FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کلام نبویؐ کی کرنیں

               مولانا عبد المالک

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہے میں مبتلا ہو جاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی اور وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کر لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپؐ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہو گا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶)

جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج غیرمسلم معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں مگر افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہو کر خود کشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

ان خود کشیوں کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اوّلاً حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ روزگار اور بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم کی سہولت ہر شہری کو فراہم کرے۔ ثانیاً بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح کرے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنا، اس کا شعور پیدا کرنا اور فکرِ آخرت کی آبیاری اس کا حل ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو ایک طرف دین کا شعور عام کرنے اور فکرِ آخرت پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تو دوسری طرف غربت و افلاس سے دوچار افراد کو احساسِ تنہائی سے نکال کر معاشی سہارا بھی فراہم کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشی کی خبروں کو سنسنی خیز انداز میں نہ پھیلائیں بلکہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں اور لوگوں کو اُمید اور حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کریں۔ اصلاحِ معاشرہ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے۔

۞

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات، میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مَس کر کے خبطی بنا دیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)

سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)

سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہو جاتی ہے لیکن سود خور سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کی تباہ کاریوں کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی زلزلہ آ جاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب اور کبھی معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ ان آفات کے ذریعے اتنا بڑا نقصان ہو جاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی داؤ پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ مفلسی کے ہاتھوں تنگ آ کر لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سود کی لعنت سے فوری طور پر نجات حاصل کی جائے، نیز متبادل بلاسود معیشت کو فروغ دیا جائے۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشی مسائل کا حل ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اسلام کے معاشی نظام کی برکات سے بھی ہم پوری طرح مستفید ہوسکیں گے۔ ضرورت آگے بڑھ کر اقدام کرنے کی ہے۔

۞

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بجلی کی گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو دعا کرتے: اے اللہ! ہمیں اپنے غضب اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ فرمانا، عذاب نازل کرنے سے پہلے ہمیں معاف فرما دینا۔ (ترمذی، حدیث ۳۴۵۰)

اللہ تعالیٰ کا خوف کرنا اور خوف کے آثار سے متاثر ہونا ایمانی زندگی کی علامت ہے۔ آج ایسے کتنے ہی آثار ہمارے سامنے آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی پکڑ سے ڈراتے ہیں لیکن ہم پر ان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سنگ دلی کی علامت ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ یہ سنگدلی بسااوقات مُردہ دلی کی حد میں داخل ہو جاتی ہے۔ انسان ایمان سے محروم بھی ہو جاتا ہے اور اسے اس کا پتا تک نہیں چلتا۔ یہ حدیث ہمیں بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

۞

علقمہ بن وائل اپنے والد وائل سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی (وارث) رسی میں پکڑے لا رہا تھا۔ رسولؐ اللہ نے پوچھا: کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر فرمایا: کیا دیت لیتے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: پھر تم اسے قتل کر دو گے۔ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: چلو لے جاؤ۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے اور اپنے مقتول ساتھی کے گناہ کا مستحق ہو گا۔ تب اس نے معاف کر دیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کو کھینچتے ہوئے جا رہا تھا۔ (نسائی، حدیث ۵۴۱۷)

اسلام نے ایک ایسے معاشرے اور ماحول کو جنم دیا جس میں لوگ ایک دوسرے سے رحمت و محبت اور عفو و درگزر کے ساتھ خوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جب ایک قاتل کو معافی مل جاتی ہے تو وہ مقتول کے ورثا کے زیراحسان ہو کر شکرگزار اور خدمت گزار بن جاتا ہے، اور اس سے معاف کرنے والوں کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں۔ قصاص اور دیت کے فوائد سے بڑھ کر فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔

۞

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۲۳۱۹)

ہم اپنے ارد گرد معاشرے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی تعلیم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے زندگی فساد اور بدامنی کا شکار ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کا طومار اسی وجہ سے ہے۔ اجتماعی اور انفرادی زندگی کے کسی بھی گوشے کو دیکھیں، پریشانیوں اور تکالیف کا سب سے بڑا سبب اسی ہدایت کی خلاف ورزی کرنا ہے، جب کہ اس پر جہنم کی وعید ہے اور آپؐ نے ایسے شخص کو اُمت سے خارج قرار دیا ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ سب مسلمانوں کا حال اس کے مطابق ہو تو زندگی کا کیا نقشہ ہو گا۔ کوئی کسی دوسرے کے حق پر دست اندازی نہ کرے تو کتنا چین و سکون ہو گا۔

۞

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب لوگوں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے اور جب چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے (یعنی کھلے چھپے دونوں حال میں اچھی نماز پڑھتا ہے) تو یہ میرا حقیقی بندہ ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۰۰)

نمازی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی نماز پڑھے کہ کھلی اور چھپی حالت میں فرق نہ رہے اور دونوں حالتوں میں اس کی نماز بہترین ہو۔ ایسی بہترین کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنا حقیقی بندہ قرار دے دیں۔ بندگی کا یہی مقام تو مطلوب ہے!

یہی مومن کی شان ہے، وہ ریاکاری سے پاک ہوتا ہے۔ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ نماز ہی نہیں، وہ زندگی کی ہر سرگرمی کو، کھلے یا چھپے، رضائے الٰہی کے لیے بہترین انداز سے انجام دیتا ہے۔

 

۞

 

 

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن یا ایک رات گھر سے نکلے تو دیکھا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ بھی اپنے گھروں سے باہرنکلے ہوئے ہیں۔آپؐ نے دونوں سے پوچھا: اس وقت اپنے گھروں سے باہر کیسے نکلے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐاللہ! بھوک کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں بھی بھوک کے سبب نکلا ہوں۔ اچھا، تو آؤ چلتے ہیں۔ وہ آپؐ کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ ایک انصاری صحابیؓ کے گھر تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔ جب ان کی بیوی نے آپؐ کو دیکھا تو آپؐ کا اھلًا مرحبا کے کلمات سے استقبال کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: فلاں آدمی (آپ کا شوہر) کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا: وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے۔ اتنے میں وہ انصاری بھی آگئے۔ انھوں نے رسولؐ اللہ اور آپؐ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھ کر الحمدللہ کہا، اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا: آج کے دن کوئی بھی ایسا میزبان نہیں ہے جو مجھ سے زیادہ مکرم و معزز ہو۔

ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ کہہ کر وہ باغ میں چلے گئے۔ کھجوروں کا ایک بڑا خوشہ لے کر آگئے جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں۔ خوشہ آپؐ کے سامنے رکھا اور عرض کیا: اس سے کھجوریں تناول فرمائیں۔ پھر چھری پکڑی تاکہ بکری ذبح کرکے گوشت تیار کریں اور وہ بھی آپؐ کی خدمت میں پیش کریں۔ آپؐ نے ان کے ارادے کو بھانپ کر فرمایا: دودھ دینے والی بکری نہ ذبح کرنا۔ وہ گوشت بھی تیار کر کے لے آئے۔ آپؐ نے کھجوریں اور گوشت کھایا اور ٹھنڈا میٹھا پانی پیا۔ جب کھانے اور پانی سے سیر ہو گئے تو ابوبکرؓ اور عمرؓ سے فرمایا: قیامت کے روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم بھوکے نکلے تھے، پھر اس حال میں اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہو کہ ان نعمتوں سے سیر ہو گئے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب الضیافۃ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی زندگی بسر کی، اس کا ایک نمونہ اس حدیث سے سامنے آتا ہے۔ ۷ہجری میں حضرت ابوہریرہؓ مسلمان ہوئے ہیں، یہ واقعہ اس کے بعد کا ہے۔ فتوحات بھی ملیں، خیبر بھی فتح ہوا، یہودیوں کی زمینیں بھی قبضے میں آئیں، کھجوروں کے باغات بھی آپ کو مل گئے لیکن اس کے باوجود گھروں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ بعض اوقات کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کا عموماً یہی حال تھا، اس لیے کہ قبضے میں آنے والے خزانے اپنے گھروں میں جمع کرنے کے بجاے فقرا و مساکین اور مسافروں میں تقسیم کر دیے جاتے تھے۔ یہ ہے وہ حکومت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔ کاش! آج کے مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو اپنے پیش نظر رکھ کر ایسی حکومت قائم کریں جو حکومت کے خزانوں سے حاجت مند مسلمانوں اور شہریوں کی ضروریات پوری کریں۔

 

 

۞

 

 

حضرت اُمیمہ بنت رقیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اور چند عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، تو آپؐ نے فرمایا: یوں کہو کہ ہم اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق اطاعت کریں گی۔ اس پر میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولؐ ہم پر ہمارے نفسوں سے بڑھ کر مہربان ہیں۔ ہم نے درخواست کی کہ یارسولؐ اللہ! ہم سے مبارک ہاتھ سے مصافحہ کر کے بیعت لیں تو آپؐ نے فرمایا: میں عورتوں کے ساتھ مصافحہ نہیں کرتا، بلکہ زبانی بیعت لیتا ہوں اور ایک سو عورتوں سے بھی اسی طرح بیک وقت چند زبانی کلمات سے بیعت لیتا ہوں جس طرح ایک عورت سے۔(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ باب الصلح)

دین اسلام آسان دین ہے اور انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس کی استطاعت ہمارے اندر نہ ہو۔ خواتین کو بھی وہی احکام دیے ہیں جن پر وہ آسانی سے عمل کرسکتی ہیں اور جہاں انھیں مشکلات پیش آسکتی ہوں وہاں انھیں استثنا دیا گیا ہے، مثلاً حدود و قصاص کے معاملات میں عورتوں پر گواہی کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ عورتوں کے ساتھ مردوں کا مصافحہ کرنا مغربی کلچر ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی طیب و طاہر معصوم ذات اگر عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتی تو دوسرا کوئی کیسے مصافحہ کرسکتا ہے؟

 

۞

 

 

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے ایک آدمی کھانا کھا لے تو یوں دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاطْعَمْنَا خَیْرًا مِّنْہُ، ’’اے اللہ! ہمارے اس کھانے میں ہمیں برکت عطا فرما اور ہمیں اس سے بہتر کھانا عنایت فرما‘‘۔ اور جب دودھ پیے تو یوں دعا کرے: اے اللہ! ہمیں اس دودھ میں برکت عطا فرما اور ہمیں زیادہ دودھ عنایت فرما۔ کوئی چیز بھی کھانے اور دودھ دونوں کی جگہ نہیں لیتی مگر دودھ۔ اس لیے جب دودھ پیے تو کسی اور چیز کے بجاے دودھ کی کثرت کی دعا کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

کھانا ہو یا دودھ اس وقت تک کارآمد نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ اسے برکت نہ دے دے۔ کھانا اور دودھ آدمی کے لیے اس وقت بابرکت ہیں جب وہ جزوِ بدن بن جائیں اس کی وجہ سے جسم میں مفید صحت خون دوڑے، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کسی بھی بیماری کا سبب نہ بنے، اس کے بجاے جسم میں قوت پیدا کرے اور انسان مستعد اور فعال ہو، اپنے فرائض دنیوی و دینی اچھی طرح سے ادا کرے۔ اس لیے کھانے میں برکت کی دعا ضروری ہے۔ پھر دودھ کی اہمیت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذہن نشین کرا دی کہ دودھ کھانا اور پانی دونوں کا مجموعہ ہے۔ دودھ کی افادیت قدیم اور جدید طب اور عوامی تجربات سے اچھی طرح واضح ہے۔ حکومت اور دودھ فروشوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو خالص دودھ فراہم کریں۔ اسی طرح باقی چیزوں میں بھی ملاوٹ سے پرہیز کریں۔ آج زیادہ بیماریاں اس وجہ سے پھیل گئی ہیں کہ خالص اور قدرتی غذائیں میسر نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی کمزور ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کا سلسلہ بھی ختم ہے، اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اور عملِ صالح کی برکتوں سے بھی ہم محروم ہیں۔

 

 

۞

 

 

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: گھر کے کام کاج کیا کرتے تھے، جب اذان سنتے تو مسجد کے لیے نکل جاتے۔ (بخاری، کتاب النفقات)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بے پناہ تھیں۔ آپؐ پر قرآن پاک اُترتا تو آپؐ اسے اپنے سینے میں محفوظ کرتے، اپنے صحابہ کرامؓ کو یاد کراتے، اس کی تعلیم دیتے، اس پر عمل کرتے اور عمل کراتے، اس کی تبلیغ کرتے، اس کی تنفیذ کے لیے جہاد کرتے لیکن اس کے باوجود گھر کے کاموں میں اہلِ خانہ کے ساتھ ہاتھ بٹاتے اور گھر میں عبادت کے ساتھ مسجد میں حاضری کی بھی پوری طرح پابندی فرماتے، خود جماعت کراتے اور نماز کے بعد لوگوں سے عمومی ملاقاتیں بھی کرتے اور لوگوں کے مسائل بھی حل کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے بڑا نمونہ ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ تمام فرائض کو مستعدی سے ادا کریں اور اہلِ خانہ کی بھی رعایت کریں اور ان کے کاموں میں انھیں بھی مدد دیں۔

 

۞

 

 

حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار کی بہن ایک آدمی کے نکاح میں تھی۔ اس نے اسے طلاق دے دی۔ عدت میں اس سے رجوع نہ کیا۔ مدت گزرنے کے بعد دوبارہ معقل بن یسار کو اس سے نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل بن یسار نے اس کے طرزِعمل پر غیرت کھائی اور کہا کہ پہلے طلاق دی، پھر عدت میں بھی اس سے رجوع نہ کیا۔ میری بہن کی اس قدر تذلیل کی اب پھر نکاح کرنا چاہتا ہے۔ میں اپنی بہن کو اس کے ساتھ کبھی بھی نکاح نہ کرنے دوں گا جب کہ بہن بھی دوبارہ نکاح پر راضی تھی۔ اس پر اللہ عزوجل نے قرآن پاک کی یہ آیت اُتاری: وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ(جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کر لیں،تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں،جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں البقرہ۲:۲۳۲) ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے آیت پڑھ کر سنائی تو انھوں نے غیرت و حمیت چھوڑ دی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔ (بخاری، کتاب الطلاق)

صحابہ کرامؓ کی یہ شان تھی کہ انھوں نے اپنی انانیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے قربان کر دیا۔ اللہ کے حکم کے سامنے انھوں نے سر جھکا دیے۔ آج کے مسلمان اپنی جاہلی رسوم و روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اُونچا کیے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ملکی نظام میں بھی اپنی پسند و ناپسند کو اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کے مقابلے میں ترجیح دی ہوئی ہے، نتیجتاً اسلامی نظام معطل ہے اور لادینی نظام قائم و نافذ ہے۔ کاش آج مسلمان معقل بن یسار اور صحابہ کرامؓ کو نمونۂ عمل بنا کر جاہلیت کے بتوں کو توڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کو عملی جامہ پہنا کر اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر دیں۔

۞

حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات کو پڑاؤ فرماتے تو اپنے دائیں بازو پر لیٹ جاتے اور جب صبح کے قریب پڑاؤ فرماتے تو اپنا بازو کھڑا کر کے اپنا سرمبارک اس پر رکھ دیتے۔ (مسلم)

نماز کی فکر میں آپؐ لیٹنے کے بجائے بازو کھڑا کر کے اس پر سرمبارک رکھتے تھے تاکہ گہری نیند کے سبب نماز قضا نہ ہو جائے۔ نبی کریمؐ کے سفر دن رات جاری رہتے تھے اور آپؐ کے یہ سفر جہادی سفر تھے۔ جہادی سفر کے دوران میں بھی ذکر الٰہی اور نمازوں کی اسی طرح پابندی ہوتی تھی جس طرح مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران میں ہوتی۔ آج کے دور میں دعوتی مہمات جلسوں، جلوسوں اور سیاسی اجتماعات میں نمازوں کی پوری پابندی کرنا چاہیے اور نماز با جماعت کا ٹھیک طرح سے اہتمام کرنا چاہیے۔ نمازوں کے سلسلے میں نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو پوری طرح پیش نظر رکھ کر اس کے مطابق اپنے معمولات کو ترتیب دینا چاہیے۔

۞

حضرت ابوذرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اچھا عمل کرتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تعریف مومن کے لیے نقد بشارت ہے۔ (مسند احمد)

نیک لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کی علامت ہے۔ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہو جاتا ہے، نیک کام کرتا ہے، اس کی نیت رضائے الٰہی کا حصول ہوتی ہے، ریاکاری کی نیت سے نیکی نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں اور لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ایمان کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نیک لوگوں کی قدر کی جائے اور ان کی صحبت اختیار کی جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ان کی جماعت کو مضبوط کیا جائے۔ ایمان کے اس تقاضے کے سبب نیک لوگوں کی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں اور وہ مل جل کر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کی زندگی میں بھی ان کی تعریف ہوتی ہے اور ان کے فوت ہو جانے کے بعد بھی ان کا ذکر خیر جاری رہتا ہے۔ ان کے تذکروں سے لوگ اپنے ایمان کو تازگی اور قوت دیتے ہیں۔ یہ نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقد بشارت کا انتظام ہے۔

۞

حضرت مغیرہ بن سعد اپنے باپ یا چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات میں تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپؐ کی اُونٹنی کی باگ پکڑنا چاہی تو مجھے ہٹا دیا گیا۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے فرمایا: اسے آنے دو، کوئی بڑی حاجت ہے جو اسے لائی ہے۔تب میں آپؐ کے قریب آیا اور عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سن کر اپنا سرمبارک آسمان کی طرف اُٹھایا، پھر فرمایا: تو نے بات تو بہت مختصر پوچھی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت طویل اور عظیم بات ہے۔ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، بیت اللہ کا حج کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرو جیسا سلوک لوگوں سے چاہتے ہو اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتے ہو وہ لوگوں کے لیے بھی ناپسند کرو۔ (مسند احمد)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا جامع نسخہ عنایت فرما دیا۔ قدم قدم پر جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آپؐ نے اس کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔ آدمی کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ لے کہ وہ جو کام کرنے لگا ہے، اس سے کسی کو تکلیف تو نہ ہو گی، اس سے کسی کا حق تو نہیں مارا جائے گا۔ اگر ایسا کام ہو تو اسے چھوڑ دے۔ جنت میں جانے اور دوزخ سے بچنے کا راستہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی پیروی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور احکام کی اطاعت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ حرام کے ارتکاب اور لوگوں کو تکلیف دینے سے بچے گا، تو وہ سیدھا جنت میں جانے کا سامان کرے گا، اور کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہو گا۔ خالق بھی اس سے راضی ہو گا اور خلقِ خدا بھی خوش ہو گی۔

۞

حضرت ابوالدرداءؓ پودے لگا رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا۔ اس نے آپ کو پودے لگاتے دیکھ کر کہا کہ آپ پودے لگا رہے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: ٹھیر جاؤ، جلدی نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ایسے پودے لگائے جن سے انسان اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق کھائے تو اس کے لیے صدقہ ہو گا۔(مسند احمد)

دیکھنے والے کی نظر میں صحابئ رسولؐ کو کوئی اعلیٰ کام کرنا چاہیے تھا۔ نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، وعظ و نصیحت، دعوت و جہاد کے کاموں کو اس نے اعلیٰ سمجھا۔ پودے لگانے کو اس نے حقیر کام جانا۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ پودے لگانا بھی اعلیٰ کام ہے۔ یہ پودے لگانے والے کے لیے صدقۂ جاریہ ہے اور خلقِ خدا کی خدمت ہے۔ عبادت صرف ذکر و اذکار، تلاوت ، نماز، روزہ، دعوت و تبلیغ اور جہاد کا نام نہیں بلکہ خلقِ خدا کی خدمت بھی عبادت ہے۔ خلقِ خدا کی خدمت کی جو بھی شکل ہو، اس میں اجر ہے۔ آج بھی لوگوں کو غلط فہمی ہے، وہ خلقِ خدا کی خدمت کو، زراعت، دکان داری اور ملازمت کو عبادت نہیں سمجھتے حالانکہ یہ تمام چیزیں عبادت ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کاموں کو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور رزقِ حلال ساتھ خلقِ خدا کی خدمت کی نیت ہو، اور ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے جس میں شریعت کی خلاف ورزی ہو۔

۞

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ نے لوگوں کو غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ میں بھی اس غزوے میں جا رہا ہوں۔ میرے لیے شہادت کی دُعا فرمایئے۔ آپؐ نے دُعا فرمائی: اے اللہ! انھیں سلامتی عطا فرما اور غنیمت سے نواز۔ ہم غزوہ میں گئے اور صحیح سالم، مالِ غنیمت لے کر واپس لوٹے۔ اس کے بعد پھر آپؐ نے ایک غزوے پر لوگوں کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا ،اور عرض کیا کہ میرے لیے شہادت کی دُعا کیجیے۔ آپؐ نے پھر وہی دُعا دی جو پہلی مرتبہ دی تھی۔ ہم غزوے میں گئے اور بسلامت مالِ غنیمت لے کر واپس آئے۔ تیسری مرتبہ آپؐ نے ایک غزوے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا اور شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ آپؐ نے پھر وہی دُعا دی۔ ہم غزوے میں چلے گئے اور مالِ غنیمت لے کر بسلامت لوٹے۔

میں ایک بار پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلسل تین مرتبہ حاضر ہوا، شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی تو آپؐ نے سلامتی اور مالِ غنیمت لے کر لوٹنے کی دُعا فرمائی۔ اب مجھے کوئی ایسا حکم دیجیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے۔ آپؐ نے فرمایا: روزے رکھو، اس کی کوئی مثل نہیں ہے (یعنی تزکیۂ نفس کا بہترین نسخہ ہے)۔ چنانچہ ابوامامہؓ کے گھر میں دن کے وقت دھواں نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی ان کے گھر میں دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے ہاں مہمان ہیں۔ ابوامامہؓ اور ان کے اہلِ خانہ روزے سے رہتے تھے۔ اس لیے دن کو کھانا نہیں پکتا تھا۔ ابوامامہؓ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے مجھے ایسا حکم دیا ہے مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نفع دے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور حکم بھی عنایت فرمائیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: نوافل پڑھا کرو۔ اس حقیقت کو جان لو کہ جتنے سجدے کرو گے ہرسجدہ ایک خطا کو مٹا دے گا اور ایک درجہ بڑھا دے گا۔(مسند احمد)

صحابہ کرامؓ کو جامِ شہادت نوش کرنے کا شوق تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک صحابی کے لیے شہادت کی دُعا نہیں کی۔ بعض کے لیے شہادت کی دُعا بھی کی ہے اور انھوں نے جامِ شہادت نوش کرکے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سارے پہلوؤں پر تھی۔ ہر ایک مجاہد کے لیے شہادت مطلوب نہیں ہے بلکہ اکثر کے لیے سلامتی اور کامیابی کے ساتھ واپسی مطلوب ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو اور دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے کامیابی کے بعد علاقے کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے کر خلقِ خدا کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور خلقِ خدا کی ضروریات اور مسائل حل ہوں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوامامہؓ کو شہادت کے بجائے غازی ہونے کی دُعا دی۔ حضرت ابوامامہؓ نے سمجھا کہ ابھی مہلت عمل اچھی خاصی باقی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا نسخہ دریافت کیا جائے جس کے نتیجے میں زندگی بار آور اور بابرکت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روزہ اور اس کے بعد نوافل کی تلقین فرمائی کہ روزہ اور نماز سے ایمان کو قوت اور جِلا ملتی ہے اور نیکیاں آسان اور برائیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔

۞

 حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی تمیم قبیلہ کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: اے بنی تمیم! بشارت قبول کرو۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو پھر ہمیں مال عنایت فرما دیں۔ اس پر آپؐ کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر ہو گیا۔ اس کے بعد یمن کے کچھ لوگ آئے تو آپؐ نے فرمایا: یمن والو! تم بشارت قبول کرو، جب کہ بنو تمیم نے قبول نہ کی۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم نے قبول کی۔ تب آپؐ نے کائنات کے حالات، اس کی پیدایش سے لے کر اہلِ جنت کے جنت میں داخل ہونے اور اہلِ دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے تک بیان کرنا شروع کر دیے۔ اس دوران میں آواز دینے والے نے آواز دی :اے عمران! تیری اُونٹنی رسی کھول کر نکل گئی ہے۔ میں اُونٹنی کو پکڑنے کے لیے آپؐ کی مجلس سے اُٹھ گیا، لیکن اُونٹنی تو دُور دُور تک نظر نہ آئی۔ جو لوگ مجلس میں بیٹھے رہے انھوں نے آپؐ کا سارا بیان سن لیا۔ کسی نے سارا بیان یاد رکھا اور کسی نے کچھ بھلا دیا اور کچھ یاد رکھا۔ مجھے اپنے اُٹھ جانے کا افسوس ہوا۔ کاش! میں آپؐ کی مجلس سے نہ اُٹھتا اور آپؐ کا سارا بیان سن لیتا۔ (بخاری، باب بدء الخلق)

حضرت عمران بن حصین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ آپؐ کی مجالس میں شرکت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ کائنات کے حالات کا اوّل سے لے کر آخر تک کا بیان، حضورؐ کے بیانات میں سے ایک اہم بیان ہے۔ عمران بن حصینؓ اُونٹنی کو پکڑنے کی خاطر اُٹھ کر چلے گئے، اُونٹنی بھی نہ مل سکی اور آپؐ کے پورے بیان کے سننے سے بھی محروم ہو گئے۔ بعد میں اُونٹنی کے نہ ملنے کا افسوس تو نہ ہوا لیکن آپؐ کی علمی مبارک مجلس سے اُٹھ کر چلے جانے کا نہایت افسوس ہوا۔

صحابہ کرامؓ کو اصل شوق آپؐ کی مجلس میں حاضری اور تحصیلِ علم کا تھا۔ مال و مویشی ،سواریاں اور دنیاوی کام ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ انھیں کبھی بھی اس بات کا افسوس نہیں ہوا کہ وہ آپؐ کی مجلس میں شرکت کے سبب کسی دنیاوی منافع سے محروم ہو گئے۔ آپؐ کی مجلس سے محروم ہو جاتے تو اس کا انھیں بڑا افسوس ہوتا تھا۔ آج کے دور میں ہمیں دنیا کمانے کا بڑا شوق ہے اور یہی ہمارا اصل کام بن گیا ہے۔ علم اور تحریکی کام ہمارے ہاں ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ کردار جو جماعت صحابہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سرانجام دیا وہ کام اسی طرح کے لوگ ادا کرسکتے ہیں جن کے ہاں علمِ دین اور تحریکی کام مقدم ہو اور دنیوی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہوں۔ آیئے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر اس کا مداوا کرنا چاہیے اور ایسے کارکن تیار کرنا چاہییں جو اس معیار پر پورا اُترتے ہوں۔ جب ایسے کارکنوں پر مشتمل معیاری لوگ تیار ہوکر جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوں گے، تو پھر اسلامی انقلاب برپا ہونے کے راستے میں تمام رکاوٹیں دُور ہو جائیں گی۔

۞

حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار کاموں کو نہیں چھوڑتے تھے: سفر اور حضر ہرحال میں انھیں ادا فرماتے تھے۔ عاشورے کا روزہ، ذوالحجہ کے نو روزے، یکم سے لے کر ۹ذوالحجہ تک، اور ایامِ بیض ۱۳،۱۴،۱۵تاریخوں کے روزے اور فجر کی دو سنتیں۔ (نسائی)

رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی آپؐ نفلی روزے رکھتے تھے ، مثلاً سوموار اور جمعرات کا روزہ۔ رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھے روزے رکھنے والا صائم الدہر (ہمیشہ روزہ رکھنے والا) شمار ہوتا ہے۔نفلی روزوں کی سیرت و کردار کی تعمیر اور اللہ سے تعلق قائم رکھنے میں بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے گھروں میں بعض خواتین ان کا اہتمام کرتی ہیں۔ کچھ گھرانوں میں روایتاً رکھے جاتے ہیں۔ اخوان المسلمون کی طرح ہمارے ہاں اس کا کلچر ہونا چاہیے۔ بیش تر لوگ رکھتے ہوں، عام طور پر رکھتے ہوں۔ عموماً شاذ ہی ذکر ہوتا ہے۔ تربیتی پروگراموں کا یہ حصہ ہونا چاہیے۔

۞

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہو گیا کہ اللہ کی راہ میں پہرہ دے رہا تھا تو وہ جو عملِ صالح دنیا میں کرتا تھا، ان سب کے اعمال کا ثواب برابر جاری رہے گا۔ اس کا رزق بھی جاری رہے گا، وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا، اور قیامت کے روز اس حال میں اُٹھے گا کہ قیامت کی ہولناکیوں سے خوف زدہ نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ، مسند صحیح)

جو شخص اللہ کی راہ میں پہرہ دے رہا ہے، اسلام اور اُمت مسلمہ کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے، اسے دشمن کے شر سے اور مسلمان ملک پر کفار کے قبضے سے بچانے میں مشغول ہے، اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، وہ اس دنیا سے چلا جائے تو بھی اس کے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عالمِ برزخ میں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق بھی ملے گا اور وہ جب تک دنیا میں ہے اس وقت تک شیطان کے شر سے بھی محفوظ ہے اور قیامت کے روز جو انتہائی سخت دن ہے اس میں لوگوں کے لیے بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتیں ہوں گی، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، کوئی گھٹنوں تک، کوئی پیٹ تک اور کوئی گلے تک، لیکن یہ شخص ہرقسم کی تکلیف اور مصیبت سے محفوظ ہو گا۔ اس حدیث میں اقامتِ دین کے لیے جدوجہد کرنے والوں، مسلمان ممالک کو کفار کے قبضے سے آزاد کرانے والوں کے لیے بڑی بشارت ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس دور میں بھی یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے نفاذ اور اُمت مسلمہ کی حفاظت میں سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے۔ ایسے لوگوں کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کام میں ہرقسم کی تکلیف اور قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جتنا بڑا اجر ہے، اتنی ہی بڑی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کو اس خدمت کے لیے منتخب کرتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتا ہے اور اپنے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی سعادت سے نوازتا ہے۔

۞

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں پہنچا کہ آپؐ کعبہ کی دیوار کے سایے میں تشریف فرما تھے۔ جب آپؐ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! یہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں، یہ لوگ سب سے زیادہ خسارے میں ہیں۔

میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟

آپؐ نے فرمایا: یہ وہ ہیں جن کے پاس دوسروں سے زیادہ مال ہے، مگر وہ اس خسارے سے محفوظ ہیں جو بے تحاشا خرچ کریں، آگے ، پیچھے، دائیں، بائیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ (متفق علیہ)

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال مال دیا ہے، ان کے لیے وقت ہے کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ آج دین کی تعلیم و اشاعت ، دعوت و تبلیغ اور اس کے نظام کی تنفیذ کے لیے سب سے زیادہ مال کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک کی آسان تفاسیر لوگوں تک پہنچانا، آسان لٹریچر فراہم کرنا، اُردو انگریزی اور دوسری زبانوں میں لے کر لوگوں کے گھروں پر دستک دینا اور اپنے مکتبوں میں سستے داموں اور اچھے کاغذ پر فراہم کرنا وقت کی آواز ہے۔ اس طرح اچھی اخلاقی اور دینی کیسٹ، سی ڈی اور فلمیں تیار کرنے کے لیے بھی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لادینیت اور فحاشی اور عریانی کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہو رہی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس کی اشاعت پر اپنا مال خرچ کر رہے ہیں، تو دین دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہرسطح پر ان کا مقابلہ کریں اور ان کو اس میدان میں بھی شکست سے دوچار کر دیں۔

۞

حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مچھلی والے کی دعا، جب کہ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی، اللہ تعالیٰ کو ان کلمات سے پکارا: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ،جو آدمی بھی ان کلمات سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی)

کتنی آسان دعا ہے۔ اسے ہرمسلمان یاد کرسکتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے ہرعیب سے پاک ہونے کا اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف و اقرار ہے۔ دریا میں ڈوب جانا، مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا کتنی بڑی تکلیف ہے۔ ایسی تکلیف کہ اس سے رہائی کا تصور تک نہیں ہے لیکن حضرت یونس ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی بدولت رہائی عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ بڑی سے بڑی تکلیف اور سخت سے سخت قید سے بھی اس دعا کی بدولت رہائی مل سکتی ہے۔ آج، جب کہ مسلمان کفار کے مظالم کا شکار ہیں، تنگ و تاریک کوٹھڑیوں کے اندر قید اور گرفتار ہیں اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سہارا ہی رہائی کا سامان ہے۔ جو مسلمان قید اور گرفتار ہیں، وہ بھی اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پکاریں اور مسلمان بھائی جو اپنے اپنے ملکوں میں آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں وہ بھی ان کے لیے یہ دعا پڑھیں۔ جتنی تعداد میں پڑھ سکیں، بہتر ہے۔ ایک لاکھ کی تعداد میں پڑھی جائے تو اکثر اوقات اس کی تاثیر ظاہر ہو جاتی ہے لیکن اگر لاکھ مرتبہ پڑھنے سے بھی تاثیر ظاہر نہ ہو تو چھوڑ نہ دیا جائے اسےمسلسل پڑھا جائے۔ ان شاء اللہ کسی وقت اثر ظاہر ہو گا۔

۞

 حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے، اور دوزخ سے دُور کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ایک عظیم چیز کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن یہ اس آدمی کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں خیر کے دروازے نہ بتلا دوں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطا کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو۔ اور آدمی کی نماز آدھی رات کو بھلائیاں سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ پھر آپؐ نے تہجد گزاروں کی شان میں، قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَoفَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآءًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o(السجدہ ۳۲:۱۶۔۱۷) ’’اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں،اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے‘‘۔

پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس دین کی بنیاد، ستون اور بلند ترین چوٹی نہ بتلاؤں؟ اس دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اور ستون نماز ہے اور بلند ترین چوٹی جہاد ہے۔

پھر فرمایا: کیا میں تمھیں ان تمام چیزوں کا محور نہ بتلا دوں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! کیوں نہیں؟ آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: کیا ہم سے ان باتوں پر مواخذہ ہو گا جنھیں ہم زبان سے نکالتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: معاذ! تجھے تیری ماں گم کر دے، لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ اور کون سی چیز داخل کرتی ہے سواے زبان کی کاٹی ہوئی فصل کے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)

صحابہ کرامؓ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے وہ علمی حقائق آشکارا ہوئے جو کسی بڑی سے بڑی یونی ورسٹی میں پہنچ کر کسی کو حاصل نہیں ہوسکے۔ وہ حقائق جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے روشناس کر دیں، جو اسے آسانی کے ساتھ منزل سے ہمکنار کر دیں، جنت میں پہنچا دیں اور دوزخ سے دُور کر دیں۔ صحابہ کرامؓ نبی اکرمؐ کی بابرکت مجالس میں بیٹھتے اور اپنے دامن کو اسی قسم کے علمی جواہر اور فیوض سے بھرتے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی صحبت میں رہ کر بڑے علم سے نوازا تھا لیکن صحابہ کرامؓ کو آپؐ کی مجالس سے جو علمی جذبہ اور شوق ملا تھا اس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان کی علمی پیاس بڑھتی رہتی تھی اور وہ آپؐ کے چشمۂ علم سے سیراب ہوتے رہتے تھے۔ اسی جذبے سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کر دے۔ تب نبی اکرمؐ نے فرمایا: آپ نے بہت عظیم اور مشکل کام کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے۔ یہ مشکل کام اللہ تعالیٰ کی بندگی اور حکمرانی قائم کرنے کا کام ہے۔ شیطان اور شیطانی قوتوں کو شکست دے کر اللہ تعالیٰ کی غلامی اور بندگی اختیار کرنا، اس کی پوجا اور پرستش کرنا، اسی سے اپنی حاجات اور مشکلات کا سوال کرنا، اس کے ساتھ ان کاموں میں کسی کو شریک نہ کرنا، پھر ارکانِ خمسہ کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھانا اور قوی کر دینا، کیونکہ ایمانی قوت کے بغیر آدمی کا جنت کے راستے پر چلنا اور دوزخ کے کاموں سے دُور رہنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے ابوابِ خیر، دین کی اساس، اس کا ستون، اس کی بلند ترین چوٹی اور زبان کے شر سے حفاظت کے نکات بیان فرما کر گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اور ان کی وساطت سے اُمت کے سامنے نیکی کی شاہراہ کو پوری طرح روشن کر دیا۔ آج بھی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اسی جامع نسخۂ کیمیا کو استعمال کر کے کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

۞

حضرت عبادۃ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں۔ جس نے ان کا وضو اچھی طرح کیا اور انھیں اپنے وقت پر ادا کیا اور ان کے رکوع اور سجود کو اچھی طرح ادا کیا، اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ عہد ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور چاہے گا تو اسے عذاب دے گا۔ (احمد، ابوداؤد)

ایسی نماز آدمی کو تمام نیک کاموں کے کرنے اور تمام برائیوں سے بچنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نیکی کی راہ پر آسانی کے ساتھ چلنے کے لیے اس طرح کی نمازوں کا اہتمام کریں۔ مساجد کو آباد کریں ، وقت پر پہنچنے کے لیے دنیاوی مشاغل کو چھوڑ دیں۔ ایک اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہے کہ اس میں مساجد آباد اور فحاشی اور عریانی کے مراکز غیرآباد ہوتے ہیں۔ اس قسم کی نماز کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت۲۹:۴۵)’’یقیناً نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ اگر آج معاشرے میں برائیاں زور و شور سے پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیاں مرجھا رہی ہیں، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ اور پابندی اور اہتمام میں کمی ہے۔

۞

حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہو اور جب اشہد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہے تو تم بھی اشہد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہو اور جب اشہد ان محمداً رسول اللّٰہ کہے تو تم بھی اشہد ان محمداً رسول اللّٰہ کہو اور جب حی علی الصلٰوۃ کہے اور تم لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ حی علی الفلاح کہے تو تم بھی لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے اور تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہو، اور جب لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کہے اور تم بھی لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ صدقِ دل سے کہو تو تم سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ (مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، کہ جب مؤذن اذن دے دے اور تم اسے سننے کے بعد اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشہد ان محمداً عبدہٗ ورسولہ رضیت باللّٰہ ربًا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولًا کہو تو تمھارے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (مسلم)

اذان کے ذریعے ایک طرف مسلمانوں کو بلند آواز سے نماز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ بلاوا اس شان کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس میں دین کی پوری دعوت بھی پیش کر دی جاتی ہے۔ آغاز میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کر کے تمام طاغوتوں کی کبریائی کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ پھر شہادتین کے ذریعے دو دو مرتبہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ پھر دو مرتبہ نماز کے لیے بلایا جاتا ہے اور پھر دو مرتبہ ’فلاح‘ کامیابی کی طرف بلاوے کے عنوان کے ذریعے پورے دین کی طرف اور اس کی اقامت اور اس پر عمل کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان کا اعادہ کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ عقیدۂ توحید کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اذان کے ذریعے یہ بلاوا ایسا بلاوا ہے کہ اس سے بڑا بلاوا کوئی نہیں ہوسکتا، ایک مسلمان کو اس کا عقیدہ، نماز اور دین یاد دلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے اسے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجایش نہیں رہ جاتی کہ وہ اذان کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ہو اور مسجد میں نماز کے لیے نہ پہنچے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس وسیلے سے پکار کی بھی کوئی قدر و منزلت کرنے والا نہیں ہے۔

آج کے دور میں اس اذان کے ہوتے ہوئے مسلمان اگر اپنے دین اور اس کے تقاضوں کو بھولے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہونے کے بجائے غیراللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو قائم کرنے کے بجائے غیروں کے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اذان کو سنتے ہیں لیکن اسے سمجھتے نہیں، اسے سنتے ہیں لیکن اَن سنی کر دیتے ہیں۔ یہ تو وہی روش ہے جسے یہودیوں نے اختیار کیا تھا۔ وہ کہتے تھے: سمعنا وعصینا، ہم نے سن تو لیا ہے لیکن ہم نافرمانی کریں گے۔ آج مسلمانوں کو اس اذان پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اپنے دین کی عظمت کے سامنے سرجھکا دینا چاہیے کہ اس اذان نے ان کے دین کے خلاصے کو محفوظ کر دیا ہے، اور دنیا کی کسی قوم کے پاس اس اذان کے مقابلے کی کوئی چیز نہیں ہے جس طرح کہ دین اسلام اور قرآنِ پاک کے مقابلے کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں ہے۔ کاش! مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔

۞

 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میری اس مسجد میں آئے، خیر کو سننے، جاننے اور تعلیم دینے کے لیے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے، اور جو کسی دوسری غرض سے آیا تو اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو دوسرے کے سامان کو دیکھنے کے لیے آئے۔ (بیہقی، ابن ماجہ)

مسجد نبویؐ اور دیگر مساجد میں حاضری کی غرض و غایت اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مساجد میں نماز، اللہ تعالیٰ کے ذکر ، حصولِ علم اور تعلیم و تدریس کے لیے حاضری دیا کریں۔

۞

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ دوسری طرف قریش کی ایک جماعت مجلس جمائے بیٹھی تھی کہ اس دوران میں ایک کہنے والے نے کہا کہ دیکھتے نہیں ہو اس کو جو ہمیں دکھا کر نماز پڑھ رہا ہے۔ تم میں سے کون اُٹھے گا اور فلاں آدمی کی اُونٹنی کا اوجھ لے آئے جس میں گوبر، خون اور دیگر چیزیں بھری ہوئی ہیں، اور انتظار کرے کہ یہ سجدہ میں جائے اور پھر اس اوجھ کو اس کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دے تاکہ یہ اُٹھ نہ سکے۔ چنانچہ ان کا سب سے بڑا بدبخت شخص (عقبہ بن ابی معیط) اُٹھا اور اُونٹ کا اوجھ لے کر آ گیا اور جب آپؐ سجدے میں گئے تو آپؐ کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کے نتیجے میں آپؐ سجدے سے نہ اُٹھ سکے۔ اس حالت کو دیکھ کر کفارِ قریش ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، اور آپؐ کے ساتھ تمسخر کر کے مزے لیتے رہے۔ تب ایک شخص حضرت فاطمہؓ کی طرف دوڑا جو اس وقت نابالغ بچی تھیں (وہ شخص عبداللہ بن مسعود ہی تھے) انھیں جا کر صورت حال بیان کی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور اس اوجھ کو آپؐ کے کندھوں سے گرا یا۔ پھر کفارِ قریش کی طرف متوجہ ہوئیں اور انھیں سخت سُست کہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے کفارِ قریش کے خلاف بد دُعا فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ عَلَیْک بِقُریشٍ، ’’اے اللہ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے، اے اللہ! قریش کو پکڑ‘‘۔ اس کے بعد ایک ایک کا نام لے کر ان کے خلاف بد دُعا فرمائی۔ فرمایا: اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل) ،عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر میں ہلاک ہوتے دیکھا۔ انھیں کھینچ کر ایک کنوئیں کی طرف لے جایا گیا اور ان سب کو اس میں ڈال دیا گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا: اس کنوئیں والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت مسلط ہو گئی۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں جو آزمائشیں آئیں، اس کا ایک نمونہ اس حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں منظر آپ کے سامنے ہیں۔ ایک یہ منظر کہ کفارِ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچا کر خوشی منا رہے ہیں اور آپ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، اور دوسرا منظر یہ کہ ان کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پڑی ہیں اور ان پر لعنت مسلط ہے۔یہ دونوں مناظر اہلِ ایمان کو درس دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں آتی ہیں لیکن انجامِ کار اہلِ حق کی کامیابی ہوتا ہے۔ دنیا میں کامیابی اور خوشی ایک طرف اور آخرت کا ثواب جنت کی شکل میں دوسری طرف، تب جدوجہد اور بندگیِ رب میں سُستی کا کیا جواز ہے؟

۞

حضرت عبداللہ بن ابی قتادہؓ اپنے والد حضرت ابی قتادہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات جنگ سے واپس ہوئے۔ رات کے آخری حصے میں پہنچے تو بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپ رات کے اس آخری حصے میں پڑاؤ کر دیں تو بہت اچھا ہو گا۔ آپؐ نے فرمایا: ایسی صورت میں مجھے ڈر ہے کہ تم نماز کے وقت سو جاؤ گے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں آپ لوگوں کو بیدار کر دوں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ لوگوں نے پڑاؤ کر لیا اور حضرت بلالؓ مشرقی اُفق کی طرف رُخ کر کے اپنی اُونٹنی کے کجاوے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ تمام لوگ سو گئے اور حضرت بلالؓ پر بھی نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ بھی سو گئے۔ لوگ سوئے رہے حتیٰ کہ سورج نکل آیا تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ آپؐ کے بعد حضرت بلالؓ اور دوسرے صحابہؓ بھی بیدار ہو گئے۔ آپؐ نے حضرت بلالؓسے پوچھا: بلالؓ! کہاں گئی تمھاری بات؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج جس قدر نیند کا غلبہ ہوا، اتنا غلبہ مجھ پر کبھی نہ ہوا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو تسلی دی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھاری روحوں کو جب چاہا قبض کر لیا اور جب چاہا تمھاری طرف لوٹا دیا (یعنی جب چاہا سلا دیا اور جب چاہا بیدار کر دیا)، یعنی ایسی صورت میں جب نیند کا غلبہ ہو جائے تو پھر نماز کے قضا ہو جانے کا گناہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: بلالؓ! کھڑے ہو جاؤ اور اذان دو۔ پھر آپؐ نے اور صحابہ کرامؓ نے وضو کیا اور سورج بلند ہو گیا اور چمکنے لگا تو آپؐ نے نماز با جماعت ادا فرمائی۔ (بخاری)

غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز کا قضا ہو جانا تقویٰ اور نیکی کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے بھی غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز فوت ہو گئی، اور رات کو پڑاؤ کی وجہ سے دو تین مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا تذکرہ احادیث میں آتا ہے۔ تقویٰ اور طہارت و تزکیہ کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہو نے کے باوجود نبی بھی انسانی عوارض سے متصف ہوتا ہے۔ وہ سوتا ہے، اسے بھوک پیاس بھی لگتی ہے اور بیماری بھی لاحق ہوتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اور دیگر مواقع پر سونے سے منع فرمایا کہ کہیں سونے کی وجہ سے نماز قضا نہ ہو جائے لیکن آپ کو حضرت بلالؓ نے اطمینان دلا دیا کہ میں جگانے کا انتظام کر دوں گا۔ تب آپؐ نے سونے کی اجازت دے دی۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پھر نیند سے احتراز کرنا چاہیے مگر ایسی صورت میں نیند کی جا سکتی ہے جب نماز کے وقت اُٹھانے کا انتظام کیا جائے۔ اس سے نماز کے بروقت اور با جماعت پڑھنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صبح کی نماز قضا ہو جائے تو اس وقت ادا کی جائے جب سورج بلند ہو جائے اور چمکنے لگے۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ طلوع ہو جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے، اور سورج کا کنارہ غائب ہو جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ غروب ہو جائے۔

۞

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دنیا و آخرت، دونوں جہانوں میں، ہر مومن کے ساتھ زیادہ شفقت رکھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُھُمْ  (احزاب ۳۳:۶) ’’بلاشبہ نبیؐ تو ایمان والوں کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبیؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: جو فوت ہو گیا اور اس نے مال چھوڑا تو اس کے وارث اس کے قرابت دار ہوں گے جو بھی ہوں۔ اور جو شخص قرض اور چھوٹے بچے چھوڑ کر فوت ہو جائے تو وہ میرے پاس آئے، مَیں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (بخاری)

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی ایک مثال ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس کا کوئی وارث اور کفیل نہیں ہے، اس کا مَیں کفیل ہوں۔ اسی بنا پر اسلامی حکومت ایسے تمام ضعیف لوگوں کی کفیل ہوتی ہے جن کا کوئی کفیل نہ ہو۔ ایک فلاحی اور رفاہی ریاست کا تصور اسلام نے دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوۂ حسنہ کا عکس ہے۔

۞

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، اس حال میں کہ گُوز مارتا ہے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ جب اقامت ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے اور آدمی اور اس کے نفس کے درمیان حائل ہو جاتا ہے (وسوسہ اندازی شروع کر دیتا ہے)، اور انسان کو وہ چیزیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ انسان بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (بخاری، باب فضل التاذین)

اذان میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ، دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی توحید ، دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوتا ہے، نیز نماز کے لیے بلاوا اور پھر پورے دین کی طرف بلاوا ہوتا ہے۔ اس کے بعد دو مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اور توحید باری تعالیٰ کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور توحید و رسالت کا اعلان اور نماز اور پوری دنیا کی طرف بلاوا شیطان کو خوف زدہ کر دیتا ہے، وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت واپس آتا ہے جب اذان ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے اذان کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ محدثین نے اس حدیث کو باب فضل التاذین میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث سے اہلِ ایمان کو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کے پاس وہ کلمات اور دعوت ہے جو شیطان کو خوف زدہ کر دینے والی ہے، شیطان کو بھگا دینے والی ہے، اس لیے انھیں مطمئن ہونا چاہیے کہ شیطان ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ خود خوف زدہ ہو کر بھاگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ (الحجر۱۵:۴۲)’’یقیناً میرے بندوں پر تیرا تسلط نہیں ہو گا‘‘۔ البتہ وہ وسوسہ اندازی کا کام کرے گا اور نماز کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو چاہیے کہ اپنی عبادات اور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح رجوع کریں اور وسوسوں کا شکار نہ ہوں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپؐ نے ایک آدمی کے متعلق جو اسلام کا دعوے دار تھا، فرمایا کہ یہ جہنمی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اس آدمی نے جنگ میں زور و شور سے حصہ لیا اور بھرپور اور زبردست حملے کیے، اسے گہرے زخم لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ جس آدمی کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے ، اس نے تو آج سخت لڑائی لڑی اور وہ مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنم کی طرف چلا گیا۔ قریب تھا کہ کچھ لوگ آپؐ کے ارشاد کے متعلق شک و شبہے میں مبتلاہو جاتے کہ اطلاع آئی کہ وہ مرا نہیں زندہ ہے لیکن اسے سخت گہرے زخم آئے ہیں۔ جب رات آئی اور وہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے خودکشی کر لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپؐ نے اللہ اکبر کا کلمہ بلند کیا اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، پھر بلال کو حکم دیا کہ وہ اعلان کریں کہ جنت میں نہیں داخل ہو گا مگر مسلمان آدمی، اللہ تعالیٰ بعض اوقات اس دین کی تائید و تقویت بدکار انسان کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۳۰۶۲، ۴۲۰۱، ۶۶۰۶)

جس شخص کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں، کتابوں اور آخرت پر ایمان ہو وہ کبھی بھی خودکشی نہیں کرسکتا۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو تھوڑا اور معمولی سمجھتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو بہت سخت سمجھتا ہے۔ وہ دنیا کی تکلیف کو برداشت کر لیتا ہے اور آخرت کی تکلیف کو برداشت کرنے سے ڈرتا اور اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو طرح طرح کی تکالیف سے گزرنا پڑا لیکن انھوں نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ آج غیرمسلم معاشروں میں خودکشیاں بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں مگر افسوس کہ مسلمان معاشرے بھی ان سے متاثر ہوکر خودکشیوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

ان خودکشیوں کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ اوّلاً حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ روزگار اور بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم کی سہولت ہر شہری کو فراہم کرے۔ ثانیاً بڑے پیمانے پر عقیدے اور فکر کی اصلاح کرے۔ ایمان اور اسلام کو دلوں میں زندہ کرنا، اس کا شعور پیدا کرنا اور فکرِآخرت کی آبیاری اس کا حل ہے۔ دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی علَم بردار تحریکوں کو ایک طرف دین کا شعور عام کرنے اور فکرِ آخرت پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تو دوسری طرف غربت و افلاس سے دوچار افراد کو احساسِ تنہائی سے نکال کر معاشی سہارا بھی فراہم کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا خودکشی کی خبروں کو سنسنی خیز انداز میں نہ پھیلائیں بلکہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں اور لوگوں کو اُمید اور حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کریں۔ اصلاحِ معاشرہ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے۔

۞

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرا اور معراج کی رات، میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ بڑے گھر جتنے بڑے ہیں اور ان کے سامنے پڑے ہیں۔ وہ اُٹھنے کی کوشش کرتے ہیں تو گر جاتے ہیں۔ اُٹھتے ہیں تو پیٹ انھیں پھر گرا دیتے ہیں۔ میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: یہ سودخور ہیں۔ قیامت کے روز یہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان مَس کر کے خبطی بنادیتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، لابی القاسم اصبہانی، حدیث ۱۳۷۳)

سود خوروں کی اخروی سزا مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔ (البقرہ۲:۲۷۶)

سودی نظام کی وجہ سے معیشت تباہ ہو جاتی ہے لیکن سود خور سودی نظام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اس کی تباہ کاریوں کے نشانات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی زلزلہ آ جاتا ہے، کبھی قحط سالی اور کبھی سیلاب اور کبھی معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ ان آفات کے ذریعے اتنا بڑا نقصان ہو جاتا ہے کہ اربوں کھربوں خرچ کرنے سے بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سودخور پھر بھی سودی قرضوں کا لین دین جاری رکھتے ہیں اور معاشرے کو معاشی لحاظ سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑتے۔ سودی نظام کی وجہ سے ملکی آزادی اور خودمختاری بھی داؤ پر لگ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا وبال امن و امان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ مفلسی کے ہاتھوں تنگ آ کر لوگ ایک دوسرے کو بلکہ خود اپنے آپ کو، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد تک کو قتل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سود کی لعنت سے فوری طور پر نجات حاصل کی جائے، نیز متبادل بلاسود معیشت کو فروغ دیا جائے۔ یہ نہ صرف ہمارے معاشی مسائل کا حل ہے بلکہ اس کے نتیجے میں اسلام کے معاشی نظام کی برکات سے بھی ہم پوری طرح مستفید ہوسکیں گے۔ ضرورت آگے بڑھ کر اقدام کرنے کی ہے۔

۞

حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بجلی کی گرج اور کڑک کی آواز سنتے تو دعا کرتے: اے اللہ! ہمیں اپنے غضب اور اپنے عذاب سے ہلاک نہ فرمانا، عذاب نازل کرنے سے پہلے ہمیں معاف فرما دینا۔ (ترمذی، حدیث ۳۴۵۰)

اللہ تعالیٰ کا خوف کرنا اور خوف کے آثار سے متاثر ہونا ایمانی زندگی کی علامت ہے۔ آج ایسے کتنے ہی آثار ہمارے سامنے آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کی پکڑ سے ڈراتے ہیں لیکن ہم پر ان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ یہ سنگ دلی کی علامت ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ یہ سنگدلی بسااوقات مُردہ دلی کی حد میں داخل ہو جاتی ہے۔ انسان ایمان سے محروم بھی ہو جاتا ہے اور اسے اس کا پتا تک نہیں چلتا۔ یہ حدیث ہمیں بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

۞

علقمہ بن وائل اپنے والد وائل سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی (وارث) رسی میں پکڑے لا رہا تھا۔ رسول ؐاللہ نے پوچھا: کیا تم معاف کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر فرمایا: کیا دیت لیتے ہو؟ کہا: نہیں۔ فرمایا: پھر تم اسے قتل کر دو گے۔ اس نے کہا: ہاں۔ آپؐ نے فرمایا: چلو لے جاؤ۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے معاف کر دو تو یہ اپنے اور اپنے مقتول ساتھی کے گناہ کا مستحق ہو گا۔ تب اس نے معاف کر دیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی رسی کو کھینچتے ہوئے جا رہا تھا۔ (نسائی، حدیث ۵۴۱۷)

اسلام نے ایک ایسے معاشرے اور ماحول کو جنم دیا جس میں لوگ ایک دوسرے سے رحمت و محبت اور عفو و درگزر کے ساتھ خوش حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جب ایک قاتل کو معافی مل جاتی ہے تو وہ مقتول کے ورثا کے زیراحسان ہوکر شکرگزار اور خدمت گزار بن جاتا ہے، اور اس سے معاف کرنے والوں کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جاتی ہیں۔ قصاص اور دیت کے فوائد سے بڑھ کر فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔

۞

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسی چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۲۳۱۹)

ہم اپنے ارد گرد معاشرے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی تعلیم کو نظرنداز کرنے کی وجہ سے زندگی فساد اور بدامنی کا شکار ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کا طومار اسی وجہ سے ہے۔ اجتماعی اور انفرادی زندگی کے کسی بھی گوشے کو دیکھیں، پریشانیوں اور تکالیف کا سب سے بڑا سبب اسی ہدایت کی خلاف ورزی کرنا ہے، جب کہ اس پر جہنم کی وعید ہے اور آپؐ نے ایسے شخص کو اُمت سے خارج قرار دیا ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ سب مسلمانوں کا حال اس کے مطابق ہو تو زندگی کا کیا نقشہ ہو گا۔ کوئی کسی دوسرے کے حق پر دست اندازی نہ کرے تو کتنا چین و سکون ہو گا۔

۞

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ جب لوگوں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے اور جب چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور اسے خوب صورت بناتا ہے (یعنی کھلے چھپے دونوں حال میں اچھی نماز پڑھتا ہے) تو یہ میرا حقیقی بندہ ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث ۴۲۰۰)

نمازی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایسی نماز پڑھے کہ کھلی اور چھپی حالت میں فرق نہ رہے اور دونوں حالتوں میں اس کی نماز بہترین ہو۔ ایسی بہترین کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنا حقیقی بندہ قرار دے دیں۔ بندگی کا یہی مقام تو مطلوب ہے!

یہی مومن کی شان ہے، وہ ریاکاری سے پاک ہوتا ہے۔ اس کا ظاہر و باطن ایک ہوتا ہے۔ نماز ہی نہیں، وہ زندگی کی ہر سرگرمی کو، کھلے یا چھپے، رضاے الٰہی کے لیے بہترین انداز سے انجام دیتا ہے۔

 ۞

حضرت زید بن سلّام سے روایت ہے کہ ان سے ابوسلّام نے کہا کہ حضرت حارث اشعری نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا کہ ان پر وہ خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل سے بھی ان پر عمل کرنے کا کہہ دیں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سے کہنے میں کچھ تاخیر ہونے لگی تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا تھا کہ آپ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا فرما دیں، لہٰذا یا تو آپ خود ان سے کہہ دیجیے یا میں ان سے کہہ دوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (حکم مجھے ہوا ہے اس لیے اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے کے سبب) کہیں زمین میں نہ دھنسا دیا جاؤں یا کسی اور عذاب میں گرفتار نہ ہو جاؤں۔ اس کے بعد انھوں نے فوراً بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں جمع کیا۔ جب وہ اچھی طرح بھر گیا، حتیٰ کہ لوگ گیلریوں تک میں بیٹھ گئے تو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پر عمل کروں اور تم کو بھی ان پر عمل کرنے کی تاکید کروں۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ کیونکہ جو شخص کسی کو اللہ کا شریک بنائے تواس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک غلام اپنے سونے چاندی سے خالص اپنے لیے بلا شرکت غیرے خریدا اور اس کو بتا دیا کہ یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے، تو مزدوری کر اور اس کی آمدنی مجھے لا کر دینا۔ یہ غلام مزدوری تو کرے لیکن اس کی آمدنی اپنے مالک کو لا کر دینے کے بجائے کسی دوسرے شخص کو لا کر دے دے، بھلا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ (انسان تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا مملوک نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے خریدا ہو بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کا معاملہ یہ ہے کہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ اس کی تمام صلاحیتیں اس کی عطا کردہ ہیں۔ وہ جس زمین میں رہتا ہے وہ اسی کی بنائی ہوئی ہے اور جس آسمان کی چھت کے نیچے رہتا ہے وہ بھی اللہ کا بنایا ہوا ہے۔ اسے روزی بھی وہی دیتا ہے اور اس کی جملہ ضروریات کو زندگی کے مختلف مراحل کے تقاضوں کے مطابق وہی پورا کرتا ہے۔ تب اس کے لیے اس بات کا کیا جواز ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرے یا دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی میں شریک کرے)۔

 دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جب تک نماز میں رہو تو دائیں بائیں توجہ نہ کرو بلکہ صرف اسی کی طرف توجہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نماز میں بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب تک بندہ اس کی طرف متوجہ ہو اور اِدھر اُدھر نہ دیکھے۔

 تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو روزے کا حکم دیا ہے۔ روزے کی مثال ایسی ہے جیسے انسانوں کی ایک جماعت ہو اور اس میں ایک انسان کے پاس ایک تھیلی ہو جس میں مشک (کستوری) ہو۔ ہر شخص کو اس کی خوشبو اچھی معلوم ہو گی۔ روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔

 چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو صدقے کا حکم دیا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کو دشمن نے قید کر لیا ہو اور اس کے ہاتھ اس کی گردن سے باندھ دیے ہوں اور اس کی گردن مارنے کے لیے اسے قتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا ہو۔ یہ شخص اپنی جان بچانے کے لیے اپنا سارا مال اپنی جان کے بدلے میں دے دے اور اس طرح اپنی جان چھڑا لے۔

 پانچویں بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے ذکر کا حکم دیا ہے۔ ذکر کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص کا تعاقب کرتے ہوئے دشمن اس کی طرف تیزی سے آ رہا ہو اور یہ شخص اس سے بچاؤ کی خاطر اس سے دُور بھاگ رہا ہو، اور بھاگتے بھاگتے ایک مضبوط قلعے کے اندر داخل ہو جائے اور دشمن سے اپنی جان بچا لے۔ اسی طرح بندہ شیطان سے اپنے آپ کو ذکر اللہ کے بغیر کسی دوسری چیز کے ذریعے نہیں بچا سکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان پانچ باتوں کو بیان کرنے کے بعد) فرمایا: میں بھی تم کو پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے: ۞ اللہ اور اس کے رسول اور اپنے صاحبِ امر لوگوں کی بات سننے اور اطاعت کا ۞ جہاد ۞ ہجرت کرنے اور  ۞جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کا۔ کیونکہ جو شخص جماعت سے بالشت برابر علیحدہ رہا اس نے گویا اسلام کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا مگر اس صورت میں کہ جماعت میں واپس آ جائے اور پوری طرح امیر کی اطاعت کرے (جو شخص اسلامی نظام جماعت سے کُلی یا جزوی طور پر نکل کر کسی دوسرے نظام کا کُلی یا جزوی طور پر علَم بردار بن گیا وہ اس جماعت سے نکل گیا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وابستہ رہنے کا حکم فرمایا) ۞ پانچویں بات یہ کہ جس نے اسلام کے زمانے میں جاہلی دور کے نعرے لگانے شروع کر دیے (لسانی، قومی اور نسلی بنیاد پر جتھا بندی کرنا اور ان کے نعرے لگانا) تو وہ دوزخ میں ڈالے جانے والے خس و خاشاک میں شامل ہو گیا۔

ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ پس تم ایسے نعرے لگاؤ جن کی اللہ نے اجازت دی ہے۔ اس نے پہلے سے تمھارا نام مسلم اور مومن رکھا ہے (لہٰذا اسلام اور ایمان سے ہم آہنگ نعرے لگاؤ)۔ (ترمذی، ابواب الامثال، حدیث ۲۸۵۹)

ان ۱۰ باتوں میں تزکیۂ نفس، تعلق باللہ، اصلاحِ معاشرہ ، اصلاحِ حکومت، اقامت دین، حکومت الٰہیہ کے قیام، ظلم و زیادتی کے خاتمے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کے جامع پروگرام اور لائحہ عمل کی طرف راہنمائی ہے۔ پہلی پانچ باتیں تو اہلِ ایمان کے لیے انفرادی پروگرام پر مشتمل ہیں اور دوسری پانچ باتیں اجتماعی پروگرام کی بنیاد ہیں۔

۞

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے مالِ غنیمت میں خیانت کا تذکرہ فرمایا اور اسے بہت بڑا جرم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا: قیامت کے روز میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور منمنا رہی ہو، اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو اور وہ مجھ سے فریاد کرے اور پکارے: 鋳اے اللہ کے رسول! میری فریاد رسی فرمایئے荘۔ میں کہوں گا کہ میں اللہ تعالیٰ سے تجھے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں حکم پہنچا دیا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر اُونٹ سوار ہو اور بڑبڑا رہا ہو اور وہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسول! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا کہ میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے چھڑانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تو تمھیں بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر سونا چاندی سوار ہو اور وہ مجھے پکارے کہ اے اللہ کے رسول! میری مدد فرمایئے تو میں کہوں گا: میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کے لیے تیری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی گردن پر کپڑے ہوں، جو لہرا رہے ہوں اور وہ مجھے مدد کے لیے پکارے اور کہے: اے اللہ کے رسول! میری فریاد رسی فرمایئے تو میں کہوں گا: میں تیری کسی بھی قسم کی مدد نہیں کرسکتا۔ میں نے تو بات پہنچا دی تھی۔ (بخاری، باب الضلول، حدیث ۳۰۷۳)

۞

حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی نگرانی پر ایک شخص مقرر تھا جس کا نام کَرکَرہ تھا۔ وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔ صحابہ کرام اس کی طرف گئے تاکہ اس کے دوزخی ہونے کا سبب معلوم کریں، تو پتا چلا کہ مالِ غنیمت سے ایک چادر اس نے چرائی تھی۔ (بخاری، حدیث ۳۰۷۴)

مالِ غنیمت یا سرکاری اور قومی اموال میں کسی بھی سطح پر خیانت اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک معمولی چادر بھی آدمی کو دوزخ میں داخل کر دینے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر جو بھی چیز خیانت کا شکار ہو گی وہ آدمی کی گردن پر سوار ہو گی۔ خیانت کے بارے میں جو سزا ذکر کی گئی ہے زکوٰۃ نہ دینے کی بھی یہی سزا آتی ہے (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث ۱۴۰۲۔۱۴۰۳)۔ نیز سونے چاندی کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ زکوٰۃ نہ دینے والے کے لیے سانپ بن کر، اس کی گردن کا طوق بن جائے گا اور اس کی باچھوں کو دونوں طرف سے ڈسے گا اور کہے گا: 鋳میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں荘۔

آج کل خیانت عام ہے۔ حکمران بھی ہرسطح پر کرپشن میں مبتلا ہیں۔ بڑے پیمانے پر سرکاری خزانوں کو ہضم کر لینے کے جواز پر باہمی مفاہمتیں ہوتی ہیں۔ کرپشن کے خلاف مقدمات چلانے کی مخالفت کی جاتی ہے اور مقتدر حلقے سرکاری اموال کی لُوٹ مار میں مددگار بن جاتے ہیں ۔ لوٹے ہوئے مال کی واپسی میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا لوگ پروا نہ کریں گے کہ جو مال ان کے پاس آیا ہے یہ حلال کا ہے یا حرام کا ۔ (بخاری، حدیث ۲۰۵۹،۲۰۸۳)

٭٭٭

 

مآخذ:

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/233

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/257

http://tarjumanulquran.org/old/2010/12_december/fahim_hadith001/1.htm

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/286

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/176

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/286

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/257

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/233

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/205

http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/176

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید