FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مجھے اذن جنوں دے دو

               شازیہ اکبر

پیشکش اور تشکر: اردو اصناف ڈاٹ کام

 

انتساب

اُس ربِّ کائنات کی صنعت گری

کے نام

جس نے میرے خیال کو تمثیل کر دیا

مجھے اذنِ جنوں دے دو کہ میں نے ہوش سے آگے

ابھی کُچھ ان کہے جذبوں کا بھی اظہار کرنا ہے

______ شازیہ اکبر

 

پیش گفتار

            ’’مجھے اذنِ جنوں دے دو‘‘ میرے چند خوابوں کا ادھورا عکس ہے۔وہ نقشِ ناتمام جس کی تکمیل میں ایک عمر تمام ہو جائے۔سبھی خواب حقیقت کا روپ نہیں دھارتے مگر کئی خواب ہماری لگن کا ایندھن ثابت ہوتے ہیں۔اپنے آپ کو دریافت کرنے کی لگن____ اپنی ذات کو کھوجنے کا جنوں۔خود آگہی کا ایسا سفر جس کی ابتدا ہمارے اختیار میں نہیں مگر اُس کو جاری رکھنا ہماری مجبوری ہے اور مجبوری کو اگر ارادے کی سند مل جائے تو سفر با مراد ٹھہرتا ہے۔

            زندگی لاتعداد بے چہرہ خوابوں کا نامانوس عکس ہے۔اس کے کینوس پر پورے عرصۂ عمر میں خوابوں اور تمناؤں کی رنگ آمیزی جاری رہتی ہے مگر نقش کسی کسی کے واضح ہو کر ابھرتے ہیں اور شاہ کار تو کوئی ایک آدھ ہی بن پاتا ہے۔ یہ وہ فن ہے جس نے بے ہُنر اور با ہُنر دونوں کو ہی آزمانا ہے۔ اپنی ذات کی دریافت دراصل مجسمہ سازی کا وہ فن ہے جس میں ہمارے ہاتھوں میں تیشہ تھما کر ہمیں اپنی ہی تراش خراش پر مامور کر دیا جاتا ہے کہ جاؤ! اور خود کو چاہے کتنا ہی زخمی کرو،درد سہو، چوٹ کھاؤ مگر خام سے کندن، پتھر سے ہیرا اور چٹان سے مجسمہ بن کے دکھاؤ۔ہمیں اس کوشش میں اکثر خود کو زخمی کرنے کے سوا اور کُچھ حاصل نہیں ہو پاتا،ہاں ! زندگی کا سفر ضرور تمام ہو جاتا ہے۔

            انسان ہمیشہ لاحاصل کے پیچھے بھاگ کر تسکین محسوس کرتا ہے۔میں منزل کو سراب ہی سمجھتی ہوں ؛ میرے نزدیک سفر ہی اساسِ حیات ہے۔منزل کی ضرورت صرف اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ اس کے بہلاوے کے سہارے سفر خوش گوار گزرتا ہے۔منزل ’’منجمد بہشت‘‘ کے سوا کُچھ اور نہیں۔بس ایک لاگ ہے اور لاگ تو جس تن لاگے وہ ہی جانے۔ مجھے زندگی خوابوں اور سرابوں سے پیار ہے۔مجھے لاگ، لگن اور لاحاصل جستجو پسند ہے۔میرے نزدیک انسانیت سب سے پہلا مذہب ہے اور امن و آزادی سب سے بنیادی حقِ زندگی۔

            میں محسوسات کے اُس جہان کی باسی ہوں جہاں نوکِ خار پر شبنم کا لرزتا وجود بھی صلیب پر لٹکا نظر آتا ہے اور جہاں کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کائنات کا سب سے حسیں منظر دکھائی دیتا ہے۔میری آرزو ہے کہ میرے وطن کا کوئی آنگن بے چراغ نہ ہو اور اس کی منڈیروں پر کبھی اداسیوں کی دھوپ نہ اُترے۔کیوں کہ محبت سے وسیع کوئی جاگیر نہیں اور امن سے بڑھ کر کوئی سُکھ نہیں۔بے یقینی کی فضائیں ہماری زندگی کو زندان خانے میں بدل دیتی ہیں ؛جہاں  نٍا اعتباری کی سلاخوں کے پیچھے ہم قیدِ تنہائی کے اسیر بن جاتے ہیں۔روزنِ زنداں سے چِپکے سہمے سہمے وجود___ اُمید اور یقین کی شامیں بے چراغ ہو جائیں تو راتیں طویل ،بوجھل اور سرد ہو جایا کرتی ہیں۔ایسے کڑے امتحانوں میں اپنے اپنے من کا دِیا جلا کر صبحِ زندگی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔زندگی کا سارا حُسن اس کے ہونے میں ہے۔زندگی ہر آنکھ میں بے شمار خوابوں کی چلمنیں سجاتی ہے۔

            زندگی نے مجھ پر محبت و آگہی کے بے شمار دریچے وا کیے۔مجھے اس کی کڑواہٹیں اور تلخیاں بھی اتنی ہی عزیز ہیں جتنی اس کی نوازشیں اور عنایتیں۔مجھے اس سے پیار ہے اس لیے میں نے اس کے ہر روپ کو دل و جان سے تسلیم کیا ہے۔ کہیں یہ کھلی بانہوں کے ساتھ میرے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے تو کہیں نظریں چُرائے،روٹھی روٹھی ،اُکھڑی اُکھڑی،منہ پھیر کے راستہ بدلتی دکھائی دیتی ہے۔مجھے تو اُن لمحوں میں بھی اس کی محبتِ کا یقینِ کامل رہا جب مجھے یہ درد کے بندھنوں میں اسیر دیکھ کر شانِ بے نیازی سے میرے پاس سے گزرتی رہی ہے۔زندگی کا یہی پیار اور وارفتگی،اس کی یہی شوخیاں اور کج ادائیاں میری نظموں ، غزلوں میں جھلکتی ہیں۔

            لفظ سے میرا رشتہ کتنا پُرانا ہے یہ تو مجھے یاد نہیں مگر تخلیقِ شعر کے عمل میں میں نے خود کو ہمیشہ بے بس پایا ہے۔میں نہیں جانتی کہ شعر کیسے لکھا جاتا ہے اور مصرعے کیسے ایک دوسرے کے تعاقب میں قطار اندر قطار اُمڈے چلے آتے ہیں۔میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ شعر بادل کی طرح مجھ پر چھا جاتا ہے اور برسات کی طرح ٹوٹ کر برستا ہے۔جوں جوں میرا تن من اس کے قرب سے بھیگتا جاتا ہے تُوں تُوں میری روح سُلگتی جاتی ہے۔ تن سیراب بھی ہو جائے تو من جلتا رہتا ہے۔بادل کی دھند ، سُلگتی آگ کے دھوئیں میں کب بدل جاتی ہے ،مجھے پتا ہی نہیں چلتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ لفظ اور قلم کا رشتہ بہت نازک ہے،میرے بے ہُنر ہاتھوں میں لرزتے قلم کی زبان ٹوٹے بکھرے لفظ تخلیق کرتی رہتی ہے۔لفظوں کے تانے بانے بکھرتے، ٹوٹتے،الجھتے ،سنورتے رہتے ہیں۔

            مجھے اس کا بخوبی ادراک ہے کہ میرا شعر سے رشتہ ہنوز مضبوط نہیں ہو سکا اور مجھے اس کے رمزو ایما،نزاکتوں اور لطافتوں کو سمجھنے میں ابھی طویل ریاضت درکار ہے مگر اس کے باوجود میں اپنے اس شعری سفر کی حامل پہلی کتاب کو منظرِ عام پر لانے کا جتن کر رہی ہوں۔مجھے اعتراف ہے کہ اس کتاب میں میرے شعری سفر کی لغزشیں اور کوتاہیاں شعر آشناؤں سے چھپی نہیں رہیں گی مگر مجھے بے چہرہ خوابوں کا چہرہ تراشنے کی جستجو اور اپنے تشخص کی لگن اس کی اشاعت پر مسلسل مائل کرتی رہی ہے۔یہ کتاب کسی بچے کی تحریر کردہ اُس پہلی تختی کی مانند ہے جو اس کے لیے شاہکار اور ناقد کے لیے بے کار بھی ہو سکتی ہے مگر یہاں مجھے مارشل کا ایک قول یاد آ  رہا ہے کہ:

’’کوئی شک نہیں کہ میرے کپڑے پھٹے پُرانے ہیں لیکن یہ میرے اپنے ہیں۔‘‘

            میری کتاب زندگی کے رویّوں اور روایتوں کا ردِ عمل بھی ہے اور ایک عورت کے محسوسات کا اظہاریہ بھی۔ جو بحیثیت انسان اپنی تمام تر داخلی و خارجی کیفیات کے برملا اظہار کی خواہاں ہے۔ ہر انسان اظہارِ ذات کے لیے مختلف ذرائع اپناتا ہے۔میرے پاس دو ہی طریقے ہیں یا اپنے قلم کو زبان بناؤں یا اپنے بُرش اور رنگوں کے ساتھ کھیل کر اپنے ہونے کا ثبوت دوں۔ اللہ کریم نے ایک اور کرم مجھ پر یہ کیا کہ مجھے پیشۂ پیغمبری سے وابستہ کر دیا،سو اظہار کی تیسری صورت بھی مجھے حاصل ہو گئی۔

            میری تُک بندیوں کو ایک مکمل کتاب کے سانچے میں ڈھالنے میں میرے عزیز و اقارب کا بہت بڑا حصّہ ہے۔اگر اتنے سارے لوگوں کی محبت اور رہنمائی شاملِ حال نہ ہوتی تو شاید میں اس کی جرأت نہ کر پاتی۔خاص طور پر میرے والدین کی دُعائیں ، میرے بہن بھائیوں کا پیار، میری دوستوں کا خلوص،میرے اساتذہ کی حوصلہ افزائی اور میرے جیون ساتھی شاہد علی کا تعاون قابلِ ذکر ہے۔

            کتاب کی نوک پلک سنوارنے اور اسے لباسِ طباعت سے آراستہ کرنے میں جس شخصیت نے اہم ترین کردار ادا کیا، وہ استاد وہ محسن ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ صاحب  ہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ اُن کی رہنمائی اور شفقت کے بغیر یہ کتاب کبھی منظرِ عام پر جلوہ گر نہ ہوتی۔اُن کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس لفظ بھی نہیں ہیں۔ میرے کمپیوٹر کے استاد جناب عبدالجبار ہاشمی صاحب نے میری شاعری کو بہ اصرار خود کمپوز نگ کے عمل سے گزارا،میں ان کی بھی شکر گزار ہوں۔ جناب محمد افضل آرٹسٹ،مصوّر بھی میرے دلی شکریے کے مستحق ہیں کہ رنگوں کی دُنیا میں مجھے ان کی رہنمائی حاصل رہی۔ سرورق کے لیے کئی آئیڈیاز ان کے ساتھ ڈسکس ہوئے۔ بالآخر میری خواہش پر میری ہی ایک تصویر سرورق کے لیے منتخب ہوئی۔

            کتاب کے سرورق پر میری جو Penwork painting ہے ،یہ مجھے ہمیشہ پسند رہی ہے۔ یہ تصویر ۲۰۰۷ء کو اٹک میں میری ایک نمائش میں بھی شامل تھی۔ اس تصویر کو دیکھنے والوں نے بھی پسند کیا۔میں نے اس تصویر میں ایک ایسی عورت کو Paint کیا ہے جس کا چہرہ،جس کی شناخت ابھی زمانے کی نگاہوں سے اوجھل ہے جو اپنے اصل تعارف کے انتظار میں ہے ،جو اذنِ جنوں کی طلب گار ہے!

      ۲۳/ دسمبر ۲۰۱۰ء                                 شازیہ اکبر

 

سخن مرا سہی لیکن خیال اُس کا ہے

مری بیاض میں سارا جمال اُس کا ہے

 

عقیدت

 

حمد باری تعالیٰ

شاید مجھے مل جائے خدا ، سوچ رہی ہوں

کیوں طور کے جلووں کی ضیا ،سوچ رہی ہوں

ہونا تھا گناہوں پہ بھی شرمندہ مگر میں

اب تک تو ترا لطف و عطا، سو چ رہی ہوں

چھا نے ہی نہیں میں نے ابھی دشت و بیاباں

بس من میں اترتے ہی فنا سوچ رہی  ہوں

اے  میرے خدا مجھ کو بھی توفیق عطا کر

لکھوں میں تری حمد و ثنا،سوچ رہی ہوں

اُترے مرے دل میں بھی ترا نورِ جہانتاب

رہتے ہوئے ظلمت میں ضیا،سوچ رہی ہوں

٭٭٭

 

عرفانِ الٰہی

ترے جمال کو حدِ خیال سے دیکھو ں

مرے خدا میں تجھے کِس مثال سے دیکھو ں

ہر ایک حال میں پیشِ نظر تو رہتا ہے

تجھے عروج سے دیکھوں زوال سے دیکھو ں

٭٭٭

دُعا

قفس نے کوئی آشیاں چاہتی ہوں

میں بلبل ہوں اذنِ فغاں چاہتی ہوں

مجھے راس ہے تیری دھرتی بھی لیکن

میں ادراک کا آسماں چاہتی ہوں

تری بندگی کے جو قابل بھی ٹھہرے

میں ایسی عبادت، نہاں چاہتی ہوں

ملے جس میں منزل مجھے میرے من کی

خودی کا کوئی امتحاں چاہتی ہوں

جو بھٹکوں تو مجھ کو تری رہ دکھائے

میں منزل کا ایسا نشاں چاہتی ہوں

مرے دل کی دُنیا ہویدا ہو جس سے

میں اظہار کی وہ زباں چاہتی ہوں

٭٭٭

 

نعت رسول مقبول ﷺ

اِک ترے خواب کی پہچان ہماری آنکھیں

ہو گئیں فخرِ دل و جان ہماری آنکھیں

اب ترے بعد کسی اور کو کیسے دیکھیں

ہو گئیں تجھ پہ تو قربان ہماری آنکھیں

رکھ کے آنکھوں میں تجھے موند لوں پلکیں اپنی

یوں رہیں صورتِ جزدان ہماری آنکھیں

جانے کس عرضِ تمنا نے ثمر بار کیا

کس عبادت کا ہیں فیضان ہماری آنکھیں

جیسے صحرا کی کڑی دھوپ میں پیاسے راہی

اس طرح رہتی تھی ویران ہماری آنکھیں

اب انھیں گردِ زمانہ سے رکھیں گے محفوظ

اب ہیں سرمایۂ ایمان ہماری آنکھیں

٭

(خواب میں زیارتِ رسولِ کائنات ﷺ سے شرف یاب ہونے پر)

٭٭٭

 

غزلیات

گونگے جذبے،سہمی سوچیں کیسی رام کہانی ہے

پیاسی نیند کے خوابوں میں تو صرف سراب کا پانی ہے

 

ترے خیال کو بھی فرصتِ خیال نہیں

جدائی ہجر نہیں ہے ملن وصال نہیں

مرے وجود میں ایسا سما گیا کوئی

غمِ زمانہ نہیں ، فِکر ماہ و سال نہیں

اُسے یقین کے سورج سے ہی اُبھرنا ہے

وہ سیلِ وہم میں بہتا ہوا جمال نہیں

دہک اُٹھے مرے عارض، مہک اُٹھیں سانسیں

پھر اور کیا ہے؟ اگر یہ ترا خیال نہیں

نجانے کتنے جہاں منتظر ہیں تیرے لیے

ترے عروج کی پہلے کہیں مثال نہیں

٭٭٭

 

کوئی تعبیر کا منظر نہ دکھایا جائے

ہم کو سہمے ہوئے خوابوں سے ڈرایا جائے

کتنی بے نور ہیں زنداں کی یہ بوجھل شامیں

ان میں یادوں کا کوئی دیپ جلایا جائے

طالبِ دید ہیں جلوے مری زیبائی کے

جانبِ طور جو موسیٰ کو بلایا جائے

آج ہم ہار کے آئے ہیں تمنا تیری

آج پھر روٹھے خداؤں کو منایا جائے

ہم نے مانا کہ انہیں موت کا صدمہ ہو گا

اس بہانے سے انہیں گھر تو بلایا جائے

جس جگہ ٹھہروں تیرے پیار کی خوشبو گھیرے

جس طرف جاؤں تیری یاد کا سایا جائے

٭٭٭

 

دکھ یہ اپنی زندگی سے کم نہیں ہوتے کبھی

اب تو خود کو بھی میسر ’’ہم‘‘ نہیں ہوتے کبھی

اپنی اپنی کوششیں بھی آزما ڈالیں بہت

فاصلے جو درمیاں ہیں ضم نہیں ہوتے کبھی

بہہ گئے اشکوں میں دِل کے سب اثاثے دفعتاً

ہاں ! وہ تیرے خواب ہیں جو نم نہیں ہوتے کبھی

وقت بھی کچھ اس طرح سے رُخ بدلتا ہے یہاں

تم نہیں آتے کبھی اور ہم نہیں ہو تے کبھی

کل جو پھر ہم ایک ہوں گے روٹھنے سے فائدہ؟

کیوں تمنا اور کرم باہم نہیں ہوتے کبھی؟

٭٭٭

 

تری محبت کے اس جنوں نے عجیب جادو جگا دیا ہے

میں بھولنا چاہتی تھی تم کو ، زمانہ تم نے بھلا دیا

مرے لہو میں یہ ننھے منے چراغ کتنے ہی جل اُٹھے ہیں

یہ کیسے تم نے چھوا ہے جاناں کہ میرا پہلو جلا دیا ہے

میں اپنے لفظوں کو نکہتوں کے پروں سے اُڑتا بھی دیکھتی ہوں

تمہاری چاہت نے میرے فن سے کثافتوں کو مِٹا دیا ہے

یہاں غبارِ سفر نے کتنے مسافروں کو بھلا دی منزل

کوئی ہے جس نے غبار رستوں پہ کہکشاں کو سجا دیا ہے

نہ اُس کے جیون میں کچھ توازن نہ اُس کی بحروں میں کچھ ترنم

کہ جس نے چاہت کے قافیے کو غزل سے اپنی مٹا دیا ہے

٭٭٭

 

دیپ جلے تو دیپ بجھانے آتے ہیں

شہر کے سارے لوگ رُلانے آتے ہیں

دل کی کلیاں تیرے نام پہ کھِلتی ہیں

تارے بھی اب مانگ سجانے آتے ہیں

تُم پر خوشیوں کے سارے ہی موسم اُتریں

ہم کو سارے دُکھ بہلانے آتے ہیں

جانے کیا دیکھا تھا تیری آنکھوں میں

جانے کیوں اب خواب سہانے آتے ہیں

مَن مندر میں رکھ کر تیری مورت کو

ہم پوجا کا دیپ جلانے آتے ہیں

٭٭٭

 

تمہارا غم نہیں کافی ، ہمارا دل جلانے کو

نئے کچھ روگ پالیں گے پرانے دُکھ بھلانے کو

یہ دن اپنا گذرتا ہے اُٹھائے بوجھ فرقت کا

چلی آئی ہیں پھر یادیں ہمیں شب بھر جگانے کو

تمہارے نقش گر ہاتھوں میں سارے رنگ کچے ہیں

کہو تو ہم چلے آئیں لہو اپنا ملانے کو

ہوئے ہیں داخلِ زندان مگر تم سے نہیں غافل

صبا کو ہم نے بھیجا ہے تمہارا حال لانے کو

تماشا ہو اگر تقدیر کا ، تب دِل بہلتا ہے

اُتر آتے ہیں تارے بھی مری راہیں سجانے کو

٭٭٭

 

’’جان دے کر تجھے جینے کی دعا دیتے ہیں ‘‘

کتنا انمول وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں

بامروت ہیں مرے شہر کے رہنے والے

لے کے بینائی مری ، دیپ جلا دیتے ہیں

حاکمِ وقت سے رکھتے ہیں عداوت لیکن

اس کی ہر ہاں میں سبھی ہاں بھی  ملا  دیتے ہیں

کس قدر خوف سمایا ہے یہاں آنکھوں میں

خوفِ تعبیر سے ہم خواب بھلا دیتے ہیں

دن کو بے چین کیے رکھتی ہیں  یادیں تیری

شب کو نیندوں سے تیرے خواب جگا دیتے ہیں

ایسے کرتے ہیں ادا فرض تری چاہت کا

ہم ترے بھولنے والوں کو بھلا دیتے ہیں

اب تو روتے ہیں مری موت پہ دشمن میرے

وقت کے بعد یہاں لوگ جزا دیتے ہیں

٭٭٭

کہہ دو کہ نہ برداشت کریں جور و جفا  کو

اس صبر کے جو پھل ہیں رسیلے نہیں ہوتے

٭٭٭

ٹوٹ جاؤ گے تم ، ہم بکھر جائیں گے حادثہ اس طرح یہ گزر جائے گا

وقت سے بازیاں کون جیتا یہاں ، وقت فاتح ہے فاتح ہی کہلائے گا

ہم سنیں گے ترے قہقہوں کی کھنک زندگی اس طرح نغمہ بن جائے گی

اپنا کیا ہے یہاں ہنس نہ پائے اگر روتے روتے ہی جیون گزر جائے گا

روشنی کا حوالہ رہو تم سدا تیری آنکھوں کے جگنو چمکتے رہیں

یاد رکھنا اگر ہم جو بھٹکے کبھی سارا الزام تیرے ہی نام آئے گا

مجھ کو ماضی میں تم قید کر کے صنم سائباں اپنی یادوں کا اک تان دو

پھر قیامت ہو یا وقت کا حادثہ جو بھی آئے گا آ کر گزر جائے گا

تیرے لکھے ہوئے خط جلائیں تو کیا تیری ہر اک نشانی مٹائیں تو کیا

کون روکے گا تیرے خیالات کو کون یادوں کو زنجیر پہنائے گا

٭٭٭

 

قرب کی ابتدا کو پہنچے ہیں

بخت کی انتہا کو پہنچے ہیں

ماند لگنے لگے ستارے بھی

ایسے شہرِ ضیا کو پہنچے ہیں

اب کے سیراب ہو گئے صحرا

اتنے آنسو گھٹا کو پہنچے ہیں

ایسی مہکار چھپ نہیں سکتی

خواب دستِ صبا کو پہنچے ہیں

میٹھے چشمے اُبل پڑے ہر سُو

آج ضربِ عصا کو پہنچے ہیں

پیار تقسیم کا نہیں قائل

کرنے والے فنا کو پہنچے ہیں

عقل حیرت کدوں میں رہتی ہے

عشق والے خدا کو پہنچے ہیں

آہ نکلی تھی روزنِ دل سے

راز کتنے صبا کو پہنچے ہیں

اب کے جلنا نصیب ہے اپنا

اب کے ایسی چتا کو پہنچے ہیں

٭٭٭

 

جب لفظ دکھوں سے چھوٹے ہوں

تو کیوں کر ہم اظہار کریں

٭٭٭

پیار کرنا ہے تو پھر دل کو بناؤ پتھر

کانچ کے شہر میں اب ڈھونڈ کے لاؤ پتھر

اس کو چا ہا ہے تو پھر اس کی جفا بھی جھیلو

اپنے احساس پہ ہر روز گراؤ پتھر

اب ہے ویرانہ جہاں پیار کبھی بستا تھا

اس کے ملبے سے ذرا دُور ہٹاؤ پتھر

میں نے اس شہر میں جس بُت کی غلامی کی ہے

تم اسی بُت کی گواہی میں بلاؤ پتھر

یہ مرے شہرِ خموشاں کا ہے دستور عجب

جو کوئی لب کو بھی کھولے تو اُٹھاؤ پتھر

میں نے جو سنگ تراشا ہے خدائی کے لیے

آؤ اس بُت کے مقابل کوئی لاؤ پتھر

موت کے بعد مری قبر کے کتبے کے لیے

اُس کی دیوار سے اِک مانگ لے لاؤ پتھر

٭٭٭

 

تھم گیا ہے تیرے بعد سلسلہ خیالوں کا

فکر کے سمندر پر جیسے کائی جم جائے

٭٭٭

اب تیرے انتظار کی عادت نہیں رہی

پہلے کی طرح گویا محبت نہیں رہی

ذوقِ نظر ہمارا بڑھا ہے کُچھ اس طرح

تیرے جمال پر بھی قناعت ہیں رہی

فرقت میں اُس کی روز ہی ہوتی تھی اِک غزل

اب شاعری ذریعۂ راحت نہیں رہی

دنیا نے تیرے غم سے بھی بیگانہ کر دیا

اب دل میں تیرے وصل کی چاہت  نہیں  رہی

کچھ ہم بھی تھک گئے ترے دَر پر کھڑے کھڑے

تُم میں بھی پہلے جیسی سخاوت نہیں رہی

تکتے ہیں روز ایک ہی صورت الم کی ہم

یا رب! ترے جہاں میں بھی جدت نہیں رہی

٭٭٭

 

کہاں سے چلے تھے کہاں آ گئے ہیں

یہ وحشت کے رستے ہمیں بھا گئے ہیں

ہمیں زندگی سے نہیں خوف کوئی

ہمیں زیست کے حوصلے آ گئے ہیں

روانہ ہوئے کشتیوں میں مسافر

ہمیں اِک جزیرے میں بھٹکا گئے ہیں

یہ تقصیرِ آدم نہیں اور کیا ہے

کہ جنت سے اُٹھ کر یہاں آ گئے ہیں

ہر اِک اپنا اپنا صنم پوجتا ہے

خدائی میں کتنے خدا آ گئے ہیں

محبت ہو حاصل تو لگتا ہے ایسا

کہ مٹھی میں دونوں جہاں آ گئے ہیں

٭٭٭

 

پھر الجھنوں میں عجب دِل کا حال ہونا ہے

بچھڑ کے تجھ سے بھی تیرا خیال ہونا ہے

ٹھہر گیا ہے جو لمحہ ہماری یادوں میں

اُس ایک لمحے کو جیون کا سال ہونا ہے

ترے فراق کی گھڑیوں میں بھی بہل جاتے

یقیں جو ہوتا کہ تیرا وصال ہونا ہے

اُتر گئے جو مرے دِل میں پیار کے مو سم

گزر گئے تو غضب کا ملال ہونا ہے

جہاں میں سارے گناہوں کا اِک بہانہ ہے

تری جفا کو بھی تاروں کی چال ہونا ہے

ہمی نے آ کے بڑھائی ہے دار کی رونق

ہمی نے اپنی بقا کی مثال ہونا ہے

٭٭٭

 

کیوں اُسی شخص سے ملنے کا بہانہ چاہوں

جس کے سائے سے بھی میں دِل کو بچانا چاہوں

جانتی ہوں کہ نہیں رہ گزر یہ اُس کی

بام پر پھر بھی دِیا روز جلانا چاہوں

مات پر اُس کی بھی ہونا ہے پشیمان بہت

اور اِس کھیل میں خود کو بھی جتانا چاہوں

حالِ دل اُن کا بھی سننے کی ہے بے تابی سی

اور سب درد میں اپنے بھی بتانا چاہوں

وہ سمجھتا ہے مری آنکھ کے سارے موسم

حال جس شخص سے میں دل کا چھپانا چاہوں

٭٭٭

 

دل و نگاہ کے حسن و قرار کا موسم

وہ تیری یاد ترے انتظار کا موسم

جھکی ہے آنکھ کئی رت جگے سمیٹے ہوئے

چھپا ہے لمس میں کیسا خمار کا موسم

ہمارے پیار نے عمرِ دوام مانگی ہے

ہمیں قبول نہیں تھا اُدھار کا موسم

فراق لمحوں کو ہم نے حسیں بنایا ہے

سجا کے دِل میں ترے اعتبار کا موسم

ملی نگاہ تو اِک پل میں ہم پہ گزرا ہے

کروڑ قربتوں لاکھوں قرار کا موسم

ہمارے پیار کی یہ بھی ادا نرالی ہے

خزاں کی رُت میں منایا بہار کا موسم

٭٭٭

 

ملے ہو تم تو سبھی فاصلے مٹا دیں گے

تمھاری سوچ سے بڑھ کر تمہیں وفا دیں گے

رہے گا تم کو نہ شکوہ کبھی نصیبوں کا

تمھارے سوئے مقدر کو بھی جگا دیں گے

تم ایک بار ذرا اعتماد کر دیکھو

ہزار خوف تمھارے یونہی مٹا دیں گے

ہر ایک شام کو آنکھیں تمھیں بلائیں گی

دِکھا کے خواب تمھارے اُنھیں سلا دیں گے

تمھارے پیار میں چکھیں گے موت کی لذت

حیات و موت کو معنی نئے سکھا دیں گے

تمھاری ذات کی تنہائیوں کو بانٹیں گے

تمھاری ذات کو ہم انجمن بنا دیں گے

تمھارے نام سے اب ہو گی شاعری ساری

کہیں پہ نظم کہیں پہ غزل بنا دیں  گے

٭٭٭

 

ملا نہ کوئی ہمیں جب کہیں بدل اپنا

تو ہم نے خود کو گنوانے سے اجتناب کیا

٭٭٭

کبھی بے مروّت کبھی با وفا ہوں

میں اپنے حوالوں میں سب سے جدا ہوں

مجھے ڈھونڈتی ہیں زمانے کی آنکھیں

مگر اِن نگاہوں سے میں ماورا ہوں

کبھی اس کو خود میں دھڑکتا بھی پاؤں

کبھی سوچتی ہوں کہ اُس سے جدا ہوں

مجھے قرب حاصل ہے اس کے ہنر کا

اگر ہوں میں گوہر تو اس کی عطا ہوں

ہم اک دوسرے کے ہی دم سے ہیں زندہ

وہ میری بقا ہے میں اس کی بقا ہوں

جدا ہیں زمانے سے تیور ہمارے

وہ جو سوچتا ہے میں اُس کی نوا ہوں

٭٭٭

 

پیار تیرا بھُلا کے جیتے ہیں

خود کو کتنا ستا کے جیتے ہیں

٭٭٭

خود کو تلاش کر کے ہی گمنام ہو گئے

ایسے بھی زندگی میں کئی کام ہو گئے

صورت گری کی ایسی اب عادت پڑی ہمیں

پتھر جو ہاتھ آئے تو اصنام ہو گئے

اب تو خدا بھی اپنا نہیں کر رہا یقیں

اتنے کسی کے پیار میں بدنام ہو گئے

وابستہ اِس قدر ہوئے اِک دوسرے سے ہم

ان کے گنہ بھی اپنے ہی الزام ہو گئے

آئے تھے تُم سے پہلے جو خوابوں کے نغمہ گر

لے کر صدائیں اپنی وہ بے نام ہو گئے

٭٭٭

 

سرگشتہ بہت رہنا ، کوئی بات نہ کرنا!

اس طرح کے پیدا کبھی حالات نہ کرنا

جن آنکھوں میں روشن ہیں ترے نام کے جگنو

اب ان کے مقدر میں کبھی رات نہ کرنا

پلکوں کے کناروں پہ کبھی اوس نہ اُترے

مجروح کبھی پیار کے جذبات نہ کرنا

تم پیار گھروندوں کی نزاکت کو سمجھنا

جو ان پہ گراں گزرے وہ برسات نہ کرنا

آ جانا مرے پیار کی بانہوں میں سمٹ کر

تم ہجر کے صحرا میں بسر رات نہ کرنا

٭٭٭

 

کسی کی یاد آنے پر مجھے تم کیوں بلاتے ہو

اُسے تُم دھیان میں رکھ کر مری صورت بناتے ہو

میری تعریف کر کے تم سمجھتے ہو کہ میں خوش ہوں

مگر درپردہ اُس بُت کی محبت کو نبھاتے ہو

مجھے تو دیتے ہو دھوکہ مگر خود سے ذرا پوچھو

کہ اپنے آپ سے بھی جھوٹ اکثر بول جاتے ہو

رہائی مِل نہیں سکتی تمہیں اپنی اسیری سے

کہ روزن سے لگے رہتے ہو دَر کو بھول جاتے ہو

ترے قدموں میں تیرے خوف کے موہوم دھاگے ہیں

مگر تم اِن سے ڈرتے ہو انھی سے خوف کھاتے ہو

مجھے کہہ کر بلاتے ہو کہ موسم آج اچھا ہے

میں آ جاؤں تو کمرا بند کر کے بیٹھ جاتے ہو

مجھے کہتے ہو اپنی رائے سے تم کو کروں آگاہ

مگر جب فیصلے کرتے ہو ، رائے بھول جاتے ہو

٭٭٭

 

ہم بھی گوہر شناس ہوتے تھے

جب ترے پاس ہوتے تھے

٭٭٭

یوں ہم سے نگاہیں نہ چرایا کرو جاناں !

غیروں کی طرح تم نہ ستایا کرو جاناں !

شرمندۂ تعبیر ہوں لازم تو نہیں ہے

ہاں ! خواب تو آنکھوں میں بسایا کرو جاناں !

ہم تم کو بھلانے کی کریں گے کوئی تدبیر

تم بھی تو ہمیں یاد نہ آیا کرو جاناں !

کھلتے نہیں صحرا میں گل و لالہ تو کیا غم

کانٹے ہی محبت سے اُگایا کرو جاناں !

ہم پیار جتانے کو اگر روٹھ ہی جائیں

تم پیار نبھانے کو منایا کرو جاناں !

سنتے ہیں دعاؤں سے بدل جاتی ہے قسمت

تم ہاتھ یقیں سے تو اٹھایا کرو جاناں !

٭٭٭

 

’’نِت نئے نقش بناتے ہو مِٹا دیتے ہو‘‘

وہ مصور ہو کہ تصویر جلا دیتے ہو

اب تو ہر سانس ہی یادوں میں گزر جاتی ہے

اس طرح دِل کو دھڑکنے کی سزا دیتے ہو

خود ہی دیتے ہو مرے دل کو تسلی جاناں !

خود ہی تم درد کے شعلوں کو ہوا دیتے ہو

جب بھی آتے ہو نظر آنکھ چمک اٹھتی ہے

دِل کی دنیا میں کئی رنگ جگا دیتے ہو

تم خدا ہو تو کرو ظرف بھی اپنا کامل

جو بھی کرتے ہو کرم ، اُس کو جتا دیتے  ہو

چھین لیتے ہو سرِ شام مری آنکھ کا نور

صبح ہوتے ہی کئی دیپ جلا دیتے ہو

ہم تو بھیگی ہوئی پلکیں بھی چھپا رکھتے ہیں

اور تم زخم سرِ بزم سجا دیتے ہو

٭٭٭

 

میں اپنے لفظوں کو نکہتوں کی لطافتوں کے پروں میں دے کر

قفس کے اُس پار بھیجتی ہوں ، اُفق کے اُس پار دیکھتی ہوں

٭٭٭

دلوں کے آنگن میں ہم نے لاکھوں وفا کے موتی لُٹا دیئے ہیں

اسی احاطے میں کتنے لمحے ، زمانے کتنے بِتا دیئے ہیں

ہمیں تو لگتا ہے ہر قدم پر ، ہماری منزل یہیں کہیں ہے

کہ ہم نے ہر گام پر وفا کے گلاب اتنے کھلا دیئے ہیں

ہمیں بھی چاہت کی سرحدوں پر ملے تھے خدشوں کے اونچے پرچم

مٹا دیئے ہیں وہ سارے خدشے ، عَلَم وہ سارے جلا دیئے ہیں

نہ کُچھ ہے اوجھل نہ کُچھ نہاں ہے ، سبھی ہے روشن  بھی عیاں ہے

گماں کی دھرتی پہ ہم نے اتنے یقیں کے سورج اُگا دیئے ہیں

کسی نے سارے چراغ اپنے جلا کے سونپے تھے آندھیوں کو

کسی نے اِک ہی دیئے کو لے کر چراغ کتنے جلا دیئے ہیں

٭٭٭

 

ترا تخیّل کمالِ فن سے خیال زلفیں سنوارتا ہے

مرے گماں کے افق پہ لا کے وہ چاند تارے اچھالتا ہے

بِنا ریاضت کے اس جہاں میں ، مراد کس کو ملی ہے آخر؟

جو ڈوبتا ہے وہی سمندر کی تہہ سے موتی نکالتا ہے

یہاں پہ کس کا ہے ظرفِ کامل جو دے تو اُس کا صلہ نہ مانگے

یہ دستِ شفقت ہے اُس خدا کا جو ساری مخلوق پالتا ہے

کوئی بھی اُس کو سمجھ نہ پائے ، حیات چہرے بدل کے آئے

وہ سب کا جیون الگ طرح سے بقا کے قالب میں ڈھالتا ہے

یہ اُس کا فیضِ نظر ہے ورنہ کلیم ہوتے نہیں ہیں پیدا

وہ پہلے دیتا ہے چشمِ بینا ، پھر اُس پہ جلوے اُتارتا ہے

٭٭٭

 

شعورِ ذات سے اُبھرو مقامِ ذات کو پاؤ

خرد کو چھوڑ دو تنہا ، جنوں کی آگ سُلگاؤ

رہو دھرتی کے مسکن میں مگر پرواز مت چھوڑو

کبھی عرشِ بریں دیکھو ، کبھی تاروں کو چھو آؤ

تمہیں بخشا گیا ہے دل ، عطا تم کو ہوئیں آنکھیں

جلاؤ جوت آنکھوں کی ، دلوں میں روشنی پاؤ

تمہاری ذات کے ریشے، چنے کس نے نفاست سے؟

جو اپنی ذات میں اُترو، خدا کی ذات کو پاؤ

یہاں سورج ہتھیلی پر اُتر آئے تو چہ معنی؟

اگر تابِ نظارا ہو تو کوہِ طور تک جاؤ

ابھی کتنے جہانوں میں تمہاری بازیابی ہے

غبارِ رہ میں ہیں تارے انھیں قدموں تلے لاؤ

٭٭٭

 

نظمیں

 

شکوۂ انسان بنامِ یزداں

کیوں مرے خواب پریشاں نہیں ہونے دیتے

کیوں مجھے ذات پہ حیراں نہیں ہونے دیتے

کیوں مرے پھیلے ہوئے ہاتھ ہیں خالی اب تک

کیوں مرے بخت کا ساماں نہیں ہونے دیتے

ہم تری کھوج میں اِک اور خدا کو پرکھیں

ہم کو اتنا بھی تو ناداں نہیں ہونے دیتے

پہلے مسجودِ ملائک بھی بناتے ہو مجھے

پھر مکمل مرا ایماں نہیں ہونے دیتے

خود براہیم سے کرتے ہو تقاضا پہلے

پھر کوئی جان بھی قرباں نہیں ہونے دیتے

خود کو بھی تم نے چھپا رکھا ہے سو پردوں میں

اور کسی بت کو بھی یزداں نہیں ہونے دیتے

میں تجھے وہم کے رستے سے یقیں تک پرکھوں

یوں بھی پورا مرا ارماں نہیں ہونے دیتے

تم سرِ طور بلا کر بھی جلا دیتے ہو!

تم کبھی دید کا امکاں نہیں ہونے دیتے

ہم اگر موت کو مانگیں تو خفا ہوتے ہو!

اور پھر زیست بھی آساں نہیں ہونے دیتے

٭٭٭

قطعہ

جانے کس کس شاخ سے ہم نے اپنی خوشبو باندھی تھی

جانے کس کس پیڑ تنے پر اپنا نام سجایا تھا

یاد رہا تو بس اِک لمحہ،جب تم ہم سے بچھڑے تھے

اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے کیسے تُم کو پایا تھا

٭٭٭

 

ابلیس کے نام

کس درجہ انوکھا ترا اندازِ جفا ہے

ابلیس ! تو انکار کی جرأت کا خدا ہے

تو منکرِ تخلیقِ خدا ، منکرِ تصدیق

انکار ترا وصف ہے یہ وصف کی توثیق

تھا سجدۂ اقرار تری ذات کا اثبات

لیکن ہے ’’نفی‘‘ تیرے لیے وقت کی سوغات

تو نار کے زمرے میں رہا نور سے بیزار

پھر کیسے کھلیں تجھ پہ کسی رمز کے اسرار

اے کاش! کہ تو سجدۂ خاکی کو سمجھتا

پھر اپنی زباں لہجۂ شاکی کو سمجھتا

محصور ہے تو اپنی پرستش میں ، اَنا میں

دیوار بھی رکھتا ہے سدا قصرِ خدا میں

اُس ذات میں تو جذب ہو، امکاں تو بہت تھا

ارمانِ ملاقات کا ساماں تو بہت تھا

لیکن تجھے اس بات کا احساس نہیں تھا

کُچھ عشق و محبت کا تجھے پاس نہیں تھا

تو غرق ہوا کبر و ریا شورِ اَنا میں

اب خاک اُڑا چاروں طرف خاک سرا میں

٭٭ِ٭

قطعہ

وقت کا جبر ہے ایسا کہ زباں کھُل نہ سکے

زندگی تُو نے یہ کس موڑ پہ لا کر پھینکا

دل میں کیوں پیار کے یہ دائرے بنتے جائیں

کس نے ٹھہرے ہوئے پانی میں یہ پتھر پھینکا

٭٭٭

 

تمہیں ایسا نہیں لگتا

سنو ہمدم ! تجھے مل کر

مرے احساس نے مجھ کو

نئے معنی سکھائے ہیں

تمہیں ایسا نہیں لگتا؟

کہ جیسے شام ڈھلنے پر

ہزاروں دیپ جلتے ہوں

کہ جیسے رُت بدلنے پر

سماں پہلو بدلتے ہوں

تمہیں ایسا نہیں لگتا ؟

کہ جیسے ہم نے لمحوں میں

کئی صدیاں بِتائی ہیں

بہت سی اَن کہی باتیں

خموشی سے سنائی ہیں

تمہیں ایسا نہیں لگتا؟

مدارِ زیست میں ہم تم

بہت مصروف رہتے ہیں

ہزاروں فرض ہیں تیرے

کئی مجبوریاں میری

مگر یہ ربط سے کیسا

ترے جیون کے لمحوں میں

مرا حصہ بناتا ہے

مرے احساس میں آ کر

ترا گوشہ جگاتا ہے

کئی لمحے چُراتا ہے

تمہیں ایسا نہیں لگتا؟

کہ اپنی ذات کے معنی

سبھی جذبات کے معنی

بدل جاتے ہیں  پل بھر میں

ہم اپنے ہاتھ سے کیسے

نکل جاتے ہیں پل بھر میں

یہ پل بھر کی شناسائی

کہیں رگ رگ اُترتی ہے

کئی اَن دیکھے رنگوں سے

کوئی تصویر سجتی ہے

مرے جاناں ! مرے ہمدم

مجھے سچ سچ بتاؤ ناں !

تمہیں ایسا نہیں لگتا!

٭٭٭

 

اگر تم کو گوارا ہو !

                        اگر تم کو گوارا ہو تو بس جاؤ نگاہوں میں

                        جہاں پر تم سے پہلے بھی شکستہ آرزوؤں کا

                        کھنڈر سا کوئی باقی ہے

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭

                        جہاں لمحے سسکتے ہیں

                        جہاں خوشبو لرزتی ہے

                        جہاں پر  آ کے ہر دِن کی

                        مسافت آہ بھرتی ہے

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭

                        جہاں پر شام ڈھلتے ہی

                        گھروں کو لوٹ آتے ہیں

                        کئی پنچھی اُداسی کے

                        ہمیں شب بھر رلاتے ہیں

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭

                        جہاں ہم روز خوابوں کی

                        نئی دنیا بساتے ہیں

                        جہاں ہر صبح اُمیدوں کے

                        کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭

                        جہاں پر گمشدہ روحیں

                        بھٹکنے روز آتی ہیں

                        جہاں پر آرزوئیں ہی

                        لکھی کتبوں پہ جاتی ہیں

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭

                        جہاں خواہش کی تلخی کو

                        بدن محسوس کرتے ہیں

                        جہاں روحیں تڑپتی ہیں

                        جہاں لہجے لرزتے ہیں

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭

                        تمہیں ہم تم سے پہلے کی

                        کوئی دنیا دکھائیں گے

                        اگر ممکن ہوا تو پھر

                        پرانے دُکھ بھلائیں گے

                        اگر تم کو گوارا ہو

                        تو بس جاؤ نگاہوں میں

٭٭٭

 

ہم دونوں کب اپنے تھے

            یاد ہے تم کو میں نے تم سے

            سارے موسم بانٹے تھے

            یاد ہے تم کو میں نے اپنا

            ہر اک روپ دِکھایا تھا

            اپنی ذات کے ہر اِک جھوٹ سے

            ہر سچ سے مِلوایا تھا

            چائے کے اِک کپ سے لے کر

            ساون کی بارش کے پہلے قطرے تک

            اپنے سنگ تمہیں رکھا تھا

            اپنے سنگ تمہیں پایا تھا

            یاد ہے تم کو، تم سے مل کر

            میں کیسے کھل اُٹھتی تھی

            تم سے من کی باتیں کر کے

            کتنی خوش ہو جاتی تھی

            تم کو یاد یقیناً ہو گا

            وہ جو افسانوں کو  پڑھ کر

            تم سے بحث ہوا کرتی تھی

            کیسی کیسی بے تُکی سی باتوں پر

            محفل دیر تلک سجتی تھی

            لمبے لمبے خطوں میں اپنے

            چھوٹے چھوٹے جھگڑے تھے

            سب سے نرالے خواب تھے اپنے

            سب سے اچھوتے سپنے تھے

            ہاں وہ شاید خواب تھے سارے

            ہاں وہ شاید سپنے تھے

            ہم دونوں تھے غیر ازل سے

            ہم دونوں کب اپنے تھے

٭٭٭

 

شدّت

            تجھ سے مِل کر میرے جاناں !

            میں نے یہ محسوس کیا ہے

            گر میں چاہوں بھی تو اپنے

            لفظوں کی اِس جادوگری سے

            دل میں پلنے والے سارے

            جذبوں کی شدت کو کوئی

            نام کبھی نہ دے پاؤں گی

            تیرے  میرے پیار کے آگے

            لفظ قطاریں گونگی بہری

            تیرے میرے سارے جذبے

            لفظوں کے محتاج نہیں ہیں

            ہر صبحِ نو کی آمد پر

            تیری پیشانی کے جیسی

            اُجلی نِکھری کِرن جگائے

            اور میں جب بھی آنکھیں کھولوں

            تیرا چہرہ سورج بن کے

            سب سے پہلے سامنے آئے

            شام ڈھلے جب ہر منظر پر

            دھیرے سے تاریکی اُترے

            میں بھی سارے خواب سمیٹے

            تیرے قرب کی آنچ میں جاناں !

            لمحہ لمحہ ڈھلتی جاؤں

            پھیلتا جائے تیرا سینہ

            اور میں اُس میں سمٹتی جاؤں

            جاناں اپنی پریم کہانی

            مجھ کو یہ احساس دِلائے

            صدیوں کا ہو گَر یہ جیون

            لاکھوں بار جنم مِل جائے

            پھر بھی پیار سمٹ نہ پائے

            پھر بھی پیار سمٹ نہ پائے

٭٭٭

 

مصوّر

                        اے تصویر بنانے والے!

                        تم ساحر ہو!

                        اور تمہارا

                        سارا جادو

                        سارے منتر،ساری چالیں

                        اِن پوروں میں چھپی ہوئی ہیں

                        لیکن آنکھیں جھکی ہوئی ہیں

٭٭٭

 

اے مرے حسیں لوگو!

            زندگی کے پہلو سے

            گرچہ روز اُٹھتے ہو

            جاگتے نہیں لوگو

            اے  میرے حسیں لوگو!

            رات ظلمتیں لے کر

            کب سے آن سوئی ہے

            نیند کتنی صدیوں کی

            آنکھ میں سموئی ہے

            یہ سکوتِ شب مجھ کو

             مثلِ مرگ لگتا ہے

            سہما سہما بھیگا سا

            رُوئے برگ لگتا ہے

            اور یہ سادگی ا ب تک

            تم نوائے بلبل کو

            گیت ہی سمجھتے ہو

            اور جرس کے نالے پر

            اب بھی سر کو دُھنتے ہو

            کیا تمہیں بھی کلیوں کا

            سینہ چاک دِکھتا ہے؟

            کیا تمہیں بھی لالہ کے

            دل کا داغ دِکھتا ہے؟

            جس کو بخت کہتے ہو

            اُس کی روشنی تُم نے

            خود عدو کو سونپی ہے

            اے مرے حسیں لوگو!

            کاش زندگی تم کو

            اتنی مہلتیں  دے دے

            تُم خود اپنے ہاتھوں سے

            زندگی کے قصے کو

            یعنی اپنے حصّے کو

            لوحِ وقت پر لکھو

٭٭٭

 

ناقابلِ اشاعت

                                    چاہت کے سائباں میں

                                    ہم تم نے سر چھپا کر

                                    سرگوشیاں جو کی تھیں

                                    سرگوشیاں وہ ساری

                                    سب تتلیاں سی بن کے

                                    ہاتھوں سے اڑ گئی ہیں

                                    تیری مری وہ باتیں

                                    تیری مری کتابیں

                                    چھپ کر بکھر گئی ہیں

٭٭٭

 

اداسیاں

کتنے دنوں سے یاس کا ساون دل دھرتی پر بر س رہا ہے

کتنے دنوں سے من کا آنگن آس کی دھوپ کو ترس رہا ہے

کتنے دنوں سے ہم دونوں نے دل کی بات چھپائی ہے

کتنے دنوں سے ہم دونوں نے خوشبو نہیں لگائی ہے

کتنے دنوں سے ہم دونوں کے جذبے گونگے بیٹھے ہیں

کتنے دنوں سے ہم بھی چپ کے خیمے تان کے لیٹے ہیں

کتنے دنوں سے اپنے گھر میں بوجھل دھیمی موسیقی ہے

کتنے دنوں سے جیسے ہر شے بے رونق ہے ، پھیکی ہے

کتنے دنوں سے دل پر اپنے قُفل لگائے بیٹھے ہیں

اِک دوجے سے اپنے اپنے راز چھپائے بیٹھے ہیں

٭

 

مجھے آج وہیں لے چل سانول !

            جہاں رنگ بہار دکھاتے ہوں

            جہاں طائر گیت سناتے ہوں

            جہاں بھول  کے سب ہی غم اپنے

            اِک دوجے کو بہلاتے ہوں

                                                            مجھے آج وہیں لے چل سانول!

جہاں چندا سنگ ہوں تارے بھی

جہاں نیّا لگے کنارے بھی

جہان گرنے لگے کوئی تھک کر

تو لاکھوں بڑھیں سہارے بھی

                                                            مجھے آج وہیں لے چل سانول!

            جہاں گھر گڑیا کے سجائے تھے

            جہاں ریت گھروندے بنائے تھے

            جہاں بچھڑے تھے اپنے ساتھی

            جو  پھر  نہ   پلٹ  کر  آئے  تھے

                                                            مجھے آج وہیں لے چل سانول !

جہاں نفرت کی بو پاس نہ ہو

جہاں جذبوں میں کہیں یاس نہ ہو

جہاں خوشیاں اتنی سستی ہوں

جہاں کوئی بھی قلب اداس نہ ہو

                                                            مجھے آج وہیں لے چل سانول !

جہاں چاہت میں زنجیر نہ ہو

جہاں کوئی کسی سے حقیر نہ  ہو

جہاں پھیلے ضیائے علم و ہنر

جہاں کوئی بے توقیر نہ ہو

                                                            مجھے آج وہیں لے چل سانول!

جہاں خوشیوں کا گہوارا ہو

جہاں روشن سب کا ستارہ ہو

جہاں تیرا میرا کوئی نہ ہو

اور صیغہ صرف ہمارا ہو

                                                            مجھے آج وہیں لے چل سانول!

٭٭٭

 

سمندر چُپ نہیں رہتے

                        اگر ساکت کبھی دیکھو

                        لبوں کی تُرش لہروں کو

                        اگر اس کے بھرے سینے کے

                        زیرو بم سُکوں میں ہوں

                        اگر اس کا حسیں چہرہ

                        کسی دم بے تاثر ہو

                        کبھی دِکھتا جو ساکت ہو

                        اگر یہ چاند کا چہرہ

                        نگاہوں میں سمونے کی

                        سعی کرتا نظر آئے

                        (لپک کر چھونا بھی چاہے)

                        ترا پھینکا کوئی پتھر

                        اگر چُپ چاپ سہہ جائے

                        تری ننھی سے آنکھوں میں

                        وجودِ بیکراں اُس کا

                        کسی لمحے سمٹ جائے

                        یہ اپنی ذات میں لے کر

                        خموشی کے نشانوں کو

                        حقیقت اور فسانوں کو

                        تجھے ٹک گھورتا جائے

                        نہ تیرے کرب کو سمجھے

                        نہ اپنا درد کہہ پائے

                        یونہی گم سم نظر آئے

                        تو اے ہمدم سمجھ لینا

                        وجودِ ذات میں اُس کے

                        کوئی طوفان پلتا ہے

                        کسی کی کشمکش میں یہ

                        لبوں کو بھینچ بیٹھا ہے

                        کبھی یہ لب ہِلائے گا

                        تلاطم بھی دکھائے گا

                        کسی لمحے تمہارے سامنے

                        ہلچل مچائے گا

                        بہت دھومیں مچائے گا

                        بڑھا کر اپنی بانہوں کو

                        تجھے خود میں سمیٹے گا

                        کسی نادیدہ دُنیا میں

                        بہا کر لے چلے گا ایک لمحے میں

                        تجھے پھر اپنے سینے کی

                        یہ گہرائی دکھائے گا

                        مجھے پہروں رُلائے گا

٭ ٭٭

 

ادیبہ

            جانے کب سے قلم اُٹھائے

            کچھ لکھنے کو سوچ رہی ہوں

            سوچتی ہوں ،لکھ ڈالوں میں

            کچھ دنیا ،کچھ دل کی باتیں

            ہجر کے دن اور وصل کی راتیں

            سوچتی ہوں ،لکھ ڈالوں میں

            تیری آنکھوں کی گہرائی

            جن میں ہم نے زیست لٹائی

            سوچتی ہوں ،لکھ ڈالوں میں

            تجھ کو اپنے سامنے پاکر موسم رنگ بدلتا کیوں ہے ؟

            دل کا موم پگھلتا کیوں  ہے؟

            ہر احساس مچلتا کیوں ہے؟

            سوچتی ہوں ،لکھ ڈالوں میں

            میری ذات مکمل تجھ سے

            جاناں تم تکمیل ہو میری

            سوچتی ہوں ،لکھ ڈالوں میں

            کوئی ناول، کوئی فسانہ،کوئی کہانی

            کوئی شعر ،اچھوتا مصرع، غزل سہانی

            لیکن میری ساری سوچیں تجھ کو سوچیں

             میرے فن کے سارے حصے تیرے قصے

            ساجن تجھ سے رو ح نے رشتہ جوڑ لیا ہے

             اب میرے احساس نے تجھ کو اوڑھ لیا ہے

            سوچتی ہوں ،لکھ ڈالوں میں

٭٭٭

 

فسوں گر لمحہ

            جب  چاند کی اُجلی کرنوں نے

            اِس شب کا دامن اُجلایا

            جب رات کی رانی چہک اٹھی

            اور ہر جھونکے کو مہکایا

            دریا بھی تھما آوازوں کا

            اور چُپ نے لنگر پھیلایا

            جب ٹھہرے جھیل کے پانی پر

            اِک چاند کا عکس اُتر آیا

            اور لمحوں نے دھیرے دھیرے

            پھر اپنے فسوں کو پھیلایا

            تب ایسے میں تم جانتے ہو !

            مجھے کون بھلا پھر یاد آیا؟

٭٭٭

 

ماں

ماں مرے پیار کا پہلا عنوان ہے

ماں مری زندگی ہے مری جان ہے

ماں کی آنکھیں سمندر کوئی بیکراں

ماں ہی دھرتی مری اور مرا آسماں

ماں کی خوشبو سے جیون مہکتا رہے

کچھ رہے نہ رہے ماں تُو زندہ رہے

ماں ! تیرے حوصلوں کو سلامِ وفا

تجھ سے تعبیر ہے پھر وجودِ خدا

تیرا پیکر حسیں ،دل نشیں روشنی

تو مرے سارے رازوں کی واقف بنی

تیری آنکھوں کے روشن ستارے رہیں

منزلیں اور کنارے ہمارے رہیں

ایک تیری دعا سے ملے ہر خوشی

ایک تیری رضا ہی مری بندگی

٭٭٭

 

ہائیکو نظمیں

آؤ کچھ اقرار کریں

بن موسم جو کھلتے ہیں

اُن  پھولوں سے پیار کریں

٭

آنگن پھر مہکانا ہے

راہیں دیکھ رہی ہوں میں

تم نے لوٹ کے آنا ہے

٭

کیسے دھندلے سپنے ہیں

دُکھ میں دور کھڑے ہیں جو

شاید میرے اپنے ہیں

٭

دِل اُس کی جاگیر بنا

میرے سہمے خوابوں کی

جب سے وہ تعبیر بنا

٭

جھوٹا پیار جتاتے ہو

بن خوشبو کے پھولوں سے

دِل آنگن مہکاتے ہو

٭

دِل کے سنگ سہارے ہو

دنیا ساری کہتی ہے

تم ہی میت ہمارے ہو

٭٭٭

 

تم

                        تم۔۔۔۔۔

                        تم کتابِ زیست کا

                        صرف۔۔۔۔

                        صرف ایک باب ہو

                        نہ کہ کل نصاب ہو

٭٭٭

 

تیری یاد کا روشن چاند

دِل  کے نگر میں

شام ڈھلے تو

دُنیا کا چہرہ دھندلائے

اور آوازیں دھیرے دھیرے

چپ دریا میں اُترتی جائیں

سوچ کی پاگل بپھری لہریں

دل کے کناروں تک آ جائیں

بولتے بولتے میرے یہ لب

جب تھک کر کچھ سستا جائیں

مجھ کو گھورتی کھوجتی نظریں

منظر سے اوجھل ہو جائیں

لب پہ سجی نقلی مسکان

اور وہ سارے رسمی جملے

اِک اِک کر کے اُترتے جائیں

بے بس آنکھوں کے کاجل کی

بوجھل دھار پھسلتی جائے

ہاتھ سے اُس کے ہاتھوں کی

سب خوشبوئیں بھی اُڑ جائیں

میری زلفوں کے سب بل

کھل کے شانوں پر لہرائیں

تنہائی کہ شب کا زہر

چاروں اور بکھرتا جائے

جھوٹے لوگوں کی سب باتیں

بے معنی ہونے لگ جائیں

تب اے جاناں !

ان لمحوں میں

دِل  کے اُفق پر آ جاتا ہے

تیری یاد کا روشن چاند

٭٭٭

 

تپسیّا

اے مرے دیوتا!

جانے کیا سوچ کر

نقش تیرے میں ازبر ہی کرتی گئی

تیری آنکھوں کو دیکھا تو دیپک جلے

تیری پیشانی نکھرا ہوا چاند تھی

تیرے ہاتھوں کی الجھی سی ریکھاؤں میں

میں نے قسمت کے رستے تراشا کیے

تیرے ہونٹوں کی مسکان میں بھی مجھے

سارے لمحے ٹھہرتے دکھائی دیئے

تیرے چرنوں پہ جب ہاتھ میں نے رکھے

مرے دِل میں مسرت کے گلشن کھِلے

چوم کر تیرے پاؤں کو اکثر یونہی

زندگی کو نئے معنی دیتی رہی

کھیلتے کھیلتے تیرے بالوں سے میں

زندگی کے سبھی غم بھلاتی رہی

تو میرا پیار تھا

اور میری ذات کے روپ اور رنگ کا

تو ہی تنہا مری جان حق دار تھا

بھول مجھ سے ہوئی

میں نے اپنی محبت کی ہر اِک کلی

بس ترے نام کی

میں کہ نادان تھی ،میں نہ سمجھی کہ یہ

جگمگاتے ہوئے نقش پتھر کے ہیں

ہاتھ،آنکھیں ،لب و رخ بھی پتھر کے ہیں

اُس کے سینے میں موجود دل

زندگی کی حرارت سے محروم ہے

سخت بے مہر ہے اور یہ بے حسی اُس کا مقسوم ہے

٭٭٭

 

میں اور چاند

ادھورے تم ، ادھورے ہم

مگر دونوں چمکتے ہیں

دِلوں میں داغ دونوں کے

مگر یہ لب مہکتے ہیں

بہت ویرانیاں دِل میں

بہت اُجڑی سی بستی ہے

نہ کوئی گونج دونوں میں

نہ کوئی آس دونوں میں

کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں

کوئی بادل برسنے کو

کہاں سے مانگ کر لائیں

کوئی کلیاں مہکنے کو

کہاں پہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے مہربانوں کو

کہاں پر کھو گئیں نظریں

جو ہم سے بھی لپٹتی تھیں

کہاں پر ہیں وہ تعبیریں

جو ہم کو لے بھٹکتی ہیں

کوئی تو قدر ایسی ہے

جو ہم میں مشترک ٹھہری

وہ شاید اِک اداسی ہے

وہ شاید اِک کہانی ہے

وہ شاید ایک لمحہ ہے

مقید ہو چکا ہم میں

وہ شاید اِک ادھورا پن

جو ہم کو بس ستاتا ہے

وہ آخر کیا ہے جو ہم میں

مسلسل سرسراتا ہے

مری تکمیل لمحاتی

تری تکمیل لمحاتی

ترے اندر بھی تنہائی

مرے اندر بھی تنہائی

مگر پھر بھی چمکتے ہیں

نجانے کس کے دھوکے میں

ہمارے لب مہکتے ہیں

٭٭٭

 

ٹھنڈا سورج

[ایک پیدائشی نابینا لڑکی کے نام]

میرے مولا! میرے دل نے

یہ کیسا درد پایا ہے

میں دیکھوں یا نہ دیکھوں

مجھ کو جُز اِک گہرے سائے کے

دکھائی کُچھ نہیں دیتا

کھُلی آنکھوں سے بھی مجھ پر

کوئی منظر نہیں کھُلتا

سُنا ہے میرے چاروں اَور

اِک رنگوں کا میلہ ہے

مگر رنگوں کے میلے میں

مری آنکھیں ترستی ہیں

خبر مجھ کو نہیں اب تک

دھنک کے رنگ کیسے ہیں ؟

بھلا میں کس طرح سمجھوں

گُل و گلرنگ کیسے ہیں ؟

خبر مجھ کو نہیں یہ بھی

کہ میرا رنگ کیسا ہے؟

بھلا یہ کس کے جیسا ہے؟

کبھی یہ سوچتی ہوں میں

کہ میرے نقش تیکھے ہیں

کبھی یہ سوچتی ہوں میں

کہ میرے گال پھیکے ہیں

بھلا یہ کس سے پوچھوں کہ

مری آنکھیں سمندر ہیں ؟

مری زلفیں گھٹائیں ہیں ؟

مگر معلوم کیا مجھ کو

اگر آنکھیں سمندر ہیں

سمندر کس کے جیسا ہے؟

اگر زلفیں گھٹائیں ہیں

گھٹا کا رنگ کیسا ہے؟

مجھے تو رُت بدلنے کا

سوائے گرمی سردی کے

کہاں احساس ہوتا ہے

مجھے یہ بھی نہیں دِکھتا

کہ صورت اُس کی کیس ہے

جنم جس نے دیا مجھ کو

سُنا ہے میں نے دُنیا میں

کہ آئینہ نہیں جھوٹا

کسی سچ کو نہ جھٹلائے

مگر میرے سوالوں پر

اُسے بھی چُپ سی لگ جائے

نہ کُچھ مجھ کو بتا پائے

مرے مولا! میں دُنیا میں

بھلا کیا جینے آئی ہوں

کوئی دن کا اُجالا کیا

کوئی شب چاند تاروں کی

کبھی میں نے نہیں دیکھی

مجھے معلوم کرنا تھا

سحر سے شام ہونے تک

اگر منظر بدلتے ہیں

تو کن رنگوں میں ڈھلتے ہیں ؟

مجھے تو دن اُجالے کا

کوئی معنی نہیں دیتا

سُنا ہے رات کالی ہے

مگر میں نے نہیں دیکھی

مری بے رنگ دُنیا کو

کوئی رنگوں سے بھر سکتا !!

مری بے نور آنکھوں میں

کوئی منظر اُتر سکتا !!

٭٭٭

 

سولر سسٹم

سائنس دان یہی کہتے ہیں

صدیوں پہلے ، جانے کب سے

دھرتی تھی سورج کا حصّہ

پھر اِک سانحہ ایسا گزرا

وقت نے اِس کو

اصل وجود سے کاٹ دیا اور

تنہائی کی کھلی فضا میں چھوڑ دیا

لیکن دھرتی کے بھیتر میں

عشق و وفا بیدار ہوئے

سورج سے اِک دُوری پر بھی

اس نے رشتہ قائم رکھا

گویا وجودِ اصل سے اُس نے

اپنا تعلق جوڑ لیا

روز و شب کے ہنگامے کو

ایک مدار کے نام کیا

پیار میں صبح کو شام کیا

لمحوں کے پیکر نے خود کو

بارہا اِک دوجے سے بدلا

چاروں اوَر نہ جانے کتنے

سانحے ابھرے، حادثے پھوٹے

دھرتی کے بھیتر میں کتنے طوفاں اُٹھے

عرصۂ ہجر کی ویرانی میں

اس کے بدن پر نقش بھی ابھرے

دُکھ کی چادر اوڑھ لی، لیکن

دھرتی اپنا اصل نہ بھولی

سورج دیوتا من میں بسائے

ماتھے پر سیندور سجائے

عشق و وفا کے ایک مدار پہ

لہراتی ،مسکاتی جائے

ہجر میں وصل کے خواب سجائے

دھرتی پیار نبھائے

دھرتی کی یہ پیار کہانی

عشق و وفا کی امر نشانی

تُو بھی میرا سورج ساجن!

میں ہوں تیری دھرتی

صدیوں پہلے

 میں بھی تیرا حصّہ تھی

وقت کی گردش نے مجھ کو بھی

اپنی اصل سے کاٹا

یعنی تُجھ سے دُور کیا

ساجن! اپنی اصل سے کٹنا

کیسا ادھورا کر دیتا ہے

میں نے اپنی اصل سے رشتہ قائم رکھا

ہجر کے صدمے سہتی ،وصل کے خواب سجاتی

روز و شب کے ہنگاموں کو ایک مدار کے نام کیا

تُجھ کو سورج جانا

تیرے طواف کو اپنا نصب العین کیا

عرصۂ ہجر کے زنداں میں بھی

عشق و وفا کے دیپ جلے ہیں

٭٭٭

 

پت جھڑ

کبھی پت جھڑکی شاموں میں

یہ پتے زرد پیڑوں پر

ہوا کے ایک جھونکے سے

لرزتے کپکپاتے ہیں

جدا ہو کر درختوں سے

زمیں پر پھیل جا تے ہیں

کہ جیسے میری پلکوں پر

کُچھ آنسو جھلملاتے ہیں

یقیں کی کھوج میں اکثر

گماں کی زد پہ آتے ہیں

یہ سارے زرد رُو پتے

یہ سارے بے گماں آنسو

کسی سے خوف کھاتے ہیں

اچانک ٹوٹ جاتے ہیں

٭٭٭

 

احوال

چپکے چپکے دل کے اندر

درد کا دریا بہتا ہے

موج موج میں اس دریا کی

کیسی نامانوس زباں میں

کوئی ہمدم ، کوئی ساتھی

دکھ کے قصے کہتا ہے

کبھی کبھی تو اس کی لہریں

بے قابو سی ہو کر مجھ سے

عجب سوال اُٹھاتی ہیں

چٹکی سی اِک لے کر دِل میں

نئی کسک دے جاتی ہیں

٭٭٭

 

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

وہ  تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

جاناں ! میں ہوں تیری لیکن

اسم مرا منسوب کسی کے نام سے ہے

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

میری نیندیں ،میرے خواب ترے ہیں لیکن

جس بستر پر میں سوتی ہوں تیرا نہیں ہے

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

میرے جنوں کا باعث تیری آنکھیں ہیں

لیکن اِن کے پاگل پن کو

عنواں کوئی نہ مل پائے گا

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

دِل بستی میں ،سدا بسیں گی یادیں تیری

لیکن تیرے نام کی تختی کہیں نہ ہو گی

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

میرے شعر نثار ہیں تُجھ پر

لیکن تیرے نام سے ہر گز

یہ نہ معنون ہو پائیں گے

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

میرے شعر کی رگ رگ اندر

تیرا پیار ہی گونجے گا

لیکن دھڑکن گونگی رہے گی

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

میری منڈیر پہ،جتنی شامیں بھی اُتریں گی

ان کے نور میں تیرے نام کا

ایک ستارہ روشن ہو گا

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

میں آنگن میں کھلنے والی کچی کلی کے

مہکے مہکے بدن کو چھُو کر ،نام تمہارا لیا کروں گی

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

دیکھو! ہر شب نیند سے پہلے،اپنی اُجلی پیشانی پر

میرے بوسے کی حدت کو زندہ رکھنا

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

ساجن! ساتھی! سانول میرے

سانس کے تانے بانے تک

میں تیری ہوں تیری رہوں گی

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

وہ تو ہمیشہ یہ کہتی تھی

٭٭٭

 

اداسی

گرد جمی ہے آئینے پر

میز پہ رکھی ڈائری چپ ہے

سوکھ چکی ہے قلم سیاہی

اور کتابیں بھی گم سم ہیں

شکن شکن ہے بستر سارا

گجرے کب کے ٹوٹ چکے ہیں

جیسے اس کمرے کے سارے

ارماں تجھ بن روٹھ چکے ہیں

٭٭٭

 

مزدور کی بیٹی

میں ہوں اِک مزدور کی بیٹی

میرا نسب غریبی ہے

کتنی گرم دوپہروں میں بھی

اپنے باپ اور بھائی کے سنگ

اپنی بہن اور ماں کے ساتھ

سارا دن اس سڑک کنارے

پتھر کوٹتی رہتی ہوں

اِک اِک پتھر کی سختی میں

اپنے خواب کچلتی ہوں

میرے چہرے میرے بدن پر

دھوپ کی سرخی چمک رہی ہے

میرے اشکوں کا سب پانی

میرے پسینے کی بوندوں میں

قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے

جیسے کوئی سسک رہا ہے

صبح سویرے ننھے بچے

اُجلے اُجلے کپڑے پہنے

اپنے مکتب کو جاتے ہیں

پھر کیوں میں اور میرا بھائی

پتھر کوٹنے آ جاتے ہیں

ہر شب کو آکاش کے نیچے

میری آنکھیں دیکھ کے تارے

بھولے خواب جگا لیتی ہیں

جن کو میں از حد مشکل سے

پتھر کے اِک ڈھیر کے نیچے

کہیں دبا کے رکھ آئی تھی

پھر وہ سارے زخمی زخمی

خواب اُبھر کر آ جاتے ہیں

اور میں مَن میں اٹھنے والے

بے ترتیب سوالوں کو

اِک ترتیب میں لاتی ہوں

پھر یہ سوچ کے کانپ اٹھتی ہوں

کس کو بتاؤں ؟ کس سے پوچھوں ؟

میرے بابا میری اماں

میری بہن اور میرا بھائی

دن بھر پتھر کوٹنے والے

دن بھر کی سختی سے ہارے

اپنے اپنے بستر پر یوں

بے سُدھ ہوکے سو بھی چکے ہیں

گم سم ہیں سب چاند اور تارے

کون سنے گا میری باتیں

اپنے آپ سے گویا ہو کر

میں بس اتنا پوچھتی ہوں کہ

اسکولوں کو جانے والی

راہیں کس کو ملتی ہیں

قلم کتاب اُٹھانے والے

ہاتھ میں پتھر کیوں ہوتے ہیں

علم کا تاج سجانے والے

سر پہ بوجھ اُٹھاتے کیوں ہیں ؟

جن کے بھاگ نہ ہوں تعبیریں

اُن کو خواب ستاتے کیوں ہیں ؟

٭٭٭

 

وہ دو ہاتھ ہمارے ہوں گے

جس موسم میں عرش سے ساجن!

رحمتیں دھرتی پر اُتریں گی

جس دم رب کے در پر کوئی

دھیرے دھیرے دستک دے گا

جس دم تیرے چاہنے والے

گھر کے لوگ یا اور سہارے

اپنے اپنے ہاتھ اُٹھا کے

تیری بھلائی مانگتے ہوں گے

اُس دم اُن سب ہاتھوں میں

دو ہاتھوں کو بھول نہ جانا

تیری بھلائی مانگنے والے

وہ دو ہاتھ ہمارے ہوں گے

٭٭٭

 

سوداگر

اے خوابوں کے سوداگر!

آج میں تجھ کو سونپتی ہوں

اپنے سارے سچے خواب

اپنے دِل کی زندہ دھڑکن

اپنے روپ کے سارے راز

جانتی ہوں کہ مجھ سے پہلے

تمھارا پیار! تمھارے جذبے

خوابوں کا عنوان رہے ہیں

کئی آنکھوں نے مجھ سے پہلے

دیکھے ہوں گے خواب تمھارے

کئی ہونٹوں پہ نام تمھارا

اُبھر کے آخر ڈوبا ہو گا

کئی آنکھوں میں روپ تمھارا

عکس کی صورت لرزا ہو گا

کتنے دلوں کی دھڑکن دھڑکن

گونجے ہوں گے گیت تمھارے

کتنے ہاتھوں اور بانہوں میں

خوشبو تیری رچتی ہو گی

کتنی سانسوں کے دامن میں

کتنے رنگ مہکتے ہوں گے

کتنی سوچیں آ کر تیرے

خیال پہ اِک دِن اٹکی ہوں گی

کتنی بصارتیں تیری خاطر

جانے کب تک ترسی ہوں گی

کتنے عقیدے، کتنے مذہب

لرزتے ہوں گے تیری خاطر

کتنے دلوں کی سونی راہیں

اب بھی تجھے بلاتی ہوں گی

کتنی امیدیں ، کتنی کلیاں

تیری راہ سجاتی ہوں گی

کتنے سرخ گلابوں میں بھی

تیری یادوں کی رُت ہو گی

تیرے قدموں کی آہٹ پر

کتنے رستے جھومتے ہوں گے

کتنے راہی راہ میں بیٹھے

تیرا رستہ تکتے ہوں گے

کتنی سیپوں کے ہونٹوں میں

تیرے نام کا موتی ہو گا

کتنی خالی خالی بانہیں

تجھ کو پاس بُلاتی ہوں گی

کتنی بیاضیں ،کتنے صفحے

تیرے نام سے روشن ہوں گے

کتنے قلموں کی نوکوں نے

نامے تجھ کو لکھے ہوں گے

کتنی سونی سونی نظریں

خواب تمھارے بُنتی ہوں گی

کتنے پھول اٹھا کر سر کو

تیری صورت تکتے ہوں گے

کتنی بھینی سی مہکاریں

تیرے بدن سے لپٹی ہوں گی

کتنے بادل ایسے ہیں جو

چھوکر تجھ کو برسے ہوں گے

کتنے پیڑوں کے سینوں پر

رقم تمہارا نام بھی ہو گا

کتنی سوچوں کی گلیوں میں

تیری یادیں زندہ ہوں گی

کھلتے ہوں گے کتنے دریچے

تیری دید کی آس میں ساجن!

کتنے ارماں ، تیری خاطر

اپنے ہی خوں میں نہائے ہوں گے

کتنی راتوں کی تنہائی

تیری خاطر جاگی ہو گی

کتنے ناموں کی رسوائی

نام پہ تیرے لکھی ہو گی

کتنی پلکیں نام پہ تیرے

کیسے لرزی کانپی ہوں گی

کتنی بوجھل بوجھل آنکھیں

تیری جانب اُٹھتی  ہوں گی

کیا کیا سوچیں سوچتی ہوں گی

کتنے دِل اور کتنے ارماں

تیری منت مانتے ہوں گے

کتنے چہرے ایسے ہوں گے

نام پہ تیرے کھلتے ہوں گے

کتنے خوابوں کے کتبوں پر

اسم تمہارا کندہ ہو گا

کتنے بارش کے قطروں نے

تیرے گال کو چوما ہو گا

کتنے چائے کے کپ اب بھی

تیری خاطر رکھے ہوں گے

کتنے پاؤں کی زنجیریں

تیرے خیال کی کڑیاں ہوں گی

کتنی مہکی مہکی زلفیں

جو شانوں پہ بکھری ہوں گی

کتنے بتوں نے تجھ کو پاکر

عرش بھی اپنے چھوڑے ہوں گے

کتنی منڈیروں سے بیلیں بھی

جھانک کے تجھ کو دیکھتی ہوں گی

کتنے جاڑوں کی سہ پہریں

تجھ کو دیکھ کے ڈوبی ہوں گی

کتنی شاموں کی بے چینی

تیرے غم میں سہمی ہو گی

کتنی راتوں کی تاریکی

تیرے ہجر میں گہری ہو گی

کتنے بادل دکھ پر تیرے

ٹوٹ ٹوٹ کے برسے ہوں گے

کتنے گیتوں کی سرگم میں

تیرا لہجہ شامل ہو گا

کتنے گھروں کی بنیادوں میں

تیرا نام بھی شامل ہو گا

کتنی خواہش کی پریوں نے

تیرے گھنگھرو باندھے ہوں گے

کتنی چِتاؤں کے بستر پر

تیرا پیار بھی جلتا ہو گا

کتنے تارے اترے ہوں گے

تیری راہوں کو چمکانے

کتنے پرندوں کی چہکاریں

گیت تمہارے گاتی ہوں گی

کتنے فطرت کے رنگوں نے

تجھ کو ہمدم دیکھا ہو گا

اے خوابوں کے سوداگر !!!!

آج سے میں بھی شامل ہوں

تیری زیست کے افسانوں میں

ساری صبحوں ، شاموں میں

پیار کے سب پیمانوں میں

اے خوابوں کے سوداگر!

آج میں تجھ کو سونپتی ہوں

اپنے سارے سچے خواب

اپنے روپ کے سارے راز

٭٭٭

 

مگر تم سے کہا کس نے؟

کسی نے یہ بتایا ہے

تمہیں کہتے یہ پایا ہے

اُسے مجھ سے محبت ہے

سنو! تم سے کہا کس نے؟

مجھے تم سے محبت ہے

یہ مانا کہ کبھی مجھ کو

فراغت مل نہیں پائی

تری دل گیر سوچوں سے

چلو تسلیم بھی کر لیں

مگر سوچوں کی گہرائی

کسی کو کب نظر آئی؟

کسی نے گر کہا تجھ سے

اکیلے میں مرے لب پر

تمہارا نام رہتا ہے

کبھی یہ بھی کہ تنہائی

میں آنکھیں موند کر تجھ کو

تصور میں بٹھاتی ہوں

تجھے تکتی ہی جاتی ہوں

تو اس کا مت یقین کرنا

بھلا کوئی تصور میں

کسی کے جھانک پایا ہے؟

کوئی تجھ کو کہے آ کر

کہ ان فرقت کے لمحوں میں

کسی یخ بستہ موسم میں

مرے گالوں کے شیشے میں

کسی کا عکس اُترا ہے

سمجھنا جھوٹ ہے یہ بھی

بھلا موسم بدلنے کا

سبب تم ہو بھی سکتے ہو؟

اگر میرے کسی خط میں

کوئی بھی شعر یا مصرع

تجھے مبہم سا معنی دے

تو اس پر غور مت کرنا

کسی محفل میں ہم دونوں

اکٹھے ہوں اگر مدعو

میں چپکے سے تری جانب

نظر اک ڈالنا چاہوں

میری چوری نہ چھپ پائے

تو اتنا سوچ لینا تم

تمہیں دھوکا ہوا ہو گا

بھلا میں تم کو دیکھوں گی؟

مگر تم سے کہا کس نے

’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘

٭٭٭

 

تیری آنکھیں

تیری سندر آنکھیں مجھ کو

تجھ سے پہلے راز بتائیں

تیرے جذبے لب بھی نہ کھولیں

اور یہ آنکھیں بولتی جائیں

تیرا لمس ابھی سویا ہے

لیکن میں مدہوش ہوئی ہوں

تیری بانہوں سے بھی پہلے

تیری آنکھیں گھیرتی جائیں

سندر سندر اجلی اجلی

روشن اور نشیلی آنکھیں

مجھ پہ اٹھیں تو ایسا لاگے

قلب و جاں سے گزرتی جائیں

سارے سورج، چاند ستارے

ان آنکھوں پر میں نے وارے

یہ آنکھیں گر مل جائیں تو

جیون روپ نکھارتی جائیں

٭٭٭

 

دُعا

(علی اسجد اور باذل تیمور کے لیے)

صبح نکھری ہو ئی کرنوں کے جلو میں اُترے

شام کے سنگ کئی تارے دمکتے آئیں

دن ترے خواب کی تعبیریں تجھے پیش کرے

شب کئی چاند ترے گھر میں اُترنا چاہیں

٭٭٭

 

شب

                        اکثر شب کو

                        نیند سے پہلے

                        میری پلکیں

                        بوجھل کرنے

                        اب آنسو آ جاتے ہیں

٭٭٭

 

ہمراہی

میرے ذہن میں

اِک نقطہ تھا

کچھ دھندلا کچھ بجھا بجھا سا

تو نے اس نقطے کو دیکھا

اور پھر اس کو

مان کے مرکز

ایسی کوئی لکیر لگائی

مجھ کو انوکھی راہ دکھائی

اب وہ لکیر ہے میرا رستہ

اور ہو تم میرے ہمراہی

٭٭٭

 

دوست کے لیے ایک دُعا

تری کامرانیوں پہ مرا دل بھی مسکرائے

اے مرے حسین ساتھی! تجھے کوئی غم نہ آئے

کبھی راستہ نہ بھولیں ترے گھر کا یہ بہاریں

تیری منزلوں کا جگنو سدا یونہی جگمگائے

کبھی آنسوؤں کی شبنم تری آنکھ پر نہ اُترے

نہ کوئی کرن سحر کی تمہیں بے قرار پائے

٭٭٭

 

کرب کی سُولی

                 دیکھو!

دیکھو زیست کے سارے لمحے

کرب کی سولی پر لٹکے ہیں

اور اس دار کے چاروں جانب

کچھ جانے پہچانے سپنے

ماتم کی پوشاک پہن کر

مایوسی سے سر کو جھکائے

(جیسے اپنا آپ گنوائے)

جانے کیوں چپ چاپ

      کھڑے ہیں

٭٭٭

 

محبت زندہ رہتی ہے

محبت زندہ رہتی ہے

اگر رخ موڑ بھی جائے

دوام اس کو جو حاصل ہے

وہ جز اس کے کہاں ہو گا؟

یہ ٹوٹے آشیانوں میں

یہ تنہائی کی شاموں میں

دلوں کے سرد خانوں میں

نگہ کے آستانوں میں

زمینوں آسمانوں میں

یہ صدیوں اور زمانوں میں

یوں چادر اوڑھ کر چپ کی

جدائی کا زہر پی کر

محبت زندہ  رہتی ہے

یہ سمجھوتوں کو پیتی ہے

یہ سُولی پر بھی جیتی ہے

یہ تیری میری آنکھوں میں

یہ خوشبوؤں میں سانسوں میں

یہ گزرے کل کی یادوں میں

یہ باتوں اور گھاتوں میں

جنوں کی سرد راتوں میں

دلوں کے شہر میں تنہا

یہ اوجھل سب نگاہوں سے

سدا بڑھتی پنپتی ہے

محبت زندہ رہتی ہے

      محبت زندہ رہتی ہے

٭٭٭

 

بہت یاد آئیں گے وہ دن

            بہت یاد آئیں گے وہ دن

            کہ جن میں ہم نے دیکھے ہیں

            تری آنکھوں کے سب موسم

            ترے لہجوں کی وہ شبنم

            تری ذومعنی اور بے معنی سب باتیں

            تصور سے ترے مہکی ہوئی راتیں

            وہ زیر و بم تری آواز کے جب یاد آئیں گے

            تصور ہی تصور میں جو پھر ہم مسکرائیں گے

            بہت یاد آئیں گے وہ دن کہ جن میں ہم نے دیکھی ہے

            چمک ماتھے پہ تیرے ،چاند تاروں کی

            جو تیرے مسکرانے پر کھلیں ان سب بہاروں کی

            جو تیرے سنگ پہروں بیٹھنا بھی یاد آئے گا

            تیری ہمراہی میں چلنا بھی دل اپنا جلائے گا

            میں سوچوں گی تمھیں تو وقت جیسے ٹھہر جائے گا

            بہت یاد آئیں گے وہ دن کہ جو ہم نے گزارے ہیں

            تمھارے قرب میں بھیگے ہوئے وہ دن

٭٭٭

 

بے نام مسافت

            ہم کہاں سے آئے ہیں ؟

            اور کدھر کو جانا ہے؟

            راستہ نہیں معلوم

            کچھ خبر نہ منزل کی

            مضطرب ہے دل اپنا

            روح بے سہارا ہے

            رت جگے ہیں آنکھوں میں

            اور لبوں پہ نغمے ہیں

            کوئی یہ نہ سمجھے گا،کوئی یہ نہ جانے گا

            ہم کو کون پہچانے

            ہم کہ ایک مدت سے

            بے کنار صحرا میں

            غم نشیں ہوئے آ کر

            خوشبوئیں ہیں یا محفل

            راستے ہیں یا منزل

            کُچھ تو آخر اپنا ہے

            یا تمام سپنا ہے

٭٭٭

 

 پیاری بیٹی حوریہ ایمان کے نام

خدا تجھے کسی غم سے بھی آشنا نہ کرے

ہزاروں پھول کھلیں تو جہاں جہاں ٹھہرے

تمہاری آنکھوں میں جلتے رہیں خوشی کے چراغ

تری حیات بہاروں کے درمیاں ٹھہرے

تو عندلیبِ چمن بن کے شاخ شاخ پھرے

تو بوئے گل کی طرح عمر بھر مہکتی رہے

تری جبیں سے ستاروں کی روشنی پھوٹے

ترے لبوں پہ تبسم کی لو چمکتی رہے

٭٭٭

 

 ابو جی کے نام

کب سوچا تھا تم سے بچھڑیں

کب چاہا تھا تم کو چھوڑیں

خوں کی ہم یہ زنجیریں

اس جیون میں کیوں کر توڑیں

منزل تو ہماری بھی تھی وہی

ترا زادِ سفر کچھ کم ہی سہی

آنا ہے ہم کو پاس ترے

لیکن ہیں لمبے یہ رستے

یوں تم نے بدل لی رہ اپنی

اب ہم بھی ہمت ہار چلے

تم بن جینا کب سوچا تھا

تم تارا تھے، تم  منزل تھے

تم بچھڑے تو ہم ٹوٹ گئے

تم نیّا تھے تم ساحل تھے

ہم تم بِن دیکھو ڈوب گئے

تم بِن وعدہ روپوش ہوئے

ہم کس کا اب رستہ دیکھیں ؟

تم اپنے ہو کے رُلاتے ہو

ہم اور کسی کو کیا جانیں

٭٭٭

 

باجی

مشفق و مہرباں ، اِک وسیع سائباں

میری بہنا! رہے تو سدا شادماں

تیرے آنگن میں جگنو چراغاں کریں

تیرے گلشن میں غنچے مہکتے رہیں

تیری آنکھیں ہوں ٹھنڈی،ہو دل پُر سکوں

دُور تُجھ سے رہے سب غموں کا فسوں

قہقہے تیرے یونہی کھنکتے رہیں

تیرے آنچل کے تارے دمکتے رہیں

تیرا احساس ہے راحتِ قلب و جاں

میری بہنا! رہے تو سدا شادماں

٭٭٭

 

اب۔۔۔۔

موت بھی گھبرا رہی ہے زندگی کے خوف سے

ہر کلی مرجھا رہی ہے زندگی کے خوف سے

اب کے پیمانے وفا کے اس طرح بدلے یہاں

خود جفا شرما رہی ہے زندگی کے خوف سے

نور و ظلمت کا یہاں اب فرق بھی مٹنے لگا

ہر نظر پتھرا رہی ہے زندگی کے خوف سے

اب نشانِ رہ کوئی ہو منزلیں ملتی نہیں

رہ گزر دھندلا رہی ہے زندگی کے خوف سے

٭٭٭

 

زندگی خود کو آزماتی ہے

[سیلاب زدگان کے نام]

پرچمِ زیست کو جلاتی ہے

راکھ آنکھوں میں چھوڑ جاتی ہے

غم کی اِک اِک صلیب پر لا کر

اس قدر ہو سکے ستاتی ہے

زندگی درد سے ملاتی ہے

زندگی خود کو آزماتی ہے

کتنے آنگن اُجاڑ بیٹھی ہے

کتنے رشتے بگاڑ بیٹھی ہے

موت کے بیکراں سمندر میں

کتنے جیون اُتار بیٹھی ہے

درد کی آنچ سے جلاتی ہے

زندگی خود کو آزماتی ہے

گزرے کل کا حسیں فسانہ تھے

ہم کہاں ایسے بے ٹھکانہ تھے

آج پھیلا رہے ہیں دستِ طلب

کل تلک رشکِ ہر زمانہ تھے

روٹھ کر ہم سے مسکراتی ہے

زندگی خود کو آزماتی ہے

اب جو باقی ہے زندگی اپنی

کس نے بارش کا لطف اٹھانا ہے

دیکھ کر آسماں پہ بادل کو

ہم نے پہلے ہی سہم جانا ہے

کتنے معنی بدل کے جاتی ہے

زندگی خود کو آزماتی ہے

٭٭٭

 

پنجابی کلام

 

ڈوہنگھیاں سوچاں

بہتا پیارنئیں چنگا ہوندا دِل نوں روگ لگا جاندا اے

فیر دِل دُوجے دے وَس ہو کے سارا جیون کھا جاندا اے

وقت سد ا نئیں اِک جیہا رہندا سارے روپ وِکھا جاندا اے

کدی تاں بوجھ دلاں دا بن دا کدی دل نوں بھَا جاندا اے

روپ سدٍا ا لبیلے اُس دے سبھ توں وَکھرا پیار وی اُس دا

رب جد دِل دا محرم بن دا سارے یار مُکاجاندا اے

منزل وی فیر اُس نوں ملدی جیہٹر ا اُس دے قابل ہوندا

راہواں دے وچ جاگن والا چھیکڑ راہواں پاجاندٍا اے

وَکھر ے وَکھرے روپ نے سبھ دے وَکھرا سبھ دا ورتن

کوئی درد دا دارو بن دا ، کوئی درد ودھا جاندا اے

راتوں رات کدی نئیں لبھدا ، دل جیہا سُچا موتی

اس موتی دا شوق کدی تے ایویں عمر اں کھا جاندا اے

آپنی ذات نوں قلعہ بناکے خُش پھردے ساں بہتے

کون اے جیہڑا کندھاں ڈھاکے اندر جھو ک وَسا جاندا اے

پردے وِ چ وِی رہندا لیکن مینوں ہر تھاں نظروی آوے

جو وی اُس دی طلب چ نکلے اُس نُوں روپ وکھا جاندا اے

چھپدا لکدا رہندا لیکن ہر احساس چ شامل ہوندا

جِد وی نیڑتا منگیے اُس دی لوں لوں وچ سما جاندٍا اے

عشق دے سارے روپ اَولّے رہن نہ دیندا کُجھ وی پلے

لے کے شاہاں ورگیاں شاناں ہَتھ کشکول پھڑا جاندٍا اے

باغ بہشتاں چین نہ پاوے جس نوں عشق دی اَگ بُلاوے سدھراں نال تے اوہی سڑدا جیہڑا عشق نوں پا جاندا اے

بوہتے طورتے سٹردے ویکھے بوہتے سدھراں کر دے ویکھے

لیکن جیہڑا نُور اے رب دا ، اوہ معراج نوں پا جاندا اے

٭٭٭

 

عورت دی کہانی

اَسی آں جنگلی اَکاں وانگوں

جس دے اَگے اُچا بولاں

اوہی سِر ٹک دیندا اے

٭٭٭

 

لالہ

رنگ رنگیلا دنیا میلہ

اوپرے اوپرے لوک تے تھاواں

لالہ میری انگل نپ لے

کلی کدھرے گواچ نہ جانواں

کِنے کھیڈ تماشے ایتھے

کِنیاں سجیاں دھجیاں راہوں

دل وچ بہتا ڈر جھکھڑ دا

سینے بے ترتیب نیں ساہواں

ویکھ تے لالہ اس گُڈی نوں

کِنی سجی سجائی ہوئی اے

ویکھ تے لالہ! ایس سکھی نوں

کتھے پینگھ جُھلائی ہوئی اے

کھٹیاں مٹھیاں گولیاں کھاواں

لالہ! میرا وی جی کردا اے

لالہ! اُچے  پینگھ  پنگھوڑے

میں وی جھلاواں جی کردا اے

پَر میں تیری اُنگل چھڈ کے

دور ترے توں جانئیں سکدی

مینوں خوف گواچن والا

اس توں باہر وی آنئیں سکدی

کدھر ے تیرے ہتھاں وچوں

میری اُنگل چُھٹ نہ جاوے

کدھر ے تیرا میرا ناتا

اس میلے وچ ٹُٹ نہ جاوے

میری چنی دی چوک نال بدھا

سفنا کُھل کے لُٹ نہ جاوے

لالہ! میری اُنگل نپ لے

لالہ ! میری اُنگل نپ لے

٭٭٭

 

 غزل

دِل جیہناں دی  طلب کریندا

لوک اوہ مُکدے جاندے نیں

ساڈے نصیب دی اِکو رات چ

تارے لُکدے جاندے نیں

میں اوہناں دی آں رکھوالی

لفظ جو مُکدے جاندے نیں

جیہناں لئی اساں آپ  بھلایا

اوہ کیوں بھُلدے جاندے نیں

انھّی وا وچ پیار دے دیوے

بَِلدے ،بجھدے  جاندے نیں

اوکھے ڈنگ تے کلے مسافر

راہوں لبھدے جاندے نیں

٭٭٭

 

پچھان

دنیا اَنھّے سفر دی نگری

کِنیاں اوکھیاں اس دیاں راہواں

کلّا دِسدا ہر اک راہی

نہ کوئی سنگی نہ پرچھاواں

ربا! مینوں جان دا کوئی نئیں

کتھے میں پہچان کراواں ؟

٭٭٭

 

تشکر : اردو اصناف ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید