FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               ڈاکٹر سعید الرحمن

 

Abstract

The Muslims, all over the world are a prisoner of their past, dissatisfied with their present and afraid of their future. Therefore they always look at the teachings of the Holy Quran in the perspective of the past. As a consequence of it, they are cut off from their present. They are living in a vacuum and there are many complications in their existence in the growing scientific, modern world. The present article aims at highlighting the futuristic vision of the Quran in the light of history and universal observations of life. By doing so, it draws attention of the Muslims towards the fact that a possibility of reorientation in the light of the teachings of the Quran exists, and they should be aware of it. It is their duty to inculcate in them this understanding and spread too.

 

            قرآن حکیم کا اپنے مضامین و حقائق اور متن کے حوالہ سے رہتی دنیا تک ہر شعبہ کے ماہرین کو چیلنج ہے کہ وہ ان سے ملتی جلتی کوئی جامع فکر یا نظریہ یا فصیح عبارت پیش کر دیں مگر قرآن حکیم کا دعوی ولن تفعلوا (۱) (تم ہر گز نہیں کر سکو گے )کی صداقت پر تاریخ گواہ ہے کیونکہ کسی بھی کتاب کی تاریخی اہمیت جانچنے کے لیے اس امر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ اس کے مندرجات تاریخ کی کسوٹی پر کس حد تک پورے اترتے ہیں ، چنانچہ جب اس حوالہ سے قرآن حکیم کے مضامین پر غور کیا جائے تو ہر غیر جانبدار شخص اس امر سے اتفاق کریگا کہ قرآن حکیم نے ماضی کے واقعات یا مستقبل کے حقائق کے بارے میں جو نقاب کشائی کی ہے تاریخ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود ان میں کوئی رخنہ تلاش نہیں کر سکی ، گو کج روی اور مفاد پرستی کی بنیاد پر اعتراض سے تو دنیا کی بڑی سے بڑی صداقت اور واضح سے واضح تر مشاہدہ بھی محفوظ نہیں رہ سکا جیسا کہ ذیل کا واقعہ اس امر پر بھر پور عکاسی کرتا ہے کہ ذاتی انا کی خاطر تسلیم شدہ حقائق کس طرح مسخ کر دیئے جاتے ہیں۔

            جب رسول اللہ ﷺ پر سورہ مومن جس کو سورہ غافر بھی کہا جاتا ہے کی درج ذیل ابتدائی آیات نازل ہوئیں :۔

حم تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم غافرالذ نب وقابل التوب شد ید العقاب ذی الطول لا الہ الاھو الیہ المصیر           (۲)

(حم ، یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو غالب ، ہر بات جاننے والا ، گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا ، قدرت و وسعت والا ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، اس کی طرف ہر چیز کا لوٹنا ہے )

            تو رسول اللہ ﷺ مسجد میں ان کی تلاوت کے لیے کھڑے ہوئے تو قریب ہی ولید بن مغیرہ آپ کی قراء ت سننے لگا ، رسو ل اکرم ﷺ نے یہ بھانپ کر کہ ولید قرآن کی قرأ ت سن رہا ہے ، ان آیات کو دہرایا جس کے بعد ولید بن مغیرہ اپنی قوم بنو مخزوم کی نشست گاہ میں آیا اور کہنے لگا

واللہ لقد سمعت من محمد آنفا کلاما ما ہومن کلام الانس ولا ھو من کلام الجن، ان لہ لحلاوۃ ، وان علیہ لعلاوۃ، وان أعلاہ لمثمر ، وان اسفلہ لمعذق ، وانہ یعلو ولا یعلی علیہ۔

(بخدا میں ابھی محمد (ﷺ ) سے ایسا کلام سن چکا ہوں جو نہ انسانوں کے کلام سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہی جنات کی گفتگو سے ، اس میں چاشنی ہے ، وہ پر رونق ہے ، اس کا بالائی حصہ ثمر آفریں اور زیریں حصہ خوشوں سے لدا ہوا ہے ، وہ غالب آنے والا ہے، مغلوب ہونے والا نہیں )

            اس کے بعد ولید اپنے گھر چلا گیا ، قریش کو جب اس ساری صورتحال کا علم ہو ا تو کہنے لگے بخدا ولید صابی (آج کے محاورے میں بے دین ) ہو گیا اور قریش بھی اس کی وجہ سے صابی ہو جائیں گے کیونکہ ولید کو ریحانہ قریش (قریش کا پھول )کہا جاتا تھا اس پر ابو جہل کہنے لگا ولید کے لیے میں تمہاری طرف سے کافی ہوں چنانچہ وہ ولید کے پاس چلا گیا اور غمگین صورت بنا کر بیٹھ گیا ولید نے اس کا سبب پوچھا تو ابو جہل کہنے لگا کہ میں غمگین کیوں نہ ہوں۔ قریش کے لوگ خیمہ میں جمع ہو کر آپ کو بڑھاپے (سٹھیانے ) کا طعنہ دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ نے محمد ﷺ کے کلام کی خوبصورت انداز میں پذیرائی کی ہے اور آپ محمد ﷺ اور ابوبکر صدیق کے پاس اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے دستر خوان کا پس خوردہ کھائیں ، یہ سن کر ولید کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا کیا قریش کو معلوم نہیں کہ میں سب سے زیادہ مالدار اور صاحب اولاد ہوں اور کیا محمد ﷺ اور ان کے ساتھی کھانے سے سیر ہو جاتے ہیں کہ ان کا پس خوردہ بچتا ہو؟ اس کے بعد ولید ، ابو جہل کے ہمراہ اپنی قوم کی نشست گا ہ میں آیا اور لوگوں سے کہنے لگا۔

            ’’کہ تمہارا خیال ہے کہ محمد ﷺ مجنون (دیوانہ ) ہیں تو کیا تم نے انہیں بہکی بہکی باتیں کرتے دیکھا ہے ؟ قریش کہنے لگے قطعاً نہیں ، پھر اس نے دریافت کیا کہ تمہارا خیال ہے کہ وہ کاہن ہیں تو کیا تم نے ان کو کہانت میں ملوث دیکھا ؟ لوگوں نے کہا کبھی نہیں پھر اس نے پوچھا کہ تمہارا خیال ہے کہ وہ شاعر ہیں تو کیا تم انہیں شعر کہتے دیکھتے ہو ؟ تو لوگوں نے کہا کہ بالکل نہیں پھر اس نے کہا کہ تمہارا خیال ہے کہ وہ جھوٹے ہیں تو کیا تم نے ان کے بارے میں کسی قسم کا جھوٹ آزمایا ہے ؟ لوگ کہنے لگے کسی صورت میں نہیں ، واضح رہے کہ رسو ل اکر م ﷺ کو قبل از نبوت سے ہی صادق و امین کہا جاتا تھا ، اس پر قریش نے دریافت کیا کہ پھر وہ کیا ہیں ؟ تو اس پر وہ سوچ میں پڑ گیا پھر اس نے ناگواری اور تکبر کے ساتھ کہا کہ وہ جادو گر ہی ہیں اور تم جس کو میاں بیوی ، اولاد ، والدین اور آقا و غلام کے مابین جدائی کرنے والا دیکھتے ہو تو وہ جادوگر ہی کہلاتا ہے ‘‘(۳)حقائق مسخ کرنے کی اس طرح کی کیفیت کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے

انہ فکر و قدر  فقتل کیف قدر ثم قتل کیف قدر ثم نظر ثم عبس وبسر ثم ادبر واستکبر فقال ان ھذا الا سحر یؤ ثر ان ھذا الا قول البشر        (۴)

( اس نے سوچا اور اندازہ لگایا، ناس ہواس نے کیسا اندازہ لگایا پھر ناس ہو ، اس نے کیسا اندازہ لگایا پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا چنانچہ کہنے لگا کہ یہ تو روایتی جادوگری ہے اور یہ تو انسان کا کلام ہی ہے )

            گویا حقائق کا ادراک ہونے کے باوجود ذاتی انا اور جاہ پرستی نے ان سے انحراف و انکار پر آمادہ کیا وگرنہ اس کی کوئی علمی بنیاد نہ تھی جیسا کہ واقعہ کی تفصیلات سے عیاں ہے

            قرآن حکیم نے ماضی کی جن اقوام کا ذکر کیا ہے آج تک کوئی مسلمہ تاریخی دستاویز قرآنی واقعات کے کسی جزو کا انکار نہیں کر سکی ، اسی طرح قرآن حکیم نے تاریخی تناظر میں پیش آمدہ واقعات کی جو قبل از وقت نشاندہی کی ہے ، ان کی بابت یہ حقیقت بھی ثابت شدہ ہے کہ وہ واقعات اسی طرح نمودار ہوئے جیسے ان کی اطلاع بہم پہنچائی گئی تھی اس کا مقصد اہل ایمان میں حالات کے مدو جزرسے واقفیت، تجزیہ کی صلاحیت کو نمودینا اور انہیں مستقبل کے لیے غور و فکر اور اس کے مطابق حکمت عملی اپنانے کی طرف متوجہ کرنا ہے یہاں قرآن حکیم کی چند ایک آیات کا مذکور ہ  بالا پس منظر کے حوالہ سے مطالعہ مقصود ہے

(1)    غزوہ تبوک کے موقع پر کئی افراد میدان جنگ سے پیچھے رہ گئے جن میں اکثریت منافقین کی تھی، ان کی بابت رسول اکرم ﷺ کو مدینہ منورہ پہنچنے سے قبل ہی آگاہ کر دیا تھا کہ وہ بہانے تراشیں گے ارشاد خداوندی ہے

یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیھم قل لا تعتذروا لن نومن لکم قد نبأ نا اللہ من أخبارکم (۵)

(جب تم (مسلمان ) لوٹ کر ان (منافقین ) کے پاس جاؤ گے تو وہ اپنے عذر بیان کریں گے، آپ کہہ دیجیے تم بہانے مت بناؤ ، ہمیں تمہاری بابت ہر گز یقین نہیں ، ہمیں تو اللہ تمہارے حالات سے آگاہ کر چکا ہے )

            بعد ازیں اگلی ہی آیت میں مزید وضاحت کی گئی کہ جب تم ان کے پاس لوٹ کر جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے سرو کار نہ رکھو لہذا تم بھی انہیں نظر انداز کر دو، یہ نا پاک لوگ ہیں چنانچہ انہی آیات کی پیش گوئی کے مطابق مسجد نبوی میں آپ کے پہنچتے ہی منافقین اپنے خود ساختہ اعذار کے ساتھ آم وجود ہوئے مگر اہل ایمان نے بجائے اشتعال و انتقام کے جذبات کے اظہار کے عدم تشدد پر مبنی اعراض اور بے توجہی کی قرآنی ہدایت پر عمل کر کے معاشرے کو انتشار اور تناؤ سے محفوظ رکھا

اسی طرح جب آپ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ نے مسلمانوں کو اس سفر کے لیے تر غیب دی مگر دیہاتوں کے باشندے جی چرا گئے جب آپ صلح کے بعد حدیبیہ سے واپس ہوئے تو آپ کو ان کے طرز گفتگو سے آگاہ کر دیا گیا جو انہوں نے آپ کے مدینہ پر اختیار کرنا تھا  چنانچہ ارشاد ربانی ہے

سیقول لک المخلفون من الاعراب شغلتنا أموالنا وأھلونا فاستغفرلنا یقولون بألسنتھم ما لیس فی قلوبھم۔(۶)

(آپ سے پیچھے رہ جانے والے دیہاتی کہیں گے ہمیں ہمارے مالی کاروبار اور گھر بار نے مصروف رکھا لہذا آپ اللہ سے ہمارے لیے مغفرت طلب کیجئے ، یہ لوگ زبانوں سے وہ بات کر رہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے )

            چنانچہ مدینہ منورہ واپسی پر پیچھے رہ جانے والوں اور بالخصوص منافقین نے اسی قسم کے اعذار پیش کئے تھے جن کو حسن دلیل سے مسترد کر دیا گیا۔

(2)    قرآن حکیم نے قوموں کے واقعات و احوال کے ضمن میں ان کے مستقبل کے حوالہ سے ایسی اطلاعات بھی مہیا کی ہیں جن پر تاریخ نے بھی مہر صداقت ثبت کی ہے ، یوں قرآن حکیم میں مستقبل کے نقوش اجاگر ہوتے ہیں

مثلاً جب رسول اکرم ﷺ قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں تھے تو اس دوران دنیا کی دو عالمی طاقتوں کے مابین جنگ ہوئی جس میں روم کو فارس کے مقابلہ میں ہزیمت اٹھانی پڑی تو اس پر کفار مکہ نے کہ کہہ کر خوشی منائی کہ مسلمان بھی رومیوں کی طرح اہل کتاب ہیں لہذا جس طرح فارس کو اہل کتاب پر فتح حاصل ہوئی ہے ، اسی طرح ہمیں بھی جنگ کی صورت میں غلبہ حاصل ہو گا ، اس موقع پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں جن میں چند سالوں میں رومیوں کی فتح کی اطلاع دی گئی جس کا مقصد اس قانون قدرت سے آگاہ کرتا تھا کہ دنیا میں درست سمت میں جہد مسلسل کے ذریعہ مغلوبیت کو غلبہ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے

الم غلبت الروم فی أد نی الأرض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین (۷)

(الم۔ رومی ، قریب کی زمین میں مغلوب ہو گئے ہیں ، وہ اپنی مغلوبیت کے بعد عنقریب چند سالوں میں غالب آجائیں گے)

            اس آیت کی روشنی میں حضرت ابو بکر صدیق  ؓ نے کفار مکہ کو مخاطب کر کے روم کے غالب آنے کی پیش گوئی کی حالانکہ اس وقت رومیوں کو جس طرح شکست ہوئی تھی ، اس سے ان کے دوبارہ ابھرنے کے آثار نظر نہیں آتے تھے ، چنانچہ سرداران قریش مین سے ابی بن خلف نے اس پیش گو ئی کو جھٹلا دیا ، جواب میں حضرت ابوبکر ؓ نے یہ کہہ کر اس سے دس دس اونٹو ں کی شرط طے کی کہ اگر آئندہ تین سالوں میں رومی فتح یاب ہو گئے تو ابی بن خلف دس اونٹنیوں کا تاوان دے گا بصورت دیگر اسے حضرت ابو بکر ؓ دس اونٹنیاں دیں گے بعد میں حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اکرم ﷺ کو ابی بن خلف سے کی گئی گفتگو کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو آپ نے قرآن حکیم کے لفظ ’’بضع ‘‘ کی وضاحت کی کہ اس کا اطلاق کم ازکم تین پر اور زیادہ سے زیادہ نو کے عدد پر ہوتا ہے لہذ ا آپ نے شرط کی مقدار میں اضافہ کر کے مدت میں توسیع تجویز فرمائی ، واضح رہے کہ اس وقت تک اس قسم کا معاملہ طے کرنے کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی چنانچہ بعد میں جب حضرت ابو بکر ؓ کی ابی بن خلف سے ملاقات ہوئی تو اس نے خیال ظاہر کیا کہ شاید ابو بکر اس شرط طے کرنے پر پشیمان ہیں اس پر حضرت ابو بکر ؓ نے اس کی تردید کرتے ہوئے ابی بن خلف کو تاوان کی مقدار میں اضافہ  اور مدت بڑھانے کی پیش کش کر دی ، چنانچہ نو سال کی مدت اور سو اونٹنیوں کی تعداد طے پا گئی۔

            بعد ازیں جب حضرت ابو بکر ؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو ابی بن خلف نے شرط جیتنے کی صورت میں اس کی مقدار کی ادائیگی کے لیے ضامن کا تقاضا کیا تو حضرت ابوبکر ؓ کے صاحبزادے عبد الرحمن نے یہ ذمہ داری قبول کی ، پھر جب ابی بن خلف نے غزوہ احد کے موقع پر جنگ کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو عبد الرحمن نے اس سے ضامن کا مطالبہ کیا ، چنانچہ اس نے بھی اپنا ضامن دے دیا۔ ابی بن خلف ، رسول اکر م ﷺ کے ہاتھوں جنگ میں زخمی ہو ااور پھر وہ جانبر نہ ہو سکا جب کہ شرط طے کئے جانے کے ساتویں سال رومیوں کو فارسیوں پر غلبہ حاصل ہو گیا۔

            حضرت ابو بکر ؓ نے طے شدہ شرط کے مطابق ابی بن خلف کے ورثاء سے سو اونٹنیاں لے لیں اور ان کو رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق صدقہ کر دیا  (۸)

            بعض مفسرین کی رائے کے مطابق یہ خوشی جہاں قرآنی حقیقت کی تاریخی صداقت کے اظہار پر ہوئی ، وہیں اس روز اہل ایمان کو غزوہ بدر میں تاریخی فتح نصیب ہوئی (۹) مذکورہ آیات میں اس سے کہیں آگے کی پیش گوئیاں بھی ہیں کہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب روم و فارس کی بجائے اہل ایمان کا عالمی غلبہ ہو گا کہ اللہ تعالی کا ہی حکم پہلے اور بعد میں غالب ہے اور اس روز اہل ایمان اللہ کی مدد کے سبب شاداں و فرحان ہوں گے  اور یہ پیش گوئی پوری ہو کر رہی اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں اسلام کے بین الاقوامی انقلاب کی تکمیل ہوئی(۱۰)

(3)     قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں مسلمان خوف و دہشت کی فضا میں زندگی بسر کر رہے تھے ، کمزور حیثیت کے مسلمان مسلسل جسمانی تشدد کی زد میں تھے جب کہ ذہنی اذیت سے تو ہر مسلمان دوچار تھا، شعب ابی طالب میں تین سال کی نظر بندی اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ نے صورتحال کو اور مخدوش کر دیا تھا حتی کہ بعض مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر حبشہ ہجرت کرنا پڑی ، اس سراسیمگی کی کیفیت میں درج ذیل آیات موقع بموقع نازل ہوتی ہیں جو مسلمانوں کو ایک بہتر مستقبل کی نوید دیتی نظر آتی ہیں جس کے اس وقت بظاہر آثار تک نہ تھے

ارشاد خداوندی ہوتا ہے

ولقد سبقت کلمتنا لعباد نا المرسلین انھم لھم المنصورون وان جند نا لھم الغالبون (۱۱)

(ہمارے رسول بندوں کے لیے ہماری بات طے ہو چکی ہے کہ انہی کو مدد پہنچائی جاتی ہے اور ہمارا لشکر ہی غالب آنے والا ہے)

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے

انا لننصر رسلنا والذین امنو فی الحیو ۃ الد نیا ویوم یقوم الاشھاد۔  (۱۲)

(ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیاوی زندگی میں اور اس دن مدد کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے )

            تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ محض طفل تسلی نہ تھی بلکہ مسلمان اپنے اعلی نصب العین، انسانی تنظیم اور معروضی حکمت عملی کے سبب اس دنیا میں غالب ہو کر اولاً جزیرہ عرب میں ابھرے اور پھر ان کی فتوحات نے مشرق و مغرب کے فاصلے سمیٹ کر رکھ دیے ایک طرف وہ براعظم ایشیا کو اپنی مملکت کا حصہ بناتے ہوئے یورپ کی بلقانی ریاستوں تک جا پہنچے تو دوسری طرف براعظم افریقہ کو اپنی حدود سلطنت میں شامل کرتے ہوئے یورپ میں سپین سے بھی آگے جا پہنچتے ہیں

(4)     جب مسلمان مکہ مکرمہ میں کمزور حیثیت اور کم تعداد کے مالک تھے گویا عرب محاورہ کے مطابق تمام لوگ مسلمانوں کو ایک ہی کمان سے نشانہ پر لیے ہوئے تھے ، اس حالت میں مسلمانوں کے جنگ کر کے غالب آنے کا تصور ہی نہ تھا کیوں کہ طاقت کا توازن قریش مکہ کے حق میں تھا ، اس صورتحال میں درج ذیل آیات نازل ہوتی ہیں

سیھزم الجمع ویولون الدبر بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی وأمر (۱۳)

(عنقریب یہ مجمع شکست کھا جائے گا اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے بلکہ قیامت ، ان سے وعدہ کا وقت ہے اور قیامت بڑی آفت اور بہت تلخ ہے )

            جس وقت یہ آیات نازل ہوئیں ، حضرت عائشہ ؓ بتاتی ہیں کہ وہ اس وقت کمسن بچی تھیں اور کھیلا کرتی تھیں (۱۴)، ان آیات میں مسلمانوں کی کسمپرسی کی حالت میں ان کو ان کے مخالفین کی بد ترین شکست کی نوید سنائی گئی جس کی تکمیل اس طرح ہوئی کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں تنظیم و تربیت کے بنیادی مرحلے کے بعد مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو ۲ھ میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے مابین بدر کے مقام پر مڈ بھیڑ ہوئی۔ اس روز رسول اللہ ﷺ اپنے خیمہ میں اللہ تعالی سے دعا کر رہے تھے ، تجھے تیرے عہد اور وعدہ کی قسم دیتا ہوں اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو اس سر زمین پر آج کے بعد تیری عبادت نہیں ہو گی ، حضرت ابو بکر ؓ سے یہ کیفیت دیکھی نہ گئی انہوں نے آپ کے ہاتھ پکڑ لیے اور کہنے لگے اے رسول خدا بس کافی ہو گیا آپ اپنے رب سے اصرار کر چکے ہیں چنانچہ آپ زرہ میں ملبوس مقابلہ کے لیے تشریف لائے اور آپ کی زبان پر مندرجہ بالا آیات تھیں (۱۵)

            بالآخر مسلمان فوج کو فتح حاصل ہوئی اور کفار کی فوج کو شکست فاش ہوئی یوں قرآن حکیم کی تاریخی صداقت اور نبوی حکمت عملی کا سکہ قائم ہوا اور مکہ مکرمہ میں نازل شدہ آیات کا مصداق تاریخی حوالہ سے مدینہ منورہ میں غزوہ بدر کے موقع پر سامنے آیا جیسا کہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں

وقد کان ھذا یوم بدر وھو من دلائل النبوۃ لأن الآیۃ مکیۃ ، وقد نزلت حیث لم یفرض جھاد ولاقتال   (۱۶)

            اسی سے بعض مستشرقین کا یہ مؤقف بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مکی و مدنی زندگی ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہے کہ مکہ مکرمہ میں تو سرے سے حکومت و جنگ کا تصور تک نہ تھا لیکن مدینہ منورہ کے ساز گار حالات دیکھ کر پہلے حکومت کا ڈول ڈالا گیا اور اس کے بعد اس کی توسیع کے لیے جنگوں کا راستہ اختیار گیا گیا ، اس سلسلے میں مسٹر جوزف ہل کے الفاظ ہیں     (۱۷)

He left Mecca as a Prophet but entered Madina as the chief of a community——-The Prophet now retires into the background, the diplomat now comes forward. The Prophetship is now on armament of the ruler, an effective weapon establishing extending maintaining power.

            جب کہ مندرجہ بالا آیات سمیت قرآن حکیم کی کئی آیات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ہی حکومت اور اس کی حفاظت کے لیے جنگ کا تصور دے دیا گیا تھا اس لیے مسٹر جوزف ہل کا تجزیہ یا تو کم علمی مبنی ہے یا تعصب کی نظر نے حقائق کا ادراک نہیں کرنے دیا

(5)     رسول اکرم ﷺ کو جن حالات میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا سفر ہجرت اختیار کرنا پڑا ان میں مکہ مکرمہ کا واپسی سفر نا ممکن نظر آتا تھا کیونکہ کفار مکہ کے ہاں آپ کی بابت جو منصوبے زیر غور تھے ان میں گرفتاری اور جلا وطنی سے قتل تک کے تمام اختیار شامل تھے ارشاد خداوندی ہوتا ہے

            واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک         (۱۸)

(اور وہ وقت یاد کیجیے جب کفار مکہ آپ کی بابت سازشیں کر رہے تھے کہ آپ کو گرفتار کر لیں یا آپ کو قتل کر دیں یا آپکو شہر بدر کر دیں )

لیکن قرآن حکیم نے محکم انداز میں اعلان کیا

            ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد۔ (۱۹)

(جس نے آپ پر قرآن لازم کیا ہے وہ یقیناً آپ کو معاد کی طرف لوٹائے گا)

            معاد سے مراد حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے بقول مکہ مکرمہ ہے (۲۰) اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اکرم ﷺ ایک روایت کے مطابق مکہ میں ہی تھے اور ابھی آپ نے ہجرت نہیں کی تھی گویا اس آیت میں آپ کی ہجرت اور مکہ واپسی کے دو عظیم الشان واقعات کی اطلاع دی گئی ہے جب کہ دوسری روایت کے مطابق یہ آیت جحفہ کے مقام پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر جا رہے تھے اور دل میں مکہ مکرمہ واپسی کا اشتیاق تھا (۲۱)

            پھر تاریخ نے فتح مکہ کے عظیم الشان موقع پر قرآن حکیم کی اس تاریخی اطلاع کو مستقل طور پر تاریخ انسانی کا ایک اہم ترین واقعہ بنا دیا کہ آپ مکہ مکرمہ میں پورے وقار کے ساتھ داخل ہوئے اور تمام دشمنان دین آپ کے سامنے بے بس ہو کر آپ سے رحمت کے خواستگار تھے اور آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اس تاریخی جملہ    لاتثریب علیکم الیوم (۲۲) (آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ) کو دہرانے کے بعد جو انہوں نے اپنے بھائیوں کو کہا تھا تمام لوگوں کو آزادی کا پروانہ عطا کر دیا

اذھبوا وأنتم الطلقاء (۲۳)

(جاؤ ، تم آزاد ہو )

(6)   قرآن حکیم نے رسول اللہ ﷺ کا منصب رسالت ان الفاظ میں بیان کیا ہے

ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ (۲۴)

( اللہ تعالی کی ہی ذات ہے جس نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کرے )

            چنانچہ اس مقصد بعثت نے اس وقت تاریخ کا لباس پہن لیا جب رسول ﷺ نے قومی سطح پر عرب میں انقلاب برپا کیا اور خلفاء راشدین نے اس منصب کے بین الاقوامی تقاضے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا چنانچہ نبض شناس عصر امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ رقم طراز ہیں

            احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دین کا کامل غلبہ رسول ﷺ کے بعد ہوا کہ اس زمانہ میں زمین کی حکومت دو پر شوکت بادشاہوں کے درمیان تقسیم تھی یعنی کسری ایران اور قیصر روم ان دونوں بادشاہوں کے دین دوسرے دینوں پر غالب تھے۔۔۔۔چنانچہ قیصر کے اتباع میں روم، روس، جرمنی ، افریقہ ، شام ، مصر یعنی حجاز کے مغربی سمت کے ممالک اور حبشہ نصرانیت کے پیرو تھے اور خراسان ، توران، ترکستان ، زادلستان اور باختر وغیرہ کسری کے اتباع میں مجوس تھے اور یہودیت ، مشرکین کا دین ، ہندوؤں کا دھرم اور صابیوں کا مذہب ان دونوں بادشاہوں کے دبدبے میں تھے اور کمزور ہو کر ان کے مطیع ہو چکے تھے لہذا دین اسلام کے ظہور و غلبہ اور کافروں و قانون شکنوں کو برباد کرنے کے تقاضے نے کسری و قیصر کی حکومتوں کو برباد کرنے کی شکل اختیار کی کیونکہ جب یہ دونوں حکومتیں برباد ہو جائیں گی تو سب سے بڑے اور سب سے مشہور دین (نظام) شکست کھا جائیں گے۔ (۲۵)

            قیصر و کسری کے نظاموں کی تباہی کے ذریعہ غلبہ اسلام کا مقصد بعثت نبوی، تاریخی حوالہ سے حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں شرمندہ تعبیر ہوا اور یہی وہ وعدہ محکم ہے جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں ہے

کتب اللہ لا غلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز (۲۶)

( اللہ نے یہ بات نقش کر دی ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب ہوں گے، یقینا اللہ صاحب قوت اور غالب ہے)

مزید برآں قرآن حکیم نے محض رسولوں کے غلبہ کو ہی امر ثابت قرار نہیں دیا بلکہ اس نے تو اہل ایمان کی خلافت و سیادت کا بھی تذکرہ کیا ہے

            حضرت ابی بن کعب ؓ بتاتے ہیں (۲۷) کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے اور انصار نے مہاجرین کو اپنے پاس مدینہ میں جگہ مہیا کر دی تو سارا عرب مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا، چنانچہ مسلمان ہر وقت مسلح رہنے لگے، ایک موقع پر وہ کہنے لگے کہ خیال تھا کہ ہم امن و اطمینان کی زندگی بسر کریں گے اور سوائے اللہ تعالی کے کسی کا خوف نہ ہو گا مگر صورتحال مختلف ہے اس پر اللہ تعالی نے درج ذیل آیات نازل کیں

وعد اللہ الذین امنومنکم وعملو الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبد لنھم من بعد خوفھم امنا۔ (۲۸)

( اللہ کا تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ ان کو زمین میں حاکم بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا اور ان کے دین کو مستحکم کرے گا جس کو اس نے ان کے لیے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف و اندیشہ کے بدلہ امن و اطمینان دے گا)

            قرآن حکیم کا یہ وعدہ جو خلافت ارضی، تمکین دین اور امن کے تین اجزاء پر مشتمل تھا تاریخی حوالہ سے مکمل طورپر پورا ہوا چنانچہ انہی اصحاب ایمان کی نظریاتی و عملی جدوجہد کے نتیجہ میں اس دنیا میں ایسی خلافت راشدہ قائم ہوئی جس مین ایک طرف غلبہ دین کی شان و شوکت نمایاں تھی تو دوسری طرف معاشرے میں ہر قسم کے خوف و بد امنی کا انسداد ہو گیا اور عادلانہ نظام زندگی قائم ہو گیا

(۷)     قرآن حکیم میں یہود کے انجام سے متعلق کئی آیات موجود ہیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں مثلاً ارشاد خداوندی ہے

وقطعنا ھم فی الارض أمما

(ہم نے ان کو زمین میں فرقہ فرقہ کر کے بکھیر دیا )    (۲۹)

            چنانچہ وہ ایک طویل عرصہ تک مختلف علاقوں میں بکھرے رہے اور ان کی باہمی اجتماعیت ختم ہو کر رہ گئی ، وہ مسلسل دباؤ اور عذاب کی کیفیت سے دوچار رہے ، عیسائیوں نے ان کو کئی ملکوں سے جلا وطن کر دیا ، بخت نصر جیسے بادشاہوں نے ان کی بستیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جرمن نازیوں نے ان کے ساتھ جو ہولناک سلوک کیا وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے، و ہ صدیوں تک محکومیت کا عذاب جھیلتے رہے اور وہ ذلت و نکبت کے ایک نہ تھمنے والے سلسلہ سے دوچار رہے جس کی نشاندہی قرآن حکیم نے ان الفاظ میں کی تھی

واذ تأذن ربک لیبعثن علیھم الی یوم القیامۃ من یسومھم سوء العذاب (۳۰)

(اور یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے اطلاع دی کہ وہ ان پر تا روز قیامت ایسے گروہوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو بری سزا دیتے رہیں )

            تا قیامت مسلط غلامی و ذلت سے بچنے کی قرآن حکیم نے دو صورتیں ذکر کی ہیں جو درج ذیل آیت میں بیان ہوئی ہیں

ضربت علیھم الذلۃ اینما ثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس (۳۱)

(ان (یہود) پر جہان بھی وہ پائے جائیں ، ذلت مسلط کر دی گئی سوائے اللہ کی رسی اور انسانوں کی رسی پکڑنے کے)

            یعنی یا تو وہ خدا کی رسی پکڑ لیں یعنی قرآن حکیم کی تعلیمات اختیار کر کے ذلت سے چھٹکارا حاصل کر لیں اور دوسری صورت یہ کہ وہ کسی انسانی گروہ کا دامن تھام لیں اور اس کی انگلی پکڑے رہیں تاریخ انسانی بتاتی ہے کہ آج تک یہود کے لیے اس کے علاوہ حصول عزت کا کوئی راستہ نہیں ہے اسی تناظر میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جو امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئی کیونکہ سر زمین فلسطین کو برطانیہ نے خلافت عثمانیہ سے چھین کر نو آبادی بنایا تھا اور اسی نے بعد ازیں عالمی سامراجی منصوبے کے تحت اس کو اسرائیل کی شکل دی اور آج تک قیام سے بقاء تک کے سارے مراحل انہی سامراجی طاقتوں کی سرپرستی میں طے ہوتے آرہے ہیں ، آج تک کی تمام عرب اسرائیل جنگوں میں کلیدی کردار نہی طاقتوں کا رہا ہے جتی کہ یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کو مکمل ہزیمت سے بچانے کے لیے امریکہ نے نہایت سر گرم حلیفانہ بلکہ قائدانہ کردار ادا کیا

            ان آیات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مسلم دنیا کو حقیقی چیلنج یہودی ریاست یا یہودی لابی کی طرف سے نہیں بلکہ ان طاقتوں کی طرف سے ہے جو اس کی سر پرستی کر کے عالمی و علاقائی امن کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں اور جب بھی ان طاقتوں کی سپلائی لائن (حبل من الناس ) منقطع ہو گی صیہونی ریاست کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا چنانچہ موجودہ اسرائیل فلسطین مذاکرات میں ہر وہ بات طے پا جاتی ہے جو امریکہ کی پالیسی کے مطابق ہو اور اسرائیل صرف ان نکات پر ہٹ دھرمی دکھاتا ہے جن کے بارے میں امریکہ کی اسے آشیر باد حاصل ہو یا کم از کم اسے دلچسپی نہ ہو

            الغرض قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق تاریخی اہمیت کے حوالہ سے نہ صرف مسلم ہیں بلکہ دعوت غور و فکر کے بھی حامل ہیں

(8)  قرآن حکیم کی حقانیت کا اندازہ جس طرح آنے والے واقعات کی نشاندہی سے ہوتا ہے اسی طرح قرآن حکیم نے کئی مقامات پر ایسا اسلوب بیان اختیار کیا ہے کہ تاریخ کا سفر جتنا آگے بڑھ رہا ہے اس کی معنویت میں مزید نکھار آتا چلا جارہا ہے جس سے انسانی معاشرہ کو ترقی کی طرف مزید مہمیز ملتی ہے  مثلاً قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے

سنریھم ایاتنا فی الآفاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق   (۳۲)

(ہم ان کو مستقبل میں آفاق اور ان کے اپنے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ واضح ہو کہ وہی ذات حق ہے )

            گویا مستقبل میں ایسے مشاہدات ہوں گے جن کا تعلق کائنات اور نفس انسانی سے ہو گا یوں ایک طرف نیچرل سائنسز (علوم طبیعیہ) اور دوسری طرف نفسیاتی علوم کے ارتقاء کی نشاندہی کی گئی ، چنانچہ دور حاضر میں انقلابات کے نتیجہ میں مکینکل ازم کو جس طرح فروغ حاصل ہوا ہے اور اس نے دنیا کو جس طرح متاثر کیا ہے وہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور اب اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی ترقی نے تو جغرافیائی فاصلے ختم کر کے رکھ دیے ہیں گویا آفاق و انفس کو ایک کشتی کا سوار یا ایک کمرے کا باسی بنا دیا ہے اور اسی سے اس امر کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس دنیا مین انسانی معاشرے کے لیے وہی نظام موزوں ہو گا جس میں آفاقی و انفسی تقاضوں کا توازن موجود ہو گا ، اگر انفسی تقاضوں سے صرف نظر کیا جائے تو اس سے انسانی معاشرے کی اخلاقی اقدار پامال ہو کر رہ جاتی ہیں اور اگر آفاقی تقاضوں سے انحراف کیا جائے تو انسانی معاشرے پسماندگی اور وحشت زدہ کیفیت سے دوچار ہو کر اپنا وجود تک کھو دیتے ہیں

(9)     قرآن حکیم نے کئی مواقع پر اس مسلمہ حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان کسی صورت میں اللہ تعالی کو عاجز نہیں کر سکتا کیونکہ ایک مخلوق کے بارے میں یہ تصور کسی طور درست نہیں کہ وہ اپنے خالق کو بے بس کر دے اس موضوع کو بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم نے ایک مقام پر جو انداز بیان اختیار کیا ہے وہ دراصل اس کتاب کی لازوال ہدایت کی تاریخی اہمیت کو ہی اجاگر کرتا ہے  ارشاد خداوندی ہے

وماانتم بمعجزین فی الارض ولا فی السماء (۳۳)

(اور تم لوگ نہ زمین میں اور نہ آسمان میں (اللہ کو)بے بس کرنے والے ہو)

            یہاں زمین و آسمان دونوں میں اللہ کو انسانوں کی طرف سے بے بس اور عاجز کرنے کی نفی کی گئی ہے زمانہ نزول میں زمین میں عاجز کرنے کی نفی کا مفہوم بڑا واضح تھا کہ انسان کی تمام سر گرمیاں روئے زمین پر ظاہر ہوتی ہیں وہ یہاں قلعے بھی تعمیر کرتا ہے، سرنگیں بھی بناتا ہے ، پہاڑ بھی کھود ڈالتا ہے دریاؤں کے رخ بھی موڑ دیتا ہے گویا اس کو زمین میں تصرف کا جو زبر دست اختیار حاصل ہے ، اس کے تناظر میں اس کے ذہن میں اللہ کو بے بس کرنے کا سودا سما سکتا تھا اس لیے اس کی بھر پور طریقہ سے نفی کر دی گئی جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے :۔

وماانتم بمعجزین فی الارض وما لکم من دون اللہ من ولی ولا نصیر۔(۳۴)

(اور تم لوگ زمین میں (اللہ کو)بے بس کرنے والے نہیں ہو اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور مددگار نہیں )

            لیکن دور نبوی میں انسان کی فضائی حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں تھی ، نہ تو اس نے ہوائی سفر کا آغاز کیا تھا نہ کسی سیارہ تک رسائی حاصل کی تھی اور نہ خلاء میں کوئی تاک جھانک کی تھی لیکن اس کے باوجود اس حوالہ سے قرآن حکیم کی جانب سے اس کی قدرت کی نفی اس امر کو آشکار کرتی ہے کہ فضاؤں و خلاؤ ں تک انسان کی رسائی کا تصور ممکن الوقوع ہے یوں اس کو آفاقی تسخیر کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جس کو آج کی سائنس، عملی روپ میں قدم بقدم آگے بڑھا  رہی ہے اور آج کے تناظر میں ، اس آیت کی معنویت زمانہ نزول کے مقابلہ میں زیادہ عمیق اور گہری ہے

(10)  قرآن حکیم نے گمراہی کی علامت کے طور پر سینے کی جکڑن کا ذکر کرتے ہوئے اسے آسمان میں چڑھنے سے تشبیہ دی ہے ارشاد خداوندی ہے

ومن یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاحرجا کانما یصعد فی السماء۔ (۳۵)

(اور جس کو (اس کے کرتوتوں کی وجہ سے )وہ (اللہ)بے راہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ تنگ اور جکڑ بند کر دیتا ہے جیسے اسے آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو)

            جب کہ نزول قرآن کے وقت فضا میں جانے کا کوئی تصور موجود نہ تھا لیکن مندرجہ بالا آیت میں فضا میں جانے کا تصور سینہ کی تنگی کے حوالہ سے کیا گیا ہے اور آج کے ہوائی سفر نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ فضاؤں کی بلندی میں آکسیجن کی کمی کے باعث سانس لینے میں دقت ہوتی ہے جس سے سینہ میں جکڑن کا احساس ہوتا ہے اسی بنا پر ہوائی سفر میں آکسیجن ماسک کا اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے

            یوں آج سے صدیوں قبل ہوائی سفر کے جسمانی اثرات کا نقشہ کھینچ کر قرآن حکیم نے نہ صرف ہوائی سفر کی جانب پیش قدمی کا تصور دیا بلکہ اس کے اثرات کا سامنا کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی

(11) قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا ذکر کر کے انسانوں کو دعوت غور و فکر دی ہے ان نعمتوں میں سے کچھ تو زمانہ نزول کے وقت موجود تھیں مثلاً زمین و آسمان کی تخلیق ، اختلاف لیل و نہار ، بحری سفینے ، نزول باراں ، متنوع جانور اور ہواؤں و ابر کا نظام وغیرہ جیسا کہ درج ذیل آیت میں اس کا ذکر ہے

ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض بعد موتھا وبث فیھا من کل دابۃ وتصریف الریاح والسحاب المسخر بین السماء والارض لآیات لقوم یعقلون (۳۶)

(یقیناً آسمان و زمین کے بنانے میں اور شب و روز کے آنے جانے میں ، اور جہازوں میں جو انسانیت کے فائدے کی اشیاء لے کر چلتے ہیں ، اور بارش کے پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا، پھر اس سے زمین کو بنجر ہونے کے بعد ترو تازہ کیا اور ہر قسم کے جاندار اس میں پھیلا دئیے، اور ہواؤں کے بدلنے میں ، اور زمین و آسمان کے مابین مقید بادل میں ان افراد کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں )

قرآن حکیم نے ان نعمتوں کے علاوہ کچھ ایسی نشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے جن کا زمانہ نزول کے وقت کوئی واضح نقشہ موجود نہ تھا ارشاد ربانی ہے

وایۃلھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون (۳۷)

(انسانوں کے لیے یہ نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری کشتی میں سوار کرایا اور ان کے لیے اس جیسی چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سواری کریں گے )

            مذکورہ آیات میں بحری سفینے کے علاوہ دیگر ذرائع حمل و نقل کی نشاندہی کی گئی ہے خواہ وہ بری ذرائع ہوں جیسے موٹر کاریں ، ٹرین وغیرہ یا ہوائی وسائل جیسے طیارے وغیرہ ،

            اسی طرح سورۃ النحل میں گھوڑوں ، خچروں اور گدھوں کے بطور سواری اور بطور زینت و آرائش تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا

ویخلق مالا تعلمون  (۳۸)

(اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے جو تم نہیں جانتے )

            گویا یہ آیات اس امر کی اطلاع دے رہی ہیں کہ انسان مستقبل میں جدید سے جدید تر ذرائع حمل و نقل اختیار کرے گا، یو ں موجودہ عہد اور آئندہ کے عہد کے حوالے سے آیت کی معنویت کی وسعت پذیری ظاہر ہو رہی ہے کیونکہ عہد نزول میں تو بحری سفر کے لیے کشتیوں کے علاوہ بری سفر کے لیے جانور کی سواریوں کا تصور تھا جب کہ ہوائی سفر کا سرے سے کوئی تصور موجود نہ تھا اس طرح یہ آیت مستقبل کے حوالہ سے مادی ارتقاء کی نقاب کشائی کے پس منظر میں تاریخی اہمیت کی حامل ہے

            الغرض قرآن حکیم مستقبل کی ترقیات کے تصورات کے لحاظ سے بھی اپنی تاریخی اہمیت کا مصداق آپ ہے اور یوں وہ اہل ایمان کو ماضی کا اسیر بنانے کی بجائے مستقبل کی تسخیر کی طرف واضح دعوت کا سرچشمہ ہے جس سے انسان کو آگے بڑھنے اور پیش قدمی کرنے کی مہمیز ملتی ہے

٭٭

 

حوالہ جات

(۱)        القرآن الحکیم ، سورۃ البقرہ آیت ۲۴

(۲)      القرآن الحکیم ، سورۃالمومن آیات ۱ تا ۳

(۳)     پانی پتی ، محمد ثناء اللہ ، القاضی ۱۲۲۵ھ (التفسیر المظہری ) بلوچستان بک ڈپو کوئٹہ ج۱۰ص۱۲۶۔۱۲۷

(۴)     القرآن الحکیم ، سورۃالمدثر آیات ۱۸ تا ۲۵

(۵)     القرآن الحکیم ، سورۃالتوبہ  آیت ۹۴

(۶)      القرآن الحکیم ، سورۃالفتح آیت۱۱

(۷)     القرآن الحکیم ، سورۃالروم آیات ۱تا ۴

(۸)     الآلوسی ، محمود، شہاب الدین ۱۲۷۰ھ ( روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع الثانی ) داراحیاء التراث العربی ، بیروت، ج۲۱ص۱۸

(۹)      الترمذی، محمد بن عیسی ۲۷۹ھ (السنن ) تحقیق عبد الرحمن محمد عثمان ، دار الفکر بیروت ، ج۵ ج۲۴ (ابواب تفسیر القرآن )

(۱۰)    سندھی ، عبیداللہ ، مولانا ۱۹۴۴ئ(المقام المحمود )سورۃ الروم ، مخطوطہ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد

(۱۱)     القرآن الحکیم ، سورۃالصافات آیات ۱۷۱تا ۱۷۳

 (۱۲)   القرآن الحکیم ، سورۃالمومن آیت ۵۱

(۱۳)    القرآن الحکیم ، سورۃالقمر آیات ۴۵۔۴۶

(۱۴)    البخاری ، محمد بن اسماعیل ، ابو عبد اللہ ۲۵۶ھ (الجامع الصحیح ) دارالفکر بیروت ج۶ج۵۴

(۱۵)    البخاری ، محمد بن اسماعیل ، ابو عبد اللہ ۲۵۶ھ (الجامع الصحیح ) دارالفکر بیروت ج۶ج۵۴

(۱۶)    الآلوسی (روح المعانی )جزء ۲۷ص۹۲

(۱۷)    Joseph Hulf, The Culture of Arabs (London,1940) P.23

(۱۸)    القرآن الحکیم، سورۃ الانفال آیت ۳۰

(۱۹)     القرآن الحکیم، سورۃ القصص آیت ۸۵

(۲۰)   البخاری (الجامع الصحیح )ج ۶ ص۱۸

(۲۱)    الآلوسی (روح المعانی ) جزء ۲۰ ص۱۲۸

(۲۲)   القرآن الحکیم ، سورۃ یوسف آیت ۹۲

(۲۳)   ابن سعد ، محمد ۲۳۰ھ (طبقات ) ترجمہ عبد اللہ عمادی، نفیس اکیڈمی کراچی ج۱ص۴۳۰

(۲۴)   القرآن الحکیم، سورۃالفتح آیت ۲۸

(۲۵)   دہلوی ، شاہ ولی اللہ ۱۱۷۶ھ (ازالۃ الخفاعن خلافتہ الخلفاء )قدیمی کتب خانہ کراچی ج۱ص۴۳ ، مقصد اول

(۲۶)   القرآن الحکیم، سورۃالمجادلہ آیت ۲۱

(۲۷)   الآلوسی (روح المعانی )جزء ۱۸ ص ۲۰۵

(۲۸)   القرآن الحکیم، سورۃالنور آیت ۵۵

(۲۹)    القرآن الحکیم، سورۃالاعراف آیت ۱۶۸

(۳۰)   القرآن الحکیم، سورۃالاعراف آیت ۱۶۷

(۳۱)    القرآن الحکیم، سورۃآل عمران آیت ۱۱۲

(۳۲)   القرآن الحکیم، سورۃفصلت آیت ۵۳

(۳۳)   القرآن الحکیم، سورۃالعنکبوت آیت ۲۲

(۳۴)   القرآن الحکیم، سورۃالشوری آیت ۳۱

(۳۵)   القرآن الحکیم، سورۃالانعام آیت۱۲۵

(۳۶)   القرآن الحکیم، سورۃالبقرۃ آیت ۱۶۴

(۳۷)  القرآن الحکیم، سورۃ یس آیات ۴۱۔۴۲

(۳۸)   القرآن الحکیم ، سورۃ النحل آیت ۸

٭٭٭

ماخذ: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی جرنل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید