب لوگ پیتے پلاتے، پیتے کھاتے رہے، مکتی بودھ مسلم کلچر ہی کی باتیں کرتے رہے۔ آخر طے ہوا کہ گورو وار کے روز ان سے کانٹریکٹ کریں گے کیونکہ وہی دن دیوی ماں کا ہے۔ نند لال نے جاتے ہوئے بھی اتنے بڑے میسٹرو کے پانْو پر سر رکھا اور مکتی جی کو یقین ہو گیا کہ اس دن اُن کا کانٹریکٹ ہو ہی جائے گا۔ دونوں لال چلے گئے، پیچھے وہی دو ٹوٹرو رہ گئے، لیکن آج اُس بُڑھیا سنگیتا نے اپنے بڈھے کے لیے گاجر کا حلوہ بنایا تھا۔
فلمی دنیا میں ہر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ جہاں اتنے بڑے پروڈیوسر کی تصویر میں میوزک دینے کے لیے لوگ مکتی بودھ کے پاس آنے لگے، وہاں قرض خواہ بھی جو مایوس ہو چکے تھے ۔ مکتی بودھ سب کو کہنے لگے— آپ گورووار کے روز آ جائیے اور اپنا حساب لے جائیے —اور پھر …نہیں نہیں، گورووار نہیں۔ میرا خیال ہے اگلے منگل ۔ بات یہ ہے نند لال چیک میں پیسے دے گا۔وہ سنیچر کو بینک میں پڑیں گے اور آپ جانتے ہیں، اس دن کوئی کلیرنس نہیں ہوتی۔ سوموار کو چیک جائے گا اور منگل کی شام کو میرے بینک میں آئے گا۔ اس لیے بدھ ہی کو آئیں تو اچھا ہے۔ مکتی بودھ حیران ہوئے کہ کسی کو ان کی یہ بات بُری نہیں لگی۔
رات جب مکتی بودھ سونے لگے تو ایک عجیب سی شکر گزاری کا جذبہ ان پر رینگنے لگا—آخر بھگوان نے سن لی میری۔ دینا ناتھ شاستری، جیوتش آچاریہ تو کہتے بھی تھے کہ بس آپ کے ایسے دن آنے والے ہیں کہ آپ پہلے کے شِکھر سے بھی اوپر پہنچیں گے۔ ایک نہیں شاید آپ کو پانچ چھے کانٹریکٹ بھی ملیں۔ ہو سکتا ہے راج دربار کی طرف سے مان بھی پراپت ہو۔ بس جب آپ کے چاند پر سے منگل گزر جائے گا تو پتنی کی طرف سے بھی چِنتا نہ رہے گی۔ اور گورُو کے مارگی ہوتے ہی لکشمی آپ کے گھر ڈیرا ڈال لے گی۔ پھر انھیں بیوی کا خیال آیا۔ وہ ہنسے — ایک گھر میں دو عورتیں کیسے رہ سکتی ہی؟!
سِٹی سول کورٹ سے ایک ٹانچ بھی مکتی بودھ جی کے ہاں کی سب چیزوں پہ لگی تھی۔ جب لال برادران وہاں تھے، تو بُڑھیا نے کس صفائی سے سب چیزوں پر لگی ہوئی ٹانچ کی چیپیاں چھپا دی تھیں ۔کسی پر میز پوش ڈال دیا تھا، کسی پر چادر۔ اگلے ہی روز بیلف وغیرہ کو کچھ دے دلا کر مکتی بودھ جی نے سامان پر قبضہ اور نیلامی کی تاریخ اگلے ہفتے تک ملتوی کروالی تھی۔
گورووار کے دن بھی نند لال ہی کو مکتی بودھ جی کے ہاں آنا تھا۔ پانچ بجے شام کا وقت تھا۔ جب چھے ساڑھے چھے ہوئے، تو ہیرا کی شکل دکھائی دی۔ اس نے بتایا کہ نند لال کو لیبارٹری میں ’امبکا‘ کے نئے پرنٹ بنوانا تھے، اس لیے دیر ہو گئی۔ بات یہ ہے، کہ اس فلم ’امبکا‘ کے ڈیڑھ سو پرنٹ بنوائے اور نیگیٹو گھِس گیا۔ اس لیے ہم ایک پرنٹ سے ڈیوپ نکال کر اس سے کاپیاں بنوائیں گے۔ ڈیولپ سے جو پرنٹ نکلا ہے، انکل، اس کے مقابلے میں پہلا پرنٹ بھی کچھ نہیں۔ آپ میری خاطر اس کوتاہی کو بھول جائیے۔ آپ میری مدد تو کر ہی رہے ہیں، تھوڑی اور کر دیجیے اور وہ یہ کہ آپ نند لال جی کے گھر ہی چلے چلیں——آنا کانی کا کوئی بہانہ ہی نہ رہے۔ دیکھیے آپ کی عزت میری عزت ہے، اور میری عزت تو کچھ ہے ہی نہیں۔ آخر وہ اتنا بڑا اور کامیاب پروڈیوسر ہو کر آپ کے گھر آیا ہی تھا نا —آپ کے چرن بھی چھوئے ہی تھے نا۔
مکتی بودھ جی شاید کچھ سوچتے مگر بڑھیا نے انھیں کوئی موقع ہی نہ دیا۔ تسلا،جس میں چاول رکھتے تھے، اِسے خالی دکھا دیا۔ مکتی بودھ اُٹھے اور ہیرا کے ساتھ چل دیے۔ جب ہیرا کہہ رہا تھا، میرے پلے بیک کی بات ابھی نہیں، بعد میں کیجیے گا، جب آپ کا کانٹریکٹ ہو جائے۔
لاطور بھون میں نند لال کی بیوی سُدھا نے ان کی خاطر وغیرہ کی۔ دس بجے تک زندگی کے یہ دو کنارے آپس میں اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہے۔ پھر گیارہ بج گئے، بارہ اور خون مکتی بودھ کے سر کو آنے لگا۔ میں نے غلط کیا۔ چلو کوئی بات نہیں۔ کبھی ایک جھوٹ میں سے دس سچ بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مگر—نند لال آخر انسان ہے اور انسان سے مصروفیت ہوہی جاتی ہے۔ نند لال کو اب لے ہی آؤ، پرماتما، نہیں موت کا بیلف کیسے ٹلے گا؟
نند لال اپنی اسی گھِچ گھِچ کرتی مگر لکّی گاڑی میں اُس وقت، یعنی کہ رات کے ایک بجے آیا جب کہ مکتی بودھ ایسی تیسی کہہ کر چلنے ہی والے تھے۔ نند لال لنگڑا رہا تھا۔ پتا چلا اچانک پیچش ہو جانے سے اسے ڈاکٹر کے پاس جا کر سرین کے اوپر ٹیکے لگوانے پڑے جو ابھی درد کر رہے تھے۔ شکروار دیوی ماں کا دن ہے، نند لال نے بتایا، اور اس روز وہ برت رکھتے ہیں۔ صبح سے کچھ کھایا ہی نہیں۔ مکتی بودھ نے کہا —پہلے کھاؤ، پھر بات کریں گے۔ آخر انسان اتنی دوڑ دھوپ کرتا کس لیے ہے؟ بہُو! چاول میں دہی زیادہ دینا ذرا، اور مکتی بودھ نے کسی اضطرار میں اپنا ہاتھ پیٹ پر رکھ لیا اور اسے سہلانے لگے۔
ہیرا اور مکتی بودھ ٹیرس پر بیٹھے تھے، جہاں ان پر اُوس پڑ رہی تھی۔ یہاں اُوس پڑ رہی ہے، انکل! ہیرا لال نے کہا، اندر نہ چلے جائیں؟
مکتی بودھ بولے—نہیں بیٹا،اس کا تو کچھ نہیں، وہ ہماری امیدوں پر نہ پڑے، بس—اور پھر وہ کھسیانہ سی ہنسی ہنس دیے۔
سب کچھ ہو جانے کے بعد نند لال آیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر مکتی بودھ سے معافی مانگی، اس لیے نہیں کہ وہ لیٹ ہو گیا تھا، بلکہ پیسے لیٹ ہو گئے تھے، ابھی تک تو بندوبست نہیں ہوا مگر بدھ تک ضرور ہو جائے گا۔
جانے مکتی بودھ جی نے کیسے کہہ دیا—کوئی بات نہیں، بیٹا!بدھ کون سا دور ہے؟ حالاں کہ ان کے دماغ میں دلال، سیٹھیے، بیلف کیا کچھ گھومنے لگا تھا، اور ان سے زیادہ اپنی بڑھیا جو گھوم ہی نہیں رہی تھی۔
باقی ذمے داری ہیرا کی تھی کہ وہ بڑھؤ کو سمجھا دے کہ پیسا کوئی آسانی سے ڈھیلا نہیں کرتا۔ ’امبکا‘ میں کروڑ کا بزنس ٹھیک ہے، لیکن وصولی بھی تو کوئی چیز ہے؟ پچیس ہزار تو دفتر کی انٹیریر ڈیکوریشن میں لگ گیا ہے۔ ارے صاحب، ڈسٹری بیوٹر اور پیسا دیں؟ کیا کیا جھوٹے وَؤچر اور حساب نہیں بناتے؟ شہر شہر گانُو گانُو جا کر چیکنگ کرنی پڑتی ہے۔ اس کے لیے ایجنٹ رکھیں تو اسے پانچ سو ہزار سے کیا کم دیں گے؟ اگر ڈسٹری بیوٹر اس کی جیب میں پانچ ہزار ڈال دے، ساتھ شراب پِلائے اور کوٹھے پر گانا سننے کے لیے لے جائے، تو بتائیے وہ ایجنٹ آپ کا ہوا یا ڈسٹری بیوٹر کا؟ ایمان داری نام کی یہاں کوئی چیز ہی نہیں۔ ایک ہی ایمان دار ایجنٹ ملا تھا، چیکنگ کے ایک ہفتے کے اندر جس کی لاش ٹائلیٹ سے ملی—!
خیر، ہیرا کیسا بھی تھا،مگر تھا تو مکتی بودھ جی ہی کا بہی خواہ۔ ساتھ نند لال کا بھی۔ حالاں کہ یہ سب جھوٹ ہے— اصل میں وہ اپنا ہی خیرخواہ تھا۔
لاطور بھون کے ٹیرس سے اُٹھ کر چلتے ہوئے مکتی بودھ جی نے صرف اتنا ہی کہا—یہ کاہے کی بیل ہے؟
مارننگ گلوری کی—نند لال نے جواب دیا۔
مکتی بودھ جی نے اپنی نظریں بچاتے ہوئے کہا—تو پھر ایوننگ گلوری کی بھی کوئی ہو گی؟— اور پھر وہ ہنس دیے، چل ڈیے۔
ہیرا میں باقی تو سب ٹھیک تھا، لیکن ایک بات غلط تھی۔ اس نے مکتی بودھ جی کی پوری رقم اور سائیننگ اماؤنٹ بھی خود ہی طے کر دی تھی۔ جیسے وہ، مکتی جی، کوئی بات ہی نہیں— ظالم! پوچھ تو لیا ہوتا؟ فلم میں جو آتا ہے، رشتے جگا لیتا ہے۔ ارے بھائی، ہمیں اپنا بیٹا نہیں بیاہنا ہے۔ یہ کمرشل دنیا ہے، اس ہاتھ سے کام لو، اُس ہاتھ سے دام دو اور بس—اس سے پہلے یہ بکواس کبھی نہ ہوئی تھی۔ ہوئی بھی تو ہم نے کانٹریکٹ پھاڑ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے۔ اور اب، وہ جگر اب میں کہاں سے لاؤں؟ —یہ ہیرا؟ کہتا ہے میں نے نند لال کو کہہ بھی دیا کہ انکل کا تو کچھ نہیں، وہ درویش آدمی—ارے درویش کو کیا حاجت نہیں ہوتی؟ پھر — فلمی دنیا گروپ سے چلتی ہے۔ آپ ایک بار اس گروپ میں گھس تو جائیے، انکل! ’امبکا‘ گروپ—آج کے سب سے بڑے اور کامیاب پروڈیوسر نند لال کا گروپ—ارے، بڑے نند لال آئے اور بڑے گئے—اس کے ذریعے آپ کو دس تصویریں ملیں گی۔ ارے۔ تیے، مجھے اسی ایک کی ضرورت ہے، بعد کی دس اور بیس کی نہیں — کبھی میرا بھی وقت تھا، جب تمھارے ایسے آدمی کو ہفتہ ہفتہ باہر بٹھائے رکھتا تھا۔ کہیں غلطی سے وہ اپنا تھوبڑا میرے کمرے میں لے تو آئے،میں چِلاّ کر کہتا تھا— گیٹ آؤٹ۔ گیٹ ۔ آؤٹ۔
اور اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے مکتی بودھ سچ مچ چلّا اُٹھے—— گیٹ آؤٹ……
بُڑھیا بڑبڑا کے اُٹھی— کیا ہوا؟
مکتی بودھ کی سانس دھونکنی کی طرح سے چل رہی تہی—وہ ماتھے پر سے انفعال کے قطرے پونچھ رہے تھے۔
وہی ہو رہا ہے، جو تیرے ایسے کھوسٹ کا ہونا تھا— بڑھیا نے کہا اور واپس اپنے بوڑھے بستر پر لیٹ گئی۔
جس دلیری سے تقاضا کرنے والوں کو مکتی بودھ جی نے بدھ کا وقت دیا تھا، اسی بے حیائی سے اگلے سنیچر کا دے دیا (چیک بدھ کو بینک میں پڑے گا، تو… وغیرہ) حیرانی کی بات یہ کہ بیسیوں ہی آئے مگر ٹالے جانے پر کسی نے اُف بھی نہ کی۔ کیا ارادے تھے ان کے؟وہ شور مچاتے، نالش کی دھمکی دیتے، مگر یہ چُپ ؟! رام جانے یہ سب مل کر کیا کرنے والے ہیں؟ مکتی بودھ کانپ رہے تھے۔
بدھ کے روز موعودہ وقت پر ہیرا نند لال کی پتنی سُدھا کے ساتھ چلا آیا۔ سُدھا کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبّہ تھا جو اس نے مکتی بودھ جی کے آگے رکھ دیا— منھ میٹھا کیجیے، انکل!
مکتی بودھ اور ان کی بُڑھیا نے ڈبّہ لے لیا اور انتظار کرنے لگے۔
ہیرا بولا—میں آپ کے گھر میں ان لکشمی کو لے آیا ہوں— اور اس نے سُدھا بھابی کی طرف اشارہ کیا—سُدھا بھابی سے بڑی لکشمی کیا ہو گی؟ بات یہ ہوئی کہ نند لال اووَرفلو لینے کے لیے کلکتہ چلے گئے ہیں۔ ہفتہ بھر میں لوٹ آئیں گے۔ جاتے سمے اُنھوں نے تاکید کی کہ مکتی بودھ جی کو میرا اچانک چل دینا برا نہ لگے، اس لیے تم میری بیوی کو لے جانا اور ساتھ برج واسی کے ہاں سے رس ملائی کا ایک ڈبّہ بھی— اپنی عورت سے بڑی آدمی کی عزت کیا ہوتی ہے؟ مکتی بودھ جی نے سر ہلایا اور بولے —ہوں، اور ایک نظر اپنی بڑھیا کی طرف دیکھا—ان میں پُرانے ج لال کے دن پھڑپھڑاکر رہ گئے—
اِدھر ہیرا اور سُدھا گئے، اُدھر ٹانچ والے گھر سے ریڈیو گرام، اسپیکر، ٹیپ ریکارڈ، ہارمونیم، سِتار، فرنیچر اور کچھ برتن اُٹھا کر لے گئے— اس کا کیا ہے، مکتی بودھ جی نے سوچا، دس دن میں پیسے آ جائیں گے تو چیزیں بھی لوٹ آئیں گی، جب تک انھوں نے نیلام نہ کر دی ہوں تو — کربھی دی ہوں تو نئی خریدیں گے—آخر ایک آدمی نے اپنی عورت، اپنی عزت میرے گھر بھیجی ہے۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی؟ یہ کوئی آزمایش ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے دس دن میں نند لال کلکتہ سے لوٹ ہی آئے۔
جب ٹانچ والوں نے گھر کی چیزوں پر ہاتھ ڈالا تو مکتی بودھ کی بُڑھیا نے ایک دلدوز چیخ ماری اور اس کے بعد بے ہوش ہو گئی۔ یہ اچھا ہی ہوا، اگر وہ ہوش میں ہوتی تو دوسروں کے ہوش ٹھکانے کر دیتی۔ وہ مغلظّات سناتی کہ بس۔
دس دن بیت گئے لیکن نند لال کلکتہ سے نہ لوٹا۔ اب ہیرا مکتی بودھ جی سے بچتا پھر رہا تھا— نند لال کا ہاتھ روکنے اور مکتی بودھ کو پیسا دلوانے کے بیچ میں وہ کہیں بٹ کر رہ گیا تھا۔ اسے اپنا آدرش دور ہٹتا، خود میں کہیں گُم ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ نند لال کہیں اس سے بھی کھیل تو نہیں کر گیا؟ نہیں وہ ایسا آدمی تو نہیں ہے۔ ہیرا نے ایک بار مکتی بودھ کو مل کر بتایا کہ اوورفلو جھگڑے میں پڑ گیا ہے۔ اسی لیے نند لال نہیں آیا، مگر آئے گا ضرور، کچھ دن میں۔ کہاں جائے گا؟
مکتی بودھ جی ہیرا کی بات پر ہونٹ بھینچ کر صرف ایک ہی کہتے رہے۔ ہُوں! لیکن جب ہیرا چلا جاتا تو اپنے آپ سے کہتے —مکتی! تجھے کیا ہو گیا ہے، کیوں نہیں تو ان پِلّوں کو ٹھڈے مارکر باہر نکال سکتا؟ اب رہ ہی کیا گیا ہے—؟
اسی سلسلے میں ایک دن مکتی بودھ جی نے دُلارے، اپنے شاگرد کو بھیج کر استاد کلب علی کا سِتار منگوایا، جس پر ہاتھ رکھتے ہی وہ سب کچھ بھول گئے۔ بجاتے ہوئے کیسے وہ اس ساز سے لپٹ لپٹ جاتے تھے۔ معلوم ہوتا تھا، جیسے ان کے بازوؤں میں کوئی محبوبہ ہے، جس پر جھُک جھُک کر، جِسے چو‘م چو‘م کر، جس پر انگلیاں دوڑا دوڑا کر، وہ کسی نئی زندگی کے سُر نکال رہے ہیں—بُڑھیا دیکھ رہی تھی اور کباب ہو رہی تھی۔ یہاں کی عورت، وہاں کی عورت کی ہمیشہ حاسد رہی ہے— یہ کہ اُسے اپنی ذات میں کھوکر، اپنے مالک میں مدغم ہو کر اُس کی ملکہ ہو جانا چاہیے، سب باتیں ہیں— وہ تو اپنے میاں کی ہر دل عزیزی سے بھی جل بھن کر راکھ ہو جاتی ہے—
ایک جھالے کے بعد یکدم مکتی بودھ جی نے سِتار ایک طرف رکھ دیا اور پھر وہی اپنے آپ پر رحم —اس پر بھی تو یہ سب اپنے آپ سے ہوتے دیکھ رہا ہے مکتی—کیوں نہیں تو نند لالوں سے کہہ سکتا — نہیں چاہیے مجھے تمھارا ’سجدہ‘ جو سجدہ ہی نہیں —
پھر انھیں رستم کے آخری دن یاد آ جاتے، جن میں وہ روتا اور سر اوپر اُٹھا کر، ہاتھ پھیلا کر کہتا—اللہ! کہاں گئے وہ میرے دن، جب میں چلتا تھا تو میرے پانْو زمین میں دھنس دھنس جاتے تھے۔ اور آج؟
پھر وہ نعت، جس کی دھُن اپنی بیکاری کے دِنوں میں مکتی جی نے نکالی تھی، جسے گاتے ہوئے انھوں نے بیچ میں سب بند کر دیا۔ یہ بھیرویں، یہ ٹوڈی—کیا میاں کی اور کیا بیوی کی اور کیا کھماچ سب بکواس ہیں۔ قرآن کی بھی تو آیت ہے، جس رُخ زمانہ پھرے، اُسی رُخ پھر جاؤ…میں نہیں پھر سکتا، میری ہڈیاں بوڑھی ہو گئی ہیں، جو ٹوٹ سکتی ہیں، مُڑ نہیں سکتیں۔
نہیں! میں یہ نہیں کروں گا—میں نہیں مرغِ باد گرد۔ میں نے اپنے سنگیت، اپنی ماں سے پیار کیا ہے، ایشور! عورتیں بیسیوں، سیکڑوں ہو سکتی ہیں، ماں صرف ایک…کیا میں بھوکا بھی نہیں مر سکتا؟ یہ آزادی مجھ سے کوئی نہیں، کوئی نہیں چھین سکتا—
نند لال دس دن بعد بھی نہ لوٹا، بیچ میں ہیرا مکتی بودھ جی کے گھر کا طواف کرتا رہا۔ مگر ان کا دروازہ کھٹکھٹانے، اندر جانے کی اس کی ہمت نہ پڑی۔ شاید وہ مکتی بودھ جی سے اتنا نہ ڈرتا تھا، جتنا اُن کی بُڑھیا سے۔
اب کے جو ہیرا آیا تو ایک تار سے مسلح۔ تار کلکتہ سے آیا تھا، جس میں لوٹنے کا تِتھ وار سبھی لکھے تھے۔ اس دستاویز کو کانپتے ہوئے ہاتھوں میں لے کر مکتی بودھ پھر کچھ بھول گئے—اور آنکھیں سکوڑکر کہیں دور دیکھتے ہوئے بولے— ہُوں…!
ہیرا اندر سے جانتا تھا کہ اگر مجھے مکتی بودھ جی کی ضرورت ہے تو انھیں بھی میری—اور نند لال کی—مقررہ تاریخ کو نند لال واقعی چلا آیا۔ ہیرا اُسے گھیر گھار کر مکتی جی کے ہاں لے بھی آیا۔ کیا تیقن سے اس کے ہاتھ گھنٹی پر پڑے۔ بہت دیر تک اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ آخر پتا چلا کوئی آ رہا ہے۔ دروازہ کھلا تو سامنے بُڑھیا تھی، جو انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کانچ تھا۔ سارے چہرے پر پرچھائیاں پھیلی تھیں اور جھریوں میں کوئی سِلٹ جمی تھی، جیسے طوفان اور باڑھ کے بعد چھوٹے بڑے ندی نالوں میں جم جاتی ہے۔
بُڑھیا نے ان کو جانے کے لیے کہا، نہ بیٹھنے کے لیے۔ اس پر بھی وہ اندر جا کر بیٹھ گئے۔
ہیرا نے پوچھا—انکل کہاں ہیں آنٹی؟
پہلے تو وہ ایسے ہی بڑبڑ دیکھتی رہی۔ آخر بولی—جانے کہاں کھپ گیا ہے، بڑھؤ … اسے تو موت بھی نہیں آتی…کیا کیا ٹونے نہ کیے میں نے…۔
تین گھنٹے انتظار کے بعد نند لال چیک سمیت لوٹ گئے۔ ہیرا نے اور کوئی دیر دیکھ لینے کو کہا، مگر نند لال راضی نہ ہوا۔ اُٹھتے ہوئے نند لال نے تسلی کے لیے جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھا، چیک وہیں تھا! ہیرا کی حالت ابتر تھی البتہ۔ اتنی محنت سے بنائی ہوئی اس کی عمارت ڈھے گئی تھی۔ جس ٹھیکے دار کو اسے بننے کے لیے دیا تھا، اس نے سیمنٹ سے زیادہ ریت اس میں ملا دی تھی۔
ہیرا گم صُم جا رہا تھا کہ دُور سے اس کے کان میں کوئی دھُن سنائی دینے لگی—جو پیلو میں بندھی تھی—
ہیرا نے نند لال سے پوچھا—آپ کو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس اینٹوپ ہل کے پیچھے سے جہاں عرب ساگر ہے؟ نند لال نے سننے کی کوشش کی اور بولا—نہیں تو —ہاں—نہیں تو —
٭٭٭
ایک باپ بکاؤ ہے
کبھی نہ سنی یہ بات جو 24ـ؍فروری کے ’’ٹائمز‘‘ میں چھپی۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اخبار والوں نے چھاپ کیسے دی۔ خرید و فروخت کے کالم میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی اشتہار تھا۔ جس نے وہ اشتہار دیا تھا، ارادہ یا اس کے بغیر اسے معمّے کی ایک شکل دے دی تھی۔ پتے کے سوا اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی، جس سے خریدنے والے کو کوئی دل چسپی ہو —بکاؤ ہے ایک باپ۔ عمر اکہتّر سال، بدن اکہرا، رنگ گندمی، دمے کا مریض۔ حوالہ باکس نمبر ایل 476،معرفت ’ٹائمز‘۔
اکہتّر برس کی عمر میں باپ کہاں رہا— دادا نانا ہو گیا وہ تو؟
عمر بھر آدمی ہاں ہاں کرتا رہتا ہے، آخر میں نانا ہو جاتا ہے۔
باپ خرید لائے تو ماں کیا کہے گی، جو بیوہ ہے۔ عجیب بات ہے نا، ایسے ماں باپ جو میاں بیوی نہ ہوں۔
ایک آدمی نے اُلٹے پانْو دنیا کا سفر شروع کر دیا ہے۔ آج کی دنیا میں سب سچ ہے بھائی سب سچ ہے۔
دمہ پھیلائے گا۔
نہیں بے—دمہ متعدی بیمار نہیں۔
ہے ۔
نہیں۔
ہے۔
ان دو آدمیوں میں چاقو چل گئے— جو بھی اس اشتہار کو پڑھتے تھے، بڈھے کی سنک پہ ہنس دیتے تھے۔ پڑھنے کے بعد اسے ایک طرف رکھ دیتے اور پھر اُٹھا کر اِسے پڑھنے لگتے، جیسے ہی انھیں اپنا آپ احمق معلوم ہونے لگتا، وہ اس اشتہار کو اڑوسیوں پڑوسیوں کی ناک تلے ٹھونس دیتے—
ایک بات ہے۔ گھر میں چوری نہیں ہو گی۔
کیسے؟
ہاں، کوئی رات بھر کھانستا رہے۔
یہ سب سازش ہے، خواب آور گولیاں بیچنے والوں کی پھر—ایک باپ بکاؤ ہے!
یوں لوگ ہنستے ہنستے رونے کے قریب پہنچ گئے۔
گھروں میں، راستوں پر، دفتروں میں بات ڈاک ہونے لگی، جس سے وہ اشتہار اور بھی مشتہر ہو گیا۔
جنوری فروری کے مہینے بالعموم پت جھڑ کے ہوتے ہیں—ایک ایک داروغہ کے نیچے بیس بیس جھاڑو دینے والے، سڑکوں پر گرے سوکھے سڑے، بوڑھے پتّے اُٹھاتے اُٹھاتے تھک جاتے ہیں، جنھیں اُن کو گھر لے جانے کی بھی اجازت نہیں کہ انھیں جلائیں اور سردی سے خود اور اپنے بال بچّوں کو بچائیں۔ اس پت جھڑ اور سردی کے موسم میں وہ اشتہار گرمی پیدا کرنے لگا، جو آہستہ آہستہ سینک میں بدل گئی۔
کوئی بات تو ہو گی؟!
ہو سکتا ہے، پیسے جائیداد والا…
بکواس—ایسے میں بکاؤ لکھتا؟
مشکل سے اپنے باپ سے خلاصی پائی ہے۔ باپ کیا تھا، چنگیز ہلاکو تھا سالا۔
تم نے پڑھا، مسز گوسوامی؟
دھت—ہم بچّے پالیں گی، سُدھا، کہ باپ؟ ایک اپنے ہی وہ کم نہیں گو—سوامی ہے! ہی… ہی ہی۔
باپ بھی حرامی ہوتے ہیں…
باکس ایل 476 میں چٹھیوں کا طومار آیا پڑا تھا۔ اس میں ایک ایسی چٹھی بھی چلی آئی تھی، جس میں کیرل کی کسی لڑکی مِس اونی کرشنن نے لکھا تھا کہ وہ ابودھابی میں ایک نرس کا کام کرتی رہی ہے اور اس کے ایک بچّہ ہے۔ وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ شادی کی متمنی ہے جس کی آمدنی معقول ہو اور جو اس کی اور بچّے کی مناسب دیکھ بھال کرسکے، چاہے وہ کتنی عمر کا ہو—اس کا کوئی شوہر ہو گا، جس نے اسے چھوڑ دیا۔ یا ویسے ابودھابی کے کسی شیخ نے اُسے الٹا پلٹا دیا۔ چنانچہ غیر متعلق ہونے کی وجہ سے وہ عرضی ایک طرف رکھ دی گئی، کیوں کہ اس کا بکاؤ باپ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بہر حال ان چٹھیوں سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہیڈلے چیز، رابن سن، ارونگ اور اگا تھاکرسٹی کے سب پڑھنے والے اِدھر پلٹ پڑے ہیں۔ کلاسی فائیڈ اشتہار چھاپنے والوں نے جنرل منیجر کو تجویز پیش کی کہ اشتہاروں کے نرخ بڑھا دیے جائیں۔ مگر نوجوان بڈھے یا بڈھے نوجوان منیجر نے تجویز کو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے کہا —Shucks—ایک پاپولر اشتہار کی وجہ سے نرخ کیسے بڑھا دیں؟…اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پولس پہنچی۔ اُس نے دیکھا ہندو کالونی، دادر میں گاندھرو داس، جس نے اشتہار دیا تھا، موجود ہے اور صاف کہتا ہے کہ میں بِکنا چاہتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی قانونی رنجش ہے تو بتائیے— وہ پان پہ پان چباتا اور اِدھر اُدھر دیواروں پر تھوکتا جا رہا تھا۔ مزید تفتیش سے پتا چلا کہ گاندھروداس ایک گائیک تھا، کسی زمانے میں جس کی گائیکی کی بڑی دھوم تھی۔ برسوں پہلے اس کی بیوی کی موت ہو گئی، جس کے ساتھ اس کی ایک منٹ نہ پٹتی تھی۔ دونوں میاں بیوی ایک اوندھی محبت میں بندھے ایک دوسرے کو چھوڑتے بھی نہ تھے۔ شام کو گاندھروداس کا ٹھیک آٹھ بجے گھر پہنچنا ضروری تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی لین دین نہ رہ جانے کے باوجود یہ احساس ضروری تھا کہ —وہ ہے۔ گاندھروداس کی تان اُڑتی ہی صرف اس لیے تھی کہ دمینتی، اُس کے سنگیت سے بھرپور نفرت کرنے والی بیوی گھر میں موجود ہے اور اندر کہیں گاجر کا حلوا بنا رہی ہے اور دمینتی کے لیے یہ احساس تسلی بخش تھا،کہ اُس کا مرد جو برسوں سے اسے نہیں بُلاتا، ساتھ کے بستر پر پڑا شراب میں بدمست خراّٹے لے رہا ہے۔ کیوں کہ خراّٹا ہی ایک موسیقی تھی، جسے گاندھرو کی بیوی سمجھ پائی تھی۔
بیوی کے چلے جانے کے بعد، گاندھرو داس کو بیوی کی تو سب زیادتیاں بھول گئیں، لیکن اپنے اُس پر کیے ہوئے اتیّاچار یاد رہ گئے۔ وہ بیچ رات کے ایکا ایکی اُٹھ جاتا اور گریبان پھاڑ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگتا۔ بیوی کے بارے میں آخری خواب میں اس نے دیکھا کہ دوسری عورت، کو دیکھتے ہی اس کی بیوی نے واویلا مچا دیا ہے اور روتی چلاتی ہوئی گھر سے بھاگ نکلی ہے۔ گاندھروداس پیچھے دوڑا۔ لکڑی کی سیڑھی کے نیچے کچّی زمین میں دمینتی نے اپنے آپ کو دفن کر لیا۔ مگر مٹی ہل رہی تھی اور اس میں دراڑیں سی چلی آئی تھیں، جس کا مطلب تھا کہ ابھی اس میں سانس باقی ہے۔ حواس باختگی میں گاندھروداس نے اپنی عورت کو مٹی کے نیچے سے نکالا تو دیکھا —اس کے، بیوی کے دونوں بازو غائب تھے۔ ناف سے نیچے بدن نہیں تھا۔ اس پر بھی وہ اپنے ٹھُنٹ، اپنے پَتی کے گرد ڈالے اس سے چمٹ گئی اور گاندھرو اُسی پُتلے سے پیار کرتا ہوا اُسے سیڑھیوں سے اوپر لے آیا۔
گاندھروداس کا گانا بند ہو گیا!
گاندھروداس کے تین بچے تھے— تھے کیا— ہیں۔ سب سے بڑا ایک نامی پلے بیک سنگر ہے، جس کے لانگ پلیئنگ ریکارڈ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں۔ ایرانی ریستورانوں میں رکھے ہوئے جیُوک باکسوں سے جتنی فرمائشیں اس کے گانوں کی ہوتی ہیں، اور کسی نہیں۔ اس کے برعکس گاندھروداس کے کلاسیکی میوزک کو کوئی گھاس بھی نہ ڈالتا تھا۔ دوسرا لڑکا اوف سیٹ پرنٹر ہے اور جست کی پلیٹیں بھی بناتا ہے۔ پریس سے وہ ڈیڑھ ہزار روپیا مہینا پاتا ہے اور اپنی اطالوی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ہے۔ کوئی جِیے یا مرے، اسے اس بات کا خیال ہی نہیں۔ جس زمانے میں گاندھروداس کا موسیقی کے ساز بیچنے کا کام ٹھپ ہوا، تو بیٹا بھی ساتھ تھا۔ گاندھرو نے کہا—چلو، ایچ . ایم. وی کے ریکارڈوں کی ایجنسی لیتے ہیں۔ چھوٹے نے جواب دیا—ہاں، مگر آپ کے ساتھ میرا کیا مستقبل ہے؟ گاندھرو داس کو دھچکا سا لگا۔ وہ بیٹے کا مستقبل کیا بتا سکتا تھا؟ کوئی کسی کا مستقبل کیا بتا سکتا ہے؟ گاندھرو کا مطلب تھا کہ میں کھاتا ہوں تو تم بھی کھاؤ۔ میں بھوکا مرتا ہوں تو تم بھی مرو۔ تم جوان ہو، تم میں حالات سے لڑنے کی طاقت زیادہ ہے۔ اس کے جواب کے بعد گاندھروداس ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔ رہی بیٹی تو وہ ایک اچھے مارواڑی گھر میں بیاہی گئی۔ جب وہ تینوں بہن بھائی ملتے تو اپنے باپ کو رنڈوا نہیں، مرد بِدھوا کہتے اور اپنی اس اختراع پہ خود ہی ہنسنے لگتے۔
ایسا کیوں؟
چاترک، ایک شاعر اور اکاؤنٹنٹ، جو اس اشتہار کے سلسلے میں گاندھروداس کے ہاں گیا تھا، کہہ رہا تھا—اس بڈھے میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین اولاد میں سے ایک بھی اس کی دیکھ ریکھ نہ کرے۔ کیا وہ ایک دوسرے کے اتنے نزدیک تھے کہ دور ہو گئے؟ ہندسوں میں اُلجھے رہنے کی وجہ سے کہیں چاترک کے الہام اور الفاظ کے درمیان فساد پیدا ہو گیا تھا۔ وہ نہ جانتا تھا کہ ہندستان تو کیا، دنیا بھر میں کنبے کا تصوّر ٹوٹتا جا رہا ہے۔ بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لیے سب بڈھے کسی ہائیڈ پارک میں بیٹھے، امتداد زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرے ہوئے، ہر آنے جانے والے کو شکار کرتے ہیں، کہ شاید اُن سے کوئی بات کرے۔ وہ یہودی ہیں، جنھیں کوئی ہٹلر ایک ایک کر کے گیس چیمبر میں دھکیلتا جا رہا ہے، مگر دھکیلنے سے پہلے زنبور کے ساتھ اس کے دانت نکال لیتا ہے، جن پر سونا مَڑھا ہے۔ اگر کوئی بچ گیا ہے تو کوئی بھانجا بھتیجا اتفاقیہ طور پر اُس بڈھے کو دیکھنے کے لیے اس کے مخروطی ایٹک میں پہنچ جاتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ وہ تو مرا پڑا ہے اور اس کی فلزاتی آنکھیں اب بھی دروازے پر لگی ہیں۔ نیچے کی منزل والے بہ دستور اپنا اخبار بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں، کیوں کہ دنیا میں روز کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ ڈاکٹر آ کر تصدیق کرتا ہے کہ بڈھے کو مرے ہوئے پندرہ دن ہو گئے۔ صرف سردی کی وجہ سے لاش گلی سڑی نہیں۔پھر وہ بھانجا یا بھتیجا کمیٹی کو خبر کر کے منظر سے ٹل جاتا ہے، مبادا آخری رسوم کے اخراجات اسے دینے پڑیں۔
چاترک نے کہا —ہو سکتا ہے، بڈھے نے کوئی اندوختہ رکھنے کے بجائے اپنا سب کچھ بچّوں ہی پر لٹا دیا ہو۔ اندوختہ ہی ایک بولی ہے، جسے دنیا کے لوگ سمجھتے ہیں اور ان سے زیادہ اپنے سگے سمبندھی، اپنے ہی بچّے بالے۔ کوئی سنگیت میں تارے توڑ لائے، نقاشی میں کمال دکھا جائے، اس سے انھیں کوئی مطلب نہیں۔ پھر اولاد ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اس کا باپ وہی کرے جس سے وہ، اولاد خوش ہو۔ باپ کی خوشی کس بات میں ہے، اس کی کوئی بات ہی نہیں اور ہمیشہ ناخوش رہنے کے لیے اپنے، کوئی سا بھی بے گانہ بہانہ تراش لیتے ہیں۔
مگر گاندھروداس تو بڑا ہنس مکھ آدمی ہے۔ ہر وقت لطیفے سناتا، خود ہنستا اور دوسروں کو ہنساتا رہتا ہے۔ اس کے لطیفے اکثر فحش ہوتے ہیں۔ شاید وہ کوئی نقاب، مکھوٹے ہیں، جن کے پیچھے وہ اپنی جنسی ناکامیوں اور نا آسودگیوں کو چھپاتا رہتا ہے۔ یا پھر، سیدھی سی بات— بڑھاپے میں انسان ویسے ہی ٹھرکی ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی یا مفروضہ فتوحات کی بازگشت!
اشتہار کے سلسلے میں آنے والے کچھ لوگ اس لیے بھی بدک گئے کہ گاندھروداس پر پچپن ہزار کا قرض بھی تھا، جو بات اس نے اشتہار میں نہیں لکھی تھی اور غالباً اس کی عیاری کا ثبوت تھی۔ اس پر طرفہ ایک جوان لڑکی سے آشنائی بھی تھی جو عمر میں اس کی اپنی بیٹی رُما سے چھوٹی تھی۔ وہ لڑکی، دیویانی، گانا سیکھنا چاہتی تھی جو گورو جی نے دن رات ایک کر کے اسے سکھا دیا اور سنگیت کی دنیا کے شِکھر پر پہنچا دیا۔ لیکن ان کی عمروں کے بُعد کے باوجود ان کے تعلقات میں جو ہیجانی کیفیت تھی، اسے دوسرے تو ایک طرف، خود وہ بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔ اب بھلا ایسے چاروں عیب شرعی باپ کو کون خریدے؟
اور پھر—جو ہر وقت کھانستا رہے، کسی وقت بھی دَم اُلٹ جائے اس کا۔
باہر جائے تو نوٹانک مار کے آئے۔ بلکہ لوٹتے وقت پوّا بھی دھوتی میں چھپا کر لے آئے۔
آخر—دمے کے مریض کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے!
گاندھروداس سنگیت سکھاتے ہوئے یہ بھی کہہ اُٹھتا—میں پھر گاؤں گا۔ وہ تکرار کے ساتھ یہ بات شاید اس لیے بھی کہتا کہ اسے خود بھی اس میں یقین نہ تھا۔ وہ سُر لگاتا بھی تو اسے اپنے سامنے اپنی مرحوم بیوی کی روح دکھائی دیتی —جیسے کہہ رہی ہو —ابھی تک گار ہے ہو؟
اس انوکھے مطالبے اور امتزاج کی وجہ سے لوگ گاندھروداس کی طرف یوں دیکھتے تھے جیسے وہ کوئی بہت چمکتی، دمکتی ہوئی شے ہو اور جس کا نقش وہاں سے ٹل جانے کے بعد بھی کافی عرصے تک آنکھ کے اندر پردے پر برقرار رہے، اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑے جب تک کوئی دوسرا عنصری نظارہ پہلے کو دھندلا نہ دے۔
کسی خورشید عالم نے کہا—میں خرید نے کو تیار ہوں بہ شرطے کہ آپ مسلمان ہو جائیں۔
مسلمان تو میں ہوں ہی۔
کیسے؟
میرا ایمان خدا پہ مُسلَّم ہے۔ پھر میں نے جو پایا ہے، استاد علاء الدین کے گھرانے سے پایا ہے۔
آں ہاں—وہ مسلمان—کلمے والا…
کلمہ تو سانس ہے انسان کی،جو اس کے اندر باہر جاری اور ساری ہے۔ میرا دین سنگیت ہے۔ کیا استاد عبد الکریم خاں کا بابا ہری داس ہونا ضروری تھا؟
پھر میاں خورشید عالم کا پتا نہیں چلا۔
دو تین عورتیں بھی آئیں۔ لیکن گاندھروداس، جس نے زندگی کو نوٹانک بنا کے پی لیا تھا، بولا—جو تم کہتی ہو، عین میں اس سے اُلٹ چاہتی ہو۔ کوئی نیا تجربہ جس سے بدن سو جائے اور روح جاگ اُٹھے، اسے کرنے کی تم میں ہمت ہی نہیں۔ دین، دھرم، معاشرہ نہ جانے کِن کِن چیزوں کی آڑ لیتی ہو، لیکن بدن روح کو شکنجے میں کس کے یوں سامنے پھینک دیتا ہے۔ تم پلنگ کے نیچے کے مرد سے ڈرتی ہو اور اسے ہی چاہتی ہو۔ تم ایسی کنواریاں ہو جو اپنے دماغ میں عفت ہی کی رٹ سے اپنی عصمت لُٹواتی ہو اور وہ بھی بے مہار… اور پھر گاندھروداس نے ایک شیطانی مسکراہٹ سے کہا—در اصل تمھارے ہجّے ہی غلط ہیں!
ان عورتوں کو یقین ہو گیا کہ وہ ازلی مائیں دراصل باپ نہیں، کسی خدا کے بیٹے کی تلاش میں ہیں۔ ورنہ تین تین چار چار تو ان کے اپنے بیٹے ہیں، مجاز کی اس دنیا میں …
میں اُس دن کی بات کرتا ہوں، جس دن بان گنگا کے مندر سے بھگوان کی مورتی چوری ہوئی۔ اُس دن پت جھڑ بہار پر تھی۔ مندر کا پورا احاطہ سُوکھے سڑے، بوڑھے پتّوں سے بھر گیا۔ کہیں شام کو بارش کا ایک چھینٹا پڑا اور چوری سے پہلے مندر کی جیوتیوں پہ پروانوں نے اتنی ہی فراوانی سے قربانی دی، جس فراوانی سے قدرت انھیں پیدا کرتی اور پھر ان کی کھاد بناتی ہے۔ یہ وہی دن تھا، جس دن پجاری نے پہلے بھگوان کرشن کی رادھا (جو عمر میں اپنے عاشق سے بڑی تھی) کی طرف دیکھا اور پھر مسکراکر مہترانی چھبّو کی طرف (جو عمر میں پجاری کی بیٹی سے چھوٹی تھی)اور وہ پتّے اور پھول اور بیج گھر لے گئی۔
مورتی تو خیر کسی نے سونے چاندی، ہیرے اور پنّوں کی وجہ سے چُرائی، لیکن گاندھروداس کو لارسن اینڈ لارسن کے مالک دُروے نے ’بے وجہ‘ خرید لیا۔ گاندھروداس اور دُروے میں کوئی بات نہیں ہوئی۔بوڑھے نے صرف آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے کہہ دیا—جیسے تیسے بھی ہو، مجھے لے لو بیٹے۔ بنا بیٹے کے کوئی باپ نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد دُروے کو آنکھیں ملانے، سوال کرنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔ سوال شرطوں کا تھا، مگر شرطوں کے ساتھ کبھی زندگی جی جائے ہے؟ دُروے نے گاندھروداس کا قرض چکایا، سہارا دے کر اسے اُٹھایا اور مالابار ہِل کے دامن میں اپنے عالی شان بنگلے گِری کُنج میں لے گیا، جہاں وہ اس کی تیمار داری اور خدمت کرنے لگا۔
دُروے سے اس کے ملازموں نے پوچھا—سر، آپ یہ کیا مصیبت لے آئے ہیں، یہ بُڈھا، مطلب، بابو جی آپ کو کیا دیتے ہیں؟
کچھ نہیں۔ بیٹھے رہتے ہیں آلتی پالتی مارے۔کھانستے رہتے ہیں اور یا پھر زردے قوام والے پان چبائے جاتے ہیں۔ جہاں جی چاہے، تھوک دیتے ہیں، جس کی عادت مجھے اور میری صفائی پسند بیوی کو ابھی نہیں پڑی، مگر پڑ جائے گی— دھیرے دھیرے… مگر تم نے ان کی آنکھیں دیکھی ہیں؟
جی نہیں۔
جاؤ، دیکھو، ان کی روتی ہنستی آنکھوں میں کیا ہے۔ ان میں سے کیسے کیسے سندیس نکل کر کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟
کہاں کہاں پہنچ رہے ہیں؟— جمناداس دُروے کے ملازم نے غیر ارادی طور پر فضا میں دیکھتے ہوئے کہا—آپ تو سائنس داں ہیں!
میں سائنس ہی کی بات کر رہا ہوں، جمنا! اگر انسان کے زندہ رہنے کے لیے پھل پھُول اور پیڑ پودے ضروری ہیں، جنگل کے جانور ضروری ہیں، بچّے ضروری ہیں تو بوڑھے بھی ضروری ہیں۔ ورنہ ہمارا ایکولاجیکل بیلنس تباہ ہو کر رہ جاے۔ اگر جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر بے وزن ہو کر انسانی نسل ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائے۔
جمنا داس اور ا تھاولے بھاؤ کچھ سمجھ نہ سکے۔
دُروے نے بنگلے میں لگے اشوک پیڑ کا ایک پتّا توڑا اور جمنا داس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا—اپنی پوری سائنس سے کہو کہ یہ تازگی، یہ شگفتگی، یہ شادابی اور یہ رنگ پیدا کر کے دکھائے…
ا تھاولے بولا— وہ تو اشوک کا بیج بوئیں…
آں ہاں—دُروے نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ میں بیج کی نہیں، پتّے کی بات کر رہا ہوں۔ بیج کی بات کریں گے تو ہم خدا جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔
پھر جمناداس کے قریب ہوتے ہوئے دُروے بولے—میں تمھیں کیا بتاؤں، جمنا! جب میں بابوجی کے چرن چھو کر جاتا ہوں تو ان کی نگاہوں کا مَرم مجھے کتنی شانتی، کتنی ٹھنڈک دیتا ہے۔ میں جو ہر وقت ایک بے نام ڈر سے کانپتا رہتا تھا، اب نہیں کانپتا۔ مجھے ہر وقت اس بات کی تسلّی رہتی ہے—وہ تو ہیں۔ مجھے یقین ہے، بابوجی کی آتما کو بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہو گا!
میں نہیں مانتا، سر،—یہ خالی خولی جذباتیت ہے۔
ہو سکتا تھا، دُروے بھڑک اُٹھتا—ہو سکتا تھا وہ جمنا داس، اپنے ملازم کو اپنی فرم سے ڈسمس کر دیتا۔ لیکن باپ کی آنکھوں کے مَرم نے اُسے یہ نہ کرنے دیا۔ اُلٹا اس کی آواز میں کہیں سے کوئی کومل سُر چلا آیا اور اس نے بڑے پیار سے کہا—تم کچھ بھی کہہ لو، جمنا—پر ایک بات تو تم جانتے ہو۔ میں جہاں جاتا ہوں، لوگ مجھے سلامیں کرتے ہیں۔ میرے سامنے سر جھُکاتے، بچھ بچھ جاتے ہیں۔
دُروے اس کے بعد ایکا ایکی چُپ ہو گیا۔ اُس کا گلا اور اس کی آنکھیں دھُندلا گئیں۔
سر، میں بھی تو یہی کہتا ہوں—دنیا آپ کے سامنے سر جھُکاتی ہے!
اسی لیے … دُروے نے اپنی آواز پاتے ہوئے کہا—کہیں میں بھی اپنا سر جھکانا چاہتا ہوں۔ ا تھاولے جمنا داس، اب تم جاؤ، پلیز! میری پوجا میں وِگھن نہ ڈالو۔ ہم نے پتھر سے بھی خدا پایا ہے۔
گِری کنج میں لگے ہوئے آم کے پیڑوں پر بور آیا۔ اِدھر پہلی کوئل کُو کی، اُدھر گاندھروداس نے برسوں کے بعد تان اُڑائی—کوئیلیا بولے امبوا کی ڈار…
وہ گانے لگے۔ کسی نے کہا—آپ کا بیٹا آپ سے اچھا گاتا ہے۔
ائیسا؟… گاندھروداس نے بمبیّا بولی میں کہا—آخر میرا بیٹا ہے۔ باپ نے میٹرک کیا ہے تو بیٹا ایم . اے نہ کرے؟
ایسی باتیں کرتے ہوئے ناسمجھ، بے باپ کے لوگ گاندھروداس کے چہرے کی طرف دیکھتے کہ اُن کی جھُرّیوں میں کہیں تو جلن دکھائی دے۔ جب کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی تو کسی نے لقمہ دیا —آپ کا بیٹا کہتا ہے، میرا باپ مجھ سے جلتا ہے۔
سچ؟— میرا بیٹا کہتا ہے—
ہاں، میں جھوٹ تھوڑے بول رہا ہوں۔
گاندھروداس تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ جیسے وہ کہیں اندر عالمِ ارواح میں چلے گئے ہوں اور ماں سے بیٹے کی شکایت کی ہو — بُڑھیا سے کوئی جواب پاکر وہ دھیرے سے بولے— اور تو کوئی بات نہیں، میرا بیٹا—وہ بھی باپ ہے…وہ پھر اُن دنوں کی طرف لوٹ گئے جب بیٹے نے کہا تھا — بابوجی، میں بھی شاستریہ سنگیت میں آپ جیسا کمال پیدا کرنا چاہتا ہوں، مگر ڈھیر سارا روپیا کما کر، اور بابوجی نے بڑی شفقت سے بیٹے کے کندھے کو تھپ تھپاتے ہوئے کہا تھا۔ ایسے نہیں ہوتا، راجو… یا آدمی کمال حاصل کرتا ہے یا پیسے ہی بناتا چلا جاتا ہے۔ جب دو بڑے بڑے آنسو لڑھک کرگاندھروداس کی داڑھی میں اٹک گئے، جہاں دُروے بیٹھا تھا، اُدھر سے روشنی میں وہ پرزم ہو گئے، سفید روشنی، جن میں سے نکل کر سات رنگوں میں بکھر گئی…
دُروے کو نہ جانے کیا ہوا۔ وہ اُٹھ کر زور سے چلاّیا—گیٹ آؤٹ…اور لوگ چوہوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے ہوئے بھاگے۔
گاندھروداس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور صرف اتنا کہا —نہیں۔ بیٹے، نہیں—
ان کے ہاتھ سے کوئی برقی رویں نکل رہی تھیں۔
دُروے جب لارسن اینڈ لارسن میں گیا تو فلپ، اس کا ورکس منیجر کمپیوٹر کوڈیٹا فیڈ کر رہا تھا۔ کمپیوٹر سے کارڈ باہر آیا تو اس کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ وہ بار بار آنکھیں جھپک رہا تھا اور کارڈ کی طرف دیکھ رہا تھا ……لارسن اینڈ لارسن کو اکتالیس 41 لاکھ کا گھاٹا پڑنے والا ہے۔ اس گھبراہٹ میں اُس نے کارڈ دُروے کے سامنے کر دیا، جسے دیکھ کر اُس کے چہرے پر شکن تک نہ آئی۔ دُروے نے صرف اتنا کہا—کوئی انفارمیشن غلط فیڈ ہو گئی ہے۔
نہیں سر … میں نے بیسیوں بار چیک، کراس چیک کر کے اسے فیڈ کیا ہے۔
تو پھر… مشین ہے۔ کوئی نقص پیدا ہو گیا ہو گا۔ آئی۔ بی ۔ ایم والوں کو بلاؤ۔
مووک —چیف انجینیر تو ساؤتھ گیا ہے۔
ساؤتھ کہاں؟
تروپتی کے مندر… سُنا ہے اُس نے اپنے لمبے، ہِپّی بال کٹوا کر مورتی کی نذر کر دیے ہیں!
دُروے ہلکا سا مسکرایا اور بولا— تم نے یہ انفارمیشن فیڈ کی ہے کہ ہمارے بیچ ایک باپ چلا آیا ہے؟
فلپ نے سمجھا، دُروے اس کا مذاق اُڑا رہے ہیں، یا ویسے ہی اُن کا دماغ پھر گیا ہے۔ مگر دُروے کہتا رہا —اب ہمارے سر پہ کسی کا ہاتھ ہے، تبریک ہے اور اُس کے نتیجے کا حوصلہ اور ہمت …مت بھولو، یہ مشین کسی انسان نے بنائی ہے، جس کا کوئی باپ تھا، پھر اُس کا باپ… اور آخر سب کا باپ—جہلِ مرکّب یا مفرد!
فلپ نے اپنی اندرونی خفگی کا منھ موڑ دیا— کیا دیویانی اب بھی بابوجی کے پاس آتی ہے؟
ہاں۔
مسز دُروے کچھ نہیں کہتیں؟
پہلے کہتی تھیں۔ اب وہ اُن کی پوجا کرتی ہیں۔ بابو جی دراصل عورت کی جات ہی سے پیار کرتے ہیں، فلپ…معلوم ہوتا ہے اُنھوں نے کہیں پرکرتی کے چِتون دیکھ لیے ہیں، جن کے جواب میں وہ مسکراتے تو ہیں، لیکن کبھی کبھی بیچ میں آنکھ بھی مار دیتے ہیں۔
فلپ کا غصّہ اور بڑھ گیا۔
دُروے کہتا گیا—بابو جی کو شبد—بیٹی، بہُو، بھابی، چاچی، للّی، میّا بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ بہُو کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیار سے اس کے گال بھی چوم لیتے ہیں اور یوں قید میں آزادی پا لیتے ہیں اور آزادی میں قید۔
دیویانی؟
دُروے نے حقارت سے کہا—تم سیکس کو اتنی ہی اہمیت دو فلپ، جتنی کا کہ وہ مستحق ہے۔ تیتر بٹیر بنے بغیر اسے حواس پہ مت چھانے دو… سنگیت شاید ایک آڑ تھی دیویانی کے لیے…
میں سمجھا نہیں سر؟
بابوجی نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکی بچپن ہی میں آوارہ ہو گئی۔ اس نے اپنے ماں باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا، جب کہ وہ نو خیزی سے جوانی میں قدم رکھ رہی تھی۔ پر وہ ہمیشہ کے لیے آپ ہی اپنی ماں ہو گئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبرا کر ایک مرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے کے پاس جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، مگر رو‘ح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔
کیا مطلب؟
دیویانی کو دراصل باپ ہی کی تلاش تھی۔
فلپ جو ایک کیتھولک تھا، ایک دم بھڑک اُٹھا۔ اس کے ابرو بالشت بھر اوپر اُٹھ گئے۔ اور پھیلی ہوئی آنکھوں سے نارِ جنہم لپکنے لگی۔ اُس نے چلاّ کر کہا —یہ فراڈ ہے، مسٹر دُروے پیور، اَن اڈلٹرٹیڈ فراڈ…
جبھی دُروے نے اپنے خریدے ہوئے باپ کی نم آنکھوں کو ورثے میں لیے، کمپیوٹر کے پس منظر میں کھڑے فلپ کی طرف دیکھا اور کہا —آج ہی بابوجی نے کہا تھا، فلپ!تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو، صرف محسوس کرو اسے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید