فہرست مضامین
مَم
غضنفر
انتساب
چھوٹے بھائی نسیم الحق کے نام
جسے پیار سے ہم لاڈو کہتے تھے
اور جو ہمیں چھوڑ کر چلا گیا
سوانحی کوائف
نام : غضنفر علی
تاریخ پیدائش : ۹؍مارچ ۱۹۵۳ء
جائے پیدائش : چوراؤں، گوپال گنج، بہار
تعلیم : ایم۔ اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ (اردو)
پیشہ :سرکاری ملازمت (پرنسپل، اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر، لکھنؤ) ڈپارٹمنٹ آف ایجوکشن، گورنمنٹ آف انڈیا
پہلی مطبوعہ تخلیق: ٹری کاٹ کا سوٹ (افسانہ)
کتابیں
۱۔ پانی (ناول) ۱۹۹۸ء
۲۔ کیچلی (ناول) ۱۹۹۳ء
۳۔ کہانی انکل (ناول) ۱۹۹۷ء
۴۔ دویہ بانی (ناول) ۲۰۰۰ء
۵۔ فسوں (ناول) ۲۰۰۳ء
۶۔ وش منتھن (ناول) ۲۰۰۴ء
۷۔ مشرقی معیار نقد (تنقید) ۱۹۷۸ء
۸۔ زبان و ادب کے تدریسی پہلو (درس و تدریس) ۲۰۰۱ء
۹۔ تدریس شعر شاعری (درس و تدریس) ۲۰۰۴ء
۱۰۔ کوئلے سے ہیرا (ڈراما) ۱۹۷۱ء
۱۱۔ حیرت فروش (افسانوی مجموعہ) ۲۰۰۵ء
زیرِ اشاعت تصانیف:۔
۱۔ شبلی کے تنقیدی نظریات (تحقیقی مقالہ)
۲۔ شوراب (ناول)
۳۔ لسانی کھیل (درس وتدریس)
۴۔ خواب کے پاؤں (شعری مجموعہ)
۵۔ سرخ رو (خاکوں کا مجموعہ)
۶۔ جمال پرست شبلی کا سماجی شعور (تنقید)
۷۔ ہندی شاعری پر اردو کے اثرات (تحقیق)
رابطہ:۔ پرنسپل، اردو ٹیچنگ اینڈ رسرچ سینٹر، ۱۰۔ اے، مدن موہن مالویہ مارگ، لکھنؤ
فون: 0522-2208490, 2204274 موبائل : +91-9451389930
بشریٰ، حمزہ کالونی، نیو سرسید نگر، علی گڑھ موبائل : +91-9411979684
کتابی صورت کا جواز
’مم‘ ’دویہ بانی‘، ’فسوں ‘ اور وش منتھن سے پہلے لکھا گیا۔ اردو کے ایک معیاری اور مشہور و معروف رسالے ’ذہن جدید‘ میں شائع بھی ہوا۔
مگر چوں کہ رسائل و جرائد کا اپنا ایک مخصوص دائرہ ہوتا ہے اور ان کے وسائل و ذرائع بھی محدود ہوتے ہیں، اس لیے ’مم‘ ان تمام لوگوں تک نہ پہنچ سکا جو فکشن کے شائق اور پارکھی ہیں۔
کچھ تنقیدی رایوں اور بعض دوستوں کے مشوروں سے اندازہ ہوا کہ ’مم‘ کو ان تک بھی پہنچنا چاہیے، جہاں ذہن جدید نہیں پہنچ سکا ہے اور جنہیں افسانوی ادب کی چاہ رہتی ہے۔ چنانچہ ’مم‘ کی کتابی صورت کی تیاری شروع ہو گئی۔
پہلے مرحلے پر محسوس ہوا کہ اس میں اضافے کی گنجائش ہے لہٰذا مسودہ تیار کرتے وقت بہت سے واقعات، حالات اور تفصیلات و جزئیات اس میں جڑتے چلے گئے اور ’مم‘ کی موجودہ صورت پہلے سے مختلف ہو گئی۔ اب یہ ان کی بھی توجہ اور دلچسپی کا باعث بن گیا ہے جو اسے رسالے میں پڑھ چکے ہیں۔
غضنفر
’مم‘ کی معنویت
فن کار کا کام یہ بھی ہے
کہ وہ لفظ میں معنی کو بسادے
لفظ چلنے پھرنے، ہنسنے بولنے لگے
اور اس طرح چلے پھرے
ہنسے بولے
کہ دیکھنے اور سننے والے
کے حواس دنگ رہ جائیں
یعنی کہ فن کار
لفظ میں ایسا منتر
پھونک دے
کہ لفظ
گنجینۂ معانی کا طلسم بن جائے
یہی فن ہے
لفظ میں معنی کو اس طرح بسایا جائے
منتر اس انداز سے پھونکا جائے
کہ بسانے
اور پھونک مارنے کا عمل
کہیں دکھائی نہ دے
یہ فن کاری ہے
’مم‘ میں حتی المقدور
معنی کو بسانے کی کوشش کی گئی ہے
اور یہ سعی بھی
کہ لفظ میں
معنی بسانے کا عمل
دکھائی نہ دے
’مم‘ میں پتھر سے پانی نکالنے
اور زہراب کو
زلال بنانے کا
جتن بھی کیا گیا ہے
کامیابی کہاں تک ملی ہے
اس کا فیصلہ قارئین کو کرنا ہے۔
غضنفر
’مم ‘ جبر کو زیر کرنے کی کہانی
زبیر رضوی
اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے بچے کے منھ سے جو پہلی علامتی آواز نکلتی ہے وہ ’مم‘ کی ہے۔ گویا انسان کی پہلی طلب ’پانی‘ سے شروع ہوتی ہے۔ ’پانی‘ انسانی بقا کا وسیلہ اور زندہ رہنے کا استعارہ ہے۔ انسان کا سارا سفر اور ساری کھوج ’پانی‘ کے حصول اور اس کے ذخیروں پر دسترس پا لینے کی جد و جہد سے عبارت ہے۔ یہ سفر اور پانی کی کھوج کی مہم دشوار بھی ہے اور کٹھن بھی۔ انسان کا باطن جو کامرانیوں کی کنجیوں سے واقف ہے وہ ناولٹ کے مرکزی کردار بے نظیر کو نظر، عقل اور فہم کو رہنما بنانے کا دانشورانہ مشورہ دیتا ہے کہ زندگی کے ’ناممکن‘ کو ممکن بنانے کے لیے پیاس کے سفر میں مہم جوئیوں کو دیکھ، سوچ اور سمجھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ زندگی ایک طویل اور نہایت کٹھن مرحلوں سے گذر کر اس تالاب تک پہنچتی ہے جس پر مگر مچھ قابض ہیں۔ تالاب پتھر کی اونچی اور سخت دیواروں کے بیچ پیاسوں کو تیشہ زنی پر اکساتا ہے اور جب پہلی بار پیروں تلے پانی کی کمی کا احساس ہوتا ہے تو یہ ساری مخلوق جھوم اٹھتی ہے لیکن اچانک فضا میں ایک عجیب و غریب چیخ بلند ہوتی ہے۔ جہد کے اس آخری موڑ پر سب کی آنکھیں سوال کرتی ہیں یہ چیخ کن کی ہے ؟ اور کہاں سے نکلی ہے ؟ بے نظیر کہتا ہے یہ چیخ سب کچھ چھن جانے کی چیخ ہے اور وہاں سے نکلی ہے جہاں ہمارا پانی تھا۔ چیخ مارنے والے کے پیروں سے پانی کھسک چکا ہے اور اب ان کے پاؤں زمین پر آ گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آبِ حیات پی لیا ہے اور اب یہ نہ مر سکتے ہیں اور نہ جی سکتے ہیں۔
’پانی‘ اور ’کہانی انکل‘ کے بعد غضنفر نے پھر ایک بار طاقتور لہجے میں زندگی کے جبر اور انسانی ہمّتوں کے ہاتھوں اس کے زیر ہونے کی کہانی رقم کی ہے۔ پانی اور پیاس کا استعارہ اردو نظم اور فکشن کا مانوس استعارہ ہے لیکن غضنفر نے ’مم‘ کے اختتام تک آتے آتے اس میں کئی جہت اور معنی کھوج لیے ہیں۔ ’حاصل‘ اور ’لاحاصل‘ انسان کے بھرے ہوئے ہاتھوں کے خالی ہو جانے کے خوف کی آگ ہی روشن نہیں کرتے ’اندوختہ‘ کے راکھ ہو جانے کا ملال بھی آنکھوں میں حیرتوں کی صورت رکھ دیتے ہیں۔
٭٭٭
تخلیقی تجدید کی مہم جوئی کا استعارہ
فرحت احساس
غضنفر ۱۹۸۹ء میں ’پانی‘ شائع کرنے کے بعد بھی پیاس اور تسکینِ تشنگی کے اس بلیغ استعارے کی جابرانہ کشش اور اس کی تہہ در تہہ اذیتوں کی گرفت سے بری نہیں ہو سکے۔ یہ استعارہ لفظوں کی نئی نئی توسیعات کے ساتھ ان کی تخلیق اور ذاتی شخصیت میں بھی نمودار ہوتا رہا۔ کچھ یوں لگتا ہے کہ پانی کی تلاش کا یہ استعارہ کارانہ عمل خود ان کی ذات و زندگی اور ذہن کا ایک ناگزیر تفاعل بن گیا ہے اور ان کی جان کو لاگو ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نامیاتی جبر نے انہیں خود اپنے معنی کی زمین کھودنے پر مامور کر دیا اور اس کھدائی نے انہیں ایسے لفظ دیے جو ایک نئے بیانیے کا تیشہ بن کر اپنے اندر پانی کے سر چشموں تک رسائی کا وسیلہ بن سکیں۔ یہ در اصل ذاتی و جود میں در آنے، اس پر متجاوز ہو جانے اور اسے اپنے اظہار کا ذریعہ بنا لینے کا عمل ہے۔ اس لحاظ سے ’مم‘ کا متن ’پانی‘ کے متن کی ہی توسیع نہیں ہے، غضنفر کے ذاتی متن کی بھی توسیع ہے۔ اس ضروری اضافے کے ساتھ کہ دونوں ’مم‘ اور ’پانی ‘ کے متن اپنا الگ الگ وجود رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ ’پانی‘ لکھنے والا غضنفر وہی غضنفر نہیں ہے جس نے ’مم‘ لکھا ہے کہ ہر نیا تخلیقی بیانیہ تخلیق کار کا ایک نیا ذاتی وجودی بیانیہ قائم کرتا ہے۔
’مم‘ کے ساتھ تفہیمی معاملہ کرتے ہوئے سب سے پہلا سابقہ اسی لفظ ’مم‘ کے ساتھ پڑنا ناگزیر ہے۔ اگرچہ یہ لفظ عنوان کے علاوہ پورے متن میں کہیں بھی موجود نہیں ہے مگر ’مم‘ کے عنوانی اضافے نے پورے متن کو ایک پراسرار وسعت دے دی ہے۔ ’مم‘ انسان کے حیاتیاتی آغاز، اس کے عرصۂ طفلی کا ایک لازمی لفظ ہے جس کے استعمال سے اس پورے قصے میں ایک سوانحی جہت پیدا ہو گئی ہے۔ اب یہ قصہ کہیں بیچ سے شروع نہیں ہو رہا، انسان کے حیاتیاتی وجود کے نقطۂ آغاز سے شروع ہو رہا ہے، حالانکہ متن میں ایسا کہیں نہیں ہے۔ یعنی کہا یہ جا رہا ہے کہ ہمارا یہ قصہ جاری تو انسان کے حیاتیاتی اور تہذیبی بھی، وجود کے آغاز سے ہو جاتا ہے مگر اس کا بیان ہم اس کے شعوری اور حسی پختگی کے نقطے سے اٹھا رہے ہیں کہ اس کا بیان اس سے پہلے کے کسی نقطے پر قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ ’مم‘ ایک ایسا لفظ سے جو عرصۂ طفولیت عبور ہوتے ہی شعوری انسانی زندگی اور اس کے بالغ لسانی نظام میں باقی نہیں رہتا۔ شعوری انسانی زندگی اور بالغ لسانی نظام میں ’مم‘ در اصل محض ایک حافظ نشان کے طور پر ہی باقی اور سرگرم رہتا یا رہ سکتا ہے۔ ’مم‘ کے متن میں بھی اس کی نا موجودگی یا غیاب شعوری زندگی اور بالغ لسانی نظام میں اس کی نا موجودگی یا غیاب کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح انسان شعوری اور لسانی بلوغ حاصل کرنے کے بعد ’مم‘ کہنا چھوڑ دیتا ہے اسی طرح یہ متن بھی صرف عنوان میں ہی ’مم‘ کہتا ہے اور اس کے بعد ’مم‘ پانی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسے اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’مم‘ جو کہ انسانی زندگی اور تہذیب کی معصومیت اور غیر آلودہ فطری شناخت کا لفظ ہے، پانی پر مبنی ڈسکورس میں جو شعور میں آنے کی آلودگیوں، شکست، معصومیت اور آشوب آگہی کا قصہ ہے، محض ایک یاد اور ایک پُر ملال مگر روشن پرچھائیں کے طور پر ہی موجود رہ سکتا ہے۔
’مم‘ کا آغاز ایک پہلے سے جاری قصے کے ایک مرحلے سے ہوتا ہے جو مرکزی کردار کو درپیش ایک بحران کا مرحلہ ہے۔
غشی مٹی
اور نگاہوں سے دھند چھٹی
تو آنکھوں میں
سفر
سمٹ
آیا
قصے کا آغاز کا یہ اچانک پن اور اضطراری کیفیت آنے والے تمام معاملات کی نوعیت کی پیش بندی کر دیتی ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مرکزی کردار ایک سفر سے گذر کر آیا ہے اور اسے مزید سفر درپیش ہے۔ پھر گذشتہ سفر کی تفصیل پیش کی جاتی ہے اور یہیں سے قصے کا متن ایک معنی کے گنجان اسرار میں داخل ہوتا ہے۔ بیانیہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ کہیں بھی یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ یہ سفر کسی ایک فرد کو درپیش ہے یا اجتماعی طور پر پوری تہذیب کو یا یہ کہ یہ سفر خواب میں ہو رہا ہے یا حقیقت میں۔ خارج میں واقع ہے یا باطن میں۔ یہاں اختیار کیا گیا داستانی طرز بیان، خواب اور حقیقت دونوں کے امکانات کو یکجا کرنے میں معاون ہوا ہے۔ اس طرح کہ یہ بیانیہ دونوں حالتوں کے درمیان ایک پردۂ البتاس کھینچ دیتا ہے جو ان دونوں کو علاحدہ بھی کرتا ہے اور یکجا بھی۔
مرکزی کردار بے نظیر کو درپیش سفر کی کئی نوعیتیں / زمرے / مرحلے بیان کیے گئے ہیں۔ حواس کا مرحلہ، حافظے کا مرحلہ، خارجی علم (ٹکنالوجی) کا مرحلہ اور روایتی باطنی علم کا مرحلہ۔ ان میں سے ہر مرحلہ ناکامی اور نامرادی پر ختم ہوتا ہے۔ حواس کی لذت بے نظیر کو سیراب کرنے کی بجائے اسے گرم زمین پر تڑپتا ہوا چھوڑ جاتی ہے۔ فنون لطیفہ بھی اسے چند لمحوں کے لیے مسحور کرتے ہیں اور بس۔ اسے ماضی کی شاندار عمارتیں دکھائی جاتی ہیں، ماقبل تہذیب کو فطری سادگی کے روبرو لایا جاتا ہے اور سائنسی و ٹکنالوجی کی ہوش ربا ترقیوں سے ہم کنار کر دیا جاتا ہے مگر اس کی پیاس کا سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ پھر غارِ رہبان کو باریش بزرگ اسے تقویٰ اور پرہیزگاری کی تعلیم دیتا ہے اور امرت پر قبضے کے لیے راکشسوں کے خلاف جنگ میں مصروف دیوتا اسے کرم یوگ کی پناہ لینے کی تلقین کرتے ہیں۔
خواجہ خضر اسے چشمۂ حیواں اور آبِ حیات کی خبر دیتے مگر وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ آبِ حیات کا سرچشمہ نہنگوں سے بھرا ہوا ہے جو آبِ حیات پی کر ماورائے فنا ہو چکے ہیں اور اب ان کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے بھی اب بے نظیر کو آبِ حیات نہیں پانی چاہیے کہ اسے دوامی زندگی نہیں بلکہ اس دنیا کی ارضی زندگی درکار ہے۔
اب تک کا سارا بیان اپنے تمام تر علمیاتی حوالوں اور علامتی وسائل کے ساتھ یہ اشارہ کر چکا ہے کہ بے نظیر کی پیاس اور پانی کی تلاش کا معاملہ در اصل ایک بڑا اور سنگین تہذیبی مسئلہ ہے اور بے نظیر ایک ایسی بحران زدہ تہذیب کا نمائندہ ہے جس کے علم و آگہی کے تمام حربے کند ہو چکے ہیں اور اس کا تخلیقی سر چشمہ خشک یا زہریلا ہو چکا ہے۔ یہ در اصل انسان کی اپنے اصل کے ساتھ وصال کی پیاس ہے اور پانی ہے اپنے اصل چہرے کی شناخت، اپنی ازلی سادگی اور سلاست کی بازیافت اور اپنے تخلیقی سوتوں تک رسائی لیکن بے نظیر جس تہذیب کا نمائندہ ہے وہ اسے حواس کی عارضی لذت، فنونِ لطیفہ کے نام پر رقص و موسیقی اور جنسی گدگداہٹ کے سحرِ سامری، ماضی کی روشن یادوں اور فرسودہ آدرشوں کی تکرار، ٹکنالوجی کی حیرت انگیز کامرانیوں کی چکا چوند اور رومانی تسکین کے روایتی فارمولوں کے سوا اور کچھ نہیں دے سکتی۔
علوم و فنون اور روحانی وسائل کی اس ناکامی کے پس منظر میں ایک صدائے اندرون بلند ہوتی ہے اور کہتی ہے :
پانی اس لیے نہیں ملا کہ
تو نے سوچا نہیں
پانی اس لیے نہیں ملا کہ
تو نے سمجھا نہیں
یہ صدا فکر اور فہم کے فضائل بیان کرتی ہے جس کے زیرِ اثر بے نظیر کی سوئی ہوئی باطنی قوتیں بیدار ہوتی ہیں اور وہ ایک گہرے تہذیبی رومانی تجربے سے گذرتا ہے۔ اس کے سامنے انسانی تاریخ کے تین بڑے روحانی تجربات کا منظر نامہ کھل جاتا ہے جس کے ذریعہ اسے اسلامی، بودھ اور ہندو تہذیبی روشنیوں کے سرچشموں تک رسائی ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ
جیسے وہ غار میں بیٹھا ہے
جیسے اس کے سر پر برگد اُگ آیا ہے
جیسے اس کے جسم میں ودھیچی کی ہڈیاں در آئی ہیں
جیسے اس کی رگوں میں چوہا رینگنے لگا ہے
جیسے وہ ققنس بن گیا ہے
جیسے اس کے ہاتھوں میں تیشہ تھما دیا گیا ہے
جیسے ساری فطرت اس کے اندر سما گئی ہے
یہ بے نظیر کی تخلیقی تجدید کا لمحہ اور روایتی علم کے حقیقی علم، علم کے عرفان اور عرفان کے مکاشفے میں تبدیلی کا عرصہ ہے۔ اب وہ اپنے انسانی اصل سے روبرو ہے اور اس کی تمام تر تخلیقی قوتوں کے عَلم کھل چکے ہیں۔ یہیں سے ’مم‘ کے بیانیے میں ایک رزمیہ جہت کا اضافہ ہوتا معلوم ہوتا ہے اور بے نظیر ایک رزمیہ ابعاد کے حامل ہیرو کی طرح ابھرتا نظر آتا ہے۔
اب تک بے نظیر کے چاروں طرف اس کے ہی جیسے پیاسوں کا ایک ہجوم جمع ہو چکا ہے جو اسی کی طرح پانی طلبی کے سوالوں سے زخمی اور نڈھال تھے۔ یہ تمام لوگ سرچشمۂ آب کے گرد کھنچی چہار دیواری کے باہر پیاس کی شدت میں ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ خوں ریزی اور ہلاکتِ باہمی کا بازار گرم تھا۔ دور دور تک لاشیں بچھی تھیں اور ہڈیاں بکھری تھیں۔ بے نظیر کی آنکھوں میں آہستہ آہستہ چہار دیواری کے پاس پڑی ہڈیاں سمٹ آئیں۔
ہڈیاں جن میں پسلیاں تھیں
ہڈیاں جن میں ہنسلیاں تھیں
ہڈیاں جن میں انگلیاں تھیں
ہڈیاں جن میں ہاتھ تھے
ہڈیاں جن میں پاؤں تھے
ہڈیاں جن میں ریڑھ تھی
انسانی انہدام کے اس منظر میں بے نظیر ایک پیغمبرانہ شان کے ساتھ اپنے ہم نصیبوں کو آواز دیتا ہے اور انہیں پیاس کے خلاف پانی اور موت کے خلاف زندگی کی اس جنگ میں، مردہ انسانی جسموں کی ہڈیوں کو اپنا اسلحہ بنا لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ استعارہ ہے اس بات کا کہ پانی کے سرچشمے تک رسائی کی اس نئی تہذیبی مہم میں استعمال کیے جانے والے ہتھیار خارجی نہیں بلکہ نامیاتی ہوں گے اور موت کے نتائج کو زندگی کے حصول کا سبب بنایا جائے گا۔
اس کے بعد کا سارا قصہ پانی کے سرچشمے تک پہنچنے کی رزمیہ مہم کا ہے جس کے دوران ہڈیوں کے اسلحہ سے زمین کھود کر ایک زیرِ زمین راہ تیار کی جاتی ہے۔ زمین کی کھدائی کا یہ عمل روحانی تخلیقی تجدید کی اس مہم کو انسانی وجود کے ارضی حوالوں سے مربوط کرتا ہے۔ یہ مہم کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ پانی کے سرچشمے تک رسائی ہوتی ہے مگر یہ کامیابی ایک سوال سے مشروط ہے۔ یہ سوال ایک چیخ کی صورت ابھرتا ہے اور بے نظیر کی صدا بلند ہوتی ہے۔
تمہاری حیرانی دور ہو سکتی ہے
بیتابی مٹ سکتی ہے
ہر سوال کا جواب مل سکتا ہے
اگر تم یہ جان جاؤ
کہ ابھی ابھی جو کرب ناک چیخ بلند ہوئی ہے
وہ کیسی ہے ؟
کہاں سے نکلی ہے ؟
اور کن کی ہے ؟
اور آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ چیخ ان لوگوں کی ہے جو آبِ حیات پی چکے ہیں اور جو نہ مرسکتے ہیں نہ جی سکتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ اس کی ایک تعبیر موجودہ مغربی تہذیب کے ان علم برداروں کی صورت میں کی جا سکتی ہے جنہیں ناقابلِ شکست ہونے کا دعوی ہے مگر جو اپنی خارجی قوتوں کے پردے میں امن و سلامتی کے باطنی وسائل سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اس طرح ’مم‘ ایک تہذیبی راہ سلوک کی تخلیقی مہم جوئی کا استعارہ معلوم ہوتا ہے جس میں ہندوستان کی تین بڑی اسلامی، بودھ اور ہندو تہذیبی روایتوں کی عرفانیت کو یکجا کر دیا گیا ہے، اس اصرار کے ساتھ کہ انسان کی تخلیقی تجدید کی کوئی بھی مہم ان روایتوں کے مردہ حصوں کو کاٹ کر ان کے اندرون میں اترنے اور ان کے مردہ حصوں کو اس تجدیدی مہم کا اسلحہ بنانے کے ذریعہ ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔
٭٭٭
مم
غشی مٹی
اور نگاہوں سے
دھند چھٹی
تو آنکھوں میں
سفر
سمٹ
آیا
سفر
جو پیاس سے شروع ہوا
تلاشِ آب میں آگے بڑھا
جہدِ مسلسل سے طے ہوا
سفر
جو پائے فگار
پارچۂ تار تار
نوکِ خار
اور زخمِ بے شمار
کے ہمراہ
تالاب تک پہنچا
سفر
جس میں
شہہ زور
شعلہ فشاں
سرکش
اور شاطر
مگرمچھوں سے
مردانہ وار
مقابلہ کیا گیا
پانی میں چھوڑ گئے
زہرِ نہنگ کو
زائل کرنے کے واسطے
دشوار
پُر خار
اور خطرناک
راستوں سے گزر کر
محنت
مشقت
ہمت
اور صبر و استقامت سے
کوہِ زہر مہرہ کے سخت سنگلاخ چٹان کو
کاٹ کر تالاب میں ڈالا گیا
زہراب کو زلال بنایا گیا
سفر
جس میں
خواب دکھایا گیا!
بند پلکوں میں تالاب ابھرا
کنارے پھیلے
پانی کا دائرہ بڑھا۔ تالاب جھیل میں تبدیل ہوا
دور دور تک آبِ شفاف جھلملا اٹھا
پانی سے پری پیکر مچھلیاں نمودار ہوئیں
پری رخ مچھلیوں کا حسنِ ہیجان خیز جگمگایا
بے قرار بدن روپ کی قرابت کے لیے جھیل میں کود پڑا
مچھلیاں اوجھل ہوئیں
تہہِ آب حدِّ نگاہ تک فرش بچھ گیا
دور دور تک بے شمار درّ خوش آب
موتی، مروارید لعل، لولو، جواہرات
یاقوت زمرد اور گوہر شب تاب
سج گئے
آنکھیں حیرت و استعجاب سے بھر گئیں
پر اسرار ماحول سے مدہوش کن آواز ابھری
’’سن اے محوِ حیرت اجنبی‘‘
صورتِ تصویر آدمی
یہ جو گوہر حضور تیرے ہیں
یہ سبھی رنگ و نور تیرے ہیں
چیز جو بھی یہاں کی میری ہے
یوں سمجھ لے کی شے وہ تیری ہے
میں بھی تیری، یہ جان بھی تیری
اس جہاں کی سب آن بان بھی تیری
بے جھجھک سب کو استعمال میں لا
اپنی ہستی کو مالا مال بنا
تن کی ہستی سنوار گوہر سے
من کی نگری سنوار جوہر سے
رنگ اس روپ کا نگاہ میں بھر
دولتِ حسن اپنے ہاتھ میں کر
انگ سے انگ کا خزانہ کھول
جسمِ سیمیں کا نشہ روح میں گھول
شہد آمیز سخنِ شیریں
بے نظیر کی سماعت میں گھلا
ساکت پتلیاں متحرک ہوئیں
نگاہیں صدائے دل نشیں کی سمت اٹھیں
سامنے ایک پری پیکر، گل اندام، غزال چشم، رشکِ چمن
منبعِ مشکِ ختن، لباسِ مرصّع سے مزیّن، دوشیزۂ دل نواز
ناز و انداز کے ساتھ کھڑی درِّ افشانی میں مشغول
نظر آئی
نظر سے نظر ملی
پیروں میں حرکت ہوئی
پائل چھنکی
وہ پیکرِ جمال
مجسمۂبے مثال
شاخِ گل کی طرح لچکی
اور بلبلِ ہزار داستاں کی مانند گویا ہوئی
’’اے جواں سال تشنہ لب‘‘
گرفتارِ طلسم تاب و تب
آ مرے حلقۂ آغوش میں آ
آ مرے جسمِ معطّر میں سما
بر آئے گی ہر مراد تری
تجھ کو مل جائے گی اک لال پری
دور ہو جائے گی تھکن ساری
مٹ کے رہ جائے گی بدن سے بے قراری
مے کشی کا مزہ اٹھائے گا
تشنگی کا پتا نہ پائے گا
جسم و جاں میں نشہ سمائے گا
چشم سے استعجاب جائے گا
اس حسینۂ ارغوانی کی سحرالبیانی سے
بے نظیر کا جذبۂ شوق جگا
اشتہائے نفس بڑھی
دل بے قرار ہوا
ذہن، مقطع جسم
منزّہ حسن
مرصّع سنگار
مسجّع گفتار
اور مد مست رفتار
کی تاب نہ لا سکا
مقناطیسی رنگ و روپ کی جانب کھنچتا چلا گیا
اور آہستہ آہستہ
گل بدن کی خوشبو
کومل اور من ماک رنگوں کے لمس
مشکبار ریشمی زلفوں کی چھاؤں
اور جواں آغوش کی حرارت
کے زیرِ اثر بے خودی میں ڈوب گیا
اور جب آنکھ کھلی
تو خود کو
گرم زمین پر
ماہیِ بے آب کی مانند
پیاس سے بے تاب پایا
سفر
جس میں
گیت سنایا گیا
’’مجھے حسرت سے دیکھنے والے اے حیران اجنبی
آ میں تیری آنکھوں کی حیرتیں دور کر دوں
تری اجنبیت مٹا دوں
تجھ پر اپنے دل و جان وار دوں
تیری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
آ اے دھوپ میں جھلسے ہوئے نوجوان اجنبی
ترے جسم سے تمازت کے کانٹے نکال دوں
تجھ پر اپنی زلفیں پسار دوں
تیری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
آ اے جہانِ شور و شر میں ڈھونڈنے والے امن و امان اجنبی
تجھے اپنی آغوش میں چھپا لوں
ترے دل کو صبر و قرار دوں
تیری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
آ اے دشت و صحرا میں بھٹکنے والے پریشان اجنبی
ترے خشک ہونٹوں پر اپنے لب و رخسار رکھ دوں
ترے رگ و پے میں امرت اتار دوں
تری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
آ اے سیاہ رنگت والے والے بے زبان اجنبی
تجھے اپنے جسم کی چاندی اوڑھا دوں
ترا رنگ و روپ نکھار دوں
تری زندگی کو سنوار دوں
تجھے پیار دوں
موسیقی چھیڑی گئی
سارےگ مَ پَ دھَ نی سا
سانی دھَ پَ مَ گَ رے سا
دھنک دھنک دھن دھنک دھنک دھن
نا دھن دھنّا نا دھن دھنّا
نا تن تنّا تا تن تنّا
رقص دکھایا گیا
چھن
چھن چھنا چھن
چھن چھنا چھن چھن
چھن چھن چھنا چھن چھن
سفر
جس میں ماضی کی پر شکوہ اور منقش عمارتوں میں لے جایا گیا
’’اس نگار خانہ پُر بہار میں آپ کا استقبال ہے
دل تھام کر آیئے، اب میں آپ کو نگار خانے کی پہلی کشش سے روبرو کراتی ہوں۔ دلفریب مرقعوں سے مزیّن یہ عمارت جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں، زمین کی کوکھ سے نکالی گئی ہے۔ صدیوں پرانی یہ عمارت اس وقت کی یادگار ہے جب انسان جنگلوں سے باہر نہیں آیا تھا۔ جب کندمول اس کی غذا، چھال پات اس کا لباس اور پہاڑوں کے غار اس کی جائے پناہ تھے۔
فن کاری سے معمور یہ پراسرار شاندار عمارت اس وقت وجود میں آئی جب یہ دنیا تہذیب سے خالی اور علوم سے عاری تھی۔ جب رشتوں نے جنم نہیں لیا تھا۔ نیک و بد کے درمیان کوئی خط نہیں کھنچا تھا۔ یہ پُر بہار جاندار عمارت اس غیر مہذب انسان کے ہاتھوں تعمیر ہوئی جس کے کان اشلوکوں سے نا آشنا تھے جس کی آنکھیں رشتوں کی شکلوں سے ناواقف تھیں۔ جس کا ذہن نیکی، بدی، جھوٹ اور سچ کے تصورات سے مبرّا تھا۔
سفر
جس میں جادو دکھایا گیا
’’صاحبانِ ذی وقار! فہم و فراست کے پرستار! میں ایک ساحر ہوں ! ساحر! یعنی فسوں ساز! ارتھات جادوگر! جادو کا کمال دکھانا، عقل کو حیرت میں ڈالنا، منطق کو بے جان کرنا اور ہوش مندی کا ہوش اڑانا میرا پیشہ ہے۔ سفید کو سیاہ کرنا، رائی کو پہاڑ بنانا، پانی میں آگ لگانا اور آگ میں پھول کھلانا، میرا دلچسپ مشغلہ ہے۔
میں چاہوں تو بے بال و پر کو اڑا دوں اور پردار کی پرواز چھین لوں
آسمان کو زمین پر اتار دوں اور زمین کو آسمان پر بٹھا دوں
پانی سے بھری ہوئی بالٹی کو خالی کر دوں اور خالی گھڑے کو پانی سے بھر دوں
میں چاہوں تو بوتل میں جن اور کوزے میں سمندر اتر جائے، خالی ڈبہّ مٹھائی سے بھر جائے لیکن مجھے معلوم ہے کہ میری باتوں پر آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ آپ ہوش مند لوگ ہیں۔ سروں میں دماغ اور دماغوں میں عقل رکھتے ہیں۔ چیزوں کو منطق سے پرکھتے ہیں اور جادوگری کو محض توہم پرستی سمجھتے ہیں مگر میں آپ کو یقین دلا دوں کہ میرا جادو آپ پر چل کر رہے گا۔ شعلۂ سحر سے خرمنِ عقل جل کر رہے گا۔
وہ ساحر کیا کہ حیرت عقل کے اندر نہ گھولے
وہ جادو کیا جو سر کے بام پر چڑھ کر نہ بولے
تو صاحبان! آپ خبردار و ہشیار ہو جائیے۔ چشم بینا کو کھول کر تیار ہو جائیے۔ اب میں اپنا عصائے طلسم گھماتا ہوں۔ چند نمونے دکھاتا ہوں۔
جادو منتر۔ کال کلنتر۔ سحر سہارا۔ جیون جنتر
بھیج سامری تل تل تنتر، چھو
بند مٹھی کھلی
متھی کے اندر سے پھڑپھڑاتا ہوا کبوتر نکلا
’’اے مرے ذی شعور قدردان! دانشمندانِ جہان! ذرا غور سے ملاحظہ کیجیے، کبوتر نقلی نہیں اصلی ہے۔ سو فیصد اصلی۔ یقین نہ ہو تو یہ دیکھیے
کبوتر خلا میں اچھلا اور اڑان بھرنے لگا
سفر
جس میں سائنسی کارناموں کی نمائش کی گئی
ایک زور دار دھماکے کے ساتھ مخصوص قسم کی آواز نکالتا ہوا ایک فولادی پرندہ زمین سے اڑا اور
خلا میں پرواز کرتا ہوا ماہتاب میں داخل ہو گیا
زوں کی آواز بند ہوئی
پر سمٹے
پروں کی بتیاں گل ہوئیں
منقار کی کھلی
چونچ سے ایک نقاب پوش باہر نکلا
قلعۂ ماہتاب میں لرزش ہوئی
دنیائے قمر کا تاج دار حیران و پریشان ہوا
آناً فاناً میں ایک طابع دار تاج دار کے حضور میں پیش ہوا
’’ بندہ بندگی کے لیے حاضر ہے عالی جاہ!‘‘
تاج دار کے لب ہلے
’’ دریافت کرو جہانِ ماہتاب کے اس قلعۂ آب و تاب میں یہ لرزش کیوں ہے ؟ دیوار و در کی جنبش کے اسباب کیا ہیں ؟‘‘
’’جو حکم عالم پناہ!‘‘
تابع دار حکم برداری کے لیے روانہ ہوا
تابع دار کی نگاہ نقاب پوش سے ٹکرائی
لبوں سے سوال اچھلا
’’تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو‘‘
’’میں ایک انسان ہوں۔ آب و گل کی دنیا سے آیا ہوں ‘‘
’’تم بشرِ ارض ہو‘‘ تابع دار کی آنکھیں پھیلیں
’’ہاں، میں زمین پر رہنے والا مٹی کا آدمی ہوں ‘‘
’’یہاں آنے کا مقصد؟‘‘
’’چاند کی سیر‘‘
’’اچھا تو تم دنیائے قمر کی سیّاحی چاہتے ہو، ٹھیک ہے یہیں ٹھہرو، میں تمہاری آمد کی اطلاع شہنشاہِ ماہتاب کو دیتا ہوں ‘‘
طابع دار تاجدار کے حضور حاضر ہوا۔
’’اے جہانِ ضیا بار کے بادشاہ! اے شہنشاہِ حشمت و جاہ، اے دنیائے ماہتاب کے تاجدار! کائنات جمال کے مالک و مختار! ہم نے قلعۂ آب و تا کا چپہ چپہ چھان مارا! گوشہ گوشہ ڈھونڈ ڈالا لیکن کہیں کچھ نہیں پایا
البتہ ایک حیران کن حادثہ یہ دیکھنے میں آیا
’’فوراً بتاؤ‘‘
’’دنیائے ارض کا ایک انسان فرشِ انوار پر آ پہنچا ہے
اور جہانِ ماہتاب کی سیر و سیاحت کی آرزو رکھتا ہے
کیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ عالمِ آب گل کا بشر یہاں تشریف لے آیا ہے !‘‘
یہ مژدۂ دل پسند، خبرِ خوش آئند تو ہمارے لیے باعث عزت و افتخار ہے۔ اس کی آمد آمدِ فصلِ بہار ہے۔ جاؤ اس اشرف المخلوقات کا استقبال کرو۔ اس کے حضور میں میرا سلامِ شوق کہو، عزت و احترام اور شاہانہ تزک و احتشام کے ساتھ اسے دربارِ تجلی میں لے آؤ!
سفر
جس میں غارِ رہبان کے سفید ریش بزرگ کو توجہ سے سنا گیا
’’غور سے سنو اور ایک ایک لفظ پر دھیان دو
یہ دنیا ایک سراب ہے۔ ایک نابود نا پید شے۔ یعنی کہ معدوم ہے۔ ٹھہرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں، اب تمہاری سمجھ میں آ جائے گا۔ بتاؤ یہ کیا ہے ؟
’’یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ میرا سایہ ہے ‘‘
’’اور یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
’’یہ قلم ہے۔ یعنی اس قلم کا سایہ ہے ‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ، کیا تمہارا سایہ مجھے یہ قلم دے سکتا ہے ؟‘‘
’’یہ کیسے دے سکتا ہے ؟ یہ تو محض میرا عکس ہے ‘‘
’’یعنی تمہارا یہ سایہ اپنی جیب کا قلم مجھے نہیں دے سکتا؟
’’ہرگز نہیں دے سکتا‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بے جان ہے ؟
’’ہاں، سو فی صد بے جان ہے ‘‘
’’گویا اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ؟‘‘
’’بے شک اس کا اپنا کوئی وجود نہیں ‘‘
’’یعنی یہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے ‘‘
’’ہاں، نہیں ہے ‘‘
’’مطلب معدوم ہے ؟‘‘
’’ہاں، ہاں معدوم ہے لیکن آپ کا مدعا کیا ہے ؟‘‘
’’در اصل میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ جس طرح یہ سایہ تمہارا عکسِ محض ہے، اس کا اپنا کوئی وجود نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ معدوم ہے، یعنی کہ یہ ہے نہیں صرف اس پر ہونے کا دھوکا ہو رہا ہے، بعینہٖ یہ دنیا ہے۔ ‘‘
یہ دنیا محض ایک عکس ہے
اصل کا
ایک پرتو ہے
حقیقت کا
جس طرح تمہارا یہ سایہ مجھے یہ قلم نہیں دے سکتا
اسی طرح یہ دنیا تمہیں پانی نہیں دے سکتی
اور جس چیز سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا
اس کے پیچھے بھاگنا
اس کا تعاقب کرنا
فضول ہے۔ ایک کارِ عبث ہے۔
پس اے نوجوان!
تمہیں چاہیے کہ تم اس سراب کے تعاقب سے باز آ جاؤ!
دامِ فریب سے نکل آؤ
عکس کا پیچھا چھوڑ دو
اصل کے سر چشمے کی طرف رجوع کرو
حقیقت کا جوئندہ بن جاؤ‘‘
’’آپ کی نصیحت مجھے قبول ہے پر یہ تو معلوم ہو کہ وہ اصل، وہ حقیقت کیا ہے۔ اور اس کے حصول کی سبیل کیا ہو سکتی ہے ؟‘‘
’’تمہارا یہ سوال معقول لگتا ہے۔ تمہیں لازمی طور پر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اصل کیا شے ہے، وہ حقیقت کیا ہے ؟‘‘
تو سنو!
اس عکس کی حقیقت ہے
وہ ذاتِ صد صفات
جس کا مظہر یہ جہانِ بے ثبات ہے
اس پرتو کا اصل ہے
وہ وجود
جس کا حسن تمام کائنات کی جاذبیت کا سبب ہے
جو لافانی و لا محدود اور بے مثال و لازوال ہے
جو جمالِ مطلق اور کمالِ کل ہے
جو منبعِ باد و آتش اور آب و گل ہے
جس سے روح کو تسکین
اور نفس کو تلقین ملتی ہے
جو روحِ کائنات
اور جوہرِ موجودات ہے
جو دونوں جہاں کا خالق
اور کون و مکاں کا مالک ہے
جس کے قبضۂ قدرت میں کل کائنات
ارض و سماوات
سارے خلائق
حورو ملائک
جن و بشر
شمس و قمر
شجر و حجر
چرند و پرند
تمام مخلوقات ہیں
اوراس مطلق الجمال اور حسنِ باکمال کے حصول کا ذریعہ عشقِ پُر استقلال ہے
عشق ہی وہ راستہ ہے
جس پر گامزن ہو کر
چشمۂ حسن تک پہنچا جا سکتا ہے
اور اس حسنِ ضیا بار، مخزن خوبی بے شمار
کے دیدار سے قلبِ سیاہ کو پُر نور
اور ذہنِ بے قرار کو مخمور کیا جا سکتا ہے
عشق ہی وہ جوہرِ آب دار ہے
جو خودی کی کیفیت کو آشکار
اور خود فراموشی کے جذبے کو بیدار کرتا ہے
عشق ہی وہ بادۂ بے لوث ہے
جو انسان کو دنیاوی عیش و آرام
راحتِ جان
ساز و سامان
اور زمین و آسمان
سے بے پروا کر کے
لامکان میں پہنچاتا ہے
اور جذب و مستی کے جہان میں غرق کرتا ہے
عشق ہی وہ خضرِ راہ ہے
جس سے چشمۂ حیوان کا پتا ملتا ہے
آبِ حیات حاصل ہوتا ہے
’’قطع کلام کے لیے معذرت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت، حسن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عشق
یہ سب کچھ تو سمجھ میں آ گیا مگر یہ سمجھ میں نہ آ سکا
کہ مری اس وقت کی جو تشنگی ہے، اس سے نجات کی سبیل کیا ہے ؟
میں اپنی پیاس کو کس طرح مٹاؤں ؟
اس اضطراب سے کیسے چھٹکارا پاؤں ؟
’’اس کا بھی راستہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ ہے مجاہدہ، تقویٰ، فقر، استغنا
یعنی کہ پوری قوت کے ساتھ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرو۔ خواہش نفسانی کو مارو
لذّات جسمانی کو چھوڑو
تقویٰ اختیار کرو
صبر و قناعت سے کام لو
ریاضتِ شاقّہ میں مشغول ہو جاؤ
دنیا و مافیہا سے بے پروا ہو جاؤ
یہ ہیں وہ سبیلیں
جو احساسِ تشنہ لبی کو مٹا سکتی ہیں
تمہاری تشنگی کو بجھا سکتی ہیں
اور جو چاہتے ہو
کہ سیرابیِ دوام حاصل ہو جائے
ابد تک کے لیے پیاس مٹ جائے
تو عشق کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رہو
کہ اسی کے سہارے
دامانِ جمالِ مطلق تک تمہاری رسائی ہو گی
جس کے زیرِ سایہ
تمہیں باغِ رضوان کے معطر و منوّر فضاؤں کے درمیان
ایسی منزّہ و مصفّا نہریں دستیاب ہوں گی
جن کا پانی
شیر سے زیادہ سفید
پیش از شہد شیریں
اور برف سے بڑھ کر ٹھنڈا ہو گا
اور جسے حورانِ بہشت
اپنے مبارک جنّتی ہاتھوں سے تمہیں پیش کریں گی
اور جس کوپی کر
تم حالتِ تشنہ لبی
اور کیفیتِ سیمابی
سے نجات پا جاؤ گے
تمہیں ابدی سیری حاصل ہو جائے گی
لو، یہ تسبیح سلیمانی پکڑو
اور تصورِ جمالِ مطلق میں کھو جاؤ
سفر
جس میں غزالوں کی مانند زقندیں لگائی گئیں
ریگ زاروں کی جھلملاہٹوں کے پیچھے دوڑا گیا
گرم ریت میں ماہی بے آب کی طرح تڑپا گیا
عالمِ اضطراب میں آسمان کی جانب رجوع کیا گیا
آسمان جہاں سے حکم صادر ہوتا ہے
بادلوں کو
کہ وہ برسیں
زمینوں کو
کہ وہ دامن میں دریا بسائیں
دریاؤں کو
کہ وہ پیاس بجھائیں
ہواؤں کو
کہ وہ زندگیاں عطا کریں
آسمان
جس نے یوسف کو کنویں سے نکالا
آسمان
جس نے عیسیٰ کو بن باپ کے پیدا کیا اور پالا
آسمان
جس نے آتشِ نمرود کو گلزار بنایا، ابراہیم کو آگ کی لپٹوں سے بچایا
آسمان
جس نے یونس کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا
آسمان
جس نے کرشن کو کنس کی قید سے آزاد کرایا
آسمان
جس نے موسیٰ کو دشمن کے ہاتھوں پروان چڑھایا
آسمان
جس نے سیتا کو راون کے شر سے محفوظ رکھا
لیکن آسمان
خاموش رہا
سفر
جس میں شیر ساگر تک پہنچا گیا
دیوتا اور دانو کو امرت پیتے ہوئے دیکھا گیا
دیوتا سے ونّتی کی گئی
’’مہاراج! میں آپ کے آگے سر جھکاتا ہوں۔ ونّتی کرتا ہوں مجھ پر دیا کیجیے، امرت کی کیول دو چار بوندیں دے دیجیے۔ میں برسوں کا پیاسا ہوں۔ مجھ پر آپ کی بڑی کرپا ہو گی‘‘
’’تمہارا یہ ولاپ ویرتھ ہے مانو! ‘‘
’’پَربھو! مجھے کیول کچھ بوندیں چاہئیں تاکہ میں اپنے اس سوکھے کنٹھ کو بھگو سکوں۔ میں آپ کو وشواس دلاتا ہوں کہ میں اسے دیوتاؤں کا امرت نہیں، بلکہ سدھارن پانی سمجھ کر پیوؤں گا۔ آپ بے شک اس میں سے وہ شکتی نکال کر اپنے پاس رکھ لیجیے جو آدمی کو امر بناتی ہے ‘‘
’’دیکھو! ہٹ نہ کرو، میں تم سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ امرت منشیوں کے لیے نہیں بنا ہے۔ یہ دیوتاؤں کی وستو ہے۔ اس پر ایک ماتر انہیں کا ادھیکار ہے۔ اسے کیول وہی پی سکتے ہیں ‘‘
’’لیکن مہاراج! دیوتاؤں کے ساتھ وہ کچھ دوسرے لوگ بھی تو پی رہے ہیں ‘‘
’’وہ دشٹ راکشش ہیں۔ ان میں سے کچھ نے راکششی شکتی اور مایاوی شڈنیتر سے دیوتاؤں کے ساتھ چھل کیا اور تھوڑا سا امرت پراپت کر لیا۔ ‘‘
’’مہاراج! ایک بار پھر میری آپ سے آگرہ ہے کہ امرت کی کیول ایک دو بوند ہی دلا دیجیے تاکہ میں اپنی پیاس کی شدت کو کچھ تو کم کر لوں۔ آپ تو دیوتا ہیں، دیا کے ساگر ہیں آپ چاہیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
تمہاری ونّتی ویرتھ ہے بالک! یدی امرت منشیہ کے لیے ہوتا تو تمہیں بنا مانگے ہی مل جاتا۔ سمے نہ گنواؤ! جاؤ اپنی راہ لگو‘‘
’’پرنتو میں کہاں جاؤں مہاراج؟ کیا کروں ؟ میری تو کوئی راہ ہے اور نہ ہی منزل!‘‘
’’تم منشیہ ہو! اوپاسنا اور کرم کے لیے پیدا کیے گئے ہو، جاؤ اوپاسنا اور کرم کرو، پھل کی مت سوچو، پھل تو تمہیں ملے گا ہی‘‘
مہاراج! کرم تو میں برسوں سے کرتا آ رہا ہوں، میرے بالوں کی سفیدی
آنکھوں کی سیاہی
ماتھے کی لکیریں
چہرے کی زردی
پیروں کی گرد اور تلوؤں کے چھالے
یہ سب کے سب میرے کرم ہی کے تو ثبوت ہیں۔ لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود یہ ہونٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’تمہارے کرم میں اوشیہ ہی کہیں کھوٹ ہے انیتھا کرم کبھی ویرتھ نہیں جاتا۔ سمبھو ہے کہیں تم نے کوتاہی کی ہو‘‘
’’نہیں مہاراج! کوتاہی تو میں نے اپنے جاننے میں کبھی نہیں کی ہے۔ برسوں سے مسلسل پہاڑوں اور جنگلوں کی خاک چھانتا پھر رہا ہوں۔ ‘‘
’’جنگلوں میں بھٹکنا اور پہاڑ تتھا پتھروں سے سر ٹکرانا، یہ کوئی کرم نہیں۔ اس سے کچھ پراپت نہیں ہوتا۔ ‘‘
آپ شاید ٹھیک کہہ رہے ہیں مہاراج، پتھر پر سر پٹکنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ بھی نہیں ملتا۔ ‘‘
’’تمہارے لیے اُچت یہی ہو گا کہ تم نئے سرے سے کرم کرنا پرارمبھ کر دو۔ ایشور اوشیہ تمہاری منو کامنا پوری کرے گا۔ جاؤ! اب جلدی چلے جاؤ، ورنہ راکشس تمہیں کھا جائیں گے۔ وہ دیکھو ! وہ تمہیں کس طرح للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ‘‘
سفر
جس میں خضر کو رہنما بنایا گیا
’’مجھے ایک ایسے راستے کی جستجو ہے جو کسی سرچشمے تک جاتا ہو۔ جہاں پہنچ کر پیاس بجھتی ہو، تشنگی مٹتی ہو۔ ‘‘
’’تمہیں میں بتا سکتا ہوں ایسے راستے کا پتا‘‘
’’کیا سچ مچ آپ ایسے راستے کو جانتے ہیں ؟‘‘
’’میں صرف جانتا ہی نہیں بلکہ اس راستے پر چل کر چشمے تک جا بھی چکا ہوں۔ میں تمہیں بھی اس چشمے تک پہنچا سکتا ہوں، جس کا پانی پی کر تم ابد تک کے لیے اپنی پیاس سے نجات پا سکتے ہو۔ ‘‘
’’کیا ایسا بھی کوئی چشمہ ہے ؟‘‘
’’ہاں، ہے، اور کوئی بہت دور بھی نہیں ہے، وہ اسی بیاباں میں ہے ‘‘
’’کیا واقعی وہ اسی بیاباں میں ہے ؟‘‘
’’ہاں، یہاں سے کچھ فاصلے پر ظلمات ہے۔ اس ظلمات میں ایک چشمہ ہے۔ نام جس کا چشمۂ حیواں ہے۔ اس چشمے کا پانی آبِ حیات کہلاتا ہے
آبِ حیات وہ آب ہے
جو پیاس سے بے تاب ذی روحوں کی بے تابی
ہمیشہ ہمیش کے لیے دور کر دیتا ہے
جسے پی کر انسان امر ہو جاتا ہے
حیاتِ جاوید پال یتا ہے ‘‘
’’آبِ حیات! نام تو سنا ہے۔ لیکن کیا واقعی ایساکوئی آب ہے ؟‘‘
’’بے شک ایسا آب ہے۔ شاید تمہیں یقین نہیں آ رہا ہے لیکن چند گھنٹوں بعد اسے تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھو گے اور لبوں سے لگاؤ گے تو تمہارا یہ شک تمہارے ذہن و دل سے جاتا رہے گا اور تم بے اختیار آمنّا و صدّقنا بول پڑو گے۔ ‘‘
’’لیکن مجھے آبِ حیات نہیں، پانی چاہیے۔ صرف پانی! میں امر ہونا نہیں چاہتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو بس زندہ رہنا چاہتا ہوں صرف زندہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’تمہاری بے چینی سے اندازہ ہوا کہ واقعی تم بہت پیاسے ہو، آؤ میں خود تمہیں چشمۂ حیواں تک لے چلتا ہوں، لو یہ میرا دامن پکڑ لو اور پیچھے پیچھے مرے ہمراہ چلے آؤ۔
گھبراؤ نہیں، ہم منزل کے قریب پہنچ چکے ہیں، یہ ظلمات ہے ہم جلد ہی چشمے کے پاس پہنچنے والے ہیں ‘‘
’’لیکن مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا، راستہ دکھائی نہیں دیتا‘‘
’’فکر نہ کرو۔ ۔ ۔ تم میرے ساتھ ہو۔ راستہ تمہیں ضرور دکھائی دے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لو، آ گئے تم اب اس چشمۂ حیواں کے پاس جہاں زندگی کو زندگیِ دوام حاصل ہوتی ہے۔
حیات ممات سے نجات پا لیتی ہے۔ جاؤ، آگے بڑھ کر رگ و پے میں آبِ حیات بھر لو۔ وجودِ تشنہ کو سیراب کر لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہوا؟ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟
’’چشمے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م۔ ۔ ۔ ۔ ۔ م
’’ہاں، ہاں بولو، چشمے میں کیا ہے ؟‘‘
’’مگر مچھ ہیں، مگر مچھ!‘‘
’’کیا چشمے میں نہنگ ہیں ؟‘‘
’’ہاں، اس میں نہنگ تیر رہے ہیں ؟‘‘
’’لیکن پہلے تو نہیں تھے ؟ کہاں سے آ گئے، چلو ذرا میں بھی تو دیکھوں ؟‘‘
’’ہاتھوں کو تکلیف مت دو، پتھر گرا دو‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟‘‘
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، تم پتھر نیچے پھینک دو، ان پتھروں سے ان کا کچھ نہیں ہو گا؟‘‘
’’پتھر پھینک دوں ؟ مگر کیوں ؟ آپ کو شاید علم نہیں، میں انہیں پتھروں سے کتنے ہی مگر مچھوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہوں ‘‘
’’یقیناً ایسا ہوا ہو گا لیکن اب یہ ممکن نہیں، یہ پتھّر اب ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ‘‘
’’کیا؟ یہ پتھر ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ؟ لیکن کیوں ؟
’’اس لیے کہ یہ نہنگ اب آبِ حیات پی چکے ہیں۔ بقائے دوام حاصل کر چکے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلو اب لوٹ چلیں۔
’’کہاں ؟‘‘
سفر
جس میں صحرا نوردی کی گئی
دشت پیمائی ہوئی
صعوبتیں جھیلی گئیں
اذیتیں اٹھائی گئیں
ذلتیں برداشت کی گئیں
ہزیمتوں کا کرب سہا گیا
پاؤں لہولہان ہوئے
ہاتھ فگار ہوئے
جی ہلکان ہوا
جسم نڈھال ہوا
انگ انگ پامال ہوا
نسیں ٹوٹیں
ریشے بکھرے
روح مجروح ہوئی
جان بے جان ہوئی
سفر
جو شکست و ریخت
ہزیمت
ذلت
تھکن
گھتن
چبھن
محرومی
معذوری
یاس
حراس
اور پامالیِ حواس
پر تمام ہوا
دیر تک نگاہیں
سفر کی صعوبت
راستوں کے پیچ و خم
سمتوں کی بھول بھلیّاں
نشیب و فراز
اتار چڑھاؤ
سرد و گرم
تپش و جلن
ٹیس اور چبھن
پر مرکوز رہیں
آہستہ آہستہ پلکیں بند ہوتی چلی گئیں
بند پلکوں میں کچھ دیر تک
تاریکی گھلی رہی
پھر روشنی پھوٹ پڑی
جیسے پو پھوٹتی ہے
روشنی بڑھتی گئی
اور دیدوں سے نکل کر
دل و دماغ میں اتر گئی
خوابیدہ رگ و ریشے کلبلانے لگے
اندرون منہ کھولنے لگا
باطن بولنے لگا
میں بھی
مثلِ مخلوقاتِ جہاں
موجوداتِ کون و مکاں
ارض وسما
شمس و قمر
جن و بشر
شجر و حجر
چرند، پرند، درند
آب، آتش، باد، گل
پیدا ہوا
یعنی کہ میں ’’ہوں ‘‘
میں ہوں تو مجھے بھی کچھ چاہیے
جس طرح ماہتاب کو آفتاب
آفتاب کو آسمان
شجر کو مٹی
مٹی کو نمی
پرند کو پرواز
چرند کو چارہ
اور درند کو خون
مجھے پانی چاہیے
مگر
آفتاب کو آسمان
شجر کو مٹی
مٹی کو نمی
پرند کو پرواز
چرند کو چارہ
اور درند کو خون تو ملتا ہے
مجھے پانی نہیں ملتا
مجھے پانی کیوں نہیں ملتا؟
کیوں نہیں ملتا؟
کیوں نہیں ملتا؟
سوال گونجنے لگا
سوال کی گونج سے ہلچل ہوئی
ہلچل سے ہلکورے اٹھے
ہلکوروں سے ندا پھوٹ پڑی
جیسے سمندر میں
لہروں سے سنگیت پھوٹتا ہے
جیسے کوہساروں سے آبشار پھوٹتا ہے
جیسے مٹی میں دبے دانوں سے
انکر پھوٹتا ہے
پانی اس لیے نہیں ملا
کہ تو نے دیکھا نہیں
پانی اس لیے نہیں ملا
کہ تو نے سوچا نہیں
پانی اس لیے نہیں ملا
کہ تو نے سمجھا نہیں
اندرون سے نکلی ہوئی
پراسرار آواز سے
تمام جسم میں سرسراہٹ دوڑ گئی
رگ و پے میں ارتعاش پھیل گیا
ندا اور بلند ہوئی
دیکھ!
کہ تجھے نظر بخشی گئی
سوچ!
کہ تجھے عقل دی گئی
سمجھ !
کہ تجھے فہم عطا کی گئی
دیکھ!
کہ دیکھنا ریاضت ہے
دیکھ!
کہ دیکھنا فراست ہے
دیکھ!
کہ دیکھنا کرامت ہے
دیکھ !
کہ دیکھنا رموزِ حیات ہے
دیکھ!
کہ دیکھنا متاعِ ممات
دیکھ!
کہ دیکھنا ہی راہِ نجات
دیکھ!
کہ دیکھنا ہی کشف کمال
دیکھ!
کہ دیکھنا ہی وصفِ جلال
دیکھ!
کہ کائنات روشن ہے
دیکھ!
کہ کائنات درپن ہے
دیکھ!
کہ کائنات مخزن ہے
دیکھ!
اسرار اس میں مضمر ہیں
دیکھ!
افکار اس میں مضمر ہیں
دیکھ!
انوار اس میں مضمر ہیں
دیکھ!
مخفی اسی میں راز و نیاز
دیکھ!
مخفی اسی میں ساز و آواز
دیکھ!
مخفی اسی میں سوز و گداز
دیکھ!
کہ راستہ اسی میں ہے
دیکھ!
کہ رابطہ اسی میں ہے
دیکھ!
کہ سب پتا اسی میں ہے
دیکھ!
فطرت اسی میں شامل ہے
ہر تدبر کہ جس سے حاصل ہے
ہر بصارت کہ جس سے کامل ہے
دیکھ!
فطرت عصائے موسیٰ ہے
دیکھ!
فطرت ادائے عیسیٰ ہے
دیکھ!
فطرت کشن کی لیلا ہے
دیکھ!
فطرت میں خوئے مصطفوی
دیکھ!
فطرت میں رام کی خوبی
دیکھ!
فطرت میں گوتمی بدّھی
دیکھ!
کہ صرف آبیاژہ تھا
جان کر آب جس کو چوسا تھا
تشنگی اور جس سے بھڑکی تھی
جہد جس کے بھنور میں ڈوبی تھی
دیکھ!
کہ راہبوں کی راہ تھی کیا؟
دیکھ!
کہ ترے تئیں چاہ تھی کیا؟
دیکھ!
جنت جو تو نے دیکھی تھی
وہ حقیقی تھی یا کہ فرضی تھی
دیکھ!
وہ ریگِ رواں تھا جس کے
تھے تعاقب میں ترے پاؤں بڑھے
دیکھ!
کہ ریت اور پانی کا
کس قدر پُر فریب
رشتہ تھا
دیکھ!
کہ دیوتا کا ڈھنگ کیا تھا؟
دیکھ!
کہ اس کے رخ کا رنگ تھا کیا؟
دیکھ!
کہ خضر بھی خلا میں گم
دیکھ!
کہ ہر سرا ہوا میں گم
دیکھ!
کہ دیکھنے سے بھید کھلے
دیکھ!
کہ دیکھنے سے راز ملے
آواز خاموش ہو گئی
دیدوں کے دائرے پھیلنے لگے
پتلیوں سے شعاعیں پھوٹنے لگیں
رگ و ریشے میں سرشاری سرایت کرنے لگی
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد
نئے زیر و بم کے ساتھ
ندا پھر ابھری
سوچ!
کہ سوچ منبع ہے
علم کا
ہنر کا
حرفت کا
سوچ!
کہ سوچ مخزن ہے
فن کا
فکر کا
فلسفے کا
سوچ!
کہ سوچ مخرج ہے
خرد کا
دانش کا
بینش کا
سوچ!
کہ سوچ مرکز ہے
حسّیت کا
آگہی کا
بصیرت کا
سوچ!
کہ سوچ ماوا ہے
وصف کا
جوہر کا
لیاقت کا
سوچ!
کہ سوچ ملجا ہے
ہوش کا
حواس کا
ادراک کا
سوچ!
کہ سوچ مستقر ہے
فطانت کا
حکمت کا
تدبر کا
سوچ!
کہ سوچ مسکن ہے
پیش بینی کا
دور اندیشی کا
نکتہ رسی کا
ندا چند ثانیے کے لیے رکی
پھر نئے لب و لہجے میں جاری ہو گئی
سوچ!
کہ سوچ میں آنکھ ہے
آنکھ جو پاتال تک اترتی ہے
پاتال جس میں پانی ہے
پانی جس میں مچھلیاں ہیں
پانی جس میں سیپیاں ہیں
مچھلیاں جن کے منہ میں سونا ہے
سیپیاں جن کے پیٹ میں موتی ہے
سونا جو چمکتا ہے
موتی جو دمکتا ہے
آنکھ جو آسمان تک پہنچتی ہے
آسمان جس میں سورج ہے
سورج جو نور ہے
نور جو تاب ہے
تب ہے
آب ہے
آسمان جس میں چاند ہے
چاند جس میں چاندنی ہے
چاندنی جو چھاؤں ہے
چھتر ہے
آسمان جس میں تارے ہیں
تارے جو لکیریں بناتے ہیں
تقدیریں سنوارتے ہیں
آسمان جس میں
دودھ کی ندیاں ہیں
شہد کی نہریں ہیں
امرت کے چشمے ہیں
سوچ!
کہ سوچ میں کان ہے
کان جو
ہوا سے
پانی سے
مٹی سے
آگ سے
بارش سے
بادل سے
بجلی سے
بہار سے
سب سے
سنگیت کھینچتا ہے
سنگیت جو رس ہے
رس جو قوت ہے
قوت جو زیست ہے
سوچ!
کہ سوچ میں ناک ہے
ناک جو
باد سے
باغ سے
برگ سے
بار سے
بال سے
بیل سے
بوٹی سے
بن سے
ببول سے
بہار سے
باراں سے
بدن سے
ہر ایک سے
خوشبو کشید کرتی ہے
خوشبو جو مہک ہے
مہک جو مسکان ہے
مسکان جو جان ہے
ناک جو
دل کو
دماغ کو
جسم کو
روح کو
نفس کو
سب کو
بدبو سے دور رکھتی ہے
بدبو جو ہلاہل ہے
ہلاہل جو ہلاکت ہے
سوچ!
کہ سوچ میں زبان ہے
زبان جو
تلخ کو
ترش کو
شیریں کو
نمکین کو
سخت کو
نرم کو
مزہ کو
بدمزہ کو
پہچانتی ہے
زبان جو
گوش میں
ہوش میں
جوش میں
آواز پھونکتی ہے
زبان جو
جمود کو
حدود کو
قیود کو کاٹتی ہے
زبان جو امساک کو
سکون کو
سکوت کو
توڑتی ہے
زبان جو
الجھاؤ کو
رکاؤ کو
ٹھہراؤ کو
ختم کرتی ہے
زبان جو
زلال کو زہر آب سے
امرت کو وِش سے
شربت کو شراب سے
جدا کرتی ہے
زبان جو
گونگے کو گویائی
اندھے کو بینائی
لنگڑے کو رفتار
اور بہرے کو سماعت
عطا کرتی ہے
سوچ!
کہ سوچ میں حس ہے
حس جو
گرمی کو
سردی کو
سختی کو
نرمی کو
حرکت کو
حرارت کو
ساکن کو
سکوت کو
پہچانتی ہے
حس جو
صلابت اور نزاکت میں
سڈول اور بے ڈول میں
گٹھیلے اور پلپلے میں
فرق کرتی ہے
حس جو
خار کو گل سے
ٹاٹ کو مخمل سے
پتھر کو ہیرے سے
رقیق کو ٹھوس سے
گراں کو سبک سے
الگ کرتی ہے
ندا اور رواں ہو گئی
سوچ!
کہ سوچنا مشیت ہے
سوچ!
کہ سوچنا نبوت ہے
سوچ!
کہ سوچنا ولایت ہے
سوچ!
کہ سوچ اک صحیفہ ہے
سوچ!
کہ سوچ بھگوت گیتا ہے
سوچ!
کہ سوچ وید و قرآں ہے
سوچ!
کہ سوچ وصفِ یزداں ہے
سوچ!
کہ سوچ راہِ نرواں ہے
سوچ!
کہ سوچ میں سمند کا وصف
سوچ!
کہ سوچ میں کمند کا وصف
سوچ!
کہ سوچ میں ضیائے سفر
سوچ!
کہ سوچ میں ادائے خضر
سوچ!
کہ سوچ میں نوائے جرس
سوچ!
کہ سوچ میں ہوائے جرس
سوچ!
کہ سوچ سے مکاں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے زماں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے دھواں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے نہاں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے گماں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے زباں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے بیاں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے فغاں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے کماں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے سناں روشن
سوچ!
کہ سوچ سے نشاں روشن
سوچ سے گاہ گاہ روشن ہے
سوچ سے خانقاہ روشن ہے
سوچ سے درسگاہ روشن ہے
سوچ سے ہر پناہ روشن ہے
سوچ سے مہر و ماہ روشن ہے
سوچ سے بادشاہ روشن ہے
سوچ سے حشم و جاہ روشن ہے
سوچ سے کج کلاہ روشن ہے
سوچ سے اشتباہ روشن ہے
سوچ سے ہر سیاہ روشن ہے
سوچ!
کہ اس سے راہ روشن ہے
سوچ!
کہ اس سے چاہ روشن ہے
سوچ!
کہ اس سے تھاہ روشن ہے
سوچ!
کہ سوچ سے نظر پیدا
سوچ!
کہ سوچ سے سحر پیدا
سوچ!
کہ سوچ سے اثر پیدا
سوچ!
کہ سوچ سے حیات تری
سوچ!
کہ سوچ سے نجات تری
سوچ!
کہ اس سے کائنات تری
سوچ!
کہ اس سے ہر زمین تری
سوچ!
کہ اس سے ہر مشین تری
سوچ!
کہ اس سے خوردبین تری
سوچ
کہ اس سے آسمان ترا
سوچ!
کہ اس سے سائبان ترا
سوچ!
کہ اس سے ہر جہان ترا
سوچ!
کہ اس میں ہر آسانی ہے
سوچ!
کہ اس سے بادبانی ہے
سوچ!
کہ اس سے آگ پانی ہے
سوچ!
کہ سوچ سے غبار چھٹے
سوچ!
کہ سوچنے سے کہر ہٹے
سوچ!
کہ سوچنے سے دھند مٹے
مدھم ہوتی ہوئی آواز
ایک دم سے رک گئی
مگر آواز سے نکلا ہوا آہنگ
انگ انگ میں بولنے لگا
نسوں میں نشہ سا گھلنے لگا
دماغ کی کھڑکیاں کھلنے لگیں
ٹھہری ہوئی ندا
پھر سے ندی کی طرح بہنے لگی
سمجھ!
کہ فہم ہی ذکاوت ہے
سمجھ!
کہ فہم ہی ہدایت ہے
سمجھ!
کہ فہم ہی نیابت ہے
سمجھ!
کہ سب کچھ جہاں میں ہے ممکن
سمجھ!
کہ کچھ بھی نہیں ہے ناممکن
سمجھ!
کہ مشکل نہیں کوئی مشکل
سمجھ!
تلاطم کے بعد ہے ساحل
سمجھ!
کہ رات میں بھی دن شامل
سمجھ!
کہ آگ آب کی حامل
سمجھ!
کہ زندگی ہوا سے ہے
سمجھ!
کہ موت بھی ہوا سے ہے
سمجھ!
کہ خون سے بدن میں جان
سمجھ!
کہ خون سے بدن بے جان
سمجھ!
کہ پستیاں بلندی میں
سمجھ!
کہ رفعتیں بھی پستی میں
سمجھ!
کہ آفتاب ذرّے میں
سمجھ!
کہ ماہتاب ذرّے میں
سمجھ!
کہ تخم میں شجر پنہاں
سمجھ!
کہ سیپ میں گہر پنہاں
سمجھ!
کہ پتھروں میں ہیرا ہے
سمجھ!
کہ کنکروں میں ہیرا ہے
سمجھ!
کہ راکھ میں بھی چنگاری
سمجھ!
کہ خاک میں بھی زنگاری
سمجھ!
کہ فاصلہ قرابت میں
سمجھ!
کہ غلبلا فراغت میں
سمجھ!
کہ گام گام سازش ہے
سمجھ!
کہ دور تلک کاوش ہے
سمجھ!
کہ راہ کی نظر تجھ پر
سمجھ!
کہ سمت کا تبر تجھ پر
سمجھ!
کہ دھوپ کا شر ر تجھ پر
سمجھ!
کہ فہم سے سراغ ملے
سمجھ!
کہ فہم سے چراغ جلے
ندا رک گئی
دماغ کا ریشہ ریشہ بیدار ہوا
فکر کے انکھوے پھوٹنے لگے
شعور کی پرتیں ابھرنے لگیں
بینائی کھلنے لگی
نظر باہر نکلنے لگی
وقت کا پہیہ گھومنے لگا
کائنات گردش کرنے لگی
غارِ حرا کا دہانہ کھلا
ایک اُمّی کا سینہ
علم و عرفان سے بھر گیا
سینے سے روشنی پھوٹی
جہالت کی دھند چھٹی
ظلمات منور ہو گئیں
صحرا سر سبز و شاداب ہو گئے
خارزاروں میں پھول کھل اٹھے
بادِ صرصر بادِ بہار بن گئی
بادِ سموم بادِ صبا میں تبدیل ہو گئی
ریگستان چمنستان کی طرح مہک اٹھا
دور دور تک خوشبو پھیل گئی
پر تعفن راہیں معطر ہو گئیں
دھیان میں بیٹھا سنت سامنے آیا
برگد کے سائے نے
بے سر و سامان سائل کو
سرمایۂ صبر وسکون
دولتِ ادراک و آگہی
گنجینۂ حیات و کائنات
اور گیان کے گوہرِ لازوال سے مالامال کر دیا
چھتنار درخت کے ہرے بھرے پتوں کے
چھتر سے
چھاؤں چھن کر
سنت کے سراپے میں
اس طرح سمائی
کہ سارے سنسار کے سنکٹوں کا ندان
اور موکش کا سامان بن گئی
دیو اور دانو کا یدھ آرمبھ ہوا
برتر اسر کے پرہار سے
دیو تا تنگ آ گئے
اسروں کے آتنک اور اتپات سے
دیوتاؤں کا جینا دوبھر ہو گیا
ہارے ہوئے چنتت دیوتا
اندر کی اگوائی میں
بھگوان برہما کی سیوا میں اپستھت ہوئے
سنکٹ کے ندان کے لیے
برہما نے چنتن کی
بھگوان کے دھیان میں
انسان کی چھوی ابھری
برہما نے انہیں ودھیچی کے پاس بھیج دیا
منش ودھیچی
جو اپنے
جپ سے
تپ سے
دھیان اور گیان سے
مہارشی اور مہان بن گیا تھا
جس نے
اپنے یس سے
اگنی کو
وایو کو
ورشا کو
جل کو
تھل کو
آکاش کو
پاتال کو
سب کو
بس میں کر لیا تھا
ودھیچی
جس کی گندھ در گنٹر گتھائیں گاتے تھے
ناگ کنیائیں جس کی گن گان کرتی تھیں
برہما جس کی شکتی کے قائل تھے
جس کی ہڈیوں میں
وجر باس کرتے تھے
اجگو
گانڈیو
اور سارنگ
بستے تھے
دیوتاؤں نے ودھیچی سے اپنی بپتا سنائی
اوراسروں سے اپنی سرکشا کی ونّتی کی
ودھیچی سے لاچار دیوتاؤں کی دشا دیکھی نہیں گئی
اس نے اپنے پران تیاگ دئیے
اس کی استھیوں سے
شنکر نے اجگو
اندر نے گانڈیو
اور وشنو نے سارنگ
اٹھا لیے
پھر سے یُدھ آرمبھ ہوا
ہارے ہوئے ہاتھ
وجر پھینکنے لگے
برتراسر ودھیچی کی ہڈیوں کی تاب نہ لا سکا
اس کا ودھ ہو گیا
سنکٹ ٹل گیا
دیوتاؤں کو سرکشا اور شانتی مل گئی
روئے زمین پر
پہلی لاش کی تدفین کا مسئلہ اٹھا
انسان پریشان ہوا
فطرت آگے بڑھی
کوّے نے کوّے کو مارا
مارنے والے نے چونچ سے زمین کھودی
اور بے جان کوے کو گڈھے میں دفنا دیا
متفکر ہاتھ نے نکیلا پتھر اٹھایا
زمین کے سینے میں خندق کھد گئی
لاش ٹھکانے لگ گئی
مسئلے سے دوچار مضطرب آنکھیں
مطمئن ہو گئیں
کپٹی ماما کا سوچا ہوا
لاکھشاگرہ
تعمیر ہو کر دھدھک اٹھا
لاکھ پگھلنے لگا
آگ کی لپٹیں
درو دیوار کو لپیٹ میں لینے لگیں
مگر
چتر چچا کی چوہوں والی بات نے
لاکھشاگرہ کے فرش میں
سرنگ کھود دی
لاکھشا گرہ میں گھرے
بھولے بھالے بے قصور بھائی
صحیح سلامت باہر نکل آئے
فکرمند چڑیا
ڈال سے اڑی
اور ایک دوسرے پیڑ کی شاخ پر جا بیٹھی
ایک لمبے پتے کو چونچ سے چیر کر
ایک تنکا نکالا
اور تنکے کو لے کر اپنی ڈال پر واپس آ گئی
تنکے کو ڈال کے ایک حصے میں لپیٹ دیا
چڑیا پھر اُڑی
لمبے پتے تک پہنچی
چونچ سے پتے کو چیر کر
ایک اور تنکا نکال لائی
اور اسے بھی ڈال میں لپیٹنے لگی
چڑیا دیر تک اُڑتی
پتے کو چیرتی
تنکا نکالتی
اور اسے لپیٹتی رہی
تنکوں سے گھونسلہ تیار ہو گیا
گھونسلے میں چڑیا نے انڈے دئیے
مینہ برسا
تیز ہوائیں چلیں
آندھیاں اٹھیں
مگر انڈے گھونسلے میں محفوظ رہے
انڈوں سے بچے نکلے
بچے بڑے ہوئے
ان کے جسم پر بال و پر اُگ آئے
اور وہ اڑنے لگے
بھوکا ققنس
پیڑ سے اڑ کر پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا
اس نے اپنا رخ ہوا کی طرف موڑ دیا
ہوا کا لمس ملتے ہی اس کی منقار کھل گئی
منقار کے سوراخوں سے سر نکلنے لگے
اس کی پر کشش آواز سن کر
پرندے اس کی سمت پرواز بھرنے لگے
بے شمار طائر اس کے پاس سمٹ آئے
پرندے اس کی آواز پر فریفتہ ہو گئے
اس نے مدہوش پرندوں کی طرف اپنا پنجہ بڑھا دیا
اور ان میں سے کچھ کو دبوچ کر
اپنے پیٹ میں ڈال لیا
اپنی منقار کے سوراخوں میں
جب اسے رکاوٹ محسوس ہوئی
تو اس نے اپنے ارد گرد
سوکھی لکڑیاں جمع کیں
اور لکڑیوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر
اپنے پروں کو جھاڑنے
اور بازوؤں کو پھڑ پھڑانے لگا
زور زور سے منقار کے سوراخوں میں صور پھونکنے لگا
کسی سوراخ سے سُر کے ساتھ شعلہ بلند ہوا
پروں سے چنگاریاں جھڑنے لگیں
لکڑیوں میں آگ لگ گئی
اس کے پر جھلسنے لگے
جسم بھی آگ کی لپیٹ میں آ گیا
اور وہ جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا
کچھ دیر بعد مینہ برسا
اور مینہ کے پڑتے ہی راکھ سے
پھر ایک ققنس نکل آیا
ہد ہد کی ٹھور کی ضرب
پیڑ کی پیٹھ پر پڑی
ٹھک کی آواز سے فضا دہل اٹھی
پیٹھ دب سی گئی
ٹھور مسلسل ٹھک ٹھک کرتی رہی
کٹھور پیٹھ دبتی چلی گئی
پیڑ کی پیٹھ میں پیٹ بن گیا
پیٹ میں بے خانماں پرندے نے اپنا گھر بنا لیا
کٹے ہوئے پیڑ کی جڑ سے
کونپلیں پھوٹیں
کونپلیں شاخ بنیں
شاخیں ہری ہوئیں
بڑی ہوئیں
پیڑ پھر کھڑا ہو گیا
گوشہ گوشہ
برگ و ثمر سے لد گیا
تیشہ لہرا کر پتھر پر پڑا
ضرب سے پتھر کٹا
پہاڑ کا سینہ چاک ہوا
دودھ کی نہر جاری ہو گئی
بادلوں کی چادر چاک ہوئی
سنہرا دائرہ نمودار ہوا
شعاعیں انگڑائی لے کر
چاروں طرف پھیل گئیں
تاریکی روشنی میں بدل گئی
بے نظیر پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی
اسے محسوس ہوا
جیسے وہ غار میں بیٹھا ہے
جیسے اس کے سر پر برگد اُگ آیا ہے
جیسے اس کے جسم میں ودھیچی کی ہڈیاں در آئی ہیں
جیسے اس کی رگوں میں چوہا رینگنے لگا ہے
جیسے وہ ققنس بن گیا ہے
جیسے اس کے ہاتھ میں تیشہ تھما دیا گیا ہے
جیسے ساری فطرت اس کے اندر سما گئی ہے
جیسے کل کائنات روشن ہو کر
اس کی آنکھوں میں آ گئی ہے
اس کے وجود میں ہلچل سی ہونے لگی
رگ و پے میں لہر سی دوڑنے لگی
اس کی پلکیں کھل گئیں
آنکھوں میں چہار دیواری کھڑی ہو گئی
نظر دیوار کی اونچائی تک پہنچی
اونچائی سے پھسل کر
راستے میں جگہ جگہ ٹھہرتی ہوئی
نیچے اتری
اور بنیاد پر لگ گئی
دیوار نیچے سے اوپر تک
دیوارِ چیں کی طرح
چوڑی، چکنی اور مضبوط تھی
اس فولادی دیوار کے آہنی گھیرے میں
تالاب گھرا تھا
تالاب جس میں گوہرِ مراد
مقید تھا
تالاب جس کے پانی پر
مگرمچھوں کا قبضہ تھا
مگر مچھ جن کی
آنکھوں میں شعلے
دانتوں میں آرے
زبانوں میں تلواریں
اور بدن میں بجلیاں تھیں
جن کا سلسلہ
سطحِ آب سے تہہ تک پھیلا ہوا تھا
تالاب سے باہر
چہار دیواری کے ارد گرد
پیاسے انسانوں کا ہجوم
ایک دوسرے سے دست و گریباں تھا
انگلیاں ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے میں
دانت گردن کاٹنے میں
ہونٹ خون چوسنے میں
زبانیں پیشانیوں پر جمے لہو کے سیاہ دھبوّں کو چاٹنے میں
مصروف تھیں
نظر دیر تک
پیاس کی شدّت
پیاسوں کی حالت
مگرمچھوں کی طاقت
دیوروں کی رفعت
پر جمی رہیں
اور ذہن
پانی کی ضرورت
اور نجات کی صورت
پر سوچتا رہا
یکایک کانوں میں ہد ہد کی ٹھک ٹھک گونجنے لگی
نگاہوں میں چڑیا پتّا چیرنے لگی
کوّا قبر کھودنے لگا
چوہا بل بنانے لگا
تیشہ لہرانے لگا
بادل چاک ہونے لگا
ققنس کے بال و پر سلگنے لگے
آنکھوں میں آہستہ آہستہ
چہار دیواری کے پاس پری ہڈیاں سمٹ آئیں
ہڈیاں، جن میں پسلیاں تھیں
ہڈیاں جن میں ہنسلیاں تھیں
ہڈیاں جن میں انگلیاں تھیں
ہڈیاں جن میں ہاتھ تھے
ہڈیاں جن میں ریڑھ تھی
اس کی آنکھوں میں وجر لہرانے لگے
اجگو
گانڈیو
اور سارنگ
جھلملانے لگے
اس کی پیشانی چمک اٹھی
گھنے پیڑ کے سائے میں
ستائے ہوئے مسافر کی مانند
اپنی جگہ سے
بے نظیر اُٹھا
آگے بڑھا
اور ان تک پہنچ گیا
جواسی کی طرح پیاسے تھے
پانی کے لیے جن کی جسمانی جد و جہد جاری تھی
جو پیاس کے مارے
سعی لاحاصل میں مصروف تھے
جو بار بار دیوار پر چڑھ رہے تھے
اور ہر بار دم کئی چھپکلیوں کی مانند
دھپ دھپ نیچے گر رہے تھے
جن کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں
جن کے دست و پا بے دم ہو رہے تھے
’’سنو! ‘‘ بدلے ہوئے لہجے میں
بے نظیر کی آواز گونجی
فضا جھنجھنا اٹھی
آواز پر کان کھڑے ہو گئے
ہاتھ پاؤں رک گئے
نگاہیں بے نظیر کی طرف مڑ گئیں
بڑھو!
پاؤں اس کی جانب بڑھنے لگے
دیکھو!
انگلی کے اشارے پر
تمام نگاہیں
ہڈیوں کے انبار کی جانب مبذول ہو گئیں
دیکھنے والوں کے اندر تھرتھری دوڑ گئی
اُن کا وجود لرزا تھا
انبار میں ان کے اپنے ہاتھ پاؤں جھلملانے لگے
چہروں پر گھبراہٹ کے بادل چھانے لگے
گھبراؤ نہیں ـ، اٹھاؤ!
ڈرتے ڈرتے سب نے اپنے ہاتھوں میں
ہڈیاں اٹھا لیں
چلو!
سب اس کے پیچھے چل پڑے
مگر پیچھے چلنے والوں کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے
ہاتھ تھرتھرا رہے تھے
ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے
بے نظیر نے ان کی لڑکھڑاہٹ، تھرتھراہٹ
اور پھڑپھڑاہٹ محسوس کی
اس کا ذہن سوچ میں مبتلا ہو گیا
نگاہیں فضاؤں کو گھورنے لگیں
فطرت کو ٹٹولنے لگیں
چلتے چلتے اچانک اس کے پاؤں رک گئے
نظریں سامنے کے حصے پر مرکوز ہو گئیں
اونچے اونچے بہت سارے درخت
قطار میں کھڑے تھے
ان کے سروں پر چھتریاں تھیں
چھتریوں سے پھلوں کے بڑے بڑے
گچھے لٹک رہے تھے
نگاہیں سروں سے سرکتی ہوئی
جڑوں تک آ گئیں
راستے میں کہیں کوئی شاخ نہیں تھی
نیچے سے اوپر تک سڈول چکنے پیڑ
تنے ہوئے کھڑے تھے
’’ان پیڑوں کو دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’دیکھ رہے ہیں ‘‘
’’اور پھلوں کے گچھوں کو‘‘
’’انھیں بھی دیکھ رہے ہیں ‘‘
’’ان پھلوں میں رس ضرور ہو گا‘‘
’’ہو سکتا ہے مگر‘‘
ہاں مگر تو ہے لیکن اس مگر کے لیے سوچنا ہو گا
ہمارا ان گچھوں تک پہنچنا بہت ضروری ہے
کہ ہماری اس مہم کا دارومدار
بڑی حد تک ان پر ہے
اگر انھیں ہم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے
تو ہمارا سفر آسان ہو سکتا ہے
اور ہمیں یہ آسانی ہر حال میں حاصل کرنی ہے
بے نظیر کی نظریں تیزی سے گردش کرنے لگیں
گردش کرتی ہوئی نگاہیں
یکایک چھتری والے ایک پیڑ پر مرکوز ہو گئیں
ایک چھوٹا سا جانور
اپنے اگلے اور پچھلے پیروں کے سہارے گھسٹ کر
اس پیڑ پر چڑھ رہا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے وہ چھوٹا سا جانور
گھسٹتا ہوا چھتری تک پہنچ گیا
اور گچھے پر بیٹھ کر
پھلوں میں دانت مارنے لگا
جانور کے پاس سے پھسل کر ان کی نگاہیں
دوسری جانب کے پیڑوں کے
دھڑوں کو کریدنے لگیں
کچھ دیر بعد نگاہیں ایک ادھڑی ہوئی
چھال سے الجھ گئیں
بے نظیر آگے بڑھا
اور اپنے ہاتھ کی ہڈی کی مدد سے
چھال کو پیڑ سے اتار لیا
ہاتھ میں چھال کے آتے ہی
اس کی آنکھوں میں جگنو چمک گیا
ہڈی حرکت میں آ گئی
آنا فاناً میں بہت ساری لمبی لمبی چھالیں
پیڑ سے اتر کر اس کے ہاتھوں میں آ گئیں
اس نے چھال سے رسیاں بٹیں
رسیوں سے بڑے بڑے چھلّے بنائے
اور ایک چھلا اپنے پاؤں میں ڈال کر
ہاتھ اور پیروں کی مدد سے
گھسٹتا ہوا پیڑ پر چڑھنا شروع کر دیا
بے نظیر چھلے کے سہارے چھتری تک پہنچ گیا
اس نے جیب سے ایک لمبی رسی نکالی
اور خود کو پیڑ سے باندھ دیا
اس کے ہاتھ بے خوف ہو کر پھلوں کے
گچھوں تک پہنچ گئے
پھل پیڑ سے ٹوٹ کر زمین پر گرنے لگے
یہ دیکھ کر دوسروں نے بھی رسی اور چھلے اٹھائے
اور پیڑوں پر چڑھ گئے
پھلوں کا انبار لگ گیا
اپنے اپنے پیڑوں کے پھلوں کو توڑ کر
بے نظیر کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی
پیڑوں سے نیچے اتر آئے
ہڈیوں کی نوکوں سے پھلوں میں سوراخ کیا گیا
اندر سے سفید سفید دودھیا رس ٹپکنے لگا
اس کو دیکھتے ہی ویران آنکھوں میں چمک آ گئی
زرد چہروں پر ہریالی جھلملانے لگی
خشک زبانیں ہونٹوں پر پھرنے لگیں
اٹھاؤ اور لبوں سے لگا لو
تشنہ لب پھلوں پر ٹوٹ پڑے
رس چھینا جھپٹی میں پھلوں کے کٹورے سے
باہر چھلکنے لگا
رکو!
ہاتھ رک گئے
ہونٹ پھلوں سے جدا ہو گئے
چہرے ناگواری سے بھر گئے
آنکھیں حیران ہو اٹھیں
احتیاط سے کام لو
’’اور کچھ بعد کے لیے بھی بچا کر رکھو
کیوں کہ پیڑوں پر اب پھل باقی نہیں ہیں ‘‘
آنکھوں کی حیرانی دور ہو گئی
چہروں سے لکیریں ہٹ گئیں
لب دوبارہ پھلوں کے سوراخ تک پہنچ گئے
مگر رس پان کی رفتار محتاط ہو گئی
ہم میں اب اتنی طاقت آ گئی ہے
کہ ہم آگے بڑھ سکتے ہیں
’’ہاں، آگے بڑھ سکتے ہیں ‘‘
’’ہاں، آگے بڑھ سکتے ہیں ‘‘
تو اٹھو اور چلو!‘‘
’’کہاں ؟‘‘ ایک ساتھ بہت ساری آوازیں گونج پڑیں
وہاں جہاں سے ہم اپنی مہم کا
آغاز کرنے والے ہیں
وہاں جہاں سے ہمیں انجام تک پہنچنا ہے
ہجوم بے نظیر کے پیچھے چل پڑا
مگر ہجوم کے ساتھ سوالات بھی چلنے لگے
یہ ہمیں کہاں لے جا رہا ہے ؟
ہم کس مہم کا آغاز کرنے والے ہیں ؟
کیا واقعی ہمیں ہمارے کسی آغاز کا انجام
ملنے والا ہے ؟
وہ انجام کیا ہو گا؟
کیسا ہو گا؟
کچھ دور تک چلنے کے بعد بے نظیر کے پاؤں رک گئے
ہجوم ٹھٹھک گیا
بے نظیر کے پاؤں جس زمین پر رکے تھے
اس کی سطح نیچی تھی
وہ ایک نشیبی خطہ تھا
جو دائرے کی شکل میں
دور تک پھیلا ہوا تھا
اس کے چاروں طرف کی زمین اونچی تھی
ایسا لگتا تھا جیسے پٹھاری دیواروں کے درمیان
کوئی وادی گھری پڑی ہو
بے نظیر کی نگاہیں نشیب سے نکل کر
مختلف سمتوں کے فراز
کا معائنہ کرنے لگیں
ایک جانب زمین سے آسمان کی طرف اٹھی ہوئی
دیوار دکھائی پڑی
یہ وہی دیوار تھی
جس کے گھیرے میں تالاب گھرا تھا
تالاب جس میں پانی تھا
پانی جس میں مگرمچھوں کا قبضہ تھا
دیر تک
دیوار کی جانب مرکوز رہنے کے بعد
بے نظیر کی نظریں
ہجوم کے ہاتھوں کی طرف مبذول ہو گئیں
ہاتھوں میں مختلف وضع قطع کے بے شمار
نوک دار
خم دار
گٹّے دار
موٹھ دار
ہڈیاں چمچما رہی تھیں
اس کی آنکھوں میں تیشہ لہرانے لگا
وجر جھلملانے لگے
دیکھو! ہاتھوں کی ہڈیوں کو غور سے دیکھو!
دیکھو ان ہڈیوں میں سختی ہے
سختی جو طاقت ہے
طاقت جو کنجی ہے
گنج کی
کنج کی
کامیابی
اور فتح کی
دیکھو! ان ہڈیوں میں دھار ہے
دھار جو وار ہے
مار ہے
فتح کا علم بردار ہے
دیکھو! ان ہڈیوں میں نوکیں ہیں
نوکیں جو
نیزہ ہیں
نشتر ہیں
خنجر ہیں
نوکیں جو
تیغ ہیں
تیر ہیں
تبر ہیں
نوکیں جو کاٹ سکتی ہیں
نوکیں جو چیر سکتی ہیں
نوکیں جو پھاڑسکتی ہیں
نوکیں جو کھودسکتی ہیں
انھیں زمین پر مارو!
اس طرح
بے نظیر کے ہاتھ کی ہڈی زمین میں دھنس گئی
ہڈی کی نوک باہر نکلی
تو اپنے ساتھ اندر سے مٹی نکال لائی
ہڈی دوبارہ زمین میں دھنسی
کچھ اور مٹی باہر نکل آئی
ایک ساتھ بہت ساری ہڈیاں
زمین پر پڑنے لگیں
نوکیں اندر تک دھنسنے لگیں
زمین کا سینہ پھٹنے لگا
دھرتی میں گڈھا بننے لگا
دھاریں اَغل بغل سے کاٹنے لگیں
گٹے پتھریلی پرتیں توڑنے لگے
گڈھا لمبا چوڑا اور گہرا ہونے لگا
ہجوم بے نظیر کے پیچھے پیچھے
گڈھا بناتا ہوا آگے بڑھنے لگا
اچانک بے نظیر کے ذہن میں
اندیشے کا ایک کوندا لپکا
سر سے پا تک بدن سہم اٹھا
ہاتھ رک گئے
آنکھوں میں دار التحقیقات کے بام و در کھڑے ہو گئے
تحقیقی آلات
تفتیشی انتظامات
تکنیکی حربات
کیمیائی مرکبات
برقی ساز وسامان
رقیق مادوں سے بھرے رنگ برنگے مرتبان
ضخیم کتابوں کے اوراق
مطالعوں
مشاہدوں
اور مراقبوں
میں مستغرق اذہان
دیدوں میں ابھرنے لگے
کائنات کے تغیرات
اور زمانے کے مبدل حالات
کے اسباب و علل کی
تلاش و تحقیق
تعبیرو تاویل
اور علم و عمل
میں مصروف
محیّر العقول محققوں کے چہرے نمایاں ہونے لگے
آبیاژوں سے بھرے کمرے کھلنے لگے
بٹن دبنے لگے
بو قلموں تماشے ابھرنے لگے
جنسی عمل میں مشغول مجسّمے
در و دیوار سے جھانکنے لگے
اعضائے شہوت سر اٹھانے لگے
ہیجان پرور آسن
انگڑائی لینے لگے
مطربہ نغمہ سرائی کرنے لگی
جادو گر جادوئی کمالات دکھانے لگا
عقل کے پرزے اڑنے لگے
بے نظیر نے تماشوں سے نظریں ہٹا کر
سورج کی سمت مرکوز کر دیں
چہرو سنجیدہ ہو گیا
پیشانی سوچ میں مبتلا ہو گئی
سنو!
اسی مدار میں اس نے ہجوم کو مخاطب کیا
ہڈیوں کی نوکیں ٹھٹک گئیں
نگاہیں چونک پڑیں
کچھ لوگ باہر آ جاؤ! باقی مہم میں مصروف رہو
کچھ لوگا س کے ساتھ گڈھے سے باہر نکل آئے
ہمیں کس لیے بلایا ہے ؟
ایک ضروری کام کے لیے
کون سا ضروری کام؟
یہاں سے کچھ فاصلے پر
مغرب کی سمت
ایک عمارت ہے
عمارت نہایت شاندار
اور پُر وقار ہے
اس عمارت کا نام دارالتحقیقات ہے
دارالتحقیقات میں بڑے بڑے
سروں والے بونے
طرح طرح کی تحقیقات میں مصروف ہیں
جاؤ، ان سے کہو
کہ کل سورج نہیں اگا
کیوں ؟
سوال نہ پوچھو! جیسا کہا جائے کرو!
ان سے یہ بھی کہو کہ
گیدڑ شیر بن گیا
شیر گیدڑ میں تبدیل ہو گیا
چرند اڑنے لگا
پند بے پرواز ہو گیا
ہرن نے انڈے دئیے
نیل کنٹھ نے بچے جنے
پتھر بول پڑا
پھولوں سے آگ برسی
پیڑوں سے لہو ٹپکا
حیرتوں کے ہمراہ
پیاسوں کا ایک قافلہ
دارالتحقیقات کی طرف روانہ ہو گیا
بے نظیر مہم پر واپس آ گیا
بے شمار ہڈیاں ایک ساتھ زمین پر پڑ رہی تھیں
زمین کٹ رہی تھی
دھرتی پھٹ رہی تھی
مٹی ہٹ رہی تھی
اپنے ہاتھ کی ہڈی کے ساتھ
بے نظیر بھی کھدائی کی مہم میں شامل ہو گیا
اس کی رہنمائی میں
کھدائی کا کام تیز تر ہوتا گیا
حیران کن خبروں والا قافلہ
دارالتحقیقات تک پہنچ گیا
انوکھی خبروں کے سنتے ہی
محققوں کی آنکھیں پھیل گئیں
تحقیقاتی عمل شروع ہو گیا
کتابوں کے اوراق پلٹنے لگے
کیمیائی مادوں کے مرتبان کھلنے لگے
آلات و حربات حرکت میں آ گئے
برقی قہقہے جلنے بجھنے لگے
بے نظیر تک جب یہ خبر پہونچی
کہ قافلہ دارالتحقیقات پہنچ گیا
اور اس کی خبروں کی تحقیق و جستجو میں
دار التحقیقات کے محقق سرگرم عمل ہو گئے
تو اس کی آنکھوں میں جگنو بھر گئے
اس کی پیشانی چمک اٹھی
ہاتھ کی ہڈی کی ضرب تیز ہو گئی
دوسرے ہاتھوں کی ہڈیوں کی ضرب بھی
زور پکڑنے لگی
ان گنت ہاتھ
ان دیکھے انجام کی آس میں
اپنی ہتھیلیوں کے چھالے
لبوں کی خشکی
زبان کی اینٹھن
جسم کی تھکن
اور روح کی جلن
کی پروا کیے بغیر
زمین پر ہڈیاں برساتے رہے
زمین دور تک کٹتی چلتی گئی
مگر اچانک
ایک مقام پر
سخت زمین سر اٹھانے لگی
ہڈیوں کی ضرب تھرتھرانے لگی
ہتھیلیوں میں چھالے پڑنے لگے
ہاتھ رکنے لگے
بے نظیر نے زمین کی سختی
ضرب کی تھر تھری
ہتھیلیوں کی ٹیس
ہاتھوں کی ماندگی
اور حوصلوں کی مجبوری
محسوس کی
اس کی زبان بول پڑی
’’ہماری مہم کا انجام دور نہیں
مگر سفر کا یہ مرحلہ سخت ہے
سختی سے نمٹنے کے لیے سختی چاہیے
اور سختی کے لیے نمی اور نرمی کی ضرورت ہے
نمی جو خشکیوں کو مٹاس کے
نرمی جو چھالوں کو سہلاس کے
نمی اور نرمی کے واسطے
رس چاہیے
مگر رس والے پھل ختم ہو چکے ہیں
پھر بھی ہمیں ہارنا نہیں ہے
کسی نہ کسی طرح رس تلاش کرنا ہے
کہ در پیش سختی سے بہر حال نمٹنا ہے
اپنے انجام تک پہنچنا ہے
لہٰذا رس کی فکر کرنا
اور اس کے لیے سوچنا
ہمارا اولین فریضہ ہے
چنانچہ سوچو!
سوچو کہ پھر کوئی پھل مل جائے
سوچو کہ پھر کوئی رس ہاتھ آ جائے
بے نظیر کے ساتھ سوچ میں غرق ہو گئے
تمام پلکیں بند ہو گئیں
کچھ دیر بعد ایک پیشانی چمک اٹھی
اس پیشانی کی بند پلکوں میں
روشنی جھلملانے لگی
ہرے بھرے گول مٹول تھم لہرانے لگے
نگاہیں نرم و نازک، پرت در پرت
گدگدے چھالے والے تھموں میں
گھستی چلی گئیں
نم آمیز لسلسلے ریشوں کے لمس سے
پلکیں کھل گئیں
اس کی زبان چیخ اٹھی
’’مل گیا! مل گیا! مل گیا!‘‘
یکایک تمام پلکیں کھلتی چلی گئیں
سب کی نظریں
چیخنے والے کی جانب مرکوز ہو گئیں
’’میں سچ کہہ رہا ہوں
وہ ادھر دیکھو! اُدھر
وہ گول مٹول تھموں والے پیڑ
ان میں رس ضرور ہو گا
تمام نگاہیں ہرے بھرے تھموں کی اُور
مبذول ہو گئیں
آہستہ آہستہ پاؤں ان کی طرف بڑھنے لگے
قریب پہنچ کر بے نظیر بولا
ان پیڑوں میں رس ضرور ہو گا
انھیں کاٹو!
سارے تھم آن کی آن میں کٹ گئے
ان کے ٹکڑے کرو!
ٹکڑے بھی ہو گئے
ٹکڑوں کو ہولے ہولے کچلو
ٹکڑے کچل گئے
اب انھیں نچوڑو!
نچوڑنے پر واقعی ان میں سے رس ٹپکنے لگا
رس کو چھتری والے پھلوں کے کٹوروں میں
جمع کرو!
کٹوروں میں رس جمع ہو گیا
احتیاط سے پیو اور کچھ بچا کر بھی رکھو!
رس نے ایک بار پھر
پیاسوں کی پیاس بجھا دی
ان کے اندر نمی اور نرمی پیدا کر دی
چہروں پر تازگی دوڑ گئی
رگوں میں تراوٹ بھر گئی
ہاتھوں میں سختی آ گئی
ہڈیوں پر انگلیوں کی گرفت مضبوط ہو گئی
پتھریلی زمین کی سختی
کمزور پڑنے لگی
زمین کھد گئی
نہر بنتی چلی گئی
ہڈیوں کی مسلسل مار
ہاتھوں کی ہمّت
لمحہ لمحہ کٹتی ہوئی مٹی
گہری ہوتی ہوئی دھرتی
اور گڈھے کی بڑھتی ہوئی لمبائی نے
بے نظیر کو
احساس کامرانی سے ہمکنار کر دیا
دل و دماغ جھومنے لگے
رگ و پے میں سرشاری دوڑنے لگی
اس کے برعکس
مہم جوؤں کی مسلسل محنت
اور دور تک کٹی ہوئی زمین
اور کھدی ہوئی خندق کے باوجود
ان کی نظروں میں انجام کا کہیں پتہ نہ تھا
دھیرے دھیرے مہم جوؤں کے دلوں میں
مایوسی گھر کرنے لگی
ان کے چہروں پر اداسی چھانے لگی
انھیں اپنی محنت کے رائے گاں ہونے کا
احساس ہونے لگا
آنکھیں بے نظیر کی قیادت پر حیران ہو اٹھیں
زمین کا گہرائی میں کھدنے کے بجائے
لمبائی میں کھدنے کا عمل ایک معما بن گیا
ان کے ہاتھ ڈھیلے پڑنے لگے
بے نظیر کی نگاہیں
گڈھے کی لمبائی ناپنے میں مصروف تھیں
لمبائی ناپتے ہوئے وہ آخری کنارے تک
پہنچ گئیں
اچانک اس کی آنکھوں میں مگر مچھ تیرنے لگے
شر انگیز نہنگوں کی شعلہ فشاں آنکھیں دہکنے لگیں
ان کے جبڑوں سے آروں کی مانند دھار دار
دانت جھانکنے لگے
لال زبان خون آلود دودھاری تلوار
کی مانند لپلپانے لگی
اس نے تیزی سے مگرمچھوں کو جھٹک دیا
مگر ان کی جگہ برتراسر آن کھڑا ہو گیا
خوفناک راکشس کے خونخوار پنجے لہرانے لگے
بھیانک دانت دہشت ناک دہانے سے
جھانکنے لگے
آگ برساتی آنکھیں گرد باد کی مانند
گردش کرنے لگیں
ہیبت ناک ہیولا پاگل ہاتھی کی طرح ڈولنے لگا
بے نظیر کے حواس پر ہیبت طاری ہونے لگی
کہ یکایک
ددھیچی کی ہڈیوں سے بنے وجر
برتراسر کے سراپے پر برس پڑے
اجگو، سارنگ اور گانڈیو
مسلسل تیر برسانے لگے
راکشس کا جسم چھلنی ہو گیا
اس کے فولادی سینے سے
خون کا فوّارہ اُبل پڑا
دھیرے دھیرے شریر کا سارا خون باہر آ گیا
بے نظیر کے حواس معمول پر آ گئے
گھبرایا ہوا چہراہ پر سکون ہو گیا
وہ خندق سے باہر نکل آیا
مہم جوؤں کی حیرت زدہ آنکھیں
اور حیران ہو گئیں
ان کے ہاتھ اور ڈھیلے پڑ گئے
ہاتھوں کو ڈھیلا مت پڑنے دو
کوشش جاری رکھو
اتنا کہہ کر بے نظیر آگے بڑھ گیا
اس کے قدم تیز تیز اٹھنے لگے
حیرت زدہ آنکھوں کی حیرت میں
مزید اضافہ ہو گیا
انتھک محنت کرنے والوں کے ذہنوں میں
طرح طرح کے وسوسے اٹھنے لگے
نفرت اور حقارت کے جذبات ابھرنے لگے
غصے میں ان کے اعصاب تننے لگے
چہروں پر ناگواری اور بے دلی کے
ملے جلے جذبات نمایاں ہونے لگے
مہم کو جاری رکھیں
یا ہاتھ روک لیں
یہ کشاکش شروع ہو گئی
بے نظیر بہت جلد چہار دیواری کے پاس پہونچ گیا
وہاں پہنچتے ہی اس کی نظریں
ہڈیوں کے انبار میں گھس گئیں، آگے بڑھ کر
اس نے ہڈیوں کے ڈھیر سے لمبی لمبی ہڈیاں چنیں
چنی ہوئی ہڈیاں
ایک ایک بالشت کی دوری پر
پہلے دائیں سے بائیں
پھر اوپر سے نیچے کی طرف بچھا دیں
بچھی ہوئی ہڈیوں سے لمبی چوڑی جالی بن گئی
جالی کے ایک ایک خانے کو
اس نے چھال کی رسیوں سے باندھ دیا
جالی اوپر نیچے
دائیں بائیں
ہر طرف سے بندھ کر مضبوط ہو گئی
جالی اٹھا کر بے نظیر جائے مہم پر واپس آ گیا
زمین کی کھدائی جاری تھی
مگر چہروں پر بے دلی
آنکھوں میں مایوسی
ہاتھوں میں کسل مندی
اور حوصلوں میں خود شکستگی تھی
جا لی کے ہمراہ بے نظیر گڈھے میں اتر گیا
اوراس کنارے سے اس کنارے تک
بڑھتا چلا گیا
آخری چھور پر پہنچ کر
پیروں نے نمی محسوس کی
رگوں میں تھرکن دوڑ گئی
وہ جھکا، کچھ دیر تک جھکا رہا
پھر تیزی سے خالی ہاتھ باہر نکل آیا
دارالتحقیقات کے محققوں کے مراقبوں میں
دھمک محسوس ہوئی
دھمک کے ساتھ ہی ایک گونج بھی سنائی دی
ایسی گونج جو تحت الثریٰ سے نکلی ہو
محققوں کے کان کھڑے ہو گئے
آنکھوں کے سامنے ہیبت ناک سائے لہرانے لگے
دل ودماغ ہلنے لگے
دار التحقیقات کے در و دیوار میں کھلبلی مچ گئی
ایک بونا بوکھلاہٹ میں چیخنے لگا
وسوسو، وسوسو، وسسانک
وسوسو، وسوسو، وسسانک
وسوسو، وسوسو، وسسانک
تمام محققوں کے چہروں کا رنگ اڑ گیا
ان کی آنکھوں میں فکر کی پرچھائیاں ڈولنے لگیں
وہ تیزی سے ادھر سے ادھر بھاگنے لگے
اچانک ان کی بھگدڑ رک گئی
سبھی اپنی اپنی نشستوں پر سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئے
سورج کے نہ اگنے
گیدڑ کے شیر
اور شیر کے گیدڑ بننے
چرند کے اڑنے
پرند کے نہ اڑنے
ہرن کے انڈے
نیل کنٹھ کے بچے
پھولوں کی آگ
پتھر کی زبان
اور پیڑوں کے لہو
پر سوچنا چھوڑ کر
دھمک اور گونج پر غور کرنے لگے
آلات حرکت میں آنے لگے
اوراق الٹنے لگے
کیمیائی مادّوں کا تجرباتی عمل زور پکڑنے لگا
بے نظیر کے باہر نکلتے ہی
وہ ہوا جو مہم جوؤں کے گمان میں بھی نہ تھا
گڈھے میں پانی کی دھار پھوٹ پڑی
مس سے پیروں میں نمی سرایت کر گئی
رگ و پے میں سنسنی سما گئی
ہجوم خوشی سے جھوم اٹھا
آنکھیں چمچما اٹھیں
زرد چہروں پر ہریالی رقص کرنے لگی
پاؤں فرطِ انبساط سے
پانی میں چھپ چھپ کرنے لگے
لب پانی تک پہنچنے کے لیے مچلنے لگے
پانی کی دھار میں روانی آتی گئی
بہاؤ بڑھتا گیا
سطحِ آب اوپر اٹھتی گئی
پیاسے لب پانی پر لپک آئے
پانی کی اچھلتی مچلتی شور کرتی ہوئی دھار
پیاسوں کو سیراب کرتی ہوئی
نشیبی زمینوں میں پہنچ گئی
خالی زمین جھیل میں تبدیل ہو گئی
دور تک جھیل جھلملانے لگی
آب چمچمانے لگا
لہریں لہرانے لگیں
یہ جھیل وہ جھیل نہیں تھی
جسے بے نظیر نے خواب میں دیکھا تھا
اور کود پڑا تھا
اور جب آنکھ کھلی تھی
تو خود کو
بنجر زمین پر
پیاسا پایا تھا
بلکہ یہ جھیل حقیقت میں جھیل تھی
جس کا پانی
پیاسے لبوں کی پیاس بجھا رہا تھا
زرد چہروں پر شادابیاں بچھا رہا تھا
خشک ہونٹوں سے پپڑیاں ہٹا رہا تھا
حلق کے کانٹوں کو گلا رہا تھا
زبان کی اینٹھن کو سہلارہا تھا
رگوں میں تراوٹ دوڑا رہا تھا
دل و دماغ کو نرم بنا رہا تھا
روح کو فرحت پہنچا رہا تھا
یہ جھیل وہ جھیل تھی
جسے نظر نے ڈھونڈا تھا
سوچ نے کھودا تھا
فہم نے بھرا تھا
پیاسوں کی پیاس بچھ چکی تھی
چہروں سے زردی ہت چکی تھی
ہونٹوں سے خشکی مٹ چکی تھی
مگر آنکھوں میں حیرانی باقی تھی
مسئلہ حل ہو چکا تھا
مگر معمّا جیوں کا تیوں موجود تھا
نگاہیں یہ جاننے کے لیے بے چین تھیں
کہ لمبائی میں کھودی گئی زمین سے پانی
کیوں کر نکلا؟
پانی کی دھار کہاں سے پھوٹی؟
اتنی جلد خالی خشک زمین جھیل کیسے بن گئی؟
اچانک فضا میں ایک عجیب و غریب چیخ بلند ہوئی
گرد و پیش دہل اٹھا
آنکھوں کی حیرانی اور بڑھ گئی
تمام نگاہیں بے نظیر کی طرف دیکھنے لگیں
بے نظیر کی مطمئن نظریں ان کی بیتابیاں
بڑھانے لگیں
تمہاری حیرانی دور ہو سکتی ہے
بیتابی مٹ سکتی ہے
ہر سوال کا جواب مل سکتا ہے
اگر تم یہ جان جاؤ
کہ ابھی ابھی جو کربناک چیخ بلند ہوئی ہے
وہ کیسی ہے ؟
کہاں سے نکلی ہے ؟
اور کن کی ہے ؟
اگر تم نے نہیں جانا
تو یہ جان لو
کہ یہ چیخ سب کچھ چھن جانے کی چیخ ہے
یہ چیخ بے بس و لاچار ہو جانے کی چیخ ہے
یہ چیخ وہاں سے نکلی ہے
جہاں ہمارا پانی تھا
اور یہ چیخ ان کی چیخ ہے
جن کے پیروں سے پانی کھسک چکا ہے
جن کے پاؤں زمین پر آ گئے ہیں
ہاں، یہ چیخ انھیں کی ہے
جو آبِ حیات تو پی چکے ہیں
مگر اب
جو نہ مرسکتے ہیں
اور نہ جی سکتے ہیں
٭٭٭
تشکّر: نسترن فتیحی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید