فہرست مضامین
مولانا مناظر احسن گیلانی
مکتوب نگاری اور دوسری صلاحیات
جناب امان اللہ راٹھور
اردو میں خطوط نگاری کے حوالے سے ہمیں دینی شخصیتوں پر ان کی قائدانہ حیثیت کے باعث خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ان علماء کی قیادت متعدد گوشوں میں سامنے آتی ہے۔ وہ تصوف اور روحانیت کے امور میں رہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں سیاست میں بھی قائدانہ حیثیت حاصل ہے۔ وہ دینی قیادت پر بھی سرفراز ہیں۔ انہیں شعر و ادب میں بھی امامت کا درجہ حاصل ہے۔ وہ معلّمِ اخلاق بھی ہیں اور درس و تدریس میں بھی انہیں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ وہ تزکیہ و تصفیۂ باطن کے ماہر بھی ہیں۔ انہیں مجاہدانہ سر گرمیوں اور حریت و آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتوں کے باعث مجاہدینِ آزادی کا رتبہ بھی حاصل ہے۔ ان تمام حیثیتوں کی بنیاد پر ان کے خطوط دوسرے ادیبوں اور شاعروں کے مقابلہ میں منفرد نظر آتے ہیں۔ ان علمائے دین میں ایک اہم شخصیت مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی ہے۔ وہ ایک عالم دین ،فلسفی ، مصنف ، صوفی ، ماہرِ تعلیم ، متکلم اور مفسر ہیں۔ قرآن و حدیث پر ان کی محققانہ نظر انہیں معاصر علماء میں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ تاریخ و سیر پر ان کی محکم گرفت انہیں ایک بالغ نظر مورخ کی حیثیت دیتی ہے۔ تعلیم و تربیت پر ان کی گہری نظر انہیں ایک ماہر تعلیم کی حیثیت سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے متنوع اور منفرد خیالات پر ہم انہیں ایک جامع علوم دانش ور کہہ سکتے ہیں۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کے خطوط میں ان کی تمام علمی حیثیتیں جمع ہو گئی ہیں۔ ان خطوط میں جہاں ان کی منفرد آراء نظر آتی ہیں وہیں ان کی ناقدانہ بصیرت بھی سامنے آتی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کے حالات و واقعات کے علاوہ قومی و ملکی معاملات پر ان کا تجزیاتی نقطۂ نظر بھی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ اظہار رائے میں وہ سرّیت اور غموض کے قائل نہیں۔جو بات انہیں کہنا ہوتی ہے وہ بغیر تکلّف کے کہہ دیتے ہیں۔ کسی لومۃ لائم کا ڈر انہیں اظہارِ حقیقت سے نہیں روکتا۔ وہ اپنوں کے بارے میں بھی اتنے ہی حق بین و حق گو ہیں جتنے اغیار کے بارے میں بے باک ہیں۔ ان کے خطوط ان کے دور کے سیاسی حالات کے اتار چڑھاؤ کا مرقع ہیں۔ان میں بیسویں صدی کے پاک و ہند کے سیاسی تموّج کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ سیاسی ، قومی اور ملکی معاملات میں اپنا ایک خاص نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ، لیکن ان کی رائے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے پاس دلائل و براہین کا انبار ہے۔ وہ تاریخی تناظر میں حالات کا تجزیہ کر تے ہیں۔ انہیں قرآن و حدیث کے علاوہ عصری علوم سے بھی بہرۂ وافر عطا ہوا۔ ان کی درّاک طبیعت اور اخّاذ ذہن نکتہ آفرینی میں بھی منفرد ہے۔ وہ شخصیتوں پر تبصرہ کرتے ہیں تو بھی کسی قسم کے تعصّب کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کے خطوط میں معاصر شخصیتیں بھی زیرِ بحث آتی ہیں اور مختلف حوالوں سے بعض تحریکیں بھی ان کی تنقید کا نشانہ بنی ہیں۔ وہ افراد پر بھی بے لاگ تنقید کرتے ہیں اور اجتماعی معاملات پر بھی غیر جانب دارانہ تبصرہ کرتے ہیں۔انہیں اداروں ، تحریکوں اور شخصیتوں کی نسبت قرآن و سنت سے مستنبط رہ نما خطوط اور روشنی کا زیادہ لحاظ ہوتا ہے۔ صدیوں کے تاریخی واقعات کھلی کتاب کی مانند ان کے حافظے کی سطح پر ہر وقت اور ہر معاملے میں موجود رہتے ہیں۔ ان کا مفکرانہ ذہن قرآنی بصیرت کی روشنی میں معاملات پر غور و فکر کرتا ہے۔ ان کی طبیعت میں استغناء کا مادہ زیادہ تھا، تاہم اپنے معاصرین کے ساتھ ان کے تعلق و ربط کا یہ عالم تھا کہ ریاست حیدرآباد کے علم پرور وزیر اعظم مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو بھی ان سے نیاز مندانہ تعلق خاطر تھا اور اپنے زمانے کے ممتاز روحانی پیشوا مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کو بھی ان کے تمام مناظر احسن نظر آئے تھے۔۱؎
مولانا گیلانی اخذ و اکتساب کے معاملے میں بھی کسی کوتاہی کا شکار نہیں ہوتے۔ انہوں نے دار العلوم دیو بند سے بھی فیض حاصل کیا اور بہ قول مولانا عبدالماجد دریابادی: ندویوں سے بڑھ کر ندوی ثابت ہوئے۔ ۲؎ جدید علوم کے لیے ان کی ذاتی کاوشوں کو دخل حاصل ہے۔وہ کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نہیں تھے۔وہ انگریزی بھی اتنی نہیں جانتے تھے کہ براہ راست انگریزی کتابوں کا مطالعہ کر سکیں ، البتہ یہ کمی انہوں نے عربی کتابوں اور جدید تعلیم یافتہ احباب سے مذاکروں کے ذریعے پوری کی۔ ان کی کتابیں تاریخی حوالوں سے پُر ہیں ، لیکن مغربی مصنفین کے حوالے بہت کم آتے ہیں۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کے خطوط میں علمی نکات تو وافر ہیں ، ان کے ذاتی ، گھریلو اور خاندانی معاملات بھی زیر بحث آئے ہیں۔ یہ خطوط ان کی زندگی کا مرقع ہیں۔ جیسے غالب کے خطوط سے ان کی زندگی کے حالات مرتب کیے گئے اسی طرح مکاتیب گیلانی سے بھی ان کی سوانح عمری مرتب کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے جتنے خطوط لکھے ، ابھی سب مرتب صورت میں سامنے نہیں آئے ہیں۔ ان کے خطوط متعدد رسالوں میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں ، ان کی ترتیب و تدوین کا کام ابھی باقی ہے۔ صرف ایک مجموعہ ’مکاتیبِ گیلانی‘ کے عنوان سے طبع ہوا ہے۔ معاصر شخصیتوں سے ان کے روابط اور تعلق کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جیسے ان کے متعدد مضامین اردو کے وقیع رسالوں کے اوراق میں مدفون ہیں اور کتابی صورت میں شائع نہیں ہوئے ہیں ، اسی طرح ان کے مکاتیب بھی رسالوں اور اخباروں میں مدفون پڑے ہیں۔ انہیں زیور طبع سے آراستہ کرنا ان کے نیاز مندوں کا کام ہے۔مولانا گیلانی کے دستیاب مطبوعہ مکاتیب کا تذکرہ درج ذیل ہے۔
۱۔ مکاتیب گیلانی : (جلد اول ): یہ مجموعۂ مکاتیب مولانا منت اللہ رحمانی نے مرتب کیا ہے اس مجموعے میں ۸۷ خطوط شامل ہیں۔ یہ درج ذیل افراد کے نام لکھے گئے ہیں :
(۱) اہلیہ مولوی یعقوب(ایک خط) (۲) حافظ یوسف حسن خان (ایک خط) (۳) مولانا محمد زکریا محمودی (ایک خط)(۴) مولوی محمد یعقوب ڈپٹی کلکٹر(چار خطوط) (۵)مولانا عبد الباری ندوی (۴۹ خطوط) (۶) مولانا سید سیلمان ندوی (۳۱ خطوط)
یہ مجموعہ (جلد اول )۱۹۷۲ء میں شائع ہوا۔ جلد دوم کی اشاعت اب تک نہیں ہو سکی ہے۔
۲۔ مولانا گیلانی کے سات غیر مطبوعہ مکاتیب : ڈاکٹر مختار الدین احمد نے ڈاکٹر غلام دستگیر رشید کے نام مناظر احسن گیلانی کے سات غیر مطبوعہ مکاتیب اپنے تعارف اور حواشی کے ساتھ مجلہ صحیفہ مئی، جون۱۹۷۹میں شائع کیے۔
۳۔ مناظر احسن گیلانی اپنے خطوط کے آئینے میں : سید محمد انظر شاہ کشمیری نے ماہ نامہ دارالعلوم دیو بند کے شمارہ اگست ۱۹۵۶میں مولانا مناظر احسن گیلانی کے گیارہ خطوط شائع کئے۔ ان میں ایک خط سید محمد ازہر شاہ کشمیری کے نام اور دس خطوط انظر شاہ کاشمیری کے نام ہیں۔یہ خطوط مضمون میں ضمناً آ گئے ہیں۔ ان پر تاریخ درج نہیں ہے۔ یہ خطوط اپنی مکمل حالت میں نہیں ، بلکہ اصل خطوط میں سے مطبوعہ اقتباس دیے گئے ہیں۔
۴۔علامہ مناظر احسن گیلانی اپنے مکتوبات کی روشنی میں : مولانا اشفاق احمد گیاوی نے الفرقان لکھنو کے شمارہ جنوری ۱۹۵۷میں مولانا گیلانی کے چند خطوط شائع کیے۔ یہ خطوط بھی مکمل صورت میں نہیں ، بلکہ اقتباسات کی شکل میں دیے گئے ہیں۔
۵۔تعزیت نامہ : ۱۶ جنوری ۱۹۳۱ء کے ’سچ‘ لکھنو میں مولانا گیلانی کا ایک خط شائع ہوا ہے جو مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر ایک تا ثراتی تعزیت نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خط مولانا عبد الماجد دریا بادی کے نام لکھا گیا تھا۔
۶۔مولانا سید مناظر احسن گیلانی : مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے ماہ نامہ الفرقان لکھنو کے ’افاداتِ گیلانی نمبر‘ کے لیے اس عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ یہی تحریر ان کی کتاب پرانے چراغ حصۂ اول میں شامل ہے۔ اس مضمون میں مولانا ندوی نے مولانا گیلانی کے خطوط کے حوالے سے اپنے تعلقِ خاطر کا اظہار کیا ہے۔ یہ خطوط مکمل نہیں ہیں ، بلکہ ان کے صرف اقتباسات دیے گئے ہیں۔
۷۔سید مناظر احسن گیلانی : ماہ نامہ بیّنات اپریل ۱۹۶۴ء میں مولانا گیلانی کے ۸خطوط بنام غلام محمد شائع ہوئے ہیں۔ ان خطوط کے حواشی مکتوب الیہ کے قلم سے ہیں۔
۸۔سہ روز کوثر ، لاہور کی اشاعت ۲۵ جولائی ۱۹۴۷ء میں مولانا عبد الماجد دریا بادی کے نام مولانا گیلانی کا خط۔
۹۔ انداز سخن : منشی عبد الرحمن خان کے نام مولانا گیلانی کے خطوط (تخلیق مرکز ،لاہور ۱۹۷۳) ص ۱۷۶
۱۰۔ حیات مولانا گیلانی : مولانا محمد ظفیر الدین مفتاحی ،طبع اول بنارس ۱۹۸۹۔ یہ کتاب مولانا گیلانی کی سوانح عمری ہے۔ اس میں ان کے متعدد خطوط کے اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔
۱۱۔ ماہنامہ ریاض ،کراچی : مکتوبِ گیلانی بنام مولانا محمد نصیرالدین ندوی۔اگست ۱۹۵۳ء
۱۲۔ آنریبل رفیع احمد قدوائی کی وفات پر ’صدق جدید‘ لکھنو، ۲ دسمبر ۱۹۵۴ء میں مولانا گیلانی کا تعزیتی خط شائع ہوا۔
۱۳۔ صدق جدید لکھنو ۱۵ جولائی ۱۹۵۱ ء
۱۴۔ مالک رام کے نا م مولانا گیلانی کا خط، مطبوعہ ماہ نامہ معارف اعظم گڑھ ، نومبر ۱۹۸۹ء
۱۵۔ مولانا حمید الدین فراہی کے نام مشاہیر کے خطوط : مولانا مناظر احسن گیلانی کا خط
۱۶۔ مکاتیب مولانا سید مناظر احسن گیلانی بنام مولانا سید سلیمان ندوی : مولانا سید سلیمان ندوی کے نام مولانا گیلانی کے یہ خطوط ماہ نامہ معارف، فروری ، مارچ ،اپریل ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئے۔ ان میں سے بعض خطوط مولانا منت اللہ رحمانی نے اپنے مجموعہ ’’مکاتیب گیلانی‘‘ حصہ اول میں شامل کر لیے ہیں۔ لیکن معارف میں مطبوعہ مکاتیب اور مجموعۂ مکاتیبِ گیلانی کے متن میں فرق ہے۔ مولانا رحمانی نے متعدد خطوط میں سے متن کا کچھ نہ کچھ حصہ حذف کر دیا ہے۔ مثلاً معارف، مارچ ۱۹۶۳ میں ص ۲۲۴-۲۲۵ پر جو خط شائع ہوا ہے مولانا رحمانی نے اس خط کا پہلا پیرا گراف اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا ہے۔ ایک اور تبدیلی یہ کی ہے کہ اسی خط میں چند سطور اپنی طرف سے بڑھا دی ہیں جو معارف میں موجود نہیں ہیں۔
۱۷۔خطوطِ گیلانی بنام غلام محمود شاہ (زمیندار) شائع شدہ معارف اعظم گڑھ(؟)
۱۸۔صدق جدید (لکھنو) میں مولانا گیلانی کے خطوط شائع ہوتے رہے ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
عنوان مکتوب شمارہ صفحہ
معارفِ قرآنی ۳۰ مارچ ۱۹۵۱ ء ۸
بزمِ احباب ۲۸ اگست ۱۹۵۳ء ۔
ایک اسمبلی دین دار ۴ فروری ۱۹۵۶ء ۶
افاداتِ گیلانی ۲۳ نومبر ۱۹۵۶ء ۶
مکتوباتِ گیلانی ۷ دسمبر ۱۹۵۶ ء ۸
مکتوباتِ گیلانی ۲۱ دسمبر ۱۹۵۶ ء ۷
مکتوباتِ گیلانی بنام انیس الحق ۱۸ جنوری ۱۹۵۷ ء ۹
مکتوباتِ گیلانی بنام انیس الحق ۲۲ جنوری ۱۹۵۷ ء ۸
فاضل گیلانی کا ایک فتویٰ ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۹ ء ۔
۱۹۔ شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات کے دیباچے میں مولانا مناظر احسن گیلانی کا خط بنام خلیق احمد نظامی (ص۸،۷)
۲۰۔ مشاہیر علمائے ہند کے علمی مراسلے : مولانا مناظر احسن گیلانی کے مکاتیب بنام محمد ظفیر الدین مفتاحی ( قاضی پبلشرز دہلی ۱۹۹۷ء مرتب محمد ظفیر الدین مفتاحی ص ۲۰ (۲۹ خطوط)
ان خطوط کے علاوہ سینکڑوں خطوط اور بھی ہیں جو ترتیب و تدوین کے منتظر ہیں۔
مولانا سید مناظر احسن گیلانی کو اپنے وقت کے مشاہیر علم و ادب سے مراسلت کا موقع ملا۔ اسلامیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن کے تقریباً چالیس سالہ قیام میں ہزاروں افراد نے ان سے علم حاصل کیا۔ ان میں سے متعدد افراد تصنیف و تالیف سے متعلق ہوئے اور ان حضرات نے بھی مولانا گیلانی سے علمی اور روحانی استفادے کی خاطر مراسلت کا تعلق قائم رکھا۔ان کے خطوط منظر عام پر نہیں آ سکے۔معاصر شخصیتوں میں سے درج ذیل اصحاب علم سے ان کی مراسلت رہی :
مولانا عبد الباری ندوی ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا عبد الماجد دریا بادی، مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ،مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ، مولانا منظور احمد نعمانی ، مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا قاری محمد طیب، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، علامہ اقبال ، علامہ عنایت اللہ مشرقی ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی وغیرہ۔
دست یاب خطوط سے مولانا گیلانی کی سیرت و کر دار کے علاوہ ان کی علمی حیثیت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں ان خطوط کا تجزیاتی و تحقیقی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے :
سیرت و سوانح
خطوط میں نجی حالات و کوائف کا تذکرہ غیر ارادی طور پر بھی ہو جاتا ہے۔ ضمناً بہت سی باتیں مکتوب نگار درج کر دیتا ہے جو اس کی شخصیت ، خاندان اور زندگی کے مختلف ادوار سے متعلق ہوتی ہیں۔ چنانچہ مولانا گیلانی کی زندگی کے بہت سے اہم واقعات اور ان کے شخصی حالات مکاتیب گیلانی میں موجود ہیں۔ ان مکاتیب سے ان کے زمانۂ طالب علمی کے حالات، ان کے اساتذہ کے طریقِ تدریس ، نصابِ تعلیم ، طلبہ کے مسائل، تعلیمی اداروں کا ماحول ، طلبہ کی علمی سر گر میاں اور حصولِ علم کے لیے طلبہ کی محنت کے واقعات معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ مولانا نے متعدد اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ ان کے علم و فضل سے متعلق ان کی رائے بھی ان خطوط سے معلوم ہو جاتی ہے۔ دینی مدارس کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم، مدارس کے نظم و نسق اور تعلیمی اداروں کے ماحول کے متعلق ان کا اپنا نقطۂ نظر منفرد تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دینی مدارس کا نظامِ تعلیم اصلاح طلب ہے ، اس میں جدید علوم کو بھی شامل کیا جانا چا ہیئے ، البتہ تربیت کا نظام بہتر بنایا جائے۔وہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں :
’’ اسلام کے اساسی علوم قرآن و حدیث و فقہ کی تعلیم کو لازم قرار دے کر قدیم علوم کی جگہ جدید علوم و فنون کو قبول کر لیا جائے۔ اسلامی علم کے کسی خاص فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے تخصیصی درجے قائم کر دیے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اس طریقہ سے نصاب کی دوئی کو ختم کر کے مسلمانوں کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب کو قائم کرنے کا امکان پیدا ہو جا تا ہے ‘‘ ۳؎
اس سلسلے میں انہوں نے ایک تعلیمی اسکیم تیار کر کے مولانا سید سلیمان ندوی کو بھیجی تھی۔ ۴؎
کتابوں پر تبصرہ
مکاتیبِ گیلانی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان سے متعدد کتابوں پر مولانا کی رائے معلوم ہو جاتی ہے۔ کسی کتاب پر مبصرانہ رائے دینا اور اس کے حسن و قبح پر اظہارِ خیال کرنا بالغ نظر نقّاد کا کام ہے۔ اردو زبان و ادب میں تنقیدی اصولوں کی تاریخ کچھ زیادہ طویل نہیں۔ اردو تنقید نگاری کے اصول و قواعد تو زیادہ سے زیادہ انیسویں صدی کے اوائل سے شروع ہوئے ہیں۔ اور یہ اصول بھی شعری نقد و نظر کے فارسی اسلوب کا پرتو ہیں اور زیادہ تر غالب ، حالی ، شبلی اور آزاد کے تنقیدی اصول ہی کار فرما ہیں۔ علمی کتابوں پر تبصرے اور ان کا علمی و ادبی معیار جانچنے کے لیے عہدِ سر سید سے قبل بہت کم سرمایہ موجود تھا۔ مولانا گیلانی کسی کتاب پر تبصرہ کرتے ہیں تو اس کے مندرجات اور موضوع پر قدیم تاریخی معلومات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ ادبی محاسن بیان کرتے ہیں تو ان کی تنقید پر عربی و فارسی ادبیات کے اثرات نظر آتے ہیں۔ مولانا گیلانی کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور علمی دنیا کا کوئی گوشہ ان کی نظروں سے اوجھل نہیں۔ وہ علم و ادب کی کسی ایک شاخ تک محدود نہیں ہیں۔ ان کے یہاں مختلف علوم و فنون کا حاصلِ مطالعہ نقد و نظر کے سخت معیار کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔ اپنی پسندیدہ کتابوں پر تبصرہ کرتے ہیں تو ان سے اپنی شیفتگی و وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ایک کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’دارلجواہر‘ کتابوں کا پیکٹ مع دستی رقعہ کے ملا۔ میری آرزو ملی۔ میں نے جو چاہا تھا ، آسمان میں اس کا حکم ہوا، زمین پر پورا ہوا‘‘۔ ۵؎
’حق کر دگار‘ کا شکریہ کن لفظوں میں کن جذبات کے ساتھ ادا کروں کہ مرنے سے پیش تر محمد یعقوب گیلانی کے مطبوعہ دستخطوں سے آراستہ میں نے اس کتاب کو دیکھ لیا جو سیدی الامام غوث الانام گیلانیؒ کے حالاتِ طیبہ سے آراستہ کی گئی ہے۔‘‘۶؎
مولانا گیلانی شیخ عبد القادر جیلانی کی کتابوں کو خصوصاً اور دیگر صوفیہ کے ملفوظات اور مواعظ کو بنی اسرائیل کے انبیاء کے خطبات و مقالات کا قائم مقام خیال کرتے تھے۔ شیخ جیلانی کی کتاب ’فتوح الغیب‘ کے متعلق لکھتے ہیں :
’’فتوح الغیب نظر سے گزری ہو گی … ایک زمانے میں تو تقریباً اس کتا ب کی تلاوت کرتا تھا۔ سفر و حضر میں ساتھ رکھتا تھا۔ ‘‘۷؎
معاصرین کا ادب و احترام
کسی صاحبِ کمال کے ہنر کو قبول کرنا اور اس کی خوبیوں کی تعریف کرنا اس وقت بہت مشکل ہو جاتا ہے جب کہ انسان خود مصنف اور اس فن کا ماہر ہو۔ لیکن مولانا گیلانی کے خطوط میں متعدد مقامات پر معاصرین کی خوبیوں کا اعتراف کیا گیا ہے اور انہیں ان کی تصنیفات پر داد دی گئی ہے۔ ایک مقام پر مولانا لکھتے ہیں :
’’مخدوم و محترم مولانا اعزاز علی صاحب مد ظلہ کی سوانح عمری جو آپ نے مرتب کی ہے ، تھوڑی دیر کے لیے اس کے مطالعے کے استغراق نے سارے غم کو غلط کر دیا … آپ ایسے ہونہار نوجوانوں کے ساتھ دل کی توقعات وابستہ ہو گئیں۔ آپ کا یہ کام آپ کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔‘‘۸؎
حوصلہ افزائی
مولانا گیلانی نہ صرف معاصرین کی عظمت و بڑائی کا اعتراف فراخ دلی سے کرتے تھے ، بلکہ اپنے شاگردوں اور نوجوان اہل قلم کو علمی کاموں کے لیے مستعد کرتے رہتے تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور تصنیف و تالیف میں ہر طرح سے تعاون کرتے۔ جامعہ عثمانیہ کے استاد کی حیثیت سے انہیں طلبہ کے مقالات اور علمی کاموں میں رہ نمائی کرنا ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ بھی ملک بھر سے علمی کاموں میں مصروف اہل قلم ان سے تعاون کا تقاضا کرتے تو محروم نہ رہتے۔مولانا گیلانی نوجوان علماء اور جدید تعلیم یافتہ اہلِ قلم کی رہ نمائی کرتے۔ ایک نوجوان عالم دین نے علمی رہنمائی کی غرض سے خط لکھا تو جواب میں تحریر فرمایا :
’’برہان میں آپ کے مضمون کی متعدد قسطیں نظر سے گزریں۔ ماشاء اللہ آپ نے بڑی محنت کی۔ ان شاء اللہ آیندہ آپ سے توقع ہے کہ آپ سے زیادہ بہتر کام قدرت لے گی۔ ‘‘ ۹ ؎
مولانا ظفیر الدین نے اپنی پہلی ملاقات اور پہلی تصنیف پر مقدمہ لکھوانے کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کے گھر ملاقات ہوئی، مسودہ دکھایا، انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک مسودہ پڑھتے رہے ، پھر مقدمہ لکھا۔ مولانا ظفیر الدین لکھتے ہیں کہ ’’مولانا گیلانی ہونہار نوجوان عالم دین سے مل کر خوش ہوتے تھے ، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور بعد میں خط و کتابت کے ذریعے علمی رہ نمائی فرماتے ‘‘۔ ۱۰ ؎ سید ازہرشاہ کاشمیری کو ان کے چھوٹے بھائی کے مضامین پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ان کی تربیت کی طرف آپ کی توجہ کی خصوصی ضرورت ہے ، بڑا ہونہار جوہر ہے۔ خدا نہ کرے کہ لاپر واہی کا شکار ہو جائے ‘‘۔ ۱۱ ؎
مولانا سید ازہر شاہ کشمیری لکھتے ہیں کہ ’’ مولانا گیلانی کو نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا قابلِ قدر طریقہ و سلیقہ حاصل تھا۔ وہ اپنے نیاز مندوں کی جس انداز میں حوصلہ افزائی فرماتے ، نفسیاتی طور پر اس کا گہرا اور منفعت بخش اثر نمایاں پڑتا۔ خود اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ اس انداز سے رہنمائی نہ فرماتے تو بلا مبالغہ عرض ہے کہ مجھ کو کبھی قلم اٹھانے کی بھی ہمت و جرا ت نہ ہوتی۔ ‘‘ ۱۲ ؎
تاریخِ عالم پر محکم گرفت
مولانا گیلانی ایک عالمِ دین اور فلسفی تھے ، معلم و مدرس تھے۔ عمر بھر درس و تدریس سے تعلق رہا۔ قرآن و حدیث ، فقہ و کلام سے شغف کے باوجود تاریخ ان کا خصوصی دائرۂ علم تھا۔تاریخ کے علاوہ قدیم و جدید علماء اور حکم رانوں کی سوانح عمریوں کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ ان کے خطوط میں تاریخی واقعات اور سیرت و سوانح کے نادر واقعات ملتے ہیں۔ وہ مختلف مذاہب اور غیر مسلم قوموں کی تہذیب و ثقافت کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ہنود کا یہ اعتراض مسلمانوں پر صحیح نہیں ہے کہ وہ بھی فاتحہ کی شکل میں غیر اللہ کے آگے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر صلٰوۃ و سلام بھیجتے ہیں ، گویا ان کی عبادت کرتے ہیں۔ حالاں کہ فاتحہ ہو یا درود، دونوں صورتوں میں دراصل بزرگوں ، بلکہ خود خاتم النبیین ﷺ کے متعلق مسلمان اس کا اظہار اپنے خدا کے آگے کرتا ہے کہ اے اللہ یہ بھی تیری رحمت و جود و کرم و عنایت چاہتے ہیں ، ان پر رحم فرما اور ان کو ثواب عطا کر۔‘‘۱۳؎
نکتہ آفرینی
مکاتیبِ گیلانی سے مولانا مناظر احسن گیلانی کی نکتہ آفرینی ،دقیقہ رسی ،بات سے بات نکالنے ، واقعات سے نادر نکات کا استخراج کرنے اور ان کی ژرف نگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے ذہن رسا کو بات کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہ لگتی۔ وہ معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ بات سمجھانے اور اسی بات کے نئے نئے پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے کا ملکہ رکھتے تھے۔ معلومات کا بیش بہا خزانہ ان کے حافظے میں محفوظ تھا۔ ان میں استدلال و استخراج و استنباط کی بے پناہ قوت تھی۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں : ’’ان تصانیف کو اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ان میں علوم و حقائق اور استنباط و استخراج کا کس قدر گراں بہا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے۔ ‘‘ ۱۴ ؎
مولانا گیلانی بھارت کے صوبہ بہار کے ایک موضع گیلان کے رہنے والے تھے۔ بچپن میں ریاست ٹونک چلے گئے اور سات آٹھ برس وہاں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم دیو بند سے تعلیم حاصل کی۔ ملازمت عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن میں کی۔ آخری عمر میں اپنے قصبہ گیلان آ گئے تھے۔ انہیں عمر بھر شیخ عبد القادر جیلانی (گیلانی) سے تعلقِ خاطر رہا۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’۔۔۔ وجہ کچھ بھی ہو، لیکن گیلانی کو اسلام کے غوثِ اعظمؒ سے کوئی نسبت ضرور ہے۔‘‘ ۱۵ ؎
مولانا سید سلیمان ندوی حج کے بعد واپس آئے تو بیمار ہو گئے۔ مولانا گیلانی نے اس بیماری کو قبولیتِ استغفار کی علامت قرار دیتے ہوئے نہایت حکیمانہ بات لکھی ہے :
’’… معلوم ہوا کہ قبولِ استغفار کے بعض آثار آپ کے سامنے پیش آ گئے ہیں۔ … حق تعالیٰ کسی بندے کی دعا و استغفار قبول فرماتے ہیں تو اعمال کی جو سزا آخرت میں ہونے والی ہوتی ہے وہ دنیوی مصائب کی شکل میں دے دی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ بخار، غم و الم، فکر و تردّد سب ہی کے ذریعے تخفیفِ سزا کا یہ قانون اسی دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔ ‘‘
اس واقعہ کے حوالے سے اپنا ایک واقعہ بھی لکھتے ہیں :
’’ سو حج سے جس دن واپس ہوا اس کے دوسرے دن والد مرحوم گھوڑے سے گرے اور اسی میں وفات ہوئی۔ ‘‘
ان واقعات کی بنیاد سیر ت النبی ؐ کے ایک اہم واقعہ پر رکھتے ہیں :
’’ بدر کی مہم سر ہوتی ہے ، لیکن جب حضور ؐ میدانِ بدر کی کامیابی سے واپس ہوتے ہیں تو مدینہ کے دروازے پر ایک جنازہ ملتا ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی صاحب زادی کا جنازہ تھا۔‘‘ ۱۶ ؎
زبان و ادب
مولانا گیلانی کے علاقہ بہار کا شمار ہندستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں اردو زبان کی ابتدا کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ۱۷؎ ان کے خطوط میں تذکیر و تانیث، واحد و جمع اور بعض الفاظ کی املا ہندوستان کے دوسرے ادبی مراکز دہلی ، لکھنو وغیرہ سے مختلف ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’اسٹیشن سے لانے والے نے برف بھی لیا۔ لطف دوبالا ہو گیا۔‘‘ ۱۸ ؎ حالاں کہ ’برف‘ مونث ہے۔ زبان کے بارے میں وہ خود بھی محتاط نہ تھے۔ وہ زبان کی باریکیوں اور الفاظ کی بندش اور تراکیب کی ساخت و پرداخت کی زیادہ پروا نہیں کرتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’آپ کے ہر مضمون کو غور سے پڑھتا ہوں … زبان کا بھی چنداں خیال نہ کیجیے ، اصل چیز مواد ہے۔صورت ، مادہ کی قیمت کے بعد چنداں اہم باقی نہیں رہتی۔اگرچہ مضمون کے صورت کا خیال کرنا ہی پڑتا ہے ‘‘۔ ۱۹؎
مولانا گیلانی اپنی تحریروں خصوصاً مکاتیب میں بعض نامانوس الفاظ و تراکیب کا استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن میں بعض دلچسپی کا پہلو لیے ہوئے ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’ایک آک ‘‘ ہفتہ کے لیے ملتوی ہو گیا ہے۔ ۲۰؎ حالانکہ عام طور پر ’’ایک آدھ ‘‘کی ترکیب مستعمل ہے۔ ایک جگہ بد ہضمی کی جگہ ’’سوہضمی ‘‘ کا استعمال کیا ہے۔ ۲۱ ؎ ایک جگہ لکھا ہے : ذرا ’’ ڈھیلے لفظوں ‘‘میں خدا کے لیے کیجیے گا۔۲۲؎ حالاں کہ ڈھیلے لفظوں کے بجائے نرم الفاظ کا استعمال معمول ہے۔ ایک خط میں چیچک زدہ چہرے کے لیے بڑا عجیب و غریب لفظ ’’ مچکوک ‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ ۲۳ ؎ ایک جگہ تعطیلات کی بجائے ’’تعطیلوں ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ۲۴ ؎ ایک جگہ ’لیلی مشاغل‘ جیسی نئی ترکیب کا استعمال ملتا ہے۔ ۲۴ ؎ اس کے علاوہ ایک بڑا جامع و دلچسپ محاورہ ایک خط میں لکھا گیا ہے جو واقعتاً ’قول زرّیں ‘ کہلانے کا مستحق ہے : ’’زندگی خود ایک بیماری ہے جسے لگ گئی اسے مرنا ہی پڑے گا ۔ ‘‘ ۲۵ ؎
اسلوبِ بیان
مولانا گیلانی کے مکاتیب کا اسلوبِ بیان ان کی تصانیف سے مختلف نہیں۔ بعض نقادوں کے نزدیک ان کا اسلوب تعقیدِ لفظی و معنوی کا شکار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’’مولانا کی تصنیفات جدید طرزِ تصنیف کے معیارِ حسن کو نہیں پہنچتیں۔ ‘‘ ۲۶ ؎
یہ بات لائقِ اعتنا نہیں۔ مولانا کی جملہ کتابیں جدید اسلوبِ تحقیق کے مطابق ہیں۔ ان کی نثر میں بعض نقّادوں کو الجھاؤ محسوس ہوتا ہے۔ جملے کی ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ بعض الفاظ بظاہر اپنے محل پر نظر نہیں آتے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’کیا عرض کروں ، منہ لپیٹے آپ کی کتاب کو پڑھنے کے بعد پڑا ہوا ہوں ‘‘۔ ۲۷ ؎ مصنف نے یہ جملہ اپنے اسلوب میں لکھا ہے۔ بعض اہل قلم اس جملے کو اس طرح لکھیں گے : ’’کیا عرض کروں ، آپ کی کتاب کو پڑھنے کے بعد منہ لپیٹے پڑا ہوا ہوں۔‘‘ یہ ایک سپاٹ بیان ہے۔ مولانا گیلانی کے جملہ کی ساخت کی ندرت ہی ان کا منفرد اسلوب بیان ہے۔ کسی زمانے میں مولانا عبد الماجد دریا بادی کے مضامین ’انشائے ماجد ‘ کہلاتے تھے۔ ان کے جملوں کی ساخت بھی عام نثر نگاروں سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن وہ ان کا اپنا اسلوبِ بیان ہے۔ اسی طرح مولانا گیلانی اپنے طرز بیان کے حوالے سے صاحبِ طرز ادیب کہلانے کے مستحق ہیں۔ ان کا اسلوبِ بیان کیسے کہیں کہیں از خود رفتگی کی علامت بن جاتا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے ، لکھتے ہیں:
’’… آپ کی والدہ صاحبہ مد ظلہا چوں کہ مومنات غافلات میں سے ہیں ، ان کے لیے تو اشتیاق کے کچھ معنیٰ ہو سکتے ہیں ، لیکن ان رجال حازمین او لو الالباب پر ضرور تعجب ہے کہ جن سے ساری کائنات بے زار ہو چکی ہے ، حتیٰ کہ اس کی بیوی اور اس کا نفس بے زار ہو چکا ہے اسے وہ ڈھونڈتے ہیں۔ ‘‘ ۲۸ ؎
مولانا کا اسلوبِ بیان واضح اور کسی نوع کے ابہام سے مبرّا ہے۔ لکھتے ہیں :
’’… صرف اس قدر عرض ہے کہ آپ کو میری کسی بات سے کسی قسم کا گزند پہنچا ہو تو للہ اسے معاف فرما دیجیے۔ دس سال سے زیادہ کے حقِ صحبت کا خیال فرمائیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ زندگی کے کتنے لمحے اب باقی ہیں ، کاش اس سے پہلے کہ میں اٹھایا جاؤں ، آپ کا کوئی معافی نامہ مجھے مل جاتا جس سے یہ دل کا کھٹکا نکل جاتا۔ میں ۲۵ رمضان تک حیدر آباد ہی میں ہوں۔ مجھے امید ہے آپ خود بھی بخش دیں گے اور میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں گے ‘‘ ۲۹ ؎
مولا نا گیلانی کے مکاتیب ان کی روانی قلم، جودتِ طبع اور معلومات کے تنوّع کا شاہکار ہیں۔ یہ مکاتیب ان کی برجستہ اور بے تکلّف اور فکری بلند پروازی کا ثبوت ہیں۔ ان سے اردو ادب کے ایک ایسے ادیب کی نگارش سامنے آتی ہے جو کسی تکلّف و آرایش کا قائل نہیں اور اس کی تحریر قدیم علوم کے علما کو بھی اتنی ہی مرغوب ہے جتنی جدید تعلیم یافتہ افراد کو۔ متعدد اہل قلم نے ان کے اندازِ نگارش کی تقلید کی شعوری کوشش کی ہے۔ سید انظر شاہ کشمیری رقم طراز ہیں :
’’تقریباً ً دس سال سے ہندستان کے بعض چیدہ اہلِ قلم اپنی تحریروں میں مرحوم کے عکس کو جس طرح اپنانے کی سعی و کاوش کر رہے ہیں اسی جد و جہد کو دیکھ کر اندازہ کیا جائے کہ مولانا کا طرز اپنے دامن میں جو بے پناہ دل چسپی رکھتا تھا اس کی ہمہ گیر خصوصیات دوسروں کو بھی متاثر کیے بغیر نہ رہ سکیں ‘‘۔ ۳۰؎
معارفِ قرآنی کا خزانہ
مکاتیبِ گیلانی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان میں معارفِ قرآنی کا خزانہ محفوظ ہے۔ خطوط میں مختلف مسائل پر آراء کا اظہار ہو ا ہے۔ لیکن سب امور میں فکری بنیاد قرآن مجید ہے۔ زندگی کے تمام معاملات انسانی بصیرت سے دیکھے جا رہے ہیں۔ملکی اور بین الاقوامی حالات کا قرآنی ہدایت کے حوالے سے تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ حالات و واقعات کو قرآنی تعلیمات سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ انداز مولانا کی قرآن فہمی کا بیّن ثبوت ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو انہیں قرآن مجید سے اس کا حل مل جاتا ہے۔ مولانا بچپن میں قرآن مجید حفظ نہ کر سکے ، لیکن حیدر آباد (دکن) میں جامعۂ عثمانیہ کی ملازمت کے دوران انہوں نے قرآن مجید حفظ کیا۔ تدوینِ قرآن پر بھی ان کی ایک کتاب موجود ہے۔ مکاتیبِ گیلانی میں اکثر خطوط میں قرآنی آیات مقتبس ہو گئی ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒسے انہیں بے پناہ عقیدت تھی۔ ان کی کتاب ’فتوح الغیب‘ کسی زمانے میں ہر وقت ان کے پاس رہتی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ احساس بھی مستحضر تھا کہ :
’’ لوگوں کو … ہدایت کیجیے کہ وہ حضرت کی راہ چھوڑ کر خود اپنی بنائی ہوئی راہوں پر نہ چلیں ، یا یوں کہیے کہ وہ حضرت کے خدا کو چھوڑ کر خود حضرت کو خدا بنانے کی سعی نہ کریں۔‘‘
اس کے ساتھ قرآن مجید کی یہ آیت لکھتے ہیں :
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَن یُؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُولَ لِلنَّاسِ کُونُواْ عِبَاداً لِّیْ مِن دُونِ اللّہِ وَلَکِن کُونُواْ رَبّٰنِیِّیْنَ بِمَا کُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنتُمْ تَدْرُسُونَ وَلاَ یَاْمُرُکُمْ اَن تَتَّخِذُواْ الْمَلٰئِکَۃَ وَالنِّبِیِّیْْنَ اَرْبَاباً اَیَاْمُرُکُم بِالْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ اَنتُم مُّسْلِمُونَ۔(آل عمران:۷۹-۸۰)۳۱؎
مولانا عبد الباری ندوی کے چھوٹے بھائی، جو عثمانیہ یونیورسٹی میں معاشیات کے لیکچرار تھے ، ملازمت میں مستقل تقرری کے منتظر تھے۔ ان کے بارے میں انتظامیہ کے تساہل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مظہر کو ان لوگوں نے پارٹ ٹائم لیکچرار بنا کر اس وعدے سے بھیجا تھا کہ تین چار ماہ بعد اس کو مستقل کر دیا جائے گا، لیکن ڈھائی سال گزر گئے ، نہ اس کی سروس ہی مستقل ہوئی اور نہ تنخواہ میں ایک پائی کا اضافہ ہوا۔ جو بساط بچھی ہے اس کے مہروں کے متعلق کیا عرض کروں ، بجز اس کے ’’رَبِّ نَجِّنِی مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ‘‘۳۲؎
اپنے ایک شاگرد کو ایک خط میں معاملاتِ حیات اور واقعاتِ عالم کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’آیت قرآنی : یٰاَیُّھَا الُاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلیٰ رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلاَقِیْ ہِاے انسان تو دشواریوں میں کشمکش کرتے ہوئے اپنے مالک کی طرف جا رہا ہے ، پھر اچانک اس کے سامنے آ جائے گا۔ شخصی، خاندانی ،قومی، غرض زندگی کے تمام شعبوں کا یہی حال ہے ‘‘۔ ۳۳؎
مولانا گیلانی کو قرآن مجید سے خصوصی تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مکاتیب قرآنی بصیرت سے معمور ہیں۔
تعلیمی نظریات
مکاتیبِ گیلانی میں مختلف علوم و فنون پر بحثیں موجود ہیں ، تاہم مولانا گیلانی نظامِ تعلیم کی اسلامی تشکیل کو خاص توجہ کا مستحق سمجھتے تھے۔ اس موضوع پر ان کی متعدد تحریریں ہیں۔ ایک کتاب ’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت ‘ دو حصوں میں شائع ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم کے دو نظام رائج ہیں۔ ایک قدیم مدارس کا روایتی نظامِ تعلیم ہے ، دوسرا مروّجہ مغربی نظامِ تعلیم ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ایک ہی نظامِ تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کریں۔ اس کا خاکہ انہوں نے یہ بنایا کہ کہ مسلمانوں کو جدید علوم بھی حاصل ہوں اور قدیم علوم میں سے قرآن و حدیث اور فقہ و سیرت کے خاص حصہ کی تعلیم حاصل ہو جائے ، پھر جس کسی کو دینی علوم میں تخصص حاصل کرنا ہو وہ اسلامی علوم کے مرکزی مدارس میں تعلیم حاصل کرے۔ مولانا سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’اس کے سوا اور کیا چاہتا ہوں کہ اسلام کے اساسی علوم (قرآن و حدیث و فقہ) کو لازم قرار دے کر قدیم علوم کی جگہ جدید علوم و فنون کو قبول کر لیا جائے اور اسلامی علوم کے کسی خاص فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے تخصیصی درجے قائم کر دیے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ اس طریقے سے نصاب کی دوئی کو ختم کر کے مسلمانوں کے لیے ایک ہی تعلیمی نصاب کے قائم کرنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ ‘‘۳۴؎
مولانا گیلانی نے تعلیم و تدریس میں پوری عمر گزاری ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً نصابِ تعلیم تجویز کرتے رہتے تھے۔ اسکولوں میں دینیات کی تعلیم کے نصاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’… نصاب کی تیاری کے لیے کہا گیا ہے ، یہ مسئلہ میری دلچسپی کا تھا … میری رائے ہمیشہ سے اسکولی دینیات کے نصاب کے متعلق یہ تھی : فاتحہ سے الم تر کیف یا والضحیٰ تک (قرآنی سورتیں ) ، تسبیح و تحیات و صلٰوۃ اور درود وغیرہ کا ترجمہ ، عقائد سے متعلق آیات ، سرورِ کائنات ﷺ کی زندگی ، خلفائے راشدین ، ائمہ اربعہ اور سلاسل اربعہ صوفیہ ، زنانہ نصاب میں صرف نماز روزہ کے متعلق ان کے مخصوص مسائل اور کچھ ادعیۂ ماثورہ ، خلفائے راشدین و ائمہ و صوفیہ کی جگہ امہات المومنین کے حالات و زندگی۔ مڈل اور میٹرک تک اسی نصاب تعلیم کو تقسیم کر کے رکھ دینا چاہیے۔‘‘ ۳۵ ؎
متعدد خطوط میں تعلیمی مسائل ، نصابِ تعلیم ، مدارس کے ماحول ، اساتذہ ، تربیتِ اطفال کے لیے اقامتی تعلیمی اداروں کے قیام پر ان کی آراء ملتی ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ جدید مغربی طرز کے اسکول اور کالج کو مسلمان بنا لیا جائے اور دینی مدارس کے نصاب میں دینی علوم کے ساتھ جدید علوم کی تعلیم شامل کر دینے سے مسلمانوں کا تعلیمی نظام بہتر نتائج پیدا کرے گا۔
ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا احساس
مسلمانوں پر صدیوں سے مغربی تسلط نے مایوسی کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ مسلمانوں کے زعماء و اکابر انھیں غلامانہ زندگی سے نکالنے کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ حریت و آزادی کے نغمے انقلابی شاعری کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ مولانا گیلانی بھی مسلمانوں کی زبوں حالی اور پستی کا احساس رکھتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’ لان کے پاس جو ایک چھوٹی سی مسجد مسلمانوں کی ہے … اسی کے سامنے عیسائیوں کا ایک کلیسا بھی سڑک کے دوسری جانب قائم ہے۔ اس کی بلندی ، اس کی صفائی، اس کا شاداب و سر سبز باغ اور زمین کی وسعت، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا یہ جھونپڑا دیر تک باعثِ تحیّر بنا رہا۔ خیال آتا تھا، کتنے دن کی بات ہے ، اسی سر زمین کے ہم بادشاہ تھے۔ نتبوء من الارض حیث نشآ کا قیام اسی علاقے میں حاصل تھا اور جنہوں نے زمین کے ایک بڑے خطے پر قبضہ کر کے ’ صلیب خانہ‘ بنایا ہے ان کی حیثیت وہی تھی جو آج ہماری ہے۔ یہاں خالق کو پوجنے والوں کی خالق کی زمین پر یہ بے بسی اور مخلوق پرستوں کا یہ زور بظاہر ایک غیر منطقی سی بات نظر آتی ہے۔ لیکن دل نے کہا کہ خالق پرستی کے مدعی کاش خالق پرست ہوتے تو یہ صورت ہی کیوں پیش آتی۔ ‘‘ ۳۶؎
مولانا نے عملی سیاست میں تو زیادہ حصہ نہیں لیا، لیکن وہ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل سے آگاہ رہے اور انہیں حل کرنے کے لیے اپنی سی کوششیں کرتے ، دوسروں کو توجہ دلاتے ، سیاسی بکھیڑوں سے دور رہتے ، لیکن عالم اسلام کے حالات پر بے چین ہو جاتے۔ عالم عرب میں مسلمانوں کی دین سے بے توجہی کا علم ہوا تو مولانا ابو الحسن علی ندوی کو لکھا :
’’ بس تڑپ رہا ہوں ، کراہ رہا ہوں ، کیا ہو گا اور ورطہ سے دین کا سفینہ کیسے نکلے گا ‘‘ ۳۷؎
تحریکِ خلافت کے زمانے میں مولانا ریاست ٹونک میں تھے۔ ایک صاحب تحریکِ خلافت کے لیے چندہ اکٹھا کرنے وہاں پہنچے ، لیکن حوصلہ افزائی نہیں ہوئی، بہت کم لوگوں نے توجہ کی۔ اگلا جمعہ مولانا گیلانی نے پڑھایا اور خلافتِ اسلامیہ کے موضوع پر تقریر کی۔ مجمع پوری طرح متوجہ ہوا ، تقریر ایسی موثر ہوئی کہ کہ تقریباً بیس ہزار روپے چندہ ہوا۔ ۳۸؎
مربیانہ حیثیت
مکاتیبِ گیلانی میں مولانا کی ایک ایسی حیثیت کا اظہار ہوا ہے جو ان کی شخصیت کا جوہر ہے۔ وہ اپنے تلامذہ کی تربیت کس طرح کرتے تھے اور انہیں کس طرح اصلاح احوال پر آمادہ کرتے تھے ؟ یہ تفصیلات مکاتیب سے معلوم ہوتی ہیں۔ ایک خط میں اپنے ایک شاگرد کو لکھتے ہیں :
’’ کیا کوئی ملحد صحت دے سکتا ہے۔ روپیہ( صحت) دے سکتا ہے ؟ خیال گزرتا ہے کہ ملاحدہ شاید اچھی صحت و حالت میں ہیں۔ شیطان کہتا ہے کہ یہ الحاد کا اثر ہے لیکن فرشتہ اندر سے پکارتا ہے کہ آرام و صحت کو الحاد سے کیا تعلق؟ ملاحدہ کے ساتھ قدرت اپنے تعلقات کی نوعیت بدل دیتی ہے تو اس سے خدا ہی ثابت ہوتا ہے۔ کیا منہ دکھائیں گے اس خدا کو (جو) اپنے منکر کی رسیوں کو ڈھیلی کرتا ہے ‘‘۔ ۳۹ ؎
مولانا گیلانی اپنے تلامذہ کو حصولِ علم کا شوق دلاتے رہتے تھے اور ان کی علمی ترقی سے خوش ہوتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : ’’اس کی خوشی ہوئی کہ مقالہ آپ کا پورا ہو گیا۔ بڑی دلچسپ اور روح پرور چیز ہو گی۔ کاش ہم بھی اس سے لذت حاصل کرتے۔‘‘ ۴۰؎
شاعری اور سخن شناسی
مکاتیبِ گیلانی علم و ادب کا ایک ایسا گل کدہ ہے جس میں ہر رنگ کے پھول ہیں۔ یہ انسائیکلوپیڈیائی خطوط ہیں جن میں ہر موضوع پر قاری کو دلچسپ، مستند اور معتبر مواد دست یاب ہوتا ہے۔ مولانا گیلانی کو شعر و ادب سے لگاؤ تھا ، خود شعر کہتے تھے ، ان کے مکاتیب میں اردو ، فارسی اور عربی کے اشعار نگینوں کی مانند نظر آتے ہیں۔ وہ پوربی زبان میں بھی شعر کہتے تھے۔ زبان مگدھی میں ان کی نظمیں ایک خاص جذب و کیف کی حامل ہیں۔
پیارے محمد ؐ جگ کے سجن
تم پر واروں تن من دھن
تمری صورتیا من موہن
کبھیو کراہو تو درشن
جیا کنھڑے دلوا ترسے
کرپا کے بدرا کہیا بر سے
تمری دوریا کیسے چھوڑوں
تم سے توڑوں تو کس سے جوڑوں
تمری گلی کی دھول بٹوروں
تمری نگر میں دم بھی توڑوں
جی کا اب ارمان یہی ہے
آٹھوں پہر اب دھیان یہی ہے ۴۱ ؎
مولانا گیلانی نے اپنے مکاتیب میں جن اشعار کا استعمال کیا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
بہ یک لحظہ ، بہ یک ساعت ،بہ یک دم
دگرگوں می شود احوالِ عالم ۴۲؎
ہو گئیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ نا گہانی اور ہے ۴۳؎
سینہ دارم شرح شرح از فراق
تا بگویم شرح درد و اشتیاق
ما آنچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیث دوست کہ تکرار می کنیم ۴۴؎
یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے ۴۵؎
توبہ تقصیر خود افتادی ازیں در محروم
از کہ می نالی کہ فریاد چرامی داری ۴۶؎
رخصت اے اہلِ دکن سوئے وطن جاتا ہوں
آہ اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں میں ۴۷؎
ان اشعار کے علاوہ عربی ، فارسی اور اردو کے محاورے ، روز مرہ اور ضرب الامثال بھی ان کے مکاتیب میں بر موقع و بر محل استعمال ہوئے ہیں۔
مکاتیب پر ایک اجمالی نظر
مولانا مناظر احسن گیلانی کے مکاتیب ان کے ذوق و شوق اور ان کی پسند و ناپسند کا بھی آئینہ ہیں۔ ان خطوط میں سیرت النبی ؐ کے دلکش گوشے موجود ہیں۔ اصحاب رسول ؓ کی زندگیوں کے ایمان افروز واقعات ہیں ، ایسے جملے بھی ملتے ہیں جو حکمت و دانائی کا مرقع ہیں مثلاً : ’’علم کی تصحیح کا نام دانائی ہے ‘‘۔ (ص ۹۸) ’’قوم کا عشق ان کو بالآخر قوم والے کے عشق تک کاش لے جاتا‘‘ (ص۱۰۷) بعض شخصیتوں پر ان کی رائے اور ان کی کتابوں پر تبصرہ بھی ان کے مکاتیب میں موجود ہے۔ ان کو ہر چند کہ فلسفے سے خصوصی لگاؤ تھا، لیکن وہ تصوف کے بھی اتنے ہی قائل تھے۔ ابن عربی کی کتب کا حوالہ متعدد مقامات پر آتا ہے۔ مثنوی مولانا روم اور دیگر صوفیہ کے اقوال جا بجا نظر آتے ہیں۔ تاریخ و سیر ، مقامی، ملکی و بین الاقوامی حالات پر وہ بے لاگ تبصرہ کرتے تھے اور ماضی و حال پر ان کی عمیق نظر تھی۔ سیاسی حالات میں اگرچہ وہ عملی طور پر شریک نہ ہوئے ، لیکن ان کے خطوط میں ان حالات پر ایسا تبصرہ ملتا ہے کہ باوجود منفرد ہونے کے اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے۔ انہوں نے ہندستان کی تقسیم کا ایک خاکہ خطوط میں پیش کیا ہے۔ یعنی کلچرل زون بنا کر وہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں کی خود مختاری کے حق میں تھے۔
***
حوا شی و مراجع
۱؎ گیلانی ، مناظر احسن ، سید ، مولانا ، النبی الخاتم ، لاہور ، مکتبہ رشیدیہ ، ۱۹۶۸ء، دیباچہ
۲؎ دریا بادی ، عبد الماجد ، محقق گیلانی ، صدق جدید ، لکھنو ، ۱۵ جون ، ۱۹۵۶ء ، ص ۴
۳؎ منت اللہ رحمانی، مکاتیب گیلانی جلد اول، خانقاہ مو نگیر ، دارالاشاعت رحمانی ، ۱۹۷۲ء ، ص۳۷۰
۴؎ محولا بالا ، ص ۳۷۷ ۵؎ محولا بالا ، ص ۱۰۰
۶؎ محولا بالا ، ص ۹۹ ۷؎ محولا بالا ، ص ۱۰۱
۸؎ محمد انظر شاہ کشمیری ، مولانا مناظر احسن گیلانی ، (مضمون ) ماہنامہ دیو بند ، اگست ۱۹۵۶ء، ص ۲۰
۹؎ مفتاحی ، محمد ظفیر الدین ، مولانا ، حیاتِ مولانا گیلانی ، کراچی ، مجلس نشریات اسلام ، ۱۹۹۴ء، ص۲۸۴
۱۰؎ محولا بالا ، ص۲۸۴
۱۱؎ ماہنامہ دار العلوم ، دیو بند ، اگست ۱۹۵۶ئ، ص۲۱
۱۲؎ محولا بالا ۱۳؎ منت اللہ رحمانی ، ص ۱۰۳
۱۴؎ غلام محمد ، ڈاکٹر ، (مرتب) مقالاتِ احسانی ، کراچی ، ۱۹۵۹ء، ص۸
۱۵؎ منت اللہ رحمانی ، ص ۹۸ ۱۶؎ محولا بالا ، ص۱۰۵
۱۷؎ سلیم اختر ، ڈاکٹر ، اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ، لاہور ، سنگ میل پبلی کیشنز ، ۱۹۷۵ء، ص۵۴
۱۸؎ منت اللہ رحمانی ، حوالہ مذکور ،ص۱۶۵
۱۹؎ ظفیر الدین مفتاحی ، حوالہ مذکور ، ص ۲۱۵
۲۰؎ محولا بالا ، ص ۱۷۱ ۲۱؎ محولا بالا ، ص۱۷۱
۲۲؎ محولا بالا ، ص ۱۷۴ ۲۳؎ محولا بالا ، ص ۱۹۲
۲۴؎ محولا با لا ، ص ۱۹۷ ۲۵؎ محولا بالا ، ص ۳۸۰
۲۶؎ محولا بالا ، ص ۳۳۷ ۲۷؎ ڈاکٹر غلام محمد ، حوالہ مذکور ، ص۸
۲۸؎ ندوی ، ابو الحسن علی ، سید ، مولانا ، پرانے چراغ ، کراچی ، مجلس نشریات اسلام ، حصہ اول، س ن ، ص ۷۵
۲۸؎ ظفیر الدین مفتاحی ، حوالہ مذکور ، ص ۱۳۴
۲۹؎ محولا بالا ، ص ۱۹۹ ، ۲۰۰
۳۰؎ ماہنامہ دار العلوم دیو بند ، اگست ۱۹۵۶ ئ، ص ۱۷
۳۱؎ ظفیر الدین مفتاحی ، ص ۱۰۲، ۱۰۱
۳۲؎ ظفیر الدین مفتاحی ،حوالہ مذکور ، ص ۲۵۸
۳۳؎ معارف (ماہنامہ ) ، اعظم گڑھ (بھارت ) ، مکتوبات گیلانی بنام غلام محمود شاہ (مہاراشٹر ) نمبر ۵ ،نومبر۱۹۶۸، ص ۳۸۸
۳۴؎ ظفیر الدین مفتاحی ، حوالہ مذکور ، ص ۳۶۹ ، ۳۷۰
۳۵؎ محولا بالا ، ص ۱۵۰ ۳۶؎ محولا بالا ، ص ۳۷۰، ۳۷۱
۳۷؎ سید ابو الحسن علی ندوی ، حوالہ مذکور ، ص ۷۵
۳۸؎ ظفیر الدین مفتاحی ، حوالہ مذکور ، ص ۵۳
۳۹؎ صحیفہ ، لاہور ، مئی ، جون ، ۱۹۷۹ ء، ص ۱۸
۴۰؎ محولا بالا ، ص ۳۰
۴۱؎ ظفیر الدین مفتاحی ، حوالہ مذکور ، ص ۲۳۷، ۲۳۸
۴۲؎ صحیفہ ، مئی ، جون ، ۱۹۷۹ ء، ص ۳
۴۳؎ معارف ، اعظم گڑھ ، نومبر ، ۱۹۶۸ ، ص ۳۸۸
۴۴؎ منت اللہ رحمانی ، حوالہ مذکور ، ص ۱۰۷
۴۵؎ محولا بالا ، ص ۳۳۰ ۴۶؎ محولا بالا ، ص ۳۳۴
۴۷؎ محولا بالا ، ص ۳۸۳
٭٭٭
ماخوذ: مجلہ تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، جنوری ۲۰۰۸ء
ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید