FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

انٹرنیٹ میگزین

ادبی منظر

اسلام آباد

 

                   چیف ایڈیٹر:ارشد خالد(اسلام آباد)

                   ایڈیٹر:ڈاکٹر رضیہ اسماعیل(برمنگھم)

 

 

شمارہ نمبر :۲

اپریل ۲۰۱۴ء

http://issuu.com/adabi-manzar

 

رابط کرنے کے لیے

Arshadkhalid.akkas@gmail.com

akkasurdu2@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوسٹل ایڈریس

Arshad Khalid

House No 1164,Street No.2,Block C ,

National Police Foundation ,

Sector O-9, Lohi Bhair,

Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

 

 

 

اداریہ

 

’’ادبی منظر‘‘ کے پہلے شمارہ کی اشاعت پر بہت سے ادبی احباب نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ احباب کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ سال میں چھ شمارے شائع کرنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اگلا شمارہ مئی میں شائع ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ شمارہ اپریل میں شائع کر رہے ہیں۔ اب اگلے ۸ مہینوں میں چار شمارے شائع کیے جا سکیں گے۔ تاہم اگرکسی رنگ میں کوئی ہنگامی صورت حال در پیش ہوئی تو ’’ادبی منظر‘‘ کا ضمیمہ حسبِ موقع شائع کیا جا سکتا ہے۔

اس شمارے سے برمنگھم، یوکے ، کی ممتاز شاعرہ، افسانہ نگار، اور ادیبہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل مجلس ادارت میں شامل ہو رہی ہیں۔ امید ہے کہ ان کی شمولیت سے ’’ادبی منظر‘‘ کا کینوس مزید وسیع ہو گا۔

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری کے حوالے سے پرویز شہریار کا مضمون اس شمارے کی ایک خاص پیش کش ہے۔ ایک اور خاص پیش کش عبداللہ جاوید کی شاعری پر اکرام بریلوی کا مضمون ہے۔ اس مطبوعہ مضمون کو زیادہ سے زیادہ شائع کیا جانا چاہیے۔ اسی خیال کے باعث اسے ’’ادبی منظر‘‘ میں بہت ہی خاص اہمیت دیتے ہوئے شائع کیا جا رہا ہے۔

حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری پر عامر سہیل کا مضمون بہت ہی خاص مطالعہ ہو گیا ہے۔ انشائیہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ خاص تحفہ ہے۔

ستیہ پال آنند کو ’’خراجِ تحسین‘‘ شاید ہمارا مستقل سلسلہ بن جائے۔ لیکن اس کا انحصار خود ان کے ’’ طرزِ عمل‘‘ پر ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔ آپ کی آراء اور مشوروں کا انتظار رہے گا۔

نیاز مند

ارشد خالد

 

 

 

 

غزل

 

                   عبداللہ جاوید(کینیڈا)

 

قفس توہے مگر دکھتا نہیں ہے

جو یہ گھر ہے تو گھر دکھتا نہیں ہے

تم اپنے آشیاں کورو رہے ہو

ہمیں اپنا شجر دکھتا نہیں ہے

مشینوں کے گھنے جنگل ہیں اتنے

کہیں دل کا نگر دکھتا نہیں ہے

ملے جب وہ اسے جی بھر کے دیکھو

وہ یاں بارِ دگر دکھتا نہیں ہے

صدف دو لخت جب تک ہو نہ جائے

صدف کو بھی گُہر دکھتا نہیں ہے

عجب وحشت میں ہم سب جی رہے ہیں

عجب ڈر ہے کہ ڈر دکھتا نہیں ہے

جہاں زیر و زبر کر کے وہ بو لے

جہاں زیر و زبر دکھتا نہیں ہے

فقیری میں ہم اتنے مطمئن ہیں

کسی کا کرّ و فر دِکھتا نہیں ہے

وہ سب سے باخبر رہتا تو ہو گا

وہ ہم سے با خبر دکھتا نہیں ہے

ہماری شاعری عرض ہنر ہے

مگر کارِ ہنر دکھتا نہیں ہے

میں جبب ھی آئینہ دیکھوں ہوں جاوید ؔ

بدن دِکھتا ہے سر دِکھتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 بے چہرگی

 

                   عبداللہ جاوید

 

یہاں کوئی چہرہ،  کسی دوسرے کو

نہیں دیکھتا ہے

یہاں

اصل چہروں سے بیزار لو گوں نے

چہرے اتارے ہوئے ہیں

کہ بے چہرگی میں ،   سہولت بڑی ہے

 

 

کسی چیز کی کوئی صورت نہیں ہے

یہ مانا کہ چہرے ،

زبانوں کے مالک ہیں اور بولتے ہیں ،

زبانوں میں اپنی

مگر یہ بھی سچ ہے کہ سچ سے گریزاں

زمانے کا کلچر ہے بے چہرگی کا

کہ بے چہرگی میں سہولت بڑی ہے

 

اگر اصل چہرے ،  زباں کھولتے تو،

جو محسوس کر تے وہ سب بول دیتے۔

وہ ’ سچ ‘ بول دیتے !!

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں

 

                   شہناز نبی (کلکتہ)

 

اب ہجر اور وصال کے سب ذائقے گئے

اس شہرِ دل سے جیسے سبھی واقعے گئے

اب تو سپاسِ جاں کی کوئی قدر ہی نہیں

کیوں رشتۂ جنوں کے جو تھے لاحقے گئے

پھر خود کو اجنبی سے لگے اس دیار میں

پھر غم شناسیوں سے جڑے واسطے گئے

پتھر پسیجے اب تو زمانہ گذر گیا

دل پر سے جانے کتنے نئے سانحے گئے

برسوں کی یہ تھکن تو نشہ بن گئی مجھے

بانگِ درا کے ساتھ کئی قافلے گئے

کس کے سہارے کیف سے گذرے گی زندگی

اب تو خیال و خواب کے بھی سلسلے گئے

جب مستعد ہوئے ہیں پئے امتحانِ جاں

ان کا پیام آیا کہ سب مرحلے گئے

جینے کا شوق ہے نہ تو مرنے کا ہے جنوں

دنیا کو جیت لینے کے سب حوصلے گئے

٭٭٭

 

مجھ میں مری تلاش بہانہ ہوا اسے

خود کو بھلائے ایک زمانہ ہوا اسے

ہم نے تو پہلی چوٹ سے دل کو بچا لیا

باتوں میں آ گیا جو نشانہ ہوا اسے

گم گشتگی میں چہرے ملے کیا نئے نئے

ہر تازہ واقعہ بھی فسانہ ہوا اسے

لوگوں سے مل کے بھی کہاں ویرانیاں گئیں

پھر اندرونِ ذات ٹھکانہ ہوا اسے

فرزانگی کے زعم میں دنیا غلط لگی

ہر با شعور جیسے دوانہ ہوا اسے

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   ایوب خاور(لاہور)

 

نامہ بر کی جگہ ہم دل کو روانہ کریں گے

بات نکلی ہے تو اب اِس کو فسانہ کریں گے

 

دل ہتھیلی پر لئے بیٹھے ہیں سارے عشاق

کس کو معلوم وہ کس دل کو نشانہ کریں گے

 

کیسی تہذیب سے پلکوں میں جَڑے ہیں آنسو

آپ آئیں گے تو کچھ اپنا ٹھکانہ کریں گے

 

اُس نے ہر بار نہ ملنے کا بہانہ کیا ہے

ہم بھی اِس بار نہ ملنے کا بہانہ کریں گے

 

اور چمکے گا لباسِ غمِ جاناں خاورؔ

وقت کے ساتھ اِسے جتنا پُرانا کریں گے

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   پروین کمار اشک(پٹھانکوٹ)

 

جسم کو روح سے ملا دینا

ارے دیوار مت اُٹھا دینا

سجدہ کرنا سبھی بزرگوں کو

سارے بچوں کو تُو دعا دینا

باغ کے سوکھنے سے پہلے ہی

خوشبوؤں کو کہیں چھپا دینا

رات کے ساتھ جا رہا ہوں میں

چاندنی آوے تو بتا دینا

لاج رکھ لینا ننگے جسموں کی

سب کو چادر مرے خدا دینا

میٹھے سیبوں کے باغ میں پیارے

نیم کے پیڑ مت اُگا دینا

بادلوں کا یقین مت کرنا

آنسوؤں کی جھڑی لگا دینا

پہلے انگلی پکڑنا رہبر کی

پھر اسے راستا دکھا دینا

شام للکارنا چراغ کا اشکؔ

صبح سورج کا مسکرا دینا

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   اشفاق حسین(کینیڈا)

 

جب سے اپنے گھر کے بام و در سے نکلے ہیں

کیسے کیسے منظر، پس منظر سے نکلے ہیں

نرم زمیں اور پانی کے محتاج نہیں ہیں ہم

ہم تو وہ کونپل ہیں جو پتھر سے نکلے ہیں

کوئی تو اپنے جیسا اپنے اندر ہے موجود

اپنی ذات کے باہر کس کے ڈر سے نکلے ہیں

شور کی چادر کے پیچھے ہے خاموشی کا رقص

سناٹے آوازوں کے پیکر سے نکلے ہیں

کس سے جنگ لڑیں گے کس کو فتح کریں گے ہم

دشمن کے ہتھیار خود اپنے گھر سے نکلے ہیں

نامانوس فضاؤں کو اشفاقؔ نہ دو الزام

خوف کے جو بھی رستے ہیں اندر سے نکلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   قاضی اعجاز محور(گوجرانوالا)

 

لمحہ لمحہ حسیں گزر گیا دن

تیری آنکھوں میں یوں اتر گیا دن

ایک غنچہ سا کھلتے دیکھا تھا

چھو لیا تو وہیں بکھر گیا دن

کس سے جا کر ملوں کسے نہ ملوں

بس یہی سوچتے گزر گیا دن

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ملتا نہیں

رات آئی تو کیسے ڈر گیا دن

کس سے افسوس اب کریں محورؔ

یار اپنا تھا ہائے مر گیا دن

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   حسن عباس رضاؔ ( اسلام آباد)

 

 

تلاشنا تھا مجھے تیسرے کنارے کو

سو میں نے ساتھ لیا شام کے ستارے کو

ترے بہاؤ میں ہوتا رہا کٹاؤ مرا

کہ روک پایا نہ تیری انا کے دھارے کو

اُتر کے آ تو گیا ہوں میں سیڑھیاں ،   لیکن

پلٹ کے دیکھ رہا ہوں ترے چوبارے کو

میں تیری آنکھ کا صدقہ اتار آیا ہوں

کہ تُو بھی دیکھ لے ڈوبتے نظارے کو

جو رتجگے مری آنکھ سے لے گئے سپنے

وہ ڈھونڈتے ہیں تری نیند کے دوارے کو

اسی لیے تو دکاں بند کی ہے خوابوں کی

کہ دکھ بھی گھیر چکے ہیں مرے خسارے کو

وہ کہ ہ رہی تھی حسنؔ ہجر ایک نعمت ہے

میں سادہ دل نہیں سمجھا تھا اس اشارے کو

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   خاور اسدؔ (رحیم یار خان)

 

بوجھ اِتنا ہے کہ خم جسم میں آیا ہوا ہے

میں نے اِک خواب کو کاندھوں پہ اُٹھایا ہوا ہے

تُو تو حیران ہے ایسے کہ ابھی دیکھا ہو

میں نے یہ زخم تو پہلے بھی دکھایا ہوا ہے

صبحِ کاذب کی ہوا میں یہ مہک کیسی ہے ؟

ایسالگتا ہے کوئی جسم نہایاہوا ہے

تُو دکھائی نہ دیا اب تو میں مر جاؤں گا

خواہشِ دید نے کہرام مچایا ہوا ہے

اِس تعلق کو بہر طور نبھانا ہے اسدؔ

یہ تعلق جو مری جان کو آیا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزل

 

                    امجد مرزا امجد(لندن)

 

 

دل کے داغ چھپانے ہوں گے

سب کے درد مٹانے ہوں گے

چاہے دِل چاہت سے تہی ہو

پھر بھی ہاتھ ملانے ہوں گے

غم کی بات نہیں ہے لیکن

جھوٹے نیر بہانے ہوں گے

موسم قاتل لیکن پھر بھی

کچھ تو سانس چلانے ہوں گے

خون انا کا کر کے امجدؔ

روٹھے یار منانے ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

 

مہلت

 

                   ترنم ریاض(دہلی)

 

ٹھہر جا اے اجل

اے مرگ کے ملکِ مہرباں

میں

جو جاؤں گی اچانک یوں

تو کتنے اَن کہے اشعار

میرے ساتھ جائیں گے

 

کئی افسانے ، جو

کچھ دیر میں جیتی تو لکھ لیتی

کئی نغمے مجھے بچوں کے سہرے پر

جو گانے ہیں

وہ مجھ سے چھوٹ جائیں گے

وہ جن کی آس میں ،  میں نے

یہ تنہا دن گزارے ہیں

خوشی کے آنے سے پہلے وہ لمحے روٹھ جائیں گے

 

ٹھہر جا اے اجل، اے مرگ کے ملکِ مہرباں

میں

کہ یہ بھی جانتی ہوں

 

خوف سے تنہائی کے اکثر

مِری شاموں نے خود تم کو پکارا تھا

 

مجھے شب بھر کی مہلت دے

کہ دل پر فصلِ گل آنے کے کچھ ہی دن میں کھینچی تھی

پہاڑوں پر جو تصویریں

میں اک شب ساتھ ان کے رہ تو لوں تنہا

اور اپنی سوچ میں ہر شام کو جی لوں

ذرا اس سوکھتی ندی کا اک قطرہ ہی اب پی لوں

ٹھہر جا اے اجل، اے مرگ کے ملکِ مہرباں !

٭٭٭

 

 

 

 

اے میرے خدا

 

 

                   طاہر حنفی ( اسلام آباد)

 

 

دشت جاں میں

صلیبِ انا پر

لٹکے ہوئے

سر بریدہ خیالات کی

سسکتی ہوئی

سرگوشیوں میں

فنا اور بقا

لمحہِ تقسیم میں

منجمد ہو چکے

اے میرے خدا

٭٭٭

 

 

 

غزل

 

                   صادق باجوہ(امریکہ)

 

آنکھوں کے دریچوں میں جلے دیپ وفا کے

مدت سے سنبھالے ہیں زمانے سے بچا کے

اک بار نظر میں جو سما جاتا ہے کوئی

پھر آنکھ تو لگتی ہی نہیں آنکھ لگا کے

الفاظ میں یارا ہی کہاں اس کے بیاں کا

جو لذّتِ آزار ملی دل کو لگا کے

اس عشقِ بلا خیز کی راہیں بھی عجب ہیں

مل جاتا ہے مقصود کبھی خود کو گنوا کے

ہو پیشِ نظر جن کے اناؤں کی پرستِش

تسکین کہاں پائیں گے انساں کو ستا کے

اب ظلم کے خُوگر سے گلہ ہو بھی تو کیا ہو

کیا فائدہ حسرت سے بھرے دل کو جلا کے

جو عظمتِ انساں سے بھرا گیت ہے صاؔدق

بھرتا ہی نہیں دل مرا وہ گیت سنا کے

٭٭٭

 

 

 

غزل

 

                    شکیل آزاد(امریکہ)

 

جفاسہتے زمانہ ہو گیا ہے

محبت کا بہانہ ہو گیا ہے

ہمارے واسطے اب سنگِ کعبہ

کسی کا آستانہ ہو گیا ہے

کہاں ہیں ڈھونڈ لاؤ بجلیوں کو

مکمل آشیا نہ ہو گیا ہے

جو پلکوں پر تمہارے منتظر تھا

وہآ نسوبھیروانہ ہو گیا ہے

نگاہوں سے نگاہیں مل گئی ہیں

مرتب اک فسانہ ہو گیا ہے

محبت میں خوشی کا ذکر کیسا

غموں سے دوستا نہ ہو گیا ہے

شکیل ؔ اب ان کو آنکھیں ڈھونڈتی ہیں

جنہیں دیکھے زمانہ ہو گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   عارف حسین عارفؔ( فیصل آباد)

 

ہوا تھی تیز تو رستے میں ڈر زیادہ تھا

رکا نہیں میں اگرچہ سفر زیادہ تھا

بشر کی ذات میں ایسے بھی کم ہے امن و سکوں

بشر کے لفظ میں ویسے بھی شر زیادہ تھا

مجھے خلوص کی شدّت نے مار ڈالا ہے

مرے وجود میں اس کا اثر زیادہ تھا

لگاتا کیا وہ مری حیثیت کا اندازہ

کہ اس کے ظرف سے میرا ہنر زیادہ تھا

میں اپنی ذات سے بد ظن نہ تھا سبب یہ ہے

مجھے یقین تری ذات پر زیادہ تھا

سبھی خلوص کے پتھر مجھے لگے عارفؔ

مرے درختِ ہنر پر ثمر زیادہ تھا

٭٭٭

 

 غزل

 

                   خالد جاوید ( رحیم یار خان)

 

اَنا کا خوف تھا لیکن اُسے سنبھلنا تھا

کہ دل کے شہر سے طوفان تو گزرنا تھا

وفا کے بدلے جفا کا خطر تو ملنا تھا

وہ موم کب تھا کہ جس نے کبھی پگھلنا تھا

وہ کب بدلتا ہے یہ دیکھنے کو ساتھ تھا میں

مجھے خبر تھی اُسے راستہ بدلنا تھا

یہ آرزو تھی اُُسے ٹوٹنے نہ دیں گے مگر

وہ پھول تھا سو اسے شاخ سے تو گرنا تھا

تُو ساتھ ہوتا تو رستہ نکال بھی لیتے

کہ تیرے بعد کہاں راستہ نکلنا تھا

وہ جان بوجھ کر ٹھہرا تھا راہ میں خالد

وہ جانتا تھا اُسے ساتھ ساتھ چلنا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   تمثیلہ لطیف( سیالکوٹ)

 

دکھ پرایا ہو یا اپنا نہیں دیکھا جاتا

رونے والا کوئی چہرہ نہیں دیکھا جاتا

سوچنا پڑتا ہے سو بار مگر جب ہو جائے

پھر محبت میں خسارہ نہیں دیکھا جاتا

میں تو فرقت میں کسی روز بھی مر سکتی ہوں

خود کو اب اور اکیلا نہیں دیکھا جاتا

کر گیا آنکھیں سمندر جو کہا کرتا تھا

ایک آنسو بھی تمہارا نہیں دیکھا جاتا

میں ترے ساتھ گزرتی تھی جہاں سے ہر روز

اپنی آنکھوں سے وہ رستہ نہیں دیکھا جاتا

توڑ ڈالوں گی کسی روز کھلونے سارے

مجھ سے ہر روز تماشا نہیں دیکھا جاتا

جب سے تمثیلہؔ مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی

چاند کے ساتھ ستارا نہیں دیکھا جاتا

٭٭٭

 

 

 

غزل

 

                   انتظار باقی(جھنگ)

 

کبھی دلوں میں کبھی ڈر سروں میں رہتا ہے

یہ کیسا باسی ہے اجڑے گھروں میں رہتا ہے

کریدتا ہے جو اندر سے جسم و جاں اس کے

عجیب کیڑا شجر کی جڑوں میں رہتا ہے

ا نہیں کتر دو یا دروازۂ قفس کھولو

اک اضطراب سا میرے پروں میں رہتا ہے

بھلا نہ دے وہ کہیں آذری ہنر اپنا

صنم تراش جو کوزہ گروں میں رہتا ہے

یہ انتقال  سکونت عجیب ہے اس کا

دلوں کا باسی ہے اور اژگروں میں رہتا ہے

اگرچہ روح و بدن ہیں لہو لہان مگر

ابھی بہت سا جنوں پتھروں میں رہتا ہے

بچی نہ ہو گی پرندوں میں طاقتِ پرواز

خوشی سے کوئی بھلا پنجروں میں رہتا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

غزل

 

                   انیس انصاری (جھنگ)

 

ہم کہاں ہیں ،ہجومِ حشر میں ہیں

یا کسی اجتماعی قبر میں ہیں

جیسے جنگل میں شیر اور ہرن

ہم  بھی اس کارزارِ عصر میں ہیں

ساری دنیا ہے گوانتانامو

جب تلک ہم گرفتِ نصر میں ہیں

بے گناہی کوئی جواز نہیں

سب ہی مجرم جہانِ جبر میں ہیں

حبس کا زور ٹوٹنے کو ہے

بارشوں کے سندیسے ابر میں ہیں

ان کو لاؤ سیاہ گھر کی طرف

جو فروکش سفید قصر میں ہیں

شور اٹھا محل سے جانِ انیس!

موج مارو، عوام صبر میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں

 

                   رضیہ اسماعیل(برمنگھم،یو کے)

 

سمندر آگ بن جائیں تو اشکوں سے بجھا ڈالوں

ہوائیں برق بن جائیں تو آہوں سے جلا ڈالوں

مِرا چہرہ، مِرے بازو مجھے اپنے نہیں لگتے

اگر تیری اجازت ہو، نیا اک بُت بنا ڈالوں

محبت زخم ہے تو ڈھونڈ کر لاؤ کوئی مرہم

وگرنہ درد کے رستے کو پھولوں سے سجا ڈالوں

وفائیں ہاتھ ملتی ہیں ، جفائیں مسکراتی ہیں

نہ کیوں میں سلسلے ایسے زمانے سے مٹا ڈالوں

کٹی شاخوں پہ بھی اب تک پرندے روز آتے ہیں

کہیں ایسا نہ ہو میں اِن پرندوں کو اُڑا ڈالوں

٭٭٭

 

 

ہمیں آغاز کرنا ہے کسی انجام سے پہلے

سحر کو شام کرنا ہے کسی الزام سے پہلے

ہمارے عہد کے انسان تو خوابوں میں رہتے ہیں

انھیں بیدار کرنا ہے کسی کُہرام سے پہلے

ہمارے نام کی تختی نہ ڈھونڈو تم مکانوں پر

جہاں میں لوگ گزرے ہیں بہت گمنام سے پہلے

مکاں پکے ہوں یا کچے ، ہمیں اس سے غرض کیا ہے

ہمیں تو کوچ کرنا ہے یہاں بسرام سے پہلے

زباں کے زہر کا تریاق دنیا میں نہیں ملتا

تعلق توڑ لینا تم کسی دُشنام سے پہلے

کہو، غم کے سفینے کس طرف بہتے ہوئے دیکھے

کہا، دل کے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے اب کربلا جانا پڑے گا

 

                   ارشد خالد

 

مرے چاروں طرف ،باہر کی جانب

کسی سفاک کا جبرِ مسلسل

نہاں خانۂ دل میں اک مدینہ

کوئی مہکا ہوا پُر نُور منظر

منور ہے مِرا تن من یہیں پر

مِرے دن رات بھی مہکے ہوئے ہیں

مگر الجھی ہوئی اس زندگی کی

میں ہر اک سانس گن کر رکھ رہا ہوں

مجھے معلوم ہے اپنا مقدر

مرے مولا سے جو وعدہ ہے میرا

اُسے اب تو نبھانا ہی پڑے گا

مجھے اب کربلا جانا پڑے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک منظر

 

                   ارشد خالد

 

ایک منظر ہے

کہ جس میں دور تک

اڑتی ہوئی اور آگ برساتی ہوئی

پھیلی ہوئی سی ریت ہے۔

اور ریت ہی بس ریت ہے

اور اس دہکتی ریت پر چلتا ہوا

کوئی پیاسا شخص۔۔۔۔

گذرے اور موجودہ زمانے

کی جبیں پر

کربلا تحریر کرنے میں مگن ہے

اور اس تحریر سے

ہر بار لفظِ کربلا سے

عشق کے دریا نکلتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک گوشہ

 

غزل کے مضامین کے خوشہ چیں

ستیہ پال آنند

کی غزل دشمنی کی حقیقت اور

شہرت طلبی کے لیے ہر آن

 بدلتے ہوئے بیانات کے نام

 

 

ستیہ پال آنند کے بارے میں

ظفر اقبال کا کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

http://e.dunya.com.pk/ًdetail.php?date=2014-03-13&edition=LHR&id=940267_41283395

غافر شہزاد کا کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

http://www.jehanpakistan.com/epaper/detail_news.php?news=%2Fepaper%2Fepaper%2Fislamabad%2F130314%2Fp13-03.jpg#sthash.H9F0zllX.7GaKn1o3.dpbs

 

 

 

 

ستیہ پال آنند بنام ارشد خالد

 

جناب ارشد خالد صاحب ،آداب

میں نے آج صبح ہی ہفتے کے آخر کی تعطیل کے بعد واپس گھر آنے پر حیدر قریشی صاحب کی تحریر کردہ ’’جوابِ آں نظم‘‘ اپنی ای میل میں دیکھی۔میں نے اپنی نظم اشاعت کی غرض سے آپ کی ای میل ملنے کے بعد آپ کو بھیجی تھی۔آپ نے ہی شاید اسے ان کو فارورڈ کر دیا تھا۔کیوں ؟ اس بات کا پتہ مجھے نہیں ہے۔آپ نے ایسا کیوں کیا؟

میں یہ لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ نظم ان کی شخصیت یا کردار کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی تھی۔میرے سامنے تو ایک’’سٹیریو ٹائپ‘‘ کردار تھا۔جسے میں نے فکشنلائز کیا۔خدا جانے ان کو یا آپ کو یہ خیال کیسے آ گیا کہ یہ نظم ان کے بارے میں ہے۔میں گزشتہ ایک برس سے فارسی کے مقولوں اور عربی میں قرآن مجید کے ارشادات کو موضوع اور عنوان بنا کر نظمیں لکھ رہا ہوں۔میری دو درجن کے لگ بھگ ایسی نظمیں رسالوں میں چھپ چکی ہیں۔کچھ شاید آپ نے دیکھی بھی ہوں۔یہ نظم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔میرے ذہن میں خدا گواہ ہے ،اس بات کا کوئی خیال تو کیا شائبہ تک نہیں تھا کہ میں ان کی کردار کشی کروں۔نہ ہی یہ خیال پہلے تھا،نہ اب ہے ،اور نہ مستقبل میں کبھی ہو گا۔

وہ میرے بارے میں جو لکھتے رہیں سر ماتھے پر!

آپ کا

ستیہ پال آنند     ۱۳؍جون ۲۰۱۱ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارشد خالد بنام ستیہ پال آنند

 

آنند جی!          آداب

چونکہ معاملہ سنجیدگی اختیار کر گیا ہے اس لیے مجھے بھی اردو فونٹ میں جواب لکھنا ضروری ہو گیا ہے۔آپ کی نظم میں اتنے واضح اشارے موجود ہیں کہ یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ یہ کسی اسٹیریو ٹائپ کردار کے بارے میں نظم تھی اور حیدر قریشی آپ کے سامنے نہیں تھے۔آپ اردو کے کسی سنجیدہ لکھنے والے کے سامنے یہ نظم رکھ دیں اور ساتھ ہی حیدر قریشی کا لاگ اور لگاؤ والا مضمون رکھ دیں۔کوئی بھی آپ کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرے گا کہ آپ نے حیدر قریشی کے بارے میں یہ نہیں لکھی۔سو آپ کو اس سلسلہ میں اپنے سچ کا سامنا کرنا چاہیے۔

حیدر قریشی سے میرا تعلق کوئی آج کی بات نہیں ہے۔جب وہ خانپور میں ہوائی چپل پہن کر سڑکوں پر گھوما کرتے تھے اور میں موٹر سائیکل پر ہوتا تھا،تب سے ہماری دوستی ہے۔عکاس کا پہلا شمارہ بھی اسی زمانے میں نکلا تھا۔اس لیے بے شک میں نے آپ کی نظم پڑھ کر انہیں بھیجی تھی،کیونکہ نظم ان کے خلاف لکھی گئی تھی۔تاہم جب انہوں نے جوابِ آں نظم لکھ کر بھیجی تو میں نے ان کی نظم بھی آپ کو بھیج دی۔حیدر قریشی کا خط بھی ساتھ ہی تھا۔اس خط سے ہی ظاہر تھا کہ وہ آپ کے ساتھ کسی لڑائی کے لیے ہر گز خوش نہیں ہیں لیکن آپ کی نظم نے یقیناًَ ایسی فضا پیدا کر دی۔

بات اتنی نہیں ہے کہ حیدر قریشی آپ کے بارے میں کچھ لکھ چکے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پورے شواہد کے ساتھ حقائق بیان کیے ہیں۔ان حقائق سے آپ کی اخلاقی حیثیت پر بہر حال ایک سوال اٹھتا ہے۔ انگریزی کا ایک لفظ سوری ایسے معاملات میں بہت کام آتا ہے لیکن آپ جن احباب کے گھیرے میں ہیں شاید ان کی وجہ سے آپ کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔تو ٹھیک ہے آپ کا کیا ہوا آپ کے سامنے ہے  اور حیدر قریشی کا کیا ہوا اُن کے سامنے ہے۔

نظم کے معاملہ میں پہلا سچ یہی ہے کہ یہ صاف صاف حیدر قریشی کے خلاف لکھی گئی ہے۔آپ اسے ہمیشہ کے لیے ضائع کرتے ہیں تو حیدر قریشی اپنی جوابی نظم کو ہمیشہ کے لیے ضائع کر دیں گے۔آپ وقتی طور پر ضائع کرتے ہیں اور بعد میں یہ نظم سامنے آ جاتی ہے تو حیدر قریشی کی نظم بھی اُسی وقت سامنے آ جائے گی۔سو پہل بھی آپ کی طرف سے ہوئی اور اس معاملہ کا اختتام بھی آپ ہی کی مرضی کے مطابق ہو گا۔آپ جو حکم فرمائیں۔

نیازمند

ارشد خالد          ۱۴؍جون ۲۰۱۱ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس خط و کتابت میں زیرِ بحث دونوں نظمیں اگلے صفحات پر پیش ہیں

اس سارے معاملہ کی مکمل تفصیل حیدر قریشی کے مضمون ’’دو نظموں کا قضیہ‘‘ میں پیش کی جا چکی ہے۔سارے حقائق اور ساری خط و کتابت کے ذریعے ستیہ پال آنند کی شہرت طلبی کی روداد حیدر قریشی کی کتاب

ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی کے صفحہ نمبر۴۱ تا۵۲ پرپر مطالعہ کی جا سکتی ہے

مضمون ’’دو نظموں کا قضیہ‘‘ میں تفصیل اس لنک کے ص۴۱ تا ۵۲ پر دیکھیں

http://issuu.com/haiderqureshi/docs/

final_book_s.p.anand_ki…boodni_na

 

 

 

                   ستیہ پال آنند(امریکہ)

 

کون و فساد و بودنی نابودنی

 

۰  مبر گمان  تو ا ورد  یقیں شناس کہ دزد

متاع من ز نہاں خانہٗ ازل بر دست

(غالبؔ)

 

ہے  تو وہ شاعر یقیناً !

ساری اصناف ِ سخن املاک میں شامل ہیں اس کی

نظم ، دوہے، ماہیے ، ہائیکو،غزل۔۔۔اللہ جانے اور کیا کیا!

مختصر مضمون بھی لکھتا ہے اکثر

ایک خوبی اوربھی ہے

اپنے ہمعصروں کی تخلیقات میں ،  اور

سابقین و  مقتدا شعراء کے مضمون و متن میں کچھ

مماثل دیکھ لیتا ہے  اگر تو

ماورائے غور،  فکر و خوض سے بیگانہ ،  فوراً بیٹھ جاتا ہے

(سمجھتا ہے)۔۔۔۔۔ کہ یہ ’تحقیق‘  ہے۔۔۔۔’ ریسرچ‘  اصلی!

’نقل‘   ’ چربہ‘  ’ کاربن کاپی‘

’بعینہ‘  ’ ہو بہو‘  ’سرقہ‘  وغیرہ لفظ تو موجود ہی ہیں

ان کے استعمال سے بس آدھ گھنٹے میں ہی

اپنا   نا مشخّص ’تجزیاتی تبصرہ‘ لکھ کر سمجھتا ہے کہ جیسے

معرکہ سر کر لیا ہو!

نا سپاس  و  ناستودہ  یہ  ’مدّبر‘

ایسے دستور العمل کوکب بھلا پہچانتا ہے

جس میں کہ بین المتونیت کی رو سے

سب مضامین و متون و ماحصل ہم زائیدہ ہیں

حاشیہ آرائی  یا  تفسیریا  توجیہہ ۔  سب ہم نسل ہیں

تلمیح،  تلطیف عبارت،  تبصرہ، تاویل و استنباط سب ہم زوج ہیں

ذہن انسانی کے تہہ در تہہ خزانے میں نہ جانے کب سے ایسے

سینکڑوں مکنون و مخفی زاویے موجود ہیں جو

ہر نئے دن گفتگو میں ، شاعری میں ، نثر میں ڈھلتے ہیں

روشن اور بیّن!

 

بودنی نا بودنی یہ ’شخص‘ کب سمجھا ہے پہلے یہ حقیقت

جو سمجھ جائے گا میری نظم سے  اب؟۔۔۔۔جانتا ہوں !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۰   (غالب کو بھی جب سرقہ کے الزامات کا جواب دینا پڑا تو اس بندہٗ خدا نے یہ شعر لکھ کر

گلو خلاصی حاصل کی)

۰۰   اس نظم کا اشارہ کسی فرد ِ واحد کی طرف نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                   حیدر قریشی(جرمنی)

 

جوابِ آں نظم

 

(یہ نظم اسی کے بارے میں ہے جس کی نظم کے جواب میں لکھی گئی ہے)

 

میاں آزاد ہے وہ

ذات میں جس کی

میاں خوجی بھی بستا ہے

کہانی کار تھا وہ اور کہانی خوب لکھتا تھا

مگر آزاد نظموں کی لگن نے خوامخواہ

اس کے کہانی کار کو شاعر بنا ڈالا

الوہی شاعری کو بھی تماشا سا بنا ڈالا

میاں آزاد کے اندر میاں خوجی بسا ڈالا

اُسے یہ زعم تھا آزاد نظموں میں بھی

وہ قصے ہی لکھتا ہے

یہ زعم اب اتنا پختہ ہو گیا ہے کہ وہ اب

تحقیق کے مضمون بھی آزاد نظموں ہی میں لکھتا ہے

وہ شاعر ہے مگر غزلیں نہیں کہتا

غزل کی صنف سے ناراض ہے خاصا

غزل کے شعر اس کو زہر لگتے ہیں

اسے احمد فرازؔ اس واسطے اچھا نہیں لگتا

کہ اس کے گرد ہر دَم خوبصورت عورتوں

کا جمگھٹا کیوں تھا

وہ اپنی شاعری کا آپ دیو آنند بنتا ہے

مگر آنند جس کا جا چکا اور اب فقط اک دیو ہے

میرا جیؔ و  راشدؔ سی شہرت کی تمنا کا

مگر اس کی حقیقت بھی

میاں آزاد کے اندر کے میاں خوجی جیسی ہے

میاں خوجی کہ جس نے اپنی نظموں کو

قرولی سا بنا ڈالا

سو اب جس سے بھڑکتا ہے

وہ اپنی فارسی زدگی پہ اتراتے ہوئے

نفرت میں اپنی ایسے اُس کو جھونک دیتا ہے

فقط دھمکی نہیں دیتا

قرولی نظم کی

سچ مچ اُسے وہ بھونک دیتا ہے!

٭٭٭

مضمون’’دو نظموں کا قضیہ‘‘ میں تفصیل اس لنک کے ص۴۱ تا ۵۲ پر دیکھیں

http://issuu.com/haiderqureshi/docs/final_book_s.p.anand_ki…boodni_na

 

 

 

 

 

 غزل دشمنی، شہرت کا شارٹ کٹ

 

                   ارشد خالد

 

ستیہ پال آنند بزرگ لکھاری ہیں۔ پہلے ہندی، پنجابی اور انگریزی میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ وہاں بات نہیں بن سکی تو اردو کی طرف آ گئے۔ ان کی آمد سے اردو دنیا کو خوشی ہوئی۔ لیکن اپنی آمد سے اب تک انہوں نے وقفے وقفے سے خود کو غزل دشمن کے طور پر پیش کر کے شہرت حاصل کی۔ غزل دشمنی میں پہلے بھی بعض بزرگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ستیہ پال آنند اس لحاظ سے عجیب و غریب کردار ہیں کہ اردو دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ غزل کی وجہ سے اردو زبان و ادب کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ پھر اردو دنیا سے ہی کہتے ہیں کہ غزل کو اردو بدر کر دو۔ ان کی اس قسم کی فضول باتوں کے جواب میں ظفر اقبال نے ایک کالم لکھا تھا، اس لنک پر کلک کر کے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2014-03-13&edition=LHR&id=940267_41283395

پھر ڈاکٹر غافر شہزاد نے لاہور میں ان کا سوا۔ گت کرتے ہوئے ایک کالم لکھا۔ اس لنک پر ستیہ پال آنند کا یہ سوا۔ ٭٭ازہ٭گت دیکھا جا سکتا ہے۔

http://www.jehanpakistan.com/epaper/detail_news.php?news=%2Fepaper%2Fepaper%2Fislamabad%2F130314%2Fp13-03.jpg#sthash.H9F0zllX.uyYHSaXL.dpbs

حیدر قریشی نے ستیہ پال آنند کی غزل دشمنی سے ان کی شخصیت اور ان کے کردار کو جس طرح بے نقاب کیا ہے ، وہ اس وقت تک اس موضوع پر حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ حیدر قریشی کی کتاب’’ستیہ پال آنند کی۔۔۔ بودنی، نابودنی‘‘ میں ہر بات دلیل کے ساتھ، مکمل شواہد کے ساتھ اور ادبی تہذیب کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ ستیہ پال آننداس کے جواب میں کمزور بچے کی طرح گندی گالی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کتاب کے مندرجات کو دلیل کے ساتھ رد نہیں کر سکتے۔ حیدر قریشی کی مذکورہ کتاب انٹرنیٹ پر ان لنکس پر دستیاب ہے۔ Just click!

http://satyapalanandkishakhsiyat.blogspot.de/

https://docs.google.com/file/d/0B_xQnk75odj9UFYxMWYyRDJhdU0/edit?pli=1

وہ لوگ جو ادب میں دلیل اور تہذیب کے ساتھ مکالمہ کی اہمیت کے قائل ہیں ،  ان سے درخواست ہے کہ اس مختصر کتاب کا مطالعہ کر کے پھر دیکھیں کہ ستیہ پال آنند نے اس کتاب کے جواب میں کوئی علمی اور مدلل بات کی ہے یا نہیں ؟دستیاب حقائق کی بنیاد پر پھر خود انصاف کے ساتھ کسی نتیجہ تک پہنچیں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔

’’چھوٹا منہ بڑی بات ‘‘والی بات ہے لیکن جب ’’بڑے ‘‘حد سے زیادہ چھوٹے ہ جائیں تو پھر پہلے سے موجود چھوٹوں کو ہی کچھ نہ کچھ کہنا پڑ جاتا ہے۔ ستیہ پال آنند اردو کی محبت میں غزل کو اردو بدر کرنے کی جو اپیلیں کر رہے ہیں ،  وہ ایک بچکانہ حرکت ہے۔ کیا کسی صنف کو کبھی اس بنیاد پر رائج یا رد کیا گیا ہے کہ کوئی اپیل کر دے اور اس پر عمل در آمد ہو جائے۔ ملتی جلتی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔

پابند نظم نگاری میں مولانا حالی اور علامہ اقبال نے اردو میں اس کے سارے امکانات تک رسائی حاصل کر لی تو اس کے بعد از خود اردو نظم میں آزاد نظم رائج ہوتی چلی گئی۔ تمام تر مخالفت کے باوجود رائج ہوتی چلی گئی۔ اور پابند نظم اپنے عروج کو پا کر کسی مخالفت کے بغیر، کسی اپیل یا فریاد کے بغیر مفقود ہوتی چلی گئی۔ ستیہ پال آنند جیسے بزرگوں کو اس ادبی تاریخ کے عمل سے کوئی حقیقت محسوس نہ ہو سکے گی۔ لیکن ادب سے تعلق رکھنے والے باقی احباب بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کوئی بھی ادبی صنف جب تک اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تب تک اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب کسی ادبی صنف کے مزید امکانات معدوم ہوں اور اس کا وقت کے ساتھ چلنا ممکن نہیں رہتا تو اس کے خلاف کسی اپیل یا فریاد کی ضرورت پیش نہیں آتی، وہ از خود، اپنے فطری انجام کو پہنچ جاتی ہے۔

ستیہ پال آنند کو حیدر قریشی نے کئی برس پہلے مشورہ دیا تھا کہ وہ غزل کے غم میں اپنی جان کو ہلکان نہ کریں اور خود اچھی نظمیں کہنے کی طرف توجہ کریں۔ ان کی اب تک کی نظمیں دیکھنے کے بعد ا نہیں پھر یہی مشورہ دینا ضروری لگ رہا ہے۔ ستیہ پال آنندغزل کے مضامین اڑا کر نظمیں گھڑنے کی بجائے ، اور غیر اردو ماحول میں دوسروں کی غزلیں اپنے نام سے سنانے کی بجائے ، اب کوشش کریں کہ ایک دو اچھی نظمیں کہ ہ جائیں۔ تاکہ ادب میں ان کا پھر ایک نظم نگار کی حیثیت سے عزت کے ساتھ نام لیا جا سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حیدر قریشی کی کتاب’’ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی‘‘ پر موصولہ چند تاثرات

 

 

ڈاکٹر انور سدید(لاہور، پاکستان): آپ کا گراں قیمت تحفہء خلوص ’’ ستیہ پال آنند۔۔۔ بودنی نا بودنی‘‘ مل گیا ہے۔ اس کرم کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں۔ حیدر قریشی صاحب سے ملاقات با ندازِ دگر ہوئی۔ انھوں نے نیا محاذ کھول لیا ہے لیکن یقین ہے وہ اس محاذ پر بھی کامران و کامیاب ہوں گے۔۔۔ حیدر قریشی صاحب نے چند نئی اور نا قابلِ یقین باتیں بازیافت کی ہیں تو میں حیرت زدہ ہوں۔

بنام ارشد خالد۔ ۱۱ سمبر ۲۰۱۳ء

 

مرزا خلیل احمد بیگ(علی گڑھ، حال نیویارک، امریکہ):ڈئر حیدر قریشی صاحب کتاب ملی، بہت بہت شکریہ۔ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ آپ نے تو ستیہ پال آنند جی کھال اُدھیڑ کر رکھ دی۔ میں تو ا نہیں ایک نہایت معتبر اور ذمہ دار ادیب سمجھتا تھا لیکن وہ تو کچھ اور ہی نکلے۔ ؎ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

نند کشور وکرم(چیف ایڈیٹر عالمی اردو ادب۔ دہلی، انڈیا):ڈئیر حیدر قریشی صاحب۔ ستیہ پال آنند صاحب پر کتاب ’’بودنی، نا بودنی‘‘ لکھنے اور چھاپنے پر آپ کو اور آنند صاحب کو بہت بہت مبارک۔

خادم علی ہاشمی(ملتان، پاکستان):عزیزم حیدر قریشی صاحب! سلام مسنون، آج صبح سویرے جو میل کھولی تو سب سے پہلے ستیہ پال آنند صاحب کے حوالے سے ’’بودنی نابودنی‘‘ کو اول سے آخر تک پڑھا۔ بہت خوب۔ آپ نے جس جانفشانی کے ساتھ’’استفادہ‘‘اور خیالات کے سرقہ کی راہ کھوجی ہے ، قابلِ صد ستائش ہے۔ آپ کے دلائل وزنی اور برمحل ہیں۔

رؤف خیر(حیدرآباد، دکن، انڈیا):ستیہ پال آنند کے بارے میں آپ کی کتاب زبردست ہے۔

 

 

 

 

 

اردو غزل کا انتقام:ستیہ پال آنند صاحب کا انجام

 

                   حیدر قریشی(جرمنی)

 

ستیہ پال آنند صاحب کی ایک ویڈیو ان دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ یہ امریکہ میں ہونے والے ایک کوی سمیلن کی ویڈیو ہے جس میں انہوں نے غلام محمد قاصر کے دو شعر بڑے مزے سے اپنے کلام کے طور پر سنا دئیے ہیں۔ یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔

بغیراس کے اب آرام بھی نہیں آتا

وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ستیہ پال آنند صاحب کی اس کاروائی کا ناصر علی سید صاحب نے اپنے کالم میں ذکر کرتے ہوئے غلام محمد قاصر مرحوم کے بیٹے کی ای میل درج کی اور لکھا:

’’ناصر انکل، ستیہ پال آنند جی کو والد صاحب کے اشعار پڑھتا دیکھ کر حیرت ہوئی، والد گرامی سے ان کی ملاقاتیں بھی ہیں اور خط و کتابت بھی رہی۔ یہ ان کا نام لے کر پڑھتے تو خوشی ہوتی کہ انہوں نے اپنے دوست کو یاد رکھا ہوا ہے۔ یہ اشعار ۱۹۹۷ میں شائع ہونے والے ان کے مجموعے کے فلیپ پر موجود ہیں جب کہ اگست ۱۹۹۶ کے پی ٹی وی کے مشاعرے کا لنک میں بھیج رہا ہوں۔ جس میں ان کی اپنی آواز میں یہ غزل سنی جا سکتی ہے۔ ‘‘

خیر اس کے لئے تو عماد جی کسی گواہ کی ضرورت نہیں کہ یہ شعر خود ہی غلام محمد قاصر کا نام لیتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اب اس ستم ظریفی کو دیکھئے اس کوی سیمیلن میں غزل کے شعر وہ سنا رہا ہے جس کی وجہ شہرت ہی غزل دشمنی ہے۔

(روزنامہ آج پشاور۔ 30؍ستمبر2011ء کا ادبی ایڈیشن)

ستیہ پال آنند کو مذکورہ ویڈیو کا لنک بھیجتے ہوئے میں نے حقیقت حال جاننا چاہی تو ان کی طرف سے ایک وضاحت ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء کو موصول ہوئی۔ وہ وضاحت آگے چل کر درج کروں گا۔ پہلے یہاں ان کی وہ وضاحت درج کرتا ہوں جو انہوں نے 15؍نومبر2011ء کو ایک انٹرنیٹ فورم بزمِ قلم سے جاری کی ہے۔

From: spanand786@hotmail.com

To: bazmeqalam@googlegroups.com

Subject: {7217} Charge against me.

Date: Tue, 15 Nov 2011 17:09:05 -0500

Someone has posted a video that shows me reciting my dear old friend Ghulam Mohammad Qasir’s couplets. The purpose is to show that I have recited his couplets in my own name. I want to make this matter clear.

This video has been tempered with. I was presiding over a function for the release of a Hindi book of poetry by Rakesh Khandelwal. The function was held in Durga Temple in Virginia. When I had finished my presidential speech, the audience asked me to recite from memory some couplets. They know only Hindi and but they always enjoy Urdu ghazal couplets. I am personally not much enamored of Ghazal but I keep them in good humor always. I recited some of own poems as also some ghazal couplets. But before reciting some of these couplets I said these were from an old friend from Peshawar, Mr. G.M. Qasir. It seems some one (I know it is a particular person from Germany, who is fond of such pranks) has tempered with the video. I have watched it carefully. It starts suddenly, as if just one second before, there was something and it has been cut off from the tape and my voice is heard. I remember, i had told the audience that my childhood was spent in Peshawar and I have dozens of friends there and I recited some couplets from Faraz, Mohsin Ehsan, Khatir Ghaznavi, Zahur Eiwan and Ghulam Mohammad Qasir. Alas, all of them are now no more. I have been left alone to face such silly and mischievous pranks.

Satyapal Anand

اس وضاحت پر ناصر علی سید صاحب نے فوراً ستیہ پال آنند کو مخاطب کر کے یہ ای میل ریلیز کی :

From: nasiralisyed@hotmail.com

To: bazmeqalam@googlegroups.com

Subject: RE: {7217} Charge against me.

Date: Wed, 16 Nov 2011 12:08:15 +0500

satiya jee, salam…..i hvnt heard any shair of zahoor awan…will u plz send me some of the couplets….u recite in taqreeb.

ستیہ پال آنند صاحب نے اردو کلام سنایا تھا، اردو کے مختلف فورمز پر غلام محمد قاصر کے دو اشعار اپنے نام سے سنا دینے کا چرچا ہو رہا تھا۔ اگر کسی وضاحت کی ضرورت محسوس کر لی تھی تو کیا انگریزی میں وضاحت کرنا ضروری تھا؟۔۔۔ جبکہ آنند صاحب کے پاس اردو ای میلز لکھنے کی سہولت موجود ہے اور وہ عمومی طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے احباب سے اردو میں ہی مراسلت کرتے ہیں۔

انگریزی میں لکھے گئے ستیہ پال آنند صاحب کے اس وضاحت نامے کے مطابق:

۱۔ ’’ورجینیا کے درگا مندر ‘‘میں یہ کوی سمیلن ہوا تھا۔

۲۔ اس میں انہوں نے غلام محمد قاصر کا نام لے کر بتایا تھا کہ یہ اشعار ان کے ہیں۔

۳۔ اس ویڈیو کو ٹیمپر کیا گیا ہے اور اس میں جرمنی کا ایک بندہ ملوث ہے۔ (روئے سخن غالباً میری طرف ہے )

۴۔ میں نے حاضرین کو بتایا تھا کہ میرا بچپن پشاور میں گزرا تھا وہاں میرے درجنوں دوست تھے۔ فراز،  محسن احسان، خاطر غزنوی، ظہور اعوان اور غلام محمد قاصر، میں نے ان دوستوں کے نام لے کر چند اشعار سنائے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک مندر میں ہونے والے کوی سمیلن میں ستیہ پال آنند کو اطمینان تھا کہ یہاں کوئی اردو جاننے والا نہیں ہے۔ حاضرین میں دیویوں کی کثرت دیکھ کر دل نے غزل کا سہارا لیا اور انہوں نے ایک معصومانہ انداز میں دوسرے کا کلام اپنے نام سے سنا دیا۔ اس میں ایک تسلسل بھی موجود ہے۔ ’’مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا‘‘ کے فوراً بعد انہوں نے اپنا کلام شروع کر دیاُ’سانپ سے خوف اب نہیں آتا‘‘۔۔۔۔ غزل کی داد اسی روانی میں چلتی گئی، اچھی مشاعراتی تیکنیک ہے۔ بہر حال یہ ایک معصوم سی لغزش تھی جسے اب بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن ستیہ پال آنند ایک معصوم لغزش کو چھپانے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے ہر گز ہر گز غلام محمد قاصر کا نام لے کر شعر نہیں سنائے تھے۔ اس کا ثبوت ان کی ایک میل سے پیش کرتا ہوں جو انہوں نے مجھے ۲۵؍ستمبر کو بھیجی تھی:

’’اس کوی سمیلن میں مجھ سے کہا گیا تھا کہ اپنی نظموں کے علاوہ اردو کے مشہور شعراء کے چیدہ چیدہ اشعار سنائیں۔ مجھے کچھ اشعار یاد تھے وہ میں نے سنا دئیے۔ شعراء کے نام نہیں واضح کیے گئے۔ کیونکہ یاد نہیں تھے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔ اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔ ‘‘(ستیہ پال آنند کی ای میل بنام حیدر قریشی۔ ۲۵ستمبر۲۰۱۱ء)

اس ای میل میں ستیہ پال آنند اعتراف کر رہے ہیں کہ شعراء کے نام یاد نہیں تھے اس لیے واضح نہیں کیے۔ جبکہ اب ۱۵؍نومبر کی وضاحت میں لکھتے ہیں انہوں نے غلام محمد قاصر ہی کا نہیں فراز، محسن احسان، خاطر غزنوی، ظہور اعوان کا نام بھی لیا تھا اور ان کے اشعار بھی سنائے تھے۔ بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کو بھی شاعر کے طور پر نہ صرف بیان کیا بلکہ ان کے شعر بھی سنا دئیے۔ یہ ہوتی ہے ’’بیان ٹمپرنگ‘‘ اسے سفید جھوٹ کہاجاتا ہے۔

ویڈیو ٹمپرنگ کے الزام میں چونکہ ستیہ پال آنند صاحب نے مجھے گھسیٹ لیا ہے اس لیے اس کی بھی کھل کر بلکہ کھول کر وضاحت کر دوں۔ یو ٹیوب پر اسے اپ لوڈ کرنے والے کا آئی ڈی helloanoop ہے۔ ان کا چینل ایڈریس یہ ہے :

http://www.youtube.com/user/helloanoop

ابھی تک یہاں ۲۲ ویڈیوز اپ لوڈ کی گئی ہیں۔ انوپ صاحب کا پورا نام انوپ بھارگوا ہے۔ یہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ ۲۲ میں سے چند ویڈیوز کو چھوڑ کر زیادہ تر درگا مندر کے کوی سمیلن کی ویڈیوز ہیں۔ ان میں انوپ بھارگوا صاحب خود بھی کویتائیں سنارہے ہیں۔ یہ ویڈیوز آج کل میں اپ لوڈ نہیں کی گئیں بلکہ2008ء میں اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ ستیہ پال آنند صاحب جس ویڈیو میں غلام محمد قاصر کے اشعار اپنے کلام کے طور پر سنا رہے ہیں اس کی اپ لوڈنگ ڈیٹ 13.10.2008 درج ہے۔ چیک کی جا سکتی ہے۔ اس لیے سچی بات یہ ہے کہ کوئی ویڈیو ٹمپرنگ نہیں ہوئی۔ ستیہ پال آنند نے اپنی ایک معصوم لغزش کا فراخدلانہ اعتراف کر لیا ہوتا تو آج یوں مزید تماشا نہ بنتے۔ ا نہیں جھوٹ پر جھوٹ بولنے پڑ رہے ہیں اور ہر جھوٹ بے نقاب ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ستیہ جی کا ویڈیو ٹمپرنگ کا الزام سچ ثابت ہو جائے اور اس میں میرے ملوث ہونے کا ایک فی صد بھی ثبوت مل جائے تو جو ستیہ پال آنند کی سزا، وہی میری سزا۔

میرے نام اپنی ۲۵؍ستمبر۲۰۱۱ء والی ای میل میں آنند صاحب نے لکھا ہے کہ:’’آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں خود غزل نہیں کہتا۔ اور میں نے کبھی کوئی غزل کسی مشاعرے میں نہیں پڑھی۔ ‘‘

اب ا نہیں کیسے یاد دلاؤں کہ انہوں نے چند غزلیں کہہ  رکھی ہیں۔ میرا جی کے انداز والی غزل تو وہ جرمنی والی تقریب میں بھی سنا کر گئے ہیں۔ لیکن وہ اس سے صاف مکر سکتے ہیں۔ سو میں ان کے اس بیان کی تردید بھی اسی درگا مندر کے کوی سمیلن کی ایک دوسری وڈیوسے کر دیتا ہوں۔ مذکورہ کوی سمیلن ہی میں ستیہ پال آنند نے اپنی غزلیں بھی سنائی تھیں اور ا نہیں اس لنک پر سنا جا سکتا ہے۔

http://www.youtube.com/user/helloanoop#p/u/5/CgG47EPwoac

اس ویڈیو پر پہلے پچپن سیکنڈ کے بعد آنند صاحب کی غزلیں سنی جا سکتی ہیں۔

ستیہ پال آنند بطور نظم نگار اتنے اہم نہیں ہیں جتنا انہوں نے خود کو غزل کا مخالف ظاہر کر کے اہمیت حاصل کی ہے۔ غزل کا کمال دیکھیں کہ اپنے مخالفوں کو بھی شہرت عطا کر دیتی ہے۔ لیکن غزل بڑی ظالم صنف بھی ہے۔ یہ کبھی کبھار اپنے مخالفوں سے انتقام بھی لیتی ہے۔ غلام محمد قاصر مرحوم کے دو اشعار پڑھنے کی صورت میں ستیہ پال آنند صاحب کی معصومانہ لغزش سے لے کر وضاحت کے نام پر دلیرانہ جھوٹ پہ جھوٹ بولنا اور پھر ہر جھوٹ کا بے نقاب ہو تے چلے جانا، یہ ستیہ پال آنند صاحب سے اردو غزل کا انتقام ہے۔

فاعتبرو یا اولی الابصار!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غالب کے شعر سے استفادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’’نظم کی ابتدا کرتے ہوئے ستیہ پال آنند نے جو یہ فرمایا ہے :

’’نہیں ،  نہیں مجھے جانا نہیں ابھی، اے مرگ

ابھی سراپا عمل ہوں ،  مجھے ہیں کام بہت

ابھی تو میری رگوں میں ہے تیز گام لہو‘‘

اس کے ساتھ اب غالبؔ کا شعر ملاحظہ کیجیے۔

خوں ہوکے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں ،  اے مرگ!

رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے

نظم کی ابتدائی تین سطروں میں غالب کے شعر کی لفظیات کو صرف آگے پیچھے کرنے اور کہیں معنی کو اُلٹا کر دینے کے علاوہ ستیہ پال آنند کا اپنا کیا ہے ؟ ستیہ پال آنند کبھی سوچیں کہ غزل پر جو اعتراض وہ کرتے رہے ہیں وہ کیسے پلٹ کر ان کی نظم نگاری کی طرف بار بار آ رہے ہیں۔

میں نے اسے ستیہ پال آنند سے اردو غزل کا انتقام قرار دیا تھا اور بالکل درست لکھا تھا۔ ‘‘

حیدر قریشی کے مضمون ’دو نظموں کا جائزہ‘سے اقتباس، بحوالہ ’’ستیہ پال آنند کی بودنی نابودنی‘‘

http://satyapalanandkishakhsiyat.blogspot.de/

 

 

 

 

ستیہ پال آنند کا غزل کے روایتی بلکہ ’’کلیشے ‘‘ مضامین سے استفادہ

 

یگانہ چنگیزی نے ’’وسعتِ زنجیر تک آزاد ‘‘ہونے کی ترکیب کے ذریعے اس(جبر و اختیار کے ) موضوع کو اپنی ایک رباعی میں یوں بیان کیا:

ہوں صید کبھی،  اور کبھی صیاد ہوں میں

کچھ بھی نہیں بازیچۂ اضداد ہوں میں

مختار۔۔۔۔ مگر اپنی حدوں میں محدود

ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد ہوں میں

شاہد صدیقی کی ایک غزل کا مطلع یگانہ چنگیزی کی بیان کردہ ترکیب سے استفادہ کرتے ہوئے غزل میں یوں ’’کلیشے ‘‘بن گیا۔

جبرِ فطرت نے یہ اچھا کرم ایجاد کیا

کہ مجھے وسعتِ زنجیر تک آزاد کیا

اور یہی’’وسعتِ زنجیر تک آزاد‘‘ ہونے کا ’’کلیشے ‘‘مضمون ستیہ پال آنند نے ایک نظم ’’اپنی زنجیر کی لمبائی تک‘‘ میں بیان کیا تو گویا نظم کو ’’تر و تازہ ‘‘کر دیا۔

’’اپنی زنجیر کی لمبائی تک

کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں )

میں بھی آزاد تھا، خود اپنا خدا تھا مجھ میں

قوت کار بھی تھی، جراتِ اظہار بھی تھی

گرمیِ فعل و عمل، طاقتِ گفتار بھی تھی

میں کہ خود اپنا مسیحا تھا، خود اپنا مالک

کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں )

اب مجھے حکم عدولی کا کوئی شوق نہیں

بے زباں طاقتِ گویائی سے محروم ہے اب

ماسوا اس کے کہ شکراً کہے خاموش رہے

اب مجھے گالیاں سننا بھی گوارا ہے کہ میں

حرفِ دشنام ہو یا حرفِ پذیرائی ہو

فرق لہجے کا،  سمجھ سکتا ہوں الفاظ سبھی

سرزنش کے ہوں یا تعریف کے۔ مالک کی زباں

جو بھی ارشاد کرے میرے لیے واجب ہے

ہاں مجھے دیکھنے چپ رہنے کی آزادی ہے

اور میں گھوم کر کچھ دور تک چل سکتا ہوں

اپنی زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہوں میں !‘‘

(نظم مطبوعہ ماہنامہ پرواز لندن۔ جنوری ۲۰۰۶ء)

شاہد صدیقی کا شعر صرف اس لیے پیش کیا ہے تاکہ سند رہے کہ یگانہ کی ترکیب استعمال کر کے یہ مضمون ’’کلیشے ‘‘بن چکا ہے اور ستیہ پال آنند اس کلیشے مضمون سے کیسے استفادہ کر رہے ہیں۔ وگرنہاس نظم کے حدود اربعہ کو ظاہر کرنے کے لیے یگانہ چنگیزی کا کلام کافی تھا۔ اس نظم میں کھینچ تان کے طور پر خود ہی اپنا خدا ہونے کا جو بیان دیا گیا ہے ، وہ بھی یگانہ چنگیزی سے ہی مستعار لیا ہوا ہے۔ گویا بنیادی خیال اور کلیدی ترکیب کو اُڑانے کے بعد نظم کو لمبا کرنے کے لیے بھی انہوں نے یگانہ چنگیزی سے ہی استفادہ کیا ہے۔ یگانہ کا مشہور شعر ہے۔

خودی کا نشہ چڑھا، آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ  گیا

اب بتائیے ان اشعار کے سامنے ستیہ پال آنند کی نظم میں ان کا اپنا کیا رہو گیا ہے ؟ غزل کے ’’ کلیشے ‘‘ بنے ہوئے مضامین کو اُڑا کران مضامین سے نظمیں گھڑنے والے ستیہ پال آنند صاحب کی نظموں کی یہی حقیقت ہے ، یہی اصلیت ہے۔

یہاں رؤف خیر کے مضمون کے فیصلہ کن الفاظ کو درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ رؤف خیر لکھتے ہیں :

’’شاہد صدیقی کے مذکورہ ایک مطلعے کو وضاحتی وسعت دے کر ستیہ پال آنند نے ایک نظم میں ڈھال لیا لیکن تاثر کے اعتبار سے دل چھو لینے والا یہ مطلع ان کی پوری نظم پر بھاری ہے۔ اب تو ا نہیں غزل کے اعجاز کا قائل ہ جانا چاہیے کہ دو مصرعوں میں شاعر جو آتشِ نم چھپا دیتا ہے وہ خاشاکِ نظم کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہے۔ ‘‘( زیر اشاعت مضمون’’ستیہ پال آنند:مہاتما خود‘‘سے اقتباس)

٭٭٭

 

 

 

راجندر سنگھ بیدی کے اسلوب اور زبان کا تنقیدی مطالعہ

 

 

                   ڈاکٹر پرویز شہریار ( نئی دہلی)

 

راجندر سنگھ بیدی کی زبان و بیان کے بارے میں کچھ نقادوں کا خیال تھا کہ اُن کی زبان میں پنجابیت کے عناصر در آئے ہیں جس کی وجہ سے پڑھتے وقت ان کی نثر میں ناہمواری اور کھردرے پن کااحساس ہوتا ہے۔

ہمیں یہ بات نشان خاطر رکھنی چاہیے کہ ہمارے نقاد جب یہ بات کہ ہ رہے تھے ، اُس وقت اُن کے نزدیک ایک طرف تو پریم چند کی سادہ،  اکہری اور عربی فارسی کی مانوس تراکیب کے باوجود ہموار نثر کی ایک توانا روایت موجود تھی اور دوسری طرف کرشن چندر کی رومانیت میں ڈوبی ہوئی ملائم، لطیف اور رواں دواں نثر کی مثالیں بھی تھیں جو یقیناً ان کے پیش  نظر رہی ہوں گی۔ لہذا،  اس تناظر میں دیکھا جائے تو بیدی کی پنج آبوں کی سرزمیں سے اُپجی ہوئی زبان میں اکھڑ پن بھی ہے اور کھردرا پن بھی موجود ہے۔ لیکن جب وہ اپنے افسانوی ادب میں پنجاب کی دیہاتی زندگی کے بشری محاکات کو بیان کرتے ہیں یا پھر ٹھیٹھ پنجابی کرداروں کے مکالمات بیان کرتے ہیں تو یہی عوامل ان کی نثر میں سقم پیدا کرنے کے بجائے امتیازی اوصاف بن کے اُبھرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ ان کی نثر میں غضب کی تہ ہ داری اور ماورائیت موجود ہے ، جسے سمجھنے کے لیے قاری کو اپنی قرأت کے دوران ٹھہر ٹھہر  کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ بیدی نے اپنے افسانوں میں الفاظ کا انتخاب اور اس کا دروبست بڑی ہی معنی آفرینی اور تخلیقیت کے ساتھ کیا ہے اور ایک نئے جہانِ  معنی کی تلاش و جستجو کی جسارت بھی کی ہے۔ اپ دیکھیں کہ کس طرح لوک گیتوں اور ہندو دیو مالاؤں کی پُر اسرار بلندیاں ،  اُن کی نثر کو رومانیت اور جذباتیت کے دلدل میں گرنے سے بچا لیتی ہیں۔

بیدی کے اسلوب کا جائزہ لینے سے پہلے ادب میں اسلوب کی ماہیت اور معنویت پربھی ایک نظر ڈال لی جائے تو میرا خیال ہے کہ بے محل نہ ہو گا۔ یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ آل احمد سرور راجندر سنگھ بیدی کے اولیں مداحوں میں سے تھے۔ لہٰذا،  بات ان ہی کے قول سے شروع کی جائے تو بہتر ہو گا۔ اُنھوں نے اسلوب کے سلسلے میں بہت پہلے لکھا تھا کہ:

’’اگر واضح خیال، موزوں اظہار کافی ہے تو اس میں ندرت،  انفرادیت یا بانکپن کا کیا سوال ہے ؟ یہیں شخصیت اور اسلوب کی بحث آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹائل ہی شخص ہے (Style is the man)۔ حالانکہ شخصیت اسلوب میں سیدھے سادے طریقہ سے جلوہ گر نہیں ہوتی۔ وہ الفاظ کی چھلنی میں چھن کر آتی ہے اور یہ الفاظ بھی ایک خاص سانچہ رکھتے ہیں ،   جو الفاظ ایک شخص استعمال کرتا ہے وہ ایک دور یا مزاج یا روایت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یعنی وہ انفرادی کے ساتھ اجتماعی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔ ‘‘۱؎

ظاہر ہے کہ مذکورہ تعریف سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح کوئی بھی دو فرد اپنی عقل اور شکل کے اعتبار سے یکساں نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی ادیب یا فنکار فن و فکر کے لحاظ سے مساوی نہیں ہوسکتے ہیں۔ خواہ وہ سگے بھائی ہوں ،  سگی بہن ہوں ،  ہمعصر احباب ہوں یا کسی ایک تحریک سے وابستگی رکھنے والے مختلف فنکار،  ان کے اسٹائل اور اسلوب یکساں نہیں ہوسکتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں جن اجزا اور عوامل کی کارفرمائی ہوتی ہے ،  آرٹسٹ کے فن پارے میں ان کی جلوہ نمائی ضرور ہوتی ہے۔ انسان جو کچھ سماج سے حاصل کرتا ہے وہ اسے اپنی ذات کی چھلنی میں چھان پھٹک کر بہتر طور پر سماج کو واپس کرتا ہے۔

پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ منٹو،  کرشن چندر اور بیدی افسانہ نگار ہیں ان کی شکلیں بھی الگ ہیں اور اسلوب کا تیور بھی ایک نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اپنے تمام تر برتاؤ کے تیور کے ساتھ زبان کے استعمال سے ،  ا نہیں استعمال کرنے والے کی شناخت ممکن ہے۔ الفاظ اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں گویا وہ کسی فرد کے خدوخال ہوئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جو الفاظ ایک شخص استعمال کرتا ہے وہ ایک دور یا مزاج یا روایت کے بھی آئینہ دار ہوتے ہیں یعنی وہ انفرادی کے ساتھ اجتماعی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔

پروفیسر محمد حسن نے اردو کے افسانوی ادب میں موجود اسلوب کی اقسام پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے پہلا اسلوب منٹو کا ہے۔ منٹو کے اسلوب پر زور دیتے ہوئے دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے لکھا ہے کہ منٹو کی زبان اپنی روزی کی گفتگو سے گہرا رشتہ رکھنے والی شہری زبان ہے جس میں پنجابی لہجے کے ساتھ بمبئیا اردو کی آمیزش ہے۔ دوسرا اسلوب انہوں نے کرشن چندر کی رومانوی نثر کی تابناکی کو بتایا ہے جہاں روشنی اور دھوپ ہے۔ زندگی کی ناہمواری پر سخت طنز ہے اور یہ طنز واقعات کی زبان پیش ہوتا ہے۔ اچانک موڑ کاٹنے کا کرشن چندر کو شوق نہیں ہے بلکہ یہاں زندگی اپنے پورے توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ ابھرتی ہے۔ اسلوب کی رومانوی خوابناکی کے ساتھ ساتھ یہاں قصے کی فضا اور واقعات اور اس کے زیر زمیں تاثرات کا بہاؤ فیصلہ کن ہے۔ جبکہ راجندرسنگھ بیدی کے اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے محمد حسن نے لکھا ہے کہ ان کے اسلوب میں عام انسان کے اندرونی کرۂ ارض کی سیر ہے جس میں غیر فطری اور غیر معمولی کرداروں کی تحلیل نفسی کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ عام انسانوں کی باطنی زندگی کی چھوٹی موٹی مسرتوں اور حسرتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ گویا چیخوف اور گوگول کی کہانیوں سے قریب ہیں اور اس خصوصیت میں ان کا اگر کوئی ہمسر ہے تو صرف غلام عباس جن کی کہانیاں — ’’آنندی‘‘ اور ’’دھنک‘‘ یا ’’اوورکوٹ‘‘ اس کی مثالیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ غلام عباس تخئیل کے ذریعے بہت دور تک پرواز کرتے ہیں جبکہ بیدی باطنی زندگی کی لطافتوں اور نزاکتوں سے قریب رہتے ہیں۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور ’’لاجونتی‘‘ اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ ۲؎

پروفیسر وہاب اشرفی نے بھی بیدی کے اسلوب کے تعلق سے بنیادی سوال اٹھائے ہیں کہ آخر،  بیدی کے یہاں الفاظ کس طرح برتے جاتے ہیں یعنی وہ ا نہیں کس طرح تخلیقی عمل سے گزارتے ہیں ؟ کیا ان کی زبان استعاراتی ہے۔ ان جملوں کی ساخت کی کیا کیفیت ہے۔ کیا یہ ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں یا ان میں کفایت لفظی کے باعث کساؤ کا عالم ہے۔ کیا ان کی نثر تخلیقی رویے کے باعث شاعرانہ کیف وکم سے مملو ہے یا سپاٹ محض ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہر سوال کے جواب میں بیدی کے افسانوں کی مثالوں سے اٹھائے گئے مذکورہ سوالات پر قدرے وضاحت کے ساتھ مدلل بحث کی ہے اور اپنے موقف کا جواز پیش کیا ہے۔ استفصیل میں جانے سے پہلے بیدی کے اسلوب پر ان ناقدین کی آراء بھی قابل توجہ معلوم ہوتی ہیں جن سے بیدی کے اسلوب اور زبان کی عقدہ کشائی ہوتی ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بیدی کے اسلوب بیان پر بحث کرتے ہوئے اردو ادب میں موجود چند نمایاں اسلوبیات کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ اس تناظر میں بیدی کے اسلوب کو خاطر خواہ طور پر سمجھا جا سکے۔ چنانچہ پروفیسر نارنگ کے مطابق اردو افسانے میں اسلوبیاتی اعتبار سے جو روایتیں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا جو اہم رہی ہیں ،   تین ہیں۔ ان میں پریم چند،  منٹو اور کرشن چند کے نام ان کے نزدیک قابل ذکر ہیں۔ پریم چند کی ہندوستانی زبان جو ادنیٰ سی تبدیلی سے اردو اور ادنیٰ سی تبدیلی سے ہندی بن سکتی ہے ،  کی مثال پیش کی ہے اور بتایا ہے کہ اس طرز کی اسلوبیاتی روایت کے پیروکار بیسیوں افسانہ نگار موجود ہیں۔ دوسرا اسلوب منٹو کی صاف اور حیرت انگیز طور پر ہموار زبان کا اسلوب ہے جو پریم چند کے یہاں اگر سونا تھا تو منٹو کے یہاں تپ کر کندن بن گیا ہے۔ پریم چند کے یہاں جو چیز ٹھیٹھ تھی منٹو کے یہاں اس کا ترشا ہوا روپ ملتا ہے۔ منٹو کا اسلوب الفاظ کے بے جا صرفے کی اجازت نہیں دیتا ہر چیز نتھری ہوئی اور حشو و زوائد سے پاک ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کرشن چندر کے اسلوب میں الفاظ کی فراوانی ملتی ہے۔ ان کی زبان رومانیت کے تمام اوصاف سے مزین ہے لیکن زبان اور اسلوب کا جادو اور دلکشی زیادہ دور تک ساتھ نہیں چلتی ہے۔ تاہم کرشن چندر اور منٹو کے یہاں زبان اور اسلوب میں بے ساختگی اور روانی بدرجہ احسن موجود ہے۔ ان کے افسانوں میں اسلوب کہیں رکنے اور سوچنے پر مجبور نہیں کرتا ہے۔ افسانے کے مطالعہ کے دوران زبان کہیں اپنی موجودگی اور اسلوب کہیں بھی غیر مانوس اور بالکل مختلف ہونے کا احساس نہیں دلاتے ہیں۔

کرشن چندر اور منٹو کے علی الرغم بیدی کے یہاں زبان اور اسلوب تھام تھام لیتے ہیں اور قاری کو رک کر ا نہیں اپنی پوری توجہ سے غور کرنا پڑتا ہے تبھی معنویت کے راز سربستہ کے امکانات اور گنجائشوں کی کلید ہاتھ آتی ہے۔ بالفاظ دیگر بیدی کے یہاں کرشن چند رجیسی رنگینی اور چاشنی اور منٹو جیسی بے باکی اور بے ساختگی نہیں ملتی ہے۔ لیکن ان باتوں سے بیدی کے اسٹائل کی عظمت کو کوئی باٹ نہیں لگتا ہے۔ بلکہ ا نہیں اپنے اسلوب کی انفرادی پہچان بنانے میں الٹے مدد ملتی ہے۔ کرشن چندر اور منٹو کی زبان ٹکسالی ہے اور مروجہ اشارے اور کنائے کے استعمال سے خیال سازی میں کوئی ندرت اور تازہ پن کا احساس نہیں ہو پاتا ہے جبکہ بیدی یہی آورد والے انداز بیان سے خیال جب الفاظ کے پیکر میں ڈھل کر آتے ہیں تو استعارے اور علامات کے رموز اور اشارات میں انوکھا پن موجود ہوتا ہے اور قاری کو اس نادر خیال سے زندگی میں پہلی بار واسطہ پڑتا ہے اور وہ جتنی بار اسے پڑھتا جاتا ہے ،  اس پر معنویت اپنے دروازے وا کرتی چلتی جاتی ہے۔

بیدی کی زبان پر پنجابی لہجہ اور مقامی بولیوں کا بھی زبردست اثر ہے۔ بیدی کو اس مقامی بولی،  لوک گیت اور کہاوتوں کی طاقت کا اندازہ ابتدا ہی میں ہو گیا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ا نہیں دھڑلے سے ،  بعض اوقات بالقصد اپنے کردار کی مقامیت اور پنجابیت نمایاں کرنے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔

کہتے ہیں موضوع اپنی ہیئت خود ساتھ لاتا ہے۔ خیال کسی نہ کسی فارمیٹ میں معرض وجود میں آتا ہے۔ بیدی کے موضوعات چونکہ اردو کے گنگا جمنی ادب میں مختلف تھے۔ ان میں پنجاب کے دیہات کی خوش بوتھی۔ رامائن مہابھارت اور گیتا کے مہاتم کی صفات موجود تھیں۔ لہٰذا اس تناظر میں بیدی کے یہاں خیال جن الفاظ کے قالب میں نمودار ہوئے وہ عام روش اور مرکزی دھارے سے بالکل الگ تھے۔ بیدی کی نہ صرف یہ کہ زبان ٹکسالی نہیں تھی بلکہ بیدی کے دماغ میں جو سوچ اور فکر سماتی ہے اس کا اظہار بھی ساختہ اور مسلمہ معیار سے مختلف ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ا نہیں اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ادب لطیف جیسے معیاری ادبی رسائل کے ایڈیٹروں کے ہاتھوں حزیمت بھی برداشت کرنی پڑی تھی۔ بیدی اس بات کو آغاز میں سمجھ نہیں پا رہے تھے اور نہ ہی اردو کے معیاری رسائل اس بات کو سمجھتے تھے۔

دراصل،  Genius ہمیشہ rule-breakerہوتا ہے۔ وہ بنے بنائے اصول و ضوابط کو توڑتا ہے۔ قدیم آئیکون پر متواتر ضربیں لگاتا ہے اور نیا آئیکون تعمیر کرتا ہے۔ مثلاً اردو کے تنقیدی ادب میں کلیم الدین احمد نے تنقیدی کے بنے بنائے بتوں کو خاکستر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ٹھیک اسی طرح بیدی نے افسانوی ادب میں یکے بعد دیگرے بتوں کو زمین بوس کرنے کا جب سلسلہ شروع کر دیا اور اپنے خود کے trend setکیے تو ان ایڈیٹروں کو زبان واسلوب کی ایک نئی جہت اور اس کے وسیع امکانات اور گنجائشوں کا احساس ہوا اور وہ رفتہ رفتہ بیدی کے اسلوب سے مانوس اور قائل ہوتے چلے گئے۔

بیدی کا اسلوب دراصل اشاریت اور رمزیت کا حامل ہے۔ بیدی کبھی بھی کوئی بات سپاٹ نثر میں نہیں کہتے ہیں۔ ان کا انداز بیان مورخانہ یا صحافیانہ نہیں ہے۔ ان کا اسلوب تخلیقی ہے۔ ان کی زبان کی ناہمواری اسی تخلیقیت کی وجہ سے ہے۔ وہ تجرد زبان کے قائل نہیں ہے۔ ان کے یہاں خیال بڑے انوکھے اور نادر پیکر میں ڈھل کر آتے ہیں اور ان پیکروں کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں بیدی کو آورد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ الفاظ ان کے سامنے ہاتھ باندھے باندی کی طرح کھڑے نہیں رہتے ہیں۔ وہ الفاظ کو زندگی بے پایاں زندگی کے تجربات کے کونے کھدرے سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی عبارتیں سکہ بند قسم کی نہیں ہوتی ہیں۔ ان میں نیاپن اور تازہ پھول جیسی خوشبو اڑ رہی ہوتی ہے۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ سے اس عبارت کی معنوی تازہ کاری ملاحظہ کریں۔

’’اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منھ پرے کرتی ہوئی بولی— ’’اپنی لاج— اپنی خوشی— اس وقت تم بھی کہہ دیتے — اپنے سکھ مجھے دے دو— تو میں —‘‘ اور اندو کا گلا رندھ گیا۔

اور کچھ دیر بعد وہ بولی— ’’اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا—‘‘

مدن کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ زمین میں گڑ گیا—

یہ ان پڑھ عورت؟— کوئی رٹا ہوا فقرہ—؟

نہیں تو— یہ تو ابھی سامنے ہی زندگی کی بھٹی سے نکلا ہے۔ ابھی تو اس پر برابر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں اور آتشیں برادہ چاروں طرف اڑ رہا ہے۔ ‘‘

پروفیسر نارنگ نے بیدی کے قول کو نوٹ کرتے ہوئے اپنے مقالہ ’’بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں ‘‘ میں لکھا ہے کہ منٹو نے بیدی کو ایک دفعہ ٹوکا بھی تھا کہ ’’تم سوچتے بہت ہو،  لکھنے سے پہلے سوچتے ہو،  بیچ میں سوچتے ہو اور بعد میں سوچتے ہو۔ ‘‘ اس پر بیدی کا کہنا تھا کہ ’’سکھ اور کچھ ہوں یا نہ ہوں ،   کاریگر اچھے ہوتے ہیں اور جو کچھ بناتے ہیں ٹھوک بجا کر اور چول سے چول بٹھا کر بناتے ہیں۔ ‘‘ چنانچہ فن پر توجہ شروع ہی سے بیدی کے مزاج کی خصوصیت بن گئی۔ سوچ سوچ کر لکھنے کی عادت نے ا نہیں براہ راست انداز بیان سے ہٹا کر زبان کے تخیئلی استعمال کی طرف راغب کر دیا۔ ’’گرہن‘‘ کے پیش لفظ میں انہوں نے خود لکھا ہے :

’’جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں اسے من و عن بیان کر دینے کی کوشش نہیں کرتا۔ بلکہ حقیقت اور تخئیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کو احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔

مشاہدے کے ظاہری پہلو میں باطنی پہلو تلاش کرنے کا یہی تخیئلی عمل رفتہ رفتہ ا نہیں استعارہ،  کنایہ اور اشاریت کی طرف یعنی زبان کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لانے کی طرف لے گیا۔ ۳؎…لیکن وہ کہانی جس میں بیدی نے استعاراتی انداز کو پہلی بار پوری طرح استعمال کیا ہے اور اساطیری فضا ابھار کر پلاٹ کو اس کے ساتھ ساتھ تعمیر کیا ہے ’’گرہن‘‘ ہے۔۔۔۔ لہٰذا،  بیدی کے فن میں استعارہ اور اساطیری تصورات کی بنیادی اہمیت ہے۔

’ ’بیدی کے ہاں کوئی واحد واقعہ واقعۂ محض نہیں ہوتا بلکہ ہزاروں لاکھوں دیکھے اور ان دیکھے واقعات کی نہ ٹوٹنے والی مسلسل کڑی کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل میں چونکہ ان کا سفر تجسیم سے تخئیل کی طرف،  واقعہ سے لاواقعیت کی طرف،  تخصیص سے تعمیم کی طرف اور حقیقت سے عرفان حقیقت کی طرف ہوتا ہے۔ وہ بار بار استعارہ،  کنایہ اور دیومالا کی طرف جھکتے ہیں۔ ان کا اسلوب اس لحاظ سے منٹو اور کرشن چندر دونوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ کرشن چندر واقعات کی سطح تک رہتے ہیں۔ منٹو واقعات کے پیچھے دیکھ سکنے والی نظر رکھتے تھے ،  لیکن بیدی کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ چلتے تو یہ بھی زمین پر ہیں ،   لیکن ان کا سر آکاش میں اور پاؤں پاتال میں ہوتے ہیں۔ بیدی کا اسلوب پیچیدہ اور گمبھیر ہے۔ ان کے استعارے اکہرے یا دہرے نہیں ،   پہلو دار ہوتے ہیں۔

…..بیدی کے پہلو دار استعاراتی اسلوب کی وجہ سے ان کے کرداروں کے مسائل اور ان کی محبت و نفرت، خوشیاں اور غم،  دکھ اور سکھ،  مایوسیاں اور محرومیاں نہ صرف ا نہیں کرداروں ہی کی ہیں بلکہ ان میں ان بنیادی جذبات اور احساسات کی پرچھائیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں جو صدیوں سے انسان کا مقدر ہیں۔ یہ مابعد الطبیعیاتی فضا بیدی کے فن کی خصوصیت خاصہ ہے۔

…بیدی کے استعاراتی اور اساطیری اسلوب کے اولین نقوش ان کی ابتدائی کہانیوں میں ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں۔ ان کا پہلا کامیاب استعمال ’’گرہن‘‘ میں کیا گیا تھا لیکن اس وقت بیدی کو اپنی اس قوت کا احساس نہیں تھا۔ آزادی کے بعد ’’لاجونتی‘‘ کی کامیابی نے یقیناً ا نہیں مزید اس راہ پر ڈالا ہو گا خواہ ایسا لاشعوری طور ہی پر ہوا ہو۔

پہلی بار پوری طرح یہ اسلوب ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ میں کھل کر سامنے آیا۔ اس کے بعد تو جیسے بیدی نے اپنے آپ کو پا لیا۔ یا ا نہیں اپنے اسلوب کی بنیادوں کا عرفان ہو گیا۔ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ لگ بھگ اسی زمانے میں لکھا گیا۔ اس میں اور اس کے بعد بیدی کے استعاراتی اور اساطیری اسلوب کی قوت شفا کو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے موقف کے جواز کے طور پر کئی مثالیں دی ہیں جن میں سے دو ایک اقتباس مختصراً نقل کیے جاتے ہیں تاکہ نکتے کی خاطر خواہ وضاحت ہوسکے۔ یہ اقتباس دیکھیں :

’’وہ سمجھتا ہے کہ اس بار کی تر و تازہ حسین و جمیل دوشیزہ کے بدن پر قبضہ جمائے گا،  بار بار اپنائے گا،  بے ہوش ہو جائے گا۔ اور وہ نہیں جانتا وہ محض ایک تنکا ہے ،  زندگی کے بحر زخار میں صرف ایک بہانہ ہے تخلیق کے اس لامتناہی عمل کو ایک بار چھیڑ دینے کا،  ایک بار حرکت میں لے آنے کا،  اور پھر بھول جانے کا۔۔۔ ‘‘(لمبی لڑکی)

’’موہن نے ہمیشہ عورت کو مایا کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہ باہر سے اور اندر سے اور معلوم ہوتی تھی… پھر جو عورت کپڑوں میں بھری پری دکھائی دیتی وہ دبلی نکلتی اور دبلی دکھائی دینے والی بھری پری۔۔۔ اسے ہی تو مایا کہتے ہیں یا لیلا… مایا جس کے بارے میں کہیں یہ ہاتھ نہ آئے گی وہی گردن دبائے گی،  اور مایا کیا ہوتی ہے۔ ‘‘۱؎(ٹرمینس سے پرے )

پروفیسر وارث علوی نے ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کے اساطیری اسلوب کا ذکر کیا ہے۔ جہاں اندو کے آرکی ٹائپ میں اس کا کردار اپنے قد سے بہت بڑا معلوم ہونے لگتا ہے اور تاریخ کے اولیں زمانے کی پر اسرار وادیوں کی سیر کراتا ہے۔ یہ اقتباس دیکھیں :

’’مدن کے لیے اندو روح ہی روح تھی۔ اندو کے جسم بھی تھا لیکن وہ ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے مدن کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ایک پردہ تھا خواب کے تاروں سے بنا ہوا۔ آہوں کے دھوئیں سے رنگین،  قہقہوں کی زر تاری سے چکا چوند جو ہر وقت اندو کو ڈھانپے رہتا تھا۔ مدن کی نگاہیں اور اس کے ہاتھوں کے دوشاسن صدیوں سے اس دروپدی کا چیر ہرن کرتے آئے تھے جو کہ عرف عام میں بیوی کہلاتی ہے۔ لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے تھانوں کے تھان،  گزوں کے گز کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لیے ملتا آیا تھا۔ دو شاسن تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے لیکن دروپدی وہیں کھڑی تھی۔ عزت اور پاکیزگی کی سفید ساری میں ملبوس وہ دیوی لگ رہی تھی۔ ‘‘

اسی طرح ’’ایک چادر میلی سی‘‘کے اسلوب کے ضمن میں وارث علوی کا خیال ہے کہ وہ منظر جس میں خارجی اور سماجی دنیا یعنی رانو،  اس کا پریوار،  اڑوس پڑوس کی عورتیں اور کوٹلہ گاؤں کا پس منظر بیان کیا گیا ہے وہ دراصل حقیقت پسندانہ اسلوب کے تحت بیان ہوئے ہیں۔

لیکن عورت ہونے کے ناتے رانوؔ فطرت کی تخلیقی قووں کی آئینہ دار بھی ہے۔ اور اس کی زندگی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے فرد شروع ہوتا ہے۔ لہٰذا،  بطور فرد کے ،  ایک انسانی وجود کے ،  رانوؔ اندر سے کیا ہے۔ اس کے جذباتی تقاضے اور احساسی رویے کیا ہیں۔ یہ جاننے کے لیے بیدی رانوؔ کی فطرت کا مطالعہ عظیم فطرت کے آئینے میں کرتے ہیں۔ یہاں اسلوبی طریقہ استعاراتی ہے۔

ان سب کے علاوہ،  بیدی اس ناول میں خلق کی گئی دنیا— خارجی اور داخلی دنیا،  انسانی فطرت اور عظیم فطرت سے ماورا کائناتی طاقتوں (Metaphysics) کی روشنی میں زندگی کی لیلا کے مبہم اور پراسرار پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے مقامات پر فرد ٹائپ میں ،   ٹائپ پروٹوٹائپ میں اور پروٹوٹائپ آرکی ٹائپ میں گھلتا ملتا رہتا ہے۔ یہاں اسلوبی طریقہ کار اسطوری ہے۔

وارث علوی کے یہ الفاظ دیکھیں جسے انہوں نے مذکورہ نکات کو قدرے اختصار سے بیان کر دیا ہے ،  بیدی کے اسالیب کے سلسلے میں غور طلب معلوم ہوتے ہیں :

’’ناول کی پوری ڈیزائن میں اسالیب کے تینوں رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ ناول میں اسالیب بھی فطرت اور انسانی فطرت کی عنصری طاقتوں کی مانند مواد کی وادیوں ،   پہاڑوں اور جنگلوں پر اپنی برہنہ جنگ کھیلتے ہیں۔ بیک وقت حقیقت نگاری کا سورج تمتماتا ہے۔ اساطیر کی دھند پھیلتی ہے اور استعارات کی دھنک کھلتی ہے۔ ‘‘ ۴؎

بیدی کے سوچ سوچ کے لکھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی ہے کہ جب وہ کسی عورت کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں ہزاروں لاکھوں سال پرانی عورت ہوتی ہے۔ وہ اگر کسی کنج کی بات کرتے ہیں تو برہمانڈ کی وسعت میں پھیلے ہوئے کسی دیولوک کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’دس منٹ بارش میں ‘‘ کے بین السطور میں پراشر کا ذکر واحد متکلم کے موجودہ دوست کا تو بیدی ذکر کرتے ہی ہیں ساتھ ہی اس سیکڑوں ہزاروں سال پرانے رشی پر اشرکا اشارہ بھی اس واقعے میں مضمر ہوتا ہے جو اپنی فطرت سے منچلے اور آوارہ طبیعت کی وجہ سے بارش میں بھیگتی شرابور ہو رہی مچھیرن کی ناؤ میں مدد لینے کے لیے سوار ہو جاتے ہیں اور اپنی مراد پالیتے ہیں۔

جوگندر پال نے اسی وجہ سے یہ بات کہی ہے کہ بیدی کے افسانے کو جب کوئی قاری پڑھتا ہے تو اپنے ذہن میں تخلیقتے ہوئے پڑھتا چلا جاتا ہے۔ یعنی تلمیحات کے طور پر ویدوں اور پرانوں سے جا بجا اشارے ملتے ہیں۔ انھیں سمجھنے کے لیے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اس کے علاوہ،  بیدی کی زبان اور عبارتوں سے کماحقہٗ لطف اندوز ہونے اور مفہوم کو گرفت میں لینے کے لیے لازمی ہو جاتا ہے کہ رموز و اوقاف کی انتہائی محتاط طریقے سے پابندی کی جائے۔ ورنہ مفہوم پلک جھپکتے میں خفت ہو جاتے ہیں ،   اور غیر تربیت یافتہ قاری کو اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔

بیدی کی زبان اور اسلوب سے پوری طرح معنویت اخذ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری ہندو دیومالا کی کم از کم مبادیات سے ضرور واقف ہ جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیدی کے یہاں عام زندگی میں مجامعت کرنے والے مرد اور عورت بھی شیوپاروتی اور رتی و کام دیو کے پیرائے میں بیان ہوسکتے ہیں۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کے مدن اور اندو کی اساطیری تاویل میں دیوی دیوتا پوشیدہ ہوسکتے ہیں جو کہ ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں سال پرانے دیولوک کے باسی ہیں۔ جن سے یہ دنیا بسی ہے۔ وارث علوی کے تاویلات کے مطابق ’’وہ آج کے مرد اور عورت کے آرکی ٹائپ ہیں۔ ‘‘ ان کا ملاپ تقدیس کا عمل ہوسکتا ہے جس میں یونی اور لنگ کی عقیدت مندانہ پرستش کی جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

بیدی کی وہ کہانی جس میں پہلی بار ہندو دیومالا کے تناظر میں افسانے کا مکمل پلاٹ تیار کیا گیا تھا وہ ’’گرہن‘‘ ہے۔ اس افسانے میں اساڑھی کے کائستھوں میں جب ہولیؔ بیاہ کر آتی ہے تو اس کی ساس اسے پیار سے ’’چندا رانی‘‘ کہتی ہے۔ اس کا شوہر رسیلا ہوس کا غلام ہے اور تین چار بچوں کی پیدائش کے بعد ہولی جب کمزور ہو جاتی ہے تو ساس اس کا جینا حرام کر دیتی ہے۔ وہ گرہن کی رات میں ان ظالموں سے نجات حاصل کرنے کے لیے وہاں سے بھاگ جاتی ہے لیکن اس کے گاؤں کا منھ بولا بھائی کتھو رام اسے حاملہ ہونے کے باوجود اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔

اس مختصر سے قصے کے پیچھے دیومالا کا اسطورہ یہ ہے کہ بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ ایک آسمان کا چاند ہے اور ایک زمین کا چاند ہولی۔ چاند گرہن کی رات راہو اور کیتو آسمان کے چاند سے اپنا دیولوک کا قرض وصولنے کے لیے حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے گہنا دیتے ہیں۔ دوسری طرف رسیلا اور ہولی کی ساس اور اسٹیم لانچ پر ملنے والا کتھورام زمین کے چاند کو گہنانے کے درپے ہیں اور راہو کیتو کی طرح اس کی زندگی میں گرہن لگا دینا چاہتے ہیں۔

مذکورہ اسلوب کی وضاحت افسانے کے حاشیے یا پاورق میں کہیں موجود نہیں ہے۔ سوم رس یا امرت جو سمندر منتھن کے بعد نکالا گیا ہے۔ وشنو اسے دیولوک میں دیوتاؤں کو تقسیم کر رہے تھے جبھی راہو نام کا راکھسش اپنی صف سے اٹھ کر چھل سے امرت اور پانی الگ الگ کر کے بانٹنے والے وشنو بھگوان کو دھوکا دے کر امرت حاصل کر کے پی لیتا ہے۔ امرت پیتے ہی وہ امر ہو جاتا ہے۔ چاند اور سورج جنہیں اندر اور سوم بھی کہتے ہیں وشنو مہاراج کو بتا دیتے ہیں۔ وشنو اسے سدرشن چکر سے دو ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ دوسرے حصے کا نام کیتو پڑتا ہے۔ اس وقت کسی نے ا نہیں مزید ٹکڑے کرنے سے روک دیا تھا ورنہ نہ جانے کتنے سارے راہو اور کیتو اس دھرتی پر ہوتے اور حسب معمول سال میں دو بار اپنا قرض وصول کرنے کے لیے چاند اور سورج سے بدلہ لیتے رہتے۔ ہولیؔ کی سوچ میں یہ بات مضمر ہے کہ نیک دل ہندو اس دوران چھوڑ دو چھوڑ دو دان کا وقت ہے کی آواز لگاتے ہیں۔ لیکن امرت کے بٹوارے اور سمندر منتھن کا ذکر کہانی میں کہیں نہیں ہے جس کو جانے بغیر افسانے سے کماحقہٗ طور پر مستفید نہیں ہوا جا سکتا ہے۔

پروفیسر وہاب اشرفی نے بیدی کی نثر کو استعاراتی اور تخلیقی نثر کہا ہے۔ ان کے اسلوب کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے چند اقتباسات بھی نقل کیے ہیں جن سے ان کی نثر کے اسلوب کے محاسن والے تمام پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ بیدی کے سپاٹ پن کی استرداد کرتے ہوئے پروفیسر وہاب اشرفی نے اپنی رائے ظاہر کی ہے کہ ان کے یہاں ہر موضوع ان کے ذاتی تجربے کی آنچ میں پگھل کے کہانی کا روپ دھارتا ہے ،  ایسے میں عمومی انداز تحریر داخلی تجربے کی عکاسی نہیں کرسکتا۔ افسانہ ’’لاجونتی‘‘ سے یہ اقتباس دیکھیں :

’’لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح نازک سی دیہاتی لڑکی تھی،  زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا ہو چکا تھا… اس کا اضطرار شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ ہو کر اس بڑے سے پتے پر کبھی ادھر کبھی ادھر لڑھکتا رہتا۔ اس کا دبلا پن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی۔ ایک صحت مندی کی نشانی تھی۔ ‘‘

اس کے مزاج کی بے قراری کے لیے جو مماثلتیں تلاش کی گئی ہیں وہ کتنی دلکش ہیں۔ ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ،   میں ایسی تخلیقی زبان کو استعاراتی کہتا ہوں۔ اس میں تخلیقی عمل کا بڑا جوکھم ہے اور اس انداز میں لکھنا کسی تخلیقی فنکار کے بس کی ہی بات ہوسکتی ہے۔ اگر واقعی اعلیٰ ادب مماثلتوں کی تلاش سے عبارت ہے تو اس معاملے میں بیدی کا امتیاز نمایاں ہے۔ ۱؎

پروفیسر وہاب اشرفی کا خیال ہے کہ بیدی کا استعاراتی اسلوب بہت ہیPicturesqueہے۔ انہوں نے اپنے اس موقف کے لیے جو حوالہ دیا ہے وہ ’لاجونتی‘‘ کے یہ چند جملوں پر موقوف عبارت ہے۔ دھرتی کی یہ بیٹیاں مرد کو یوں سمجھتی تھیں جیسے بادل کا ٹکڑا ہو جس کی طرف بارش کے لیے منھ اٹھا کر دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیدی نے یہاں ایک بڑی نفسیاتی اور جنسی سچائی کو انتہائی چابکدستی سے پیش کر دیا ہے۔ دھرتی آبیاری کے بعد ہی ثمر آور ہوسکتی ہے۔ مرد اور عورت کے جنسی معاملات کی یہی کیفیت ہے جہاں خواہ مخواہ کی لذتیت نہیں ہے بلکہ آفاقی سچائی کو فطرت کے بعض مظاہر سے تشبیہ دے کر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔ ایسے جملے اسی ذہن کی پیداوار ہوسکتے ہیں جن میں خلاقانہ صلاحیت بے پناہ ہوتی ہے۔ بیدی کے یہاں ایسے اظہار کی کمی نہیں ہے۔

بیدی کے یہاں افسانے کے موضوع کے اعتبار سے استعاراتی اور اشارات استعمال ہوتے ہیں۔ ’’دس منٹ بارش میں ‘‘ یا ’’جوگیا‘‘ یا ’’کوارنٹین‘‘ کا اسلوب اور زبان کے تمام لوازمات کا التزام ان افسانوں کے پس منظر کے مطابق مشکل اور مستعمل ہوئے ہیں۔ بیدی نے ا نہیں بڑی ہم آہنگی اور مماثلت کے ساتھ افسانے کے کالبد میں ڈھالا ہے۔ بیدی کے اسلوب و زبان کے سلسلے میں یہ احتیاط اور ہنر مندی ا نہیں اپنے معاصرین میں ممتاز بناتی ہیں۔

’’دس منٹ بارش میں ‘‘ ہر شے اس قدر بھیگی بھیگی سی محسوس ہوتی ہے کہ افسانے کے دورانیہ میں گمان ہوتا ہے جیسے ہر طرف جل تھل جل تھل ہے اور ہلکی بارش تمام کچی دیواروں کو آج مسمار کر دے گی یا جانور کیا انسان کیا نباتات اور کیا جمادات آسمان اور زمین کے بیچ موجود ہر شے اس بے وقت کی بارش میں بھیگ رہی ہے۔ بیدی کا یہ کمال فن تخلیقیت کا بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘

اسی طرح ’’کوارنٹین‘‘ میں پلیگ،  چوہے اور کوارنٹین کے اطراف پوری انسانیت پلیگ کی گلٹیوں اور بخار سے بچنے کے لیے ہراساں اور پریشاں محسوس ہونے لگتی ہے۔ کہانی میں شروع سے آخر تک ایک جہنم سی آگ اور ہیبت طاری رہتی ہے۔ چاروں طرف موت کا سامان دکھائی پڑتا ہے۔ ایک نفسی نفسی کا عالم پڑھنے والے کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے۔ یہ تخلیقی اسلوب کا معجزہ ہی ہے۔ ’’جوگیا‘‘ کا سارا ماحول رنگوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ خوش رنگ استعاروں سے اور محبت آمیز اشاروں سے پورا افسانہ رنگا ہوا ہے۔ جگل کو دنیا ہر روز اس رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے جس رنگ کا لباس اس کی اپنی جوگیا اپنے تن سے لگا لیتی ہے۔ یہ دیوانگی کی حد تک رنگوں میں ڈوبا دینے والا افسانہ ہے۔ بیدی نے اس افسانے میں تمام اچھی بری دلی کیفیتوں کو رنگوں کے ذریعے منقش (depict) کر دیا ہے۔ یہ اسلوب کا کرشمہ ہی ہے کہ کہانی کی ہیروئن کا نام تک جوگیا ہے جو کہ جوگ اور لفظ جوگن سے مشتق ہے اور افسانے کا منتہا اسی جوگیا رنگ پر ہوتا ہے۔ ہرچند کہ وہ اس دن ہلکے گلابی رنگ کی ایک خوبصورت ساڑی پہن رکھی ہوتی ہے لیکن انجام جدائی ہے اور اس جدائی یا ویراگ کا رنگ ’جوگیا‘ ہی ہوتا ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس قابل قدر ہے جہاں بیدی نے اپنی تخلیقی نثر سے احساس میں جادو ساجگادیا ہے۔

’’جوگیا کا چہرہ سومنات کے پیش رخ کی طرح چوڑا تھا جس میں قندیل جیسی آنکھیں ،   رات کے اندھیرے میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو روشنی دکھاتی تھیں۔ مورتی میں ناک اور ہونٹ زمرد اور یاقوت کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ سر کے بال کمر سے نیچے تک کی پیمائش کرتے تھے۔۔۔ اس کا چہرہ کیا تھا پورا تارا منڈل جس میں چاند خیالوں اور جذبوں کے ساتھ گھٹتا اور بڑھتا رہتا تھا…‘‘

پروفیسر سید محمد عقیل رضوی نے عصری آگہی کے بیدی نمبر میں شامل اپنے مضمون ’’بیدی کی کہانیاں —ایک جائزہ‘‘ میں لکھا ہے :

’’بیدی نے اپنے افسانوں میں ایک خاص طرح کی زبان کا استعمال،  اپنے فن کے اظہار کے لیے کیا ہے۔ حقیقتاً وہ سوشل ریلسٹ ہیں۔ اسی لیے وہ اردو کی افسانوی زبان کا ایساmotive طرز نہیں اپناتے جس کا چلن افسانے کے لیے عام رہا ہے … وہ واقعات کی اصلیت اور سماجی حقیقتوں کو صحیح طور پر پیش کرنے (Projection) کی دھن میں ،   زبان کی بناوٹ اور اس کے مسلمات کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے ان کی عبارت میں گھیر دار اطناب کے بجائے۔ حیرت انگریز اختصار اور طنز کی کاٹ ابھرتی ہے … بیدی کے الفاظ،  اپنی حقیقتوں کو اس طرح سے radiateکرتے ہیں کہ زبان کی بناوٹی چمک دمک ماند پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ۵؎

انہوں نے اپنے اس موقف کو چند مثالوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں جو انہوں نے اقتباسات نقل کیے ہیں ،   اس سے بخوبی صراحت ہو جاتی ہے اور مذکورہ بالا نکات نمایاں ہو جاتے ہیں :

’’بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اٹھ کر اپنے بدن سے خون پونچھ ڈالا۔ اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے جن کے بدن سالم تھے۔ لیکن دل زخمی۔ ‘‘

(لاجونتی)

 

’’میں نے کوٹ کھونٹی پر لٹکا دیا۔ میرے پاس ہی دیوار کا سہارا لے کر شمی بیٹھ گئی۔ اور ہم دونوں سوئے ہوئے بچوں اور کھونٹی پر لٹکے ہوئے گرم کوٹ کو دیکھنے لگے۔

(گرم کوٹ)

پروفیسر عقیل رضوی کا خیال ہے کہ ان جملوں میں نپے تلے الفاظ ہیں اور جملے کی اثر انگیزی آخری جملے میں نچڑ آئی ہے۔ وہ مزید براں رقم طراز ہیں کہ کہانیوں میں بیدی کی زبان پر زیادہ تر Non-intentional موڈ طاری رہتا ہے۔ جس سے زبان میں بنوٹ نہیں داخل ہوتی اور جملوں میں کئی پرتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی زبان میں کہانی کی اکائی شاید زیادہ قائم رہتی ہے اور اس کا تسلسل بھی مجروح نہیں ہوتا ہے۔ بیدی کے یہاں چھوٹے چھوٹے جملے بھی کہانی کے موڈ اور اس کے تحیر کو نہیں بھولتے اور اس طرح ان کی کھردری ناتراشیدہ زبان،  خود اپنا ایک حسن پیدا کر لیتی ہے جو حقیقتوں کا حسن ہے ،  جس میں زندگی کی کربناکیاں ہیں اور جو تکلفات کی حنا بندی سے قطعاً بے پروا ہے۔

پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے بیدی کی زبان کی خامیوں کی بہت ہی جارحانہ طور سے نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا اعتراض ہے کہ بیدی کو زبان اور محاورے پر عبور حاصل نہیں ہے۔ ان کے یہاں استوار اور منضبط نثر نہیں ملتی۔ اکثر جملوں کی ساخت میں ناپسندیدہ پیچیدگی اور طوالت نظر آتی ہے۔ ان کے بیان کا تکلف اور مصنوعی پن پوری کہانی کی فضا سے غیر آہنگ ہوتا ہے اور اس لیے ابلاغ کے مقصد کو جھٹلا دیتا ہے … بیدی الفاظ کے دروبست کا کوئی سلیقہ نہیں رکھتے … بیدی کے یہاں ان نقائص کی یہ کہ ہ کر حمایت کرنا کہ وہ پنجابی اردو لکھتے ہیں ،   محکم دلیل نہیں ہے۔ زبان کی خوبی کا بہرحال ایک معیار ہوتا ہے ،  جسے اہل زبان ہی متعین کرسکتے ہیں اور الفاظ کے بنیادی سانچوں اور عام بول چال میں آ چکنے کے بعد ان کے تغیر و تبدل کا شعور ہر اس لکھنے والے کے لیے ضروری ہے جو عام انسانوں کی زندگی کے بارے میں لکھے۔ اور معیاری،  مہذب اور تربیت یافتہ قارئین کے لیے لکھے۔ ‘‘ ۶؎

پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی زبان سے متعلق نکتہ چینی 1968سے پہلے سامنے آئی تھی تب بیدی کی زبان میں جو سقم تھا اسے خود بیدی نے تسلیم کیا اور ا نہیں دور کیا ہے۔ انہوں نے اس کے جواز کے طور پر عصمت چغتائی اور فیاض رفعت کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پنجابی کے الفاظ سے زبان enriched ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ’’مکتی بودھ‘‘ کا افسانہ ’’بولو‘‘ اور ’’صرف ایک سگریٹ‘‘ اور ’’ایک باپ بکاؤ ہے ‘‘ وغیرہ زبان کے اعتبار سے اچھے افسانے ہیں۔ ’’حجام الٰہ آباد کے ‘‘ کی زبان بھی بیدی کے ’’کوکھ جلی‘‘ مجموعے کی زبان سے کئی درجہ بہتر ہیں۔ بیدی نے کئی فلموں بشمول ’’مرزا غالب‘‘ کے مکالمے لکھے ہیں ’’دیوداس‘‘ کے مکالمے لکھے اور یہ سب فلمیں باکس آفس پر کامیاب ہوئی ہیں۔ البتہ بیدی کا کوئی دیہاتی پنجابی کردار اپنی مقامی بولی میں مکالمہ ادا کرتا ہے تو یہ کوئی معیوب چیز نہیں بلکہ اسے تو افسانے کے محاسن میں شمار کیا جانا چاہیے۔

 

                   حوالہ جات

 

۱۔ نثر کا اسٹائل کیا ہے ،  آل احمد سرور،  نظر اور نظریے ،  ص48

۲۔ افسانوی ادب کی تدریس،  ادبیات شناسی،  محمد حسن،  ترقی اردو بیورو،  نئی دہلی،  اشاعت 1989،  ص127

۳۔ بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں ،   اردو افسانہ روایت اور مسائل،  ص406

۴۔ راجندر سنگھ بیدی ایک مطالعہ،  ص433

۵۔ اردوافسانے کی نئی تنقید،  انجمن تہذیب نو پبلی کیشنز،  الہ آباد،  اشاعت2006،  ص241

۶۔ بیدی کا فن،  ادب اور تنقید،  اسلوب احمد انصاری،  سنگم پبلشرز،  الہ آباد،  اشاعت 1968،  ص314

٭٭٭

 

 

 

عبداللہ جاوید کی شاعری

(ایک تجزیاتی مطالعہ)

 

                   اکرام بریلوی(کینیڈا)

 

عبداللہؔ جاوید جو  اعلٰی تعلیم سے بہرہ ور ہیں ،  عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔۔۔۔ افسانوی ادب اور سنجیدہ کا لم نگا ری کے رموز سے واقف ہیں ،   ان کے تین دیدہ زیب شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔۔۔ انہوں نے خود اپنے نظریہ شاعری سے متعلق کئی اجمالی اور تفصیلی خیالات کا اظہار کیا ہے جس کا لُبِ لُباب کچھ اس طرح ہے۔

’’ میری رائے میں شاعری صنّاعی نہیں بلکہ خلّاقی ہے اور خلّاقی کو خالص شعوری عمل سمجھنا قرینِ قیاس نہیں۔۔۔ شعر وارد ہوتا ہے ،  لایا نہیں جاتا۔ جب وہ آتا ہے تو اپنے ساتھ وہ سب کچھ لاتا ہے جسکو ہم فارم،  اسلوب، آہنگ اور نہ جانے کیا کیاکہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ متنوّع اور مختلف فارم شاعری کے خلّاقانہ عمل میں ممد و معاون ہو تے ہیں۔۔۔۔۔ شعر میں خواہ خطابت کی روح ہو،  خواہ فکر کا عنصر،  جذبے کی آمیزش ہو کہ احساسِ جمال کا رچاؤ،  شعر اوّل اور آخر شعر رہتا ہے اور اس کو شعر کے طور پر دیکھنا ہی صحیح ترین عمل ہے۔۔۔۔۔۔ ابہام، ابلاغ میں رکاوٹ کا موجب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ ا س سے معنوں میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ جس بات کو ہم روایت سے بغاوت کہتے ہیں۔ وہ بھی روایت کے پس منظر میں نمو پاتی ہے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن میری رائے میں بکھری بکھری، ریزہ ریزہ بے نام سی چیزوں کو زندگی دینا شاعری کی جادوگری ہے اور اس زندگی کا اہم ترین اور حسین ترین مظہر انسان اوراس کے مسائل و معمولات ہیں۔۔۔۔ پابلو  نرودا نے کہا تھا۔ ’’یہ انجان گلی کا بلاوا ہے ‘‘۔۔۔۔ شاعر اس انجان گلی میں انجانی بے چینی کے دباؤ میں سر گرداں رہتا ہے کہ یہ ایک بے سمت سفر ہے اپنے آپ کے ساتھ اور اپنے سے ایک با معا نی  علیحدگی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اجتماعی شعور کے اظہار کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقۂ کار کا نام شاعری ہے۔ شاعری جو زندگی اور انسان کو قریب لا تی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور زندگی اور انسان کی رزم و بزم آرائی شاعر کے لئے سر خوشی اور نشاط و انبساط کا حیلہ اور وسیلہ بن جا تی ہے۔۔۔۔۔۔ شاعر کا رشتہ گو بظاہر اندھیروں سے ہے مگر وہ اندھیروں میں روشنی اور نور پھیلانے کو اپنا مقصود و  منشاء سمجھ تا ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں ان ہی حدود و امکانات کے اندر رہ کر عبداللہ جاوید کی شاعری کو دیکھنا،  سمجھنا اور پرکھنا ہے۔

عبداللہؔ جاوید کا عمومی موضوع انسان اور خدا،  اور ان کے اندر اور باہر جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ذیلی موضوعات ہیں دراصل ان کی شاعری کا محور صوفیا نہ افکار سے ہم رشتہ ہے۔ ان کے صوفیانہ افکار و واردات میں جو والہانہ شیفتگی و بُرشتگی نظر آتی ہے اس میں ان کے ددھیال اور ننھیال کا بڑا حصّہ ہے اور مذہبی روایات کا بھی۔۔۔۔۔ وہ تصّوف اور طریقت کو انسانیت کی ارتقاء اور تکمیل کا راستہ خیال کر تے ہیں ،  اور پایان کار،  یہی راستہ مذہبی، سماجی، عمرانی اور اخلاقی نظام سے مل جا تا ہے۔ اس اخلاقی درس کے دو مخرج ہیں۔۔۔۔۔ ایک بے لوث محبّت اور دوسرا دلِ درد آشنا۔۔۔۔۔ ان دونوں کے امتزاج سے وہ زندگی میں نہ صرف تجربات حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی شاعری میں گہرائی اور گرائی پیدا کر تے ہیں۔ انہوں نے شعوری طور پہ جو نظامِ فکر اپنے ذہن میں قائم کر رکھا ہے اس کی مثال خانقاہوں میں نظامِ عمل کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان کا یہی نظامِ فکر اک گو نا طہارتِ نفس اور پاکیزگی پیدا کرتا ہے ،  جن کے تمام ممکنات و مضمرات کو میں ’’عالمِ سرِّجاں ‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں۔۔۔ اس مقام تک پہونچنے کے لئے قلبِ ماہیت ضروری ہے ، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب شاعر اپنے زخم کرید کرید کے دکھا نے کے بجائے زمانے بھر کے غم اپنانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔۔۔ یوں تو ولیؔ اور میرؔ بھی اس’عالم سرِّجاں ‘ سے گزرے مگر ا نہیں زیادہ تر مجازؔ سے دلبستگی رہی۔ غالبؔ نے کچھ سوا ل اٹھائے ،  تحیّر، تجسّس اور تشکیک سے گزرسے۔۔۔۔ جدید دور کے شاعروں میں فانیؔ،  اصغر ؔ اور جگرؔ بادئہ تصوّف کے ذوق شناس ہیں۔ لیکن جن شعرا میں ،   خاص طور پر عالمِ انوار و اقدار اور عشقِ حقیقی کی زمزمہ سنجیاں ملتی ہیں ان میں مظہر جانِ جاناں ،  نیازؔ بریلوی، میر عبدالحئی تا باں ؔ،  میر دردؔ،  قا ئم چاند پوریؔ،  میر اخترؔ، انعام اللہ یقیں ؔسر تا سر رچے ہوئے ہیں۔ عبداللہ جاویدؔ پر ا ن ہی شعرا کا اثر ہے وہ ان کے سفیر و اسیر دکھا ئی دیتے ہیں۔ یہ بات تو یونہی درمیان میں آ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ عبداللہ جاویدؔ نے اپنی شاعری میں اس منزل تک پہونچنے کے لئے چھپ چھپ کر مژہ مژہ سیلِ خوں بہایا ہے۔ اپنے غموں کو انگیز کر کے دوسروں کے غم کو اپنا یا ہے۔۔۔۔۔ ان کی زندگی کی راتیں اس کشمکشِ سوزوسازمیں گذری ہیں۔ عبداللہ جاوید ؔبھی دنیاوی آسائشوں کے میسّر ہونے کے با وجود اسی عا لمِ کرب سے گزر رہے ہیں کہ ان کے لئے ’در غمِ دیگر بسوز ‘وظیفۂ حیات ہے اس لئے ان کے کلام میں وہ ٹہراؤ،  وہ ضبط و احتیاط،  اور عنا ں گیختگی ہے جو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جو زندگی اور عشق کی تمام صعوبتوں پر انسانعبور پا جائے اور عارفانہ تیور اور بے نیازانہ وضو کے ساتھ سب کچھ سہ لینے کے قا بل ہو جائے۔ عبداللہ جاویدؔ ہمیں دردؔ کی طرحاسی منزل پر نظر آ تے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ منزل ہے جہاں غمِ نشاط اور اضطراب ایک بلیغ سکون میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔۔۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے باہر کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے اور اسی لئے ان کی شاعری میں بھی کما حقّہ وہ سب کچھ سمٹ آیا ہے جو باہر ہے یا خود انکے اندر سمایا ہوا ہے۔۔۔۔ اور اسی لئے وہ محبّت اور عشق کی سرحد پار کر کے جنوں کی منزل کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔ وہ معرفتِ نفس کی اس منزل کوسرَ کر کے ،  معرفتِ کائنات اور معر فتِ الٰہی کو پہونچتے ہیں۔۔۔ ان کے ہاں جب جذبے پر تخیّل کی ضرب لگتی ہے تو اس میں ایک طرح کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ روشنی ان کے نز دیک تجلّیِ الٰہی ہے جو ا نہیں مشاہداتِ آب و گلِ اور کرشمۂ حیات سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس طرح خودی اور خدا ان کے ہاں ایک ہوتے نظر آ نے لگتے ہیں اور میں نے اس حقیقت کو ’عالمِ سرِّ جاں ‘سے تعبیر کیا ہے۔ آئیے اب ان سیّال کیفیات سے مملو کچھ اشعار ملاحظہ کر لیں ؎

ہماراسایہ بھی ایسا نہیں کہ اپنا ہو

وہ ساتھ ساتھ بھی رہ کر جدا جدا ہی رہا

یوں دیکھئے تو اس کا نشاں بھی کہیں نہیں

محسوس کیجئے تو وہ ہر سُو دکھائی دے

حسنِ گریز پا میں ترا آئینہ تو ہوں

لیکن وہ عکس ڈال مجھے تو دکھا ئی دے

کیا ہے عشق تو اب روکنا کیا

یہ خنجر تو رگِ جاں پر رکے گا

عشق ہے ظاہر میں خوشبو کا سفر

راستہ جاتا ہے انگاروں کے بیچ

ان تمام ممکنات و مضمرات کو میں ’عالمِسرِّ جاں ‘ سے تعبیر کر تا ہوں مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک بہار ایجاد ذہن ’نیرنگیِ جلوۂ تن‘ کی لطافتوں سے بے نیاز ہو جائے۔ عبداللہ جاویدؔ کے ہاں اس طرح کے اشعار کی تہذیب یافتہ تکرار بھی جلوہ ریز ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؎           ان تمام ممکنات و مضمرات کو میں ’عالمِ  سرِّ جاں ‘ سے تعبیر کر تا  ہوں مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک بہار ایجاد ذہن ’نیرنگیِ جلوۂ تن  ‘کی لطافتوں سے بے نیاز ہو جائے۔ عبداللہ جاویدؔ کے ہاں اس طرح کے اشعار کی   تہذیب یافتہ تکرار بھی جلوہ ریز ہے۔ ملاحظہ فرمائیں   ؎

زیرِ  پیرا ہن  بھی وہ رنگیں  بدن

سر سے پا تک  شعلۂ عریاں  لگے

کہا بھی ہم نے  وہ آدمی ہے خواب نہیں

یہ  دل  غریب مگر خواب دیکھتا  ہی  رہا

بے  ساختہ  ہنسنے کی  ادا  یاد رہے گی

ہونٹوں پہ  ہنسی، رخ پہ حیا یاد رہے گی

ہر روپ ترا دل پہ مرے نقش رہے گا

ہر بات تری مجھ کو سدا  یاد  رہے گی

اور  ’’موجِ صد رنگ ‘‘  کی نظم  ’’لب بستگی ‘‘  اور جسم کی آواز تو نیرنگیِ جلوۂ تن سے شرا بور ہیں۔  ’’موجِ صد رنگ ‘‘ میں جذبہ فکر میں لوَ دے رہا ہے تو  ’’ حصارِ امکاں ‘‘  اور اس کے بعد ’’خواب سماں ‘‘  میں فکر میں جذبے کے رچاؤ کے ساتھ فلکس (FLUX)کی سی کیفیت در آئی ہے یعنی سادگی میں ایک طرح کی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ گہرائی  اور گرائی پیدا ہوئی ہے اور عبداللہ جاویدؔ اس پر کار سا دگی میں ’آزادہ و خود بین ‘ نظر آتے ہیں یعنی انفرادیت پیدا ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے، وہ خو د ہی کہتے ہیں :۔

’’ موجِ صد رنگ ‘‘  ہو یا زیرِ نظر کتاب (حصارِ امکاں ) میرا شعری اسلوب بندھا ٹکا، سانچے میں ڈھلا یا ڈھالنے والا صنعتی، میکا نکی، دستکارانہ، مشینی، مرصّع کاری سے سجایا ہوا  بڑی حد تک ٹھو س اسلوب نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف سیّال، لچکدار  اور صد رنگ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ’’موجِ صد رنگ ‘‘  اور (  ’’ حصارِ امکاں ‘‘  ) زیرِ نظر کتاب میں جو فرق ہے وہ دو دنیاؤں کا فرق ہے میں ان میں قدرِ مشترک کے طور پر موجود ہوں۔ ‘‘

یہ لچکدار اور صد رنگ کیفیت آئندہ بھی قائم رہتی ہے اور یہی انکی انفرادی شان اور امتیازی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔

نہ تھا وہ جس کو دنیا دیکھتی  تھی

جو  تھا  وہ سامنے آتا نہیں  تھا

جسم کے اندر سفر میں  روح تک پہنچے

مگر        روح کے باہر رہے،  اندر نہیں دیکھا گیا

یا اس نظم  میں    ؎

صورت کے اندر

صورت گر دیکھوں

با ہر سب دھوکا

کیوں با ہر دیکھوں  !

اور اب وہ  جا پان کے  بین ا لاقوامی شہرت یافتہ فلسفی  نیشی دا کتا روNishida  Kitaroکے  قریب آ جا  تے ہیں، جس کا کہنا ہے   ؎

"The West has taken Being as the  ground reality,  and the East has taken nothingness and the relationship of the human  individual to either or  both of these  conceptions”

اس اقتباس کی روشنی میں درجِ ذیل شعر او ر نظم  ’’ سب میں ہوں مگر سب نہیں ہوں ‘‘  کے بعد ملاحظہ فر مائیں۔

نہ ہو نے پر بھی ہوں، میں ابتدا سے انتہا تک ہوں

مرا ہونا کوئی دیکھے، میں بندے سے خدا تک ہوں

سنّا ٹے  میں  کوئی  صدا سی  دیتا ہے

سنّاٹے میں بھول نہ جانا، میں بھی ہوں

’’ وا ، صورتِ زخم تھا

اب نہیں ہوں

فریاد تھا، پہلے اب نہیں ہوں

۔ ۔ ۔ گو، میرا نفس نفس ہے روشن

مانگی ہوئی تاب و تب

نہیں ہوں

دشمن ہوں ازل سے تیرگی کا

میں سنگِ فصیلِ شب نہیں ہوں

مثبت ہوں

نفی سے صلح ککر لوں

اتنا بھی تو با ادب نہیں ہوں  ‘‘

اور

’’موجود  ازل  سے ہوں ، ابد تک        اے وقت بتا  میں کب  نہیں  ہوں

کثرت  میں  ہوں  وحد تِ  مبیّن

سب میں ہوں مگر میں سب نہیں ہوں۔ ‘‘ (حصارِ امکاں )

میں اس مضمون کے شروع میں کہہ چکا ہوں کہ عبداللہ جاوید ؔ کا عمومی موضوع’ انسان اور خدا ‘ سے ہم رشتہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ تصوّف اور طریقت کوانسا نیت کی ارتقاء اور تکمیل کا راستہ تصوّر کرتے ہیں یہی سبب ہے کہ انسان اپنے پورے، رومانی، ذہنی، جذبا تی، مادّی اور جسما نی وجود کے ساتھ (ان ہی کے الفاظ میں ) گنگناتا، ہمکتا،  روٹھتا، اور منتا نظر آ تا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں کم و بیش وہ سب کچھ بھی ہے جو ان کے عمومی موضوع  کے اندر اور با ہر پھیلا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اس پھیلے ہوئے موضوع میں زندگی اور اس کی ناکامیاں اور ناہموا ریاں بھی ہیں، فطرت کا جلال و جمال بھی ہے، قدرت کے مناظر کا حسن، پھولوں کے رنگ، آزادی کی تڑپ، بھور سمے کا جا دو، اور شام کا طلسم بھی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقت کی سوفطا  ئی وسعت کا تصوّر بھی ہے اور حیات کی دلکشی  اور دکھ کے ساتھ ایک طرح کا گہرا احساس بھی۔ ۔ ۔ زمانے کی شکایت بھی ہے اور خود آ گہی اور خدا آ گا ہی کا کرب اور اعتماد بھی ہے۔ ۔ ۔ ما درِ گیتی کی خوشبو بھی ہے اور نوعِ انسا ن کا درد بھی ہے اور روایات کا لحاظ بھی۔ ۔ ۔ اور جدّتِ ادا کی مختلف  صورتیں بھی جلوہ گر ہیں۔ ۔ ۔ یعنی عبداللہ جاویدؔ زندگی کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری کم و بیش پوری زندگی کی  وسعت پر حا وی ہے۔ ان کی غز لوں سے کچھ اشعار اور منظومات سے چند حوالوں کی جھلکیاں ملاحظہ  ہوں :۔

ہم خدا کو بھی بسالیں دل کے بیچ

شرط یہ ہے  وہ ہمیں انساں لگے

اسی نے تیرگیِ شب کی باگ موڑی ہے

وہ  ایک  شعلہ جو  تا صبح کانپتا  ہی رہا

خامو شیوں  میں  سرِّ نہاں  کھولتا  ہوا

گونگاہے لاکھ پھر بھی سراپا زباں ہے وقت

کل کائنات اپنے  جلو  میں  لئے ہوئے

جا ویدؔ ہست و بود کا  اک کارواں ہے وقت

یہ  وقت  گزر رہا ہے  یا میں

خود  وقت ہوں اور  گزر رہا ہوں

اگلے لوگ تو فصلِ جنوں میں دامن چاک پھرا کرتے تھے

آج  جنوں  کہتا ہے  مجھ سے  دامن کا  ہر چاک سیوں

ترے  کوچے میں تھا  یہ بات سچ ہے

میں   زیر ِ  سایۂ   دیوار  کب   تھا

جمالِ  یار  کا  جاد و  نہیں  تو  پھر کیا  ہے

چمن چمن جو فروزاں ہیں رنگ و بو کے چراغ

اور بھی تھے اس کی محفل میں باتیں سب سے ہو تی تھیں

سب  کی  آنکھ  بچا کر اس نے ہم کو  تنہا  دیکھا  تھا

چاند گگن میں ایک ہے لیکن عکس ہزاروں پڑتے ہیں

جس کی لگن میں ڈوب گئے ہم، دریا میں اک سایہ تھا

وہ روئے سادہ جو دیکھا تو یاد بھی نہ رہا

کہ لوگ ہم نے کئی ماہتاب سے دیکھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہو کی بوند

حیات آفریں لہو کی بوند

جگر کی آگ

سلگتے ہوئے جگر کی آگ

ڈھلکتے ا شک

کسی ماں کی مامتا کے چراغ

اجڑتے لٹتے ہوئے دلہنوں کے پیار، سہاگ

کراہیں بوڑھوں کی

بچّوں کی سسکیاں، آہیں

جوان سینوں سے ٹکرا تی گو لیوں کی پکار

لہو کے چھینٹوں سے رنگین

سرخ سنگینیں

بموں کے دہن

اگلتے ہوئے دھواں اور آگ

مناؤ جشن تو ان کا بھی کچھ خیال کرو

یہ مانا خاک سے گلزار ہو گئے پیدا

کھلے ہیں کو بہ کو غنچے

گلی گلی کلیاں

بہار آئی ہے، دورِ خزاں تمام ہوا      (شہر شہر جشن)

ان کے علا وہ  ’’سفر ‘‘ ،  ’’انتہا ‘‘ ،  ’’ اقوامِ متحدہ‘‘  اور چند دوسری نظمیں بھی توجّہ کی مستحق ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ عبداللہ جاویدؔ کی شاعری باطنی سطح پر اپنے قاری کو منفی روّیوں سے آزاد اور نشا طِ غم کی عرفا نی تہذیب عطا کر تی ہے جو تزکیۂ نفس اور ارتقائے ابدیت کی الہا می سطح ہے جہاں لفظ محض لفظ نہیں رہتا گنجینۂ معنی کا طلسم بن جا تا ہے۔

عبداللہ جاوید ؔکی شاعری میں کثرت سے بلکہ تکرار کے ساتھ جبر، استحصال اور انسانی جذبوں کی بدلتی شکلیں، طبقاتی، علاقائی مسائل  و مظالم اور فکرِ حیات کے حوالے سامنے آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان میں  ’’پھول نظمیں ‘‘   خصوصی توجِہ کی اس لئے مستحق ہیں کہ ان میں کہانی ، کردار اور کرداروں کا عمل اور ردِّ عمل بھی ابھر کے آتا ہے۔ اِن انوکھی نظموں سے چند جیتی جاگتی مثالیں ملاحظہ فرمائیں :۔

۔ ۔ ۔ ۔ پھول حوالہ ہے

تخلیق کی صورت میں

خالق کا اجالا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ پھول کو اپنانا

آساں  تو ہے پہلے

جاں  سے گزر جا نا

۔ ۔ ۔ ۔ پھول سے مت کھیلو

پتّی پتّی ہونے کا

دکھ پہلے جھیلو

۔ ۔ ۔ ۔ پھول کے چوکیدار

رنگ و  بو  پر  پہرے وہرے

سب کے سب بے کار

۔ ۔ ۔ ۔ پھول پہ رکھ کر پاؤں

جب واجا نے مونچھ مروڑی        (واجا۔ مکرانی  سردار  )

رویا  سارا گاؤں

عبداللہ جا ویدؔ نے طنزیہ لہجے کو اس طرح اپنایا ہے کہ اس میں تلخی اور چراندھ کے دھوئیں کے بجائے ایک طرح زندگی آمیز خلش سی کھٹکتی اور چبھتی رہتی ہے اس کارِ ہنر میں وہ اکبر الہٰ آبادی کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

ہم تو بندے ہیں،  خدا کا  بھی  تصوّر جاویدؔ

ہر زمانے میں بدل جاتا ہے حالات کے ساتھ

صحرا صحرا،  گلشن گلشن ، شبنم  کا   انجام

چڑھتے سورج کی پوجا میں کس کو رہا  ہے یاد

کھا پی کر جب راجا رات جگاتا ہے

اس  کی بھوکی پر جا سو ہی جا تی ہے

’’  قلو پطرہ ‘‘  والی نظم طویل ہے اس لئے نقل سے گریز کر رہا ہوں۔ اس نظم کے لطیف طنزیہ لہجے کو سمجھنے کے لئے نظم  کا مطالعہ از بسکہ ضروری ہے۔ ملاحظہ ہو صفحہ۔ ۱۴۰۔ ۳۶ ۱۔ (موجِ صد رنگ ) ’’خواب سماں ‘‘ ۔  ’’  میں گراؤنڈ زیرو ‘‘  او ر  ’’  خونی ریکھا ‘‘   کا بین ا لسطور طنزیہ لہجہ بھی خا صے کی چیز ہے۔ ان دونوں نظموں میں طنز کی کاٹ اور تیزی  دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔

عبداللہ جاویدؔ اپنے بیٹے اسد جاوید کے پاس شگا گو  میں تھے اور میں یہ مضمون لکھ رہا تھا یہ تو میری سمجھ میں آ گیا تھا کہ درویشی و دل ریشی تو انہیں ددھیال اور ننھیال کے حوالے سے ورثہ میں ملی ہے۔ مگر حبِّ اہلِبیت کی روشنی کی کرن کہاں سے آئی۔ بالآخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا۔ بے ساختہ بولے  ’’ یہ برقِ تجلّی کی دین ہے جو خانہء دل میں جوں کعبہ روشن و منوّر ہے۔ ‘‘   بات سمجھ میں آ گئی۔ یہی سبب ہے کہ کربلا کا شعری استعا رہ طرح طرح سے ان کی شاعری کی زینت بنا ہے۔ کہیں اس میں معنوی  تہہ نشینی، کہیں رمزو کنا یہ کی اثر آفرینی ہے۔ کہیں اس کا بر ملا اظہار ہوا ہے۔ کہیں اس نے تاریخی واقعات کی شکل اختیار کر لی ہے۔ آئیے اس کی چند مثالیں بھی ملاحظہ کر لیں :

کربلا میں سر کٹا کر بھی نہیں ٹھہرے حسینؐ

تا قیامت   بر سرِ  نیزہ  سفر  جاری  رہا

اے مصلحت کی پست زمینوں کے با سیو

کتنی   بلندیاں  ہیں  سرِ دار   دیکھنا

دستِ ستم کی پیاس لہو سے بجھا  گئے

دیوا نے ریگِ زار میں گلشن کھلا گئے

رِدائیں پھر سروں سے کھنچ  رہی ہیں

زمینِ  کربلا چپ چاپ  سی  ہے

صرف کعبہ پر نہ تھی حجّت   تمام

بعدِ کعبہ  کربلا،  رکھنی  ہی تھی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں شاعری بڑے شوق سے پڑھتا ہوں لیکن شاعری کے نقّادوں کی طرح رائے نہیں دے سکتا کہ میں نے اسے کبھی اس نظر سے پڑھا  ہی نہیں اور نہ ہی مجھ میں اتنی صلاحیّت ہے کہ موزوں طبع ہونے کا دعویٰ کر سکوں۔ لیکن جب کچھ اشعار دماغ سے گزرنے کے بعد دل کے کسی پوشیدہ گوشے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اس سے آگے روح میں اگر دا خل نہ بھی ہوسکیں لیکن اس کے ارد گرد منڈ لا نے لگیں۔ ست رنگی تتلیوں کی طرح۔ تو یقین جا نئے کہbliss  کی سی کیفیت طا ری ہو جا تی ہے اور یہی کیفیت آپ کے مجموعے کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوئی۔ آپ نے نجا نے کتنی جگر سوزی سے یہ کلام تخلیق کیا ہو گا۔ مجھے تو یہ عطیہ بے دام ہی مل گیا۔ از حد مسرت ہوئی اور  بے حد ممنون بھی ہوں۔

دیوندر اِسر

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عبداللہ جا ویدؔ کی بیس سالہ کا وشوں کا نچوڑ موجِ صد رنگ کی صورت میں ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ساتھ ہی ان کے وہ مضا مین بھی جو محتلف رسائل کی زینت بنے۔ ہمیں اس نظرئے کی تلاش ہے جو جاویدؔ کا ایمان بن کراس کے ان ادب پا روں کے تمام جھرونکوں سے جھانک رہا ہے۔ جا وید ؔنے شاید اپنی ان تخلیقات کو ذریعہ بنا کر ان قدروں کے پر چار کا بیڑہ اٹھایا ہے جو زندگی، احساسِ شعور، وجدا نِ فکراور ان سب سے بڑھ کر انسا ن کی عظمت کی علمبردار ہیں۔ عبداللہ جاویدؔکے نز دیک فن کا معیار آفا قی اور اسے پرکھنے کے لئے کسوٹی انسان۔ وہ انسان جو بلا تخصیص خطہ، مذہب، زبان، رنگ ا ور نسل کے صرف سانس کی آتی جاتی دو دھاری تلوار کی زد میں ہے۔

عبداللہ جا وید نے خود شاعری کی تعریف یوں کی ہے کہ میری رائے میں شاعری  صنّاعی نہیں بلکہ خلّاقی ہے۔ خلّاقی کوخا لص شعوری عمل سمجھنا قرینِ قیاس نہیں۔ تنقیدی شعور کے اس درجے پر پہنچنے والے شا عر کے یہاں داخلیت اور خارجیت دونوں فکرو احساس کے بلند مرتبے ملنا کوئی مشکل نہیں۔ شاید اس لئے جاویدؔ کے ہر تیسرے شعرمیں یہ بات واضح نظر آتی ہے۔ ان نظموں میں :تم جو اَب سامنے ہو، یہ بھی کیا کم ہے، قلوپطرہ، زیست، بھاگتے لمحے بدلتے روپ، نوشتۂ دیوار، لہو عظیم ہے یارو، اور  ویت نام ایک  لمحۂ فکریہ، بہت خوبصورت نظمیں ہیں۔                                                                                            انوار احمد زئی

٭٭٭

 

 

 

 

ایک یادگار مشاعرہ

 

                   ڈاکٹر نذر خلیق (اسلام آباد)

 

ریاست بہاول پور نہ صرف فروغ اسلام میں مستعد تھی بلکہ علم و ادب کے فروغ میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ درحقیقت اس ریاست کے بانی اوّل بغداد کے حکمرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور عّم آنحصورؐ حضرت عباس کی اولاد میں سے تھے اس لیے اسلام اور علم سے شغف فطری  تھا اس سلسلے میں حکیم یوسف حسن نیرنگ خیال میں لکھتے ہیں :

"دولت عباسیہ کی علمی سرپرستیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں، علم و عرفاں کا ایک نور ریاست بہاول پور سے اٹھ رہا ہے جو خطہء پنجاب وسندھ کو منور بنا دے گا۔ ریاست میں ایک درجن کے قریب ہائی سکول، ایک ڈگری کالج (۱) اور ایک مرکزی دینی درس گاہ(۲) ہے جو ایک دن علوم مشرقیہ کی جامع یونی ورسٹی بنے گی۔ انہی دِنوں مجروحین جنگ کی امداد کے لئے جلسہ عام چندے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کے لیے بھی فرض شناس عہّدے داران نے اپنی ریاست کی روایات دیرینہ کے مطابق ایک آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد ضروری سمجھا تاکہ فراہمی زر کے ساتھ کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی سرپرستی بھی ہو۔ اس موقع کے لیے ہندوستان بھر کے صاحبانِ ذوق اور شعرائے کرام کو مشاعرہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ کم و بیش مختلف اطرافِ ملک سے جو شعرا شامل مشاعرہ ہوئے ان کی تعداد سو سے زائد تھیـ” (۳)

حکیم یوسف حسن نے جس مشاعرے کا ذکر کیا ہے وہ ایک ایسا مشاعرہ تھا جو پون صدی گزرنے کے باوجود ابھی تک اپنی یادیں قائم رکھے ہوے ہے۔ مشاعرے تہذیب و  ثقافت کا جزوِّ لاَینفک ہوا کرتے تھے۔ بلکہ مشاعرے کسی بھی مہذّب معاشرے کے یے نہ صرف علمی بصیرت کا موجب ہوا کرتے تھے بلکہ تفریح اور دل بستگی کا سامان بھی مہیا کرتے تھے۔ مشاعروں کا آغاز خواجہ میر درد سے شروع ہوا  اور اس کے بعد دہلی اور لکھنو کے مشاعرے ایک زندہ تاریخ رکھتے ہیں۔ جب ان مشاعروں کی روداد سامنے آتی ہے  تو بہاول پور ریاست میں ہونے والے مشاعرے کی یاد یں تازہ ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ بہاول پور میں ہونے والا مشاعرہ اپنے انتظام و انصرام کی وجہ سے منفرد اور بے مثال تھا اس سلسلے میں ایک مرتبہ پھر حکیم یوسف کی رائے ملاحظہ ہوـ:ـ

” آج کل ہندوستان کے بڑے بڑے ادبی، علمی مرکزوں میں مشاعرے ہوتے رہتے ہیں، بلکہ بعض اوقات دیہات اور قصّبات میں بھی ایسی مجلسیں قائم ہو جاتی ہیں۔ جنگ کے زخمیوں کے لیے امداد باہم پہچانے اور سرمایہ فراہم کرنے کی غرض سے جو مشاعرے قائم کیے گئے ہیں ان سے ازسرنو ادبی حلقوں میں زندگی اور زندہ دلی پیدا ہو گئی ہے۔ ان مشاعروں کی شان و شوکت کچھ ایسی بلند ہو گئی ہے کہ عہد قدیم کے مشاعروں کی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں بہاول پور کا مشاعرہ واحد اور لا ثانی سمجھا جا سکتا ہے” (۴)

میں سمجھتا ہوں کہ بہاول پور میں ہونے والے مشاعرہ دہلی اور لکھنو کے مشاعروں سے بھی زیادہ منفرد مشاعرہ تھا، اس لیے کہ یہ مشاعرہ صرف مجرومینِ جنگ کی مالی مدد کرنا مقصود تھا بلکہ ریاست بہاول پور کے لوگوں کے لیے علمی تفریح کا سامان بھی مہیا کرنا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس مشاعرے میں سامعیں کے لیے مختلف درجے مقرر کیے گئے اور ہر درجے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ جاری کیے گئے اور جمع ہونے والی رقم کو مجرومین کے لیے وقف کیا گیا۔ اس مشاعرے کو آل انڈیا مشاعرہ کا نام دیا گیا، اس کے چار  اجلاس ہوے۔ پہلا اجلاس  29اپریل، 1943ء(۵) صبح ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک رہا۔ دوسرا اجلاس چار بجے سے ساڑھے سات بجے تک جبکہ چوتھا اجلاس 30اپریل، 1943ء  صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوا۔ پہلے اجلاس کی صدارت نواب مخدوم مرید حسن قریشی ایم ایل اے سنڑل ملتان نے کی، دوسرے اجلاس کی صدارت خان بہادر محمد اسلم سیفی ریئس شہر میرٹھ نے، تیسرے اجلاس کی صدارت سر عبدالقادر چیف جسٹس ریاست بہاول پور یے کی، جبکہ چوتھے اجلاس کی صدارت مولانا ظفر علی خاں نے کی۔ یہ مشاعرہ اپنی نوعیت کا بے مثال مشاعرہ ہے کیونکہ اس مشاعرے میں کچھ ایسی روایات قائم کی گئی، جو اس سے پہلے بہت کم دکھائی دیتی ہیں مثلاً شاعروں کو بلانے کا طریقہ منفرد تھا تمام شعراء کے نام الگ الگ چٹ پر لکھ کر صدر مشاعرہ کے سامنے رکھ دیے گئے جو ایک چٹ اٹھاتے اور جس کا بھی نام اس چٹ پر لکھا ہوتا اسے سٹیج پر بلایا جاتا اور یوں مراتب کے لیے جو شعراء میں سرد جنگ رہتی ہے اس کا اختتام کر دیا۔ پہلے اجلاس میں سب سے پہلے مولانا ظفر علی خاں کا نام نکلا اور سب سے آخر میں حاجی لق لق(لاہور) نکلا۔ پہلے مشاعرے میں دیگر شعراء میں آغا سر خوش دہلوی، دل شاد بہاولپوری، تاج لاہوری، تخت سنگھ لائل پوری، حضرت سیماب اکبر آبادی، اسد ملتانی، نخشب میرٹھی، شجاع ناموس بہاولپوری، خرم بہاولپوری، جوش ملسیانی، شکیل بدایونی، صابر دہلوی، نفیس خلیل امرتسری، اصغر بھوپالی، رساہ جالندھری اور ائرصبائی۔

دوسرے اجلاس میں سب سے پہلا نام عبدالرحمن آزاد اورسب سے آخری نام مولانا ظفر علی خاں کا نکلا۔ دیگر شعراء میں محسن خان پور، (۶)بدرالدین فیروزپوری، شکیل بدایونی، سیماب اکبرآبادی، نیاز بہارکوٹی، جلال الدین لبیدبہاول پوری، تلوک چند راول پنڈی، عیش فیروزپوری، جگن ناتھ آزاد، ارشد بدایونی، ہم دم کراچی، ساحر کپور تھلوی شامل ہیں جبکہ تیسرے اجلاس میں سب میں پہلا نا م سکھ دیو پرشاد، بسمل اللہ آبادی اور سب سے آخری نام رضی میرٹھی کا نکلا۔ دیگر شعراء میں نفیس خلیلی، ایوب شاہد نسیم، اقبال میرٹھی، ارشد میرٹھی، روش صدیقی، قمر میرٹھی، الہ نوازخاں ڈیرہ غازی خاں، کشفی الاسدی ملتانی، اسد بہاول نگری، رفیق بہاول پوری شامل ہیں۔ جبکہ آخری اجلاس میں پہلا نام منور عاصی اور آخری نام مولانا ظفر علی خاں کا نکلا۔ دیگر شعراء میں مختار نبی بہاول پور، عزیزالرحمن بہاول پور، عبدالقدیر جوہر آبادی، روش صدیقی، علامہ حسین میر کاشمیری، فاضل مشہدی امرتسری، تسلیم ملتانی، اسد ملتانی، دل شاد کلانچوی، عبدالحق شوق بہاول پوری، عبدالقادر بہاول پوری، ساز عاصی، خوجوی خانقاہ شریف اور بشیر ملتانی شامل ہیں۔

یہ مشاعرہ صادق ایجرٹن کالج بہاول پور کے وسیع و عریض پنڈال میں منعقد ہوا۔ جس میں دس ہزار سے زیادہ اصحاب کے لیے جگہ تیار کی گئی (۷)

اس سلسلے میں حفیظ الرحمن حفیظ لکھتے ہیں ـ:

"نشست کا تمام انتظام زمین پر تھا سٹیج سے قرب و بعد کی بوقلمونی کے لحاظ سے مدارج کا پتہ چلتا تھا۔ سٹیج کے با لکل قریب اعلیٰ درجے کے ایرانی قالین پر خاص نشستیں مرتب کی گئی تھیں جس کو گاؤ تکیوں سے ممیز کیا گیا تھا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر نشست ہائے حصّہ دوم، سوم، چہارم اور پنجم کے لیے وسیع جگہ بنائی گئی تھیں۔ آخیر درجوں میں دریوں کا فرش تھا۔ ہر ایک درجے کے درمیان موٹی رسی کی حد بنائی گئی تھی جس سے امتیاز کیا جاتا تھا۔ اگرچہ پہلے ٹکٹ کا ابتدائی گریڈ دو سو روپے سے شروع ہو کر دو روپے یا اس سے زائد تک کا مقر ر ہو ا تھا مگر اس مشاعرے کے استفادہ کو عام کرنے اور کم تضاعت اصحاب اور طلبہ کے لیے رعایتی شرح بھی تجویز کر دی گئی تھی، اس سے ہزاروں متوسط آمدنی کے اصحاب نے بھی حّصہ لیا۔ جو زیادہ رقم برداشت نہ کر سکتے تھے۔ ” (۸)

حفیظ الرحمن حفیظ نے جس انتظامی معاملے کی منظر کشی کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پون صدی قبل مشاعرے کی بہت زیادہ اہمیت تھی کہ برصیغر سے شعراء کو مدعو کرنا اور ان کے لیے انتظام  و انصرام کا شاندار بندوبست کرنا اور اتنی بھاری ٹکٹ کی شرح مقرر کرنا آج کے عہد میں عجوبہ لگتا ہے کہ آج لوگ مفت بھی مشاعرے میں شرکت کرنا گوارا نہیں کرتے، درحقیقت اقدار بدل گئی ہیں۔ تہذیب و تمدن کے معیارات تبدیل ہو گئے ہیں جدید ترقی نے پرانی روایات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے وہ روایات جو سادہ تھیں شاندار تھیں اور جن میں علم و ادب کا سامان  ہوتا تھا۔ بہاول پور کا مشاعرہ ریاستی سطح پر ہوا ور اس مشاعرے کے منتظمین میں نواب آف بہاول پور اور سر عبدالقادر جیسے نابغہ علم و ادب شامل تھے۔ میں یہاں اس مشاعرے میں شامل ہونے والے چند شعراء کا  نمونہ کلام پیش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں واضح رہے کہ یہ وہ کلام ہے جو اس وقت مشاعرے میں پڑھا گیا۔

؎       چراغ اسلام کا روشن مکان سے لا مکاں تک ہے

مسلمانوں کی گیرائی زمین سے آسماں تک ہے

؎      نصیب اچھے ہیں ان نازک خیالوں کے، پہنچ جن کی

بہاول پور کے فرماں روا کی آستاں تک ہے (۹)

 

؎       جب پریم کے جھونکے آتے ہیں بن کی مدہوش فضاوں میں

جب رات کو عشق مچلتا ہے جنگ کی  مست ہواوں میں

؎      یوں رات گزرتی ہے میری آخر تھک کر سو جاتا ہوں

اے ساری دنیا کے مالک کیا میں بھی تجھے یاد آتا ہوں (۱۰)

 

حشمت و اقبال کی خواہش نہ ہے زر کی طمع

کب ہمیں ملک  و  مال لعل و گوہر کی طمع

کیا بتائیں ہم دلِ بے تاب و مضطر کی طمع

کون رکھتا ہے یہاں فرش مشجر کی طمع

آپ کے کوچے میں ہے یا شاہ بستر کی طمع(۱۱)

؎       حکم دانش سے ہے فضا پر نور

گوشہ گوشہ ہے علم سے معمور  (۱۲)

 

؎      تیغ قاتل مرا گلا نہ ہوا!

مجھ سے حق وفا ادا نہ ہوا

 

؎     حکم کرتا ہے وہ خدائی پر

کیا ہوا بت اگر خدا نہ ہو ا  (۱۳)

 

حوالہ جات / حواشی

 

۱۔     ڈگری کالج سے مراد گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج بہاول پور ہے۔

۲۔    دینی درس گاہ سے مراد  دی اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور ہے۔

۳۔    حکیم یوسف حسن نیرنگ خیال لاہور،  مئی 1943 ئ، ص ۷

۴۔     ایضاً۔ ص ۶

۵۔     سید بشیر احمد فرحت، نخلستانِ ادب، بہاول پور، 1986ئ، ص ۴۷

۶۔     محسن خان پوری، عبدالرحمن آزاد کے والد تھے اور مشاعرے کے اس دوسرے اجلاس میں ان کو اپنے بیٹے کے بعد کلام سنانے          کا موقع ملا۔

۷۔    نخلستان ادب، ص۴۸

۸۔    ایضاً۔ ص۴۸

۹۔    نیرنگ خیال، لاہور، ص ۱۷

۱۰۔   نیرنگ خیال، لاہور، ص ۱۹

۱۱۔    نیرنگ خیال، لاہور، ص ۱۹

۱۲۔   نیرنگ خیال، لاہور، ص ۱۹

۱۳۔   نیرنگ خیال، لاہور، ص۳۵

٭٭٭

 

 

 

 

نسیم انجم ایک ایسی لکھاری نہیں جن پر توجہ نہ دی جائے

 

 

                   انوارؔ فریدی(کراچی)

 

ادب تخلیقی عمل اور تنہائی، تنہائی ایک طرف عذاب جاں ہے اور دوسری طرف تنہائی میں ذہنی قوتیں مجتمع ہوتی ہیں۔ یکسوئی میسر آتی ہے۔ تقریبات میں دوسروں سے گفتگو کے دوران ذہن کی قوتیں کسی اور مد میں خرچ ہو جاتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کسی محفل میں کسی کی کوئی بات یا آتے جاتے کوئی چیز کوئی واقعہ سامنے آنے پرکسی آزاد یا پابند تلازمے کا وجود پذیر ہونا ممکنات میں سے ہے۔

دورانِ مشاہدہ اور تنہائی، دونوں صورتوں میں ذہن کا متحرک ہونا اور تخلیق کار کے لیے تخلیقی اکائی فراہم ہونا ایک غیر ارادی عمل ہے۔ اس تخلیقی اکائی، امیج کے حاصل ہونے پر تخلیق کار کی وجدانی قوتیں متحرک ہوتی ہیں اور تخلیقی کام آگے بڑھتا ہے۔ اور جب کاغذ پر اسے منتقل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو یکسوئی اور قوتِ متخیلہ اس میں وہ رنگ بھکر دیتی ہیں جن کا اندازہ ابتدائی لمحات میں خود تخلیق کار کو بھی نہیں ہوتا۔ اور جب کوئی غزل، نظم، افسانہ، ناول مصوری کا کوئی شاہکار، مجسمہ، موسیقی کی نئی دھن، نئی ترتیب تکمیل پا جاتی ہے تو تخلیق کار خود بھی حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ یہ حیرت ایک عجیب خوشی تخلیق کار کو فراہم کرتی ہے۔ جو اس کا ذاتی سرمایہ کہلاتی ہے۔ اس ضمن میں نسیم انجم کے ناول  ’’نرک‘‘ سے …

’’وہ اب اس ماحول میں اپنے آپ کو گھٹا گھٹا سامحسوس کر رہا تھا۔ جگہ جگہ پان کی پیک کے دھبے، بڑے بڑے سلور اور تانبے کے اُگالدان جو اُگلے ہوئے پان اور چھالیہ سے بھرے ہوئے تھے۔ میلی اور چیکٹ بالوں کی وگیں اور چوٹیاں پلنگ پر پڑی تھیں۔ میز پر مختلف دواؤں کے پیکٹ رکھے ہوئے تھے۔ کسی کو دائمی کھانسی تھی تو کسی کو گٹھیا اور عرق النساء کا درد۔ دواؤں کی بو …ہائے اوئی اور گھٹیا فقرے بازی اور پھبتیاں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ بڑے بڑے جن نما میکپ زدہ چہرے سگریٹ کا دھواں، حقے کی گڑگڑاہٹ، چٹائی کی ٹوکریاں جن میں گھنگروؤں کی جوڑیاں، ڈفلی اورستار رکھا تھا…‘‘ ۔

یہ نسیم انجم کے ناول ’’نرک‘‘ کا ایک پیراگراف ہے۔ جو ناول کے ایک مرکزی کردار دانش کے محسوسات کو ظاہر کر رہا ہے ۔ یہ سب چشم دید نہیں بلکہ چشمِ تصور کی کرشمہ سازی ہے۔ نسیم انجم کے تخلیقی انداز سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی تجربہ، واقعہ ان کے قلم کو متحرک کرتا ہے اور پھر ان کی قوتِ متخیلہ ان کا پورا پورا ساتھ دیتی ہے۔ معاملہ ان کے افسانے کا ہو یا ناول کا، جذبات نگاری اور ماحول پیش کرنے میں ان کے مشاہداتی تجربات اور قوتِ متخیلہ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نسیم انجم جو افسانہ نگار، ناول نگار  اور کالم نگار بھی ہیں، قلم کاری سے ان کا رشتہ تیس سال سے قائم اور رواں ہے۔ ان کا پہلا افسانہ خواجہ حمید الدین شاہد کی ادارت میں شائع ہو نے والے ماہنامے  ’’سب رس‘‘ (۱۹۸۲ء میں ) شائع ہوا۔ اور صاف ظاہر ہے کہ افسانہ نگاری ۱۹۸۲ء سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ اس دوران ان کے افسانوں کے تین مجموعے، تین ناول منظر عام پر آ کر اہلِ ادب سے مناسب داد و تحسین پا چکے ہیں۔ اچھی اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے تخلیقی سوتے ابھی خشک نہیں ہوئے۔ حال ہی میں ان کی ایک طویل تحقیقاتی اور تجزیاتی کتاب  ’’خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زَن‘‘ بھی منظر عام پر آئی۔ کچھ اور کاوشوں کی بھی نوید ہے۔

نسیم انجم کے مجموعی کام کا مکمل تجزیہ ایک لمبا اور کچھ مشکل کام ہے۔ اختصار کے ساتھ ان کے تخلیقی اطوار پر کچھ لکھنے کی کوشش میں ہوں اس سے ان کے مجموعی کام کی مجموعی صورتِ حال بھی کسی حد تک سامنے آ جائے گی۔

نسیم انجم کے ناول ’’نرک‘‘ پر بڑے شاعر اور معتبر نقاد جناب احمد ہمدانی نے تحریر فرمایا:

’’اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ پہلا ناول ہے۔ تیسری جنس کے مسائل، ان کی بول چال، رہن سہن، رسم و رواج، طور طریقوں کی بے حد مؤثر انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔  ’’نرک‘‘ کا شمار کامیاب ترین ناولوں میں ہو گا‘‘ ۔

میں بھی جناب احمد ہمدانی کی فرمائی بات سے متفق ہوں۔ تیسری جنس کے بارے میں افسانے بے شمار لکھے گئے، کچھ افسانوں میں کسی بھی زاویے سے ان کے مسائل کا ذکر بھی ہوتا رہا۔ معروف شاعر احمد نوید کی شریکِ حیات عفت نوید کا خوبصورت افسانہ تیسری جنس کے موضوع پر سامنے ہے اور بھی لاتعداد نام موجود ہیں۔

کراچی کے ایک معروف اور عمدہ شاعر جو اب امریکہ میں مقیم ہیں محترم ن م دانش کی ایک نظم جو ایک ہیجڑے کی بوری بند لاش ملنے پر سامنے آئی۔ اس نظم میں ن م دانش نے بڑے خوبصورت تاریخی اشاروں میں ہیجڑے کی زبانی یہ فریاد کی کہ ان شہنشاہوں، امراء، جاگیرداروں کی محفلوں میں ناچنا گانا ہیجڑوں کی مجبوری تھی۔ ہم تو خوشیاں بانٹنے والے ہیں ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہم کسی کا برا نہیں چاہتے۔ پھر ہمیں کس جرم کی سزا میں قتل کرتے ہو۔ یہ نظم ان کے مجموعۂ کلام ’’بچے، تتلی، پھول‘‘ میں موجود ہے۔

نامور شاعر ہ کشور ناہید کی ایک عمدہ نظم میں ہیجڑی کا ایک کرب سامنے آتا ہے کہ بچوں کو دیکھ کر اس کے دل میں محبت لہراتی ہے۔ مامتا کا احساس جاگتا ہے لیکن آہ بھر کے رہ جاتی ہے کہ وہ  ’’ماں ‘‘ نہیں بن سکتی۔ اس موضوع کی شاعری میں بھی گونج موجود ہے۔

کسی بھی کام کے سلسلے میں بات آتی ہے  ’’اوّلیّت‘‘ اور ’’افضلیت‘‘ کی۔ اس ضمن میں یہ حقیقت ہے کہ تیسری جنس کی زندگی کا احاطہ کرتا ہوا پہلا ناول نسیم انجم کا تخلیق کردہ ہے۔ یوں انہیں اوّلیت حاصل ہے اور جب تک اس موضوع پر ان سے زیادہ وسعت اور باریک بینی سے کوئی اور ناول سامنے نہیں آ جاتا۔ اس ناول کا معیار دیکھنے تک افضلیت بھی نسیم انجم کو حاصل رہے گی۔

نسیم انجم کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں خوجہ سرا قابلِ رحم نظر آئے۔ ہیجڑوں کے بارے میں معلومات، فیچرز  اور پروگراموں کے ذریعہ حاصل کیں اور جب ٹریفک سگنل بند ہو نے پر گاڑیوں کے پاس آ کر ہیجڑے بھیک مانگتے تھے تو وہ ان سے کچھ سوالات ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں ضرور کیا کرتی تھیں۔ یوں اس ناول  ’’نرک‘‘ کا تانا بانا بنتا چلا گیا۔

ناول ’’نرک‘‘ میں ہیجڑوں کے ذاتی دکھ درد، ان کے جرائم، ان کی زندگی کے پیچ و خم، ان کی ذاتی جذبات، ان کا ماحول، ان کی آپس کی گفتگو کا انداز جس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے وہ ایک دوسوال پوچھنے کے عمل سے کہیں آگے کی بات بنتی ہے۔ یہاں نسیم انجم کی قوتِ متخیلہ پوری آب و تاب سے سامنے آتی ہے۔ ہیجڑوں کے چیف یعنی ان کی  ’’گرو‘‘ کی زبانی کیسی کربناک بات نسیم انجم نے کہلوائی ہے۔

’’اللہ کسی کو لولا لنگڑا پیدا کر دے اندھا پیدا کر دے لیکن ہیجڑا پیدا نہ کرے‘‘ ۔

ناول ’’نرک‘‘ کی کہانی دو مرکزی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ ببلو جو بعد میں گلنار بنتا ہے اور دانش جو حالات کی ستم ظریفی کے ہاتھوں ہیجڑوں کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کہانیاں ناول میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں کہیں جھول نہیں آتا۔ ابتدا تا انتہا قاری پر ناول کی گرفت رہتی ہے۔ کہیں بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ آگے کیا پڑھنا یہیں سب تفصیل سامنے آ گئی۔ کہانی اپنی دلچسپی برقرار رکھتے ہوئے کئی موڑ لیتی ہے اورکسی بھی ناول کی ابتدا، درمیانی حصّہ اوراس کا اختتام اسے خوبصورت یا ناکام بناتا ہے۔ نسیم انجم کا ناول خوبصورت انداز میں اختتام پذیر ہوا ہے۔ اعلیٰ معیار اجاگر کیا گیا ہے۔ بات مختصر کی جائے ان کے افسانوں کی۔ ان کے تازہ ترین افسانوں کے مجموعہ  ’’گلاب فن اور دوسرے افسانے‘‘ ۔

اس مجموعے کے افسانوں میں نسیم انجم فن کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ٹائٹل اسٹوری  ’’گلاب فن‘‘ کے اختتامی لمحوں میں افسانے کے مرکزی کردار ایک جیب کترے کے حوالے سے :

’’کیا کرے؟دو منٹ تک وہ شش و پنج میں مبتلا رہا پھر اچانک اس کے جسم میں لرز ش پیدا ہوئی اوراس نے کانپتے ہاتھوں سے استاد کے کفن سے پھول اٹھا لیا۔ پھول اس کے ہاتھوں میں تھا  اور وہ محسوس کر رہا تھا کہ جیسے ہ گہرے پانیوں میں ابھر اور ڈوب رہا ہو…‘‘ ۔

جبکہ چند لمحوں پہلے استادی شاگردی کا سنبل گلاب کا پھول وہ یہ کہہ کر استاد کے کفن پر رکھ دیتا ہے کہ استاد جو تم نے مجھے دیا تھا وہ آج تمہیں لوٹا رہا ہوں۔ ان آخری سطور میں کردار کے حوالے سے، اس کے رویے سے یہ بات بتا دی گئی کہ جو ایک بار جرائم کی زندگی اپنا لے اس کا اس زندگی سے پلٹ آنا ممکن نہیں۔ عام زندگی میں اسے کوئی ٹھکانہ کوئی پناہ گاہ نظر نہیں آتی۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے کہ جرائم سے توبہ کرنے والے اور شریفانہ زندگی گزارنے والے کو اس کے ماضی کی وجہ سے معاشرہ قبول نہیں کرتا۔

نسیم انجم لکھنے کی تیکنک سے واقف ہیں۔ بغیر کسی الجھاوے، بغیر موٹے بھاری بھرکم الفاظ استعمال کیے، صاف ستھری زبان میں کہانی کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کے افسانوں پر تبصرہ کرنے والے اکثر صاحبان نے بات کی ہے ان کے جرائم پر لکھنے کی۔ افسانہ نگار ایک حساس ذہن کی مالک ہیں۔ اپنے اطراف میں پھیلے جرائم کے جنگل میں سانس لیتے ہوئے وہ گھٹن کا شکار ہوتی ہیں۔ جرائم اور ظلم کے خلاف چیختی ہیں۔ احتجاج کرتی ہیں۔ اس احتجاجی عمل میں وہ بندوق تو نہیں اٹھاتیں۔ کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتیں۔ قلم ضرور ان کا متحرک ہوتا ہے کہ یہی ان کی بندوق ہے اور یہی ان کی عدالت۔ اور جرائم کی تصویریں ان کے افسانوں میں سچائی اور وضاحت کے ساتھ بنتی چلی جاتی ہیں۔ نسیم انجم کے موضوعات میں معاشرے کی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں جنہیں پڑھ کر   ؎ سرسری تم جہان سے گزرے…ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا، والی بات سامنے آتی ہے۔

ان کے کسی بھی افسانے میں کردار نگاری جزئیات نگاری اتنی ہی مستحکم ہوتی ہے کہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ ان کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل بڑی آسانی سے ہوسکتی ہے۔

افسانہ ’’کالا گلاب‘‘ میں جو ماحول پیش کیا گیا ہے جو کرداروں کے جذبات رویے دکھائے گئے ہیں وہ حقیقت سے بہت قریب ہیں۔ خود کش حملہ آوروں کے موضوع پر ایک پُر تاثر افسانہ ہے۔

’’گلاب فن اور دیگر افسانے‘‘ میں تمام افسانے اچھے اور اچھوتے لگے۔ ایک افسانہ  ’’پکا کام‘‘ دیگر افسانوں کے مقابلے میں جرائم کی دنیا کا نمائندہ افسانہ ثابت ہوتا ہے۔

افسانہ ’’دوسرا قدم‘‘ ایک بد ہیئت، بد شکل، بد خصال، بدکردار قاتلہ جو اپنے آشنا کو قتل کر نے کے بعد رونے دھونے کا ڈراما رچاتی ہے۔ ایک دائی جس کے تمام کرتوت اس افسانے میں ایک حجاب لیکن بڑی بیباکی سے پیش کر دئیے گئے۔

اس کتاب میں افسانہ ’’منہ چھپانے والی عورت‘‘ ایک انتہائی اعلیٰ اور پُر اسرار افسانہ ہے جس میں کچھ باتیں سامنے آتی ہیں۔

۱…کسی معاملے میں فتح پانے والا، کسی کو زیر کر لینے والا، کسی پر مکمل قبضہ کر لینے والا مفتوح سے اس کی چالاکی کے سبب اپنی کوئی بھی بات آسانی سے منوا سکتا ہے۔ لیکن اندر بسی ہوئی کسی نرمی کے سبب فاتح مفتوح کو معاف بھی کرسکتا ہے۔

۲…ہر انسان کے اندر شیطان بھی ہے۔ فرشتوں سے زیادہ پاکیزہ انسان بھی۔ اندر کا انسان غالب آ جائے تو نیکی اوررحم دلی کی روشنی اس کے افعال سے مرتعش ہوتی ہے۔

۳…اہم بات یہ بھی ہے کسی بھی پاکیزہ زندگی کا اسے اپنی زندگی میں ہی اجر ضرور ملتا ہے۔ لیکن اس افسانے میں سفید بلی کی خوبصورتی اور بلوں کی چیرہ دستیوں کے ضمن میں جو کچھ بھی لکھا گیا وہ کہانی میں ایک عجیب میکانزم بن رہا ہے۔

بھائی فہیم انصاری کی زیرِ ادارت کراچی سے سامنے آنے والا ادبی کتابی سلسلے  ’’اجمال‘‘ میں جناب شفیق احمد شفیق نے نسیم انجم کی آنکھ کو کیمرے سے تشبیہ دی کہ جو سامنے آتا ہے ان کی آنکھ کیمرے کی طرح اسے اپنے ذہن میں محفوظ ککر لیتی ہے۔ کیمرہ شٹر کھلنے اور بند ہو نے پر اپنے اندر کی فلم یا ڈسک پر وہی محفوظ کرتا ہے جو اس کے لینس کی رینج میں آتا ہے۔ انسانی آنکھ سطحِ شعور پر کیمرے کی طرح مناظر تو محفوظ کرتی ہے لیکن سیاق وسباق کے حوالوں کے ساتھ۔ میرے خیال میں انسانی میموری کو کیمرے کی میموری سے یا انسانی ذہن کو کمپیوٹر سے تشبیہ دینامناسب نہیں ہے۔ انسان کے ذہن کی میموری تہ در تہ شعور، تحت الشعور اور لاشعور تک رسائی رکھتی ہے۔ جبکہ کمپیوٹر وہی آوٹ پُٹ دیتا ہے جو اس میں فیڈ ہو۔

نسیم انجم کے افسانوں، ناول میں اکثر جگہ انتہائی نرم و نازک شاعرانہ زبان بھی استعمال ہوئی ہے۔ خاص طور پر کسی کردار کے ہیجانی انداز کو ظاہر کرتے وقت یا کردار کی خود کلامی کے دوران۔

ادب اور تبلیغ الگ الگ انداز ہیں۔ الگ الگ دائرۂ کار۔ یہ لکھتے ہوئے مجھے رتی برابر بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی ادب کی زیرِ سطح لہر جو نسیم انجم کی تحریروں میں رواں دواں ہے اس میں قرآنی تعلیمات اور احادیث کی واضح روشنی جا بجا نظر آتی ہے۔ اور یہ بہت مبارک عمل ہے۔ اپنی اس بات کی گواہی میں یہ لکھوں گا ’’گلاب فن اور دوسرے افسانے‘‘ کی ابتدا ’’ اپنے رب کے نام سے جس نے قلم کے ذریعے لکھنا سکھایا انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ (سورہ العلق آیات ۴۔ ۵)

’’خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصورِ زن‘‘ اس طویل تحقیقی مقالے میں نیکی، بدی اور معاشرے میں عورت کے مقام کے بارے میں قرآنی حوالے اور احادیث کی روشنی جگہ جگہ موجود ہے۔

نسیم انجم کے فن پر بہت لوگ لکھ چکے ہیں اور ابھی اور بھی لکھا جائے گا۔ یہ ان کا حق بھی ہے۔ یہ در گزر کی جانے والی ایسی لکھاری نہیں ہیں کہ ان پر توجہ نہ دی جائے۔ ان الفاظ کے ساتھ اختتام کی طرف آتا ہوں اللہ ان کی تحریروں کی تازگی اور روانی برقرار رکھے۔

٭٭٭

 

 

 

 ایم اے کے مقالہ کا پیش لفظ

 

لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

                   سمیرا ملک(کراچی)

 

اللہ تبارک و تعالیٰ ا شُکر ہے وہ کہ اپنے بندوں کو کس کس رُوپ میں نوازتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس کی نوازشوں کے سلسلے شُمار نہیں کیے جا سکتے، اُس کی عطا ہے کہ میرا قلم رواں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اللہ !تیرا ذکر میری لفاظی کا محتاج نہیں، نا ہی مجھ میں اتنی سکت کہ تیرا شُکر ادا کر سکوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے تیرے بندوں کا ذکر نے لگی ہوں :مقالہ لکھنے کی سچی وجہ اگر کچھ تھی تو وہ  ’’انتساب‘‘ لکھنے کی خواہش تھی، مجھے انتساب لکھنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ ایک چیز جو اس کام کے لیے آمادگی کا باعث بنی وہ نمبروں کی حرص بھی تھی جو کہیں نہ کہیں موجود تھی، اس لیے بِن اتردد سُپردِقلم کر رہی ہوں، جہاں تک مقالے کے موضوع کا تعلق ہے تو سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا ارادہ  ’’ممتاز مفتی کی الکھ نگری اور علی پور کا ایلی‘‘ پر تنقیدی و تحقیقی کام کرنے کا تھا وہ موضوع چند وجوہات کی بِنا پر منتخب نہیں ہو سکا، محترم ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب اور محترمہ ڈاکٹر سیدہ تنظیم الفردوس صاحبہ نے باہمی مشاورت سے مجھے قیصر تمکین کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ لینے کا حکم صادر ہو ا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیصر تمکین ؟؟؟یہ کون حضرت ہیں ؟؟باخدا کبھی نام بھی میری سماعتوں سے نہیں ٹکرایا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اساتذہِ گرامی کا کہنا تھا بلاشبہ اس شخصیت کے حوالے سے مواد پکا، پکایا آپ کو نہیں ملے گا  مواد کے حصول میں بھی مشکل ہو گی، لیکن کام کرنے کا حق ادا ہو جائے گا، محترمہ ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ کا، محترم ڈاکٹر رؤف پاریکھ سے یہ کہنا کہ  ’’سر!لڑکی کر لے گی ‘‘ لے ڈوبا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موضوع کا تعین ہو گیا خوشی تھی کہ ’اب ہم ان نادرِ روزگار حضرات کی صف میں جا کھڑے ہوئے جن کو بہت گھمنڈ ہوتا ہے کہ وہ ادب پرور، ادب نواز اور ادب کے خدمتگار ہیں اور خود کو صاحب مقالہ کہلوانے کا اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں ‘‘ چاہے حقیقی معنوں میں لفظ  ’’مقالہ‘‘  کا درست تلفظ بھی ادا کرنے پر قادر نہ ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (تلفظ کا مسئلہ آج بھی میرا  مسئلہ کشمیر سے سنگین مسئلہ ہے )۔

مقالہ کا موضوع ملنے کے بعد مواد کا حصول تین ماہ تک نزع بنا رہا، جس سے پوچھو قیصر تمکین کے بارے میں، وہی آنکھیں نکال کر، کھسیانا ہو کر کہتا ــ ’’جی؟کیا فرمایا آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟‘‘ سہلیاں تمسخر اُڑاتیں کہ یہ کیا فضول موضوع لے بیٹھی ہو، جس کے بارے میں کوئی جانتا ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دل شکستگی کا عالم تھا وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب مقالہ لے چکی تھی سو کرنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کرنا تھا یہ معلوم نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر سب سے پہلے اقبال نذرسے نیٹ سرچنگ کے سلسلے میں مدد لی، انھوں نے بہت اخلاص سے سمجھایا، سیکھایا اور انھوں نے راشد اشرف کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ fb لنک دیا، راشد اشرف کراچی کے ادبی حلقوں میں منفرد پہچان رکھتے ہیں، ان سے مخزن کی Filesملیں جن میں قیصر تمکین کے مخزن میں لکھے گئے افسانوں کا ریکارڈ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راشد اشرف نے بھی قیصر تمکین پر ایک آدھ تاثراتی مضمون تحریر کیا ہوا تھا جس میں زیادہ تر باتیں قیاسی تھیں (مطلب جن باتوں کا ذکر صاحبِ مضمون نے کیا تھا وہ سُنی، پڑھی ہوئیں تھیں )، حضرت نے مقصود الٰہی شیخ سے بارہا میرے کہنے پر تعاون کرنے کی درخواست کی مگر شیخ صاحب راضی نہ ہوئے بلکہ انھوں نے لکھ بھیجا   ’’مس سمیرا کے پاس قیصر تمکین کے بارے میں سب مواد موجود ہے ‘‘ خدا ان سے پوچھے کہ اگر مواد ہوتا تو میں اُن سے اتنی درخواست ہی کیوں کی جاتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟قیصر تمکین اور مقصود الٰہی شیخ کا کافی پُرانا ساتھ تھا، وہ قیصر تمکین کی شخصیت و فن کے بارے بہت کچھ جانتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر  ’’جاننے‘‘ کو ’’ بتانے ‘‘ کی تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ کاش!وہ تھوڑی وسعت نظری کا مظاہرہ کرتے اور قیصر تمکین کے بارے میں اپنے علم سے فیضیاب ہونے دیتے، خیر علم میراث ہوتی ہے بعضوں کے نزدیک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دوران اردو افسانہ نگاری پر کام کرتے ہوئے ڈاکٹرانوار احمد کی کتاب ’’اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘‘  نظر سے گذری اس کتاب میں گذشتہ صدی کے کتنے ہی افسانہ نگاروں کا ذکر تھا مگر ڈھونڈے سے بھی مجھے قیصر تمکین کا ذکر نہیں ملا، حالانکہ قیصر تمکین نے بیسویں صدی کے نصف سے افسانہ لکھنا شروع کیا تھا اور ان کی پہلی ہی کتاب  ’’جگ ہنسائی‘‘ کو ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی اور بطور افسانہ نگار ان کی پہچان بنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کتاب کے پسِ ورق ڈاکٹر صاحب کا email کا پتہ لکھا ہوا تھا، سوچا کتاب میں ذکر ناسہی لیکن چونکہ افسانہ نگاری کے حوالے سے موصوف لکھتے ہیں تو ہوسکتا ہے وہ قیصر تمکین کے بارے میں کچھ رہنمائی کرسکیں، انھیں سب تفصیلات لکھ بھیجیں، انھوں نے جواب میں مجھے محترم حیدر قریشی صاحب کا email کا پتہ دیا، ڈاکٹر انوار احمد صاحب کا کہنا تھا کہ حیدر قریشی چونکہ لندن ٭میں ہوتے ہیں اس لیے وہ آپ کی بہتر طور پر رہنمائی کر سکتے ہیں، حیدر قریشی صاحب کو بحیثیت اردو ادیب و شاعر میں جانتی تھی، لیکن یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ عام سرپھیرے ادیبوں جیسے نہیں ہیں، انھوں نے میری email کا ناصرف مثبت جواب دیا بلکہ ساتھ ہی ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، انھوں نے قیصر تمکین کی اہلیہ سے رابطہ کیا اور میرے بارے  میں بتایا، اس کے بعد بھی اپنے قیمتی مشوروں سے وقتاًََ فوقتاً نوازتے رہے، میرے لیے محترم حیدر قریشی ایک استاد کی طرح ہیں، ان کی مدد اور تعاون پر میں ان کی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آتی ہوں اس سلسلے کے سب سے اہم کردار کی طرف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی سرکار اس ساری مسافت میں جو شخصیت سب سے زیادہ خضرِ راہ  بنی رہی وہ محترم جاوید اختر چوہدری صاحب کی ہے، انھوں نے قیصر تمکین کی دوستی کا حق ادا کیا ناصرف حق ادا کیا بلکہ آج کے مطلب پرستی کے دور میں اخلاص اور بے لوثی کو زندہ جاوید کیا، کام میرا تھا لیکن ہمیشہ وہ میری مطلوبہ مواد کی فراہمی میں سرگرم رہے، انھوں نے  ان کتابوں کے تصویری عکس بھیجے، جن میں قیصر تمکین کے بارے میں ذکر تھا، ان کتابوں کے بارے میں آگہی دی جن میں قیصر تمکین کے بارے میں کچھ معلومات مل سکتی تھیں۔ یہاں میں ان کی اہلیہ سلطانہ مہر کا ذکر نہ کروں تونا انصافی ہو گی  ان کی کتاب ’’ گفتنی دوم‘‘  نے بہت سی بے ربط باتوں میں ربط کی کڑیاں فراہم کیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ان دونوں کو خیر و عافیت سے رکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاوید اختر چوہدری صاحب کو قیصر تمکین کی اہلیہ محترمہ صبیحہ صاحبہ نے میری رہنمائی کرنے کا کہا تھا، جاوید اختر چوہدری صاحب نے ان کے کہے سے زیادہ میری مدد کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آہستہ آہستہ قیصر تمکین کی سوانح کے ٹکرے جڑتے جا رہے تھے، اس سلسلے میں قیصر تمکین کی بیٹی محترمہ ڈاکٹر صبا علوی کی بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے جتنا مناسب سمجھا میرے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دوران لکھنؤ میں موجود قیصر تمکین کے چھوٹے بھائی ابراہیم علوی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، ان کے اخبار کے پتے پر لکھا بھی مگر جواب نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں میں سب سے زیادہ امجد مرزا  امجد کی مشکور ہوں کہ انھوں نے اپنی زیرِ ترتیب کتاب کی اشاعت سے قبل مجھے یورپ میں افسانہ نگاری سے متعلق اس میں سے مواد فراہم کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ با خدا اس قدر سخاوت کا مظاہرہ اس دور میں اپنی جگہ ایک معجزہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سلامت رکھے اُنھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سب کے تعاون کو بلاشبہ میں اللہ کی طرف سے غیبی مدد شمار کرتی ہوں۔

سرکار!اساتذہ کا ذکر ابھی تک نہیں آیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے اساتذہ کا ذکر، ذکرِ دیگراں میں نہیں کیا جا سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پروٹوکول کا خیال کرنا پڑتا ہے ناں )محترم ڈاکٹر رؤف پاریکھ جنھوں نے ہمیشہ ڈانٹا ہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نالائق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نالائق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بس نالائق، گویا نالائق کہنا ان کا تکیۂ کلام ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نالائق ثابت کرنا   ’’نالائقوں ‘‘ کو انہیں خوب آتا ہے۔ وہ میرے استاد ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ مجھے اپنی شاگرد نا مانیں (نالائق جو ٹھہری )۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ڈاکٹر رؤف پاریکھ شعبہ میں ہر دل عزیز ہیں اس لیے مزید کہنے کی گستاخی نہیں ہو تو بہتر ہے، ان کی ڈانٹ میں بھی بڑی لذت ہے، انھوں نے قیصر تمکین کے دستیاب افسانوی مجموعے فراہم کیے باقی افسانوی مجموعے نہیں مل سکے اور ان سے متعلق اخباری تراشے جو کہ انھیں نعیم الرحمن جستجوؔنے دیے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب مواد مقالے کی تیاری میں اساسی اہمیت رکھتا تھا۔ یہ افسانوی مجموعے اور تراشے قیصر تمکین کے ذاتی ملکیت تھے جو انھوں نے اپنے دوست نعیم الرحمن کو اپنی شخصیت پر کام کرنے کے لیے لندن سے بھیجے تھے، نعیم الرحمن عدیم الفرصتی کی وجہ سے کام نہ کر سکے۔ کسی نہ کسی طرح ان کا بھیجا ہوا مواد مجھے مل گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چیزیں تھوڑی تاخیر سے ملیں مگر مل گئیں یہ غنیمت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ہر بار کہتے  ’’لڑکی واپس کرو میری چیزیں ‘‘  (یہ ان کا اشارہ ہوتا تھا کہ کام جلدی ختم کرو )اس کے ساتھ معلوم ہونے پر بھی یاد دہانی لازمی کرواتے کی  ’’نالائق‘‘  ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرکار !تسلیم ہے کہ نالائق ہوں مگر لازم تھا کہ اقرار ہوتا اور سرِعام ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محترم استادِگرامی سرِبزم جھاڑ دیتے ہیں، جھاڑ سے مراد جھاڑ پونچھ بھی لی جائے تو مضحکہ نہیں ہے کیونکہ نالائقی کی گرد میں اَٹے ہوئے جو ہوئے ہم، اس سے بے عزتی بھی مطلب لی جا سکتی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :بے عزتی کے لیے   ’’عزت‘‘ کا ہونا لازمی ہوتا ہے!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب تو اس مقالے کو پڑھ کر آپ بھی کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نالائق نہ ہو!

پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ اس مقالے میں میری نگران تھیں، ان کی مُسکراہٹ مجھے پسند ہے، دھیمے سے جب وہ مسکراتی ہیں تو مونالیزا سی دِکھتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے علاوہ ان کا ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا، جاننے کا باعث بنا۔ بحیثیت معلمہ اور نگران ان کے دیئے گئے اعتماد کی مشکور ہوں۔ انھوں نے مجھے روایتی حدود و قیود سے خلاصی دی اور کام کرنے میں محض اپنا پابند نہیں رکھا، ڈانٹ کم کم پڑی مگر ناحق نہیں  پڑی  اور ڈاکٹر صاحب کی طرح کی ڈانٹ نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں عورت کی ازلی محبت کا فرق دَر آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب آپ دونوں کی رہنمائی کے لیے مشکور ہوں۔

آخر میں اپنے احباب کی طرف آتی ہوں، سب سے پہلے بابا، اماں آپ دونوں کی محبت اور بے پایاں محبت، باقی ساری محبتوں کا منبع و مآخذ ہے، زمین پر، اوپر والے کی محبت کا عکس اور زندہ احساس ہے۔ باقی میں کچھ لکھنے کے قابل نہیں، اس وقت اور قابل تو میں کسی بھی طرح بابا آپ کی محبتو ں کے اعتراف کے لیے نہیں ہوں پر بابا، اماں  ’’میں چنگی آں کے مندی آں صاحب تیری بندی آں ‘‘ کے مصدق ہوں، بھائیوں کی چاہتوں کے شکریہ کے لیے زبان گنگ ہے کہ چاہتوں کا ذکر بھی سرکار چاہت مانگتا ہے، چاہتوں کے اتنے ہالے ہیں میر ے گرد کہ ہر ایک کی تعریف کے لیے ورق کے ورق سیاہ کرنا ہوں گے۔ ملک جمشید، بھابھی، ملک شمشاد، ملک شہباز، ملک شیرباز اور قبلہ ملک مظہر آپ سب کے لیے ہتھیلیاں پھیلی ہیں  ’’ہسدے وسدے رہو‘‘ طاہرہ میں تمہاری احسان مند ہو کہ تم نے اس تمام عرصے مجھے میری گھریلو ذمہ داریوں سے خلاصی دیئے رکھی اور میں یکسوئی سے کام کر سکی  (فراخدلی کا مجسم و پیکر ہو با خدا تم)۔

سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زیست میں سہیلیاں نہ تھیں تو کتنا سکون تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ !سکون تو تھا مگر مزہ نہیں تھا، فرشتے (سعدیہ)، مانی (سجادہ )، آبی (عابدہ جاوید)، عرشیہ سمیع، فاطمہ، نزہت مقبول اور صدف سلطانہ آپ سب کی کھٹی میٹھی رفاقت میں بوجھل وقت بھی کٹ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدف سلطانہ اور بھائی محمد وسیم کا تہہ دل سے شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نزہت سرکار آپ کا بے حد شکریہ ان تمام لمحوں میں میرے ساتھ رہنے، ساتھ دینے کے لیے جب جب مجھے آپ کا ساتھ درکار تھا اور پروف ریڈنگ میری مدد کرنے کا ایک یقین تو ہوا کہ آپ  ’’ماسٹر‘‘  ہو چکی   ہیں۔ اللہ میری سہیلیوں کو اپنی محبتوں کے سائبان میں محفوظ رکھے سدا۔ میں جناب سید محمد شاہد علی صاحب کی بے حد مشکور ہوں کہ انھوں نے کمپوزنگ کی گراں بار ذمہ داری نبھائی اور  بہت توجہ سے تمام ابواب کی کمپوزنگ کی اور ترتیب و پیشکش میں شاندار فنی و تکنیکی مہارت کا ثبوت دیا۔ یہاں اگر میں اپنی دوست جیسی لائبریرین محترمہ نورالعین صاحبہ کا احسان نہ مانو تو بڑی کم ظرفی ہو گی انھوں نے کتب کے سلسلے میں بہت تعاون کیا، بہت مدد کی، بہت ساتھ دیا، بہت بڑے پن کا مظاہرہ کیا، ان کی طبیعت سحرانگیزی کے اعتبارسے دلگیر اور بے نظیر ہے۔ محترم راحیل صاحب کی بھی ممنون ہوں کہ انھوں نے پیچ سیٹنگ کرنا سیکھایا، ٹیبل بنانا بتایا(یہ الگ بات ہے کہ ناقص ذہن میں کچھ نہ آیا)، یہاں میں غالب لائبریری میں کام کرنے والے صاحب (نام ذہن میں نہیں ) کی بھی احسان مند ہوں کہ  انھوں نے مجھے مواد کی فوٹو کاپیاں کروا کر دیں۔  سرکار ہاں محترم استاد ملک جہانگیر اقبال اور اسرار چوہدری کی بے حد شکر گزار ہوں کہ انھوں نے حقیر کے علم میں اضافہ کیا۔ بس سرکار لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا!!

آخر میں درخواست ہے کہ میں جانتی ہوں اس مقالے میں ہزار ہا خامیاں، کمیاں موجود ہیں، اور میری رائے اور علم محدود تر ہے اس لیے اس کے معیار کی کسوٹھی سخت نہ رکھیئے گا !

ہسدے وسدے رہو !!

٭٭

٭حیدر قریشی لندن میں نہیں، جرمنی کے شہرHattersheim میں ہوتے ہیں جو فرینکفرٹ کے قریب ہے۔ (ادارہ)

٭٭٭

 

 

 

 

معدُوم

 

                   شاہد جمیل احمد(گوجرانوالہ )

 

اُس کی حالت ایسی تھی کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا تھا   کچھ بھی کرنے سے پہلے مگر وہ اپنے جیسی مرتی ہوئی اور معدوم ہوتی جانوں سے ملنا چاہتا تھا   اُن سے بات کرنا چاہتا تھا   اُس کے پاس وقت بہت کم تھا اور یہ جانیں دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلی ہوئی تھیں   پھر ایک دم اس کی تقسیم در تقسیم کی خصوصیت نمودار ہوئی اور اُس کے پپڑی جمعے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی   بالکل ویسے ہی جیسے آدمی کی آخری خواہش پوری ہونے کے سمے چند ثانیے کیلئے اُس کی آنکھوں، چہرے اور ہونٹوں پر عارضی خوشی عود کر آتی ہے   اُس نے زمین پر بچھی میلی کچیلی چٹائی سے چکٹ تکیے کو دیوار کے ساتھ لگایا اور اس پر سر رکھ کر اپنی آنکھیں موند لیں

ایک پُورے چاند کی رات جب سارا گاؤں سویا ہوا تھا، ہر جانب ہُو کا عالم طاری تھا مگر ایک پل کو بھی اُس کی آنکھ نہ لگی تھی   شب کی خاموشی میں بھینسوں کی جُگالی اور پھنکار کی آوازیں اُس کی سماعت کے ذریعے اُس کے دماغ کے ڈھول کی جھلی پر اس طرح برس رہی تھیں گویا جنگل میں شیر ڈکار رہے ہوں   پہلے تو اسے محسوس ہوا کہ شاید پوری بستی خالی ہے اور انگریزی فوج کے قبضے کے وقت بدھا کے ماننے والے قطار بنا کر اسے ہمیشہ کیلئے ویران کر گئے ہیں لیکن جلد ہی اُسے خیال آیا کہ آج سہ پہر ہی تو سب لوگوں نے شادی کی تقریب میں شرکت کی تھی  مردوں میں گھی شکر کے تھال کھانے کا مقابلہ برپا ہوا اور عورتوں میں گوٹے، لپے اور کناری کی طویل گفتگو چلی   اس نے سوچا کہ اگر گاؤں والے بے فکری سے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے تو ٹھیک ہی لے رہے تھے کہ اُن کے پلّے  سے تو کچھ بھی نہ کھلا، جانے والی چلی گئی، پورے گاؤں میں وہ ایک ہی تھی جس سے اُسے محبت تھی   آج وہ نہیں تھی تو اُس کیلئے بھری پُری آبادی ویرانے کا نقشہ پیش کرتی تھی  یہ محبت بھی عجیب ہی تھی، مان نہ مان میں تیرا مہمان کی طرح کی   نہ اُس سے اُس کی دوستی ہوئی تھی، نہ گفتگو اور نہ ملاقات   اس محبت کی بنیاد بس یہی تھی کہ وہ گاؤں کی دیگر تمام لڑکیوں سے خوبصورت تھی   نہ عمر ایک، نہ ذات برادری ایک اور نہ کوئی رسم و راہ تو پھر کوئی کیوں اور کیسے اُس کی شادی سے پہلے اُس سے مشورہ کرتا   یوں بھی شادی بیاہ کے معاملات تو خاندانوں میں اندر ہی اندر لاوے کی طرف پکتے رہتے ہیں اور پھر اک دم آتشں فشاں کی طرح پھٹ کر دور تک دلوں کی فصلیں جلاتے ہیں   مگر ان سب باتوں کا تو اسے پہلے سے ہی پوری طرح ادراک تھا لیکن اس کا دل تھا کہ کسی طور قابو میں نہ آیا   جب چاند سر سے گذر گیا اور کروٹیں بدل بدل کر اُس کے مونڈھے شل ہو گئے تو وہ دفعتاً اپنی بان کی چار پائی سے اُٹھا، ربڑ کے سلیپر پہنے اور باڑے کی کم اونچی عقبی دیوار پھلانگتا ہوا گاؤں سے مغرب کی طرف اپنے کھیتوں کو چل پڑا   جیسے جیسے وہ گاؤں سے دور ہو تاجا رہا تھا ویسے ویسے گوری کے گاؤں سے چلے جانے کا رنج سوایا ہوتا جاتا   وہ تو اچھا ہوا کہ مسلسل دکھ اور کرب کی کیفیت نے آنسوؤں کی راہ پائی ورنہ اُس کا دل بڑے ویل والے پانی کے کالے ڈیزل انجن کی طرح کسی بھی وقت بیٹھ سکتا تھا   اُس کی آنکھوں اور چہرے پر اتنا پانی جمع ہو چکا تھا کہ اگر وُضو کے انداز میں دونوں ہاتھ منہ پر پھیر لیتا تو منہ کو دھونے کی ضرورت نہ رہتی   چاندنی رات کے باوجود اسے پگڈنڈی ٹھیک سے نظر نہ آ رہی تھی مگر مجال ہے جو مردود نے اشکوں کے ایک قطرے کو بھی صاف کیا ہو، اُس کی دانست میں شاید انہیں آنسوؤں کی وجہ سے اُسے قیامت کے دن گوری کے ساتھ اٹھایا جانا تھا

رستے میں قبرستان پڑتا تھا جہاں کلّر اور تھور زدہ مٹی سے بنی قبریں چاند کی روشنی میں چھوٹی بڑی خشک دودھ کی ڈھیریوں کا منظر پیش کرتی تھیں   کریر اور کروندے کی جھاڑیوں میں جلتے بجھتے جگنوؤں اور جھینگروں کی مسلسل آواز نے اُسے متوجہ نہیں کیا   قبرستان اُس کیلئے پہلے سے کھیت کھلیان کی طرح تھا اور اس کی وجہ شاید اس کے ارد گرد پائی جانے والی فکاہی و خانقاہی نظام کی خرابیاں اور بد عملیاں تھیں کہ جن کے رد عمل کے طور پر زمانہ طالبعلمی میں ہی اس نے خواہ مخواہ کے ڈر خوف اور وہم پرستی کو خیر باد کہہ دیا تھا   چلتے چلتے وہ کھیتوں کے وسط میں بہتے کھال پر پہنچ گیا اور اپنے پاؤں پانی میں لٹکا کر اور اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر کھال کی جنوب والی وٹ پر بیٹھ گیا   بڑی شدت سے اُس کا جی چاہا کہ اس وقت کوئی ہو جو اُس کے پاس ہو  اُس سے باتیں کرے، اُسے دلاسہ دے   یہی وہ لمحے تھے جب اُسے اپنی ہر جگہ موجود ہونے کی خاصیت یعنی حاضریت (Ubiquity) کا پتہ چلا   وہ اُس کے سامنے بیٹھا تھا، بالکل اُس ہی کی طرح کا ایک اور جو کھال کی شمال والی وٹ پر بیٹھا تھا  وہ اپنے تئیں دیکھ کر پہلے ہنسا اور پھررویا   پہلے ہنسنے اور پھر رونے سے اُسے بچپن میں سنی ہوئی نیک دل شہزادی کی کہانی یاد آ گئی جو دیو کی قید میں تھی اور شہزادے کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر پہلے ہنسی اور پھر روئی   شہزادے نے پوچھا کہ تم ہنسی کیوں اور روئی کیوں، شہزادی نے جواب دیا کہ میں ہنسی تو اس لئے کہ میں نے بعد از مدت آج کسی ہمزاد کو دیکھا اور روئی اس لئے کہ ابھی دیو آئے گا اور تمہیں کھا جائے گا   اس نے اس سے کچھ نہیں کہا، وہ اُس سے کہتا بھی تو کیا کہتا کہ وہ تو دراصل اُس کا اپنا آپ ہی تھا، بالکل ایک جیسا، ہو بہو(Identical)  پھر وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے آنکھوں اور گالوں سے آنسو پونچھے بغیر دیر تک روتے رہے   رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی جب آس پاس کے دیہات، الدتہ اور بھرائیاں کی مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے تہجد کی اذانیں سنائی دیں   تب اُس نے نادانستہ، ایک دم اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو صاف کیا اور خود کو یکجا کرتے ہوئے گاؤں کی طرف چل پڑا

اُس دن، بلکہ رات کے بعد اس نے دوبارہ کبھی خود کو تقسیم نہیں کیا   اس کی شاید کبھی نوبت ہی نہ آئی، نہ اُسے کوئی گوری جیسا ملا اور نہ ہی اس کے جذبوں میں کبھی ویسی شدت آئی   مگر     ایک بار پھر ویسی ہی ایک رات تھی لیکن فرق یہ تھا کہ وہ چاند رات تھی جبکہ یہ اماوس کی رات تھی، گاؤں کی بجائے شہر کا ماحول تھا   اُس نے کئی دنوں سے خود کو ایک کمرے میں بند کیا ہوا تھا   اس کےSyphilis کے مرض میں شدت آ گئی تھی   مایوسی، گناہ ثواب اور حساب کی سرحدیں پھلانگ چکی تھی   اسی حالت میں پتہ نہیں رات کو کس پہر بوکھلاہٹ میں اس سے ٹیپ ریکارڈ کا بٹن دب گیا اور حامد علی بیلا کی آواز میں شاہ حسین کی کافی کے ان بولوں نے کمرے کی ساری فضا کو درد سے بھر دیا

اساں وت ناں دنیا آونا

اساں مٹی وچ سماوناــــــــ۔

 

پہلی ملاقات

یہ میکسیکو کا ساحلی اور دلدلی علاقہ تھا   جیسے ہی وہ بظاہر خشک نظر آنے والی ریت پر اپنا پاؤں رکھتا تو نیچے سے پانی سم آتا   وہ کافی دیر سے بیچ پر چل رہا تھا   یوں تو ساحل سمندر سے جڑا ہوا وہ چھوٹا سا جزیرہ بالکل سامنے ہی نظر آ رہا تھا مگر اس تک پہنچتے پہنچتے اس کی پنڈلیوں کے پٹھے اکڑ گئے تھے   اس نے اپنے آپ سے بڑبڑانے کے انداز میں کہا کہ اب اُسے ہرگز ہمت نہیں ہارنی چاہیئے، جزیرہ تو خیر کافی دیر سے نظر آ رہا تھا مگر اب تو فاصلہ بھی چند ہیکٹر کے برابر ہی نظر آنے لگا تھا  خدا خدا کر کے وہ جزیرے کے قریب پہنچا اور درختوں کی جڑوں اور شاخوں کا سہارا لیتے ہوئے مٹی کے چھوٹے سے تودے پر چڑھنے لگا   تودے کی دوسری جانب اب وہ اس پوزیشن میں تھا کہ اس چھوٹے سے جزیرے کا پوری طرح جائزہ لے سکے   اُس نے دریدہ پتلون کی پھٹی ہوئی جیب سے کمپاس نکالی اور جزیرے کی مغربی طرف بڑھا جہاں کنارے پر چھوٹی سی چٹان کے پاس اس کی محبوبہ کترینا اس کا انتظار کر رہی تھی، کترینا  پپ فش جو اس کی طرح دنیا میں تنہا رہ گئی تھی   جس کے سارے ہمراز و ہم نیا ز ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے تھے   اُس کا ہلکا پیلا اورنج رنگ بیماری کی وجہ سے سیاہی مائل ہو رہا تھا، اُس کی آنکھیں اندر کو دھنسی  ہوئی تھیں اور وہ اپنے منہ اور گلپھڑوں کو تیزی سے کھول اور بند کر رہی تھی اُس نے جب اُسے پیار سے اپنے دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کے سر پر پیار سے اپنا ہاتھ پھیرا تو جیسے اس کی پوری آنکھیں ایک دم کھل گئیں   پپ نے اپنے ادھ کھلے منہ سے اس کے ہاتھ پر پیار کیا اور مریل آواز میں بولی، تم آ گئے! اچھا کیا تم آ گئے! میرے پاس وقت بہت کم تھا، میں مرنے سے پہلے تمہیں ایک نظر دیکھنا چاہتی تھی، تمہارے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرنا چاہتی تھی   کتنے یُگ ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہے   مجھے کسی سے بھی کوئی شکایت نہیں، نہ پانی میں زہر اگلتے جہازوں سے، نہ اوزون جلاتی ہواؤں سے اور نہ دھواں اگلتی چمنیوں سے   یہ دنیا ہے ہی ایسی کہ یہاں فقط وہی جئے گا جو جی سکے گا   ہم نہیں جی سکے اسلئے نہیں جئے   الوداع اے دوست الوداع ! اس نے ایک دو بار زور سے سانس کھینچی اور پھر کروٹ کے بل اس کے ہاتھ میں بے سدھ بے پران لیٹ گئی   یہ کترینا پپ فش تھی، دنیا کی آخری کترینا پپ فش جس نے اس کے ہاتھ میں دم دیا اور اب وہ اسے سمندر کی ظالم لہروں کے حوالے کر کے اپنی آنکھوں اور چہرے سے اشک پونچھے بغیر ایک بار پھر جزیرے سے اتر کر ساحل کی تا حد نظر پھیلی ریت پر چل رہا تھا اور یہ سوچ کر اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا کہ اب وہ کبھی کترینا کو نہ دیکھ سکے گا ۔

 

دوسری ملاقات

اگرچہ عام طور پر شاہ رُخ کو کیلیفورنیا سے ہی منسوب کیا جاتا تھا لیکن بنیادی طور پر وہ شمالی ایریزونا اور جنوبی  ا تا ہ  کے علاقوں میں پایا جاتا تھا   یوں تو گدھ تمام ہی بر اعظموں میں پائے جاتے تھے لیکن عام طور پر پائے جانے والے یہ گدھ سائز میں چھوٹے تھے اور ان کے پروں کا پھیلاؤ ایک میٹر تک ہو سکتا تھا اور اب پوری دنیا میں ہی ان کی آبادی خطرناک حد تک کم ہو چکی تھی  جہاں تک بڑے امریکی گدھ، شاہ رُخ (Condor) کا تعلق تھا تو اس کے پروں کا پھیلاؤ تین میٹر سے زیادہ تک ہو سکتا تھا   مُردہ جانوروں اور انسانوں کی لاشیں صاف کرتے کرتے وہ خود ایک لاش کی صورت اختیار کر چکا تھا   کتنے افسوس کا مقام تھا کہ گورکن کی لاش کو دفنانے والا کوئی نہ تھا   وہ جس نے دنیا کے تعفن  کو اپنے اوپر اوڑھ کر زندگی بتائی، اُس کی لاش کو ٹھکانے لگانے والا کوئی نہ تھا   کچھ کم اونچی پہاڑی چٹانوں پر پانچ بڑے گدھ بیٹھے تھے   اُن میں سے چار تو اپنے بھاری پروں کا بوجھ اٹھائے کسی نہ کسی طرح اپنے پنجوں پر بیٹھے ہی تھے مگر پانچواں تو پتھروں پر لڑھکا ہوا ہی تھا، ، اُس کے دونوں پر ڈھیلے پڑ چکے تھے اور چونچ سے رطوبت نماسیال وقفے وقفے سے نیچے گرتا تھا، اُس کی ناک کے سوراخوں کی جھلیاں، سراور گردن کی جلد اور آنکھوں کے پپوٹے سرخ رنگ کے ہو گئے تھے اور اُسے سانس لینے میں شدید دقّت محسوس ہو رہی تھی   اُس کی سانس کی کھرڑ  کھرڑ سن کر چاروں گدھ آہستہ آہستہ اُس سے دور کھسک رہے تھے  اُس نے اپنی ٹوٹتی بے ربط سانسوں کے ساتھ اپنی مطلق اندھیروں سے آشنا ہوتی آنکھوں سے دور تک دیکھنے کی کوشش کی   اُسے دور سے اپنی جانب آنے والے کی دھندلی سی شبیہ دکھائی دی   کچھ ہی دیر میں وہ اُس کے پاس پہنچ چکا تھا   اُس نے آتے ہی پتھروں میں بکھرے پڑے اُس کے دونوں پروں کو درست کیا، اُس کے گنجے سر اور گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرا، اس کی ناک اور آنکھوں کی رطوبت کو صاف کیا اور اُسے اُس کے پنجوں پر بٹھانے کی کوشش کی مگر وہ ایک طرف کو لڑھک گیا اور اس نے دو تین بڑی بڑی سانسیں کھینچ کر آنے والے کو بڑی مشکل سے الوداع کہا اور اُس کی گردن ایک طرف گر گئی، اُس کے ہر دو شہ پروں کے تین تین جوڑ اس طرح ڈھیلے پڑ گئے جیسے اُن کے سکریو کھول دیئے گئے ہوں

 

تیسری ملاقات

راکی جیپ افریقہ کے سب سے مشہور اور بڑے، صحرائے سہارا کے بیچوں بیچ فراٹے بھرتی چلی جاتی تھی اور وہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا بے تابی سے دائیں بائیں اور سامنے کی اطراف دیکھتا جاتا تھا مگر دور دور تک کہیں سبزے، جھاڑیوں یا پانی کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ جہاں سفید بارہ سنگے سے اُس کی ملاقات ہو سکے   اُس نے چلچلاتی دھوپ میں ایک ہاتھ سے اپنے مٹیالے رنگ کے ہیٹ کو اوپر کیا اور دوسرے ہاتھ سے سر کے بالوں کو زور سے  اس طرح کھجلایا کہ اُس کے ہاتھ کی انگلیوں کی ساری پوریں پسینے سے تر ہو گئیں   پھر اس نے واٹر کین کا ڈھکن کھولا اور غٹ غٹ پانی کے پانچ چھ بڑے گھونٹ گلے سے اتارے اور ڈرائیور کی طرف دیکھے بغیر پانی کا کین اُس کی طرف بڑھا دیا   ڈرائیور نے پانی کے ہلکے دو تین گھونٹ لے کر کین اُس کی طرف بڑھا دیا   ڈرائیور کی نظر اس پر پڑی تو وہ پہلے ہی اسے متجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا   ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار مزید بڑھاتے ہوئے گھڑی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ابھی تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگے گا   ڈیڑھ کی بجائے کوئی دو گھنٹے کی مسلسل مسافت کے بعد ڈرائیور نے ریت اور مٹی کے بڑے بڑے تودوں کے پاس بریک لگائی اور اُسے سمجھایا کہ ان تودوں کو پیدل پار کرنے کے بعد دو تین کلو میٹر لمبی اور آدھا کلو میٹر چوڑی ایک زمینی پٹی ہے جہاں صحرائی جھاڑیاں، چیدہ چیدہ درخت اور گھاس اور دب کے Patchesہیں اور اس پٹی کے مغرب کی جانب ایک قدرتی برساتی نالہ واقع ہے، اس علاقے میں سفید بارہ سنگے (Addex) پائے جاتے ہیں   ڈرائیور نے اُسے بتایا کہ وہ اس سے آگے نہیں جائے گا یہاں تک کہ گن لے کر بھی نہیں   اُس نے فکر انگیز آنکھوں سے ڈرائیور کو دیکھا اور اکیلا ہی ریت اور مٹی کے تودوں کو پار کرنے لگا   ایک گھنٹے کی جدو جہد کے بعد اُسے چار سفید بارہ سنگے چھدری گھاس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے پاس بیٹھے نظر آئے  اُن کو دیکھ کر اُس نے مزید تیز تیز قدموں سے اُن کی جانب بڑھنا شروع کیا   اپنے قریب آتا دیکھ کر چار میں سے تین بارہ سنگے اپنی دمیں پٹختے ریتلی زمین سے اٹھے اور تھوڑا دور چلے گئے   ایک بارہ سنگا جس نے اپنا منہ سیدھا ریت پر رکھا ہوا تھا وہ نہیں اٹھا   اُس نے اُس کی گردن اور سینگوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو اُسے احساس ہوا کہ سفید بارہ سنگوں کے سر پر بارہ نہیں فقط دو پیچ دار لمبے سینگ ہوتے ہیں   اُس نے سنگے کی آنکھوں کی طرف دیکھا جن میں دہشت اور بے چارگی تھی   اس نے اُس کو پہلے کمر اور پھر دم کی مدد سے اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھا   سنگے نے اُسے بیچارگی سے الوداع کہا اور ایک بار پھر اپنا منہ ہمیشہ کیلئے ریت میں رکھ دیا۔

 

چوتھی ملاقات

اب اُس کے قدم ہوائی کے سفید موٹی ریت والے ساحل پر پڑے رہے تھے   اُس کی نظریں آہستہ آہستہ ریت سے ٹکراتی لہروں پر مرکوز تھیں اور اُسے ہکر لہر کی ریت سے ٹکر کے ساتھ یُوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی اُس کے سامنے سمندری سگ اپنی چپٹی ناک اور بڑی مونچھوں کے ساتھ نمودار ہو گاجو ثابت مچھلی حلق سے نگلتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھ رہا ہو گا آخر کار اس نے سمندری سگ  (Hawaiian Monk Seal)  کو دیکھ تو لیا مگر اس طرح نہیں جس طرح وہ تصور کر رہا تھا  وہ اپنے چھوٹے سے بچے کے ساتھ اپنا منہ ریت پر ٹکائے، آنکھیں بند کئے دھوپ میں لیٹا تھا   اُس کے جسم کی گرے براؤن کھال کی چمک اور تازگی غائب تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ کچھ دنوں سے پانی میں نہیں اتر سکا ہو گا   اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اُس نے لیٹے لیٹے اور اپنا منہ ریت سے اٹھائے بغیر اس کی طرف دیکھا پھر دوبارہ اپنی آنکھیں موند لیں مگراس کی ناک سے دھونکنی کی طرح چلتی سانسیں بتاتی تھیں کہ وہ اُس کی موجودگی سے آگاہ تھا   پھر سگ نے اُسے اپنی نسل کو درپیش مسائل ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور بے ربط جملوں میں Conveyکئے ! جیسے آبی ماحولیات میں بے جا انسانی مداخلت، مچھلی پکڑنے کے جالوں میں اُن کا پھنسنا اور شکاریوں کا ان کو ہلاک کر دینا، زہریلا آبی فضلا، بیماریاں اور ان کی کھال کے حصول کیلئے ان کا شکار   لفظ شکار کی ر کے بعد اس کی آواز ایک دم بند ہو گئی   اُس نے اُس کی ناک کے سوارخوں کے پاس ہاتھ لے جا کر اُس کی سانسیں محسوس کرنے کی کوشش کی، اُس نے اُس کے گول مٹول جسم کو بہتیرا ہلانے کی کوشش کی مگر بے سود   آخر اُس نے اُس کے ننھے بچے کا رُخ کھینچ کر سمندر کے پانی کی طرف کیا اور اُسے دھکے دے کر پانی میں دھکیل دیا مگر وہ بار بار بڑے سگ کی طرف دیکھ رہا تھا اور پانی میں جانے کی بجائے واپس مڑ آتا   اُس نے آخری بار اُس کا رخ پانی کی طرف کیا اور اُن کی جانب مڑ کر دیکھے بغیر انہیں الوداع کہتا ہوا واپس مڑ گیا   وہ یہ سوچ رہا تھا کہ معدومیت کا یہ خطرہ ہوائی کے سمندری سگ کے ساتھ ساتھ بحیرہ روم کے سمندری سگ                      (Meditewanean Monk Seal)  کو بھی لاحق تھا ۔

 

پانچویں ملاقات

اتفاق سے اس کی تیسری ملاقات کی طرح پانچویں ملاقات کا مرکز بھی افریقہ ہی تھا مگر صحرا کی بجائے جنگل اور پہاڑ  یوں تو پہاڑی بن مانس افریقہ کے بہت سے ملکوں میں پایا جاتا تھا لیکن یوگنڈا، روانڈا اور ورُنگا اس کے بنیادی علاقے تھے   اب تک اُس نے صرف ہالی وڈ کی فلموں میں بن مانس دیکھے تھے اور ان کو انسانوں کی طرح سوچتے اور محسوس کرتے دکھایا جاتا تھا یا پھر ایک طاقتور مخلوق کے طور پر   جنگلی بانس کے پودوں کی قریب، لمبی گھاس اور نیلے، پیلے اور جامنی پھولوں والی بیلوں کے پاس اُس کی ملاقات بڑے بن مانس سے ہوئی تھی، اُس کے ساتھ اُس کی مادہ اور ایک بچہ بھی تھا   عادت سے مجبور مادہ بن مانس بار بار اُس کے کپڑوں کو کھینچ رہی تھی جس پر نر بن مانس نے پہلے منہ سے کھر کھر کی آوازیں نکال کر اور لال لال آنکھوں سے گھور کر منع کرنے کی کوشش کی مگر جب وہ باز نہ آئی تو نر بن مانس نے اپنے دیو ہیکل ہاتھ سے اُس کے سر پرہ اتنی زور سے تھپڑ رسید کیا کہ وہ اپنے بچے کو لے کر ایک طرف ہو گئی   مادہ بن مانس کو دیکھ کر ملاقات کے لئے آنے والے کو اپنے پرائمری سکول کے استاد کی بیوی یاد آ گئی جو ہر کھانے کے وقت ماسٹر صاحب سے لڑائی کرتی اور کہتی جاتی کہ تم مجھے مار کر دکھاؤ اور جب تنگ آ کر ماسٹر اس کی کمر میں دو چار سونٹے چھوڑتا تو وہ اپنے دھیان خاموشی سے کام کاج میں مصروف ہو جاتی   کچھ لمحوں کیلئے وہ یہ تک بھول گیا کہ وہ ان سے الوداعی ملاقات کیلئے آیا تھا اور وہ دنیا کے ایسے جیو تھے جن کا نام و نشان دنیا سے مٹنے والا تھا   بن مانس اور وہ دونوں سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اس لئے انہیں ایک دوسرے کو کچھ بتانے کی ضرورت پیش نہ آئی   اس نے ایک دم اٹھ کر بن مانس کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کر دیں اور اُس کے گلے سے لگ کر رونے لگا   بن مانس پہلے تو سیدھا کھڑا رہا اورآس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہتے رہے اور پھر اس نے اپنے کالے کالے بڑے بالوں والے ہاتھ سے اُس کے سر کو سہلایا اور وہ روتی آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے بن مانس سے رخصت ہوا ۔

 

چھٹی ملاقات

جنگلی جانوروں کی کہانیاں بی لومڑی کے ذکر کے بغیر ادھوری لگتی تھیں اور وہ یہ سوچ کر ہی پریشان ہو گیا کہ اب لومڑیوں کا ذکر صرف محاوروں اور کہانیوں کے الفاظ تک محدود ہو جائے گا اور اب ہمیں چالاک لومڑی کی کہانی اور انگور کھٹے ہیں کی ضرب المثل والی لومڑی ڈھونڈے سے نہیں ملے گی   خاص کر وہ جزیرائی لومڑی (Island Fox) جو قد میں چھوٹی اور کھلتے ہوئے ہلکے گہرے بھورے رنگوں میں بہت چمکدار اور خوبصورت لگتی تھی   اس پیاری لومڑی کا آبائی وطن کیلی فورنیا کے جزیرے تھے اور وہ اس سے ملاقات کیلئے انہیں جزیروں کے سفر پر روانہ تھا   قریب کے سبھی چھ جزیروں پر اس لومڑی کی نسل کے کچھ جانور موجود تھے اور اس نے دیکھا کہ وہ چھوٹے چھوٹے غول بنا کر رہتے تھے   ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگلات کے خاتمے اور خوراک کی کمی ایسے مسائل کی بنا پر ان لومڑیوں کی نسل کو اپنے بقا کی جنگ میں شکست ہو چکی تھی   اور یہ شکست خوردگی ہی تھی جس کی بناء پر آج وہ ان لومڑیوں سے ملنے آیا تھا   ایک نظر زندہ سلامت ان کو اپنی نظروں سے دیکھنے اور آخری مرتبہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الوداع کہنے کیلئے  وہ لومڑیوں کے ایک چھوٹے سے غول کی طرف بڑھا، کئی لومڑیاں اسے دیکھتے ہی سرعت سے دور بھاگ گئیں   سوائے ایک لاغر اور کمزور لومڑی کے جو اس کی طرف سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی   وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ ابھی اس کی جلد میں ٹیکے کی سوئی چبھو دے گا، یا اس کی کھال میں مائیکرو چپ داخل کر دے گا یا اُس کے گلے یا پنجے میں چمڑے یا لوہے کا ٹیگ لگائے گا، مگر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ وہ اس کی جانب فقط محبت کی نظر سے دیکھتا رہا چہ جائیکہ وہ اٹھ کر اپنی سوکھی ہوئی دم اوپر کئے آہستہ آہستہ پودوں میں چھپ گئی۔

 

ساتویں ملاقات

صحرائے عرب ہو، سوس، چولستان یا پھر گوبی مگر کچھ عرصہ پہلے تک سواری اور سفر کا واحد ذریعہ صحرا کا جہاز ہی تھا   صابر ایسا کہ اگر مسلسل کئی ہفتوں تک پینے کو پانی نہ ملے تو حرف شکایت لب پرنہ لائے   سواری کا جانور ہو تو ایک کی جگہ دو کوہان بھلے بیٹھنے میں بھی سہولت اور ذخیرہ پانی و خوراک کا ذریعہ بھی   مگر افسوس کہ ان دو کوہان والے اونٹوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی اور اب ان کی تعداد منگولیا، چین، ہندستان، پاکستان اور رُوسی ریاستوں سمیت چند سوسے زیادہ نہ تھی   اس نے اخبار میں پڑھا تھا کہ چولستان کے ایک غریب بلوچ کے پاس دوہری کوہان والے اونٹوں کا جوڑا ہے   ایک دو عربی رئیسوں نے اس سے کئی لاکھ روپے کے عوض ان کو خریدنے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کر دیا   پھر اخبار ہی سے پتہ چلا تھا کہ اونٹنی کچھ عرصہ بیمار رہ کر مر گئی اور اب صرف اونٹ باقی رہ گیا تھا  اس خبر کے بعد سے اس نے دوہری کوہان والے اونٹ کے مالک کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تھا   پہلے بہاولپور اور پھر رحیم یار خان اور صادق آباد کے علاقوں سے اس کی معلومات اکٹھی کیں اور اب وہ کرائے کی فراری جیپ میں چولستان کے اندر سفر کر رہا تھا   لگ بھگ دو گھنٹے کے صحرائی سفر کے بعد وہ ایک جگہ رکا جہاں دو تین مرد اور تین چار بچے دکھائی دیئے   شاید دو ایک عورتیں بھی ہوں مگر وہ جیپ کو دور سے آتا دیکھ کر کھولی کے اندر چلی گئی تھیں   پڑتے ہی اس نے بوڑھے کے اونٹ کے بارے پوچھا تو وہ روہانسا ہو گیا اور کچھ سرائیکی اور سندھی ملی زبان میں کہنے لگا کہ وہ اونٹ نہیں بیچے گا، پہلے بھی کافی لوگوں نے اس سے اونٹ خریدنے کی کوشش کی ہے مگر اس نے اپنے اونٹ کو نہیں بیچا   پھر وہ کہنے لگا کہ اس نے اونٹ کو اپنے بچوں کی طرح رکھا ہوا ہے اور وہ قربانی کے لئے تو اپنا  اونٹ کسی بھی قیمت پر نہیں دے گا   اُسے ایک دم یاد آیا کہ ہفتے عشرے کے بعد واقعی عید قربان تھی اور ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی اس سے قربانی کے لئے اس کا اونٹ خریدنے آیا ہو   خیر! اس نے اسے بتایا کہ نہ تو وہ اونٹ خریدنا چاہتا ہے اور نہ قربانی کا خواہاں ہے، وہ تو فقط اونٹ کو دیکھنے، اسے ملنے اور اس سے پیار کرنے آیا ہے   بوڑھے بلوچ نے بسم اللہ کہہ کر ایک بار پھر اسے خوش آمدید کہا اور اگلے ہی لمحے یہ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے کہ اونٹ کچھ دنوں سے بیمار ہے  پھر وہ اسے اپنے ساتھ لے کر تھوڑی دور ایک چھپر میں لے گیا جہاں اونٹ بندھا تھا  بوڑھے نے اُچھ اُچھ کر کے اور دُم کھینچ کر اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ اٹھا   بوڑھا بلوچ بے چارگی کے ساتھ ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا   اُس نے بوڑھے کو تسلی دی اور اونٹ کے سر، کوہانوں اور ماتھے پر اپنے ہاتھ سے پیار کیا   یہ سوچ کر ہی اس کے دل کا خون پانی ہو رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد وہ بیمار اونٹ کو تنہا چھوڑ کر واپس چلا جائے گا مگر کیا کرتا کہ اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔

 

آٹھویں ملاقات

موٹی اور گول شربتی آنکھوں اور لال، گالے، زرد، سفید اور پیلے پروں والا خوبصورت فلپائنی عقاب دیکھنے میں تو جنگلی مرغ ہی لگتا تھا   خطرناک ایسا کہ آن کی آن میں جھپٹے اور پورے کے پورے بندر کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر اڑ جائے   جنگلات کے خاتمے اور غیر قانونی و غیر اخلاقی شکار کی وجہ سے بظاہر طاقتور نظر آنے والا یہ جنگلی پرندہ اس وقت اپنی نسل کے بچاؤ کے راستے پر شدید مشکلات کا شکار تھا   فلپائن کے کچھ ساحلی علاقوں کی پہاڑی چٹانیں جن پر کثرت سے یہ عقاب بیٹھے اور اڑتے دیکھے جا سکتے تھے اب ان کی چوٹیاں ان کے مضبوط پنجوں کی دھمک کو ترس گئی تھیں   بسیار کوشش کے بعد ہی اس خوبصورت پرندے کو دیکھنے کی خواہش پوری ہونے کا امکان تھا   اس نے ہمت نہیں ہاری اور تا حد نظر پھیلی پہاڑی چٹانوں کی قدرتی غاروں اور اوٹوں میں نظر دوڑاتا چلا گیا   ایک چٹان کی چھوٹی سی کم گہری کھوہ میں اُسے مادہ عقاب بیٹھی نظر آئی  وہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ ہیلی کاپٹر ایسے پروں کی شاں کی آواز کے ساتھ نر عقاب نے اُس پر حملہ کر دیا جسے اس نے بڑی مشکل سے ایک چٹان کی اوٹ میں چھپ کر ناکام بنایا اور یہیں چھپ کر وہ عقاب کا جائزہ لینے لگا   عقاب نے غصیلی تیز نظروں کے ساتھ آس پاس کی چٹانوں کے کچھ چکر لگائے اور آخر کار اپنی مادہ کے پاس چٹان پر جا کر بیٹھ گیا   مادہ بے دھڑک اپنی جگہ بیٹھی رہی، اُس کے بیٹھنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ شاید وہ انڈوں پر بیٹھی تھی اور اپنے عقاب کی موجودگی میں جیسے اُسے کسی طرح کی فکر نہ تھی   ایک دم اُس کے دل میں یہ پریشان کر دینے والا خیال گذارا کہ مادہ عقاب اگرچہ انڈوں پر بیٹھی تو ضرور تھی مگر موسمی تغیر، ماحولیاتی آلودگی اور شکاریوں کے خطرات کے پیش نظر شاید ہی یہ ممکن تھا کہ ان انڈوں سے بچے بھی نکلیں   اس نے ان چٹانوں سے اتر کر دور تک اور بہت سی پہاڑی چٹانوں پر فلپائنی عقابوں (Philippine Eagle)کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر بے سود اور اسی مایوسی کے عالم میں ہی اسے واپس لوٹنا پڑا۔

 

نویں ملاقات

وہ سنتا آیا تھا کہ بلی شیر کی خالہ ہے   اس بابت ایک کہاوت بھی بہت مشہور تھی کہ بلی اپنے بھانجے کو داؤ پیچ سکھا رہی تھی کہ اس دوران کسی بات پر بھتیجے کو غصہ آ گیا اور وہ خالہ پر جھپٹا، خالہ دوڑ کر درخت پر چڑھ گئی اور بھتیجے نے کھسیانہ ہو کر کہا کہ خالہ تو نے یہ داؤ تو سکھایا ہی نہیں، خالہ نے جواب دیا کہ اگر یہ بھی سکھا دیتی تو آج جان کیسے بچاتی   یہ کہاوت بھی مگر کہاوت کی حد تک تھی، بہت سے شیر ایسے بھی تھے جو درختوں پر بڑی آسانی سے چڑھ جاتے تھے   یوں تو دنیا میں شیروں (Big Cats)کی بے شمار قسمیں تھیں مگر اُسے ہنستے بستے، اٹھکیلیاں کرتے، جھپٹتے شیروں سے کچھ لینا دینا نہ تھا   وہ تو صرف ایک نظرایمورشیر(Amur Tiger) کو دیکھنا چاہتا تھا کہ جن کی نسل دنیا سے ہمیشہ کیلئے ختم ہونے والی تھی اور کچھ قابل اعتبار اندازوں کے موافق ان کی تعداد پوری دنیا میں اڑھائی سو سے کم رہ گئی تھی   ایمور شیر، شیروں کی تمام پانچ اقسام میں سب سے بڑے شیر تھے   ایمور سے ملنے کیلئے اسے چین کے بارڈر کے ساتھ جنوب مشرقی روسی علاقوں کے برفیلے جنگلات میں جانا تھا   اسے زیادہ دقت نہیں ہوئی کہ وہ وہیں کہیں تھا  کسی سکیمو کی مدد سے وہ ان تک پہنچا، پاؤں اور پیٹ سفید جبکہ باقی جسم پر گہرے بھورے رنگ کی موٹی اون پر گہر ے کالے رنگ کے سپاٹ، اس نے اپنے منہ میں گردن سے چھوٹے باگ کو اٹھایا ہوا تھا جو شاید برف پر چلتے چلتے تھک گیا تھا   اس نے اسے دیکھ لیا تھا، نہ غرایا اور نہ حملے کی کوشش کی، اس کے گلے میں بار بار کھانسنے کی غُرغُر سنائی دیتی تھی   اس نے باگ کو منہ میں اٹھائے دو ایک بار مڑ کر مچان میں اس کی طرف دیکھا اور بے اعتنائی سے دور تک پھیلے درختوں میں چھپ گیا جن کے تنے برف سے اٹے ہوئے تھے   جب وہ مچان سے نیچے اتر رہا تھا تو اس کے منہ سے بلند آواز میں الوداع ایمور الوداع کے لفظ ادا ہوئے جنہیں سن کر سکیمو نے حیرت کا اظہار بھی کیا مگر وہ اس سے کچھ نہیں بولا۔

 

دسویں ملاقات

برازیلی مرغ کو انجان دیکھے تو چاہے اسے جنگلی کبوتر سمجھ لے یا پھر کالی گردن اور پروں اور گرے پیٹ والی بطخ   جب پانی کی سطح پر مادہ مرغ بطخ کی طرح تیر رہی ہو اور پیچھے بچوں کی فوج ظفر موج چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی طرح پیچھے تیرتی آتی ہو تو دیکھنے والا بطخ ہی سمجھے گا   اگرچہ ان کا بنیادی وطن تو برازیل ہی ہے مگر اس نے آخری بار اس مادہ مرغ اور اس کے بچوں کو ارجٹائن کی ایک چھوٹی سی قدرتی جھیل میں تیرتے دیکھا تھا   جھیل کنارے درختوں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ کی اوٹ سے اُس نے مادہ مرغ کو دیکھا تو وہ اس وقت قدرے ہموار خشک سطح پر پنجوں کے بل، پر پھلائے بیٹھی تھی اور کم اونچے پودوں کی چھدری شاخوں اور پتوں سے چھن کر آتی جاتی دھوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھی   پاس ہی اس کے چھ عدد بچے بیٹھے تھے جو وقفے وقفے سے اٹھ کر ادھر اُدھر گھوم پھر کر چھوٹے کیڑے مکوڑے اور چھوٹے بیچ ڈھونڈ نے لگ جاتے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں واپس آ کر اپنی ماں کے پاس بیٹھ جاتے   بچوں کو دیکھ کر اُسے تسلی ہوئی مگر اگلے ہی لمحے یہ سوچ کر اُس کا دل بیٹھ گیا کہ پچھلے ہفتے بچوں کی تعداد بارہ تھی اور اب آنے والے ہفتے عشرے میں باقی بچوں کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہونے والا تھا   اسی فکر مندی کے ساتھ وہ برازیلی مرغ(Brazilian Merganser) اور اس کے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوا واپس مڑا۔

 

گیارھویں ملاقات

تمام پرندوں اور خاص کر طوطوں میں کاکاپو(Kakapo) طوطے اس طرح بھی خاص اہمیت کے حامل تھے کہ وہ اُڑ نہیں سکتے تھے   یوں تو طوطوں کی بے شمار قسمیں اور بے شمار رنگ ہو سکتے تھے مگر کاکاپو اس طرح بھی منفرد تھے کہ وہ صرف ایک رنگ یعنی پیلے اور ہرے رنگ کے ہوتے   جہاں اُن کی نسل کے خاتمے کی وجوہات جنگلات کا زیاں، غیر قانونی شکار اور ماحولیاتی آلودگی تھی وہاں اُس کے اُڑ نہ سکنے کی ایک وجہ بھی شامل تھی   اُسے اُن سے آخری ملاقات کیلئے نیوزی لینڈ کے جنگلات میں جانا پڑا   اگرچہ وہ اڑنے کی صلاحیت سے محروم تھے مگر بھاگنے اور چھپنے میں بہت تیز تھے لیکن اب اُن کی یہ صلاحیت بھی کم یا کمزور پڑ گئی تھی، اس کی وجہ شاید اُن کے پروں اور جلد کی موجودہ بیماری تھی   ایک کم اونچی شاخ پر ایک بڑا اور دو چھوٹے طوطے پاس پاس بیٹھے تھے   اُن کے پنجوں اور پروں اور جسم کی جلد سے یُوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی جلدی بیماری کی وجہ سے شدید بیمار تھے   اُن کی اسی حالت کے پیش نظر وہ ان کے بہت قریب پہنچ پایا تھا، اُس نے اُن کے پروں اور سروں اور پنجوں پر پیار کیا اور اُن سے بچھوڑے کا درد دل میں چھپائے اُن سے رخصت ہوا

پھر بارہویں، تیرھویں     اور پچیسویں ملاقات اور پھر ملاقاتوں کا وقت بھی ختم! زمین پر بچھی میلی کچیلی چٹائی، دیوار کے ساتھ لگا چکٹ تکیہ اور اس پر ٹکا سر، ٹیپ ریکارڈ میں بجتی حامد علی بیلا کی آواز میں شاہ حسین کی کافی کے بول، سب خاموش تھے !اور پھر کئی دن بعد کمرے کا دروازہ توڑ کر اُس کی لاش نکالی گئی

٭٭٭

 

 

 

ارشد جان کیوں نہیں آتا

 

                   جان عالم(مانسہرہ)

 

ایک لڑکی کی آڈیو جو اس کے باپ کی موت ثابت ہوئی۔ لڑکی کا باپ پولیس والا تھا۔

S=vit+1/2at2

سوال نمبر 1کیا میں سہیلی کے گھر میں ہوں ؟

لیڈی ڈیانہ سے ملاقات:5.30بجے شام

اُس نے میرے دفتر کا دروازہ کھولا اور بغیر کچھ کہے کاغذ کا ایک پرزہ مجھے دے کر نکل گیا۔ یہ اُس کا معمول تھا۔ اُس کی بے ربط باتوں میں بھی مجھے ہمیشہ ایک ربط ملا ہے۔ مجھے ہمیشہ اصرار رہتا اور میں اپنے دوست ارشد جان سے بحث بھی کیا کرتا کہ وہ پاگل نہیں ہے، وہ جو کہتا ہے ٹھیک کہتا ہے بس اس کی باتوں کو ہمارا پاگل پن ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا، ہم اپنی دماغی صحت کا الزام اُسے کیوں دیں۔ اس دن بھی جب اُس نے ایک بے ربط پرزہ مجھے تھمایا تو اُسے پڑھتے ہوئے ارشد جان نے تقریباً چیختے ہوئے مجھے کہا تھا؛

’’وہ پاگل ہے یار۔ ۔ ۔ پاگل ہے۔ آخر تم کیوں نہیں سمجھ رہے؟ ‘‘ ارشد جان اپنی دانست میں ٹھیک ہی کہتا ہو گا۔ اس لئے کہ اُس نے میرے ساتھ اُس لڑکے کو کوڑے کے ڈھیر سے ہڈیاں چنتے اور کھاتے دیکھا تھا۔

’’وہ پاگل نہیں ہے۔ اور کوڑے کے ڈھیر سے کچھ اٹھا کر کھانا پاگل پن کیوں ہے؟۔ اس سے تواُس کے ٹھیک ہونے کا پتا چلتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس کے اندر زندگی جینے کی آرزو ہے اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کر رہا ہے۔ وہ اضطراری کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ کچھ بھی کھا سکتا ہے۔ اس میں پاگل پن کی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اُس دن بھی اس کی صفائی پیش کی تھی۔

میں پاگلوں پر کسی ماہرِ نفسیات کی طرح ریسرچ تو نہیں کر سکتا لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ نفسیات کے ماہرین بھی پاگلوں پر آج تک کچھ بھی تحقیق نہیں کر پائے۔ اور یہ اس لئے کہ پاگل کی کیفیت کا ایک نارمل انسان اندازہ لگا ہی نہیں سکتا۔ کیفیات کا اندازہ لگا کون سکتا ہے؟اور اس لڑکے کو تو میں پاگل مان ہی نہیں سکتا۔ اتنی ہوش مند باتیں کوئی پاگل کیسے کر سکتا ہے؟

میرے پاس اُس کی بہت سی یادداشتیں جمع ہو چکی ہیں۔ اور میں اُس کی تحریروں سے اُسے سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوں۔

 

ایک دن وہ مجھے میرے دفتر کے دروازے پر ملا۔ میں نے پوچھا ؛

’’ کچھ لکھا تم نے میرے لئے ؟‘‘

’’میرے پاس کاغذ نہیں ہے۔ ‘‘ اُس نے سنجیدگی سے عذر پیش کیاتو میں اُسے اپنے آفس میں لے آیا ؛

’’لو یہ کاغذ اور لکھو۔ ‘‘

’’کیا لکھوں ؟پرچہ بنانا ہے کیا ؟کون سی کلاس کے لئے؟‘‘ اُس نے سنجیدگی سے دو تین سوالات داغ دئیے۔ اور میں نے بھی کسی حیرت کا اظہار کرنے کی بجائے اُسے کہا؛

’’ہاں !پرچہ سائنس کا ہے اور دسویں جماعت کے لئے بنانا ہے۔ ‘‘

اُس نے کاغذ قلم سنبھالا اور پورے انہماک سے پرچہ بنانے لگا۔ میں سگریٹ پھونکتا رہا اور وہ کسی اپنے تعلیمی نصاب کے معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے پرچہ بنانے لگا۔ دس منٹ بعد اُس نے اُسی سنجیدگی سے اٹھ کر میز پر کاغذ قلم رکھا اور چلا گیا۔

میں اُس کی خوبصورت ہینڈ رائیٹنگ میں اس عجیب سے پرچے کو پڑھتے ہوئے حیرت میں گم ہو تا چلا گیا۔

سوال نمبر 1.انسانی جسم میں بنی نالیوں میں بہنے والے رنگوں کی تعداد بتائیے؟

یہ کیا پوچھ رہا ہے۔ یہ کن رنگوں کی بات کر رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟

یہ کن استعاروں اور اور کن علامتوں سے کچھ کہناچاہتا ہے۔

یہ رنگ، وہ رنگ تو نہیں جو ہمیں نسلوں، قبیلوں اور قوموں میں بانٹ دیتے ہیں ؟

کیا ہمارے جسم میں بچھی نالیوں کے جال میں رنگ بہتے ہیں ؟

دوسرے سوال نے مجھے اپنے جسم میں بہتے رنگوں سے باہر اچھال دیا؛

سوال نمبر 2انسانی جسم کے خلیوں کی تعداد بتائیے؟

میرے سامنے ریاضی کی ساری گنتیاں ان گنت حیرتوں میں گم ہو گئیں۔

کیلکولیٹر ٹوٹنے لگیں اور کمپیوٹر ہینگ ہو گئے۔ اُف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا مشکل پرچہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

 

٭٭٭

میں جب اُس کی معقول باتوں سے ڈر نے لگتا تو اُس کی بے ربط باتوں کو پڑھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا کہ شاید یہ بندہ سچ مچ کا پاگل ہو۔

میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کانسٹبل اسپیشل برانچ کی اسامی دی تھی۔

پائلٹ آفیسر۔ طیارہ شکن رجمنٹ۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ٹاپ گریڈ لیا تھا۔

شناختی کارڈ کی رجسٹریشن کے بعد  ’’ووٹ‘‘  رجسٹریشن آفس اسلام آباد گئے تھے۔

کمرہ نمبر 120، فائل نمبر 154922

ویزا سیکشن۔ 14 agst 1988

یہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کہیں پائلٹ بننے کے خواب دیکھے ہوں گے اس نے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، شناختی کارڈ بنانے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ اور ویزے کے لئے دوڑ دھوپ میں کہیں تھک کر پیچھے نہ رہ گیا ہو؟اس کے خواب کیا ہیں ؟پتا لگانا چاہیے۔ اس کا بچپن کہاں گزرا۔ ۔ ۔ ۔ ماں۔ ۔ ۔ باپ، بہن بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

سگریٹ کی ڈبیہ کی پشت پر لکھی اُس کی ایک تحریر میرے سامنے گھوم گئی۔

’’سر کیا میں انسانوں کیطرح  بات کرتا ہوں ؟‘‘

’’سر کیا میں گدھا ہوں ؟‘‘

’’نہیں بچہ۔ ۔ ۔ ۔ !!‘‘

’’سر مجھے مس اُلو کا پٹھا کہتی ہے۔ ‘‘

’’مس اُس دن بہت حسین لگ رہی تھی۔ ‘‘

شاید اسے فیس ادا نہ کر نے پر ٹیچر سے ڈانٹ ملی ہو گی۔ پھر اسے سکول سے نکال دیاگیا ہو گا۔ باپ نے سرکاری سکول میں ڈالا ہو گا اور یہ دو سکولوں کے درمیان کہیں بھٹک گیا ہو گا۔ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس نے تو اوپن یونیورسٹی سے ٹاپ گریڈ لیا ہے۔ بڑی محنت کی ہو گی اُس نے۔

میرے سامنے اس کے اَن دیکھے گھر کا منظر کھلنے لگا:

’’ماں !ایک بندے کے پاس ویزے آئے ہیں۔ دوبئی کے۔ ستر ہزار مانگ رہے ہیں۔ ‘‘ اُس نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خوشحالی کا خواب اپنی ماں کو دکھایا ہو گا۔

’’ستر روپے ہیں تیرے پاس؟‘‘ ماں نے اُسے خواب سے جگا دیا ہو گا۔  ’’سات بہنیں ہیں تیری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سات۔ ‘‘ اور تُو چلا جائے گا تو ادھر کون ہو گا؟‘‘

سوال نمبر 9محبت کی دیوار اور محلے کی دیوار میں کیا فرق ہے۔ نیز محلِ محبت کیا ہوتا ہے؟

اسے اپنی پڑوسن سے پیار ہوا ہو گا۔ محلِ محبت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟بے محل محبت۔ ۔ ۔ کیوں کرتی وہ لڑکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب۔ ۔ ۔ بیروزگار لڑکے سے محبت؟اُس لڑکی نے اسے ٹھکرا دیا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

سوال نمبر 10بال کٹوانے سے پہلے غریبی ہوتی ہے یا بال کٹوانے کے بعد؟

یہ اپنے پراگندہ بالوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے یا بچے کے عقیقے کی بات کر رہا ہے۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرفات سے واپسی کے بعد کی بات کر رہا ہے۔ قربانی کے بعد بال کٹوانے کا کہہ رہاہو گا۔ کتنا غریب ہو جاتا ہے انسان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا ہر سوال اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟

سوال نمبر 11انسان اور کتے کے بولنے کی رفتار بتائیے۔

’’بھاڑ میں جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!تم خود بھی پاگل ہو۔ ‘‘ ارشد جان مجھے ڈانٹتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا۔

میں اکیلے اُس کا پرچہ حل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

٭٭٭

چار مہینے گزر گئے، وہ نہیں آیا۔ میں اُس کا انتظار کرتا رہا۔

مجھے تو اس نے اپنا نام بھی نہیں بتایا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں اُسے بھی اپنا نام آتا ہو گا یا نہیں۔

٭٭٭

 

اور ایک دن اچانک وہ آ گیا۔

اُس کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور لہجے میں غصہ۔

’’کاغذ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!‘‘ اُس نے غصے میں کہا تو میں نے کچھ کہنے کی بجائے اُسے کاغذ دے دیا۔

وہ بغیر سوچے لکھے جا رہا تھا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ سوچے بغیر کیسے لکھ رہا ہے۔

 

مسلح افواج کے سربراہ کے نام

بدکردار خاندان میں گینگ ریپ کے ذریعے گینگ ریپ کے ساتھ پھنس گیا ہوں۔

1984سے میری مزدوری کا ایک پیسہ بھی مجھے نہیں ملا۔ ویزا پاسپورٹ اُن کے پاس ہے۔

مجھے مانسہرہ ہیلی پیڈ سے روس میں اُتار دیا جائے۔ کسی سے اپنے حمل کا کیس نہیں لڑوں گانہ خون کا عطیہ دوں گا۔

ہجرت سرٹیفکٹ درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔ 173کنٹری کورٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

’’ٹھہرو۔ ۔ ۔ ۔ !!!میں نے اُس کا قلم روک لیا۔

’’ٹھہرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے؟دیکھو !مجھے پتا ہے تم پاگل نہیں ہو ؟کون ہوتم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

تمہارا نام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘ میں نے اُس سے پوری سنجیدگی سے سوال کیا۔

’’میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں جوتا ہوں۔ ‘‘

میں نے کسی حیرت کا اظہار نہ کرتے ہوئے اُس سے پھر پوچھا۔

’’تم کہا ں ہوتے ہو؟‘‘

اُس نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا تھا ؛

’’یہاں۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

میں اس کے ننگے پیروں کی طرف دیکھنے لگا۔ شاید یہ اپنی غربت کا کہہ رہا ہے۔ میں نے پوچھا ؛

’’غریبی کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’یہ جوتے کی ابتداء اور ضرورت کا سفر ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حلال کی مزدوری کرنا سکھاتی ہے۔ ‘‘

’’تو تمہارے پیر کیوں ننگے ہیں ؟‘‘ میں اُسے کھرچنے کی کوشش کرنے لگا۔

’’میں خود جوتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم مجھے پہنو گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

میں نے اُسے کوڑے کے ڈھیر سے ہڈیاں چنتے منظر سے نکالنے کی ایک مخلصانہ کوشش میں کہا؛

’’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!‘‘

اوروہ خوشی میں مجھ سے لپٹ گیا

٭

 

میں نے ارشد جان کے لئے کاغذ کے پرزوں پر اتنا کچھ لکھ رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پتا نہیں وہ کیوں نہیں آتا۔

٭٭٭

 

 

 

نور

 

                   شہناز خانم عابدی( کینیڈا)

 

رحمت بی بی کی آنکھوں سے  نہ ہی پانی بہا اور نہ ہی وہ سرخ ہوئیں۔ ان کی آنکھ میں جلن، سوزش، خارش  کچھ بھی تو نہیں ہو ئی ۔ بس دکھائی دینا کم ہو نے لگا۔  رحمت بی بی کی فرمائش پر سب سے پہلے مشہور و معروف سرمے آزمائے گئے۔ اس کے بعد آنکھوں میں ڈالنے کے لئے  قطرے استعمال کئے گئے۔ اس کے بعد طبیبوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کیا گیا۔ با لآخر  معلوم ہو ا کہ ان کی بصری عصب  (Optic  Nerve) میں کوئی لا علاج  صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کئی ایک مشہور و  معروف سرجنوں سے رجوع کیا گیا  لیکن جواب نفی میں ملا۔ ان کا مرض سر جری سے بھی درست ہو نے  کے لائق نہیں نکلا۔ ان کی بینائی روز  بروز کم ہوتی چلی گئی۔

بینائی جیسے جیسے کم ہو تی جاتی وہ مزاجاً بہتر سے بہتر ہو تی گئیں۔ بیگمی کے زمانے میں ان کا مزاج  ساتویں آسمان پر ہوا کر تا تھا۔ نوکر ان کے سامنے آ نے سے ڈرتے تھے۔ یوں بھی سب چھوٹے بڑے ان سے خائف رہتے تھے۔ بینائی کم ہو نے سے  تو انہیں اور زیادہ  چڑ چڑا اور تنک مزاج ہو جا نا چاہئے تھا لیکن ہوا اس کے بر عکس۔  وہ ہر کسی سے نرم اور شیریں گفتار ہو گئیں۔  وہ کم بولتیں لیکن جب بھی کچھ بولتیں تو ان کی بات سیدھی دل میں اترتی محسوس ہو تی۔

ان کی بینائی بالکل ختم ہو گئی۔ وہ اندھی ہو گئیں۔ لیکن ان کے آس پاس چھوٹے بڑے لو گوں کا مجمع لگا رہنے لگا۔ گویا ان کو دیکھنے کے لئے اوروں کی آنکھیں مل گئیں۔

میں ان کے گھر بہت کم جاتی تھی۔ مجھے ان کے شان، بان، آن اور تصنّع سے معمور رویے سے دلی بیزاری تھی۔  ان کے مزاج  کی اس غیر معمولی  تبدیلی سے متاثر ہو نا  فطری امر تھا۔ میں ان کے قریب ہوتی چلی گئی۔ اگر کسی دن میں ان سے نہ ملتی اور ان کے ہاں نہ جاتی تو مجھے اپنی زندگی میں کمی محسوس ہو تی۔ وہ بھی میرے ساتھ بے حد محبت سے پیش آتیں اور مجھ سے بات کر تے سمے بہت مطمئن اور پر سکون لگتیں۔ اس پر میں بے حد حیران ہو تی۔ بینائی چلے جانے پر میں نے کبھی ان کی زبان سے شکایت کا ایک لفظ نہیں سنا۔ میرا جی چاہتا کہ میں ان سے اس موضوع پر بات کروں۔ میں اپنے ذہن میں ان سوالات کو منا سب الفاظ دیتی رہتی لیکن کوئی بھی سوال کسی بھی ترتیب کے ساتھ میری زبان پر نہیں آ یا۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کسی کی جاتی ہو ئی بینائی پر بات کر نا اس کو شدید صدمے سے دو چار کر نا ہو تا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں ان سے قریب قریب ہر روز خاموش سوالات کر تی اور واپس اپنی زندگی میں لو ٹ جا تی۔

اس شام رحمت بی بی کے گھر معمول سے زیادہ تا خیر سے پہونچی  بی بی اپنے کمرے میں تنہا تھیں۔ مصلّے پر بیٹھی کچھ ورد کر رہی تھیں۔ ان کے آس پاس کو ئی نہ تھا  میں ان سے کچھ فاصلے پر چپ چاپ بیٹھی ان کو دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد یا تو میری سماعت تیز ہو گئی یا ان کی اپنی آواز۔ ۔ ۔ وہ جو پڑھ رہی تھیں صاف سنائی دینے لگا۔

’’ اللہ نو رالسمٰوٰ ت و ا لا رض ‘‘  ( اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ )  ان کی دھیمی آ واز میں عربی زبان کے یہ الفاظ ان کے کمرے کو روشن کر رہے تھے۔ اسی وقت پہلی مرتبہ مجھے یہ احساس ہو ا کہ ان کے کمرے میں تو روشنی نہیں تھی۔ سارے شہر کی بجلی غائب تھی۔  میں  اسی طرح ان کے الفاظ کی روشنی میں کچھ دیر بیٹھی رہی۔ اور  پھر چپ  چاپ سے اپنے گھر لوٹ گئی۔

مجھے کسی نے نہیں  دیکھا۔ گھر جا کر میں نے دیکھا پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔

میں اندازے سے اپنے کمرے کی طرف گئی اور بیڈ کے برابر رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔

میری زبان سے وہی الفاظ جاری تھے

’’ اللہ نورالسموٰتِ وا لا ر ضِ ‘‘

میری آنکھیں اشکبار  تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مبارکباد اور ایک تصحیح

 

"ادبی منظر "کی اشاعت پر جناب ارشد خالد دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ رسالے کی ترتیب و تدوین قابل تعریف ہے۔ بہت معیاری مضامین پیش کئے گئے ہیں جو قارئینِ  ادب کی دلچسپی کا سبب ہوں گے۔ "ادبی منظر”اردو ادب میں یقیناً گراں قدر اضافہ ہے۔

اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ

اس اشاعت میں میری بھی ایک غزل اور ایک نظم شامل کی گئی ہے جس کے لئے ممنون ہوں۔ البتہ نظم کا عنوان کسی وجہ سے غلط ہو گیا ہے۔ عنوان’نالۂِفلسطین ‘ ہے۔ براہِ کرم تصحیح کر دی جائے۔ ادبی رسالے  "شعرو سخن ”  کی مارچ کی اشاعت میں بھی میری  یہی نظم  غلط عنوان سے چھپ گئی ہے۔ درست عنوان ’نالۂ فلسطین ‘ ہے۔ براہِ کرم تصحیح کر دی جائے۔

صاؔدق باجوہ۔ میری لینڈ امریکہ

٭٭٭

 

 

 

طنزو مزاح

 

راجہ صاحب کے نظریات

 

                   ڈاکٹر منصور احمد(امریکہ)

 

ہمیں یہ معلوم ہے کہ آپ ہم سے یہ سوال ضرور پوچھیں گے کہ آخر راجہ صاحب کون ہیں۔ اور ہمیں ان کے نظریات کریدنے کی ضرورت کیوں آن پڑی۔ خصوصاًَاس زمانے میں جبکہ کسی کے نظریات کے بارے میں تو کجا اپنے ذاتی نظریات کے بارے میں بھی کچھ کہنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ تو صاحبو راجہ صاحب ہمارے احباب میں سے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اب ہمارے احباب میں صرف وہ ہی رہ گئے ہیں۔ چونکہ انکے ہماری زندگی میں آنے کے بعد دوستوں کی گنجائش اور دشمنوں کی ضرورت  بالکل ختم ہو گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں دشمن نما دوست کہا جائے یا دوست نما دشمن۔ کیونکہ ان دونوں صورتوں میں یہ گماں گزرتا ہے کہ شاید انہیں ہماری دوستی مقصود ہے۔ حالانکہ حاشا و کلا  ایسی کوئی بات نہیں۔ اس بات کا اظہار وہ برملا اکثر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں تمہیں دوستی تو کیا عداوت کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔ اس کے باوجود عرفِ عام میں ہمیں ان کے دوست ہونے کی تہمت حاصل ہے۔

راجہ صاحب کم از کم ہمارے لئے بالکل اسم بامسمیٰ ہیں یعنی ہم سے بالکل ویسی ہی بے نیازی برتتے ہیں جیسا کہ راجے مہا راجے  اپنے کمتر مصاحبوں سے روا رکھتے ہوں گے۔ انکے سامنے ہمیں اپنی کوتاہ قامتی کا احساس شدت سے ستاتا ہے۔ وہ مسلسل اپنے تبحرِ علمی، فراستِ عقلی سے اور نورِ روحانی سے احساسِ کمتری میں مبتلا رکھتے ہیں۔ اکثر اوقات فطرتِ ازلی سے شکایت بلکہ شدید رنج  کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں کہ بارگاہِ خاص سے ہمیں کیوں وہ صلاحیتیں ودیعت نہیں ہوتیں جو راجہ صاحب کا خاصہ ہیں۔ جن علمی منازل کو طے کرنے  کے لئے عامۃ الناس کو برسوں کی ریاضت اور مشقت ہوتی ہے وہ راجہ صاحب چٹکیوں میں سر کر جاتے ہیں۔ جن گھتیوں کو سلجھانے کے لئے سائنس دانوں کو برس ہا برس بلکہ صدیوں تک مغز ماری کرنا پڑتی ہے وہ راجہ صاحب کسی نجی محفل میں بیٹھ کر چند منٹوں ہی میں سلجھادیتے ہیں۔

اب پچھلے ہفتے کی ہی مثال لیں۔ محفل میں بیٹھے ایک بے وقوف شخص نے  یہ نقطہ اٹھایا  کہ سائنس دانوں کے مطابق کائنات ایک نکتہ مرکوز سے وجود میں آئی  اور اگر ساری کائنات کو نکتہئِ آغاز یعنی بگ بینگ تک بازگشت کیا جا سکے تو کائنات کی عمر کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً  پندرہ ارب سال ہوتا ہے۔ اس پر راجہ صاحب نے  اس شخص کو اس طرح علمی حقارت سے دیکھا  جس سے چلتے چلتے  اس کی زباں بالکل رک گئی۔ قدرے توقف سے انہوں نے با آواز بلند فرمایا کہ یہ بیان محض  جہالت اور شرک پر مبنی ہے۔ سامعینِ محفل نے سرا سیمہ  ہو کر

عقلی دلائل سے ان سائنسی نظریات کو باطل ثابت کریں گے۔ انہوں نے اس بیوقوف شخص کو متوجہ ہو کر کہا یہ تو بتائیے کہ وقت کیسے ناپا جاتا ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا  ( راجہ صاحب چونکہ ہر لحاظ سے کاملیت پسند ہیں لہذا صرف اس خیال سے کہیں کسی کے جواب میں کوئی جھول نہ رہ جائے۔ ہر سوال کا جواب خود ہی دیناپسند کرتے ہیں ) فرمایا کہ وقت کو تو صرف ماہ و سال سے ناپا جا سکتا ہے۔ جس کا تعلق خود سائنس دانوں کے مطابق سورج کی گردش سے ہے لہذا نظامِ شمسی کے وجود میں آنے سے پہلے پیمانۂ ماہ وسال کا کیا کام۔ اور چونکہ سائنس دان خود یہ کہتے ہیں کہ نظامِ شمسی کو  وجود میں آئے  زیادہ عرصہ نہیں گزرا تو یقیناً کائنات کی عمر وغیرہ بھی کوئی قابلِ یقین بات نہیں ہے۔ اس پر سامعین محفل واہ واہ کر اٹھے( یہی راجہ صاحب کی منشاء تھی)۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر راجہ صاحب  نے یہ فرمایا کہ اگر انہیں وقت ملا تو کائنات کی صحیح عمر کا تعین بھی کر دیں گے۔ لیکن بعد میں  غالباً خانگی مصروفیات کے باعث  انہیں وقت نہ مل سکا۔ بار ہا عرض کیا کہ بندۂ خدا نوبل کمیٹی وغیرہ کو آپ کے فیصلے کا انتظار ہے  اور غالباً نیوٹن اور آئن سٹائن کی روح بھی آپ کے انکشافات کے لئے تڑپ رہی ہے۔ لہذا نسلِ انسانی پر رحم کرتے ہوئے جلد ہمیں اپنے افکار سے آگاہ کریں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ راجہ صاحب نے کبھی علم کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا  اور نہ تحصیلِ علم کو دنیاوی ترقی کے لئے استعمال کیا۔ زیادہ تر علمی کام تو  انہوں نے چلتے چلتے کیا۔ لکھنے کے لئے پرچون کے لفافے۔ ڈاک کے خط یا جو بھی کاغذ سامنے آیا استعمال کر لیا۔ اس لاپروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے افکارِ علمی  مجتمع نہ ہو سکے۔ اگرچہ ان کے ملفوظات  زدِ عام ہیں  بلکہ محفلِ عام ہیں  لیکن انہیں بھی محفوظ نہ کیا گیا  تو لازماً حافظے سے محو ہو جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے  کہ علم کے ان خزانوں کو  فوراً کتابوں میں محفوظ کیا جائے  یا انٹر نیٹ کے ذریعہ ان کی ترویج کی جائے۔

لیکن اس سلسلہ میں بنیادی دشواری یہ بھی ہے کہ راجہ صاحب  علم سے ایک درجہ کی مخاصمت رکھتے ہیں اور نہ صرف بالعموم علم کو خطرۂ ایمان سمجھتے ہیں بلکہ سلسلہ ترویجِ علم میں نظریۂ بقراط کے قائل ہیں۔ لہذا حتیٰ المقدور کسی چیز کو ضابطہء تحریر میں لانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اس سے معترضین کو اعتراض کرنے  کے واسطے مواد میسر ہوتا ہے۔ لہذا وہ پسند نہیں کرتے کہ کسی طرح سے انکے گذشتہ بیانات کا حوالہ دیا جائے۔ خود بھی وہ جلد جلد گرگٹ کی طرح اپنے خیالات بدلتے رہتے ہیں۔ تاکہ میرِ محفل سے انکی ذہنی ہم آہنگی قائم رہے۔ غالباً اس کو ترویجِ فکر کہتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیوقوفوں اور کم درجہ کے لوگوں کی محفل میں راجہ صاحب ان لوگوں کی کم علمی دور کرنے کے لئے  با دلِ نخواستہ درشتی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور ان کی غلط دلیلوں کو پورا ہونے سے پہلے ہی کاٹ کر ان کا جوابِ مضمون سامنے رکھ دیتے ہیں۔ لیکن صاحبِ  حیثیت اور علماء کی محفل میں راجہ صاحب کو سانپ سونگھ جاتا ہے  اور انتہائی کسرِ نفسی اور متانت سے کام لے کر اپنے نظریات کو ان  سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچ ہے کہ جس قدر شجر ثمر بار ہو  اسی قدر جھکتا ہے۔

راجہ صاحب سے علمی گفتگو میں ہمیں اپنی ذہنی کم مائیگی کا احساس اکثر ہوتا ہے۔ کئی بار انہوں نے ایسے ہی چلتے چلتے ایسے مفکرین اور کتابوں کا ذکر کیا جن کا نام بھی ہم نے نہیں سن رکھا تھا۔ ہم اپنی علمی کمتری دور کرنے کے لئے اکثر بڑی کاوش سے ان کتابوں کو باہم  پہنچاتے ہیں  اور مزید فکری خوشہ چینی کے لئے راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو راجہ صاحب بڑی بے نیازی سے ان مفکرین  اور ان کے عوامل فکری  کے بارے میں کچھ ایسے ارشادات فرماتے ہیں  جن سے ہمارے حوصلے  اور علمی تشنگی  پر اوس بلکہ کہر یا برف پڑ جاتی ہے  اور ہمیں کئی ہفتے دماغ کی گرمی سے اس فکری جمود اور انجماد سے نکلنے پر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ کی بات ہے کہ ہم نے ن۔ م  راشد کی نثری نظموں سے متاثر ہو کر سوچا کہ علمِ تاریخ پر نظرضرور کرنا چاہیئے۔ راجہ صاحب سے حسبِ معمول امداد چاہی تو انہوں نے تاریخِ ایران پر ایک طویل لیکچر دینے کے بعد  ابنِ رشد اور ابنِ خلدون کا ذکر کرتے ہوئے بحث کا تانا ہمیشہ کی طرح اس طرح توڑا کہ انسانی فکر بہت محدود ہے۔ اور وجدانِ انسانی کو  وحیٔ آفاقی کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے  وغیرہ وغیرہ۔ ہم ٹھہرے چونکہ خبطی اور کج بحث ( بقول راجہ صاحب ) لہذا ہمیں جزئیات سے بھی کچھ دلچسپی رہتی ہے۔ لہذا ہم نے بڑی مشقت سے یونیورسٹی کی لائبریری سے مرحومین  ابنِ رشد اور ابنِ خلدون کے بارے میں کچھ کتابیں دستیاب کیں اور پھر کئی راتوں کو جاگ جاگ کر انہیں پڑھنے  کی کوشش بھی کی۔ اور تو کچھ نہیں لیکن ابنِ خلدون کے مقدمے تک ضرور پہنچ گئے۔ پہلے تو ہمیں یہ جان کر بہت مایوسی ہوئی کہ اس میں تاریخِ ایران کا کوئی ذکر نہ تھا۔ لیکن یہ جان کر کچھ خوشی ضرور ہوئی کہ تاریخ بھی ایک علمِ سائنس ہے  جسے سمجھنے کے لئے وحیِ آفاقی کی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم یہ سوچ کر دل میں خوش ہوئے کہ اس دفعہ راجہ صاحب کو خود انہی کے دلائل کے ذریعے مات کریں گے۔ لیکن وائے قسمت جب راجہ صاحب کے ہاں پہنچے تو حسبِ حال علم کا ایک دریا رواں تھا۔ وہاں دو چار کم علمی حواری بھی بیٹھے تھے۔ معلوم نہیں موضوع زیرِ بحث کیا تھا۔ لیکن ہم نے کئی دفعہ گفتگو کا رخ  موڑنے کے لئے تاریخ کا ذکر کیا۔ اس پر ایک حواری بولے کہ واقعی تاریخ نازک ہے یعنی مہینے کی آخری تاریخ ہے۔ اور اس پر گھر کا خرچہ ہے۔ کرائے کی قسط بھی باقی ہے۔ بیگم کی فرمائشیں الگ ہیں  اور اقتصادیات کا یہ عالم ہے کہ معاشی ابتری کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس پر راجہ صاحب نے معاشیات کا درس شروع کیا۔ آدم سمتھ۔  رابنز۔ کاکر ل مارکس۔ اور ہیگل سے لیکر  جان نیس سبھی کو رگڑ ڈالا۔ کئی ایسے ماہرینِ معاشیات کا ذکر کیا  جن کا نام بھی ہم نے کبھی سنا نہ تھا۔ ۔ فرمایا کہ ان حضرات کے افکار س انہوں نے انٹر نیٹ پر ملاحظہ فرمائے ہیں۔ اور انہیں حال ہی میں معاشیات کا نوبل پرائز ملا ہے۔ حاضرین راجہ صاحب کی علمی دستگاہ پر عش عش کر اٹھے  اور خاکسار کو رہ رہ کر یہ خیال آیا کہ کیوں تاریخ پر اتنا وقت صرف کیا اقتصادیات کی کتاب کیوں نہ کھولی۔ پھر بھی ڈرتے ڈرتے ابنِ خلدون کا ذکر کیا تو راجہ صاحب نے پرسش کی کہ قوموں کی تاریخ اقتصادیات کے بغیر سمجھی نہیں جا سکتی۔ بولے جب جدید زمانے میں نظامِ معاشیات ہی مکمل طور پر بدل چکا ہے یعنی اب ہم ایک گلوبل اکانومی میں رہتے ہیں۔ تو پھر عصبیت اور علاقائیت پر مبنی نظامِ  تاریخ درست کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے ہی حافظے پر شک گزرنے لگا کہ شاید راجہ صاحب نے یہ کہا تھا یہ محض ہمارے ذہن کا دھوکہ ہے۔ کہ تہذیب کی تمام شاخیں تاریخ سے جنم لیتی ہیں۔ اور تاریخ سے بہتر کوئی شناخت نہیں ہو سکتی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ہمارے ہی ذہن کا فتور ہے۔ راجہ صاحب کوئی ایسی بے تکی بات کیوں کر کہہ سکتے تھے۔ لہذا آج سے ہم اقتصادیات کی کتابیں جمع کرنے میں مشغول ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ راجہ صاحب نے جن جدید ماہرینِ ِ  اقتصادیات  کا ذکر کیا تھا  وہ ہمارے ذہن سے محو ہو چکے ہیں۔ اور ہم کو راجہ صاحب سے دوبارہ پوچھنے میں تردد ہے کہ نہ جانے اس دفعہ وہ ہماری کم علمی کا   کون سا پہلو اجاگر کر دیں۔

احمقوں اور حاسدوں نے  راجہ صاحب کے بارے میں کئی باتیں مشہور کر رکھی ہیں  مثلاً یہ کہ انہیں اپنی علم دانی کا رعب ڈالنے کا شوق ہے۔ اور ان کی اکثر معلومات کا منبع انٹر نیٹ پر پوسٹ کردہ ویڈیوز وغیرہ  ہوتی ہیں۔ لیکن سچ ہے کہ انسان کب کسی کی علمی برتری برداشت کر سکتا ہے  اور دوسرا یہ کہ راجہ صاحب کو  اس کی پرواہ ہی کیا ہے۔ پھر یہ بھی کہ میں نے کبھی ان معترضین کو راجہ صاحب سے کوئی سوال کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ راجہ صاحب کئی کئی گھنٹے مسلسل گفتگو کرتے ہیں۔ اور کئی کئی بار پانی یا چائے پینے کے لئے درمیان میں رکتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کم فہم نے کوئی قابلِ فہم سوال پورا کیا ہو  اگر سوال ہی اسقدر ناقص ہوں تو راجہ صاحب کا کیا قصور۔

راجہ صاحب کے بارے میں یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ آپ ایک علم دوست انسان ہیں۔ کتاب بینی کا خاص شغف رکھتے ہیں۔ حضرتِ حق سے ان کو یہ عجیب  صلاحیت ودیعت ہوئی کہ کسی کتاب کو دیکھ کر ہی اس کے مفہوم کا نہ صرف اندازہ لگا لیتے ہیں بلکہ اس میں بیان کردہ نہایت پیچیدہ اور باریک نکات تک سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ انہیں کسی کتاب کو فرداً فرداً پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کبھی کوئی بہت غور طلب  بات ہوئی تو ان کو کتابوں کا دیباچہ یا سرِ ورق کے پیچھے درج شدہ عبارت کو پڑھتے دیکھا گیا ورنہ عموماً اس کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن نکتہ بین اور مندرجات  پر عبور کا یہ عالم ہے کہ ہر کتاب پرسیر حاصل تبصرہ اور بحث کرتے ہیں۔ اور مدِ مقابل کو  غلط  ثا بت کر دیتے ہیں۔ کئی دفعہ انہیں کی دی ہوئی کتابیں پڑھنے کے بعد  ان سے بحث و مباحثہ کا تجربہ ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے شاید یہ کتاب ہم نے کبھی پڑھی ہی نہیں۔ خود اپنے ہی حافظے پر شک ہوا کہ راجہ صاحب جن واقعات کا ذکر کر رہے ہیں وہ تو شاید کتاب میں رقم ہی نہ تھے۔ کئی گھنٹے سر کھپانے کے بعد راجہ صاحب سے ذکر کیا  تو انہوں نے شانِ بے نیازی سے فرمایا  کہ بھائی میں تو  فلاں (کسی اور کتاب )  کے بارے میں کہہ رہا تھا۔ فرمایا کہ مثالیں محض ہدف کو  واضع کرنے کے لئے بیان کی جاتی ہیں اور اگر جزئیات آگے پیچھے بھی ہو جائیں تو حاصلِ بحث پر کچھ فرق نہیں پڑنا چاہیئے۔ پھر فرمایا کہ بھائی تم ٹھہرے خبطی اور کج بحث۔ اب دوسری کتاب کو کھول کر نکتے نکالنے نہ بیٹھ جانا۔ ہم دل ہی دل میں اپنے ارادے پر نادم ہوئے اور راجہ صاحب کی معاملہ فہمی کے اور بھی زیادہ قائل ہو گئے۔

لیکن ہم بھی ٹھہرے اپنے دھن کے پکے۔ بڑی سوچ بچار کے بعد ہم نے راجہ صاحب کی ایک کمزوری پکڑ ہی لی۔ آپ ضرور پوچھیں گے وہ کیا۔ ہوا یہ کہ ہمیں راجہ صاحب کی مصاحبت میں ایک محفلِ میلاد میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلی بار ہم نے راجہ صاحب کو مسلسل خاموش بیٹھے دیکھا۔ دیکھا کہ نہ صرف وہ ایک انسان نما مولوی کا بیان بغور سن رہے ہیں  بلکہ گاہے بگاہے اپنی آنکھیں بند کر کے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بھی دیکھا۔ مولوی صاحب باریک مسائل کو اپنی کوتاہ بینی سے تار کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اور لمبی سروں میں نثری تقریر کو نظموں کے روپ میں دھار رہے تھے۔ لیکن مجال ہے کہ راجہ صاحب  نے کسی جنبشِ جسمانی سے بھی  اس مولوی صاحب کے قابلِ مذمت بیان سے انکار کرنے کی کوشش کی ہو بلکہ یو ں لگتا تھا کہ راجہ صاحب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ تقریر ختم ہونے تک مسلسل سر دھنتے رہے اور حد تو یہ ہے کہ تقریر ختم ہونے کے بعد جو چندہ کی تحریک شروع ہوئی تو اپنے دستِ شفقت سے خاکسار سے پانچ  ہزار ڈالر کا چیک لکھوا  کر نذرِ چندہ کیا اور رشوت کے طور پر ثوابِ دارین کا ذکر بھی کیا۔

یہ درست ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے۔ ہماری نیت ہر گز چندے اور ثواب کی نہ تھی بلکہ مقصود تو صرف راجہ صاحب کی ذہنی سر کوبی تھی۔ ہمیں رہ رہ کر یہ خیال آیا کہ آخر ایک معقول شخص جو عقل و دانش کا علمبردار ہے کس طرح ایک نیم مولوی کے جھانسے میں آ سکتا ہے۔

لیکن غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ راجہ صاحب پر ہی کیا موقوف۔ عقائد کی دنیا میں سبھی ننگے ہیں۔ ہم سبھی اپنے عقائد و نظریات کو درست ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر عقل اور دلیلوں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔ اور دوسروں کو  اپنے سے کم عقل اور بد عقیدہ ثابت کرتے ہیں  (خواہ اس میں دوسروں کی دل آزاری ہو رہی ہو۔ )۔ تاکہ ہماری یا ہمارے مسلک کی روحانی برتری قائم ہو سکے لیکن مزے کی بات تو یہ ہے  کہ جس نظریئے کو ہم عقل اور منطق سے  درست ثابت کرتے ہیں اس تک پہنچنے میں نہ ہماری کوئی عقل کا ہاتھ ہے اور نہ منطق کا۔ بلکہ اکثر اوقات یہ ایک پیدائشی حادثہ ہوتا ہے۔ یا ایک جذباتی و ہیجانی فیصلہ کہ ہم ایک مذہب اختیار کر لیتے ہیں۔ راجہ صاحب اگر ایک بدھ گھرانے میں پیدا ہو گئے ہوتے تو شاید اہنسا کا پرچار بھی اسی شدت سے کرتے جس طرح آج کل وہ اپنے سخت نظریات پر زور دیتے ہیں۔ لیکن شاید راجہ صاحب بھی اس حقیقت سے بخوبی آگا ہ ہیں۔ لہذا اصل اقتدار اور مولویوں سے کبھی تعلقات نہیں بگاڑتے کہ نہ جانے کس وقت کس کی ضرورت پڑ جائے۔ اور یہی ان کے نظریات کی اصل روح ہے۔

٭٭٭

 

 

 

  حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری کا تجزیاتی مطالعہ

 

                    عامر سہیل(ایبٹ آباد)

 

حیدر قریشی کا تخلیقی سفر اور فکری جہات کا ذکر اُن کی انشائیہ نگاری کے بغیر نامکمل ہے۔ اس صنف میں اُن کی دلچسپی کا پس منظر خاصا و سیع ہے لیکن یہ طے ہے کہ اُنھوں نے اپنی نثر کی فسوں ساز قوت کی بدولت بہت جلد انشائیہ نگاری میں اپنی انفرادیت منوا لی تھی۔ اُن کے انشائیے کتابی صورت میں طبع ہونے سے پہلے پاک و ہند کے مقتدر معاصر ادبی جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ بعد ازاں یہ تمام انشایئے ’’ فاصلے، قربتیں ‘‘  کے نام سے انٹر نیٹ پر آ گئے اور پھر کچھ عرصے بعد ان تمام انشائیوں کو شعری و نثری کلیات ــ ’’  عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘  میں یکجا کر کے شائع کر دیا گیا۔ یہ کلیات کتابی صورت میں دستیاب ہونے کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ۔ گفتگو کو مزید آگے بڑھانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انشائیے کی تعریف، اصطلاح اور حدود پر اجمالاً بات کر لی جائے تاکہ تفہیم میں آسانی رہے۔

انشائیہ کیا ہے؟

ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے:

’’ جدید تنقید میں غالباً انشائیہ وہ واحد صنفِ  ادب ہے جس کے بارے میں نزاعی نظریات اور جذباتی مقالات لکھے  جاتے ہیں۔ اس کی تعریف اور آغاز دونوں پر لے دے ہو رہی ہے۔ ‘‘   ۱؎

یہ رائے حقائق پر مبنی ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل جب ڈاکٹر وزیر آغا  اور اُن کے قریبی رفقا نے اپنی تحریروں کو انشائیہ کہنا شروع کیا تو بحث و مناظرے کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور خوابِ جوانی کی مانند  ’’ انشائیہ ‘‘  کی بھی نت نئی تعبیریں کی گئیں۔ اس تمام نزاع کی اصل وجہ یہ تھی کی بے شمار ناقدین انشائیہ کی اصطلاح کو مضمون کے ساتھ خلط ملط کر رہے تھے اور دبستانِ سرگودھا کے سنجیدہ تخلیق کار اور ناقدین و محققین اس صنف کو مضمون اور مقالہ نگاری سے الگ صنف ثابت کر نے میں مصروف تھے۔ اگر ان تمام نزاعی امور پر نظر کی جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انشائیہ جیسی نئی صنف پر بات کرتے ہوئے عدل و انصاف اور معروضی حقائق و شواہد کو پسِ پشت  ڈال کر محض جذباتی تنقیدیں لکھی جاتی رہی ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ انشائیہ کو اردو ادب میں قدم جمانے میں خاصی تاخیر ہو گئی۔

جدید عہد میں انشائیہ پر نظر ڈالی جائے تو علم ہوتا ہے کہ تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود اس صنف نے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا کی زیرِ تربیت انشائیہ نگاری پر تخلیقی اور تنقیدی کام کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو چکا ہے۔

انشائیہ کی تعریف

ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول:

’’ انشائیہ اُس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ‘‘   ۲؎

یہ تعریف منطقی اعتبار سے جامع اور مانع ہے اور انشائیہ کے تمام اوصاف کو محیط ہے۔ انشائیہ کا اسلوب شگفتہ اور غیر رسمی ہوتا ہے، اور طنزو مزاح کے عناصر اگر شامل ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن اس صنف کے لئے طنز و مزاح کی شرط لازمی نہیں ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس حوالے سے روشنی فراہم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’ در اصل اُسلوب کی شگفتگی یا اس میں طنز و مزاح کی آمیزش کو انشائیہ کے لئے ناگزیر قرار دینا کسی صورت بھی مستحسن نہیں ہے۔ انشائیہ میں طنز کی کاٹ یا مزاح کی پھلجھڑی کا در آنا انشائیہ نگار کے خاص موڈ یا مزاج کا رہینِ منت ہوتا ہے۔ ‘‘   ۳؎

انشائیے کے موضوع عموماً ہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔ اور انشائیہ نگار اپنے زورِ تخیل اور شخصی زاویہ نظر اختیار کرتے ہوئے اپنے موضوع کے ایسے ایسے پوشیدہ گوشے بے نقاب کرتا چلا جاتا ہے جو اَب تک نظروں سے اوجھل تھے۔ انشائیہ نگار کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے چنیدہ موضوع کو معمولی یا غیر معمولی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عام مضمون کے بر عکس انشائیہ میں منطقی ترتیب کا فقدان ہوتا ہے اور اصلاح پسندی یا کسی خاص نقطۂ نظر کا پرچار کرنا اس صنف میں مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

انشائیہ نگاری کے ضمن میں جو اختلافی مباحث منظر عام پر آئے اگر ان کا غیر جانب داری سے محاکمہ کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اکثر ناقدین انشائیہ کو مضمون ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں اور مضمون نگاری کے جملہ اوصاف کو انشائیہ میں متحرک دیکھنے کے خواہش مند ہیں، بدیں سبب سر سید احمد خان کی اُن تحریروں کو بھی انشائیہ کہا جانے لگا جس میں پند و نصائح اور مقصدیت کے عناصر حاوی تھے۔ اکبر حمیدی اس صنف کے دیگر وصفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ انشائیہ نگار نئے عہد کی نئی زندگی کے نئے نئے رخ نئے انسان کی اظہاری تقاضوں کا دور تک ساتھ دیتا ہے۔ ‘‘   ۴؎

انشائیہ کے مزید اوصاف ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول کچھ یوں ہیں :

’’ انشائیہ ایک ایسی غیر افسانوی صنف  نثر ہے  جو قاری کو بیک وقت لطف اندوزی، جسمانی تسکین اور جمالیاتی حظ مہیا کرنے پر قادر ہے۔ اسی لیے میں اسے امتزاجی صنف کا نام دیتا ہوں جس میں کہانی کا مزہ، شعر کی لطافت اور سفر نامے کا فکری تحرک یکجا ہو گئے ہیں۔ ‘‘   ۵؎

مسرت کا حصول انشائیہ نگاری کا وہ اہم مقصد ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے انشائیہ نگار کے پیش نظر رہتا ہے۔ اور خیالات کی تعمیر و تشکیل میں اپنا جلوہ دکھا جاتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو  مونتین ( Montaine ) کی پیروی کا عمل آج بھی جاری ہے۔

حیدر قریشی کے انشائیوں کا تجزیاتی مطالعہ

حیدر قریشی کے کلیاتِ نظم و نثر  ’’ عمر لا حاصل کا حاصل ‘‘  میں کل دس انشائیے شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں :

انشائیوں کے عنوانات:

۱۔ خاموشی          ۲۔ نقاب    ۳۔ وگ                ۴۔ فاصلے قربتیں

۵۔ بڑھاپے کی حمایت میں ۶۔ اطاعت گزاری       ۷۔ خیر و شر کے سلسلے

۸۔ چشمِ تصور    ۹۔ اپنا اپنا سچ     ۱۰۔ تجربہ اور تجربہ کاری

انشائیہ نگاری میں عنوان کی اہمیت دوسری اصناف کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔ انشائیہ نگاری اور تحلیلِ نفسی میں یہ نقطہ قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے کہ دونوں میں کسی ایک عنوان کے گرد سوچوں کا پورا ہالہ تیار کرنا ہوتا ہے۔ اور خیالات میں ربط یا بے ربطی کا اپنا اپنا جواز  بنتا ہے اور ہر ایک کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اردو، انگریزی اور فرانسیسی انشائیہ نگاروں نے عنوانات کا چناؤ زندگی کے از حد عمومی پہلوؤں سے کیا ہے۔  مثلاً بٹن، کمرہ، کھڑکی، سڑک، ایک درخت، صدائے باز گشت، اداس آئینے، کرسی، روشنی اور دیوار وغیرہ۔ عنوان کی عمومیت بذاتِ  خودایک خوبی شمار ہوتی ہے کیوں کہ ایک اچھا تخلیق کار اپنے انشائیے میں عام اشیاء سے خاص اشیاء کی جانب اُڑان بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس تمہیدی پس منظر کے بعد حیدر قریشی کے چند نمائندہ انشائیوں کا  فرداً فرداً تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔

۱۔        خاموشی

حیدر قریشی نے اپنے اس انشائیے کا آغاز اِن الفاظ سے کیا ہے:

’’ ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں۔ اسی طرح سناٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سناٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کر پاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔ سناٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جب کہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔ ‘‘   ۶؎

خامشی بظاہر ہماری زندگی کا  نا گزیر حصہ ہے اور روز مرہ کے معمولات میں خاموشی بھی کسی نہ کسی حوالے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی  رہتی ہے، لیکن جب زندگی کا یہی عمومی مظہر انشائیہ نگار کا موضوع بنتا ہے تو اس کے نت نئے انوکھے زاویے ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ محولہ بالا اقتباس میں خرد افروزی تو اپنی جھلک دکھا رہی ہے، اس کے جَلو میں خیال افروزی کی کرنیں بھی جگمگ جگمگ کر رہی ہیں۔ یہ ایک تیکھی بات ہے جو پڑھنے والوں کے احساسِ  لطافت کو مہمیز لگاتی ہے۔ نثری بیانیہ تخیل کو وسعت آشنا کر رہا ہے۔

سناٹے اور خاموشی کا فرق وہی واضح کرے گا جو تخیل کی مینا کاری سے نئی دنیا آباد کرنے کا سلیقہ جانتا ہو۔ حیدر قریشی نے کمال مہارت سے ایک فلسفیانہ نکتے کو عام فہم انداز میں چلتے پھرتے بیان کر دیا ہے۔ یہی وہ تخلیقی ذہانت ہے جو انشایئے کا اصل جوہر ہے۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش اسی نکتے کو ذرا گہرائی میں جا کر زیر بحث لاتے ہیں، اُن کا کہنا ہے:

’’  انشائیہ ایک گھتی ہوئی تحریر ہے جس میں ایک نقطہ خیال سے پھوٹتا ہے اور پھیل کر دوبارہ پہلے نقطے میں سمٹ آتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ جب یہ دوبارہ مرکزی نقطے کو چھوتا ہے تو معنی کی ایک نئی پرت، فکر کا ایک انوکھا زاویہ اور خیال کی ایک تازہ لہر نمو دار ہو جاتی  ہے۔ ‘‘   ۷؎

اس بیان میں اگر نفسیاتی کیفیت کا اضافہ کر لیں تو کئی دوسرے پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ حیدر قریشی اب خاموشی کے مرکزی نقطے کو مضبوطی سے تھامے اپنے موضوع کی دوسری پرتوں کو کھولنا شروع کرتے ہیں :

’’ کسی ہنگامہ خیز، پر شور ماحول نے نہ کبھی دو سچے دلو ں کو ملنے دیا ہے اور نہ کبھی کوئی سچا صوفی پیدا کیا ہے۔ ‘‘   ۸؎

یہی وہ اختصار ہے جو انشائیے کو معتبر بناتا ہے۔ مصنف نے دنیا کی اتنی بڑی حقیقت کو غیر رسمی طریقِ کار اور شخصی نقطۂ نظر کی بدولت محض چند الفاظ میں سمیٹ دیا ہے۔ غزل کی طرح انشائیے میں بھی کوئی بات خلافِ واقعہ نہیں ہوتی یا اگر کوئی خیال خلافِ واقعہ آ جائے تو اس کی کوئی اپنی منطق یا اپنا کوئی پس منظر لازماً ہو گا۔ تاہم غزل کی ایمائیت اپنی پوری توانائی کے ساتھ انشائیہ میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔

حیدر قریشی نے اپنے انشائیے میں اُس تاریخی سچ کو بھی فنکارانہ حُسن کے ساتھ پیش کیا ہے جس کے بغیر خاموشی کی معنویت کا تذکرہ ادھورا رہ جاتا :

’’ سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابنِ منصور نے سولی قبول کر کے خاموشی  سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے، بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابروں  کے سامنے شکست تھی، لیکن در حقیقت اُن مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی  جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ ‘‘    ۹؎

اگرچہ یہ کوئی تاریخی انشائیہ نہیں ہے اس کے باوجود تاریخیت کے حُسن سے مملو ہے۔ اکبر حمیدی انشائیے کے نئے افق تلاش کرتے ہوئے یہاں تک رعایت دیتے ہیں :

’’ جس ماحول کا انشائیہ لکھا جائے اُس کے ماحول کو تبدیل نہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر تاریخی انشائیہ لکھا جائے تو تاریخی مدار سے باہر نہ جایا جائے بلکہ اس کے گوشوں کی سیاحت کروائی جائے اور تاریخی ذائقے کو اوّل تا آخر بحال رکھا جائے۔ ‘‘    ۱۰؎

حیدر قریشی کے اس انشائیہ میں تاریخی حوالے بھی آئے سو انھوں نے اکبر حمیدی کی بات پر عمل کیا اور بے ساختہ کچھ ایسے واقعات کا ذکر کیا جن کا تعلق ماضی قریب سے بنتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے ایک مضمون میں انشائیے کی تکنیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انشائیے کا  ایک وصف یہ بتایا تھا :

’’ عنوانات کا موضوع  یا نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہ ہونا۔ ‘‘   ۱۱؎

لیکن حیدر قریشی کے انشائیوں میں ایسی کیفیت نہیں ملتی، اُن کے اکثر انشائیے مشمول  ’’ خاموشی‘‘  اپنے عنوان سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی ڈاکٹر سلیم اختر کی یہ رائے انتہا پسندی پر مبنی ہے۔ اگر سو انشائیوں میں سے ایک آدھ انشائیہ ایسا نکل آئے جس کا عنوان اپنے موضوع سے ہم آہنگ نہ ہو تو اس سے یہ نتیجہ ہرگز برآمد نہیں ہوتا کہ باقی ۹۹ انشائیے بھی اپنے موضوع سے انحراف پر مبنی ہوں گے۔

حیدر قریشی کے انشائیوں میں نفسیاتی بصیرت کا اظہار ایک لازمی امر ہے،  ’’ خاموشی‘‘  میں یہ رنگ گہرا ہوتا نظر آتا ہے لیکن انشائیے کی تکنیک اور اسلوب کو بوجھل نہیں بناتا، یہ مثال ملاحظہ ہو:

’’ خاموشی خیر کی علامت ہے جب کہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شور پسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جب کہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں۔ اُس شوہر کی ازدواجی زندگی کبھی ناکام نہیں ہو سکتی جو مزاجاً امن پسند ہو، چاہے اُس کی بیوی کتنی ہی جھگڑالو کیوں نہ ہو۔ کیونکہ خیر کی قوت بالآخر شر کی قوت پر غالب ہی آتی ہے۔ اسی لئے تو غالب نے کہا تھا:   ؎  ایک خاموشی پر موقوف ہے گھر کی رونق۔ ‘‘  ۱۲؎

یہی نکتہ آفرینی انشائیے کو انشائیہ بناتی ہے۔  ’’ خاموشی‘‘   زندگی سے پوری طرح منسلک تحریر ہے جو حسن وخیر کے متنوع پہلوؤں کو اُسی مرکزی دھارے میں رکھ کر زیرِ بحث لاتی ہے جس عنوان کے تحت یہ انشائیہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ عنوان بذاتِ خود اکائی کی وہ تجسیم ہے جو موضوع میں بکھری نظر آتی ہے۔ قاری  ’’خاموشی ‘‘  کو پڑھتے ہوئے یہ تاثر بھی اخذ کرتا چلا جاتا ہے کہ اس انشایئے کی مجموعی فضا رجائیت پر مبنی ہے۔ اس انشایئے کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قاری دورانِ مطالعہ ایک عام انسانی سطح سے اوپر اُٹھ کر انشائیے میں چھپے اُس عارفانہ تجربے کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے جو زندگی کو حسین اور آسان بناتا ہے۔ انشائیے کا یہ نادر پہلو ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے انشائیہ نگار بذاتِ  خود اپنی تحریر میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر انشائیہ نگار اس صنف کے اہم فطر ی عناصر کو ساتھ لے کر چلے گا تو اُس کی تحریر میں نامیاتی تاثر آفرینی پیدا ہو جائے گی۔

انشائیہ ایک ایسی ظالم صنف ہے کہ اس میں انشائیہ نگار کی اپنی ذات کسی نہ کسی حوالے سے اپنی جھلک دکھا جاتی ہے۔ انشائیہ نگار کی کشادہ ذہنی، بالغ نظری، وسعتِ قلبی، انسان دوستی اور وسیع المشربی  یا اس کے برعکس بخیلی، دشمنی، حسد، کینہ اور بز دلی کا عکس انشائیے میں اپنی موجودگی  لازماً ظاہر کرے گا۔ جن نقادوں نے انشائیہ نگاری اور تحلیلِ نفسی کے مابین مماثلت کا ذکر کیا اُس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا باطن بہر صورت بے نقاب ہو جاتا ہے۔

آمدم بر سرِ مطلب، اگر یہ کہا جائے کہ حیدر قریشی کا یہ انشائیہ فرد کی وجدانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور انفرادی سوچ کو تقویت فراہم کرتا  ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ حیدر قریشی کو زندگی سے پیار ہے۔ وہ زندگی کی سرد گرم کیفیات کے رمز شناس، انسانی اقدار کے حامی اور ہمدردی کے اوصاف سے مالا مال ہیں اور یہ تمام رویے اُن کے انشائیے  ’’ خاموشی‘‘  میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جمیل آذر کی یہ رائے دیکھئے جس میں وہ     انہی اوصاف کو ذرا عمومی پیرائے میں بیان کر رہے ہیں لیکن ان کا اطلاق حیدر قریشی پر بھی ہوتا ہے:

’’ انشائیہ نگار وحدتِ انسانی کا علمبردار ہے وہ رنگ، نسل، زبان اور قومیت سے ماورا ہو کر عظمتِ انسانی کا علمبردار ہے۔ اُس کے ہاں انسان سے آفاقی محبت کا تصور بدرجہ اتم ملتا ہے۔ ‘‘    ۱۳؎

اس انشائیے میں فکری اور اشاراتی عناصر موضوع کی تہہ داری اور تنوع میں خوبصورت اضافے کر رہے ہیں۔

(۲)  بڑھاپے کی حمایت میں :

بڑھاپا بظاہر ایک ایسا نفسیاتی موضوع ہے جس سے ہر شخص بھاگتا ہے اور اور عمر کی اس فطری تبدیلی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتا۔ حیدر قریشی اپنے انشائیے   ’’ بڑھاپے کی حمایت میں ‘‘  اس عمومی رویے کے بر عکس بڑھاپے کا خیر مقدم نہایت فراخ دلی سے کر رہے ہیں۔  لطف کی بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے بڑھاپے کو اپنا ہمزاد اور ہم راز بنا کر پیش کیا ہے اور آنے والے دور کے بے پناہ امکانات کو کھلی بانہوں کے ساتھ خو ش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک بڑھاپے کو ٹالنا یا نا اُمیدی کو خود پر مسلط کرنا درست نہیں۔ وہ زندگی کے تینوں ادوار کو معروضی سطح پر جانچنے کے بعد کہتے ہیں :

’’ جس طرح ہم اپنے حال میں رہ کر اپنے حال سے بے خبر ہوتے ہیں، ایسے ہی جوانی میں بھی اپنے آپ سے بے خبری کا عجیب عالم ہوتا ہے۔ ، لیکن بڑھاپا مستقبل کی طرح یقین اور بے یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا عالمِ برزخ ہے۔ یہاں سے آگے انسان کے ماورائے زمان و مکاں ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ ‘‘   ۱۴؎

حیدر قریشی نے محولہ بالا اقتباس میں بہت دھیمے انداز میں یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ  ’’ بڑھاپے ‘‘  کا مایوسی اور اذیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا بلکہ یہ گذشتہ عمر کی بے چہرگی کو حسن عطا کرتا ہے اور زمان و مکاں سے آزاد کراتا ہے۔ آزادی کا یہ سفر اصل میں نئے جہانوں کی سیر ہے اور انسان میں ایک بار پھر جینے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔ درد و کرب اور دکھ تکلیف سے باہر نکل کر حوصلہ مندی اور عزم کی شمع روشن کرتا ہے۔ غالبؔ نے تو یہ کہہ کر ہمت ہار دی تھی:

مضمحل ہو گئے  قویٰ، غالب         وہ عناصر میں  اعتدال کہاں   ۱۵؎

لیکن حیدر قریشی کا وژن کچھ اور کہہ رہا ہے:

’’بڑھاپا بزرگی اور متانت عطا کرنے کے ساتھ زندگی کے تجربات کا نچوڑ نکال کر ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ بڑھاپے میں گر گِ  ظالم بھی پر ہیز گار بن جاتا ہے اور یہ پرہیز گاری اُسے قویٰ کے اضمحلال اور زندگی کے تجربات کے نچوڑ کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ ‘‘   ۱۶؎

انشائیہ نگار کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ مشاہدے  میں آنے والے حقائق اور مظاہر کے ایسے زاویوں کو بھی نمایاں کرے جو بالعموم ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں تاکہ نئے ادراکات کی روشنی میں اُس شے کے چھپے اَسرار کو سمجھا جا سکے۔ حیدر قریشی نے یہ فریضہ عمدگی سے ادا کیا ہے۔ اُن کا طرز بیان بڑی سے بڑی بات کوآسان اور موثر انداز میں پیش کر دیتا ہے۔ اُن کی فکر پند و نصائح کے بجائے بے تکلف اُسلوب میں اظہار پاتی ہے۔ شہزاد منظر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:

’’ انشائیے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ انشا کا اعلیٰ نمونہ ہو، لہٰذا اچھی انشائیہ نگاری کے لیے تخلیقی زبان ضروری ہے، لیکن تخلیقی زبان سے مراد طنز و مزاح، لطائف یا پند و نصائح نہیں۔ ‘‘    ۱۷؎

زندگی کی کھری اور حقیقی کیفیت کو اُسلوب اور تخیل کی تازہ کاری سے انشائیہ کا حصہ بنانا آسان بات نہیں ہوتاکیونکہ ایک آنچ کی کسر کسی انشائیے کو مضمون یا مقالے میں تبدیل کرسکتی ہے۔ حیدر قریشی نے انشائیہ نگاری کے جملہ تقاضوں کو نبھاتے ہوئے زندگی کی ایک اٹل حقیقت اور سچی جہت کو اس طرح اُجاگر کیا ہے کہ فکر کا جذبہ بڑھاپے کی محبت میں گھلتا نظر آتا ہے۔ انشائیہ نگاری کا اصل حسن یہی ہے کہ تخلیقی اظہار ازلی و ابدی سچائیوں کو بو جھل نہ بنائے بلکہ لطیف پیرائے میں اپنی بات دوسروں تک منتقل کر دے۔ فنی و جمالیاتی اقدار کا پاس لحاظ انشائیے کی اولین ضرورت ہے۔ طنز و مزاح کی شرط انشائیے کے لیے لازمی نہیں ہے البتہ اگر یہ عناصر غیر محسوس طریقے سے اسلوب کا حصہ بن کر انشائیے کے قالب میں گھر کر لیں تو مضائقہ نہیں ہے۔ زیرِ بحث انشائیہ سے ایک مثال درج کی جاتی ہے:

’’ انسان بچپن میں ضدی ہوتا ہے اور جوانی میں باغی۔ لیکن بڑھاپے میں ضد اور بغاوت دونوں سے دامن چھڑا کر خود سپردگی اور راضی بہ رضا کے صوفیانہ مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اولاد جتنی گستاخ، بے ادب اور بے پروا ہو گی، اس صوفیانہ مقام میں انسان اتنا ہی ترقی کرتا جائے گا اور آ خر اس مقامِ لاہوت تک جا پہنچے گا جہاں سے واپسی نا ممکن ہوتی ہے۔ ‘‘   ۱۸؎

یہ طنز ملیح ہے جس میں اصلاح کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اور شگفتہ موڈ کی پیداوار ہے۔ انشائیہ نگار کا مقصد کسی کی اصلاح نہیں بلکہ قاری کو مسرت اور لطف کی کیفیت میں شریک کرنا ہے۔ حیدر قریشی نے قاری کو مایوس نہیں کیا اور کسی قسم کی سنجیدگی کو بھی قریب نہیں آنے دیا جس کی وجہ سے اُن کا یہ انشائیہ تخلیقی اضطرار اور تخیلی اظہار کا با وقار حوالہ بن گیا ہے۔

منزہ یاسمین کہتی ہیں :

’’حیدر قریشی اپنے اکثر انشائیے اُن موضوعات پر لکھتے ہیں جو اُن کے ذ ہنی، فکری اور جذباتی ردِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کا ہر انشائیہ اُن کے شخصی تجربے اور مشاہدے کا حامل نظر آتا ہے، وہ اپنے دل چسپ اور انوکھے تجربے میں قاری کو شریک ہی نہیں کرتے بلکہ ہم نوا اور ہم خیال بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘   ۱۹؎

یہ بات اپنی جگہ درست ہے بس اس میں اتنا اضافہ بھی کر لیا جائے کہ حیدر قریشی اپنے تمام موضوعات میں ذات و کائنات کے نئے اور منفرد روپ شگفتہ اور بے تکلف اسلوب میں پیش کرنے پر قادر ہیں تو بات جامع ہو جاتی ہے۔

(۳) فاصلے، قربتیں :

یہ انشائیہ کلیات میں شامل ہونے کے علاوہ  ’’اوراق‘‘   ۲۰؎میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کے آغاز میں یہ شعر درج ہے:

؎                               جب سرکار کی جانب سے منظوری ہوتی ہے         فاصلہ کتنا  بھی ہو  عین حضوری ہوتی ہے    ۲۱؎

حیدر قریشی نے انشائیے کی ابتدا ئی سطور میں بڑے دوستانہ انداز میں سر سبز و شاداب پہاڑوں کا ذکر کیا ہے جنہیں وہ روزانہ دور سے دیکھتے اور سراہتے ہیں اور پہاڑوں کی بلندی اور عظمت اُن  کے دل پر نقش ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وہ ایک دن پہاڑ کو نزدیک سے دیکھتے ہیں تو اُن کی رائے میں بڑی تبدیلی آ جاتی ہے:

’’ میں نے دیکھا کہ دور سے اتنا عظیم دکھائی دینے والا پہاڑ ایسے خوفناک ٹیڑھے میڑھے، رستوں اور ہولناک کھائیوں سے بھرا ہوا تھا جو سیدھا موت کے منہ میں لے جانے والی تھیں۔ اِس کا دامن خونخوار جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ ‘‘    ۲۲؎

انشائیے کا یہ حصہ عمومی تجربات و مشاہدات کو رواں اُسلوب میں بیان کرتا ہے اور اُن کی نظر پہاڑ میں چھپے ولن کو بھی بخوبی دیکھ لیتی ہے:

’’ تب مجھے فاصلوں کا کمال معلوم ہوا۔ جس نے پہاڑ کے اندر کے ولن کو چھپا کر اُسے ہیرو کے روپ میں پیش کر رکھا تھا۔ ‘‘   ۲۳؎

یہ انشائیہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے اس میں تفکر کے عناصر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور انشائیہ نگار بظاہر ایک عمومی مشاہدے سے انسانی نفسیات کے گہرے اور تیکھے اصول دریافت کرنے لگتا ہے:

ـ ’’ مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے بڑے عظیم لوگ، پہاڑ جیسے عظیم لوگ، محض اس لئے عظیم لگتے ہیں کیونکہ ہم اُنھیں فاصلے سے دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ جو لوگ انہیں قریب سے دیکھ لیتے ہیں اُن پر ان کی عظمت سے زیادہ ان کی شخصیت کے مخفی جوہر کھل جاتے ہیں، اس لیے وہ ان کی عظمت کے منکر ہو جاتے ہیں۔ ‘‘   ۲۴؎

یہ وہ آنکھ ہے جو قطرے میں دجلہ دیکھنے پر قادر ہے۔ جن تجربات کی روشنی میں یہ اُصول اخذ کیا گیا ہے اُن کی آفاقیت تشریح اور وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب والی بات ہے۔ اس نوع کی اصول سازی کوئی بہت حساس، درد مند اور ذہین شخص ہی  کر سکتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے گہرے احساس اور بصارت سے زیادہ بصیرت کی ضرورت ہے۔

حیدر قریشی نے اُوپر جو اُصول وضع کیا  تھا اب وہ اس کی مزید گرہیں کھولتے ہیں تاکہ انھوں نے جو استدلال قائم کیا تھا اُس کے نفسیاتی کوائف مع تشریحات و  توضیحات مستحکم ہو جائیں :

’’ طویل فاصلے سے سورج جیسے چمکتے ہوئے لوگ اپنے اندر سورج سے بھی بڑا جہنم آباد کئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ فاصلے پر بٹھائے ہوئے لوگوں کے لیے جنت کی بشارتیں نشر کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘    ۲۵؎

حیدر قریشی کی یہ نکتہ آفرینی مجاز کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، جو استعارے کے پیر ہن میں اپنا جادو جگا رہی ہے۔ یہ انداز اگرچہ شاعرانہ ہے لیکن نکتہ آفرینی حکیمانہ ہے۔ نذر خلیق اس ضمن میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ حیدر قریشی کے انشائیوں میں نکتہ آفرینی کا عنصر فراوانی سے ملتا ہے۔ ان کی نکتہ آفرینی ایک دو جملوں سے بہت کم ظاہر ہوتی ہے۔ اگر چہ ایسا ہوتا بھی ہے لیکن عموماً ایک پوری فضا کے بعد اُن کی بات کا بھید کھلتا ہے اور ان کی نکتہ آفرینی سے لطف لینے کے لیے اُس سطح تک جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ‘‘    ۲۶؎

حیدر قریشی کا یہ انشائیہ جہاں اور بہت سے تکنیکی اور فکری اوصاف کا حامل ہے وہاں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنے انشائیے کے مرکزی اور ضمنی وقوعوں کے انتخاب و حذف کا بھی سلجھا ہوا شعور رکھتے ہیں۔ یہ انشائیہ اگرچہ مختصر ہے لیکن کسی واقعاتی یا فکری تشنگی کا احساس نہیں دلاتا بلکہ قدم قدم پر قاری کی قوتِ فکر کو متحرک کرتا چلا جاتا ہے۔ انشائیے میں کئی مقامات پر سماجی اور نفسیاتی رویوں کو سادگی مگر گہرائی میں جا کر دیکھنے کی جو سعی ملتی ہے وہ انشائیے کی معنوی خوبیوں کو منور کرتی ہے۔ یہ انشائیہ بھر پور تاثر کا حامل ہے اس انشائیے کا وہ حصہ بھی کافی تیکھا اور منفرد ہے جہاں وہ فاصلے اور قربتوں کے اَن دیکھے زاویے سامنے لا رہے ہیں :

’’ قربت آتشِ نمرود یا آتشِ محبت میں بے خطر کود پڑنے کا نام ہے  جب کہ فاصلہ ہمیشہ محوِ تماشائے لبِ بام رہتا ہے بلکہ بعض اوقات لبِ بام سے بھی پرے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر فاصلہ بھی اس آتش میں کود پڑے تو پھر فرقِ من و تُو ختم ہو جائے گا، فاصلہ ختم ہو جائے گا بس قربت ہو گی، یکتائی کا عالم ہو گا۔ اسے نیستی یا فنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘   ۲۷؎

یہ اقتباس قاری کو روحانی طور پر خاصا آسودہ کرتا ہے کیونکہ اب قرب اور فاصلے کا مفہوم روایتی اور عمومی مدار سے نکل کر روحانی مدار میں داخل ہو گیا ہے۔ انشائیہ نگار کی یہی ادا اور تخلیقی توانائی سوزو گداز کی کیفیات پیدا کرتی ہیں۔ اس قسم کے حقایق کو بیان کرنے کے لیے فنی بصیرت، عمیق مشاہدہ، کثیر الجہات تجربات و تجزیات اور جدت طرازی جیسے اوصاف درکار ہیں اور حیدر قریشی کے ہاں یہ عناصر وافر مقدار میں موجود ہیں۔

(۴)     وگ:

یہ انشائیہ کلیات میں شامل ہونے سے پہلے  ’’ اوراق‘‘  ۲۸؎  میں شائع ہو چکا  تھا۔ کلیات میں طبع ہونے والے انشائیے کی پیشانی پر یہ شعر چمک رہا ہے:

؎         یہ  بال و پر  تو چلو  آ گئے  نئے حیدرؔ         بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے  ۲۹؎

انشائیے کا آغاز تو والد کی یاد سے ہوتا ہے۔ اور پھر رفتہ رفتہ اس میں تاریخ اور سماجیات کے بڑے بڑے مسائل کا تذکرہ مخصوص انداز سے اپنی جگہ بناتا چلا جاتا ہے۔ حیدر قریشی جب سماج میں پو شیدہ خود غرضی اور مفاد پرستی پر بات کرتے ہیں تو یہ انشائیہ جو بظاہر وگ جیسی عام شئے پر لکھا ہوا ہے ایک مقام پر آ کر ایک پورے عہد کا المیہ بن جاتا ہے۔

جو لوگ وِگ پہننے والوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ بہروپ بدلتے ہیں۔ اور بھیس بدل کر زندگی گذارتے ہیں اُن کے اس الزام کو حیدر قریشی نے رد کرتے ہوئے جواباً ایک اور اہم نکتے کی جانب ہماری توجہ دلائی ہے:

ــ ’’  بہروپ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے شیطان کو مہارت کے ساتھ چھپا کر باہر فرشتہ بنا پھرے۔  مایا لگی ہوئی پگڑی کا اکڑا ہوا طرّہ، تکبر کی ماری ہوئی گردن، ریا کاری کی لمبی داڑھی اور نفیس جُبہ۔ یہ جُبہ و دستار بہروپ ہے۔ ایسے بہروپیوں کا یہ ساز و سامان اتار لیا جائے تو نیچے سے ن۔ م۔ راشد کا  لا= انسان بر آمد ہوتا ہے۔ ‘‘   ۳۰؎

حیدر قریشی کی شکوہ سنجی اپنی جگہ بجا ہے لیکن یہ اقتباس پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جہ جیسے وہ صنفِ انشائیہ کے مجموعی مزاج سے قدرے تجاوز کر رہے ہیں۔ طنز کا استعمال انشائیے میں ممنوعات کی ذیل میں تو نہیں آتا لیکن اس کی غیر ضروری شدت اور کاٹ مذکورہ صنف کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ صنفِ انشائیہ کے تقریباً تمام بڑے ناقدین مثلاً ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، اکبر حمیدی، ڈاکٹر سلیم اختر، محمد ارشاد، مشکور حسین یاد، ڈاکٹر رشید امجد، جمیل آذر، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش اور حامد برگی وغیرہ نے طنز کی کاٹ اور مزاح کی شدت کو تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا۔ غصہ یا بر ہمی کا اظہار انشائیے میں جگہ نہیں بنا سکتا بلکہ انشائیے کے مجموعی تاثر کو کمزور کر دیتا ہے۔

حیدر قریشی نے اس انشائیے میں جن مسائل پر بات کی اُن کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن اگر اِن معاملات کو علامتی اور ڈھکے چھپے الفاظ میں پیش کر دیا جاتا ہے تو مجموعی تاثر پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے۔ حامد برگی کا یہ کہنا درست ہے:

’’ انشائیہ میں مقالہ کی طرح وضاحتوں کی گنجائش نہیں۔ ابہام او ایمائیت انشائیہ کا حسن ہے۔  بات جتنی اشاروں، کنایوں میں ہو اتنی ہی خوبصورت اور فنکارانہ ہوتی ہے۔ بشرطیکہ وہ سوچ اور خیال کے دروازے کھولتی جائے۔ انشائیہ نگار کا عندیہ مبہم ہونے کے باوجود قاری کی سمجھ میں آ جائے، اُسے انشائیہ نگار سے وضاحتیں طلب کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ ‘‘    ۳۱؎

انشائیے کا اہم مقام یہی ہے کہ اس میں ایمائیت موجود ہو اور وہ اظہار و ابلاغ کے تمام تقاضے بھی پورے کرے۔ حُسن معنی کا رکھ رکھاؤ اور پیش کش انشائیے کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں اگر ان کا اہتمام نہ کیا جائے تو بات نہیں بنے گی۔ انشائیے کے دو اور مقام ملاحظہ ہوں جہاں حیدر قریشی کا انشائی حوالہ قدرے دھیما ہو گیا ہے:

(ا)  ’’ وہ لیڈر بہروپئے ہیں جو عوام کی فلاح کے دعوے کرتے ہیں اور عملاً عوام کا استحصال کرتے ہیں وہ لوگ بھی بہروپئے ہیں جو مغربی دنیا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے من گھڑت اور جھوٹے بیانات دیتے ہیں کہ گوئبلز کی روح بھی شرما جائے۔ ‘‘  ۳۲؎

(ب)  ’’ ادب میں بھی ایسے کئی بہروپئے پائے جاتے ہیں۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپئے کھا کر اُسے  ۲۵ ہزار روپئے کا انعام دلانے والے۔ ‘‘   ۳۳؎

یہ باتیں پڑھ کر دل کو طمانیت اور راحت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اصلاح اور سنجیدگی کا تاثر ابھرتا ہے، شہزاد منظر نے کہا تھا:

’’ انشائیے کی صنف شگفتہ موڈ کی پیدا وار ہے انشائیہ نگار کا کام ناظر کو مسرت بہم پہنچانا ہے۔ اس کے لیے وہ طنز سے کچھ زیادہ کام نہیں لیتا۔ کیونکہ طنز ایک سنجیدہ مقصد کے لئے کار آمد ہوتی ہے۔ ‘‘   ۳۴؎

انشائیہ کبھی اصلاحی مقاصد کی خاطر نہیں لکھا جاتا کیونکہ اس کے لئے مضمون کی صنف پہلے سے موجود ہے جو اسلوبیاتی اور موضوعاتی اعتبار سے خاصی وسعت کی حامل ہے۔  انشائیے میں اکتاہٹ اور طنز کی موجودگی قاری کو مغالطے میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اگر مضمون اور انشائیے میں اس فرق کے نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بات نہیں بنے گی۔

حیدر قریشی کے انشائیوں پر مجموعی رائے:

گذشتہ صفحات میں حیدر قریشی کے چار اہم انشائیوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کر کے اُن کے مجموعی رنگ کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ سطور میں اُن کے باقی انشائیوں ( نقاب، اطاعت گزاری، یہ خیر و شر کے سلسلے، چشم تصور، اپنا اپنا سچ تجربہ اور تجربہ کاری) کو بھی مدِ  نظر رکھ کر سلسلہ ء کلام آگے بڑھایا جائے گا تاکہ اُن کے فکرو نظر کے ممکنہ پہلوؤں کا احاطہ کیا جا سکے۔ حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن میں درج ذیل نکات حاوی دکھائی دیتے ہیں۔

۱۔ انشائیے کا ابتدائی شعر:

حیدر قریشی نے اپنے ہر افسانے  اور انشائیہ کا آغاز ایک شعر سے کیا ہے۔ اس  شعر کا منطقی جواز یہی ہے کہ ہر شعر مرکزی موضوع پر مبنی ہے۔ اور ہر موضوع میں زیرِ بحث اَن کہی باتیں شعر کی زبانی بیان ہو جاتی ہیں۔ یہ تمام اشعار طبع زاد ہیں اور موضوع کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً  ’’ نقاب‘‘  کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:

حیدرؔ بھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب          ایک  نقاب  اگر الٹیں  تو آگے  اور  نقاب       ۳۵؎

یہ انشائیہ بڑھ چکنے کے بعد قاری محسوس کرنے لگتا ہے کہ جیسے  حیدر قریشی نے اس مضمون کو پھیلا کر انشائیہ بنا دیا ہے یا ا نشائیے کے موضوع کو سمیٹ کر شعر میں بند کر دیا ہے

’’ وِگ‘‘   کا ابتدا ئی شعر دیکھئے:

؎                        ؎        یہ  بال  و  پر  تو  چلو  آ گئے  نئے حیدر             بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے        ۳۶؎

انشائیہ  ’’ یہ خیر و شر کے سلسلے ‘‘  کا شعر دیکھئے:

؎                خیر  و  شر  کی آمیزش اور  آویزش سے نکھریں             بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں     ۳۷؎

غرض ہر شعر پیش آمدہ صورتِ حال کا جامع مرقع ہے۔

۲۔ تفکر کے عناصر:

ڈاکٹر ناصر عباس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:

’’ انشائیہ انسان کی ذہنی اور تہذیبی ترقی کے ایک مرحلے پر نمودار ہوتا ہے۔ ‘‘       ۳۸؎؎

یہی ذہنی اور تہذیبی ترقی انشائیے میں فکریات کے ایسے عناصر پیدا کرتی ہے جن کا مطالعہ حیات و کائنات کی تفہیم میں آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکری اکائیاں دھیمے سروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ اگر کہیں تخلیقی رو میں سروں کی آواز اونچی ہونے لگے تو انشائیہ نگار شعوری کاوش سے انھیں پھر سے دھیما بنا دیتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

انشائیہ  ’’ اطاعت گزاری‘‘  میں کہتے ہیں :

’’ اطاعت گزاری کا جوہر نہ صرف بغاوت، سر کشی اور انحراف کے جذبات کو ختم کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کو زیادہ سوچنے کے عمل سے روک کر اُسے بہت سی مشکلات سے بھی نجات بخش دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والے لوگ یعنی آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے والے لوگ جب سوچتے ہیں بُرے بھلے میں حدِ فاصل قائم کر کے تعصب اور آویزش کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ ‘‘     ۳۹؎

اس طرح کے فکری تصورات اور تجربات کا کوئی اپنا سیاق و سباق بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ اپنے سیاق سے ہٹ کر بھی سماجی المیے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اقتباس میں موجود تمام الفاظ سادہ و سہل نظر آتے ہیں لیکن ان میں فکری پیچیدگی موجود ہے۔ جو قاری کی توجہ چاہتی ہے۔ اگرچہ انشائیہ کا مقصد تلخ نوائی نہیں ہوتا اور نہ پڑھنے والوں کو کسی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرنا ہے بلکہ یہ موضوع کا کمال ہے کہ وہ اپنے اندر چھپے ابعاد اور جہات کبھی سنجیدگی اور کبھی خوشی یا مسرت کے پیرائے میں کھولتا چلا جاتا ہے اور انشائیہ نگار تخلیقی بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔ ایک اور انشائیہ  ’’ فاصلے، قربتیں ‘‘  کا یہ جملہ دیکھئے۔

’’ قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت کو جنم دیتی ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ ‘‘    ۴۰؎

’’تجربہ اور تجربہ کاری‘‘  ایک ایسا انشائیہ ہے جس میں حیدر قریشی نے ’’ تجربہ‘‘  کو ایجابی اور  ’’ تجربہ کاری ‘‘  کو سلبی اوصاف کے ساتھ منسوب کیا ہے۔ اور اپنے اس نقطۂ نظر یا موقف کو منطقی استدلال سے مزین کر دیا ہے۔ یہ جملے لائقِ توجہ ہیں :

۱۔  ’’ تجربہ کاری کا یہ اصول ہے کہ جو چیز اپنے مطلب اور فائدے کے مطابق ہے  وہی سچائی ہے باقی سب جھوٹ ہے۔ ‘‘     ۴۱؎

۲۔ تجربہ کاری کا ہنر جاننے والوں کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اپنے واجبی علم کی خامیوں کو چھپا کر بڑی مہارت کے ساتھ اپنے علم کا اظہار کریں گے۔ ‘‘    ۴۲؎

۳۔  ’’ زندگی کے تجربات زندگی کو معصومانہ حیرت سے دیکھنے اور پھر اس کی جستجو کے سفر سے عبارت ہیں یہ حیرت اور جستجو اجتماعی نوعیت کی ہے، کیونکہ اس سے پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے۔ ‘‘    ۴۳؎

حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکریات کا ایک پورا نظام فعال ہے۔ اس نظام کا مرکز و محور اخلاقیات پر استوار ہے جس میں ایک طرف تو نام نہاد پاکبازوں کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور دوسری جانب سماجی رویوں میں چھپے کذب و افترا اور منافقت کا پردہ چاک کیا جاتا ہے لیکن تنقید کا یہ عمل صنفِ انشائیہ کے مزاج کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔

۳۔ اصول اخذ کرنے کی صلاحیت:

حیدر قریشی کے انشائیوں میں سچی، کھری اور جرأت مندانہ باتوں کا سلسلہ در سلسلہ بیان ملتا ہے۔ یہ بیان قاری کے تجربات میں خوشگوار اضافہ کرتا ہے اور اسے کئی مقامات پر چونکاتا بھی ہے۔  ’’ فاصلے، قربتیں ‘‘  میں شامل تمام انشائیوں کا ایک نمایاں وصف یہ سامنے آتا ہے کہ حیدر قریشی نے جن حالات و واقعات کو موضوع بنایا اُن پر بات کرتے ہوئے مخصوص نتائج اور اصول اخذ کرتے ہیں۔ یہ اصول وہ ثمرات ہیں جو قاری کی فکری اور جمالیاتی ترتیب کرتے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں :

۱۔  ’’ اگر ہر شئے بے نقاب ہوتی تو کسی شئے میں کوئی جاذبیت نہ رہتی۔ ‘‘   ( نقاب)    ۴۴؎

۲۔  ’’ ہر سچ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ سچ ضرور ہوتا ہے۔ ‘‘   ( یہ خیر و شر کے سلسلے)   ۴۵؎

۳۔  ’’ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پرعمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔ ‘‘   ( اپنا اپنا سچ)    ۴۶؎

۴۔  ’’ یہ وہی تجربہ کاری ہے جو اپنی عیاری کو حکمت اور دوسروں کی دفاعی حکمت کو بھی مکاری قرار دیتی ہے۔ ‘‘                         (  تجربہ اور تجربہ کاری)  ۴۷؎

۴۔ تجربات اور مشاہدات اور تجزیات:

حیدر قریشی نے اپنے تقریباً تمام انشائیوں میں زندگی سے حاصل ہونے والے تجربات اور مشاہدات کو بہ اندازِ دگر پیش کیا ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات اگرچہ انفرادی سطح سے اُٹھتے ہیں لیکن فنی چابکدستی اور انشائی تخلیقی عمل کی بدولت اجتماعی رنگوں سے مالا مال ہیں۔ کچھ رنگ ملاحظہ  ہوں :

’’ یہ ڈپلو میٹس ( امریکی) دنیا بھر میں جمہوریت کے نفاذ کے علمبردار ہیں۔ لیکن اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے بعض ممالک میں نہ صرف بادشاہت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ جہاں اپنا فائدہ نظر آئے وہاں جمہوریت کا خاتمہ کر کے فوجی آمریت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ ‘‘   ۴۸؎

’’ اصولاً کسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لیے دوسروں کی بد صورتی کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘   ۴۹؎

’’ سچے اطاعت گذار کا کمال یہ ہے کہ جو  سانحہ اُس کے اپنے گروہ کے ساتھ پیش آئے اُسے تو وہ خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان قرار دیتا ہے لیکن اگر ویسا ہی سانحہ بلکہ اس سے بھی کم تر سانحہ کسی دوسرے گروہ کو پیش آئے تو پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ اُسے عذابِ الہٰی سے تعبیر کرتا ہے۔ ‘‘     ۵۰؎

غرض ان کے انشائیوں کا عمرانی پہلو اصل سائل کو نشان زد کرتا ہے۔

(۵)  سائنسی عناصر:

حیدر قریشی کو سائنسی علوم خصوصاً  طبیعیات میں خاص دل چسپی ہے اور اس کی وجہ ڈاکٹر وزیر آغا کی دوستی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ آغا صاحب کے اکثر قریبی دوست اس مشترک شوق کے اسیر ہیں۔ حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں کئی مقامات پر اپنے اس شوق کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً اُن کا  انشائیہ  ’’ چشم تصور‘‘   ایٹم (Atom ) کے جدید تصورات پر روشنی ڈالتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایٹم کی اندرونی ساخت پربات کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ پہلے پہل کہا گیا کہ ایٹم مادے کا  بلڈنگ بلاک ہے بعد میں اسی ایٹم کے چالیس سے زائد پار ٹیکلر دریافت ہو گئے۔  بات Quarks تک پہنچی مگر پھر اس کے بھی مزید چھ کلرز سامنے آ گئے۔ Quarks سے  ’’ ہیڈ رونز‘‘   بنتے ہیں۔ ‘‘   ۵۱؎

’’ سائنس ابھی تک چھوٹی کائنات یعنی ایٹم کا کوئی انت تلاش نہیں کر سکی۔ ‘‘   ۵۲؎

حیدر قریشی نے اپنے انشائیے میں ان تمام مسائل سے اُس وقت تعرض کیا جب وہ تخلیق کائنات پر غور و فکر کر رہے تھے اور وہ لا شعوری طور پر تخلیق اور ایٹم کے باہمی تعلق پر سوچنے لگ گئے۔ انھوں نے نظامِ  شمسی اور کائنات کے دیگر مظاہر کو بلیک ہولز کے تناظر میں بھی سمجھنے کی سعی کی ہے۔ ان کا چشمِ تصور اگر ایک طرف سائنس جیسے جدید ترین نظریات سے روشنی حاصل کرتا ہے تو دوسری جانب جن، دیو، پریاں، اور اڑن کھٹولے اُن کے تخیلات کو مہمیز کر رہے ہیں۔

اُن کا ایک اور انشائیہ  ’’ فاصلے اور قربتیں ‘‘  جب تخلیقی امکانات کو زیرِ بحث لاتا ہے تو Big Bang  پارٹیکل اور اینٹی پاٹیکل کے تصورات کو بھی اپنے موضوع میں سموتا چلا جاتا ہے۔ یہ تمام سائنسی حوالہ جات محض سائنسی معلومات فراہم نہیں کرتے بلکہ کائنات کے اسرار و رموز کو بھی تخیل کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے جو بات انشائی اسلوب کے حوالے سے کہی تھی یہ اس کی عملی صورت ہے، اُنھوں نے کہا تھا:

’’ انشائیہ نگار اُسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ وہ روایتی اور مروجہ اسلوب اظہار کے لیے نئے امکانات کا سراغ لگاتا ہے۔ ‘‘     ۵۳؎

سائنسی موضوعات عموماً اپنی خشکی اور معروضی صفات کی بنا پر ادب میں مشکل سے ہی جگہ بنا پاتے ہیں لیکن حیدر قریشی جیسے پختہ کار انشائیہ نگار اپنے جاندار تخیل کی بدولت ان میں تازگی پیدا کر دیتے ہیں۔

۶۔ ادبی مشاہدات اور تجربات:

حیدر قریشی کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی مصروفیات کے تابع ہے۔ لہٰذا ادبی باتوں کا انشائیے یا دوسری نثری اصناف میں در آنا خلافِ توقع نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے انشائیوں میں تلخ ادبی تجربات کا تذکرہ کومل سروں میں کیا ہے، ایک جگہ کہتے ہیں :

’’ دبیز نقاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشقِ زار بن کر محلے کے شرفا کے لیے متعدد مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن جب یہی نقاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سرو پا نظمیں یا مضمون نما خط قسم کی چیزیں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے، شاید نفسیاتی مسئلہ! ‘‘   ۵۴؎

انشائیہ ’’ وگ‘‘  میں جب بہروپ بدلنے والوں کا ذکر آتا ہے تو حیدر قریشی کا قلم خود بخود ادب کی جانب مڑ جاتا ہے:

’’ ادب میں بھی ایسے کئی بہروپئے پائے جاتے ہیں۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپے کھا کر اُسے ۲۵ ہزار روپے کا انعام دلانے والے، مناسب حق الخدمت کے طور پر کسی لولے لنگڑے افسانے کو دورِ حاضر کا ممتاز ترین افسانہ قرار دینے والے۔ ‘‘   ۵۵؎

ان ادبی مسائل و عوارض کا پس منظر چاہے کچھ بھی ہو حیدر قریشی اِن میں عمومیت کا رنگ بھر کر یاراںِ  نکتہ دان کو صلاحِ عام کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔

اِن واقعات اور تجربات کی شمولیت کا ایک حسن یہ ہے کہ اصل موضوع کی مرکزیت کو قائم رکھتے ہوئے اِدھر اُدھر کی بہت سی باتیں ایسی کر جاتے ہیں جو بادی النظر میں اصل موضوع سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں لیکن اصل موضوع کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ انشائی اسلوب ہی کا وصف ہے کہ موضوع کی وسعت حسبِ ضرورت بڑھائی یا کم کی جا سکتی ہے۔ بقولِ غالب!

ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا         ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے           ۵۶؎

۷۔ نفسیات، مشاہدۂ باطن اور اخلاقیات:

انسانی نفسیات اور مشاہدۂ باطن سے حیدر قریشی کو جو غیر معمولی دل چسپی ہے اس کا اندازہ اُن کی یا دنگاری، خاکہ نگاری اور افسانہ نگاری، سے بآسانی ہو جاتا ہے، لیکن ا نشائیہ نگاری میں بھی یہ عناصر جگہ جگہ مشا ہدہ کیئے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے چند مثالیں دیکھئے:

’’بچپن میں ہم جوانوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن جوان ہوتے ہی بچپن کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جوانی میں ہم آنے والے بڑھاپے کے تصور سے ہی خوف کھاتے ہیں۔ لیکن بڑھاپا آتے ہی ہم پر فکر و دانش کے ایسے انوار برستے ہیں کہ نہ صرف بڑھاپے سے سارا خوف دور ہو جاتا ہے۔ بلکہ ہماری زندگی میں ہی بڑھاپا ہمیں بچپن اور جوانی ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی صورت میں دکھا دیتا ہے۔ ‘‘   ۵۷؎

نفسیاتی ژرف بینی کی یہ مثال بھی دیکھئے:

’’ انسانی چہرہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا نظر آتا ہے۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کر سکے۔ ‘‘   ۵۸؎

مشاہدہ باطن کی مثال ملاحظہ ہو:

’’اطاعت گزاری، فرمانبرداری اور وفا شعاری ایک ہی حقیقت کے مختلف چہرے ہیں۔ اطاعت کا مادہ انسانی نفس کوسنگسار کر کے اس کی روح اور ذہن کو ہر طرح سے سبک سار کر دیتا ہے۔ گویا اطاعت سے مراحلِ تصوف کا آغاز ہوتا ہے اور کمالِ اطاعت تک وہ کامل صوفی بن جاتا ہے۔ ‘‘     ۵۹؎

حیدر قریشی کا تخلیقی وجدان، سماج، افراد، وقوعات، حوادث اور انسانی مظاہر کے باطن میں چھپے اُس اسرار کو ڈھونڈ نکالتا ہے جو عام نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں اخلاقیات کا عنصر خاصا نمایاں ہے۔ جس طرح اقبال کے بارے میں عمو ماً یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غزلوں اور نظموں میں جس کسی موضوع پر بات کریں بالآخر گھوم پھر کر اپنے فلسفۂ خودی یا  فلسفۂ عشق کا الاپ شروع کر دیتے ہیں۔ تقریباً ایسی ملتی جلتی صورت حیدر قریشی کے انشائیوں میں نظر آتی ہے، وہ موقع ملتے ہی نصیحت کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ یہ مثال دیکھئے:

’’ ایک اچھے مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی پر قناعت کرے۔ دوسروں کی بیویوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اور اپنی بیوی کے مشترکہ تخلیقی عمل میں مگن رہے اور اس طرح زندگی میں اضافہ کر کے زندگی کی جنت کا نظارہ کرتا رہے۔ ‘‘   ۶۰؎

گو اُن کے ہاں پندو نصائح والی روایتی کیفیت توپیدا نہیں ہوتی لیکن دبے لفظوں میں وہ کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی نکتہ ضرور بیان کرتے ہیں جو قاری کی فکری تربیت میں معاونت کرتا ہے۔ حیدر قریشی قاری کے بنیادی عقائد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عمومی نکتوں پر بات کرتے ہیں  تاکہ ہر شخص حسبِ حال اُن سے مستفید ہو سکے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عقائد اور نظریات کا ہر نظام عمرانی شعور کا زائیدہ ہوتا ہے اور اس کی نشو ونما اور ارتقا کا سلسلہ اُس وقت مزید مستحکم ہو جاتا ہے جب حیدر قریشی جیسا قلم کار اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔ حیدر قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:

’’ میری  انشائیہ نگاری میں ڈاکٹر وزیر آغا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ باقی انشائیہ نگاروں میں غلام جیلانی اصغر، انور سدید، مشتاق قمر اور اکبر حمیدی مجھے اچھے لگتے ہیں۔ شاید ان کے اثرات بھی میرے انشائیوں میں ملتے ہیں۔ ‘‘    ۶۱؎

حیدر قریشی کا یہ اعتراف خاص اہمیت رکھتا ہے، اور ان کے اثرات کا کھوج بھی بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے جن شخصیات کا حوالہ دیا ہے ان میں تین پر وہ خاکے بھی لکھ چکے ہیں۔ جو  ’’ میری محبتیں ‘‘  کے حصہ دوم میں بعنوان عہد ساز شخصیت ( ڈاکٹر وزیر آغا)، ایک ادھورا خاکہ ( غلام جیلانی اصغر )، اور بلند قامت ادیب ( اکبر حمیدی) دیکھے جا سکتے ہیں۔  دبستانِ سرگودھا کے یہ تینوں ادیب انشائیہ نگاری کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ حیدر قریشی نے وزیر آغا والے خاکے میں ایک بار پھر اس بات کا اعتراف کیا کہ   ’’وزیر آغا نے مجھے انشائیے لکھنے کا شوق پیدا کیا۔ ‘‘    ۶۲؎

اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حیدر قریشی کی زیادہ ملاقاتیں اور مکتوبی رابطے وزیر آغا سے رہے اور آغا صاحب انشائیہ کے بارے میں جو بصیرت افروز نظریات رکھتے تھے وہ مجموعی صورت میں ان کے لیے بھی قابلِ قبول تھے۔  ’’ فاصلے، قربتیں ‘‘  میں موجود انشائیے جہان اِن مقتدر شخصیات کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں وہاں حیدر قریشی کی تخلیقی صلاحیت اور سلیقہ شعاری کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کہا تھا:

’’ انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ وہ روا یتی اور مروجہ اسلوبِ  اظہار کے نئے امکانات کا سراغ لگاتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے جو ترکیب، محاورے، استعارے اپنی چمک دمک کھو چکے ہیں، انہیں نئے سیاق و سباق میں پیش کرتا ہے اور اس عمل میں وہ  ’’ روایت‘‘  کو نئی سطح تفویض کرنے کی انشائی ٹیکنیک کے تابع رہتا ہے، اگر وہ اسلوب کی تازگی کو بروئے کار نہ لا سکے تو اس کا انشائی تخلیقی عمل سے گزرنا مشتبہ قرار پائے۔ ‘‘   ۶۳؎

حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں مذکورہ بالا تمام شرائط کا التزام بطریقِ احسن کیا ہے۔ اور ویسے بھی اِن کا تعلق انشائیہ نگاروں کے اُس قبیلے کے ساتھ ہے جن کی نشو ونما براہِ راست اُن ادیبوں کے زیرِ سایہ ہوئی جو فن انشائیہ نگاری کے امام اور بنیاد گزار ہیں۔ یہ اُنہی کی تربیت اور حیدر قریشی کی ذاتی محنت کا فیض ہے کہ آج اُن کا شمار اردو ادب کے اہم انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱؎    سلیم اختر،  ڈاکٹر،  اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ،   سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،  ۲۰۰۳ء،  ص ۵۲۶

۲؎     اکبر حمیدی، جدید اردو انشائیہ،  اکادمی ادبیات پاکستان،  اسلام آباد،   ۱۹۹۱ء ، ص ۴۔ ( ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ حوالہ مذکورہ کتاب کے دیباچے سے اخذ کیا گیا ہے، جو اکبر حمیدی کا تحریر کردہ ہے )

۳؎   جدید اردو انشائیہ،   ص   ۶

۴؎  جدید اردو انشائیہ،   ص  ۹  ( دیبا چہ  از  اکبر حمیدی)

۵؎   وزیر آغا، ڈاکٹر،   اردو انشائیہ کی کہانی، مشمولہ، جدید اردو انشائیہ، مرتبہ، اکبر حمیدی، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آبا،  ۱۹۹۱ء،  ص ۲۴

۶؎    حیدر قریشی، فاصلے، قربتیں، مشمولہ عمرِ  لا حاصل کا حاصل،  ( کلیات نظم و نثر )، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،   دہلی،   ۲۰۰۹ء  ، ص  ۵۰۷

۷؎   سلیم آغا قزلباش،  ڈاکٹر،  انشائیہ کیا ہے،  مشمولہ،  سہ ماہی  اوراق،  جولائی، اگست   ۱۹۹۹ء  ( خاص نمبر )     ص  ۱۷۹

۸؎       خاموشی، مشمولہ،  عمرِ لا حاصل کا حاصل،  ص  ۵۰۷

۹؎   ایضاً،   ۵۰۸

۱۰؎     اکبر حمیدی،    اردو انشائیہ اور نئے افق،  مشمولہ،     سہ ماہی  اوراق، جولائی  اگست  ۱۹۹۹ء، ( خاص نمبر)،  ص  ۷۸ا۔ ۱۷۷

۱۱؎   سلیم اختر، ڈاکٹر، انشائیہ،  مبادیات ، مشمولہ،   جدید اردو انشائیہ

۱۲؎   خاموشی،  کلیات، ص   ۵۰۹

۱۳؎   جمیل آذر، انشائیہ نگار کا رویہ، مشمولہ، اوراق،   اگست، ستمبر ( خاص نمبر)  ،  شمارہ  ۸،  ۹  ص ۳۷۵

۱۴؎   حیدر قریشی، بڑھاپے کی حمایت میں، مشمولہ،  جدید اردو انشائیہ،  اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد،  ۱۹۹۱ء،  ص ۱۴۸

ٔ        ۱۵؎    غالب، دیوانِ غالب، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، سن اشاعت ندارد،  ص  ۱۱۹

۱۶؎   بڑھاپے کی حمایت میں،  مشمولہ،   جدید اردو انشائیہ،  ص ۱۵۰

۱۷؎         شہزاد منظر،   ردِ عمل ( تنقیدی مضامین)، منظر پبلی کیشنز، کراچی، ۱۹۸۵،   ص  ۱۷۹

۱۸؎    بڑھاپے کی حمایت میں، ص  ۱۵۰

۱۹؎    منزہ یاسمین،   حیدر قریشی۔ شخصیت اور فن،   میاں محمد بخش پبلیشرز،   خانپور،  ۲۰۰۳ئ،  ص  ۱۵۶

( یہ اصل میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ ہے، جو ڈاکٹر شفیق احمد کی نگرانی میں مکمل ہوا،  اسلامیہ یونیورسٹی، بہاول پور، شعبہ اردو کی طالبہ نے  یہ مقالہ  ۲۰۰۰، تا ۲۰۰۲ کے سیشن میں لکھا تھا ، مقالہ ہذا  باقاعدہ منظوری کے بعد کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا تھا)

۲۰؎    حیدر قریشی،   فاصلے،  قربتیں،  اوراق  ( سالنامہ)،  مدیر  ڈاکٹر وزیر آ غا،  شمارہ نمبر ۲، ۳،  فروری،  مارچ    ۱۹۹۵ء  ص   ۳۳۲   تا   ۳۳۳

۲۱؎  یہ شعر، کلیات،  ( عمرِ لا حاصل کا حا صل)  کے صفحہ  ۵۱۶  پر چھپنے والے انشائیے میں تو شامل ہے، لیکن اوراق میں چھپنے والے اس  انشائیے میں شعر کو حذف کر دیا گیا ہے۔

۲۲؎  حیدر قریشی،  فا صلے،  قربتیں،   اوراق،   مدیر  ڈاکٹر وزیر آغا،  شمارہ نمبر ۲، ۳،  فروری، مارچ  ۱۹۹۵ء  ص ۳۳۲

۲۳؎    فاصلے،  قربتیں،  ص  ۳۳۲

۲۴؎     ایضاً

۲۵؎    ایضاً

۲۶؎    نذر خلیق، حیدر قریشی کے انشائیے،  مشمولہ،  حیدر قریشی کی ادبی خدمات، ( متفرق مضامین )۔ میاں محمد بخش پبلشرز،  خانپور،  ۲۰۰۳ء،   ص ۲۴۵

۲۷؎     فاصلے  قربتیں،    ۳۳۲

۲۸؎    حیدر قریشی،   وگ ( انشائیہ) ، مشمولہ   اوراق،   شمارہ   ۱،  ۲،  جنوری،  فروری،   ۱۹۹۶ء  ،  ص  ۵۵  تا  ۵۶

۲۹؎     عمرِ لا حاصل کا حاصل  ( کلیاتِ نظم و  نثر  )،  ص  ۵۱۳

۳۰؎       ایضاً ،      ص   ۵۱۴

۳۱؎  حامد برگی،   انشائیہ کا فن،  مشمولہ،   جدید اردو انشائیہ،   ص   ۸۵

۳۲؎    وگ،    ص   ۵۱۵

۳۳؎    ایضاً

۳۴؎   شہزاد  منظر،  ردِ عمل،  ( تنقیدی مضامین)    ص    ۱۷۸

۳۵؎     نقاب،   مشمولہ  عمر لا حاصل کا حا صل  ( کلیات نظم و  نثر )    ص   ۵۱۰

۳۶؎    وگ،  مشمولہ،   عمر لا حاصل کا حا صل   ( کلیات نظم و  نثر )    ص   ۵۱۳

۳۷؎   یہ خیر و شر کے سلسلے، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کاحا صل، ( کلیات نظم و نثر ) ص   ۵۲۵

۳۸؎     ناصر عباس نیر ،  نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق،     مشمولہ،   ادبیات،  اکادمی ادبیات پاکستان،   جلد ۱۳ ،  شمارہ ۵۳،  ۲۰۰۰ئ،    ص   ۱۸۳

۳۹؎     اطاعت گزاری،  مشمولہ،   عمرِ لا حاصل کا حاصل،   ص  ۵۲۴

۴۰؎    فاصلے  قربتیں،   مشمولہ  عمرِ لا حاصل کا حا صل،    ص   ۵۱۸

۴۱؎     تجربہ اور تجربہ کاری،      عمرِ لا حاصل کا حا صل،   ص   ۵۳۵

۴۲؎     تجربہ اور تجربہ کاری،      عمرِ لا حاصل کا حا صل،   ص   ۵۳۵

۴۳؎         ایضاً،   ص    ۵۳۴

۴۴؎    نقاب،   عمرِ لا حاصل کا حا صل،    ص    ۵۱۱

۴۵؎       یہ خیر  و  شر کے سلسلے،   مشمولہ،   عمرِ لا حاصل کا حا صل ،   ص   ۵۲۷

۴۶؎     اپنا  اپنا  سچ،  مشمولہ،   عمرِ لا حاصل کا حا صل،   ص   ۵۳۱

۴۷؎    تجربہ  اور  تجربہ  کاری ،  مشمولہ،  عمرِ لا حاصل کا حا صل ،   ص  ۵۳۵

۴۸؎   تجربہ  اور  تجربہ  کاری ،    ص   ۵۳۵

۴۹؎   اپنا  ا پنا  سچ،  مشمو لہ،  کلیات ،  ص   ۵۳۱

۵۰؎    اطاعت گزاری،  مشمولہ،   کلیات ،  ص  ۵۲۲

۵۱؎    چشمِ تصور،    مشمولہ،  کلیات،   ص  ۵۲۹

۵۲؎        ایضاً

۵۳؎   ناصر عباس نیر،    نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق،   ص   ۱۸۴

۵۴؎   نقاب،  کلیات،   ص   ۵۱۲

۵۵؎     وگ،  کلیات،   ص  ۵۱۵

۵۶؎     غالب،  دیوانِ غالب،     ص   ۱۸۲

۵۷؎    بڑ ھاپے کی حمایت میں،   کلیات،  ص   ۵۲۰

۵۸؎    نقاب،  کلیات،   ص   ۵۱۰،  ۵۱۱

۵۹؎     اطاعت گزاری،  مشمولہ،   کلیات ،  ص  ۵۲۲

۶۰؎     اپنا  ا پنا  سچ،  مشمو لہ،  کلیات ،  ص   ۵۳۲

۶۱؎  حیدر قریشی سے لئے گئے انٹر ویوز،  مرتب سعید شباب، نظامیہ آرٹ اکیڈمی، ایمسٹرڈیم، ہالینڈ

( یہ  انٹر ویو  محمد وسیم انجم  نے کیا  تھا،  مذکورہ کتاب میں یہ انٹر ویو  ’’ حیدر قریشی سے مکالمہ‘‘   کے  عنوان  سے  شائع  ہوا۔ )

۶۲؎    عہد ساز شخصیت ( ڈاکٹر وزیر آ غا)،   کلیات،    ص  ۳۳۶

۶۳؎  ناصر عباس نیر،   نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق،    ص   ۱۸۴

٭٭٭

 

 

 

 

شعبۂ اردو کلکتہ یونی ورسٹی میں  ’’نئی اردو نظم۔ رجحانات و امکانات ‘‘ کے موضوع پر سمینار

 

رپورٹ:ندیم احمد(اسسٹنٹ پروفیسرکلکتہ یونیورسٹی)

 

 

                   ندیم احمد

 

۱۲۔ ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۴ء کو شعبۂ اردو کلکتہ یونی ورسٹی کی جانب سے ایک دو روزہ قومی سمینارکا انعقاد کیا گیا ہے۔ سمینار کا موضوع  ’’نئی اردو نظم۔ رجحانات و امکانات ‘‘ تھا۔ سمینار کا افتتاح کلکتہ یونی ور سٹی کے ر جسٹرار پروفیسر باسب چودھری نے کیا۔ سمینار کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے شعبہ اردو کی صدر پروفیسر شہناز نبی نے کہا کہ نئی اردو نظم کی تعین قدر ابھی تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ لوگ نئے شاعروں پر بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ معاصر ادب سے اس بے توجہی کے نتیجے میں کئی جینوئن شعرا ابھی تک قارئین کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کے ۸۰ کے بعد قائم ہونے والے شاعروں پر بھی اسی طرح ڈسکورس قائم کیا جائے جس طرح۶۰  کے بعدوالوں نے جدید اردو نظم کے حوالے سے کیا اور ان کا اختصاص قائم ہوا۔ مجھ امید ہے کے اس دو روزہ سمینار کے ذریعہ اس کمی کا کچھ ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ دو روز تک چلنے والے اس سمینار میں نئی اردو نظم کے موضوعات اور تکنیک دونوں پر تشفی بخش گفتگو ہو گی۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کلکتہ یونی ور سٹی کے ر جسٹرار پروفیسر باسب چودھری نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کے شعبہ اردو نے ایک معاصر موضوع پر سمینار منعقد کیا ہے۔ ورنہ لوگ اتنے تن آسان ہیں کہ زیادہ تر گھسے پٹے موضوع پر ہی گفتگو کرواتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سمینار نئی اردو نظم کو سمجھنے میں ہماری معاونت کرے گا۔ مولانامظہر الحق اردو، فارسی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم نے کہا کہ کلکتہ یونیورسٹی کاشعبۂ اردو بڑا فعال ہے اور اس سمینار کا موضوع اس کی جدید سوچ کا مظہر ہے۔ اس سمینار کے ذریعہ نئے مباحث قائم ہوں گے اور نئی نظم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر حسین الحق صاحب نے کہا کہ نئی اردو نظم پر اس سمینار میں جو گفتگو ہو گی اس کی اہمیت اس لئے بھی کچھ زیادہ ہے کہ یہاں بحث میں حصہ لینے والے لوگ جدید بھی ہیں اور جدید تر بھی۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اظہار تشکر شعبہ کے استادپروفیسر ندیم احمد نے ادا کیا۔ دوسرے دن سمینار کے مختلف اکیڈمک سیشن میں ۱۵مقالے پیش کئے گئے۔ سمینار میں جن لوگ نے اپنے گراں قدر مقالے پیش کئے ان میں حسین الحق(گیا)شہناز نبی (کلکتہ ) توقیر عالم (مظفر پو ر)ندیم احمد(کلکتہ)شمیم انور (کلکتہ ) ارشد مسعود ہاشمی(کشن گنج)موصوف احمد(دھنباد)رام اہلاد چودھری(صدر شعبۂ ہندی، کلکتہ یونیورسٹی) الماس شیخ ّ(کلکتہ) شبینہ نشاط عمر(پروفیسر، انگریزیأملی الالمین کالج، کلکتہ)سوچریتا بندھوپادھیائے(بنگلہ پروفیسر، کلکتہ یونیورسٹی )وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کے ۸۰ کے بعد قائم ہونے والے شاعروں پر بھی اسی طرح ڈسکورس قائم کیا جائے جو۶۰ والوں کا اختصاص ہے۔ مجھ امید ہے کے اس دو روزہ سمینار کے ذریعہ اس کمی کا کچھ ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ دو روز تک چلنے والے اس سمینار میں نئی اردو نظم کے موضوعات اور تکنیک دونوں پر تشفی بخش گفتگو ہو گی۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کلکتہ یونی ور سٹی کے ر جسٹرار پروفیسر باسب چودھری نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کے شعبہ اردو نے ایک معاصر موضوع پر سمینار منعقد کیا ہے۔ ورنہ لوگ اتنے تن آسان ہیں کہ زیادہ تر گھسے پٹے موضوع پر ہی گفتگو کرواتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سمینار نئی اردو نظم کو سمجھنے میں ہماری معاونت کرے گا۔ مولانامظہر الحق اردو، فارسی یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر توقیر عالم نے کہا کہ یہ شعبہ بڑا فعال ہے اور یہ سمینار اس کی جدید سوچ کی مظہر ہے۔ اس سمینار کے ذریعہ نئے مباحث قائم ہوں گے اور نئی نظم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر حسین الحق صاحب نے کہا کہ نئی اردو نظم پر اس سمینار میں جو گفتگو ہو گی اس کی اہمیت اس لئے بھی کچھ زیادہ ہے کہ یہاں بحث میں حصہ لینے والے لوگ جدید بھی ہیں اور جدید تر بھی۔ افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اظہار تشکر شعبہ کے استادپروفیسر ندیم احمد نے ادا کیا۔ دوسرے دن سمینار کے مختلف اکیڈمک سیشن میں ۱۵مقالے پیش کئے گئے۔ سمینار میں جن لوگ نے اپنے گراں قدر مقالے پیش کئے ان میں حسین الحق(گیا)شہناز نبی (کلکتہ ) توقیر عالم (مظفر پو ر)ندیم احمد(کلکتہ)شمیم انور (کلکتہ ) ارشد مسعود ہاشمی(کشن گنج)موصوف احمد(دھنباد)رام اہلاد چودھری(کلکتہ) الماس شیخّ(کلکتہ)شبینہ نشاط عمر(کلکتہ)سوچوریتا(کلکتہ )وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

پروفیسرشہناز نبی، پروفیسر ارشد مسعود ہاشمی اور پروفیسر ندیم احمد کے مقالے نہایت ہی بحث طلب تھے اور ان پر جم کر سوال و جواب ہوتے رہے۔ شہناز نبی نے نئی اردو نظم کے تعلق سے بہت سے سوالات اٹھائے۔ ارشد مسعود ہاشمی نے نئی اردو نظم اور فمینزم کے رویئے پر بات کی۔ پروفیسرندیم احمد نے شہناز نبی کی نظم نگاری پر پر مغز مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگلے پڑاؤ سے لے کر پسِ دیوار گریہ تک شعری اظہار کا ایک سیلاب ہے۔ اس سیلاب میں اگر مقبوضہ سر زمینوں کو سیراب کرنے کی امنگ ہے تو نئی نئی زمینوں کی تسخیر کی بے چینی بھی ہے۔ مقبوضہ علاقے پر قناعت کر کے محتاط شاعری تو کی جا سکتی ہے مگر اچھی شاعری تجربہ کوش ذہن اور پر شور تخلیقی توانائی کے بغیر ممکن نہیں۔ قناعت کرنے پر ارتقا رک جاتا ہے اور تازہ روی کی عدم موجودگی شاعر کے اسلوب کو لفظوں کی جامد منطق میں بدل دیتی ہے۔ شہناز نبی صاحبہ کو اس بات کا احساس ہے اس لئے فن کارانہ بے صبری اور ایک بے چین عجلت ان کے یہاں تخلیقی ارتقا کی شکل میں نمودار ہوئی ہے۔ احساس، وجدان اور اجتماعی لا شعور کو یہاں تخلیقی فکر نے کمک پہنچائی ہے اس لئے فن کار کی بے چینی یک سطحی نہیں بلکہ پیچیدہ اور بہت حد تک پر اسرار ہے۔ متکلم خود ان چیزوں کو سمجھ نہیں پا رہا ہے جو اس کے تجربے میں آ رہے ہیں۔ اپنے گرد گرد پھیلے ہوئے رشتوں اور جذبوں کی دنیا کو نہ سمجھ پانے کا ملال یہاں تقریباً المیاتی شدت اختیار کر گیا ہے۔ Alienationکا یہ احساس اپنے وجود کے اظہار میں منہمک ر ہ کر ممکن ہی نہیں اس لئے میں شہناز نبی کو ان شاعروں کے ساتھ نتھی کر کے نہیں پڑھ سکتاجن میں رومانی یکتائی کی کیفیت صاف نظر آتی ہے۔

ہندی کے صدر شعبہ ڈاکٹر رام اہلاد چودھری نے اپنے مقالے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کس طرح اردو زبان نئی ہندی شاعری کے لئے راہ ہموار کر رہی ہے اور اب ہندی اور اردو والوں کے درمیان جو دوری تھی وہ رفتہ رفتہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر سوچریتا بندھو پادھیائے نے نے بنگلہ زبان میں نئی اردو نظموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ نئی بنگلہ شاعری نئی نسل کی شاعری ہے۔ اس میں  تہذیبی عناصر بالکل نئے ہیں۔ عشق کا اظہار انتہائی بے باکی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جملے مختصر اور ایک دوسرے میں کبھی پیوست اور کبھی آزاد ہیں۔ شبینہ نشاط عمر نے ایک فلسطینی شاعرہ کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے انگریزی زبان میں نئے تجربوں پر روشنی ڈالی اور موضوعات کے تنوع کے بارے میں بتایا۔ علاوہ ازیں مختلف زبانوں کے پروفیسروں مثلاً پروفیسر بسواناتھ رائے( بنگلہ) پروفیسر امرناتھ شرما(ہندی) اور پروفیسر سنجنی بندھوپادھیائے ( انگریزی) کی صدارت نے مختلف اجلاس کو وزن و وقار بخشا اور اس سیمینار کے پہلے اور دوسرے سیشن میں ہی اردو، انگریزی، ہندی اور بنگالی زبان میں لکھی گئیں نئی نظموں  پر گفتگو کی وجہ سے تقابلی جائزے کی کیفیت پیدا ہو گئی جس نے باقی اجلاس کو بھی منور رکھا۔ سیمنار میں ایک سیشن ’ نظم خوانی‘ کا بھی تھا جس میں اردو کے طلبا و طالبات نیز ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے اسکالروں نے مشہور شعرا کی نظموں کی قرات پیش کی۔ آخری سیشن’ نظمیہ مشاعرہ ‘ کے لئے مختص کیا گیا تھا جس میں نظم گو شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ نہایت خیر و خوبی کے ساتھ یہ جلسہ ۱۳ مارچ  ۲۰۱۴ء کی شام کو اختتام پذیر ہوا۔

٭٭٭

تشکر: مدیر ارشد خالد جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی تدوین اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید