FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نرم گرم ہوائیں

ضیا فتح آبادی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں …..

نرم گرم ہوائیں

ضیا فتح آبادی

سال اشاعت:  ۱۶۱۱ء

ناشر:  شریمتی راج کماری سونی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ضیا فتح آبادی کا ادبی سفر ۔۔۔ اوم پرکاش بجاج

وقت طلوع مستی

نکلا تھا گھر سے راہی

اک سوچ کے سفر پر

صحن چمن میں اُس نے

سورج اگا دیا تھا

لے کر جمالِ ہستی

راہوں کی گرد اڑاتا

حُسن غزل کی دھن میں

نغمات صبح گاتا

ظلمت مٹانے نکلا

رستہ دکھانے نکلا

ہر لفظ اس کا جادو

ہر بات اک تخیل

بن کر ضیائے ہستی

محفل پہ چھا گیا تھا

منزل کو پا گیا تھا

تصویر اس کے فن کی

کندہ ہے دل کی لو پر

جاوید ہو گئی ہے

دھوپ اور چاندنی میں

دنیا کی کھو گیا ہے

خاموش ہو گیا ہے

شاید تھکا تھکا سا

دو پل کو سو گیا ہے

آؤ چراغ اس کا

روشن کریں جہاں میں

دل میں بسائیں اس کو

بھولیں نہ ہم گماں میں

صِدق و صفا پر اس نے

مٹ کر دکھا دیا ہے

اردو کی شاعری کو

اونچا اٹھا گیا ہے

٭٭٭

غزلیں

مرکز کا اعتبار اسی دائرے میں تھا

منزل کو پا کے کھویا ہُوا راستے میں تھا

میخانے کا یہ عالم مستی کہ رات بھر

مینا بھی رقص میں تھا، سُبو بھی نشے میں تھا

اب دل کے زخم زخم سے اٹھتی ہے کوئی چیخ

درماں سے بے نیاز تھا جب تک نشے میں تھا

پہچان ہوتی چہروں کی کیا اس دیار میں

اک اور آئینہ بھی جہاں آئنے میں تھا

الفت کے کاروبار کی دلچسپیاں نہ پوچھ

تھا فائدہ زیاں میں، زیاں فائدے میں تھا

کھولی زبان جس نے، گیا دار پر وہی

جو جان کر خموش رہا، وہ مزے میں تھا

تھی جس سکو ن دل کی تلاش اے ضیا مجھے

آہ و فغاں میں تھا نہ وہ شکوے گلے میں تھا

٭٭٭

آ، بڑھتی ہوئی پیاس بُجھانے کے لئے آ

آ، بُجھتی ہوئی شمعیں جلانے کے لئے آ

آ، لوریاں تاروں کو سُنانے کے لئے آ

آ، اونگھتی راتوں کو سُلانے کے لئے آ

آ، غنچۂ نورس سے ٹپکتی ہوئی بجلی

آ، شاخ نشیمن کو جلانے کے لئے آ

آ، تو کہ ہے چارہ گرِ بے چارگیِ شوق

آ، درد کی دیوار گرانے کے لئے آ

آ، ہمت پرواز پر و بال میں بھر دے

آ، حوصلۂ زیست بڑھانے کے لئے آ

آ، تُو تو نہیں وقت، کہ آیا بھی گیا بھی

آنا تو یہی ہے کہ نہ جانے کے لئے آ

آ، جانِ ضیا، حسن غزل، شوخی اظہار

آ، گوہر الفاظ لٹانے کے لئے آ

٭٭٭

وہ بد نصیب تھا، اس کا کبھی نہ بخت اُگا

جو تیرے در کے مقابل کوئی درخت اگا

ہزاروں چہرے، مگر سب کا ایک ہی چہرہ

شکستہ ہو کے ہی آئینہ لخت لخت اگا

مٹے سکندر و فرہاد دونوں ایسے کہ پھر

نہ کوئی تختہ ہی اٹھا نہ کوئی تخت اگا

یقین و عزم سے ہوتی ہے رہگزر ہموار

زمیں ہے نرم بہت، اس میں سنگِ سخت اُگا

کسی کو رحم کی بھیک اس دیار میں نہ ملی

جو مانگنا ہے تو لہجہ ذرا کرخت اگا

نجوم و ماہ ہوئے محو جلوۂ بادہ

حضورِ پیرِ مغاں آفتاب بخت اُگا

جھلستی دھوپ سے سائے کی کیا اُمید ضیا

زمیں وہ سوکھ گئی جس پہ تھا درخت اگا

٭٭٭

سہرا، گویا حجاب پھولوں کا

گجرا، جیسے شباب پھولوں کا

چھُو کے ہونٹوں کو رنگ چھلکائے

ساغر پُر شباب پھولوں کا

چیر کر ابر پاروں کا سینہ

نکلے گا آفتاب پھولوں کا

کیوں نہ کانٹوں کی سیج پر سو جائے

جس نے دیکھا ہو خواب پھولوں کا

ہر طرف رنگ، ہر طرف خوشبو

پھوٹ نکال شباب پھولوں کا

بدلیاں چُپ ہیں، بجلیاں پُر شور

واہ رے انقلاب پھولوں کا

ہو قبا چاک تو ضیا پوچھوں

حالِ خانہ خراب پھولوں کا

٭٭٭

آستاں سے تیرے، اپنا سر اٹھا لے جاؤں گا

ایک دن یہ راہ کا پتھّر اٹھا لے جاؤں گا

زندگی کی رہگزر ہموار یا دشوار ہو

بارِ غم ہر حال میں دل پر اٹھا لے جاؤں گا

میری آوارہ خرامی کے نشاں رہنے بھی دو

میں انھیں گلیوں میں پھر آ کر اُٹھا لے جاؤں گا

گردِشِ افلاک تھم جائے گی، رک جائے گا وقت

دشت وحشت میں جب اپنا گھر اُٹھا لے جاؤں گا

صبح کا تھا منتظر، آئی، تو ہوں اس فکر میں

اب کہاں میں رات کا بستر اُٹھا لے جاؤں گا

رہ گیا ہے اب یہی اک میرے حصّے کا ضیا

دل جو ہے ہر درد کا خوگر، اُٹھا لے جاؤں گا

٭٭٭

وہ پہاڑی تھا، مت ہوا کس کا

بھات کھاتے ہی چُپکے سے کھسکا

پا بھی لیتا تو کرتا کیا درماں

دل زر دار، درد مفلس کا

اُس کا مندر تو من کے اندر ہے

پوچھتا پھرتا ہوں پتہ جس کا

تجھے ہرجائی لوگ کیوں نہ کہیں

تُو کبھی اُس کا ہے، کبھی اس کا

تھا ارسطو کوئی مرا دل بھی

بھر کے پیالہ جو پی گیا بِس کا

درد بن کر جو دل میں بیٹھا ہے

حادثہ ہے نزاکت حس کا

سوتے میں جو چُرا لیا تھا ضیا

یہ غزل ہے جواز ا سی کِس کا

٭٭٭

خالی پنجرا چھوڑ کے پنچھی اُڑ ہی گیا

سیدھا بہتا دریا آخر مُڑ ہی گیا

تم نے ہمدردی جو دکھائی، ٹوٹ کے پھر

میرے دل کا آئینہ بھی جُڑ ہی گیا

کوئی ہوا کا جھونکا تھا جو ہولے سے

دروازے پر دستک دے کے مُڑ ہی گیا

پیغامِ شیریں کی تلخی پوچھ نہ کچھ

لے کے ساتھ نہ کیوں نامہ بر کڑ ہی گیا

پوچھتا تھا آنے والے کا اتا پتا

کائیں کائیں کرتا کوّا اُڑ ہی گیا

پا کے خزانہ قاروں کا خوش تھا لیکن

بانٹنے جب بیٹھا تو وہ بھی تھُڑ ہی گیا

اوٹ سے چلمن کی اس نے جھانکا تھا ضیا

چہرۂ گل کا رنگ چمن میں اُڑ ہی گیا

٭٭٭

سانپ ڈستے رہے، زہر چڑھتا رہا

پربتوں پر کوئی منتر پڑھتا رہا

جس کے ہاتھوں میں میں نے ترازو دیا

میرے ہی سر وہ الزام مڑھتا رہا

دل کے ارمان دم توڑتے ہی رہے

اور آنکھوں کا دریا بھی چڑھتا رہا

دیکھ لینا مرے چہرے کا رنگ بھی

میرا اعمال نامہ وہ پڑھتا رہا

کوئی دریا تھا میری ہی تقدیر کا

روز اترتا رہا، روز چڑھتا رہا

ایک منزل ادھر، ایک منزل ادھر

پیچھے ہٹتا رہا، آگے بڑھتا رہا

وہ مسافر جو منزل پہ پہنچا ضیا!

گر کے اٹھتا رہا، رُک کے بڑھتا رہا

٭٭٭

دیواریں چُپ، در گویا تھا

ہمسائے میں دل کھویا تھا

کاٹی فصل درد بھی اُس نے

بیج محبّت کا بویا تھا

اُتری تھی آکاش سے گنگا

پاپی دامن جب دھویا تھا

بول ذرا اے رات کے بستر

میں جاگا تھا یا سویا تھا

زہریلے سانپوں میں، میں نے

منزل کو پایا، کھویا تھا

تجھ سے کہوں کیا، میں نے ضیا کیوں

بوجھ صلیبوں کا ڈھویا تھا

٭٭٭

اس نے چھیڑی غزل، ساز زندہ ہوا

دل پُر درد کا راز زندہ ہوا

چڑھ کے سولی پہ دورانِ خوں بڑھ گیا

پڑ گئی جان، سر باز زندہ ہوا

ڈال دی گل پہ کس نے بہاریں نظر

پیکرِ ناز و انداز زندہ ہوا

تشنہ کامی بلا کش کو لے ڈوبتی

تھا در میکدہ باز زندہ ہوا

پر سمیٹے قفس میں وہ تھا مردہ دل

ہوا مائل بہ پرواز زندہ ہوا

ٹکڑے ٹکڑے ہوا سنگباری سے جب

آئینہ، آئینہ ساز زندہ ہوا

مارنے کو مجھے تھا سکوت لحد

دی ضیا کس نے آواز، زندہ ہوا

٭٭٭

صحرا سے جو پلٹے تو کھلا در نہیں دیکھا

ہم کہتے تھے اپنا جسے وہ گھر نہیں دیکھا

کشتی کہ ڈبو کر جو اُبھارے سر ِ ساحل

طوفاں بکنار ایسا سمندر نہیں دیکھا

تھی میری دروں بینی بھی اک طرفہ تماشا

اندر جسے دیکھا اسے باہر نہیں دیکھا

مرہم سے گریزاں ہے وہ بیگانۂ درماں

اتنا بھی کوئی درد کا خوگر نہیں دیکھا

تدبیر نے پھینکی تو ستاروں پہ کمندیں

بگڑی ہوئی قسمت نے سنور کر نہیں دیکھا

بس ایک ہی جرعے میں جو پی جاتا ہے صحرا

ہم نے تو ابھی تک وہ سمندر نہیں دیکھا

غالب نے کہا کل جو ضیا آج بھی سچ ہے

غالب سا زمانے میں سخنور نہیں دیکھا

٭٭٭

جان لیوا دردِ بے درماں ہوا

میں ہوا پیدا تو وہ پنہاں ہوا

لمس نوک خار کو اب کیا کہوں

رنگ و بو سے گل تہی داماں ہوا

دھوپ یخ بستہ تھی لا وا چاندنی

دل کی بربادی کا جب ساماں ہوا

مختصر تھی چار دن کی زندگی

مرتے ہی آخر امر انساں ہوا

بے حقیقت کھو کھلے افسانے پر

حیرتی آئینہ عنواں ہوا

سر گرانی، قتل و غارت، صبح شام

آدمی کا خون کیا ارزاں ہوا

ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایٹم کو ضیا

سعیِ لا حاصل پہ خوش انساں ہوا

٭٭٭

اعتبار اٹھتے ہی عالم معتبر ہو جائے گا

جب خبر آئے گی انساں بے خبر ہو جائے گا

شمع ہو جائے گی اپنی آگ میں جل کر خموش

قصۂ طولانیِ شب مختصر ہو جائے گا

منزلِ مقصود کو پائے گا زیر نقش پا

وہ مسافر جو بھٹک کر راہ پر ہو جائے گا

مستقل غم دل نے چاہا تھا مگر تھی کیا خبر

درد بڑھ کر آپ اپنا چارہ گر ہو جائے گا

میرے تیرے درمیاں اک لمحے کا ہے فاصلہ

آج میرا ہے جو، کل وہ تیرا گھر ہو جائے گا

ٹھوکریں کھانے پہ بھی میں اس لئے گرتا نہیں

کون جانے میرا میں کیا ٹوٹ کر ہو جائے گا

کیا کہوں خواب طلسم ِ شب کی کیفیت ضیا

آنکھ جب کھل جائے گی، وقت سحر ہو جائے گا

٭٭٭

دل چُراتے ہی مرے گھر سے وہ دوڑا کیسا

ایک پل بھی نہ رُکا، نکلا بھگوڑا کیسا

دن کے ہنگاموں میں بھی رہتا ہے میرے پیچھے

شب کی تنہائی نے جادو کوئی چھوڑا کیسا

تھیں بہت تلخ نوا زہر اگلتی موجیں

میں نے بھی حلق میں قطروں کو نچوڑا کیسا

ایک ہی چوٹ میں جاتے رہے سب ہوش و حواس

کیل کے سر پہ پڑا آج ہتھوڑا کیسا

جیت جاتا تو ستاروں میں بھی آ جاتی چمک

میری تقدیر میں تھا ریس کا گھوڑا کیسا

آنکھ کھلتے ہی نظر آئی سیہ کاری شب

مجھے سوتے میں شعاعوں نے جھنجھوڑا کیسا

آج بھی سیلِ حوادث کو چنوتی ہے ضیا

رُخِ دریا کسی موسی نے تھا موڑا کیسا

٭٭٭

حا ل دل اُن سے کسی حال میں کہنے نہ دیا

مجھے حا لات نے خاموش بھی رہنے نہ دیا

بستیاں دل کی بسا کر بھی رہا وہ ویراں

جنگلوں میں اسے صحراؤں نے رہنے نہ دیا

تپشِ دل کو دعا دیتا ہوں، اے دل، جس نے

دھوپ کے شہر میں سایہ کہیں رہنے نہ دیا

یوں تو میری ہی کہانی تھی لب دنیا پر

کچھ مگر میری زباں سے مجھے کہنے نہ دیا

حشر اٹھا یا تھا دل و جاں میں شب غم جس نے

رگ احساس پہ اُس چوٹ کو سہنے نہ دیا

داغِ دل بن کے ہوا قبلہ نما مثل سحر

قطرۂ اشک، جسے آنکھ سے بہنے نہ دیا

موج طوفاں پہ ضیا، تہمت غرقابی ہے

کشتیاں ڈوب گئیں جب انھیں بہنے نہ دیا

٭٭٭

ہوش اُڑاتا، رندوں کو چھلتا رہا

دور ساغر رات بھر چلتا رہا

واہ، ذوقِ گرمیِ بزم حیات

سورج اپنی آگ میں جلتا رہا

اجنبی رستوں کی تھی پہچان اسے

کارواں کے ساتھ وہ چلتا رہا

وہ جسے کہتے تھے ہم بوڑھا درخت

بوڑھا ہو کر پھُولتا پھلتا رہا

اس کے ہاتھوں کی لکیریں، کیا کہوں

وہ کف افسوس کیوں ملتا رہا

کیا ہوا جو کیسہ بے جھنکار ہے

اس کا لاکھوں پر قلم چلتا رہا

دل میں گہما گہمی اس ارماں کی ہے

وعدۂ فردا پہ جو پلتا رہا

وقت نے تاکا اسی کو اے ضیا

جو بدلتے سانچوں میں ڈھلتا رہا

٭٭٭

گرگٹ رنگ بدلتے دیکھا

وقت کا جادو چلتے دیکھا

بوڑھے خلاؤں کے چکّر میں

کا لا سورج ڈھلتے دیکھا

گلی گلی ڈھونڈھ آئے جسے، وہ

دل پہلو میں اچھلتے دیکھا

منزل منزل تھی گم، راہی

جادہ جادہ سنبھلتے دیکھا

سعی و کاوش کا ہر جذبہ

بیکاری میں گلتے دیکھا

مردہ دلوں کو ہم نے اکثر

زندہ دلوں کو چھلتے دیکھا

جنہیں کیا روشن آندھی نے

ان شمعوں کو جلتے دیکھا

میں نے ضیا، پھولوں کا گریباں

فصل گل میں نکلتے دیکھا

٭٭٭

اک اشتہار شادی اخبار میں چھپا تھا

پڑھ کر اسے نہ جانے کیا دل کو ہو گیا تھا

بنتی اگر تو بنتی دونوں میں کس بنا پر

میں اس کو چاہتا تھا، وہ مجھ کو چاہتا تھا

کہہ دوں اگر وہ مجھ سے ناراض ہو نہ جائے

غیروں سے اُس کا ملنا دل کو بُرا لگا تھا

دم لینے کی بھی فرصت اے وقت تُو نے کب دی

کیا تھک کے بیٹھ جاتے، رستہ تو دوڑتا تھا

اک حادثہ ہوا تھا، اتنی خبر ہے، لیکن

کچھ بھی پتہ نہیں ہے، کیا حادثہ ہوا تھا

مجھ پر بھی ایک ایسا آیا تھا وقت، یارو

جب اُس کی انجمن میں دل میرا بجھ گیا تھا

مقتل میں سر جھکائے، دیوانۂ دل آئے

شہر ِ وفا کی ساری دیواروں پر لکھا تھا

مطرب نے بزم لوُ ٹی، گا کر تری غزل جب

پہچانا کس نے، تو بھی موجود اے ضیا تھا

٭٭٭

ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں، بزم دل گرما گیا

کون تھا، دے کر کھلونے جو مجھے بہلا گیا

الٹی گنگا بہہ رہی ہے، مل گئی دل کو زباں

پھر کتا بِ شوق کا کوئی ورق الٹا گیا

فصل ارمانوں کی یخ بستہ دلوں میں کچھ نہ پوچھ

لہلہاتے سبزہ زاروں کو بھی پا لا کھا گیا

میری دکھتی رگ سے جو نالہ اُٹھا تھا شام غم

صبح ہوتے ہوتے وہ کل آسماں پر چھا گیا

پردہ ہائے درمیاں کی کیا شکایت کیا گلا

آنکھ اٹھا کر مجھ سے تیری سمت کب دیکھا گیا

اللہ اللہ آدمی کی خود تباہی کا جنوں

لرزہ طاری تھا زمیں پر، آسماں تھّرا گیا

اے ہجومِ یاس و حرماں، کیا کروں جاؤں کہاں

زندگی کی کشمکش سے جی مرا گھبرا گیا

منحصر ہے سالمیت پر ضیا، رنگِ چمن

ٹُوٹ کر ٹہنی سے جو پت ّہ گرا، مرجھا گیا

٭٭٭

وہ مسافر جو تھک گیا ہو گا

راستے سے بھٹک گیا ہو گا

غنچہ غنچہ چٹک گیا ہو گا

گوشہ گوشہ مہک گیا ہو گا

آہٹیں نرم نرم پتّوں کی

پیڑ پر آم پک گیا ہو گا

ڈال کر پھندا اپنی گردن میں

کوئی چھت سے لٹک گیا ہو گا

مُڑ کے دیکھا جو تُو نے، لوگوں کو

میری نظروں پہ شک گیا ہو گا

نگلی پکڑا کے چلتا تھا اُس کی

ہاتھ میرا جھٹک گیا ہو گا

ارے احساسِ تشنگی توبہ

کوئی ساغر کھنک گیا ہو گا

گرتا پڑتا یہ جادۂ پُر پیچ

اے ضیا، دور تک گیا ہو گا

٭٭٭

ذرّہ ذرّہ ہے درخشاں اپنا

پتّہ پتّہ ہے گل افشاں اپنا

پھول مُرجھائے، ستارے ٹوٹے

کہہ کے کیوں حا لِ پریشاں اپنا

اللہ اللہ، جمالِ کافر

متزلزل ہوا ایماں اپنا

چہرۂ حال کی تاریکی میں

رخِ فردا ہے درخشاں اپنا

جب کھلا دفترِ قیس و فرہاد

نام تھا سب میں نمایاں اپنا

بستر ِ خواب میں ظلمت بکنار

سر دھنے شمع شبستاں اپنا

چاہیں کچھ اور، کریں ہم کچھ اور

ہے یہی عالمِ امکاں اپنا

آ گیا ہاتھ کسی کا دامن

چاک کرتے تھے گریباں اپنا

یہ مرا دل ہے ضیا، بڑھتا قدم

روک لے گردش ِ دوراں اپنا

٭٭٭

رات تارا جو آسماں سے گرا

دن نکلتے کھجور میں اٹکا

اس پری چہرہ کا جو عکس پڑا

آب آئینہ بن گیا دریا

مجھ سے اب پوچھتا ہے ہر منظر

ایسا منظر کسی نے دیکھا تھا

استعاروں میں ہو گئے تحلیل

شیریں، فرہاد، کوہ، کلہاڑا

سر برہنہ ہے دن کا سورج اب

چادرِ شب کا ڈال دو سایا

میں بھی للکارتا اسے اک بار

بارہا اس نے مجھ کو للکارا

کیوں نہ پہلے ملی مجھے یہ خبر

تھا مرے گھر میں تیرا بھی کمرا

بول، خونِ  شہید، میں کب تک

بوجھ اٹھائے پھروں صلیبوں کا

شمعِ منزل کی روشنی پھیلی

راستہ اپنے آپ میں سمٹا

نگہ لطف کی غلط بخشی

کچھ سمجھنے لگا ہے خود کو ضیا

٭٭٭

ذت

ّ

سینوں میں اترتی ہوئی تاثیر کی لذت

پُر درد ہے تقریر یہ تحریر کی لذّت

لمحات شب غم کے ابھی ٹُوٹ رہے ہیں

زخموں میں مرے دل کے کسی تیر کی لذت

رستوں کے طلسمات سے کیا دے گی رہائی

اس اشہب دوراں کو عناں گیر کی لذّت

پائے گا کہاں جائے اماں ذوقِ اسیری

کی ترک اگر پاؤں نے زنجیر کی لذّت

اب بھی ہے یہی نعرہ لب موج رواں پر

تقدیر کے ہاتھوں میں ہے تدبیر کی لذّت

کیا بھیڑ ہے مقتل میں شہادت طلبوں کی

چلتا ہوا جادو ہے یہ شمشیر کی لذّت

جینے کا مزہ کیا ہے اگر موت نہ ہوتی

تخریب کی لذّت سے ہے تعمیر کی لذّت

تسکینِ دل و جاں ہے ضیا، بزم ِ سخن میں

شوخی کہیں غالب کی، کہیں میر کی لذّت

٭٭٭

واہ رے کیا ہے چھ کی بات

آگے پیچھے پانچ اور سات

بستی سج کے بنی دلہن

آنگن میں اتری ہے برات

میں تو تجھ میں کھوئی ہوں

خامے سے کہتی ہے دوات

کاٹ رہا ہوں رو رو کر

کتنی ابھی باقی ہے رات

پلکوں سے چپکی بیٹھی

بھیگی بلی سی برسات

میں ہی دوری، میں ہی وقت

سو باتوں کی ہے اک بات

فرض نبھا اور قرض چُکا

ایک ہی ہے اب راہِ نجات

٭٭٭

پردہ مینا سے اُٹھا رات کی رات

جام بھر بھر کے پلا رات کی رات

موت سے پہلے مجھے جینے دے

اے خدا، میرے خدا رات کی رات

صبح سے کہہ دو یہ، میرے گھر میں

کوئی مہماں ہے ذرا رات کی رات

راہ میں آنکھیں بچھا رکھی ہیں

دیکھ کر پاؤں بڑھا رات کی رات

صبح کی آہٹیں سُنتا ہوں کہ ہے

دل گزر گاہِ بلا رات کی رات

٭٭٭

چھپکلی اُتری ہے پانی میں مگر کی صورت

دشت پیمائی نے پھر دیکھ لی گھر کی صورت

اِس کھنڈر شہر میں کوندا سا لپک جاتی ہے

کسی دیوار، کسی چھت، کسی در کی صورت

جھیل سی آنکھوں میں اترے گی تو اُڑ جائے گی

چادر شب میں جھپکتی یہ سحر کی صورت

جانے کیوں پتھّروں سے جھولیاں بھر لاتے ہیں

دیکھتے رہتے تھے جو لعل و گوہر کی صورت

سوچ کی دھوپ میں سہمے ہوئے سائے پیہم

نظر آتی نہیں تا دوُر سحر کی صورت

چاند نے مُڑ کے نہ دیکھا تو بہت خوب ہوا

نقشِ خورشید میں تھی رقص شرر کی صورت

اتر آیا ہے فرشتہ کوئی آنگن میں ضیا

بدلی بدلی نذر آتی ہے بشر کی صورت

٭٭٭

صحت الفاظ کی بیمار کتابوں میں نہ ڈھونڈ

جو سوالوں میں نہیں بات، جوابوں میں نہ ڈھونڈ

چار دیواری کے اندر ہے تصوّر گھر کا

جذبۂ حُبِ وطن خانہ خرابوں میں نہ ڈھونڈ

جلوۂ زیست کے ہر موڑ پہ ہے لغزش پا

دل کی تسکین کا سامان عذابوں میں نہ ڈھونڈ

وا دریچوں سے چلی آتی ہیں گھُس پیٹھ ہوائیں

بوئے اخلاص نظر بند گلابوں میں نہ ڈھونڈ

ڈال رکھے ہیں جو آنکھوں پہ ہٹا دے پردے

کھُلے بازار میں تُو خود کو حجابوں میں نہ ڈھونڈ

وجہ رسوائی ترا شعر بھی ہو کوئی ضیا

اک جھلک نور سیہ پوش نصابوں میں نہ ڈھونڈ

٭٭٭

فوقیت دیتے ہیں دانائی کو نا دانی پر

طنزِ دشوار پسندی ہے تن آسانی پر

جلوہ در جلوہ ہے، کیا جانے، خدا خیر کرے

آئینہ خانے کو حیرت میری حیرانی پر

گھر سے نکلا تو ادھر لائے قدم وحشت کے

سوچ کا سایہ پڑا دشت کی ویرانی پر

ہائے اس شمع کی قسمت، جو بھری محفل میں

رات بھر جلتی رہی سوختہ سامانی پر

کافری جس کو ہو آئینۂ نور ایماں

کیوں نہ دل ناز کرے اس کی مسلمانی پر

کفش بردار انہی کا ہوں ضیا، میرا سلام

سعدی و حافظ و خاقانی و قآنی پر

٭٭٭

بے شمر سائے کا پاس

ڈوبتا سورج اداس

کھول کر البم کھُلا

کل بہو تھی آج ساس

سونگھتی آنکھوں میں دیکھ

کاغذی پھولوں کی باس

مکتب غم کا عمل

اکتساب و اقتباس

رات کو تنہائی کی

روشنی کیا آئے راس

کوئی آنسو پی گیا

پانچ دریاؤں کی پیاس

یا مرے جانے کا دکھ

یا ترے آنے کی آس

صبح منتی ہی نہیں

شام بیٹھی ہے اداس

پھر وہی قطع و برید

پھر وہی خوف و ہراس

جنگلوں کی بھیڑ میں

پیڑ سب تنہا، اداس

ساقی و مینا و مے

ہوشمندی کی اساس

میرا گھر بھی ہوتا کاش

تیرے گھر کے آس پاس

چھپتا پھرتا تھا ضیا

درد نکلا دل شناس

٭٭٭

لایا تھا مانگ کے میں زیست کے دو چار برس

ختم ہوتا نظر آتا نہیں اب کارِ ہوس

تشنگی اور بڑھا اور بڑھا اور بڑھا

اے گھٹا، اور برس اور برس اور برس

صبح ہونے بھی نہ پائے مگر آنکھیں مند جائیں

ظلمتِ شام جدائی، مجھے اتنا بھی نہ ڈس

نو کے آگے کوئی گنتی نہیں، مانا، لیکن

ایک کے ساتھ صفر رکھ دیں تو ہو جاتے ہیں دس

آئی آندھی تو اڑا لے گئی پھولوں کی مہک

اور ایسی گری بجلی کہ بچا خانہ نہ خس

دم نکل جائے، نہ قسمت اگر اس کو کہیئے

خواب دیکھا تھا نشیمن کا مگر پایا قفس

چاند کی مٹی اٹھا لایا ہے دیوانے کو

اے ضیا گردشِ ایام پہ قابو ہے نہ بس

٭٭٭

(زرینہ ثانی کی نا گہانی موت پر)

پا شکستہ رباب ہے خاموش

پردہ پردہ حجاب ہے خاموش

خمکدے میں سکوت کا عالم

خانۂ آفتاب ہے خاموش

تھم گئی کائنات کی گردش

شورش انقلاب ہے خاموش

حادثوں کی یہ خود پشیمانی

خلشِ اضطراب ہے خاموش

ہے سوالی دلیلِ نا فہمی

آئینہ لا جواب ہے خاموش

منزل ریگزار خاک بسر

تشنگیِ سراب ہے خاموش

اے غم دل، نہ شور حشر اُٹھا

زندگی محو ِ خواب ہے خاموش

بیکراں دشت بیکسی میں ضیا

دل خانہ خراب ہے خاموش

٭٭٭

حلقۂ داغ عشق دل پر پھینک

سر اٹھاتا ہوں، کوئی پتّھر پھینک

میں جسے خونِ دل سے لکھتا رہا

وہی نغمہ ادھر نوا گر پھینک

مہر و مہ بہہ گئے لہو ہو کر

اپنے ہاتھوں سے تو بھی خنجر پھینک

جنم پاتی ہے ان سے نا تہذیب

گندے انڈوں کو گھر سے باہر پھینک

شبنمستاں سجا کے پلکوں پر

ناوک غمزہ دل کے اندر پھینک

سطح دریا پہ مستقل ہلچل

تجھ سے کس نے کہا تھا کنکر پھینک

میری تر دامنی کی شرم ذرا

اب ادھر بھی کوئی گل تر پھینک

تجھے دو روز جینا ہے تو ضیا

چھیل کر دل سے موت کا ڈر پھینک

٭٭٭

گزری جو پچھلی رات کوئی پاس سے مہک

آتی رہی تمام دن مرے انفاس سے مہک

لائی ہے خواب زار میں سورج کی زرد دھوپ

مانگی تھی رات نے تو ہری گھاس سے مہک

بھی کیا روکتے اسے ٹُوٹے ہوئے کواڑ

اڑ کر کہاں گئی رگ احساس سے مہک

کتنے خزینے دفن ہیں اس میں کرید یے

مٹی کی آ رہی ہے جو اتہاس سے مہک

کرتی ہے خاص اگنی پریکشا کا اہتمام

شاخ برہنہ چھین کے بن باس سے مہک

کیوں دل جلوں کو لگتی ہے اچھی، نہ پوچھئے

اٹھتی چتا میں جلتے ہوئے ماس سے مہک

خنکی ہے چاندنی میں نہ گرمی ہے دھوپ میں

کیسی بہو نے پائی ضیا ساس سے مہک

٭٭٭

آنے جانے والے لوگ

سارے بھولے بھالے لوگ

خانوں میں بٹ کر ہی رہے

بھورے، گورے، کالے لوگ

دوڑے لے کے ہاتھوں میں

پتھر، نیزے، بھالے لوگ

نالے، غم کے نغمے ہیں

کیوں نہ کریں پھر نالے لوگ

شورستاں میں خاموشی

تالے لبوں پر ڈالے لوگ

تھے جو امیدوں کے امین

نکلے وہی جیالے لوگ

محو فسانہ گوئی ضیا

عنوانوں کے پالے لوگ

٭٭٭

تھما دو دست دعا دست چارہ ساز میں تم

سُنو نہ عذرِ دوا ،درد کے جواز میں تم

تمھیں تلاشنے نکلے گا جب سکوت شبی

ملو گے  کھوئے ہوئے نغمگیِ ساز میں تم

طلسم توڑ ہی دیں گے، چھپو گے تا بہ کجا

نگاہِ جلوہ طلب سے حریم ناز میں تم

شبوں کی نیند یں اڑاتے رہو، سجاتے رہو

فسونِ خواب حسیں چشم نیم باز میں تم

سُبو و جام کی گردش نہ تم پہ ختم ہو کیوں

کہ سرفراز ہو رندانِ پاک باز میں تم

زمانہ سازی دنیا کا کیا گلہ، کیا غم

ہوئے ہو خود ہی گرفتار ہرص و آز میں تم

ضیا ملی تھی د ل غزنوی کو جس سے تڑپ

وہ خم نہ پاؤ گے اب گیسوئے ایاز میں تم

٭٭٭

دل میں گنجینۂ جذبات لئے پھرتے ہیں

حسرت ذوقِ ملاقات لئے پھرتے ہیں

ان کا دامن نظر آئے تو کریں نذر اس کی

پلکوں پر اشکوں کی سوغات لئے پھرتے ہیں

مژدۂ منزل خورشید نہ دے ہم کو فریب

اپنے ہمراہ ابھی رات لئے پھرتے ہیں

پھر وہی آئینہ خانہ ہے، وہی عکس جمال

پھر وہی صورت حا لات لئے پھرتے ہیں

ان صلیبوں کا صحیفوں میں کہیں ذکر نہیں

ہم جنہیں دوش پہ دن رات لئے پھرتے ہیں

پیاسی دھرتی پہ برس کر ہی بنیں گے دریا

بادل آنکھوں میں جو برسات لئے پھرتے ہیں

کتنے بھولے ہیں کہ بیداری تفریق میں وہ

اے ضیا، خواب مساوات لئے پھرتے ہیں

٭٭٭

جب پلٹ کر دشت سے آتا ہوں میں

گھر کا دروازہ کھلا پاتا ہوں میں

لوگ کیوں دانا سمجھتے ہیں مجھے

اپنی نادانی پہ اتراتا ہوں میں

زندگی کا راز کھولوں کس طرح

خواب کو تعبیر بھر پاتا ہوں میں

شیر تو سب جنگلوں کو جا چکے

دل کو اب شعروں سے بہلاتا ہوں میں

مجھ پہ دروازے ہیں اتنا خندہ زن

کھڑکیوں سے جتنا گھبراتا ہوں میں

چاندنی اور دھوپ اترتی ہے مگر

آسماں دھوکے میں ہے، چھاتا ہوں میں

اے ضیا، پت جھڑ سے کیا لینا مجھے

گل کھلاتا، باغ مہکاتا ہوں میں

٭٭٭

تُو مان جائے گا، مرا دل مانتا نہیں

میں جانتا ہوں، تو بھی مجھے جانتا نہیں

دیکھو اٹھا کے تو نظر آ جائے جانے کون

چہرہ مرا اب آئینہ پہچانتا نہیں

کیوں آپ پوچھتے ہیں، خدارا نہ پوچھیے

کچھ تو ہے اس کا نام مگر شانتا نہیں

اتنی سی بات اس کی سمجھ میں نہ آ سکی

دشمن ہے، دوست میں جسے گر دانتا نہیں

بجھ جائے گا یہ طاق میں جلتا ہوا دیا

کیا ہو گا اس کے بعد کوئی جانتا نہیں

معلوم ہے کہ بدلیں گے اک دن مرے بھی دن

کوئی نہیں ہے میرا خدا مانتا نہیں

جس پر یقین رکھتا نہ ہو دل مرا ضیا

وہ بات اپنے دل میں کبھی ٹھانتا نہیں

٭٭٭

چلے چلو کہ ٹھہرنے کا یہ مقام نہیں

کسی بھی منزل مقصود کو دوام نہیں

بلا کشی میں مری ہاتھ موسموں کا بھی ہے

شکست توبہ فقط اعتبارِ جام نہیں

گھروندے ریت کے بن بن کے مٹتے جاتے ہیں

گمانِ خام خیالی، خیالِ خام نہیں

نہ گیسوؤں ہی کی چھاؤں، نہ عارضوں ہی کی دھوپ

یہ صبح صبح نہیں ہے، یہ شام شام نہیں

زمانہ سازی انسان دشمنی، توبہ

رواج و رسمِ محبّت کا احترام نہیں

خلا سے تا بہ خلا کور چشم اندھیرے میں

یہاں بھی جشن چراغاں کا اہتمام نہیں

کشاں کشاں چلا آیا ہوں ان کے در پہ ضیا

اب اُن سے کیسے کہوں مجھ کو ان سے کام نہیں

٭٭٭

نظر نظر سے ملانا کوئی مذاق نہیں

ملا کے آنکھ چُرانا کوئی مذاق نہیں

پہاڑ کاٹ تو سکتا ہے تیشۂ فرہاد

پہاڑ سر پہ اٹھانا کوئی مذاق نہیں

اُڑانیں بھرتے رہیں لاکھ طائران خیال

ستارے توڑ کے لانا، کوئی مذاق نہیں

لہو لہو ہے جگر، داغ داغ ہے سینہ

یہ دو دلوں کا فسانہ کوئی مذاق نہیں

ہوائیں آج بھی آوارہ و پریشاں ہیں

مہک گلوں کی اڑانا کوئی مذاق نہیں

ہزاروں کروٹیں لیتے ہیں آسمان و زمیں

گرے ہوؤں کو اٹھانا کوئی مذاق نہیں

یہ اور بات بُلائیں نہ اپنی محفل میں

مگر ضیا کو بھُلانا کوئی مذاق نہیں

٭٭٭

وحشتیں بازاروں میں ارزاں ہوئیں

گھر میں آ کر دردِ بے درماں ہوئیں

پھیر لی تو نے نگاہِ التفات

میری ساری مشکلیں آساں ہوئیں

آئینہ خانوں میں عکس آرا ہوں کیا

خاک میں کیا صورتیں پنہاں ہوئیں

آ گیا مقتل میں دیوانہ کوئی

بستیوں کی بستیاں ویراں ہوئیں

تھی وہ بیگانہ روی یا گمرہی

کفر کی سب دعوتیں ایماں ہوئیں

کیا کہوں ان داستانوں کو میں، جو

بے نیاز کاوشِ عنواں ہوئیں

بے مزہ ضبط و تحمل پر ضیا

لذتیں فریاد کی نالاں ہوئیں

٭٭٭

دیر سے سوئی ہوئی راہ جگا لوں تو چلوں

پتھروں، کانٹوں کو ٹھوکر سے ہٹا لوں تو چلوں

کتنا پُر ہول سفر ٹُوٹتے رشتوں کا ہے

زخمِ دل پنجۂ درماں سے چھُڑا لوں تو چلوں

صبح کی پہلی کرن ہے مرا مقصدِ نگاہ

پیچ و خم گیسوئے شبگوں کے نکالوں تو چلوں

کہکشاں سے بھی ادھر جانا ہے آخر مجھ کو

آبلہ پائی کو صد رنگ بنا لوں تو چلوں

برہمی زیست کی ہے اس کے بھٹک جانے میں

طفلکِ وقت کو اُنگلی سے لگا لوں تو چلوں

کون جانے یہ مرے کام کہاں آ جائے

سر پہ بار غم و اندوہ اُٹھا لوں تو چلوں

نود ل صد پارہ و ویراں میں ضیا از سر

طلب منزل مقصود سجا لوں تو چلوں

٭٭٭

دردیلے گیت اُن کو بھری محفل میں سناتے ڈرتا ہوں

دل کے رستے زخموں کو بازار میں لاتے ڈرتا ہوں

جلتی دھوپ کے سائے میں جنما ہوں، مرنا بھی ہے مگر

ٹھنڈے کالے سورج میں کیوں آگ لگاتے ڈرتا ہوں

جن میں مجھے ایک ایک قدم پر نا کامی، رسوائی ملی

شہر جنوں کے اُن کوچوں میں آتے جاتے ڈرتا ہوں

عقل کی حق گوئی پہ بھروسہ ہو نہ مجھے ایسا تو نہیں

کچھ ایسی ہی بات ہے جو دل کو سمجھاتے ڈرتا ہوں

ہجر کا موسم کیا آیا، پھولوں کی رعنائی بھی گئی

آہیں بھرتے، نالے کرتے، اشک بہاتے ڈرتا ہوں

کس سے پوچھوں، کون بتائے، صبح ہوئی تو کیا ہو گا

مدّت سے جو بجھے ہوئے تھے دیے جلاتے ڈرتا ہوں

خود کو کھو کر ہی میں نے اک دن پا یا تھا اُن کو ضیا

لیکن اب ان کو کھو کر میں خود کو پاتے ڈرتا ہوں

٭٭٭

دل کو اب حوصلۂ پا وفا ہے کہ نہیں

غمِ بے چہرگیِ حرص و ہوا ہے کہ نہیں

جانتا ہوں کہ نہیں تیرے سوا کوئی خدا

سوچتا ہوں کہ کوئی میرا خدا ہے کہ نہیں

ہمہ تن گوش زمانہ ہے ازل سے، جانے

شور کی بھیڑ میں میری بھی صدا ہے کہ نہیں

میری آنکھوں میں ذرا ڈال کے آنکھیں دیکھو

درد میں چارہ گرو، اپنی دوا ہے کہ نہیں

میری غزلوں کا تاثّر، مری نظموں کا فسوں

ہر ادا حُسن کی اک حُسن ادا ہے کہ نہیں

میں گنہگار ہوں، سُولی پر چڑھا دو مجھ کو

جسے کہتے ہیں محبّت، وہ سزا ہے کہ نہیں

اے ضیا، میں بھی کوئی بھٹکا ہوا راہی ہوں

دور تک سلسلۂ لغزش پا ہے کہ نہیں

٭٭٭

دیار شوق میں جو سر اُٹھائے پھرتے ہیں

سروں پہ اپنے وہ پتھر اُٹھائے پھرتے ہیں ّ

نہ میکدہ ہے، نہ ساقی، مگر یہ تشنہ لبی

کہ رند ہاتھوں میں ساغر اٹھائے پھرتے ہیں

سکوں تلاشنے والے ہم ایسے دیوانے

ازل سے شور ش محشر اٹھائے پھرتے ہیں

قفس کا رنگ نہ اڑ جائے کیوں، کہ مُرغِ اسیر

دل و دماغ سے ہر ڈر اٹھائے پھرتے ہیں

کہاں وہ درد جو کرتا ہے آپ اپنی دوا

کہاں وہ زخم جو نشتر اٹھائے پھرتے ہیں

نکل کے خلد سے، کیا جانے، کس لئے اب تک

ہم آسماں کو زمیں پر اٹھائے پھرتے ہیں

شدید تر جنہیں احساسِ تشنگی ہے ضیا

وہ قطرہ قطرہ سمندر اٹھائے پھرتے ہیں

٭٭٭

ورق دل پہ لہو رنگ سی تحریریں ہیں

کوئی پڑھ لے تو یہی شوق کی تفسیریں ہیں

اور کچھ بھی نہ ہو آغوشِ طلب میں لیکن

غم کی پرچھائیاں ہیں، زخموں کی تنویریں ہیں

ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوں، سمجھے گا کون

میرے ہاتھوں کی لکیریں ہی تو تقدیریں ہیں

میرے پنجاب کی شاداب زمینوں کی قسم

اسی مٹی میں کئی رانجھے کئی ہیریں ہیں

ننگے پاؤں جو نکل آیا ہوں گھر سے لیکن

رینگتے راستے، ڈستی ہوئی زنجیریں ہیں

موجۂ سیلِ حوادث نہ کہیں شور نشور

یہ جزیرے کوئی دیوانوں کی جاگیریں ہیں

اے ضیا ان میں کوئی رنگِ غزل بھر دیتا

شہر افرنگ میں تصویریں ہی تصویریں ہیں

٭٭٭

ننگی ٹہنی کی پیاس کچھ بھی نہیں

شجر بے لباس، کچھ بھی نہیں

گرتی دیواریں، ٹُوٹتے رشتے

فاصلوں کی اساس، کچھ بھی نہیں

جان تھی ایک، سو تجھے دے دی

سچ ہے، اب میرے پاس کچھ بھی نہیں

تُو ذرا اپنی ذات میں تو اتر

آس، امید، یاس، کچھ بھی نہیں

رہزنی نے مچائی ہے وہ لوُٹ

رہنماؤں کا پاس، کچھ بھی نہیں

راز کھولا، کھُلی ہواؤں نے

بند کمروں کی آس کچھ بھی نہیں

اے ضیا، پتھروں کی بستی میں

کانچ کا یہ گلاس کچھ بھی نہیں

٭٭٭

دم، ہوا کے سوا کچھ اور نہیں

بُت، خدا کے سوا کچھ اور نہیں

شعر فہمی کہاں، کہ اب لب پر

مرحبا کے سوا کچھ اور نہیں

آدمی ہے مگر ادھورا ہے

پا رسا کے سوا کچھ اور نہیں

راہِ ہستی کی منزل موہوم

نقشِ پا کے سوا کچھ اور نہیں

ابتدا دردِ دل کی کیا کہیے

انتہا کے سوا کچھ اور نہیں

دل وحشی کی کفر سامانی

کربلا کے سوا کچھ اور نہیں

اپنی پہچان آپ پیدا کر

تُو ضیا کے سوا کچھ اور نہیں

٭٭٭

اترا جب ماہتاب پانی میں

آ گیا انقلاب پانی میں

مچھلیوں میں تھی بجلیوں کی چمک

واہ وا، آب و تاب پانی میں

باد بانوں کی تشنہ کامی سے

کشتیاں آب آب پانی میں

موج در موج، قطرہ در قطرہ

رقص ریگِ سراب پانی میں

خوش ہیں دریا میں پھینک کر پتھر ّ

وہ ہوئے جو خراب پانی میں

نیٹ پیتے تھے کل جو آج وہی

ڈالتے ہیں شراب پانی میں

اے ضیا، کہتے ہیں کہ آن بسا

چاندنی کا شباب پانی میں

٭٭٭

خانقاہوں میں داغ جلتے ہیں

میکدوں میں ایاغ جلتے ہیں

ٹُوٹ جائے نہ ظلمتوں کا طلسم

حادثوں کے چراغ جلتے ہیں

آمدِ صبح کی امید لیے

طاقچوں میں چراغ جلتے ہیں

کیا بُجھے گی یہ آگ اشکوں سے

دل جلوں کے دماغ جلتے ہیں

کیوں نہ ان پر خزاں کا دھوکا ہو

جن بہاروں میں باغ جلتے ہیں

آئینہ آئینہ یہ جلوۂ شوق

چہرہ چہرہ چراغ جلتے ہیں

اپنی ہی آگ میں نہ جانے کیوں

اے ضیا، باغ و راغ جلتے ہیں

٭٭٭

پردۂ رخ اٹھا دیا، تاب نظر نہ جائے کیوں

آنکھ خراب دید کی اشکوں سے بھر نہ جائے کیوں

فصل بہار جا چکی، پھولوں میں رنگ ہے نہ بو

نشہ جو تھا چڑھا ہوا، سر سے اتر نہ جائے کیوں

آہ، یہ تیرگیِ شب، اف، یہ سُکوت مستقل

دل مرا ہیبت آشنا، سائے سے ڈر نہ جائے کیوں

حُسن و شباب کی قسم، جام و شراب ہیں بہم

گردشِ مہر و ماہ بھی آج ٹھہر نہ جائے کیوں

نامہ بروں کو کیا ہوا، بیٹھے ہیں پر شکستہ سے

ان کی خبر نہ آئے کیوں، میری خبر نہ جائے کیوں

وقت کا سیل دم بدم، شام و سحر رواں دواں

وقت گزر ہی جائے گا، وقت گزر نہ جائے کیوں

بزمِ حیات کی یہی رسم قدیم ہے ضیا

سر بفلک جو آئے وہ خاک بسر نہ جائے کیوں

٭٭٭

شاخ ارمانوں کی ہری ہی نہیں

آنسوؤں کی جھڑی لگی ہی نہیں

سایۂ آفتاب میں اے رند

تیرگی بھی ہے، روشنی ہی نہیں

قیدِ ہستی سے کس طرح چھوٹیں

راہ کوئی فرار کی ہی نہیں

میرے شعروں میں زندگی کی ہے

وہ حقیقت جو شاعری ہی نہیں

وہ ہُنر آدمی کی فطرت ہے

جو ہُنر عیب سے بری ہی نہیں

دھرم، آدم گری سکھاتا ہے

صرف تقسیم آدمی ہی نہیں

گنتا ہوں دل کی دھڑکنیں کہ ابھی

تُو نے آواز مجھ کو دی ہی نہیں

اسے عرفا نِ زہد کیا ہو ضیا

مست آنکھوں سے جس نے پی ہی نہیں

٭٭٭

گھروندے ریت کے آب رواں پر جو بناتے ہیں

ڈبو کر ساری دنیا کو وہ خود بھی ڈوب جاتے ہیں

وہ ریزے سنگ کے سورج کو جو آنکھیں دکھاتے ہیں

انہیں راتوں کے سائے اپنی آنکھوں پر بٹھاتے ہیں

گلا ترک تعلق کا محبت میں نہیں واجب

بہت نازک جو ہوتے ہیں وہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں

وہ ماضی کے امانت دار ہیں، فردا کے پیغمبر

نئی تعمیر جو بنیادِ کہنہ پر اُٹھاتے ہیں

نکالے تیرے دیوانوں نے پر پرزے خدا حافظ

ستاروں پر کمندیں پھینکتے ہیں، گرد اُڑاتے ہیں

یہ رازِ عشق بھی ہے نا شگفتہ پھول کی خوشبو

کوئی ہم سے چھپاتا ہے، کسی سے ہم چھپاتے ہیں

نفس کی آمد و شد کا ہے اب دار و مدار ان پر

خنک جھونکے ہوا کے جو دریچوں سے در آتے ہیں

ہوئی مدت کسی نے کر لیا زیرِ قدم لیکن

ضیا، ہم آسماں کو آج بھی سر پر اُٹھاتے ہیں

٭٭٭

بیتے ہوئے لمحات دو بارا مجھے دے دو

بھولی ہوئی یادوں کا سہارا مجھے دے دو

دشوار ہے منزل پہ پہنچنا مرا تنہا

نگلی سے لگا لے وہ سہارا مجھے دے دو

سب ٹُوٹے ہوئے رشتے تو منھ موڑ چکے ہیں

اندر سے مرے کس نے پکارا، مجھے دے دو

پھرتا ہے بھٹکتا ہوا جنگل کی نوا میں

نغمہ جسے میں نے تھا سنوارا، مجھے دے دو

جینے کی کسے فکر ہے، مرنے کا کسے غم

جو میرے مقدّر میں ہے تارا، مجھے دے دو

ساحل ہے نہ ساحل کی تمنّا مرے دل میں

جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو دھارا مجھے دے دو

دیکھو تو مری آنکھوں میں پھر ڈال کر آنکھیں

پھر سرمگیں پلکوں کا اشارا مجھے دے دو

جلوؤں کی جڑیں پھوٹی ہیں خوابوں کے نگر میں

پلکوں پہ سجا لوں وہ نظارا مجھے دے دو

ٹھہری ہوئی جھیلوں نے ڈبویا ہے کئی بار

بہتی ہوئی ندّی کا کنارا مجھے دے دو

لایا ہوں ضیا مانگ کے دل درد کا مارا

سودائے محبّت کا خسارا مجھے دے دو

٭٭٭

مرہم جذبۂ احساسِ وفا دے جاؤ

دل پر درد کے زخموں کی دوا دے جاؤ

گرمیِ بزم قیامت ہے تمھارے دم سے

جی میں جو آئے گناہوں کی سزا دے جاؤ

کوہِ ظلمت پہ کھُلی آنکھیں لیے آیا ہوں

دعوت روشنیِ ہو شربا دے جاؤ

عافیت کا یہ سکوں، دل کو لحد کا پیغام

شورش موجۂ طوفانِ بلا دے جاؤ

کھڑکیاں آ کے نہ کھولو گے قفس کی کب تک

دم گھٹا جاتا ہے، اب تازہ ہوا دے جاؤ

قیمت شعر نہ پوشیدہ رہے دنیا سے

کور چشمی کو جو تم قدر ضیا دے جاؤ

٭٭٭

ڈوبتے تاروں، شکست ساز کی باتیں کرو

چارہ ساز و ہمدم و ہمراز کی باتیں کرو

جس کے دم سے ہے دلوں میں تازہ زخموں کی بہار

اس مآلِ شورش آغاز کی باتیں کرو

پاؤں میں زنجیر، لیکن فکر تو آزاد ہے

بامِ گردوں پر اڑو، پرواز کی باتیں کرو

کچھ تو غمہائے زمانہ کا بھی درماں چاہیے

مستیِ چشمِ سراپا ناز کی باتیں کرو

شور و شیون کا اٹھا کر حشر، کیا تم کو ملا

اب کسی بیٹھی ہوئی آواز کی باتیں کرو

پتھروں سے سر کو پھوڑو، جھیلو رسوائی کا غم

کس نے یہ تم سے کہا تھا راز کی باتیں کرو

پھر وہی نا صور کہنہ ہو گیا تازہ ضیا

پھر اسی دیرینہ چارہ ساز کی باتیں کرو

٭٭٭

وہ برساتیں یاد کرو

بھیگی راتیں یاد کرو

بھُول بھی جاؤ میلے دن

اجلی راتیں یاد کرو

تیشہ، پتھر، نہر شیر

ہجر کی راتیں یاد کرو

جو اتری تھیں آنگن میں

غم کی براتیں یاد کرو

عشق میں دل نے جیت کے بھی

کھائیں ماتیں یاد کرو

کس نے کہا تھا تم سے ضیا

بھُولی باتیں یاد کرو ٭٭٭

آندھی چلی تو پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے

ساتھی بنائے تھے جو، وہ مجھ سے بچھڑ گئے

دل سے لگا لیا انھیں، تھے آپ ہی کے دین

کچھ ایسے حادثے جو میرے پیچھے پڑ گئے

کرتا زمیں کو جھک کے نہ کیوں آسماں سلام

میری غزل کے شعروں میں تارے سے جڑ گئے

دھو لوں انھیں ذرا عرق انفعال سے

دھبے لہو کے جو مرے دامن پہ پڑ گئے

جن کے وجود کا کوئی مصرف نہ فائدہ

کچھ ایسے بھی ثمر تھے جو شاخوں پہ سڑ گئے

شاید ادھر سے گزرا ہے پھر کوئی زلزلہ

آباد تھے جو صدیوں سے وہ شہر اجڑ گئے

اب کیا گلہ خرابیِ صحت کا اے ضیا

کہتا تھا جن کو اپنا وہی مجھ سے لڑ گئے

٭٭٭

موج غم گل کتر گئی ہو گی

ندی چڑھ کر اتر گئی ہو گی

غرق ہونا تھا جس کو وہ کشتی

ساحلوں سے گزر گئی ہو گی

ہم زمیں والوں کی جو پہلے پہل

آسماں پر نظر گئی ہو گی

آئینہ خانے میں بہ ہر صورت

آب و تاب گہر گئی ہو گی

حادثوں، آفتوں، مصائب سے

زندگی کیا جو ڈر گئی ہو گی

اس سفر میں خلاؤں کے تا دور

حسرت بال و پر گئی ہو گی

اے ضیا، بات عقل و دانش کی

دل کا نقصان کر گئی ہو گی

٭٭٭

چھوڑا ہے جو اسلاف نے دھن کم تو نہیں ہے

ہن کم تو نہیں ہےک یہ ورثۂ تہذی ب

کیا حشر اٹھاتے ہیں  ہوا و ہوس و حرص

دھرتی کے مٹانے کو گگن کم تو نہیں ہے

امید زیادہ کی تھی، مایوس ہوں ورنہ

اس شہر میں کچھ قدر سخن کم تو نہیں ہے

سورج کی تمازت ہو کہ ہو برف کی خنکی

آنکھوں کی نمی، دل کی جلن کم تو نہیں ہے

اتنی بھی ہے کیا مدح و ثنا زہرہ جبیں کی

با لا نظرو، غنچہ دہن کم تو نہیں ہے

خورشید کہ مہتاب، نمودار ہو کوئی

اب کالی گھٹاؤں کی گھُٹن کم تو نہیں ہے

بکتا ہے ضیا اشکوں کی قیمت یہاں اخلاص

بازار میں دھوکے کا چلن کم تو نہیں ہے

٭٭٭

وہ ایک پتّہ جو شاخ شجر پہ تنہا ہے

اسی کے قدموں پہ سر آندھیوں کا جھکتا ہے

حصار جسم سے باہر نکل کے دیکھ ذرا

یہ آب و خاک کا پیکر عجب تماشا ہے

تمام منظر عالم نگاہ کا ہے فریب

زمیں بھی وہم ہے اور آسماں بھی دھوکا ہے

اسی کو میں لیے بیٹھا ہوں بند مٹّھی میں

ہوا کا جھونکا جو گھر میں مرے در آیا ہے

کوئی مسیح، نہ منصور ہے زمانے میں

صلیب و دار کا لیکن ہنوز چرچا ہے

میں اپنی لاش لئے در بدر پھرا تو مگر

کسی نے پوچھا نہ تیرا بھی کیا ارادا ہے

کہاں اندھیرے میں کھو جاتا ہے نہ جانے ضیا

جو سایہ دھوپ میں ہر لہجہ ساتھ رہتا ہے

٭٭٭

آئینۂ دل حسن توا زن کی طرح ہے

یہ بھی تو ہوا خواہِ وفا اُن کی طرح ہے

آواز سی جو ٹُوٹنے کی آتی ہے دل کے

بے لفظ مہک بہکی ہوئی دھُن کی طرح ہے

بکھرا ہوا، سمٹا ہوا، جانا نہ کسی نے

جو دائرہ ہے اصل میں وہ شن کی طرح ہے

سمجھو تو ہے باطل، جو نہ سمجھو تو حقیقت

تہذیب رواں، رفتہ تمدن کی طرح ہے

پتّوں سے گزرتی ہے ہوا سہمی ہوئی سی

لکڑی کو جو کھا جائے یہ اُس گھن کی طرح ہے

دھرتی پہ جنم لینے ہی وا لا ہے کوئی کرشن

پھر دل میں مرے وسوسہ ارجُن کی طرح ہے

تشہیر ِ وفا کر کے ضیا، ہم ہوئے رسوا

اب اُن کا تعلق بھی تعاوُن کی طرح ہے

٭٭٭

بہار میں جو گریباں کے تار ہو کے چلے

وہ لمحے، شمع شب انتظار ہو کے چلے

مزہ تو جب ہے کہ میرے چمن کے آنگن میں

ہوائے خلد، نسیم بہار ہو کے چلے

جنوں کا جشن منایا بگولوں نے اٹھ کر

فصیل شہر سے جب ہم فرار ہو کے چلے

جو سر اٹھا نہ سکے بارِ نا مرادی سے

وہی تو در سے ترے کامگار ہو کے چلے

اُنہی کی خیرگی ہے وجہ کورِ چشم دہر

وہ شعلے طور کے جو آشکار ہو کے چلے

ضیا، فلک سے ستارے تو اشک پلکوں سے

شمار کرتا رہا، بے شمار ہو کے چلے

٭٭٭

گلریز و بادہ بار گھٹا ساونوں کی ہے

اے دست شوق، خیر کہاں دامنوں کی ہے

ریکھائیں لکشمن کی نہ ہیں بان رام کے

سیتاؤں پر نگاہ مگر راونوں کی ہے

ہر سمت زہر اُگلتا یہ ماحول بے شجر

شہروں کے آس پاس ضرورت بنوں کی ہے

خاموش شمع منزل مقصود ہے، نہ پوچھ

جو شکل رہبروں کی وہی رہزنوں کی ہے

خود اپنی آگ ہی میں ستی بھسم ہو گئی

کیا تاب ضبط و صبر یہ شو کے گنوں کی ہے

جھکنے سے عار، ٹوٹنے کا شوق ہے جنھیں

پھندوں سے آشنائی انھیں گردنوں کی ہے

آئنے کی تو بات ہی کچھ اور ہے ضیا

پتھر بھی توڑ دے وہ نظر دشمنوں کی ہے

٭٭٭

ہوا زنجیروں میں جکڑی گئی ہے

بڑی آوارہ تھی، پکڑی گئی ہے

پرندے بھی، درندے بھی پریشاں

کہاں جنگلات کی لکڑی گئی ہے

در و دیوار پر بُنتی تھی جالے

نہ جانے وہ کہاں مکڑی گئی ہے

ہوا اب جیل کی کھانی پڑے گی

ہماری چوری تو پکڑی گئی ہے

بدلتے موسموں سے کوئی پوچھے

کب آم آیا ہے، کب ککڑی گئی ہے

کلائی تک پہنچ جائے سلامت

بہن کی بھائی کو رکھڑی گئی ہے

ازل میں جو اٹھائی تھی ضیا نے

اتر کر سر سے وہ گٹھڑی گئی ہے

٭٭٭

ٹُوٹا ہوا دل رقص میں مستی کی طرح ہے

اجڑا ہوا یہ شہر، تو بستی کی طرح ہے

ساون کی گھٹا اڑ کے جو آئی ہے چمن میں

میخانہ بکف شاہِد مستی کی طرح ہے

کھائے ہی چلا جاتا ہے، ہچکولے بہ ہر موج

دل ڈوب کے ابھری ہوئی کشتی کی طرح ہے

آکاش سمجھتا ہوں جسے ہے وہی پاتال

اب میری بلندی بھی تو پستی کی طرح ہے

کعبہ بھی صنم خانہ بھی ملتا ہے اسی میں

آرائشِ دل حُسن پرستی کی طرح ہے

چھیڑا ہے جسے شوخ نگاہی نے دم صبح

وہ گیت ضیا، نغمۂ ہستی کی طرح ہے

٭٭٭

جب مجھے میرے غم کی خبر ہو گئی

اڑ گئی نیند اور آنکھ تر ہو گئی

رات کے خواب دیکھا کیا عمر بھر

آنکھ کھولی تو سمجھا سحر ہو گئی

کور چشمی تو دنیا کی مشہور تھی

پردہ اٹھا تو وہ دیدہ ور ہو گئی

درد بڑھ کر ہوا آپ اپنی دوا

زخم کو حاجت چارہ گر ہو گئی

حیف، وہ اشک پلکوں پہ جو تھم گیا

ہائے، وہ آہ جو بے اثر ہو گئی

ان گنت دھڑکنیں دل کی سُنتا رہا

یہ طوالت اگر مختصر ہو گئی

وہ دیا لے کے آئے ہیں آخر ضیا

میرے مرنے کی ان کو خبر ہو گئی

٭٭٭

دلوں میں درد، سروں میں جو سودا رکھتے تھے

وہی تو پاس زیادہ وفا کا رکھتے تھے

نقاب اُٹھا کے جو آئے تھے انجمن میں، وہی

حجاب دار نگاہوں کا پردہ رکھتے تھے

صلیب و دار پہ ہیں ان کے خون کے بوسے

خدا کے بندے، بھروسہ خدا کا رکھتے تھے

گلی میں، کوچے میں، بازار میں تھی بارش نور

ہمیں تو گھر میں تھے، جن سے وہ پردہ رکھتے تھے

بہار آنے پہ ہم دے کے اپنا خونِ جگر

چمن کی شاخوں پہ کانٹوں کو تازہ رکھتے تھے

نہ تھی خبر کہ د ل سنگ کب دھڑکنے لگے

توقعات کا دامن کشادہ رکھتے تھے

زمانہ سازی دنیا کو جان کر بھی تو ہم

ضیا امیدِ کرم بے ارادہ رکھتے تھے

٭٭٭

کہو وقت کے کوہ سے اب وہ سرکے

ہواؤں کو لایا ہوں مُٹھی میں بھر کے

کھُلا چھوڑ کر میں گیا تھا، جو پلٹا

تو تھے بند دروازے میرے ہی گھر کے

سُناتی رہے شام اپنی کہانی

ابھی تو پیام آ رہے ہیں سحر کے

جبینوں کی تقدیر سجدے ہی سجدے

کہیں نقشِ پا تو کہیں سنگِ در کے

نہیں میں تو ہے کون شایانِ رحمت

گناہوں سے توبہ کی میں نے ہی ڈر کے

وہی اوج پرواز کی پستیاں ہیں

وہی حوصلے مرغ بے بال و پر کے

وہ دل، درد جس کا ہے آپ اپنا درماں

اٹھائے گا احسان کیا چارہ گر کے

اب الجھی ہوئی زلفیں سلجھا رہے ہیں

بہت خوش تھے مجھ کو پریشان کر کے

خلاؤں کے تنہا اندھیروں میں مجھ کو

پکارا ہے  میری انا نے بکھر کے

یہ دیوارِ حائل کی جادوگری ہے

نہ ہو تم اُدھر کے ، نہ ہیں ہم اِدھر کے

بغیرِ بصیرت بصارت نہیں کچھ

ضیا سب تماشے ہیں حسن نظر کے

٭٭٭

تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے

کیوں نہ کر جاتا بھری محفل میں دل تنہا مجھے

شاخ در شاخ اب کوئی ڈھونڈا کرے پتّہ مجھے

میں تو خود ڈرتا ہوں، آندھی نے نہیں توڑا مجھے

لغزش پا نے دیا ہر گام پر دھوکا مجھے

تا درِ منزل تُو ہی اے جذب دل پہنچا مجھے

صورت آئینہ حیرت سے وہ تکتا رہ گیا

آئینہ خانے میں جس نے غور سے دیکھا مجھے

اے کہ تیری رونمائی، میری ہستی کی دلیل

ہو کے خود روپوش تُو نے کر دیا پیدا مجھے

چھین کر ساقی سے پیتا ہوں کہ دنیا دیکھ کر

چھین کر لے جائے گی مجھ سے کہاں صہبا مجھے

ایک جادہ، ایک منزل، ہمقدم ہمدم مگر

میں نہیں سمجھا تجھے، تُو بھی نہیں سمجھا مجھے

حادثوں کی پے بہ پے یلغار سے دل تنگ ہے

میں چلا، اے مست جام و سُبو لینا مجھے

آنکھ اصنام خیالی نے جو کھولی صبحدم

پتھروں کے شہر میں کھویا ہوا پایا مجھے

مار ہی ڈالے گی اک دن کاروبار زیست میں

تنگ دامانی تری، اے وسعت دنیا مجھے

جلوۂ در پردہ کی تھی چشم بینا کو تلاش

کون اب جلوے کو ڈھونڈے، مل گیا پردا مجھے

دے کے دل خوش تھا کہ میں نے پا لیا راز حیات

حیف، ارزانیِ غم، مہنگا پڑا سودا مجھے

عمر بھر ملتی رہی تیری عدالت سے نہ پوچھ

میری نا کردہ گناہی کی سزا کیا کیا مجھے

برگ گل پر رقص شبنم کا یہ منظر اے ضیا

اب تو ہر قطرے میں آتا ہے نظر دریا مجھے

٭٭٭

عشرت چارہ گری ہے درد سامانی مجھے

در پہ لے آتی ترے غم کی فراوانی مجھے

کاروانِ ابرِ رحمت اترا آنگن میں ترے

شور اٹھا کو بہ کو ’پانی مجھے‘’ پانی مجھے ‘

قیس آسا چھانتا پھر کون خاک دشت نجد

راس آ جاتی جو میرے گھر کی ویرانی مجھے

میری آوارہ سری تو بھی اجل سے سرکشی

لے ہی پہنچی تا حدِ ہستی پریشانی مجھے

گنگناتی رات کے سائے میں جب آنکھیں کھُلیں

خواب کی تعبیر تھی تحریر پیشانی مجھے

تھا خریدار آپ اپنا، آتے ہی بازار میں

جھُک گئیں نظریں سمجھ کر یوسف ثانی مجھے

قطرے قطرے ،ذرّے ذرّے نے کیا اپنا حساب

وجہ ارزانی ہوئی میری گرانجانی مجھے

بن کے سائل ہاتھ پھیلایا تھا جس کے سامنے

سونپ دی اس نے ترے در کی نگہبانی مجھے

چھو کے جو کلیوں کو آئی، اُس ہوائے باغ نے

دی قفس میں دعوتِ ذوقِ  غزل خوانی مجھے

شامل حال اے ضیا، اُس کا کرم تھا، ورنہ کیوں

دل کی ہر مشکل نظر آئی اک آسانی مجھے

٭٭٭

وہ آرتی بجلی کی اتارا نہیں کرتے

جلتے ہیں مگر جگنو اجالا نہیں کرتے

انمول ہے جو شے اسے بیچا نہیں کرتے

دیوانے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے

جو پیشِ نظر رکھتے ہیں منزل کو شب و روز

پیچھے کی طرف مُڑ کے وہ دیکھا نہیں کرتے

پلکوں پہ سجا لیتے ہیں پیاس اشکوں کی ہم لوگ

چڑھتے ہوئے دریا کو تو رُسوا نہیں کرتے

سائے پہ ہم آ بیٹھتے ہیں دھوپ سے جل کر

کیا ہے پسِ دیوار، کریدا نہیں کرتے

جلتے ہوئے سورج کی طرف دیکھنا ہے جرم

جلتے ہوئے سورج کو تو دیکھا نہیں کرتے

چلنے سے انھیں کام ہے، چلتے ہیں مسافر

رستہ کہاں جاتا ہے، یہ سوچا نہیں کرتے

ممکن نہیں باہر کو وہ اندر سے سمجھ پائیں

اندر سے جو باہر کا تماشا نہیں کرتے

زخموں پہ مرے چارہ گرو، رکھو نہ مرہم

یہ زخم ہیں وہ جِن کا مداوا نہیں کرتے

داغوں کے نشانات ابھر آئے ہیں دل پر

اب سر مرے قدموں پہ جھکایا نہیں کرتے

میں چُپ ہوں ضیا، اس لیے غیروں سے وہ مل کر

کہتے ہیں بُرا مجھ کو، وہ اچھا نہیں کرتے

ہواؤں نے امڈتے بادلوں کو گدگدایا ہے

درونِ سینۂ گیتی اُتر کر مور ناچا ہے

تکلف بر طرف، تا ب تماشہ کس میں ہے، ورنہ

دو آنکھوں پر پڑا ہے جو وہ پردہ کوئی پردہ ہے

تمنا نے لگا دی آگ جو بجھتی نہیں یارب

بلا نوشی کا یہ عالم، مگر دل اب بھی پیاسا ہے

بدلتے موسموں کا یہ شکست و ریخت کا عالم

مگر کیا ٹوٹتا جو دو دلوں میں غم کا رشتہ ہے

پرستش چڑھتے سورج کی تو کرتے ہیں سبھی، لیکن

اٹھا کر آنکھ کس نے ڈوبتے سورج کو دیکھا ہے

نہ کچھ تیری خبر ہے اور نہ کچھ اپنا پتہ مجھ کو

بتا، کس کام کی پھر تو تماشہ گاہِ دنیا ہے

زوال آمادگی، تکمیل توفیق تمنا کی

اترتے پانیوں میں چڑھتی ندی کیا تماشہ ہے

جمود و کسل کا عالم، نفیِ زندگی ٹھہرا

نہ دل میں کوئی ارماں ہے، نہ سر میں کوئی سودا ہے

الگ چلتے کناروں کو جو اک رستے پہ لے آئے

کوئی ایسا بھی طوفاں، اے سکونِ سطح دریا ہے

مرے اندھے کنویں میں دوُر کی آواز تھی گویا

بھری محفل میں ان کا پوچھنا – تُو بھی ضیا کیا ہے

٭٭٭

پرِ ہُما اک مہان پر ہے

پرندہ اونچی اڑان پر ہے

زمیں کو پامال کرنے وا لا

دماغ جو آسمان پر ہے

اتر کے دھرتی پہ آ نہ جائے

وہ دھوپ جو سائبان پر ہے

تعاقب رادھیکا میں کب تک

وہ صبح جو شام بان پر ہے

کبھی تو آئے گی میرے دل میں

وہ بات جو ہر زبان پر ہے

وہ لمحہ لمحہ غم محبت

جو شکوہ شکوہ زبان پر ہے

بگڑ کے جب سے گیا ہے کوئی

بنی ہوئی دل پہ، جان پر ہے

قدم حدِ لامکاں میں لیکن

نظر ابھی تک مکان پر ہے

کھُلے گا تو حرف و صوت ہی سے

جو قفلِ ابجد زبان پر ہے

سمندروں سے کہاں بُجھے گی

وہ تشنگی جو اٹھان پر ہے

ضیا یہ کیسی ہے بدگمانی

شک اس کو میرے گمان پر ہے

٭٭٭

گلفشاں موج جوئبار آئی

تشنگی کا لباس اتار آئی

واہ وا، ذوقِ گلشن آرائی

خوں چھڑکتی رگ بہار آئی

موت نے آ کے در پہ دی دستک

زندگی آج ساز گار آئی

قہقہوں میں نہ چیخیں کھو جائیں

ساتھ لے کر خزاں بہار آئی

دلکشی بیتے موسموں کی نہ پوچھ

یاد کیوں ان کی بار بار آئی

خلشِ نوکِ خار کا احساس

کیا چمن زار میں بہار آئی

کوئے قاتل کو کر گئی باطل

وہ حقیقت جو سوئے دار آئی

اس جبیں پر ہے سورجوں کی چمک

سجدہ گا سے جو داغدار آئی

کیا قفس میں وہی چمن کی ہوا

لے کے پیغام نو بہار آئی

اہلِ دل دشمنوں سے پوچھیں تو

دوستی کس کو ساز گار آئی

دن کی رُسوائیوں سے ڈرتی ہوئی

رات در پردہ پردہ دار آئی

یاد اس ہموطن کی جانے کیوں

ایک بار آئی، بار بار آئی

سر چھُپاتے کہاں اندھیرے ضیا

عرش سے روشنی ہزار آئی

٭٭٭

کیا ساون بھادوں کی جھڑی ہے

توبہ کی صورت بگڑی ہے

انگ انگ تو بول رہی ہے

گوری کیا خاموش گھڑی ہے

سب کچھ دل نے سہا لیکن اب

سر پہ مصیبت آن پڑی ہے

کانٹے بوئے، پھول اگائے

عشق عجب جادو کی چھڑی ہے

غزلیں کہیں اور نظمیں لکھیں

کہنے کی بات اب بھی پڑی ہے

سایہ کہاں مجنوں کو ڈھونڈے

ریگستاں کی دھوپ کڑی ہے

دھند میں سارا کمرہ کھویا

باہر شب بھر برف پڑی ہے

بھیج کوئی پھر میر و مرزا

پھر اردو پر بھیڑ پڑی ہے

ٹھٹھر رہی ہے ساری دلّی

شملہ میں وہ برف پڑی ہے

آنکھیں کھول ضیا، دیکھ اٹھ کر

دستک دروازے پہ کھڑی ہے

دل ناتواں تو کھلونوں سے بہل جاتا ہے

کوئی بھی سانچہ ہو، ہر سانچے میں ڈھل جاتا ہے

کارواں وقت کا تھمتا نہیں، تھمتا ہے اگر

غازۂ یاد رخ زیست پہ مل جاتا ہے

واپس آتا نہیں ’درباسا‘ کا جیسے کوئی شاپ

تیر اک بار کماں سے جو نکل جاتا ہے

شمع کے جلنے پہ ہوتا ہے اُجالا لیکن

رشک کی آگ میں پروانہ تو جل جاتا ہے

طائر فکر کی پروازِ سرافراز نہ پوچھ

آسمانوں سے بھی آگے یہ نکل جاتا ہے

کسے معلوم کہ سہما ہوا دل سینے میں

سُن کے شہنائی کی آواز مچل جاتا ہے

فصل گل آتی ہے گلشن میں لگاتی ہوئی آگ

کوئی دیوانہ سوئے دشت نکل جاتا ہے

آمد و رفت کا دنیا میں لگا ہے میلہ

آج آتا ہے ضیا، جو وہی کل جاتا ہے

٭٭٭

راہزن راہنما ہو جیسے

نا خدا موج بلا ہو جیسے

محفلِ شعر میں پڑ جاتی ہے جان

داد بھی کوئی دوا ہو جیسے

پھیر لی آنکھ بھری محفل میں

میں نے کچھ مانگ لیا ہو جیسے

پھر دل سوختہ میرا شب بھر

صفتِ شمع جلا ہو جیسے

دیکھ کر بھی نہیں دیکھا ان کو

پردہ آنکھوں پہ پڑا ہو جیسے

گلیوں کوچوں میں کوئی پھرتا ہے

کھو کے دل ڈھونڈ رہا ہو جیسے

یاد کرتا ہوں تجھے شام و سحر

تو مجھے بھُول گیا ہو جیسے

دل شکستہ ہوں، کوئی ٹُوٹ کے پھر

شاخ سے پتّہ اگا ہو جیسے

چلتا بازار میں دیکھا ہے ضیا

کھوٹا سکّہ بھی کھرا ہو جیسے

٭٭٭

ہوئی صبح، پائے گئے بے سہارے

وہ جو رات بھر دیکھتے تھے سہارے

جئے کوئی کب تک کسی کے سہارے

بڑے جان لیوا ہیں جھُوٹے سہارے

سہاروں پہ جینا بھی جینا ہے کوئی

ہمیں ایک دن مار دیں گے سہارے

اندھیرے سے باہر نکل کر تو دیکھو

تمنا نے کیا کیا اُجالے سہارے

زمانے میں دیں گے خوشی کیا کسی کو

سہارے ہیں خود غم کے مارے سہارے

سفینہ ڈبو ہی دیا بیچ دریا

بڑے تھے مگر نکلے چھوٹے سہارے

صلیبوں پہ رہزن چڑھا دیں گے ہم کو

اگر مل گئے رہبروں کے سہارے

یہ کشتی شب و روز کی بہتی جائے

ہمارے سہارے، تمھارے سہارے

نظر کش، دل آرا ضیا کس قدر ہیں

کراں تا کراں پھیلے، بکھرے سہارے

٭٭٭

حُسن کی بارگاہ کیا کہیے

عشق سے رسم و راہ کیا کہیے

ہم نے سورج کو کر دیا ننگا

تب و تاب نگاہ کیا کہیے

تختۂ دار پر چڑھا تو ہُوا

سرخرو روسیاہ کیا کہیے

دل شاعر کو زندہ رکھتی ہے

داد و تحسیں کی چاہ کیا کہیے

کوئی مر مر کے یوں بھی کرتا ہے

زندگی کو تباہ کیا کہیے

خود پرستی و پست کرداری

ہوسِ عز و جاہ کیا کہیے

بے گناہی کا کچھ جواز بھی ہے

نہیں کوئی گواہ کیا کہیے

دھوپ میں پاؤں جلتے ہیں دن بھر

رات کو روسیاہ کیا کہیے

پُرسش ِحال کو وہ آئے ضیا

ان سے کہیے تو آہ کیا کہیے

٭٭٭

پھول جب لے کے بجلیاں نکلے

شاخ در شاخ آشیاں نکلے

صبح تک میرے ساتھ ساتھ رہے

رات کے سائے مہرباں نکلے

دل نے چھیڑے جو گیت روز ازل

رگ احساس پر گراں نکلے

کر دیا مجھ سے ہمکلام مجھے

آئنے میرے ہم زباں نکلے

جو چھڑکتے رہے  نمک دل پر

وہی زخموں کے راز داں نکلے

زندگی کا سفر نہ ختم ہوا

آگے منزل سے کارواں نکلے

جس کو تھی تیری دید کی امید

اشک اس آنکھ سے کہاں نکلے

اے ضیا، آپ بھی با یں غم دل

آشنائے غم جہاں نکلے

٭٭٭

حُسن کے رُخ پر آنکھ گڑی ہے

چھوٹا منھ اور بات بڑی ہے

نوٹوں کے انبار لگے ہیں

چاندی کی دیوار کھڑی ہے

کون کسی کا دکھ بانٹے گا

سب کو اپنی اپنی پڑی ہے

تم نے مجھ سے پھیر  لیں آنکھیں

کیسا لمحہ، کیسی گھڑی ہے

پیاسی دھرتی آگ بُجھا لے

مدھماتی ساون کی جھڑی ہے

نور سحر کا رستہ روکے

سج دھج کر کیوں رات کھڑی ہے

بکھرا بکھرا، رشتہ رشتہ

ٹوٹی ٹوٹی، کڑی کڑی ہے

مصلوبی ہے جس کا حاصل

وہی ضیا انمول گھڑی ہے

٭٭٭

میری دنیا نے نگاہوں سے گرایا ہے مجھے

اے فلک، تُو نے بہت سر پہ اٹھایا ہے مجھے

پھاڑ کر کپڑے نکل آیا ہوں باہر گھر سے

ہوش اب میکدۂ زیست میں آیا ہے مجھے

دور تک نجد کے صحرا میں نہیں کوئی درخت

دھوپ میں جائے اماں میرا ہی سایہ ہے مجھے

نفع و نقصان میں جو فاصلہ تھا ہو گیا طے

دل نے کھویا ہے اگر درد نے پایا ہے مجھے

کوئی آدم گری عہدِ محبّت دیکھو

اپنا آتا ہے نظر وہ جو پرایا ہے مجھے

خود پہ لے آیا ہوں ایمان یہی کیا کم ہے

اب یقیں اپنے سوا کس پہ خدایا ہے مجھے

یہ تری جلوہ نمائی، یہ ترا حُسن نظر

میں نمودار ہوا ہوں تو چُھپایا ہے مجھے

زندہ رہنا تو ہے اس بات کی کیا بحث ضیا

میں خود آیا ہوں یہاں یا کوئی لایا ہے مجھے

٭٭٭

وہ تصور میں جو تصویر بنا بیٹھا ہے

لگتا ہے ماتھے کی تحریر بنا بیٹھا ہے

کرنے جاتا ہوں اُسی سے گلۂ بیخوابی

میرے خوابوں کی جو تعبیر بنا بیٹھا ہے

ختم ہوتا ہی نہیں یہ سفر منزل شوق

راستہ پاؤں کی زنجیر بنا بیٹھا ہے

اے ضیا، بزم ِ سخن میں یہ تماشہ دیکھا

کوئی غالب تو کوئی میر بنا بیٹھا ہے

٭٭٭

دل میں پیدا کشش دار و رسن ہوتی ہے

اور کیا چیز شہادت کی لگن ہوتی ہے

اللہ اللہ یہ ہوا خواہیِ ارباب چمن

تا قفس دسترس سرد و سمن ہوتی ہے

آج بھی گرمیِ محفل ہے لہو سے دل کے

آج بھی دعوتِ تہذیبِ کہن ہوتی ہے

ظلمت یاس کے سینے میں اُترنے کے لیے

تیر بن جاتی ہے ایسی بھی کرن ہوتی ہے

میرے اشعار وہاں دیتے ہیں لو شمع صفت

اے ضیا، گرم جہاں بزم سخن ہوتی ہے

٭٭٭

کیسے تھے عشق باز جو سر پھوڑتے رہے

ہم پتھروں کے شہر میں دل جوڑتے رہے

گاڑی تھی پنکچول، اسے مس کر سکے نہ ہم

رستوں میں پیچ و خم تھے، مگر دوڑتے رہے

ہم نے دیے جلائے تھے جو راہ میں وہی

رخ آندھیوں کا اپنی طرف موڑتے رہے

بیکار زندگی سے لیا ہم نے انتقام

سگریٹ کے کش لگا کے دھواں چھوڑتے رہے

مانگے سے بھیک رحم کی وہ دیں گے کیا ضیا

پا کے ہمیں جو تنہا، ستم توڑتے رہے

٭٭٭

تڑپ سجدوں کی ہے ہر در کے پیچھے

کبھی اس در کبھی اُس در کے پیچھے

زمانہ کارواں بنتا گیا ہے

کسی رہزن، کسی رہبر کے پیچھے

خلل خوابوں میں کیسا آ گیا ہے

بگولے اٹھ رہے ہیں گھر کے پیچھے

فصیلِ شہر تک لے آیا تھا عزم

پلٹتے بھی تو کیا ہم ڈر کے پیچھے

نہ جانے کیوں تعاقب میں ابھی تک

اندھیرے ہیں شہہ انور کے پیچھے

یقینِ آبلا پائی سلامت!

پھر اگ آئے ہیں کانٹے گھر کے پیچھے

ضیا صاحب! چلو گے بچ کے کب تک

کھڑی ہے موت ہر پتھّر کے پیچھے

٭٭٭

متفرّق اشعار

ان سے اُمّید پاسداری قول

واہ، زود اعتباریاں دل کی

جانتے پہچانتے بھی، بے تعلق بے نیاز

اس دیار اجنبی میں کتنے ہیں اغیار لوگ

وہ کافر ادا جس پہ ایمان قرباں

خدا جانے کیوں آج یاد آ رہا ہے

منتظر نگاہوں کو منزلوں کا سودا ہے

بے چراغ راہوں پر گامزن اندھیرا ہے

کچھ نکھرا ہوا روپ ہے برسات سے پہلے

کچھ چمکی ہوئی دھوپ ہے برسات سے پہلے

جہاں تنہائیاں سر پھوڑتی ہوں

وہ شہرِ سنگ کیا آباد کرتا

آسماں سے ابر برسا رات بھر

آنسوؤں کو کوئی ترسا رات بھر

جمی تھی گردِ کدورت دلوں کی بستی میں

کسی کی یاد بھی آئی تو سوچ کر آئی

تمھارا دیکھنا آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں

مجھے اندھیرے میں اک روشنی نظر آئی

مجھ تک آتے آتے خالی مینا بھی پیمانہ بھی

کتنا مہنگا ہے یارو، یہ ساقی کا یارانہ بھی

شیشوں کے گھر میں رہ کر کھوئے ہیں کس نے ہوش و حواس

پتھر سے پھوڑے سر اپنا، ہے کوئی دیوانہ بھی ّ

باتوں باتوں میں ٹھنی بات کی بات

ایسی بگڑی، نہ بنی بات کی بات

خود اتارے گی کسے تھا معلوم

بال کی کھال یہی بات کی بات

ڈرتا تھا جس کے تصور سے ضیا

چل گئی چال، وہی بات کی بات

آزاد غزلیں

حوادث کی ایسی چلی تند آندھی، کمر جھک گئی

گرانباری زخمہائے عبادت سے دیر و حرم کی کمر جھک گئی

روشنی بُجھ گئی اور صحرائے ظلمت کے بے پیڑ سائے میں انسان گم ہو گیا

آنکھ حیرت کے دریا میں ڈوبی تھی ڈوبی رہی کمر جُھک گئی

کلی پھول بننے سے پہلے کٹی شاخ سے کانٹا بن کر گری خاک پر

جھپکتی پلک پر دمکتے ہوئے شبنمی آنسوؤں کی نظر کیا اٹھی کمر جھک گئی

ہجوم مصائب نے ہر موڑ ہر گام پر اس طرح روکا ٹوکا

ابھی تک نہ ہو پائی تھی جو سیدھی کمر جھک گئی

٭٭٭

سر بفلک کوہساروں پر/ سے چڑھتے / اُترتے زینے

برفانی ماحول سے گھبراتے، ڈرتے زینے

شور مچاتی، خنک ہواؤں سے پنجہ لڑاتے

پگڈنڈی کے سر اپنا الزام دھرتے زینے

لے جاتے اونچائی پر کبھی رہگیروں کو

اور کبھی ان کے ساتھ پستی میں گر کے بکھرتے زینے

صحرا صحرا، ذرے ذرے، کی خشکی نچوڑ کر

دریا دریا گھاٹ گھاٹ سے گیلا پانی بھرتے زینے

٭٭٭

ماخذ:

https://ziafatehabadi.weebly.com/uploads/2/0/7/0/20704710/kuliyaat_e_zia_fatehabadi_vol.1.pdf

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل