FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

پیش رو شاعرات اور اثبات ذات کی روایت

 

 

 

               شاہدہ حسن

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

               ماخذ: پاکستانی ادب کے معمار: ادا جعفری: شخصیت اور فن از شاہدہ حسن

 

 

 

 

 

عہد جدید کی سماجی اور فکری زندگی میں آج دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں نے عورت کے ذہنی وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب عورت کا مسلسل اپنی فہم و فراست، علمی آگہی اور خدا داد صلاحیتوں کی بنیاد پر کیے ہوئے عملی مظاہروں کے ذریعے اعتماد قائم کرنا ہے۔ عہد حاضر کی قابل ذکر دانش گاہوں اور جامعات میں Women’s Studiesسے متعلق شعبہ جات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں نسائی شعور کے تاریخی ارتقاء کا جائزہ لینے کے لیے اہم مطالعات کیے جا رہے ہیں جن میں مختلف زبان و ادب کے حوالے سے عہد بہ عہد خواتین قلم کاروں کی تحریروں کے تجزیے اور تنقیدی جائزے شامل ہیں۔ گویا عورت کے فکر و شعور، اس کے جذبات و احساسات اور بحیثیت مجموعی نسائی جمالیات کی نوعیت کو پرکھنے کے لیے عورت کی ذات کے اثبات کا سلسلہ جاری و ساری ہے لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ یہ مطالعات، انسانی معاشرے کے بارے میں ہماری آگہی میں خاطر خواہ اضافہ کا سبب بن سکیں گے۔

جدید فرانسیسی نسائی نقاد ” ژولیا کرسٹیوا” نے جو فیمنزم یعنی ” نسائی تحریک” کی ایک اہم رکن ہیں، خواتین کی تحریروں کے خصوصی مطالعے کے حوالے سے اپنے نظریات بہت واضح طور پر پیش کیے ہیں اور عورت کے وجود اور اس کی شناخت پر زور دیتے ہوئے معاشرے کی نمو پذیری میں مرد اور عورت کے باہمی رشتوں کے حوالے سے ان کے جداگانہ تشخص کی اہمیت کو تسلیم کیے جانے پر خصوصی اصرار کیا ہے۔

ایک اور جدید نسائی نقادBell Hooksنے کہا ہے کہ عورت یقیناً ایک وجود یعنی Subjectہے کوئی ” شے” یعنی Objectنہیں ہے۔ اور وجود کو شے پر اسی بنیاد پر برتری حاصل ہوتی ہے کہ وجود اپنی ذاتی سچائیوں کو خود بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہے جبکہ اشیاء محتاج اور بے زبان ہوتی ہیں اور ان کی حقیقت کوئی اور بیان کرتا ہے۔ اور اس ضمن میں یہ اختیار بھی رکھتا ہے کہ وہ اس کی اہمیت کا تعین اپنی مرضی اور منشاء سے کرے۔

یہ جدید خیالات آج کے عہد کی علمی آگہی اور اس کی بخشی ہوئی روشن خیالیوں کا تحفہ ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم مختلف معاشروں کا جائزہ لینا شروع کریں تو سر زمین مغرب اور سر زمین مشرق کی روایات، تہذیب و تمدن اور ان کے ارتقاء کے تناظر میں آج کی اس منزل تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی طویل جدوجہد کے نشانات واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ آج دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بات عورت اور مرد کے امتیاز کے بغیر ہونے لگی ہے اور عورتوں کی زباں بندی بڑی حد تک ختم ہو کر، تخلیقی اظہار کے مختلف پیرایوں میں سامنے آ رہی ہے، جس سے ایک بہتر نظام نو کی تشکیل کی سمتیں واضح ہونی شروع ہو چکی ہیں۔ ایسے میں مشرق کی ادبی روایت میں بھی، عورتوں کے جرأت مندانہ اظہار کی اہمیت از سر نو تسلیم کی جا رہی ہے۔

اٹھارہویں صدی میں مغرب میں عورتوں کی حق رائے دہی کی تحریک ” Sufferage” نے ان کے شعور کو جگانے اور عورت کو اپنے جذبات و خیالات کے آزادانہ اظہار پر مائل کر کے تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا تھا۔ سرزمین مشرق کی طرف نظر اٹھائیں تو انیسویں صدی کے ایران کی عظیم الشان شاعرہ ” قرۃ العین طاہرہ” سے ملاقات ہوتی ہے۔قراۃ العین طاہرہ، جن کا اصل نام زریں تاج تھا، ایک ایسے ماحول کی پروردہ تھیں جہاں فنون لطیفہ کا چراغ، تنگ نظر ملاؤں کے ہاتھوں تقریباً بجھ چکا تھا۔ طاہرہ نے ایرانی معاشرے کے مروجہ مذہبی خیالات سے روگردانی کی جرأت کی اور اپنے روحانی عشق کے حوالے سے ادب و شعر میں اپنے دلی جذبات کے اظہار کی معراج تک جا پہنچیں اور یوں اپنا جداگانہ تشخص قائم کیا۔

ہندوستانی معاشرہ کی سمت نظریں اٹھائیں تو اندازہ ہو گا کہ دنیا بھر میں عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے حوالے سے جو تحریکیں چل رہی تھیں، انہوں نے ہندوستانی معاشرہ پر بھی بھرپور اثر ڈالا تھا۔ 1857ء کے بعد ہندوستان میں اگرچہ سرسید اور ان کے رفقائے کار نے اپنی کوششوں کی بدولت، بالعموم مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے تھے مگر تعلیم نسواں کے خصوصی حوالے سے سب سے زیادہ مخلصانہ جدوجہد ” خواجہ الطاف حسین حالی” کی سامنے آئی۔ انہوں نے شد و مد سے عورتوں کی ترقی اور تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی۔ ان کی نظم ” چپ کی داد” میں عورتوں کی عظمت و اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔ اور ان کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں پر زبردست احتجاج موجود ہے۔ یہ ایک پدرسرانہ معاشرہ میں سچ کی اہمیت کو اجاگر کرنے والے ایک مرد کی آواز تھی۔ گویا مسلمانوں میں حالی نے تحریک نسوں کی ابتدا کی۔ جب وہ یہ کہہ رہے تھے:

 

اے ماؤ بہنو بیٹو، دنیا کی زینت تم سے ہے

ملکوں کی بستی ہو تم ہی، قوموں کی عزت تم سے ہے

 

نیکی کی تم تصویر ہو، عفت کی تم تدبیر ہو

ہو دین کی تم پاسباں، ایماں سلامت تم سے ہے

 

فطرت تمہاری ہے حیا، طینت میں ہے مہر و وفا

گھٹی میں ہے صبر و رضا، انسان عبارت تم سے ہے

 

تو دراصل وہ ان ہندوستانی عورتوں کی حالت زار کو اجاگر کر رہے تھے جنہیں سماج میں تہذیب و دین کے مروجہ اصولوں کا پابند بنا کر اس بہانے ان کے بے شمار حقوق سلب کیے جا رہے تھے:

حالی مزید کہتے ہیں :

 

کی تم نے اس دار المحن میں جس تحمل سے گزر

زیبا ہے گر کہیے، ہے تم سے حرمت نوع بشر

 

دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب

تم پر مبادا علم کی پڑ جائے پرچھائیں کہیں

 

نظم ” بیوہ کی مناجات” میں بھی حالی نے بیوہ عورتوں کی زندگی کی تمام تر محرومیوں اور نا آسودگیوں کا تذکرہ کھل کر کیا ہے:

 

دولہا نے جانا نہ دلہن کو

دلہن نے پہچانا نہ سجن کو

 

دل نہ طبیعت، شوق نہ چاہت

مفت لگائی، بیاہ کی تہمت

 

شرط سے پہلے بازی ہاری

بیاہ ہوا اور رہی کنواری

 

بیسویں صدی کے ابتدائی زمانے ہی سے ہندوستانی خواتین نے تعلیمی اور تخلیقی کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اور تہذیب نسواں خاتون اور عصمت جیسے رسائل میں چھپنا شروع کر دیا تھا۔ ان رسائل کے ذریعے اس دور کی خواتین قلم کاروں نذر سجاد حیدر، شائستہ اکرام اللہ، صغریٰ ہمایوں، بیگم سہروردی، اور شاعرات میں ز۔ خ۔ ش۔ صفیہ شمیم ملیح آبادی، نوشابہ قدوائی، ذکیہ سلطانہ، حیا لکھنوی، رابعہ پنہاں اور بلقیس جمال جیسی شاعرات کے نام سامنے آنے لگے۔ اور وہ جو اقبال نے عورت کے حوالے سے کہا تھا:

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں تو یہی شعلہ ذات اپنے تمام تر جوہر کی نمود کے ساتھ، اپنے ذہنی وجود پر دلالت کرنے والی عورت کا گواہ بن گیا۔ ادا بدایونی کا کلام بھی انہی رسائل کے ذریعے متعارف ہوا۔ مگر ان کا زمانہ ترقی پسند تحریک کے اثرات کا زمانہ تھا۔ ان کی پیش رو شاعرات کا مطالعہ ہم دو واضح طرز احساس اور طرز اسلوب کے امتیاز کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ شاعرات کا ایک طبقہ تو وہ تھا جنہوں نے شعر و ادب میں مردوں کے نام سے شمولیت اختیار کی۔ اگرچہ انگریزی ادب میں جارج ایلیٹ اور برانٹے سسٹرز کی ابتدائی تحریریں بھی اسی انداز کی تھیں مگر مغرب کی ان اہل قلم خواتین نے مردانہ ناموں سے اس لیے لکھا تھا:

” عورتوں کے اصلی ناموں کی وجہ سے ان کی تحریریں قابل اعتنا اور قابل اشاعت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ مگر مشرقی ادب خصوصاً اردو ادب میں ایسی اہل قلم خواتین کی تحریروں میں جنہوں نے مردانہ ناموں سے لکھا، ا پنی ذاتی سچائیوں اور انفرادی تجربات کے بیان کے ذریعے اپنے وجود کی شناخت قائم کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ان میں سے زیادہ تر نے عمومی اظہار کے ذریعے یا تو محض زبان و بیان کے کمالات دکھانے پر اکتفا کی ہے یا شاعری کے نام پر محض روایتی مضامین قلم بند کر دیے ہیں اگر کسی شاعرہ نے نسوانی نام اختیار بھی کیا تو لہجہ مردانہ رکھا۔”

مگر اسی کے ساتھ شاعرات کا دوسرا طبقہ بھی موجود تھا جن میں شامل اہل قلم خواتین اگرچہ صرف چند تھیں مگر انہوں نے اپنے خاص طرز احساس کے ساتھ اپنی انفرادیت کے تاثر کو اجاگر کیا اس فرق کو ہم دو مختلف شاعرات کے شعری نمونوں کے تقابل کے ذریعے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں :

” 1929ء میں نیرنگ خیال میں مولوی تمکین کے شائع شدہ ایک مضمون کے ذریعے ہماری ملاقات لکھنو کی ایک پردہ نشین شاعرہ سے ہوئی ہے۔ ان کا نام شمس النساء اور تخلص شرم تھا۔ ان کے دیوان پر تبصرہ کرتے ہوئے، مولوی تمکین نے ان کی زبان و بیان، طرز ادا، سلاست و روانی کے باب میں لکھا ہے کہ یہ شاعری کسی مرد کی شاعری سے قطعی مختلف نہیں۔”

ان کے شعری نمونے ملاحظہ ہوں :

 

کرتا ہوں کب بیان میں وعدہ خلافیاں

سچے اجی تمہیں سہی، جھوٹے ہمیں سہی

 

پھر لکھنو شہر کی محبت میں لکھتی ہیں :

 

حکم اختر نہ رہا، حکم نصاریٰ کا ہوا

آج کل ہم نے نئی طرح کا ساماں دیکھا

غیر سے خالی ہے گھر اب ہم ہیں اور دلدار ہے

شرم ہم ہیں صورت پروانہ، صاحب خانہ شمع

 

تشبیہیں اس انداز کی ہیں :

 

صانع عالم نے نیلم جڑ دیا الماس میں

شرم یہ مسی کی ریخیں اس کے دنداں میں نہیں

 

اپنی پردہ نشینی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

تابہ دروازہ بھی ہم جا نہیں سکتے افسوس

اے خوشا بخت پہنچتے ہیں جو دیوار کے پاس

 

یا پھر یہ اشعار:

آج تک چشم فرشتہ نے بھی دیکھا نہیں شرم

مہر کی طرح سے ہاں نام ہے روشن اپنا

 

مگر اس پردہ داری میں بھی شرم کی شاعری میں ایک عورت کا لہجہ چھپائے نہ چھپا۔

 

اس کی بھی کچھ لڑائی ہے اتنا برا نہ مان

ہم خوبرو نہیں نہ سہی تو حسیں سہی

 

یوسف عزیز تھا جو زلیخا نہ کہہ سکی

ہوں گی شکایتیں سر بازار آپ کی

 

لیکن ان شعری نمونوں سے گزر کر جب ہم بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ز۔ خ۔ ش، (زاہدہ خاتون شیروانی) کے شعری اظہار کا مطالعہ کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ز۔ خ۔ ش، کی شاعری میں اپنے عہد کا سماجی اور فکری شعور بہت واضح اور جاندار تھا۔ ز، خ۔ ش 1894ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ یکم مارچ1914ء کو علی گڑھ کے زنانہ کالج کے ہوسٹل کی افتتاحی تقریب کے موقع پر انہوں نے صرف اپنی 19, 20سال کی عمر میں ایک سپاسنامہ پڑھا جسے سن کر شعری اظہار پر ان کی گرفت کا بخوبی اندازہ وہ گیا۔ 1915ء میں ز۔ خ۔ ش نے ایک طویل مسدس آئینہ حرم کے عنوان سے قلم بند کیا اس مسدس میں عورتوں کو اپنے حقوق طلب کرنے اور ان میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے حوالے سے اک جوش اور ولولہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ز۔ خ۔ ش چونکہ علامہ اقبال کے انداز کلام اور پیغام عمل سے بہت متاثر تھیں اس لیے ان کے شعری نمونوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس اثر پذیری کے نتیجے میں ان کے کلام میں ایک واضح فکر کا احساس ہوتا ہے۔

 

ڈاکٹر کہتے ہیں در کھولو، ہوا آنے دو

سنگدل کہتے ہیں ہرگز نہیں، مر جانے دو

 

خود بھلے بنتے ہیں اوروں کو برا کہتے ہیں

ناقص العقل ہمیں یہ عقلا کہتے ہیں

 

پر دغا کہتے ہیں بے مہر و وفا کہتے ہیں

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا کہتے ہیں

 

ان کو رہ رہ کے ستاتا ہے یہ بے اصل خیال

گھر میں پڑھ لکھ کے خواتین کا رکنا ہے محال

 

کہیں اٹھے نہ مساوات کا غم خیز خیال

کہیں ہو جائے نہ مردوں کی حکومت کا زوال

 

ز۔ خ۔ ش نے مسلمانوں کے عہد عروج کے حوالے سے ان مسلمان خواتین کا بھی تذکرہ کی اہے جنہوں نے اپنی اعلیٰ دینی خدمات کی بدولت، قابل قدر کارنامے سر انجام دیے تھے۔

 

ہم تھے اس عہد ہمایوں میں نہ یوں مشق ستم

بے دل و روح اندھا دھند نہ کہلاتے تھے ہم

 

قفس خشت میں گھٹ گھٹ کے نکلتا تھا نہ دم

ہم نے کھائی تھی نہ یوں گھر سے نکلنے کی قسم

 

عضو مفلوج کی مانند نہ بیکار تھے ہم

قصر اسلام کی تعمیر میں معمار تھے ہم

 

اس کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتنی کم عمری میں بھی ز۔ خ۔ ش، جیسی شاعرہ کی تاریخ دانی اور مختلف تہذیبی ادوار کے متعلق ان کا مطالعہ اتنا وسیع تھا جس نے انہیں اپنے سماج اور معاشرے میں عورت کے مقام اور حیثیت کے تعین کے حوالے سے ایک واضح شعور دے دیا تھا۔ اور اسی احساس کے تعلق سے وہ بارگاہ نبوی میں دعا گو نظر آتی ہیں کہ دین و مذہب اسلام نے تو اپنی تمام تر کاملیت کے ساتھ طبقہ نسواں کے بہت سے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے مگر اسے ہندوستانی معاشرت میں بری طرح کچلا اور بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ایک خاص درد مندی کے ساتھ وہ اپنی بیچارگی کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہیں۔

 

کب تک آزاد کش قید ہوں سکان حرم

المدد المدد اے بیخ کن رسم ستم

 

کنج در بند ہیں گھٹ گھٹ کے مرے جاتے ہیں ہم

تیری بخشی ہوئی حریت کامل کی قسم

 

اتنی رخصت بھی نہیں دل میں ہو جب سوز و گداز

جا کے مسجد میں گھسیں ناصیہ عجز و نیاز

 

ادا جعفری کی پیش رو شاعرہ ز۔ خ۔ ش کے ان شعری نمونوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سلجھا ہوا سیاسی شعور اور فکری تدبر کی روایت، ادا جعفری سے قبل کے عہد کی خواتین کے حصے میں بھی آ چکی تھی۔ پھر اسی تسلسل میں جب پہلی جنگ عظیم کے بعد قوم پرستی اور آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا تو خواتین کی تحریروں میں بھی ان کے نظریات اور خیالات کا برملا اظہار ہونے لگا۔

1936ء میں اردو ادب میں شروع ہونے والی نئی ادبی تحریک نے جب نئے سماجی رشتوں کا احساس اور نیا تاریخی شعور پیدا کیا تو ادا جعفری بھی اس تحریک سے متاثر ہوئیں۔ اور جس طرح اس عہد کے ممتاز لکھنے والوں نے سیاسی اور سماجی حالات کی برملا ترجمانی کے تعلق سے اپنی واضح شناخت قائم کرنی شروع کی تو ادا جعفری نے بھی اپنے موضوعات اور اسلوب اظہار میں اس تاثر پذیری کا احساس دلانا شروع کیا۔ا گرچہ وہ اعلانیہ طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں ہوئیں مگر ان کی شاعری میں اقبال کی فکر، جگر کے تغزل اور فانی کے اسلوب بیان اور طرز فکر کے اثرات کے حوالے سے ایک واضح نشاندہی ملتی ہے جس کا تذکرہ ان کے اولین شعری مجموعے ” میں ساز ڈھونڈتی رہی” کا دیباچہ قلم بند کرتے ہوئے ممتاز ادیب و نقاد قاضی محمد عبدالغفار نے کیا ہے اور ان کے یہاں زندگی کے قدیم اسلوب سے بیزاری اور جدید رویوں کی طلب اور نئے زمانوں کے تعلق سے امیدوں، آرزوؤں اور تمناؤں کو ابھرتا ہوا محسوس کیا تھا۔

ادا جعفری کی شاعری میں قدیم و جدید کے امتزاج سے اک ایسی تازگی پیدا ہوئی جو ان کی پیش رو شاعرات کے یہاں نہیں ملتی۔ کسی بھی تخلیقی اظہار کے حوالے سے ہمیشہ یہی معیار پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ اسے اپنے عہد اور اپنے زمانے کی نمائندگی کے اعتبار سے کتنا اہم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں موضوعات، اسالیب، پیرایہ اظہار، زبان و بیان اور شعری جمالیات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے مگر اس کا سب سے اہم عنصر یہ ہوتا ہے کہ اس فن پارے اور اس سے کیا تاثر اجاگر ہو رہا ہے۔ ادا جعفری نے اپنے موضوعات، احساسات اور داخلی تجربات کو جس زاویے سے قلم بند کیا ہے اس سے وہ اس سماج کی ایک زندہ حقیقت اور زندہ وجود کے روپ میں سامنے آئی ہیں۔ اک ایسا وجود جو انسانی معاشرہ میں موجود ان گنت دکھوں اور مسرتوں سے بھرے لمحات کی نہ صرف پہچان رکھتا ہے۔ بلکہ ایک Speaking Being کی حیثیت سے ان کا اظہار کرنے پر بھی قادر ہے۔ یوں زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تجربات و واقعات ان کی شاعرانہ آواز میں ڈھلتے چلے گئے ہیں۔ اس آواز میں ان کی نظریاتی وابستگیوں، عقیدتوں، محبتوں، خوابوں، تمناؤں اور مامتا کے جذبات نے بے شمار رنگ بھرے ہیں۔ یوں بحیثیت مجموعی وہ اعلیٰ اقدار حیات پر اپنے یقین اور ایک انسان دوست عالمی معاشرہ کی نمود کے حوالے سے دیکھے ہوئے اپنے خوابوں کو قلم بند کرتی نظر آتی ہیں۔

اپنی نظم ” سلسلے” میں وہ کہتی ہیں :

 

سلسلے

 

” تمام لمحے

جو نسل انساں کو چھو کے گزرے

گئی رتوں کی امانتیں بھی

نئے دنوں کی بشارتیں بھی

کبھی تمناؤں کی شبنمی ردائیں

کبھی دعاؤں کے سبز آنچل

جو ابن آدم کے راز داں ہیں

جو بنت حوا کی داستاں ہیں

گلوں کی صورت

مثال خوشبو

ہماری میراث ہیں ازل سے

وہ سب شگوفے

جو کھل چکے ہیں، جو کھل رہے ہیں

کسی کی یادوں، کسی کی باتوں سے مل رہے ہیں

وصال و ہجراں کے سب تقاضے

مزاج جاناں کے رمز سارے

ہمارے پیمانہ جنوں سے چھلک رہے ہیں

ہمارے نغموں میں اپنی پلکیں جھپک رہے ہیں

وہ سب صحیفے، صداقتوں کے جو ترجماں ہیں

ہمارے لفظوں کے آئنوں میں

ان آیتوں کی گواہیاں ہیں

وہ سارے الفاظ جو ابھی تک

کسی زمیں پر کسی زباں میں لکھے گئے ہیں

ہمارے خوابوں کے سلسلے ہیں

وہ سارے جذبے

وہ سارے رشتے

خلوص جاں کے، نزول غم کے

تمام پیماں

تمام پیکاں

ہمارے دل کی پناہ گاہوں میں آ بسے ہیں

ہماری آنکھوں کے معبدوں میں سجے ہوئے ہیں

وفائیں خود اپنی نامہ بر ہیں

صداقتوں کے سخن امر ہیں ”

 

مسجد اقصیٰ، سواد شب، الفتح، تضاد رنگ، دید کا لمحہ وہ نظمیں ہیں جن کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ادا جعفری کا شعری وژن، گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ، وسیع تر ہوا ہے اور وہ شعری شعور جو ان سے قبل ہمیں ز۔ خ۔ ش، اور اس عہد کی چند دیگر شاعرات کے یہاں نمایاں ہوتا محسوس ہوا تھا وہ ادا جعفری تک آتے آتے کئی اور جہتوں میں سامنے آیا ہے۔ ادا جعفری نے زندگی کے وسیع تر مشاہدات، دیگر معاشروں کی سائنسی اور علمی ترقی سے اپنی آگاہی اور عہد حاضر کی سیاسی اور سماجی زندگی کے تضادات سے واقفیت کے با وصف، اپنے شعری اظہار میں اپنی قوم کے موجودہ احساسات کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو بھرپور اعتماد کے ساتھ پیش کیا ہے۔

ان کی نظم ” الفتح” ملاحظہ کریں۔

 

"الفتح”

 

ابھی کل کی بات ہے ہم نوا

میرے پاس میری نگاہ تھی

جو وقار تھی، جو پناہ تھی

وہ نگاہ کشت فسون جاں

ترے درد سے مرے درد تک

وہی رنگ تھا وہی روپ تھا

کبھی زخم زخم پہ نوحہ خواں

کبھی بس تجاہل عارفاں

جو کلی کلی کی نسیم تھی

جو رحیم تھی، جو کریم تھی

وہ سفیر جاں، وہ خبیر دل

ترا آئنہ، مرا آئنہ

وہ نگاہ تیری نگاہ تھی

وہ نگاہ میری نگاہ تھی

یہ مسافران برہنہ پا

اسی اک نگاہ کی ہیں جھلک

وہیں ہیں لباس شعاع میں

جہاں راکھ اٹھی تھی پلک پلک

یہ مثیل ذرہ ناتواں

جو زمیں کی کوکھ سے پھوٹ کر

بہ جمال غم، بہ فسون جاں

بہ کرشمہ ہائے جنون جاں

بہ ہوائے رنج نمو رہا

ہے دراز درد کا سلسلہ

یہ مسافران برہنہ پا

یہ بلا کشان خجستہ پا

یہی طالبان نگار صبح

یہی وارثان شرار صبح

پے کوہسار افق بڑھے

لب جوئبار شفق چلے

 

یہاں پر نظم کے صوتی آہنگ میں ایک تبدیلی کے ساتھ انہوں نے اسے اس انداز میں تکمیل تک پہنچایا ہے کہ نظم کے بیانیہ انداز میں اک نئی جان پڑ گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ امید آفرینی اور آرزو مندی کے اک تازہ تر جذبے کے ساتھ نئے زمانے کا نغمہ تحریر کر رہی ہیں۔ یہ نظم جو 1968ء میں قلم بند کی گئی تھی۔ اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے اک نئی امنگ اور نئے حوصلے کا مژدہ کچھ اس طرح دیتی ہے:

 

چلے ہیں یہ کہ ہے روشن ابھی خیال کی لو

اسی نگاہ کی مشعل، اسی جمال کی لو

 

یہیں کہیں سپر آفتاب کھوئی تھی

جہاں پہ ڈوب گئی ہے، وہیں سے ابھرے گی

 

شفق سا رنگ گھلا ہے بدن بدن کے لیے

گلوں نے آج تلک چاک پیرہن نہ سیے

 

لہو لہو ہیں جو چہرے تو رنگ زرد نہیں

دریدہ پیرہنوں کی جبیں پہ گرد نہیں

ادا جعفری کی کلیات میں ان کے چھ شعری مجموعے شامل ہیں۔ یعنی ” میں ساز ڈھونڈتی رہی، شہر درد، غزالاں تم تو واقف ہو، ساز سخن بہانہ ہے، حرف شناسائی ” اور” سفر باقی ہے” اور یہ کلام 1950ء سے 2002ء تک کی ان کی شعری کاوشوں پر مشتمل ہے۔

” میں ساز ڈھونڈتی ہوں ” کے ابتدائی کلام کے بعد” شہر درد” سے” سفر باقی ہے” تک کی مجموعی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا کا شعری اسلوب نصف صدی سے زائد اس عرصے میں بھی کسی بڑی تبدیلی سے نہیں گزرا ہے۔ ان کے طرز اظہار، ان کے محسوسات اور ان کے لب و لہجہ میں درد کی دھیمی دھیمی لہریں ڈوبتی ابھرتی محسوس ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی بلند آہنگی، کوئی شدت مزاحمت، کوئی احتجاج، کوئی غصہ، کوئی سرکشی اس طرح نمایاں نہیں ہوئی کہ ان کے شعری اظہار کی ساخت، ان کے زبان و بیان اور اسلوب اظہار کو کسی اور رنگ میں ڈھال کر پیش کرتی۔ البتہ جس طرح ہر تخلیق کار اپنے پیش روؤں اور اپنے ہم عصروں میں ہے کسی نہ کسی توانا آواز کا کوئی نہ کوئی اثر قبول کر لیتا ہے۔ اسی طرح ادا جعفری کی لفظیات شعری استعاروں، الفاظ کے دروبست اور مصرعے کے اتار چڑھاؤ میں بھی ان کے عہد کی کئی منفرد آوازوں کے اثرات اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ان کے مختلف مجموعوں میں شامل چند نظموں کے ان ٹکڑوں کو تقابلی نظر سے دیکھنے سے اس نکتے کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

” اجنبی”

 

ساحل بحر پہ تنہا بھی ہوں آزردہ بھی

کس قدر خوش ہوں کہ ہو جاتی ہوں افسردہ بھی

یوں نہیں تھا کہ مجھے رہ میں اجالا نہ ملا

کیسے کہہ دوں کہ محبت کو سہارا نہ ملا

وہ جزیرے جو تمہیں دور نظر آتے ہیں

جو ہمہ رنگ، ہمہ نور نظر آتے ہیں

میرے شہکار، مرے خواب، مرے ارماں ہیں

میری تشکیل کی کرنیں ہیں کہ تاب افشاں ہیں

میں جو کردار بھی ہوں، خالق افسانہ بھی

آج اپنے ہی خد و خال نہ پہچان سکی

برگ گل کی وہ فصیلیں ہیں کہ جی ہانپ گیا

رشتہ نکہت گل بھی مجھے زنجیر بنا

یہ مرے دل کا حسیں خواب کہ تعبیر بنا

 

نظم ” سواد شب” سے ایک اقتباس:

 

” سواد شب”

 

لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے

آج کی رات ہے تاریک، مسافت بھی کڑی

جیسے سینے پہ کوئی برف کی سل آن پڑی

اب نہ دیدار کا مژدہ، نہ جدائی کی گھڑی

اک خلش سی ہے جسے نام کوئی دے نہ سکوں

نہ رفاقت، نہ مروت، نہ محبت نہ جنوں

کچھ تو ہو گرمی محفل کا بہانہ ساتھی

جی بہل جائے گا زخموں کی نمائش ہی سہی

بارش سنگ سے ہر پیکر گل زخمی ہے

کہیں آدرش ہے گھائل، کہیں دل زخمی ہے

سوچتی ہوں کہ کہوں بھی تو بھلا کس سے کہوں

ان میں وہ سنگ ملامت بھی تو شامل ہوں گے

جس کی زد پر سبھی اپنے ہیں کوئی غیر نہیں

پھول سے ہاتھ میں پتھر کی خراشیں ہی گنوں

درد چمکا ہے اندھیرے میں تو جی ٹھہرا ہے

لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے سکوں ملتا ہے

 

یہ شعری آہنگ اور یہ لہجہ جوان دونوں نظموں میں موجود ہے ادا جعفری کی بیانیہ شاعری کا مخصوص لہجہ ہے، جسے انہوں نے اپنی اکثر نظموں میں بارہا برتا ہے۔ ” غزالاں تم تو واقف ہو”، کی بعض نظموں میں فیض احمد فیض کی رومانی شاعری کا پرتو بھی ہے اور لفظیات اور آہنگ شاعری میں فیض کے لہجے کی غنائیت اور ترنم کی بازگشت بھی صاف سنی جا سکتی ہے۔

 

” آج کی رات کتنی تنہا ہے”

 

آج کی رات کتنی تنہا ہے

ہم بھی تنہا ہیں، دل بھی تنہا ہے

قطرہ قطرہ بجھی ہے آنکھوں میں

درد کی آنچ روشنی کی طرح

منجمد تیرگی ہے چار طرف

آج کس در سے مانگنے جائیں

زخم احساس، زندگی کی طرح

غم ہی ہوتا تو غم گسار آتے

ہجر کی رات ہم گزار آتے

 

اس نظم میں ” ہجر کی رات”، ” درد کی آنچ”، ” غم گسار”، ” قطرہ قطرہ” جیسی لفظیات فیض کے سرمایہ لفظی سے اثر پذیری کا تاثر دیتی ہیں۔ اسی طرح دیگر کئی نظموں میں بھی ” درد کے نامہ بر”، "حلقہ زنجیر”، ” پاؤں کے چھالے”، ” نقد جاں "، ” خون کا قرض”، ” پس زنداں "، ” پندار کی چاہت”، ” سر کوچہ و بازار، احوال دل فگاراں، غم چارہ گراں، مدارات درد ہجراں، نکھرا ہوا زخم، چمکا ہوا درد، کجلائی ہوئی رات، لو دیتی ہوئی تنہائی” جیسی لفظیات اور تراکیب بھی اسی سلسلہ اکتساب کا احساس اجاگر کر رہی ہیں مگر ان نظموں کے علاوہ بھی ” غزالاں تم تو واقف ہو” مین شامل کئی نظمیں ان کے خاص شعری آہنگ میں ان کے محسوسات، ان کی شخصی آرزوؤں اور تمناؤں کے باب میں ان کے نرم لہجے کی ترجمان ہیں۔ ان نظموں میں ایک نوع کی خود کلامی ہے جو ایک گہرے احساس تنہائی سے پیدا ہوئی ہے:

 

ہم نے بھلا کس سے کہا

کرتے رہے ہم عمر بھر

کس رہ گزر کی جستجو

آنکھوں سے کیوں اوجھل ہوا

منسوب جس کے نام تھی

ہر روشنی، ہر آرزو

سفاک تھی موج بلا

مرگ تمنا عام تھی

چپ چاپ ہم کس کے لیے

تھامے رہے جلتے دیے

دیکھو کہ پھر صیقل ہوئے

شہر وفا کے آئینے

آتی رتوں کی آہٹیں

بہتے دنوں کے نقش پا

دیکھو کہ وہ آرام جاں

ہم پر ہوا پھر مہرباں

ہم نے بھلا کس سے کہا!!!

 

یا ایک اور نظم:” تم نے ایسا کیوں سوچا تھا”

 

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

خوابوں کی مالا ٹوٹی تو

خالی ہاتھوں لاج آئے گی

گونگی ہو جائیں گی آنکھیں

گیت سے خوشبو کترائے گی

رنگت پھیکی پڑ جائے گی

خوابوں کی مالا ٹوٹی تو

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

آرزوؤں کے راج دو محلے

بن جائیں گے ریت گھروندے

چاند کی کشتی کیوں اترے گی

شبنم جلوؤں کو ترسے گی

خوابوں کی مالا ٹوٹی تو

تم نے ایسا کیوں سوچا تھا

تم تو میرے پاس ہو اب تک

موتی میری جھولی میں ہیں

 

ساز سخن بہانہ ہے، میں جسے پیش کرتے ہوئے ادا جعفری نے لکھا تھا کہ ” یہ تصویریں نہ کسی چوپال کی ہیں نہ کسی محل سرا کی یہ دلوں کے اندر کی، ذات کے تہہ در تہہ حجابوں کی تصویریں ہیں۔ یہ زندگی کے خاکے ہیں کچھ میری ذاتی اور کچھ ہماری اجتماعی زندگی کے خاکے ہیں میں جس عہد میں زندہ ہوں یہ اس عہد کے خواب ہیں۔ ” اور پھر اپنی نظم ” سانجھ سویرے” میں ان کا یہ شعری اظہار:

 

” سانجھ سویرے”

 

بھگی بھیگی پلکوں والی

جتنی آنکھیں ہیں میری ہیں

دکھ کی فصلیں کاٹنے والے

جتنے ہاتھ ہیں میرے ہیں

شاخ سے ٹوٹی کچی کلیاں

الجھی الجھی لٹ بھی میری

دھجی دھجی آنچل بھی

کالی رات کی چادر اوڑھے

اجلے دن کا رستہ دیکھ رہی ہوں !

 

یا نظم ” اس تضاد شب و روز میں ” ان کے شعری محسوسات کی یہ صورت گری:

 

” اس تضاد شب و روز میں ”

 

زندگی رقص آئینہ گر

اور میں آئینہ

صرف پرچھائیاں اور میں

میری مانوس تنہائیاں اور میں

ذات کی ریشمیں، نرم آغوش میں

موت کا سا سکوں

جیسے اک ساغر واژ گوں

جیسے پلکوں کی موہوم سی جنبش بے زباں

گھاس کی سبز پتی

کسی پھولوں کی پنکھڑی کی طرح ناتواں

خواب پروائیاں

اور میں،

عکس، تصویر، تفسیر تشہیر بھی

اپنے پیروں کی زنجیر بھی

نظم مزید آگے بڑھتی ہے تو ادا کہتی ہیں :

زہر احساس نس نس میں شعلہ فشاں ہو تو پھر

میرے مغرور فن کا ہر اک معجزہ

جرأت آگہی

جاگ اٹھے

شہر جاں میں کوئی رنگ مدھم نہیں

وحشت شوق کو زاد رہ کے لیے

سلسبیل نگہ کم نہیں

اور میں اس تضاد شب و روز میں

جتنے رنگوں کی پہچان ہوں

ان کو پہچان لوں

پھر مرے روبرو

رقص آئینہ گر آئینہ!

 

ان نظموں کے تقابلی مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا جعفری کا شعری شعور، وقت کے ساتھ ساتھ کچھ اس طرح نمو پذیر رہا ہے کہ وہ اپنے محسوسات، مشاہدوں اور فکری رجحانات کے اظہار میں اک ایسے اعتماد کے حصول میں کامیاب رہی ہیں، جہاں انہوں نے زندگی کے معانی اور اس کے رشتوں کی مختلف جہات کو زیادہ بہتر طور پر پیش کیا ہے۔

ادا جعفری کا پانچواں شعری مجموعہ ” حرف شناسائی” 1999ء میں شائع ہوا تو اس میں بھی اپنے عہد اور اپنی معاشرت کے اجتماعی تجربات اور احساسات کے حوالے سے کئی نظمیں موجود تھیں۔ ان نظموں میں نئی نسل کے نام امیدوں اور آرزوؤں کا اظہار بھی ہے اور اپنے وطن کے تعلق سے اپنے جذبوں اور خلوص کو بھی از سر نو تازہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی ذاتی زندگی کے اندوہ اور المیوں کا تذکرہ بھی موجود ہے اور اپنے شریک حیات کے بچھڑ جانے کے دکھ کی شعری تجسیم بھی کی گئی ہے۔ ان نظموں کے مندرجہ ذیل اقتباسات کے مطالعے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ادا جعفری کی شاعری، تکنیکی بحثوں کی الجھن پیدا کیے بغیر، ایک گہرے انسانی دکھ کی دھیمی دھیمی پرسوز نغمگی کے ساتھ وجود میں آئی ہے اور ایک حساس شاعرہ کو ہم سے متعارف کراتی ہے جو اپنے غموں کے بیان میں اپنی محرومی اور مظلومی کا چرچا کر کے دلوں کو متاثر کرنا نہیں چاہتی بلکہ اپنی بردباری اور شخصی وقار کے ساتھ، اپنے جذبات کی کشاکش اور اپنے زخمی احساسات سے متعارف کروانا چاہتی ہے۔

 

نظم نوجوان نسل کے نام

 

مرے بچو!

تم آنے والے موسم کی دعا ہو

تمہیں ورثے میں ہم نے کیا دیا

کیا دے سکے ہیں

گزر گاہوں پہ بہتا خوں

ہوائیں شعلہ ساماں

خوف اور نفرت سے آلودہ

مرے بچو!

محبت اور قیادت کے سبھی منظر تمہارے منتظر ہیں

کہ تم اس سر زمیں

اس آسماں کی آبرو ہو

جنہیں کھلنا ہے

ان پھولوں کی خوشبو ہو

ایک اور نظم” یہ بستیاں ویراں نہیں ” میں کہتی ہیں :

” یہ بستیاں ویراں نہیں ”

نہیں، یہ بستیاں ویراں نہیں

اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں

یہ وہ ہیں جو کبھی

زخم وفا، بازار تک آنے نہیں دیتے

یہاں کچھ خواب ہیں

جو سانس لیتے ہیں

جوان خوابوں کو تم دیکھو تو ڈر جاؤ

فلک آثار بام و در

یہاں وقعت نہیں رکھتے

کلاہ و زر یہاں قیمت نہیں رکھتے

یہ جتنے لوگ ہیں

بے نام ہیں، بے لاگ ہیں

بے ساختہ جینے کے طالب ہیں

یہ دل کے بوجھ کا احوال

اپنے حرف، خود لکھنے کے طالب ہیں

اجالے کی سخی کرنوں کو

زنداں سے رہائی دو

 

ذاتی دکھوں کے حوالے سے ایک نظم ” خالی ہاتھ” سے یہ اقتباس دیکھیے:

 

” خالی ہاتھ”

 

جب اس کے ساتھ تھی

میں اس وسیع کائنات میں

نفس نفس، قدم قدم

نظر نظر امیر تھی

اور اب

غبار روز و شب کے جال میں اسیر ہوں

نورم کے نام ایک نظم سے اقتباس:

تم اب میرے سرہانے موتیا کے پھول

رکھنا بھول جاتے ہو

سویرا ہو تو کیسے ہو

اجالا، اب مرے دل تک نہیں آتا

دھنک کے رنگ آنچل سے پھسل کر گر چکے ہیں

مسافر خواب کو رستہ مرے گھر کا نہیں ملتا

کوئی شیریں نوا طائر

کسی رت کا سندیسہ اب نہیں لاتا

تو کیا سب آئینے ٹوٹے

تو کیا اب یہ زمین و آسماں بدلے

یہ سناٹا، اندھیرا اور تنہائی

یہ ویرانی

تمہارے بس میں تھا کار مسیحائی

نہ جانے تم کہاں ہو!!

 

اور جب ادا جعفری اپنے آخری شعری مجموعے ” سفر باقی ہے” تک پہنچتی ہیں تو اپنے شعری اظہار میں اپنے گزرے ہوئے سفر حیات کے تعلق سے ایک رجائی انداز اختیار کرتے ہوئے یوں اظہار کرتی ہیں !

 

بتائیں کیا

ہمارے زخم زخم کے گلاب

ماہ و آفتاب

سب گواہ ہیں

کہ ہم نے کیا نہیں سہا

صعوبتوں کے درمیاں

ہمارے ساتھ اک یقیں رہا

گواہ یہ زمین اور زماں رہے

نہ آج سوگوار ہیں

نہ کل ہی نوحہ خواں رہے

شرر جو کل لہو میں تھے

وہ آج بھی لہو میں ہیں

ہمارے خواب، سانس لے رہے ہیں آج بھی

کوئی دیا بجھا نہیں

کہ ہم ابھی تھکے نہیں

کہ ہم کبھی تھکے نہیں

اور اک صدی سے دوسری تلک

سفر میں ہیں

 

ادا جعفری نے عہد جدید کے صنعتی معاشرے کی شکست و ریخت کا شکار ہونے والے انسانی رشتوں کی خوبصورتی کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے اور اس موضوع کے حوالے سے بحیثیت عورت، اپنی داخلی آواز اور اپنی باطنی سچائیوں کو ایک خاص طرز احساس کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یعنی زندگی کے وہ رشتے جو دائمی اور اٹل ہیں جن پر ان کا اعتماد گہرا ہے اور جن کے تعلق سے وہ خود اپنی زندگی کے معانی و مقاصد چاہتی ہیں۔

یہی وہ رشتے ہیں جو آسودگیِ جاں کا سبب ہوتے ہیں اور جن کی سچائی کا ادراک انسان کی ذات کو ایک محدود زندگی سے نکال کر ایک وسیع تر دائرہ حیات میں شامل کر دیتا ہے۔ ادا جعفری ان رشتوں اور ان بندھنوں کو بے حد عزیز جانتی ہیں۔ اور ان کے حسن کے بیان میں اپنے اعتماد اور اپنی گہری مسرتوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری میں مامتا کے بے ساختہ جذبات، محض ایک مخصوص ماں اور اس کی اولاد کے باہمی رشتے تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے ایک بھرپور وارفتگی، محبت اور گہرے تعلق کی علامت بن کر اظہار پاتے ہیں نظم ” دوسرا قدم”

” دوسرا قدم”

 

یہ شوخ لال اوڑھنی

یہ مامتا کی چھاؤں میں

گلاب سے الجھ گئی

نگہ سے پھوٹتی کرن

لبوں پہ کھیلتی ہنسی

یہ میرے گھر کی چاندنی

مرے سحر کی روشنی

جمال شہر آبرو

غرور حرف آرزو

یہ پارۂ جگر مرا

فسانہ دگر مرا

ہے مستجاب ہر دعا

مری نظر، مری نوا

ہر ایک خواب دل ربا

امر ہوا، امر ہوا

چراغ ہاتھ ہاتھ ہے

تسلسل حیات ہے

وہ با مراد ہو گئے

جو مر کے بھی نہ مٹ سکے

(غزالاں تم تو واقف ہو)

پھر ایک اور نظم

اپنے بیٹے عزمی کے نام

وداع کی گھڑی سہی

ذرا سنبھل

ذرا قدم بچا کے چل

کہ چبھ نہ جائیں تیرے پھول جیسے پاؤں میں

ان آئینوں کی کرچیاں

جنہیں کسی نے اشک اور کسی نے حرف آرزو کہا

کسی نے کاسہ دعا

کہ میرے پاس تیری نذر کے لیے

کچھ اور تھا بھی کیا

یہ آنسوؤں کے روپ میں

گئی رتوں کے آئنوں کی کرچیاں

پلک سے تھم نہ پائیں گی

ترے سفر کے راستوں میں آئیں گی

وداع کی گھڑی سہی

ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل

میں اپنے دل کے بت کدے میں

یہ چراغ آئنے سنوار لوں

ان آئینوں میں تیرا حسن بے مثال ہے

ان آئنوں میں میری آرزو کے لمحے لمحے کا جمال ہے

وداع کی گھڑی سہی

ذرا ٹھہر، ذرا سنبھل

ذرا قدم بچا کے چل

(ساز سخن بہانہ ہے)

 

نظم ” اس کو نزدیک آنے نہ دو”

 

” اس کو نزدیک آنے نہ دو”

 

نہیں

میرے بچو!

جدائی تو عفریت ہے

سخت بے درد خوں خوار آسیب ہے

اس کو نزدیک آنے نہ دو

تم مجھے دیکھ لو

کسی یقیں اور کتنے تحمل سے میں

روز ہر روزن ور کے آگے

حصار دعا کھینچ دوں

تم مری آنکھ میں اعتبار نگہ کی طرح

فاصلے دوریاں کچھ نہیں

تم مرے پاس ہو میں تمہارے قریں

تم تو خود اپنی دھرتی کا چہرہ ہو

آواز ہو

تم جہاں ہو یہ گلیاں یہ آنگن وہیں

ان ہواؤں کی محبوب سنگت وہاں

ان گلابوں کی جاں بخش رنگت وہاں

اور گل مہر کی مہرباں چھاؤں بھی

اور دیوار پر جاگتا بولتا لمس کا یہ نشاں

ہے یہاں جیسے دیپک کی لو

اور وہاں روشنی

میں تو جس آئینے میں بھی چاہوں

تمہیں دیکھ لوں

موتیا کی کلی جب بھی چٹکی ہے

اس میں تمہاری ہنسی گھل گئی

اور چمپا کی خوشبو میں لہجے کی دھیمی مہک تل گئی

دیکھ لو کس طرح

کہر آلود موسم کی سختی سے بچتی رہی

یاد کی بھیگتی چاندنی میں

میں اب بھی بہاروں سے لے کر

ردائے صبا اوڑھ لوں

(ساز سخن بہانہ ہے)

 

اپنے بیٹے عامر کے لیے ایک نظم:

 

” شجر نازاں ”

 

شجر گل بار اور نازاں

نمو کے راز سے سرشار، خود حیراں

شجر سایہ فگن، گل بار اور نازاں

ابھی کل تک بس اک کونپل کی صورت تھا

جو میرے لمس کی کرنوں سے

ہر رنگت کا خواہاں تھا

غم خود آشنائی کی ہر اک لذت

نمو کی دل ربا وحشت کا خواہاں تھا

اسیر شش جہت نے اس گھڑی جس سمت بھی دیکھا

وہ میری ہی نگاہیں تھیں

مرے ان ناتواں ہاتھوں میں تھیں

جتنی پناہیں تھیں

جو آنسو تھا وہ شبنم سا

وہ لمحہ تھا، بشارت تھا

شجر سایہ فگن گل بار اور نازاں

وہ کل بھی تھا مرے ہر خواب کا عنواں

وہ اب بھی ہے مری تکمیل کا ساماں

جہاں تک اس کی خوشبو ہے وہاں میں ہوں

مرے عامر!

یہ میری اور تمہاری ہی کہانی ہے

گھنا سایہ وہیں تک ہے جہاں تم ہو

گھنیری چھاؤں مل جائے

تو موسم کی تمازت ہار جاتی ہے

دلوں میں پھول کھل جائیں

تو ویرانوں کی شدت ہار جاتی ہے

(ساز سخن بہانہ ہے)

ان نظموں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادا جعفری نے نہ صرف اپنی پیش رو شاعرات کے یہاں موجود اثبات ذات کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ عہد حاضر میں اپنے بعد آنے والی شاعرات کے لیے بھی اپنے شعور ذات سے حاصل کردہ مسرتوں کے سفر کا آغاز کیا اور اب اس سفر کی راہوں پر نئے لہجوں، نئے اسالیب اور نئے شعری تجربات کی خوشبوئیں بکھرتی چلی جا رہی ہیں۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100024.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید