نکات و جہات
احمد علی جوہر
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
ان نامور اساتذہ کے نام جن کے زیر سایہ میری علمی و ادبی تربیت ہوئی
حرفے چند
’نکات و جہات‘ میرے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بیشتر مضامین ملک کے مشہور ادبی مجلّات میں شائع ہو چکے ہیں۔ بابِ فکشن کے تحت فکشن سے متعلق مضامین ہیں۔ پہلا مضمون ’’صنفِ افسانہ اور اس کا ارتقا‘‘ ہے۔ اس میں اردوافسانہ کی صنفی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ دیکھنے کی سعی کی گئی ہے کہ مختلف ناقدین اور افسانہ نگاروں کا افسانہ کے متعلق کیا تاثر ہے۔ مختلف ادبی تحریکات و رجحانات کے زیر اثر صنفِ افسانہ کا ارتقا کیسے ہوا۔ اپنے ابتدائی دور سے لے کر اب تک اردوافسانہ میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ صنفِ افسانہ کے متعلق ہمیں یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ یہ قصہ گوئی کا فن ہے اور اس کی بنیادی خصوصیت افسانویت ہے۔ دوسرا مضمون ’’دیویندر اِسّر اور ان کی افسانہ نگاری‘‘ ہے۔ یہ مضمون دیویندراِسّر کے انتقال پر لکھا گیا تھا۔ اس میں دیویندراِسّر کی شخصیت اور ان کی افسانہ نگاری سے بحث کرتے ہوئے ادب میں ان کے مقام و مرتبہ کے تعین کی کوشش کی گئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں اردو دنیا میں دیویندراِسّر کو نظرانداز کر دیا گیا۔ حالاں کہ تنقید اور افسانہ کے میدان میں ان کی خدمات کافی توجہ کی مستحق ہیں۔ ان کو پڑھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ ادبی نا انصافی ہوئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دیویندراسّر جیسے فنکار کو گوشۂ گمنامی کی نذر کر دیا گیا۔ یہ مضمون بنیادی طور پر دیویندراسّر اور ان کے افسانوی فن کو اردو دنیا میں روشناس کرانے کے داعیہ ہی سے لکھا گیا ہے۔ اقبال متین بھی ایک ایسے افسانہ نگار ہیں جن پر ناقدین ادب نے کم توجہ دی ہے۔ حالاں کہ وہ ایک معتبر اور اہم افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانے پڑھتے ہوئے بے انتہا انسانی دردمندی کا احساس ہوتا ہے۔ انسانی جذبوں اور انسانی اقدار و روایات کی ترجمانی میں وہ بے مثال ہیں۔ ’’انسانیت کا نوحہ گر افسانہ نگار‘‘ عنوان کے تحت اقبال متین کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اقبال متین اپنے افسانوں میں آج کے بدلتے عہد میں انسانیت کی پامالی پر کس قدر آنسو بہاتے ہیں، اس کا اندازہ مذکورہ مضمون کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔ ’’ہم عصر اردو افسانے میں حاشیائی کرداروں کی عکاسی‘‘ کے عنوان کے تحت اس بات کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ معاصر اردو افسانے میں حاشیائی آبادی، اس کے کربناک حالات اور اس کی دردناک زندگی کی ترجمانی کس طرح کی گئی ہے۔یہاں ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ کیا اردو افسانہ حاشیائی آبادی کے مسائل و مصائب کو پوری طرح اُجاگر کرنے میں کامیاب ہے ؟ اس سوال کا جواب پورے ’ہاں ‘میں نہیں دیا جا سکتامگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ نے اس پہلو سے مکمل بے توجہی بھی نہیں برتی ہے۔ اس سمت میں اردو افسانہ کو ابھی مزید پیش قدمی کی ضرورت ہے۔ ’’چراغ تہہ داماں ‘‘ اقبال متین کا ایک ایسا منفرد ناولٹ ہے جس میں مرد طوائف کے کردار کے ذریعہ سماج کے اس کریہہ پہلو کو سامنے لانے کی سعی کی گئی ہے جس کی طرف عموماً توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ اس ناولٹ کو پڑھ کر ہم چونک اٹھتے ہیں اور فکر مند بھی ہوتے ہیں کہ آخر سماج میں کیسی کیسی غلاظتیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں بھی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سماج میں اس تعفن کو پھیلانے کا ذمہ دار آخر کون ہے ؟ ’’چراغ تہہ داماں :فکری و فنی جائزہ‘‘ کے عنوان کے تحت ناولٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ان ہی با توں کی طرف نشان دہی کی گئی ہے۔ طارق چھتاری معاصر اردو افسانے کا ایک اہم نام ہے۔ ان کے افسانوں نے فکری و فنی سطح پر قارئین کے دلوں کو بے حد متاثر کیا ہے۔ آج کے بدلتے عہد میں انسان کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئی ہیں اور فطرت سے بغاوت کے نتیجہ میں زندگی کن تضادات کا شکار ہو گئی ہے، اس کو طارق چھتاری کے یہاں بڑی خوبی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ’’کھوکھلا پہیا‘‘ طارق چھتاری کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں انھوں نے عہد حاضر کے کھوکھلے پن کو اجاگر کیا ہے۔ آج زمانہ نام نہاد ترقی کی طرف گامزن ہے مگر اس کے باطن میں جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کو طارق چھتاری نے اپنے اس افسانے میں فنی ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔
باب شاعری کے تحت چار مضامین ہیں۔ پہلا مضمون پرویزؔ شاہدی کی غزلیہ شاعری پر ہے۔ پرویزؔ شاہدی بھی اردو ادب میں ناقدین ادب کی خاطر خواہ توجہ سے محروم رہے ہیں۔ حالاں کہ ترقی پسندوں میں وہ ایک نمائندہ شاعر رہے ہیں۔ اس مضمون کے ذریعہ پرویزؔ شاہدی کی غزلیہ شاعری کی قدر و قیمت کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسرا مضمون احمد فرازؔ کی شاعری سے متعلق ہے۔ احمد فرازؔ نے اپنی شاعری کے ذریعہ ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔ انسانی عظمت و رفعت کی جو گونج ان کی شاعری میں سُنائی دیتی ہے وہ انتہائی قابل قدر ہے۔ تیسرا مضمون میرا جی کی شاعری پر مشتمل ہے۔ میرا جیؔ کو اردو ادب میں ایک ایسے نظم نگار شاعر کے طور پر جانا جاتا ہے جنھوں نے نظم میں نئے نئے تجربات کیے۔ جنسی محرومیوں کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں کیا صورت حال پیدا ہوتی ہے، اس کی شدت کو ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی ان کی شاعری کئی زاویوں سے لائق مطالعہ ہے۔ چوتھا مضمون پروین شاکر کی شاعرانہ عظمت کو محیط ہے۔ شاعرات کے درمیان پروین شاکرؔ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں پروین شاکرؔ کو ایک نمائندہ شاعرہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اپنی شاعری کے ذریعہ پروین شاکرؔ نے تانیثیت اور تانیثی جذبات کو جو مثبت رخ دینے کی کوشش کی ہے، وہ کافی متاثر کن ہے۔
متفرقات کے عنوان کے تحت پہلا مضمون عظیم محقق پروفیسر حنیف نقوی سے متعلق ہے۔ رشید حسن خاں کے بعد پروفیسر حنیف نقوی نے تحقیق و تدوین کے میدان میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں اور اس کا جو معیار بلند کیا، اس کی وجہ سے دنیائے تحقیق میں ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رشید حسن خاں کے بعد تحقیق و تدوین کے میدان میں اگر کسی محقق پر نگاہ ٹکتی ہے، تو وہ پروفیسر حنیف نقوی ہیں۔ یہاں دو تبصراتی مضامین بھی ہیں۔ پہلا طویل تبصرہ پروفیسر قدوس جاوید کی تنقیدی کتاب ’’متن، معنی اور تھیوری‘‘ پر ہے۔ دوسرا تفصیلی تبصرہ ڈاکٹر رئیس احمد کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’عرفان و ادراک‘‘ کے جائزہ پر مشتمل ہے۔
اس کتاب میں شامل بیشتر مضامین تحقیقی و تنقیدی نوعیت کے ہیں۔ دو مضامین تبصراتی ہیں۔ ان مضامین کو کتابی صورت میں لانے کی تحریک اساتذہ، دوستوں اور احباب کے مشورہ سے ملی۔ان مضامین کی خوبیوں و خامیوں سے تو میرے قارئین ہی مجھے روشناس کرائیں گے۔ ہاں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ادب کا ایک با ذوق قاری ہونے کے ناطے مجھے اس کتاب کو اردو کے ادبی حلقوں کے سامنے پیش کرنے میں یک گونہ مسرّت و طمانیت ہو رہی ہے۔میں اپنی اس کاوش میں اپنے کمزوریوں اور کمیوں کا اعتراف کرتا ہوں مگر یہ بھی اُمّید کرتا ہوں کہ میری اس کاوش کو قارئین کی توجہ بھی حاصل ہو گی۔
احمد علی جوہر
جے این یو، نئی دہلی
باب فکشن
صنف افسانہ اور اس کا ارتقا
اردو کی جدید نثری اصناف میں افسانہ کو ایک اہم صنف مانا گیا ہے۔ اردو میں اسے مختصرافسانہ اور کہانی بھی کہا گیا ہے۔ اپنی صنفی خصوصیات کے اعتبار سے افسانہ، داستان اور ناول سے مختلف صنف ہے۔ ناول اگر زندگی کے ایک دور کا احاطہ کرتا ہے تو افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو یا ایک انسانی تجربے پر مبنی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک واقعے یا اس واقعے کے تاثر کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اردو میں افسانہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، مثلاً یہ کہ افسانہ ایک ایسا نثری قصّہ ہے جس کے پڑھنے میں آدھ گھنٹہ تک کا وقت لگے یا یہ کہ افسانہ کسی شخص کی زندگی کے سب سے اہم اور دلچسپ موقع کو ڈرامائی شکل میں پیش کرنے کا نام ہے۔ ایک ناقد کا کہنا ہے کہ افسانہ کسی ایک واقعہ کا بیان ہے جس میں ابتدا ہو، درمیان ہو، عروج ہو اور خاتمہ ہو۔ افسانہ کی ایک آسان اور موزوں تعریف یہ کی گئی ہے کہ ’’افسانہ ایک ایسی نثری صنف ہے، جس میں کسی ایک واقعے یا زندگی کے کسی ایک پہلو کو کم سے کم لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ بیان کا ایسا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے کہ دلچسپی قائم رہے اور افسانہ کا مقصد بھی واضح ہو جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاثر کی وحدت ہر حال میں برقرار رہے۔ افسانہ کے بارے میں ڈاکٹر اختر اورینوی کی ر ائے ہے۔:
’’ایک اچھّا افسانہ ایک کامیاب ڈرامہ کی طرح معجزہ ہے ایجاز کا۔ باوجود اختصار کے فنّی حیثیت سے وہ ایک حُسنِ کامل ہوتا ہے اور اپنے حُسن و تکمیل کی وجہ سے ناظرین کے لیے ذہنی مسرّت کا سامان۔‘‘ (۱)
لطیف الدین احمد نے افسانہ کی تعریف یوں کی ہے۔:
’’کسی ایک واقعہ یا جذبہ کی تاریخ بیان کر دینا مختصر افسانہ ہے۔‘‘ (۲)
افسانہ کے متعلق سیّد وقار عظیم کی رائے ملاحظہ ہو۔:
’’ افسانہ کہانی میں پہلی مرتبہ وحدت کی اہمّیت کا مظہر بنا۔ کسی ایک واقعہ، ایک جذبہ، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصلاحی مقصد، ایک رُوحانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے الگ نمایاں ہو کہ پڑھنے والے کے جذبات واحساسات پر اثرانداز ہو، افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اُسے داستان اور ناول سے الگ کیا ہے۔ مختصرافسانہ میں اختصار اور ایجاز کی دوسری امتیازی خصوصیت نے اُس کے فن میں سادگی، حسنِ ترتیب و توازن کی صفت پیدا کی۔‘‘ (۳)
افسانہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وحید اختر رقم طراز ہیں :
’’ ادب میں افسانہ اپنے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بھی کسی حقیقی یا فرضی واقعہ کا بیان ہے۔ یہ واقعہ تاریخی بھی ہو سکتا ہے، زمانی بھی، نفسیاتی واردات بھی، تاثر کا زائیدہ بھی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کہانی میں واقعہ کو بہرحال اہمّیت حاصل ہوتی ہے کہ کہانی واقعہ کا بیان ہے اس لیے کہانی کا اسلوب ہمیشہ سے بیانیہ رہا ہے۔‘‘ (۴)
اس ضمن میں سعادت حسن منٹو کہتے ہیں۔:
’’ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہو اپنے اوپر مسلّط کر کے اِس انداز سے بیان کر دینا کہ وہ سُننے والے پر وہی اثر کرے، یہ افسانہ ہے۔‘‘ (۵)
راجندرسنگھ بیدی اپنے مضمون ’’افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل‘‘ میں لکھتے ہیں۔:
’’افسانے اور شعر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہے تو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ ایک ایسی لمبی اور مسلسل بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بہ حیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔ پھر شعر، فی الخصوص غزل میں آپ عورت سے مخاطب ہیں، لیکن افسانے میں کوئی ایسی قباحت نہیں۔ آپ مرد سے بات کر رہے ہیں، اس لیے زبان کا اتنا رکھ رکھاؤ نہیں۔ غزل کا شعر کسی کھُردرے پن کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن افسانہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کی وجہ سے اس میں کھُردرا پن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیّز ہو سکے۔‘‘ (۶)
سلام بن رزاق افسانے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔:
’’میرے نزدیک ایک عمدہ افسانے کی تعریف یہی ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد قاری وہ نہ رہے جو پڑھنے سے قبل تھا۔ ایک اچھا شعر، عمدہ افسانہ ایک بلند پایہ ناول ہمیں مسرّت وانبساط کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کی تہذیب کرتا ہے اور ہماری پراگندہ سوچ کے دھارے کو زندگی کے بیکراں سمندر سے جوڑ دیتا ہے۔ نیز جس کے مطالعے کے بعد زندگی ہمیں زیادہ بامعنی اور با مقصد لگنے لگتی ہے۔ اگر افسانہ اس کسوٹی پر کھرا نہیں اُترتا تو پھر وہ افسانہ نہیں محض الفاظ کا ڈھیر ہے۔‘‘ (۷)
افسانہ کی درج بالا مختلف تعریفوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ افسانہ مختصر نثری بیانیہ صنف ہے جس میں زندگی کے کسی ایک گوشہ یا کسی ایک پہلو یا کسی ایک واقعہ کو موثر انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور جو قاری کو مسرّت وانبساط کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ افسانہ کو موثر بنانے کے لیے افسانہ نگار کو افسانہ کے فنّی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، تکنیک، جزئیات، منظر نگاری اور زبان واسلوب پر بطور خاص توجّہ دینی ہوتی ہے۔
پلاٹ:
کہانی میں انسانی زندگی سے متعلق جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان ہی واقعات کی فنّی ترتیب کو افسانہ نگاری کی اصطلاح میں پلاٹ کہتے ہیں۔ اس فنّی ترتیب میں کہانی کے آغاز، وسط اور انجام کے درمیان منطقی ربط وتسلسل شامل ہے۔ ایسی ہی کہانی قاری کے ذہن پر ایک واحد تاثر چھوڑتی ہے۔
کردار نگاری:
افسانے کے فن میں کردار نگاری کو بڑا اہم جُز مانا گیا ہے۔ افسانہ کا براہ راست تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ انسانی زندگی کے کسی گوشہ یا کسی پہلو کو کہانی میں کرداروں کے توسط سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہانی میں کردار نگاری مقصد نہیں ذریعہ ہے۔ کہانی میں کردار کے سہارے ہی قصّہ آگے بڑھتا ہے اور انجام کو پہنچتا ہے۔ کردار ناول میں بھی ہوتے ہیں مگر افسانہ اور ناول دونوں کی کردار نگاری میں فرق ہے۔ ناول میں کرداروں کی پوری زندگی یا اس کی مجموعی حیثیت کو پیش کیا جاتا ہے جب کہ کہانی میں کردار کی محض ایک جھلک نظر آتی ہے یا اس کے کسی ایک رُخ یا ایک پہلو پہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ بعض کردار مثالی ہوتے ہیں یعنی وہ شروع سے آخر تک نیک ہوتے ہیں یا بد ہوتے ہیں۔ ایسے کردار فنّی اعتبار سے کمزور اور معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ بعض کردار پیچیدہ ہوتے ہیں یعنی انسان کی طرح ان میں بھی خیرو شر کے پہلو ہوتے ہیں اور ان میں مختلف طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ایسے کردار فنّی اعتبار سے مستحسن تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کردار جتنے فطری اور حقیقی ہوں گے، وہ اتنا ہی قاری کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ ایسی کردار نگاری کو فن کا عمدہ نمونہ مانا جاتا ہے۔ جیسے پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کے کردار مادھو، گھیسو اور بدھیا اورسعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے بعض افسانوں کے کردار قاری کے ذہن و دماغ میں رچ بس گئے ہیں اور بھُلائے نہیں بھولتے۔ بعض افسانوں میں کردار، اس کی شخصیت اور اس کی زندگی کے کسی پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی جاتی ہے کہ کردار مرکزِ توجہ بن جاتا ہے۔ ایسے افسانوں کو کرداری افسانہ کہا جاتا ہے۔ کردار بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، جیسے حقیقی کردار، علامتی کردار اور تمثیلی کردار، بہتر کردار وہ ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لے اور اس کے دل میں اپنا انمٹ نقوش چھوڑ جائے۔
مکالمے :
کرداروں کے درمیان کی آپسی گفتگو اور ان کی زبان سے جو باتیں کہلوائی جاتی ہیں، انھیں مکالمہ (Dialogue)کہا جاتا ہے۔ بہتر مکالمے وہ ہیں جو مختصر اور برجستہ ہوں اور کرداروں کی ذہنی سطح کے مطابق اور ان کی اپنی زبان میں ہوں۔ اور کرداروں کی داخلی و خارجی شخصیت اور ان کی نفسیات کے عکّاس ہوں۔ ایسے مکالمے موزوں ومناسب اور فطری و حقیقی سمجھے جاتے ہیں جو فنّی اعتبار سے کہانی کو استحکام بخشتے ہیں۔
تکنیک:
افسانہ کی تشکیل و تعمیر میں تکنیک ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس کے متعلق ممتاز شیریں اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں :۔
’’تکنیک کی صحیح تعریف ذرا مشکل ہے۔ تکنیک مواد، اسلوب اور ہیئت سے ایک علیٰحدہ صنف ہے۔۔۔۔ فنکار مواد کو اسلوب سے ہم آہنگ کر کے اُسے ایک مخصوص طریقے سے متشکل کرتا ہے۔ افسانے کی تعمیر میں جس طریقہ سے مواد ڈھلتا ہے وہی ’’تکنیک‘‘ ہے۔۔۔۔ اور آخر میں جو شکل پیدا ہوتی ہے اسے ’’ہیئت ‘‘ کہتے ہیں اور جو چیز بنتی ہے وہ ’’افسانہ‘‘۔ ہیئت اور افسانہ میں یہ فرق ہے کہ ہیئت مکمّل شکل ہے اور افسانہ مکمّل چیز۔۔۔۔ صرف اچھّا مواد یا اچھّی تکنیک کسی افسانے کو اچھّا نہیں بنا سکتی۔ کامیاب فنکار ہر طرح کے موضوع سے ایک اچھّا افسانہ تخلیق کر سکتا ہے۔‘‘ (۸)
افسانہ کی کوئی متعیّن اور واجب العمل تکنیک نہیں ہے نہ ہی اس کے کوئی مدارج مقرر کئے جا سکتے ہیں کہ کون سی تکنیک بہترین ہے اور کون سی کمتر۔ تکنیکی معیار ایک نہیں ہو سکتا۔ ہر موضوع اور ہر مواد کے لیے الگ تکنیک کی ضرورت ہے۔ ایک خاص مواد ایک خاص تکنیک کے استعمال سے زیادہ پُر اثر ہو جاتا ہے۔ اس کا استعمال مجموعی تاثر پیدا کرنے یا اُس کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ گویا تکنیک مقصد نہیں بلکہ وسیلہ ہے۔ اُس کی حیثیت ثانوی اور ضمنی ہے۔ کسی مخصوص تکنیک کی پابندی کے لیے ایک خاص قسم کی فنّی بصیرت درکار ہے جس کی مدد سے فنکار اپنی کہانی کو اچھّے تخلیقی ادب کا نمونہ بنا سکتا ہے۔
جُزئیات نگاری:
افسانے کے فن میں جُزئیات نگاری کو بھی ایک اہم عنصر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ جُزئیات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نہ اتنی طویل ہو کہ افسانہ میں ثقالت اور بوجھل پن کا احساس ہو اور نہ اتنی مختصر ہو کہ افسانہ کی مخصوص فضا بھی نمایاں نہ ہو سکے۔ بہتر جُزئیات وہ ہے جو نہ زیادہ طویل ہو اور نہ زیادہ مختصر، بلکہ موزوں ہو اور جس سے کہانی کی مخصوص فضا کو نمایاں کرنے میں مدد ملے یا جس سے کردار کے کسی پہلو یا کہانی کی تھیم پر روشنی ڈالی جا سکے۔ یعنی جُزئیات فضول نہ ہو بلکہ اس کا براہ راست تعلق کہانی سے ہو۔ ایسی جُزئیات نگاری فنّی اعتبار سے اچھی سمجھی جاتی ہے اور اس سے کہانی فنّی طور پر سجتی، سنورتی اور نکھرتی ہے۔
منظر نگاری:
افسانہ میں جب کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تو اس واقعہ سے متعلق کسی اہم منظر (Scene) کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ افسانہ میں بیان کردہ واقعہ کو اس کے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ اُجاگر کیا جا سکے۔ منظر نگاری سے کہانی میں کئی طرح کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے دلچسپی، سحرکاری، واقعہ کا موثر ہونا اوراس کے پس منظر کا نمایاں ہونا وغیرہ۔ اس لیے کہانی میں منظر نگاری کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ منظر نگاری میں نہ بے جا طوالت ہو، نہ غیر معمولی اختصار، بلکہ ایسی منظر نگاری ہو جو کہانی کی فضا اور تھیم کو اُبھارنے اور کہانی کو موثر بنانے میں مدد کرے۔
نقطۂ نظر:
نقطۂ نظر ادب کی ہر صنف کے لیے ضروری ہے کیوں کہ فن کار کی شخصیت کا پورا اظہار ان کے نقطۂ نظر کے ذریعے ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا نقطۂ نظر اس کے افسانوں پر اپنا عکس ڈالتا ہے کیوں کہ اس کا تعلق افسانے کے مرکزی خیال سے ہوتا ہے اور یہی افسانہ لکھنے کا محرّک بھی بنتا ہے۔ افسانہ نگار اپنی جو بات کہنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ ایک پلاٹ بناتا ہے گویا افسانے کے مواد کی بنیاد افسانہ نگار کے نقطۂ نظر پر ہوتی ہے۔ نقطۂ نظر ہی ان کے کرداروں کی تشکیل کرتا ہے۔ نقطۂ نظر کو افسانہ میں اتنا حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے کہ فن مجروح ہونے لگے بلکہ صرف اس کا عکس افسانہ میں محسوس کیا جانا چاہیے۔
ماحول و فضا:
افسانہ میں ماحول و فضا کی ایک خاص اہمیت ہے۔ افسانہ میں ایک خاص ماحول و فضا کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ماحول و فضا اور پس منظر کو نمایاں کیا جائے۔ اس کے لیے جُزئیات اور منظر نگاری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس افسانہ میں پیش کردہ واقعہ کے ماحول و فضا اور پس منظر کو اس طرح اُبھارا جائے کہ قاری اس میں اپنی شرکت محسوس کرے اور اس میں رچ بس جائے، وہ افسانہ فنّی طور پر کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو افسانہ کے فنّی طور پر کمزور ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
زبان و بیان:
افسانہ نثری صنف سخن ہے۔ اس لیے اس کی زبان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نثری ہو نہ کہ شاعرانہ۔ افسانہ کی زبان کو مسجّع و مقفّیٰ اور انشائیہ نما اُسلوب سے پاک اور صاف ستھری نثر ہونی چاہیے۔ افسانہ میں کرداروں کے مکالموں میں علاقائی بولی ٹھولی، محاوروں، کہاوتوں اور ضرب المثل وغیرہ کا آنا فطری ہے۔ افسانہ کی زبان کو موضوع و مواد اور کردار کی اپنی سطح کے مطابق ہونی چاہیے۔ کہانی میں زبان جتنی موثر ہو گی، کہانی بھی اتنی ہی موثر ہو گی۔
اسلوب:
افسانے میں اُسلوب کی بھی بڑی اہمّیت ہے۔ اسلوب کسے کہتے ہیں ؟ اس ضمن میں ممتاز شیریں لکھتی ہیں :۔
’’ایک برتن بنانے کے لیے سب سے پہلے مٹی کی ضرورت ہے۔ اسے ’’خام مواد‘‘ سمجھ لیجیے۔ پھر اس میں رنگ ملایا جائے گا۔ یہ ’’اسلوب‘‘ ہے۔‘‘ (۹)
ممتاز شیریں کے اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مواد میں رنگ بھرنے کا نام اسلوب ہے۔ جس طرح رنگ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، اسی طرح اسالیب بھی مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ ہر فن کار کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے جو اُسے دوسرے فن کاروں سے الگ کرتا ہے۔ کسی فن کار کی اِنفرادیت کو پہچاننے، پرکھنے یا یہ پتہ لگانے کے لیے کہ اُس میں اِنفرادیت ہے بھی یا نہیں، اس کے اسلوب کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کسی فن پارہ کی قدرو قیمت مُتعیّن کرنے کے لیے اُس کے اسلوب کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ اسلوب یا اسٹائیل محض موضوع کی زیب و زینت یا آرائش نہیں بلکہ ایک وسیلہ ہے جو موضوع یا مضمون کو فن میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لیے ایک فن کار کے لیے طریقہ اظہار سے واقف ہونا اور اظہار کے مختلف پیرایوں پر عُبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ فنّی صلاحیت ہوتی ہے جو کہیں تو خداداد ہوتی ہے اور کہیں اکتساب کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں فن کار کے لیے مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ تینوں بہت ضروری ہیں۔ افسانہ کے مختلف اسالیب ہوتے ہیں جیسے سادہ، پیچیدہ، رنگین، حکایتی، داستانی، تمثیلی اور حقیقت پسندانہ اسالیب وغیرہ۔ بہتر اسلوب وہ ہے جو موضوع و مواد سے پوری طرح ہم آہنگ ہو کر کہانی میں ایسی کشش پیدا کرے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لے۔
موضوع:
افسانہ کا اپنا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا۔ دنیا اور انسانی زندگی سے متعلق کوئی بھی واقعہ، جذبہ، احساس، تجربہ، مشاہدہ اس کا موضوع بن سکتا ہے۔ گویا انسانی زندگی جتنی وسیع ہے اتنی ہی وسعت افسانہ کے موضوعات میں پائی جاتی ہے جو زندگی کے سچّے، حقیقی اور فطری مُرقعے پیش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد زندگی کی وسعتوں میں سمٹی ہوئی تمام موجودات کی تشریح، وضاحت، ان کا تجزیہ، توجیہہ و تعلیل پیش کرنا ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے مشاہدات و تجربات سمیٹے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انفرادی و اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ کسی بھی موضوع کو افسانہ کے سانچہ میں ڈھالنے کے بعد تخلیق کار اسے کوئی خوبصورت اور موزوں نام دینا چاہتا ہے۔ اکثر اوقات سُرخی کے ذریعہ افسانہ کے مرکزی خیال و مقصد کو سمجھا جا سکتا ہے۔ موقعہ و محل کے مطابق ہی موزوں اور مختصر سُرخیاں رکھی جانی چاہئیں۔
افسانہ کے بارے میں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اُردو زبان میں یہ صنف مغربی ادب کی دین ہے۔ اس صنف کی ابتدا سب سے پہلے امریکہ میں انیسویں صدی میں ہوئی۔ وہیں سب سے پہلے اس نے ادبی حیثیت پائی۔ اس فن کی بنیاد ۱۸۱۹ء میں واشنگٹن ارونگ کی ’’اسکیچ بُک‘‘ سے پڑی۔ اس کے بعد مختصرافسانہ کی تاریخ میں دوسرا اہم نام نیتھینیل ہا تھارن ۱۸۰۴ء تا ۱۸۶۴ء کا ہے۔ اس نے ایسی کہانیاں لکھیں جو تمثیلی پس منظر میں ایک واحد سچویشن کے گرد گھومتی تھیں۔ اُس نے مختصر افسانہ کو ایک سنجیدہ فن کی شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کیا۔
اَرونگ اور ہا تھارن کے بعد مختصرافسانہ کی تاریخ میں انتہائی معتبر نام ایڈگرایلن پو (۱۸۰۹ء تا ۱۸۴۹ء) کا آتا ہے۔ اس کو جدید مختصرافسانہ کا سب سے پہلا اور بڑا اُستاد مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مختصرافسانہ کا تجزیہ کر کے اُس کے لوازم متعیّن کیے تھے۔
پو کی کہانیوں نے دیگر ممالک کے افسانوں پر خصوصاً َ فرانس کی کہانیوں پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ فرانس کا عظیم افسانہ نگار موپاساں (۱۸۵۰ء تا۱۸۹۳ء) پو سے بہت متاثر ہوا اور تکنیکی اعتبار سے کہانی کو ایک نیا موڑ دیا۔ مختصرافسانہ کی ترقی میں رڈیارڈکپلنگ (۱۸۶۵ء تا۱۹۳۶ء) اور امریکی افسانہ نگار او۔ہنری اور ولیم سڈنی پورٹر نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ مختصرافسانہ کو ایک خوبصورت شکل میں ڈھالنے میں رُوسی افسانہ نگاروں خصوصاً َ چیخوف (۱۸۶۰ء تا ۱۹۰۴ء) اور کیوپریون نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ کیوپریون کی کہانی ”Captain Ribnekov” دنیا کی مختلف زبانوں کی بہترین کہانیوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔
مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ مغرب میں مختصرافسانہ کو فروغ دینے اور اسے نئے موضوعات واسالیب اور نئی جہات سے آشنا کرنے اور نیا رُخ دینے میں جن افسانہ نگاروں نے حصّہ لیا، ان میں سامرسٹ ماہم (۱۸۷۴ء تا۱۹۶۵ء) اور جیمس جوائس (۱۸۸۲ء تا ۱۹۴۱ء) وغیرہ کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان مغربی فن کاروں کی افسانوی تحریروں نے پوری دنیا کی زبان و ادب پر ہمہ گیر اثر ڈالا اور اب ان زبانوں میں بھی مختصرافسانے لکھے جانے لگے جن میں اب تک افسانے نہیں لکھے گئے تھے۔
اردو زبان میں بھی مختصرافسانہ مغربی ادب کے راستہ سے آیا۔ اردو میں افسانہ کا آغاز سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند کی افسانوی تحریروں سے ہوا۔ ان دونوں میں اردو کا اوّلین افسانہ نگار کون ہے ؟ اس سلسلے میں ناقدین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کیا ہے کیوں کہ یلدرم کا پہلا افسانہ ’’نشہ کی پہلی ترنگ‘‘، ’’معارف‘‘ علی گڑھ میں ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا جب کہ پریم چند کا پہلا افسانہ ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘، ’’زمانہ‘‘ کانپور میں ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ پریم چند اُردو کا پہلا افسانہ نگار ہے کیوں کہ اس کی افسانوی تحریریں افسانہ کے فن پر پوری اُترتی ہیں۔ بہرحال اُردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے ؟ اس بحث سے قطع نظر، یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ اُردو میں صنف افسانہ کوسب سے پہلے پریم چند ہی کی افسانوی تحریروں سے استناد حاصل ہوا۔ در اصل پریم چند نے جو زندگی نزدیک سے دیکھی تھی، اسی سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کا انتخاب کیا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ گاؤں، دیہات، غریب کسان اور مزدوروں کے مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ ان ہی کی بدولت اردوافسانہ ایک نئے رُخ سے آشنا ہوا اور اسے ایک نئی سمت ملی۔ پریم چند نے اپنے افسانوں کی بنیاد اصلاح و حقیقت پسندی پر رکھی۔ اس کے برعکس سجاد حیدر یلدرم نے رومانی اور تخئیلی افسانے لکھے۔ اس لیے اردو کے ابتدائی دور کے افسانوں میں ہمیں دو رجحان نظر آتے ہیں۔ (۱) اصلاح و حقیقت پسندی کا رجحان، (۲) رومانیت و تخیل پرستی کا رجحان۔ اول الذکر رجحان کے سرخیل پریم چند ہیں۔ پریم چند کے بعد اس رجحان سے متاثر ہونے والوں میں سدرشن، اعظم کریوی، سہیل عظیم آبادی اور علی عبّاس حسینی وغیرہ کے نام ایک خاص اہمّیت کے حامل ہیں۔ رومانیت و تخیّلی میلان کی قیادت سجاد حیدر یلدرم نے کی۔ اس رجحان سے متاثر ہونے والوں میں نیاز فتح پوری، سلطان حیدر جوش اور مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
اردوافسانہ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ۱۹۳۲ء میں ’’انگارے ‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ دس افسانوں کا مجموعہ تھا۔ پانچ سجاد ظہیر کے، دو رشید جہاں کے، دو احمد علی اور ایک محمود الظفر کا۔ اس مجموعہ کے افسانوں میں قدیم سماج، مذہب اور اخلاقی اقدار کی دھجّیاں اُڑائی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مجموعہ اشاعت ہوتے ہی فوراً ضبط کر لیا گیا، مگر اس مجموعہ نے اردوافسانہ میں ترقی پسندی کی داغ بیل ڈال دی۔ اردوافسانہ میں پریم چند کے ’’کفن‘‘ جیسے شاہکار افسانہ کی اشاعت نے بھی اردوافسانہ کو ایک نیا راستہ (ترقی پسندی کا راستہ ) دکھایا۔ اردوافسانہ کا سب سے سنہرا دور اس وقت آیا جب ۱۹۳۶ء میں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی۔ اس تحریک کے زیر اثر سب سے زیادہ صنف افسانہ کا فروغ ہوا۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عبّاس اور حیات اللہ انصاری وغیرہ نے اس تحریک سے متاثر ہو کر اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں، معاشی تلخیوں اور سیاسی طور کے مختلف پہلوؤں کی بے لاگ مصوّری کی اور ایسے شاہکار افسانے تخلیق کیے کہ اردوافسانہ کا قد انتہائی بلند نظر آنے لگا۔ ترقی پسند تحریک اپنے عروج ہی پر تھی کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا۔ اس سے ترقی پسند تحریک کو بڑا دھچکا لگا۔ اس سانحہ (تقسیم ہند) پر بہت سے افسانے لکھے گئے جن میں بعض اچھّے افسانے بھی ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں بظاہر آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم ہند کے واقعہ نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب کو بھی متاثر کیا۔ اب آزادی کے بعد ترقی پسند تحریک رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو گئی اور ۶۰۔۱۹۵۵ء کے آس پاس جدیدیت کے رجحان کا آغاز ہوا۔ اس رجحان کے زیر اثر علامتی، تمثیلی اور تجریدی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اس رجحان کے زیر اثر صنف افسانہ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ اس رجحان کے زیر اثر دو طرح کے لکھنے والے تھے۔ ایک شدّت پسند جدید افسانہ نگار اور دوسرے غیر شدت پسند یا جدید ترقی پسند افسانہ نگار۔ اوّل الذکر صف میں انورسجّاد، بلراج مین را، سریندر پرکاش، انور عظیم اور رشید امجد اور اس جیسے افسانہ نگار آتے ہیں اور ثانی الذکر صف میں رام لعل، اقبال متین، رتن سنگھ، قاضی عبدالستار، اقبال مجید اور اس طرح کے افسانہ نگاروں کا شمار ہوتا ہے۔ ۸۰۔۱۹۷۵ء تک آتے آتے جدیدیت کا رجحان بھی زوال پذیر ہوا اور ادب میں ما بعد جدیدیت ایک رجحان کے طور پر سامنے آئی۔ اب ۱۹۸۰ء کے بعد کہانی میں پھر سے افسانوی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، کہانی پن اور جُزئیات وغیرہ پہ بہ طور خاص توجّہ دی جانے لگی اور نئے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کو موضوع بنا کر کہانیاں لکھی جانے لگیں اور کہانیوں میں سماج کی بھرپور عکّاسی کی جانے لگی۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے تا حال جن افسانہ نگاروں نے اردوافسانہ کو نئی جہات سے ہمکنار کرنے اور اس کے ارتقا میں نمایاں حصّہ لیا ہے، ان میں سلام بن رزّاق، ساجد رشید، حسین الحق، شفق، عبدالصمد، علی امام نقوی، حمید سہروردی، بیگ احساس، ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، ثروت خاں، شائستہ فاخری، شموئل احمد، شوکت حیات، شفیع جاوید، طارق چھتاری، معین الدین جینابڑے، پیغام آفاقی اور مشرف عالم ذوقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے اپنی افسانوی تحریروں سے اردوافسانہ کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں اور بعض اب بھی دے رہے ہیں۔ صنفِ افسانہ کے عہد بہ عہد ارتقا اور اس کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہو گا کہ صنفِ افسانہ اردو نثر کی آبرو ہے۔
حوالے
(۱) اختر اورینوی ’’تحقیق و تنقید‘‘ پٹنہ، ص، ۱۳۔
(۲) لطیف الدین احمد ’’فن مختصر افسانہ‘‘ ساقی، سالنامہ، لاہور، ۱۹۳۸ء، ص، ۲۸۔
(۳) وقار عظیم ’’داستان سے افسانے تک‘‘ کراچی، ۱۹۶۰ء، ص، ۱۶
(۴) وحید اختر ’’الفاظ‘‘ افسانہ نمبر، علی گڑھ، ۱۹۸۱ء، ص، ۲۱۔
(۵) محمد طفیل، نقوش، (سمپوزیم) افسانہ نمبر، ۱۹۵۲ء، ص، ۴۶۸۔
(۶) راجندرسنگھ بیدی، افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل، مشمولہ، اردوافسانہ روایت
اور مسائل، مرتبہ، گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۸ء، ص، ۳۱۔
(۷) سلام بن رزاق، فکرو تحقیق، نیا افسانہ نمبر، شمارہ: ۴، جلد:۱۶، اکتوبر تا دسمبر۲۰۱۳ء،
ص، ۶۳۹، ۶۳۸۔
(۸) ممتاز شیریں، ’’تکنیک کا تنوع ناول اور افسانہ میں ‘‘ ’’معیار‘‘ لاہور، ۱۹۶۳ء، ص، ۱۷۔
(۹) ممتاز شیریں، تکنیک کا تنوع ناول اور افسانہ میں، ’’معیار‘‘ لاہور، ۱۹۶۳ء، ص، ۱۸۔
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں