FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

انتخابِ  کلام

رت جگوں کی شاعری

 

 

                   سید انور جاوید ہاشمی

 

 

 

 

 

غزلیں۔ ۔ ۔ نظمیں

اجالے چاندنی راتوں سے پھول سے شبنم

ادھار مانگتے تھے ہم،  سخن سنوارتے تھے

 

 

 

 

 

 

جو کہنے کی خواہش تھی کہہ نہ سکے

بہت شعر ہم نے سنائے مگر

 

۱۹۷۰ء سے ۲۰۰۹ ء تک ان گنت راتوں،  اپنی تقدیر کے مطابق منازل طے کرتے ہوئے چاند، سورج، ستاروں،  آنکھوں کو خمار بخشتی اور پیغامِ  عشق و مستی لاتی ہواؤں،  خاک اڑاتی اور قدموں سے لپٹتی، پیچھا چھڑاتی رہ گزاروں،  نیم وا دریچوں،  خاموشی اوڑھے بام و در، گلیوں،  بازاروں،  کھلتی، چمکتی، جھلساتی دھوپ اور نرم و چٹکتی چاندنی کے سایوں میں ہمراہ چلتے سائے کو عدم سے وجود اور وجود سے لا موجود میں لانے والے خالق و مالکِ  دوجہاں کی حمد سرائی کرنے سے قاصر ایک عاجز،  لاچار،  بے بس،  بیکس،  مجبور قلمکاران نظموں کو کہلوانے کی سعادت و توفیق بخشنے پر شُکر ادا کرتا ہے ۔ پہلے شعری مجموعے انتظار کے پودے (۱۹۸۹ء) سے محروم رہ جانے والے قارئین اور احباب سے معذرت کے ساتھ، شاید یہ آپ کے ہاتھوں تک آئے اور آپ اس پر توجہ دے سکیں۔

کہ دانی حسابِ کم و بیش را

 

سید انور جاوید ہاشمی،  غالب نگر،  گلشنِ  سر سید،  نارتھ کراچی،  کراچی، پاکستان

۲۰۰۹ کے آخریسہ ماہی عشرے کے آغاز پر تکمیل شد

 

 

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

شروع اللہ کے نام سے

 

آپ کے قبضے میں ہیں چاند ستارے سائیں

روشنی سینے میں بھر دیجے ہمارے سائیں

 

آپ ہیں مالک و مختار،  لگا سکتے ہیں

زیست کی ڈولتی نیاّا بھی کنارے سائیں

 

ہیں عطا آپ کی یہ حرف خزانے سارے

ہم نے کب اپنے تئیں نذر گزارے سائیں

 

تذکرہ بے سروسامانیوں کا ہو کیسے

ماسوا آپ کے ابکس کو پکارے سائیں

 

اسی دھرتی پہ کئی ہاشمی جیسے بندے

بے سہارے ہیں بہت،  دیجے سہارے سائیں

٭٭٭

 

 

 

 الااللہ۔ ۔ ۔

 

کانوں میں کھنکتی ہوئی پایل ہے کہ تم ہو

پیڑوں پہ چہکتی ہوئی کویل ہے کہ تم ہو

 

یادوں کے جزیروں میں بھٹکتے ہوئے آہو

انفاس میں یہ خوشبو مرے حل ہے کہ تم ہو

 

آکاش پہ دہکا ہوا سورج ہے کہ میں ہوں

کھیتوں پہ برستا ہوا بادل ہے کہ تم ہو

 

فردا کی سزاوار تمنا ہے کہ میں ہوں

امروز کی صورت یہ مری کل ہے کہ تم ہو

 

تسبیح کے دانوں میں سدا ورد کی صورت

ہونٹوں پہ مرے حرفِ مسلسل ہے کہ تم ہو

٭٭٭

 

 

 

نعتیہ اظہار

 

بعد از بیانِ حمد جسارت نہیں رہی

تھی ابتدا میں جیسی عمارت نہیں رہی

 

بنیاد آب و باد بھی ہے خاک و آگ بھی

کثرت میں گُم ہوئے ہیں کہ وحدت نہیں رہی

 

نازل کیا تھا ربّ نے جو دستور دین کا

اکیسویں صدی میں حقیقت نہیں رہی

 

تفسیر اپنے اپنے مقاصد کے واسطے

یوں کی گئی کہ اصل عبارت نہیں رہی

 

ملّا،  فقیہہ،  پیر،  معلّم تو ہیں بہت

نافذ حضورﷺ کی وہ شریعت نہیں رہی

 

نفرت ہوئی ہے عام تعصب ہے چار سُو

ما بینِ آدمی وہ اخوت نہیں رہی

 

کہنے کو ہم غلامِ محمدﷺ ہیں دوستو

حضرت بلالؓ جیسی تو سنّت نہیں رہی

 

کافر ہوئے ہیں اپنے مفادات کے لیے

کیسا جہاد؟ اس کی ضرورت نہیں رہی



قوامِ شرق ہوں کہ وہ مغرب نژاد ہوں

غیرت کہیں نہیں وہ حمیت نہیں رہی

 

دل چاہتا ہے نذرِ عقیدت میں کچھ لکھوں

سرکارﷺ،  سرگراں ہوں کہ ہمّت نہیں رہی

٭٭٭

 

 

 

 

جو لکھی ہے فیصلے کی گھڑی نہیں آ رہی

مرے درد میں سو ابھی کمی نہیں آ رہی

 

کبھی خاک پر کبھی آسمان کو دیکھنا

کہ سمجھ میں بات کوئی نئی نہیں آ رہی

 

مرا مسئلہ نہیں شاعری کی وضاحتیں

وہ جو بات کہنا تھی آج،  ابھی نہیں آ رہی

 

جسے صبح شام گزارتے ہی چلے گئے

کہیں گفتگو میں وہ زندگی نہیں آ رہی

 

یہ عجیب موسمِدرد ہے کہیں دور تک

کسی غمگسار کی ہمسری نہیں آ رہی

 

مجھے آ رپا ہے جو یاد اُس کو بھلاؤں کیا

کوئی بات دل سے گھڑی ہوئی نہیں آ رہی

 

جسے قافیوں کے حصار سے میں نکال دوں

مری دسترس میں وہ شاعری نہیں آ رہی

 

مرے سامنے کوئی آن کر نہیں دیکھتا

سو نظر کسی کو یہ کج کلہی نہیں آ رہی

٭٭٭

 

 

 

 

ساعتَِ ہجر ہمیں یوں بھی بتانی ہے بہت

چشمِ پُر آب ٹھہر یوں بھی روانی ہے بہت

 

جھوٹ ارزاں ہے بہت حرف و حکایت کے لیے

سچ کے بازار میں لفظوں کی گرانی ہے بہت

 

جیتے جی کون بھلا چھوڑ کے گھر جاتا ہے

ساعتِ مرگ جو ہو نقلِ مکانی ہے بہت

 

میں نے یادوں کے دریچوں کو کھلا چھوڑ دیا

خود فراموشی مری طبع پُرانی ہے بہت

 

سہو ہو جائے تو پھر جان پہ بن آتی ہے

بزمِ اربابِ ہنر میں نگَرانی ہے بہت

 

نیند سے خواب تلک اک سفر آنکھ کا ہے

جاگنے والے تری اپنی کہانی ہے بہت

 

 

 

 

 

 

 گیتا:بائبل:زبور:تورات:صحائف مقدسہ:قرآن

 

بین الملی اتحادِانسانیت کے حوالے سے اظہاریہ

 

 

ہیں جس میں سات سو اشعار گیتا نظمِ لافانی

ہے ذہنوں پر یہ غالب،  قلب پر اس کی جہانبانی

 

کئی صدیاں ہوئیں نغمے کو سنتے ، اب بھی ہے تازہ

رُخِ تہذیب پر اس کی تجلّی کا سجے غازہ

 

مسلّط ہو بشر کے دل پہ گر کوئی پریشانی

بنے تسکین کا باعث نہ کیوں گیتا کی تابانی

 

عمل کا ایک جیتا جاگتا پیغام ہے گیتا

فروغِ صبح بھی ہے اور ضیائے شام ہے گیتا

 

صداقت کا بیاں کہئیے عدالت کا سبق کہئیے

کتابِ زندگی کا اس کو بامعنی ورق کہئیے

 

سُجاتاؔ کے تفکّر سے ملے عرفان انساں کو

پڑھے گیتاؔ نہ کیوں گر مل گیا ایمان انساں کو

 

محبت،  آشتی انسانیت کے مُدعّی لوگو

ملے گی بائبلؔ سے تم کو بے شک آگہی لوگو

 

کلامِ پاک یہ سب کے لیے زندہ حقیقت ہے

خدا کے نیک بندوں کے لیے نورِ ہدایت ہے

Ò

زمیں پر آکے جس نے نغمہء اُلفت سنایا ہے

وہ روح القُدس ہے انسانیت پر اس کا سایا ہے

 

کہا جو کچھ ملے آدھا ترا،  آدھا ہے بھائی کا

صلہ یوں مل گیا ہر فرد کو اُس کی کمائی کا

 

معافی دی ہے اُس نے دشمنوں کی لغزشیں بھوُلا

اُتارو بھائیو نفرت کا تم بھی جُبّہ و چُولا

 

محبت کے دیے کی روشنی انجیل سے لے لو

ہو مردہ دل تو دل کی زندگی انجیل سے لے لو

 

یہی ہے وحدتِ فکر و نظر انساں رہے انساں

نہ ہو انسانیت جس میں نہ کیوں کہلائے وہ حیواں

 

خدا کے برگزیدہ نیک پیغمبرؑ یہاں آئے

محمد مصطفی صلعم ہمارے درمیاں آئے

 

کہا! جو کچھ کہا تھا مجھ سے پہلے پاک ہستی نے

مرا پیغام اُس پیغامِ حق کی ترجمانی ہے

 

ہیں سب مخلوق رب کی ہندو، مسلمؔ ہوں کہ عیسائیؔ

رہے گمراہ جن لوگوں نے حق کی بات جھٹلائی

 

کہا رب نے : نبیؐ ہم نے شریعت تم کو جو دی ہے

وہ ابراہیمؑ و موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو بھی بخشی ہے

 

زمانے بھر کے لوگوں میں کئی پیغام بر گزرے

ہر اک مذہب میں دنیا کے لیے کچھ راہ بر گزرے

 

نہیں تفریق پیغمبرؑ کے ہم ایمان میں کرتے

نہیں مذکور سب کا نام ہم قرآن میں کرتے

 

خدا کے دشمنوں کو چھوڑو آپس میں ہیں جو لڑتے

نہیں لڑتے مگر جو لوگ اپنے رب سے ہیں ڈرتے

 

 

یہ اہلِ علم و ایماں کی ہے فیلوشپ یہاں آؤ

بدی کو چھوڑ کر سب نیکیوں کے درمیاں آؤ

 

بنیں سب بھائی دل میں لے کے ہم اُمّید جیتے ہیں

’’جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں ‘‘٭

 

٭علامہ اقبالؔ

 

تحریف کی گئی کتابوں کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ مُصَّدقٗ بما معھم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیشک یہ اللہ کی نازل کردہ کتابیں ہیں جو اس نے اپنے پیغمبروں کو انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے دی ہیں۔ قرآن اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے

 

 

 

 

نعتِ  رسول اکرم ﷺ

 

 

راہ طے ہو اگر مدینے کی

کوئی حسرت رہے نہ جینے کی

 

نام پر ان کے چل پڑا گھر سے

خیر یارب ہو اس سفینے کی

 

لفظ حاضر رہیں گے دست بستہ

قدر بڑھ جائے گی خزینے کی

 

یہ تو بس عرضِ مدعا کہئیے

آپﷺ کی مدح جس کسی نے کی

 

کیوں نہ ہوتا بھلا کرم مجھ پر

نعت لکھتا ہوں میں قرینے کی

٭٭٭

 

 

 

 

نعت

 

 

کشتِ جاں نے نمو پائی ہے

رحمتوں کی گھٹا چھائی ہے

 

پھر اُنہی کی طلب میں ہے دل

دل یہ جس کا تمنائی ہے

 

میں کہوں گا کرم آپﷺ کا

داد محفل میں گر پائی ہے

 

حاضری کا طلب گار ہوں

بارہا بات دہرائی ہے

 

دشمنِ دین ہے متحد

آج اُن کی صف آرائی ہے

 

ملتجی ہیں کرم کیجئے

امتحانی گھڑی آئی ہے

 

حرف ہ جائیں مقبول سب

جتنی بھی خامہ فرسائی ہے

٭٭٭

 

 

نعت

 

 

یہ کہتا ہے ہمارا دل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

امین و صادق و عادل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

 

نبیؐ کے ذکر سے روشن چراغِ آگہی کیجئے

کہ اس آگاہی کا حاصل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

 

یہ ناؤ زیست کی کھیتے ہوئے پروا نہیں مجھ کو

سرِ طوفاں مرا ساحل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

 

انھیں کے نقشِ پا کو سامنے رکھتے ہوئے چلیے

جو پہنچادے سرِ منزل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

 

ہدایت پہلی قوموں کے لیے وقتی ضرورت تھی

ابد تک ہادیٔ کامل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

 

بنائے امن اور انصاف و سچائی کے وہ بانی

مکمّل،  اکمل و کامل کوئی ہے تو محمدﷺ ہیں

٭٭٭

 

 

 

ڈوب گیا ماہِ تمام

 

 پروین شاکر ہم سخنِ عصر ما

 

 

جشنِ محشر میں رفاقت  تھی نداؔ بھائی کی

سالِ رفتہ میں وہ اِک رات تھی جولائی کی٭

 

خود کلامی کا اثر دیکھیں سخنور ٹھہری

’خوشبو‘ پھیلی رہی ’ صد برگ‘ میں دانائی کی

 

کیسے ممکن تھا کہ ’انکار‘ کیا جاتا پھر

قاصدِ مرگ نے جس لمحے پذیرائی کی

 

زندہ رہ کر یہ ہُنر سیکھا جہانبانی کا

موت بھی ایسی کہ دنیا نے شکیبائی کی

 

نوحہ کیا کیجیے جب ڈوب گیا ’ماہِ تمام‘

اب ضرورت ہی نہیں اُس کو مسیحائی کی

 

٭جولائی۱۹۹۴ء متحدہ عرب امارات جشنِ محشر بدایو نی (مرحوم)باہتمام یونی کیریئنز میں پروین شاکر نے نداؔ فاضلی سے پہلے غزل پڑھی تھی لیاقت علی عاصمؔ بھی شریک مشاعرہ تھے سلیمجعفری نے ہمیں مجلہ عنایت کیا تھا۔ خود کلامی، خوشبو، صد برگ، انکار شعری مجموعے اور ماہِ تمام ان تمام کی کلیات شائع ہو چکی ہے۔ ہماری یہ نظم فیملی میگزین (نوائے وقت) شمارہ ۲۵ تا ۳۱ جنوری ۱۹۹۵ء میں نعیم بخاری کے سخنور (ٹی وی پروگرام) میں پروین شاکر سے لیے گئے انٹرویو کے متن کے ساتھ شائع ہو چکی ہے ۔ راشد نور نے بیادِ پروین شاکر آرٹس کونسل آف پاکستان جلسے میں مہتا ب اکبر راشدی، فاطمہ حسن، شہناز شورو وغیرہ کے اظہارِ  خیال کے بعد آخری شعر ہمارا نام لے کر سنایا اور چھپوا دیا تھا۔ یہی جسارت کے ادبی صفحے پر اجمل سراج نے بھی شائع کر دی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وقت کی نبض تھمی سرد بدن ہونے لگے

ہم سے پسمانٗدہ پسِ شُکر جنوں کھونے لگے

 

آسماں بار اٹھانے کا روادار نہ تھا

بار شانے پہ جو رکھّے گئے ہم ڈھونے لگے

 

آئے نزدیک تو قامت کا ہوا اندازہ

دور سے لوگ سبھی دیکھنے میں بونے لگے

 

دھند کو دھند کی مانند سمجھنا چاہا

دھوپ کو یاد کیا،  زخم ہرے ہونے لگے

 

کون ہوتا نہیں حالات سے ریزہ ریزہ

آپ ہی ایک انوکھے نہیں جو رونے لگے

 

شعر لکھتے تھے کبھی صبح کے آثار تلک

ہاشمیؔ جاگنے والے تھے سدا،  سونے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُس کے کوچے میں قدم بارِ دگر رکھتے ہوئے

ہاشمیؔ کھو گئے منظر پہ نظر رکھتے ہوئے

 

راستا دور تلک اور بھی ویران لگا

نیند میں خواب کی دہلیز پہ سر رکھتے ہوئے

 

لہر در لہر وہی عکس ملا پانی میں

شہر در شہر سمندر میں سفر رکھتے ہوئے

 

دکھ سِوا اور ہوئے اُس کو بھلایا جب بھی

چین پایا نہ حقیقت سے مفر رکھتے ہوئے

 

کون بتلائے گا گم گشتہ خدوخال تمھیں

ہاتھ سے آئینہ چھوٹا جو اگر رکھتے ہوئے

 

اپنی میراث سمجھنے لگے اِقلیمِ سُخن

کفِ خالی میں کئی لوگ ہُنر رکھتے ہوئے

 

کاسۂ نغمہ گراں آج تلک خالی ہے

کوئی آواز نہیں گونجی اثر رکھتے ہوئے

 

ایک گم نام صدا آتی رہی دیر تلک

ہو نہ لرزیدہ بدن دار پہ سر رکھتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

تفہیم شاعری کی مرے بھائی کس لیے ؟

رب دے چکا ہے حکمت و دانائی کس لیے !

 

کب تک نگاہ اُس کے دریچے طرف رکھیں

زائل کریں گے عشق میں بینائی کس لیے

 

ایہام کا بھی حُسن ہے ابہام کا بھی ہے

لیکن یہ بات آپ نے دہرائی کس لیے ؟

 

کب تک رہے گی آپ کی یہ دل گرفتَگی

بجتی ہے رنج و غم کی یہ شہنائی کس لیے !

 

طرزِ سخن گوارا نہیں آپ کو مری

کرتے ہیں آپ حوصلہ افزائی کس لیے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

حد سے بڑھ کر بھی تجاوز کا ارادہ نہ کیا

جس کے ہم اہِل نہیں تھے کوئی وعدہ نہ کیا

 

کوئی فرضی سا ہی معشوق رقم کر لیتا

تو نے یہ کام بھی اب تک دلِ سادہ نہ کیا

 

تا نہ انجام سے آگاہ رہا ہر انساں

تار تار اس کا بھی مٹی نے لبادہ نہ کیا

 

مصلحت اس میں کوئی ہو گی یقیناً پنہاں

ہاشمیؔ آپ کو لذَّت کشِ بادہ نہ کیا

٭٭٭

 

 

 

 

جس طرف کوئی کھڑکی،  دریچہ نہ ہو اور ممکن نہ ہو آسماں دیکھنا

اے مرے ہم نشیں،   جان لو بالیقیں جانتے بوجھتے ہے وہاں دیکھنا

 

چشمِ پُر آب نے بہتے سیلاب نے آنکھ کھلتے ہی بستر پہ ہم سے کہا

رائیگانی ہے گر خواب کا دیکھنا، رائگاں ہی سہی رائیگاں دیکھنا

 

آنکھ سے خواب تک رسم و آداب تک جس قدر بھی نبھے تم نبھاتے رہو

لامکاں سے مکاں تک مناظر سبھی جو نظر آئیں اے خوش گماں دیکھنا

 

گفتگو میز پر معنویت سے پُر اور روّیوں میں لایعنیت عمر بھر

محفلوں کا چلن،  غیبتوں میں مگن بات سننا نہ لفظ و بیاں دیکھنا!

 

شعر لکھتے ہوئے شخصیت کا بدل پیش کر دیتی ہے ایک تازہ غزل

کیفیت خود پہ طاری ہوئی سو ہوئی ہر گھڑی اک عجب سا جہاں دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل آئینے میں کوئی چاند سا اُتر آیا

نگارِشہرسر شام بام پر آیا

 

ستارہ کوئی سرِ آسمان دیکھا جب

مجھے تو عکس تمہارا وہاں نظر آیا

 

سپردگی نہ تھی وحشت تھی ہجر جیسی وہ

عجیب شاخِ تمنّا پہ یہ ثمر آیا

 

بہت سے آئے تھے لہجہ بگاڑنے والے

خُدا کا شکر نہ اِلزام میرے سر آیا

 

بھٹک رہے تھے سبھی دشت میں معانی کے

میں شہرِ حرف سے کیسا سُبک گزر آیا

٭٭٭

 

 

 

 

جو واقعات گزرے کسی سے کہے نہیں

یہ جانتے ہوئے کہ نئے سلسلے نہیں

 

پہلے تو منزلوں کو اُٹھا لاتے تھے قدم

کیا منزلوں کا ذکر،  کہیں راستے نہیں

 

یا تو ہمیں سلیقہ نہیں بات کہنے کا

یا ضد ہے اُس کو بات ہماری سنے نہیں

 

کیسی خودی کہاں کی مروّت یہاں میاں

مطلب نہ ہو تو کوئی کسی سے ملے نہیں

 

اس سے ملیں کہ ترکِ ملاقات ہم کریں

وہ ہاں بھی کر چکا ہے کبھی اور گہے نہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا خبر تھی ایک دن حالات یہ ہ جائیں گے

رفتہ رفتہ اپنے ہی احساس میں کھو جائیں گے

 

قافلے والوں کی راہیں تکنے والے ہم نہیں

وہ کہیں پہنچیں نہ پہنچیں ہم سفر کو جائیں گے

 

زندگی کی تلخیوں پر لوگ یہ کہتے رہے

’آئینے میں خود کو گر دیکھا تو ہم رو جائیں گے ‘

 

بھیڑ انسانوں کی ہر سو دیکھ کے لگتا ہے یوں

زخم تنہائی کے اب پھر سے ہرے ہ جائیں گے

 

یہ غنیمت ہے کہ تنہا رت جگوں میں ہم نہیں

رات گر سونے لگے گی ہم بھی پھر سوجائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

دل نہ بہلا کسی نظارے سے

یوں کٹے زندگی کے دھارے سے

 

قوتیں سوچنے کی سلب ہوئیں

کام لیتے ہیں استعارے سے

 

ہنس رہے ہیں کہ رو نہیں سکتے

لاکھ دل میں جلیں شرارے سے

 

یہ نمائش ہمیں نہیں بھاتی

ہم نہیں پھرتے مارے مارے سے

 

آپ مانیں برا کہ سچ جاناں !

آپ لگتے ہیں ہم کو پیارے سے

 

جو بھی کہنا ہے صاف کہہ دیجے

بات مبہم رہے اشارے سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدن دھوپ جیسے تو آئے مگر

کہاں مل سکے زلف سائے مگر

 

ٹھکانہ ابد تک ہی درکار تھا

یہ دنیا بنی تھی سرائے مگر

 

وہی راہداری قدم تھے وہی

ترے کنج تک جا نہ پائے مگر

 

محبت کا نعم اُلبدَل نہ ملا

کئی حرف بھی آزمائے مگر

 

جواز اپنے ہونے کا ثابت کروں

تری عقل میں یہ سمائے مگر

 

جو کہنے کی خواہش تھی کہہ نہ سکے

بہت شعر ہم نے سنائے مگر

٭٭٭

 

 

 

 

یہ ایک سادہ سا قرطاس کہہ رہا ہے کچھ

نہیں،   نہیں مرااحساس کہہ رہا ہے کچھ

 

میں اپنی عمر کہاں پہ گنوا کے آیا ہوں

ملے گی کتنی ابھی یاس کہہ رہا ہے کچھ

 

اِدھر ہے تختِ سلیمان کی کہانی سی

خضر سے واں کوئی الیاس کہہ رہا ہے کچھ

 

نہیں ہے ربط سماعت کا نطق سے گویا

کچھ اور میں نے سنا، باس کہہ رہا ہے کچھ

 

گلی میں جاؤتوہنستی ہیں لڑکیاں مجھ پر

محلے والوں سے عباس کہہ رہا ہے کچھ

 

خود اپنی شکل بھی پہچانتا نہیں کوئی

کسی کا عکس ہے ، عکاس کہہ رہا ہے کچھ

 

نظرسے ہو گیا اوجھل تو یہ بھلا دے گا

جو آج آ کے مرے پاس کہہ رہا ہے کچھ

 

کسی نے ہاشمی مانا،  نہ کوئی مانے گا

میں کیا کہوں مرا خناس کہہ رہا ہے کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

جاگنا شب میں دیر تلک پھر سونا بھی

گھر،  دفتر،  بازار کا یہ سہ راہا بھی

 

چاند سے باتیں کرنے والے کرتے ہیں

کبھی چمکتا ہے قسمت کا تارا بھی

 

تنہائی،  مایوسی کچھ بھی نہیں کہتی

دل میں گر آباد رہے اک صحرا بھی

 

باتوں سے طوفان اٹھائے جا سکتے ہیں

آنکھوں سے بہتا جاتا ہے دریا بھی

 

اپنے پرائے اور پرائے اپنے ہوں

یار عجب ہوتا ہے درد کا رشتہ بھی

 

بچوں کی چہکار سے بچپن لوٹ آئے

عزت و عظمت کا باعث ہے بُڑھاپا بھی

 

پہلے طعنہ زنی شاعر خود ساختہ ہے

اب یہ رعایت مشق نے کر دیا اچھا بھی

 

مصرعے کو پیوست کیے جانے کی لگن

بزمِ سخن میں اپنا فن منوانا بھی

٭٭٭

 

 

 

 

ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک

پھر ہوا نے بھی دکھا ڈالی ہمیں اپنی چمک

 

ایک ہی ناؤ کنارے سے کنارے کا سفر

گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک

 

چاندنی پھیلی دریچوں سے دھواں اُٹھنے لگا

آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سی چمک

 

صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ جلی

بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک

 

آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی

چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

دکھلا رہے ہیں لوگ سبھی آئینہ مجھے

لے جائے دیکھیے یہ کہاں سلسلہ مجھے

 

کیا صبر،  جستجو نہ جہاں کارگر رہے

ملتا نہیں ہے عرض و گزارش بِنا مجھے

 

رسم و رواج اپنی جگہ خوب ہی سہی

پھر دیکھنا پڑے گا نیا راستا مجھے

 

پہلے بھی بھوک،  پیاس یہاں مسئلہ رہی

یہ اور بات لگتا نہ تھا مسئلہ مجھے

 

یوں تو لغت میں لفظ و معانی نہیں ہیں کم

اک لفظ ’’عشق‘‘ چُن لیا،  اچھا لگا مجھے

 

تم بھی سنو کہ عصر کی دہلیز سے کوئی

مُڑ مُڑ کے دے رہا ہے ابھی تک صدا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

پھر آسماں کو ہیں آراستہ چھتیں کرنی

مہ و نجوم سے دو بالا رونقیں کرنی

 

زمیں کے لوگ نہیں آسمان سے کم تر

زمیں کی حرمت و توقیر ہے ہمیں کرنی

 

ذرا نوشتۂ دیوار ہو رہے پورا

پھر اس کے بعد جو تدبیر ہو کَہیں کرنی

 

سرشتِ آدمی بدلی ہے اور نہ بدلے گی

بدلنا آپ نہ تبدیل عادتیں کرنی!

 

خود اپنے واسطے رکھنا نہ ایک لمحہ بھی

سخن میں صرف شب و روز و ساعتیں کرنی

 

ذرا نہ اُس میں تساہل کو دخل دینے دیں

بہ فیض ربی جو آئیں محبتیں کرنی

 

نباہتے ہیں تسلسل سے یوں روایت کو

ہمیں بھی اپنی غزل میں ہیں جدتیں کرنی

 

یہ کارہائے نمایاں عطا اُسی کی ہیں

خدا وہ وقت دکھائے ،  دکھا سکیں کرنی

 

جنابِ ہاشمی ناکامِ زندگی یوں ہیں

نہ آئیں کام کی باتیں ابھی انھیں کرنی

٭٭٭

 

 

 

 

 

مشغلہ شعر و سخن کا یوں ہی جاری رکھیے

لفظ رنگیں ہوں،   غزل روح سے عاری رکھیے

 

بر سر،  عام کیا کیجیے من جو چاہے

آپ سے کس نے کہا لاج ہماری رکھیے

 

صبر کیا چیز ہے عجلت کی چمک کے آگے

شکوا کرتے میں زباں اور کراری رکھیے

 

داہنی سمت رکھیں مہرِ جہاں تاب اگر

بائیں گوشے میں وہیں بادِ بہاری رکھیے

 

رہے دورانِ ملاقات حدِ فاصل بھی

کیا ضروری ہے ہر اک شخص سے یاری رکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کھینچتے رنجِ رائگانی ہم

درد کہتے جو منہ زبانی ہم

 

ناگہاں دہر میں نہیں آئے

جائیں گے پھر بھی ناگہانی ہم

 

ہم نے جو کچھ سنا وہ دہرایا

پیش کرتے نہیں کہانی ہم

 

اک سخن ور یہ کہہ رہا تھا کل

اک سخنور ہیں خاندانی ہم

 

لکھتے رہتے ہیں ہاشمیسب کچھ

کرتے رہتے ہیں آنا کانی ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں بھی کتنا عجیب ہو گیا ہوں

آپ اپنا رقیب ہو گیا ہوں

 

رنج کرتی نہ ہو موت دے کر

ایک ایسی صلیب ہو گیا ہوں

 

تم مجھے اپنا مانو نہ مانو

میں تمھارا نصیب ہو گیا ہوں

 

فقر کی سرحدوں سے گزر کر

زندگی کے قریب ہو گیا ہوں

 

کب کہا میں سخن کار ہوتا

اے حبیبِ لبیب ہو گیا ہوں

 

ہاشمیؔ اپنی تشخیص کر کے

میں مکمل طبیب ہو گیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کے دل میں نہاں میں دکھائی دیتا ہوں

کوئی بتائے کہاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

نہ دیکھ پائے کوئی اور بات ہے ورنہ

ہر آئینے میں عیاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

کوئی یقین سے کہتا ہے ہاں میاں ! تم ہو

کسی کو وہم و گماں میں دکھائی دیتا ہوں

 

مرا ہی عکس ہے عالم میں چار سوُ پھیلا

سو ذکِر اور بیاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

میں خود کو ہار کے جیتا اُسے پہ لوگوں کو

وہ سُود اور زیاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

وہ بھیڑ ہے سرِ بازار چل نہیں سکتا

سخن کدے میں رواں میں دکھائی دیتا ہوں

 

مرے ہُنر کا ابھی مول کر سکا نہ کوئی

ابھی کچھ اور گراں میں دکھائی دیتا ہوں

 

ہے میرے دم سے ہی آباد ہاشمی ؔ اب تک

وہ بزمِ  شعر جہاں میں دکھائی دیتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

ہاں رس بھری ہوا کے سندیسے نہ آئے تھے

جھونکے بدن کی خوشبوؤں ایسے نہ آئے تھے

 

اس چشم سے کشید ہوئیں جیسی لذتیں

اتنے سرور جام سے مے سے نہ آئے تھے

 

وہ آ نہیں رہے تھے بلاوے پہ بھی مرے

آئے ،  رکے ،  ملے ،  گئے جیسے نہ آئے تھے

 

زر کیا ملا کہ خواہشِ زن اور زمیں بڑھی

دل مطمئن تھا قبل ازیں پیسے نہ آئے تھے

 

ہم گردشِ مدام سے گھبرائیں کس لیے

کیا دن بُرے سے اور بھلے سے نہ آئے تھے

 

کیا حسن اتفاق ہے گھر مل گیا ترا

ہم اس گلی میں تیرے پتے سے نہ آئے تھے

 

اشعار کو سنواردیا ہم نے ہاشمیؔ

جو پڑھ چکے ہیں ویسے کے ویسے نہ آئے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

موجودگی بتائے ٹھکانہ کسے کہوں

میں عکس ہوں تو آئینہ خانہ کسے کہوں

 

ٹالا تھا زخم سہتے ہوئے وقت ناگہاں

ہے میری سمت پھر سے روانہ کسے کہوں

 

کس سے کہوں کہ کیسا زمانہ ہے آج کل

جیسا گزرچکا ہے زمانہ کسے کہوں

 

معذوریوں میں جب نہ کسی سے کہا، سنا

کہنے کا اب نہیں ہے بہانہ کسے کہوں

 

معیار زیست دولت و ثروت ہے گر یہاں

رکھتا ہوں میں بھی حرف خزانہ کسے کہوں

 

حیرت سے سن رہے ہیں مگر سن نہیں رہے

اہلِ خرد ہیں سارے ، دوانہ کسے کہوں

 

ہر آن اپنے آپ سے مصروفِ  جنگ ہوں

کس کو ہدف بناؤں،   نشانہ کسے کہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک مہ جبیں کے آگے کیا چاندنی بچھی تھی

ہر چیز جگمگاتی،  ہر شئے نئی نئی تھی

 

ہر بام سے نگاہیں اٹھتی تھیں سوئے گلشن

باغِ نظر میں شاید کونپل نئی کِھلی تھی

 

ہم نے سرِ تخئیّل جس گل بدن کو دیکھا

بازار میں یکایک صورت وہی ملی تھی

 

وہ بھی گھڑی تھی ایسی محشر بپا ہو جیسے

کچھ لوگ رُک گئے تھے اک بھیڑ چل رہی تھی

 

اس بحر و قافیے میں لوگوں نے کچھ کہا تھا؟

وہ قافیہ الگ تھا وہ بحر دوسری تھی!

٭٭٭

 

 

 

 

مہ و مہر سے دل کشی سی بنائی

فلک تا زمیں چاندنی سی بنائی

 

فلک سے زمیں پر جو پہنچا تخئیل

روش خاک پر شبنمی سی بنائی

 

ہوئے دل گرفتہ نہ رنجش کو پالا

سدا کیفیت اجنبی سی بنائی

 

غزل کو ڈمی بنتے دیکھا جو ہم نے

غزل دفعتاً اک نئی سی بنائی

 

جو مضمونِ نو کی ہوئی بازیابی

روش بدلی بدلی ہوئی سی بنائی

 

سپردِ سُخن کر دیا لمحہ لمحہ

ورق در ورق روشنی سی بنائی

 

مقابل اگر آیا آئینہ،  صورت

کسی سے ملائی، کسی سی بنائی

 

سخن اور نقد و نظر دے کے رب نے

یہ اک شخصیت ہاشمیؔ سی بنائی

٭٭٭

 

 

 

 

عروج رکھا ہے کیا کیا زوال کی حد میں

کہ روز و شب نہ رہیں ماہ و سال کی حد میں

 

عزیز لقمۂ تر کو رکھوں کہ عزّت کو؟

میں آ گیا ہوں دوبارا سوال کی حد میں

 

پھر اُس کے بعد تو مصرف نہیں کوئی اُس کا

جو آئِنہ کہ نہو خطّ و خال کی حد میں

 

نہیں تھا گرچہ سروکار ہمنشیں سے کوئی

پہ احتیاط رکھی بول چال کی حد میں

 

میں اپنے قد کا تعین کروں بھی کیوں آخر

عجب سوال ہے قولِ محال کی حد میں

 

جب اپنی روح کو بیچا ہے کارِ دنیا میں

اضافہ ہونے لگا دیکھ بھال کی حد میں

 

خود اپنی ذات کے منکر کسی کو مانیں کیا!

ثبات ہو تو رہیں اعتدال کی حد میں

 

یہ کیفیت تو ہمیشہ نہیں رہے گی میاں

اسیرِ رنج نہ ہو، رہ خیال کی حد میں

٭٭٭

 

 

 

زمِیِنِ سُخَن جَب سے آبَاد کِی

ہوَس پھِر نَہ دلِ میں رہی دَاد کِی

 

نہ پھِر چَاند کو اِستِعَارہ لِکھَا

رقَم چَاندنِی کِی جَو رُودَاد کی

 

شِکایَت نہ لَب پر سِتَم کا گِلہ

حکایت بَیَاں کی نہ صَیّاد کِی

 

گِرَفتَارِ رَنج وٌ اَلَم ہوَ رَہے

کِسُو کے بھِی آگے نہ فَریاد کِی

 

وَلیؔ دَکَّنِی تَا فَرَازؔ آ گئے

وِرَاثَت سَنبَھالِی ہے اَجداد کی

 

نَوَازِش،  کَرَم،  شُکرِیَہ آپ کَا

سَنَد بَخش دِی آپ نے صاَد کِی

٭٭٭

 

 

 

ردیف و قوافی جو کم جوڑتا ہے

اُلٹ پھیر کرتا،  رقم جوڑتا ہے

 

کبھی شانہ و چشم و لب کا فسانہ

کبھی زلف یا پیچ و خم جوڑتا ہے

 

کبھی بحر میں خامیاں وہ نکالے

کبھی میرے لفظوں میں ذم جوڑتا ہے

 

کبھی اپنی ’ہم‘ کو بدلتا ہے ’میں ‘ سے

کبھی جوش میں آ کے ہم جوڑتا ہے

 

کشید آنکھ سے کر کے خوں ریز منظر

غزل میں وہ رنج و الم جوڑتا ہے

 

لفافے پر اپنا پتا لکھ کے آخر

جناب اور پھر محترم جوڑتا ہے

 

مجھے یوں بھی رونے سے فرصت نہیں

کہ ٹوٹے دلوں کو یہ نم جوڑتا ہے

 

غزل در غزل ہاشمیؔ کا سفر ہے

قلم سے جو اپنے قدم جوڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

من میں تھاجومست قلندر کھو بیٹھے

پس منظر کی کھوج میں منظر کھو بیٹھے

 

 

دن بھر جاگتی آنکھوں سے سپنے دیکھے

رات اپنے خوابوں کو سوکر کھو بیٹھے

 

 

باہر،  ہاتھ اور پاؤں چلا کر دھَن لائے

جانے کیا اِس دھُن کے اندر کھو بیٹھے

 

جب سے ہاشمیؔ لفظوں کی جاگیر ملی

اپنا ہونا واہمہ کہہ کر کھو بیٹھے

٭٭٭

 

 

 

 

کام کیا خوب نگاہوں نے یہ واللہ کیا

بیٹھ کر بس میں سفر چاند کے ہمراہ کیا

 

صبح دم تازہ مشقت کے لیے گھر سے چلے

اور یہ کارِ لغت ازروئے تنخواہ کیا

 

شعر خوانی کا چلن عام ہوا ہے جب سے

جس نے سمجھا ہی نہیں اس نے بھی وا واہ کیا

٭٭٭

 

 

اک عمر سے یونہی دروازہ کھولے بیٹھا ہے

یہ راستا جو مرے ساتھ چل نہیں سکتا

 

یہ آدمی جو جزیروں میں بٹ گیا یارو

ہو متحد تو سمندر نگل نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

کیا ہوئے حمد و مناجات میں رہنے والے

روز و شب اپنی ہی اوقات میں رہنے والے

 

جانے کس روز حقیقت میں نظر آ جائے

اے تصور میں خیالات میں رہنے والے !

 

گردِ تشکیک سے نکلیں تو یقیں پائیں گے

فکر مبہم میں قیاسات میں رہنے والے

 

دھوپ محنت کی جو شہروں کے لیے سہتے رہیں

محترم ہیں مرے دیہات میں رہنے والے

 

پہلی بارش سے ہی اندازہ مکینوں کو ہوا

یہ مکاں اب نہیں برسات میں رہنے والے

 

آنکھ سے دور سہی دل میں مکیں ہیں یعنی

میرے اجداد مزارات میں رہنے والے

 

تو فقط اپنی تباہی کا طلب گار نہیں

حادثے بھی ہیں تری گھات میں رہنے والے

 

لفظ کی حرمت و توقیر مقدم جانیں

ہم نہ تفصیل نہ جزئیات میں رہنے والے

 

اپنے اعمال پہ ہر آن نظر رکھتے ہیں

ہاشمیؔ،  فکرِ مکافات میں رہنے والے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھیں نہ کب جھکائیں،   کہاں عاجزی نہ کی

توڑا نہ دل کسی کا اہانت کبھی نہ کی

 

جب تک خیالِ یار نے دستک نہ دل پہ دی

آتا رہا خیال مگر شاعری نہ کی

 

تازہ رُتیں بھی اب تو پرانی سی ہو گئیں

پر ہم نے امتیاز نہ برتا کجی نہ کی

 

بندے کا پھر جہاں میں ٹھکانہ نہیں کوئی

پروردگار تو نے اگر بہتری نہ کی

 

ملتا ہے ماحصل عمل و روزگار کا

کیا ہم نے روزگار میں اتنی سعی نہ کی

 

یہ لفظ کائنات عطا آپ ہی کے ہیں

جس کے بغیر ہم نے یہ صورت گری نہ کی

٭٭٭

 

 

 

 

ادھیڑ زخم پُرانے نئی سلائی کر

رفوگری نہ سہی طبع آزمائی کر

 

یہ جان،  منصب و دولت عطائے ربی ہیں

پھر اس کے بعد لٹا روز و شب کمائی کر

 

کبھی تو بیٹھ کہیں روبروئے آئینہ

مرے عزیز ٹھہر جا نہ جگ ہنسائی کر

 

 

پھر اس کے بعد کیا کرنا ثانوی باتیں

یہ مشغلہ ہے سخن کا گر ابتدائی کر

 

ترا شعار نہیں شاعری،  غزل کہنا

کہا ہے ہاشمیؔ اُس نے نہ میرے بھائی کر!

٭٭٭

 

 

 

 

 

وائے یہ زخم خوردگی میری

اور پھر اُس پہ خوش دلی میری

 

منصبِ شاعری پہ فائز ہوں

اُس نے کی ہے تقرری میری

 

میری غفلت سے ہے زیاں میرا

اُس کی غفلت ہے آگہی میری

 

نام تو خیر یاد آتا کیا

شکل وہ بھولتی گئی میری

 

راستے کی تھکن میں گھر لایا

گرد کرتی ہے ہمسری میری

 

ملتا رہتا ہوں اپنے آپ سے میں

دن بھی میرا ہے رات بھی میری

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ بتاؤ کہ ہوئیں یار سے باتیں کیا کیا

میرے ہمدم میرے دل دار سے باتیں کیا کیا!

 

خلقتِ شہر کو افسانے سنائے کہ نہیں ؟

تم نے کیں چشمِ خریدار سے باتیں کیا کیا!

 

کتنے حالات رسائل سے پتا تم کو ہوئے

آشکارا ہوئیں اخبار سے باتیں کیا کیا!

 

چارہ سازی کی طلب اُس دلِ بیمار میں تھی

لوگ کرتے رہے بیمار سے باتیں کیا کیا!

٭٭٭

 

 

 

 

روگ دل کو لگائے بیٹھا ہے

سامنے آئینے کے بیٹھا ہے

 

کوئی تجھ سا نہیں جہاں میں کیا

تو جو ایسے اکیلے بیٹھا ہے

 

پشت دیوار سے لگائے ہوئے

گود میں تکیے رکھے بیٹھا ہے

 

کل بھی بیٹھے گا کیا اسی کروٹ

آج کروٹ پہ جیسے بیٹھا ہے

 

دھوپ کرنوں سے غسل کرنے کو

کیسے روزن وہ کھولے بیٹھا ہے

 

دیدہ و دل کو فرشِ  راہ کیے

آئیے !کہتے کہتے بیٹھا ہے

 

میں فقط سوچتا ہی رہتا ہوں

وہ تو پہلے سے لکھّے بیٹھا ہے

٭٭٭٭

 

 

 

 

مال و منال کے لیے تقدیر بھی تو ہو

یعنی وراثتی کوئی جاگیر بھی تو ہو

 

نوچوں ہوں ناخنوں سے خیالات کا بدن

وحشت میں اعتدال تو دیکھوں کمی تو ہو

 

میرے دیے کی لو سے جلیں اور بھی دیں

افکار معتدل نہ سہی شعلگی تو ہو

 

دیکھوں دکان عشق میں کوئی کھلونا میں

حاصل بھی اس کو ایسا کروں کہ خوشی بھی ہو

 

پہلے تو آب خورہ بجھاتا تھا پیاس بھی

اب یہ گمان کیسے پیوں تشنگی تو ہو

 

آنکھوں سے دیکھ لوں تو ملے لمس بھی مجھے

سینے میں جو سما سکے منظر کوئی تو ہو

 

چلتا ہوں نامِ عشق ذرا اُس گلی میں پھر

ناکام و کامیابی جدا،  عاشقی تو ہو

 

کوئی گلاب،  دل میں کوئی رس تو بھر سکوں

لب سونپ دوں،   نظر سے پیوں رس بھری تو ہو

 

پھرنا زبوں و خوار ہے نام و نسب کا کیا

تسکین روح کی نہ ہو اعصاب کی تو ہو

 

وہ بھی نہ ہو خیال بھی اس کا نہ آسکے

رنجش اگر نہی سہی بے گانگی تو ہو

 

جذبات کی پناہ،  تمنا کی خیریت

خوابوں کا مول چاہیے صورت گری تو ہو

 

میں ننگے پاؤں کیوں نہ چلوں دل زمین پر

روئیدگی کے بعد ذرا سی نمی تو ہو

 

خود کو سخن شعار بنانے کا فائدہ

محفل میں ان کی ذکر رہے ، ہمسری تو ہو

 

لکھوں جو ماجرائے حقیقت سبھی کہیں

بے شک حیات ایسی رہے زندگی تو ہو

 

کیسے کہوں شراب کا پینا حرام ہے

نفع و ضرر اسی کو ملے جس نے پی تو ہو

 

کیا رہگزر میں کھولوں نصیحت کی فائلیں !

سمجھاؤں آدمی کو مگر آدمی تو ہو

 

کیا خوش کلام مر گئے پیشِ سخن بغیر

اس شرط پر کہ میرؔ کی ہمسائگی تو ہو!

 

کیا میرے شعر،  میرا سخن سچ کہا میاں

اک سچی بات درمیاں ہو،  شاعری تو ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا کہوں یاد آنا ہو جس کو جہاں یاد آتا نہیں

یوں بھی ہوتا ہے کچھ کچھ یہاں مہرباں یاد آتا نہیں

 

رہ گزر،  چوکھٹیں،   بام و در،  کھڑکیاں یاد آتا نہیں

زندگی کیا ہوئے جن سے روشن رہی کہکشاں یاد آتا نہیں

 

کھو گئے سب مکیں زلزلے نے اُلٹ دیں وہ آبادیاں

راستو کچھ کہو تھے جو آباد یاں یاد آتا نہیں !

 

وقت کی دھوپ تو نے حسیں مہ لقاؤں کو سنولادیا

کیسے کیسے رہے دل نشیں خوش گماں یاد آتا نہیں

 

ابتدا عشق کی گھر سے نکلے تو پھر آبلہ پا رہے

ساعتِ عمرِ رفتہ نے پہنچا دیا تھا کہاں یاد آتا نہیں

 

عکس دھندلا گئے ،  آئینہ دل کا زنگار سا ہو گیا

زندگی سے ملا کیا ہمیں ماحصل،  رائگاں یاد آتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

خالی ہاتھ گزرتا جاؤں بھرے ہوئے بازار سے

جانتے بوجھتے دور ہی رکھوں سائے کو دیوار سے

 

جانے کتنے ہفتے گزرے کوئی عمل نہیں کر پایا

ورنہ میں نے کیا کچھ سوچ کے رکھا تھا اتوار سے

 

سینہ بہ سینہ ملتی جائیں دور دراز کی سب خبریں

کام لیا کرتا ہوں دسترخوان کا میں اخبار سے

 

اپنی حفاظت کی خاطر مدقوق محافظ رکھتے ہیں

ہٹّے کٹّے لوگ دکھائی دیتے ہیں بیمار سے

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھ کر اُس کی رفت و آمد میں ؔ

پار کر جاؤں غم کی سرحد میں ؔ

یاد رکھوں میں اپنے ابّ و جد

سیکھ لوں گر حروفِ ابجد میں ؔ

٭

 

ناں تزک و احتشام ہے نے انتظام ہے

ہاں صبح،  شام شعر و سخن کو دوام ہے

٭

 

 

 

 

 

ہاشمیؔ کیوں ماورائی گفتگو کرنے لگے

آئِنے کو آئینے کے روبرو کرنے لگے

 

صبر کا فقدان تھا یا موسِمِ عُجلت کہ ہم

چاندنی پھیلی تو رقص و ہاوٌ ہو کرنے لگے

 

ہجر کی تفہیم کیا کرتے وہ اہلِ ہجر جو

چرچا پھر دیوانگی کا کُو بہ کوُ کرنے لگے

 

طائرِ تخئیل اپنی حد سے باہر کب گیا

یعنی اپنی ذات کی ہم جستجو کرنے لگے

 

فیصلہ ٹھہرا کہ راہِ استقامت تھام لیں

اپنے خوں سے عاشقِ فطرت وضو کرنے لگے

 

تا قیامت خوش رہیں احباب میرے ہاشمی

تذکرہ جو شاعری کا چارسُو کرنے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آنکھیں ہیں دنیا میں دنیا آنکھوں میں

ڈ ھو نڈ  رہی ہیں آنکھیں کیا کیا آنکھوں میں

 

ہم کو اس سے غرض نہیں تعبیر ہے کیا

پر معلوم ہو کیوں ہے سپنا آنکھوں میں

 

جس کے ناز اُٹھاتے ہیں دنیا والے

رکھتی ہے وہ کیسا نخرا آنکھوں میں

 

ہ جاتی ہیں پلکوں سے بوجھل اکثر

بھر جاتا ہے نیند کا نشّہ آنکھوں میں

 

اک سائے کے وہم میں رہتی ہیں آنکھیں

لہراتا ہے اِک سایا سا آنکھوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سو غماز کتنی نہیں ہوسکی؟

نظر باز کتنی نہیں ہوسکی!

 

دیِا دَم دِلاسا کہاں تک تجھے

وہ دمَساز کتنی نہیں ہوسکی

 

سخن سے ملیِں کس قدر شہرتیں !

تگ و تاز کتنی نہیں ہوسکی؟

 

ستائش میں مصروف محفل مِری

ہم آواز کتنی نہیں ہوسکی!

 

مجھے جس نے دیوانگی بخش دی

جنوں ساز کتنی نہیں ہوسکی!

 

کٹی عمر کتنی بتا دے کوئی؟

پس انداز کتنی نہیں ہوسکی!

 

ہدف کتنے پیچھے رہا آپ کا!

یہ پرواز کتنی نہیں ہوسکی؟

۲۰۰۹۔ ۰۹۔ ۰۶

٭٭٭

 

 

 

 

خیال جب نہ مجھے اپنی ہا و  ہو کا رہا

شُنید ہی کا سلیقہ نہ گُفتُگو کا رہا

 

دھیان آتا نہیں سیرِ باغ کا کیسے

سدا اسیر گلوں اور رنگ و بو کا رہا

 

کہانیاں تو نہیں زندگی گزرتی ہوئی!

میں کیسے یک رخا کردار اپنی خُو کا رہا؟

 

نجانے کون تھا ہمزاد میں جسے سمجھا

اگرچہ شائبہ سا مجھ کو ہو بہ ہو کا رہا

 

اسیرِ خلوتِ آئینہ ہو رہا جب سے

گمان تک نہ مجھے اپنی ہی نُمُو کا رہا

 

نہ جاگی داد کی خواہش کبھی نہ رتبے کی

خیال مجھ کو سدا حرف آبرو کا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب نہ توفیر پہ اصرار نہ تقلیل کا غَم

نعمتِ شکر جو وافر ہوئی ہر دم پیہَم

 

صرصرِ وقت پہ موقوف چلے یا ٹھہرے

لوٗ چراغوں کی کبھی تیز کبھی ہو مدھَّم

 

مُنٗدَمل ہوتے گئے ساعتِ دوراں میں سبھی

وقت نے زخم لگائے بنا خود ہی مرہَم

 

روشِ شعر پہ چلنا کوئی دشوار نہیں

نغمہ گر دیکھ جو اَسلاف کا رکھ پائے بھرَم

 

میں سخن زار سے سرمایہء لفظ و معنی

جس قدر چاہوں سمیٹوں کبھی ہوں گے نہیں کم

٭٭٭

 

 

 

 ۲۳ مارچ یومِ پاکستان پر نظم

 

تنظیم و اتحاد کی تاریخ ہے یہی

بے شک قرارداد کی تاریخ ہے یہی

 

۲۳ مارچ یومِ عزیمت سے کم نہ تھی

انگریز کی غلامی ندامت سے کم نہ تھی

 

پورا خدا کے فضل سے ہو عزم تو کرو

پایا قرار ملک کی تعمیرِ نو کرو

 

جو پہلے منتشر رہی تشکیل میں کیا

قائد ؒ نے ملک قوم کی تحویل میں کیا

 

یہ قوم متحد ہے دِکھانا ہے پھر ہمیں

آپس کی رنجشوں کو مٹانا ہے پھر ہمیں

 

مل جل کے سب کو دیں کہ جو حصہ ہے قوم کا

اس ملک کو سنوارنا ذمہ ہے قوم کا

 

قائدؒ چلے تھے جیسے یہاں اعتماد سے

تنظیم سے ،  یقین سے اور اتحاد سے

 

اک دوسرے کے سنگ چلو،  دوستو چلو

پیغام یومِ پاک کا ہے متحد رہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حرف در حرف آزمائے گئے

خواب کیا کیا ہمیں دکھائے گئے

 

واقعے بن گئے کہانی سی

بے خبر تھے خبر میں لائے گئے

 

خلوتیں کیں سپردِ آئینہ

جشن تنہائی کے منائے گئے

 

کب ملے ریشم اور آبِ رواں !

دور تک آنچلوں کے سائے گئے

 

تھا عجب آنکھ کا چُرانا بھی

دیر تک وہ نظر میں آئے گئے

 

کیسی گوشہ نشینی ہے صاحب

وہ تو ہر انجمن میں پائے گئے

 

اب ٹھکانہ کہاں ملے گا بھلا

آپ کیوں میرؔ کی سرائے گئے

 

دل سے اک آہ سی نکلتی ہے

ہائے وے لوگ! ہائے ہائے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ شہر،  شہرِ غزالانِ خوش نظر بھی ہے

نئی کراچی غریبوں کامستقر بھی ہے

 

یہ وقت،  دھوپ،  خزاں و بہار،  رات و دن

یقین کیجئے سحر بعد دوپہر بھی ہے

 

متاعِ عشق کی بابت بتائیں کیا تم کو

بیان و حرف میں الجھا ابھی ہنر بھی ہے

 

نہیں وہ شخص سرِ آئِنہ نہیں آتا

حقیقتوں سے تصادُم کا اُس کو ڈر بھی ہے

 

غزل شعار کہاں نظم و ضبط دیکھتے ہیں

یہ نسخہ سہل بھی ہے اور کارگر بھی ہے

 

ورق مثال کھُلی آنکھ بر سرِ راہے

نظر کے پیشِ نظر اور اک نظر بھی ہے

 

مقامِ شوق جسے کہہ رہا ہے میرا دل

اسی مقام سے آگے نیا سفر بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

کہنی تھی بات دل کی جہاں تَد نہیں کہا

آنا ہے اُس کو آئے ’’اَلِف مَد‘‘ نہیں کہا

 

جب کو زبانِ  میر ؔ میں ہاں جَد نہیں کہا

اہلِ  ہنود کو بھی اَب و جَد نہیں کہا

 

ٹھہری نہیں نگاہ اُسے دیکھنے کے بعد

لگ جائے اس کو یہ نظر بَد نہیں کہا

 

اس واسطے سند کوئی لانا ضرور تھا!

کیوں تم نے فرشِ خاک کو مسند نہیں کہا

 

غارت گرِ  یقین پر ایماں کے باوجود

ہم کو فقیہہ شہر نے مُرتَد نہیں کہا

 

حائل نظر رہی ہے نظارے کے درمیاں

جو بھی تھا درمیان اُسے سّد نہیں کہا

٭٭٭

 

 

 

 

اک روز تو خاک بن رہے گا

اک دن نہ ترا کفن رہے گا

 

اک روز تو اس جہاں میں آیا

اک روز نہ یہ بدن رہے گا

 

اک روز کی بات ہے تو سن لے

پہلو میں وہ سیم تن رہے گا

 

چاہے گا سرکنا دور تجھ سے

کیا یاد وہ میر حسن رہے گا

 

راضی وہ بہ کارِ وصل ہو گا

آخر معاملہ ٹھن رہے گا

 

آئینہ کرے گا رونمائی

بستر بھی شکن شکن رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اگر ہے اس کا تعلق مرے بیان تلک

میں اس زمین کو پھیلاؤں آسمان تلک

 

وہ میرؔ و میرزا غالبؔ تھے ،  عصرِ حاضر میں

مقام ہی نہیں ! بدلی گئی زبان تلک

 

بحال عہدہ و منصب اگر نہ ہو تو کیا

ہم اپنے آپ کو رکھیں گے داستان تلک

 

کسی کے کارِ مسیحائی سے بھی کیا ہو گا

دوائے دل کی بڑھا دی گئی دکان تلک

 

خدا نہ چاہے اگر،  ناخدا سے کیا ہو گا

کہ دسترس میں نہیں جس کے بادبان تلک

 

سنا ہے عشق کا آسیب اُس مکان میں ہے

سو آؤ چلتے ہیں ہم بھی اُسی مکان تلک

 

قبول و رد کا ابھی ذہن میں سوال نہیں

غزل کہی تو ہے یہ فجر کی اذان تلک

٭٭٭

 

 

 

روگ دل میں لگائے بیٹھا ہے

سامنے آئینے کے بیٹھا ہے

 

کوئی تجھ سا نہیں جہاں میں کیا

تو جو ایسے اکیلے بیٹھا ہے

 

پشت دیوار سے لگائے ہوئے

گود میں تکیے رکھے بیٹھا ہے

 

کل بھی بیٹھے گا کیا اسی کروٹ

آج کروٹ پہ جیسے بیٹھا ہے

 

دھوپ کرنوں سے غُسل کرنے کو

روزنِ در وہ کھولے بیٹھا ہے

 

دیدہ و دل کو فرشِ راہ کیے

آئیے ! کہتے کہتے بیٹھا ہے

 

میں فقط سوچتا ہی رہتا ہوں

وہ تو پہلے سے لکھے بیٹھا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ایک قتالہ نظر بر سرِ  دیوان پڑی

جیسے اک تازہ غزل برسرِدیوان پڑی

 

اپنے لہجے میں ملا لہجۂ تازہ اپنا

خلقتِ دہر لگی بے سرو سامان پڑی

 

زخم دکھلائے وہی جن کا دکھاوا ممکن

راہ اپنائی وہی جو مجھے آسان پڑی

 

کوئے جاناں کی طرف جُرأتِ  رندانہ بڑھی

رہگزر سے جو الگ راہ تھی ویران پڑی

 

جائے حیرت نہ رہی ملکہ سباؔ کی اُس دم

جب نظر اُس کی سُوئے تختِ سلیمان ؑ پڑی

 

مجھ سے تجدیدِ  غزل ہاشمیؔ کرتے نہ بنی

کیسی مشکل یہ گھڑی سر پہ مرے آن پڑی

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کے دل میں نہاں میں دکھائی دیتا ہوں

کوئی بتائے کہاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

نہ دیکھ پائے کوئی اور بات ہے ورنہ

ہر آئینے میں عیاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

کوئی یقین سے کہتا ہے ہاں میاں !تم ہو

کسی کو وہم و گماں میں دکھائی دیتا ہوں

 

مرا ہی عکس ہے عالم میں چار سوُ پھیلا

سو ذکر اور بیاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

میں خود کو ہار کے جیتا اُسے پہ لوگوں کو

وہ سُود اور زیاں میں دکھائی دیتا ہوں

 

وہ بھیڑ ہے سرِ بازار چل نہیں سکتا

سخن کدے میں رواں میں دکھائی دیتا ہوں

 

مرے ہُنر کا ابھی مول کر سکا نہ کوئی

ابھی کچھ اور گراں میں دکھائی دیتا ہوں

 

ہے میرے دم سے ہی آباد ہاشمی ؔ اب تک

وہ بزمِ  شعر جہاں میں دکھائی دیتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مشغلہ شعر و سخن کا یوں ہی جاری رکھیے

لفظ رنگیں ہوں،   غزل روح سے عاری رکھیے

 

بر سرِ عام وہی کیجیے جو من چاہے

آپ سے کس نے کہا لاج ہماری رکھیے

 

صبر کیا چیز ہے عجلت کی چمک کے آگے

شکوا کرتے میں زباں اور کراری رکھیے

 

داہنی سمت رکھیں مہرِ جہاں تاب اگر

بائیں گوشے میں وہیں بادِ بہاری رکھیے

 

رہے دورانِ ملاقات حدِ فاصل بھی

کیا ضروری ہے ہر اک شخص سے یاری رکھیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہے جُرمِ  عشق تو اقبال لکھ دیا جائے

کہو تو کھُل کے وہ احوال لکھ دیا جائے

 

گزشتگاں سے جو منسوب ساعتیں ہیں انھیں

کہ روز و شب کہ مہ و سال لکھ دیا جائے

 

کوئی مضائقہ اس میں نہیں سمجھتے ہم

کہ وزن چھوڑ کے مثقال لکھ دیا جائے

 

سراپا جس میں نہ آ پائے برسرِ تمثیل

اُس آئینے کو بھی تمثال لکھ دیا جائے

 

پھر اِس کے بعد کہیں قافیہ نہ تنگ رہے

سو یہ درُست ہے فی الحال لکھ دیا جائے

 

لکھوں بنامِ خداوند خط محبت سے

قبول کر مرے اعمال لکھ دیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

ہاں رس بھری ہوا کے سندیسے نہ آئے تھے

جھونکے بدن کی خوشبوؤں ایسے نہ آئے تھے

 

اس چشم سے کشید ہوئیں جیسی لذتیں

اتنے سرور جام سے مے سے نہ آئے تھے

 

وہ آ نہیں رہے تھے بلاوے پہ بھی مرے

آئے ، رکے ، ملے ، گئے جیسے نہ آئے تھے

 

زر کیا ملا کہ خواہشِ زن اور زمیں بڑھی

دل مطمئن تھا قبل ازیں پیسے نہ آئے تھے

 

ہم گردشِ مدام سے گھبرائیں کس لیے

کیا دن بُرے سے اور بھلے سے نہ آئے تھے

 

کیا حسن اتفاق ہے گھر مل گیا ترا

ہم اس گلی میں تیرے پتے سے نہ آئے تھے

 

اشعار کو سنواردیا ہم نے ہاشمیؔ

جو پڑھ چکے ہیں ویسے کے ویسے نہ آئے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

کھینچتے رنجِ رائگانی ہم

درد کہتے جو منھ زبانی ہم

 

ناگہاں دہر میں نہیں آئے

جائیں گے پھر بھی ناگہانی ہم

 

ہم نے جو کچھ سنا وہ دہرایا

پیش کرتے نہیں کہانی ہم

 

اک سخن ور یہ کہہ رہا تھا کل

اک سخنور ہیں خاندانی ہم

 

لکھتے رہتے ہیں ہاشمیسب کچھ

کرتے رہتے ہیں آنا کانی ہم

٭٭٭

 

 

 

کون کرتا خیالوں کی صورت گری

زندگی آگہی، آگہی شاعری

 

اس طرف اک قلندر کے ارمان تھے

اُس طرف زلف زنجیر بڑھتی ہوئی

 

اسطرف آئینہ عکس چُنتا ہوا

اُس طرف آنکھ میں کوئی تصویر سی

 

دائرے ،  زاویے تھے سبھی پُر کشش

پر تمنا! کہ دل میں دھری ہی رہی

 

جس کے سینے میں رنجش تھی وہ کس لیے

مجھ سے کہتا رہا، یا اَخی،  یااَخی!

 

زندگی سے محبت نہیں ہے کسے !

موت کی آرزو کس نفس نے نہ کی؟

 

خاک میں کتنے موتی اُتارے گئے

کتنی لہروں نے لاشوں کی گنتی گنی؟

 

قافیہ تنگ ہوتا جو دیکھا گیا

ہاشمی یہ غزل بے مردّف رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نور ایسا ہو کہ جو ارض و سماء روشن کرے

اِذن ربیّ تھا اُسے غارِ حرا روشن کرے

 

میری نظروں میں یقیناً وہ بڑا انسان ہے

جو محبت کے دیے کو جا بجا روشن کرے

 

آدمی محروم ہو یا بر سرِ پیکار ہو

احتیاج اپنی سرِ طاقِ دعا روشن کرے

 

جو سجھائے روشنی بھٹکے ہوؤں کو راہ میں

ایسی بینائی خدا رکھے خدا روشن کرے

 

وہ جلائے گا چراغِ آگہی،  جو فکر میں

میرؔ کا احساس،  طرزِ میرزاؔ  روشن کرے

 

اک حقیقت ہاشمیؔ اظہار میں روشن ہوئی

اک حقیقت میرا عکسِ آئینہ روشن کرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہا ہے اُس نے مرے ساتھ چل نہیں سکتا

تو کیا میں اپنا ارادہ بدل نہیں سکتا

ا

جل رہی ہے تعقب میں پھر بھی زندہ ہوں

یہ تم سے کس نے کہا وقت ٹل نہیں سکتا

 

تو رائیگاں ہی رہے پیش اُس کے گریہ بھی

مثالِ موم اگر دل پگھل نہیں سکتا

 

یہ اور بات کہ شدت دیے کو گل کر دے

دیا بغیر ہوا کے تو جل نہیں سکتا!

 

اک عمر سے یونہی دروازہ کھولے بیٹھا ہے

یہ راستا جو مرے ساتھ چل نہیں سکتا

 

یہ آدمی جو جزیروں میں بٹ گیا یارو

ہو متحد تو سمندر نگل نہیں سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

ایسے طاری تھا جنوں ہم پہ غزل خوانی کا

رقص زنجیر میں جیسے کسی زندانی کا

 

صاحبو ہم سخنی چیزِ دگر ہے لیکن

ہم مآل اس کو سمجھتے ہیں پریشانی کا

 

آئینہ،  گھر کو پلٹ آنے پہ یوں ملتا ہے

منتظر جیسے کوئی یار کسی جانی کا

 

میں نے بکنے نہ دیا نان و نمک کی خاطر

کیسے دیکھے وہ تماشا مری ارزانی کا

 

ہجر کی رات بھرے گھر میں رہا تنہا کل

یاد آیا تھا بہت شعر مجھے بانی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دکھائی دیتی ہے ہر سو خوشی کی لہر ہمیں

کہا ہے جب سے کسی نے غریبِ  شہر ہمیں

 

ذرا سی بات پہ ناراض ہم رہیں کتنا!

گوارا یوں بھی کہاں سارے اہلِ دہر ہمیں

 

ترے وجود کی خوشبو اُڑا کے لائی ہیں

وہ ساعتیں جو کبھی لگ رہی تھیں زہر ہمیں

 

وہ کون دوسرا اس خواب گاہ میں آیا

یہ کون چھیڑنے آتا ہے پچھلے پہر ہمیں

 

شبانہ روز حصارِ نظر میں رکھتے ہیں

بلاسبب نہیں تکتے یہ ماہ و مہر ہمیں

 

رواں دواں ہے اسی میں سفینۂ غمِ دل

سو دیکھیں لے کے کہاں جائے اب یہ بحر ہمیں ٭

 

٭صوتی قافیہ قصداً باندھا گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات بھر دور سے سنا میں نے

ایک لڑکی کا قہقہہ میں نے

 

چاہتا تھا میں اس کی بات لکھوں

سوچتا ہوں یہ کیا کِیا میں نے

 

ہجر کی تہمتیں اٹھاتا کیوں !

خود سے خود کو جدا کیا میں نے

 

آئینہ دیر تک ہنسا مجھ پر

جب کبھی دیکھا آئینہ میں نے

 

فلم چلتی تھی ٹیلی ویژن پر

فون ہاتھوں سے رکھ دیا میں

 

مجھ سے ملنے وہ جب نہیں آئی

نیٹ پر رابطہ رکھا میں نے

 

ایک منظر میں تھے کئی منظر

گویا سب کچھ سمجھ لیا میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

رفتہ رفتہ خوب ہوئی

رات مری محبوب ہوئی

 

دن آڑے آیا جب بھی

تنہائی مطلوب ہوئی

 

خود سے باتیں کرتا ہوں

خاموشی مندوب ہوئی

 

آنکھیں دامن جل تھل سے

رات یہ بارش خوب ہوئی

 

صبر مرا ایوب بنا

بینائی یعقوب ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

یہ مشکل کسی روز ٹل جائے تو

سنا ہے جو قسمت بدل جائے تو

 

وہ زندہ مجھے مار سکتے بھی ہیں

جو ہاتھوں سے بندوق چل جائے تو

 

مذاق اس کو ہرگز نہیں جانئیے

جو نفرت محبت میں ڈھل جائے تو

 

کریں گے نہ تعریف کیسے بھلا

سماعت میں اُن کے غزل جائے تو!

 

کسی کا بھی مدفن بنانا اُسے

بدن میرا جب پورا گل جائے تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

قدم رفتار کے طالب سُخن گفتار کا خواہاں

مسَافت دھُوپ سے نالاں بدن دیوار کا خواہاں

 

تنفس جبر ہو یا اختیارِ ہر بشر جو ہو

دمِ فُرصت ہَیوُلیٰ ہے ’’ الَست‘‘ اقرار کا خواہاں

 

میں اُس کے اِسم کی مالا جبپوں یا گھول کے پی لوں

وریٰ الماوریٰ کی ذات کے دیدار کا خواہاں

 

یقین و وہم کے مابین ہر منظر کا گرویدہ

نظر کے سامنے ہر آن ہوں دیدار کا خواہاں

 

مجھے معلوم ہے اوقات فن کاروں کی، فن کی بھی

سُخن بعدِ سُخن پھر بھی رہے بازار کا خواہاں

 

مجھے جو اعتبارِ نغمہ کی مسند پہ پہنچا دیں

معانی سے مُبرّا جو ہوں اُس اظہار کا خواہاں

٭٭٭

 

 

 

 

ملے ہیں عیش جنہیں کم یہاں ملال بہت

وہ جی رہے ہیں یہی ان کا ہے کمال بہت

 

وہ حرف جن کی رعایت سے سرخ رو ہیں ہم

انھیں بھی دیکھا یہاں ہوتے پائمال بہت

 

رہے نہ خواہشِ داد و دہش اگر دل میں

تو ایسے شخص کا دنیا کرے خیال بہت

 

کسی تماشے یا نظّارے پر نہ آنکھ رہی

مَیانِ اہل ہنر کی ہے دیکھ بھال بہت

 

تقاضے نفس کے پورے ہوئے نہ ہوں گے کبھی

کہ اس جہان میں ہیں خواہشوں کے جال بہت

٭٭٭

 

 

 

 

 

مشکل جو کیا چاہیے آسان نیا سا

چاہے گی نظر دیکھنا ہر آن نیا سا

 

جاتی ہے جہاں سے کوئی کہنہ سی اگر روح

دے دیتا ہے مالک وہاں مہمان نیا سا

 

عاری ہوا احساسِ زیاں سے یہ مرا دل

محسوس نہیں ہوتا ہے نقصان نیا سا

 

پھولوں کی طلب دل میں ہی مرجھا گئی شاید

ٹیبل پہ رکھا رہو گیا گل دان نیا سا

 

اشعار سے تقریر سجاتے رہے لڑکے

اب ڈھونڈتی ہیں لڑکیاں دیوان نیا سا

 

تم جتنے جتن ہاشمیؔ کر لو نہ ملے گا

تم کو نئے دیوان کا عنوان نیا سا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سن رہا ہوں کہ بولتا ہوں میں

آج بھی شعر لکھ رہا ہوں میں

 

آج بھی ہے جُنوں کی ارزانی

گرچہ خود پر گراں رہا ہوں میں

 

دیدنی ہے بہار کا منظر

کیوں خزاں اب بھی ڈھونڈتا ہوں میں

 

کتنی غزلیں سنائیں،   کتنی سنیں

صبح تا شام گن رہا ہوں میں

 

آپ کیوں مبتلائے حیرت ہوں

یار! خود میں ہی مبتلا ہوں میں

 

تم ہدف تک پہنچ کے بھول گئے

واقفِ آہِ نارسا ہوں میں

 

میں نے سچ بولنے کی جرات کی

لوگ سمجھے کہ آئینہ ہوں میں

 

میرے بارے میں آپ جو کہیے

کون ہوں ! کیا ہوں ؟ جانتا ہوں میں

 

میرؔ صاحب سے کی نہیں بیعت

پھر روایت سے کیوں جُڑا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

نیلگوں پیرہن ہے دریا کا

چاند ڈوبا ہے کیا گگن میں کہیں !

 

خود بخود آنکھ اُٹھتی جاتی ہے

کیا نمائش ہے بانکپن میں کہیں

 

خواب منظر میں گم رہیں آنکھیں

روح بے چین ہے بدنمیں کہیں

 

کیوں توجہ نہ آئینے کو ملے

کیا کمی ہے اکیلے پن میں کہیں !

 

منتظر ہیں سماعتیں جن کی

حرف آتا نہیں سُخن میں کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

عجب ماجرا تھاگزشتہ دنوں

جو خود سے ملا تھا گزشتہ دنوں

 

گزشتہ دنوں یاد آیا بہت

جسے بھولتا تھا گزشتہ دنوں

 

مرے صبر کو آزمانے لگا

جو صبر آزما تھا گزشتہ دنوں

 

گزشتہ دنوں بجھ گیا آپ ہی

دیا جو جلا تھا گزشتہ دنوں

 

گزشتہ دنوں کیا سناتا اسے

میں چپ ہو چکا تھا گزشتہ دنوں

 

اسے کیا کہ خود کو بھی دیکھا نہیں

میں زیرِ انا تھا گزشتہ دنوں

 

گزشتہ دنوں دل گرِفَتہ تھا وہ

مرا دکھ سوا تھا گزشتہ دنوں

 

تماشائی تھا کُل جہاں اور میں

تماشا بنا تھا گزشتہ دنوں

 

گزشتہ دنوں میری ہمت بڑھی

میں کم حوصلہ تھا گزشتہ دنوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

منزل بھی سامنے تھی رستا بھی چل رہا تھا

آوارگی کا دل میں بھی شوق پل رہا تھا

 

دنیا سے جانے والا ہر ذی نفس یہ سمجھے

کیا پاتا کیا گنواتا بس ایک پل رہا تھا

 

میں اور حادثے سے دوچار ہو رہوں گا!

قدرت کا فیصلہ بھی کیسا اٹَل رہا تھا

 

میں ننگے پاؤں چل کے صحرا سے لوٹ آیا

وہ دھوپ میں تھی شدّت سایا بھی جل رہا تھا

 

ازر و ئے عشق میں نے فُرصت کوپیچھے

کم مائگی کے ہاتھوں،   کم ظرف جل رہا تھا

 

کیا چھوڑتا سخن کا کوچہ میں بعد مدّت

گو شکوا ہم نفس کا یہ بَر مَحل رہا تھا

 

محفل میں جا کے کس کو اپنی غزل سناتا

ماحول شاعری کا ہر سُو بدل رہا تھا

 

سچ کہہ رہے ہو صاحب،  مشقِ ستم ہے اب تو

وہ دن گئے کہ شیوہ کہنا غزل رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

تا قیامت رہے جہاں آباد

میرا محبوب ہے جہاں آباد

 

جو یہاں محفلیں سجائیں انھیں

رکھنا یارب،  سدا جواں،   آباد

 

دائیں بائیں سبھی تو رہتے ہیں

ہم بھی ہ جائیں درمیاں آباد

 

اک ستارا ہے کہکشاؤں میں

اک ستارے میں کہکشاں آباد

 

اک نظارے میں آنکھ الجھی ہوئی

اک اشارے میں بجلیاں آباد

 

باقی رہتی نہیں بہار سدا

رہنے دیتی نہیں خزاں آباد

 

رفتگاں نے جنہیں بسایا ہے

ایسی ہوں گی نہ بستیاں آباد

 

وائے یہ اپنے ہائے بے گانے

ہاشمیؔ ہو گئے کہاں آباد

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقت کی نبض تھمی سرد بدن ہونے لگے

ہم سے پسمانٗدہ پسِ شُکر جنوں کھونے لگے

 

آسماں بار اٹھانے کا روادار نہ تھا

بار شانے پہ جو رکھّے گئے ہم ڈھونے لگے

 

آئے نزدیک تو قامت کا ہوا اندازہ

دور سے لوگ سبھی دیکھنے میں بونے لگے

 

دھند کو دھند کی مانند سمجھنا چاہا

دھوپ کو یاد کیا،  زخم ہرے ہونے لگے

 

کون ہوتا نہیں حالات سے ریزہ ریزہ

آپ ہی ایک انوکھے نہیں جو رونے لگے

 

شعر لکھتے تھے کبھی صبح کے آثار تلک

ہاشمیؔ جاگنے والے تھے سدا،  سونے لگے !

٭٭٭

 

 

 

 

مری تلاش تجھے گردشِ زمانہ ہے

سو دیکھ لے مجھے ،  یہ میرا آشیانہ ہے

 

کسی وصال کی صورت نظر نہیں آتی

ہر آئینے پہ لکھا ہجر کا فسانہ ہے

 

عدم،  وجود،  ممات و حیات کیا لکھیے

یہ ایک قصۂ آدم بہت پرانا ہے

 

پلٹ نہ جائیں نئے عہد کے اُبھرتے ہی!

گزشتہ عہد کو یوں بھی دوبارا آنا ہے

 

ملی جو دید کی مہلت تو دیکھ لیں گے ہم

ابھی تو صرف ملاقات کا بہانہ ہے

 

سُخن قبیلے تریخیر،  اہلِ فن کی خیر

ہمیں بھی خیر سے رشتہ ترا نبھانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہوتا گیا کچھ اور ہی کرتا کچھ اور تھا

اَن ہونیوں سے گرچہ میں ڈرتا کچھ اور تھا

 

عکسِ حسیں گرفت میں آ جائے جس گھڑی

آئینہ اُس کے بعد سنورتا کچھ اور تھا

 

گلدان میں تھی کیسی سجاوٹ بتائیں کیا

آغوش میں وہ پھول بکھرتا کچھ اور تھا

 

مجھ کو طلب سے بڑھ کے مسرت یہاں ملی

الزام گو زمانے پہ دھرتا کچھ اور تھا

 

اک لقمئہ حلال کی تاثیر چاہی تھی

لیکن مری رگوں میں اُترتا کچھ اور تھا

 

آخر وہی ہوا کہ نبھائی نہ جا سکی

گو میں نے اس ردیف کو برتا کچھ اور تھا

 

زندہ رکھا ہوا تھا مجھے جس نے ہاشمیؔ

میں اُس حسیں خیال پہ مرتا کچھ اور تھا

٭٭٭

 

 

 

معشوق صفت ایسا،  جاناں ہو تو ایسا ہو

روٹھے نہ کسی صورت،  عنواں ہو تو ایسا ہو

 

سو بار ملیں اُس سے سو مرتبہ واں جائیں

کچھ اُس کی طرف سے بھی ہُوں ہاں ہو تو ایسا ہو

 

اوڑھے رہے درویشی یہ اپنا دلِ وحشی

کرتا رہے جو چاہے ،  ناداں ہو تو ایسا ہو

 

کیوں زلفِ معیشت میں رکھتا ہے پھنسا خود کو

روٹی کی لگن ہر دم،  ارزاں ہو تو ایسا ہو

 

مہتاب گگن میں ہے تاروں کی ہے رکھوالی

ان مست نگاہوں کا ساماں ہو تو ایسا ہو

 

دل اپنا مسرت سے جھومے تو کہیں واللہ

خلوت میں کوئی اپنی رقصاں ہو تو ایسا ہو

 

تہذیب و روایت کی جس جا رہے پامالی

دل اپنی ملامت میں غلَطاں ہو تو ایسا ہو

 

چاہت کا سبق پڑھ کر آگے رہے بڑھ چڑھ کر

بن جائے ورق گرداں،   گرداں ہو تو ایسا ہو

 

گر مصرعہِ خوں بستہ ٹپکے مری آنکھوں سے

اک شخص مغلؔ ایسا حیراں ہو تو ایسا ہو

 

تہمت لگے ہم پر بھی کہتا ہے غزل اچھی

ہو ہمہمہ کچھ ایسا،  طوفاں ہو تو ایسا ہو

۱۹ستمبر۲۰۰۹ء، کراچی

٭٭٭

 

 

 

 

عشق پیشہ ہیں محبت ہمیں ہاں کھینچتی ہے

کیوں مری جان حدِ سودوزیاں کھینچتی ہے

 

کھینچ لیتا ہے تری یاد کا سایا ایسے

سانس جس طرح مری عمرِ رواں کھینچتی ہے

 

دل دھڑکتا ہے کسی جنبشِ لب کی خاطر

فکر اک دائرۂ لفظ و بیاں کھینچتی ہے

 

ورنہ کیا کیا نہ سہے رنج مرے آباء نے

عہدِ حاضر میں کہاں نسلِ جواں کھینچتی ہے

 

مرحبا! سنتے ہی کہتے ہیں مؤذن کے لیے

جانبِ سجدہ گزاری یہ اذاں کھینچتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اور پھر جب دعائیں ہتھیلی سے گرتی چلی ہی گئیں

دائم آباد سی بستیاں کتنی تیزی سے گرتی چلی ہی گئیں

 

لوگ مہلت کو مہلت سمجھنا نہیں چاہتے تھے ،  ملی

سوچتے کیا،  عمارات بجلی سے گرتی چلی ہی گئیں

 

دستِ پوشیدگاں چھُپ کے پیچھے سے ڈوری ہلاتے رہے

ہم نے سمجھا یہ کٹھ پتلیاں اپنی مرضی سے گرتی چلی ہی گئیں

 

رقص میں تھا مگن، چاند کے پیڑ سے شبنمی پتیاں

من کے آنگن میں ٹھنڈی خموشی سے گرتی چلی ہی گئیں

 

ٓکل مذاقاً جنہوں نے اُڑایا تھا میرا مذاق آج اُنھیں

یاد آیا نہ ہو کیسے تہذیبیں پستی سے گرتی چلی ہی گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

جناب یہ لکھا ہے جو جناب کے لیے نہیں !!!!

کہ یہ غزل ہے بس غزل کتاب کے لیے نہیں

 

بہانہ اک تراش کر، وہ کہہ گیا تلاش کر

سو نیند سے بچائی آنکھ، خواب کے لیے نہیں

 

وضاحتیں نہ پیش و پَس، قلم پہ رکھ کے دسترس

سوال میں نے جو کیے ،  جواب کے لیے نہیں

 

گزشتگاں کی یاد ہے ،  غرض نہیں ہے د ا دسے

رواں دواں سی زندگی،  حساب کے لیے نہیں

 

عمل میں اجر ہے نہاں،  نہیں رنجِ رائیگاں

کہ بندگی رب مری ثواب کے لیے نہیں

 

ملی ہیں ایسی ساعتیں کہ کم نہ تھیں سماعتیں

سُخن مگر مرا کسی خطاب کے لیے نہیں !!

٭٭٭

 

 

 

 

دل جو دینے کا سلسلہ ٹھہرا

درمیاں اپنے آئینہ ٹھہرا

 

چاہتا ہے سخن کرے کوئی!

ذہن سے دل کا رابطہ ٹھہرا

 

خلق جاتی تھی اُس گلی جانب

میں نے بھی و ا ں قدم رکھا ٹھہرا

 

دل عدالت ہوئی معطّل پھر

مُدعی پھر نہ مدعا ٹھہرا

 

میں نے دیکھا نہیں تماشا پھر

نقل یا اصل جانے کیا ٹھہرا

 

جیسے آئے ہوا کا جھونکا کوئی

وہ جو ٹھہرا تو خواب سا ٹھہرا

 

بر سرِ بزم شاعری نہ چلی

قافیہ بھی تو قافیہ ٹھہرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سراسر وہم کہئے یا خیالِ  خام ہے دُنیا

کسی کو رام کرتی ہے کسی کی رام ہے دنیا

 

تمنّا اور خواہش اور طلب کا نام ہے دُنیا

پسِ  تصویر میں ہوں اور سرِ احرام ہے دنیا

 

جہاں تک سانس کی ڈوری ہمیں دوڑائے چلتے ہیں

بچھائے حرص کے رنگین کیا کَیا دام ہے دُنیا

 

مرے شوق و تقاضا پر مرے ذوقِ  تماشا پر

ہنسی اکثر اُرائی جس نے صبح شام ہے دُنیا

 

شکایت ہے نظر انداز کرنے پر سو کرتے ہیں

نظر اندازیوں پر موردِ  الزام ہے دُنیا

 

مجھے دُنیا سے جو کچھ مل گیا تقدیر تھی میری

غلَط ہے گر کہوں پھر بھی غلط اقدام ہے دُنیا

 

یہ ہَستونِیست کا احساس موجود و عدم کی دھُن

ہمیں باور کراتی ہے برائے نام ہے دُنیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسنے اک پل نہیں گنوائے اشک

آپ نے بے وجہ گرائے اشک

 

دل دیوانہ نے سنائی ہمیں

کون سنتا ہے یاں صدائے اشک

 

لوگ کہنے لگے ہیں دیدہ ور

چشم ہے جب سے مبتلائے اشک

 

سیلِ گریہ کبھی رکا بھی ہے

کیجئے اور ہائے ہائے اشک

 

کوئی منظر ہے نہ پسِ منظر

آنکھ ہے گویا اب برائے اشک

٭٭٭

 

 

 

کہتا رہتا ہے برابر تنہ نا ہو یاہو

کوئی کھل کر کوئی بھیتر تنہ نا ہو یاہو

 

جو بھی ہونا ہے وہ ہوتا ہے یہاں،  جانِ  جہاں

ہے الگ سب کا مقدر تنہ نا ہو یاہو

 

صبر نعمت ہے اگر صبر کرے گا انساں

اور نعمت ہو مُیسر تنہ ناہو  یاہو

 

یہ جو ہم گھر سے نکلتے ہیں پئے رزق ابھی

حُکمِ ربی ہے سراسر تنہ نا ہو یاہو

 

کھوگیا جانے کہاں لوگ اُسے ڈھونڈتے ہیں

ہاشمی،  مست قلندر،  تنہ نا ہو یاہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

وادیِ تھر سن گیت پُرانا ریت پہ ننگے پاؤں

پھر میری سنگت میں گانا ریت پہ ننگے پاؤں

 

ریت پہ ننگے پاؤں سر پر دھوپ کی اِک اجرک

قافلہ ہے کس سمت روانہ ریت پہ ننگے پاؤں

 

سر پر مٹکہ گود میں بچّہ لب پر پیاس سجی

ڈھونڈے ماسی آب و دانہ ریت پہ ننگے پاؤں

 

الغوزہ،  بینجو،  ڈھولک،  اکتارا ساتھ لیے

سائیں بجاتے گاتے جانا ریت پہ ننگے پاؤں

 

ہاشمیؔ تم نے کس دھُن میں یہ آج غزل چھیڑی

دیکھو سائیں جل نہیں جانا ریت پہ ننگے پاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ڈاکٹر عبداللہ جاوید صاحب کی نذر

 

جو یہ کہتے تھے کل،  ہم ہیں،   نہیں ہیں

سو جو ہم ہیں تو بس سمجھیں نہیں ہیں

 

محلے داریاں،   ہم رشتگی ہیں یادِ  رفتہ

نہ مشترکہ ہیں آنگن اور وہ دیواریں نہیں ہیں

 

خیال و فکر کی یکسانیت باہم رکھے تھی

مگر اب اندریں حالات وہ بس میں نہیں ہیں

 

نظر کے روبرو اڑتے ہوئے جگنو نہ آئیں

فضا میں گونجتی چڑیوں کی چہکاریں نہیں ہیں

 

دل اس درجہ ہزیمت یافتہ سا ہو گیا ہے

قبول اس کو رواداری کی بھی رسمیں نہیں ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنا دکھ تو سہہ نہیں سکتا ہر کوئی انساں

سارے عالم کی لیکن کرتا مسیحائی ہے

 

بعد مدت کے عجب اپنی پذیرائی ہے

پھر خزاں روٹھ گئی پھر سے بہار آئی ہے

 

میرؔ سے لے کے مِرے ہم سخنوں تک یہ غزل

جانی انجانی گزر گاہوں سے ہو آئی ہے

 

ٹوٹ جاؤ تو تباہی کا گِلہ مت کرنا

اک ستارے نے یہی رہ ہمیں سمجھائی ہے

 

جو ارادہ کرے دنیا کو ابھی تج دے گا

یہ سمجھ لینا وہ دنیا کا تمنائی ہے

 

رابطہ،  رابطہ کرنے سے ہی بنتا ہے یہاں

اک مثال ہاشمیؔ یہ انجمن آرائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نہیں ہیں آشنا گو تیری رہ گزر سے ہم

غروبِ شام گزرتے تو ہیں اِدھر سے ہم

 

بڑھائی جائے تو یہ بات جانے کتنی بڑھے

سو کام لیں گے بہر طور درگزر سے ہم

 

عجیب صورتِ حالات ہے محبت کی

اُتار پاتے نہیں سودا اپنے سر سے ہم

 

بس ایک بار بتا دے جو دل پہ گزری ہے

رہیں گے تا بکہ حیران اس خبر سے ہم

 

سُخن شعار کوئی پوچھے تو بتائیں کیا!

ہیں کتنی دور ابھی حرفِ معتبر سے ہم

٭٭٭

 

 

 

خاکسے اچھی ہے پوشاک کہ پوشاک سے خاک

پوچھنا ہے کسی ساعت جو ملے خاک سے خاک

 

ہم کو لایا گیا اس خاکداں میں کس کے لیے

کیسے بتلائیں کہیں کھلتا ہے ادراک سے خاک!

 

جانتے بوجھتے خاشاک ہوئے گر عاشق

ساحل و دریا طلب کو ملے پیراک سے خاک

 

اصل حالت میں نہیں رکھا گیا تجھ کو اگر

پھر توقع ہے بھلا کیوں خس و خاشاک سے خاک

 

کوزہ گر یہ تری آنکھوں میں نمی ہے کیسی!

کیا نم آلودہ نہیں ہو گی ترے چاک سے خاک

 

ہاشمیؔ تم ہوئے ہلکان سُخن میں جتنے

حل بھلا ہو گا معمہ حدِ ادراک سے خاک

٭٭٭

 

 

 

 

میں نے قلم سے ناتہ جوڑا اور یہ رشتہ زندہ رہا

مصنوعی باتیں نہ رہیں،   صناع کا لہجہ زندہ رہا

 

فائر کی آواز سے ٹہنی پر بیٹھے طائر جاگے

دم احساس نے توڑ دیا ہر ایک پرندہ زندہ رہا

 

میرا ہر اک دعویٰ باطل، میں جھوٹا،  مرا فن جھوٹا

مجھ کو نظر انداز کیا جس نے وہ کتنا زندہ رہا؟

 

اے مرے شہرِ دانا و بینا،  شہرِ کراچی دیکھ مجھے

میں نے جس کا قصہ جب تب لکھا قصہ زندہ رہا

 

ان خیموں کو نذر آتش کرنے والے کیا جانیں

کون سا دل ہے جس میں نہ اُنؓ کے عشق کا شعلہ زندہ رہا

 

باری باری اہلِ حق نے خون سے کی تاریخ رقم

تشنہ لبان سیراب ہوئے یا پیاسا دریا زندہ رہا

 

بغض و حسد کی اس دنیا میں ہاشمیؔ مجھ کو اچھا لگا

وہ انسان کہ جس کے دل میں عشق کا جذبہ زندہ رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہی بہت ہے مرا احترام کرتے ہیں

جو لوگ دل میں ہمیشہ قیام کرتے ہیں

 

مری نگاہ میں شفقت ملے گی ان کے لیے

جو میری راہ کے منظر سلام کرتے ہیں

 

وحوش اور پرندوں سے کم نہیں ہیں وہ

جو رزق جویا یہاں صبح،  شام کرتے ہیں

 

ضرور کوئی کمی اپنے آپ میں ہو گی!

یہ آئنے سے جو اکثر کلام کرتے ہیں

 

وہ جس کے نام سے آغاز اس سخن کا ہُوا

اُسی کے نام پہ ہم اختتام کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

غنودگی میں کہیں خواب جیسے دیکھے کوئی

یہ آنکھ ہو چکی بے خواب کیسے دیکھے کوئی!

٭٭٭

شاعر کے تشکر کے سارگ کہ انہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین ور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید