FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

وہ لڑکی کون تھی؟

 

 

                   میرزا ادیب

 

اسکین فراہم کردہ : شاکر عزیز

ٹائپنگ: عائشہ عزیز

 

 

سونے کی گیند

 

 

                   پہلا منظر

 

(ایک اوسط درجے کا کمرا۔ درمیان میں ایک میز۔ میز کے اِرد گِرد چند کُرسیاں۔ ایک کرسی پر عذرا، دوسرے پر فریدہ، اور اس کے سامنے کی کرسی پر تحسین بیٹھا ہے۔ میز کے اوپر ایک ڈبہ پڑا ہے۔ جس وقت پردہ اٹھتا ہے، عذرا اپنے منہ میں لڈّو ڈال رہی ہے۔ تحسین کے ہاتھ میں لڈّو دکھائی دے رہا ہے اور فریدہ کا منہ ہل رہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لڈو کھا رہی ہے )

فریدہ : (لڈّو نگلتے ہوئے) تحسین!

تحسین : کیوں فریدہ!

فریدہ : کھاتے کیوں نہیں؟ ہاتھ میں لڈّو پکڑے کیوں بیٹھے ہو؟

تحسین : کھا لیتا ہوں۔

فریدہ : یہ آخری لڈّو ہے نا؟

تحسین : پانچواں ہے۔

عذرا : آخری ہوا نا۔ پانچ پانچ لڈّو ہی تو ملے تھے ہر ایک کو؟

تحسین : اجّو باجی!

عذرا : کیا ہے؟

تحسین : تم نے سارے کے سارے کھا لیے ہیں۔

عذرا : اور کیا کرتی؟ امی نے رکھنے کے لیے تو نہیں دیئے تھے۔

فریدہ : نغمہ نے تو ایک بھی نہیں کھایا ہو گا۔

عذرا : اس کے پاس تو کم از کم سات روز تک پڑے رہیں گے۔ پھر ہر روز ایک لڈّو کھائے گی۔

تحسین : اور ہمیں ترسائے گی۔

عذرا : اس کی تو عادت ہے کہ ہمیں دِکھا دِکھا کر مٹھائی کھائے۔

فریدہ : ہم ہر چیز جھٹ پٹ کھا لیتے ہیں اور پھر وہ ہمیں دِکھا دِکھا کر کھاتی ہے۔

عذرا : امّی بھی تو اس سے بڑی خوش ہیں۔

فریدہ : اور ہمیں کہتی ہیں کہ تم تینوں بھوکے ہو، ندیدے ہو، ادھر چیز ہاتھ میں آئی اور اُدھر پہنچی پیٹ میں۔ کیا مجال جو صبر سے کام لو۔ توبہ کیا ندیدہ پن ہے؟ چٹورے کہیں کے۔

عذرا : لڈّو دیتے ہوئے بھی تو امی نے کہا تھا کہ تم لوگ فوراً نگل جاؤ گے اور میری نغمہ کسی طریقے اور قاعدے سے کھائے گی۔

فریدہ : ہوں! بڑے طریقے اور سلیقے سے کھاتی ہے۔

تحسین : اور جب کھاتی ہے تو ہمیں مُسکرا مُسکرا کر دیکھتی بھی جاتی ہے۔

فریدہ : اور امی کہا کرتی ہیں، دیکھو اچھے بچے یوں صبر کے ساتھ چیز کھایا کرتے ہیں۔

تحسین : میرا تو جی چاہتا ہے کہ بچی جہاں اپنی چیز رکھے وہاں سے چُپ چاپ اٹھا کر کھا لیا کروں۔

فریدہ : توبہ کرو تحسین! بڑی چالاک ہے یہ نغمہ بانو۔

عذرا : چالاک تو بڑی ہے، پر کسی دن ایسا سبق دوں گی اسے کہ یاد رکھے گی ہمیشہ۔

تحسین : سبق کیا دو گی اجّو باجی!

عذرا : سبق کیا دوں گی؟ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ابھی!

فریدہ : سبق دو گی۔ خاک بھی نہیں دے سکتیں تم!

عذرا : میں اس سے زیادہ چالاک ہوں!

فریدہ : جانتی ہوں جیسی چالاک ہو تم۔ اس دن کتنی خوشامد سے کہا تھا اس سے، نغمہ پیاری بہن! میرا منہ کڑوا ہو گیا ہے، تھوڑی سی کھیر تو دے دو۔ اور وہ ہنس پڑی تھی۔

تحسین : صرف ہنس نہیں پڑی تھی؟ کہا نہیں تھا اس نے میں جانتی ہوں تمہاری مکاری۔

فریدہ : اور اجّو منہ دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔

تحسین : یاد ہے باجی!

عذرا : بڑی چالاک بنی پھرتی ہے۔ ابھی میرا ہاتھ نہیں دیکھا اس نے۔

فریدہ : تو دِکھا دو ہاتھ۔ سوچ کیا رہی ہو؟

تحسین : فریدہ باجی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

عذرا : اگر ایسا چکر دے دوں کہ وہ حیران ہو جائے تو پھر کیا کہا گے تحسین؟

تحسین : ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اب تک کتنی بار تم نے اور فریدہ نے اسے بنانے کی کوشش کی ہے مگر آج تک وہ کسی دھوکے میں نہیں آئی، بلکہ اُلٹا تمہارا مذاق بنایا جاتا رہا ہے۔

عذرا : سچی بات یہ ہے کہ میں نے آج تک اسے چکر دینے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ورنہ اس کی کیا مجال جو بچ کے نکل جائے۔

فریدہ : عذرا! چھوڑو یہ بات۔

تحسین : ہاں باجی! تم اسے کبھی، کبھی اور کبھی نہیں بنا سکتیں۔

عذرا : (غصے سے پاؤں زمین پر مار کر) غلط۔

فریدہ : عذرا! خدا کے لیے کمرے کا فرش تو نہ توڑو۔

تحسین : باجی ایک بار اور اسی طرح فرش پر پاؤں مارا تو زلزلہ آ جائے گا سچ مچ۔ دیواریں گر پڑیں گی۔

فریدہ : بلکہ چھت بھی گر پڑے گی۔

(عذرا سر جھکائے کمرے میں ٹہلنے لگتی ہے)

تحسین : باجی کو غصہ آ گیا ہے۔

فریدہ : (ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے) خاموش!

تحسین : کیا ہوا؟

فریدہ : سوچ رہی ہیں۔ دیکھتے نہیں کس طرح سر جھکا کر چل رہی ہیں۔

تحسین : کیا سوچ رہی ہیں؟

فریدہ : میں کیا جانوں۔

(عذرا ان کی طرف آتی ہے)

عذرا : نغمہ ہے کہاں؟

فریدہ : اپنے کمرے میں ہے اور کہاں ہو گی۔

عذرا : اگر آج اس سے پانچوں کے پانچوں لڈّو لے آؤں تو پھر مان جاؤ گے نا!

فریدہ اور تحسین : ہاں!

عذرا : تو رات ہونے دو۔

فریدہ : شام تو ہو چکی ہے۔

عذرا تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ۔ پھر دیکھنا ہوتا کیا ہے۔

تحسین : کیا ہو گا؟

عذرا : دیکھ لو گے اپنی آنکھوں سے۔

تحسین : کیا دیکھ لیں گے؟

عذرا : یہ نہیں بتاؤں گی ابھی۔ وہ چکر چلاؤں گی، وہ چکر چلاؤں گی کہ ہنس ہنس کر تمہارے پیٹ میں بل پڑ جائیں گے۔

تحسین : اچھا!

عذرا : اور وہ نغمہ۔۔۔ اس بے چاری کا کیا حال ہو گا؟ یہ بھی دیکھ لو گے۔

فریدہ : رو پڑے گی۔

عذرا : اتنی پریشان ہو گی کہ۔۔کہ۔۔کہ۔۔

فریدہ : بس بس! دیکھتے ہیں کیا کرتی ہو۔

عذرا : اگر نغمہ نے اپنی خوشی سے پانچوں لڈو میرے حوالے کر دئیے تو؟

فریدہ : بازار سے پانچ لڈو خرید کر تمہارے حوالے کر دوں گی۔

تحسین : اور اب میں بھی باجی کو پانچ لڈّو دوں گا۔

عذرا : تو اب مجھے اپنا کام کرنے دو۔

(عذرا جلدی سے کمرے سے نکل جاتی ہے اور پردہ گرتا ہے)

 

                   دوسرا منظر

 

(نغمہ کا کمرا۔ نغمہ کوچ میں دھنسی ہوئی کسی کتاب کا مطالعہ کر رہی ہے۔ کوچ کے پاس ایک تپائی کے اوپر ٹیبل لیمپ روشن ہے۔ ارد گرد اندھیرا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے)

نغمہ : (خود سے) پتا نہیں کون ہے۔ (بلند آواز سے) کون ہے؟

آواز : میں ہوں۔

نغمہ : (خود سے) کس کی آواز ہے؟ امی کی تو نہیں ہے (بلند آواز سے) کون ہو؟ بتاؤ نا؟

آواز : میں ہوں۔ ذرا دروازہ کھولو۔

نغمہ : خدا جانے کون ہے۔ خیر، دیکھتی ہوں (بلند آواز سے ) اچھا!

(نغمہ کوچ سے اٹھتی ہے۔ دروازے کی طرف جاتی ہے۔ دروازہ کھولتی ہے۔ سامنے ہلکے اندھیرے میں شال میں لپٹی ہوئی کوئی بوڑھی عورت دکھائی دیتی ہے۔ صرف اس کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ نغمہ اسے دیکھتی ہے اور چپ چاپ کھڑی رہتی ہے)

بڑھیا : اچھی لڑکی!

نغمہ : جی آپ کون ہیں؟

بڑھیا : ابھی بتاتی ہوں۔ کیا میں تمہارے کمرے میں آ کر بیٹھ سکتی ہوں؟

نغمہ : کام کیا ہے آپ کو؟

بڑھیا : میں نے سنا ہے کہ اچھی لڑکیاں مہمانوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتی ہیں۔

نغمہ : امی کو بلاتی ہوں۔

بڑھیا : میں تو تمہاری مہمان ہوں۔ تمہاری امی کی نہیں۔

نغمہ : میری مہمان!

بڑھیا : ہاں! اچھی لڑکی!

نغمہ : مگر آپ کو مجھ سے کیا کام ہے؟

بڑھیا : یہیں دروازے پر بتا دوں؟

نغمہ : اچھا تشریف رکھیے۔

(نغمہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ بڑھیا آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہے اور کوچ پر ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہے)

بڑھیا : کیا پڑھا جا رہا ہے؟

نغمہ : امتحان قریب ہے۔ تیاری کر رہی ہوں۔

بڑھیا : تم تو ہمیشہ جماعت میں اوّل رہتی ہو۔ شاباش تم پر! اچھی بچیاں اس طرح عزت حاصل کرتی ہیں۔

(نغمہ گھبرا جاتی ہے)

بڑھیا : گھبراتی کیوں ہو لڑکی؟

نغمہ : جی نہیں، مگر آپ۔۔۔

بڑھیا : اس لیے گھبرا رہی ہو کہ نہیں جانتیں میں کون ہوں۔

نغمہ : جی۔۔ کیا عرض کروں۔

بڑھیا : تمہارا نام کیا ہے؟ لیکن میں تو جانتی ہوں تمہارا نام نغمہ ہے۔

نغمہ : آپ میرا نام جانتی ہیں؟

بڑھیا : کیا تمہارا نام نغمہ نہیں ہے؟

نغمہ : یہی نام ہے۔

بڑھیا : میں پرستان سے آئی ہوں۔

نغمہ : پرستان سے! تو آپ۔۔۔۔

بڑھیا : میں پری ہوں۔

نغمہ : آپ پری ہیں؟ مگر آپ تو بوڑھی ہیں!

بڑھیا : واہ کیا بات کہی ہے، پریاں بوڑھی نہیں ہوتیں؟ ہمیشہ جوان ہی رہتی ہیں؟

نغمہ : مجھے خبر نہیں تھی اس کی۔

بڑھیا : تم نے اپنی کتابوں میں نیلم پری، گل نار پری، الماس پری کی کہانیاں پڑھی ہیں جو اب بوڑھی ہو چکی ہیں اور انہی میں سے شاید ایک میں بھی ہوں۔

نغمہ : آپ؟

بڑھیا : ہاں!

نغمہ : آپ کون ہیں؟

بڑھیا : میں نے بتایا نہیں کہ پرستان سے آئی ہوں۔

نغمہ : آپ پری ہیں۔۔ مگر میں نے پوچھا یہ ہے کہ جن پریوں کے آپ نے نام لیے ہیں۔ ان میں آپ کون ہیں؟

بڑھیا : الماس۔

نغمہ : الماس کی میں نے کوئی کہانی نہیں پڑھی۔

بڑھیا : اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تم نے کئی پریوں کی کہانیاں نہیں پڑھیں۔ کسی دن پڑھ لو گی۔ اچھا اب میں تمہیں بتاتی ہوں کہ آج کی رات میں پرستان سے نکل کر تمہارے پاس آئی کیوں ہوں۔ اف تمہارے ملک میں بڑی سردی ہے!

نغمہ : ہیٹر لے آؤں دوسرے کمرے سے؟

بڑھیا : کسی کو خواہ مخواہ بے آرام کرو گی۔ رہنے دو۔ یہ شال جو اوڑھ رکھی ہے۔ جانتی ہو یہ شال کس کی ہے؟

نغمہ : جی نہیں۔

بڑھیا : ایک مرتبہ تمہارے ملک کی ایک عورت ہمارے ملک میں آ گئی تھی۔ پتا نہیں کس طرح آ گئی تھی پر آ گئی تھی اور میری سہیلی بن گئی تھی۔ یہ شال اس نے مجھے دی تھی۔

نغمہ : اچھا!

بڑھیا : ہمارے پرستان میں تو بالکل سردی نہیں ہوتی۔

نغمہ : تو آپ آئی کیوں ہیں؟

بڑھیا : بات یہ ہے نغمہ! پرستان کی ملکہ کو انسان کے بچوں سے بڑا پیار ہے۔ خاص طور پر وہ ان بچیوں کو بے حد پسند کرتی ہیں جو بہت اچھی اور نیک ہوتی ہیں۔ خوب محنت کرتی ہیں اور اچھے نمبروں سے پاس ہوتی ہیں۔ سمجھ گئیں۔

نغمہ : جی ہاں!

بڑھیا : ہماری ملکہ ہر سال کے شروع میں ایسی بچیوں کو پرستان سے کچھ تحفے بھجواتی ہیں۔ اچھے اچھے تحفے۔

نغمہ : اچھا!

بڑھیا : ہاں! چھ سات پریوں کی چھ سات تحفے دیئے جاتے ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ جن انسانی بچیوں نے سال بھر میں نام پیدا کیا ہو انہیں یہ تحفے دے آؤ۔ مجھے بھی اس مرتبہ ایک تحفہ ملا ہے۔

نغمہ : ایک تحفہ ملا ہے!

بڑھیا : اور وہ تحفہ میں تمہارے لیے لائی ہوں۔

نغمہ : میرے لیے!

بڑھیا : ہاں!

نغمہ : واقعی؟

بڑھیا : پریاں کبھی جھوٹ نہیں بولا کرتیں۔

نغمہ : تو آپ کو کس طرح پتا چلا کہ میں امتحان میں اول رہتی ہوں؟

بڑھیا : پرستان کی بعض پریاں تمہارے ملک میں گھومتی رہتی ہیں۔ اور اچھی بچیوں کے بارے میں معلوم کرتی رہتی ہیں۔

نغمہ : پرستان کی ملکہ نے مجھے تحفہ بھیجا ہے؟

بڑھیا : ہاں! اور وہ تحفہ ہے سونے کی ایک گیند۔

نغمہ : سونے کی گیند!

بڑھیا : یہ رہی۔

(بڑھیا شال سے اپنا ہاتھ باہر نکالتی ہے۔ اس میں ایک صندوقچہ ہے)

نغمہ : گیند! سونے کی گیند! واہ وا۔

بڑھیا : گیند اس کے اندر ہے اور یہ لو چابی۔

(بڑھیا نغمہ کو چابی دے دیتی ہے)

نغمہ : شکریہ! بہت بہت شکریہ!

بڑھیا : میں تمہارا شکریہ اپنی ملکہ تک پہنچا دوں گی۔ اب میں جاتی ہوں۔

نغمہ : میں نے آپ کی خاطر تو کی ہی نہیں۔

بڑھیا : شکریہ نغمہ! ہاں ایک بات ہے۔

نغمہ : فرمائیے!

بڑھیا : پرستان میں بھی ننھی بچیاں ہوتی ہیں جو انسانی بچیوں سے کوئی تحفہ پا کر بے حد خوش ہوتی ہیں۔

نغمہ : تو میں کیا پیش کروں؟ اس وقت تو میرے پاس کچھ نہیں ہے۔

بڑھیا : پرسوں ایک پری واپس پرستان گئی تھی تو ایک بچی کی طرف سے کچھ مٹھائی لے گئی تھی۔

نغمہ : پریاں مٹھائی کھاتی ہیں؟

بڑھیا : بہت شوق سے۔ بڑے مزے سے۔

نغمہ : اچھا تو۔۔۔۔۔ میرے پاس اس وقت پانچ لڈو ہیں۔

بڑھیا : لڈو! سنا ہے یہ مٹھائی بڑی لذیذ ہوتی ہے۔

نغمہ : میں یہ لڈو دے دوں ننھی پریوں کو؟

بڑھیا : میں یہ لڈو ننھی پریوں کو دے دوں گی۔

نغمہ : تو ٹھہریے ذرا۔ ابھی آتی ہوں۔

(نغمہ تیزی کے ساتھ کمرے میں سے نکل جاتی ہے۔ بڑھیا شال درست کرتی ہے۔ تین چار لمحے گزر جاتے ہیں۔ نغمہ لوٹ کر آتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈبا ہے)

بڑھیا : واہ وا! وہ تو خوش ہو جائیں گی۔

نغمہ : خدا کرے ایسا ہو۔

(بڑھیا ڈبا ہاتھ میں لے لیتی ہے اور اٹھتی ہے)

بڑھیا : (چلتے ہوئے) وہ گیند دیکھ لو نا۔

نغمہ : اچھا!

(نغمہ چابی سے صندوقچہ کھولتی ہے اور اس میں سے ایک عام سی گیند نکلتی ہے۔ دروازے سے فریدہ اور تحسین ہنستے ہوئے آتے ہیں۔ بڑھیا شال اتار دیتی ہے۔ اب وہ عذرا ہے۔ نغمہ اس طرح انہیں دیکھتی ہے جیسے حیران رہ گئی ہے)

عذرا : (اپنی اصلی آواز میں) کیوں؟ کیسا چکر دِیا؟

تحسین : باجی اجو! آج تمہیں استاد مان لیا ہے میں نے۔

فریدہ : نہیں استادوں کی استاد! عذرا کمال کر دیا تم نے۔

نغمہ : لڈو لینا چاہتی تھیں تو مانگ لیتیں۔ میں دے دیتی۔ اس طرح دھوکا کیوں دیا ہے؟

عذرا : مزہ تو اس طرح لینے میں ہے۔ دس لڈو اور ملیں گے مجھے۔

تحسین : نغمہ! سونے کی گیند کیسی ہے؟

فریدہ : واہ وا! کیا گیند ہے۔ پرستان سے آئی ہے۔

عذرا : پرستان کی ملکہ نے بھیجی ہے۔

(تینوں زور زور سے قہقہے لگاتے ہیں۔ نغمہ حیران پریشان دکھائی دیتی ہے)

تحسین : اجو باجی! نکالو لڈو!

فریدہ : اس کے سامنے کھاتے ہیں۔

عذرا : کیوں نہیں۔

(عذرا ڈبا کھولتی ہے۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے)

فریدہ : ارے اس میں تو کوئلے ہیں۔

تحسین : کوئلے!

نغمہ : (مسکرا کر) آداب عرض ہے جناب! کھائیے لڈو۔ شوق سے کھائیے۔ نغمہ کو دھوکا دینا آسان نہیں ہے۔ کھائیے لڈو۔ بڑے مزے دار ہیں۔ ہی ہی ہی ہا ہا ہا !

 

(نغمہ قہقہہ لگاتی ہے۔ تحسین، عذرا اور فریدہ حیران پریشان کھڑے ہیں۔ پردہ گر جاتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

گڑیا کی سال گرہ

 

                   پہلا منظر

 

(سلمیٰ کا کمرہ، سلمیٰ میز کی چیزیں اٹھا اٹھا کر اس انداز سے دوسری جانب رکھ رہی ہے، جیسے کوئی چیز تلاش کر رہی ہے۔ اس کے چہرے سے گھبراہٹ اور پریشانی ظاہر ہو رہی ہے۔ گھبراہٹ میں ایک موٹی کتاب فرش پر گر پڑتی ہے۔ سلمیٰ جلدی سے کتاب اٹھانے کے لیے جھکتی ہے اور جیسے ہی کتاب اٹھانے لگتی ہے دروازے کے قریب اس کی باجی آتی ہیں۔ باجی کے لہجے میں غصہ ہے)

باجی : یہ کیا ہو رہا ہے سلمیٰ!

سلمیٰ : کچھ نہیں باجی! وہ۔۔۔۔ دیکھیے نا باجی!۔۔۔ وہ (کتاب میز کے اوپر رکھ دیتی ہے) پتا نہیں وہ کدھر غائب ہو گئی۔

باجی : کتابیں تو نیچے گرائی جا رہی ہیں اور ابھی کچھ ہو ہی نہیں رہا! کیا میز کو بھی الٹ دینے کا ارادہ ہے؟

(باجی کمرے کے اندر آ جاتی ہیں)

سلمیٰ : کیا کروں باجی؟ وہ مل جو نہیں رہی۔ آخر کیا کروں؟

باجی : کر تو رہی ہو اور کیا کرو گی۔ بات کیا ہے آخر؟ تلاش کس چیز کی ہے؟ کھو کیا گیا ہے جس کے لیے یوں پریشان ہو؟

سلمیٰ : میری یاسمین گم ہو گئی ہے باجی!

باجی : یاسمین گم ہو گئی ہے؟

سلمیٰ : جی ہاں!

باجی : تو یہاں کہاں آ گئی کو تم نے میز کی ساری چیزیں الٹ پلٹ دی ہیں؟ کسی الماری ولماری میں ہو گی۔ دیکھا بھی الماریوں میں؟

سلمیٰ : سب الماریاں دیکھ چکی ہوں باجی!

(باجی ایک الماری کھول کر اس کے اندر دیکھتی ہے)

باجی : یہاں تو نہیں ہے۔

سلمیٰ : پتا نہیں، کہاں غائب ہو گئی۔

باجی : تمہیں اس کا علم ہونا چاہیے __ گڑیا تمہاری ہے کسی اور کی تو نہیں ہے۔

سلمیٰ : خبر نہیں کون لے گیا ہے؟

باجی : لے جا کون سکتا ہے (الماری کے پٹ بند کرتے ہوئے) یہیں کہیں ہو گی۔ ذرا اطمینان کے ساتھ ڈھونڈو، مل جائے گی۔ جائے گی کہاں آخر؟

سلمیٰ : دیکھ چکی ہوں سارے کمروں میں۔ کہیں بھی تو نہیں مل رہی۔۔۔ پتا نہیں باجی۔۔۔۔

باجی : کچھ یاد ہے؟ رکھا کہاں تھا اسے؟

سلمیٰ : اسی میز کے اوپر۔

باجی : بھول گئی ہو۔۔ یہاں رکھا ہوتا تو ضرور مل جاتی۔۔ کہیں اور رکھ کر بھول گئی ہو اور اب پریشان ہو کر چیزوں کا ناس کر رہی ہو یہی نتیجہ ہوتا ہے بے پروائیوں کا۔ قرینے سے رکھو کیوں؟ قرینے سے تو پرہیز ہے تم لوگوں کو۔

سلمیٰ : مجھے اچھی طرح یاد ہے، کپڑے پہنا کر اسے یہیں رکھا تھا۔ آپ کو معلوم ہے آج اس کی سال گرہ ہے۔

باجی : سال گرہ؟ خوب خوب۔ جبھی صبح سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔

سلمیٰ : (رونی صورت بنا کر) ابھی میری سہیلیاں آ جائیں گی۔

باجی : ہاں! وہ تو آئیں گی ہی۔ دعوت جو دے رکھی ہے انہیں۔

سلمیٰ : تو پھر کیا ہو گا؟

باجی : تمہاری یاسمین تو گئی۔۔۔ اب یہ ہوسکتا ہے کہ کسی اور گڑیا کی سال گرہ کر دو۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا اس سے۔

سلمیٰ : یہ کیسے ہوسکتا ہے باجی! سب نے یاسمین کو دیکھا ہوا ہے اور سب جانتی ہیں کہ سال گرہ یاسمین کی ہے۔

باجی : یاسمین کو شاید کوئی چرا کر لے گیا ہے۔ یا ہوسکتا ہے اس کے پر لگ گئے ہوں اور وہ کھڑکی کے راستے اڑ گئی ہو۔ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

سلمیٰ : باجی میرا خیال ہے شوکت۔۔۔

باجی : شوکت لے گیا ہے؟ وہ کیا کرے گا تمہاری گڑیا کا؟

سلمیٰ : مجھے تو پریشان کرے گا نا۔

باجی : شوکت نے ایسی شرارت کبھی نہیں کی۔ اسے کیا ضرورت تھی تمہاری گڑیا چھپانے کی۔

(دروازے کی طرف جاتے ہوئے)

دیکھو! اب چیزیں الٹ پلٹ مت کرو۔ کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی خواہ مخواہ۔

سلمیٰ : تو ڈھونڈوں کیسے؟

باجی : کسی اور کمرے میں دیکھو جا کر۔

سلمیٰ : سب کمروں میں دیکھ آئی ہوں باجی!

باجی : اچھا اطمینان سے دیکھو!

(سلمی اس الماری کی طرف جانے لگتی ہے۔ جسے اس کی باجی نے چند لمحے پہلے کھولا تھا۔ باجی دروازے میں سے نکل جاتی ہیں۔ کسی قدر دور سے خالدہ کی آواز آتی ہے، سلمیٰ! سلمیٰ الماری کا بھی ایک ہی پٹ کھول سکی ہے کہ رک جاتی ہے۔ اور بلند آواز سے کہتی ہے "آؤ خالدہ” سلمیٰ الماری کا دوسرا پٹ بھی کھول کر دیکھتی ہے۔۔۔ خالدہ آتی ہے)

خالدہ : ہو گئیں تیاریاں؟

(سلمیٰ الماری کے پٹ بند کر دیتی ہے اور خالدہ کی طرف پلٹ کر دیکھتی ہے)

سلمیٰ : خاک تیاریاں ہو گئیں۔

خالدہ : کیوں؟ خیر تو ہے؟

سلمیٰ : جس کی سال گرہ ہے وہی نہیں ہے۔

خالدہ : کیا مطلب؟

سلمیٰ : میری یاسمین ہی غائب ہو گئی ہے۔

خالدہ : ہائے! یاسمین غائب ہو گئی ہے! سچ؟

سلمیٰ : تو کیا جھوٹ بولوں گی تم سے؟

خالدہ : یعنی یاسمین۔۔۔

سلمیٰ : (غصے سے) ہاں ہاں! یاسمین گم ہو گئی ہے۔

خالدہ : یہ تو غضب ہی ہو گیا ہے۔

سلمیٰ : ابھی سب لوگ آ جائیں گے۔

خالدہ : جس کی سال گرہ ہے وہی نہ ہوئی تو پھر کیا ہو گا۔

سلمیٰ : اسی بات پر تو میں پریشان ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟

خالدہ : تو۔۔۔۔۔ تو (کچھ سوچنے لگتی ہے)

سلمیٰ : تو۔۔۔۔۔۔ تو کیا؟

خالدہ : سال گرہ تو ضرور ہونی چاہیے۔

سلمیٰ : کیوں نہیں۔۔۔۔۔ مگر جس کی سال گرہ ہونی ہے، وہ کہاں ہے؟

خالدہ : میں بتاؤں؟

سلمیٰ : کہو!

خالدہ : میری غزالہ دیکھی ہے نا؟

سلمیٰ : کئی مرتبہ۔۔۔ مگر تمہارا مطلب کیا ہے؟

خالدہ : یاسمین کی بجائے غزالہ۔

سلمیٰ : نہ جی معاف کرو۔ سال گرہ ہو گی تو یاسمین کی ہو گی۔

خالدہ : ورنہ نہیں ہو گی۔

(سلمیٰ سوچ میں پڑ جاتی ہے)

خالدہ : میں کہتی ہوں۔ یاسمین بڑی خوب صورت گڑیا ہے۔ مگر میری غزالہ بھی کم خوب صورت نہیں ہے۔ سچ کہو! ایسی پیاری گڑیا کہیں دیکھی ہے تم نے؟

سلمیٰ : اچھی گڑیا ہے۔

خالدہ : اچھی نہیں۔۔۔ بہت اچھی۔۔۔ بہت پیاری۔ اتنا سجا بنا کر رکھتی ہوں کہ کیا کہوں۔ تمہاری یاسمین سے اگر زیادہ نہیں تو کم خوب صورت بھی نہیں ہے۔

سلمیٰ : سچ پوچھو تو میرا دل نہیں مانتا کہ کسی اور گڑیا کی سال گرہ کروں۔

خالدہ : کسی اور کی گڑیا کہاں ہے۔ غزالہ بھی تمہاری ہی گڑیا ہے۔ میں تو یاسمین اور غزالہ میں کوئی فرق نہیں سمجھتی۔ تم دیکھو گی تو تڑپ ہی اٹھو گی۔ صبح ہی میں نے اسے نئے کپڑے پہنائے ہیں۔ کراچی سے میری خالہ زاد بہن اصغری آ رہی ہے۔ اس کی گڑیا سے بیاہ کا ارادہ ہے۔

سلمیٰ : اچھا!

خالدہ : تو لے آؤں میں جا کر؟ پل بھر (چٹکی بجا کر) میں لے آؤں گی۔ لے آؤں نا؟

سلمیٰ : تو اور کیا کرو گی؟ بنی سجی ہے نا؟

خالدہ : بہت بہت بنی سجی ہے۔ صبح ہی تو اسے نئے کپڑے پہنائے ہیں۔

(خالدہ دروازے کی طرف جانے لگتی ہے)

سلمیٰ : خالدہ! دیکھو بتانا نہیں کسی کو کہ سال گرہ غزالہ کی ہو رہی ہے۔ ویسے میں یاسمین کو تلاش کرتی رہوں گی۔ اللہ کرے مل جائے۔

(خالدہ چلی جاتی ہے۔ کسی قدر قریب سی سیٹی کی آواز اتی ہے۔ شوکت آتا ہے)

شوکت : واہ وا! آج تو بڑے ٹھاٹ ہیں۔ مٹھائیوں کی خوش بو آ رہی ہے (سونگھتا ہے) مزا ہی آ جائے گا۔

سلمیٰ : شوکت! سچ بتاؤ۔ یاسمین کو تم نے تو نہیں چھپا دیا کہیں؟

شوکت : سبحان اللہ! یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ، میں تو پورے ایک سال سے اس کی سال گرہ کا انتظار کر رہا تھا۔ یاسمین کو چھپا دوں گا تو سال گرہ کس کی ہو گی اور سال گرہ نہیں ہو گی تو نقصان ہمارا ہے کسی اور کا تو نہیں ہے۔

سلمیٰ : ہوسکتا ہے تم نے شرارت کی ہو۔

شوکت : میں گڑیا سے نہیں کھیلا کرتا۔ فٹ بال سے کھیلا کرتا ہوں۔ تمہاری گڑیا سے صرف آج کے دن کے لیے دل چسپی ہے۔ کیوں کہ اس کی سال گرہ ہے۔

سلمیٰ : تم نے اسے دیکھا تو ہو گا؟

شوکت : ہاں دیکھا تھا۔

سلمیٰ : کب؟

شوکت : پچھلے ہفتے۔

سلمیٰ : جاؤ! مجھے پریشان مت کرو۔

شوکت : پریشان تو تم کر رہی ہو۔

سلمیٰ : میں کیسے پریشان کر رہی ہوں؟

شوکت : سال گرہ جو نہیں ہو گی۔

سلمیٰ : سال گرہ ضرور ہو گی۔۔۔ یاسمین کی نہ سہی، کسی اور کی گڑیا کی کر دیں گے۔

شوکت : بہت اچھا۔۔ بہت بہت اچھا۔

سلمیٰ : ذرا دیکھو۔۔۔۔ اپنے کمرے میں اسے ڈھونڈو تو سہی۔ ممکن ہے مل جائے۔۔۔۔کرو گے نا مدد؟

شوکت : ضرور مدد کروں گا۔

(شوکت سیٹی بجاتا ہوا نکل جاتا ہے۔ عذرا آتی ہے)

عذرا : سلمیٰ! تمہاری باجی کیا کہہ رہی ہیں؟

سلمیٰ : ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔

عذرا : سچ مچ یاسمین۔۔۔

سلمیٰ : ہاں!

عذرا : مگر تیاریاں تو ہو رہی ہیں۔۔۔ یہ کیوں؟

سلمیٰ : اس لیے تیاریاں ہو رہی ہیں کہ سال گرہ ضرور ہو گی۔

عذرا : میں کچھ سمجھی نہیں۔

سلمیٰ : یاسمین غائب ہو گئی ہے تو کیا میری سہیلیوں کی گڑیاں بھی غائب ہو گئی ہیں؟

عذرا : اللہ نہ کرے۔

سلمیٰ : تو بس معاملہ ٹھیک ہے۔

(سلمیٰ پھر الماری کی طرف جانے لگتی ہے۔ عذرا دروازے میں سے نکل جاتی ہے۔ سلمیٰ ایک ڈبا نکالتی ہے، اسے کھولتی ہے۔ اس میں کوئی رنگین رنگین کپڑا ہے۔ کپڑے کو پھر ڈبے میں رکھ کر اسے بند کر دیتی ہے۔ خالدہ بھاگتی ہوئی آتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈبا ہے۔ سلمیٰ الماری سے الگ ہو جاتی ہے)

خالدہ : لو سلمیٰ !

(خالدہ ڈبا کھولتی ہے۔ اس میں سے ایک خوب صورت گڑیا نکالتی ہے)

کیوں کیسی ہے؟

سلمیٰ : اچھی ہے!

خالدہ : بہت اچھی کیوں نہیں کہتیں؟ پتا ہے رضیہ نے کیا کہا ہے اسے دیکھ کر؟

سلمیٰ : کیا کہا ہے؟

خالدہ : کہنے لگی، ایسی گڑیا تو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔ عجائب گھر میں رکھنے کے قابل ہے۔

سلمیٰ : یاسمین مل جاتی تو بہت اچھا رہتا۔ خیر اب غزالہ ہی کی سال گرہ منا لیں گے اور کیا ہوسکتا ہے۔

(باہر سے فریدہ کی آواز آتی ہے)

خالدہ : فریدہ معلوم ہوتی ہے۔

سلمیٰ : (بلند آواز سے) آؤ فریدہ!

(فریدہ آتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ ہے)

خالدہ : (لفافہ کی طرف اشارہ کر کے) اس میں تحفہ ہو گا۔

فریدہ : جی ہاں!

خالدہ : دیکھوں تو۔

(فریدہ لفافے میں سے اپنی گڑیا نکالتی ہے)

سلمیٰ : ارے یہ کیا؟

خالدہ : تحفے میں اپنی گڑیا دو گی کیا؟

فریدہ : یہ تحفے میں دینے کے لیے نہیں ہے جناب۔

خالدہ : تو پھر کاہے کو لائی ہو؟

فریدہ : اجی سال گرہ ہو گی اس کی؟

فریدہ : اور کیا؟ شوکت نے تو یہی کہا تھا مجھ سے کہ یاسمین گم ہو گئی ہے، سلمیٰ پریشان ہے۔ اپنی گڑیا لے آؤ اس کی سال گرہ ہو گی۔

سلمیٰ : میں نے تو شوکت سے ایسی بات ہرگز نہیں کہی تھی۔

خالدہ : سال گرہ تو غزالہ کی ہو گی۔

فریدہ : غزالہ کی ہو گی تو پھر میری بانو کو کیوں بلایا تھا؟

سلمیٰ : میں نے ہرگز نہیں بلایا۔

فریدہ : تو پھر مجھے الہام تو نہیں ہوا۔ پوچھ لو شوکت کو بلا کر۔ باہر ہے صحن میں۔

(سلمیٰ دروازے پر جا کر شوکت کو آواز دیتی ہے۔ شوکت آتا ہے)

شوکت : لو میں نے تمہاری پریشانی دور کر دی ہے۔

سلمیٰ : میں نے تم سے کب کہا تھا کہ فریدہ سے ایسی بات کہو جا کر؟

شوکت : تم نے تو نہیں کہا تھا مگر میرا تو فرض تھا نا کہ بہن کی پریشانی دور کروں۔ اور میں نے دور کر دی۔

سلمیٰ : یہ پریشانی دور کی ہے تم نے؟

شوکت : تو اور کیا کیا ہے؟

سلمیٰ : پریشانی بڑھا دی ہے۔

شوکت : وہ کیسے؟

سلمیٰ : سال گرہ خالدہ کی غزالہ کی ہو رہی ہے۔ میں نے اس سے کہا تھا اور وہ اپنی گڑیا لے آئی ہے۔

فریدہ : مجھے کیا خبر کہ تم نے خالدہ سے یہ بات کہہ رکھی ہے۔ شوکت نے تمہارا پیغام دیا اور میں لے آئی اپنی بانو کو تیار کر کے۔

سلمیٰ : سال گرہ تو غزالہ کی ہو گی نا اب۔

فریدہ : یہ میں کیا جانوں۔۔۔۔ میں تو اپنی باجی اور امی سے کہہ کر آئی ہوں کہ سال گرہ میری گڑیا کی ہو رہی ہے۔

سلمیٰ : شوکت! تم نے مجھے سے تو پوچھ لیا ہوتا۔ کیا غضب کر دیا ہے تم نے!

شوکت : منع کر دیا ہوتا مجھے۔

سلمیٰ : مجھے کیا خبر تھی تم فریدہ سے یہ بات کہنے جا رہے ہو۔

شوکت : اور مجھے کیا پتا تھا کہ تم خالدہ سے یہ بات کہہ چکی ہو۔

سلمیٰ : تم نے بڑی غلطی کی ہے۔

شوکت : غلطی یا تو ہم دونوں ہی نے کی ہے یا پھر کسی نے بھی نہیں کی۔

(عذرا آتی ہے، ہاتھ میں رومال میں لپٹی ہوئی کوئی چیز ہے)

لیجئے بی عذرا بھی آ گئیں۔۔۔۔ یہ بھی کچھ اٹھائے چلی آرہی ہیں۔ مزہ آ جائے گا یہ بھی!

عذرا : میں اپنی گڑیا کو لے آئی ہوں۔

شوکت : واہ وا مزا آ گیا۔ اب تو کمال ہو گیا۔ کہو سلمیٰ ہو گیا ہے نا کمال؟ عذرا! تم سے کس نے کہا تھا کہ اپنی گڑیا اٹھا کر لے آؤ؟

عذرا : کہا تو کسی نے نہیں تھا۔ سوچا سلمیٰ کی مدد کرنا میرا فرض ہے۔ یاسمین گم ہو گئی ہے سال گرہ ثریا کی ہی ہو جائے گی۔

شوکت : تمہارے ساتھ دو اور بھی مدد کرنے والی آ پہنچی ہیں۔ ہے نا تماشا؟

عذرا : بات کیا ہے؟

شوکت : خالدہ سے سلمیٰ نے کہا کہ اپنی گڑیا لے آؤ۔ یہ بات فریدہ سے میں نے بھی کہہ دی اور عذرا نے یہ بات اپنے آپ سے کہہ دی۔۔۔ یاسمین گم ہو گئی اور اس کی بجائے تین گڑیاں آ گئی ہیں۔۔۔۔ اب سال گرہ ہو تو کس کی ہو؟

خالدہ : مجھ سے تو سلمیٰ نے خود کہا تھا۔

عذرا : اس کا فیصلہ تو سلمیٰ ہی کرسکتی ہے۔

فریدہ : مجھے پیغام ملا تھا۔۔۔۔ خود تو نہیں لے آئی؟

سلمیٰ : میں نے نہ تو فریدہ سے کہا تھا اور نہ عذرا سے۔

شوکت : اب جھگڑا کس بات کا۔ تینوں کی سال گرہ کر دو۔

سلمیٰ : وہ کیسے؟

شوکت : ایک گڑیا کی سال گرہ ہوسکتی ہے تو تین گڑیوں کی کیوں نہیں ہوسکتی؟ ضرور ہوسکتی ہے اور ہو گی اور ہم مٹھائی کھائیں گے۔

سلمیٰ : میں نہیں کرتی سال گرہ۔ معاف کرو مجھے۔

شوکت : تو ان مٹھائیوں کا کیا ہو گا جو باورچی خانے میں پڑی ہیں۔

سلمیٰ : میں کیا جانوں!

فریدہ : میں تو چلی۔

عذرا : اور میں کیا ٹھہروں گی بھلا۔

خالدہ : میں باز آئی سال گرہ منانے سے۔ ایک تو گڑی لاؤ اور پھر اوپر سے باتیں سنو۔

سلمیٰ : ذرا ٹھہرو تو سہی! فیصلہ کر لیتے ہیں۔۔۔

(باجی آتی ہیں۔۔۔ ہاتھ میں گڑیا ہے)

باجی : یہ لو! باورچی خانے میں بھول آئی تھیں۔

سلمیٰ : ہائے میری یاسمین!

(سلمیٰ بے اختیار اپنی گڑیا کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہے۔ عذرا، خالدہ، اور فریدہ حیرت سے دیکھتی ہیں اور پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

یہ گھڑی کس کی ہے؟

 

 

(ایک کمرہ۔ اکرم، اشرف اور صفیہ تینوں بھائی بہن ایک میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ میز کے اوپر کچھ آم پڑے ہیں۔ اکرم سب سے بڑا بھائی ہے۔ اس لیے وہ آم تقسیم کر رہا ہے۔ وہ تین آم اٹھاتا ہے اور اشرف کو دیتا ہے)

اکرم : لو اشرف! اپنا حصہ۔

اشرف : (آم لیتے ہوئے) بہت اچھا، لاؤ!

(اشرف آم لے کر میز کی ایک جانب رکھ دیتا ہے)

اکرم : اور یہ لو صفیہ! تم تین آم

صفیہ : شکریہ۔

(صفیہ اپنے حصے کے آم لے کر اپنے سامنے رکھ لیتی ہے۔ اکرم کے آگے باقی پانچ آم رہ جاتے ہیں)

اشرف : یہ تمہارے پاس پانچ کیوں ہیں؟

صفیہ : ہم دونوں نے تین تین لیے ہیں۔ تمہارے حصے میں پانچ کیوں آ گئے؟

اکرم : یہ دو آم زیادہ ملے ہیں اور میری وجہ سے ملے ہیں۔ اس لیے ان کا حق دار میں ہوں۔

صفیہ : وہ کیوں؟ امی نے کہا تھا کہ آم والے سے ایک سیر آم خرید کر آپس میں تقسیم کر لو۔ ہر ایک کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔ ہم تین تین لیں تو تم پانچ کیوں لو؟

اشرف : صفیہ درست کہہ رہی ہے۔ جب ہم دونوں کو تین تین مل رہے ہیں تو تمہیں بھی اتنے ہی ملنا چاہیے۔

اکرم : اگر نو آم ہوتے تو بے شک میں بھی تین لیتا مگر یہ ہیں گیارہ۔ دو کو تین کس طرح بنا سکتا ہوں؟ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ یہ زائد آم دکان دار نے میری وجہ سے دئیے ہیں۔ ان پر میرا حق ہے۔

اشرف : جی نہیں۔ صرف تمہارا حق نہیں۔ میرا حق بھی ہے۔

اکرم : دکان دار نے جب پوچھا تھا کہ آم پورے ہوئے ہیں یا نہیں تو میں نے ہی کہا تھا نا کہ پورے نہیں ہوئے۔ ابھی صرف آدھ سیر ملے ہیں حالاں کہ وہ پورے ایک سیر دے چکا تھا۔ اگر میں کہہ دیتا کہ پورے آم میری جھولی میں آچکے ہیں تو دکان دار آدھ سیر زیادہ کیوں دیتا؟

صفیہ : لیکن امی نے یہ کب کہا تھا کہ اگر دکان دار سے زیادہ آم لے لو تو جو زیادہ ملیں وہ صرف اکرم کو ملیں، دوسروں کو نہ ملیں؟

اکرم : اور امی نے یہ کب کہا تھا کہ جس کی وجہ سے زیادہ آم ملیں وہ زیادہ حصہ نہ لے، یہ دونوں آم میرے ہیں۔

اشرف : جی نہیں۔

صفیہ : بالکل نہیں۔ ہر ایک کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے۔

اکرم : ہر ایک کو برابر کا حصہ ملا ہے۔

صفیہ : کہاں برابر کا حصہ ملا ہے؟ تم پانچ کیوں لے رہے ہو؟

اکرم : اگر میں دکان دار سے کہہ دیتا کہ بڑے میاں! ہم نے ایک سیر آم لے لیے تو وہ آدھ سیر زیادہ کیوں دیتا؟ کیوں؟ یہی بات ہے نا؟

صفیہ : یہ بات تو ہے۔

اکرم : تو پھر جو آم زیادہ ہیں، وہ کس کے حصے میں جائیں گے؟ کیا ان کا حق دار میں نہیں ہوں؟

اشرف : بالکل نہیں۔ ہرگز نہیں۔

اکرم : یہ دو تو میں ہرگز نہیں دوں گا۔

اشرف : امی نے جب کہا ہے کہ ہر ایک کو ایک جیسا حصہ ملنا چاہیے تو یہ دو بھی ہم تینوں میں تقسیم ضرور ہوں گے۔

صفیہ : ہوں گے اور ضرور ہوں گے اور اسی وقت ہوں گے۔

(امی دروازے پر آتی ہیں)

امی : اکرم! یہ شور کیوں مچا رہے ہو؟ کیا بات ہے؟

اشرف : آپ نے کہا تھا نا کہ ایک سیر آم خرید لو اور آپس میں برابر تقسیم کر لو۔

امی : ہاں کہا تھا۔

صفیہ : اکرم برابر برابر تقسیم نہیں کر رہا۔

امی : کیوں اکرم بیٹا! کیا گنتی ٹھیک نہیں ہو رہی ؟

اکرم : گنتی تو ٹھیک ہے امی!

امی : پھر انصاف نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟

(تینوں ایک لمحے کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں)

امی : خاموش کیوں ہو گئے ہو؟ جواب دو۔ کیا پوچھا ہے میں نے اشرف؟

اشرف : امی! وجہ یہ ہے کہ آم ایک سیر نہیں ہیں ڈیڑھ سیر ہو گئے ہیں۔

امی : میں نے کہا تو تھا کہ صرف ایک سیر خریدو پھر ڈیڑھ سیر کیوں لیے؟

صفیہ : آپ یہ اکرم سے پوچھیں۔

اشرف : میں بتاتا ہوں امی! ہوا یہ کہ دکان دار کو ایک سیر کا باٹ مل نہیں رہا تھا اس نے کہا میں دو مرتبہ آدھ آدھ سیر تول کر دے دیتا ہوں۔ جب وہ ایک سیر تول چکا تو اسے خیال ہی نہ رہا کہ پورے آم تول چکا ہے۔ گاہک بہت تھے نا امی! بھول گیا۔ اس نے پوچھا "یک سیر آم تول دئیے ہیں یا نہیں؟” تو اکرم نے کہا "نہیں۔۔ ابھی صرف آدھ سیر ہوئے ہیں۔”

امی : بہت بری بات ہے اکرم! تم نے جھوٹ کیوں بولا؟ دیانت داری سے کام کیوں نہیں لیا؟

اکرم : امی! بات یہ ہوئی۔۔۔ کہ۔۔۔ امی دراصل۔

امی : اکرم بیٹا! یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اگر دکان دار بھول گیا تھا تو تمہیں جھوٹ بول کر اس طرح فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ یہ چیز دیانت داری کے خلاف ہے اور ہر انسان کو دیانت دار ہونا چاہیے۔ میں تو سمجھتی تھی کہ میرا اکرم بیٹا بڑا دیانت دار ہے۔ مگر آج۔۔۔۔۔۔۔

اکرم : امی! مجھے افسوس ہے۔ شرمندہ ہوں۔ یہ دو آم ابھی دکان دار کو واپس کر کے آتا ہوں۔

امی : شاباش! اچھے بچے کبھی جھوٹ بول کر پرائی چیز کو اپنی چیز نہیں بناتے۔ جو چیز جائز طور پر ہمیں نہ ملے۔ وہ ہرگز ہماری نہیں ہو سکتی۔ جلدی واپس کر کے آؤ۔

(اکرم دو آم اٹھا کر دروازے سے نکل جاتا ہے)

دیکھو! آم ابھی رہنے دو۔ کھانا کھانے کے بعد کھانا۔

اشرف : بہت اچھا امی!

(امی دروازے میں سے نکل کر جانے لگتی ہیں۔ ان کے جاتے ہی سعید بیٹھتا ہے۔ وہ مسکرا رہا ہے مٹھی میں کوئی چیز بند ہے۔)

صفیہ : سعید بھیا! اس طرح مسکرا کیوں رہے ہو؟

سعید : آج تو اللہ تعالیٰ نے بیٹھے بٹھائے انعام دے دیا ہے۔

اشرف : بیٹھے بٹھائے انعام؟ وہ کیسے؟

سعید : گھر سے نکل کر تمہاری طرف آ رہا تھا کہ گلی کی نُکّڑپر ایک شے مل گئی۔

صفیہ : کون سی شے ملی ہے؟

سعید : میری مٹھی میں ہے۔

صفیہ : ہے کیا آخر ؟ مٹھی کھول کر دکھاؤ۔

سعید : یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہر وقت ٹک ٹک کرتی رہتی ہے۔

صفیہ : گھڑی تو نہیں؟

سعید : ہاں گھڑی ہے۔ سڑک پر پڑی تھی۔ میں نے جھٹ اٹھا لی۔ یہ دیکھو!

(سعید، اشرف اور صفیہ کو ایک چھوٹی سی گھڑی دکھاتا ہے۔ اکرم واپس آ جاتا ہے)

اکرم : کیا دکھا رہے ہو سعید؟

صفیہ : سعید کو یہ گھڑی ملی ہے زمین پر گری ہوئی۔

سعید : مزا آ گیا آج تو۔ بڑی قیمتی معلوم ہوتی ہے۔

اکرم : مگر یہ گھڑی تمہاری نہیں ہے۔

سعید : کیوں؟ میری کیوں نہیں؟

(سعید گھڑی میز پر رکھ دیتا ہے)

اکرم : اس لیے تمہاری نہیں کہ تم نے نہ تو اسے خریدا ہے اور نہ تمہارے ابا امی نے یہ تمہیں دی ہے۔ پھر تمہاری کس طرح ہوئی؟

صفیہ : ابھی ابھی ہماری امی نے کہا ہے کہ جو چیز جائز طور پر نہ ملے، وہ ہماری ہرگز نہیں ہوسکتی۔

اکرم : اس لیے سعید! یہ گھڑی تمہاری نہیں ہے۔

(سعید سوچ میں پڑ جاتا ہے)

اکرم : صرف اس کی ہے جس نے اسے خریدا ہے یا جسے کہیں سے تحفے میں ملی ہو گی۔

صفیہ : جس کی گھڑی کھو گئی ہے، وہ بے چارہ کتنا پریشان ہو گا!

اکرم : ہاں! بڑا پریشان ہو گا۔ نہ جانے کہاں کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہو گا۔ اس کی چیز اسے واپس مل جانی چاہیے۔

سعید : میں کیا جانوں کس کی ہے۔ مجھے تو زمین پر گری ہوئی ملی ہے۔

اکرم : وہی چھوڑ آؤ جا کر۔

سعید : تو کوئی اور اٹھا کر لے جائے گا، جس طرح میں لے آیا ہوں۔

اشرف : ہاں! گھڑی تو اسے ملنی چاہیے جس کی ہے کسی اور کو نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے مل کیسے سکتی ہے؟

صفیہ : مل سکتی ہے اور بڑی آسانی سے مل سکتی ہے۔ دو ترکیبیں ہیں۔

اشرف : کیا؟

صفیہ : ایک ترکیب یہ ہے کہ گھڑی کسی طرح وہاں پہنچ جائے جہاں اس کا مالک ہے۔ یا مالک اس جگہ آ جائے جہاں گھڑی ہے۔

اکرم : کیا ترکیب بتائی ہے!

صفیہ : اگر گھڑی کے پر ہوتے تو یہ اڑ کر وہاں پہنچ سکتی تھی۔

اکرم : اگر اس کے پر ہوتے تو یہ پرستان میں پہنچ چکی ہوتی اور اس وقت کسی پری کی کلائی پر بندھی ہوتی۔ ارے! تم کیا سوچ رہے ہو سعید!

سعید : میرے دماغ میں ایک اعلیٰ درجے کی ترکیب آئی ہے۔ ہم ڈھنڈورا پٹوا دیتے ہیں کہ جس صاحب کی گھڑی ہو، وہ آ کر لے جائیں۔

اکرم : ڈھنڈورچی کو تو پیسے دینے پڑیں گے۔ میں بتاؤں، ایک کاغذ پر لکھ کر گلی کے موڑ پر لگا دیتے ہیں۔

سعید : لکھیں گے کیا؟

اکرم : یہی کہ ہمیں ایک گھڑی ملی ہے۔ جن صاحب کی ہو، وہ یہاں تشریف لا کر لے جائیں۔

صفیہ اور اشرف : (ایک ساتھ) بالکل ٹھیک!

اکرم : سعید! تم لکھو۔ تمہارا خط اچھا ہے۔

سعید : اچھا! میں لکھ دوں گا۔ نیچے پتا کیا لکھوں؟

صفیہ : ہمارے گھر کا پتا لکھو۔

سعید : کاغذ قلم دو۔

صفیہ : دوسرے کمرے میں ہے۔

سعید : اشرف! تم آؤ میرے ساتھ۔ لکھ کر باہر دیوار پر لگا دیتے ہیں۔

اشرف : چلو!

(سعید اور اشرف کمرے سے نکل جاتے ہیں)

صفیہ : یہ ترکیب تو بہت اچھی ہے۔ مگر ایک بات کا خطرہ ہے۔ کوئی بھی شخص آ کر کہہ سکتا ہے کہ گھڑی میری ہے۔ گلی میں لوگ آتے جاتے تو رہتے ہی ہیں جو بھی پڑھے گا گھڑی کا مالک بن جائے گا۔

اکرم : یہ خطرہ تو ہے۔ فرض کیا اشتہار گھڑی کا مالک نہیں پڑھتا، کوئی اور پڑھتا ہے۔ وہ آ کر کہہ سکتا ہے کہ یہ گھڑی میری ہے۔

صفیہ : اس صورت میں گھڑی اس کے مالک کو نہیں ملے گی۔

(اکرم گھڑی اٹھا کر دیکھتا ہے)

اکرم : پھر کیا کیا جائے؟

صفیہ : ہم گھڑی کو چھپا کر رکھیں گے جو شخص آئے گا، اس سے پوچھیں گے کہ اگر یہ آپ کی گھڑی ہے تو بتائیے یہ کیسی ہے۔ مثلاًاس کی زنجیر کیسی ہے؟

اکرم : زنجیر کہاں ہے اس کی؟

صفیہ : ہم سوال تو کرسکتے ہیں نا۔ ایسے سوالوں سے پتا چل جائے گا کہ وہ ٹھیک کہتا ہے یا نہیں۔ جس نے گھڑی کے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتا دیا، وہ اسی کی ہو گی۔

اکرم : گھڑی کہاں رکھیں؟

صفیہ : میز کی دراز میں رکھ دو۔

(اکرم میز کی ایک دراز کھولتا ہے۔ گھڑی اس میں رکھ کر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اشرف اور سعید آتے ہیں)

صفیہ : اشرف! اشتہار لگا دیا؟

اشرف : ہاں! لگا دیا ہے۔ سامنے بڑی دیوار پر۔ بڑا مزہ آیا۔ جیسے ہی ہم نے اشتہار لگایا، کئی لوگ آ گئے اور پڑھنے لگے۔

سعید : (میز پر نظریں ڈالتے ہوئے) گھڑی کہاں گئی؟

اکرم : میز کی دراز میں رکھ دی ہے، جو بھی آئے گا، ہم اس سے پوچھیں گے کہ جناب! گھڑی کیسی ہے؟

سعید : ٹھیک! ٹھیک!

صفیہ : سعید! تم باہر کے دروازے پر ٹھہرو جا کر۔ جو آئے، اسے لے آؤ۔

سعید : میرے ذمے یہ ڈیوٹی ہے۔ اچھا! جاتا ہوں۔ کسی کے آنے کی آواز تو آ رہی ہے۔

اشرف : بھاگو نا پھر۔

(سعید جلدی سے نکل جاتا ہے)

صفیہ : دیکھنا میں کیسے کیسے سوال کرتی ہوں۔

اکرم : بہت سوچ سمجھ کر بات کرنا۔

اشرف : کوئی آ رہا ہے۔

(ایک بوڑھا آدمی آتا ہے)

بوڑھا : (دروازے پر رک کر) اچھے بچو! میں اندر آ جاؤں؟

اشرف : آئیے آئیے! تشریف لائیے بڑے میاں!

بوڑھا : شکریہ شکریہ! عزیز بچو! یہ تم نے بہت اچھا کیا جو ایسی عبارت لکھ کر دیوار پر لگا دی۔ بہت اچھا کیا۔ اچھے بچے ہمیشہ اچھے کام کرتے ہیں۔

اکرم : جی جناب!

بوڑھا : میں تمہارا بڑا شکر گزار ہوں۔ ہائے کیا بتاؤں! صبح سے کتنا پریشان تھا۔ یہ گھڑی خدا جھوٹ نہ بلوائے، تیس دو بتیس اور تین پینتیس 35 برس سے میرے پاس ہے۔

اکرم : پینتیس برس سے؟

بوڑھا : ہاں بیٹا! پورے پینتیس برس سے۔ مجھے اس سے بڑی محبت ہے۔ اور محبت کی وجہ یہ ہے کہ میرے نانا جان نے مجھے دی تھی۔

اشرف : اور نانا جان کو ان کے ابا جان نے دی ہو گی؟

بوڑھا : نہیں بیٹا! میرے نانا جان نے اپنے نانا جان سے لی تھی اور انہوں نے اپنے نانا جان سے لی تھی۔

اکرم : اور انہوں نے اپنے نانا جان سے لی ہو گی۔

صفیہ : (ہنس کر) بڑے میاں! اس وقت تک تو گھڑی ایجاد ہی نہیں ہوئی ہو گی۔

بوڑھا : ارے! کیا کہتی ہو بیٹا! گھڑی تو پتھر کے زمانے میں بھی انسان کے پاس تھی۔

صفیہ : اچھا!

بوڑھا : ہاں!

صفیہ : بڑے میاں! آپ کی گھڑی ٹک ٹک بھی کیا کرتی ہے؟

بوڑھا : کبھی کرتی ہے، کبھی نہیں کرتی۔

صفیہ : ہاں! بے چاری تھک جاتی ہے۔

اشرف : غالباً یہ دنیا کی سب سے پرانی گھڑی ہے۔

بوڑھا : میرا اپنا بھی یہی خیال ہے۔

صفیہ : تو بڑے میاں! کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ اسے عجائب گھر میں رکھوا دیں؟

بوڑھا : کیا کہا؟ میری گھڑی عجائب گھر میں رکھواؤ گے؟ لا حول ولا۔ میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آج میری پرانی گھڑی کو عجائب گھر میں رکھواؤ گے، کل کوئی کہے گا، بڑے میاں! تم بھی پرانے ہو گئے ہو۔ اب تمہیں عجائب گھر میں رکھوا دینا چاہیے۔

(بچے ہنستے ہیں)

نا بابا! میری گھڑی مجھے دو!

(بوڑھا ہاتھ بڑھاتا ہے)

صفیہ : جناب عرض یہ ہے کہ آپ نے گھڑی کی سب نشانیاں غلط بتائی ہیں۔ ہمیں آپ کی گھڑی نہیں ملی۔ آپ دروازے پر جو لڑکا کھڑا ہے، اسے اپنا پتا بتا دیں، جو فیصلہ ہو گا وہ آپ کو بتا دیا جائے گا۔

بوڑھا : بتا دیا جائے گا؟ کیا مطلب؟

(سعید آتا ہے)

سعید : دو صاحب اور آئے ہیں۔

صفیہ : اچھا بڑے میاں! خدا حافظ!

بوڑھا : بھئی کمال ہے۔ آج کل کے بچے کتنے گستاخ ہو گئے ہیں۔ توبہ توبہ!

(بوڑھا جانے لگتا ہے۔ ایک درمیانی عمر کا آدمی آتا ہے)

اشرف : آئیے جناب!

آدمی : آ رہا ہوں بچو! گھڑی دو۔ پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔

اکرم : کہاں سے دیر ہو گئی ہے؟

آدمی : کیا پوچھتے ہو۔ مجھے گیارہ بجے ایک بہت ضروری کام پر جانا تھا۔ گھڑی گم ہو جانے کی وجہ سے وقت کا اندازہ غلط ہوا۔ لاؤ نا میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ جلدی کرو جلدی!

اشرف : مگر جناب! یہ تو بتائیے کہ۔۔۔۔

آدمی : میرے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ کچھ بتاؤں۔ پوچھو! میرے بارے میں کیا پوچھنا چاہتے ہو۔

صفیہ : جناب! آپ کے بارے میں نہیں۔ آپ کی گھڑی کے بارے میں کچھ پوچھنا ہے۔ کیسی ہے آپ کی گھڑی؟

آدمی : کیسی ہے گھڑی؟ ویسی ہی جیسی اسے ہونا چاہیے۔ نہ کم نہ زیادہ۔ وہی اس کے پرزے ہیں۔ اتنا ہی اس کا وزن ہے، جتنا عام گھڑیوں کا ہوتا ہے۔

صفیہ : اور زنجیر بھی ویسی ہی ہے؟

آدمی : کیوں نہیں۔ کیوں نہیں۔ زنجیر بھی ویسی ہی ہے۔

(صفیہ ہنس پڑتی ہے)

صفیہ : معاف کیجئے جناب! ہمیں جو گھڑی ملی ہے، اس کی زنجیر تو ہے ہی نہیں۔

آدمی : ارے! زنجیر کس نے اڑا لی؟ خدا بھلا کرے اس کا۔ اچھا! نئی زنجیر خریدنا پڑے گی۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ نکالو۔ نکالو۔ اوہو! کیا کھڑے سوچ رہے ہو؟ میں کہتا ہوں، میری گھڑی لاؤ۔ شاباش شاباش! ہیں یہ کیا؟ یہ کیا تماشا ہے؟ سنتے نہیں ہو، میں کیا کہہ رہا ہوں؟

صفیہ : ہم سن رہے ہیں جناب!

آدمی : تو پھر بات کیا ہے؟ معاملہ کیا ہے؟ کیا قصہ ہے؟ گھڑی کا مالک آیا ہے۔

صفیہ : یہی تو مصیبت ہے جناب!

آدمی : مصیبت؟ کیا مصیبت ہے؟

صفیہ : گھڑی کا مالک نہیں آیا ہے۔

آدمی : تو میں کیا ہوں؟

صفیہ : آپ۔۔۔۔ یعنی کہ آپ ہیں۔

آدمی : یعنی کہ میں___ میں ہوں۔

صفیہ : اور گھڑی گھڑی ہے۔

آدمی : کیا مہمل باتیں ہیں؟ گھڑی دو ورنہ میں تھانے میں رپورٹ درج کرا دوں گا۔ سنا تم نے؟ نہیں سنا؟

اشرف : سن لیا ہے۔

آدمی : تو اب نہیں دو گے؟

صفیہ : جی نہیں۔ اس لیے کہ یہ گھڑی آپ کی نہیں ہے۔

آدمی : تو مجھے تھانے جانا پڑے گا۔ ابھی جاتا ہوں۔ اسی وقت اسی گھڑی۔ شریر کہیں کے۔ شرارت کے پُتلے۔

(آدمی تیزی سے نکل جاتا ہے۔ بچے زور سے ہنستے ہیں۔ ایک اور آدمی آتا ہے، ادھیڑ عمر کا۔ دروازے پر آ کر رک جاتا ہے)

صفیہ : آئیے جناب۔

(آدمی وہیں کھڑا رہتا ہے)

اشرف : آئیے جی!

(آدمی اب بھی وہیں کھڑا رہتا ہے)

صفیہ : جناب! آپ تشریف کیوں نہیں لاتے؟

(آدمی آہستہ آہستہ آنے لگتا ہے)

آدمی : (غصے سے) کیا بدتمیزی ہے۔ میں دروازے پر کھڑا ہوں اور اندر آنے کے لیے کہتے ہی نہیں۔

صفیہ : جناب! ہم نے تو آپ کو بلایا تھا۔

آدمی : کیا کہا؟

صفیہ : ہم نے کہا تھا آئیے جی!

آدمی : میں ذرا اونچا سنتا ہوں۔

صفیہ : اچھا! تو یہ بات ہے (بلند آواز میں) فرمائیے جناب!

آدمی : میں کچھ فرمانے کے لیے نہیں آیا۔

اشرف : تو ہم کیا خدمت کرسکتے ہیں؟

آدمی : کیا کہہ رہے ہو؟

صفیہ : (بلند آواز) جناب! ہم عرض کرتے ہیں کہ کیا خدمت کرسکتے ہیں؟

آدمی : خدمت یہی کرسکتے ہو کہ میری گھڑی مجھے دے دو۔

صفیہ : بہت اچھا جناب!

آدمی : شابش! شابیش! شابوش!

صفیہ : یہ گھڑی ہے کیسی؟

آدمی : کیا؟

صفیہ : (بلند آواز) یہ بتایئے گھڑی کیسی ہے؟

آدمی : بھئ میرا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ رات کھایا کیا تھا۔ اور تم پوچھ رہے ہو کہ بتاؤں گھڑی کیسی ہے؟

صفیہ : (بلند آواز) تو حضور کو یہ کیوں کر یاد آیا کہ آپ کی گھڑی گم ہو گئی ہے؟

آدمی : یہ معاملہ بھولنے والا نہیں ہے۔

اشرف : مگر اب بھول ہی جائیے۔

آدمی کیا بھول جاؤں؟

اشرف : کہ آپ کی گھڑی گم ہو گئی ہے۔

صفیہ : بھولنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ گھڑی گم ہوئی ہی نہیں۔

آدمی : اس کا مطلب ہے کہ مجھے تمہارے ابا جان سے ملنا پڑے گا۔ ابھی ملتا ہوں۔

(زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلا جاتا ہے۔ ایک آدمی اور آ جاتا ہے)

صفیہ : آئیے جناب!

نیا آدمی : واہ وا! یہاں تو ایک چھوڑ تین بچے جمع ہیں۔ مجھے بچوں سے بڑی محبت ہے۔ اور بچوں کو بھی مجھ سے محبت ہے۔ آپ مجھے جانتے نہیں؟

صفیہ : جی نہیں۔

نیا آدمی : ہیں! مجھے نہیں جانتے؟ کبھی میری آواز سنی نہیں؟ (خاص انداز میں) چنا جور گرم، میں لایا چنا جور گرم،

(تینوں بچے گاتے ہیں)

چنا جور گرم۔ میں لایا مزے دار چنا جور گرم۔

(وہ آدمی بھی اپنی آواز ان کی آواز میں شامل کر دیتا ہے۔ کئی لمحے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے)

نیا آدمی : بس بھئی بس! اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری گھڑی گری کس طرح؟

صفیہ : گر پڑی تھی؟

نیا آدمی : ہاں بیٹی! ہوا یوں کہ میں تمہاری گلی میں آیا تو ایک کتا میرے پیچھے بھاگا۔ میں بھی بھاگا۔

صفیہ : پھر کیا ہوا؟

نیا آدمی : وہ میرے پیچھے بھاگ رہا تھا اور میں اس کے آگے۔

اشرف : اس کے بعد کیا ہوا؟

نیا آدمی : وہ تیزی سے بھاگنے لگا اور میں بھی تیزی سے بھاگنے لگا۔

اشرف : دونوں بھاگتے رہے؟

نیا آدمی : دونوں بھاگتے رہے۔ وہ جتنی تیزی سے بھاگ رہا تھا، اتنی ہی تیزی سے میں بھی بھاگ رہا تھا۔

صفیہ : اس طرح تو آپ کئی میل دوڑتے چلے گئے ہوں گے۔

نیا آدمی : اور کیا۔ وہاں ایک بڑی سی نالی آئی۔ میں اسے پھلانگنے لگا تو گھڑی وہیں گر پڑی مگر میں بھاگتا رہا ۔ کتا تھک کر ہانپنے لگا اور میں ایک دوسرے راستے سے لوٹ آیا۔

اشرف : تو یہ ہے آپ کی گھڑی گم ہونے کی داستان!

نیا آدمی : ہاں بیٹا!

صفیہ : مگر آپ کی گھڑی تو میلوں دور ایک نالی کے پاس گری تھی اور یہ تو ہمیں اسی گلی میں ملی ہے۔

نیا آدمی : نہیں۔

(بچے ہنس پڑتے ہیں۔ وہ آدمی جانے لگتا ہے۔ بچے ہنس ہی رہے ہیں کہ امی اندر آتی ہیں)

امی : یہ کیا بد تمیزی ہے؟ ہنس کیوں رہے ہو؟

اشرف : امی! بڑا مزے دار قصہ ہے۔ ابھی آپ کو سنائیں گے۔

امی : قصہ بعد میں سنانا۔ ننھا ضد کر کے بچوں کی بناوٹی گھڑی لے آیا تھا، بارہ پیسے کی کھیلتے کھیلتے کہیں گم کر بیٹھا ہے۔ ذرا گلی میں جا کر ڈھونڈو۔ رو رہا ہے۔

صفیہ : کیا کہا امی؟ وہ گھڑی ننھے کی ہے؟

امی : کہاں ہے؟

صفیہ : (دراز میں سے گھڑی نکال کر) یہ تو نہیں؟

امی : ہاں! یہی تو ہے۔

(سعید بھاگتا ہوا اندر آتا ہے)

سعید : چار آدمی اور آئے ہیں۔

صفیہ : ہیں! چار آدمی اور آئے ہیں؟ (زور زور سے ہنستے ہوئے) امی!

امی : کیا ہے؟

صفیہ : آپ نے چھوٹوں کو تو بتا دیا کہ ایمان داری سے کام لیں۔ مگر بڑوں کو یہ بات کون سمجھائے؟

امی : کیا مطلب؟

 

(بچے ہنستے ہیں۔ امی انہیں گھور گھور کر دیکھتی ہیں۔ پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ لڑکی کون تھی؟

 

                   پہلا منظر

 

 

(ایک کمرا۔ ثریا صوفے پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہے۔ جاوید آتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک رومال ہے۔ جس میں اس نے ایک تتلی کو چھپا رکھا ہے)

جاوید : ثریا!

ثریا : کیا ہے جاوید!

جاوید : کچھ نہیں۔

ثریا : رومال میں کیا ہے؟ بھلا ہم دیکھ نہیں سکتے؟

جاوید : رومال میں کچھ نہیں ہے۔

ثریا : کچھ نہیں ہے چھپا کیوں رہے ہو؟ دکھاؤ نا بھیا!

جاوید : نہیں دکھاتے۔

ثریا : (روٹھنے والے انداز میں) اچھا! نہ دکھاؤ۔ نہیں دیکھتے ہم بھی۔

(ثریا جانے لگتی ہے)

جاوید : ٹھہرو! دکھاتا ہوں۔

(ثریا لوٹ آتی ہے)

ثریا : دکھاؤ۔

جاوید : ایسی شے ہے کہ دیکھو گی تو حیران رہ جاؤ گی۔

ثریا : ہوں اُوں۔

جاوید : ہاں اور کیا۔ ذرا سی شے ہے اور اتنے رنگ ہیں اس میں کہ کوئی شمار ہی نہیں کرسکتا۔

ثریا : (شوق سے) کیا ہے وہ؟

جاوید : تم نے پھولوں والی کتاب دیکھی ہے نا؟ لال جلدی والی ؟ ابا کی الماری میں رکھی ہوئی ہے۔

ثریا : سمجھی! پھول ہے کوئی۔

جاوید : پھول میں بے شمار رنگ ہوتے ہیں کیا؟

ثریا : باغ سے لائے ہو؟

جاوید : باغ میں صرف پھول ہی ہوتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا؟

(جاوید رومال کھول کر ثریا کو تتلی دکھاتا ہے)

ثریا : ہائے میرے اللہ! کتنی پیاری ہے!

جاوید : دوں گا نہیں۔

ثریا : کہاں رکھو گے؟

جاوید : کتاب کے اندر۔

ثریا : ہائے! مر جائے گی بے چاری! نہ بھیا! کتاب کے اندر تو بالکل نہ رکھنا۔

جاوید : باہر ہی رہی تو اڑ جائے گی۔ تمہیں کیا خبر کتنی مشکل سے پکڑی ہے۔

ثریا : ڈرائنگ روم میں جو گل دان ہے نا، وہاں بٹھا دو۔

جاوید : وہاں سے تو اڑ جائے گی۔ فوراً اڑ جائے گی۔

ثریا : تو تو۔۔۔ بتاؤں بھیا؟ صحن میں چھوڑ دو۔ یا یوں کرو کہ یہیں چھوڑ دو۔

جاوید : چھوڑوں گا تو ہرگز نہیں۔

(باجی کمرے کے اندر آتی ہے)

باجی : کیا نہیں چھوڑو گے جاوید!

ثریا : جاوی بھیا بڑی خوب صورت تتلی پکڑ کر لائے ہیں۔

باجی : پکڑ کر کیوں لائے ہو؟

جاوید : میں تو ایک بڑا سا گلاب کا پھول توڑنے گیا تھا اور۔۔۔۔ یہ اڑ رہی تھی وہاں۔ پکڑ لی میں نے۔

باجی : اچھا نہیں کیا جاوی تم نے۔

ثریا : اور اب کہتے ہیں کہ کتاب کے اندر رکھوں گا۔ باجی! مر جائے گی نا بے چاری؟

باجی : اور کیا ہو گا۔

جاوید : امجد نے بھی ایک تتلی پکڑ کر کتاب کے اندر رکھی ہے اور اب سب کو دکھاتا رہتا ہے۔

باجی : جاوی! چھوڑ دو اسے۔ تمہیں کیا پتا اسے پھول سے کتنی محبت ہے۔ تم اسے پکڑ لائے ہو۔ کیا اس میں تمہاری طرح جان نہیں ہے؟

ثریا : میں نے تو کہا ہے، چھوڑ دو اسے۔

باجی : اگر تمہیں کوئی اس طرح پکڑ کر بند کر دے تو کیا حال ہو گا تمہارا؟

جاوید : اچھا باجی!

باجی : چھوڑ دو گے نا؟

جاوید : ہاں!

(باجی چلی جاتی ہیں)

ثریا : کہاں چھوڑو گے؟

جاوید : یہیں۔

ثریا : نہیں بھیا! باہر چھوڑ دو جا کر۔ مجھے دو۔ میں چھوڑ آؤں گی، باغ کے پاس جا کر۔ وہاں سے چلی جائے گی باغ میں۔ ٹھیک ہے نا بھیا؟

جاوید : یہیں چھوڑوں گا اور دروازہ بند کر دوں گا۔

ثریا : وہ کیوں؟ یہ تو ہی قید ہوئی نا؟

جاوید : تمہیں پتا نہیں۔ شام کو جب روشنی ہو گی تو اس کے چمکتے دمکتے پَر کتنے بھلے معلوم ہوں گے۔ صبح کو ضرور چھوڑ دوں گا۔

ثریا : تو ابھی روشنی کر کے دیکھ لو۔

جاوید : نہیں۔ بلب کی روشنی میں تو کمال ہو جائے گا۔ روشنی میں اڑے گی تو اس کے رنگین پر چمکیں گے۔ عجیب نظارہ ہو گا۔ دیکھنا لطف آ جائے گا۔

 

 

                   دوسرا منظر

 

(وہی کمرا۔ جاوید کمرے کے اندر آتا ہے)

جاوید : ثریا!

(کئی لمحے گزر جاتے ہیں۔ ثریا نہیں آتی۔ ایک لڑکی جس نے نہایت خوب صورت رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں، کمرے کے ایک کونے میں سے آگے آتی ہے)

لڑکی : آپ کسے تلاش کر رہے ہیں؟

جاوید : آپ کون ہیں؟

لڑکی : آپ تتلی کو ڈھونڈ رہے ہیں نا؟

جاوید : مگر آپ۔۔۔ ؟

لڑکی : اس تتلی کو آپ باغ سے پکڑ کر لائے ہیں اور اب روشنی میں اس کے پَر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی بات ہے نا جناب!

جاوید : ہاں!

لڑکی : ایک بات بتایئے۔ اگر کوئی شخص آپ کو پکڑ کر کہیں لے جائے اور کہے کہ پانی میں جا کر ناچو تو؟

جاوید : تم یہ کیوں پوچھتی ہو مجھ سے؟

لڑکی : اس لیے کہ میں ہی وہ تتلی ہوں۔

جاوید : تم تتلی!

لڑکی : میں نے اللہ میاں سے دعا کی تھی کہ اللہ پاک مجھے ذرا دیر کے لیے لڑکی بنا دے اور میں لڑکی بن گئی۔

جاوید : تم سچ مچ۔۔۔۔۔۔

لڑکی : کہہ تو رہی ہوں کہ میں وہی تتلی ہوں۔ جسے حضور پکڑ کر لائے ہیں۔

جاوید : اچھا! پھر؟

لڑکی : پھر، میرے سوال کا جواب دو۔

جاوید : کیا پوچھا تھا تم نے؟

لڑکی : اگر کوئی آپ کو پکڑ کر لے جائے تو آپ کا کیا حال ہو گا؟

جاوید : مجھے کوئی پکڑے گا بھلا؟

لڑکی : کیوں؟ آپ کو کوئی کیوں نہیں پکڑے گا؟ کیا آپ نے مجھے نہیں پکڑا تھا؟

جاوید : میں ہرگز نہیں جاؤں گا۔

لڑکی : میں بھی تو یہاں آنا نہیں چاہتی تھی۔ آپ پکڑ کر لے آئے۔ خبر ہے کتنی تکلیف ہوئی ہے مجھے؟ میں اڑنے والی تتلی۔ آپ نے ایک رومال میں مجھے قید کر لیا آپ کو خبر ہی نہیں ہو گی کہ میرے ایک بازو میں درد ہو رہا ہے۔ آپ کا بازو کوئی اس طرح زور زور سے ہلائے تو آپ درد سے چیخ اٹھیں گے مگر بے چاری تتلی کی آپ کو کیا پروا ہے۔ اس کا بازو بے شک ٹوٹ جائے۔ آپ کو تو ذرہ بھر تکلیف نہ ہو گی۔

جاوید : اوہو!

لڑکی : اوہو سے کیا ہوتا ہے۔ آپ کتنے ظالم ہیں۔ مجھے اپنے پھول سے اتنی محبت ہے کہ کیا کہوں۔

جاوید : میں تو پھول ہی توڑنا چاہتا تھا۔

لڑکی : میں آپ کے سامنے نہ آ جاتی تو آپ پھول توڑ ہی لیتے۔

جاوید : تو تم کیوں آ گئی تھیں سامنے؟

لڑکی : اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے؟ میں ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ میرا پیارا پھول کوئی توڑ کر لے جائے۔ میں نے سوچا تھا کہ تم مجھے پکڑ لو گے اور پھول کا خیال چھوڑ دو گے۔

جاوید : تم نے پھول کے لیے قربانی دی ہے۔

لڑکی : اسی قربانی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے میری دعا قبول کر لی ہے۔

جاوید : مجھے اس کا افسوس ہے!

لڑکی : تم لوگ سمجھتے ہو کہ بس جان تم ہی میں ہوتی ہے۔ تکلیف صرف انسان ہی کو ہو سکتی ہے اور سب مردہ ہیں۔ حالاں کہ جس طرح انسان کو تکلیف ہوتی ہے، ہمیں بھی ہوتی ہے۔ پھولوں اور درختوں کو بھی ہوتی ہے۔

جاوید : اچھا!

لڑکی : بعض شریر بچے اپنے کھلونوں کو غصے میں پھینک دیتے ہیں۔ کسی گڑیا کا بازو ٹوٹ جاتا ہے تو کسی طوطے کی آنکھ جاتی رہتی ہے اور کسی بلی کی ٹانگ ہی الگ ہو جاتی ہے۔ ان سب کو تکلیف ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ تم انسانوں کے آنسو تو دیکھ سکتے ہو، ان کے آنسو تمہیں نظر نہیں آتے۔

جاوید : مگر یہ تو بے جان ہوتے ہیں۔

لڑکی : بے جان کہاں ہوتے ہیں۔ اگر تم پھول پر آہستہ سے اپنی انگلی پھیرو تو تمہیں نمی کا احساس ہو جائے گا۔ یہ پھول کے آنسوؤں کی نمی ہے۔

جاوید : اچھا!

لڑکی : یاد کرو! کبھی تمہارے دوست نے تمہارا ہاتھ زور سے دبایا ہو گا تو تم ضرور چیخ اٹھے ہو گے۔

جاوید : درد جو ہوتا ہے!

لڑکی : اسی طرح ہمیں بھی درد ہوتا ہے۔ ہم بھی چیختے ہیں، چلاتے ہیں، تڑپتے ہیں، روتے ہیں۔

جاوید : مجھے اس کا بڑا افسوس ہے۔

لڑکی : خاک افسوس ہے۔ توبہ! کتنی زور سے میرا بازو دبایا تھا تم نے۔ اور پھر مجھے کتاب میں بند کر کے مار ڈالنا چاہتے تھے توبہ! توبہ!

جاوید : میرے ایک دوست نے۔۔۔۔

لڑکی : تمہارا دوست بڑا ظالم ہے، بے درد ہے۔

جاوید : میں اب ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔

لڑکی : شکر ہے، تم سمجھ گئے ہو۔

جاوید : اب میں کیا کروں؟

لڑکی : مجھے آزاد کر دو۔

جاوید : لیکن تم تو تتلی نہیں؟

لڑکی : تتلی ہی تو ہوں۔

جاوید : پھر تتلی بن جاؤ گی؟

لڑکی : اور کیا۔ کیا خبر راستے ہی میں بن جاؤں۔

جاوید : باغ میں چلی جاؤ گی؟

لڑکی : کیوں نہیں۔

جاوید : اچھا خدا حافظ!

(جاوید کمرے کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ لڑکی نکل جاتی ہے۔ باجی اندر آتی ہے)

باجی : جاوی! یہ ثریا کیا کہتی ہے؟

ثریا : پوچھ لو باجی! یہ کہتے تھے کہ بلب کی روشنی میں تتلی کے چمکتے ہوئے پَر دیکھیں گے۔

باجی : کیوں جاوی؟۔۔۔۔ بولتے کیوں نہیں؟

جاوید : باجی!

باجی : ارے! تم رو رہے ہو!

جاوید : باجی! میں نے بڑی غلطی کی جو تتلی کو پکڑ لیا۔ آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ میں اپنے کیے پر پشیمان ہوں۔

باجی : یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مگر تم پشیمان کیوں ہو؟

جاوید : وہ لڑکی جو آئی تھی۔

باجی : کون تھی وہ لڑکی؟

جاوید : وہی تو تھی۔۔۔ وہی تو تتلی تھی۔

 

(جاوید رو رہا ہے۔ باجی اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہیں۔ پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

اِنصاف

 

                   پہلا منظر

 

 

(اندلس کا شاہی محل۔ ایک خاص کمرا۔ صبح کا وقت۔ ہسپانیہ کا بادشاہ حَکَم کسی سوچ میں غرق آہستہ آہستہ چل رہا ہے۔ کمرے کے آخری گوشے میں پہنچ کر وہ تین لمحوں کے لیے رکتا ہے اور پھر واپس آنے لگتا ہے۔ خادم آتا ہے۔ حَکَم کی اس پر نظر نہیں پڑی۔ خادم اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ وہ کب دیکھے اور وہ کچھ عرض کرے۔ حَکَم اس کی طرف دیکھتا ہے اور رک جاتا ہے)

حَکَم : کیوں۔۔ یوسف؟ کیا بات ہے؟

خادم : حضور! وزیر اعظم حاضر ہونا چاہتے ہیں۔

حَکَم : بلاؤ!

(خادم کمرے سے نکل جاتا ہے۔ وزیر اعظم دروازے پر آتا ہے اور ادب سے سر جھکا کر السلام علیکم حضور! کہتا ہے۔ اس کے جواب میں حَکَم وعلیکم السلام کہہ کر سر کے اشارے سے اندر آنے کے لیے کہتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ایک کاغذ نظر آتا ہے)

حَکَم : بہت اچھا ہوا کہ تم خود آ گئے۔

وزیر اعظم : حضور! کیا ارشاد ہے؟

حَکَم : ہم اس نئے محل کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ یہ محل ایسا خوب صورت بنے کہ لوگ دور دور سے آ کر اسے دیکھیں۔ اگر اس جیسا دوسرا محل نہ ہو تو کم از کم یہ اتنا شان دار ضرور ہو کہ ارد گرد کے سارے محل اس کے سامنے ہیچ دکھائی دیں۔

وزیر اعظم : انشاء اللہ نیا محل اپنی مثال آپ ہو گا۔

حَکَم : خدا کرے ایسا ہی ہو۔

وزیر اعظم : محل کا نقشہ مکمل ہو گیا ہے۔

حَکَم : مکمل ہو گیا ہے؟ لے آئے ہو؟

وزیر اعظم : ہاں حضور! ملاحظہ کیجئے۔ (وزیر اعظم کاغذ کھول کر حَکَم کے سامنے پھیلا دیتا ہے)

حضور! مجھے یقین ہے کہ جب یہ عمارت اس نقشے کے مطابق تیار ہو جائے گی تو لوگ پچھلی تمام خوب صورت عمارتوں کو بھول جائیں گے۔

حَکَم : نقشہ تو ہماری امید کے مطابق ہے۔

وزیر اعظم : عالی جاہ! محل بھی آپ کی امید کے مطابق ہو گا۔

حَکَم : مگر۔۔۔

وزیر اعظم : ارشاد حضور!

حَکَم : (نقشے پر ایک جگہ انگلی رکھتے ہوئے) یہ جگہ شاید بڑھیا کی ہے، جہاں اس نے اپنا مکان بنا رکھا ہے۔

وزیر اعظم : آپ نے درست فرمایا۔ یہ وہی جگہ ہے۔

حَکَم : ہم نے کہا تھا کہ بڑھیا کو اس مکان کی پوری پوری قیمت ادا کر دی جائے، تاکہ اسے یہ شکایت نہ ہو کہ ہسپانیہ کے حکم راں نے اپنے محل کے لیے میری زمین چھین لی ہے۔

وزیر اعظم : حضور! میں اس کا انتظام کر چکا ہوں اپنے ایک خاص آدمی کو بڑھیا کے پاس بھیجا ہے کہ اس سے اس معاملے میں بات کرے اور جو کچھ نتیجہ نکلے، وہ ہمیں بتا دے۔ بڑھیا کو قیمت وصول کرنے میں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ وہ تو بہت خوش ہو گی کہ اس کی منہ مانگی قیمت مل رہی ہے اور کیا چاہیے اسے؟

حَکَم : ہم چاہتے ہیں کہ بڑھیا جو کچھ مانگے۔ اس سے زیادہ اسے دیا جائے۔

وزیر اعظم : میں حضور کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے خادموں سے کہہ آیا تھا کہ جیسے ہی وہ لوٹے اسے محل میں بھیج دیا جائے۔

حَکَم : یہ تم نے بہت اچھا کیا۔ ہم خود سننا چاہتے ہیں کہ بڑھیا نے اپنی زمین کی کیا قیمت طلب کی ہے۔

(خادم آتا ہے)

خادم : حضور! ایک صاحب اسی وقت وزیر اعظم سے ملنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں، بہت ضروری کام ہے۔

وزیر اعظم : وہی شخص معلوم ہوتا ہے حضور!

حَکَم : (خادم سے) بھیج دو۔

(خادم کمرے سے نکل جاتا ہے۔ حَکَم اور وزیر اعظم دونوں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایک شخص آتا ہے۔ اندر آ کر ادب سے سر جھکاتا ہے)

حَکَم : بڑھیا سے بات کی؟ کیا فیصلہ ہوا؟

وہ شخص : حضور! میں وہیں سے آ رہا ہوں۔ میں اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہوسکا۔

حَکَم : کیوں؟ کیا بڑھیا بہت زیادہ قیمت طلب کرتی ہے؟

وہ شخص : نہیں حضور!

حَکَم : ہمارا حکم ہے کہ بڑھیا جتنی قیمت بھی مانگے فوراً ادا کر دی جائے۔

وہ شخص : حضور! مشکل یہ ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی رضا مند نہیں ہوتی۔

وزیر اعظم : تم نے اس سے کہا نہیں تھا کہ محل کے لیے یہ زمین بہت ضروری ہے۔

وہ شخص : میں نے اسے یہ بات سمجھا دی تھی۔

وزیر اعظم : کیا کہا اس نے؟

وہ شخص : کہنے لگی، یہ زمین میرے بزرگوں کی ہے اور مجھے بہت عزیز ہے۔ میں کسی قیمت پر بھی اسے فروخت نہیں کرسکتی۔

حَکَم : شاید اس کا خیال ہے کہ جتنی قیمت چاہتی ہے۔ اتنی اسے نہیں مل سکے گی۔

وہ شخص : میں عرض کرتا ہوں حضور! وہ اپنی زمین کسی قیمت پر بھی فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

وزیر اعظم : وہ تو ایک غریب بڑھیا ہے کیا اسے روپے کی ضرورت نہیں ہے؟

وہ شخص : حیرت اسی بات پر ہے کہ وہ غریب ہونے کے باوجود کہتی ہے کہ اگر دس گنا قیمت بھی دی جائے جب بھی میں یہ زمین فروخت نہیں کروں گی۔

وزیر اعظم : اس کا یہی ارادہ ہے؟

وہ شخص : میں بالکل درست عرض کر رہا ہوں۔میں نے یہاں تک کہا کہ اگر تم نے اپنی ضد جاری رکھی تو نقصان اٹھاؤ گی۔ اس پر بھی وہ راضی نہیں ہوئی۔ حضور! مجھے یقین ہے کہ وہ کسی طرح بھی زمین بیچنے پر راضی نہیں ہو گی۔

حَکَم : کہتی کیا ہے؟

وہ شخص : کہتی ہے کہ میں اپنی زمین نہیں بیچوں گی۔

حَکَم : اس سے کہو کہ ہم دس گنا نہیں، بیس گنا قیمت ادا کریں گے۔

وہ شخص : حضور! معاف کیجئے۔ جس بڑھیا سے میں گفتگو کر کےآ رہا ہوں، وہ بے حد ضدی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا کوئی لالچ بھی اسے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

وزیر اعظم : یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔

وہ شخص : آپ خود بات چیت کر کے دیکھ لیں۔

حَکَم : یہ تو بڑی مشکل ہے۔ بڑھیا کی رضا مندی کے بغیر اس کی زمین محل میں شامل نہیں کی جا سکتی۔ ہاں ایک صورت اور بھی ہے۔

وزیر اعظم : وہ کیا صورت ہے جہاں پناہ؟

حَکَم : بڑھیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر تھوڑی سی زمین محل میں شامل نہ ہو تو اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے؟

وزیر اعظم : گستاخی معاف حضور! اگر اس زمین کو الگ کر دیا گیا تو محل کا ایک حصہ ٹیڑھا ہو جائے گا اور اس ایک خرابی سے محل کی ساری شان خاک میں مل جائے گی۔

حَکَم : ہاں! تم درست کہتے ہو۔ مگر اب کیا کیا جائے؟ بڑھیا کو کس طرح راضی کیا جائے؟

وزیر اعظم : میں خود اس کے پاس جاتا ہوں۔ اس کی کیا مجال جو نہ مانے۔

وہ شخص : میں ایک بات عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

حَکَم : کہو!

وہ شخص : یہ سوچ لیجئے کہ اگر بڑھیا نے وزیر اعظم کی بات بھی نہ مانی تو پھر کیا ہو گا؟

وزیر اعظم : کیا معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے؟

وہ شخص : جی ہاں!

وزیر اعظم : اگر بڑھیا پاگل پن سے باز نہ آئی تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جائے گا کہ زبردستی اس کی زمین پر قبضہ کر لیا جائے اور مناسب قیمت اسے دے دی جائے۔

حَکَم : نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

وہ شخص : وہ نہیں مانے گی۔

وزیر اعظم : یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجئے عالی جاہ!

حَکَم : کوشش یہی کرنا کہ وہ کسی نہ کسی قیمت پر مان جائے اور زبردستی کرنے کی نوبت نہ آئے۔

وزیر اعظم : بہتر حضور!

حَکَم : ہماری طرف سے تمہیں اختیار ہے کہ جتنی قیمت چاہو مقرر کر لو۔

وزیر اعظم : میں ابھی بڑھیا کے پاس جاتا ہوں۔

حَکَم : جاؤ!

(حَکَم یہ کہہ کر ایک طرف کو جانے لگتا ہے۔ اس کے قدم اٹھاتے ہی پردہ گرتا ہے)

 

 

                   دوسرا منظر

 

 

(اندلس کے قاضی کی عدالت۔ قاضی کرسی پر بیٹھتا ہے۔ آگے میز پر بہت سے کاغذ پڑے ہیں۔ کچھ فاصلے پر اہل کار کھڑا ہے)

قاضی : کیا آج کے سارے مقدمے ختم ہو گئے۔

اہل کار : سارے مقدمے ختم ہو گئے ہیں جناب عالی!

قاضی : باہر جا کر دیکھو! کوئی ہے تو نہیں؟

اہل کار : جناب! میں ابھی ابھی باہر دیکھ آیا ہوں۔

قاضی : ایک مرتبہ اور جاؤ!

اہل کار : بہت بہتر جناب!

(اہل کار باہر چلا جاتا ہے اور چند لمحوں بعد واپس آتا ہے)

قاضی : کیوں؟ کوئی ہے؟

اہل کار : جناب اور تو کوئی نہیں ہے، ایک بڑھیا ہے جو آپ سے ملنا چاہتی ہے۔

قاضی : بلا لاؤ!

اہل کار : بہتر!

(اہل کار باہر نکل جاتا ہے۔ اس کے جانے کے فوراً بعد ایک بڑھیا آ جاتی ہے)

قاضی : آؤ اماں!

بڑھیا : کیا میں اُندلُس کے سب سے بڑے قاضی کی خدمت میں حاضر ہوں؟

قاضی : تم انصاف کے ایک خدمت گزار کے پاس آئی ہو۔

بڑھیا : میں انصاف کے دروازے پر دستک دینے آئی ہوں۔

قاضی : اس دروازے پر دستک دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔

بڑھیا : میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ آج یہ دروازہ بند ہو جائے گا۔

قاضی : اگر ایسا سمجھتی ہو تو میرے پاس آئی کیوں ہو؟

بڑھیا : قاضی صاحب! معاف کیجئے۔ یہ بات میں نے اس وجہ سے کہی ہے کہ آج جس شخص کے خلاف میں انصاف طلب کرنے آئی ہوں، وہ جب چاہے انصاف کا دروازہ کھول بھی سکتا ہے اور بند بھی کر سکتا ہے۔ اسی دروازے پر نہیں، اس ملک کے ہر دروازے پر اسے پورا پورا اختیار ہے۔

قاضی : انصاف کا دروازہ اس عدالت میں ہے اور یہاں کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

بڑھیا : خود بادشاہ کی بھی نہیں؟

قاضی : بادشاہ کا حکم ہر جگہ چل سکتا ہے مگر یہاں نہیں۔ کہو! کیا کہنا چاہتی ہو؟

بڑھیا : قاضی جی! میں بادشاہ کے حکم کے خلاف فریاد لے کر آئی ہوں۔

قاضی : کیا شکایت ہے تمہیں؟

بڑھیا : بادشاہ نیا محل بنوانا چاہتے ہیں۔

قاضی : تمہاری شکایت کا اس محل سے کیا تعلق ہے؟

بڑھیا : جناب! وہ جس جگہ محل بنوانا چاہتے ہیں، اس کے ایک گوشے میں میری زمین بھی ہے میں یہ زمین محل میں شامل نہیں کرسکتی۔

قاضی : کیا بادشاہ نے اس کی قیمت ادا کرنے سے انکار کیا ہے؟

بڑھیا : جی نہیں۔ وہ تو مجھے زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کرنے پر بھی رضامند ہیں۔

قاضی : پھر شکایت کیا ہے؟

بڑھیا : میں زمین بیچ نہیں سکتی۔

قاضی : جب تمہیں بڑی سے بڑی قیمت مل رہی ہے تو پھر زمین فروخت کرنے سے انکار کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ تمہیں شکایت اس وقت ہو سکتی تھی جب بادشاہ پوری قیمت ادا کرنے سے انکار کرتے یا تم یہ قیمت مناسب نہ سمجھتیں۔

بڑھیا : قاضی صاحب! میں سمجھتی تھی کہ ہمارا قاضی انصاف کے معاملے میں بادشاہ سے بے نیاز ہوتا ہے، مگر آج میرا یہ یقین غلط نکلا۔ سچ ہے کہاں اتنا بڑا بادشاہ اور کہاں ایک معمولی بڑھیا معاف کیجئے قاضی صاحب! میں نے آپ کو تکلیف دی۔

(بڑھیا دروازے کی طرف مڑتی ہے)

قاضی : اماں!

(بڑھیا قاضی کی آواز پر رک جاتی ہے)

بڑھیا : جی!

قاضی : کیا تم ارادہ کر چکی ہو کہ کسی قیمت پر بھی اپنی زمین نہیں بیچو گی؟

بڑھیا : اگر مجھے بادشاہ اپنا سارا خزانہ بھی دے دے جب بھی میں یہ زمین نہیں بیچوں گی۔

قاضی : ایک مرتبہ پھر سوچ لو۔

بڑھیا : ایک مرتبہ نہیں، ہزار مرتبہ بھی یہی کہوں گی۔

قاضی : تو اماں! فکر مت کرو۔ تمہارے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔

بڑھیا : کب کیا جائے گا؟ آج وزیر اعظم آیا تھا۔  میرے انکار پر اس نے کہا کہ شاہی محل کی عمارت کو نہیں بگاڑا جا سکتا۔ میری زمین زبردستی شاہی محل میں شامل کی جائے گی۔

قاضی : شامل ہو جانے دو!

بڑھیا : جب زمین میرے ہاتھ سے نکل گئی، اس وقت میں کیا کرسکوں گی؟

قاضی : تمہیں کچھ نہیں کرنا ہے جو کچھ کرنا ہے مجھ کو کرنا ہے۔

بڑھیا : مگر قاضی جی۔

قاضی : (ہاتھ اٹھا کر بڑھیا کو اطمینان دلاتے ہوئے) یہ کام میرا ہے اور میں جانتا ہوں کہ مجھے اپنا کام کس طرح کرنا چاہیے۔ گھر جا کر آرام سے بیٹھ جاؤ۔ محل تعمیر ہونے دو۔ بالکل خاموش رہو۔

بڑھیا : جیسا آپ کا ارشاد، لیکن مجھے اطمینان کس طرح ہو گا؟

قاضی : اللہ پر بھروسا رکھو۔

بڑھیا : میں خاموش رہوں؟

قاضی : بالکل!

بڑھیا : تو آج ہی میں اپنے ایک عزیز کے ہاں چلی جاتی ہوں۔

قاضی : جب تک بادشاہ تمہیں نہیں بلوائے، دربار میں یا محل میں نہ جانا۔

بڑھیا : میں نے کہہ دیا ہے کہ میں صبر کے ساتھ محل کو تعمیر ہوتے ہوئے دیکھوں گی اور کسی سے اس معاملے میں ایک لفظ تک نہ کہوں گی۔

قاضی : یہی میں چاہتا ہوں۔

(قاضی اٹھنے لگتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پردہ گرتا ہے)

 

                   تیسرا منظر

 

(بادشاہ حکم کے نئے محل کا باغ۔ قاضی تنہا ایک جگہ کھڑا ہے اور اس کے سامنے ایک بڑا سا تھیلا زمین پر پڑا ہے۔ حکم اور وزیر اعظم آتے ہیں۔ بادشاہ بہت خوش دکھائی دے رہا ہے)

حَکَم : قاضی صاحب!

قاضی : جی حضور!

بادشاہ : کیا آپ نے ہمارا نیا محل دیکھ لیا ہے؟

قاضی : جہاں پناہ! میں نے پورے محل کی سیر کی ہے۔

بادشاہ : کیا آپ کو محل پسند آیا؟

وزیر اعظم : عالی جاہ! میں نے اپنی زندگی میں بے شمار شاہی محل دیکھے ہیں۔ مگر سچ کہتا ہوں ایسا شان دار اور عالی شان محل آج تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔ اس محل کی بدولت آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

بادشاہ : قاضی صاحب! آپ کی رائے کیا ہے؟

قاضی : آپ نے وزیر اعظم کی رائے سن لی ہے۔ اب اس کے بعد میں کیا عرض کروں؟

بادشاہ : نہیں، آپ اپنے رائے کا اظہار کریں۔

قاضی : میں اس محل کو اچھی طرح دیکھ چکا ہوں۔ واقعی بہت شان دار اور عالی شان ہے۔

بادشاہ : ہمیں خوشی ہے کہ جیسا خوب صورت محل چاہتے تھے، ہمیں مل گیا ہے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک مسلمان بادشاہ نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔

وزیر اعظم : ہسپانیہ کی ذات آپ پر فخر کرے گی۔ انشاء اللہ تعالی!

بادشاہ : (قاضی کو غور سے دیکھ کر ) قاضی جی!

قاضی : ارشاد حضور!

بادشاہ : ہم چاہتے ہیں کہ محل مکمل ہونے کی خوشی میں ان لوگوں کو انعامات دیں جو ہم سے بہت قریب ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟

قاضی : حضور! میں جو کچھ انعام کے طور پر چاہتا ہوں وہ میرے سامنے پڑا ہے۔

بادشاہ : کہاں؟

قاضی : حضور! یہ تھیلا۔

بادشاہ : یہ تھیلا؟

قاضی : جی ہاں!

بادشاہ : اس میں کیا ہے؟

قاضی : اس محل کے باغ کی مٹی!

بادشاہ : (حیرت زدہ ہو کر) کیا کہا؟

قاضی : میں نے عرض کیا ہے کہ اس تھیلے میں باغ کی مٹی بھری ہوئی ہے۔

بادشاہ : (وزیر اعظم سے) قاضی صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟

وزیر اعظم : حضور گستاخی معاف! میں خود بھی نہیں سمجھ سکا کہ قاضی صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟

قاضی : بات صرف اتنی ہے کہ میں نے سنا ہے۔ اس باغ کی مٹی بہت زرخیز ہے۔ میں نے اس مٹی کا ایک تھیلا بھر لیا ہے، تاکہ اسے اپنے باغ میں لے جا کر پھیلا دوں۔

بادشاہ : قاضی صاحب! آپ سنجیدگی سے یہ بات کہہ رہے ہیں؟

وزیر اعظم : حضور! بظاہر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کے دماغ میں کچھ خرابی ہو گئی ہے جو ایسی بے معنی بات کہہ رہے ہیں۔

قاضی : وزیر اعظم! جو بات آپ کے لیے بے معنی ہے۔ اس معاملے میں آپ دخل نہ دیں۔

بادشاہ : (وزیر اعظم سے) تم خاموش رہو۔

قاضی : تو جہاں پناہ! میں یہ مٹی کا بھرا ہوا تھیلا لے جانا چاہتا ہوں۔

بادشاہ : آپ کے ہاں پہنچ جائے گا۔ صرف یہ تھیلا نہیں، بہت سے تھیلے۔

قاضی : نہیں حضور! مجھے صرف ایک ہی تھیلا چاہیے۔

بادشاہ : یہی سہی۔

قاضی : محل کے دروازے پر گدھا کھڑا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ تھیلا گدھے پر لاد کر لے جاؤں کیا آپ اسے اٹھانے میں میری مدد کریں گے؟

بادشاہ : قاضی صاحب!

وزیر اعظم : دیکھا حضور!

بادشاہ : قاضی جی!

قاضی : جہاں پناہ! کیا آپ میری مدد نہیں کریں گے؟

بادشاہ : اس کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے ساتھ کئی خادم آئے ہیں۔ ایک خادم ابھی اٹھا کر لے جاتا ہے۔

قاضی : حضور! میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں!

وزیر اعظم : قاضی جی! عقل سے کام لیجئے۔ یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟

قاضی : وزیر اعظم! میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس معاملے میں دخل نہ دیجیے۔ میں نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا ہے، وہی میری مدد کر سکتے ہیں یا انکار کر سکتے ہیں۔

بادشاہ : (وزیر اعظم سے) تم خاموش نہیں رہ سکتے تو چلے جاؤ۔

قاضی : تو کیجئے میری مدد۔

(بادشاہ تھیلے کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر نہیں اٹھا سکتا)

وزیر اعظم : حضور! یہ تو پاگل ہو گیا ہے۔

بادشاہ : (غصے سے) خاموش!

قاضی : بادشاہ سلامت! ایک مرتبہ اور کوشش کیجئے۔

بادشاہ : یہ بہت بھاری ہے۔ میں نہیں اٹھا سکتا۔

قاضی : آپ نہیں اٹھا سکتے؟

بادشاہ : نہیں۔

قاضی : بادشاہ سلامت! اس تھیلے میں اس محل کی تھوڑی سی مٹی ہے، جسے آپ نہیں اٹھا سکتے اور جب قیامت کے روز آپ کو یہ پورا محل اٹھانا پڑے گا تو آپ کیا کریں گے؟

بادشاہ : پورا محل اٹھانا پڑے گا! وہ کیوں؟

قاضی : وہ اس وجہ سے کہ یہ ایک ایسی زمین پر کھڑا ہے جو ایک غریب بڑھیا کی ہے۔ بڑھیا کی زمین پر آپ کو کوئی حق نہیں تھا مگر آپ نے زبردستی اس پر اپنا محل بنا لیا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ یہ محل اس کی زمین سے الگ کر دیا جائے۔ کیا آپ قیامت کے روز اسے اپنے شانوں پر اٹھا کر الگ کر سکیں گے؟ بتایئے آپ کا کیا جواب ہے، بادشاہ سلامت؟

(بادشاہ سر جھکا کر کچھ سوچنے لگتا ہے)

بادشاہ : قاضی جی! تم نے جو کچھ کہا ہے بالکل درست کہا ہے۔ واقعی بڑھیا کی زمین پر میرا کوئی حق نہیں تھا۔ اس کی اجازت کے بغیر یہاں محل بنوا کر اس کے ساتھ میں نے ناانصافی کی ہے میں اپنے فعل پر سخت نادم ہوں۔آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔

قاضی : کیا آپ کی آنکھیں کھل گئیں؟

بادشاہ : جی ہاں قاضی صاحب! اللہ کی آپ پر لاکھ لاکھ رحمت ہو۔ مجھے آپ ایسے نڈر، جرات مند اور ایمان دار قاضی پر فخر ہے۔ آج سے یہ محل میرا نہیں اس بڑھیا کا ہے۔ میں ابھی بڑھیا کو بلا کر اس کے حوالے کیے دیتا ہوں! وزیر اعظم! بڑھیا کو بلاؤ۔

قاضی : جزاک اللہ! بادشاہ حَکَم کا نام دنیا میں اس وجہ سے زندہ نہیں رہے گا کہ اس نے یہ شان دار محل تعمیر کروایا، بلکہ اس وجہ سے زندہ رہے گا کہ اس نے انصاف کی خاطر یہ محل ایک غریب بڑھیا کو دے دیا۔ اللہ آپ کو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

 

طلسمی صندوقچہ

 

                   پہلا منظر

 

(جمیل کا کمرا۔ سعید کی باہر سے آواز آتی ہے)

سعید : جمیل! کہاں ہو تم؟

جمیل : یہاں ہوں۔ ابا جان کے کمرے میں۔

(سعید اندر آتا ہے)

سعید : میں تمہیں ادھر باغ میں ڈھونڈتا رہا۔ یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو؟

جمیل : کرنا کیا ہے۔ کوئی اچھی کتاب تلاش کر رہا ہوں۔ یار! آج اکرم کی سال گرہ ہے۔ اس نے بڑے زور سے دعوت دی ہے۔ تحفہ دینے کے لیے جیب میں کچھ ہے ہی نہیں۔ امی نے کچھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

سعید : تو تحفے میں دینے کے لیے کتاب ڈھونڈ رہے ہو؟

جمیل : اور کیا؟

سعید : اور وہاں مجھے بھی جانا ہے۔ تحفہ مجھے بھی دینا ہے۔ اسی لیے تمہیں ڈھونڈ رہا تھا۔

جمیل : کیا تحفے میں مجھے دینے کا ارادہ ہے؟ (ہنستا ہے)

سعید : تمہیں کیوں تحفے میں دوں گا۔ تمہاری جیب میں۔۔۔

جمیل : میری جیب میں کچھ ہوتا تو ابا جان کے کمرے کی بجائے کسی اچھی سی دکان سے کوئی اچھا سا تحفہ نہ خرید لیتا؟

سعید : میں تو سمجھا تھا تمہاری جیب میں کم از کم اتنے پیسے تو ہوں گے ہی جن سے سیر بھر مٹھائی ہی خرید لیں۔

جمیل : امی سے پانچ روپے مانگے تھے۔ کہنے لگیں، اب تمہیں ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔ جو کچھ لیتے ہو فورا خرچ کر دیتے ہو۔ بہتیرا کہا، نہیں مانیں اور مانیں گی بھی نہیں۔ تم نے اپنی امی سے کیوں نہیں مانگا؟

سعید : وہ گھر پر ہیں ہی نہیں اور ہوتیں بھی تو کچھ نہ دیتیں۔ ابھی پرسوں ان سے دس روپے لیے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ اب پورا مہینہ ایک پیسہ نہیں مانگوں گا۔

جمیل : سالگرہ میں جانا تو بہت ضروری ہے۔

سعید : کیسے کیسے دوست آئیں گے وہاں۔ اور پھر چائے، پیسٹری، مٹھائی۔

جمیل : تم تو سدا کے ندیدے ہو۔ میں کہتا ہوں اگر وہاں نہ گئے تو اکرم کیا کہے گا۔ خفا نہیں ہو جائے گا؟ لو بھئی! ہم نے تو اتنی محبت سے انہیں بلایا اور یہ نواب صاحب آئے ہی نہیں۔

سعید : سچی بات کیوں نہیں کہتے۔ وہ کہے گا اس لیے نہیں آئے کہ تحفے نہ دینا پڑیں۔

جمیل : یاد ہے میری سال گرہ پر اس نے کیسا خوب صورت ٹیبل لیمپ دیا تھا؟

سعید : واہ وا! کیا شان دار تجویز ذہن میں آئی ہے۔ ایسی تجویز ہے کہ تڑپ اٹھو گے۔ خوشی سے ناچ اٹھو گے۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں۔

جمیل : تجویز کیا ہے؟

سعید : تجویز یہ ہے کہ وہ خوب صورت ٹیبل لیمپ تمہاری الماری میں پڑا ہے۔ وہی۔۔۔

جمیل : چل ہٹ پاگل کہیں کا۔ میں نے کہا کوئی بڑی اچھی تجویز ہو گی۔ اپنا لیمپ پہچان نہیں لے گا وہ؟ پھر ابا امی مجھ سے پوچھیں گے کہ وہ لیپ کہاں ہے تو میں کیا جواب دوں گا؟

سعید : پھر کیا کیا جائے گا؟

جمیل : بتاؤ نا کیا کیا جائے؟

سعید : تم سوچو۔

جمیل : دونوں مل کر سوچتے ہیں۔ بس اب خاموش ہو جاؤ اور سوچ میں غرق ہو جاؤ!

سعید : یار! ڈوب جاؤں گا۔

جمیل : میں نکال لوں گا۔ بس اب خاموش!

(دو تین لمحے خاموشی۔ جمیل کی چھوٹی بہن راشدہ آتی ہے)

راشدہ : جمیل بھیا! ارے! یہاں تو سعید میاں بھی تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے کہا سعید!

(خاموشی)

راشدہ : جمیل بھیا! ہائے! تم دونوں کو ہو کیا گیا ہے؟

جمیل : خاموش!

سعید : بالکل خاموش!

راشدہ : وہ کیوں؟

سعید : ہم سوچ رہے ہیں۔ ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ہم سوچ میں غرق ہیں۔

راشدہ : غرق بعد میں ہونا۔ پہلے میری ایک چھوٹی سی بات سن لو۔ بات یہ ہے، کہ میری سہیلی عذرا کی گڑیا کا بیاہ ہو رہا ہے۔ مجھے اس کی شادی پر کچھ دینا چاہیے۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں۔ تم دونوں بڑے اچھے بھائی ہو۔ ادھار دے دو نا۔

(سعید اور جمیل ہنس پڑتے ہیں)

راشدہ : ہنستے کیوں ہو؟ ہائے اللہ! ہنسے چلے جا رہے ہیں۔ بات بتاؤ نا۔

جمیل : راشدہ! عجیب معاملہ ہے۔ دو منٹ ہوئے میں نے سوچا تھا کہ اکرم کی سال گرہ پر تحفہ دینے کے لیے تم سے پیسے مانگوں گا اور تم الٹا ہم سے مانگ رہی ہو۔

راشدہ : امی نے پانچ روپے دیے تو تھے۔ پکنک پر گئے تو سارے کے سارے خرچ ہو گئے۔

سعید : راشدہ! اب تم بھی ہمارے پاس بیٹھ کر سوچو۔

راشدہ : سوچنے سے بھلا کیا ہو گا؟

جمیل : بس اب خاموش ہو جاؤ۔ میرے دماغ میں ایک بات آ رہی ہے۔ ہاں! یوں! بس!

راشدہ : ہاں! یوں! بس! یہ کیا ہوا بھلا؟

جمیل : سنو! میرے قریب آ جاؤ۔

راشدہ : صاف صاف بات کرو۔

جمیل : چند روز ہوئے۔ مگر نہیں۔

راشدہ : کہو بھی نا! خواہ مخواہ پریشان کر رہے ہیں۔

سعید : بتاؤ جمیل!

جمیل : اس میں کچھ خطرہ ہے۔ مگر خیر، دیکھا جائے گا۔ چند روز ہوئے اختر نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے دادا کے پاس ایک صندوقچہ ہے جس میں ہر وقت روپے موجود رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ صندوقچہ انہیں کسی بزرگ نے دیا تھا اور یہ دعا دی تھی کہ یہ کبھی خالی نہ ہو اور یہ کبھی خالی نہیں ہوا۔

سعید : تمہارا مطلب ہے اختر سے کہیں کہ اس صندوقچے میں سے کچھ رقم لے لے، بعد میں جمع کر کے ہم رکھ دیں گے؟

راشدہ : بہت بری بات ہے۔

سعید : ہم اختر سے ادھار لیں گے۔

راشدہ : تو واپس کیوں کر کریں گے؟

سعید : اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو جو ہمیں جیب خرچ ملے گا اس میں سے سب سے پہلے یہ رقم ادا کریں گے۔ جتنے پیسے نکالیں گے اتنے وہاں جا کر رکھ دیں گے۔ یہ پیسے تو ہمارے پاس گویا ایک قسم کی امانت ہو گی۔ کیوں جمیل؟

جمیل : ہاں! امانت ہو گی۔

راشدہ : اختر مان جائے گا؟

جمیل : کیوں نہیں مانے گا۔ اس نے تو خود بھی کہا تھا کہ یار! میرا جی چاہتا ہے کسی دن اس صندوقچے کو کھول کر دیکھوں کہ اس میں ہے کیا۔

سعید : وہاں چلنا چاہیے۔

جمیل : ضرور چلنا چاہیے۔

(پردہ گرتا ہے)

 

 

                   دوسرا منظر

 

(اختر کا کمرا۔ اختر بیٹھا ہے۔ دروازے پر دستک ہوتی ہے)

اختر : کون صاحب!

جمیل : ہم ہیں۔ میں، سعید اور راشدہ۔

اختر : اچھا!

(جمیل، سعید اور راشدہ تینوں داخل ہوتے ہیں)

تینوں : السلام علیکم!

اختر : وعلیکم السلام! آؤ۔ تینوں نے آج مل کر مجھ پر کیوں حملہ کر دیا ہے؟

جمیل : اس کی ایک خاص وجہ ہے۔

اختر : خدا خیر کرے۔ تم لوگوں کی نیت کچھ اچھی معلوم نہیں ہوتی۔

جمیل : سب سے پہلے تو ہمیں چائے پلاؤ۔

اختر : اور اس کے بعد؟

سعید : پہلے چائے کے لیے کہہ دو۔

اختر : (بلند آواز سے) ربانی! چائے بناؤ! اب کہو!

سعید : کہو جمیل!

جمیل : تم کہو نا۔

راشدہ : اختر بھیا! یہ ایک خطرناک سکیم لے کر آئے ہیں۔ تمہارے دادا جان کا کوئی خاص صندوقچہ ہے نا؟

اختر : پھر؟

راشدہ : ہمیں سال گرہ اور گڑیا کی شادی پر تحفے دینے کے لیے روپوں کی ضرورت ہے۔

جمیل اور روپے ہمارے پاس نہیں ہے۔

اختر : وہ تو عام طور ہوتے ہی نہیں۔

جمیل : تو تو اختر! یہ صندوقچہ بڑا عجیب و غریب ہو گا۔ ہے نا؟

اختر : ہو گا۔ میں نے تو آج تک اسے دیکھا ہی نہیں۔ پتا نہیں۔ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ دادا جان کو کسی بزرگ نے دیا تھا اور یہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔ ہاں! یاد آیا۔ محلے کی ایک بڑی بوڑھی نے بتایا تھا۔ مر چکی ہے بے چاری۔ لیکن مطلب کیا ہے تمہارا؟

سعید : مطلب یہ ہے کہ۔۔۔

راشدہ : مطلب یہ ہے کہ اس صندوقچے میں سے کچھ رقم نکال کر تحفے وغیرہ خرید لیں اور جتنی رقم نکالیں گے بعد میں واپس اس میں رکھ دیں۔

اختر : بالکل غلط۔

جمیل : ہم جو کچھ لیں گے، امانت کے طور پر لیں گے۔

سعید : اور واپس کر دیں گے۔

اختر : نہ بابا!

راشدہ : اچھا یہ تو بتاؤ یہ صندوقچہ ہے کہاں؟

اختر : اس کمرے کے ساتھ ایک کمرا ہے۔

راشدہ : اس میں کیا ہے؟

اختر : نہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور کمرا ہے۔ پھر ایک اور کمرا ہے۔ پھر ایک اور کمرا ہے۔ وہ کمرا آخری کمرا ہے۔ اس کے دروازے بند رہتے ہیں۔ وہاں کہیں ہے۔

جمیل : اختر! چلو۔ دیکھیں تو سہی ہے کیسا۔

اختر : جی تو میرا بھی چاہتا ہے کہ دیکھوں یہ صندوقچہ ہے کیسا؟

جمیل : آج دیکھ لیتے ہیں۔

سعید : کہتے ہیں اس میں ہر وقت دولت بھری رہتی ہے۔

اختر : بڑی بی نے بتایا تھا کہ اس میں سے خواہ کتنی دولت نکالیں، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جو کچھ نکالیں وہ واپس آ جاتا ہے۔

سعید : واپس آ جاتا ہے؟

اختر : یہ بزرگ کی دعا کا اثر ہے۔

راشدہ : بہت ہی عجیب و غریب صندوقچہ ہے۔ تم نے کبھی نہیں دیکھا اختر؟

اختر : کبھی نہیں۔ مجھے صرف یہ خبر ہے کہ وہ آخری کمرے میں ہے؟ کہاں ہے؟ یہ خبر نہیں۔

جمیل : اب بھی بھرا ہو گا؟

اختر : ہر وقت بھرا رہتا ہے۔

سعید : آؤ دیکھیں!

اختر : امی اوپر کے کمرے میں ہیں۔ دادا جان باہر گئے ہوئے ہیں۔

سعید : میدان صاف ہے۔

اختر : میدان تو صاف ہے۔ مگر ڈر لگتا ہے۔

جمیل : اختر! ایسا طلسمی صندوقچہ نہ دیکھا تو پھر زندگی میں بھلا کیا دیکھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں۔

اختر : مگر اس میں سے نکالیں گے کچھ نہیں۔

سعید : نہیں نکالیں گے۔ مگر ڈھکنا اٹھا کر ضرور دیکھیں گے کہ اندر ہے کیا۔

جمیل : چلو بھئی اختر!

 

                   تیسرا منظر

 

(سٹیج پر تاریکی چھا جاتی ہے)

راشدہ : توبہ! کتنا اندھیرا ہے۔

جمیل : اختر! سوِچ کہا ہے؟

اختر : میں تو یہاں کبھی آیا ہی نہیں۔ کیا پتا سوِچ کہاں ہے۔

سعید : آگے چلو! سامنے دیوار کے ساتھ ہو گا۔

جمیل : یہ رہی دیوار___ یہاں تو کچھ نہیں۔

(راشدہ کی ہلکی سی چیخ)

سعید : کیا ہوا؟

راشدہ : پتا نہیں۔ میرے پاؤں سے کیا چیز لگی ہے۔

سعید : ادھر آ جاؤ۔ سوِچ ڈھونڈو اختر! اتنا اندھیرا ہے کہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔

اختر : سوِچ ڈھونڈھ رہا ہوں۔

(کسی شے کے گرنے کی آواز)

سعید : کیا ہوا؟

جمیل : میرا ہاتھ کسی سخت چیز کو لگا تھا۔

اختر : کچھ گرا دیا ہے۔

جمیل : اختر! سعید! مجھے کسی نے پکڑ لیا ہے۔

سعید : کہاں ہو تم؟

جمیل : یہاں ہوں۔ میرا ہاتھ پکڑ لیا ہے کسی نے بڑے زور سے۔

راشدہ : کھینچو!

جمیل : اس نے زور سے پکڑ لیا ہے!

سعید : ٹھہرو! میں دیکھتا ہوں۔۔ یہ رہے تم۔۔ارے؟ تم نے اپنا ہاتھ ایک برتن میں ڈال دیا ہے۔

جمیل : یہ کوئی برتن ہے؟

سعید : باہر نکال لو۔

راشدہ : ہائے! اوئی! سانپ! سانپ!

سعید : کہاں ہو تم راشدہ!

راشدہ : میں مر گئی۔ ابھی ابھی کوئی چیز میرے پاؤں سے چھوئی ہے۔

جمیل : اختر! سوِچ کیوں آن نہیں کرتے؟

اختر : میں نے کہا نہیں ہے کہ میں اس سے پہلے یہاں کبھی آیا ہی نہیں ہوں۔ معلوم نہیں سوِچ کہاں ہے۔

(کسی چیز کے گرنے کا شور)

جمیل : اف مر گیا!

اختر : جمیل!

جمیل : ہائے ہائے ہائے!

راشدہ : بھیا!

جمیل : میرے پاؤں پر کوئی چیز آ گری ہے۔

راشدہ : آؤ! باہر نکل جائیں۔

اختر : میں تم سے کہتا نہیں تھا کہ مت جاؤ۔

جمیل : اختر! میرے پاؤں پر سے یہ بھاری چیز اٹھاؤ۔ میں چل نہیں سکتا۔

اختر : تم گم کہاں ہو گئے؟

جمیل : یہاں ہوں۔

سعید : یہ تم ہو جمیل؟ تمہارا ہاتھ ہے نا؟

جمیل : ہاں! میرا ہاتھ ہے۔ جھک کر وہ چیز اٹھاؤ۔

سعید : پتا نہیں کیا ہے۔ بہت بھاری چیز ہے۔ (زور لگاتے ہوئے) او او او۔

راشدہ : ہٹ گئی وہ چیز ؟

سعید : ہاں! اب خدا کے لیے نکلو۔

راشدہ : دروازہ کدھر ہے؟

اختر : ادھر ہے، جہاں سے آئے تھے۔

راشدہ : کہاں سے آئے تھے؟

اختر : جدھر دروازہ ہے۔

راشدہ : تمہیں اب بھی مذاق سوجھ رہا ہے ادھر جان پر بنی ہے۔ بتاؤ نا دروازہ کہاں ہے؟

سعید : ادھر ہے۔ نہیں نہیں ادھر نہیں ہے۔۔۔ یہاں تو دیوار ہے۔

راشدہ : باہر کیسے نکلیں؟ ذرا سی روشنی نہیں ہے۔ دروازے کا پتا ہی نہیں کہاں ہے۔

جمیل : ہر طرف دیوار ہے۔

راشدہ : (چیخ مار کر) مر گئی۔

جمیل : راشدہ!

راشدہ : گر پڑی ہوں (روتے ہوئے) ہائے اللہ! مر گئی۔

جمیل : اختر! دروازہ کہاں ہے؟

سعید : جمیل! یہ کیا چیز ہے میرے پاؤں میں؟ مجھے جکڑ لیا ہے اس نے۔

(دادا جان کی باہر سے آواز)

دادا جان : کون ہے اندر؟

(خاموشی) میں پوچھتا ہوں کون ہے؟

سعید : (سرگوشی میں) اختر! بولو!

اختر : دادا جان!

دادا جان : اختر تم ہو؟

(دادا جان سوِچ دبا کر روشنی کرتے ہیں)

دادا جان : ارے! یہ کیا! راشدہ تم؟ اور ہیں جمیل! یہ قصہ کیا ہے؟

(خاموشی)

بولتے کیوں نہیں؟ تم لوگ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟

اختر : دادا جان!

جمیل : ہائے!

دادا جان : پاؤں کو کیا ہوا جمیل؟ اس سے تو لہو بہہ رہا ہے۔ ٹھہرو! اوپر اٹھاؤ پاؤں۔ بس! اب بتاؤ ہوا کیا ہے؟

راشدہ : میں بتاتی ہوں دادا جان! ہم نے سنا تھا کہ آپ کے پاس ایک طلسمی صندوقچہ ہے۔ جس میں ہر وقت روپے بھرے رہتے ہیں۔

دادا جان : صندوقچہ!

راشدہ : جی ہاں! ہم نے کہا دیکھیں یہ صندوقچہ ہے کیسا اور۔۔۔۔

سعید : انہیں کچھ روپوں کی بھی ضرورت تھی۔

دادا جان : یہ تمہاری غلطی تھی۔ اس کی سزا تمہیں ملی ہے۔ ملی ہے نا؟

جمیل : جی ہاں!

دادا جان : اب میں تمہیں اس طلسمی صندوقچہ کی کہانی سناتا ہوں۔ پہلے وہ صندوقچہ لے آؤں۔ ایک منٹ ٹھہرو۔ چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ چلو کمرے میں۔

(پردہ گرتا ہے)

 

                   چوتھا منظر

 

(اختر کا کمرا۔ جمیل، اختر، راشدہ اور سعید کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دادا جان بھی ایک کرسی پر بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک صندوقچہ ہے)

دادا جان : یہ رہا جادو کا صندوقچہ۔ دیکھو! اور اب اس کے اندر بھی دیکھ لو۔ دیکھ رہے ہو؟

(دادا جان سب کو صندوقچے کا اندرونی حصہ دکھاتے ہیں)

جمیل : جی ہاں!

راشدہ : دادا جان! اس کے اندر تو چند روپے پڑے ہیں!

دادا جان : یہ دیکھو روپے! لو اب اس کی کہانی سناتا ہوں۔ آج سے پچاس پچپن سال پہلے کی بات ہے، ایک تھا لڑکا۔ اچھا ہونہار تھا مگر اس میں جہاں خوبیاں تھیں وہاں ایک برائی بھی تھی۔ برائی یہ تھی کہ وہ کفایت شعار نہیں تھا۔ جو کچھ ملتا تھا فوراً خرچ کر کر دیتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک میلے پر گیا۔ اس لڑکے نے سب کچھ خرچ کر دیا۔ دوستوں سے بھی الگ ہو گیا۔ جب شام ہونے لگی تو لوگ میلے سے جانے لگے۔ وہ بھی جانے لگا۔ سب تانگوں پر جا رہے تھے۔ اس کی جیبیں خالی تھیں۔ وہ کیسے تانگے پر بیٹھا۔ پیدل گھر کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد راستا بھول گیا اور کہیں سے کہیں جا پہنچا۔ رات اندھیری تھی۔ بادل گرج رہا تھا۔ بجلی چمک رہی تھی۔ ہوا بہت تیز تھی۔ سن رہے ہو نا۔

اختر : جی ہاں! سن رہے ہیں۔

دادا جان : خوش قسمتی سے وہاں ایک شخص آ گیا اور وہ اس بچے کو اپنے گھر لے گیا۔ بچے کو کھانا کھلایا اور پھر اسے ایک صندوقچہ دیا اور کہا دیکھو! میں ایک نہایت قیمتی تحفہ تمہیں دے رہا ہوں۔ وعدہ کرو کہ ہر روز اس میں ایک پیسہ ڈالتے رہو گے پھر یہ کبھی خالی نہیں ہو گا۔ سنا تم نے؟

راشدہ : جی ہاں!

دادا جان : تو بچو! وہ بچہ اب یہ دادا جان بن چکا ہے۔

سب : دادا جان!

دادا جان : اور وہ صندوقچہ۔۔ جو ایک نیک شخص نے دیا تھا۔ تم آج میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو۔

جمیل : اچھا! یہی وہ صندوقچہ ہے۔

دادا جان : ہاں بیٹا! اس دن سے لے کر آج تک میں نے اس صندوقچے کو کبھی خالی نہیں رکھا۔ باقاعدگی کے ساتھ اس میں کچھ نہ کچھ ڈالتا رہتا ہوں اور چوں کہ اس میں کچھ ڈالنا ضروری ہے اس لیے میں فضول خرچی سے کام نہیں لے سکتا۔ کفایت کر کے صندوقچے کے لیے پیسے بچاتا ہوں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ میں کفایت شعار ہو گیا ہوں اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی خاص ضرورت پڑتی ہے، ضرورت کی رقم اس میں سے نکال لیتا ہوں۔ تو یہ ہے بچو! اس طلسمی صندوقچے کی کہانی۔

سعید : میں بھی کفایت شعاری کروں گا۔

راشدہ : میں بھی۔

اختر اور جمیل : اور میں بھی۔۔

(پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

مُلا نصر الدین کا عجیب جانور

 

(ملا نصر الدین کا گھر۔ ملا جی کی بیگم باورچی خانے میں بیٹھی برتن مانجھ رہی ہیں۔ ملا جی کندھے پر ایک تھیلا رکھے اندر آتے ہیں۔ خوشی سے ان کا چہرہ سرخ ہے۔ آتے ہی بیگم سے مخاطب ہوتے ہیں)

مُلا : بیگم! بیگم!!

بیگم : کیا ہوا؟ آتے ہی شور مچانا شروع کر دیا ہے۔

مُلا : بیگم، ایک خوش خبری سنو۔ واللہ تڑپ جاؤ گی۔ تمہارے سارے دلدَّر دور ہو جائیں گے سن رہی ہو؟ سارے دلدَّر دور ہو جائیں گے۔

بیگم : خاک دور ہوں گے۔ برتن مانجھ مانجھ کر میرے ہاتھ سیاہ پڑ چکے ہیں۔ کمر میں درد رہتا ہے۔ (کمر سیدھی کرتے ہوئے) ہائے! سر چکراتا رہتا ہے۔

مُلا : اوہو! بہت بڑی خبریں ہیں۔

بیگم : آپ کو خدا نے اتنی توفیق بھی نہیں دی کہ گھر میں ایک ملازمہ ہی کا انتظام کر دیتے۔

مُلا :بیگم! اب گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

بیگم : کیا آسمان سے اشرفیاں برسنے والی ہیں یا من و سلوی اترنے والا ہے؟

مُلا : بیگم! ابھی ابھی کم از کم ایک ہزار دینار تمہارے سامنے ڈھیر ہو جائیں گے۔

بیگم : ایک ہزار دینار!

مُلا : ہوسکتا ہے کہ دو ہزار ہو جائیں اور ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہو جائیں۔

بیگم : کیا جنگل میں کسی درخت کے نیچے کوئی خزانہ مل گیا ہے جسے آپ تھیلے میں بھر کر لے آئے ہیں؟

مُلا : سچ مچ خزانہ، بیگم! سچ مچ خزانہ۔

بیگم : (برتن پرے ہٹاتے ہوئے) ایک مرتبہ پھر کہیے۔

مُلا : خزانہ۔ خ۔ ز۔ الف۔ ن۔ ہ خزانہ۔

بیگم : ہائے اللہ! دکھائیے!

(بیگم اٹھ بیٹھتی ہیں)

زندگی میں کبھی پانچ سودینار نہیں دیکھے۔

مُلا : خزانہ تو ہے، مگر ابھی ایک جانور کے روپ میں ہے۔

بیگم : کیا کہا؟ خزانہ ایک جانور کے روپ میں ہے؟ کیا مطلب؟

مُلا : ہاں بیگم! یاد ہے کچھ دن ہوئے میں نے تمہیں بتایا تھا کہ آج جھاڑی میں ایک ایسا عجیب جانور دیکھا ہے جو بے حد عجیب و غریب ہے۔ ایسا عجیب و غریب کہ اس جیسا شاید ساری دنیا میں نہیں ہو گا۔

بیگم : بتایا ہو گا۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔

مُلا : اور میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر یہ جانور پکڑ لیا جائے تو یہ ہزار دو ہزار میں بک سکتا ہے۔

بیگم : کہا ہو گا۔ مجھے ہر بات یاد نہیں رہتی۔

مُلا :میں اس دن سے اس عجیب و غریب جانور کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شکر ہے خدا کا کہ آج اسے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔

بیگم : تو پھر کیا ہو گا؟

مُلا : کیا کہہ رہی ہو بیگم! پھر کیا ہو گا۔ سنو! تمہارے شوہر نام دار ملا نصر الدین دنیا کا سب سے عجیب و غریب جانور پکڑ کر لائے ہیں۔ انہیں مبارک باد دو۔

بیگم : دکھائیے پہلے!

مُلا : میں نے بے شمار جانور دیکھیے ہیں۔ مگر ایسا جانور آج تک میری آنکھوں کے سامنے نہیں آیا۔ بالکل سفید ہے اس کا رنگ۔ سنگ مرمر کی طرح۔ بال روئی جیسے نرم اور کان دیکھو گی تو بس حیران رہ جاؤ گی۔ یہ بڑے بڑے ہیں، ماشاء اللہ۔

بیگم : ہم اس جانور کا کریں گے کیا؟

مُلا : فروخت کریں گے۔ کوئی امیر آدمی ہزار دو ہزار دینا میں خرید لے گا۔

بیگم : کون خریدے گا؟

مُلا : کہہ تو رہا ہوں کوئی دولت مند آدمی۔ اس شہر میں بے شمار دولت مند موجود ہیں۔

بیگم : کیا یہ جانور انڈے دیتا ہے اور۔۔

مُلا : (غصے سے) ہائے ہائے! بیگم! ہوش کے ناخن لو۔ اپنے عقل مند شوہر کے سامنے بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔

بیگم : میں پوچھتی ہوں عقل مند شوہر صاحب، اگر جانور ایسا ہی عجیب و غریب ہے تو گھر میں کیوں اٹھا لائے ہو؟ کسی امیر کے ہاتھ بیچ کر دیناروں سے تھیلا بھر کر لے آتے۔

مُلا : تمہیں خوش خبری سنانے کے لیے لے آیا تھا۔

بیگم : تو لے جایئے اسے کسی کے پاس۔

مُلا : کسی کے پاس لے جاؤں؟ وہ جو نکڑ پر رہتا ہے شرف الدین انصاری۔۔ جانور پالنے کا اسے بڑا شوق ہے۔ کئی بار کہہ چکا ہے کہ ملا جی! عام جانور پالنے میں مزا نہیں آتا۔ کوئی ایسا جانور ملے جو چڑیا گھر میں بھی نہ ہو تو لطف آ جائے۔ میں یہ جانور اسے دکھاؤں گا۔ دیکھتے ہی پھڑک جائے گا اور دو ہزار کی تھیلی میرے سامنے پھینک دے گا۔

بیگم : فوراً جائیے۔ فوراً۔

مُلا : مگر اسے یہاں لانے میں ایک فائدہ ہے میں اس سے کہوں گا، جناب! میں خود اسے پالنا چاہتا ہوں۔ کسی کو دینا نہیں چاہتا۔ انصاری اصرار کرے گا، نہیں ملا جی! مجھے دے دو۔ میں انکار کروں گا اور وہ اصرار کرے گا اور یوں اس کی قیمت کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوں؟ میں نے ٹھیک سوچا ہے نا بیگم؟

بیگم : سوچا تو کچھ ٹھیک ہی ہے۔

مُلا : نصر الدین کبھی غلط نہیں سوچتا۔

بیگم : میں کہتی ہوں جائیے نا اب۔

مُلا : وہ سامنے ہی تو رہتا ہے انصاری۔ مگر بیگم۔

بیگم : کہیے!

مُلا : ایک بڑی اچھی تجویز آئی ہے میری ذہن میں۔

بیگم : کیا تجویز ہے؟

مُلا : بجائے اس کے کہ میں خود اس کے پاس جاؤں کیوں نہ کسی سے کہوں کہ اسے بلا لائے۔ لیکن جائے گا کون؟ نہیں میں خود جاؤں گا۔

بیگم : ٹھیک ہے۔ تمہیں خود ہی جانا چاہیے۔

مُلا : کہوں گا دینا کا سب سے عجیب جانور میرے پاس گھر میں ہے۔ وہ فوراً کہے گا دکھاؤ مجھے۔

بیگم : ضرور کہے گا۔

مُلا : میں کہوں گا آئیے میرے ساتھ۔

بیگم : ذرا ہمیں دکھا تو دیتے۔

مُلا : ابھی نہیں۔ انصاری کے سامنے جب تھیلا کھولوں گا، اس وقت تم بھی دیکھ لینا۔

بیگم : اچھا۔

مُلا : (تھیلا کندھے سے اتارتے ہوئے) میں نے اسے بڑی اچھی طرح بند کر رکھا ہے۔ ایک طرف رکھ دو۔

بیگم : خود کارنس کے اوپر رکھ دو۔

(ملا جی تھیلا کارنس کے اوپر رکھ دیتے ہیں)

مُلا : ہم جاتے ہیں۔

بیگم : جلدی آ جائیے۔

مُلا : ابھی پانچ منٹ کے اندر واپس آتا ہوں۔

بیگم : میں ہاتھ دھو لوں۔

(بیگم ہاتھ دھونے لگتی ہے۔ ملا جی چلے جاتے ہیں۔ ہمسائی آتی ہے)

ہمسائی : اے بہن! کیا ہو رہا ہے؟

بیگم : برتن مانجھ رہی ہوں۔

ہمسائی : نے کہا جب میں گھر سے نکل کر ادھر آ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ ملا جی بڑی تیزی سے کہیں جا رہے ہیں۔

بیگم : وہ جو دولت مند آدمی رہتا ہے نکڑ پر۔۔

ہمسائی : انصاری صاحب!

بیگم : انہیں بلانے گئے ہیں۔

ہمسائی : دس بیس تو ہم بھی دے سکتے ہیں۔

بیگم : قرض لینے نہیں گئے۔

ہمسائی : پھر کیا کام ہے؟

بیگم : کیا دولت مندوں کے پاس صرف قرض لینے کے لیے ہی لوگ جاتے ہیں؟

ہمسائی : اور بھی کئی کام ہو سکتے ہیں۔ بہن! تم خواہ مخواہ برا مان گئیں۔

بیگم : برا نہیں مانا میں نے، انصاری صاحب ابھی ابھی آ جاتے ہیں پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔

ہمسائی : کچھ بتاؤ گی بھی یا یوں ہی معما بازی کرتی رہو گی؟

بیگم : ملا جی جنگل سے ایک نہایت عجیب و غریب جانور پکڑ کر لائے ہیں۔ انصاری صاحب جانوروں کے بڑے شوقین ہیں۔

ہمسائی : جانور تو میں نے ملا جی کے پاس نہیں دیکھا۔

بیگم : دیکھ کیسے سکتی تھیں۔ وہ تو یہاں ہے۔ میں نے بتایا نہیں کہ ملا جی انصاری صاحب کو اپنے ہمراہ لائیں گے۔ وہ آئیں گے تو جانور دیکھیں گے اور ہزار دو ہزار پر سودا ہو جائے گا۔

ہمسائی : (سخت حیرت سے) اچھا!

بیگم : اور کیا!

ہمسائی : آج تو قسمت جاگ اٹھی ہے تم لوگوں کی۔

بیگم : اللہ کا فضل ہونے والا ہے۔

ہمسائی : بڑی اچھی بات ہے۔ سچ! اللہ کا فضل ہونے والا ہے۔

بیگم : بلکہ ہو چکا ہے۔ ملا جی کہتے ہیں اس جانور کا ساری دنیا میں ثانی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے انصاری صاحب دو ہزار دینار سے بھی زیادہ رقم دے دیں۔ تمہیں خبر نہیں۔ ایسے نایاب جانوروں کو لوگ چڑیا گھر میں لے جاتے ہیں اور منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ ہم تو انصاری صاحب کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ہے اور پھر ہمیں قرض بھی دیتا رہتا ہے۔

ہمسائی : نیک آدمی ہے۔ قرض دے کر وصول نہیں کرتا۔

بیگم : کیوں؟ ہم تو جو کچھ لیتے ہیں، فوراً ادا کر دیتے ہیں۔

ہمسائی : کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ میں نے کہا، بہن! وہ جانور ہے کہاں؟

بیگم : یہیں ہے۔

ہمسائی : ذرا ایک جھلک دکھا دو نا!

بیگم : نہ نہ بہن! آئیں گے تو خفا ہوں گے۔

ہمسائی : انہیں کیسے پتا چلے گا کہ ہم نے جانور کی ایک جھلک دیکھی ہے۔

بیگم : اس تھیلے میں ہے۔

(بیگم کارنس کی طرف اشارہ کرتی ہے)

ہمسائی : (تھیلے کی طرف دیکھتے ہوئے) اس تھیلے میں؟

بیگم : ہاں!

ہمسائی : اٹھو ذرا!

بیگم : ابھی انصاری صاحب آ جائیں گے تو ہم بھی دیکھ لیں گے۔

ہمسائی : واہ بہن! انصاری صاحب کے سامنے میں کیوں کر دیکھ سکوں گی۔ تم ان کے سامنے چلی جاتی ہو۔ میں تو نہیں جاتی۔

بیگم : میں بھی کب جاتی ہوں۔ چھپ کر دیکھیں گے۔

ہمسائی : چھپ کر کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ ایک لمحے کی ہی تو بات ہے۔ تھیلے کا منہ کھولیں گے اور فوراً سے پیش تر بند کر دیں گے۔ وہیں کا وہیں رہے گا۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ ہم اسے دیکھ چکے ہیں۔

بیگم : جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔

ہمسائی : پھر نیکی اور پوچھ پوچھ۔

بیگم : کہتے ہیں یہ جانور سنگ مرمر کی طرح سفید ہے۔

ہمسائی : سنگ مرمر کی طرح سفید؟

بیگم : اور بال روئی کی طرح نرم اور کان۔۔۔

ہمسائی : سنانے میں کیا لطف آتا ہے تمہیں۔ دیکھیں گے تو مزہ آئے گا۔

بیگم : اور احتیاط سے تھیلے کا منہ کھولیں گے۔

(بیگم اور ہمسائی اس کارنس کی طرف جاتی ہیں۔ جس پر تھیلا پڑا ہے)

ہمسائی : پتا نہیں کیا چیز ہے۔

بیگم : بے حد عجیب و غریب چیز ہے۔

(بیگم آہستہ آہستہ تھیلے کا منہ کھولتی ہیں)

ہمسائی : اندر ہاتھ ڈالو!

بیگم : کیا خبر کاٹ کھائے۔

ہمسائی : ہٹو۔ میں ہاتھ ڈالتی ہوں۔

بیگم : بہت احتیاط کے ساتھ بہن!

ہمسائی : بڑی احتیاط کے ساتھ ہاتھ ڈالوں گی۔

(ہمسائی تھیلے کے اندر ہاتھ ڈالتی ہے۔ تھیلے میں سے خرگوش نکل کر بھاگ جاتا ہے)

بیگم : ہائے اللہ!

ہمسائی : بہن! بھاگو پیچھے۔

(خرگوش آناً فاناً دروازے میں سے نکل جاتا ہے)

بیگم : بیڑا غرق کر دیا تم نے۔

ہمسائی : میں ڈھونڈ کر لاتی ہوں۔

(ہمسائی تیزی سے نکل جاتی ہے۔ بیگم گھبراہٹ میں تھیلے کا پورا منہ کھول کر اس کے اندر ہاتھ ڈالتی ہے۔ مُلا جی کی دروازے کے باہر سے آواز آتی ہے "جناب، ایک منٹ ٹھہر جائیے! ابھی اندر جاتے ہیں۔”

(ملا جی اندر آتے ہیں)

مُلا : بیگم، انصاری صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ اندر سے دوسری کرسی لے آؤ! یہ کیا کر رہی ہو؟ تھیلے کے اندر ہاتھ کیوں ڈال رکھا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کیا کر رہی ہوں؟

بیگم : کرنا کیا ہے۔ وہ عارفہ کی بچی، تباہ کر دیا اس نے ہمیں۔

مُلا : کیا ہوا؟

بیگم : میں نے لاکھ منع کیا کہ جانور مت دیکھو ابھی کہنے لگی، صرف ایک جھلک دیکھوں گی۔

مُلا : تو ہوا کیا؟

بیگم : وہ نہ جانے کہاں بھاگ گیا ہے۔ ہم برباد ہو گئے ہیں۔

مُلا : اوہ بیگم! تم نے تو ہمارا بیڑا غرق کر دیا۔ اب دو ہزار کی تھیلی نہیں ملے گی۔ میں بڑی مشکل سے پکڑ کر لایا تھا۔ بجلی کی طرح تیزی سے بھاگنے والا جانور ہے۔ بیگم تم نے غضب کر دیا ہے۔

(بیگم زور زور سے رونے لگتی ہے۔ مُلا جی بڑبڑاتے ہیں اور پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

 

مُلا نصر الدین کا مہمان

 

مُلا جی کا گھر۔ مُلا جی گھر میں آتے ہیں۔ بیگم اس وقت باورچی خانے میں ہیں۔مُلا جی ادھر ادھر دیکھتے ہیں۔ جب بیگم نظر نہ آئیں تو۔۔۔ )

مُلا : بیگم بیگم! کہاں ہو تم؟

بیگم : (باورچی خانے سے) شور کیوں مچا رہے ہیں آپ؟ باورچی خانے میں ہوں۔

مُلا : فوراً سے پیشتر بتاؤ کہ روٹیاں اور سالن تیار ہے؟

بیگم : نہیں۔

(بیگم دروازے پر آتی ہیں)

مُلا : تم نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ روٹیاں تیار نہیں ہیں۔ سالن تیار نہیں ہے۔

بیگم : کر رہی ہوں۔ میرے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے۔

مُلا : بیگم! مار ہی ڈالا تم نے۔ اس قدر بھوک لگی ہے کہ معلوم ہوتا ہے پچھلے آٹھ دن سے کچھ بھی نہیں کھایا۔

بیگم : تو ہوا پھانکیے۔

مُلّا : بیگم! مذاق مت کرو۔ واللہ بے ہوش ہو جانے کے قریب ہوں۔ ابھی گرا کہ گرا۔

بیگم : نہیں گرو گے اور اگر گرنے لگو تو مجھے آواز دے دینا۔

مُلا : بیگم! یہ بتاؤ کہ ابھی کتنا وقت لگے گا کھانا تیار کرنے میں؟

بیگم : سالن پک چکا ہے۔ اب اسے انگیٹھی سے اتار کر روٹیاں پکاؤں گی۔

مُلا : کب تک روٹیاں پک جائیں گی؟

بیگم : شام تک پک ہی جائیں گی۔

مُلا : ارے! (جھوٹ موٹ گرتے ہوئے) میں گرنے لگا ہوں۔

بیگم : نہیں گرو گے۔

مُلا : بیگم! تم میری بات کو صحیح نہیں سمجھتیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، غلط نہیں ہے۔

بیگم : اگر تم کو اتنی ہی بھوک ہے تو گر کیوں  نہیں پڑے ابھی تک؟

مُلا : وہ تو میں نے خود کو سنبھال رکھا ہے ورنہ کب کا بے ہوش ہو چکا ہوتا اور تم چیخ چیخ کر سارے محلے کو سر پر اٹھا چکی ہوتیں۔

بیگم : اچھا! مجھے کام کرنے دو۔ تمہاری باتیں تو کبھی ختم ہی نہیں ہوں گی۔

(بیگم جانے لگتی ہیں)

مُلا : بیگم سنو! ہانڈی انگیٹھی سے اتار دو۔ تو میرے لیے فوراً برتن میں سالن ڈال دینا، تاکہ کچھ ٹھنڈا ہو جائے۔ گرم سالن کھانے سے میری زبان جل جائے گی۔

بیگم : دیکھا جائے گا۔

مُلا : دیکھو بیگم!

( بیگم چلی جاتی ہیں۔ ان کے جانے کے فوراً بعد دوسرے دروازے پر دستک ہوتی ہے)

مُلا : کون صاحب ہیں؟

جبار : (باہر سے) میں ہوں بھائی نصر الدین!

مُلا : میں کون؟

جبار : جی، میں ہوں جبار۔

مُلا : جبار (آہستہ سے) کون جبار؟

(دروازہ کھولتے ہیں، ایک بھاری بھرکم صاحب دروازے پر نظر آتے ہیں)

جبار : السلام علیکم نصر الدین! آواز نہیں پہچان سکے تو کیا شکل بھی نہیں پہچانتے؟

مُلا : میں شرمندہ ہوں۔ واقعی سخت شرمندگی ہے۔ اپنے کم زور حافظے کی وجہ سے مجھے بعض اوقات سخت نادم ہونا پڑتا ہے۔

جبار : میں جبار ہوں، عبد الجبار۔

مُلا : اپنا نام تو آپ پہلے بھی بتا چکے ہیں۔

جبار : تو کیا جبار کو بھول گئے۔ واہ صاحب! کمال کر رہے ہیں آپ۔ ارے بھائی۔ میں وہی تو ہوں جس کے ساتھ آپ بچپن میں کھیلا کرتے تھے۔ اسی مکان کے آنگن میں۔

مُلا : اسی مکان کے آنگن میں! اچھا۔ حیرت ہے مجھے یہاں رہتے ہوئے صرف نو برس ہوئے ہیں۔ میرا بچپن تو یہاں سے دور ایک چھوٹی بستی میں گزرا تھا۔

جبار : یار! میں جگہ بھول گیا تھا۔ میں بچپن کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں کون ہوں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم کھیلتے کھیلتے لڑ پڑے تھے اور میں نے ایک پتھر اٹھا کر تمہارے سر پر دے مارا تھا۔

مُلا : پتھر میں نے مارا تھا۔

جبار : صرف یہ بات آپ بھول گئے۔

مُلا : صاحب! پتھر میں نے مارا تھا۔

جبار : چلیے مُلّا جی! میں مان لیتا ہوں۔ پتھر آپ نے مارا تھا اور میرا سر پھٹ گیا تھا اور پھر آپ نے مجھے حلوا کھلایا تھا۔

مُلا : خوب خوب! چلیے صاحب ادھر تشریف لائیے دروازے پر کیوں کھڑے ہیں۔

جبار : تو اندر تشریف لے آتا ہوں۔

(جبار اندر آ کر ایک چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے)

مُلا : کیسے آئے؟

جبار : (آہ بھر کر) یہ بڑی درد ناک کہانی ہے میرے بھائی! بڑا دکھی ہوں۔

مُلا : خیر تو ہے۔

جبار : کیا عرض کروں۔ سنیں گے تو آپ کو تکلیف ہو گی۔ ایک عجیب بیماری میں مبتلا ہوں۔ ہائے موت بھی نہیں آتی مجھے بدبخت کو۔ دعائیں کرتا ہوں موت کی، مگر اللہ میاں نہیں مانتے جیے جا رہا ہوں اور مرنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ یوں سمجھیے کہ زندہ تو ہوں، مگر مردوں سے بد تر۔ زندگی مجبوری بن کر رہ گئی ہے۔

مُلا : بیماری کیا ہے آپ کو؟

جبار : بیماری؟ سخت خطرناک۔۔۔ بے حد خطرناک ہے۔

مُلا : کیا خدا نخواستہ دل، جگر یا پھیپھڑا وغیرہ خراب ہے؟

جبار : میرا معدہ سخت خراب ہے۔ بھوک تو نہیں لگتی نہیں۔ شہر شہر، بستی بستی، قریہ قریہ گھوما ہوں ہر خطے کی سیر کی ہے مگر صحت بدستور ویسی کی ویسی ہے۔

مُلا : اوہو!

جبار : بھوک بے حد کم لگتی ہے۔ چنانچہ بہت کم کھاتا ہوں۔

مُلا : کھانے کا وقت تو ہو گیا ہے۔ کچھ کھائیے گا؟

جبار : کیا کھاؤں گا۔

مُلا : پھر بھی چند لقمے۔

جبار : اچھا! آپ چاہتے ہیں کہ اپنی آنکھوں سے میری بدنصیبی کا منظر دیکھیں تو میں کیا اعتراض کر سکتا ہوں۔ خبر نہیں اس شہر کی روٹیاں کیسی ہیں۔ سالن کیسا ہے۔

مُلا : ابھی دیکھ لیں گے۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں۔

( مُلا جی پہلے دروازے میں سے نکل جاتے ہیں اور چند لمحوں میں سالن کی پلیٹ لے کر آتے ہیں)

جبار : جناب، معاف کیجئے۔ روٹیاں ابھی تیار نہیں ہوئیں۔ سالن لے آیا ہوں کہ ذرا ٹھنڈا ہو جائے۔ سخت گرم ہے۔

جبار : ٹھیک ہے۔

( مُلا جی سالن کی پلیٹ چارپائی پر رکھ دیتے ہیں)

مُلا : ابھی واپس آیا۔

( مُلا جی چلے جاتے ہیں۔ ان کے جاتے ہی جبار سالن کی پلیٹ ہاتھ میں لیتا ہے اور انگلیوں سے چٹ کر جاتا ہے)

جبار : مزے دار ہے۔ لطف آ گیا۔

( مُلا جی چنگیر میں روٹیاں لے کر آتے ہیں۔ جیسے ہی ان کی نظر سالن کی پلیٹ پر پڑتی ہے۔ حیران ہو جاتے ہیں)

مُلا : سالن کہاں گیا؟

جبار : وہ میں نے اس خیال سے کہ ذرا دیکھوں کہ کیسا ہے، کھا لیا ہے۔

مُلا : واہ! (ہنستے ہیں)

جبار : جی! (ہنستا ہے)

مُلا : میں روٹیاں رکھے جاتا ہوں۔ سالن لے کر آتا ہوں۔

( مُلا جی روٹیوں کی چنگیر رکھ دیتے ہیں اور پلیٹ اٹھا لیتے ہیں)

ابھی حاضر ہوتا ہوں۔

جبار : بہتر!

( مُلا جی چلے جاتے ہیں۔ جبار چنگیر اپنے قریب لاتا ہے اور جلدی جلدی روٹیاں توڑ کر نگل جاتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد مُلا جی سالن کی پلیٹ لے کر واپس آتے ہیں)

مُلا : روٹیاں!

جبار : میں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ روٹیاں کچی ہیں یا پکی، انہیں بغیر سالن ہی کھا لیا ہے۔

مُلّا : (حیرت سے) سچ!

جبار : مُلا جی آپ سے کیا جھوٹ بولوں گا؟

مُلا : چنگیر دیجئے مجھے۔

(جبار مُلّا جی کو چنگیر دیتا ہے اور ان کے جاتے ہی سالن کھا جاتا ہے۔ جب مُلا جی واپس آتے ہیں تو پلیٹ خالی ہوتی ہے۔ وہ چنگیر میں روٹیاں لے کر آتے ہیں)

مُلا : سالن!

جبار : میں نے سوچا، ذرا دیکھوں سالن زیادہ گرم تو نہیں ہے۔ زیادہ گرم نہیں تھا۔ آسانی سے پی لیا ہے۔

مُلا : کھانے میں تکلیف تو نہیں ہوئی؟

جبار : جی نہیں۔

مُلا : کمال ہے!

( مُلا جی پلیٹ لے کر جاتے ہیں۔ جبار روٹیاں کھا جاتا ہے۔ مُلا جی پلیٹ لے کر واپس آتے ہیں)

جبار : ہماری بھابھی بڑے سلیقے سے روٹیاں پکاتی ہیں۔ میری طرف سے ان کا بہت بہت شکریہ۔ لائیے کیا لائے ہیں آپ؟

(جبار پلیٹ لے لیتا ہے اور خالی چنگیر ان کو دے دیتا ہے۔ مُلا جی حیران پریشان چلے جاتے ہیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی جبار سالن کھا جاتا ہے۔ مُلا جی واپس آتے ہیں مگر خالی ہاتھ ہیں)

جبار : آپ لائے نہیں؟

مُلا : لے آیا ہوں۔

جبار : کیا لائے ہیں؟

مُلا : (چابیاں پھینکتے ہوئے) یہ لیجئے، سارے ٹرنکوں الماریوں کی چابیاں ہیں۔ ابھی باہر کے دروازے کا تالا بھی حاضر کیے دیتا ہوں۔

جبار : ارے! وہ کیوں؟

مُلا : وہ اس لیے کہ اب آپ اس گھر میں رہیں گے۔ میں اور میری بیوی یہاں سے ہمیشہ کے لیے جا رہے ہیں۔

جبار : آپ لوگ چلے گئے تو مجھے کھانا کون دے گا؟

مُلا : اور یہی سوال ہمارے لیے بھی ہے کہ ہمیں کھانا کون دے گا؟ سب کچھ تو آپ چٹ کر گئے ہیں۔

جبار : نہیں صاحب! آپ کو اپنا گھر مبارک۔ میں پھر کبھی آ جاؤں گا۔ کسی اور دوست کے گھر جاتا ہوں۔ آج کچھ بھوک لگی ہے۔

(جبار اٹھ کر دروازے کی طرف جانے لگتا ہے

(پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

مُلا نصر الدین اور پلاؤ

 

 

 

(مُلا نصر الدین کا گھر۔ بیگم چارپائی پر بیٹھی ہیں۔ مُلا جی اندر آتے ہیں اور کچھ سونگھتے ہیں)

مُلا : معلوم ہوتا ہے بیگم! آج گھر میں کوئی خاص چیز پکی ہے۔

بیگم : کیسے اندازہ لگا لیا؟

بیگم : میری سونگھنے کی قوت ماشاء اللہ بہت تیز ہے۔

بیگم : ماشاء اللہ! ماشاء اللہ۔ ذرا یہ کہو وہ خاص چیز ہے کیا؟

مُلا : سنو! وہ خاص چیز ہے۔ کوئی بہت ہی خاص چیز کیوں کہ خاص چیز ہے۔ اس لیے واقعی خاص چیز ہے۔

بیگم : میں نے پوچھا ہے اس کا نام کیا ہے؟

مُلا : پلیٹ میں ڈال کر کھائی جاتی ہے؟

بیگم : نام؟

مُلا : بیگم! مجھے پلاؤ سے بڑی محبت ہے اور چوں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ اس لیے تمہیں بھی پلاؤ سے محبت ہو سکتی ہے۔ لہذا۔۔۔۔

بیگم : ابھی کھاؤ گے یا ذرا ٹھہر کر؟

مُلا : ابھی کھاؤں گا۔ اسی وقت کھاؤں گا۔ اسی لمحے کھاؤں گا، اٹھو! جاؤ باورچی خانے میں اور۔۔۔ مگر بیگم! ذرا احتیاط سے پلیٹ اٹھانا۔

بیگم : بے صبری اچھی چیز نہیں ہے۔ تم تو خود کو عالم فاضل سمجھتے ہو۔ تمہیں بے صبری زیب نہیں دیتی۔

مُلا : بیگم! جب انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہوں تو ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔

بیگم : اطمینان سے بیٹھ تو جاؤ۔

(بیگم چارپائی سے اٹھ بیٹھتی ہیں۔ مُلّا جی بیٹھ جاتے ہیں)

بیگم : ہاتھ منہ دھوئیں گے؟

مُلا : ہاتھ منہ صاف ہیں بیگم! تم پلیٹ لاؤ۔

بیگم : دعا مانگ کر کھانا کھایا جاتا ہے۔

مُلا : بیگم! یہ ساری باتیں تمہیں آج ہی سوجھیں گی؟ بندۂ خدا بھوک سے برا حال ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب میں بے ہوش ہو جاؤں اور تم پریشان ہو کر حکیم کی طرف بھاگو۔

بیگم : ایسا منحوس وقت نہیں آئے گا۔

مُلا : تم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ یہی ہو گا۔ اچھا! کھانا لاؤ۔ تمہیں ایک مزے کی بات سنائیں گے۔

بیگم : مزے کی بات؟ سناؤ!

مُلا : جب میں بازار سے گزر رہا تھا تو ایک شخص کو دیکھا کہ بڑا پریشان ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کے مرغ نے دو دن سے بانگ نہیں دی اور وہ سمجھتا ہے کہ اب اس کا مرغ مرغ نہیں رہا۔

بیگم: تو کیا ہو گیا ہے؟

مُلا : مرغی بن گیا ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بھئی بانگ نہیں دی تو کیا ہوا۔ مرغا مرغا ہی رہتا ہے۔ وہ نہ مانا۔ میں نے ایک عجیب کام کیا۔

بیگم : کیا عجیب کام کیا؟

مُلا : ایسا کام کیا کہ سارا بازار میری عقل مندی کی داد دینے لگا۔ بیگم! مُلّا نصر الدین کو اللہ نے بڑی عقل دی ہے۔ واہ وا! شکر ہے اللہ پاک کا۔

بیگم : کیا کیا تم نے؟

مُلا : ذرا مرغ سے دور جا کر مرغ کی طرح بانگ دی۔ پھر کیا تھا۔ مرغ بھی بانگ دینے لگا۔

بیگم : سبحان اللہ!

مُلا : سبحان اللہ! بیگم! یہ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ یونہی پریشان ہو جاتا ہے۔ بھلا اگر مرغ نے بانگ نہیں دی تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟

(اشرف آتا ہے)

اشرف : السلام علیکم مُلّا جی!

مُلا : آؤ بیٹا اشرف!

اشرف : مُلا جی میرے ساتھ گھر چلیے۔ جلدی چلیے۔

مُلا : کیوں کیا بات ہے؟

اشرف : امی نے کہا ہے مُلا جی کو فوراً بلا لاؤ۔

مُلا : معاملہ کیا ہے بھئی؟

اشرف : امی سخت پریشان ہیں۔ رو رہی ہیں۔

بیگم : رو رہی ہیں؟ کوئی مصیبت پڑی ہے بے چاری پر۔ جاؤ نا۔

مُلا : بیگم بھوک سے۔۔۔

بیگم : پتا نہیں وہاں کیا حادثہ ہوا ہے۔ کس مصیبت میں گرفتار ہو گئی ہے وہ بے چاری۔

اشرف : جی ہاں! کوئی مصیبت پڑی ہے۔

مُلا : مصیبت ہے کیا؟

اشرف : وہ کہتی ہیں مُلّا جی کو جلدی سے بلا لاؤ۔

مُلا : کیا مصیبت ہے۔ بیگم! تم کھانا لاؤ۔ چارپائی پر رکھ دو۔ ڈھانپ کر رکھنا (اشرف سے) چلو بھائی! کچھ دیر اور فاقہ سہی۔

(مُلا جی اشرف سے ساتھ کمرے سے باہر نکلتے ہیں کہ ہمسائی عائشہ آ جاتی ہے۔ سخت پریشان حالت میں ہے۔ مُلا جی رک جاتے ہیں اور پھر واپس چارپائی پر آ جاتے ہیں)

عائشہ : مُلّا جی!

مُلا : کیا ہوا بہن!

عائشہ : مُلا جی!

مُلا : کچھ منہ سے بھی کہو تو۔

عائشہ : عجیب معاملہ ہے۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے میری سمجھ میں خاک نہیں آتا۔ ایسا آج تک ہوا نہ کبھی ہو گا۔ ہائے اللہ! میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہ گئی۔

(عائشہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں)

مُلا : یہ مصیبت ہے کیا؟

عائشہ : کیا بتاؤں۔

مُلا : کیا اللہ میاں گھر کے کسی آدمی کو اپنے ہاں بلا رہے ہیں؟

عائشہ : نہیں۔

مُلا : بچے تو گھر ہیں نا؟

عائشہ : سب ہیں۔

مُلا : مکان تو نہیں گر پڑا؟

عائشہ : توبہ کیجئے مُلّا جی! کیا منحوس لفظ منہ سے نکالتے ہیں۔

مُلا : چوری تو نہیں ہو گئی؟

عائشہ : نہیں نہیں نہیں!

مُلا : پھر ہوا کیا ہے؟

عائشہ : میری بکری نے بچہ دیا ہے۔

مُلا : تمہاری بکری نے بچہ دیا ہے۔ تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔

عائشہ : یہی تو مصیبت ہے۔

مُلا : بکری بچہ دے تو کیا گھر پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔

عائشہ : مُلا جی! کیا کہوں آپ سے۔

مُلا : بی بی! جو بات ہے کہو۔

عائشہ : بکری نے جو بچہ دیا ہے نا، اس کی دم نہیں ہے۔

(مُلا جی اور بیگم بے اختیار ہنس پڑتے ہیں)

ہائے ہائے! تم لوگ ہنس رہے ہو؟

مُلا : ارے بے وقوف! بکری نے جو بچہ دیا ہے اگر اس کے دم نہیں ہے تو کیا ہوا؟

عائشہ : کوئی خاص بات نہیں ہے؟

مُلا : بالکل نہیں۔ دم والے بچوں اور اس بچے میں کچھ فرق نہیں ہو گا۔

عائشہ : میں تو گھبرا گئی تھی۔

مُلا : اللہ میاں نے عجیب مخلوق پیدا کی ہے۔ کوئی اس وجہ سے پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کے مرغ نے دو دن سے بانگ نہیں دی اور کسی کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بکری نے جو بچہ دیا ہے اس کے دم نہیں ہے۔ لا حول ولا۔۔ جاؤ بہن! اطمینان سے جاؤ۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔

عائشہ : اچھا مُلا جی!

مُلا : ہاں ہاں! جاؤ۔

عائشہ : تم ٹھیک کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔

مُلا : بھئی ٹھیک ہے، ٹھیک ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔

(عائشہ اشرف کے ساتھ جانے لگتی ہے)

مُلا : بیگم! خدا کے لیے اب تو پلیٹ لے آؤ۔

بیگم : لاتی ہوں۔

(بیگم جانے لگتی ہیں۔ عائشہ دروازے کے پاس جا کر رک جاتی ہے)

عائشہ : (دروازے پر کھڑے ہو کر) مُلّا جی! میں نے کہا فکر کی کوئی بات۔۔۔۔

مُلا : کہہ جو دیا نہیں۔ خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو اور کر رہی ہو۔

(عائشہ دروازے سے نکل جاتی ہے۔ بیگم آتی ہیں۔ ہاتھ خالی چہرہ ایسا جیسے ابھی رو پڑیں گی)

مُلا : کیوں؟ اب تمہاری باری ہے؟ کیا تمہاری بلی نے چھیچھڑے کھانے چھوڑ دیئے ہیں؟

بیگم : نہیں۔

مُلا : پلیٹ نہیں لائیں۔

بیگم : وہ۔۔۔ ہائے میں مر جاؤں۔

مُلا : خدا کے لیے بتاؤ کیا ہوا؟

بیگم : وہ جو بلی ہے نا۔

مُلا : ہاں! اپنی بلی ہے۔

بیگم : وہ۔۔ (ہاتھ زور سے پیشانی پر مارتے ہوئے) میری بدبختی!

مُلا : بلی کو کیا ہوا؟

بیگم : بلی کو تو کچھ نہیں ہوا۔

مُلا : تو کس کو ہوا؟

بیگم : پلاؤ کو ہوا۔۔ بلی پلاؤ پر منہ مار گئی ہے۔ بوٹیاں کھا گئی ہے۔

مُلا : بیگم۔۔۔۔۔۔ !

(مُلا دھم سے چارپائی پر گرتے ہیں)

(پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

 

احسان کا بدلہ

 

                   پہلا منظر

 

(شہر بغداد۔۔ ایک شان دار مکان کا دیوان خانہ۔۔ صبح کا وقت۔ خلیفہ مہدی کے مرحوم وزیر اعظم ابو خالد کا بیٹا احمد کرسی پر اس طرح بیٹھا ہے جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔ لباس میلا کچیلا اور چہرے کا رنگ زرد ہے۔ احمد کی ماں کمرے میں آتی ہے)

ماں : احمد بیٹا!

احمد : جی اماں جان!

ماں کیا بات ہے بیٹا؟ اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟

احمد : نہیں، ویسے ہی بیٹھا ہوں۔

ماں : بیٹا! ماں سے اپنی حالت چھپاؤ نہیں۔ میں سب کچھ جانتی ہوں۔ ہمارے مذہب میں مایوس ہونا بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ تم یہ بات جانتے نہیں ہو؟

احمد : جانتا ہوں اماں!

ماں : پھر بھی مایوس ہو؟

احمد : میں کیا کروں۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ ملازمت کے لیے پوری پوری کوشش کی ہے مگر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

ماں : کیا مجھے یہ بات معلوم نہیں ہے؟

احمد : وزیر اعظم کا بیٹا اور یوں در بدر کی ٹھوکریں کھائے۔ آج میرا باپ زندہ ہوتا تو میں اس طرح مایوس ہوتا؟ آسانی سے بڑی سے بڑی ملازمت مل جاتی لیکن آج۔۔

ماں : فکر نہ کرو بیٹا!

احمد : فکر کیوں نہ کروں۔ ہماری حالت روس بروز خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ گھر میں جتنا روپیہ تھا سب کا سب ختم ہو چکا ہے۔ اب کیا ہو گا؟ کس طرح گزارہ ہو گا۔

ماں : اللہ رازق ہے۔

(ماں بیٹے کے سامنے کرسی پر بیٹھ جاتی ہے)

احمد : اللہ رازق ہے مگر انسان کو تو کوشش کرنی چاہیے نا۔

ماں : تم نے ہر طرح سے کوشش کی ہے۔ کہاں کہاں نہیں گئے۔ کس کس سے نہیں ملے۔

احمد : کل کیا ہو گا اماں! کیا ہمیں فاقہ کرنا پڑے گا؟

ماں : فاقہ کیوں کریں گے۔ میں نے تھوڑی سی رقم بچا رکھی ہے، اس سے گھر کا خرچ چلے گا۔

احمد : اور جب یہ رقم ختم ہو گئی تو۔۔؟

ماں : کوئی نہ کوئی بندوبست ہو جائے گا۔

احمد : کیا بندوبست ہو گا۔ میری سمجھ میں تو کچھ آتا نہیں۔

ماں : بیٹا!

احمد : جی اماں! فرمائیے!

ماں : تیرے باپ کے بے شمار دوست تھے۔ اور یہ سارے دوست بڑے اونچے عہدوں پر تھے۔ ان میں سے کچھ آج بھی زندہ ہیں۔

احمد : زندہ ہیں تو کیا ہوا۔ آپ شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میں مرحوم ابا جان کے کسی دوست کے پاس جاؤں اور ان سے مدد مانگوں۔

ماں : اس میں حرج کیا ہے؟

احمد : اماں! آپ بھی کیسی باتیں کرتی ہیں۔ آپ کو پتا نہیں کہ جب کوئی امیر آدمی غریب ہو جاتا ہے تو امیر لوگ اس سے کیا سلوک کرتے ہیں؟ جب تک ہمارے پاس دولت تھی سب عزت سے پیش آتے تھے لیکن آج کوئی پوچھتا تک نہیں۔ میرا تو دل ٹوٹ گیا ہے۔ کسی سے ملنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔

ماں : تو جو کچھ کہہ رہا ہے درست ہے مگر بیٹا! اس طرح نا امید ہو کر گھر میں بیٹھ جانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔

احمد : اب کیا کروں اماں جان!

ماں : کسی سے ملو۔

احمد : کس سے ملوں؟ لوگ تو میری شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔

ماں : یہ بات میں نہیں مانتی۔ دنیا میں جہاں برے لوگ ہیں وہاں اچھے بھی ہیں۔ تم کسی کے پاس جا کر دیکھو تو سہی۔

احمد : اماں! میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ہم اس شہر میں نہیں رہیں گے۔

ماں : بیٹا! ہم اپنا شہر کیوں چھوڑیں؟

احمد : اماں! یہاں میری کوئی عزت نہیں ہے۔ کسی اور شہر میں جا کر معمولی سے معمولی کام بھی کر لوں گا۔ وہاں جاننے والے لوگ نہیں ہوں گے۔

ماں : اتنی جلد اتنا بڑا فیصلہ کر لینا مناسب نہیں ہے۔

احمد : اس کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے؟

ماں : احمد!

احمد : فرمائیے! اماں جان!

ماں : میری ایک خواہش پوری کرو گے؟

احمد : حکم دیں اماں جان! آپ کا ہر حکم ماننا میرا فرض ہے۔

ماں : مجھے یاد پڑتا ہے کہ تمہارے ابا جان نے ایک مرتبہ یحییٰ کی مدد کی تھی اور آج یحییٰ خلیفہ ہارون رشید کے وزیر ہیں۔

احمد : ایک زمانے میں یحییٰ صاحب بڑے غریب ہو گئے تھے۔ اس وقت ابا جان کے پاس آئے تھے اور ابا جان نے ان کی پوری مدد کی تھی۔

ماں : آج یحییٰ کے محسن کا بیٹا سخت غریب ہو گیا ہے۔ کیا وہ اس کی مدد نہیں کریں گے؟

(احمد سوچنے لگتا ہے)

سوچ کیا رہے ہو بیٹا۔ ان سے ملو جا کر۔

احمد : نہیں اماں! میں ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔

ماں : کیسے پاگل ہو۔ گھر بیٹھے ہی سمجھ لیا کہ وہ تمہاری صورت دیکھنے کی روا دار نہیں ہیں۔

احمد : اب تک میرے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے۔

ماں : کیا ضروری ہے کہ سب لوگ ایک جیسا ہی سلوک کریں؟

احمد : اماں! آپ حکم دیں گے تو چلا جاؤں گا۔ ویسے میرا دل بالکل نہیں چاہتا۔

(ماں کرسی سے اٹھ کر بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگتی ہے۔ احمد اٹھ بیٹھتا ہے)

ماں : شاباش بیٹا! اچھی اولاد ماں باپ کی بات ٹالتی نہیں، کب جاؤ گے؟

احمد : کل صبح چلا جاؤں گا۔

ماں : تمہارے لیے رات کو صاف ستھرے کپڑوں کا انتظام کر دوں گی۔

احمد : بہتر اماں جان!

 

                   دوسرا منظر

 

(خلیفہ ہارون رشید کے وزیر یحییٰ کے محل کا ایک کمرا۔ یحییٰ کرسی پر بیٹھے ہیں۔ خادم آتا ہے)

خادم : حضور! ایک نوجوان خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے۔

یحییٰ : کون ہے؟

خادم : کہتا ہے تم جا کر صرف یہ اطلاع دے دو کہ ایک نوجوان آیا ہے۔

یحییٰ : نام نہیں بتایا؟

خادم : جی نہیں۔

یحییٰ : لے آؤ!

(خادم چلا جاتا ہے۔ چند لمحوں بعد اس کے ساتھ احمد آتا ہے)

احمد : السلام علیکم چچا جان!

یحییٰ : وعلیکم السلام۔ آؤ احمد بیٹا!

احمد : آپ نے مجھے پہچان لیا ہے؟

یحییٰ : جب تمہارے ابا جان زندہ تھے تو میں کئی مرتبہ ان سے ملا تھا۔ دو تین بار تمہیں بھی ان کے ساتھ دیکھا تھا۔ بیٹھ جاؤ۔

(احمد ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہے)

احمد : شکریہ چچا جان!

(یحییٰ دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔ جہاں خادم کھڑا ہے)

یحییٰ : ہمارے بیٹے کے لیے شربت لاؤ۔

احمد : چچا جان! تکلیف نہ کریں۔

(خادم چلا جاتا ہے)

احمد : چچا جان! میں ایک خاص مقصد کے لیے حاضر ہوا ہوں۔

یحییٰ : کہو کیا مقصد ہے تمہارا؟

احمد : چچا جان! جب تک ابا جان زندہ تھے گھر میں ہر طرح کا آرام تھا۔ ان کے فوت ہو جانے کے بعد ساری ذمہ داریاں میرے کندھے پر آ پڑی ہیں۔ میں ہی ان کا اکلوتا بیٹا ہوں۔

یحییٰ : مجھے خبر ہے۔

احمد : میں نے ملازمت کے لیے بڑی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔

(خادم طشت میں شربت کے دو گلاس لے کر آتا ہے۔ ایک گلاس یحییٰ اٹھا کر احمد کو دیتے ہیں دوسرا خود لے لیتے ہیں)

احمد : مجھے یہ بات زبان پر لاتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں۔

یحییٰ : مجھے یہ سن کر دکھ ہوا ہے۔

احمد : آپ کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ آپ ماشاء اللہ وزیر ہیں۔ میرے لیے اچھی سے اچھی ملازمت کا بندوبست کر سکتے ہیں۔

(یحییٰ کا بیٹا منصور آتا ہے۔ احمد اپنا گلاس طشت میں رکھ دیتا ہے۔ خادم طشت لے جانے لگتا ہے)

یحییٰ : آؤ منصور بیٹا۔ ان سے ملو۔ جانتے ہو یہ کون ہیں؟

منصور : نہیں ابا جان!

یحییٰ : یہ مرحوم وزیر اعظم ابو خالد کے بیٹے احمد ہیں۔

(احمد اٹھ کر منصور سے مصافحہ کرتا ہے)

منصور : ابا جان! میں ان کے ساتھ بچپن میں کھیل چکا ہوں۔ احمد بھائی! کیا آپ منصور کو بھول گئے ہیں؟

احمد : جی نہیں۔ مجھے اپنا بچپن کا ساتھی کیوں کر بھول سکتا ہے۔

یحییٰ : اچھا تو احمد بیٹا! میں نے تمہارا معاملہ سمجھ لیا ہے۔ تمہارے لیے کچھ کرنے کی ضرور کوشش کروں گا۔ کوئی گنجائش نکلی تو تمہیں اطلاع مل جائے گی۔ اس وقت تمہارے لیے کوئی مناسب ملازمت نہیں ہے۔

(احمد ان لفظوں سے مایوس ہو جاتا ہے)

احمد : بہت بہت شکریہ! اب مجھے جانے کی اجازت دیں۔

یحییٰ : جانا چاہتے ہو؟ اچھا جاؤ!

(احمد سلام کر کے چلا جاتا ہے)

منصور : (حیرت سے) ابا جان!

یحییٰ : کیوں بیٹا!

منصور : یہ آپ کی نہایت عزیز دوست کا بیٹا ہے۔ آپ نے ایسے روکھے پن سے اسے رخصت کر دیا ہے؟

یحییٰ : بیٹا! واقعی اس کے لائق کوئی خدمت نہیں ہے۔

منصور : آپ اس کی مدد کرسکتے تھے۔

یحییٰ : میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔

منصور : کیوں؟ ابا جان!

یحییٰ : منصور بیٹا! تم نہیں جانتے، اس کے باپ نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا تھا۔

منصور : ابا جان! آپ نے ایک مرتبہ پہلے بھی کہا تھا کہ ابو خالد مرحوم نے آپ کی ذات پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔ وہ احسان کیا تھا؟

یحییٰ : بیٹا! ایک زمانے میں میرا سارا کاروبار تباہ ہو گیا تھا۔ اس وقت میں ابو خالد کے پاس پہنچا اور اسے ساری حالت بتا دی۔ ابو خالد نے صرف یہ کہا کہ میں تمہارے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا اور مجھے رخصت کر دیا۔ مجھے سخت دکھ ہوا۔ دوسرے دن میں شہر چھوڑنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے مجھے خلیفہ مہدی کا فرمان دیا جس میں لکھا تھا کہ تم کو کوفے کا گورنر مقرر کیا جا رہا ہے۔ یہ میرے دوست خالد کی مہربانی کا نتیجہ تھا۔

منصور : انہوں نے ہی خلیفہ سے سفارش کی ہو گی۔

یحییٰ : یقیناً۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا۔ خوب محنت کی، دیانت داری کے ساتھ اپنا فرض ادا کیا اور آج میں خلیفہ ہارون رشید کا وزیر ہوں۔ اگر ابو خالد میری سفارش نہ کرتے اور مجھے کوفے کو گورنر مقرر نہ کرتے تو نہ جانے میرے ساتھ کیا پیش آتا اور میں کتنے دکھ اٹھاتا۔ آج اس کا بیٹا مجھ سے مدد مانگنے آیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ اس کے لیے کیا کروں۔ کسی عام ملازمت کا بندوبست کرنا یا مالی مدد کرنا مجھے منظور نہیں۔

منصور : آپ کو احساس ہے کہ احمد کے ابا جان نے آپ پر بہت بڑا احسان کیا تھا۔

یحییٰ : ہاں بیٹا! مجھے یہ احساس ہے۔ میں اس کو کوئی ایسی ملازمت دلا کر جس میں میری اپنی قربانی شامل نہ ہو، اس کے باپ کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔

منصور : تو آپ کیا چاہتے ہیں؟

یحییٰ : تمہارا مشورہ کیا ہے؟

منصور : ابا جان! مجھے سوچنے کا موقع دیجئے۔ کل صبح بتا سکوں گا کہ میں نے کیا سوچا ہے۔

یحییٰ : میں بھی سوچتا ہوں۔ کوئی نہ کوئی مناسب تجویز تمہارے یا میرے ذہن میں آ ہی جائے گی۔

(پردہ گرتا ہے)

 

                   تیسرا منظر

 

(احمد کے مکان کا کمرا۔ احمد اور اس کی ماں باتیں کر رہے ہیں)

احمد : اماں! اب اس شہر میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

ماں : ایک مرتبہ پھر سوچ لو بیٹا!

احمد : اماں! آپ نے کہا کہ یحییٰ سے مل آؤں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہیں اپنی حالت بتائی مگر انہوں نے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں لی۔

ماں : حیرت ہے۔ وہ احمد کے باپ کا احسان بھول گئے۔

احمد : لوگ احسان بھول ہی جایا کرتے ہیں اماں جان! میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ غریبی میں کوئی شخص بھی ساتھ نہیں دیتا۔ آپ نے اصرار کیا۔ میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کر دی۔

ماں : تو تم نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ اب ہم اس شہر میں نہیں رہیں گے؟

احمد : اماں جان! بتائیے اب ہم یہاں رہ کر کیا کریں گے؟ کسی اور شہر جا کر میں ہر وہ کام کر سکوں گا جو یہاں نہیں کر سکتا۔

ماں : کاش تمہیں یہیں کوئی مناسب ملازمت مل جاتی۔

احمد : مل جاتی تو اور کیا چاہیے تھا۔

ماں : اب اس شہر میں رہنا ہماری قسمت میں نہیں ہے۔

احمد : اماں جان! میرا دل نہیں چاہتا کہ کہیں اور جائیں مگر کیا کروں۔ یہاں گزارہ کس طرح چلے گا۔

ماں : تو ٹھیک کہتا ہے بیٹا!

احمد : ہم آج ہی یہاں سے چلے جائیں گے۔ میں نے ایک شخص سے کہا ہے۔ وہ کسی وقت یہاں آ کر سارا سامان خرید لے گا۔ اس رقم سے کہیں اور جانے کا انتظام ہو جائے گا۔

ماں : جائیں گے کہاں؟

احمد : دمشق۔

ماں : اچھا! اللہ کو یہی منظور تھا۔

(دروازے پر دستک ہوتی ہے)

کون ہے دروازے پر؟

احمد : دیکھتا ہوں۔ شاید کوئی پرانا واقف کار ہو گا۔

(احمد باہر نکل جاتا ہے اور پھر جلدی سے واپس آتا ہے۔ چہرہ خوشی سے سرخ ہے)

احمد : اماں جان!

ماں : کون ہے بیٹا!

احمد : اماں جان! یحییٰ آئے ہیں۔

ماں : وزیر یحییٰ!

احمد : ہاں! اماں جان!

ماں : اندر لے آؤ بیٹا!

(ماں نقاب سے چہرہ ڈھانپ لیتی ہے احمد دروازے پر جاتا ہے اور یحییٰ کو ساتھ لے کر آتا ہے)

یحییٰ : السلام علیکم عزیز بہن!

ماں : وعلیکم السلام بھائی جان!

یحییٰ : میں نے سنا ہے کہ ماں بیٹا دمشق جا رہے ہیں۔

ماں : مجبوری ہے۔

یحییٰ : احمد کا چچا ابھی زندہ ہے۔ اس کی زندگی میں آپ بغداد چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جا سکتے۔

ماں : ہم آپ کے مہمان بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

یحییٰ : آپ کو میرا مہمان نہیں بننا پڑے گا۔ احمد کو بہت بڑا عہدہ ملے گا۔

احمد : وہ کیسے چچا جان؟

یحییٰ : وہ ایسے! (یحییٰ جیب سے ایک کاغذ نکالتا ہے) یہ دیکھ رہے ہو بیٹا؟

احمد : دیکھ رہا ہوں۔

یحییٰ : یہ خلیفہ کا فرمان ہے تمہارے نام۔ اس میں تمہیں وزیر مقرر کیا گیا ہے۔

(احمد اور اس کی ماں حیرت سے یحییٰ کو دیکھنے لگتے ہیں)

بیٹا! اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں میں نے وزارت سے استعفا دے دیا ہے اور تمہارے نام کی سفارش کی ہے۔ خلیفہ نے میری سفارش مان لی ہے۔

احمد : مگر چچا جان!

یحییٰ : میں جانتا ہوں کہ تمہارے باپ نے کس طرح تمہاری تربیت کی ہے۔ تم وزارت کی ذمہ داریاں بڑی عمدگی سے پوری کر سکتے ہو،

ماں : بھائی جان! آپ نے کیا کیا!

یحییٰ : مجھے یہی کرنا چاہیے تھا۔ میں خوش ہوں کہ اپنے مرحوم دوست کے بیٹے کی کچھ خدمت کر رہا ہوں۔ یہ اس کے احسان کا بدلہ نہیں ہے۔ میری طرف سے اس کے احسان کا اعتراف ہے۔ میرے محسن کا بیٹا میری زندگی میں پریشان نہیں ہو سکتا۔ بیٹا! اب میرے ساتھ چلنے کی تیاری کرو۔ خلیفہ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔

(احمد اور اس کی ماں احسان مندی سے یحییٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ پردہ گرتا ہے)

٭٭٭

ٹائپنگ: عائشہ عزیز

پروف ریڈنگ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: جویریہ مسعود، اعجاز عبید