FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈم ڈم جن

ربیعہ سلیم مرزا

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

لوٹ کے گڈو گھر کو آئے

کرونا کی وجہ سے اسکول بند تھے۔ آمنہ اور گڈو گلی کے بچوں کے ساتھ پکڑن پکڑائی کھیل رہے تھے۔ کبھی کبھار کسی بچے کی اماں اسے آواز دیتیں تو کھیل کچھ دیر کے لیے رک جاتا۔ تھوڑا جھنجھلانے کے بعد سب بچے پھر سے مگن ہو جاتے۔

دھیرے دھیرے سب بچے ایک ایک کر کے گھروں کو چلے گئے۔ گڈو اور آمنہ کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب وہ اکیلے رہ گئے، کھیل ہی کھیل میں وہ دونوں دور نکل آئے تھے کہ اب گلی بھی اجنبی تھی اور راستہ بھی۔

دونوں بری طرح گھبرا گئے۔ آمنہ گڈو سے کچھ بڑی تھی۔ اس نے لپک کر گڈو کا ہاتھ تھام لیا، جیسے وہ کہیں کھو جائے گا۔ دونوں دائیں بائیں دیکھتے، راستہ کھوجتے آگے بڑھنے لگے۔ شاید کوئی شناسا چہرہ دکھائی دے یا بھولا ہوا راستہ یاد آ جائے۔

گلی کچھ سنسان سی تھی۔ اتنے میں ایک آدمی دونوں کے پاس آ کر کہنے لگا۔!

’’ارے تم دونوں یہاں ہو، پچھلی گلی میں تمہارے ابا تم دونوں کو ڈھونڈھ رہے ہیں‘‘

’’نہیں ہم گھر جا رہے ہیں، ہمارے ابو نے کسی کے ساتھ جانے سے منع کیا ہے‘‘ آمنہ نے ڈرے بغیر، ڈپٹ کر، اماں کا سو دفعہ کا ذہن نشیں کروایا جملہ بولا۔ اور پھر گڈو کا ہاتھ پکڑتے ہوئے تیزی سے چوک کی طرف چل دی، جہاں بہت سے لوگ آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں وہ دونوں کچھ محفوظ رہ سکتے تھے۔ آمنہ کی بے خوفی دیکھ کر وہ آدمی وہیں رک گیا۔

تیز تیز چلتے وہ ابا کا فون نمبر یا گھر محلے کا پتہ، گلی کی کوئی نشانی یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کتنی ہی دفعہ ابو نے اسے اپنا نمبر یاد کروایا تھا لیکن اس وقت، کھو جانے کے خوف نے اسے سب کچھ بھلا دیا۔ اس نے گڈو سے کچھ مدد لینے کی کوشش کی۔

’’گڈو تمہیں ابا کا نمبر یاد ہے، گلی کی کوئی نشانی وغیرہ‘‘؟

’’نہیں، لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے اور بھوک بھی لگی ہے‘‘۔ گڈو نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا پھر کہنے لگا،

’’آپا۔، اگر کسی نے ہمیں پکڑ لیا تو‘‘؟

آمنہ کا رنگ مزید فق ہو گیا۔

’’ڈرو مت۔ گھبراؤ نہیں، پتہ ہے ناں! اماں نے سمجھایا تھا کہ اگر ذرا سی بھی گڑبڑ لگے تو ڈرے بغیر خوب شور مچانا ہے۔ لوگوں کو مدد کے لیے بلانا ہے۔‘‘

وہ خود بھی سہمی ہوئی تھی کہ شام ہو رہی ہے۔ اماں کس قدر پریشان ہو رہی ہوں گی۔

یہ خیال آتے ہی اس کا ذہن تیزی سے حل ڈھونڈنے لگا۔

اب گڈو نے باقاعدہ بھوک بھوک کی گردان شروع کر دی تھی۔ وہ راہ میں نظر آتی ہر کھانے والی چیز کے لئے مچل رہا تھا۔

’’گڈو۔ اماں نے بتایا تھا نا، کسی سے کوئی شے لے کر نہیں کھانی۔ ہم ابھی گھر پہنچ جائیں گے۔ تم اپنی گلی یا محلے کی کسی دوکان کا نام یاد کرنے کی کوشش کرو ناں۔‘‘؟

اچانک گڈو بولا، ’’آپا ہماری گلی کی لکی بیکری مشہور ہے۔ ‘‘

’’ارے ہاں، لال گنبد والی مسجد بھی تو ہے۔ ‘‘

وہ گڈو کا ہاتھ تھامے ایک بوڑھے دکاندار کے پاس رک گئی۔

اماں کی نصیحتیں، اسے کسی دوکان یا مکان کے اندر جانے سے روک رہی تھیں۔ وہ باہر کھڑے کھڑے دوکان دار سے کہنے لگی،

‘‘ انکل، آپ کو لال گنبد والی مسجد کا پتہ ہے‘‘؟

’’وہ تو بہت دور ہے، دو تین گلیاں پیچھے۔ تم دونوں چھوٹے ہو۔ وہاں تک کیسے جاؤ گے۔؟‘‘دکاندار نے بغور دیکھ کر کہا۔

’’انکل ہم گھر کا راستہ بھول گئے ہیں۔‘‘

دوکان دار اللہ کا نیک بندہ تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو دوکان سنبھالنے کا کہا اور خود ان کے ساتھ چل پڑا۔ آمنہ اب بھی کسی پہ اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔ واپس گھر کی طرف لوٹتے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راستہ پہچانتی رہی۔ چلتے چلتے بالآخر وہ سب لال گنبد والی مسجد کے پاس پہنچ گئے۔ اپنی گلی پہچانتے ہی گڈو بھاگ کر گھر میں داخل ہوا تو اماں زار و قطار رو رہی تھیں۔ ابا بھی پریشان تھے۔ کچھ محلے والے ابا کو تسلی دے رہے تھے۔

جیسے ہی گڈو اندر داخل ہوا۔ ابا نے دوڑ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ اور آمنہ کے بارے میں پوچھنے لگے۔ اتنے میں آمنہ بھی بوڑھے دوکاندار کے ساتھ گھر پہنچ گئی۔ سارا واقع سن کر سب لوگوں نے دوکاندار کا شکریہ ادا کیا۔ اور اسے چائے پلا کر رخصت کیا۔

رات میں اماں ابا نے گڈو اور آمنہ سے تمام واقعہ سنا اور آمنہ کی حاضر دماغی اور بہادری کی بہت تعریف کی۔ اور اپنے دوستوں اور کلاس کے بچوں کو بھی یہ سب بتانے کا کہا کہ شاید بہت سے دوسرے بچے گم ہونے سے بچ جائیں اور اپنے گھروں کو لوٹ آئیں۔

٭٭٭

ڈم ڈم جن

ایک دفعہ کا ذکر ہے، پرستان پر ایک نیک دل بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس بادشاہ کی چھ بیٹیاں تھیں، اگرچہ اللہ نے اسے بیٹے سے نہیں نوازا تھا، مگر اسے اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت تھی، اسے اکثر اپنی بیٹیوں کی فکر رہتی۔ اسی لیے بادشاہ نے اپنی بیٹیوں کو نہ صرف پڑھایا لکھایا، بلکہ انہیں شہزادوں کی طرح تمام فن حرب و ضرب بھی سکھانے شروع کیے۔ انہیں محبت اور اعتماد سے پروان چڑھایا، تمام پرستان میں بادشاہ اور اس کی بیٹیوں کی قابلیت کے چرچے تھے۔ وقت گزر رہا تھا۔

بادشاہ کو اطلاع ملی کہ پرستان میں کوئی ظالم جن گھس آیا ہے، جو پریوں کو اٹھا لے جاتا ہے، اور انہیں قید کر لیتا ہے۔

رفتہ رفتہ ایسی خبروں میں اضافہ ہونے لگا۔ بادشاہ کی پریشانی بڑھنے لگی، تو اس نے اپنے وزیروں اور شاہی جادوگروں کو دربار میں طلب کر لیا۔ انہی میں شاہی نجومی اور جادوگر علی بابا بھی تھا، علی بابا کے پاس ایک جادوئی زنبیل تھی۔ جس میں بے شمار جادوئی چیزیں موجود تھیں، جو وقتاً فوقتاً مختلف کاموں میں علی بابا کی مدد کرتیں۔ تمام نجومیوں نے اپنے اپنے علم سے پریوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

اچانک شاہی نجومی اور وزیر علی بابا نے اپنی زنبیل کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کے جادوئی طوطا نکالا۔ سب لوگ اس طوطے کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ علی بابا نے طوطے کو کھانے کے لیے ایک خوبصورت سیب پیش کیا۔ طوطے نے مزے مزے سے سیب ہڑپ کیا اور بولا!

’علی بابا، پوچھیں جو پوچھنا چاہتے ہیں؟‘

علی بابا نے شہزادیوں کے متعلق دریافت کیا۔

طوطا کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا۔ ’شہزادیوں کو ڈم ڈم جن لے گیا ہے، اور بہت جلد وہ انہیں کھا بھی جائے گا۔ میں آپ کو وہاں لے جا سکتا ہوں، بشرطیکہ آپ مجھے دوبارہ قید نہ کریں۔‘ علی بابا نے وعدہ کر لیا۔

بادشاہ سے اجازت لے کر، گھوڑے پر سوار علی بابا طوطے کے راہنمائی میں چل پڑا۔

پرستان کی حدود سے نکلتے ہی اچانک کالے کالے بادلوں نے علی بابا کو گھیر لیا، علی بابا نے اپنے سر پہ اڑتے طوطے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو طوطے نے جواب دیا کہ ڈم ڈم جن کو ان کی آمد کی خبر ہو چکی ہے۔ علی بابا ڈرے بغیر آگے بڑھتا رہا۔

جب دونوں کالے پہاڑوں کے نزدیک پہنچے تو بڑے بڑے کالی پتھر لڑھکنے لگے۔ پھر طوطے نے بتایا کہ ’یہ بھی ڈم ڈم جن کی کارستانی ہے، لیکن گھبرائیں نہیں آقا، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘

ایک موڑ مڑتے ہی، اچانک وہ دونوں ایک بڑے غار کے دہانے پہ پہنچ گئے۔ طوطے نے زور دار سیٹی بجائی تو اندر موجود شہزادیوں کو پتہ چل گیا، کہ کوئی انہیں بچانے آ گیا ہے۔ علی بابا نے کھل جا سم سم کا منتر پڑھ کر دروازہ کھولا تو تمام شہزادیاں علی بابا سے لپٹ گئیں۔

علی بابا نے زنبیل سے سلیمانی چادر نکال کر شہزادیوں پر پھیلا دی، جس کی وجہ سے وہ نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔

اچانک ڈم ڈم جن ’آدم بو، آدم بو‘ کہتا نمودار ہو گیا۔ علی بابا نے ڈپٹ کر جن سے پوچھا:

’تمہاری جرأت کیسے ہوئی پریوں کو اغوا کر کے قید کرنے کی؟‘ جن نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا: ’بجائے اس کے، پریاں یہاں سے بچ نکلنے کی کوشش کریں، وہ میرے خوف اور ڈر سے چلانے لگتی ہیں تو مجھے بہت مزا آتا ہے، اور پھر میں انہیں کھا جاتا ہوں۔‘ یہ کہتے ہی جن نے علی بابا پر حملہ کر دیا۔

تلوار کے ایک ہی وار سے علی بابا نے جن کا سر قلم کر دیا۔

جن کے مرتے ہی تمام بادل غائب ہو گئے، اب شہزادیاں آزاد تھیں، علی۔ بابا نے اپنی زنبیل سے ایک خرگوش نکالا اور زور سے چٹکی بجائی تو خرگوش اُڑن بگھی میں بدل گیا۔

علی بابا اور تمام شہزادیاں اُڑن بگھی میں سوار ہوئیں تو اُڑن بگھی محل کی طرف پرواز کرنے لگی۔ تمام شہزادیوں نے علی بابا کا شکریہ ادا کیا تو علی بابا بولا:

’دیکھو بچو، ڈم ڈم جن جیسے کئی جن آتے رہیں گے، لیکن ہو سکتا ہے ہر دفعہ علی بابا بچانے نہ آ سکے، تو ہمیں اس کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔‘

علی بابا کی بات سن کر تمام شہزادیاں پریشان ہو گئیں۔

علی بابا کہنے لگا: ’ضروری ہے بچو! ہم ڈرنے کی بجائے، اپنی حفاظت خود کرنا سیکھیں، اور دوسرے بچوں کی زندگی بچانے کی بھی کوشش کریں۔ اپنے دل و دماغ سے ڈر کو نکال کر بہادر بنیں۔‘

محل پہنچنے کے بعد علی بابا نے وعدے کے مطابق جادوئی طوطے کو آزاد کر دیا، اور تمام واقعہ بادشاہ کے گوش گزار کیا۔

شاہی پریاں بھی یہ سب ماجرا سن رہی تھیں۔ انہوں نے بادشاہ سے درخواست کی کہ پرستان کی تمام پریوں کو اپنی حفاظت کے گر سکھائے جائیں۔

بادشاہ نے اسی وقت فرمان جاری کیا کہ تمام پرستان میں پریوں کو پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ، جنگی فنون اور حفاظتی طریقے لازمی سکھائے جائیں گے، تاکہ آئندہ کوئی بھی پریوں کو نقصان نہ پہنچا سکے، شاہی پریاں، ہر جگہ اپنی نگرانی میں یہ قانون نافذ کروا رہی تھیں۔۔

پریوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا، اب ہر ایک پری بہت مضبوط ہو چکی تھی، اور پرستان میں بھی امن سکون کا راج تھا۔ اب پریوں کو۔ یقین تھا کہ جو بھی جن آئے گا وہ خود اس سے نپٹ لیں گی۔

٭٭٭

وادی نمل

آبادی سے پرے وسیع میدان میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے تھے۔ جن میں لاکھوں کی تعداد میں چیونٹیوں نے اپنے بل بنائے تھے۔ ان میں ہزاروں چیونٹیوں کی نسلیں آباد تھیں، ان کا تعلق ایک کروڑ سینتیس لاکھ سال قبل موجود بھڑ اجداد سے تھا۔ ان کی کچھ قسمیں بینائی رکھتی تھیں اور کچھ اپنے اینٹینا سے سونگھ کر کام چلاتیں۔ یہ چیونٹیاں پانی میں بیس سے پچیس گھنٹے زندہ رہ سکتی تھیں۔ ان میں ایک سنہری چیونٹی بھی تھی جو تمام چیونٹیوں کی ملکہ تھی،

یہ ملکہ، ایک سینٹی میٹر لمبی تھی۔ ملکہ کا کام صرف انڈے دینا تھا، باقی چیونٹیوں کو حسب ضرورت ذمہ داریاں سونپی جاتیں تھیں۔ تمام چیونٹیاں مل جل کر رہتیں اور اپنی ملکہ کا حکم مانتیں۔

یہ کالونیاں، ملکہ کے دم سے ہی آباد تھیں حالانکہ ملکہ اور دوسری ماداؤں کی عمر لگ بھگ تین سال اور نر، بیچاروں کی عمر دو تین ہفتے ہوتی۔

مشکل حالات کے لیئے حفاظتی اور لڑا کا فوجی دستے بھی تھے۔ لورا اور سینڈی ان دستوں کی کمانڈر تھیں، باقی کارکن چیونٹیاں تھیں۔ ان کے ذمّے، خوراک جمع کرنا اور انڈوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ، موسم کے حساب سے جگہ کی منتقلی بھی تھا۔ ریڑھ کی ہڈی نہ ہونے کے باوجود یہ چیونٹیاں اپنے وزن سے بیس گنا زیادہ بوجھ اٹھا سکتی تھیں۔

سردیوں کی آمد آمد تھی، ملکہ کا حکم تھا کہ جلد سے جلد، خوراک جمع کی جائے۔ تمام تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ چیونٹیاں قطار در قطار چلتے ہوئے اپنے اینٹینا سے ایک دوسری کو چھوکر ضروری معلومات یا ہارمونز لیتیں، اور ان ہار مونز کی مدد سے سونگھتے سونگھتے، خوراک تک پہنچ جاتیں۔

گندم کا ایک دانہ، ایک چیونٹی کے لیے سال بھرکے لیئے کافی رہتا۔ مردہ چیونٹیاں، حشرات اور خشک اناج کا ذخیرہ تھا۔ اگر بارش کے پانی یا سیلن کی وجہ سے خوراک میں نمو کا عمل شروع ہو جاتا تو اس خوراک کو ٹکڑوں میں توڑ لیا جاتا۔ خشک خوراک کافی جمع ہو چکی تھی اب چیونٹیوں کو کچھ میٹھا درکار تھا۔

قطار میں چلتے چلتے، سینڈی کو سامنے والی قطار میں، لورا آتی دکھائی دی، قریب آنے پہ، سینڈی نے اپنے سر کو نوے ڈگری کے زاویے پہ گھمایا اور اپنے انٹینا کو لورا کے اینٹینا سے چھو کر بتایا کہ ایک کوس دور ایک انسانی آبادی موجود ہے جہاں سے انہیں میٹھا مل سکتا ہے، یہ معلوماتی سگنل ملتے ہی تمام قطاروں نے رخ موڑا، اور آبادی کی طرف سفر شروع کر دیا۔ راستہ کافی لمبا تھا۔ سفر کے دوران چیونٹیوں کو بھوک محسوس ہوتی تو پیروں کی مدد سے ایک دوسری کا پیٹ کھجلا کر خوراک حاصل کرتیں۔

ابھی تھوڑا فاصلہ طے کیا تھا کہ لورا اور سینڈی کو دھمک محسوس ہوئی، یہ خطرے کا سگنل تھا، جب کہیں چیونٹیوں پہ کوئی مصیبت آتی، وہ اپنے جسم کو زمین سے ٹکرا کر یا کسی چیز سے رگڑ کر اطلاعی سگنل جاری کرتیں، جو چھ سات میٹر دور تک محسوس کیا جاتا۔ باقی چیونٹیاں یہ دھمک سنتے ہی مدد کو دوڑ پڑتیں۔

تھوڑا آگے بڑھتے ہی چیونٹیوں کو ایک خوفناک مینڈک زبان لپکاتا نظر آیا، مینڈک کی للچائی نظریں ایک گھروندے پہ جمی تھیں۔ مینڈک نے جو چیونٹیوں کی اتنی بڑی فوج آتے دیکھی تو زبان لپکاتے ہوئے، ٹرانے لگا۔

تمام چیونٹیاں، ملکہ کی تربیت یافتہ تھیں، لورا اور سینڈی نے کارکن چیونٹیوں کو کھانے کی تلاش میں آبادی کی طرف روانہ کیا، جبکہ مکوڑوں اور بھوری چیونٹیوں کے دستے کو، مینڈک پہ عقب سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اشارہ ملتے ہی، فوج نے مینڈک کو گھیر کر حملہ کر دیا۔

مینڈک کو سامنے کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی، مگر کچھ تو تھا، جو اس کے جسم میں گھسا جاتا تھا، مینڈک نے خوف اور تکلیف سے اچھلنا شروع کر دیا، چیونٹیاں ہمت دکھاتے ہوئے، مینڈک کی آنکھوں اور ناک میں گھس گئیں۔

مینڈک تکلیف سے اچھل رہا تھا، اس نے جیسے ہی ٹرانے کے لیے منہ کھولا، ڈرے بغیر چیونٹیاں مینڈک کے منہ اور ناک میں گھس گئیں۔ مینڈک کی اچھل کود بند ہو گئی۔

چیونٹیاں گر رہی تھیں، پھر اٹھ کر لپک رہی تھیں، مگر ہار ماننے پہ تیار نہیں تھیں۔

اسی جنگ میں صبح سے شام ہو گئی۔ مینڈک کی مزاحمت دم توڑنے لگی، اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چیونٹیوں نے مینڈک کو حوصلہ ہارتے دیکھا تو ہمت پکڑی اور تیز دھار دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا، اب مینڈک مر چکا تھا۔

چیونٹیوں کے لیے، جشن کا سماں تھا، وہ خوشی سے نعرے لگانے لگیں، اتنے میں آبادی کی طرف جانے والا دستہ، شہتوت اور کچھ انگور کے ٹکڑے اٹھائے، آتا دکھائی دیا۔ چیونٹیوں کی خوشی کی انتہا نا رہی۔ اب آتی سردیوں کے لیے، پیٹ بھر خوراک اور میٹھے کا بھی انتظام ہو چکا تھا۔ بہت دن لگے، لیکن چیونٹیوں نے کسی نہ کسی طرح، مینڈک کو گھروندے میں منتقل کر دیا،

ملکہ نے تمام گھروندوں میں آباد چیونٹیوں کی دعوت کی۔ اب فکر کی کوئی بات نہ تھی، خالق کائنات نے ان کی محنت کے بدلے، ہمیشہ کی طرح رزق سے نواز دیا تھا۔

سچ کہتے ہیں محنت میں عظمت ہے۔ اور اتفاق میں برکت ہے۔

٭٭٭

کچھوے نے بتایا

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے بیچ ایک جادوئی جھیل تھی۔ اس کا پانی روز سورج کے سنگ پہلے سنہرا ہوتا، بھر نارنجی ہوتے ہوتے سبزی مائل نیلا ہو جاتا۔ جب چاند اس خوبصورت آئینے میں جھانکتا، تو جھیل کا پانی شرما کر اور نکھر جاتا، شفاف ہو جاتا۔ جھیل میں رہنے والی جل پریاں سطح آب پہ آتیں، کھیلتیں، شرارتیں کرتیں۔ جھیل کی لہروں سے اٹھکیلیاں کرتیں، پانی ان سے سرگوشیاں کرتا۔

جھیل جتنی خوبصورت تھی اس کا پانی بھی اتنا ہی خوشبو دار تھا۔ جل پریوں کہ ملکہ گل نواز کی جادوئی سلطنت میں زمین کے اوپر اور نیچے دونوں جگہ کی عوام خوش اور مطمئن تھی۔

یہ سارا علاقہ، ملکہ گل نواز کا تھا، نیل جل پری اور سبز جل پری اس کی بیٹیاں تھیں۔

ایک دن، جب خوبصورت سنہری چاند نکلا۔ تو جھیل کی سطح پر ہر سمت روشنی پھیل گئی۔ پر سکون لہریں روپہلی روشنی دیکھ کر خوشی سے امڈنے لگیں۔ روشنی پانی سے چھن کر، جب جل پریوں تک پہنچی۔ تو وہ اپنی سہیلیوں کے سنگ کھیلنے کو بے چین ہو گئیں۔ ملکہ گل نواز سے اجازت لے کر وہ سب سطح آب پر آ گئیں۔ آج ان کا ارادہ جھیل کی سیر کرنے کا تھا۔ اچانک نیل جل پری بولی: ’ہم نے اپنی جھیل کی تہ میں موجود جنگل تو دیکھا ہی نہیں۔ سنا ہے وہاں اتنے خوبصورت پھول کھلتے ہیں کہ شاذ ہی کہیں کھلتے ہوں۔ اور یہ جو پانی سے خوشبو آتی ہے یہ بھی انہی پھولوں کی وجہ سے ہے۔‘ سب سہیلیاں وہ جنگل دیکھنے کو بیتاب ہو گئیں۔ اس جنگل تک پہنچنے میں انہیں کافی سفر کرنا پڑا۔

ابھی جنگل کی شروعات ہی تھی کہ جل پریوں کو ہلکی ہلکی، ڈراؤنی سی سرگوشیاں سنائی دیں۔ تھوڑا اور آگے بڑھیں تو سرگوشیاں ایک منتر میں بدل گئیں۔ لگتا تھا کوئی چھپ کر منتروں کا جاپ کر رہا ہے۔ اب وہ کافی آگے آ چکی تھیں۔ اچانک نیل جل پری چلائی!

’وہ دیکھو، وہاں ہیں پھول۔‘ اور آگے بڑھ کر کچھ پھول توڑ لیے۔

پھول توڑنے نے کی دیر تھی کہ ارد گرد کے پانی میں ہلچل مچ گئی۔ اب منتر پڑھنے کی آواز بھی بند ہو گئی تھی۔ اچانک پانی میں ایک چھوٹا سا بھنور بنا اور ایک بوڑھی چڑیل حاضر ہو گئی اور سخت غصے میں کہنے لگی: ’تمہاری اتنی جرات، کہ تم میرے جادوئی پھول توڑو۔‘

سبز جل پری نے جواب دیا۔ ’یہ جھیل ہماری ہے۔ اور اس میں موجود ہر چیز پہ ہمارا حق ہے۔‘ بوڑھی چڑیل نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگی ’نہیں اب یہ جنگل میرا ہے، میں یہاں کی ملکہ چڑیل ہوں۔ میں اپنے درخت کی کھوہ میں جاپ کر رہی تھی۔ اس لڑکی نے میرا جاپ توڑا ہے۔ جس کی تمہیں سزا ملے گی۔‘

یہ کہتے ہی اس نے پانی میں ہی زور دار چیخ ماری۔ تو نیل جل پری سرخ پھول بن گئی۔ چڑیل نے پھول اٹھا کر بالوں میں لگا لیا اور غائب ہو گئی۔

سبز جل پری سمیت، سب جل پریاں بہت پریشان ہوئیں۔ وہ سب تیزی سے تیرتے ہوئے ملکہ گل نواز کے محل پہنچیں اور سارا ماجرا گوش گزار کیا۔

ملکہ بھی سارا واقعہ سن کر پریشان ہو گئی۔ اس نے فوراً شاہی نجومی سفید بگلے کو طلب کیا۔ تھوڑی دیر بعد، شاہی نجومی سفید بگلہ اپنی لمبی داڑھی ہلاتا حاضر ہو گیا۔ یہ بگلہ اتنا عمر رسیدہ تھا کہ اس کی چونچ کے نیچے ایک لمبی سفید داڑھی اُگ آئی تھی۔ ملکہ نے اسے نیل جل پری کا پتہ لگانے کا کہا۔

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بگلہ نجومی کہنے لگا ’’ملکہ عالیہ! اگر ہمارے جنگل پہ بوڑھی چڑیل کا قبضہ ہے اور وہ وہاں جاپ کر رہی ہے تو یقیناً نیل جل پری بھی وہیں ہو گی۔ ہو سکتا ہے وہاں اور لوگ بھی قید ہوں۔ میرا علم مجھے بتاتا ہے کہ صرف سبز جل ہری ہی اسے بچا سکتی ہے۔‘‘

سبز جل پری نے ماں کا چہرہ دیکھا تو جانے کو تیار ہو گئی۔

ملکہ نے بہت روکا، پہلے ہی ایک بیٹی چڑیل کی قید میں ہے، دوسری بھی پھنس گئی تو۔؟

سبز پری نے ماں کو تسلی دی اور سفر پہ روانہ ہو گئی۔

پہلے پہل تو اس کا دل گھبرایا۔ پھر اس نے کان لگا کر پانی کی سرگوشیاں سنیں۔ لہریں اسے رستہ بتا رہی تھیں۔ اسے دل کو کچھ حوصلہ ہوا۔ اور وہ تیزی سے سفر کرنے لگی۔ سبز پری، جب اس جگہ پہنچی جہاں نیل پری غائب ہوئی تھی، وہاں اب کچھ نہ تھا۔ وہ دل مضبوط کر کے تھوڑا اور آگے بڑھی، تو ایک چھوٹی چٹان میں سے روشنی پھوٹتی دکھائی دی۔

سبز پری نے دیکھا، چٹان میں بنے ایک طاقچے میں ایک کچھوا آسن جمائے بیٹھا ہے۔ اور اس کے سر پہ ایک خوبصورت تاج بھی چمک رہا تھا۔ اچانک کچھوے نے آنکھیں کھولیں اور سبز پری سے مخاطب ہوا: ’’تمہاری بہن بوڑھی چڑیل کے قبضے میں ہے، اگر تم اس کے گلے میں پڑی پھولوں کی مالا توڑ دو گی تو۔ نیل پری اپنی اصل شکل میں آ جائے گی۔ اور بوڑھی جادوگرنی مر جائے گی۔‘‘

’’آپ کون ہیں؟‘‘ سبز پری نے پوچھا۔

’’میں ملک فارس کا شہزادہ اور بوڑھی چڑیل کا قیدی ہوں۔ اس نے کئی لوگوں اور جانوروں کو قید کیا ہوا ہے۔ اس کے مرتے ہی ہم آزاد ہو جائیں گے، میرے بوڑھے ماں باپ میرا انتظار کر رہے ہیں‘‘

اس کی بات سنتے ہی سبز جل پری نے پھر سے سفر شروع کر دیا۔

اب جنگل اور اندھیرا دونوں گہرے ہو رہے تھے۔ اچانک سبز جل پری کو منتروں کی ہلکی ہلکی گنگناہٹ سنائی دی۔ آواز کا پیچھا کرتے کرتے سبز جل پری ایک غار میں داخل ہو گئی۔

سامنے ہی بوڑھی چڑیل آنکھیں بند کیے ایک منتر پڑھ رہی تھی۔ سبز جل پری خاموشی سے آگے بڑھی اور چڑیل کے گلے میں پڑا پھولوں کا ہار کھینچ کر توڑ دیا۔

بوڑھی چڑیل نے زور دار چیخ ماری اور پانی میں گھلنے لگی۔ سبز پری نے جھپٹ کر سرخ پھول اٹھایا اور غار سے باہر نکل آئی۔ باہر آتے ہی سرخ پھول نیل جل پری میں بدل گیا اور دونوں بہنیں گلے لگ گئیں۔ واپسی کے سفر میں انہیں ایک آدم زاد شہزادہ نظر آیا، وہ بھی جل پریوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ملکہ گل نواز نے دونوں بیٹیوں کو صحیح سلامت دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔ اور زیر آب ملکہ گل نواز کی سلطنت میں کئی روز تک جشن ہوتا رہا۔

٭٭٭

چلاکو ماسی

ایک صاف ستھرے محلے کی، کھلی اور ہوا دار گلیوں کے دونوں اطراف مکانات تھے جن کے صحن کو مٹی گارے سے لیپا گیا تھا اور ان میں لکڑی کے ڈربے بھی بنائے گئے تھے۔ جن میں زیادہ تر مرغیاں، خرگوش وغیرہ رہ رہے تھے۔ یہ مرغیاں ایک ہی جگہ اکٹھی ہو کر دانہ چگتیں، موسم سہانا ہوتا تو باہر گھومنے بھی نکل جاتیں۔ کٹ کٹ کٹاک کی آواز میں، دائیں بائیں سر ہلاتیں باتیں کرتیں۔

ان میں بٹو بی سب سے سیانی مرغی تھی۔ جو تھوڑی عقل مند ہونے کے ساتھ، تھوڑی پڑھی لکھی بھی تھی۔

سلیقہ مند اتنی کہ نئی نئی پوشاکیں بنانے کے ساتھ ساتھ، خود کو سجانا سنوارنا بھی آتا تھا۔

جب بٹو بی تیار ہو کر باہر نکلتی تو اکثر مرغیاں جل بھن جاتیں مگر اس سے کچھ سیکھنا گوارا نہ کرتیں۔

بٹو بی کی کوشش ہوتی کہ باتوں ہی باتوں میں اپنی سہیلیوں کو کچھ سکھائے۔ وہ انہیں سمجھاتی کہ ’’مرغیاں صرف انڈے دینے کے لیے پیدا نہیں ہوئیں بلکہ اللہ نے، ان کو بھی عقل اور سوجھ دی ہے۔‘‘

وہ انہیں صاف ستھری خوراک کھانے کو کہتی اور نالیوں کا پانی پینے سے منع کرتی۔

ایک صبح بٹو بی کا موڈ بہت اچھا تھا۔ سردی بھی زیادہ تھی۔ بٹو بی نے پہلے ٹوتھ برش سے اپنی چونچ کو صاف اور تیکھا کیا۔ پھر چائے کے ساتھ، ہلکا سا دانہ دنکا کھایا۔ خوبصورت فر والے کپڑے پہن کر پروں کو ہئیر برش سے بکھیرا۔

اور گلے کا مفلر درست کرتے، مٹک مٹک باہر کو چل پڑی۔

ساری مرغیاں، ایک کھلی جگہ بیٹھی دھوپ سینک رہی تھیں ان میں سے ایک مرغی، بٹو بی کو دیکھ کر جل گئی اور کہنے لگی: ’’لو اب مرغیاں بھی فیشن کرنے لگیں۔‘‘

’’یہ فیشن نہیں عقل اور ہنر کا استعمال ہے۔ جو چاہے سیکھ لے فائدہ اٹھا لے‘‘۔۔ بٹو بی نے جواب دیا۔

جل ککڑی بولی ’’لو بھلا ہم مرغیاں بھی یہ کام کریں گی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ اللہ نے جانوروں کو بھی عقل سمجھ دی ہے۔ تم مجھ سے سیکھ سکتی ہو۔‘‘ بٹو بی نے جواب دیا۔

’’میں اور تم سے سیکھوں۔ ہونہہ۔‘‘ جل ککڑی بولی۔ اور تمام مرغیاں ناراضگی سے کٹکٹانے لگیں۔

بٹو بی نے یہ حال دیکھا تو اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ کھیل ہی کھیل میں اس نے مرغیوں کو کچھ سکھانے کا فیصلہ کیا۔ اور کہنے لگی: ’’آج ہم مرغیاں مل کر دوڑ لگائیں گی۔ جو جیتے گی۔ آئندہ اسی کی مانی جائے گی۔‘‘

تمام مرغیاں بٹو بی کو نیچا دکھانے کے لیے تیار ہو گئیں۔

مرغیاں ایک قطار میں کھڑی ہو گئیں۔ بٹو بی نے جیسے ہی ون ٹو تھری کہا، سب کی سب دوڑ پڑیں۔ ابھی آدھا راستہ کٹا تھا کہ تمام مرغیاں ہانپنے لگیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ریس چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

بٹو بی نے عقل اور پروں کا استعمال کیا تھا۔ ہلکی سی اڑان بھری اور یہ جا وہ جا۔ سب سے پہلے بٹو بی فنش لائین کراس کر گئی۔

تمام مرغیاں چلانے لگیں۔ ’’چلاکو ماسی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ دوڑنے میں پرندوں کی طرح پروں کا سہارا؟ یہ تو کھلی دھاندلی ہے۔ ہم نہیں مانتے۔‘‘

بٹو بی کٹ کٹ کر کے ہنسنے لگی۔

’’یہ دھاندلی نہیں پروں کا استعمال کا طریقہ ہے۔ ذرا سوچو۔ خدا نے ہمیں پر کیوں دئیے ہیں؟ تاکہ ہم ان سے کام لے سکیں۔‘‘

تمام مرغیوں کے منہ کھلے کا کھلے رہ گئے۔ اب انہیں سمجھ آ رہی تھی کہ خدا نے اپنی تمام مخلوق کو عقل سمجھ دی ہے۔ جس سے کام لے کر وہ خود کو اپنے لئے اور دوسروں کیلئے فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔

اس دن کے بعد تمام مرغیاں بٹو بی کو اپنا لیڈر مان لیا اس کی ہر بات ماننے لگیں۔ صاف ستری رہتیں اور بٹو بی سے ہنر بھی سیکھنے لگیں۔ سچ ہے محنت اور عقل مل کر ہر جگہ کامیاب ہوتے ہیں۔

٭٭٭

وہ گدھا ہی تھا

پورب کی سمت ایک ہرا بھرا جنگل تھا۔ یہ جنگل اتنا گہرا تھا کہ مشکل سے سورج کی کرنیں زمین تک پہنچتیں۔

اسی دھوپ چھاؤں جنگل کے ایک کونے میں سرمئی بابا کی جھونپڑی تھی۔ لمبے بانس کے تنوں اور پتوں والی چھت سے بنی یہ جھونپڑی دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتی۔

سرمئی بابا سارا دن جنگل میں اپنے گدھے کے ساتھ گھوم کر اچھی اور ملائم مٹی اکٹھی کرتا اور شام کو مٹی کو چھان کر پانی سے گوندھ دیتا۔ صبح سویرے جب بابا کی آنکھ کھلتی تو بے شمار خوبصورت مٹی کے برتن تیار ملتے۔ بابا خوش بھی ہوتا اور بڑبڑاتا بھی جاتا۔

’’کمال ہے، بہت خوبصورت۔ تمہارے ہاتھ میں تو جادو ہے۔‘‘

پتا نہیں وہ کس سے باتیں کرتا تھا۔۔ دیکھنے والے کہتے کہ بابا کے پاس ایک بونا جن ہے۔ جو بابا کا دوست بھی ہے۔۔ وہ بابا کے لئے مٹی کے برتن بناتا ہے۔ لیکن وہ بونا جن کبھی کسی کو دکھائی نہیں دیا۔

یہ بات سچ بھی تھی۔ کئی سال پہلے بابا مٹی کی تلاش میں ایک ٹیلہ کھود رہا تھا تو اسے ایک شیشے کی خوبصورت بوتل دکھائی دی۔ بابا مٹی کے ساتھ اسے بھی اٹھا کر گھر لے آیا۔ بوتل کو کھولا تو کوئی چھوٹی سی چیز اچھل کر باہر آ گری۔ بابا نے اسے اٹھا کر ہاتھ پر بٹھا لیا۔ دیکھا تو لمبے کانوں والا ایک چھوٹا سا انسان تھا۔

’’کون ہو تم اور کس نے تمہیں بوتل میں بند کیا ہے؟‘‘ بابا نے پوچھا۔

’’میں بونا جن ہوں، بونوں کا راجہ۔ ہم زمین کے نیچے رہتے تھے۔ ایک چڑیل نے میرے قبیلے پر حملہ کر کے سب کچھ تباہ کر دیا۔۔ اور مجھے اس بوتل میں قید کر دیا۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے باہر نکالا۔‘‘

سرمئی بابا نے بونے کو کھانا کھلایا اور اسے اپنی جھونپڑی میں رہنے کی پیشکش کی۔ بونا سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا۔ ’’ایک شرط پر میں یہاں رک سکتا ہوں کہ آپ کے کام میں مدد کروں گا۔ آپ مٹی اکٹھی کیا کریں گے اور رات میں، مَیں تمام برتن تیار کر دیا کروں گا۔ صبح وہ برتن بیچ کر آپ اپنی گذر بسر کریں گے‘‘

بابا بہت خوش ہوا۔ دونوں مل کر برتن تیار کرنے لگے۔ ایک دن بابا بیمار ہو گیا۔ اب انہیں ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو شہر جا کر برتن بیچ آئے اور کھانا لا دے۔

کچھ دنوں بعد بعد انہیں جنگل میں ایک لکڑ ہارا مل گیا سرمئی بابا نے اسے روک لیا۔

’’بیٹا، رک جاؤ۔ میرا ایک کام کر دو گے؟‘‘

’’جی بابا بتائیں‘‘۔ لکڑہارا بولا

’’میں بیمار ہوں۔ کیا تم میرے برتن شہر جا کر بیچ دو گے۔ جو پیسے ملیں وہ ہم بانٹ لیں گے‘‘ بابا نے لکڑ ہارے کو پیشکش کی۔

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد لکڑ ہارے نے ہامی بھر لی اور شہر جا کر تمام برتن بیچ آیا۔ جتنے پیسے ملے وہ بابا نے اور لکڑ ہارے نے بانٹ لیے۔

روزانہ لکڑ ہارا آتا اور ایک سے ایک بڑھیا اور خوبصورت برتن دیکھ کر حیران بھی ہوتا اور اچھی کمائی کے خیال سے خوش بھی ہوتا۔ اس نے بونے کے متعلق افواہیں سن رکھی تھیں جو بونے کو دیکھ کر سچ بھی ثابت ہو گئیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اب لکڑہارا، بابا اور بونا آپس میں پکے دوست بن گئے تھے۔

ایک دن لکڑ ہارا آیا تو برتن دیکھ کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

برتن ہمیشہ کی طرح خوبصورت تو تھے ہی مگر آج ان کو خوبصورت رنگ بھی لگائے گئے تھے۔ لکڑ ہارے نے لالچ میں آ کر سوچا، اگر میں بونے کو قابو میں کر لوں تو تمام برتن میرے ہو جائیں گے اور پیسے بھی نہ بانٹنا پڑیں گے۔

اس نے برتنوں میں سے ہی ایک صراحی لی اور بونے کو پکڑنے کے لیے جھپٹا۔ بونا اس کی نیت بھانپ گیا۔ اس نے زور سے چٹکی بجائی اور لکڑہارا جادو کے زور سے گدھا بن گیا۔

لکڑہارا اپنی حالت دیکھ کر بہت پچھتایا اور سرمئی بابا اور بونے سے معافی مانگنے لگا۔

بابا نے جواب دیا ’’تمہیں مل بانٹ کر کھانا راس نہیں آیا اور تم لالچ میں پڑ گئے۔ اسی لئے کہتے ہیں لالچ بری بلا ہے‘‘

کبھی گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا تو سرمئی بابا اور بونا جن ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور کہتے۔

بیشک اتفاق میں برکت ہے اور لالچ بری بلا ہے۔

٭٭٭

درخت باتیں کرتے ہیں

جہاں ندی ہوتی ہے وہاں جنگل بھی ہوتا ہے۔ ایک خوبصورت ندی کے قریب ایک قدیم اور وسیع جنگل تھا۔ جنگل میں کچھ درختوں کی عمر سو سال سے بھی زیادہ تھی۔ پرانے درخت بوڑھے اور مہربان تھے۔ ان کی گھنی چھاؤں میں جانور اور راہ گیر سستاتے۔ ان کا پک جانے والا پھل زمین پر ٹپکتا، جس سے گزرنے والے اکثر اپنا پیٹ بھر لیتے۔

گھنے پتوں میں پرندے آرام کرتے اور ان کی محفوظ پناہ میں گھونسلے بناتے۔ تیز بارش میں بوڑھا درخت گھونسلوں کو ڈھانپ لیتا۔ انہیں بارش سے بچاتا۔ جنگلی طوطے، کوّے، کبوتر آتے جاتے، گھڑی دو گھڑی شاخوں پر بیٹھ کر دم لیتے، کچھ اپنی سناتے، کچھ درخت کی سنتے، اس سے بوڑھے درخت کو تمام جنگل کے حالات کا پتہ رہتا۔

کچھ دن پہلے سے ایک بوڑھے درخت کی کھوہ میں ایک خرگوش جوڑا آ کر ٹھہرا، جس کے دو بچے جوجو اور بنٹی تھے۔ خرگوش جوڑے نے پرانے درخت کی جڑ میں بنی ایک قدرتی کھوہ کو اپنا گھر بنایا تھا۔ کچھ تو قدرتی طور پہ وہ سوراخ گہرا تھا۔ کچھ انہوں نے اپنے پیروں سے کھود کھود کر نرم اور بڑا کر لیا تھا۔ ماں باپ ان کے لئے کھانا ڈھونڈنے جاتے تو بوڑھا درخت ان بچوں کا خیال رکھتا انہیں بہلاتا، اپنے پھل کھلاتا۔

ایک دن ان کے ماں باپ کھا نا ڈھونڈ نے نکلے تو واپس نہیں آئے۔ دونوں بچے ایک بڑے درخت کی کھوہ میں منہ جوڑے بیٹھے تھے۔ ان کی خوبصورت لال آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔ باہر ہوا چلنے سے ہلکا سا پتہ بھی کھڑکھڑاتا تو اور ڈر کر دبک جاتے۔ اس رات وہ دونوں بہت اکیلے تھے۔

سارا دن گزرا پھر رات بھی گزر گئی مگر بنٹی اور جوجو کے ماما پاپا نہیں آئے۔ پھر کئی دن گزر گئے۔ اب بوڑھا درخت بھی پریشان رہنے لگا۔ جب اسے سُن گُن ملی کہ جنگل میں کچھ شکاریوں نے جال لگائے تھے اور جانوروں کو پکڑ کر ساتھ لے گئے وہ سمجھ گیا کہ ان کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے۔

دن گزرتے گئے۔ بچے اب بڑے ہو رہے تھے۔ وہ درخت کی شاخوں پر کھیلتے کودتے، اس کا پھل کھاتے۔۔ درخت پہ جوجو اور بنٹی کو کھیلنے کے لئے کچھ اور دوست بھی مل گئے۔ ان میں چڑیا، کبوتر طوطا اور کوا اکثر ان کے لئے مختلف پھل لاتے۔ ان سے باتیں کرتے۔ تسلی دیتے۔ یونہی دن گذرتے گئے۔ خرگوش بچے اب کافی بڑے ہو گئے تھے۔

ایک دوپہر ایک آدمی درخت کے پاس آیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس نے ایک بھاری کلہاڑا بھی اٹھا رکھا تھا۔ اس نے درخت کو ٹھوک بجا کر دیکھا اور خوش ہو کر بولا ’’لکڑی تو بہت مضبوط ہے، میرا گھر بھی اچھا بن جائے گا اور جلانے کے لئے بھی خوب لکڑی ملے گی۔‘‘

بوڑھا درخت کانپ گیا۔ اسے ان تمام جانوروں اور پرندوں کی فکر ہوئی جن کا وہ خیال رکھتا تھا۔ درخت کے دوستوں میں سے صرف چڑیا درخت پہ تھی وہ اڑ کر بھاگ گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ آدمی درخت پہ کلہاڑا چلاتا۔۔ کہیں سے بہت سے کوے اور دوسرے پرندے آ گئے اور لکڑہارے کے سر پر منڈلانے لگے۔ کائیں کائیں۔ چوں چوں کی تیز آوازوں سے انہوں نے لکڑہارے پر حملہ کر دیا۔ وہ اپنے پنجوں اور چونچوں سے لکڑہارے کو ٹھونگ رہے تھے۔ شور سن کر خرگوش کے بچے باہر نکلے اور معاملے کو سمجھتے ہی انہوں نے لکڑہارے کی ٹانگوں کو اپنے تیز دانتوں سے کاٹنا چاہا۔ لکڑہارے نے یہ ماجرا دیکھا تو خوفزدہ ہو کر بھاگ گیا۔

تمام جانوروں اور بوڑھے درخت نے سکون کی سانس لی۔

بنٹی اور جوجو بوڑھے درخت کی شاخوں پر اچھلنے اور کودنے لگے۔ انہیں کھیلتے دیکھ کر بوڑھا درخت بھی خوش ہو گیا۔ سب نے سکون کا سانس لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ان کے گھر اور دوست کو بچا لیا۔

بچو! درختوں کی مدد بھی کریں اور ان کی قدر بھی کریں۔ یہ بہت خاص اور مہربان ہوتے ہیں۔

٭٭٭

مینی سے مانو

مانو نے ہلکی سی انگڑائی لے کر کروٹ بدلی تو ٹینی اور چنٹو بھوک سے بے چین ہو کر چیاؤں چیاؤں کر رہے تھے۔ مینی بھی اٹھ گئی تھی۔ مانو نے خود کو موڑ کر تینوں بچوں کو اپنی گود میں لے لیا تو مینی نے ماں کے سینے میں منہ چھپا کر سکون سے آنکھیں موند لیں۔

مانو نے اپنی دُم سے بچوں کو ہلکے ہلکے تھپکنا شروع کر دیا۔

مانو ایک گولڈن براؤن اور سفید بالوں والی بلی تھی ٹینی مینی اور چنٹو اس کے تین بچے تھے۔ مینی تھوڑی بڑی تھی۔ ٹینی اور چنٹو جڑواں اور چھوٹے تھے۔ ایک پرانے گودام کے کاٹھ کباڑ کے پیچھے ان کی رہائش گاہ تھی۔ رات کو اگر ہلکا سا بھی کھٹکا ہوتا تو مانو شیرنی کی طرح تینوں کو دبوچ لیتی۔ کسی انہونی کا احساس ممتا کو سہما دیتا۔۔

مینی بڑی ہو رہی تھی، وہ اب ماں کے ساتھ اکثر کھانا ڈھونڈنے نکل جاتی۔ مانو اسے گھروں کی دیواریں اور سیڑھیاں پھلانگنا سکھا رہی تھی تینوں بچوں نے خوبصورتی اور معصومیت اپنی ماں سے چرائی تھی۔ مینی اب اتنی سمجھدار ہو چکی تھی کہ راہ چلتے پیش آنے والے جھگڑوں کو سمجھنے لگی تھی۔ وہ دونوں اکثر آبادی کی طرف نکل جاتیں اور کہیں نہ کہیں انہیں اپنے حصے کا رزق مل ہی جاتا۔ جو اکثر گری پڑی بوٹی، تازہ چھیچھڑے، اور کبھی کبھار کسی بدنصیب چوہے پر مشتمل ہوتا۔ زندگی پرسکون گزر رہی تھی کہ ایک دن اکیلی گئی ہوئی مانو لاپتہ ہو گئی۔

صبح سے شام اور پھر رات بھی ہو گئی مگر مانو نہیں آئی۔ مینی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اسے کچھ کچھ سوجھ رہا تھا کہ ماں کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔ اس خیال سے ہی اسے کپکپی آ گئی کہ مانو نے اسے بتایا تھا کہ ظالم بلے، بلیوں کو حاصل کرنے کے لیئے انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اگر بچے ہاتھ لگ جائیں تو ان کو مار بھی دیتے ہیں۔

اس آگاہی کے باوجود وہ ٹینی اور چنٹو کو کچھ نہیں بتا سکی وہ بہت چھوٹے تھے۔ اور ساری رات بھوک سے بلک رہے۔ وہ کبھی بہن بھائیوں کی طرف دیکھتی، کبھی کھلے روشندان کی طرف، جہاں رات آہستہ آہستہ بھیگ رہی تھی۔

صبح ہونے تک اس نے کئی بار سوچا کہ باہر جائے مگر اکیلے جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ بالآخر بھوک جیت گئی۔ ٹوٹی پھوٹی لکڑیوں اور چیتھڑوں کی اوٹ میں انہیں چھپا کر وہ چھوٹے بہن بھائی کے لیے کھانے کی تلاش میں نکل پڑی۔

دھوپ چھاؤں میں چلتے چلتے، تھڑوں کی اوٹ میں چھپتے چھپاتے، آخر کار وہ اس رحم دل قصاب کی دوکان تک پہنچ ہی گئی۔ جو اکثر ماں بیٹی کو چھیچھڑے ڈال دیا کرتا تھا۔ بھوک اور امید سے بے حال مینی پہ قصاب کی نظر پڑی۔

ایک پل کے لیے دونوں کی آنکھیں ملیں، قصاب نے مانو کی تلاش میں نظر دوڑائی اور جیسے مایوس ہو کر ایک بڑا چھیچھڑا، مینی کی طرف پھینکا۔

مینی نے شکر گزار نظروں سے چھیچھڑا دبوچا اور واپسی کی راہ لی۔ ابھی آدھا راستہ بھی طے نہ ہوا تھا کہ اسے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ لرزاں دل کے ساتھ، نظر اٹھائی تو دوکالے، بھدے اور خوفناک بلوں کو للچائی نظروں سے خود کو تاڑتے پایا۔

شکار بھی ہو، شکار کے منہ میں شکار بھی ہو۔ اور وہ اُسے کیسے جانے دیتے۔؟ یہ کب ہوا ہے!

دونوں بلے، مینی کی طرف لپکے، مینی گھبرا کے ایسے بھاگی، کہ زندگی بھر یوں نہ بھاگی ہو گی۔ ٹریفک اور آتے جاتے لوگوں کا شور بھی اس کی دوڑ کو کم نہ کر سکا۔ کانوں میں صرف بدمعاش بلوں کی غراہٹ گونج رہی تھی۔

خوفناک بلوں سے بچ کر آخرکار وہ گودام تک جا پہنچی۔

ٹوٹے روشن دان کے باہر لمحہ بھر سانس بھرتے، اندر کی سن گن لی۔ اور کائنات کی پیاری ترین آوازیں سنتے ہی، تمام خدشے ہوا ہو گئے۔

رات کو مینی نے بچا کھچا چھیچھڑا کھا کے اپنے بہن بھائی کو اپنی آغوش میں لپیٹا۔ اور سکون کی گہری سانس لی، دل میں اداسی اور آنکھوں کی نمی میں ماں کا عکس بھر کے اس نے پلکیں موند لیں۔

مینی، اب مانو تھی۔

اسے کل پھر رزق ڈھونڈنے جانا تھا

اس وقت تک، جب تک مانو کی طرح کھو نہیں جاتی۔

٭٭٭

ملکہ سونم

کئی سو سال پہلے کا ذکر ہے، جب زمین پر اتنی آبادی نہیں تھی۔ لوگ کم تھے، پیڑ، پھول، پودے، جانور، پرند اور چرند زیادہ تھے۔ پہاڑوں کے درمیان، ہر طرف گھنے جنگل پھیلے تھے۔ اس جنگل کے بیچوں بیچ ایک بادشاہ شاہان کا سنہری محل تھا، جب سورج جاگتا اس کی کر نیں محل کو اور سنہرا کر دیتیں۔ محل کے چاروں طرف بسے جنگلات پر شاہان کی حکومت تھی۔ شاہان بادشاہ جنگل میں بسنے والی تمام مخلوق کی زبان جانتا تھا۔ یہ علم اس نے اپنی بیٹی سونم کو بھی سکھایا۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی لاڈلی بیٹی سونم اسی خصوصیت کی وجہ سے اس کی جانشین بنی تھی۔

ملکہ سونم اتنی خوبصورت تھی کہ جانور بھی اسے دیکھ کر مسحور ہو جاتے۔ سورج کی روشنی میں اس کی آنکھوں کا رنگ کبھی نیلا لگتا، کبھی بلوری اور کبھی کرنچی۔ صبح جب وہ اپنے پالتو موروں کے ساتھ جھیل کنارے سیر کرتی اور کبھی تھک کر پانی پر اپنے بال پھیلا دیتی تو پانی میں تیرتی مچھلیاں اسے دیکھنے رک جاتیں۔ ملکہ سونم کے سنہرے تخت میں نیلم اور سرخ یاقوت جڑے تھے۔ ان پر صبح کی روشنی پڑتی تو کمرے میں ایک طلسم سا پھیلتا۔ اس کا پیارا مور ’’مینو‘‘ اس کے سرہانے آ بیٹھتا اور اپنی چونچ میں ایک قطرہ پانی بھر کر ملکہ کے رخسار پر ٹپکاتا اور ملکہ جاگ جاتی۔ اس طلسماتی ماحول میں ملکہ اور رعایا کی زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ ہر جنگل پر ایک ببر شیر وزیر مقرر تھا۔ سدھائے ہوئے جانوروں کی ایک فوج اس مملکت کی حفاظت کرتی۔

جہاں خیر ہو وہاں شر بھی ہوتا ہے۔ کئی دنوں سے ملکہ کی مشیر خاص اور پیغام رساں لومڑی بی محل میں آ جا رہی تھی۔ اطلاع تھی کہ پورب والے جنگل میں، کچھ بھیڑیے معصوم جانوروں کو کھا رہے ہیں۔ ملکہ کو مسلسل شکایات ملنے لگیں۔ جنگل کا فوجی دستہ انہیں ابھی تک پکڑ نہیں پایا تھا۔

سونم ملکہ کو بہت غصہ آیا۔ اس نے اپنے تربیت یافتہ بندروں کو جاسوسی کے لئے بھیجا۔ جب بھیڑیوں کا پتہ ٹھکانا معلوم ہو گیا تو ملکہ نے وزیر مملکت ببر شیر کو بھیجا کہ بھیڑیوں کو گرفتار کر لائے۔ ایک گھمسان کی جنگ کے بعد ببر شیر نے بھیڑیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے دن جب ملکہ دربار میں پہنچی، شیر ببر نے دھاڑ کر ملکہ کی آمد کا اعلان کیا۔ جب ہر طرف خاموشی چھا گئی تو کوئل نے اپنی مدھر کوک میں حمد و ثنا بیان کی۔ بھیڑیوں کوملکہ کے حضور دربار میں پیش کیا تمام جانور دربار میں موجود تھے۔۔ بھیڑیے ملکہ کو دیکھ کر غرانے لگے تو اسے بہت غصہ آیا۔۔ ملکہ بولی ’’تم نہیں جانتے ہماری مملکت میں جانوروں کو مارنا گناہ ہے پھر بھی تم سب نے اتنے جانور ہلاک کر دیے۔ تمہاری اتنی جرات! معصوم جانوروں کو مارنا کہاں کی بہادری ہے!‘‘

تو بھیڑیوں نے اکڑ سے جواب دیا۔ ’’ملکہ عالیہ، گوشت ہماری خوراک ہے۔ ہم گھاس پھوس نہیں کھا سکتے، یہ ہماری فطرت ہے۔‘‘

اس جواب پر ملکہ نے دل میں سوچا کہ بھیڑئیے کہہ تو ٹھیک رہے ہیں مگر انصاف کا تقاضہ ہے کہ جنگل میں امن و امان قائم رکھا جائے۔۔ اور ہر حال میں انصاف ہونا چاہیے۔ ملکہ نے حکم دیا اور بھیڑیوں کو تمام عمر کے لئے قید خانے میں ڈلوا دیا۔ اور ان کو گھاس پھوس سبزیاں کھلانے کی ہدایت کی۔

جب بھیڑیوں نے یہ سزا سنی تو معافی مانگنے لگے۔

مگر ملکہ نے ایک نہ سنی اور ان کو قید میں ڈلوا دیا۔ تا کہ اس سے تمام جانوروں کو بھی سبق ملے کہ انصاف ہمیشہ طاقتور قائم کرتا ہے۔

سنا ہے اس کے بعد اس جنگل میں بھیڑیوں کی کئی نسل سبزیوں پہ پلتی رہیں۔

٭٭٭

گھنٹی بابا

ٔ

زیادہ سمے پہلے کی بات نہیں، بس یہ نوٹوں کا جنجال نہیں تھا۔ ایک پھیری والا، اپنی بیل گاڑی پر سوار گاؤں میں داخل ہوا۔ بیل سبک رفتاری سے چل رہا تھا اور اس کے گلے میں پڑی گھنٹی کی مد ھر ٹن ٹن، گاؤں والوں کو اُس کی آمد کا بتا رہی تھی۔ گاؤں والے، اکثر پرانے برتن، کپڑے اور اناج وغیرہ دے کر تبادلے میں ضرورت کی اشیاء لے لیتے تھے۔ سب اسے گھنٹی بابا کہتے تھے۔

گھنٹی بابا کے برتن دیکھنے میں خاص لگتے اور دیر تک چلتے۔

شیخو کی بیوی، کئی دنوں سے، گھر کی ٹوٹی پھوٹی بیکار چیزیں سمیٹ کر، اس پھیری والے کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس نے بھاگ کر پھیری والے کو آواز دی۔ اس کے رکتے ہی، اندر سے سامان کی گٹھڑی لا، دروازے میں رکھی۔ اور بولی، ’’بابا! اس سامان کے بدلے مجھے کچھ برتن دے دو۔‘‘

بابا پراسرار طریقے سے مسکرایا۔

’’کیا لو گی بٹیا؟‘‘

شیخو کی بیوی نے بیل گاڑی میں نظر ڈالی تو سارے برتن ہی خوبصورت تھے۔ اس نے کھانے کے لیے تھال اور ایک صراحی لی۔ بابا نے اسے دعا دی۔

’’دودھوں نہاؤ۔ پوتوں پھلو۔‘‘ اور آگے بڑھ گیا۔

شیخو کی بیوی نے خوشی خوشی کھانا پکا کر نئے برتنوں میں شیخو کو پیش کیا۔ دونوں نے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی کھا نا بچ گیا۔ اس کی بیوی برتن مانجھنے بیٹھی تو صراحی کو تھوڑا سا رگڑا ہو گا، کہ اس میں سے سفید دھواں نکلا۔ جس نے ایک جن کی شکل اختیار کر لی۔

’’کیا حکم ہے میری آقا؟‘‘ جن بولا

دونوں گھبرا گئے۔ شیخو بولا۔ ’’کون ہو تم؟‘‘

’’میں اس صراحی کا جن شومان ہوں۔ آپ جو حکم کریں، میں پورا کروں گا‘‘

شیخو کی بیوی حیران بھی ہوئی اور خوش بھی۔ وہ برتن چھوڑ چھاڑ، پلنگ پر جا کر لیٹ گئی اور بولی۔ ’’اے شومان جن! یہ سب برتن دھو دو۔ اور گھر صاف کرنے کے بعد، ہمارے پاؤں بھی دبا دو۔ اور صبح، میرے اٹھنے سے پہلے، عمدہ سا ناشتہ تیار رکھنا۔‘‘

’’جو خکم میری آقا۔‘‘

شومان نے منٹوں میں سارا کام نمٹایا۔ اور باری باری ان کے پاؤں دبانے لگا۔ شیخو کو بھی بڑا مزا آ رہا تھا۔ جب وہ صبح اٹھے تو مزے کا ناشتہ تیار تھا۔ جو خوب مزے لے لے کر کھایا گیا۔ شومان نے شام تک گھر کے سارے کام کیے، کپڑے دھوئے اور جنگل سے لکڑیاں بھی کاٹ لایا۔

شیخو کی بیوی، کبھی جنگل سے پھل لانے کا کہتی، کبھی جو بور ہو جاتی تو کہتی ’’مجھے ناچ کر دکھاؤ۔‘‘

رفتہ رفتہ، جن تھکنے لگا، اس نے سوچا، ’’میں کہاں پھنس گیا ہوں‘‘ اُسے شیخو کی بیوی پر غصہ بھی آتا۔ اب کوئی کام کہتی تو بڑبڑانے لگتا-

شیخو جن کی یہ حالت دیکھ کر اسے اور چڑاتا، ’’تم جن ہو اور اس طرح کے کام کرتے ہو۔ تم نے میری بیوی کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ پہلے وہ دبلی پتلی اور خوبصورت تھی۔ اب وہ چڑچڑی اور جھگڑالو ہو گئی ہے۔‘‘

’’میرے آقا، میں آپ کا کام بھی کر دوں گا۔ آپ حکم تو کریں۔‘‘ جن شیخو کو پسند کرتا تھا۔ ’’نہیں، بہت شکریہ، میں اپنا کام، اپنے ہاتھ سے کرنے کا عادی ہوں۔‘‘

ایک روز شومان نے روتے ہوئے شیخو کو بتایا

’’میرے آقا، میں مجبور ہوں، میرے بھی بیوی بچے ہیں، جنہیں دیکھے کتنے سال بیت گئے ہیں، گھنٹی والے بابا نے مجھے میری بد تمیزی پہ اس صراحی میں قید کر دیا تھا اگر آپ اس صراحی کو توڑ دیں۔ تو میں آزاد ہو جاؤں گا۔‘‘

شیخو نے کہا، ’’ایک شرط پہ میں تمہیں آزاد کروں گا کہ تم کبھی کسی کو تنگ نہیں کرو گے ,بلکہ مشکلات میں پھنسے لو گوں کا بھلا کرو گے۔‘‘

جن نے وعدہ کیا تو شیخو نے صراحی کو توڑ دیا، جن غائب ہو گیا۔ شیخو کی بیوی نے اس پہ چلّانا شروع کر دیا۔ شیخو نے اسے سمجھایا کہ میرے پاس بھی ایک جن ہے بلکہ تمھارے پاس بھی ہے۔ اگر تم محنت اور لگن سے کام لو گی تو تم بھی خوش رہو گی اور دیکھنے والے بھی تمھاری تعریف کریں گے۔

شیخو کی بیوی کے پاس اس کی بات ماننے کے علاوہ دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔

تھوڑے ہی عرصے میں وہ پھر سے پہلے جیسی محنتی اور اسمارٹ ہو گئی۔ شیخو بھی خوش۔ اس کی بیوی بھی خوش۔

٭٭٭

ماخذ: فیس بک اور مکالمہ ویب سائٹ

https://www.mukaalma.com/?s=%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%B9%DB%81+%D8%B3%D9%84%DB%8C%D9%85

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل