فہرست مضامین
- انتساب
- اظہارِ تشکر
- الحمد للہ
- محبت کا شاعر
- مجھے تنہا نہیں کرنا
- خدا جانے
- تین شعر
- حقیقت آشنا میرے
- مجھ کو باتیں کب آتی ہیں؟
- شرط
- مری جاں ٹھیک کہتی ہو!!
- ایک شعر
- دیا جلائے رکھنا
- تین شعر
- کچھ تو محسوس کر
- WARNING
- معجزہ
- مصالحت
- انتظار
- بے بسی
- Miss You
- دو شعر
- مرے بے خبر
- کیا جادو ہے؟
- تمھیں چھونے کی خواہش میں
- آنکھیں
- کتھارسس
- ہو سکتا ہے
- خوشی کو بانٹنے والو!
- دادی امّاں سے ہم قصّے سنتے تھے
- مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
- چار شعر
- مشورہ
- تضاد
- بے بسی کا عجیب عالم ہے
- عہد
- دو شعر
- گذارش
- کہا تھا نا!
- آؤ دوستی کر لیں
- تمہارے بعد
- تین شعر
- Valentine’s Day
- بہت خوش ہوں (ایک دوست کی کامیابی پر)
- بہلاوے
- بارشوں کے موسم میں
- جی تو لیں گے!
- تم سے کچھ نہیں کہنا!
- شام
- عید ہو جائے
- مجھے تم یاد آؤ گے
- سوال
- ایک منظوم خط
- میں تمہیں یاد کیوں نہیں آتا؟
- Confusion
- حقیقت آشنا ہوں میں
- دعا (روشنی کے لیے)
- چلو یہ مان لیتے ہیں
- ایک شعر
- چلے بھی آؤ
- بچھڑتے لمحوں میں اک خیال
- محبت کم نہیں ہو گی
- واپسی کا دروازہ
- مجھے معلوم ہے
- You Will Miss Me
- دھنک
مجھے تنہا نہیں کرنا
عاطفؔ سعید
تشکر: کتاب ایپ
ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
مری حقیقت آشنا کے نام
(جس نے محبت کی روشنی سے مری زندگی کو جگمگا دیا)
تمہارے لیے!
سنو!
تمہارے لیے ہی لفظوں کی یہ بزم سجائی ہے
وہ لفظ جو بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح تھے
اپنی جگہ مکمل، مگر بے معنی!
یہ موتی میرے اردگرد بکھرے ہوئے تھے
میں روز انہیں یونہی روندتے ہوئے گزر جاتا
مگر پھر اچانک تم مل گئیں
تمہاری محبت غیر محسوس طریقے سے مری رگوں میں دوڑنے لگی
میں نے پہلی دفعہ تمہاری بدولت محبت کو محسوس کیا
محبت!
جس کے بارے کہتے ہیں ’’ذات کی تکمیل ہوتی ہے‘‘
کائنات کا خوبصورت ترین جذبہ،
اور تم نے مجھے سر سے پاؤں تک محبت کر دیا
میں یہ اقرار کرتا ہوں
کر موتیوں کو پرونا سکھایا
میرے جذبے اپاہج تھے!
تم نے قلم کے ذریعے انہیں چلنا سکھایا
اور اس کے بعد میں نے تمہارے سنگ گزارا ہر لمحہ تصویر کر لیا
جذبوں کو لفظوں کے قالب میں ڈھال دیا
وہ کبھی نظم کی صورت اور کبھی غزل کا روپ میں ڈھل گئے
تبھی تو تم محسوس کر سکتی ہو
کہ میری شاعری کے پہلو میں تم دل بن کے دھڑکتی ہو
تم نے میرے لیے اتنا کیا اور میں تمہارے لیے کچھ نہ کر سکا
تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش تھی مگر نہ چل سکا
میری مجبوریاں میرے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں
مگر مجھے اپنا وعدہ یاد ہے
کہ میں لفظوں کے موتیوں سے جتنی بھی مالائیں بناؤں گا
سب تمہارے لیے ہوں گی
میں آج اس عہد کی تجدید کرتا ہوں، اس اقرار کے ساتھ
کہ مجھے تم سے محبت ہے
وہ محبت جو ذات کی تکمیل ہوتی ہے
اظہارِ تشکر
شکرگزار ہوں رب العزت کی بابرکت ذات کا جس نے مجھے محسوسات کو لفظ دینے کا ہنر عطا کیا، اپنے والدین کا جنھوں نے مجھے زندہ رہنے کا ڈھنگ سکھایا اور زندگی کے ہر موڑ پر میری حوصلہ افزائی کی، مرا ساتھ دیا اور میرے سر پر دعاؤں کی ردا تانے رکھی۔ پُر خلوص شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اپنے استاد جناب زبیر ارشد ملک صاحب کا جن کی وجہ سے مجھے شعر اور شاعری سے محبت ہوئی اور اپنے اندر کا یہ ہنر مجھ پر آشکار ہوا۔ مینا کا، بلال، ذیشان، اشہر، سنبل اور آمنہ کا، جن کی محبت، خلوص، حوصلہ افزائی اور سب سے بڑھ کر ان کا ہونا میرے لیے بہت ضروری ہے۔ جناب کنورؔ امتیاز، حسن عباسی اور حمید تسلیم کا جنھوں نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے سلسلے میں اپنے پُر خلوص مشوروں سے مجھے نوازنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ خصوصی شکریہ ان تمام شاعری سے محبت رکھنے والوں کا جن کی پذیرائی مجھے مزید لکھنے کا حوصلہ بھی دیتی ہے اور تحریک بھی۔ آپ کی آراء اور محبت کا منتظر رہوں گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
عاطفؔ سعید
House # 1092, Street # 26, Sector I-10/4, Islamabad
Email: aatifsaeed@gmail.com, maatifsaeed@hotmail.com
الحمد للہ
’’مجھے تنہا نہیں کرنا‘‘ کا دوسرا ایڈیشن آج نو سال بعد چھپ رہا ہے اور اس کے لیے شکرگزار ہوں اپنے قارئین کا، جنھوں نے میرے دوسرے دو مجموعہ کلام ’’تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں‘‘ اور ’’تمہیں موسم بلاتے ہیں‘‘ کو بے حد پسند کیا اور پر زور فرمائش کی کہ پہلا مجموعہ کلام بھی ان تک پہنچایا جائے۔ اس سلسلے میں بہت ممنون ہوں اپنے شاعر اور پبلشر دوست جناب ارشدؔ ملک کا جن کی خصوصی توجہ کی بدولت ہی اس کی اشاعت ممکن ہوئی۔ اس مجموعہ میں کچھ ترامیم بھی اور اضافہ بھی کیا گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے دلوں پر میرے جذبات کا یہ اظہار بھی ضرور دستک دے گا۔ میں بہت خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا آمنہ، انعم، رخِ آفرین کا، جنھوں نے اس مجموعے کی ترتیب کے سلسلے میں میری بہت معاونت کی اور وسیم کا جس نے بہت محبت سے اس کتاب کا ٹائیٹل تیار کیا۔ میرے شاعری کے اب تک کے سفر میں جتنے بھی لوگ اس عرصہ میں مجھ سے ملے، مرے ساتھ چلے ان سب کا بے حد ممنون ہوں۔ آپ کی آراء اور محبتوں کا منتظر رہوں گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
عاطفؔ سعید
محبت کا شاعر
عاطفؔ سعید کی شاعری جذبات اور احساسات کی دھنک کی شاعری ہے۔ سادہ زبان میں جذبوں کا اسطرح اظہار کہ پڑھنے والا ان جذبوں کی صداقت، شدت اور نرمی کو نہ صرف محسوس کرے بلکہ دل کی دھڑکنوں میں ان کی آگہی کبھی مانوس اور کبھی نامانوس ترنم سا چھیڑ دے، عاطفؔ کا اسلوب ہے۔ تعصبات، نفرتوں، شدت پسندی اور تشدد کی بے ہنگم آوازوں میں محبت کا الاپ جو صرف عاطفؔ کی شاعری میں ملتا ہے وہ محض رومانیت نہیں بلکہ روح کی زندگی کے لیے ایک ضرورت ہے۔
(پروفیسر محمد سعید شیخ)
(۱۳ جون، ۲۰۰۹ء)
عاطفؔ سعید صاحبِ توفیق ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ قسمت بھی ہے کہ اس کے پاس چونکا دینے والے شعر بھی ہیں اور حوصلہ بڑھانے والے قاری بھی۔ وہ چند ان نوجوان شاعروں میں سے ہے جنھیں پڑھنے کے لیے قاری بیتاب رہتا ہے۔ اس کی شاعری کا اپنا رنگ اور ڈھنگ ہے جو مانوس بھی ہے اور اچھوتا بھی۔ اس کے ہاں محبت کی اندرونی لہر نظم اور غزل میں ساتھ ساتھ چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ وہ شعر سلاست، روانی اور سہولت سے کہنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری مجھ سمیت تمام پڑھنے والوں کے لیے بوجھل پن میں ڈالے بغیر نشاط و تسکین سے ہمکنار کرتی ہے۔ مجھے اس کا استعاراتی اور علامتی اظہار انفرادیت پسند ہونے باوجود اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے میں تخلیقی وفور میں اسے اپنے لیے عمل انگیز کی حیثیت دیتا ہوں۔ اس کے ہاں خواب، محبت، ہجر، وصال اور جذبوں کی لفظیات مجھے اندر سے ہانٹ کرتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس نے بہت کم عرصہ میں تیسرے پڑاؤ تک کا سفر مکمل کر لیا ہے۔ میں اس کے یقینی کامیاب سفر کے لیے دعا گو ہوں۔ خدا کرے یہ کامرانیاں اور کامیابیاں شعر کی طرح ہمیشہ اس کا مشغلہ رہیں۔
(ارشدؔ ملک)
شاعری بھی محبت کی طرح ہوتی ہے، کی نہیں جاتی۔ سچا اور سُچا شعر وہی ہوتا ہے جو دل سے نکلے اور دل تک پہنچے۔ وارداتِ قلبی کے زیر اثر جنم لینے والی کیفیات جب لفظوں میں ڈھلتی ہیں تو بیشتر کو اس میں اپنی زندگیوں کی جملہ بندی نظر آتی ہے۔ عاطفؔ سعید محبت میں گندھے جذبوں اور ہجر و وصال میں کودتے پھاندتے لمحوں کو جس دل کشی سے اپنی غزلوں اور نظموں میں پروتا ہے یہ میرے نزدیک رب محبت کا اس پر کرم ہے۔ دُعا ہے کہ ربّ محبت آپ کی دعاؤں اور صداؤں کو یونہی پھیلاتا رہے (آمین)
(ناصر محمود خان (ایف ایم ۱۰۱ ))
(جون کی تیرھویں شام، ۲۰۰۹ء)
بحیثیت ایک قاری میں عاطفؔ سعید کی شاعری کے بارے میں یہی کہوں گا کہ عاطفؔ کی شاعری اس دور میں تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی ہے۔ اِن کے لفظوں میں کچھ اثرسا ہے جو پڑھنے اور سننے والے دونوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بہت عام سی باتوں کو عاطفؔ اپنے منفرد اور خوبصورت انداز سے بہت خاص بنا دیتے ہیں اور شاید یہی بات ان کا خاصا ہے۔ قاری ان کی شاعری کو پڑھتا اور اُسے احساس ہونے لگتا ہے کہ شایدیہ میرے ہی بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، جدائی اور خوابوں کی شاعری ہے اور ہر ایک موضوع پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور وہ بات جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اُن کا شائستہ انداز ہے جو آج کل کے نوجوان شعراء میں کم ہی نظر آتا ہے۔ میری دعائیں اور نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔
(ریحان اسدی، پریزنٹر ایف ایم ۱۰۱، کراچی)
عاطف ؔسعید کی شاعری اردو ادب کی دنیا میں ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند ہے۔ جذبوں کو اس خوبصورتی سے لفظوں کی لڑی میں پرویا گیا ہے کہ پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی اِن میں سمٹ آئی ہے۔
احمد بلال (پریزینٹر ایف ایم ۱۰۱، انٹرنیسشنل)
عاطفؔ سعید کو جب پہلی بار پڑھا تو یوں لگا کہ یہ لہجہ کچھ شناسا سا ہے اور پھر اپنی ہی آواز معلوم ہوئی۔ عاطفؔ کو پڑھنے والے ہر قاری کو یہ لہجہ ایسا ہی لگے گا اور یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جلد ہی عاطفؔ عوامی شاعر کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔
(عاصم بشیر، پریزنٹر ایف ایم ۱۰۱، کراچی)
عاطفؔ سعید کی شاعری سراسر نئی آواز ہے، محبت میں گندھا ہوا نیا لہجہ ہے۔ گہرے جذبات کا چھلکتا ہوا، محبت سے بھرپور جیتا جاگتا، کھنکتا لہجہ
(مان منسب (پریزنٹر مست ایف ایم ۱۰۳ فیصل آباد))
’’عجب پاگل سی لڑکی ہے‘‘ وہ نظم ہے جو انٹرنیٹ پر پہلی بار ہی پڑھنے کے بعد مجھے بہت اچھی لگی اور مجھے اس نظم کے خالق کا نام جاننے کا تجسس ہوا۔ نام جان لینے کے بعد اور اس نظم کو کئی بار پڑھنے کے بعد اس نظم نے ہی مجھے عاطفؔ سعید کی شاعری کو پڑھنے پر مجبور کیا۔ محبت جیسا حسین جذبہ ہوا یا دکھ سکھ میں گندھا ہوا کوئی بھی احساس، یہ سب ہی شاعری کی اساس ہیں اور عاطف سعید نے اپنی شاعری میں جس حسیں انداز ان تمام احساسات کا اظہار کا انداز اپنایا ہے کم از کم میں ان کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتا۔ میں نے عاطفؔ سعید کی شاعری کو جب بھی اپنے پروگرامز میں شامل کیا تو شاعری کی دلدادہ سننے والوں کا ان کی شاعری سے متاثر ہو کر غیر معمولی تعریفی کلمات مجھ تک پہچانا ایسی شاعری کے پراثر ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ تمام تعریفی کلمات در اصل صرف میرے نہیں بلکہ غزل اور نظم میں انفرادیت رکھنے والے اور تخلیقی صلاحیتیوں سے معمور شاعر عاطف سعید کے ہیں جو میں آج اس کتاب کی اشاعت پر تہہ دل سے مبارکباد کے ساتھ ان تک پہنچاتا ہوں۔ مری دعا ہے آپ اردو شاعری کی ان بلندیوں تک پہنچو کہ اکیسویں صدی میں جن شعراء کا اپنی شاعری سے اردو شاعری کو دوام دینے اور زندہ رکھنے کا جہاں اور جب بھی ذکر آئے آپ کا نام ان نمایاں ناموں میں سے ایک ہو۔
(حسنی نوید آفریدی (پریزنٹر مست ایف ایم ۱۰۳، کراچی))
سولہ جون کی ایک شام تھی، ہلکی ہلکی بارش کے ساتھ اسلام آباد کی گنگناتی ہوئی مست فضاء میں میری اور عاطفؔ سعید کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اس سے پہلے ہماری ٹیلیفونک ملاقاتیں تھیں جن میں زیادہ تر میرے شو کے سیگمنٹ ’’کلامِ شاعر بزبان شاعر‘‘ میں ہوئیں۔ لیکن اس پہلی بالمشافہ ملاقات میں ایک تو یہ راز مجھ پر آشکار ہوا کہ الفاظ کے اس جادوگر کی شخصیت بھی بالکل ایسی ہے جیسی کہ ان کی شاعری سے ذہن میں ان کا ایک سکیچ ذہن میں بنتا ہے اور دوسرا یہ کہ عاطفؔ سعید کا ہر لفظ ان کے باطن کی آواز ہے۔ جو کبھی ’’ عجب پاگل سی لڑکی ہے‘‘ تو کبھی ’’ تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں‘‘، کبھی ’’ تمہیں بارش بلاتی ہے‘‘ کبھی سانس لینا ہوا محال مجھے‘‘ کی صورت صفحۂ قرطاس پر اترتا ہے۔ ’’مجھے تنہا نہیں کرنا‘‘ سے ’’تمہیں موسم بلاتے ہیں‘‘ تک کے سفر کے ہر موڑ پر عاطفؔ سعید کی شاعری سے کبھی وصل موسم میں مچلتی خواہشیں محسوس ہوتی ہیں اور کبھی ہجر رت کا کرب ہمیں اپنی پوری شدتوں کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ کبھی عشق کی اذیتیں اور کبھی محبت میں قربانی کا جذبہ لفظوں سے چھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ میں عاطفؔ سعید کے شعری سفر کے ہر موڑ پر کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔
(ڈی جے ذوالفقار حیدر (ایف ایم ۹۷ کھاریاں )
٭٭٭
میں تمہیں زندگی نہیں کہتا
تم مجھے زندگی سے پیارے ہو
مجھے تنہا نہیں کرنا
مجھے تم سے یہ کہنا ہے!
مجھے پرچھائیوں، تنہائیوں سے خوف آتا ہے
مجھے تنہا نہیں کرنا
مجھے تم کو بتانا ہے!
مری سوچوں کے جنگل میں
تمہارے نام کے جگنو مجھے رستہ دکھاتے ہیں
انہیں بجھنے نہیں دینا
مری نیندوں کے صحرا میں
تمہارے خواب کا سایہ بہت زیادہ ضروری ہے
اسے گھٹنے نہیں دینا
یہ تم بھی جانتی ہو ناں!
مرے لفظوں کی مالائیں،
مری ساری تمنائیں
تمہارے بن ادھوری ہیں
مری ہر سوچ کے آنگن میں تم ہی جگمگاتی ہو
مرے بے ربط جملوں کو تمہی مصرعے بناتی ہو
مری سب شاعری جاناں!
تمہارے بن ادھوری ہے
مری ہر اک خوشی جاناں!
تمہارے بن ادھوری ہے
مری یہ زندگی جاناں!
تمہارے بن ادھوری ہے
مری تکمیل تم سے ہے
مجھے آدھا نہیں کرنا
مجھے آدھی، ادھوری زندگی سے خوف آتا ہے
کمی جیسی بھی ہو مجھ کو کمی سے خوف آتا ہے
مجھے تم سے یہ کہنا ہے!
کبھی ایسا نہیں کرنا
مجھے تنہا نہیں کرنا
مری تکمیل تم سے ہے
مکمل تم ہی کر دو ناں!
مرے جیون کی تنہائی میں اپنا رنگ بھر دو ناں!
مجھے تم سے یہ کہنا ہے!
مجھے پرچھائیوں تنہائیوں سے خوف آتا ہے
حقیقت آشنا میرے!
کبھی ایسا نہیں کرنا
میں تم بن جی نہیں سکتا
مجھے تنہا نہیں کرنا
٭٭٭
خدا جانے
خدا جانے کہ ایسا کیوں ہمارے ساتھ ہوتا ہے
کہ جن کو آسمانوں پر ہمارے نام لکھا ہے
زمیں پر ہم سے ملنے میں بہت ہی دیر کرتے ہیں
کچھ اتنی دیر کہ ہم تو بھلا دیتے ہیں یہ سب کچھ
کہ کو ئی آسمانوں پر ہمارے نام لکھا ہے
ہمیں بس اس سے ملنا ہے
خدا جانے کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
کہ جیون کے کٹھن رستے اکیلے پار ہو جائیں
جسے اپنا نہیں ہونا ہم اس سے مل نہیں پائیں
ہماری راہ میں آئیں تو راہیں خود بدل جائیں
خدا جانے کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
کہ دل بس اس سے مل پائے
جسے دور آسمانوں پر ہمارے نام لکھا ہے
٭٭٭
تین شعر
وہ جس پہ ٹوٹ کر اب کہ بہار آئی ہے
خزاں کی رت میں وہی پیڑ زرد کتنا تھا
٭٭
جسے میں بھول کہ بھی سوچتا نہیں ہوں اب
مجھے عزیز وہی ایک فرد کتنا تھا
٭٭
مرے خیال کی پوریں جھلس گئیں عاطفؔ
نا مجھ سے پوچھ کہ لہجہ وہ سرد کتنا تھا
٭٭٭
حقیقت آشنا میرے
حقیقت آشنا میرے
تجھے شاید خبر ہو گی
مجھے تیری محبت نے
بہت بزدل بنا ڈالا
میں ہر اس شئے سے ڈرتا ہوں
تجھے جو چھین سکتی ہے
میں ان لمحوں سے ڈرتا ہوں
جدائی جن میں رہتی ہے
میں ان اشکوں سے ڈرتا ہوں
جو بن کر یاد بہتے ہیں
میں ان لفظوں سے ڈرتا ہوں
جو خاموشی میں رہتے ہیں
بچھڑنے کی مرے ہمدم!
میں ہر صورت سے ڈرتا ہوں
تجھے شاید خبر ہو گی
مجھے تیری محبت نے
بہت بزدل بنا ڈالا
حقیقت آشنا میرے
٭٭٭
مجھ کو باتیں کب آتی ہیں؟
میں تو بس خاموش سا شاعر
الفت، چاہت کے رنگوں سے
دل کی خالی تصویروں میں
کوئی محبت بھر دیتا ہوں
اور کبھی اپنے اشکوں سے
بنجر اس من کی دھرتی پر
کوئی محبت بودیتا ہوں
اور کبھی دیوار سے لگ کر
کوئی محبت رو دیتا ہوں
اور کبھی آنکھوں آنکھوں میں
ساری باتیں کہہ جاتا ہوں
میں اپنے اس پاگل پن میں
کتنا تنہا رہ جاتا ہوں
میں تو اک خاموش سا شاعر
مجھ کو باتیں کب آ تی ہیں؟
مجھ کو باتیں گر آتیں تو!
کیا تم مجھ کو چھوڑ کے جاتیں؟
میرے سپنے توڑ کے جاتیں؟
کیا میری آنکھوں میں غم کے
اتنے آنسو دے سکتیں تھیں؟
میرا کل سرمایہ تھا جو
کیا وہ مجھ سے لے سکتی تھیں؟
گر مجھ کو باتیں آتیں تو!
اپنے لفظوں کے جادو سے
میں بھی تم کو خواب دکھاتا
تم سے ڈھیروں پیار جتاتا
تم کو اپنا میت بناتا
میں بھی تم سے وہ سب کہتا
جو تم سننے کی خواہش میں
مجھ کو ایسے چھوڑ آئی تھیں
سارے رشتے توڑ آئی تھیں
میں ٹھہرا خاموش سا شاعر
مجھ کو باتیں کب آتی ہیں
مجھ کو باتیں گر آتیں تو
تم بھی مجھ کو میت بناتیں
میرے سارے خواب سجاتیں
یوں نہ تنہا چھوڑ کے جاتیں
میں ٹھہرا خاموش سا شاعر
کاش مجھے بھی باتیں آتیں!
٭٭٭
شرط
یہ تم جانتی ہو میں ضدی بہت ہوں
انا بھی ہے مجھ میں
میں سنتا ہوں دل کی (فقط اپنے دل کی)
کسی کی کوئی بات سنتا نہیں ہوں
مگن اپنی دھن میں صبح و شام رہنا
کوئی درد اپنا کسی سے نہ کہنا
یہ عادت ہے میری
میں عادت بھی کوئی بدلتا نہیں ہوں
یہ تم جانتی ہو مگر یہ بھی سچ ہے
میں ضد چھوڑ دوں گا
انا کی یہ دیوار بھی توڑ دوں گا
بدل لوں گا ہر ایک عادت بھی اپنی
’’اگر تم کہو گی‘‘
٭٭٭
مری جاں ٹھیک کہتی ہو!!
مری جاں ٹھیک کہتی ہو!
میں سب کچھ بھول جاؤں گا
تمہاری خواب سی آنکھیں
تمہارا شبنمی لہجہ
دبا کر ہونٹ کا کونا تمہارا مسکرانا بھی
مری باتوں سے چڑ جانا
مجھے اکثر ’’برا‘‘ کہنا
مجھے اپنے مقابل جان کر نا بیٹھنے دینا
مرے تحفوں کے ریپرز کو بہت سنبھال کر رکھنا
مرے سنگ واک پر جانا
وہ مجھ سے روٹھ کر کہنا
’’میں واپس جا رہی ہوں تم مرے پیچھے نہیں آنا‘‘
مگر میرے بلانے پر مری جانب پلٹ آنا
مری جاں ٹھیک کہتی ہو
میں سب کچھ بھول جاؤں گا
مگر یہ بات بھی سچ ہے
میں ان لمحوں میں جیتا ہوں
کہ جب یوں بے ارادہ ہی
مرے شانے پہ سر رکھ کر
مجھے تم نے بتایا تھا
’’محبت کے الاؤ میں اکیلے تم نہیں جلتے‘‘
مری جاں تم ہی بتلاؤ!
میں جن میں سانس لیتا ہوں
میں ان اقرار کے لمحات کو کیا بھول سکتا ہوں؟
مری جاں ٹھیک کہتی ہو
میں سب کچھ بھول جاؤں گا
مگر اقرار کے لمحات کیسے بھول پاؤں گا
٭٭
ایک شعر
یہ بات ہی تو مجھے بھولتی نہیں عاطف
وہ بات بات پہ کہتی تھی بھول جاؤ گے
٭٭٭
دیا جلائے رکھنا
اک شجر کٹ گیا
کتنے بے بس پرندوں کا گھر لُٹ گیا
کچھ نہیں کر سکا
بین کرتے پرندوں کو تکتا رہا
کچھ نہیں کہہ سکا
صرف تکتا رہا
کتنا بے بس تھا میں
بے بسی کے اندھیرے کو یوں کم کیا
بیج میں نے وہاں اک نیا بو دیا
٭٭٭
تین شعر
ترے ہونٹوں پہ سج جاؤں دعا ہونے کو جی چاہے
مرا دنیا بھلا کر بس ترا ہونے کو جی چاہے
٭٭
تو میرے روٹھنے پر کچھ مجھے ایسے مناتی ہے
کبھی تو بے سبب تجھ سے خفا ہونے کو جی چاہے
٭٭
کبھی تجھ سے ملے بن زندگی بے کار لگتی ہے
کبھی تجھ سے بچھڑنے کو جدا ہونے کو جی چاہے
٭٭٭
کچھ تو محسوس کر
اے مرے نوجواں!
تو مری بات سن، کچھ تو محسوس کر،
تیرے چاروں طرف جو ہے پھیلا ہوا، اس کو محسوس کر
سب مجھے نوچ کر کھا رہے ہیں یہاں
بات اب کی نہیں بات صدیوں کی ہے
ان کو معلوم ہے، جانتے ہیں وہ سب
کتنی لاشیں گریں کتنے بازو کٹے
کتنی ماؤں کے بیٹے جدا ہو گئے
کتنی بہنوں کے آنچل جلائے گئے
کتنے بچے یتیمی کو اوڑھے ہوئے میری جانب بڑھے!
میں کہ اک خواب تھا ایسے گھر کا جہاں ہر کو ئی رہ سکے
ایک پرچم تلے،
نہ کوئی خوف ہو اور نہ ڈر کوئی
غیر کے سامنے نہ جھکے سر کوئی
میں کہ اک خواب تھاجس کو قائد نے تعبیر تو کر دیا
میرے بچے مگر اس کی تعبیر کے حرف و معانی سمجھنے سے قاصر رہے
خون اپنوں کا خود ہی بہاتے رہے
اپنے لاشوں کو خود ہی اٹھاتے رہے
لا الہ زباں سے تو کہتے رہے
اس کے معنی سے آنکھیں چراتے رہے
متحد نہ ہوئے منتشر ہو گئے
اور ایمان کو بیچ کر سو گئے
نظم و تنظیم کی خوبیاں بھول کر
میرے بچوں کی قربانیاں بھول کر
اپنی دنیا میں گم اس طرح ہو گئے
جوش، جذبے، سبھی ولولے کھو گئے
بات اب کی نہیں بات صدیوں کی ہے
جانتا ہوں کہ سب لوگ ایسے نہیں
میری آغوش میں ایسے بچے بھی ہیں
میری چاہت سے دل جن کے لبریز ہیں
جن کی آنکھوں میں خوابوں کی تعبیر ہے
جو سمجھتے ہیں قائد کے فرمان کو
جانتے ہیں جو اقبال نے کہہ دیا
ان کے دم سے ہی زندہ ہوں میں آج تک
یہ مرا نام ہیں میری پہچان ہیں
اے مرے نوجواں! تو مری بات سن
کل جو گذرا ہے تو بھی اسے دیکھ لے
کس میں تیری بقا ہے اسے جان لے
آنے والا جو کل ہے تیرے دم سے ہے
ایسا بچہ نہ بن جو مجھے نوچ کر پیٹ بھرتا رہے
کام کی عظمتوں کو سمجھ نوجواں
میری مٹی میں سونا ہے تیرے لیے
اپنے قائد کے خوابوں کو تعبیر کر
اپنے اندر کے دشمن کو خود مار دے
میرے ہونے نہ ہونے کو محسوس کر
آنے والا جو کل ہے ترے دم سے ہے
اے مرے نوجواں! سن مری بات سن!
میری فریاد سن، کچھ تو محسوس کر
میرے ہونے نہ ہونے کو محسوس کر
٭٭٭
WARNING
یہ ضروری تو نہیں
کہ جب تمہیں فرصت ملے
اس وقت میں فرصت سے ہوں
٭٭٭
معجزہ
مجھے معجزوں پر یقیں تو نہیں ہے
مگر پھر بھی آنکھوں میں سپنے سجائے
تری راہگذر سے
میں دن میں کئی بار یونہی گذرتا
کہ شاید کبھی آمنا سامنا ہو
توبس ایک لمحے کو تو مجھ کو دیکھے
میں اس ایک لمحے میں جیون بتا لوں
٭٭٭
مصالحت
مجھ سے کہتی ہو کہ تم اپنی محبت لے لو
یہ مجھے خون رلاتی ہے بہت راتوں میں
جن کو سننے سے مجھے میرا پتا ملتا ہے
کھوئی رہتی ہوں صبح و شام انہی باتوں میں
جانتی ہوں کہ بہت تلخ حقیقت ہے مگر
ساتھ چاہوں بھی تمہارے تو نہیں چل سکتی
بات یہ مان لو! تم اپنی محبت لے لو
میں اب اس آگ میں اک پل بھی نہیں جل سکتی
مجھ سے کہتی ہو کہ تم اپنی محبت لے لو
جانِ جاں کیسے تمھیں بات یہ سمجھاؤں میں
آج تک رکھا نہیں میں نے محبت کا حساب
مجھ کو معلوم نہیں کتنی محبت کی ہے
ہاں مگر دل میں تمہارے تو سجی ہے ساری
یوں کرو! میری محبت مجھے واپس کر دو
دیکھ لینا کہ کوئی چیز نہ رہ جائے کہیں
خواب بھی، لفظ بھی اور میری سبھی سوچیں بھی
جو ہوئیں نذر تمہاری وہ مری نیندیں بھی
ساتھ جو ہم نے گزارے وہ سبھی لمحے بھی
مجھ کو معلوم نہیں کتنی محبت کی ہے
کیوں بھلا میرے سہارے کی طلب ہے تم کو
بوجھ لگتی ہے تمہیں میری محبت جاناں!
یوں کرو! میری محبت مجھے واپس کر دو
٭٭٭
انتظار
چلے آؤ!
کہ اب سورج کے ڈھلتے ہی مری آنکھیں!
سیہ ہوتے فلک پر گننے لگتی ہیں ستاروں کو
سنا تھا یہ کبھی میں نے
فلک پر جتنے تارے ہیں
اگر وہ گن لیے جائیں
تو پھر جو بھی دعا مانگیں
وہ پوری ہوکے رہتی ہیں
چلے آؤ!
کہ اب آنکھیں مری تھکنے لگی ہیں
اور دعائیں مانگتے لب بھی
٭٭٭
بے بسی
مرے بس میں اگر ہوتا!
تو میں تجھ کو بھلا دیتا
جو اس دل پہ کھدا ہے نقش وہ تیرا مٹا دیتا
ترے سب خط جلا دیتا
جو میں نے تجھ پہ لکھا ہے
وہ پانی میں بہا دیتا
تری چاہت، محبت کے دیے جو دل میں روشن ہیں
انہیں خود ہی بجھا دیتا
مرے بس میں اگر ہوتا!
تو میں خود کو سزا دیتا
تری پلکیں، ترے آنسو، تری آنکھیں بھلا دیتا
تری خوشبو، ترا لہجہ، تری باتیں بھلا دیتا
جو تجھ کو سوچتے گزریں
وہ سب شامیں بھلا دیتا
وہ جن میں دیپ جلتے تھے تری آنکھوں کے جادو سے
میں وہ راتیں بھلا دیتا
میں وہ صبحیں جو تیرے نام سے آغاز کرتا تھا
انھیں یکسر بھلا دیتا
میرے بس میں اگر ہوتا!
تو میں خود کو سزا دیتا
تجھے دل سے بھلا دیتا
میرے بس میں اگر ہوتا!
٭٭٭
Miss You
خدارا!
تم مجھے اتنا تنگ نہ کیا کرو
کیونکہ
پھر جب تم نہیں ہوتی ہو
تو
میں بہت تنگ ہوتا ہوں
٭٭
دو شعر
یہ جگنو زندگی کی تیرگی میں روشنی دیں گے
خوشی کی ساعتوں کو مٹھیوں میں قید کر لینا
مجھے بھی آشنا کرنا محبت کے عذابوں سے
مری نیندوں کو اپنے رتجگوں میں قید کر لینا
٭٭٭
مرے بے خبر
مرے ہمنشیں، میرے ہمسفر
تجھے کیا پتا، تجھے کیا خبر
مرے لب پہ ٹھہری ہوئی تھی جو وہ ہزار صدیوں کی پیاس تھی
تجھے پا کے مجھ کو لگا ہے یوں
مجھے صرف تیری تلاش تھی
مرے ہمنشیں، مرے ہمسفر
تجھے کیا پتا تجھے کیا خبر
مرے دل میں جتنا بھی پیار ہے
وہ ترے لیے ہے ترے لیے!
میں نے برسوں جس کے لیے لکھا
مرے خواب جس سے سجے رہے
وہ فقط ہے تو، تیری ذات ہے
تجھے کیا پتا، تجھے کیا خبر!
تجھے سوچ کر، تجھے چاہ کر
مرے ہمنشیں یہ یقیں ہوا
تو ہی منزلوں کا سراغ ہے
تو ہی تیرگی میں چراغ ہے
ہے تو ہی وہ جس کے لیے ہوں میں
مری زندگی، مری شاعری
مرا دن بھی، شام بھی، رات بھی
مری خامشی، مری بات بھی
تیرے بن جو گزری گزر گئی
بھلا اس کا کوئی شمار کیوں
مری زندگی ترا ساتھ ہے
ترا پیار میری حیات ہے
مرے ہمنشیں مرے ہمسفر
تجھے کیا پتا، تجھے کیا خبر
ترے پیار سے جو بجھی ہے اب
وہ ہزار صدیوں کی پیاس ہے
٭٭٭
کیا جادو ہے؟
تم ہنس دو تو!
سارا عالم ہنس دیتا ہے
تم گر رو دو!
ہر شئے بھیگی سی لگتی ہے
تم روٹھو تو!
ہر منظر روٹھا لگتا ہے
تم مَن جاؤ!
تو سانسیں چلنے لگتی ہیں
کیا جادو ہے؟
تم سے مل کر جی اٹھتا ہوں
آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں
سب کچھ اچھا سا لگتا ہے
جینا سچا سا لگتا ہے
٭٭٭
تمھیں چھونے کی خواہش میں
تمھیں چھونے کی خواہش میں
نجانے ضبط کے کتنے کڑے موسم
تمہارے سامنے بیٹھے ہوئے میں نے گذارے ہیں
مجھے معلوم ہے چھونے سے تم کو یہ نہیں ہو گا
مرے ہاتھوں کی پوروں پر کئی جگنو دمک اٹھیں
تمہارے لمس کی خوشبو مری رگ رگ میں بس جائے
مگر شاید یہ ممکن ہے تمہارے لمس کو پا کر
سلگتے دل کی دھرتی پر کوئی بادل برس جائے
مگر جاناں حقیقت ہے تمھیں میں چھو نہیں سکتا!
اگرچہ لفظ یہ میرے
تمہاری سوچ میں رہتے، تمہارے خواب چھوتے ہیں
تمھیں میں چھو نہیں سکتا
مجھے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے
میں ڈرتا ہوں کہیں چھونے سے تم پتھر نہ ہو جاؤ
میں وہ جس نے تمھیں تتلی کے رنگوں سے سجایا ہے
میں وہ جس نے تمھیں لکھا ہے جب بھی پھول لکھا ہے
بھلا کیسے میں اس پیکر کو چھو لوں اور ساری عمر
میں اک پتھر کی مورت کو سجا لوں اپنے خوابوں میں
مجھے تم سے محبت سے کہیں زیادہ محبت ہے
تمھیں پتھر اگر کر لوں تو خود بھی ٹوٹ جاؤں گا
سنو جاناں!
بھلے وہ ضبط کے موسم کڑے ہوں ذات پہ میری
تمھیں میں چھو نہیں سکتا
٭٭٭
آنکھیں
جن آنکھوں پر تم مرتے تھے
تم جن کو پہروں تکتے تھے
جن کو کہتے تھے دیپ ہیں یہ
تم جن کو تارہ لکھتے تھے
وہ آنکھیں جو بس تم سے ہی
دل کی سب باتیں کہتی تھیں
کیا تم کو خبر ہے وہ آنکھیں
جس دن سے تم سے بچھڑی ہیں
چھپ چھپ کر کتنا روتی ہیں
٭٭٭
کتھارسس
میں اپنے عکس سے نظریں چرائے پھرتی ہوں
کہ جب بھی آئینہ دیکھوں وہ بول اٹھتا ہے
کہاں گئیں وہ تری جھیل سی حسیں آنکھیں
کہ جن میں آس کی کونجیں قیام کرتی ہیں
کہاں گئے تری پلکوں کے ریشمی سائے
کہ جن کو دیکھ کر ہر شام مسکراتی تھی
کہاں پہ کھو گئی مسکان تیرے ہونٹوں کی
جو گرمیوں کی نرم دھوپ جیسی لگتی تھی
کہاں پہ کھو گیا تیرا اُجال دن چہرہ
کہاں گئی وہ سیاہ رات سی تری زلفیں
کہاں گئی ترے لہجے سے محبت کی کھنک
کہ جس کی تال پہ دل جھوم جھوم جاتا تھا
کہاں گئے ترے شاہ زادیوں سے وہ سپنے
کہ جن کی روشنی پلکوں پہ مسکراتی تھی
کہاں گئی وہ ہتھیلی جہاں لکیروں میں
کسی کا نام تو اکثر تلاش کرتی تھی
کہاں گئی وہ ترے لمس سے مسیحائی
ترے خیال کے جگنو بھی ہو گئے مدھم
کہاں گیا وہ محبت کا استعارہ دل
یہ پوچھتا ہے کہ تم کون ہو بتاؤ نا!
نہیں جواب مرے پاس ان سوالوں کا
سو اپنے عکس سے نظریں چرائے پھرتی ہوں
نہیں ہیں لفظ مرے پاس جن سے یہ کہہ دوں
مری وہ جھیل سی آنکھیں، اُجال دن چہرہ
سیاہ رات سی زلفیں، کھنک وہ لہجے کی
مرے لبوں کی وہ مسکان، سائے پلکوں کے
وہ میرا لمس اور شاہ زادیوں سے وہ سپنے
کہاں گئے ہیں مجھے کچھ خبر نہیں اس کی
وہ جس کو ڈھونڈتی رہتی تھی میں لکیروں میں
وہ نام تو میرے ہاتھوں میں کبھی تھا ہی نہیں
میں اپنے عکس سے یہ بات کس طرح کہہ دوں
مرے وجود کی رعنائیاں تھیں جس کے سبب
جو میری روح میں ہر آن جگمگاتی تھی
وہ بجھ گئی ہے محبت مری نگاہوں میں
وہ دل کبھی جو محبت کا استعارہ تھا
وہاں پر آج کل یادیں قیام کرتی ہیں
میں اپنے عکس سے یہ بات کس طرح کہہ دوں
جہاں پہ آ کہ یہ آسیب ٹھہر جاتی ہیں
وہاں پہ آس کی کونجیں نہیں اترتی ہیں
وہاں پہ شام کوئی مسکرا نہیں سکتی
وہاں پہ اشک ہی آنکھوں میں جگمگاتے ہیں
میں کون ہوں اسے کیسے بھلا میں سمجھاؤں
سو اپنے عکس سے نظریں چرائے پھرتی ہوں
٭٭٭
ہو سکتا ہے
ہو سکتا ہے یاد ہو اس کو بھیگی شام دسمبر کی
ہو سکتا ہے بھول گئی ہو وہ ایسی سب باتوں کو
ہو سکتا ہے میرا سورج اس کا دن چمکاتا ہو
ہو سکتا ہے یادیں میری تڑپاتی ہوں راتوں کو
ہو سکتا ہے عید پہ اب بھی ویسے ہی وہ سجتی ہو
ہو سکتا ہے خود سے اکثر میری باتیں کرتی ہو
ہو سکتا ہے آنکھیں اس کی ایسے ہی بھر آتی ہوں
ہو سکتا ہے یادیں میری اس کا دل بہلاتی ہوں
ہو سکتا ہے یہ سب عاطفؔ میرے دل کا منظر ہو
جو کچھ اس کے بارے سوچوں وہ سب میرے اندر ہو
٭٭٭
خوشی کو بانٹنے والو!
مرے ہمراہ چلتے ہو
میں ہنستا ہوں تو ہنستے ہو
سبھی کو یہ بتاتے ہو
کہ تم مجھ کو سمجھتے ہو
خوشی کے سب زمانے تو
اکھٹے ہم نے دیکھے ہیں
مگر غم کی سیہ راتیں
جو مجھ کو گھیر لیتی ہیں
میں تم کو ڈھونڈتا ہوں تب
کہ شاید روشنی بن کر
سیہ راتوں کو تم دن میں
بدلنے کو چلے آؤ
مگر ایسا نہیں ہوتا
سیہ راتوں کے چنگل سے
چھڑانے تم نہیں آتے
تمہیں اتنا ہی کہنا ہے
میں ہنستا ہوں تو ہنستے ہو
کبھی روتا ہوا دیکھو
تو میرے اشک بھی پونچھو
خوشی کو بانٹنے والو!
کبھی غم بانٹنے آؤ
٭٭٭
دادی امّاں سے ہم قصّے سنتے تھے
دادی امّاں سے ہم قصّے سنتے تھے
بچپن کے وہ دن بھی کتنے اچھے تھے
بے فکری تھی ایسی کہ ہر موسم میں
ہم بستر میں سپنے بنتے رہتے تھے
اتنے ہوتے تھے ہم بھی حسّاس کبھی
چڑیا کے مرنے پر گھنٹوں روتے تھے
چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر ہم اکثر
دیر تلک ویسے ہی ہنستے رہتے تھے
اب سچائی جھوٹی جھوٹی لگتی ہے
جب ہم بچّے تھے تو کتنے سچّے تھے
یاد ہے بچپن کا وہ پہلا پیار مجھے
اک دوجے کو چھپ کے دیکھا کرتے تھے
جانے کیسے بھٹک گئے ہیں عاطفؔ ہم
یہ تو سارے دیکھے بھالے رستے تھے
٭٭٭
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
میں سچ کہوں تو یقیں کرو گی؟
تمہارے لب کی ہر ایک جنبش
تمہاری آنکھوں کی جھلملاہٹ
تمہارے لہجے کی بے قراری
وہ غم میں لپٹیں، وہ دُکھ میں ڈوبیں
بچھڑتے لمحوں کی ساری باتیں
مرے خیالوں میں بولتی ہیں
مگر میں سب کچھ بھلا چکا ہوں
بچھڑتے لمحوں کی ہر نشانی کا عکس دل سے مٹا چکا ہوں
مگر میں اب جو دعا کی خاطر
یہ ہاتھ اپنے اٹھا رہا ہوں
ہیں لب تمہارے ہتھیلیوں میں
وہ لب کے جن کی ہر ایک جنبش
میں ذہن و دل سے مٹا چکا ہوں
وہ یاد اتنا دلا رہے ہیں
بچھڑتے لمحے کہا تھا تم نے
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
٭٭٭
چار شعر
دل کے رشتے تو خاص ہوتے ہیں
دور رہ کر بھی پاس ہوتے ہیں
ہر گھڑی ان کو اوڑھ رکھتا ہے
غم بھی دل کا لباس ہوتے ہیں
مسکراہٹ میں ڈھونڈتے ہیں غم
وہ حقیقت شناس ہوتے ہیں
لوگ کچھ شبنمی ستاروں سے
زیست کا اقتباس ہوتے ہیں
٭٭٭
مشورہ
سنو!
تم سوچ سکتی ہو،
جدائی کے عذابوں پر
کہ تم نادان ہو نہ جانتی ہو
اس جدائی کو،
سنو!
تم سوچ سکتی ہو تعلق ٹوٹ سکتا ہے،
کہ تم اس درد سے نا آشنا ہو
جو رگوں میں خون بن کر بہنے لگتا ہے
تعلق ٹوٹنے کا درد کچھ ایسا ہی ہوتا ہے
سنو!
تم پوچھتی ہو
آپ نے جانا ہے یہ کیسے؟
تو ہمدم!
زندگی کے تجربے یونہی نہیں ملتے
کبھی میں نے بھی سوچا تھا
جدائی کے عذابوں پر
کبھی میں نے بھی سوچا تھا
تعلق ٹوٹ سکتا ہے
تبھی سے ان رگوں میں
خون بن کر درد بہتا ہے
سنو!
تم سوچ سکتی ہو،
مگر بہتر ہے مت سوچو
٭٭٭
تضاد
مجھے اکثر یہ کہتی تھی
کہ اتنی بار کہتے ہو،
’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘
کہ اب سنتی ہوں یہ تم سے
تو دل پاگل نہیں ہوتا
مگر جب آج دانستہ،
اسے میں نے نہیں بولا
’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘
تو اس کی آنکھ بھر آئی
٭٭٭
بے بسی کا عجیب عالم ہے
بے بسی کا عجیب عالم ہے
جا رہی ہے وہ چھوڑ کر مجھ کو
دل یہ کہتا ہے روک لوں اس کو
نام اس کا پکار کر یہ کہوں
تم نہ جاؤ، تمہارے بن میری
زندگی بے قرار گذرے گی
تھام کر ہاتھ اس کا یہ بولوں
مجھ کو تنہا یہاں نہیں رہنا
مجھ کو بھی ساتھ اپنے لے جاؤ
بے بسی کا عجیب عالم ہے
دل میں طوفاں اٹھے ہیں لفظوں کے
پھر بھی ہونٹوں پہ چپ کے تالے ہیں
ہے خبر مجھ کو زندگی میری
زندگی کی ہر اک خوشی میری
اس کے ہونے سے ہی مکمل ہے
پھر بھی میں لب ہلا نہیں سکتا
اس کو جاتے تو دیکھ سکتا ہوں
اس کو واپس بلا نہیں سکتا
بے بسی کا عجیب عالم ہے
٭٭٭
عہد
تمام عمر میں ایسے ہی تم کو چاہوں گی
میں تم سے ایسا کوئی عہد کس طرح کر لوں
میرے جذبات کسی اور کی امانت ہیں
مری دعائیں کسی اور کا مقدر ہیں
مری وفائیں کسی اور کی ہی قسمت ہیں
میں تم سے ایسا کوئی عہد کس طرح کر لوں
مگر یہ عہد ہے میرا کبھی جو بھولے سے
تمہاری یاد مرے دل پہ دستکیں دے گی
تمہاری یاد کو لوٹاؤں گی نہیں خالی
میں اس کے ہاتھ دعاؤں کے پھول بھیجوں گی
٭٭
دو شعر
کیا بتلاؤں ان لمحوں میں کتنا تم کو سوچا تھا
جھیل کنارے جس دم میں نے چاند نکلتے دیکھا تھا
دیر تلک شانے پر میرے تم سر رکھ کر روئی تھیں
’’میرے بن کیا تم جی لو گی‘‘ میں نے اتنا پوچھا تھا ٭٭٭
گذارش
حقیقت آشنا میرے!
ہمیں جیون کے رستوں پر کہاں تک ساتھ چلنا ہے؟
کہاں وہ موڑ ہے جس نے ہمیں تنہائی دینی ہے
کہاں تک تم مجھے تھامو گے جب گرنے لگوں گا میں
کہاں پر اس طرح ہو گا کہ تم مجھ کو نہ تھامو گے
تمہیں آواز دوں گا تم مری جانب نہ دیکھو گے
میں جیتا ہوں یا مرتا ہوں مرے بارے نہ سوچو گے
جنم دن پر کرو گے فون نہ ہی کارڈ بھیجو گے
سنو ساتھی!
ہمیں جیون کے رستے پر جہاں تک ساتھ چلنا ہے
وہاں تک تم مجھے عادی کرو نہ اس طرح اپنا
کہ جب وہ موڑ آئے اور اپنی راہ میں جاؤں
تو اپنے راستے کو اجنبی اپنے لیے پاؤں
٭٭٭
کہا تھا نا!
کہا تھا نا!
مری خاموشیوں کو تم کوئی معنی نہیں دینا
جدائی کی سبھی باتیں مری آنکھوں میں پڑھ لینا
مری اس مسکراہٹ میں،
اگر محسوس کر پاؤ
تو میرے آنسوؤں کی تم نمی محسوس کر لینا
کہیں جو رہ گئی ہے وہ کمی محسوس کر لینا
مری سوچیں!
مرے الفاظ کا جب روپ لیتی ہیں
تمہارا عکس بنتا ہے
مری نیندوں میں جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں
تمہارا ذکر چلتا ہے
تمہاری یاد ماضی کے دریچے کھول دیتی ہے
تمہاری شبنمی آہٹ یہ مجھ سے بول دیتی ہے
کہا تھا نا!
ہمارے درمیاں یہ فاصلے قسمت میں لکھے ہیں
اور اس قسمت کے لکھے کو
بدل تم بھی نہیں سکتیں، بدل میں بھی نہیں سکتا
مگر مشکل یہی ہے ہجر کے پر پیچ رستوں پر
سنبھل تم بھی نہیں سکتیں، سنبھل میں بھی نہیں سکتا
تو بہتر ہے کہ ہم اک دوسرے کی یاد کے ہمراہ ہو جائیں
کہ اب کے اس محبت سے
نکل تم بھی نہیں سکتیں، نکل میں بھی نہیں سکتا
سنو جاناں!
تمہاری شبنمی آہٹ مرے اندر دھڑکتی ہے
مگر جب خامشی سے تم کوئی معنی نہیں لیتیں
تو یہ دل روٹھ جاتا ہے
مرے اندر کہیں پر کچھ اچانک ٹوٹ جاتا ہے
٭٭٭
آؤ دوستی کر لیں
رہنے دوبے کار کی ضد کو
دل کی سن لو!
سوچو! کب تک بند کمرے میں بیٹھی
بارش کی بوندوں کو
کھڑکی پر گیتوں کے مکھڑے اور کچھ منظر لکھتے یونہی دیکھو گی تم
کب تک خود کو روکو گی تم
باہر آؤ! مٹھی میں کچھ بوندیں بھر لو
اپنی سانسوں سے شیشے کو دھندلا کر کے
انگلی سے تم اپنا میرا نام لکھو
پھراُسے مٹاؤ
رہنے دو، بے کار کی ضد کو
دل کی سن کر باہر آؤ
بارش رستہ دیکھ رہی ہے
٭٭٭
تمہارے بعد
دن ڈھلتے ہی
گھر کی دیواروں پہ جیسے
اُگ آتی ہے
اک وحشت سی
٭٭
تین شعر
منتظر اس سے بڑھ کے کیا ہوں گے
ہم نے پلکوں پہ جلائے ہیں چراغ
تم نے بخشے تھے اندھیرے ہم کو
ہم تمہارے لیے لائے ہیں چراغ
اس کی قسمت میں اندھیرا ہو گا
جس نے ہاتھوں میں اٹھائے ہیں چراغ
٭٭٭
Valentine’s Day
کسی نے سرخ پھولوں سے
کسی نے لفظ ڈھونڈے تھے
بتانے کے لیے دل میں چھپی کتنی محبت ہے
محبت سے بھرے منظر میں اک پاگل سی لڑکی نے
نہ پھولوں کو زباں دی تھی
نہ اس کے لفظ بولے تھے
مگر دل میں محبت کے نہاں جتنے سمندر تھے
وہ آنکھوں میں سمٹ آئے
یوں اس نے راز کھولے تھے
٭٭٭
بہت خوش ہوں (ایک دوست کی کامیابی پر)
بہت خوش ہوں،
یوں لگتا ہے مرا قد بڑھ گیا ہے
میں چاہوں تو،
ہاتھوں سے ستارے توڑ سکتا ہوں
پرندوں کی طرح اونچا،
ہوا میں اڑ رہا ہوں
میں چاہوں بھی مرے پاؤں
زمیں پر لگ نہیں سکتے
کہ میں خوش ہوں
بہت خوش ہوں
مری آنکھوں میں جھانکو تو
مرے اندر ذرا دیکھو
زمانے بھر کی خوشیاں ہیں
یہ جی کرتا ہے کہ جھوموں
اور میں بس جھومتا جاؤں
تمھارا نام لکھ کر ہاتھ پر میں چومتا جاؤں
ہوا کی تال پر سوکھے ہوئے پتوں کے سنگ ناچوں
کہ میں خوش ہوں،
بہت خوش ہوں
تمہاری کامیابی پر
کہ تم منزل تلک پہنچیں
تمہارے رخ پہ کھلتی اس خوشی کو دیکھ کر جاناں
مرے اندر خوشی کی شور کرتی آبشاریں ہیں
میں ان کے شور میں گم ہوں
یوں لگتا ہے کہ میں تم ہوں
یہ میری کامیابی ہے
اور اپنی کامیابی پر
بہت خوش ہوں
یوں لگتا ہے مرا قد بڑھ گیا ہے
٭٭٭
بہلاوے
نجومی!
مجھے یہ نہیں پوچھنا ہے!
محبت کی قسمت ملن یا جدائی
کہ میں جانتا ہوں!
نہ یہ پوچھنا ہے،
کہ اس کے ستارے مرے زائچے میں جو داخل ہوئے تو
مری زندگی کیسے تبدیل ہو گی
مجھے ایساکچھ بھی نہیں پوچھنا ہے
نجومی! فقط مجھ کو اتنا بتا دے
کہ میری ہتھیلی میں اس سے جدائی کہاں پر لکھی ہے؟
کہاں ہے وہ ریکھا؟ فقط یہ بتا دے
کھرچ کر ہتھیلی سے اس کو مٹا دوں
میں یہ جانتا ہوں
کہ ایسے مقدر کو تبدیل کرنا تو ممکن نہیں ہے
مگر ایک کوشش تسلی کو دل کی
مرے ہاتھ میں ہے
نجومی! مجھے تو فقط یہ بتا دے
کہاں ہے وہ ریکھا؟
میں اس کو مٹا دوں
ذرا دیر کو ہی بہل جائے یہ دل
ذرا دیر کو میں بھی کچھ سانس لے لوں
نجومی! مجھے تو فقط یہ بتا دے
٭٭٭
بارشوں کے موسم میں
بارشوں کے موسم میں
دل بہت مچلتا ہے
تیرے سنگ چلنے کو
تجھ سے بات کرنے کو
تیری بات سننے کو
دل بہت مچلتا ہے
دل کو کیسے سمجھائیں
ہم کو زندگی بھر اب
بھیگنا بھی ہے تنہا
اور تنہا چلنا ہے
دل کو کیسے سمجھائیں
بارشوں کے موسم میں
تجھ کو یاد کرنا ہے
٭٭٭
جی تو لیں گے!
جی تو لیں گے ہم بنا تیرے مگر ائے ہمنشیں!
اس طرح جیسے جئے کوئی مگر نہ سانس لے
اس طرح جیسے بنا خوشبو کے کوئی گُل رہے
اس طرح جیسے ہو پھیلی چاند کے بن چاندنی
یا کہ ایسے جس طرح ہو راگ کے بن راگنی
جی تو لیں گے ہم بنا تیرے مگر ائے ہمنشیں!
زیست وہ اپنی کہاں کی زیست پھر کہلائے گی
بن ترے یہ زندگی کیا زندگی رہ جائے گی
تجھ سے ملنا اک ادھورا خواب سا ہو جائے گا
اور میرے ساتھ بس اک یاد سی رہ جائے گی
جی تو لیں گے ہم بنا تیرے مگر ائے ہمنشیں!
ہر خوشی ہر دکھ ادھورا ہی مرا رہ جائے گا
اس ادھوری زندگی کا فائدہ کچھ بھی نہیں
بن ترے یہ زندگی ہے اک سزائیِ مستقل
اس سزا میں کچھ کمی کا فائدہ کچھ بھی نہیں
جی تو لیں گے ہم بنا تیرے مگر ائے ہمنشیں!
اس ادھوری زندگی کا فائدہ کچھ بھی نہیں
٭٭٭
گر ترے دل میں محبت نہیں نفرت ہوتی
تو بتا کیا مرے جذبوں میں یہ شدّت ہوتی
موت کے سامنے یوں تن کے کھڑا کیوں ہوتا
زندگی مجھ کو اگر تجھ سے محبت ہوتی
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹا بھی دیتا
منحصر میری لکیروں پہ جو قسمت ہوتی
میں جدائی کے عذابوں سے بھلا کیوں ڈرتا
گر محبت میرا پیشہ میری عادت ہوتی
پیار کے کتنے فسانوں کی یہی منزل تھی
خُود کشی کی جو مذاہب میں اجازت ہوتی
میں اگر تجھ سے بھی چاہت کی تمنّا رکھتا
یہ محبت نہیں ہوتی یہ تجارت ہوتی
دیکھ لیتا تیری آنکھوں میں جو پھیلا کاجل
تو جدائی کی گھڑی اور قیامت ہوتی
دکھ نہیں تھا جو بچھڑنے کا تو یہ حالت تھی
گر تمہیں دکھ کوئی ہوتا تو کیا حالت ہوتی
٭٭٭
تم سے کچھ نہیں کہنا!
گو کہ کہنے والی تو
بے حساب باتیں ہیں
اور میری جھولی میں
بے شمار راتیں ہیں
بے شمار راتیں جو
جاگ کر گذاری ہیں
کس طرح مرے دل سے
ناگ بن کے لپٹی ہیں
بے شمار راتوں میں
ان گنت وہ لمحے ہیں
جن کی بند مٹھی میں
خوشبوؤں سی باتیں ہیں
بے شمار راتوں کی
بے حساب لمحوں کی
اَن کہی سبھی باتیں
صرف تم سے کہنی ہیں
نہ کہیں تو وہ باتیں
بے حساب لمحوں کی
زندگی کی راہوں کو خار خار کر دیں گی
پھر بھی یہ ارادہ ہے
زندگی کی راہوں میں
پاؤں خوں سے رنگ جائیں
ان کہی سبھی باتیں
ناگ بن کے ڈس جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
٭٭٭
شام
کب تلک نم رکھو گی یہ آنکھیں
کب تلک یاد یوں کرو گی مجھے
کب تلک سوچتی ہی جاؤ گی
کب تلک میرے خواب دیکھو گی
کب تلک درد کو چھپاؤ گی
کب تلک نام یوں لکھو گی مرا
اپنے ہاتھوں کی ان لکیروں پر
کب تلک دل کو تم سزا دو گی
کب تلک یوں دکھی رہو گی تم
شام تو روز آئے گی جاناں!
٭٭٭
عید ہو جائے
دھنک رنگ چوڑیاں پہنے
سجے ہوں ہاتھ مہندی سے
لگائے آنکھ میں کاجل
ہمارے سامنے آ کر
مبارک عید کی تم دو
ہماری عید ہو جائے
٭٭٭
مجھے تم یاد آؤ گے
نہ میں لفظوں کا قیدی تھا
نہ جملوں کی کوئی زنجیر میرے فیصلوں کو روک پائی تھی
مگر جانے ہوا کیسے
تمہارے ایک جملے نے
مجھے لفظوں کا قیدی کر دیا
بالکل بدل ڈالا
بچھڑتے وقت دھیرے سے تمہارا یہ مجھے کہنا
’’مجھے تم یاد آؤ گے ٭٭٭
مری حد سے نکلتی جا رہی ہو
مری جاں! تم بدلتی جا رہی ہو
تمہیں کیا چاہیئے میرا سہارا
کہ اب تم خود سنبھلتی جا رہی ہو
بہت ہی دور لے جائیں گے مجھ سے
یہ جن رستوں پہ چلتی جا رہی ہو
گزرتی جا رہی ہے عمر ایسے
کہ جیسے شام ڈھلتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا تمہیں کچھ دکھ نہیں ہے
تو پھر کیوں ہاتھ ملتی جا رہی ہو
تمہارے آنسوؤں نے کہہ دیا ہے
کہ تم اندر پگھلتی جا رہی ہو
٭٭٭
سوال
جب ہر سو بادل چھائے ہوں
اور تیز ہوا کے جھونکے ہوں
کچھ شوخ لٹیں ہوں چہرے پر
اور شام کے گہرے سائے ہوں
جب دور کسی بھی رستے پر
اک لڑکا لڑکی چلتے ہوں
بے معنی باتیں کرتے ہوں
آنکھوں سے چھلکتی ہو شوخی
وہ ہنستے ہوں بس ہنستے ہوں
ایسے موسم میں، منظر میں
کیا میری یاد ستاتی ہے؟
یہ بات ہے پچھلے وقتوں کی
یہ بات ہے پچھلے وقتوں کی
کچھ لوگ بہت ہی ظالم تھے
دل ان کے بھرے تھے چاہت سے
لیکن اقرار سے ڈرتے تھے
ہو لفظوں سے یا آنکھوں سے
وہ ہر اظہار سے ڈرتے تھے
ان کا یہ شیوہ ہوتا تھا
زندہ جذبے دفناتے تھے
یہ بات ہے پچھلے وقتوں کی
کچھ لوگ بہت ہی ظالم تھے
٭٭٭
ایک منظوم خط
تمہیں میں دوست کہتا تھا
تمہیں اپنا سمجھتا تھا
عجب اک خوش گمانی سی مجھے دن رات رہتی تھی
کہ تم بھی دوست ہو میری
مجھے اپنا سمجھتی ہو
مرے ہونے نہ ہونے سے تمہیں بھی فرق پڑتا ہے
مگر میں آج سمجھا ہوں کہ ایسا ربط ہی کب تھا
بہت ہی تلخ ہے لیکن مجھے یہ بات کہنی ہے
مری وہ خوش گمانی مر گئی ہے آج سینے میں
مجھے معلوم ہے آنسو مری پوروں پہ مہکیں گے
میں اجڑی آرزوؤں کے کئی نوحے بھی لکھوں گا
مگر میں کیا کروں شاید یہی قسمت میں لکھا ہے
بہت نادان ہو تم بھی
بہت خوش فہم رہتی ہو
تمہیں یہ علم ہی کب ہے
کہ غم بے اعتنائی کا
ہر اک غم سے بڑا غم ہے
اور اس حیرت بھرے غم کی جو شدّت ہے
سمجھ لو وہ کسی ’’سوری‘‘ سے کم ہو ہی نہیں سکتی
یہ ایسا زخم ہے جو لاکھ چاہیں بھر نہیں سکتا
یہ ایسے اشک ہیں جو لاکھ چاہیں رو نہیں سکتے
یہ وہ پودا ہے کہ جو کاٹنے سے اور بڑھتا ہے
تمہیں یہ علم ہی کب ہے
مرے اندر جو ٹوٹا ہے وہ واپس جڑ نہیں سکتا
مری وہ خوش گمانی پھر سے زندہ ہو نہیں سکتی
مجھے تم سے یہ کہنا ہے
تمہارا اور میرا ساتھ بس اتنا ہی تھا شاید
تمہارے ساتھ گذرے وقت کو میں یاد رکھوں گا
کسی بھی بات سے میری تمہارا دل دکھا ہو تو
مجھے تم معاف کر دینا
میں چلتا ہوں خدا حافظ
تو کیا ہو گا؟
چلو رستہ بدلتے ہیں
کہیں انجان راہوں پر
کسی انجان منزل کی طرف آؤ نکلتے ہیں
ہمیں ہمراہ چلنا تھا
مگر شاید نہیں ممکن
ہمیں رستہ بدلنا ہے
چلو رستہ بدلتے ہیں
تم اپنے راستے جاؤ
میں اپنی راہ چلتا ہوں
مرے ہمدم! یہ جیون ہے
یہاں راہیں بہت سی ہیں
کسی سے دور جانے کو
ہمیں بھی دور ہونا ہے
چلو اب دور ہوتے ہیں
غموں سے چور ہونا ہے
غموں سے چور ہوتے ہیں
مگر جاناں ذرا سوچو!
کہ ہم رستہ بدل تو لیں
مگر انجان راہوں پر
کہیں انجان رستوں پر
تمہاری راہ میرے راستوں نے پھر اگر کاٹی
تو کیا ہو گا؟
٭٭٭
میں تمہیں یاد کیوں نہیں آتا؟
کیا تم اس کے سبب سے واقف ہو؟
یاد سے دل کا رابطہ جب بھی
اک نئی سمت اوڑھ لیتا ہے
ذہن ماضی کے سب کواڑوں کو
ایسے سختی سے بند کرتا ہے
جیسے سرما کی رات میں کوئی
گھر کی سب کھڑکیوں کو بند کرے
اور باتیں وہ گذرے لمحوں کی
ڈائری میں ہو جیسے پھول کوئی
سال دو سال میں کبھی جس پر
یوں ہی اک سرسری نگاہ پڑے
اور چہرے پہ مسکراہٹ کی
ایک ہلکی لکیر کھنچ جائے
کیا تم اس کے سبب سے واقف ہو
مرکز دید جو بھی منظر تھے
کس طرح وہ چھپے پس منظر
کیسے آنکھوں کو دل یہ بھول گیا
گذری باتوں کو دل یہ بھول گیا
اور نقش قدم وہ ماضی کے
جانتے ہو کہ مٹ گئے کیسے
کیسے تحریر وصل کاٹی گئی
ہجر کی سنگدل سیاہی سے
گیت کیسے ڈھلے ہیں آہوں میں
کیسے اشکوں میں ڈھل گئی خوشیاں
کیا تم اس کے سبب سے واقف ہو
دل مرا آج تک نہیں بدلا
اتنا مصروف تو میں تب بھی تھا
جتنا مصروف آج رہتا ہوں
اتنی چاہت تو دل میں اب بھی ہے
جتنی اس وقت میرے دل میں تھی
شعر ویسے ہی اب کہتا ہوں
جیسے اس وقت بھی میں کہتا تھا
یاد سے دل کے رابطے نے ابھی
اک نئی سمت بھی نہیں اوڑھی
مرکز دید جو بھی منظر تھا
وہ ہی منظر ہے اب بھی آنکھوں میں
گذرے لمحوں کے نقشِ پا دل پر
میں نے اب تک سنبھال رکھے ہیں
جن سے لپٹے ہوئے تھے خواب مرے
میں وہ آنکھیں ابھی نہیں بھولا
جن سے جینے کا ڈھنگ سیکھا تھا
میں وہ باتیں ابھی نہیں بھولا
کوئی یادیں ابھی نہیں بھولا
تم مجھے بھول گئی ہو شاید
دل سے یہ واہمہ نہیں جاتا
تم ہی اس کے سبب سے واقف ہو
میں تمہیں یاد کیوں نہیں آتا؟
٭٭٭
Confusion
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
بہت کچھ کر بھی لوں لیکن
کمی کیوں پھر بھی رہتی ہے
مری آنکھوں میں، لہجے میں
نمی کیوں پھر بھی رہتی ہے
٭٭٭
حقیقت آشنا ہوں میں
حقیقت آشنا ہوں میں
کوئی وعدہ نہیں کرتا
تجھے میں یاد رکھوں گا
وہ آنکھیں یاد رکھوں گا
جنہیں پہروں میں تکتا تھا
وہ باتیں یاد رکھوں گا
جنہیں سنتے نہ تھکتا تھا
ترے سنگ خشک پتوں پر
ٹہلنا یاد رکھوں گا
حقیقت آشنا ہوں میں
کوئی وعدہ نہیں کرتا
مگر اتنا یقیں ہے کہ دسمبر جب بھی آئے گا
یا بارش جب بھگوئے گی
یا کوئی غم ستائے گا
یا خوشیوں کا سماں ہو گا
یہ آنکھیں تجھ کو ڈھونڈیں گی
یہ دل تجھ کو پکارے گا
میں ہر اک اجنبی چہرے میں تیرا عکس ڈھونڈوں گا
حقیقت آشنا ہوں میں
مگر دل کو سمجھتا ہوں
٭٭٭
دعا (روشنی کے لیے)
میں تیری سالگرہ پر دعا یہ کرتا ہوں
خدا کرے کہ تری زندگی کے دامن میں
نہ ایک پل کو دکھوں کی سیاہ رات رہے
خوشی کے پھولوں سے مہکے سدا ترا آنگن
ترے لبوں پہ کھنکتی رہے ہنسی ہر دم
خدا کرے کہ تری زندگی کے دامن میں
غموں کے جتنے بھی لمحے ہیں وہ سبھی لمحے
خوشی کے سال بنیں اور بے مثال بنیں
دعا یہ ہے کہ خدا تیری زندگانی کو
مسرتوں کے ستاروں کے نور سے بھر دے
ترے نصیب میں خوشیوں کی کہکشاں کر دے
میں تیری سالگرہ پر دعا یہ کرتا ہوں
٭٭٭
چلو یہ مان لیتے ہیں
چلو یہ مان لیتے ہیں!
کہ تیرے اور میرے درمیاں رشتہ نہیں کوئی
نہ تو میرے لیے دل میں کسک محسوس کرتی ہے
نہ میرے دل میں تیرے نام سے طوفان اٹھتا ہے
نہ تو باتوں کو میری یاد کر کے ہنستی رہتی ہے
نہ میں تیری ہنسی کے واسطے باتیں بناتا ہوں
نہ تو میرے لیے نظموں کے گلدستے سجاتی ہے
نہ میں تیرے لیے لفظوں کے موتی چنتا رہتا ہوں
نہ تیرے دل میں کوئی خوف ہے کہ ہم جدا ہوں گے
نہ میں اگلے جہاں کی بات دل میں لایا کرتا ہوں
نہ میرے ہاتھ میں تیرے لیے تحریر الفت ہے
نہ تیرے دل میں میرے واسطے کوئی محبت ہے
بھلا اب اور اپنے درمیاں کیسا تعلق ہو
ہمارے درمیاں تو اجنبیت بھی نہیں باقی
نہ تو میرے لیے اک اجنبی ہے ناشناسا ہے
نہ میں تیرے لیے اک اجنبی ہوں نا شناسا ہوں
ہمارے دل نہیں مانیں مگر ہم مان لیتے ہیں
کہ تیرے اور میرے درمیاں رشتہ نہیں کوئی
چلو ہم مان لیتے ہیں
٭٭٭
دل کا عنوان کہا کرتے تھے
تم مجھے جان کہا کرتے تھے
واقعی مجھ سے محبت ہے تمہیں
ہو کے حیران کہا کرتے تھے
’’تم نے کچھ مجھ سے کہا ہے شاید‘‘
بن کے انجان کہا کرتے تھے
یاد ہے مجھ سے ملے تھے جب تم
دل کو سنسان کہا کرتے تھے
بیٹھے رہتے تھے مرے چرنوں میں
مجھ کو بھگوان کہا کرتے تھے
لوگ جس بات کو ضد کہتے تھے
تم اسے مان کہا کرتے تھے
٭٭٭
ایک شعر
ایک لمحے کو رہا ہاتھ تیرا ہاتھوں میں
ایک لمحہ وہ میری زیست کا حاصل ٹھہرا
٭٭٭
چلے بھی آؤ
چلے بھی آؤ!
کہ میں تو خود کو تمہارے رنگوں میں رنگ چکا ہوں
تمہارے سانچوں میں ڈھل چکا ہوں
تمہارے کہنے پہ آ کے دیکھو
میں خود کو کتنا بدل چکا ہوں
٭٭٭
بچھڑتے لمحوں میں اک خیال
آج بھی ویسا ہی موسم ہے
آج بھی ویسے ہی بادل ہیں
آج بھی ویسی ہی بارش ہے
جب ہم پہلی بار ملے تھے
یاد ہے، ہم نے یہ سوچا تھا
ہم کو ملتے دیکھ کہ موسم
اتنا خوش ہے، اتنا خوش کہ
اس کی آنکھیں بھیگ گئی ہیں
آج مگر ہم جان گئے ہیں
موسم اس دن کیوں رویا تھا
٭٭٭
محبت کم نہیں ہو گی
مجھے محسوس ہوتا ہے محبت کم نہیں ہو گی
تمہاری بے رخی سے
یا مجھے یکسر بھلانے سے
یا میرے ضبط کی ہر آخری حد آزمانے سے
مجھے بے چین رکھنے سے
مجھے ایسے ستانے سے
مجھے محسوس ہوتا ہے
محبت کم نہیں ہو گی
٭٭٭
دکھوں میں مسکرانا پڑ گیا تو
تمہیں آنسو چھپانا پڑ گیا تو
اے میری یاد میں گم ہونے والے
اگر مجھ کو بھلانا پڑ گیا تو
یقیں ہے جس پہ خود سے بھی زیادہ
اسے گر آزمانا پڑ گیا تو
وہ جن پر یاد کے کانٹے اگے ہیں
انہی رستوں پہ جانا پڑ گیا تو
مری جاں! نام میرا یاد رکھو
اگر مجھ کو بلانا پڑ گیا تو
طلب تو ایک بچے کی طرح ہے
اگر اس کو سلانا پڑ گیا تو
ہوا سے دوستی اچھی ہے لیکن
تمہیں دیپک جلانا پڑ گیا تو
کرو وعدہ مگر یہ سوچ لینا
اگر وعدہ نبھانا پڑ گیا تو
سنو! اس روشنی کی آرزو میں
کسی کا گھر جلانا پڑ گیا تو
یہ سوچو بے وفا لوگوں کو عاطفؔ
وفا کیا ہے بتانا پڑ گیا تو
٭٭٭
واپسی کا دروازہ
دور جانے والے تو
لوٹ کر نہیں آتے
یہ خبر مجھے بھی ہے
پھر بھی آس ہے دل میں
اس لیے تیری خاطر
واپسی کا دروازہ!
میں نے کھول رکھا ہے
٭٭٭
مجھے معلوم ہے
مجھے معلوم ہے کہ تم بہت مصروف رہتی ہو
بہت سے کام ہوتے ہیں
کبھی گھر کی صفائی ہے
کبھی کھانا بنانا ہے
کبھی پڑھنا، پڑھانا ہے
کبھی بازار جانا ہے
تمہیں دن بھر میں فرصت کا کوئی لمحہ نہیں ملتا
مجھے معلوم ہے دن کے انہی مصروف لمحوں میں
مری سوچوں سے تم اک پل کو بھی غافل نہیں ہوتیں
تمہیں احساس ہوتا ہے
کہ میں ہوں منتظر کب سے
تمہارے ایک جملے کا
جو اِس احساس کی لَو کو نئی اِک زندگی دے دے
کہ تم نے یاد رکھا ہے
مجھے مصروف لمحوں میں
مجھے معلوم ہے کہ تم بہت مصروف رہتی ہو
مگر پھر بھی جو ممکن ہو
تو اس احساس کی لَو کو نئی اک زندگی دے دو
٭٭٭
اجنبیت بھی ایک رشتہ ہے
درد ہی درد کو سمجھتا ہے
میں بھی تیار ہوں سزا کے لیے
خواب میں نے بھی ایک دیکھا ہے
میں تو جس راستے پہ چلتا ہوں
وہ تری سمت جا نکلتا ہے
تو بھی دنیا کا فرد ہی نکلا
تو بھی مجھ کو کہاں سمجھتا ہے
دیکھ آنکھیں چمک رہی ہیں مری
دیکھ اک شعر مجھ پہ اترا ہے
آج پھر ڈس رہی ہے تنہائی
آج پھر میں نے تجھ کو سوچا ہے
اے غمِ یار! بخش دے مجھ کو
کیوں مجھے تو اداس کرتا ہے
٭٭
محبت سے مرا دل بھر دیا ہے
مجھے تم نے مکمل کر دیا ہے
٭٭٭
You Will Miss Me
کبھی جب میں نہیں ہوں گا
تمہیں سب یاد آئے گا
وہ میری بے کراں چاہت
تمہارے نام کی عادت
وہ میرے عشق کی شدت
وصال و ہجر کی لذت
تمہاری ہر ادا کو شاعری کا رنگ دے دینا
خود اپنی خواہشوں کو بے بسی کا رنگ دے دینا
تمہیں سب یاد آئے گا
وہ میری آنکھ کا نم بھی
وفاؤں کا وہ موسم بھی
جنوں خیزی کا عالم بھی
مری ہر اِک خوشی، غم بھی
مرا وہ مسکرا کر درد کو دل سے لگا لینا
تمہاری خواب سی آنکھوں کا ہر آنسو چرا لینا
تمہیں سب یاد آئے گا
تمہاری سوچ میں رہنا
تمہاری بے رُخی سہنا
بھُلا کر رنجشیں ساری
فقط ’’اپنا‘‘ تمہیں کہنا
تمہارے نام کو تسبیح کی صورت بنا لینا
تمہارے ذِکر سے دل کا ہر اِک گوشہ سجا لینا
ابھی تو مسکرا کر تم مری باتوں کو سنتی ہو
مگر یہ جان لو جاناں!
تمہیں سب یاد آئے گا
کبھی جو میں نہیں ہوں گا
٭٭٭
دھنک
٭
خشک پتوں کی طرح ساتھ چلوں گا اس کے
اب تو جس سمت بھی مجھ کو یہ ہوا لے جائے
٭
اس طرح بھول نہیں سکتے تھے
تم اگر مجھ سے محبت کرتے
٭
تجھ سے بچھڑا ہوں تو اکثر میں یہی سوچتا ہوں
زندگی اور قیامت تو نہیں ہو سکتی
٭
یہاں تو جیون کی ہر کہانی بدل گئی ہے
کہیں پہ راجہ کہیں پہ رانی بدل گئی ہے
٭
کوئی دکھ تھا ملال تھا کیا تھا
دل میں تیرا خیال تھا کیا تھا
جس طرح سے مجھے بھلایا تھا
وہ تمہارا کمال تھا کیا تھا
٭
یہ آئنے میں مجھے پھر بہت ستاتی ہیں
خدارا تم مری آنکھوں کو کچھ کہا نہ کرو
٭
بہت مجبور ہو کر کہہ رہا ہوں
کہ تم بن اب جیا جاتا نہیں ہے
٭
کون تھا اُس دم، مجھے کس نے پکارا، دیکھتا
ڈوبتے لمحے بھلا کیسے کنارا دیکھتا
موم کا ہے دل مگر اس کی اَنا پتھر کی ہے
کس طرح عاطفؔ بھلا کوئی سہارا دیکھتا
٭
بھلا کیوں بات کو الجھا رہی ہو
یہ کہہ دو چھوڑ کر تم جا رہی ہو
٭
تمہاری جاگتی، روئی ہوئی آنکھوں کی قسم
مجھے بھی تم سے بچھڑنا محال لگتا ہے
٭
آج پھر رات کو روئے گا سمندر عاطفؔ
آج پھر ریت پر کچھ لکھ کہ مٹایا اس نے
٭
مرے الفاظ کو پڑھ کر مرا اندر سمجھ لیتا
کوئی ایسا یہاں ہوتا جو یہ منتر سمجھ لیتا
جدائی جان لیتی ہے اسے ادراک تھا اس کا
اگر وہ نا سمجھ ہوتا مجھے کھو کر سمجھ لیتا
٭
زہر پھولوں میں نہیں تھا پھر کیوں
ہونٹ سب تتلیوں کے نیلے تھے
درد تو ہے مگر سکوں بھی ہے
ہم نے یہ زخم خود ہی چھیلے تھے
٭
کیا کہوں تم سے تعلق کا یہ کیسا موڑ ہے
گفتگو کا رخ مڑا ہے اب بہانوں کی طرف
٭
حوصلہ اس سے بڑھ کے کیا ہو گا
بن ترے زندگی گزاری ہے
اس قدر درد اس سے ملتا ہے
جس سے جتنی پرانی یاری ہے
کوئی طوفان آنے والا ہے؟
کیوں فضا پر سکوت طاری ہے
٭
اپنے ترکش کے تیروں کی گنتی کرو
میرے گھاؤ گنو گے تو تھک جاؤ گے
٭
موسم کی پہلی بارش میں
اس نے مجھ کو سوچا ہو گا
٭
جس جگہ پر لوگ اپنی نفرتیں دفنا سکیں
شہر میں ایسا بھی قبرستان ہونا چاہیے
٭
ہر قدم پر تری یادوں سے لپٹ جاتا ہوں
اب تو مشکل ہے بہت تیرے نگر میں رہنا
میں یہ لکھ لکھ کے اُسے بھیج رہا ہوں عاطفؔ
تم کو رہنا ہو تو پھر میری نظر میں رہنا
٭
وہ تو کب کی بھول بیٹھی ہے تجھے
تم بھی اب پھینکو یہ ٹوٹی چوڑیاں
٭
تجھے ہو گی طلب کیا چاہتوں کی
تجھے تو اک زمانہ چاہتا ہے
٭
میں تجھ کو سوچ کے کتنا ہوں خوش کسے معلوم
جو بات تجھ میں ہے وہ ہی ترے خیال میں ہے
٭
یہ رستے تو یونہی رہتے کٹھن پُر پیچ اور دشوار
مگر تم ساتھ چلتے تو سفر آسان ہو جاتا
چلو مانا بچھڑ کر تم بھی ہم سے خوش نہیں رہتے
مگر جاناں ہمارا تو بہت نقصان ہو جاتا
٭
کہیں ایسا نہ ہو یہ عادتیں اک روگ بن جائیں
مری تنہائی مت بانٹو مجھے تنہا ہی رہنے دو
مری آنکھوں کو عادت ہو گئی ہے تیرے ہاتھوں کی
کہا تھا اشک مت پونچھو، کہا تھا ان کو بہنے دو
٭
میں تمہیں زندگی نہیں کہتا
تم مجھے زندگی سے پیارے ہو
٭
یہ میری زیست کی سب سے بڑی تمنا تھی
وہ میرے پاس مرے نام کی طرح رہتا
٭
مرے اندر بہت غم ہے مجھے کچھ دیر سونے دو
مرا لہجہ ابھی نم ہے مجھے کچھ دیر سونے دو
کہ جیسے رات ہو تھر کی، کہ جیسے شام پت چھڑ کی
مرے اندر یہ موسم ہے، مجھے کچھ دیر سونے دو
٭
تم مل کر یہ سوچتا ہوں میں
زندگی اتنی مختصر کیوں ہے
٭٭٭
٭
تشکر: کتاب ایپ
www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں