FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

قرآن، سائنس اور انسان۔ نظریۂ ارتقاء: حقیقت کیا ہے؟

 

 

 

ڈاکٹر دلدار احمد علوی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

تعارف

 

’’قرآن، سائنس اور انسان۔ نظریۂ ارتقاء:  حقیقت کیا ہے؟‘‘ میں انسان کی حقیقت و فطرت، اس کی تخلیق و ارتقاء، اس کے مقصد و نصب العین اور اس کے مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو سمجھے تاکہ اس پر واضع ہو کہ کائنات میں اس کا مقام کیا ہے۔ اس طرح وہ یہ جان سکتا ہے کہ اس کے اندر کیا کیا صلاحیتیں پوشیدہ ہیں جنھیں فروغ دے کر وہ کن رفعتوں کی طرف پرواز کر سکتا ہے۔  انسان کی حقیقت کا سوال ان سوالوں میں سے ہے جن پر مذہب اور سائنس دونوں کچھ نہ کچھ کہنا چاہتے ہیں (بلکہ یہ فلسفہ اور تصوف اور سماجی علوم کا بھی اہم سوال ہے)۔  لیکن یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے مکمل جواب تک شاید ہم کبھی نہ پہنچ سکیں۔ یہ بات طے ہے کہ ’’عناصر میں ظہورِ ترتیب‘‘ سے جو چیز وجود میں آتی ہے، وہ انسان بہ حیثیتِ کل نہیں بلکہ اس کا صرف جسمانی پہلو ہے۔  مذہب انسان کے جس تسلسل (Continuity) کی بات کرتا ہے، اور عقل کئی حوالوں سے جس کا تقاضا کرتی ہے، اسے اگر مانا جائے، تو انسان میں ایک ایسے پہلو کے وجود کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں جو جسمِ انسانی کے مادی اجزا کے پریشان اور منتشر ہو جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ مگر اس کی نوعیت کیا ہے اور وہ جسم کے ساتھ کیسے اتّصال یا interact کرتا ہے، اس کا ہمارے پاس ابھی تک کوئی جواب نہیں۔

کتاب کے پہلے باب میں ہم نے انسان کی حقیقت کے اسی سوال کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جدید ماہرینِ علم اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ آخر میں ہم نے علامہ اقبال اور دیگر اہلِ فکر کے حوالے سے قرآن کے تصورِ انسان پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔

حیاتیات کے مطابق حیاتی دنیا کی رنگ برنگیت اور تنوّع (Diversity) طویل ارتقاء (Evolution) کا نتیجہ ہے۔ مگر یہ ارتقاء کیسے ہوا، اس پر ایک سے زیادہ نظریات ہیں۔  ڈارون کا نظریہ (ڈارونزم) ان میں سے ایک ہے۔  عام طور پر لوگ ارتقاء اور اس کے نظریات میں فرق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں ارتقاء اور ڈارونزم ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ دوسرے باب میں ہم نے اس اہم مسئلہ کی طرف قارئین کی توجہ دلائی ہے۔ حیاتیات دان اور دوسرے سائنسدان ارتقاء کو ایک علمی صداقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، جبکہ عام طور پر ڈارون کے فطری انتخاب (Natural selection) کے نظریہ کو اس کی جدید شکل میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ارتقاء کو اس کے درست تناظر میں سمجھیں۔  کئی لوگ ڈارون پر تنقید کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ارتقاء کا رد کر دیا ہے، یہ درست نہیں۔  ارتقاء کا کوئی نظریہ رد بھی ہو جائے تو بھی ارتقاء کے تصور اور فلسفہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ زندہ اشیاء کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے، لہٰذا ارتقاء کا تصور درست نہیں۔ اسی طرح، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ زندہ اشیاء طویل ارتقاء کے ذریعے سے پیدا ہوئی ہیں لہٰذا تخلیق کی تشریح کے لئے کسی خدا کی کوئی ضرورت نہیں۔ تیسرے باب میں ہم نے اس مسئلہ کا جائزہ لیا ہے۔  حاصلِ کلام یہ ہے کہ خدا کے وجود اور ارتقاء میں کوئی تضاد نہیں۔ ارتقاء اصل میں خدا کا طریقۂ تخلیق ہے۔  یہ وہ سلسلۂ عمل یا  Processہے جس کے ذریعے خدا نے تمام جانداروں اور انسان کو تخلیق کیا ہے۔

بعض اوقات انسان کے مذہبی معتقدات یا مذہبی متون و عبارات (Texts) کی ایک یا دوسری تعبیر و تشریح کسی حقیقت کے ماننے میں آڑے آ جاتی ہے۔ چوتھے باب میں ہم نے ارتقاء اور مذہب کے باہمی تعلق کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ لفظ پرستی، لُغوی تعبیر پر اصرار، اور مذہبی حوالے سے ہمارے جذباتی رویے وہ عوامل ہیں جو عام طور پر ہمیں ارتقائی سائنس کی دریافتوں کی قدر و قیمت سے بے بہرا رکھتے ہیں۔  تخلیق (Creation) اور ارتقاء (Evolution) ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ تخلیق مجموعی نتیجہ ہے، جبکہ ارتقاء وہ سلسلۂ عمل (Process) ہے جس سے تخلیق ظہور میں آتی ہے۔ اللّہ تعالیٰ خالق بھی ہے اور ربّ بھی، لہٰذا تخلیق اور ارتقاء میں کوئی تضاد نہیں۔

عام طور پر مسلمان نظریۂ ارتقاء کو ایک ایسا نظریہ سمجھتے ہیں جو جدید عہد میں مغرب میں پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء ایک قدیم نظریہ ہے، جس کی جڑیں تاریخ میں بہت گہرائی تک گئی ہوئی ہیں۔  یہ ازمنۂ وسطیٰ (Middle Ages) کے مسلم حکماء تھے جنھوں نے پہلے پہل اسے ایک باقاعدہ اور منظم نظریہ کی شکل دی۔ آج یہ ایک معلوم تاریخ ہے اور مشرق و مغرب میں اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اہلِ علم نے مسلمانوں کے ان علمی کارناموں اور Contributions کو عام طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔  پانچویں باب میں ہم نے مسلمانوں کو ان کے اس عظیم علمی ورثے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ باب اس موضوع پر تفصیلی بحث نہیں کرتا کیونکہ اس میں اس کی گنجائش نہ تھی۔ انٹر نیٹ پر اس حوالے سے وسیع مواد موجود ہے۔ دلچسپی رکھنے والے قارئین اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔  اطمینان کی بات ہے کہ جدید عہد میں بہت سے مسلم اہلِ علم، مفکرین اور اسکالرز ارتقاء کی قدر و قیمت کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہم نے اس باب میں چند ان معروف مسلم مفکرین کا حوالہ بھی دیا ہے جنھوں نے ارتقاء کے نظریہ کو ایک قابلِ قبول نظریہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کا تصور اسلامی تصورِ تخلیق کی بہترین طور پر تشریح کرتا ہے۔

روایتی اور مذہبی داستانوں میں تخلیق کا جو تصور ملتا ہے وہ عام طور پر اساطیری (Mythological) نوعیت کا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہی تصورات عام طور پر زبانِ زدِ عام ہیں۔ قرآنِ مجید کی تفسیر و تشریح میں جو کچھ لکھا اور بیان کیا گیا ہے، اس میں سے بہت کچھ پر نئے حقائق کی روشنی میں نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ کلامِ ربّانی اور فہمِ انسانی دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ جو چیز مستقل حیثیت رکھتی ہے وہ کلامِ ربّانی ہے۔ فہمِ انسانی ایک ارتقاء پذیر حقیقت ہے۔  چھٹے باب میں ہم نے انسان کی تخلیق کے قرآنی تصور کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ قرآنِ مجید سائنس کی کتاب نہیں لہٰذا اسے گویا ایک سائنسی ٹیکسٹ بُک کے طور پر پڑھنا درست نہیں۔ تاہم اس کی مختلف آیات کے مطالعے سے جو بنیادی تخلیقی اصول (Basic principles of creation) حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے فہم کے مطابق تدریجی اور ارتقائی تخلیق کے تصور کی تائید کرتے ہیں۔

قصۂ آدم کی روایتی تشریح عام طور پر معروف اور جانی پہچانی ہے۔ ہم نے ساتویں اور آٹھویں ابواب  میں اس کی تمثیلی تشریح (Allegorical interpretation) کی طرف اپنے قارئین کی توجہ دلائی ہے۔ قرآنِ مجید کا اسلوب ادبی ہے اور وہ اپنی بات عربیِ مبین اور بلند ترین علمی، فکری اور ادبی سطح پر کہتا ہے۔  روایتی تشریح کے برعکس، بہت سے مسلم اہلِ علم قرآن کے قصۂ آدم کو کل نوعِ انسانی کی تمثیل قرار دیتے ہیں۔ قارئین کے لئے یہ ایک دلچسپ مطالعہ ہو گا۔  ’’آدم‘‘کا قصہ قدیم اساطیر اور مذہبی روایتوں میں بھی آیا ہے۔  مگر قرآن کا قصۂ آدم اس کا اپنا ہے، اس کی Theme اور فلاسفی ہی مختلف ہے۔ اس میں خدا اور ملائکہ، خدا اور ابلیس، اور خدا اور آدم کے درمیان مکالمے ہیں جو نہایت پُر معنی ہیں۔ ان سے نہایت اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں۔  قرآن کا تصورِ انسانیت، کائنات میں انسان کا مقام و مرتبہ، اس کی ظاہری و باطنی صلاحیتیں، اس کا نصب العین، اور خدا کے اس سے مطالبات اور تقاضے، ہر چیز نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔

ہماری یہ کتاب انسان کی حقیقت اور تخلیق کو سمجھنے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے۔  یہ اصل میں ایک ابتدائی نوعیت کا کام ہے، جس پر مزید وسیع تر اور عمیق تر کام کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ہو سکا ہم نے ذاتی میلانات اور تعصبات سے بلند ہو کر موضوعِ زیرِ بحث کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔، اور مطالعہ اور غور و فکر کا نچوڑ بلا کم و کاست قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اس عاجزانہ کاوش کو قبول فرمائے۔

کتاب میں قرآنی آیات کا ترجمہ عام طور پر پیر کرم شاہ الازہری کے ’جمال القرآن‘ اور مولانا امین احسن اصلاحی کی ’تدبر القرآن‘ سے لیا گیا ہے۔ جہاں جہاں ضروری سمجھا علامہ محمد اسد کے The Message of the Qur’an سے انگریزی ترجمہ بھی شامل کیا ہے، تاکہ آیات کے مفہوم کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔

کتاب میں جن کتب یا مآخذ کے اقتباسات پیش کئے گئے، یا حوالے دئے گئے ہیں ان کی تفصیل کتاب کے آخر میں ’کتابیات‘ کے عنوان سے دی گئی ہے۔

اس موقع پر ان احباب کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے جنھوں نے اس کتاب کے اس شکل میں آپ کے ہاتھوں میں آنے میں کسی نہ کسی شکل میں معاونت کی ہے۔ پروفیسرحافظ عتیق الرحمٰن استاد علومِ اسلامی، ایف سی کالج لاہور نے اس کتاب کا تفصیلی مطالعہ کیا اور نہایت اہم مشوروں سے نوازا۔  اس طرح پروفیسر طاہر مسعود استاد شعبۂ اردو، ایف سی کالج، اور محترم غلام محی الدین، سینئر صحافی روزنامہ ایکسپریس لاہور نے بعض ابواب  کا مطالعہ کیا اور اس کی زبان و بیان کے حوالے سے عمدہ تجاویز دیں۔  نوجوان شاعر کاشف بٹ نے کتاب کی تسہیل میں معونت کی۔  اسی طرح پروفیسر سلیم عباس قیصر نے کتاب کے بعض ابواب  کا مطالعہ کیا اور ترتیب و پیشکش کے حوالے سے اپنی آراء سے نوازا۔ ان تمام دوستوں کا میں دل کیا تھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی گو نا گون مصروفیات میں سے اس کتاب کے لئے وقت نکالا۔  پروفیسر قیصر نے کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں جو معاونت کی ہے، میں اس پر بھی ان کا ممنون ہوں۔

اس موقع پر محترم خالد پرویز صاحب، خالد بک ڈپو، اردو بازار، لاہور، کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا اور اپنے ادارے سے نہایت خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ اسے شائع کر کے آپ تک پہچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

آخر میں اپنی اہلیہ محترمہ سعیدہ علوی کا بہت بہت شکریہ جنھوں نے اس کتاب کی تحقیق اور تحریر اور اشاعت کے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی۔

ڈاکٹر دلدار احمد علوی

لاہور، پاکستان

۹ نومبر ۲۰۰۹ (یومِ اقبالؒ)

 

 

 

 

 

باب 1: انسان کی حقیقت

(Nature of Human Being)

 

میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟ میں کہاں سے آیا ہوں؟ میری ہستی، میرے وجود کا راز کیا ہے؟

 

انسان کی حقیقتِ اصلی (Nature or Actual Reality) کا سوال وجود و ہستی کے اہم ترین سوالات میں سے ہے۔  جب سے انسان نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا ہے، وہ یہ سوال اُٹھاتا آیا ہے کہ وہ اپنی آخری نوعیت (Ultimate Reality) کے اعتبار سے کیا ہے، کون ہے؟ دوسرے لفظوں میں، ہم انسان کی کوئی جامع تعریف (Definition) کس طرح کر سکتے ہیں؟ انسان کا جسم ہمارے سامنے ہے، یہ اس بات کا اظہار ہے کہ انسان ایک حیاتیاتی وجود (Biological Being) ہے۔  مگر کیا انسان صرف ایک حیاتیاتی وجود ہے یا یہ کہ اس کی حقیقت اس سے بڑھ کر ہے؟ یعنی دوسرے حیوانوں (مثلاً چمپنزیوں Chimpanzees) سے انسان کا فرق و اختلاف محض کمیتی اور مقداری (Quantitative) ہے، یا اس فرق کی نوعیت کیفیتی (Qualitative) ہے؟ کیا روح (Soul) وجود رکھتی ہے؟ اگر ہاں تو روح اور بدن کے باہمی تعلق کی نوعیت (Nature of mutual relationship) کیا ہے؟

انسان کیا ہے؟ یہ ایک تھکا دینے والا سوال ہے، ایک ایسا سوال جس کا مکمل جواب شاید ہم کبھی حاصل نہ کر سکیں۔  لیکن اہلِ علم و عرفان ہر دور میں اسے اُٹھاتے اور اپنے اپنے انداز میں اس کا جواب دیتے رہے ہیں۔ اس کی اہمیت کو یہ کہ کر اجاگر کیا جاتا رہا ہے کہ ’’جس نے اپنے آپ کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا‘‘ (من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ)۔

انسان ایک جاندار (Living Being) ہے۔  یہ چیز اسے جمادات اور بے جان چیزوں (Nonliving things) سے علیحدہ کرتی اور پودوں اور حیوانوں کے ساتھ ملاتی ہے۔  حیاتیاتی اعتبار سے (Biologically) انسان حیوانات کے زمرے میں آتا ہے۔  مگر کیا یہ حیوان محض (Mere Animal) ہے، یا اُس کی حقیقت میں کو ئی ایسا پہلو یا عنصر (Dimension) موجود ہے جو اُسے دوسرے حیوانات سے واقعی بلند کرتا اور امتیازی حیثیت دیتا ہے؟

 

جدید سائنسدانوں کے نظریات

 

جدید محققین نے اپنے اپنے میلانِ طبع اور نظریاتی پسِ منظر کے مطابق انسان کی حقیقت اور ما ہیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر فرانس ڈی وال (Frans de Waal) جو کہ نفسیات کا استاد ہے، لکھتا ہے:

"Human nature simply cannot be understood in isolation from the rest of nature”. (p. 4)

[ ’’ہم فطرتِ انسانی کو باقی دنیا سے علیحدہ کر کے نہیں سمجھ سکتے‘‘۔]

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے اور بس۔  وہ مزید لکھتا ہے:

"Our intellect may be superior, but we have no basic wants or needs that cannot also be observed in our close relatives. I interact daily with chimpanzees and bonobos, which are known as anthropoids precisely because of their human-like characteristics. Like us they strive for power, enjoy sex, want security and affection, kill over territory, and value trust and cooperation. Yes, we use cellphones and fly airplanes, but our psychological make-up remains that of a social primate.” (p. 5)

[’’ہماری عقل بڑھیا ہو سکتی ہے لیکن ہمارے بنیادی تقاضے اور ضرورتیں بالکل وہی ہیں جو (ارتقائی اعتبار سے) ہمارے قریبی رشتہ داروں کی ہیں۔  میرا چمپنزیوں اور بنوبوں سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے، جنہیں اینتھروپائڈز (بشر نما) کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں انسانوں کی طرح کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔  ہماری طرح وہ بھی طاقت و اختیار کے لیے تگ و دو کرتے، جنس سے لذت اندوز ہوتے، تحفظ اور محبت کی خواہش کرتے، علاقہ پر ایک دوسرے کو قتل کرتے، اور اعتبار اور تعاون کی قدر کرتے ہیں۔  جی ہاں، ہم سیل فون استعمال کرتے اور ہوائی جہاز اڑاتے ہیں، مگر ہماری نفسیاتی بناوٹ ایک سماجی پرائمیٹ (social primate) کی ہی رہتی ہے‘‘۔ ]

چنانچہ، پروفیسر فرانس کے نزدیک انسان محض ایک ترقی یافتہ حیوان (Developed Animal) ہے۔  اس کا اپنے قریبی حیوانات سے فرق محض مقداری اور کمیتّی ہے۔  کیفیت اور حقیقت میں کوئی فرق نہیں۔

مگر تمام سائنسدان اس رائے کے حامل نہیں۔ پروفیسر جیفری ملر (Geoffrey Miller) انسان کی فطرت پر روشنی ڈالنے والی چند تحقیقات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"Each new finding like this illustrates how new evolutionary theories can lead to discoveries that were never predicted by the standard "blank slate” view of human behaviour.

Still, evolutionary psychologists must guard against complacency. We should not imagine that we have discovered every important facet of human nature, or that, evolutionary theory as it exists circa 2009 has told us everything we need to know about the selection pressures that have shaped human nature.”) p. 20-21)

[’’اِس طرح کی ہر نئی دریافت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کس طرح نئے ارتقائی نظریات کی بنیاد پر ہم انسانی فطرت کے ان پہلوؤں کو جان سکتے ہیں جن کی پیشین گوئی ’’خالی تختی‘‘ کے معیاری نظریہ کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی تھی۔  لیکن پھر بھی ارتقائی نفسیات دانوں کو مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے۔ ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ہم نے فطرتِ انسانی کا ہر اہم پہلو دریافت کر لیا ہے، یا یہ کہ ارتقائی نظریہ جیسا کہ وہ 2009 میں موجود ہے، نے ہمیں ہر وہ بات بتا دی ہے جس کی ہمیں اُن انتخابی دباؤوں کے جاننے کے لیے ضرورت ہے جنہوں نے فطرتِ انسانی کی تشکیل کی ہے‘‘۔ ]

گویا، اصولی طور پر اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ارتقائی نظریہ فطرتِ انسانی کی تشریح کر سکے، لیکن عملی طور پر اس منزل سے ابھی ہم بہت پیچھے ہیں۔

پروفیسرجون رفگارڈن (Joan Roughgardan) کے بقول:

"Evolutionary science has much more work to do before it can explain our more abstract traits.” (p.23)

[’’ ارتقائی سائنس کو اس قابل ہونے کے لیے کہ وہ ہمارے زیادہ تجریدی خواص کی تشریح کر سکے، ابھی بہت زیادہ کام کرنا ہو گا۔‘‘]

اس نقطۂ نظر کا حاصل یہ ہے کہ دنیا لا محدود ہے اور ہماری قوتیں، لیاقتیں اور وقت محدود، لہٰذا اس بات کا امکان غالباً نہ ہونے کے برابر ہے کہ ہم سائنسی تحقیق کے ذریعے کبھی انسان کی اصل حقیقت کو جان سکیں (ایضاً، صفحہ 25)۔

اس کے برعکس، بہت سے دوسرے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم سائنس کے ذریعے انسان کی حقیقت کا صرف جزوی علم ہی حاصل کر سکتے ہیں۔  پروفیسر مارٹن نووک (Martin Nowak) لکھتا ہے:

"I am deeply fascinated by evolution, and I wish to expand the boundaries of evolutionary explanation as far as possible. Yet I do not think that all aspects of human nature can be explained by evolution.” (p. 26)

[’’ارتقاء میرے لیے نہایت مسحور کن ہے اور میری خواہش ہے کہ ارتقاء کی وضاحتی حدود کو جس حد تک ممکن ہو پھیلایا جائے۔  اس کے باوجود میں یہ سوچ نہیں سکتا کہ فطرتِ انسانی کے تمام پہلوؤں کی وضاحت ارتقاء کے (نظریہ) سے ہو سکتی ہے‘‘۔

وہ مزید لکھتا ہے:

….”I realize that science does not give complete analysis of human existence. We are all confronted by questions concerning the mystery and purpose of life which cannot be answered by natural selection alone.” (p. 28)

[’’میرا احساس ہے کہ سائنس انسانی وجود کے مکمل تجزیہ سے ہمیں روشناس نہیں کرتی۔  ہم سب ایسے سوالات کا سامنا کر رہے ہیں جن کا تعلق زندگی کے مقصد اور اسرار و رموز سے ہے۔  یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تنہا فطری انتخاب (کے نظریہ) کی بنیاد پر نہیں دیا جا سکتا۔‘‘]

اسی طرح کے خیالات کا اظہار پروفیسر فرانسسکو جے ایالا (Francisco J. Ayala) نے کیا ہے۔  وہ لکھتا ہے:

"Science is a way of knowing but it is not the only way. Evolution tells us much, but certainly not everything, about human experience and human predicament.” (p. 35)

[’’سائنس جاننے کا ایک ذریعہ ہے، مگر یہ واحد ذریعہ نہیں۔  ارتقاء ہمیں انسانی تجربہ اور انسانی حالتِ زار کے متعلق بہت کچھ بتاتا ہے، مگر یقینی طور پر سب کچھ نہیں۔‘‘]

اس نقطۂ نظر کے مطابق انسان کی حقیقت صرف جزوی طور پر ہی سائنس کے دائرے میں آتی ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان میں ایک ایسا پہلو یا جہت موجود ہے جو ماورائے مادہ یا روحانی حقیقت کی حامل ہے۔ معروف ماہرِ جینیات (Geneticist) فرانسس کولنز (Francis Collins) کے خیال میں انسانی فطرت کو سائنس کی بنیاد پر مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔  وہ انسان کے روحانی پہلو (spiritual aspect) پر ایمان رکھتا ہے (فرانسس کولنز، صفحہ 18)۔  وہ کہتا ہے کہ ڈارون کے نظریہ کے حق میں زبردست شہادتیں موجود ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ معروف ماہرِ جینیات اور ارتقائی نظریہ ساز تھیوڈوسیئس ڈوب زہنسکی (Theodosius Dobzhansky) کے اس جملہ کو دہراتا ہے جو اس نے کئی عشرے پہلے لکھا تھا:

"Nothing in biology makes sense except in the light of evolution”.

(’’حیاتیات میں کوئی چیز اس وقت تک قابل فہم اور بامعنی نہیں جب تک کہ اُسے ارتقاء کی روشنی میں نہ دیکھا جائے۔‘‘)

کولنز کے نزدیک اس میں نوعِ انسانی بھی شامل ہے۔  تاہم، کولنز ارتقاء کو خدا کے طریقۂ تخلیق کے طور پر دیکھتا ہے:

"We see evolution as God’s method for creation and what an elegant method it is! ” (p. 16)

ارتقاء میں انسانی وجود کے جس پہلو سے بحث کی جاتی ہے اور کی جا سکتی ہے، وہ حیاتیاتی پہلو (Biological Aspect) ہے۔  اگر انسان کے وجود میں کوئی پہلو ایسا موجود ہے جو اس کے حیاتیاتی پہلوسے بالاتر ہے، تو یقینی طور پر اُس کی تشریح ارتقاء یا بطورِ مجموعی، سائنس کے ذریعے نہیں کی جا سکتی ہے۔  انسان کے اس پہلو کے لیے عام طور پر روح (Soul) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔  ایک ماورائے مادہ روح اگر موجود ہے تو اس کی نوعیت یقینی طور پر مابعد الطبیعاتی (Metaphysical) ہو گی۔  لہٰذا، ہم سائنس کے ذریعے اُس کا مطالعہ یا تشریح نہیں کر سکتے۔  ’’سائنس اور مذہب‘‘ کا معروف اسکالر ایان باربر (Ian Barbour) لکھتا ہے:

"An immaterial soul would be inaccessible to scientific investigation. Its existence could neither be proved nor disproved scientifically.” (p. 82

[’’ایک غیر مادی روح سائنسی تحقیق کے لیے ناقابل رسائی ہو گی۔  سائنسی طور پر نہ تو اس کے وجود کا اثبات کیا جا سکتا ہے اور نہ نفی۔‘‘]

 

حقیقتِ انسانی اور قرآن

 

صرف روح کی اپنی نوعیت ہی نہیں، جسم کے ساتھ اُس کے تعلق کی نوعیت کی وضاحت بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ عام طور پر مذاہب نے روح کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔  تاہم جسم اور روح کے باہمی تعلق کی نوعیت پر ایک سے زیادہ آراء ہیں۔  یہ ایک مبہوت کن سوال ہے جس کا حتمی جواب شاید کبھی نہ دیا جا سکے۔  تاہم اس کے تمام اطراف و جوانب کا احاطہ کرنے کے لیے ایک علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔  ہماری اس کتاب کا ایک مختصر باب اس کے لیے کافی نہیں۔  تاہم ہم چاہیں گے کہ قرآنِ مجید کے حوالے سے اس مسئلے پر کچھ روشنی ڈالی جائے تاکہ قارئین کو مزید تحقیق کے لیے ایک بنیاد مل سکے۔

قرآن مجید اشیاء کی حقیقت اور نوعیت سے ایک سائنسدان یا فلسفی کی طرح بحث نہیں کرتا۔  یہ بات اُس کے لیے بطورِ کتابِ ہدایت فطری ہے کیونکہ ایسا کرنا اُس کے مقصد سے خارج ہے۔  سائنسی اور فلسفیانہ مباحث کو وہ انسان کی اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں کے حوالے کرتا ہے۔  اشیاء کی حقیقتِ اصلی (Actual reality) ہزار ہا پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔  یہ کام انسان کی جستجو یء دریافت، اس کے تجسس اور حقیقت کی تلاش کے ذوق و شوق کا ہے کہ وہ ان پردوں کو ممکنہ حد تک ایک ایک کر کے اٹھاتا جائے۔  مختلف انسانی علوم یہی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔  پھر یہ کہ انسان ایک با شعور اور ارادہ و اختیار (Free will) رکھنے والی مخلوق ہے۔  لہٰذا فطری طور پر، خدا پر ایمان اُس کے آزاد ارادے پر چھوڑا گیا ہے۔  اس کا تقاضا یہ ہے کہ شک کی گنجائش ہمیشہ رہے۔  اگر حقیقت ساری کی ساری بالکل عیاں ہو کر سامنے آ جائے تو انکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ اور یہ چیز انسان کی تخلیق کے مقصد اور غایت کے خلاف ہے۔  انسان عقل و شعور کا حامل وجود ہے، کوئی روبوٹ یا مشین نہیں۔  قرآنِ مجید انسان سے اُس کی آزادی سلب نہیں کرتا۔  ڈاکٹر نعیم احمد نے بجا تحریر کیا ہے:

’’قرآن کی رُو سے تمام مابعد الطبیعاتی حقائق متشابہات کے ضمن میں آتے ہیں۔  وہ حقائق جو حواس سے ماورا ہوں، اور عقل انسانی اُن تک پہنچنے سے عاجز ہو، اُن کے اظہار کے لیے جو بیانات قرآن میں آئے ہیں، ان میں اشتباہ اور احتمال کا پایا جانا قطعاً فطری امر ہے‘‘۔ (صفحہ 198)

اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن تھا کہ وہ انسان کو اس کی اصل حقیقت سے آگاہ کر دیتا، مگر ایسا کرنے سے انسان کی وہ آزادی سلب ہو جاتی جو اسے اس کی امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی اس اسکیم کے خلاف تھا جس پر اس نے انسان کو تخلیق فرمایا ہے۔

علمی سطح پر کسی چیز کو سمجھنے اور بیان کرنے کے لیے زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔  عام اور سطحی حقیقتوں کو سادہ زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔  لیکن حقیقت جتنی گہری ہو گی، اس کے لیے اتنی ہی زیادہ ترقی یافتہ زبان کی ضرورت ہو گی۔  انسان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک نہایت پیچیدہ، گہرا اور عملی طور پر ناقابل فہم وجود ہے۔  اس کی حقیقت سے ابھی پردے اُٹھنے شروع ہوئے ہیں۔  کیمیا، حیاتیات، نیورو سائنس اور نفسیات سمیت مختلف علوم نت نئی دریافتیں کر رہے ہیں۔  نئی اصطلاحیں، فارمولے، علامتیں، استعارے اور (ریاضیاتی اور کیمیاتی) مساواتیں تشکیل پا رہی ہیں۔  چنانچہ، ہم وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی حقیقت کو بہتر سے بہتر طور پر سمجھتے جا رہے ہیں۔  لیکن ہماری منزل دور اور راستہ سخت دشوار ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، انسان ایک وجودِ اخلاقی (Moral Being) ہے۔  لہٰذا وہ اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔  آخرت کا تصور کسی نہ کسی شکل میں دُنیا کے تمام مذاہب میں موجود ہے۔  یہ حقیقت ہم سب کے سامنے ہے کہ انسان جسمانی سطح پر موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔  لہٰذا، انسان کی ہستی کے تسلسل (Continuity) کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان میں کسی ایسے ماورائے مادہ عنصر یا پہلو کو مانا جائے جو اُس کے مادی جسم کے فنا ہو جانے کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔  علامہ اقبال نے ایک مقام پر اسے ’’وجود کا مرکز‘‘ قرار دیا ہے:

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے

انسان کے اسی ماورائے مادہ پہلو، یا وجود کے مرکز، کو عام طور پر روح کا نام دیا جاتا ہے۔  مذہبی اعتبار سے اگرچہ روح کو مانے بغیر چارہ نہیں، لیکن ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ اُس کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہ اُس کا جسم کے ساتھ اتصال (Contact) کیسے ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں روح کا لفظ مختلف شکلوں میں کئی مقامات پر آیا ہے۔  تاہم مختلف سیاق و سباق میں اس کا استعمال مختلف معنوں میں ہوا ہے۔  سورہ السجدہ (32: 9) میں ہے

ثم سوّٰہ ونفخ فیہ من روحہ

’’پھر اُسے درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘

….”Then He forms him in accordance with what he is meant to be, and breaths into him out of His spirit …” (Asad)

’’درست کیا‘‘ سویّٰ کا سادہ ترجمہ ہے، اصل میں اس میں انسان کے ارتقاء کا پورا پروسیس بیان کر دیا گیا ہے۔  یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا جیسا کہ اس کے مقصدِ تخلیق کے اعتبار سے اسے ہونا چاہیے۔  ’ ’اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘ سے کیا مراد ہے؟ علامہ محمد اسد لکھتے ہیں:

"God’s "breathing of His spirit into man” is a metaphor for the divine gift of life and consciousness, or of a "soul”. Consequently, the soul of every human being is of the spirit of God.” (Razi) (Note 9, 32: 9)

یعنی قرآن کا یہ کہنا کہ ’’خدا نے انسان میں اپنی روح میں سے پھونکا‘‘ اصل میں اس بات کا استعاراتی بیان ہے کہ اس نے انسان کو زندگی اور شعور کی نعمت عطا کی ہے۔ گویا، یہ مجازی کلام ہے اور اس سے مراد خدا کا انسان کو زندگی اور شعور عطا کرنا ہے۔  (مزید دیکھیں سورہ الحجر 15: 29، اور سورہص 38: 72)

ایک اور مقام جہاں روح کا لفظ بہت سے مفسرین کے نزدیک روحِ انسانی کے معنوں میں آیا ہے، سورہ الاسرا (17: 85) ہے:

ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلاo

’’اور یہ آپ سے روح کی حقیقت کے متعلق دریافت کرتے ہیں (انہیں) بتائیے:  روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے‘‘۔

تاہم، بہت سے مفسرین نے یہاں روح سے مراد وحی لی ہے۔ علامہ محمد اسد نے اس کے لیے inspiration divine کے الفاظ استعمال کیئے ہیں۔  اِن مفسرین کی دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے اور بعد کی آیات کا واضح طور پر تعلق قرآن مجید سے ہے، لہٰذا سیاق و سباق اور نظمِ قرآنی کا تقاضا یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد وحیِ ربّانی (Divine Revelation) ہی لی جائے۔  یہ بات معلوم ہے کہ روح کا لفظ قرآن مجید میں کئی مقامات پر وحیِ ربانی کے معنوں میں آیا ہے (مثلاً دیکھیں سورہ النحل 16: 2)۔

قطع نظر اس سے کہ یہاں روح سے مراد روحِ انسانی ہے یا وحیِ ربانی، قرآن اسے ایک ایسی حقیقت قرار دیتا ہے جس کے متعلق انسان کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔  گویا، یہ ہستی اور وجود کے اُن سربستہ رازوں میں سے ہے جن کی حقیقت تک انسانی ادراک کی رسائی نہیں۔

قرآن مجید نے انسان کی حقیقت کے اظہار کے لیے جو لفظ عام طور پر استعمال کیا ہے، وہ نفس ہے۔  نفس ایک کثیر المعنی لفظ ہے۔ علامہ محمد اسد نے اس کے یہ معنے لکھے ہیں:

"soul, spirit, mind, animate being, living entity, human being, person, self (in the sense of a personal identity) , humankind, life-essence, vital principle and so forth—” (Note on 4: 1)

سورہ الشمس (91: 7) میں ہے:

ونفسٍ وّمَا سَوّٰھاo فَالھَمھَا فجورھَا وتقوٰھا o قد اَفْلَحَ من زکھَاo وَقد خابَ من دَسّھَا o

’’شاہد ہے نفس اور جیسا کہ اسے درست کیا۔  پس اس میں اُس کا فجور اور تقویٰ الہام کر دیا، یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے اسے پاک کر لیا، اور یقیناً نامراد ہوا وہ جس نے اُسے خاک میں دبا دیا‘‘۔

علامہ محمد اسد نے اِن مشکل آیات کا خوبصورت ترجمہ اس طرح کیا ہے:

"Consider the human self, and how it is formed in accordance with what it is meant to be, and how it is imbued with moral failings as well as with consciousness of God! To a happy state shall indeed attain he who causes this (self) to grow in purity, and truly lost is he who buries it (in darkness) .”

یہاں نفس سے کیا مراد ہے؟ محمد اسد لکھتے ہیں:

"the term nafs… denotes here the human self or personality as a whole:  that is, a being coposed of a physical body and that inexplicable life-essence loosely deseribed as "soul”.”

یعنی، نفس یہاں مجموعی انسانی ذات یا شخصیت کی نمائندگی کر رہا ہے۔  ذاتِ انسانی یا انسانی شخصیت ایک ایسا وجود ہے جو دو چیزوں سے تشکیل پاتا ہے، ایک طبیعی جسم (Physical body) اور دوسری وہ ناقابل تشریح خلاصۂ حیات جسے ڈھیلے ڈھالے لفظوں میں ’’روح‘‘ کہا جاتا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ذاتِ انسانی جسم اور روح دو بنیادی عناصر (Constituents) سے تشکیل پاتی ہے۔  لیکن ان کے باہمی تعلق کی نوعیت نہایت پیچیدہ اور ناقابل تشریح ہے۔  مختلف فلسفیوں، صوفیوں اور دوسرے اہل علم نے اسے اپنے اپنے انداز میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔  اس سلسلے میں وحدت الوجود کا نظریہ اور دیکارٹ کا جسم اور ذہن کی ثنویّت کا نظریہ مشہور ہیں۔  علامہ اقبال نے اپنے تصورِ خودی میں اسے اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔  ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے اپنی کتاب ’’فکرِ اقبال‘‘ میں علامہ اقبال کے نظریات کی خوبصورت اور سہل انداز میں تشریح کی ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ نفس جو مرکز ادراک اور محورِ احوال ہے، اس کی حقیقت اتنی گہری ہے کہ استدلال اور بیان میں نہیں آ سکتی‘‘۔  (صفحہ 660)

عام عوامی رجحان کے برعکس، بہت سے مسلم مفکرین روح اور جسم کی ثنویت (duality) کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے۔

’’علامہ اقبال فرماتے ہیں، میں نفس اور بدن کی ثنویت کا قائل نہیں، کیونکہ مادہ کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتا‘‘۔  (ایضاً صفحہ 663)

’’نفس اور بدن کا باہمی ربط ایک اہم مسئلہ ہے مگر مادے اور نفس کی ثنویت روح کو ایک غیر فاعل ناظر بنا دیتی ہے‘‘۔  (ایضاً، صفحہ 662)

قرآنِ مجید انسان کو ایک واحد وجود کے طور پر مخاطب کرتا ہے۔  ذاتِ انسانی روح اور جسم دو چیزوں سے تشکیل پانے کے باوجود ایک وحدت ہے، جیسا کہ سورہ الشمس کی اوپر حوالہ دی گئی آیات (91: 7-10) کے مطالعہ سے ظاہر ہے۔

قرآن پاک کے مطابق خدا کی ہستی اور قدرت کی آیات یا نشانیاں، نہ صرف خارجی کائنات میں ہیں بلکہ خود انسانی وجود میں بھی ہیں۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان ان کا مطالعہ اور ان پر غور و فکر کرے۔

وفی الارض آیٰت للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون

’’اور زمین میں یقین والوں کے لئے آیات ہیں اور تمہارے وجود میں بھی۔  کیا تم دیکھو گے نہیں‘‘۔ (الزاریات 51: 20-21)

قرآن یہ بھی پیشین گوئیاں کرتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان معرفتِ نفس کے میدان میں آگے بڑھتا جائے گا۔

سنریھم آیٰتنا فی الافاق و فی انفسھم حتیٰ یتبیّن لھم انّہ الحق

’’ہم انہیں کائنات اور خود ان کے اپنے وجودوں میں اپنی آیات دکھائے جائیں گے حتیٰ کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے‘‘ (فصلت 41: 53)

یہ بات نہایت امید افزاء ہے۔  یہ در اصل انسان کے مزید ذہنی اور تہذیبی ارتقاء کی نوید ہے۔  جوں جوں وقت گزرے گا انسان اپنے گرد و پیش اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ حد تک جانتا چلا جائے گا۔  معرفت کا یہ سفر اُس کی ذات کی نشو و نما اور تکامل (Perfection) کی شکل میں ظاہر ہو گا۔

نصابِ ارتقائے دل ہے، عرفاں جس کو کہتے ہیں

تلاش یار رمزِ خود شناسی ہے حقیقت میں

انسان کے تکامل کی کہانی طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی۔  انسان کی آخری حقیقت کچھ بھی ہو، ہم اس کی ہستی کے مادی پہلو سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔  یہی وہ پہلو ہے جو سائنس کی، کم از کم اس وقت، جو لان گاہ ہے۔  حیاتیات، کیمیا اور دوسرے سائنسی علوم میں ہم جس چیز سے بحث کرتے اور کر سکتے ہیں، وہ بنیادی طور پر انسان کا یہی مادی اور حیاتیاتی پہلو ہے۔  یہ بات دلچسپ ہے کہ انسان کا یہ مادی وجود کیسے وجود میں آیا۔ اس سوال کے جواب کی ایک کوشش وہ ہے جسے ہم ارتقاء یا نظریۂ ارتقاء کے نام سے پہچانتے ہیں۔

 

 

 

 

 

باب 2: ارتقاء اور ڈارون

(Evolution and Darwin)

 

ارتقاء کیا ہے، اس کے نظریات کیا ہیں؟ کیا ارتقاء اور ڈارونزم ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں؟ ’ ’ڈارون بولا بوزنا ہوں میں‘‘ (اکبر الہ آبادی) کی حقیقت کیا ہے؟

 

’’ارتقاء‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’ترقی‘‘ کے مادے سے نکلا ہے۔  ارتقاء کا مفہوم درجہ بدرجہ اوپر چڑھنے اور ترقی پانے کا ہے۔  یہ انگریزی کے لفظ Evolution کا ترجمہ ہے۔  Evolution لاطینی زبان کے لفظ ’’Evolutio‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی کسی لپٹی ہوئی چیز کو کھولنا ہے۔

"The Latin evolutio means to unroll……” (Peter J. Bowler, P.8)

چنانچہ، لفظ Evolution کا اطلاق تبدیلی کے مختلف پہلوؤں پر کیا جاتا رہا ہے۔  حیاتیات (بیالوجی) میں اس کو پہلے پہل رحمِ مادر میں جنین کی نشو و نما کے معنوں میں استعمال کیا گیا (ایضاً، صفحہ 8)۔  جدید دور میں یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے (مثلاً دیکھئے انگریزی کی کوئی سی بھی اچھی ڈکشنری)۔  لیکن حیاتیات میں اس کا استعمال مخصوص معنوں میں ہوتا ہے، جس کی واضح طور پر وضاحت کے لیے ’’نامیاتی ارتقاء‘‘ یا ’’organic evolution‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

ارتقاء اور ڈارون ازم… ایسا لگتا ہے کہ یہ دو الفاظ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔  ارتقاء کہیں یا ڈارون ازم، ایک ہی بات ہے۔  لیکن ایسا سمجھنا درست نہیں۔  ارتقاء کے میدان میں ڈارون کا کام ناقابلِ فراموش ہے، لیکن وہ نہ تو پہلا شخص ہے جس نے ارتقاء کا تصور یا نظریہ پیش کیا اور نہ آخری۔  دنیا کی تاریخ میں ڈارون سے پہلے بہت سے ایسے مفکرین اور سائنسدان ملتے ہیں جنہوں نے ارتقاء کا تصور پیش کیا۔  خود یورپ کی تاریخ میں ڈارون پہلا آدمی نہیں جس نے اس نظریہ سے بحث کی ہو۔  ایک مغربی مصنف لارسن لکھتا ہے:

"The history of modern evolutionary science does not begin with Charles Darwin or even with biology.” (Larson, p.xvi)

[’’جدید ارتقائی سائنس کی تاریخ کا آغاز ڈارون سے نہیں ہوتا، اس کی ابتدا حیاتیات سے بھی نہیں ہوتی۔‘‘]

مزید براں، ہمیں ارتقاء (evolution) اور ارتقائی نظریات (theories of evolution) میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بطورِ تصور، ارتقاء آج سائنس کی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ یہ اصل میں اس سوال کا جواب ہے کہ جاندار، پودے اور حیوانات، کیسے وجود میں آئے۔  یہ خصوصی تخلیق کے نظریہ (Theory of special creation) کا متبادل ہے۔  خصوصی تخلیق کے نظریہ کے مطابق جانداروں کی انواع غیر تغیر پذیر ہیں اور یہ اپنی موجودہ شکلوں ہی میں تخلیق کی گئی تھیں۔  چاہے کتنا ہی زمانہ گزر جائے اور حالات چاہے کیسے ہی ہوتے جائیں، انواع خود کو برقرار رکھتی ہیں جبکہ تصور ارتقاء کے مطابق تمام جاندار سادہ ترین شکلوں سے مسلسل، درجہ بدرجہ، ترقی کرتے ہوئے موجودہ شکلوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔  انواع تغیر پذیر ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ مخصوص حالات کے تحت سادہ انواع زیادہ پیچیدہ انواع میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔  یہ تصور آج ارتقائی سائنس (evolutionary science) کہلاتا ہے۔  عمومی طور پر تمام سائنسدان اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔  اس نظریہ کے شواہد اتنے مضبوط ہیں کہ کوئی بھی باخبر سائنسدان اس سے اصولی اختلاف نہیں کرتا۔  ان معنوں میں ارتقاء ایک ایسا تصور ہے جس کی جڑیں ماضی میں بہت دور تک گئی ہوئی ہیں۔  بعض یونانی فلسفیوں نے اس کی طرف اشارے کئے ہیں۔  ازمنۂ وسطیٰ میں بہت سے مسلم مفکرین نے زیادہ تفصیل سے اس کی وضاحت کی ہے۔  جب بھی ارتقاء، تصورِ ارتقاء یا نظریۂ ارتقاء کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو ان سے مراد یہی حقیقت ہوتی ہے۔

اس کے برعکس، ارتقاء کے نظریات اس سوال سے بحث کرتے ہیں کہ ارتقاء ہوتا کیسے ہے؟ یہ ارتقاء کے طریقہ یا میکانزم (میکانیت) کا سوال ہے۔  ڈارون کا کام بنیادی طور پر اسی سوال سے تعلق رکھتا ہے۔  ڈارون نے اپنی تحقیق اورسوچ بچار کی بنیاد پر ارتقاء کا ایک میکانزم تجویز کیا جسے ڈارون کا نظریۂ ارتقاء یا ڈارونزم کہتے ہیں۔  ڈارون کے نظریہ کے ظاہری ڈھانچہ میں نئے حقائق کے پیش نظر رد و بدل ہوتا رہا ہے۔  آج اس کی جو شکل پائی جاتی ہے اسے جدید ڈارون ازم (نیوڈارون ازم NeoDarwinism) کہا جاتا ہے۔  ایک مغربی مصنف لارسن (Edward J. Larsan) نے اس نکتے کی وضاحت اس طرح کی ہے:

"…The terms "Darwinism” and "Neo-Darwinism” apply here only to the specific theory that evolution proceeds through the natural selection of minute, random, inborn variations, while the terms "evolution” and "evolutionism” apply to the general concept of descent with modification.” (p.107)

[ ’’ ڈارون ازم اور نیوڈارون ازم کی اصطلاحیں یہاں اس خاص نظریہ کے لیے استعمال ہوتی ہیں جس کے مطابق ارتقاء باریک، غیر منظم، پیدائشی تغیرات کے فطری انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔  جبکہ ارتقاء اور ارتقائیت کی اصطلاحوں کا اطلاق اس عمومی تصور پر ہوتا ہے جس کے مطابق سادہ انواع ترامیم و تغیرات کے ذریعے پیچیدہ انواع میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔‘‘]

بعض لوگوں کے خیال کے برعکس، سائنسدان ارتقاء کو عام مفروضہ (Hypothesis) نہیں مانتے۔ یہ سائنسی تعریف کے مطابق اگرچہ ایک نظریہ ہے، مگر ایک مضبوط نظریہ۔  حیاتیات میں اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی طبیعیات میں نظریۂ تجاذب (gravitation) کی۔ ورنن کیلوگ (Vernon Kellogg) کے الفاظ میں:

"….the descent of species is looked upon by biologists to be as proved a part of their science as gravitation in the science of physics.” (Larsan, p. 129)

ڈارون کی مشہورِ زمانہ کتاب ابتدائے انواع (The Origin of Species)  1859ء میں شائع ہوئی۔  اس سے تقریباً نصف صدی قبل، 1802ء میں فرانس کے مشہور سائنسدان لمارک (Lamarck) نے نامیاتی ارتقاء کا ایک جامع نظریہ پیش کیا تھا (لارسن، صفحہ 38)۔  لمارک کے نظریہ کو قلبِ ماہیت کا مفروضہ (the transmutation hypothesis) کا نام دیا گیا۔  اب اسے عام طور پر لمارک ازم (Lamarckism) کہا جاتا ہے۔  لمارک کے مطابق ارتقاء ’’اکتساب شدہ خصوصیات کے توارث‘‘ (Inheritance of acquired characters) کے ذریعے واقع ہوتا ہے۔  تاہم بعد کی سائنسی تحقیق سے اس نظریہ کے حق میں مضبوط شہادتیں حاصل نہیں ہو سکیں۔

ارتقاء کے مختلف نظریات میں سے ایک نظریۂ تبدل (theory of mutation) بھی ہے، جسے ایک ولندیزی نباتیات دان ڈی وریز (Hugo de Vries) نے 1890 ء کید ہائی میں پیش کیا تھا۔  اس کے مطابق نئی انواع جانداروں کے جینز (genes) میں تغیرات کے ذریعے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔  کئی وجوہ کی بنیاد پر اس نظریہ کو بھی وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔

لہٰذا، ڈارون کے نظریہ کی وسیع کامیابی اور پذیرائی کے باوجود یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ یہ ارتقاء کا واحد نظریہ ہے۔  ایک مغربی مصنف باؤلر (P.J Bowler) نے اس حقیقت کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے:

"There is no single theory of evolution, only an array of rival depictions of how new forms of life originate. Over the last century or more, biologists have tried out many different ideas, and nonscientists have expressed passionate support for some of the alternatives. In scientific biology, the Darwinian theory of natural selection has achieved dominant status following its synthesis with genetics in the mid-twentieth century.” (p. 8)

[’’ارتقاء کا کوئی ایک نظریہ نہیں، بلکہ کئی متحارب نظریات ہیں، جو زندگی کی نئی شکلوں کے وجود میں آنے کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں۔  حیاتیات دانوں نے گزشتہ صدی یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران بہت سے مختلف نظریات کو آزمایا اور غیر سائنسدانوں نے بعض متبادلوں کے لیے جذباتی تائید کا اظہار کیا۔  سائنسی حیاتیات میں فطری انتخاب کے ڈارونی نظریہ نے بیسویں صدی کے وسط میں جینیات کے ساتھ اپنے ملاپ اور ایتلاف کے بعد غالب نظریہ کا مقام حاصل کر لیا۔‘‘]

لہٰذا، یہ ایک علمی حقیقت ہے کہ ارتقاء اور ارتقاء کے نظریات دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ ارتقاء کے مختلف نظریات در اصل اس عام طور پر تسلیم شدہ حقیقت کی تشریح کرنا چاہتے ہیں کہ ارتقاء ہوا کیسے ہے۔  ڈارون کا نظریہ، ارتقاء کی تشریح کا ایک زبردست نظریہ ہے۔  اسے فطری انتخاب (Natural selection) کا نام دیا جاتا ہے۔  یہ نظریہ چارلس ڈارون نے 1859 میں اپنی کتاب The Origin of Species میں پیش کیا تھا۔ یہ بات معلوم ہے کہ ڈارون اس نظریہ تک کئی سال کی انتھک تحقیق، مطالعے اور غور و فکر کے بعد پہنچا تھا۔  اس کی کتاب کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانی سوچ کے دھارے کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود، ڈارون کا نظریہ کوئی جامد (static) شے نہیں ہے۔  چنانچہ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود اس میں ارتقاء ہوا ہے۔  اس کا مرکزی تصور اور روح برقرار ہے، تاہم نئے دریافت شدہ حقائق (مثلاً جینیات اور مالیکیولی حیاتیات کے میدانوں میں سامنے آنے والی حقیقتوں) نے ڈارون کے نظریہ کو رد و بدل سے ہمکنار کیا ہے۔  اس وقت حیاتیات میں اس کی حیثیت ایک ایسے نظریہ کی ہے جسے عام طور پر درست مانا جاتا ہے۔  تاہم یہ ممکن ہے کہ آگے چل کر اس سے کوئی بہتر نظریہ وجود میں آ جائے جو ارتقائی حقیقتوں کی زیادہ کامیابی کے ساتھ وضاحت کر سکتا ہو۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ارتقاء کے کسی نظریہ کے جزوی یا کلی طور پر غلط ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ارتقاء کا تصور بذاتِ خود درست نہیں رہا۔  فرض کریں کہ کل ڈارون کا نظریہ غلط ثابت ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ ارتقاء کا بنیادی فلسفہ ہی درست نہیں۔  بعض لوگ بالخصوص مذہبی جوشیلے ڈارون کو ہدف تنقید بناتے اور بزعم خود اسے غلط ثابت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے نظریہ ارتقاء کا رد کر دیا ہے۔  یہ بات ایک مغالطے اور خود فریبی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔

اگر ہم ڈارون سے اختلاف رکھتے ہوں تو بھی ہمیں اس کے کام کی قدر کرنی چاہیے۔  اس نے اپنا نظریہ کئی سالوں پر محیط وسیع تحقیق کی بنیاد پر قائم کیا اور مضبوط سائنسی دلائل کے ساتھ سمجھایا۔  یہی وجہ ہے کہ ڈارون کی تحقیقی کاوشوں سے خود ارتقاء کے تصور کو بھی تقویت حاصل ہوئی ہے۔

ارتقاء حیاتی شکلوں (Life forms) کے درمیان تعلق کو بیان کرتا اور انہیں ایک نقشہ یا پیٹرن (pattern) کی شکل دیتا ہے۔  ڈارون کا نظریہ اس پیٹرن کو سمجھنے اور اس کی منطق کو دریافت کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے۔ یہ نظریہ ان مادی اسباب اور ان کی کارفرمائی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جو بالآخر انواع کی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔

مگر کیا ارتقاء کا تصور اس بات کی نفی کرتا ہے کہ ایک خدا ہے، جو جانداروں کو پیدا کرتا ہے؟ کیا تصورِ ارتقاء اور تصورِ خدا ایک دوسرے کی ضد ہیں یا ان میں کوئی اور تعلق ہے؟ اس اہم سوال کا جائزہ ہم اگلے باب میں لیں گے۔

 

 

 

باب 3: ارتقاء اور خدا

(Evolution and God)

 

خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے یا انسان طویل ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے، اس میں تضاد کہاں ہے؟

 

انسان کیسے وجود میں آیا؟ یہ ایک نہیں بلکہ دو سوالات ہیں۔  ممکن ہے اس سوال کے ذریعے آپ یہ جاننا چاہتے ہوں کہ آیا انسان کا کوئی خالق ہے جس نے اس کی تخلیق کی ہے، یا پھر ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے اس سوال کے ذریعے اس طریقے کو جاننا چاہتے ہوں جس سے انسان وجود میں آیا ہے۔ پہلے سوال کی نوعیت مابعد الطبیعاتی (metaphysical) ہے اور دوسرے کی طبیعاتی (physical)۔  پہلے سوال کا تعلق در اصل خدا کے وجود و ہستی سے ہے، اور دوسرا محض طریقۂ کار یا میکانزم کا سوال ہے۔  پہلے سوال کے دو جواب ممکن ہیں۔  الٰہیاتی (theistic) اور دوسرا لا الٰہیاتی (atheistic)۔  الٰہیاتی جواب یہ ہے کہ ایک خدا ہے، جس نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے، وہی انسان کا خالق ہے۔  وہ لوگ جو خدا کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے، ان کا جواب لا الٰہیاتی ہوتا ہے۔  وہ مادہ اور مادی قوتوں ہی کو انسان کی تخلیق کا پہلا اور آخری سبب قرار دیں گے۔

یہ اصل میں کائنات کے متعلق دو مابعد الطبیعاتی نقطہ ہائے نظر ہیں۔  دنیا میں بطورِ مجموعی ان ہی دو نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں۔  الٰہیاتی نظریہ کے حامل لوگ ایک خالق پر ایمان رکھتے ہیں۔  اگرچہ یہ تصورِ خدا کی تفصیلات میں ایک دوسرے سے کسی نہ کسی حد تک اختلاف رکھتے ہیں۔  اس کے برعکس، لا الٰہیاتی نظریہ کے حامل لوگ کسی خالق کے وجود کے قائل نہیں۔  انہیں منکرینِ خدا اور مادیت پرست (Materialists) بھی کہا جاتا ہے۔  مسلمانوں کے ہاں انہیں دھر یے کا نام بھی دیا جاتا ہے۔  علمی زبان میں آج کل اس نقطۂ نظر کو نیچریت (نیچرلزم Naturalism) کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، اگرچہ اس کے ایک سے زیادہ استعمالات ہیں۔  ان دو نظریوں کی وضاحت کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے ’’سائنس اور مذہب‘‘ کے ایک معروف مفکر ایان باربر (Ian Barbour) لکھتے ہیں:

"Theism and naturalism are alternative belief systems, each claiming to encompass all reality.” (p. 5)

[’’ الٰہیت اور نیچریت دو متبادل عقائدی نظام ہیں، ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ کل حقیقت کا احاطہ کرتا ہے۔‘‘]

چنانچہ جہاں الٰہیت، کائنات اور کائناتی مظاہر کے پیچھے ایک خدا کی کارفرمائی کا اثبات کرتی ہے، نیچریت یا مادیت کے نزدیک کائنات کی آخری حقیقت مادہ اور صرف مادہ ہے۔  ایان باربر ہی کا کہنا ہے:

"Materialism is the assertion that matter is the fundamental reality in the universe.” (p.5)

وہ مزید لکھتا ہے:

"The materialist believes that all phenomena will eventually be explained in terms of the actions of material components, which are the only effective causes in the world.” (p. 5)

[’’مادیت پرستوں کا ماننا ہے کہ (کائنات کے) تمام مظاہر کی تشریح بالآخر مادی اجزا کے اعمال، جو کہ دنیا میں واحد موئثرعلتیں ہیں، کی اصطلاحوں میں ہو جائے گی‘‘۔ ]

ایک معروف مصنف جون ہاٹ (John Haught) کے الفاظ میں نیچرلزم یہ ہے:

"The belief that nature is all there is, that no overall purpose exists in the universe, is known broadly as naturalism.” (p.2)

[’’ یہ عقیدہ کہ نیچر ہی سب کچھ ہے اور یہ کہ کائنات میں کوئی مجموعی مقصد موجود نہیں، وسیع طور نیچرلزم کہلاتا ہے۔‘‘]

نیچرلزم در اصل ایک شخصی خدا کا انکار ہے۔ جون ہاٹ مزید لکھتا ہے:

"More often than not the term naturalism entails the explicit rejection of the personal God of Judaism, Christianity and Islam. It means the denial of any sacred principle of being that is distinct from nature itself.” (p. 8)

[’’اکثر نیچرلزم کی اصطلاح میں یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے شخصی خدا کے وجود کی نفی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔  یہ فطرت سے ممتاز کسی مقدس اصول یاہستی کی موجودگی کے انکار پر مبنی ہے۔‘‘]

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان معنوں میں نیچرلزم اور خدا پر ایمان دو ایسے نظریات ہیں جو ایک دوسرے کے متبادل ہیں۔  یہ در اصل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔  نیچرلزم خدا کے وجود پر ایمان نہیں رکھتی۔  وہ کسی چیز کی تخلیق میں صرف اور صرف مادی اسباب کی کارفرمائی کو تسلیم کرتی ہے۔

اب آئیے شروع میں اٹھائے گئے دوسرے سوال کی طرف۔  خدا نے انسان کو کیسے پیدا کیا ہے؟ پہلے سوال کی طرح اس سوال کے بھی دو جواب ہیں۔  ایک ارتقائی (evolutionary) اور دوسرا، غیر ارتقائی۔  غیر ارتقائی کو خصوصی تخلیق (Special Creation) بھی کہتے ہیں۔

یہ بھی در اصل دو نقطہ ہائے نظر یا نظریات ہیں۔  ارتقائی نظریہ، ارتقاء کو خدا کے طریقۂ کار کے طور پر دیکھتا ہے۔  جب کہ خصوصی تخلیق کے نظریہ کے مطابق خدا نے تمام جاندار انواع کو اسی شکل میں پیدا کیا ہے جس میں وہ اب ہیں۔  چنانچہ، ارتقائی نظریہ کے مطابق خدا نے انسان کو طویل ارتقائی عمل (evolutionary process) کے ذریعے تخلیق کیا۔  جبکہ خصوصی تخلیق کے نظریہ کے مطابق ابتدا میں خدا نے براہ راست، معجزانہ طریقے سے، ایک انسانی جوڑا (آدم اور حوا پر مشتمل) پیدا کیا۔  تمام نوعِ انسانی اس سے تولید و تناسل کے ذریعے رفتہ رفتہ پیدا ہوئی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ براۂ راست تخلیق کے ضمن میں مختلف مذہبی روایات میں جو تفصیلات ملتی ہیں وہ زیادہ تر اساطیری اور متھالوجیکل نوعیت کی ہیں جن میں علمی اور عقلی ربط تلاش کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ بہت سی روایات ایسی ہیں جنھیں عقل و منطق کے تقاضوں کو قربان کر کے ہی قبول کیا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر سائنسدان ارتقائی نظریہ کے قائل ہیں۔  کیونکہ اس کے حق میں طاقتور دلائل موجود ہیں۔  الٰہیاتی نظریہ (theistic) کے مطابق ارتقاء وہ طریقۂ کار ہے جس کے ذریعے خدا نئی نئی زندہ چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔  اس تصور کو الٰہیاتی ارتقاء (theistic evolution) کہتے ہیں۔  ایان باربر لکھتا ہے:

"While I accept the evidence for evolution, as almost all scientists do, I do not accept the philosopphy of materialism that is assumed or defended by many scientists.” (p.5)

یعنی، ’’میں ارتقاء کے حق میں موجود شہادتوں کو قبول کرتا ہوں جیسا کہ تقریباً تمام سائنسدان کرتے ہیں لیکن میں مادیت پرستی کے فلسفہ کو نہیں مانتا، جس کے بہت سے سائنسدان قائل ہیں‘‘۔

ہم نے شروع میں جن دو سوالوں کا ذکر کیا تھا، عام طور پر لوگ انہیں خلط ملط کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بات الجھ کر رہ جاتی ہے۔  آپ نے ایسے لوگوں کو سنا ہو گا جو کہتے ہیں، ’’انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے، لہٰذا نظریۂ ارتقاء غلط ہے‘‘۔  اسی طرح ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’انسان ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، لہٰذا خدا کا کوئی وجود نہیں‘‘۔

لیکن یہ دو علیحدہ سوالات ہیں۔ انہیں علیحدہ رکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔  الٰہیاتی نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، ہوا ہے، یا ہو گا اس کا حقیقی سبب اور علت بلا شک و شبہ ایک خدا کی مشیّت ہے۔  لیکن مشیت الٰہی چیزوں کو ایک نظام اور سلسلۂ عمل (process) کے ذریعے وجود میں لاتی ہے، جس پر عام طور پر لوگ توجہ نہیں دیتے، یا اس کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔  مثال کے طور پر قرآن مجید میں کئی مقامات پر کہا گیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے‘‘۔  مگر ہم جانتے ہیں کہ بارش ایک نظام کے تحت برستی ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت کہ بارش اللہ تعالیٰ برساتا ہے، اس بات کے خلاف نہیں کہ بارش ایک نظام یا process کے ذریعے برستی ہے۔  اسی طرح، یہ ایمان رکھنا کہ انسان کو خدا نے پیدا کیا ہے، اس بات کے خلاف نہیں کہ اس کی تخلیق ایک نظام اور Process کے ذریعے ہوئی ہے۔  ارتقائی سائنس میں اسی نظام یا پروسیس کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کا خدا پر ایمان کے ساتھ قطعی طور پر کوئی ٹکراؤ نہیں۔  اگر ارتقائی نظریہ درست ہے تو اس کی حیثیت یقینی طور پر اس طریقہ (Method یا Process) کی ہو گی جس کے ذریعے خدا نے انسان اور دوسرے جانداروں کو وجود عطا کیا ہے۔

لہٰذا، ارتقاء کی موجودگی، خدا کے وجود کی نفی نہیں کرتی۔  بلکہ ہم ایک قدم آگے بڑھ کر قرار دے سکتے ہیں کہ کائنات میں نظام یا process کی موجودگی بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بزرگ و برترہستی ایسی موجود ہے جس نے اس نظام کو قائم کیا ہے۔  لہٰذا تصورِ ارتقاء حقیقت میں خدا کے وجود و ہستی کے حق میں ایک مضبوط علمی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔  مزید براں، تصورِ ارتقاء اس حقیقت کی تشریح کرتا ہے کہ خدا نے گوناگوں جانداروں (نباتات اور حیوانات) کو کیسے پیدا فرمایا ہے۔  وہ لوگ جو تصورِ ارتقاء کے انکاری ہیں، ان کا دعویٰ صرف اس حد تک محدود رہتا ہے کہ جاندار غیر متبدل ہیں اور خدا نے ہر نوع (species) کو جداگانہ طور پر اسی شکل میں پیدا کیا ہے جس میں ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔  لیکن خدا نے انواع کی تخلیق کس طرح کی ہے، اس کا ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہوتا۔  اس کے برعکس، تصورِ ارتقاء ہمارے سامنے اس کی منطقی تشریح اور وضاحت کرتا ہے۔

چنانچہ، ارتقاء کا تصور ایک خوبصورت تصور ہے جو انسان (اور دوسرے جانداروں) کی تخلیق کو ایک منظم اور منطقی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔  مزید براں، یہ ہمارے لیے خدا کی معرفت کا ایک زبردست ذریعہ اور وسیلہ بھی مہیا کرتا ہے۔  اس کے ذریعے ہم اس حقیقت کا شعور حاصل کرتے ہیں کہ خدا کی مشیت اور ارادہ (Will of God) کائنات میں کس طرح گو ناگون اور رنگ برنگی شکلوں میں ظہور پذیر ہوا ہے۔  یہ رنگ برنگی حیاتی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں اور مماثل و مربوط اور ہم آہنگ بھی۔  فطرت کے پیچیدہ نقشے میں ہر چیز کی ایک منطق ہے!

اگر ارتقاء کا تصورِ خدا کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں تو بہت سے اہلِ مذہب ارتقاء کے خلاف کیوں ہیں؟ اس کی کوئی حقیقی وجہ ہے، یا پھر صرف روایت پرستی کا جوش ہمیں ارتقاء کی صداقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے؟ ممکن ہے اس کی وجہ ہماری کم علمی ہو، یا پھر وہ غلط فہمیاں آڑے آتی ہوں جو روایتی طور پر چلی آ رہی ہیں۔

 

 

 

باب 4: ارتقاء اور مذہب

(Evolution and Religion)

 

مذہب اور سائنس کا ارتقاء کے اعتبار سے باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ وہ چیز جو سائنسی حقیقتوں کے ساتھ برسرِپیکار ہوتی ہے، وہ الہامی کتب کی عبارت نہیں بلکہ ہماری وہ تشریح اور نظریات ہوتے ہیں جو ہم نے مذہبی ضرورتوں اور تاریخی وجوہ کے تحت ان سے اخذ کئے ہوتے ہیں؟

 

اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دنیا کے تقریباً تمام سائنسدان ارتقاء (Evolution) کے قائل ہیں۔  اگرچہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو خود کو atheist (لا الٰہی منکرینِ خدا) کہلانا پسند کرتے ہیں اور بہت سے وہ ہیں جو اپنے لیے Agnostic (لا ادری) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔  لیکن ان سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔  معروف ماہرِ جینیات فرانسس کولنز (Francis Collins) لکھتا ہے:

"Regrettably, much of the current culture in the United States sees evolution as an affront to belief in God. But the 40 percent of working scientists who are believers have a different view. Most of us are theistic evolutionists. We see evolution as God’s method for creation – and what an elegant method it is! ” (p.16)

یعنی، ’’قابلِ افسوس طور پر، امریکہ میں جاری تمدن کا ایک بڑا حصہ ارتقاء کو خدا پر ایمان کے مخالف سمجھتا ہے۔  لیکن وہ چالیس فیصد سرگرمِ کار سائنسدان جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، ایک الگ نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔  ہم میں سے زیادہ تر الٰہیاتی تصورِ ارتقاء کے قائل ہیں۔  ہم ارتقاء کو خدا کے طریقۂ تخلیق کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ کیا ہی شاندار طریقہ ہے!‘‘

دوسری طرف، بہت سے وہ مذہبی لوگ ہیں جو آسمانی صحیفوں کی لغوی تعبیر پر اصرار کرتے ہیں، عام طور پر ارتقا ء کو تسلیم نہیں کرتے۔  اگرچہ، اب آہستہ آہستہ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ مذہبی دانشوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو ارتقاء کو خدا کے تخلیقی طریقے کے طور پر نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کے زبردست حامی ہیں۔  پھر بھی ارتقاء کے مخالفین ہر مذہب میں، اپنی اپنی وجوہات کے تحت، کثرت سے موجود ہیں۔

مغرب اور بالخصوص امریکہ میں بہت سے مذہبی حلقے ارتقاء کو مذہب مخالف تحریک کے طور پر دیکھتے ہیں۔  یہ اپنے ارتقاء مخالف نظریات کو creationism کا نام دیتے ہیں، جسے اردو میں ہم تخلیقیت کہہ سکتے ہیں۔ کیا ارتقاء (evolution) اور تخلیق (creation) ایک دوسری کی ضد ہیں۔  نظریہ تخلیقیت کے حامیوں کے نزدیک ایسا ہی ہے (تاہم، ہم آگے چل کر دیکھیں گے کہ بہت سے دانشور ایسا نہیں سمجھتے)۔

امریکہ میں آج کل یہ ایک گرم موضوع ہے۔  اگرچہ علمی سطح پر انہیں قبول عام حاصل نہیں، تاہم ارتقاء کے مخالفین بائبل مقدس کی لغوی تشریح کرنے اور یوں ارتقاء کو رد کرنے پر مصر ہیں۔

ماہرِ جینیات فرانس کو لنز جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے، اس رویے پر سخت دکھی ہے۔  وہ لکھتا ہے:

"….We are puzzled and distressed that so many modern-day Christians insist on an ultraliteral reading of Genesis…” (p. 16)

لفظ پرستی کا یہ رویہ مسلمانوں میں بھی عام ہے۔  مسلمانوں کے ساتھ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ گزشتہ کئی صدیوں سے عام طور پر علمی پسماندگی کا شکار ہیں۔  یہ عورت ہوں یا مرد، ان کے ہاں ظاہری رسوم اور حلیہ علمی فضیلت، تخلیقی طرزِ عمل اور سماجی رویوں سے کہیں زیادہ اہم ہے۔  ان کا نظامِ تعلیم و تعلم آج بھی عام طور پر تعقل و تدبر اور غور و فکر کے بجائے رٹنے اور یاد کرنے کی اساس پر قائم ہے۔  جہاں بنیادی خواندگی کی شرح ہی نہایت پست ہو، وہاں اعلیٰ تعلیم کا کیا مقام ہو گا۔  لہٰذا یہ عام طور پر اس معرکہ ہی سے الگ تھلگ اور لاتعلق ہیں جو فی زمانہ علم کے میدان میں برپا ہے۔

الہامی کتابوں میں موجود بیانات کو لفظ پرست اور مذہب مخالف حلقے، دونوں اپنے اپنے قاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔  مذہبی صحیفے خود کو سائنسی درسی کتب (Text books) کے طور پر پیش نہیں کرتے۔  ان کے پیش نظر کائنات کی سائنسی تشریح نہیں بلکہ کائنات کا خدا سے تعلق، اور کائنات میں خدا کی کار فرمائی کا اظہار ہوتا ہے۔  اس کے باوجود بہت سے لوگ مذہبی صحیفوں کی لغوی تشریح پر اصرار کرتے ہوئے سائنسی حقیقتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

بائبل مقدس میں تخلیقِ کائنات کا بیان اس کی پہلی کتاب، کتاب پیدائش (Book of Genesis) میں آیا ہے، جو یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس کتاب ہے۔  کتابِ پیدائش کے پہلے باب میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے آسمانوں اور زمین اور پودوں، حیوانوں اور بالآخر انسان کو چھ ایام میں پیدا کیا۔  بعض مفسرین نے کچھ قرائن کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تخلیقی واقعات آج سے تقریباً چھ ہزار سال قبل واقع ہوئے ہیں۔ ایک مغربی مصنف ایڈورڈ جے لارسن Edward J. Larson) لکھتا ہے:

"During the mid-1600s, Anglican archbishop James Ussher of Dublin used internal evidence within the Bible to calculate the year of creation as 4004 B.C)

…Printet in the margins of the Authorized, or King James, version of the Bible, Ussher’s chronology became quasi gospel for British and American protestants during the eighteenth and nineteenth centuries.” (p. 12)

اسشر اپنے ان نتائج تک کیسے پہنچا؟ ایک اور مغربی مصنف پی جے باؤلر (P.J. Bowler) رقم طراز ہے:

"Ussher fixed the date and time of the initial act of creation at midday on Sunday, October 23, 4004 B.C. He arrived at this date by counting back through the generations of Hebrew patriarchs to the creation of Adam, and by employing a literal interpretation of the text in which Adam was formed as the culmination of six days of creativity.” (p. 29)

مذہبی حلقوں میں روایتی طور پر عموماً یہ قرار دیا جاتا ہے کہ دنیا میں جانداروں (پودوں اور حیوانوں) کی جتنی بھی انواع (species) پائی جاتی ہیں، وہ اپنی موجودہ شکلوں ہی میں خدا نے چھ تخلیقی ایام میں پیدا فرمائی تھیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ انواع غیر متغیر ہیں۔  اسے انگریزی میں Fixity of species کہا جاتا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ جانداروں کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے اور ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل نہیں ہوتی۔

روایت پرستی کا ارتقاء مخالف طرزِ عمل اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پاس ایک بھی مضبوط دلیل نہیں جس سے ہم حتمی طور پر یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ انواع غیر متغیر ہوتی ہیں اور موجودہ پیچیدہ حیاتی شکلیں سادہ حیاتی شکلوں (life forms) سے بتدریج ترقی کر کے نہیں وجود میں آئیں۔ در اصل وہ چیز جو سائنسی حقیقتوں کے ساتھ برسرِپیکار ہوتی ہے، وہ الہامی کتب کی عبارت نہیں بلکہ ہماری وہ تشریح اور نظریات ہوتے ہیں جو ہم نے مذہبی ضرورتوں اور تاریخی وجوہ کے تحت ان سے اخذ کئے ہوتے ہیں۔  یہ کلامِ ربانی نہیں بلکہ اس کا فہمِ انسانی ہے جس کی کم مایگی سائنسی حقیقتوں کی قبولیت میں رکاوٹ بنتی ہے۔  لہٰذا، مذہب کی بنیاد پر ارتقاء کی مخالفت کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔  بہت سے لوگ تصورِ ارتقاء کی تحسین کرنے سے اس لیے بھی قاصر رہتے ہیں کیونکہ ان کی نظر ان بے شمار حقائق پر نہیں ہوتی جو مختلف سائنسی علوم، بیالوجی، کیمیا اور اثریات وغیرہ کے ذریعے منکشف ہوئے ہیں۔  اگر وہ ان حقائق سے آگاہ ہوتے تو اُن کا طرزِ عمل مختلف ہوتا۔

ارتقاء کی مخالفت کی ایک وجہ جذباتی رویہ بھی ہے۔  بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ چونکہ انسان خدا کا خلیفہ (vicegerent) ہے، یا یہ کہ خدا نے انسان کو اپنی صورت یا شبیہ (image) پر پیدا فرمایا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ادنیٰ حیوانوں سے ترقی کر کے وجود میں آیا ہو۔  کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی فضیلت اور وقار کے منافی ہے۔ مگر ارتقاء کی مخالفت کی یہ دلیل اپنے اندر وزن نہیں رکھتی۔  سورہ البقرہ میں انسان کو زمین میں خلیفہ قرار دیا گیا ہے، اگرچہ ’’خدا کا‘‘ کے الفاظ نہیں استعمال کئے گئے۔  آیت کی تشریح کئی طرح سے کی گئی ہے۔  تاہم قرآن کے نزدیک انسان، اپنی خود شعوریت اور تخلیقی صلاحیتوں کے باعث، خصوصی مقام کا حامل ضرور ہے (مثلاً دیکھئے 17: 70) لیکن ظاہر ہے کہ انسان کے خصوصی مقام کا تعلق اس کی تخلیق کے اس مرحلہ سے ہے جب وہ مکمل انسان کی شکل میں آ گیا نہ کہ اس سے پہلے کے ارتقائی مراحل سے۔  انسان کے وجود میں آنے کے سلسلۂ عمل (Process) میں کم تر مرتبے کے حامل مراحل کی موجودگی، انسان کی بطورِ انسان فضیلت، اگر وہ واقعی کوئی رکھتا ہے، کی نفی نہیں کرتی۔  مثال کے طور پر، جیسا کہ قرآن پاک نے کئی مقامات پر ہمیں یہ یاد دلایا ہے، انسان کی تخلیق رحم مادر میں ایک ادنیٰ درجے کے تولیدی مادے سے ہوتی ہے (مثلاً دیکھیں 32: 8، تاکہ انسان خدا کی قدرت کی معرفت حاصل کرے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں احساسِ شکر گزاری پیدا ہو کہ خدا نے اسے ایک حقیر مادہ سے اس خوبصورت شکل و صورت میں ڈھالا ہے)۔  جس طرح ایک فردِ انسانی کا ایک ادنیٰ درجے کے تخلیقی مادے سے پیدا ہونا، اس کی بحیثیتِ انسان فضیلت کو کم نہیں کرتا، اسی طرح نوعِ انسانی کا سادہ حیاتی شکلوں (life forms) سے ترقی کر کے وجود میں آنا، انسان کے مرتبہ اور مقام کے منافی نہیں۔  وہ چیز جو کسی شے کے مقام و مرتبہ کا تعین کرتی ہے، وہ اس کی تخلیق کی آخری حالت ہوتی ہے، نہ کہ اس کے وجود میں آنے کا پروسیس اور تاریخ۔  علامہ اقبال اپنے خطبات میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:

’’رہی یہ بات کہ اعلیٰ کا صدور ادنیٰ سے ہوتا ہے، سو (اس میں کیا مضائقہ ہے) اس سے اعلیٰ کی قدر و قیمت اور مرتبے میں تو کوئی فرق نہیں آتا، کیونکہ یہاں اہم بات یہ نہیں کہ کسی چیز کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ اہم بات یہ ہے کہ جس چیز کا صدور ہوا ہے، اس کی صلاحیتیں کیا ہیں؟ معنی و مطلب کیا ہے؟ اس کی انتہا یعنی رسائی کہاں تک ہے؟‘‘۔ (صفحہ 160)

انسان کے خدا کی صورت یا شبیہ پر تخلیق کئے جانے کا تصور بائبل میں آ یا ہے۔  اس کی بھی کئی طرح سے تشریح کی گئی ہے۔  مثلاً ایان باربر (Ian Barbour) لکھتا ہے:

"The biblical statement that humanity is created in the image of God (Gen. 1: 27) has often been taken to refer to particular human traits, such as rationality. moral agency, or the capacity for love. An alternative view is that the image refers to the relation of human beings to God and indicates their potential for reflecting God’s purposes.” (p. 49-50)

ظاہر ہے، انسان کا خدا کی ’’شبیہ‘‘ ("image”) پر پیدا ہونا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ اس کی تخلیق ایک Process کے ذریعے ہوئی ہے۔

 

تخلیق اور ارتقاء (Creation and Evolution)

 

ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ تخلیق اور ارتقاء ایک دوسرے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتے۔  اگر اس کائنات کا ایک خالق ہے، تو اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ارتقاء کو تخلیق کے طریقہ یا میکانزم کے طور پر بروئے کار لائے۔  اس تصور کو ہم ارتقائی تخلیق کا تصور (Concept of evolutionary creation) کہہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا نے جانداروں (پودوں اور حیوانوں) کو لمبے ارتقائی عمل سے پیدا کیا… یہ ایک جاری و ساری سلسلۂ عمل (Process) ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں آباد ہیں جو مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔  جدید سائنسی دریافتوں اور ان کی تشریح کرنے والے نظریوں سے پہلے ہم جس کائنات کا تصور کرتے تھے، وہ ایک جامد اور غیر تغیر پذیر (static) دنیا تھی۔  نیوٹن کی طبیعات نے بھی ایک جامد کائنات ہی کا نقشہ کھینچا تھا۔  یہ کائنات ایک مشین کی طرح تھی جو محض لگی بندھی حرکتوں کو دوہرائے جا رہی تھی۔  یہ فطری امر تھا کہ مختلف مذہبوں نے الہامی کتابوں کی بنیادوں پر رفتہ رفتہ جو دینیات یا الٰہیات ((Theology تشکیل دی تھی وہ ایک جامد کائنات کے تصور ہی کے تناظر میں تھی۔  اس کے مطابق، خدا نے ہفتے کے چھ دنوں میں آسمانی کرّے اور زمین، اور تمام جاندار انواع پیدا کر دیں۔  اس کے بعد صرف ان کا تسلسل اور تکرار ہے۔  موجود انواع سے تولد و تناسل کے ذریعے نئے افراد نے پیدا ہونا ہے، اور بس۔

اس کے برعکس، ارتقاء کے تصور نے ہمیں جانداروں کے حوالے سے ایک نئی دنیا سے روشناس کیا۔  یہ ایک ارتقاء پذیر دنیا ہے جہاں انواع سے صرف نئے افراد ہی پیدا نہیں ہوتے، بلکہ انواع بذاتِ خود بھی تبدیلی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔  سادہ انواع مخصوص حالات میں آہستہ آہستہ زیادہ پیچیدہ انواع میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔  یہ تکرارِ محض سے عبارت کائنات نہیں بلکہ ایک ایسی کائنات ہے جو مستقبل میں گو ناگون نئے امکانات رکھتی ہے۔

بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں طبیعات اور کاسمولوجی کے میدان میں ہونے والی پیش رفتوں نے ہمیں ایک وسعت پذیر (Expanding) کائنات کا تصور دیا۔  اس میں نئے سماوی اجسام (کہکشائیں، ستارے، سیارے وغیرہ) آہستہ آہستہ تشکیل پاتے اور اپنے اپنے نشو و نمائی مراحل طے کرتے ہوئے بالآخر اختتام سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔  یہ ایک مسلسل عمل ہے۔  ایان باربر نے بجا لکھا ہے:

"Today nature is known to be a dynamic evolutionary process with a long history of emergent novelty…” (p. 3)

یعنی، آج فطرت ایک ایسے متحرک، ارتقائی سلسلۂ عمل کے طور پر جانی جاتی ہے، جو (مسلسل) ظہور میں آنے والے نئے پن کی ایک طویل تاریخ کی حامل ہے۔

چنانچہ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ کائنات ایک مشین کے مقابلے میں ایک عضو یہ یا جاندار (Organism) سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ایک ایسی چیز نہیں جو بن چکی ہوئی ہے، بلکہ یہ مسلسل طور پر بننے کے عمل میں ہے۔  یعنی، یہ ایک Finished product نہیں، مسلسل جاری سلسلۂ عمل (continuous process) ہے۔

کائنات اور فطرت کی ان نئی حقیقتوں کے پیش نظر، ضروری ہے کہ الٰہیات اور دینیات کے پرانے ساختی ڈھانچوں کی وحیِ ربانی کے نئے مطالعے کی بنیاد پر، تشکیلِ جدید کی جائے۔  علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبات میں یہی کام کیا تھا۔  اسے صحیح طور پر سمجھنے اور بہتر طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت آج، کل سےز یادہ ہے۔

 

ارتقاء اور قرآن

 

قرآن پاک سائنس کی کتاب نہیں، کتاب ہدایت ہے اور اسے اسی زاویہ نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ جہاں تک ارتقاء کا تعلق ہے، قرآن کہیں بھی اس کے بنیادی تصور یا مرکزی خیال کی نفی نہیں کرتا۔  قرآن میں انسان یا بطور مجموعی تمام زندہ اشیاء، کی تخلیق سے متعلق جو آیات ہیں ان کی منشا خدا کی ہستی اور قدرت کا اظہار ہے۔  وہ تخلیق کی تفصیل ایک سائنسی درسی کتاب کی طرح پیش نہیں کرتا۔  اس کے پیش نظر تخلیق کا پروسیس یا میکانزم بیان کرنا نہیں ہوتا۔  اس کی دلچسپی، اس کے برعکس، خدا کی معرفت میں ہوتی ہے۔  وہ انسان کو اس کے مقصدِ وجود سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔  تخلیق کی تفصیلات کو، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، وہ انسانی طلب و جستجو اور سعی و جہد کے حوالے کرتا ہے۔  قرآن اور اس کی تفسیر دو علیحدہ حقیقتیں ہیں۔  جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے، وہ قرآن مجید ہے جبکہ اس کی تفسیر ایک انسانی کا وش ہے جس میں درست اور غلط دونوں قسم کے خیالات ہو سکتے ہیں۔  کلامِ خدا اور کائنات میں تضاد نہیں ہو سکتا جب کہ ہمارے فہم سے خطا ہو سکتی ہے۔  ارتقاء کے حق میں بے شمار شواہد موجود ہیں۔  کائنات ایک طویل عرصے میں آہستہ آہستہ اپنی موجودہ حالت کو پہنچی ہے۔ سائنسی مطالعات بتاتے ہیں کہ زمین پر زندگی کروڑوں سالوں سے موجود ہے۔  زمین پر انسان کے ظہور کو پرانے روایتی تخمینوں سے کہیں زیادہ وقت گزر چکا ہے۔  کاسمولوجی، جیالوجی، پیلنٹالوجی، کیمیا، حیاتیات اور دوسرے علوم انسان اور دوسرے جانداروں کی تخلیق کی جو کہانی سناتے ہیں، وہ ہمارے روایتی تصورات سے بالکل مختلف ہے۔  یہ حقیقتیں ہمارے لیے زبردست طور پر فکر انگیز ہیں۔  کلامِ پاک کی بنیاد پر نظامِ فکر اور تصورِ کائنات تشکیل دیتے وقت ہم سائنس اور دیگر علوم کے میدان میں ہونے والی دریافتوں سے صرفِ نظر کیسے کر سکتے ہیں۔

وسیع تر معنوں میں ارتقا وہ طریقہ یا سلسلۂ عمل (process) ہے جس سے خدا نے کائنات، کائنات میں زمین اور زمین پر حیات اور بالآخر انسان کو پیدا فرمایا ہے۔

قرآن مجید میں ہے کہ خدا نے ارض و سماوات یعنی کائنات کو چھ ایام میں پیدا فرمایا۔ جیسا کہ بہت سے ممتاز مفسرین نے وضاحت کی ہے، چھ ایام سے غالب طور پر چھ عرصہ ہائے وقت (periods of time) مراد ہیں، چاہے ان کی طوالت کچھ بھی ہو۔  لیکن، ہم چاہے ان کی کوئی سی بھی تعبیر کریں، یہ بہر حال ایک دورانیۂ وقت (time lapse) کی نشاندہی کرتے ہیں۔  ظاہر ہے کہ وقت خدا کی مجبوری نہیں۔  پھر خدا نے اگر کائنات کی تخلیق میں ایک وقت صرف کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی حکمت سے کائنات کو ایک process کے تحت پیدا فرمایا ہے۔ خدا کا تخلیق میں وقت صرف کرنا اس کی مجبوری نہیں، حکمت ہے۔

قرآن کے مطابق، زمین کی ابتدائی تخلیق دو ایام میں اور مجموعی تخلیق جس میں ارضیاتی، طبیعاتی، کیمیائی اور پھر حیاتیاتی تغیرات شامل ہیں، چار عرصہ ہائے وقت (مراحل، ادوار) میں ہوئی (دیکھئے سورہ حم سجدہ (42: 9-12)۔  یہ اس بات کا دوبارہ اظہار ہے کہ زمین اپنے جدید ماحولیاتی نظام کے ساتھ ایک تدریجی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔

چنانچہ، خود قرآن پاک سے اس بات کا استنباط کیا جا سکتا ہے کہ ارتقاء اپنے وسیع تر مفہوم میں کائنات کا ایک بنیادی اصول ہے۔  ایک اور زاویۂ نگاہ سے دیکھئے تو ارتقاء خدا کی صفتِ ربوبیت کا ظہور ہے۔  خدا خالق بھی ہے اور رب بھی۔  خدا نے کائنات اور اشیاء و مظاہرِ کائنات کو پیدا فرمایا ہے مگر ایسا اس نے نعوذ باللہ کسی شعبدہ باز کی طرح سے نہیں بلکہ ایک منظم سلسلۂ عمل (process) کے تحت کیا ہے۔  قرآن بتاتا ہے کہ خدا کا ارادۂ تخلیق ایک نظام اور پروسیس کے تحت کارفرما ہوتا ہے۔  یہ تخلیق کا اصولِ عام ہے جس کی کارفرمائی ہمیں ہر طرف نظر آتی ہے۔  خدا ہم انسانوں (یا کسی دوسری مخلوق) کی طرح کام نہیں کرتا۔  وہ ہماری (یا کسی دوسری مخلوق کی) طرح نہیں۔ قرآن کہتا ہے:  لیس کمثلہ شیِ (اس کی مثل تو کوئی نہیں)۔ وہ لامحدود اور لا انتہا ہے۔  وہ ہمارے فہم اور وہم و گمان سے ماورا ہے۔  اس کا علم، علمِ محیط کل، اس کی حکمت، حکمت بالغہ اور اس کی قدرت، قدرتِ کاملہ ہے۔  اس کا ارادہ طبیعی کائنات میں ان قوانینِ فطرت (Laws of nature) کے واسطے سے کارفرما ہوتا ہے جو اس نے کائنات میں ودیعت فرمائے ہیں۔  وہ "God of gaps” نہیں بلکہ کائنات و فطرت کی ہر تبدیلی، ہر مظہر اور ہر حرکت اس کی مشیت اور ارادہ کے تحت ظہور پذیر ہوتی ہے چاہے ہم اسے چھوٹی سمجھتے ہوں یا بڑی۔  قرآن کائنات کے ہر مظہر کو خدا کی آیت قرار دیتا ہے۔  کائنات عجائبات کا گھر ہے۔  ہر چیز معجزہ ہے۔ خدا کائنات میں ’’مداخلت‘‘ (intervention) نہیں کرتا، اسے اس کی ضرورت ہی نہیں۔  اس کی مشیت کائنات سے منقطع ہی نہیں ہوتی۔  وہ تو کائنات کو مسلسل طور پر ’’تھامے‘‘ ہوئے ہے۔ اس کے اقتدار کی کرسی آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔  کوئی چیز اس کے عرشِ حکومت اور اس کے دستِ قدرت کی کارفرمائی سے باہر نہیں۔ وہ مدبرالامر ہے۔  اس کی مشیت ہر آن نئی شان سے جلوہ گر ہوتی ہے۔  ایان باربر کا نظریہ بھی یہی ہے:

"God does not have to intervene or interfere with the laws of nature. Divine action occurs indirectly and instrumentally through natural processes.” (p. 27)

جب کلامِ پاک یہ کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو مٹی (یعنی بے جان مادے) سے پیدا فرمایا ہے، تو وہ کسی مقام پر یہ نہیں کہتا کہ خدا نے ایسا کسی قابلِ فہم نظام (process) کے بغیر کیا ہے۔  اس کے برعکس، وہ مختلف مقامات پر انسان کی تخلیق کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت اس طور پر کرتا ہے جس سے اس میں ایک پروسیس کی موجودگی کی واضح طور پر نشاندہی ہوتی ہے (اس کی تشریح ہم آگے کریں گے)۔

 

 

 

 

باب 5: نظریۂ ارتقاء اور مسلم مفکرین

 

نظریہ ارتقاء نوعِ انسان کا ایک عظیم ورثہ ہے، جس کی تشکیل اور ارتقاء میں مسلمانوں کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے۔

مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

(علامہ محمد اقبال)

 

موجودہ زمانے میں نامیاتی ارتقاء کا تصور یورپ میں سائنسی سطح پر پیش کیا گیا۔  پہلے ایک فرانسیسی سائنسدان لمارک (1744-1829) نے اپنا نظریہ ارتقاء پیش کیا جس کے مطابق جانداروں (پودوں اور حیوانوں) میں ارتقاء ایک خاص طریقے سے واقع ہوتا ہے جس میں ماحول اہم کردار ادا کرتا ہے۔  جانداروں میں ماحول اور حالات کے زیر اثر جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی ہیں۔  یوں رفتہ رفتہ ایک نوع دوسری نوع میں بدل جاتی ہے۔  یعنی، ارتقاء ’ ’اکتساب شدہ خصوصیات کے توارث‘‘ (Inheritance of Acquired Characters) کے ذریعے وقوع پذیر ہوتا ہے۔  بعد ازاں، ایک برطانوی سائنسدان چارلس ڈارون (1809-1882) نے اپنا مشہور نظریۂ ارتقاء پیش کیا جس کے مطابق جانداروں کے ارتقاء کے عمل میں فطری انتخاب (Natural Selection) اہم کردار ادا کرتا ہے۔

لیکن، لمارک اور ڈارون نے ارتقا ء کا بنیادی تصور پہلی بار پیش نہ کیا تھا۔ وہ اس تصور کے موجد نہ تھے۔  ان سے صدیوں پہلے مسلم مفکرین اور سائنسدانوں نے ارتقاء کو حیاتی دنیا میں کارفرما ایک وسیع عمل (Process) کے طور پر دریافت کیا تھا۔  تصورِ ارتقا کی جڑیں اگرچہ بہت گہری ہیں لیکن اسے باقاعدہ اور منظم نظریہ یا تصور کی شکل میں پہلی بار مسلم حکماء نے پیش کیا تھا۔  یہ حقیقت اب عام طور پر جانی پہچانی ہے۔  اگر آپ انٹرنیٹ پر تلاش کر یں تو ان بہت سے مسلم اہلِ علم اور سائنسدانوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کر سکتے ہیں، جنہوں نے ارتقاء کے تصور کی تشکیل اور تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  یہاں ہمارا مقصد مسلمان حکماء کے ارتقائی تصورات کا صرف ایک مجموعی جائزہ لینا ہے۔  تاکہ ہمارے قارئین کو مزید مطالعہ کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم ہو سکے۔  ہمارا زور اصل میں اس بات پر ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ نظریہ ارتقاء نوعِ انسان کا ایک عظیم ورثہ ہے، جس کی تشکیل میں مسلمانوں کا اہم کردار ہے۔ چارلس ڈارون کے ہم عصر تاریخ دان ولیم ڈریپر (William Draper) نے 1878ء میں اپنی مشہور کتاب ’’مذہب اور سائنس کے درمیان تصادم کی تاریخ‘‘ میں تصورِ ارتقاء کی تشکیل میں مسلمان حکماء کے کردار کو شاندار لفظوں میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔  وہ لکھتا ہے:

"Sometimes, not without surprise, we meet with ideas which we flatter ourselves have originated in our own times, thus our modern doctrines of evolution and development were taught in their schools. In fact, they carried them much farther than we disposed to do, extending them even to inorganic or mineral things. The fundamental of principle of alchemy was the natural process of development of metallic bodies.” (p.154-5)

یعنی ’’بعض اوقات جن نظریات پر ہمیں (یعنی اہل مغرب کو) فخر ہوتا ہے کہ وہ ہم نے آج کے زمانے میں پیش کئے ہیں، ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ (ازمنہ وسطیٰ میں) وہ مسلمانوں کے ہاں پائے جاتے تھے۔  چنانچہ، ارتقاء اور نشو و نما کے ہمارے جدید نظریات ان کے مدارس میں پڑھائے جاتے تھے۔  وہ ان نظریات کو غیر نامیاتی اور معدنی اشیاء تک وسعت دیتے ہوئے بہت آگے تک لے گئے تھے (مثلاً الکیمیا کا بنیادی اصول دھاتی اجسام میں نشو و نما کا قدرتی عمل تھا‘‘۔

محققین کے مطابق بہت سے چوٹی کے مسلم مفکرین تخلیق کے ارتقائی تصور کے حامی تھے۔  ان میں مولانا جلال الدین رومی، الجاحظ، ابن مسکویہ،ا خوان الصفاء، البیرونی، ابن طفیل، المسعودی، ابنِ عربی، ابن خلدون، نصیر الدین طوسی جیسے مشاہیر شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کے نظریات پر ذیل میں مختصر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

 

الجاحظ کا نظریہ

 

پہلا مسلمان مفکر جو اپنے ارتقائی نظریہ کے لیے مشہور ہے، وہ الجاحظ (776ء تا 869ء) ہے۔ الجاحظ کئی کتابوں کا مصنف تھا جن میں ایک نہایت اہم ’’کتاب الحیوان‘‘ ہے۔  یہ ضخیم کتاب سات جلدوں پر مشتمل ہے، جس میں 350 سے زیادہ اقسام کے حیوانات کے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔  کتاب الحیوان آج کے معروف معنوں میں حیوانیات (زولوجی) کی کتاب نہیں بلکہ اس میں حیوانات کے متعلق سائنسی اور غیر سائنسی ہر قسم کا مواد موجود ہے۔  ڈاکٹر نعیم احمد لکھتے ہیں:

’’اس میں حیوانات کی زندگی اور ان کی انواع کی تشریح قصوں، کہانیوں اور مذہبی بحثوں کے حوالے سے کی گئی ہے، اور جا بجا عربی شاعری کی مثالیں دی گئی ہیں۔  اس طرح، اس کتاب کے مآخذ قرآن، حدیث اور عربی شاعری (بالخصوص ماقبلِ اسلام عربی شاعری) ہیں۔

…اس نے حیوانات کے بارے میں اخلاقی اور مذہبی بحثوں کے دوران ضمناً ان تغیرات کی طرف بھی اشارہ کیا جو جانوروں کے اندر نقلِ مکانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ (صفحہ 283) علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبات میں الجاحظ کے ارتقائی نظریات کا ذکر کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’جاحظ وہ پہلا شخص ہے جس نے ان تغیرات کی طرف اشارہ کیا جو نقل مکانی، علیٰ ہٰذا، ماحول کے زیر اثر حیوانات کی زندگی میں بالعموم رونما ہو جاتے ہیں۔  آگے چل کر جاحظ کے ان نظریات کو اس حلقے نے جو ’اخوان الصفا‘ کے نام سے مشہور ہوا، مزید وسعت دی‘‘۔) صفحہ (183-182

الجاحظ کے نظریہ کا خلاصہ اس طرح کیا گیا ہے:  جانوروں میں غذا کے حصول، زندگی کے تحفظ اور افزائشِ نسل کے لیے باہمی کشمکش پائی جاتی ہے۔  ماحولیاتی عوامل زندہ چیزوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں ان میں نئی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں جو بقاء کا ذریعہ بنتی ہیں۔  اس طرح زندہ چیزیں آہستہ آہستہ نئی انواع میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔  وہ حیوانات جو افزائش نسل کے لیے زندہ بچتے ہیں، ان کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی خصوصیات کو اگلی نسل کو منتقل کر سکیں۔ (مثلاً دیکھیں Mehmet (Bayrakdar

 

ابن مسکویہ کا نظریہ

 

ابنِ مسکویہ (932ء تا 1030ء) وہ پہلا مسلم مفکر ہے جس نے ارتقاء کے تصور کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔  اس کی کتاب الفوز الاصغر میں اس کے ارتقائی تصورات ملتے ہیں۔  علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں ابن مسکویہ کے نظریۂ ارتقاء کی طرف اشارہ کیا ہے۔  ان کے بقول ابنِ مسکویہ نے تصورِ ارتقاء کو ’’ایک باقاعدہ اور مرتب نظریہ کی شکل دی‘‘۔ (تشکیل جدید، صفحہ 206)

علامہ اقبال ابنِ مسکویہ کے نظریہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ابنِ مسکویہ کہتا ہے نباتات کی زندگی پر نظر ڈالیے تو ارتقاء کے اولین مراحل میں نہ تو ان کی پیدائش اور نمو کے لیے بیج کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اپنی نوع کے تسلسل کے لیے انہیں اس سے کام لینا پڑتا ہے۔  لہٰذا اس مرحلے پر ہم نباتات کی زندگی اور معدنیات میں یونہی فرق کریں گے کہ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں نباتات کو تھوڑی بہت حرکت کی طاقت مل جاتی ہے اور پھر اعلیٰ تر انواع کی صورت میں برابر بڑھتی رہتی ہے، تا آنکہ اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ پودے شاخیں نکالتے اور بیجوں کے ذریعے اپنی نوع کا تسلسل قائم رکھتے ہیں۔  لیکن پھر حرکت کی اس قوت میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ درخت پیدا ہو جاتے ہیں۔  ان کے تنے ہوتے ہیں اور وہ برگ و بار لاتے ہیں۔  اب اس سے بھی آگے بڑھیے تو نباتات کے ارتقا ء کا آئندہ مرحلہ وہ ہے جس میں ایسی انواع کا ظہور ہو گا جن کے لیے زیادہ بہتر زمین اور زیادہ بہتر آب و ہوا کی ضرورت ہو گی۔  انگور اور کھجور ارتقائے نباتی کی آخری منزل ہیں جس کے ڈانڈے گویا حیوانی زندگی سے جا ملتے ہیں۔  چنانچہ کھجور کے اندر تو جنسی اختلاف بھی صاف طور پر نمایاں ہو جاتا ہے، کیونکہ کھجور میں جڑوں اور ریشوں کے علاوہ وہ شے بھی نشو و نما پا لیتی ہے جس کا وظیفہ کچھ ویسا ہی ہوتا ہے جیسے دماغ کا اور جس پر گویا اس کی سلامتی اور حفظ و بقاء کا دارومدار ہے۔  یہ نباتات کی زندگی میں ارتقا کا آخری درجہ ہے یا یوں کہیے کہ حیوانی زندگی کی تمہید۔  حیوانی زندگی کا پہلا قدم زمین پیوستگی سے آزادی ہے جسے گویا شعوری حرکت کی ابتدا سے تعبیر کرنا چاہیے۔  اسے حیوانی زندگی کا آغاز کہیے، جس میں اول حسِ لامسہ اور بالآخر حسِ باصرہ کا نشو و نما ہوتا ہے۔  مگر پھر جب حواس نشو و نما حاصل کر لیتے ہیں تو حیوانات نقل و حرکت میں آزاد ہو جاتے ہیں۔  مثلاً حشرات الارض، رینگنے والے جانور، چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں۔  چوپایوں میں گھوڑا حیوانیت کا مظہر اتم ہے، اور پرندوں میں عقاب۔  آخر الامر جب بندروں کا ظہور ہوتا ہے تو حیوانیت گویا انسانیت کے دروازے پر آ کھڑی ہوتی ہے۔  اس لیے کہ بندر باعتبارِ ارتقا انسان سے صرف ایک ہی درجہ پیچھے ہیں۔  ارتقا کے مزید مراحل میں کچھ اور عضویاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کے پہلو بہ پہلو انسان کی قوتِ تمیز اور روحانیت میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، تا آنکہ وحشت کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور انسان تہذیب و تمدن کی دنیا میں قدم رکھ دیتا ہے‘‘۔  (تشکیل جدید، صفحہ 207-206)

مشہور مسلم محقق مولانا شبلی نعمانی جو تصورِ ارتقاء کے حامی تھے، نے ابنِ مسکویہ کی الفوز الاصغر سے کئی اقتباسات اپنے ترجمے کے ساتھ ایک مقالے میں پیش کیے ہیں، ہم انہیں ذیل میں نقل کرتے ہیں:

’’نباتات کا درجہ احساس کے قبول کرنے میں اس طرح شروع ہوتا ہے کہ (سب سے ادنیٰ درجہ کا نبات) جب زمین سے اگتا ہے تو وہ تخم کا محتاج نہیں ہوتا، اور نہ وہ تخم کے ذریعہ سے اپنی نوع کی حفاظت کرتا ہے جیسے گھاس، اور یہ جماد کا آخری درجہ ہے، اس قسم کے نباتات اور جمادات میں صرف تھوڑی سی حرکت کا فرق ہے۔

اور یہ قوت ان دوسرے نباتات میں جو اس کے اوپر ہیں بڑھنی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ قوتِ حرکت اتنی ہو جاتی ہے کہ اس کی شاخیں ہوتی ہیں، پھیلتا ہے، تخم کے ذریعہ سے اپنی نسل کی حفاظت کرتا ہے اور حرکت کے آثار اس میں اس سے کم درجہ کے نباتات سے زیادہ ظاہر ہوتے ہیں اور یہ قوت رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ درخت پیدا ہوتے ہیں جن کے تنے، پتیاں، پھل ہوتے ہیں جن سے وہ اپنی نوع کی حفاظت کرتے ہیں، یہ درجہ، متوسط منزل ہے لیکن اس کا ابتدائی درجہ اپنے اوپر کے درجہ سے ملا ہوا ہے اور اس سے اوپر کے نباتات وہ ہیں جو پہاڑ، جنگل، جھاڑی، جزائر میں ہوتے ہیں، جن کو (بالقصد) لگانے کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی بلکہ خود بخود اگتے ہیں، اگرچہ وہ تخم کی وساطت سے اپنی نسل محفوظ رکھتے ہیں اور اس قسم کے درجوں میں دیر میں نمو اور بہت کم حرکت ہوتی ہے۔  پھر نباتات اس درجہ سے آگے قدم رکھتا ہے اور حیات کے آثار اس میں قوی ہوتے جاتے ہیں اور اپنے سے کم درجہ کے نباتات پر امتیازِ خاص رکھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ درخت پیدا ہوتے ہیں جن کی نشو و نما کے لیے اعتدالِ مزاج کی وجہ سے عمدہ زمین، خوش گوار آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے، اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کے پھل محفوظ رکھے جائیں جن پر ان کی بقائے نوع موقوف ہے جیسے زیتون، انار، بہی، سیب، انجیر وغیرہ۔  پھر نبات ترقی کر کے انگور، کھجور تک پہنچتا ہے، یہاں پہنچ کر نبات اپنی انتہائی منزل پر پہونچ جاتا ہے کہ اگر اس میں ذرا اور قوت پیدا ہو جائے تو نباتات کی سرحد سے آگے بڑھ کر حیوانات ہیں داخل ہو جائے اور یہ اس لیے کہ کھجور تمام نباتات سے اتنا ممتاز ہو گیا ہے کہ اس کو حیوانات کے ساتھ بہت مشابہت ہو جاتی ہے۔  اول یہ کہ نر کھجور مادہ کھجور سے ممتاز ہوتا ہے اور حیوانات کی طرح مادہ کو نر سے حاملہ ہونے کی ضرورت ہوتی اور کھجوروں میں جڑ اور عروق کے سوا ایک اور چیز بھی ہوتی ہے جس پر اس کی حیات موقوف ہوتی ہے، یعنی کہا جاجو انسان اور حیوانات کے دماغ کے قائم مقام ہوتی ہے، اگر کھجور میں کہا جاکو کو کوئی صدمہ پہونچے تو کھجور ہی خشک ہو جاتی ہے اور میں نے کھجور اور حیوانات میں بہت سی مشابہتیں دریافت کی ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے یہ نباتات کا اعلیٰ درجہ ہے، مگر یہ حیوانیت کا دیباچہ ہے اور حیوانیت اس سے بالاتر ہے۔

نبات جب اپنی منزل سے آگے بڑھتا ہے تو اس کا پہلا زینہ یہ ہے کہ زمین سے الگ ہو جائے اور اس کو اس کی ضرورت نہ رہے کہ اس کی جڑیں زمین میں گڑی رہیں تاکہ وہ اختیاری حرکت کر سکے اور حیوانیت کا یہ ابتدائی درجہ ہے جو قوتِ حاسہ کی کمی کی وجہ سے ابھی کمزور ہے اور ابھی صرف اس میں ایک ہی قسم کا حاسہ پیدا ہوا ہے یعنی چھونے کی قوت، جیسے صدف اور کیڑے جو لبِ دریا پیدا ہوتے ہیں، اگر ان کو آہستہ سے پکڑو تو یہ زمین سے بالکل چمٹ جاتے ہیں، گو یہ زمین سے الگ ہیں اس لیے نباتات سے یہ بالکل مشابہ ہیں کہ ابھی تک یہ زمین سے بالکل بے نیاز نہیں ہیں۔

پھر حیوان آگے بڑھتا ہے، یہاں تک کہ اس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ چلنے پھرنے لگتا ہے، قوتِ احساس زیادہ ہوتی ہے جیسے کیڑے پتنگے، اور رینگنے والے کیڑے۔  پھر ترقی کرتا ہے اور اس میں فیضانِ روح زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ ایسا حیوان ہو جاتا ہے جس میں چار قسم کے حاسے ہوتے ہیں جیسے چھچوندر وغیرہ۔  پھر ایک زینہ اور قدم رکھتا ہے اور اس میں تھوڑی سی بصارت پیدا ہوتی ہے جیسے چیونٹی اور شہد کی مکھیاں۔  پھر آگے بڑھتا ہے یہاں تک کہ حیوان کامل الحواس پیدا ہوتے ہیں اور گو ان میں حواس خمسہ موجود رہتے ہیں، لیکن با اعتبار سمجھ کے ان کے مختلف طبقات ہوتے ہیں، بعض بے سمجھ ناقص الحواس ہوتے ہیں بعض سمجھدار، لطیف الحواس ہوتے ہیں جن میں تعلیم کی صلاحیت ہوتی ہے، امر و نہی کو سمجھتے ہیں، عقلِ انسانی کے قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے جیسے چوپایوں میں گھوڑا اور پرندروں میں باز۔  پھر حیوان ترقی کر کے حیوانیت کے انتہائی درجہ پر پہنچ جاتا ہے اور انسان کی سرحد میں داخل ہونا چاہتا ہے گو یہ درجہ باعتبار حیوانیت کے اعلیٰ ہے مگر بہ نسبت انسانیت کے بہت نیچے ہے اور یہ درجہ بندر وغیرہ کا ہے جو انسان سے بالکل مشابہ ہیں اور ان میں اور انسان میں تھوڑا ہی سا فرق ہے جس کو بندر اگر طے کر لیں تو بالکل انسان ہو جائیں۔

جب حیوان اس درجہ پر پہنچتا ہے، اس کا قد سیدھا ہوتا ہے، اس میں تھوڑی سی تمیز کی قوت آ جاتی ہے، مگر ابھی ان میں علوم کی استعداد نہیں ہوتی اور نہ ان کی روحانی قوت کچھ زیادہ زورآور ہوتی ہے اور یہ انسانِ کامل سے قریب کا درجہ حیوانیت کی انتہاء ہے، یہ حیوانی انسان زمین کے انتہائی آباد حصہ میں ادھر ادھر پائے جاتے ہیں، جیسے حبشی اور وحشی قومیں، کیونکہ ان میں اور آخری حیوانوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا، نہ تو ان سے کوئی حکمت اخذ کی جاتی ہے اور نہ یہ اپنی ہمسایہ قوموں سے اخذ کرتے ہیں، اس طرح عقل انسان درجہ بدرجہ بڑھتی جاتی ہے، یہاں تک کہ زمین کی وسط آبادی میں یعنی تیسری چوتھی پانچویں اقلیم میں عقلِ انسانی کمال کو پہنچ جاتی ہے اور ان میں ذہانت، سمجھ، بیدار مغزی، صنائع میں درک ہوتا ہے، علوم کی باریکیاں حل کرتے ہیں، فنون کو وسعت دیتے ہیں‘‘۔ (صفحہ75-69)

ابن مسکویہ کے نظریہ سے جدید اہمیت کے حامل کئی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔  مثلاً زندہ چیزوں (پودوں اور حیوانوں) کی درجہ بندی جسمانی اعتبار سے سادہ سے پیچیدہ کے انداز میں کی گئی ہے، جیسا کہ جدید دور میں کیا جاتا ہے۔

ابن مسکویہ کے ہم عصر اخوان الصفا کے رسائل میں بھی حیاتی ارتقاء اور انسان کی ارتقائی تخلیق کے تصورات مربوط شکل میں ملتے ہیں۔

 

ابنِ خلدون

 

مشہور تاریخ دان اور ماہرِ فلسفۂ تاریخ ابنِ خلدون (1332-1406) بھی تخلیقِ انسانی کو ایک مسلسل ارتقائی عمل کے طور پر دیکھتا ہے۔ اپنے مشہور ’مقدمہ‘ میں ایک مقام پر وہ کہتا ہے:  ’’ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس عالمِ دنیا کی ساری مخلوقات اپنی خاص ترتیب و نظم و نسق کے ساتھ موجود ہے۔ اسباب مسببات سے مربوط ہیں، اور ایک موجود دوسرے موجود سے متصل و وابستہ، اور بعض موجودات کا بعض سے رد و بدل اور استحالہ ہوتا۔۔۔۔ اول معدنیات ہیں، پھر نباتات اور پھر حیوانات، عجیب تدریجی ہیئت سے ایک دوسرے سے مربوط و منسلک ہیں۔  گویا، معدنیات کا اعلیٰ طبقہ نباتات کے اسفل طبقہ سے ملتا ہے۔ مثلاً گھاس پات اور بے بیج کے اگنے والی روئیدگی۔  اسی طرح نباتات کا اعلیٰ طبقہ حیوانات کے اسفل طبقہ سے متصل ہے۔  مثلاً کھجور و انگور وغیرہ کہ وہ حیوانات کے اسفل طبقہ میں شمار ہونے والے جانور گھونگے و سیپ سے ملتے ہیں، جن میں سوائے چھونے کی قوت کے اور کچھ نہیں پایا جاتا۔  ہمارے اس بیان کردہ اتّصالِ مکوّنات کا یہ مطلب ہے کہ ماتحت طبقہ کا اعلیٰ ترین فرد بالا طبقہ کے اسفل ترین فرد سے بدل جانے کی قابلیت رکھتا ہے۔ اس میں عالمِ حیوانات کا میدان بہت وسیع ہے اور کثیر انواع پر مشتمل ہے، اور یہ اپنے تکوینی مدارج طے کرتا ہوا عالمِ انسان سے جا ملتا ہے، اور انسان جو فکر اور رویّت رکھتا ہے۔  اور یہ فکر اور رویّت اس کو اس حکمِ اعلیٰ سے ملے ہیں، جس میں حواس و ادراک سب موجود و جمع ہیں۔  لیکن اعلیٰ حیوانات میں یہ فکر و رویّت بالفعل نہیں ہوتے۔  اور یہی وہ مرتبہ ہے جو حیوانات کے بعد انسان کو عالمِ انسانی کے ابتدائی درجہ میں ملتا ہے اور یہی تدریج ہمارے مشاہدے کی غایت ہے‘‘۔ (صفحہ 106)

اس اہم عبارت کا انگریزی ترجمہ مندرجہ ذیل طور پر کیا گیا ہے:

"This world with all the created things in it has a certain order and solid construction. It shows nexuses between causes and things caused, combinations of some parts of creation with others, and transformations of some existent things into others, in a pattern that is both remarkable and endless……

One should then take a look at the world of creation. It started out from the minerals and progressed, in an ingenious, gradual manner, to plants and animals. The last stage of minerals is connected with the first stage of plants, such as herbs and seedless plants. The last stage of plants, such as palms and vines, is connected with the first stage of animals, such as snails and shellfish which have only the power of touch. The word ‘connection’ with regard to these created things means that the last stage of each group is fully prepared to become the first stage of the newest group.

The animal world then widens, its species become numerous, and, in a gradual process of creation, it finally leads to man, who is able to think and reflect. The higher stage of man is reached from the world of monkeys, in which both sagacity and perception are found, but which has not reached the stage of actual reflection and thinking. At this point we come to the first stage of man. This is as far as our (physical) observation extends.” [pp 74-75]

 

مولانا جلال الدین رومی کا نظریہ

 

انسان کی ارتقائی تخلیق کے تصورات کے حوالے سے جن قدیم مسلم مفکرین کو شہرت حاصل ہے، ان میں شاید سب سے زیادہ مشہور مولانا روم ہیں۔  علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں مولانا روم کے تصور ارتقاء کا خاص طور پر ذکر کیا ہے (صفحہ 288,183)۔

مولانا روم کا تصورِ ارتقاء جو اپنی جامعیت کے اعتبار سے امتیازی مقام رکھتا ہے ،ا ب اہلِ علم میں بالعموم اچھی طرح معروف ہے۔  مولانا روم کی مشہور مثنوی کے دفترِ چہارم میں وہ نظم جس میں انہوں نے انسان کے ارتقاء کا اپنا نظریہ دیا ہے، کا عنوان بذاتِ خود حیرت انگیز ہے:  بیانِ اطوار و منازلِ خلقتِ آدمی از ابتدائے خلقت‘‘۔ یعنی انسان کی تخلیق کے مراحل و منازل کا بیان، ابتدائے خلقت سے۔  ذیل میں متعلقہ اشعار اور ان کا ترجمہ دیا جاتا ہے:

آمدہ اول بہ اقلیمِ جماد

وزجمادی در نباتی اد فتاد

سالہا اندر نباتی عمر کرد

وزجمادی یاد ناورد از نبرد

وزنباتی چوں بہ حیواں اوفتاد

نامدش حالِ نباتی ہیچ یاد

باز از حیواں سوئے انسانیش

می کشد آاں خالقے کہ دانیش

ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت

تاشد اکنوں عاقل وداناوزفت

یعنی، پہلے وہ جماد کی اقلیم میں آیا، پھر وہ جمادی (اقلیم) سے نباتی (اقلیم) میں آیا۔  سالہا نباتی اقلیم میں عمر بسر کی اور اسے اپنی جمادی زندگی کی کوئی بات یاد نہ رہی۔ پھر وہ عالمِ نباتات سے جب عالمِ حیوانات میں آیا تو اس کو نباتی (اقلیم) کا حال کبھی یاد نہ آیا۔۔۔۔ پھر اسے عالمِ حیوانات سے اس خالق نے جسے تم خوب جانتے ہو، عالمِ انسانیت کی طرف کھینچ لیا۔  اس طرح وہ ایک اقلیم سے دوسری اقلیم کی طرف سفر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اب وہ عقل مند،د انا اور قوی ہو گیا‘‘۔

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں:

’’جلال الدین رومی کا نظریہ ارتقاء بلکہ ایمان بالارتقاء اس قدر واضح اور قوی ہے کہ مغرب کے ارتقائی فلسفی آج بھی اس کو اپنا پیش رو سمجھ کر اس کا حوالہ دیتے ہیں‘‘۔ (فکرِ اقبال، صفحہ 673)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلم حکماء نے ارتقاء کا جو تصور پیش کیا تھا، وہ نامیاتی ارتقاء کے جدید تصورات سے زیادہ جامع تھا۔  سائنسی نظریہ صرف جسمانی ارتقاء سے بحث کرتا ہے (ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہی چیز سائنس کے دائرے میں آتی ہے) لیکن اس کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ہم انسان اپنے ارتقاء کی جس منزل پر ہیں وہ ہماری آخری منزل ہے، درست نہیں۔  اس سے نہ صرف انسان کے مزید ارتقاء جو ممکنہ طور پر روحانی اعتبار سے ہو گا کہ نفی ہوتی ہے، بلکہ انسان محض ایک مادی وجود کے طور پر سامنے آتا ہے جسے جسمانی موت ہمیشہ کے لیے فنا کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ سوائے مایوسی اور قنوطیت کے اور کیا نکل سکتا ہے۔  مسلمان حکماء کے نزدیک زندگی کا ارتقائی سفر انسان کی جسمانی تخلیق پر آ کر رک نہیں جاتا بلکہ روحانی سطح پر جاری رہتا ہے۔  رومی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اپنی کتاب حکمتِ رومی میں لکھتے ہیں:

’’اس جمادی حالت میں میری روح کی کیفیت ہوا کے ذرات کی تھی جو بے اختیار ادھر ادھر اڑتے پھرتے ہیں اس کے بعد میں اس اعلیٰ تنظیم میں آیا جو نباتی حالت ہے جس میں ذرات ایک مقصدِ نشو و نما کے ماتحت منظم ہو جاتے ہیں۔  اس سے ترقی کی تو حیوانیت میں آیا جس میں نشو و نما کے علاوہ حرکت ارادی بھی ہے اور نقل مکاں کی صلاحیت بھی۔ حیوانیت کے درجے کو عبور کر کے انسانیت کی طرف بڑھا۔  اگر ادنیٰ درجہ کی موت وارد نہ ہوتی تو اوپر والے درجے میں عروج نا ممکن تھا۔  جب مجھے فنا سے بقا کے حصول کا قانون معلوم ہو گیا ہے اور میرے تجربے میں آ چکا ہے تو پھر میں انسانی جسم و نفس کی موت سے کیوں ڈروں۔ کسی پہلی موت سے میں کم تو نہیں ہوا، زیادہ ہی ہوتا گیا۔  جسم کثیف سے آزاد ہو کر میرا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور میں کثافت سے لطافت کی طرف ترقی کروں گا۔  اب لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کرے گی تو ملائکہ کے انداز کی پرواز اور آلائشوں سے تنزیہہ ہو گی، لیکن زندگی ارتقائے مسلسل ہے۔  اس حالت میں بھی ٹھہروں گا نہیں، اس سے برتر حالت ماوراء ملکیت کیا ہے وہ وہم و گماں میں بھی نہیں آتی لیکن اس کے ہونے میں شک نہیں ہو سکتا۔  اس کے بعد ایسی حالت میں پہنچوں گا جس پر زمانی و مکانی اور عقلی وجود کی کسی حیثیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وجود کے مقابلے میں عدم ہی کا لفظ انسان کی زبان میں ہے، لہٰذا اس کو عدم ہی کہ لیتا ہوں‘‘۔  (بحوالہ ڈاکٹر نعیم احمد صفحہ 237,236)

ڈاکٹر نعیم احمد لکھتے ہیں:

’’کائنات کے مجموعی نظام کے پس منظر میں دیکھا جائے تو جس انسان کی تخلیق کے لیے ارتقائی عمل لاکھوں کروڑوں سال سے جاری رہا ہے اس کا اب موت کی صورت میں ضائع ہو جانا نا ممکن نظر آتا ہے۔  جس طرح وہ ارتقاء کی منزلیں طے کرتا آیا ہے، اس سے تو یہ مترشح ہوتا ہے کہ موت کے بعد بھی اس کا ارتقائی عمل جاری رہے گا‘‘۔ (ڈاکٹر نعیم احمد، صفحہ 274)

 

جدید مسلم مفکرین

 

جدید مسلم مفکرین اور اہلِ علم میں سے بہت سی اہم اور معروف شخصیات انسان کی ارتقائی تخلیق کے تصور کی حامی ہیں۔  ان میں اہم ترین نام علامہ محمد اقبال کا ہے، جنہوں نے مولانا جلال الدین رومی کے اتباع میں ارتقاء کو ایک وسیع، حرکی اور جای عمل کے مفہوم میں دیکھا ہے۔  ان کے علاوہ شبلی نعمانی، مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ عنایت اللہ المشرقی، ڈاکٹر حمید اللہ، ڈاکٹر رفیع الدین، ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، علامہ محمد اسد، علامہ غلام احمد پرویز، ڈاکٹر اسرار احمد، اور بہت سے دوسرے دانشور اور مصنفین شامل ہیں۔  مسلم مفکرین بجا طور پر ارتقاء کی مادیت پرستانہ، لا الٰہیاتی تشریح کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے خدا کا طریقۂ تخلیق اور اس کی مشیت کی کارفرمائی قرار دیتے ہیں۔ ارتقاء کا تعلق روح سے نہیں، جسم سے ہے۔  روح کا تعلق ’’عالمِ بالا‘‘ سے ہے، جبکہ جسم عالمِ مادہ سے تعلق رکھتا ہے جس میں طویل ارتقاء کے نتیجے میں جسمِ انسانی وجود میں آیا۔ ذیل میں ہم چند جدید اہلِ علم و فکر کے نظریات اور آراء پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔

 

علامہ اقبال

 

عہدِ حاضر کے عظیم مسلم فلسفیاور شاعر علامہ محمد اقبال زندگی کو جاوداں، پیہم دواں اور ہر دم جواں حقیقت کی شکل میں دیکھتے ہیں۔  ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں:

’’علامہ اقبال حیاتیاتی ارتقاء کے قائل ہیں اور اس کو قرآنی تعلیم کے منافی نہیں سمجھتے‘‘۔

(فکر اقبال، صفحہ 667)

ڈاکٹر نعیم احمد لکھتے ہیں:

’’یہ بات وضاحت سے سامنے آ جاتی ہے کہ اقبال اپنے پیشرو مفکرین، جاحظ، ابن مسکویہ، رومی وغیرہ کی طرح ایک مسلسل اور بتدریج عملِ ارتقاء کا قائل ہے۔  مادہ کو وہ ’’ادنیٰ خودیوں کی بستی‘‘ قرار دیتا ہے اور جب ان ادنیٰ خودیوں کا عمل و تعامل ایک خاص نسق پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے ایک اعلیٰ تر خودی کا ظہور ہوتا ہے‘‘۔  بالفاظ دیگر، انسان کی آفرینش ایک طویل مادی ارتقاء کے بعد ہوتی ہے‘‘۔  (ڈاکٹر نعیم احمد، صفحہ 287)

 

ڈاکٹر رفیع الدین

 

ڈاکٹر رفیع الدین ان مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے ارتقاء اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا۔  اس اعتبار سے ان کی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ ان کا ایک اہم کارنامہ ہے۔  ڈاکٹر رفیع الدین نہ صرف ارتقاء کے پرجوش حامی ہیں، بلکہ اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ارتقاء کے حق قرآن پاک سے دلائل پیش کرتے ہیں۔  وہ ڈارون کے نظریہ پر گہرا نقد و نظر کرتے ہیں اور پھر اپنا نظریۂ ارتقاء پیش کرتے ہیں۔  اسی کتاب میں ڈاکٹر رفیع الدین نے قرآنِ پاک کے قصۂ آدم کی جو تمثیلی تشریح کی ہے، وہ اپنے اندر سوچنے سمجھنے کا نہایت اہم سامان رکھتی ہے۔  اس طرح، وہ فکرِ اقبال کے شارح کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

 

ابو الکلام آزاد

 

ابو الکلام آزاد کا نام عصرِ حاضر کے معروف مفسرینِ قرآن میں آتا ہے۔  ان کی تفسیر ترجمان القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تخلیق کے ارتقائی تصور کے قائل ہیں۔  ایک مقام پر لکھتے ہیں:

’’وجود انسانی کرۂ ارض کے سلسلۂ خلقت کی آخری اور اعلیٰ ترین کڑی ہے اور اگر پیدائش حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے۔  تو یہ ایک ناقابل شمار مدت کے مسلسل نشو و نما کی تاریخ ہو گی۔ گویا، فطرت نے لاکھوں کروڑوں برس کی کارفرمائی و صناعی سے کرۂ ارضی پر جو اعلیٰ ترین وجود تیار کیا ہے وہ انسان ہے‘‘۔  (صفحہ 59,58)

ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں:

’’ماضی کے ایک نقطۂ بعید کا تصور کرو جب ہمارا یہ کرہ سورج کے ملتہب کرے سے الگ ہوا تھا۔  نہیں معلوم کتنی مدت اس کے ٹھنڈے اور معتدل ہونے میں گزر گئی اور یہ اس قابل ہوا کہ زندگی کے عناصر اس میں نشو و نما پا سکیں۔  اس کے بعد وہ وقت آیا جب اس کی سطح پر نشو و نما کی سب سے پہلی داغ بیل پڑی، اور پھر نہیں معلوم کتنی مدّت کے بعد زندگی کا وہ اوّلین بیج وجود میں آ سکا جسے پروٹوپلازم (Protoplasm) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔  پھر حیاتِ عضوی کے نشو و نما کا دور شروع ہوا، اور نہیں معلوم کتنی مدّت اس پر گزر گئی کہ اس دور نے بسیط سے مرکب تک اور ادنیٰ سے اعلیٰ درجے تک ترقی کی منزلیں طے کیں۔  یہاں تک کہ حیوانات کی ابتدائی کڑیاں ظہور میں آئیں، اور پھر لاکھوں برس اس میں نکل گئے کہ یہ سلسلۂ ارتقاء وجود انسانی تک مرتفع ہو۔  پھر انسان کے جسمانی ظہور کے بعد اس کے ذہنی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک طول طویل مدّت اس پر گزر گئی۔  بالآخر ہزاروں برس کے اجتماعی اور ذہنی ارتقا کے بعد وہ انسان ظہور پذیر ہو سکا جو کرہ ارض کے تاریخی عہد کا متمدن اور عقیل انسان ہے!

گویا، زمین کی پیدائش سے لے کر ترقی یافتہ انسان کی تکمیل تک، جو کچھ گزر چکا ہے اور جو کچھ بنتا سنورتا رہا ہے وہ تمام تر انسان کی پیدائش و تکمیل ہی کی سر گزشت ہے!‘‘ (ایضا، صفحہ 59)

چنانچہ، ابو الکلام آزاد کے نزدیک انسان ارتقائی مدارج طے کر کے اپنی موجودہ شکل تک پہنچا ہے۔  وہ کہتے ہیں:  ’’…ہر انسان کا جنین اب بھی ان مدارج سے گزر کر انسان بنتا ہے، جن مدارج سے گزر کر انسان اپنے موجودہ مرتبہ خلقت تک پہنچتا ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، جلد دوئم، صفحہ 544)

 

علامہ عنایت اللہ المشرقی

 

علامہ عنایت اللہ المشرقی نے اپنی کتاب تذکرہ کی پہلی جلد میں ارتقاء کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔  ایک مقام پر تفصیلی حاشیہ لکھا جس میں نظریہ ارتقاء اور ارتقائی تخلیق کی پر جوش حمایت کی۔ علامہ المشرقی اس بات پر دکھی ہیں کہ کچھ مسلمان نظریۂ ارتقاء کو نہ سمجھنے کے باعث اس کی تضحیک کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مسئلہ ارتقا کی تخفیف و توہین جس انداز سے کر رہے ہیں اس سے کم از کم یہ مترشح ہوتا ہے کہ انحطاط پذیر اقوام میں اپنے آبائی کارناموں کی یاد کس سرعت سے محو ہو جاتی ہے … لیکن آج چونکہ مغربی حکماء نے اس نظریے کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے، اور اس سے مستقل نتائج اخذ کر کے حفظ و امن کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں، مسلمان اس سے یکسر بیزار ہو گئے ہیں، اور اس کی تضحیک کر کے اپنی نادانی کا ثبوت دے رہے ہیں۔‘‘ (صفحہ 11)

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’مسئلہ ارتقاء و انتخاب طبعی آج مغرب کے تمام پہنائے علم و تحقیق میں وہ عظیم الشان انکشاف ہے جس کی عظمت اور نافعیت کا صحیح اندازہ لگانا قانونِ فطرت کے صحیح علم کے بدون از بس مشکل ہے۔  اس مسئلے نے صحیح معنوں میں فطرت کے سرِّ عظیم کو ایک بہت بڑی حد تک آشکارا کر دیا ہے، اس نے حیات کے حجابِ اکبر کو چاک کر کے انسان کو معرفتِ نفس کا پہلا اور گراں قدر سبق دیا ہے، اس نے انسان کو شناسائی خدا میں مستقل مدد دی ہے …‘‘ (ایضاً)

علامہ المشرقی آگے چل کر لکھتے ہیں:

’’جو لوگ اس مسئلے سے اس لیے بیزار ہیں کہ اس میں نشو خود اختیاری کے باعث تعطل خدا کی شان پائی جاتی ہے، یا اس کی خالقیت میں ایک ناقابلِ برداشت تعویق ثابت ہوتی ہے، ان کے دلوں میں خدا کی عظمت اور قدرت، ازلیت اور ابدیت کا اندازہ بہت کم ہے۔  …اکثر لوگ اس خلاقِ عظیم کا اندازہ انسانی قوتوں اور بشری واماندگیوں کو پیش نظر رکھ کر کرتے ہیں، اور اسی لیے اصلیت کی لا انتہا وسعت تک نہیں پہنچ سکتے۔‘‘ (ایضاً)

علامہ المشرقی مسئلہ ارتقاء کو انسانی علم کا معراج قرار دیتے ہیں (ایضاً، صفحہ 25) ، انہوں نے اپنے اس طویل حاشیے میں نظریہ ارتقاء کے مختلف نکات کی تشریح کرتے ہوئے قرآن پاک کی آیات کے ساتھ ان کی تطبیق کی ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’قرآن کو کتابِ خدا مان کر مسئلۂ ارتقاء کے درست ہونے، یا مسئلۂ ارتقاء کی عینی اور علمی شہادت پا کر قرآن حکیم کے منجانبِ اللہ ہونے کی آج تک اس سے بہتر اور روشن تر شہادت کہیں موجود نہیں‘‘۔  (ایضاً صفحہ 16)

 

مفتی طرابلس الشیخ ندیم الجسر

 

الشیخ ندیم بن حسین الجسر انیسویں – بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر تھے۔  ان کا تعلق لبنان سے تھا۔ ان کی ایک اہم کتاب ’’قصۃ الایمان بین الفلسفہ والعلم والقرآن‘‘ ہے، جس کا اردو میں ترجمہ خدا بخش کلیار ایڈووکیٹ نے ’’فلسفہ، سائنس اور قرآن‘‘ کے نام سے کیا ہے۔  کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ الجسر فلسفہ اور سائنس اور ان کی تاریخ وا رتقاء پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ کتاب میں ’’ڈارون اور الجسر‘‘ کے نام سے ایک باب ہے جو تقریباً 42 صفحات پرپھیلا ہوا ہے۔  صاحبِ کتاب کے مطابق ارتقاء کے جدید نظریات پر ’’شدید حملہ ڈارون کی آراء کی حقیقت کو سمجھے بغیر کیا گیا یا اس خیال کی بنیاد پر کہ وہ آراء اللہ کے وجود پر ایمان سے قطعی بنیادی طور پر متعارض ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں‘‘۔  کتاب کے مطابق ’’الجسر بھی قطعی سائنسی، علمی حقائق کا انکار کرنے والے علماء پر شدید نکیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ دین کے اصول و قواعد سے جاہل، دین کے حکیمانہ احکام اور قطعی عقلی دلائل کے مابین موافقت کے طریقوں سے نابلد ہونے کے باعث ایمان کے راستے کی دشوار گزار گھاٹی ہیں۔  اس لیے وہ دین کے شدید دشمنوں سے زیادہ دین کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘۔  (صفحہ 219)

الجسر کے مطابق ڈارون کا نظریہ، اللہ تعالیٰ جو کہ ہر شے کا خالق ہے، کے وجود کے تصور سے متناقض نہیں (صفحہ 233)۔  ’’دینِ حق علمی حقائق کے قبول کرنے میں تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کرتا نہ اس سے متعارض ہوتا ہے، اور نہ ہی ان کے سامنے جامد ہوتا ہے جیسا کہ جاہل اور جامد لوگ خیال کرتے ہیں‘‘۔  (صفحہ 234)

 

علامہ محمد اسد

 

علامہ محمد اسد ہمارے عہد کے چوٹی کے مفسرین میں شمار ہوتے ہیں۔  The Message of the Quran آپ کا ایک نہایت شاندار کارنامہ ہے۔  دنیا کے پڑھے لکھے مسلمان حلقے پر آپ کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔  اپنے ترجمہ اور تفسیر The Message of the Quran میں آپ نے قرآن میں انسان کی تخلیق اور قصۂ آدم سے متعلق آیات کی تشریح میں انتہائی پر مغز نوٹ لکھے ہیں جو حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔  علامہ محمد اسد جانداروں اور انسان کی ارتقائی تخلیق کے حامی ہیں۔  انہوں نے قصۂ آدم کی تشریح بھرپور دلائل کے ساتھ ایک تمثیل کے طور پر کی ہے۔

ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنے مشہور خطباتِ بہاولپور میں ڈارون کی تعریف کی ہے، اور خیال ظاہر کیا ہے کہ ڈارون کے ارتقائی نظریہ کی تشکیل میں قدیم مسلم حکماء کے نظریات کا کردار ہو سکتا ہے۔ وہ قرآنِ پاک کی آیات سے ارتقا ء کے حق میں دلائل لاتے ہیں۔  ’’ خدا نے انسان کو طور بہ طور پیدا کیا‘ اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اولاً جمادات کی شکل میں بنایا، پھر وہ جمادات ترقی کرتے ہوئے نباتات بنتے ہیں، پھر حیوان بنتے ہیں۔  غرض اس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔‘‘ (صفحہ185-187)

علامہ غلام احمد پرویز مشہور اسکالر اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ نظریۂ ارتقاء کے پر جوش حامی ہیں۔ خاص طور پر اپنی کتاب ’ابلیس و آدم‘ میں انھوں نے انسان کی ارتقائی تخلیق اور قصۂ آدم کی تفصیلی تشریح کی ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد ہمارے عہد کے ان اسلامی اسکالرز میں سے ہیں جنہوں نے قرآن مجید کو سمجھنے اور سمجھانے میں زندگی بھر تگ و دو کی ہے۔  انہوں نے اپنے خطبات اور مضامین میں الٰہیاتی تصور ارتقاء کی حمایت کی ہے۔  ان کی رائے یہ ہے کہ جب نامیاتی ارتقاء کے نتیجے میں ’’حیوانِ انسان‘‘ تشکیل پا گیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں روح ڈال کر اسے مکمل انسان حضرت آدم علیہ اسلام بنا دیا‘‘۔  سورہ الحجر ۲۹، ۳۰ اور سورہص ۷۲، ۷۳ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں:

’’ان دونوں مقامات پر ’’تسویہ‘‘ کی اصطلاح میں سمو لیا گیا ہے پورا عملِ ارتقاء حیاتِ ارضی، جو منتج ہوا ’’حیوان انسان‘‘ کے ظہور پر، اس کے بعد ذکر ہوا اس حیوان انسان میں روحِ آدم کے پھونکے جانے کا جو اس وقت تک مخزنِ ارواح میں محوِ خواب تھی۔۔۔۔ اور اس طرح وجود میں آئے حضرت آدم علیہ اسلام‘‘۔ (صفحہ 35)

ہم نے سطور بالا میں صرف چند معروف مفکرین اور اسکالرز کا حوالہ دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کے حامی مسلم اہلِ علم کی تعداد بہت زیادہ ہے۔  انٹرنیٹ پر بے شمار ایسے مضامین دیکھے جا سکتے ہیں جن میں اسلامی نقطۂ نظر سے ارتقائی تخلیق کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔

اس باب میں ہمارا بنیادی مقصد یہ دکھانا تھا کہ تصورِ ارتقا مسلمانوں کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں بلکہ یہ مسلم دانشور ہی تھے جنہوں نے اسے پہلے پہل ایک علمی نظریہ کے طور پر پیش کیا تھا۔  دوسرے، یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ عصرِ حاضر میں بے شمار مسلم اہلِ علم ارتقاء کو بنیادی طور پر ایک درست نظریہ تصور کر تے ہیں، جن کے مطابق ارتقاء وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے خدا نے انسان اور دوسرے جانداروں کو تخلیق کیا ہے۔

آج، نظریۂ ارتقا ء ایک عام مفروضہ (Hypothesis) نہیں رہا۔  یہ ایک ایسا سائنسی نظریہ ہے جس کے حق میں لاتعداد دلائل موجود ہیں۔  یہ نظریہ سائنس کے مختلف شعبوں بیالوجی، جیالوجی، بایوکیمسٹری، پیلنٹالوجی وغیرہ میں دریافت کئے جا نے والے حقائق کی بہترین طور پر تشریح کرتا ہے۔

اگر ہم اس نظریہ کو اللہ تعالیٰ کے طریقۂ تخلیق کے طور لیں تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔  اسلام کی کسی بنیادی حقیقت اور قرآن پاک کے کسی بیان سے اس کا قطعاً کوئی ٹکراؤ نہیں۔  ہمارے لیے یہ ممکن کہ ہم دلائل کے ساتھ اسے قبول کر لیں یا پھر چاہیں تو رد کر دیں۔  دونوں صورتوں میں اسلامی مبادیات اور ایمانیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔  یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور اسے علمی مسئلہ ہی سمجھنا چاہیے۔

 

کتنے آدم؟

 

زمین کے مختلف خطوں میں کی جانے والی کھدائیوں سے جو رکاز (فوسلز Fossils) حاصل ہوئے ہیں، ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جدید انسان کے ظہور میں آنے سے قبل زمین پر انسان سے ملتے جلتے جاندار رہے ہیں۔  حیاتیات اور Paleontology کے ماہرین نے انہیں ان کی بعض خصوصیات کی بنیاد پر مختلف نام دیئے ہیں مثلاً Homo erectus, Homo habilis وغیرہ۔  ماہرین ماضی میں پائے جانے والے ان انسان نما جانداروں کوانسانوں کے زمرہ (جینسgenus) ، ہومو (Homo) کی مختلف انواع (species) قرار دیتے ہیں۔

اس حوالے سے یہ بات دلچسپی کی حامل ہو گی کہ بعض مسلم مفکرین اس بات کے قائل تھے کہ ہمارے آدم سے پہلے بہت سے دوسرے آدم گزرے ہیں۔  مثال کے طور پر امام جعفر صادق (م765ء) سے یہ قول منسوب ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے دس لاکھ آدم پیدا فرمائے، جدید انسان، سب سے آخری آدم کی اولاد ہیں‘‘۔ (علامہ محمود الوسی، تفسیر روح المعانی، زیر آیت 4: 1 بحوالہ ابنِ بابویہ (م 991ء)

اسی طرح امام محمد بن علی الباقر (م 132ء) نے کہا ہے کہ ’’ہمارے جد امجد آدم سے پہلے دس لاکھ بلکہ زیادہ آدم گزرے ہیں‘‘۔  (ایضاً، بحوالہ شرح الکبیر)

عظیم صوفی فلسفی محی الدین ابن عربی (م1240) اپنی کتاب ’’فتوحات المکیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ایک بار جب میں کعبہ کا طواف کر رہا تھا، میں نے ایک اجنبی کو دیکھا جو عام لوگوں سے خاصا مختلف تھا۔  میں اس کے قریب پہنچا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا ’’میں تمہارے دُور کے آباء و اجداد میں سے ہوں‘‘۔  میں نے پوچھا، آپ کا زمانہ کونسا ہے اس نے جواب دیا، ’’مجھے فوت ہوئے چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے‘‘۔  میں نے کہا کہ ’’کہا جاتا ہے کہ آدم پہلے انسان تھے اور وہ چھ ہزار سال پہلے گزرے ہیں‘‘۔  وہ بولا ’’تمہاری مراد کونسا آدم ہے؟‘‘ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آخری آدم تھے، ان سے پہلے ایک لاکھ آدم آئے اور چلے گئے‘‘۔  ابن عربی کہتے ہیں اس موقع پر مجھے رسول کریمﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ خدا نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے تھے اور ہر دو آدم کے درمیان سترہ سو سال کا وقفہ تھا۔‘‘ (ابن عربی، فتوحات المکیہ، جلد سوم صفحہ 607)

علمی اعتبار سے ان روایات کی قدر و قیمت پر ایک سے زیادہ آراء ہو سکتی ہیں۔  ابنِ عربی کے بیان میں مذکور حدیث ممکن ہے کہ سند کے اعتبار سے کمزور ہو، نیز اس میں مذکور ’’آدموں‘‘ کی تعداد اور ان کے درمیان زمانہ کی طوالت ممکن ہے کہ صرف علامتی ہو، ان کا مدعا ریاضیاتی نہ ہو جیسا کہ بہت دفعہ اس طرح کی روایات میں ہوتا ہے۔  تاہم، یہ روایات زمین کی قدامت اور انسان کی طویل تاریخ کی سائنسی دریافتوں کی تائید کرتی ہیں۔  مزید براں، ان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زمین کی طویل عمر کا تصور مسلم مفکرین کے لیے ہر گز نیا نہیں۔  نیز انسان کی عام تصور سے کہیں زیادہ قدیم تاریخ بھی ایسی نہیں جو ان کے لیے حیرت کا باعث ہو۔  آپ سائنسی اور علمی دلائل کی بنیاد پر ایک یا دوسری رائے رکھ سکتے ہیں۔

 

 

 

باب 6 : انسان کی تخلیق اور قرآن

(Human Creation and the Qur’an)

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق چند ہزار سال پہلے مٹی کا پتلا بنا کر اس میں پھونک مار کر کی، یا اسے طویل ارتقائی عمل کے ذریعے وجود عطا کیا؟ قرآن کیا کہتا ہے؟

 

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، یہ بات محتاجِ بیان نہیں کہ قرآنِ کریم اپنے آپ کو سائنس کی کتاب کے طور پر پیش نہیں کرتا، لہٰذا اس کا مطالعہ اس طور پر کرنا گویا کہ وہ سائنس کی نصابی کتاب ہے، یقیناً درست نہیں ہو گا۔  لیکن قرآن پاک میں کثرت سے ایسی آیات موجود ہیں جن میں کائناتی اشیاء اور اعمال و مظاہر کے حوالے ہیں جن کا مطالعہ ہم سائنس میں کرتے ہیں۔  ان کی تشریح کی یقینی طور پر ضرورت ہو گی۔ اس کا مدّعا یہ ہو گا کہ کسی شے، کسی مظہر یا کسی عمل (پروسیس) کو سمجھنے میں قرآنِ پاک سے ہمیں کیا مدد یا راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔  قرآنِ پاک میں بہت سی آیات میں انسان کی تخلیق کا ذکر ہے۔ مختلف مذہبی اور غیر مذہبی روایات میں تخلیق کی جو داستانیں ملتی ہیں، قرآن ان سے بالکل مختلف تصویر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔  اس کی تھیم اور فلاسفی ہی مختلف ہے۔  قرآنی آیات میں انسان کی تخلیق کی نسبت سے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ براہِ راست تخییق کے دیومالیتی تصور کی نفی کرتے ہیں۔  ان سے انسان کی خلقت کا ایسا نقشہ سامنے آتا ہے جو علمی طور پر قابلِ فہم ہے۔ بلکہ ہمیں تخلیقِ انسانی کی سائنسی تفہیم میں اہم راہنمائی ملتی ہے۔

انسانی تخلیق کی سائنسی تشریح قرآن کا موضوع نہیں، لیکن چونکہ انسان بذاتِ خود قرآن کا موضوع اور مخاطب ہے، لہٰذا اس کی تخلیق کے متعلق مختلف مقامات پر اشارے کئے گئے ہیں۔  ذیل میں ہم ایسے ہی چند مقامات کا مطالعہ کریں گے۔

 

زندگی اور پانی

 

زندگی اور پانی کا گہرا اور انمٹ تعلق ہے۔  زندگی جسے ہم جانتے ہیں، کا وجود ہی پانی پر دارومدار رکھتا ہے۔  قرآن پاک (سورہ انبیاء 21: 30) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے‘‘

زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اہم سوال یہ ہے کہ ’’ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کرنے‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ اسے ہم دو طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔

(ا) زندہ اشیاء کو اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازمی طور پر پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔  پانی کے بغیر کسی جاندار، نباتات، حیوانات، انسان کے زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔  مثال کے طور پر ایک انسان غذا کے بغیر مہینے سے بھی زیادہ زندہ رہ سکتا ہے لیکن پانی کے بغیر وہ صرف ایک ہفتہ کے لگ بھگ اپنی زندگی برقرار رکھ سکتا ہے۔  پانی اور زندگی کا تعلق اتنا بنیادی ہے کہ سائنس دان جب چاند، مریخ یا کسی دوسرے سماوی جسم پر زندگی کے امکانات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو وہ سب سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا وہاں پانی پایا جاتا ہے یا نہیں۔

در اصل، پانی کسی جاندار کے جسم کا ایک بڑا جزو ہوتا ہے۔  مثال کے طور پر انسانی جسم میں تقریباً 70 فیصد پانی پایا جاتا ہے۔  آبی جانداروں میں پانی اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔  مثلاً جیلی فش میں تقریباً 90 فیصد پانی ہوتا ہے۔  کسی جاندار کے جسم میں پانی وہ واسطہ ہے جس میں زندگی کے تمام تر اعمال وقوع پذیر ہوتے ہیں۔  سوال یہ ہے کہ پانی زندگی کے لیے اتنا ضروری کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ زندگی کی نشو و نما اور بقا پانی پر اس قدر انحصار رکھتی ہے؟

(ب)  ’’ہر چیز کو پانی سے پیدا کرنے‘‘ کے جملے میں ممکن ہے کہ زندگی کے آغاز کی طرف اشارہ ہو۔  یعنی زندگی کا ظہور اور آغاز پانی کے ماحول میں ہوا۔  زندگی کی ابتداء ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے، جسے سائنسی سطح پر پوری طرح سمجھنا ابھی باقی ہے۔  تاہم اس میں کسی نہ کسی درجے میں پانی کا حصہ لینا ضروری مانا جاتا ہے۔  جدید حیاتیاتی دریافتوں کے مطابق زندگی کا آغاز قدیم سمندروں کے کنارے کیچڑ میں ہوا۔

زندگی کے آبی آغاز (Aquatic origin) کے تصور سے ہمیں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ پانی زندگی کے لیے اتنا ضروری کیوں ہے۔  نظریۂ ارتقاء کے مطابق سادہ ترین ابتدائی جاندار جو کہ آج کے جانداروں کے اوّلین اجداد ہیں پانی کے ماحول میں اس طرح وجود میں آئے کہ پانی ان کے جسموں کا لازمی حصہ بن گیا۔  لہٰذا زندگی کا آغاز ہی پانی پر منحصر مظہر (Water-dependant phenomenon) کے طور پر ہوا۔  اب کوئی جاندار پانی کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔  چنانچہ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اوپر جس آیت (21: 30) کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں زندگی کے آبی آغاز کی طرف اشارہ ہے۔

ایک اور مقام (سورہ نور 24: 45) پر پانی سے جانداروں کی تخلیق کا ذکر اور زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے:

’’اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے، تو ان میں کچھ تو پیٹ کے بل رینگتے ہیں، کچھ دو ٹانگوں پر چلتے ہیں، اور بعض چار ٹانگوں پر چلتے ہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے‘‘۔

اس آیتِ کریمہ میں حیوانات کی مختلف جانی پہچانی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے ان کی پانی سے تخلیق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔  یہاں فطری طور پر حیوانات کی صرف ان اقسام کا ذکر کیا گیا ہے جو عام انسان کے لیے جانی پہچانی ہیں۔  رینگ کر چلنے والے حیوانات میں وہ حیوانات شامل ہیں جنہیں Reptiles (سانپ اور گوہ کی اقسام سے تعلق رکھنے والے حیوانات، ہوّامیئے) کہا جاتا ہے۔  دو ٹانگوں پر چلنے والے حیوانات میں انسان سرِ فہرست ہے۔ اس کے علاوہ ان میں پرندے اور بعض Hominids شامل ہیں۔  ایک قدیم انسانی نوع Homo erectus بھی دو ٹانگوں پر چلتی تھی۔  چار ٹانگوں پر چلنے والے حیوانات میں کثرت سے وہ حیوانات شامل ہیں جنہیں دودھ پلانے والے حیوانات (ممالیہ Mammals) کہا جاتا ہے۔

آیت میں جاندار کے مفہوم میں لفظ ’دابہّ ‘ استعمال ہوا ہے۔  اس کا معنی ہے وہ مخلوق جس میں قدرتی طور پر از خود حرکت (spontaneous movement) پائی جاتی ہو۔  چنانچہ اس میں انسان سمیت تمام حیوانات شامل ہیں۔  اگر ہم اسے زیادہ وسیع معنوں میں لیں تو اس میں نباتات بھی شامل ہوں گے، کیونکہ ان میں بھی مخصوص قسم کی حرکت جیسے بالیدگی (growth) اور نشو و نما (development) پائی جاتی ہے۔  اس کے علاوہ ان میں بھی حیوانات کی طرح پروٹوپلازمی سرگرمیاں (Protoplasmic activities) بھی پائی جاتی ہیں۔  نیز، حیوانات کی طرح تولید اور افزائشِ نسل کا نظام بھی پایا جاتا ہے۔

ایک اور مقام (سورہ ہود 11: 7) پر پانی سے زندگی کے ظہور اور بالآخر انسان کی تخلیق کا بیان علامتی زبان میں کیا گیا ہے۔

’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا اور اس کے عرشِ (حکومت) کی فرماں روائی پانی پر تھی تاکہ تمہیں آزمائے (اور یہ بات ظاہر ہو جائے) کہ تم میں سے کون عمل میں بہتر ہے‘‘۔

یعنی زمین پر ایک ابتدائی دور گزر چکا ہے جب کہ اس کی سطح پر پانی ہی پانی تھا اور ’’قوانین الٰہی اس میں کام کر رہے تھے‘‘ (ابو الکلام آزاد، جلد دوئم صفحہ (183-184۔  علامہ محمد اسد نے اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

"And He it is who has created the heavens and the earth in six eons; and [ever since He has willed to create life,] the throne of His almightiness has rested upon water. [God reminds you of your dependence on Him] in order to test you [and thus to make manifest] which of you is best in conduct”.

اس کی تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

"The symbolic reference to "the throne of His almightiness resting upon water” would seem to point to the God-willed evolution of all life out of water – a fact clearly brought out by the Qur’an (…) and in modern times confirmed by biological research.” (Note 10)

ہماری زمین اربوں سالوں میں تدریجی طور پر وجود میں آئی ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، اس پر ایک دور ایسا گزرا ہے جب اس کی پوری یا بیشتر سطح پانی سے گھری ہوئی تھی۔  ممکنہ طور پر وکان عرشہ علی الماء (اور اس کی کارفرمائی اور حکومت پانی پر تھی، یا ہو گئی) میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔  قرآنی زبان میں عرش (تخت) حکومت، اقتدارِ اعلیٰ، قدرت اور غلبہ کا استعارہ ہے۔  لہٰذا ممکنہ طور پر آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تخلیقی ارادہ کی اس کارفرمائی کی طرف اشارہ ہے جس کے نتیجے میں زندگی ظہور میں آئی۔  زندگی کا ظہور کائنات کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔  یہ اللہ تعالیٰ کا تخلیقی ارادہ اور اس کی قدرت ہی تھی جس نے پانی کے ماحول میں بے جاں مادے سے اوّلین جاندار پیدا فرمائے۔  ابتدائی جاندار جو نہایت سادہ شکلوں میں تھے، اللہ تعالیٰ کے تخلیقی ارادہ (Creative will) کے مطابق درجہ بدرجہ ترقی کرتے گئے اور اس طرح بالآخر انسان ظہور پذیر ہوا۔  یہ تشریح متن کے مجموعی مفہوم اور آیت کے اگلے ٹکڑے، ’’تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے‘‘ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔  ایک اور مقام (سورہ الملک 67: 2) میں یہی بات اس طرح کہی گئی ہے:

’’اس نے موت و حیات کا سلسلہ جاری کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے‘‘۔

چنانچہ سورہ ہود (11: 7) کی آیت کا مجموعی مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے پانی سے زندگی کا آغاز کیا، اور بالآخر انسان ظہور میں آیا۔  اب انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے اعمال سرانجام دے۔  اس تشریح کی تائید اس سے پہلی آیت (سورہ ھود 11: 6) سے بھی ہوتی ہے جس میں جانداروں ہی کا ذکر ہے:

’’زمین میں کوئی جاندار نہیں مگر یہ کہ اس کا سامانِ حیات اللہ کے ذمہ ہے۔  وہ اس کے موجودہ مقام سے بھی آگاہ ہے اور اس کی آئندہ منزل کا بھی علم رکھتا ہے۔  یہ سب کچھ ایک کتاب روشن میں (لکھا ہوا) ہے‘‘۔

سورہ انبیاء کی آیت 21: 30 جس پر ہم نے اوپر شروع میں گفتگو کی تھی کا، اگر اس آیت (11: 7) سے تقابل کریں تو اس سے بھی ہماری بیان کردہ تشریح کی تائید اور وضاحت ہوتی ہے:

’’کیا (خدا کا) انکار کرنے والوں نے غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں جدا جدا کر دیا۔  اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا۔  پھر کیا یہ ایمان نہیں لائیں گے؟‘‘ (سورہ انبیاء 21: 30)

اللہ تعالیٰ کے تخلیقی ارادہ کے مطابق زندگی کے سلسلے کا آغاز پانی میں ہوا جس کے طویل ارتقاء کے نتیجے میں بالآخر انسان وجود میں آیا۔  سورہ الفرقان (25: 54) میں ہے:  ’’ (خدا) وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے تخلیق فرمایا…‘‘

پانی کے ماحول (Environment) میں جب زندگی کا آغاز ہو رہا تھا تو پانی بننے والے ابتدائی جانداروں کی تشکیل میں ایک اہم جزو کے طور پر بھی کام کر رہا تھا۔  دوسرے اجزاء کیا تھے جو پانی کے واسطے میں کیمیائی تعاملات میں حصہ لے رہے تھے تاکہ بالآخر زندگی ظہور میں آ سکے؟ یہ بے جان مادے تھے جنہیں سادہ الفاظ اور عرفِ عام میں ’’مٹی‘‘ کے جامع لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 

مٹی سے تخلیق کا مفہوم

 

قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر انسان کی مٹی سے تخلیق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان میں تراب، طین، صلصال اور حماء شامل ہیں۔  یہ الفاظ انسانی وجود کے کسی نہ کسی پہلو کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان مقامات کے مطالعے سے ہم انسان کی تخلیق کے متعلق نہایت اہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

تراب کا لفظ کئی آیات میں آیا ہے جن میں 35: 11, 30: 20, 22: 5, 18: 37, 3: 59 اور 40: 67 شامل ہیں۔ مثال کے طور پر سورہ الروم (30: 20) میں ہے:  ’’اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (ایک یہ) ہے کہ اس نے تمہیں مٹی (تراب) سے پیدا کیا، پھر تم اچانک بشر بن کر (زمین میں) پھیل رہے ہو‘‘۔

’تراب‘ عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے جو مٹی اور خاک (dust, soil, earth) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

طین کا لفظ بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورہ انعام (6: 2) میں ہے:

’’وہ (خدا) وہی ہے جس نے تمہیں طین سے پیدا کیا ہے‘‘۔

’طین‘ عربی زبان میں کیچڑ کو کہتے ہیں۔  اسے انگریزی میں Mud کہہ سکتے ہیں۔  اس کا ترجمہ گارا بھی کیا جا سکتا ہے۔  تراب اور پانی کے ملاپ سے جو چیز بنتی ہے اسے طین کہتے ہیں۔

تراب اور طین عام زبان کے الفاظ ہیں۔  سائنسی زبان میں ان سے مراد بے جان مادہ (non-living matter) ہو گا۔  یہ بے جان مادہ ہی تھا جس میں خدا کے تخلیقی ارادہ (Creative Will) کے مطابق سادہ ترین زندہ اجسام وجود میں آئے۔

قدیم زمانے میں مادے کو چار بنیادی عناصر پر مشتمل سمجھا جاتا تھا۔  انہیں پانی، مٹی، آگ اور ہوا کے نام سے موسوم کرتے تھے۔  سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ جب اشیاء کے تجزیہ کے زیادہ بہتر طریقے دریافت ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ تقسیم محض سطحی ہے۔  پانی ایک عنصر (Element) نہیں بلکہ مرکب (Compound) ہے جو دو عناصر آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مل کر بنتا ہے۔  مٹی ایک ڈھیلی ڈھالی اصطلاح ہے جو کئی مرکبات اور عناصر سے مل کر بنی ہوئی ہو سکتی ہے۔  جن میں آکسیجن اور ہائیڈروجن بھی شامل ہیں (عنصری، یا مرکب حالتوں میں)۔  ہوا بھی ایک آمیزہ (Mixture) ہے جس میں نائیٹروجن، آکسیجن اور دوسری گیسیں شامل ہیں۔  آگ کی اصل اور حقیقت حرارت ہے جو کہ توانائی کی ایک شکل ہے۔  توانائی (Energy) مادے کی ہر شکل اور قسم کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔

آج ہمیں معلوم ہے کہ دنیا میں 92 قدرتی عناصر (Natural Elements) ہیں۔ (کچھ عناصر مرکزائی تعاملات (Nuclear Reactions) سے مصنوعی طور پر بھی تیار کئے گئے ہیں۔  اس طرح مجموعی طور پر 110 سے زیادہ عناصر معلوم ہیں)۔  قدرتی عناصر میں کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن، لوہا، تانبا، سونا، چاندی، ایلومینیم وغیرہ شامل ہیں۔  جب دویا زیادہ عناصر آپس میں کیمیائی طور پر ملتے ہیں تو اس طرح بننے والی اشیاء کو کیمیائی مرکبات (Chemical Compounds) کا نام دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شکر ایک کیمیائی مرکب ہے جو کاربن، آکسیجن اور ہائیڈروجن کے کیمیائی ملاپ (Chemical Combination) سے بنتی ہے۔  نمک بھی ایک کیمیائی مرکب ہے جو سوڈیم اور کلورین سے مل کر بنتا ہے۔

قشرِ ارض (Earth Crust زمین کی اوپر کی سطح) میں زیادہ تر عناصر مرکبات ہی کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔

ہر عنصر نہایت باریک ذرات سے مل کر بنا ہوتا ہے۔  انہیں ایٹم کہا جاتا ہے۔  مختلف عناصر کے ایٹم جب آپس میں کیمیائی طور پر جڑتے ہیں تو اس سے مرکبات کے باریک ذرات وجود میں آتے ہیں۔  مرکبات کے یہ سادہ ترین ذرات یا تو مالیکیول (Molecules) ہوتے ہیں یا مثبت اور منفی آئن (Ions)۔

 

مٹی کا خلاصہ (Essence of Mud)

 

مٹی بنیادی طور پر جن اجزاء سے مل کر بنی ہوتی ہے، وہ عناصر ہیں۔  یہ حقیقت قابلِ غور ہے کہ انسانی جسم (اور اسی طرح کسی بھی دوسرے جاندار کا جسم) زمین کے تمام تر عناصر سے نہیں بنتا۔  مخصوص عناصر ہیں جو انسانی جسم کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں۔  ممکن ہے کہ سورہ المومنون (23: 12) میں قرآن پاک نے انسانی تخلیق کی جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس سے یہی مراد ہو۔ آیت کا سادہ ترجمہ یہ ہے:

’’ہم نے انسان کی تخلیق مٹی کے خلاصہ سے کی ہے‘‘۔ (23: 12)

یہاں قرآنِ پاک کے جس لفظ کا ترجمہ ’خلاصہ‘ کیا گیا ہے، وہ ہے ’سلالہ‘۔  اس کا معنی ہے کسی چیز کا منتخب حصہ۔  ایک چیز جو دوسری اشیا سے اخذ کی گئی ہو۔  اگر ہمارے پاس مختلف چیزوں کا ایک آمیزہ ہو، اور ہم کسی قرینہ یا اصول کے مطابق ان میں سے ایک یا زیادہ چیزوں کو اخذ کر لیں، علیحدہ کر لیں، چن لیں، تو وہ اس آمیزے کا سلالہ ہو گا۔  اس اعتبار سے مٹی کے سلالہ سے مراد مٹی کے وہ منتخب عناصر ہوں گے جن سے انسانی جسم تشکیل پاتا ہے۔ الفراء اور تاج العروس کے حوالے سے لین (Lane) نے اس آیت کا ترجمہ مندرجہ ذیل طور پر کیا ہے:

"and verily, We created man from what was drawn forth from every kind of dust, or earth”

قرآن پاک کا یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہے۔  یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے اس وقت اشارہ کیا جب ابھی نہ تو مادے کی کیمیائی ساخت معلوم تھی اور نہ ہی انسانی جسم کی کیمیائی تفصیلات کا علم تھا۔

ان آیات کے مجموعی مطالعے سے ہم ایک نہایت اہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔  انسان کی تخلیق کل کی کل مٹی (بے جان مادے) سے نہیں ہوئی بلکہ مٹی کے منتخب عناصر (Selected Elements) سے ہوئی ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کے موقع پر کوئی نظام یا طریقہ (Mechanism) ایسا ضرور بروئے کار لایا گیا ہو گا جس کے تحت یہ منتخب عناصر علیحدہ ہو کر تخلیقی عمل میں شامل ہوئے ہوں گے۔

یہ طریقہ کیا تھا؟ سائنسی دریافتوں کے مطابق یہ کیمیائی ارتقاء (Chemical Evolution) کا عمل ہے، جو اربوں سال قبل مشیت ایزدی یعنی قوانین فطرت کے تحت بے جان مادے میں واقع ہوا، اور جس کے نتیجے میں ابتدائی سادہ ترین زندہ اشیاء وجود میں آئیں۔

 

 جانداروں میں کیمیائی عناصر

 

جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے قدرتی طور پر پائے جانے والے 92 عناصر میں سے صرف منتخب عناصر ہی ایک زندہ جسم کی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں۔  انسانی جسم میں کل وزن (کمیت Mass) کا تقریباً 99.95 فیصد صرف 11 عناصر سے بنتا ہے، جبکہ بقیہ تقریباً 0.05 فیصد دوسرے 13 عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔  ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہم انسانی جسم کی تعمیر کرنے والے عناصر کی تین اقسام کر سکتے ہیں۔

(ا) زیادہ مقدار میں پائے جانے والے عناصر

کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائیٹروجن وہ چار عناصر ہیں جو زندہ اجسام میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔  انسانی جسم کا تقریباً 96 فیصد حصہ ان ہی عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔

(ب) کم مقدار میں پائے جانے والے عناصر

سات عناصر وہ ہیں جو انسانی جسم میں تقریباً چار فیصد ہوتے ہیں۔ یہ ہیں:  کیلشیم، فاسفورس، پوٹاشیم، گندھک، سوڈیم، کلورین اور میگنیشیم۔

(ج) بہت ہی کم مقدار میں پائے جانے والے عناصر

انسانی جسم کا بقیہ تقریباً 0.05 حصہ 13 عناصر پر مشتمل ہوتا ہے۔  یہ اگرچہ نہایت کم مقدار میں پائے جاتے ہیں تاہم زندگی کی بقاء میں ان کا کردار بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔  یہ عناصر ہیں:  لوہا، آیوڈین، مینگنیز، کوبالٹ، تانبا (کاپر) ، جست (زنک) ، سیلینیم، مولیبڈنم، سیلیکان، وینیڈیم، کرومیم اور قلعی (ٹن)۔ ان تمام عناصر کا انسانی جسم کی تشکیل اور بقا میں اپنا اپنا کردار ہے۔

 

انسانی تخلیق کی ابتداء

اب تک کی بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ خدا کے تخلیقی ارادہ کے مطابق قوانین فطرت کی کارفرمائی کے ذریعے انسان کی تخلیق ’’مٹی‘‘ یا مادے کے منتخب عناصر سے، پانی کے ماحول میں، ہوئی ہے۔  یہ اصل میں انسانی تخلیق کا آغاز تھا۔  یہ وہ وقت تھا جب بے جان مادہ میں کیمیائی ارتقاء ہوا تھا جس کے نتیجے میں اولین جاندار اشیاء وجود میں آئی تھیں۔  انسان ان اولین جانداروں کے طویل ارتقاء کے نتیجے میں آگے چل کر پیدا ہوا۔  یعنی انسانی تخلیق کی ’’ابتدا‘‘ مٹی سے ہوئی تھی۔  قرآن نے ایک مقام پر (سورہ سجدہ 32: 7) اس حقیقت کا انکشاف مندرجہ ذیل طور پر کیا ہے:

’’ (اللہ وہی ہے) جس نے ہر چیز کو جو اس نے پیدا کی ہے نہایت خوبصورت بنایا ہے، اور اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی سے کی ہے‘‘

’’اس نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی /کیچڑ سے کی ہے‘‘ کے الفاظ نہایت معنی خیز اور فکر انگیز ہیں۔  اس جملے میں واضح طور پر اس راز سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق مرحلہ وار طور پر ہوئی ہے، کیونکہ تخلیق کی ’’ابتدا‘‘ کے الفاظ کا واضح مطلب یہ ہے کہ ایک یا زیادہ مزید مراحل بھی ہیں جو اس کے بعد آئے۔

’’پانی کے ماحول میں موجود بے جان مادہ میں کیمیائی ارتقاء کے عمل کے ذریعے مخصوص عناصر کے ملاپ سے اوّلین جانداروں کی تخلیق‘‘، یہ ہے وہ مفہوم جس تک ہم اوپر بیان کی گئی آیات کے مطالعے سے بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔  اس کی سائنسی تشریح درج ذیل طور پر کی جاتی ہے:

آج سے تقریباً ساڑھے تین ارب سال قبل اس زمانے کے مخصوص ماحولیاتی حالات کے تحت، سمندروں کے کنارے پانی اور کیچڑ میں، حرارت اوردوسرے عوامل کے زیر اثر، طویل کیمیائی تعاملات (Chemical reactions) کے نتیجے میں سادہ ترین جاندار وجود میں آئے۔  اس سلسلۂ عمل کو کیمیائی ارتقاء کا نام دیا جاتا ہے۔  اس طرح وجود میں آنے والے سادہ ترین جانداروں کے اجسام کی تشکیل منتخب عناصر سے ہوئی جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے یہ صلاحیت رکھی تھی کہ وہ زندہ اشیاء کی تعمیر و تشکیل کر سکیں۔  اس صلاحیت کا بنیادی تعلق ان عناصر کی مخصوص کیمیائی خصوصیات (Specific Chemical Properties) سے ہے۔  ان عناصر کی ایک دوسرے کے لیے رغبت (affinity) آپس میں مضبوط ملاپ کا رجحان اور مخصوص نتائج کے حامل تعاملات، یہ دوسرے عوامل ہیں جنہوں نے مخصوص عناصر کے لیے یہ ممکن بنایا کہ وہ زندگی کے ظہور کا باعث بن سکیں۔

بے جان مادے سے زندہ اشیاء کا وجود میں آنا کائنات کا شاید سب سے زیادہ حیرت انگیز واقع ہے۔  اس کے ایک ایک پہلو میں خدا کی قدرت اور کار فرمائی کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔  مگر خدا کی کارفرمائی نعوذ باللہ کسی شعبدے باز کی طرح نہیں ہوتی، بلکہ وہ کائنات میں ایک داخلی، فطری اور inbuilt تخلیقی قوت کے طور پر کام کرتی ہے۔  قرآن کہتا ہے:

صنع الذی اتقن کل شیِ

یہ کاریگری سے اس (اللہ) کی جس نے ہر شے کو مضبوط (اصولوں پر) بنایا ہے‘‘۔  (27: 88) ایک اور مقام پر ہے:

’’زمین میں یقین والوں کے لیے آیات ہیں، اور خود تمہارے اپنے وجودوں میں بھی، کیا تم دیکھو گے نہیں؟‘‘ (51: 21)

 

کیمیائی تغیرات

انسان کی تخلیق کی ابتدا کیچڑ میں ہوئی۔  مخصوص عناصر نے اس کی تخلیق میں حصہ لیا۔  زندگی کی ابتداء اصل میں ایک نہایت پیچیدہ عمل تھا جو حیاتیات، کیمیاء اور طبیعیات کے اصولوں کے تحت واقع ہوا۔  یہ حیاتیاتی، کیمیائی اور طبیعیاتی تبدیلیوں پر مشتمل ایک پیچیدہ سلسلۂ عمل (Process) تھا۔

قرآن نے انسان کی تخلیق کے ضمن میں جو الفاظ استعمال کئے ہیں، ان میں ’’طین لازب‘‘ (چپکتی مٹی/ کیچڑ) کے الفاظ بھی ہیں (37: 11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’ہم نے انہیں چپکتی مٹی سے پیدا کیا ہے‘‘

’’چپکتی مٹی‘‘ سے کیا مراد ہے؟ ’’چپکتی مٹی‘‘ کے الفاظ ممکن ہے کہ مجازی معنوں (Metaphorical sence) میں استعمال ہوئے ہیں۔  ایسی صورت میں ان کا ایک مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے کٹ کر، اکیلا نہیں رہ سکتا۔  وہ دوسرے انسانوں اور معاشرے کے ساتھ ساتھ وابستہ ہو کر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔  انسان اپنی بقاء کے لیے معاشرے پر دارومدار رکھتا ہے۔  اس حقیقت کو باہمی انحصار یا Inter-dependence کہہ سکتے ہیں۔

متبادل طور پر یہ بھی ممکن ہے کہ ’’چپکتی مٹی‘‘ کے الفاظ حقیقی معنوں میں استعمال ہوئے ہوں۔  ایسی صورت میں ان کا مفہوم کیا ہو گا؟ ’’چپکنا‘‘ ایک کیمیائی اور طبیعیاتی عمل ہے۔  حرحرکیاتی (Thermodynamical) اور کششی قوتوں کے تحت، ایٹم، آئن اور مالیکیول آپس میں مربوط اور متحد ہوتے ہیں۔  کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو حیاتیاتی مالیکیولوں میں اہم، مرکزی ڈھانچے کا کردار ادا کرتا ہے۔  اس حوالے سے دوسرے اہم عناصر آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن ہیں۔  سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک زندہ جسم میں مختلف عناصر کے ایٹم آپس میں جڑ کر مالیکیول بناتے ہیں۔  مالیکیول بڑی تعداد میں آپس میں جڑ کر مزید بڑے مالیکیول (Macromolecules) اور ایسے نظام بناتے ہیں جن میں مالیکیول کمزور قوتوں سے آپس میں جڑے ہوتے ہیں (انہیں Supra-molecules کہا جاتا ہے)۔  جڑنے اور متحد ہونے کا یہ سارا عمل کیمیائی بندھنوں (Chemical bonds) کے ذریعے ہوتا ہے۔  یہی کیمیائی بندھن ہیں جن کے ذریعے مخصوص حالات کے تحت یہ ممکن ہوا کہ بے جان مادے سے ایک جاندار خلیہ یا جسم وجود میں آ سکے۔

 

صلصال کا مفہوم

 

قرآنِ مجید نے انسان کے تخلیقی مادے کے لیے ایک اور لفظ صلصال بھی استعمال کیا ہے جو ممکنہ طور پر ابتدائی تخلیقی عمل کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔  مثال کے طور پر سورہ الحجر (15: 26) میں ہے:

’’ہم نے انسان کو صلصال… سے پیدا کیا ہے‘‘۔

’’صلصال‘‘ کے مفہوم میں، شروع ہی سے، کئی آراء پائی جاتی ہیں۔  اس کا ایک مفہوم عربی کے محاورے ’’صل اللحم‘‘ (گوشت خراب ہو گیا، گوشت متغیر ہو گیا) سے ماخوذ ہے۔  اس اعتبار سے یہاں صلصال سے مراد وہ مٹّی یا مادہ ہو گا جو تغیر و تبدل سے گزرا ہو۔ ایک اور رائے کے مطابق یہ عربی کے اور محاورے ’’صل الباب‘‘ (دروازہ کھٹکا) سے ماخوذ ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مفہوم بجنے والی یا کھنکھنانے والی مٹی ہو گا۔  دریاؤں وغیرہ کے کنارے جب پانی کے اڑ جانے کے باعث کیچڑ سوکھ جاتا ہے تو اسے بھی صلصال کہا جاتا ہے۔  کیونکہ جب اس پر چلتے ہیں تو وہ پاؤں کے دباؤ سے جب ٹوٹتا ہے تو مخصوص آواز پیدا کرتا ہے۔  حضرت ابنِ عباس سے ایک قول منسوب ہے جس کے مطابق صلصال وہ عمدہ پاکیزہ کیچڑ ہے جس میں پانی کے سوکھ جانے کی وجہ سے شگاف پیدا ہو جاتے ہیں اور جب اس کو (اس کی جگہ سے) ہلایا جاتا ہے (یا اس پر چلا جاتا ہے) تو کھنکھنانے اور بجنے کی آواز دیتی ہے‘‘ (تفسیر مظہری)۔  اس اعتبار سے ہم صلصال کو نابیدہ (Dehydrated) کیمیائی مادہ کے معنوں میں لے سکتے ہیں۔  زندگی کے بنیادی کیمیائی مرکبات (کاربوہائیڈریٹس، امینوایسڈز، پروٹینز اور لپڈز وغیرہ) کے چھوٹے مالیکیولز جب آپس میں جڑتے ہیں تو نابیدگی (Dehydration) کا عمل واقع ہوتا ہے، یعنی مالیکیولوں کے باہم جڑنے کے عمل کے دوران پانی خارج ہوتا ہے (مالیکیولوں کے آپس میں جڑنے کا یہ عمل کثیر ترکیبی (Polymerization) کہلاتا ہے۔  اس میں چھوٹے مالیکیول بڑے مالیکیول بناتے ہیں)۔

 

حماء کا مفہوم

 

سورہ الحجر کی آیت (15: 26) جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے، میں صلصال کے ساتھ ایک اور لفظ حماء استعمال ہوا ہے۔  اس کا سادہ مفہوم ہے:  سیاہ مٹی، وہ مٹی جو پانی میں پڑے پڑے سیاہ ہو گئی ہو۔ یہاں اس کی صفت ’’مسنون‘‘ آئی ہے۔  ’’مسنون‘‘ کے بھی کئی معنے بیان کئے جاتے ہیں۔  اس کا ایک معنی ’’ متغیر‘‘ کیا جاتا ہے۔  ’’ہر وہ چیز جس پر سال ہا سال گزرنے سے تغیر و تبدل آ گیا ہو‘‘ (نعمانی)۔  مسنون کا ایک معنی قالب میں ڈھلا ہو (Moulded) بھی ہے۔  زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ یہاں حماء مسنون سیاہ متغیر کیچڑ کے معنوں میں ہے۔  بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ سڑا ہوا گارا کیا ہے جو درست معلوم نہیں ہوتا۔  ایک، اس لئے کہ سڑنا ایک تخریبی عمل ہے، جبکہ یہاں بات تخلیق اور تعمیر کی ہو رہی ہے۔  دوسرے یہ کہ سڑنا گلنا جراثیم (بیکٹیریا وغیرہ) کے زیرِاثر ہوتا ہے، اور یہاں زندگی کی ابتدا کا بیان ہو رہا ہے، جبکہ ابھی جراثیم پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔  ابتدائی گرد و پیش میں ابھی آکسیجن بھی نہیں تھی جو تخریبی (یعنی، تکسیدی) عمل کر سکتی۔ خمیر اٹھا ہوا گارا‘‘ بھی انھیں دلائل کی بنیاد پر ناقابلِ قبول ہو گا۔

اگر ہم پوری آیت کو پیش نظر رکھیں تو سمجھنے کے لیے اس کا ترجمہ یوں کر سکتے ہیں:

’’ہم نے انسان کو صلصال سے، جو حماء مسنون سے وجود میں آئی تھی، تخلیق کیا ہے‘‘۔

دوسرے لفظوں میں صلصال حماء مسنون سے ترقی کر کے یا متغیر ہو کر وجود میں آئی تھی۔  یعنی، یہاں تخلیقِ انسانی کے کیمیائی ارتقاء کے دو مراحل کا بیان ہے۔  زندگی کے کیمیائی ارتقاء کا نظریہ اگر درست ہے تو محولہ بالا آیت کی تشریح ہم اس طرح کر سکتے ہیں:  اربوں سال قبل، اس زمانے کے حالات میں، اس زمانے کے سمندروں کے کنارے کیچڑ میں طویل کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ مخصوص کیمیائی عناصر کے ملاپ سے امینو ایسڈز اور دوسرے سادہ مرکبات وجود میں آئے۔  یہ ممکنہ طور پر حماءٍ مسنون کا مرحلہ ہے۔  ان سادہ کیمیائی مرکبات (جو زیادہ تر مونومرز monomers کی شکل میں تھے) میں کثیر ترکیبی (Polymerization) کا عمل ہوا جس کے دوران نابیدگی واقع ہوئی اور بڑے مالیکیول حاصل ہوئے۔  یہ ممکنہ طور پر صلصال کا مرحلہ ہے۔  یعنی صلصال وہ پیچیدہ کیمیائی مادہ ہے جو نابیدگی کے بعد وجود میں آیا۔  آیت کا تفسیری ترجمہ کچھ یوں ہو گا:

’’ہم نے انسان کی تخلیق نابیدہ مٹی سے کی جو سیاہ متغیر کیچڑ سے حاصل ہوئی تھی‘‘۔

علامہ محمد اسد نے حماء مسنون کا ترجمہ dark slime transmuted کیا ہے، جو اس کی بہترین ترجمانی ہے۔

’’صلصال‘‘ کا لفظ ایک اور مقام (سورہ الرحمٰن 55: 14) پر بھی استعمال ہوا ہے۔ یہ ایک مشکل مقام ہے جس کا ترجمہ سادہ زبان میں کرنا ممکن نہیں۔ ایک قریبی ترجمہ کچھ یوں کیا جا سکتا ہے:

’’اس (خدا) نے انسان کی تخلیق نابیدہ متغیر کیچڑ سے کی، مٹی کے برتنوں کی طرح‘‘۔

محمد اسد کا ترجمہ یہ ہے:

"He has created man out of sounding clay, like pottery”

مٹی سے مٹی کے برتن بنانے کے عمل میں دو اہم اعمال (Processes) شامل ہوتے ہیں:  مٹی کو گارے کی شکل میں لا کر اس کو برتن کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔  پھر اسے آگ میں پکایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس میں کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔  اسی طرح، جب بے جان مادے سے ابتدائی جاندار وجود میں آئے تو ان میں بھی یہ دو قسم کی طبیعی اور کیمیائی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔  بے جان مادے کی طبیعی شکل و صورت میں تبدیلی آئی۔  اس نے اپنے ماحول سے توانائی جذب کی جس کے نتیجے میں تبدیلیوں کے ایک لمبے سلسلۂ عمل (Process) سے گزر کر بالآخر بے جان مادہ ابتدائی جاندار مادے میں تبدیل ہوا۔

قرآنِ مجید نے انسانی تخلیق کے حوالے سے جو مختلف الفاظ (تراب، طین، صلصال اور حماء مسنون وغیرہ) استعمال کئے ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں بے جان مادے کی مختلف شکلوں کی عکاسی کرتے ہیں۔  ممکن ہے کہ یہ کیمیائی ارتقاء کے مختلف مراحل کو ظاہر کر رہے ہوں۔  سادہ غیر نامیاتی مادے (تراب) قدیم سمندروں کے پانی میں شامل ہوئے تو ایک طرح کا کیچڑ (طین) وجود میں آیا یہ کیچڑ تغیر و تبدل کے عمل سے گزرا تو حماء مسنون کے مرحلے کو پہنچا۔  اس نے مزید کیمیائی تبدیلیوں کے نتیجے میں صلصال کی شکل اختیار کی۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ان تمام الفاظ کی معنویت اصل میں علامتی اور استعاراتی ہو اور یہ انسانی وجود کے مادی پہلو، اس کی ہستی کی ناپائیداری، اس دنیا میں اس کے وجود کی نزاکت (Fragility) ، کھوکھلا پن (Emptiness) ، اس کے مزاج کے تلون اور اس کے نطق و اظہار کی صلاحیت کی طرف اشارہ کر رہے ہوں۔

 

شکل و صورت کا اکتساب

 

سورہ الاعراف (7: 11) میں ہے:

’’ہم نے تمہیں تخلیق کیا، پھر تمہیں (تمہاری) شکل و صورت عطا کی‘‘۔

آیت کا ترجمہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔  کہ:  ہم نے ہی تمہاری تخلیق کی اور ہم نے ہی تمہیں شکل و صورت عطا کی۔

"Yea, indeed, We have created you, and then formed you.” (Asad)”

بہر حال، یہاں انسان کے وجود میں آنے کے دو مراحل (یا Phases) کی طرف اشارہ ہے۔  وہ یہ ہیں:  تخلیق اور تصویر۔  ممکن ہے کہ تخلیق کرنے سے مراد ابتدائی طور پر بے جان مادے سے زندہ مادے کا بنایا جانا ہو، اور شکل و صورت عطا کرنے سے مراد اس زندہ مادے کو درجہ بدرجہ انسان کی اس شکل و صورت میں لانا ہو جس میں آج ہم اسے دیکھ رہے ہیں۔  ہمارا وجود، اور ہماری شکل و صورت خدا کی دو علیحدہ مگر عظیم نعمتیں ہیں۔  دونوں ہی سے خدا کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔  دونوں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہم خدا کے شکر گزار بندے بنیں۔  توجہ رہے کہ یہاں شکل و صورت سے صرف چہرہ مراد نہیں بلکہ تمام جسم کی ساخت اور بناوٹ مراد ہے۔  آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ محمد اسد لکھتے ہیں:

"The sequence of these two statements – "We have created you [i.e., "brought you into being as living organisms”] and then formed you” [or "given you your shape”, i.e., as human beings[ is meant to bring out the fact of man’s gradual development, in the individual sense, from the embryonic stage to full-fledged existence, as well as of the evolution of the human race as such.” (Note 9 on 7: 11)

 

خود شعوریت اور درجہ انسانیت

 

انسان دوسرے حیوانات سے کئی اعتبار سے مختلف ہے، تاہم اس کی سب سے اہم خصوصیت وہ ہے۔ جسے مذہبی زبان میں اس کا روحانی پہلو، یا، فلسفہ کی زبان میں، خود شعوریت (Self-Consciousness) کہا جاتا ہے۔  قرآنِ مجید میں ایک مقام (سورہص 38: 71-72) پر انسان کی خلقت کو تمثیلی انداز میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’جب کہ، تمہارے رب نے ملائکہ سے کہا:  دیکھو! میں کیچڑ سے انسان بنانے والا ہوں۔  جب میں اسے مکمل طور پر تشکیل کر چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک چکوں، تو تم اس کے لیے جھک جانا‘‘۔

آیات کا اسلوب تمثیلی ہے۔  اس میں جو معنویت پائی جاتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔  ہمارے زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اس میں ہمارے لیے سوچنے، سمجھنے کا وسیع مواد موجود ہے۔  انسان کی تخلیق کے تین اہم مدارج بیان کئے جا رہے ہیں جنہیں آیات کے الفاظ میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں:

(1)        تخلیق

(2)        تسویہ

(3)        نفخِ روح

’’تخلیق‘‘ سے یہاں ممکنہ طور پر مراد کیمیائی ارتقاء کا وہ پیچیدہ عمل ہے جس سے بے جان مادے میں زندگی کا ظہور ہوا۔  تسویہ کا لفظی معنی کسی چیز کو اس کے مقصد کے مطابق ٹھیک ٹھیک بنانا یا درست کرنا ہے۔  یہاں ممکنہ طور پر اس سے مراد وہ طویل ارتقائی عمل ہے جس سے اوّلین زندہ اجسام درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے انسان کی شکل و صورت میں ظہور پذیر ہوئے۔  نفخِ روح کا لفظی مطلب ہے:  روح پھونکنا۔  اس میں انسان کے اس خصوصی پہلو کی طرف اشارہ ہے جو اسے دوسرے تمام حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے۔  اصل میں یہ مجازی کلام ہے۔  روح پھونکنے سے مراد زندگی عطا کرنا بھی ہو سکتا ہے۔  آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نفخِ روح کا مرحلہ تخلیق اور تسویہ کے مراحل کے بعد آیا ہے۔  لہٰذا، جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ یہاں استعمال ہوئے ہیں، وہ ان کے اس معنی کی نشاندہی کرتا ہے جس کے مطابق خدا نے انسان کو خود شعوریت عطا کی۔  یعنی اس میں سوچنے سمجھنے، غور و فکر کرنے اور ارادہ و اختیار کی صلاحیت پیدا فرمائی۔  یہ صلاحیت قوانینِ فطرت کے مطابق رفتہ رفتہ پیدا ہوئی، جس طرح آج بچہ رفتہ رفتہ بلوغت کے مقام کو پہنچتا ہے۔

ان آیات سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مشیتِ ایزدی نے انسان کی تخلیق ایک ایسے طویل سلسلۂ عمل کے ذریعے کی ہے جو کئی مراحل پر مشتمل تھا۔  اسے ہم مرحلہ وار تخلیق یا تدریجی تخلیق کا نام دے سکتے ہیں۔

 

طویل عرصۂ وقت اور تخلیقی مدارج

 

انسان کا تخلیقی عمل (Creation process) ایک طویل عرصۂ وقت میں تکمیل کو پہنچا۔  قرآن میں ایک مقام (سورہ الدہر 76: 1) پر ارشادِ خداوندی ہے:

’’بے شک زمانے میں انسان پر ایک ایسا وقت گزرا ہے جب کہ یہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا‘‘۔

یہاں ممکنہ طور پر انسان کی تخلیق کے ابتدائی ارتقائی مراحل کی طرف اشارہ ہے۔  سورہ نوح (71: 13-14) کی بنیاد پر ہم یہ استنباط کر سکتے ہیں کہ انسان کی تخلیق جس طویل عرصۂ وقت میں ہوئی وہ مختلف مدارج پر مشتمل تھا:

’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت و جلال کی پروا نہیں کرتے، حالانکہ اس نے تمہیں کئی مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے‘‘۔

انسان کی تدریجی تخلیق کی طرف اشارہ اور آیات میں بھی ہے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔  اس کے مطابق نوعِ انسانی کم تر درجوں سے ترقی کرتی ہوئی اپنی موجودہ شکل و صورت تک پہنچی ہے۔  سورہ نوح کی محولہ بالا آیات میں رحمِ مادر میں بچے کے تدریجی نشو و نمائی عمل کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔  تاہم اس سورہ کی آیت 17 سے کم از کم ہمارے فہم کے مطابق پہلے مفہوم کو تقویت ملتی ہے:

’’اور اللہ نے تمہیں زمین سے عجب طرح اگایا ہے‘‘۔ (سورہ نوح 71: 17)

"And God has caused you to grow out of the earth in [gradual] growth.” (Asad)

اس آیت کریمہ میں ممکنہ طور پر انسان کی بے جان مادے سے تخلیق کے کیمیائی ارتقاء کے مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔  آیت کا ادبی اسلوب خاص طور پر توجہ طلب ہے۔  اس سے اس حیران کن تخلیقی عمل کی اہمیت جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بے جان مادے سے ایک لمبے ارتقائی عمل کے ذریعے انسان جیسی خوبصورت مخلوق کو پیدا فرمایا ہے۔

 

کیمیائی ارتقاء (Chemical Evolution)

 

جدید علمِ کائنات (کوسمولوجی) کے حساب کے مطابق ہماری کائنات آج سے تقریباً 15 ارب سال قبل وجود میں آئی۔  سورج ایک اوسط سائز کا ستارہ ہے جو اپنے سیاروں اور دوسرے اجسام کے سا تھ آج سے تقریباً پانچ ارب سال پہلے رفتہ رفتہ وجود میں آیا۔  نظریہ یہ ہے کہ تقریباً پانچ ارب سال قبل خلا میں بکھری ہوئی گیس اور گرد سے تجاذبی قوت کے تحت ایک بادل یا دھوئیں جیسی چیز وجود میں آئی۔ اسے شمسی سحابیہ (سولر نبیولا Solar nebula) کا نام دیا جاتا ہے۔  رفتہ رفتہ اس سحابیہ کے مرکزی حصہ نے سورج کی شکل اختیار کی اور کناروں کی طرف موجود گیس اور گرد سے سیارے اور نظام شمسی کے دوسرے اجسام وجود میں آئے۔  ان سیاروں میں سے ایک ہماری زمین ہے۔

جیولوجی (Geology) اور پیلنٹولوجی (Paleontology) کی دریافتوں کے مطابق ہماری زمین تقریباً ساڑھے چار ارب سال قبل سولر نبیولا سے علیحدہ ہو کر آہستہ آہستہ وجود میں آئی۔

گیس اور گرد کے ذرات جب ایک دوسرے کے قریب آئے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے لگے، تو کثیر مقدار میں حرارت خارج ہوئی۔  اس کے نتیجے میں درجہ حرارت بہت بڑھ گیا۔  یہ زمین کی ابتدائی شکل تھی، جسے ہم آگ کے گولے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔  آہستہ آہستہ اس کا درجہ حرارت کم ہوا۔  اب اس کا ایک مرکز (قلب یا Core) تھا، ایک سب سے بیرونی حصہ (قشر یا Crust) تھا، اور ایک مرکز اور قشر کے درمیان کا علاقہ (مینٹل mantle)۔

زمین کی تخلیق کے ابتدائی ادوار میں آتش فشانی عمل وسیع پیمانے پر موجود تھا۔  اس کے ساتھ ساتھ زمین پر بھاری خلائی پتھروں (ایسٹرائڈز (Asteroids) کی بوچھاڑ بھی ہو رہی تھی۔  یہ تقریباً ایک ارب سال تک جاری رہی۔  اپنی تشکیل کے ابتدائی ادوار میں زمین اپنی بیرونی شکل و صورت اور ساخت اور بناوٹ کے لحاظ سے آج سے بہت مختلف تھی۔  زمین کی سطح نہایت گرم تھی جس کے باعث اس پر یا اوپر کی فضا میں پانی نہیں تھا۔  ہمارے موجودہ کرہ ہوائی میں موجود گیسیں (نائٹروجن، آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور بھاپ) زمین کے پگھلے ہوئے مرکزی حصہ یا Core میں پائی جاتی تھیں۔  چنانچہ، یہ وہ وقت تھا جب زمین کی سطح کا درجہ حرارت بہت بلند تھا، مائع پانی موجود نہیں تھا، نیز کرہ ہوائی ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔  ان حالات میں اس زمانے کی زمین پر زندگی کی کسی ایسی شکل کی موجودگی کا کوئی امکان نہیں تھا جو موجودہ حیاتی شکلوں سے مماثلت رکھتی ہو۔

اگلے کئی کروڑ سالوں کے دوران زمین آہستہ آہستہ تبدیل ہوئی۔  وقت گزرنے کے ساتھ وہ ٹھنڈی ہوتی گئی۔  آتش فشانی عمل کے دوران آبی بخارات، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین (Methane) ، امونیا اور ہائیڈروجن خارج ہوئی۔  اس طرح آہستہ آہستہ ابتدائی کرۂ ہوائی (Atmosphere) وجود میں آیا۔  چونکہ اس میں آکسیجن موجود نہیں تھی، اس لیے اسے کیمیائی اعتبار سے تخفیفی کرۂ ہوائی یا Reducing Atmosphere کہا جاتا ہے۔  اصل میں اس زمانے کے حالات اور درجہ حرارت اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ مالیکیولی یا عنصری آکسیجن موجود ہو، کیونکہ ایسی آکسیجن فوری طور پر دوسرے عناصر سے ملاپ کر کے مرکبات بنا دیتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ صورتِ حال بدلتی گئی۔

اب تک زمین اتنی گرم تھی کہ پانی صرف بخارات کی شکل میں موجود تھا۔  رفتہ رفتہ اس نے گہرے بادل کی شکل اختیار کر لی۔  جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت گرتا گیا، بخارات مائع پانی میں تبدیل ہوتے گئے۔  یہ پانی بارش کی شکل میں برستا رہا۔  اس کے نتیجے میں ابتدائی سمندر وجود میں آئے۔

زمین پر سب سے پہلے جو کرۂ ہوائی وجود میں آیا، وہ میتھین (methane) ، آبی بخارات، نائٹروجن، امونیا اور ہائیڈروجن سلفائیڈ پر مشتمل تھا۔  سائنسدانوں کا نظریہ یہ ہے کہ یہ وہ ساری کیمیائی اشیاء ہیں جن میں کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں سادہ نامیاتی مرکبات وجود میں آئے۔  ان تعاملات کے لیے جو توانائی درکار تھی، وہ آتش فشانی عمل، برقی چمک اور سورج سے آنے والی بالا بنفشی روشنی سے حاصل ہوئی۔  بارش ان مرکبات کو نئے نئے بننے والے سمندروں میں لے جانے کا باعث بنتی رہی۔  یہ عمل تقریباً ڈیڑھ ارب سال جاری رہا۔

اس زمانے کے سمندروں میں سادہ نامیاتی مرکبات نے ایک دوسرے کے ساتھ کیمیائی تعامل کیا جس کے نتیجے میں زیادہ پیچیدہ نامیاتی مرکبات وجود میں آئے۔  ان میں سادہ شکریات، امینو ایسڈز اور مرکزائی ترشے (Nucleic acids) شامل تھے۔  چونکہ اس وقت آزاد آکسیجن موجود نہیں تھی، اس لیے نامیاتی مرکبات کو تباہ کرنے والا تکسیدی عمل وقوع پذیر نہ ہو سکتا تھا۔  اسی طرح چونکہ بیکٹیریا ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے، اس لیے سڑنے گلنے کا عمل بھی نہیں ہو رہا تھا۔  لہٰذا یہ مالیکیول ٹوٹنے سے محفوظ رہے، اور کئی کروڑ سال تک سمندروں میں جمع ہوتے رہے۔  اس کے نتیجے میں اس زمانے کے سمندروں کی ایک ایسی نوعیت بن گئی جیسے گرم شوربہ ہوتا ہے۔  اس لیے انہیں ’’نامیاتی شوربہ‘‘ (Organic Soup) کا نام دیا گیا ہے۔  اس میں کئی قسم کے نامیاتی مرکبات پائے جاتے تھے۔

 

یورے۔  ملر تجربہ (Urey-Miller Experiment)

 

1953ء میں شکاگو یونیورسٹی (امریکہ) کے ایک طالب علم ملر (Stanley L. Miller) نے اپنے استاد نوبل انعام یافتہ کیمیا دان یورے (Harold Urey) کی زیرِ نگرانی ایک اہم اور دلچسپ تجربہ کیا۔  تجربے کا مقصد اس بات کی جانچ کرنا تھا کہ کیا زمین کے قدیم حالات کے تحت سادہ غیر نامیاتی مادوں سے نامیاتی مادوں کی تشکیل ممکن تھی۔  تجربہ ایک ہفتہ جاری رہا اور اس نے مفروضے کی تصدیق کی۔  اس تجربہ میں غیر نامیاتی مرکبات سے کئی سادہ نامیاتی مرکبات حاصل ہوئے جن میں چند امینو ترشے بھی شامل تھے۔  بعد ازاں، اسی طرح کے تجربات میں پروٹین (لحمیات) کی تشکیل کرنے والے تمام 20 امینو ترشے (Amino acids) کامیابی سے بنا لیے گئے۔  یاد رہے کہ پروٹین وہ بنیادی مادہ ہے جس سے حیوانات کا جسم بنا ہوتا ہے۔

تجربات کی بنیاد پر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ابتدائی سمندروں میں سادہ نامیاتی مالیکیولوں کے باہمی ملاپ کے نتیجے میں زیادہ پیچیدہ نامیاتی مالیکیول، مثلاً کاربوہائیڈریٹس، پروٹین، شحمیات (لپڈز lipids) اور نیوکلیئک ایسڈز پیدا ہوئے۔  ان مالیکیولوں کو میکرو مالیکیول (بڑے مالیکیول) کہا جاتا ہے یہ پولی مرز (polymers) ہوتے ہیں جبکہ ان کی تشکیل کرنے والے سادہ نامیاتی مرکبات مونومرز کہلاتے ہیں۔  مونومرز کے ملاپ سے پولی مرز کی تشکیل کا عمل کثیر ترکیبی یا Polymerization کہلاتا ہے۔  اس قسم کی کثیر ترکیبی کے دوران پانی خارج ہوتا ہے۔  اس عمل کو نابیدگی یا Dehydration کہتے ہیں۔  پانی میں نامیاتی پولی مرز آہستہ آہستہ واپس مونومرز میں ٹوٹ جاتے ہیں۔  حرارت ٹوٹنے کے اس عمل کو اور تیز کر دیتی ہے۔  لہٰذا سوال یہ ہے کہ قدیم سمندروں میں کثیر ترکیبی کا عمل کیسے ہوا ہو گا۔  اس مسئلہ پر ایک سے زیادہ نظریات موجود ہیں۔  ابھی تک کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔  ارضیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ممکن ہے کہ قدیم سمندروں کا کچھ حصہ علیحدہ ہو گیا ہو جس سے پانی کے اڑ جانے کے باعث چھوٹے مالیکیول جڑ کر بڑے مالیکیول بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔  یہ بھی ممکن ہے کہ چھوٹے نامیاتی مالیکیولوں کے آپس میں جڑ کر بڑے مالیکیول بنانے کا عمل چکنی مٹی (clay) (یا اسی طرح کی دوسری معدنیات) کی سطح پر ہوا ہو۔  چکنی مٹی کے ذرات چونکہ برقی طور پر بار دار ہوتے ہیں، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ سادہ نامیاتی مالیکیول چکنی مٹی کے ذرات کے ساتھ چپک گئے ہوں اور اس طرح آپس میں جڑ کر بڑے مالیکیول بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔  اور بھی کئی نظریات ہیں، جن پر بحث ہماری کتاب کے موضوع سے خارج ہے۔

 

ابتدائی خلیوں کی تشکیل

 

حساب لگایا گیا ہے کہ قدیم کرۂ ہوائی میں سادہ نامیاتی مالیکیولوں کی تشکیل آج سے تقریباً چار ارب سال قبل شروع ہوئی اور تقریباً ڈیڑھ ارب سال تک جاری رہی۔  قدیم ترین رکاز (فاسلز Fossils) ممکنہ طور پر تقریباً 3.5 ارب سال پرانے ہیں لہٰذا لگ بھگ نصف ارب سال میں یہ ممکن ہوا کہ بڑے نامیاتی مالیکیول مل کر ابتدائی سادہ خلیوں کی تشکیل کر سکیں۔  یہ مانا جاتا ہے کہ حقیقی خلیوں کی تشکیل سے پہلے نہایت سادہ خلیے (Protocells) وجود میں آئے جو ایک لمبے عرصے میں آہستہ آہستہ حقیقی خلیوں میں تبدیل ہوئے۔  یقیناً یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔  ایک سادہ ترین بیکٹریا کی بھی حیاتی کیمیا اتنی پیچیدہ ہوتی ہے کہ اتفاقِ محض کے لیے یہ ناقابل تصور ہے کہ بے جان مادہ جاندار مادہ میں تبدیل ہو جائے۔  یہ بات وزن رکھتی ہے کہ زندگی کی تشکیل کسی آفاقی پروگرام کا حصہ ہے، یعنی ایک ایسے پروگرام کا حصہ جو ایک ایسی ہستی کا بنایا ہوا ہے جو القدیر، العلیم اور الحکیم ہے۔ اسلامی نظریہ کے مطابق، زندگی کی ابتداء اور ارتقاء خدائے واحد کی خلاقیّت اور ربوبیّت کا شاہکار ہے۔

 

حیاتیاتی ارتقاء

بے جان مادہ جس سلسلۂ عمل کے نتیجے میں اولین سادہ ترین جاندار خلیوں میں تبدیل ہوا، اسے کیمیائی ارتقاء کہتے ہیں۔  ابتدائی جاندار خلیوں میں جو ارتقاء شروع ہوا وہ حیاتیاتی ارتقاء (Biological Evolution) کہلاتا ہے۔  یہ ارتقاء گزشتہ تقریباً ساڑھے تین ارب سالوں سے جاری ہے۔  اسی ارتقاء کے نتیجے میں وہ تمام جاندار وجود میں آئے جو آج موجود ہیں (یا جو ختم ہو گئے ہیں)۔

ممالیہ، پرندے، رینگنے والے جانور، جل تھلیے اور مچھلیاں (یعنی ریڑھ کی ہڈی والے جانور) ان کیڑوں سے ترقی کر کے بنے ہیں جو ساٹھ کروڑ سال پہلے رہتے تھے۔

اب تک کی تحقیق کے مطابق دنیا میں پودوں کی چار لاکھ اور حیوانات کی دس لاکھ انواع پائی جاتی ہیں جبکہ نئی انواع مسلسل طور پر دریافت ہو رہی ہیں۔  یہ جاندار اپنی جسامتوں، شکلوں اور طرزِ حیات کے اعتبار سے وسیع رنگ برنگیت اور تنوع رکھتے ہیں۔

سائنسی دریافتوں کے مطابق، انسان کا ارتقاء ان بشر نما جانداروں سے ہوا ہے جو تقریباً پندرہ لاکھ سال پہلے افریقہ میں رہتے تھے۔  ایک لاکھ سال پہلے وہ افریقہ سے نکل کر ایشیا اور یورپ میں پھیل گئے، جبکہ پندرہ ہزار سال قبل انھوں نے برِاعظم امریکا میں قدم رکھا۔

 

 

 

 

باب 7: قرآن مجید کا قصۂ آدم:  تاریخ یا تمثیل

(The Quranic Story of Adam:  History or Allegory)

 

مجازی اسلوبِ بیان ارفع کلام کے بنیادی ادبی محاسن میں سے ہے۔  قرآنِ مجید اپنی بات کہنے کے لئے حقیقت اور مجاز دونوں کو کام میں لاتا ہے۔ یہ خدا کا دائمی معجزہ ہے، اس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے، اس کی تفسیر وقت اور زمانہ کرتا ہے۔

 

قصۂ آدم جیسا کہ وہ قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے، اپنے اندر سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کا وسیع سامان رکھتا ہے۔ کیا یہ کسی ایسے واقعہ کو بیان کر رہا ہے جو ابتدائی انسانی تخلیق کے موقع پر پہلے انسانی جوڑے کے ساتھ پیش آیا تھا، یا یہ کل نوعِ انسانی کا تمثیلی بیان ہے؟ قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔  روحانی، اخلاقی اور سماجی ہدایت کی کتاب۔ (یہ سائنس یا تاریخ کی کتاب نہیں، نہ ہی یہ قانون یا معاشیات کی کتاب ہے۔ ) اس کا نہ صرف پیغام اور معنی و مفہوم معجزہ ہے بلکہ پیرایۂ اظہار اور اسلوبِ بیان بھی وہ رفعتیں رکھتا ہے جن کی نظیر نا ممکن ہے۔ بلا شک و شبہ یہ ادب کا شہ پارہ (Masterpiece of literature) ہے۔ نہ اس کے مضامین کبھی پرانے ہوں گے اور نہ اس کے عجائبات کبھی ختم۔ اس کی تفسیر وقت اور زمانہ کرتا ہے۔  یہ خدا کا دائمی معجزہ ہے (مزید دیکھئے راقم الحروف کا مقالہ

The Inimitable Language of the Qur’an, Islamic Quarterly,49 (3) , (175-182 (2005)

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور اس کا پیرایۂ بیان ادبی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنی بات بلند ترین ادبی سطح پر کہتا ہے۔  اس کا اندازِ بیان منفرد ہے۔  یہ نہ شاعری ہے اور نہ عام نثر، بلکہ شاعری اور نثر دونوں کے محاسن اور خوبیوں کو اعلیٰ ترین سطح پر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔  اس کی فصاحت، بلاغت اور جامعیت اپنی مثال آپ ہے۔  اس کی زبان عربیِ مبین ہے (الشعراء 195-197) ، جس کی عظمت کا اعتراف عرب کے عظیم ترین فصحا نے کیا ہے۔

یہ بے مثل اور بے نظیر کلام جب اپنی بات کہتا ہے تو موقع و محل اور موضوع و مضمون کے اعتبار سے حقیقت اور مجاز دونوں کو کام میں لاتا ہے۔  اس میں خود اپنے بقول نہ صرف محکمات ہیں بلکہ متشابہات بھی ہیں (آل عمران)۔ اس نے استعارہ، کنایہ، تشبہ اورتمثیل سبھی قسم کے محاسنِ ادبی کو استعمال کیا ہے۔  ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔  ’’…قرآن میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں:  تشبیہ و تمثیل واستعارہ، سجع اور مقفیٰ سورتیں، دلنشین انداز کلام، سبھی کچھ صحیفے میں بدرجہ کمال موجود ہے‘‘ (فکرِ اقبال، صفحہ 4)۔  ’’قرآنِ حکیم میں حقیقت و مجاز اور استعارہ و تشبیہ سب کچھ موجود ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن بالقرآن، صفحہ ۲۲، جلد اول)

تمثیل (Allegory) ایک پیرایۂ بیان ہے جس میں کسی حقیقت کو کرداروں اور مکالموں کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے۔  یہ ایک نہایت خوبصورت طریقۂ اظہار ہے جو سننے اور پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، بات ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور دیر تک یاد رہتی ہے۔  اس میں تہہ در تہہ معانی ہوتے ہیں جو مختلف زاویوں سے غور و فکر کرنے والوں پر آشکار ہوتے اور اپنا ابلاغ کرتے ہیں۔  تمثیل کلامِ مجازی کی ایک شکل ہے۔ اس کا استعمال دنیا کی سبھی زبانوں میں ہوتا ہے۔  اور لکھنے والے اپنے خیالات کے عمدہ اظہار کے لیے اس کو کام میں لاتے ہیں۔  اگر کوئی حقیقت اتنی پیچیدہ اور تہہ در تہہ ہو کہ اسے مخاطب کے دائرۂ فہم کے اعتبار سے سیدھے سادے لفظوں میں مناسب طور پر بیان نہ کیا جا سکتا ہو تو ایک قابل مصنف کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو اپنی بات تمثیلی انداز میں بیان کر دے۔  مزید براں، ایک تمثیل کا اسلوب، بلاغت اور پیرایۂ بیان قاری کے ذہن پر بہت گہرا تاثر چھوڑ سکتا ہے۔ تمثیل کی خوبصورتی قاری کو لغوی سطح کے نیچے چھپے ہوئے وسیع مفہوم کی طرف لے جاتی ہے۔  اس طرح، تمثیل مصنف یا متکلم کے مقصد کو زیادہ بہتر طور پر پورا کرتی ہے۔  علامہ محمد اسد نے تمثیل کے مفہوم اور اہمیت کو اس طرح سمجھایا ہے:

"A true allegory – in contrast with a mere pictorial paraphrase of something that could equally well be stated in direct terms – is always meant to express in a figurative manner something which, because of its complexity, cannot be adequately expressed in direct terms or propositions and, because of this very complexity, can be grasped only intuitively, as a general mental image, and not as a series of detailed "statements”” (Note 8, 3: 7)

قرآن پاک کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس نے اپنی بات کہنے کے لیے تمثیل کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔  خاص طور پر جب وہ ایسے حقائق بیان کرتا ہے جن کی نوعیت مابعد الطبیعاتی ہوتی ہے، اور اس طرح انسان کے ادراک کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔  یا ایسی حقیقتیں جنہیں اگر براہِ راست طور پر بیان کیا جائے تو وہ، وہ تاثر نہ پیدا کریں جو وہ اس وقت پیدا کرتی ہیں جب انہیں تمثیل کے پیرایہ میں بیان کیا جائے۔ مثال کے طور پر سورہ ق (30: 50) میں ہے۔

’’وہ دن جب ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو پر ہو گئی تو وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے!‘‘

سورہق کا اپنا اسلوب اور آہنگ ہے۔  سورہ کے مجموعی نظمِ کلام کے پیش نظر، جہنم کی وسعت کا یہ تمثیلی بیان قاری کے ذہن اور دل دونوں پر جو تاثر مرتب کر رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔  جہنم جس کی حقیقت بذات خود متشابہات میں سے ہے، اس کی گنجائش کو مجازی طور پر بیان کرنے میں جو معنویت ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔  خدا اور جہنم کے درمیان یہ مکالمہ، مکالمۂ حالی ہے، نہ کہ مکالمۂ قالی۔  عصرِ حاضر کے ایک مصنف جون ہر لیہی (یحییٰ احمد) لکھتے ہیں:

"The beauty of symbolism is that it conveys in a clear, direct and accessible manner a meaning of a higher reality, a reality that transcends the literal forms of the image in order to remember the prototype and essence of a reality and a truth that would otherwise be incommunicable and virtually inaccessible to humanity.” (p. 164)

ایک اور اسکالر پروفیسر ڈیوڈ پارکیس (David Parkes) مذہبی اور سائنسی طرز بیان میں فرق کو اس طرح بیان کرتا ہے:

"In science the use of language is exact . In contrast, religion talks in metaphors and allows for many depths and levels of meaning.” (P.47)

کلام مجازی کی ایک عمدہ مثال سورہ احزاب (33: 72) میں ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ہم نے یہ امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی (کہ وہ اس کی ذمہ داری اٹھائیں) تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا، اور وہ ڈر گئے۔  اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔  بے شک یہ ظلوم بھی ہے (اور) جہول بھی۔‘‘

یہاں امانت سے بہت سے اہل علم کے نزدیک مراد عقل و شعور اور ارادہ و اختیار کی صلاحیت ہے، جو انسان کا خاصہ ہے۔  یہ صلاحیت ذمہ داری اور جواب دہی کا تقاضا کرتی ہے۔  آیت میں اس بات کا تمثیلی اظہار ہے کہ یہ صلاحیت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کو نہیں دی گئی، صرف انسان کو دی گئی۔  ورنہ ظاہر ہے کس مخلوق کی یہ مجال ہے کہ خدا اسے کوئی نعمت، صلاحیت یا ذمہ داری دینا چاہے اور وہ اسے لینے سے انکار کر دے یا انکار کر سکے؟

قصۂ آدم قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔  اکثر روایتی مفسرین نے اس کی تعبیر و تشریح ایک ایسے واقعہ کے طور پر کی ہے جو ماضی میں تخلیقِ انسانی کے آغاز کے موقع پر واقع ہوا ہے۔  تاہم، اس بات کی کافی داخلی شہادتیں موجود ہیں کہ قصۂ آدم جیسا کہ وہ قرآن میں آیا ہے، تاریخ نہیں بلکہ تمثیل ہے جس میں نوعِ انسانی کے نصب العین، مقام و مرتبہ اور فطرت کو بلند ترین ادبی سطح پر بیان کیا گیا ہے۔  بر صغیر کے ایک اہم مفسر خواجہ احمد دین سورہ البقرہ میں قصۂ آدم کی تشریح کے موقع پر لکھتے ہیں:

’’اس رکوع میں حضرت آدم و حوا علیہ السلام کا حال محض ایک شخصی واقعہ کے طور پر نہیں آیا بلکہ ان کے اس بیان میں تمام نوعِ انسانی کا حال دکھایا گیا ہے‘‘ (صفحہ 180)۔

قرآن کے قصۂ آدم میں خدا، ملائکہ، انسان اور شیطان کے درمیان مکالمے ہیں۔  بالخصوص وہ مقامات توجہ طلب ہیں جہاں خدا اور ملائکہ کے درمیان، خدا اور شیطان کے درمیان، اور خدا اور انسان کے درمیان مکالمے ہیں۔  مثلاً سورہ البقرہ (2: 30) میں ہے:

’’اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا:  ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔

وہ بولے:  ’’کیا تو زمین میں اسے (خلیفہ) بنائے گا جو اس میں فساد برپا کرے گا، اور اس میں خوں ریزیاں کرے گا اور ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح کرتے ہیں، اور تیری تقدیس کرتے ہیں‘‘۔

خدا نے کہا:  ’’جو کچھ میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے‘‘۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ملائکہ (یا انسان، یا کسی اور مخلوق) سے ہمکلام ہونا اس طرح نہیں ہوتا جس طرح ہم انسان ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔  ہم کس طرح بولتے ہیں؟ ہماری زبان، ہونٹ، منہ کے خلاء (کہفۂ دہن) وغیرہ کی مدد سے آواز پیدا ہوتی ہے۔  یہ آواز لہروں کی شکل میں ہوا کے واسطہ میں سفر کرتی ہوئی تمام سمتوں میں پھیل جاتی ہے۔

ملائکہ کا سننا بھی ہماری طرح کا نہیں ہوتا۔  وہ روحانی اور مابعد الطبیعاتی مخلوق ہیں۔  جب آواز کی موجیں آ کر ہمارے کان کے پردے سے ٹکراتی ہیں تو اس میں مخصوص ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔  اس کا احساس دماغ کے سننے کے متعلق حصے تک پہنچتا ہے، اس طرح سننے کا عمل واقع ہوتا ہے۔

لہٰذا خدا کا ملائکہ سے مکالمہ اس طرح کا نہیں تھا جیسے کہ تخت پر بیٹھا کوئی بادشاہ اپنے سامنے موجود درباریوں سے کلام کرتا ہے۔  قصۂ آدم کی تمثیلی تشریح کے مطابق خدا کا ملائکہ سے کلام اصل میں ’’مکالمہ تکوینی‘‘ تھا۔  یہ وہ تکوینی الہام ہے جو خدا نے اپنی مخلوق کی فطرت میں ودیعت کیا ہوا ہے۔  یہ لفظوں اور آوازوں پر مشتمل زبانی گفتگو نہ تھی جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔  خواجہ احمد دین نے اسے مکالمۂ حالی قرار دیا ہے۔  یعنی کسی چیز کی حالت اور کیفیت سے جو حقیقت سامنے آتی ہے۔

(2)        سورہ البقرہ (2: 31) میں ہے:

’’اور خدا نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے‘‘۔ ظاہر ہے کہ خدا کا آدم کو سکھانا، اس طرح نہیں تھا جیسا کہ ہمارا کوئی استاد کمرۂ جماعت میں ہمیں پڑھاتا ہے۔  مزید براں، نام (اسماء) صرف مادی چیزوں تک محدود نہیں ہوتے۔  مجرد تصورات، صفات و خصوصیات اور غیر مادی حقیقتوں کے بھی نام ہوتے ہیں۔  پھر یہ کہ چیزیں بذاتِ خود بے شمار ہیں۔  اگر یہاں مراد نوعِ انسانی کے افراد کے نام ہوں تو وہ بھی عملی طور پر انگنت ہیں۔  مزید براں، چیزوں کے مختلف زبانوں میں مختلف نام ہوتے ہیں۔  دنیا میں ہزاروں زبانیں ہیں۔  یہ زبانیں ٹھہری ہوئی نہیں بلکہ ان میں مسلسل ارتقاء ہو رہا ہے۔  چیزوں کا وجود میں آنا بذاتِ خود ایک ارتقائی اور تدریجی عمل ہے۔  جب کوئی چیز وجود میں آتی ہے تو اس کا نام رکھا جاتا ہے۔  یہ ساری تفصیل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ’’خدا نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے‘‘ کی مجازی اور تمثیلی تشریح کریں۔  صرف اسی صورت میں یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ انسان کس طرح تمام چیزوں، تصورات، صفات وغیرہ کے سارے ناموں کو سارے وقتوں کی ساری زبانوں میں سیکھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل آگے آئے گی)۔ خواجہ احمد دین لکھتے ہیں:

’’اس مکالمے کی کیفیت ایسی نہیں ہو سکتی جس طرح چند آدمی اکٹھے بیٹھ کر بحث و مباحثہ کیا کرتے ہیں۔  یہ مکالمہ ’’حالی‘‘ ہے یعنی ان کی حالت کے اظہار کے لیے پیش کیا گیا ہے‘‘۔ (صفحہ 175)

اس کی دلیل کے طور پر وہ لکھتے ہیں:

’’اس مکالمے میں تین فریق شامل ہیں خدا، فرشتے اور انسان۔  یہ تینوں فریق ایک ہی قسم کے نہیں۔  پس ان کا مکالمہ بھی ایسا نہیں جیسا کہ ایک ہی طرح کے اشخاص کا ہوتا ہے‘‘۔  (ایضاً)

مزید لکھتے ہیں:

’’ حالی مکالموں میں ہر فریق کی طرف سے وہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے جو اس کی طرف سے ممکن ہو سکتا ہے۔  ان مکالموں میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جس کی طرف سے جو اعتراض کیا گیا ہے وہ ضرور اس کا عالم بھی ہو۔  پس یہ اعتراض کہ فرشتوں نے کیونکر جانا کہ انسان خونریزی و فساد کرے گا، سراسر فضول ہے۔‘‘ (ایضاً)

(3)        مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ اسماء (ناموں) سے کیا مراد ہے۔  مراد کچھ بھی ہو۔  قرآن کی لفظی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم کو نام سکھائے مگر ملائکہ کو نہیں سکھائے، جو کہ وہ سکھا سکتا تھا، اگر چاہتا۔  خدا نے آدم اور ملائکہ کے درمیان ایسے علم میں مقابلہ کرایا جو اس نے صرف ایک فریق کو سکھایا تھا۔  کیا یہ بات انصاف کے مطابق ہے؟ یہاں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے ذریعے اصل میں انسان کی مخصوص فطرت اور حقیقت کو تمثیلی طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔  ملائکہ کی اپنی فطرت ہے جو انسانوں سے مختلف ہے۔  یہاں علمِ اسماء سے یقینی طور پر مراد کوئی ایسا علم ہے جس سے انسان تو خود کو آراستہ کر سکتا ہے مگر ملائکہ اپنی مخصوص فطرت کے مطابق اس طرح نہیں سیکھ سکتے۔  جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی، ’’سب نام سکھائے‘‘ سے مراد انسان میں کائنات اور کائناتی اشیاء و مظاہر کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد ودیعت کرنا ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ وہ وصف ہے جو خدا نے صرف انسان کو عطا کیا ہے۔  ملائکہ چونکہ اپنی تخلیقی نوعیت اور فطرت کے اعتبار سے انسانوں سے مختلف ہیں لہٰذا ان میں یہ صلاحیت ودیعت نہیں کی گئی۔

(4)        آدم کا ملائکہ کے سامنے کل اشیاء کے ناموں کو بیان کرنا بھی لغوی طور پر اس طرح نہیں لیا جا سکتا جس طرح عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔  ظاہر ہے کہ زمان و مکان میں موجود ایک فردِ واحد کے لیے یہ بات نا ممکنات میں سے ہے کہ وہ تمام اشیاء جو کہ عملی طور پر انگنت ہیں کے نام ایک محدود وقت میں کسی کے سامنے بیان کر دے۔ (مثال کے طور پر اس وقت دنیا میں تقریباً ً سات ارب انسان موجود ہیں، اگر کوئی ان تمام کے ناموں کو پڑھ کر یا حافظے سے سنانا شروع کر دے تو خیال کیجیے کتنا وقت لگے گا۔  اب تمام اشیاء کے ناموں کے اعتبار سے سوچیئے)۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ آدم کا ملائکہ کو کل اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرنا بطورِ معجزہ واقع ہوا تھا۔  اس کا امکان موجود ہے۔  اگر ایسا ہے تو یہ بات ہمارے سمجھنے کے دائرے سے نکل جاتی ہے۔ ہم اسی چیز کو سمجھنے کوشش کر سکتے ہیں جو زمان و مکان میں فطرت کے قوانین کے مطابق واقع ہو۔  یہ ایک الگ بحث ہے جس کا اس وقت موقع نہیں۔ تاہم، جیسا کہ آگے بیان ہو گا آدم سے مراد یہاں نوعِ انسانی ہے۔

(5)        قصۂ آدم کی لغوی تعبیر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا نے آدم اور ان کی بیوی کو جنت میں رکھا۔  مگر انہوں نے خدا کے حکم کے برعکس شیطان کا کہا مانا۔ اگر آدم اور ان کی بیوی شیطان کا کہا نہ مانتے تو ہمیشہ جنت میں رہتے، گویا خدا کی منشاء تو یہ تھی کہ انسان جنت میں رہے، مگر اس نے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی جس پر خدا نے اسے جنت سے نکال دیا۔  ظاہر ہے کہ یہ بات علیم و خبیر اور قادرِ مطلق خدا کے تصور کے خلاف ہے۔  خدا وہ ہستی ہے جسے اپنا منصوبہ بدلنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔  اس کے برعکس، البقرہ 2: 30 (میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں) سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خدا کی تخلیقی اسکیم شروع ہی سے انسان کو زمین میں رکھنا تھا۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’جنت‘‘ زمین ہی میں انسان کی کسی حالت کا نام ہے یا اس سے تعلق رکھتی ہے۔

(6)        قصۂ آدم کو اگر ہم لُغوی طور پر لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اچانک شیطان کے روپ میں سامنے آتا ہے اور خدا کی مرضی کے خلاف کام شروع کر دیتا ہے۔  وہ آدم کو جسے خدا نے جنت میں رکھا تھا، اسے وہاں سے نکلوا دیتا ہے۔  گویا، خدا کا منصوبہ کچھ اور تھا، لیکن شیطان بیچ میں آن ٹپکا، اور بات کچھ سے کچھ ہو گئی۔  یعنی شیطان غیر متوقع طور آ وارد ہوا۔  ظاہر ہے، ایسا ہونا ایک قادرِ مطلق اور علیم و خبیر خدا کے تصور کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ لیکن، اس قصہ کی تمثیلی تعبیر ہمیں بتاتی ہے کہ شیطان خدا کے انسانی تخلیق کے منصوبہ کا شروع ہی سے لازمی حصہ تھا۔  خدا نے اپنے تخلیقی منصوبہ کے مطابق ارادہ و اختیار کی صلاحیت کی حامل مخلوق انسان کو پیدا کیا اور اس کی آزمائش (جو روحانی ارتقاء کی لازمی شرط ہے) کے لیے مزاحمتی قوت، شیطان کو پیدا فرمایا۔ ہم جانتے ہیں کہ نیکی اور بدی کا تصور، بدی پر ابھارنے والی کسی قوت کے تصور کے بغیر بے معنی ہے۔  اگر میرے اندر بدی کے لیے کشش نہ ہو تو میرا اسے رد کرنا میرے لیے کسی اخلاقی کمال کا باعث نہیں بن سکتا۔  تضاد اور تخالف و مزاحمت ارتقاء کی بنیادی شرط ہے۔

یہ اور اسی طرح کے دوسرے پہلوؤں پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قصۂ آدم، جیسا کہ وہ قرآن میں بیان ہوا ہے، نوعِ انسانی کا تمثیلی بیان ہے جس میں خدا نے انسان کی تخلیق کے اپنے ارادہ اور حکمت، انسان کی خلقت و فطرت، کائنات میں اس کے مقام و مرتبہ اور اس کے نصب العین اور مستقبل کے امکانات کو اجاگر کیا ہے۔  یہ قصہ در اصل قرآن کے نظریۂ انسان کو انتہائی خوبی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔  انسان کیا ہے؟ اس کا اس کائنات میں مقام و مرتبہ کیا ہے؟ خدا کو اس سے کیا مطلوب ہے؟ اس کا ماضی کیا تھا، اس کے مستقبل کے امکانات کیا ہیں؟ عورت اور مرد کا باہمی تعلق کیا ہے؟ خیر اور شر کا قرآنی فلسفہ کیا ہے؟

علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں قصۂ آدم پر قدرے تفصیل سے بحث کی ہے۔  وہ لکھتے ہیں:  ’’یہاں اس (یعنی آدم) کا اشارہ کسی مخصوص انسان کی طرف نہیں اس کی حیثیت ایک تصور کی ہے‘‘ (صفحہ 126)

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم علامہ اقبال کے افکار کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قرآن کا زاویہ نگاہ فقط معنوی ہے (نہ کہ تاریخی)۔  قرآن جس آدم کو پیش کرتا ہے وہ کوئی ایک فرد نہیں بلکہ انسانیت کا ایک تصور ہے۔  قرآن نے آدم کے لفظ کو انسانیت یا نوعِ انسان کے معنوں میں استعمال کیا ہے‘‘ (صفحہ 652)۔

علامہ اقبال مزید لکھتے ہیں:

’’لہٰذا قرآن مجید نے ہبوط آدم کا ذکر کیا ہے تو یہ بیان کرنے کے لیے نہیں کہ کرۂ ارض میں انسان کا ظہور کس طرح ہوا۔  اس کے پیش نظر حیاتِ انسانی کا وہ ابتدائی دور ہے جب اس پر جبلی خواہشات کا غلبہ تھا اور جس سے گزر کر اس نے رفتہ رفتہ محسوس کیا کہ وہ اپنی ذات میں آزاد اور اس لیے شک اور نافرمانی دونوں کا اہل ہے۔  مختصراً یہ کہ ہبوط کا اشارہ کسی اخلاقی پستی کی طرف نہیں، اس کا اشارہ اس تغیر کی طرف ہے جو شعور کی صاف و سادہ حالت میں شعورِ ذات کی اولین جھلک سے اس نے اپنے اندر محسوس کیا۔  وہ خوابِ فطرت سے بیدار ہوا اور سمجھا کہ اس کی حیثیت خود بھی اپنی جگہ پر ایک سبب کی ہے‘‘ (صفحہ 128)۔

عہدِ حاضرکا ایک معروف مغربی نو مسلم اسکالرگائی ایٹن لکھتا ہے:

"Whether this truth is factual in the historical sense or allegorical is a matter of perspective and does not affect its substance… both historical fact and allegory are among the tools of God. He teaches us, and informs us through the Quran (as also through facts), and He does so in the manner best adapted to our needs, our modes of understanding and our intellectual and imaginative capacity.” (p. 195)

یعنی، ’’ (تخلیقِ آدم کا قرآنی بیان ایک سچائی ہے) چاہے یہ سچائی تاریخی مفہوم میں ایک حقیقت ہو یا تمثیلی مفہوم میں، زاویۂ نگاہ کا معاملہ ہے، یہ اس کے جوہر پر اثر انداز نہیں ہوتا۔  تاریخی حقیقت اور تمثیل دونوں خدا کے ہتھیاروں میں سے ہیں۔  وہ ہمیں قرآن کے ذریعے سکھاتا ہے اور مطلع کرتا ہے اور ایسا وہ اس انداز سے کرتا ہے جو بہترین طور پر ہماری ضرورتوں، ہمارے سمجھنے کے طریقوں، اور ہماری عقلی اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مطابقت میں ہوتا ہے۔‘‘

گائی ایٹن کے نزدیک قصۂ آدم کی لغوی اور تمثیلی تشریحات کے لئے یہ ممکن ہے کہ دونوں سچائی کے عظیم دائرے کے اندر واقع ہوں (صفحہ 195)۔

…”both points of view may lie within the great circle of truth.”

ایک اور مصنف جون ہرلیہی کے مطابق آدم کی کہانی انسان کی اصل کی الٰہی تمثیل ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

"Adam’s story of first man, namely man as such rather than man in time, is a divine allegory of human origins, not in terms of time but in terms of meaning.” (p. 136-7)

 

 

باب 8: قصۂ آدم کا معنیٰ اور مفہوم

(Interpretation of the Story of Adam)

 

انسان کیا ہے؟ اس کا اس کائنات میں مقام و مرتبہ کیا ہے؟ خدا کو اس سے کیا مطلوب ہے؟ اس کا ماضی کیا تھا، اس کے مستقبل کے امکانات کیا ہیں؟ عورت اور مرد کا باہمی تعلق کیا ہے؟ خیر اور شر کا قرآنی فلسفہ کیا ہے؟

 

مختلف تفاسیر (قدیم و جدید) کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ قصۂ آدم کے مختلف نکات کی تشریح میں مفسرین کے ہاں ایک سے زیادہ آراء پائی جاتی ہیں۔  خلیفہ سے کیا مراد ہے، جنت جس میں آدم کو رکھا گیا تھا کہاں تھی، شجر ممنوعہ کیا تھا، علمِ اسماء سے کیا مراد ہے، فرشتوں کو یہ کیسے پتا چلا کہ انسان زمین فساد برپا کرے گا، اور خون بہائے گا، وغیرہ وغیرہ کی تشریح میں متعدد آراء پائی جاتی ہیں (مثلاً دیکھئے تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر مظہری، تفسیری طبری متعلقہ مقامات)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے قصۂ آدم کی کوئی ایسی تشریح موجود نہیں جس کے ہر ہر نقطہ پر تمام مفسرین باہم متفق ہوں۔  لہٰذا اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ اس قصہ اور اس کی جزئیات کی روایتی تفسیر سے ہٹ کر کوئی اور تشریح کی جائے۔

چنانچہ، عہد جدید میں بہت سے اہل علم نے اس قصہ کی تمثیلی تشریح کی طرف توجہ دی۔  ان میں علامہ اقبال، علامہ محمد اسد، ڈاکٹر رفیع الدین، علامہ عنایت اللہ المشرقی، خواجہ احمد دین، غلام احمد پرویز اور بہت سے دیگر اسکالرز شامل ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک ایسا تفصیلی مقالہ لکھا جائے جو قصۂ آدم کے تمام پہلوؤں اور اطراف و جوانب کا احاطہ کرتا ہو۔  اس میں ماضی اور حال کے تمام مفسرین اور مفکرین کی آراء کا تجزیہ کیا جائے، اور دیگر مذاہب و ملل کے ہاں جو ملتے جلتے قصے پائے جاتے ہیں، یا جو اثری و رکازی شواہد حاصل ہوئے ہیں انھیں شاملِ بحث کرتے ہوئے، حقیقت کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔  ہم نے ذیل میں کلامِ پاک کے قصۂ آدم کے صرف چند منتخب پہلوؤں پر نہایت مختصر بحث کی ہے۔ امید ہے کہ یہ وسیع تر کام کرنے والوں کے لئے سمت کے تعین کا کام دے گی۔

 

خلیفہ کا مفہوم

 

سورہ البقرہ (2: 30) میں ہے:

اِنّی جاعِلٌ فِی الارضِ خلیفۃ

’’ (خدا نے کہا) میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘

مفسرین کے ہاں خلیفہ کی تشریح میں متعدد آراء پائی جاتی ہیں (مثال کے طور پر دیکھئے تفسیر ابنِ کثیر)۔  تاہم، تھوڑے سے غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں لفظ خلیفہ انسان کے اس مقام کو بیان کر رہا ہے جو کہ اسے زمین میں دیگر مخلوق کے مقابلے میں فی الواقع حاصل ہے۔  انسان کی حیثیت زمین میں اسی طرح کی ہے جیسے کسی ادارے میں کوئی نگران یاسربراہ ہوتا ہے۔  خدا نے انسان کو شعور، اور ارادہ و اختیار (free will) کی طاقت عطا فرمائی ہے جو اس نے زمین کی کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کی۔  انسان اپنی اس صلاحیت کے باعث زمین کی دیگر مخلوقات کے اعتبار سے گویا سربراہ یا منتظم کی حیثیت رکھتا ہے۔  لیکن انسان کی یہ سربراہی ایک محدود دائرے میں ہے اور انتہائی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے۔ آیت کا مفہوم ہو گا:  ’’میں زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے والا ہوں جسے میں ارادہ و اختیار کی صلاحیت دوں گا‘‘۔  علامہ محمد اسد کے نزدیک بھی خلیفہ کا مفہوم یہی ہے:

"The term khalifah – derived from the verb khalafa, "he succeeded [another] ” – is used in this allegory to denote man’s rightful supremacy on earth, which is most suitably rendered by the expression "he shall inherit the earth” (in the sense of being given possession of it.” (Note 22 on 20: 30)

لفظ خلیفہ کے اس استعمال کی تائید خود قرآن پاک سے بھی ہوتی ہے مثال کے طور پر خدا حضرت داؤد سے جو اس زمانے کے عام دستور کے مطابق بادشاہ بھی تھے، فرماتا ہے:

’’اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس تو انسانوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کرنا‘‘ (38: 26)۔

ظاہر ہے کہ یہاں خلیفہ ملک کے سربراہ اور حاکم کے معنوں میں آیا ہے۔  اسی طرح سورہ النور (24: 55) میں ہے:

’’خدا نے تم میں سے ان سے جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال سرانجام دیں، یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح اس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزرے ہیں‘‘۔

چونکہ، ارادہ اور اختیار اپنے مطلق معنوں میں خدا کی صفات ہیں، جو اس نے محدود طور پر انسان کو عطا فرمائی ہیں، اس اعتبار سے انسان کو خدا کا خلیفہ کہہ سکتے ہیں (اگرچہ قرآن پاک میں لفظ ’’خدا کا‘‘ موجود نہیں)۔

چنانچہ، قرآن مجید کے مطابق انسان زمین میں ایک خصوصی مقام کا حامل ہے جو صلاحیت اور ذمہ داری دونوں سے عبارت ہے۔  اللہ تعالیٰ نے اسے امتیازی جسمانی اور ذہنی اور روحانی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔  اس کے اندر بطورِ نوع یہ صلاحیت و لیاقت ہے کہ وہ کائنات کی قوتوں کو قابو میں کر کے استعمال میں لا سکے۔  لہٰذا، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو خدا کی منشا کے مطابق بروئے کار لائے اور ان نعمتوں کے لیے خدا کا شکر گزار ہو جو اس نے اسے عطا کی ہیں۔  انسان کی یہ حیثیت اس سے ذمہ دارانہ طرز عمل کا تقاضا کرتی ہے۔  جون ہرلیہی (John Herlihy) نے انسان کے خلیفہ ہونے کی تشریح اس طرح کی ہے۔

"Man is khalifat Allah or the vicegerent of the Divinity because he has the mind, the intelligence, the free will, and the potential virtue to relate and interact harmoniously with the forces of Nature. The forces of nature are at his disposal to be used for the benifit of humanity and within the construct of the natural and divine laws that cannot be violated without great cost.” (P.34)

معروف مفسر خواجہ احمد دین لکھتے ہیں:

’’کل نوع انسانی اس زمین میں خلیفہ ہے۔  اکیلا آدمؑ ہی خلیفہ نہ تھا۔  آدمؑ نے کبھی خونریزی نہیں کی۔‘‘ (صفحہ 174)

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اس لیے اختیار دے کر خلیفہ بنایا کہ وہ اپنے مالک کا جلال و جمال ظاہر کرے۔  مگر اکثر لوگ اس خلافت کا حق ادا نہیں کرتے۔  وہ بری خلافت کر رہے ہیں جس کے لیے وہ اپنے خلیفہ بنانے والے احکم الحاکمین کے آگے جواب دہ ہیں۔‘‘ (صفحہ 176)

علم اسماء (ناموں کا علم، علمِ اشیاء)

قرآن پاک (2: 30) میں ہے:

’’اور خدا نے آدم کو تمام (اشیاء کے) ناموں کی تعلیم دی‘‘

اسماء (ناموں) کی تشریح میں مفسرین کے ہاں بہت زیادہ اختلافِ رائے پایا جاتا ہے (مثلاً دیکھیں تفسیر مظہری، تفسیر ابن کثیر متعلقہ مقام)۔  بعض کے نزدیک اسماء سے ملائکہ کے نام مراد ہیں، بعض کے خیال میں یہ حضرت آدم کی اولاد کے نام ہیں۔  کچھ کی رائے یہ ہے کہ ان سے تمام اشیاء کی صفات مراد ہیں۔  ایک رائے میں اسماء سے مراد تمام واقعات کا علم ہے جو ہو چکے ہیں یا قیامت تک ہوں گے۔  قاضی ثناء اللہ پانی پتی (صاحب تفسیر مظہری) کے نزدیک علم اسماء سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کا اجمالی علم ہے (دیکھئے متعلقہ مقام)۔ تاہم اکثر مفسرین نے علم الاسماء سے کائنات کی تمام اشیاء کے ناموں کا علم مراد لیا ہے۔

اگر آدم سے مراد بطورِ مجموعی انسان ہے تو اسماء کے علم کے مفہوم کا تعین آسان ہو جاتا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قصۂ آدم میں خدا کا یہ کہنا کہ اس نے آدم کو سب نام سکھائے، یہ معنے رکھتا ہے کہ اس نے انسان کی فطرت میں کائنات اور اس کی اشیاء و مظاہر کو سمجھنے کی صلاحیت (Potential) ودیعت فرمائی ہے۔  علامہ محمد اسد لکھتے ہیں:

"The term ism ("name”) implies, according to all philologists, an expression "conveying the knowledge [of a thing] … applied to denote a substance or an accident or an attribute, for the purpose of distinction” (Lane IV, 1435) :  in philosophical terminology, a "concept”. From this it may legitimately be inferred that the "knowledge of all the names” denotes here man’s faculty of logical definition and, thus, of conceptual thinking.” (Note 23 on 2: 31)

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ ’’خدا نے آدم کو سب نام سکھائے‘‘ میں جس سکھانے کی طرف اشارہ ہے وہ اس طرح کا سکھانا نہیں جس طرح ایک استاد اپنے شاگردوں کو کمرۂ جماعت میں سکھاتا ہے بلکہ اس میں سیکھنے کے اس فطری عمل کی طرف اشارہ ہے جسے انسان اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام میں لاتا ہے۔  یہ اسی طرح ہے جیسے سورہ رحمان میں ہے:

’’خدا نے انسان کو پیدا کیا، اور اسے بیان (بولنا) سکھایا‘‘

یعنی، خدا نے انسان میں فطری طور پر بیان یا بولنے (Articulate speech) کی صلاحیت پیدا کی ہے۔

خدا نے انسان کو بلند ذہنی اور حسی قوتیں عطا کی ہیں۔  اس کے اندر سوچنے، سمجھنے، غور و فکر کرنے اور مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے اور یوں کائنات کی حقیقتوں کو سمجھنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے۔  اپنی انہیں صلاحیتوں کی بنیاد پر انسان تخلیق اور ایجاد کی راہ پر مسلسل آگے بڑھتا جاتا ہے۔  علاوہ ازیں خدا نے انسانوں میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ مسلسل ترقی کرتی اور بدلتی ہوئی زبانوں کے ذریعے اپنے علم اور تجربات (experiences) کو ایک دوسرے اور آنے والی نسلوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔

تھوڑے سے غور و فکر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’آدم‘ کا لفظ یہاں انسان یعنی کل نوعِ انسانی کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔  ’’علم الاسمائ‘‘ جس کی تشریح ہم نے اوپر کی سطور میں کی ہے، انسان کا امتیازی وصف ہے۔  ملائکہ چونکہ اپنی فطرت و نوعیت کے اعتبار سے انسانوں سے مختلف ہیں، لہٰذا ان میں یہ استعداد ودیعت نہیں کی گئی۔

ایک اور زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو ’’ناموں کے علم‘‘ کے پیچھے علم اور علم کی تخلیق کا ایک پورا فلسفہ موجود ہے۔  انسانوں میں تحقیق و جستجو کا مادہ نئی نئی چیزوں کی دریافت اور ایجاد کا باعث بنتا ہے۔  انسان مختلف بنیادوں پر ان چیزوں، حقیقتوں اور تصورات کے نام رکھتا اور ان کے لیے اصطلاحیں بناتا ہے۔  اس طرح علم پھلتا، پھولتا، پھیلتا اور اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا ہے۔

اس تفصیل سے ایک ضمنی مگر اہم نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ خدا کی منشاء ہے کہ انسان تخلیقِ علم میں، اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے، بھرپور حصہ لے۔  یہی وہ طریقہ ہے جس سے انسان کے علمی و فکری ارتقاء کا سفر آگے بڑھتا ہے۔  یہ انفس و آفاق میں خدا کی آیات کی مسلسل تلاش و جستجو اور مشاہدے کا عمل ہے۔  اسی سے معرفت رب کے پھول کھلتے ہیں، کیونکہ کائنات اور اشیاء و مظاہرِ کائنات اصل میں اللہ تعالیٰ کی صفات کی جلوہ گری (Manifestation) ہیں۔  اسلام میں علم و آگہی انتہائی مطلوب چیز ہے۔  خدا اپنے رسولﷺ کو علم میں مسلسل اضافے کی دعا کی تلقین کرتا ہے (قل ربِّ زدنی علما)۔  رسولِ خدا فرماتے ہیں کہ علم کی طلب و جستجو کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین (یعنی دور دراز) ہی کیوں نہ جانا پڑے (اطلبوا العما و لو کان بالسین)۔

قصۂ آدم ماضی کی کہانی نہیں، حاضر و موجود انسان کے نصب العین کی تمثیل ہے۔  جسے ہم فراموش کر چکے ہیں۔  کاش ہم منشائے ربی کو پہچانیں اور اپنے لیے علم کی وہ راہیں منتخب کریں جو خدا کی نظر میں ہمیں بلند کرتی ہوں۔ یعنی جن کے ذریعے ہمیں روحانی اور اخلاقی ارتقاء حاصل ہو۔

 

آدم کے لیے ملائکہ کے سجدے کا مفہوم

 

سورہ البقرہ (2: 34) میں ہے:

’’خدا نے ملائکہ کو حکم دیا:  ’’آدم کے لیے سجدے میں جھک جاؤ‘‘۔ تمام ملائکہ جھک گئے سوائے ابلیس کے، اس نے جھکنے سے انکار کر دیا…‘‘

اسی مفہوم کی آیات کئی اور مقامات پر بھی ہیں۔  سورہ الحجرم میں ہے:

’’ اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا:  میں سیاہ متغیر کیچڑ کی مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، تو جب میں اس کو مکمل کر چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم اس کے لئے سجدہ ریز ہو جانا۔ تمام ملائکہ سجدہ ریز ہو گئے سوائے ابلیس کے۔  اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا‘‘۔

آدم کے سامنے ملائکہ کے جھکنے یا سجدہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ تفسیروں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مفسرین میں سجدہ کے مفہوم اور نوعیت کے تعین میں کئی آراء پائی جاتی ہیں۔  بعض کا قول ہے کہ سجدہ سے مراد سلام اور عزت و تکریم ہے۔  بعض کی رائے ہے کہ سجدہ تو اللہ تعالیٰ کے لیے تھا، آدمؑ بطورِ قبلہ تھے، ابن کثیر کے بقول ’’یہ سجدہ حضرت آدمؑ کے لیے تکریم، عظمت، احترام اور سلام تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت تھی کیونکہ در حقیقت اس کے حکم کی بجا آوری تھی‘‘۔ ایک رائے کے مطابق سجدے کا حکم صرف زمین کے ملائکہ کو تھا، جبکہ ایک دوسری رائے میں یہ آسمانوں اور زمین کے تمام ملائکہ کو تھا۔

اگر ہم قصہ آدم کو نوعِ انسانی تمثیل کے طور پر لیں تو اس کی تشریح بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے۔  یہ اصل میں اس بات کا تمثیلی اظہار ہے کہ فطرت کی تمام قوتیں انسان کے لیے مسخر ہیں (جیسا کہ قرآن پاک میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے)۔ فطرت کی قوتیں انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے سامنے مطیع ہیں۔  انسان ان سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔  وہ فطری طور پر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔  عام تشریح کے مطابق ملائکہ کارکنانِ قضا و قدر ہیں۔  ان کا آدم کے سامنے جھکنے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان فطرت کی قوتوں کو سمجھ سکتا ہے، اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق کام میں لا سکتا ہے۔  خواجہ احمد دین لکھتے ہیں:

’’آدم کے بنانے میں تمام آدمیوں کا بنانا، اور آدم کے سجدہ میں سب آدمیوں کا سجدہ داخل ہے‘‘ (صفحہ174)۔

تسخیرِ کائنات کے اسی علم کو آج سائنس کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ فطرت کی قوتوں کو تسخیر کر سکے۔  گویا انسان بطورِ نوع بالقوہ طور پر (Potentially) ’’مسجودِ ملائک‘‘ ہے۔  یہ ایک صلاحیت ہے جو خدا نے اس کے اندر ودیعت کی ہوئی ہے۔  مگر عملی طور پر اسے اپنی کاوشوں سے اس صلاحیت کو بروئے کار لانا اور Actualize کرنا ہے۔  دوسرے لفظوں میں انسان بالقوہ طور پر مسجود ملائک ہے، مگر بالفعل طور پر اسے مسجود ملائک بننا ہے۔  یہ انسان کی درست سمت میں مسلسل جد و جہد سے ہو گا۔  درست سمت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار اخلاقی حدود و قیود کے اندر رہ کر کرے۔  اس سیاق و سباق میں ابلیس یا شیطان سے مراد بدی کے وہ مہیجات (impulses) ہیں جو ارادہ و اختیار کے حامل انسان کے اندر سرگرم ہوتے ہیں۔  ان کا مقصد با شعور انسان کو اخلاقی اعتبار سے ہر لمحے حالتِ آزمائش میں رکھنا ہے تاکہ انسان کو یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ بدی کو رد کرتے ہوئے، نیکی کو اختیار کرے اور یوں اخلاقی کمال کے بلند سے بلند درجے پر ترقی کرتا جائے۔  ابلیس یا شیطان کے موضوع پر آگے ہم زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

 

ابلیس یا شیطان کا مفہوم

 

ابلیس یا شیطان کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔  یہ قرآن کے قصۂ آدم کا ایک اہم کردار ہے۔  کئی مقامات پر یہ قصہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس میں خدا اور ابلیس اور اسی طرح آدم اور ابلیس کے درمیان مکالمے ہیں۔  مکالمے کے جملے نہایت معنی خیز ہیں ان کے ذریعے انسان کی تخلیق کی خدائی سکیم کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

لغوی اعتبار سے ابلیس کا لفظ عربی کے ابلس کے مادہ سے ماخوذ ہے۔  اس کا مطلب ہے:  ’’اس نے امید چھوڑ دی‘‘ یا ’’وہ مایوس ہو گیا‘‘۔  قرآن پاک میں ابلیس کا لفظ شیطان کے لیے آیا ہے۔  ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے اپنی کتاب ’’فکرِ اقبال‘‘ میں ابلیس اور اس کی ماہئیت پر بحث کی ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’ابلیس یا شیطان کی ماہیت کیا ہے؟ یہ بھی اسرارِ حیات میں سے ایک سر بستہ راز ہے۔  صوفیہ، حکماء اور مفکر شعراء نے طرح طرح سے اس کی گرہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ کیا ابلیس زندگی کے کسی مظہر کا نام ہے، یا وہ کوئی آمادہ بہ شر شخصیت ہے؟ کیا وہ کوئی زوال یافتہ باغی فرشتہ ہے یا اس جناتی مخلوق کا امام ہے جسے قرآن نے ناری قرار دیا ہے؟ لیکن خود نار کیا ایک استعارہ ہے یا دنیا کی آگ کی طرح جلانے اور بھسم کرنے کا ایک عنصر ہے‘‘۔ (صفحہ 510)

بعض جدید مغربی محققین کے نزدیک ’’شیطان کا تصور وہی ایرانی ثنویت میں اہرمن کا تصور ہے، اور بنی اسرائیل نے جلاوطنی کے زمانے میں جو ایرانی تصورات قبول کر کے ان کو مذہب میں داخل کر لیا، شیطان کا تصور بھی انہیں تصورات میں سے ایک ہے‘‘ (ایضاً)۔

شیطان کی ماہیت اور اس کے تصور کی تاریخ چاہے کچھ بھی ہو، یہ بہر حال ایک حقیقت ہے کہ ایک قوت یا شخصیت ایسی موجود ہے جو انسان کو جو کہ اخلاقی وجود ہے، بدی پر ابھارتی ہے۔  ایک فرمانِ رسولؐ ہے کہ ’’شیطان انسان کی رگ و پے میں اور اس کی روح کی گہرائیوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے‘‘۔  ’’اس بیان میں شیطان کوئی شخصیت معلوم نہیں ہوتی بلکہ زندگی میں ایک تخریب انگیز میلان کا نام ہے‘‘ (ایضاً)۔  قصۂ آدم میں شیطان خدا کی حکم عدولی کرتا ہے۔  لیکن ’’از روئے قرآن حیات و کائنات کی کوئی قوت خدا کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔  سب جگہ آئینِ الٰہی کار فرما اور مخلوقات میں سے ہر شے خدا کی مطیع ہے‘‘ (ایضاً صفحہ502۔  ’’در اصل ابلیس کی ماہیت کا مسئلہ خیرو شر کا مسئلہ ہے‘‘ (ایضاً)۔

مزید لکھتے ہیں، ’’انسان کے لیے شر کی ماہیت کاسمجھنا اور ہستی میں اس کا مقام متعین کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ خیر کی ماہیت کو سمجھنا۔  کیونکہ خیرو شر باہمی تقابل ہی سے سمجھ میں آ سکتے ہیں‘‘ (ایضاً صفحہ 503)۔

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کے بقول ’’اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور اس کے فلسفۂ خودی کا ایک جزوِ لاینفک ہے … اگر زندگی میں موانع موجود نہ ہوں تووہ خیر کوشی بھی ختم ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور استواری پیدا ہوتی ہے۔  اگر انسان کے اندر باطنی کشاکش نہ ہو تو زندگی جامد ہو کرہ جائے‘‘ (ایضاً صفحہ 503)۔

قرآن پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس خدا کے انسان کی ’’ تخلیق کے منصوبے‘‘ (scheme of creation) میں ایک اہم اور معین کردار کا حامل ہے۔  وہ خدا کے ’’ تخلیقی منصوبے‘‘ کا لازمی حصہ ہے۔  ایسا نہیں ہوا کہ وہ اچانک غیر متوقع اور حادثاتی طور پر منظر پر آواقع ہوا ہو۔  انسان چونکہ ایک وجودِ اخلاقی ہے، لہٰذا شیطان کا وجود اس کی روحانی بلندی کی لازمی شرط ہے۔  اس کا کام ارادہ و اختیار (Free will) کے حا مل انسان کو بدی پر ابھارنا اور اکسانا ہے۔  چنانچہ، وہ انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ نیکی اور بدی میں سے کسی ایک کے انتخاب کی اپنی آزادی کو کام میں لائے۔ اس طرح، شیطان انسان کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اخلاقی کمال کے حصول کے لیے کشش و جاذبیت کی حامل بدی کو رد کر کے جد و جہد سے عبارت اور بعض دفعہ مصائب و مشکلات کی حامل نیکی کو سرانجام دے سکے۔  جب انسان مسلسل طور پر نیکی کو بدی پر اس کی تمام تر کشش کے باوجود ترجیح دیتا جاتا ہے تو وہ روحانی طور پر ترقی کرتا جاتا ہے اور یوں وہ اپنے خالق کی نظر میں بلند سے بلند تر مقام حاصل کرتا جاتا ہے۔  اگر بدی پر ابھارنے اور اکسانے کی قوت نہ ہوتی، تو انسان کے لیے نیکی کا انتخاب کچھ فضیلت کا باعث نہ ہوتا۔  اور نہ نیکی انسان کے ارتقاء کی ضمانت فراہم کرتی۔  بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خیر اور شر کا تصور ہی بے معنی ہوتا۔  گناہ میں لذت نہ ہو، بدی دلفریب نہ ہو، تو اس سے بچنا کون سا کمال ہو گا۔ چنانچہ انسانی تخلیق کی خدائی سکیم میں شیطان کا وجود انسان کے اخلاقی و روحانی ارتقاء اور تکامل کی لازمی شرط ہے۔  خواجہ احمد دین لکھتے ہیں:

’’انسان اگر خونریزی و فساد نہ کر سکتا تو مجبور ہوتا۔ اس کا نیکی کرنا کوئی نیکی نہ ہوتا‘‘ (صفحہ 176)۔

قرآن کے قصۂ آدم کا ایک اہم موڑ وہ ہے جب ابلیس انسان کو ورغلانے کے لئے خدا سے مہلت مانگتا ہے۔  اسے یہ مہلت مل جاتی ہے اور ساتھ ہی اسے یہ بتا دیا جاتا ہے کہ ’’ بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا، تیرا بس انھیں پر چلتا ہے جو گمرہوں میں سے تیری پیروی کرتے ہیں‘‘ (الحجر (15: 42 خدا کا شیطان کو مہلت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ انسان کو جب تک وہ اس دنیا میں ہے شر پر اکساتا رہے۔  دوسرے لفظوں میں، خدا کا تخلیقی منصوبہ یہ ہے کہ جب تک با شعور انسان دنیا میں موجود ہے، اس کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش جاری رہے۔  چنانچہ نوعِ انسانی جب تک اس دار الامتحان دنیا میں موجود رہے گی، شیطان اسے بدی پر ابھارتا رہے گا۔  اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر اپنی منزل کھوٹی کرتا ہے، یا پھر، اسے رد کرتے ہوئے روحانی ارتقاء کی سیڑھی پر اوپر اور اوپر چڑھتا جاتا ہے۔

جنت کا مفہوم

 

سورہ البقرہ 2: 35 میں قرآن پاک کہتا ہے:

’’اور ہم نے کہا:  ’’اے آدم! تم اور تمہاری شریک حیات جنت میں رہو اور دونوں کھاؤ جہاں سے چاہو۔  لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا، نہیں تو (اپنے اوپر) ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔  لیکن شیطان نے انہیں ورغلا دیا اور انہیں وہاں سے نکلوا دیا جہاں وہ تھے‘‘۔  اور ہم نے کہا:  ’’اترو! تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے۔  اور تمہارے لیے زمین میں ایک عرصہ تک ٹھہرنا اور سامانِ حیات ہے‘‘۔

جنت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’باغ‘‘ ہے۔  مفسرین نے اس کی تشریح میں بہت کچھ لکھا ہے۔  کئی مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں ’’جنت‘‘ سے مراد وہی جنت یا بہشت ہے جو مرنے کے بعد نیکوکاروں کو حاصل ہو گی۔  ایک رائے یہ ہے کہ یہاں جنت سے مراد آخرت والی جنت نہیں بلکہ ایک ایسا باغ ہے جو خدا نے زمین پر ہی پیدا کیا تھا۔

علامہ محمد اسد لکھتے ہیں:

"According to some of the earliest commentators (see al Manar I, 277) an earthly abode is here alluded to, namely, an environment of perfect ease, happiness and innocence. In any case, this story of Adam is obviously of the allegories referred to in 3: 7. (p. 9)

خواجہ احمد دین کے نزدیک یہاں ’’جنت‘‘ سے مراد ’’جنتی حالت‘‘ ہے۔  یہ وہ حالت ہے جب انسان ’’کی اصلی فطرت پر کسی شبہ اور بدی کا رنگ اور زنگ نہ چڑھا ہوا تھا۔  اس کی ضروریات فطری ہدایت ہی سے پوری ہو جاتی تھیں۔  اس کے دل کو پورا اطمینان حاصل تھا۔  اس وقت وہ یقیناً جنتی حالت میں تھا‘‘ (صفحہ 172)۔ مزید لکھتے ہیں:

’’حاصل یہ کہ جس جنت سے وہ گرائے گئے وہ قلبی طمانیت اور فطری راہنمائی ہی کا جنت تھا۔  وہ پیدا ہوتے ہی اسی جنت میں رکھے گئے تھے۔  اس جنت میں کبھی روزی تنگ نہیں ہوئی‘‘ (ایضاً صفحہ 173-172)۔

آگے چل کر کہتے ہیں:  ’’وہ جنت اصلی فطری حالت اور قلبی اطمینان ہی کا تھا‘‘ (صفحہ 173)

علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں تقریباً اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں:  ’’میں سمجھتا ہوں کہ قرآنِ پاک کی اس روایت میں لفظ جنت کا اشارہ حیاتِ انسانی کے اس ابتدائی دور کی طرف ہے جس میں انسان کا اپنے ماحول سے ابھی عملاً کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا تھا اور جس میں وہ اس تکلیف دہ احساس سے بے خبر تھا جوا پنی ضروریات میں محتاجی کو دیکھتے ہوئے ہمارے دل میں پیدا ہوتا ہے۔  لیکن جو گویا تمہید ہے تہذیب و تمدن کی‘‘ (خطبات صفحہ 127)

چونکہ قرآن کا قصۂ آدم نوعِ انسانی کا تمثیلی بیان ہے لہذا مکانِ غالب یہ ہے کہ یہاں جنت سے مراد انسان کی وہ حالت ہے جس میں ابھی اسے نیکی اور بدی کا شعور نہیں ہوتا۔  یہ حالت انسان کی بطورِ نوع بھی ہے اور بطورِ فرد بھی۔  نوع کے طور پر انسان کا ارتقا ء سادہ حیاتی شکلوں (life-forms) سے ہوا۔ جب تک وہ مکمل با شعور انسان کی شکل میں نہیں آیا تھا، اس میں نیکی اور بدی کا شعور بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔  یہ ’’معصومیت‘‘ کی حالت تھی۔  نیکی اور بدی کے شعور سے پہلے ’’انسان‘‘ اپنے جبلی رجحانات کے مطابق زندگی بسر کرتا تھا۔  چونکہ وہ اپنے جبلی رجحانات سے انحراف نہیں کرتا تھا، اس لیے وہ خدا کا مکمل فرمان بردار تھا۔  زندگی کے لیے ضروری وسائلِ رزق ہر طرف وافر دستیاب تھے اور انسان آزادانہ طور پر جہاں چاہے جا سکتا تھا اور جو چاہے کھا سکتا تھا۔

اس ’’جنت‘‘ کا تعلق ہر فردِ بشر سے علیحدہ طور پر بھی ہے۔  بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے نیکی اور بدی کا شعور نہیں ہوتا۔  وہ بالکل معصوم ہوتا ہے۔ رسولِ پاکﷺ کا فرمان ہے:

کل مولود یولد علی فطرۃ

’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘‘

بچہ جب آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے تو اس میں خیر اور شرکا شعور فروغ پانے لگتا ہے۔  جب انسان بلوغت کو پہنچتا ہے تو وہ نیکی اور بدی کے شعور کو حاصل کر لیتا ہے۔  گویا، ہر فردِ بشر اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب تک اسے نیکی اور بدی کا شعور نہیں ہوتا، ’’حالتِ جنت‘‘ میں ہوتا ہے۔  یہ معصومیت کا زمانہ ہے، ابھی انسان کو بدی کو رد کرنے اور اس کے مقابلے میں نیکی کو اختیار کرنے کی آزمائش درپیش نہیں ہوتی۔  ابھی وہ اخلاقی امتحان کی مشکلات میں داخل نہیں ہوتا۔

چنانچہ، اگر انسان کو بطور نوع دیکھا جائے، تو ’’جنت‘‘ سے ممکنہ طور پر مراد انسان کی وہ ابتدائی فطری حالت ہے جب ابھی وہ نیکی اور بدی کی کشمکش سے آزاد تھا۔  یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی انسانوں میں اخلاقی معنوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا تھا۔  سب انسان گویا ایک ہی امت اور ملت تھے۔  یہ فطری راہنمائی میں زندہ رہتے تھے۔  رفتہ رفتہ جب ان میں شعور پیدا ہوا اور نیکی اور بدی کا تصور پروان چڑھا، تو ان میں رائے اور نظریہ کا اختلاف پیدا ہو گیا۔  یہ وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کے لیے نبی مبعوث فرمانے شروع کئے۔  قرآنِ پاک میں ہے (سورہ یونس 10: 19) :

’’تمام لوگ (ابتداء میں) ایک ہی امت تھے، پھر وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے‘‘۔

سورہ البقرہ 2: 213 میں ہے:

’’تمام لوگ ابتداء میں ایک ہی امت تھے (پھر وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے) تو (ان کی ہدایت کے لیے) اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھیجے خوشخبری سنانے والے، خبردار کرنے والے …‘‘

آیت کی تفسیر میں علامہ محمد اسد لکھتے ہیں:

"What is alluded to in this verse is no more than the relative homogeneity of instinctive perceptions and inclinations characteristic of man’s primitive mentality and the primitive social order in which he lived in those early days. Since that homogeneity was based on a lack of intellectual and emotional differentiation rather than on a conscious agreement among the members of human society, it was bound to disintegrate in the measure of man’s subsequent development. As his thought-life became more and more complex, his emotional capacity and his individual needs, too, became more differentiated, conflicts of views and interests came to the fore, and mankind ceased to be "one single community” as regards their outlook on life and their moral valuations:  and it was at this stage that divine guidance became necessary”.

خواجہ احمد دین لکھتے ہیں:

’’پہلے انسان فطری دین پر ہونے کی وجہ سے ایک ہی امت تھے۔  نبیوں کی ضرورت بعد میں پڑی‘‘ (صفحہ 172)۔

قرآن مجید کی ان آیات (2: 213 اور 10: 19) سے انسان کی تخلیق کے ارتقائی نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔  نوعِ انسانی پر شروع میں ایسا زمانہ گزرا ہے جب وہ فطرت اور جبلت کی حالت پر تھی۔ رفتہ رفتہ وہ اس سے نکلی اور اس حالت کو پہنچی جہاں سے اس کی شعوری زندگی کا آغاز ہوا۔

یہ ایک حالت سے دوسری حالت کا سفر ہے جو آہستہ آہستہ ہوا۔  ممکنہ طور پر ’’ہبوط‘‘ سے یہی مراد ہے۔  یعنی فطرت کی حالت سے نکل کر شعور کی حالت میں داخل ہونا۔  انسان جبلی ’’آرام‘‘ کی حالت سے شعوری ’’بے آرامی‘‘ کی حالت میں داخل ہوا۔  گویا وہ ’’جنت‘‘ سے نکل کر ’’دنیا‘‘ میں آ گیا۔

 

شجر ممنوعہ کا مفہوم

 

قصۂ آدم میں ایک درخت کا ذکر آتا ہے جس کے قریب جانے سے خدا نے آدم اور ان کی بیوی کو منع کیا تھا۔  سورہ البقرہ میں ہے:

وقلنا یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ وکلا منھا رغدا حیت یشتی ولا تقربا ھذہ الشجرہ فتکو نامن الظالمین قازلھما الشیطان عنھا فاکانا

’’اور ہم نے کہا:  ’’اے آدم! تو اور تیری بیوی اس (جنت) میں رہو۔  اور اس سے با فراغت کھاؤ اور اس شجر کے پاس نہ جانا (اگر ایسا کرو گے) تو تم دونوں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔  سو شیطان نے ان دونوں کہ پھسلایا اور انہیں اس سے جس میں وہ تھے نکال دیا‘‘۔

اس درخت (شجرہ) سے کیا مراد ہے؟ مفسرین نے اس کے متعلق کئی طرح کی آراء کا اظہار کیا ہے۔  خواجہ احمد دین نے اس موقع پر بڑی اچھی بحث کی ہے۔  وہ لکھتے ہیں:

’’اور جب یہ ثابت ہوا کہ وہ جنت اصلی فطری حالت اور قلبی اطمینان ہی کا تھا تو کیا شجر ممنوعہ سے گیہوں، انجیریا انگور کی قسم کا کوئی درخت مراد لینا بھی صحیح ہو سکتا ہے۔  وہ شجرہ جس کے چکھنے سے حضرت آدم اور حوا علیھما السلام ظالم بن گئے اور ان میں دشمنی کا بیج لگ گیا اور ان کا ’’لباس التقویٰ‘‘ اتر گیا، کیا وہ کوئی ظاہری درخت ہو سکتا ہے؟

جس درخت کے چکھنے سے ان کے سوئٰت یعنی کمزوریاں اور عیب کھل گئے اور جوش میں آ گئے، وہ کسی ظاہری باغ کا درخت نہیں تھا۔ وہ اختلاف و فرقہ بندی کا شجرہ تھا۔ جو لوگ قرآن حکیم کے طرز بیان پر غور نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ظاہری درخت نہ تھا تو اس کو چکھنے اور کھانے کا لفظ کیوں آیا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جب فطرتِ سلیم والی حالت کو جنت کہا، تو کیا اس مناسبت سے مشاجرت والی چیز کو شجرہ نہیں کہنا چاہیے تھا؟ اور شجرہ کی مناسبت سے چکھنے اور کھانے کے الفاظ لانا بالکل مناسب تھا‘‘ (صفحہ 173)۔

گویا، خواجہ احمد دین کے نزدیک شجرہ اختلاف اور فرقہ بندی کے لیے بطور مجاز و تمثیل استعمال ہوا ہے۔

علامہ محمد اسد کے نزدیک ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ اُن حدود و قیود کی تمثیل ہے جو خدا نے انسان کی خواہشات اور اعمال پر قائم کی ہیں۔  جب انسان ان حدود کو توڑتا ہے تو اس سے اس کی خدا داد فطرت پر برا اثر پڑتا ہے:

"This symbolic tree is designated in the Bible as "the tree of life” and "the tree of knowledge of good and evil” (Genesis ii, 9) , while in the above Qur’anic account Satan speaks of it as "the tree of life eternal (al-khuld) ". Seeing that Adam and Eve did not achieve immortality despite their tasting the forbidden fruit, it is obvious that Satan’s suggestion was, as it always is, deceptive. On the other hand, the Qur’an tells us nothing about the real nature of that "tree” beyond pointing out that it was Satan who described it – falsely – as "the tree of immortality”:  and so we may assume that the forbidden tree is simply an allegory of the limits which the Creator has set to man’s desires and actions:  limits beyond which he may not go without offending against his own, God-willed nature. Man’s desire for immortality on earth implies a wishful denial of death and resurrection, and thus of the ultimate reality of what the Qur’an describes as "the hereafter” or "the life to come” (al-akhirah) . This desire is intimately connected with Satan’s insinuation that it is within man’s reach to become the master of "a kingdom that will never decay”:  in other words, to become "free” of all limitations and thus, in the last resort, of the very concept of God – the only concept which endows human life with real meaning and purpose”. (Note 106 on 20: 120)

چنانچہ علامہ محمد اسد کے نزدیک شجرِ ممنوعہ اخلاقی حدود کی تمثیل ہے جن کی پاسداری انسان کے لئے ضروری ہے۔

علامہ اقبال مادام بلوتسکی (Madam Balvatski)، جسے قدیم رمزیت و اشاریت پر غیر معمولی دسترس حاصل تھی، کی کتاب عقیدہ مخفیہ (Secret Doctrine) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’قدما کے نزدیک شجر راز کی وہ علامت تھا جسے علومِ خفیہ (occult sciences) کے لیے استعمال کیا جاتا تھا‘‘۔

اگر جنت سے مراد نوعِ انسان کی ابتدا ئی حالتِ فطرت ہے جس میں وہ جبلی تقاضوں کے تحت زندگی بسر کر رہی تھی، تو ’’شجر‘‘ جس کے کھانے سے انسان اس ’’جنت‘‘ سے باہر آ گیا وہ کیا ہونا چاہیے؟ یہ نہایت گہرا سوال ہے۔  اس سے ممکنہ طور پر کوئی ایسی چیز مراد ہونی چاہیے جس کے باعث انسان حالتِ جبلت سے اس حالت میں داخل ہوا جس کے لیے اوپر ہم نے ’’حالتِ امتحان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔  وہ کیا چیز ہے جو انسان کو اخلاقی طور پرمسؤل، ذمہ دار اور جواب دہ بناتی ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسان کب اخلاقی طور پر جواب دہ بنتا ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ جب اس میں نیکی اور بدی کا شعور ہو۔  اس ’’شجر‘‘ کی نوعیت کے بارے میں قرآن پاک کے مندرجہ ذیل بیان سے کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے:

’’جب آدم اور اس کی بیوی نے درخت کا ذائقہ چکھا تو ان پر ان کی شرم گاہیں ظاہر ہو گئیں اور وہ اپنے (بدن) پر جنت کے پتے چپٹانے لگے‘‘۔  (7: 22)

برہنہ ہونے کا احساس اور اس بات کا شعور کہ برہنہ ہونا اخلاقی اعتبار سے اچھا نہیں (جب آدم اور ان کی بیوی کو یہ احساس ہوا کہ وہ ننگے ہیں تو وہ پتوں سے خود کو ڈھانپنے لگے) سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس ’’شجر‘‘ کا تعلق نیکی اور بدی کے شعور سے ہے۔  چنانچہ، یہ مجازی کلام اور علامتی اظہار ہے، جس میں ’’شجر‘‘ نیکی اور بدی کے شعور کی تمثیل ہے۔  اس کی تائید بائبل سے بھی ہوتی ہے، جہاں اس شجر کو ’’نیکی اور بدی کے علم کا درخت‘‘ قرار دیا گیا ہے (کتاب پیدائش 2: 17)۔  مزید براں، شجر ممنوعہ کی یہ تشریح انسان کی تخلیق کے ارتقائی تصور کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔  انسان اپنے قریب ترین کی حیوانی سطح (حالت جبلت) سے رفتہ رفتہ مکمل انسانی سطح (حالتِ شعور) تک پہنچا۔

فلسفیانہ طور پر اسے خود شعوریت یا شعورِ ذات (self consciousness) کی حالت کہتے ہیں۔  اس کا خاصہ وہ محدود Free will (ارادہ و اختیار کی آزادی) ہے جو انسان کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے۔

لیکن چونکہ اکثر لوگ اس Free will کا صحیح استعمال نہیں کرتے، لہٰذا یہ عظیم نعمت ہونے کے باوجود ان کے لیے زحمت بن جا تی ہے۔  یہی وہ خود شعوریت یا Free will ہے جسے خدا نے ’’امانت‘‘ قرار دیا ہے اور جو اس نے صرف انسان کو عطا کی ہے۔  لیکن انسان اس کی ذمہ داری کو نظر انداز کر کے ظلوم اور جھول قرار پاتا ہے۔

’’شجرِ ممنوعہ‘‘ سے انسان کا کھانا ممکنہ طور پر اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ خدا نے انسان کے لیے یہ ممکن بنایا ہے کہ وہ اپنے آزاد ارادے اور اختیار (Free will) کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔  جب ہم کسی سے کہتے ہیں کہ وہ اس طرح عمل کرے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے برعکس بھی کر سکتا ہے۔

مزید براں، ارادہ و اختیار (Free will) کا اظہار حکم کی خلاف ورزی سے ہوتا ہے۔  انسان کسی حکم کی خلاف ورزی کے ذریعے ہی اس بات سے آگاہ ہوتا، یا آگاہ کرتا ہے کہ اسے Free will حاصل ہے۔  یہ آگاہی حکم کی اطاعت سے حاصل نہیں ہوتی۔

خدا کا انسان کو ’’شجر‘‘ کے قریب جانے سے منع کرنا۔  اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ جوں ہی انسان میں نیکی اور بدی کا شعور پیدا ہو گا، اس کی اخلاقی وجود کے اعتبار سے مشکلات کا آغاز ہو جائے گا۔  اسے مسلسل طور پر بدی کی تمام ترغیبات کو رد کرتے ہوئے نیکی کا انتخاب کرنا ہے۔  اور یہ چیز اکثر نہایت مشکل ہوتی ہے۔  لیکن، یہ ایک ایسی آزمائش اور امتحان ہے جس کا سامنا ہر ذی شعور انسان کو کرنا پڑتا ہے۔  انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب و کامران ہو۔  صرف اسی صورت میں وہ اپنے مقصدِ تخلیق – تکامل ذات کو حاصل کر سکتا ہے – نیکی اور بدی کے شعور کے ساتھ ان اخلاقی حدود کا شعور وابستہ ہے جن کی پاسداری ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کے نزدیک بھی جنت سے ’’حالتِ جنت‘‘ یا (Paradisial Condition) مراد ہے۔ اپنی کتاب Islamic Ideology میں وہ لکھتے ہیں:

"(Man’s) previous state was a paradisial condition in which he lived the life of nature, adapted by instinct to his environment from which he gained sustenance by his instinctive efforts.” (p.i)

وہ مزید لکھتے ہیں:

"Humanity starts with the emergence of free-will which may manifest itself as disobedience to God or nature or the laws of his being.” (p.ii)

خود شعوریت (self consciousness) کی حالت تک پہنچنے سے قبل انسان اپنی جبلت کے مطابق زندگی گزارتا تھا۔  چونکہ اس میں ابھی ارادہ اختیار (Free will) کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔  اس کے لیے اخلاقی اعتبار سے نہ کوئی چیز نیکی تھی اور نہ بدی۔  وہ اپنی جبلت کے مطابق عمل کرتا تھا۔  لہٰذا وہ خدا کی مکمل فرماں برداری میں تھا۔  پھر اپنے ارتقائی سفر کے ایک خاص نقطہ پر وہ مکمل خود شعوریت کا حامل وجود بن گیا۔  ایک ایسا وجود جو اب اپنے آزاد ارادہ و اختیار کی بنا پر باقی تمام مخلوق سے ممتاز ہو گیا۔  قصۂ آدم کی تمثیل اس حقیقت کو بہت عمدہ طریقے سے بیان کرتی ہے۔  خدا کا آدم کو یہ کہنا کہ ’’اس درخت کے پاس نہ جانا‘‘، یہ معنی رکھتا ہے کہ جسے یہ حکم دیا جا رہا ہے وہ اسے سمجھ سکتا ہے، اور یہ کہ وہ اگر چاہے تو اس کی خلاف ورزی بھی کر سکتا ہے۔  جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے Free will کا اظہار حکم کی خلاف ورزی سے ہوتا ہے۔  چنانچہ، ’’خدا کے حکم کی خلاف ورزی‘‘ در اصل علامتی طور پر اس بات کا اظہار ہے کہ انسان نے خود شعوریت کی حالت کو حاصل کر لیا ہے۔  اس میں یہ شعور پیدا ہو گیا ہے کہ وہ تمام اعمال جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں، یا ہو سکتے ہیں، اخلاقی اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے۔  کچھ چیزیں اخلاقی اعتبار سے خیر ہوتی ہیں اور کچھ شر۔  انسان کا روحانی ارتقاء شر کو اس کی تمام تر ترغیبات کے باوجود رد کرتے ہوئے خیر کو اختیار کرنے پر دارومدار رکھتا ہے۔  علامہ محمد اسد نے اس حوالے سے نہایت عمدہ نوٹ لکھا ہے۔  لکھتے ہیں:

…”the story of Adam and Eve is, in reality, an allegory of human destiny. In his earlier state of innocence man was unaware of the existence of evil and, therefore, of the ever-present necessity of making a choice between the many possibilities of action and behaviour:  in other words, he lived, like all other animals, in the light of his instincts alone. Inasmuch, however, as this innocence was only a condition of his existence and not a virtue, it gave to his life a static quality and thus precluded him from moral and intellectual development. The growth of his consciousness – symbolized by the wilful act of disobedience to God’s command – changed all this. It transformed him from a purely instinctive being into a full-fledged human entity as we know it – a human being capable of discerning between right and wrong and thus of choosing his way of life. In this deeper sense, the allegory of the Fall does not describe a retrogressive happening but, rather, a new stage of human development:  an opening of doors to moral considerations. By forbidding him to "approach this tree”, God made it possible for man to act wrongly – and, therefore, to act rightly as well:  and so man became endowed with that moral free will which distinguishes him from all other sentient beings”. (Note 16 on 7: 21)

 

آدم کی توبہ اور اس کی قبولیت

 

قرآن کا قصۂ آدم، انسان کے مقام مقصد اور فطرت کی عظیم تمثیل ہے۔  آدم کو جوں جوں یہ احساس ہوتا ہے کہ اس سے خدا کے حکم کی خلاف ورزی سرزد ہو گئی ہے تو وہ اس پر سخت ندامت کا اظہار کرتے ہوئے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے۔  خدا نہ صرف اسے معاف کر دیتا ہے بلکہ اسے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔

’’پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کر لی۔  بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (2: 37)

آدم کا توبہ کرنا اور خدا کا اس توبہ کو فوراً قبول کر لینا، قرآن کے قصۂ آدم کا ایک اہم پہلو ہے۔  قرآن پاک موروثی یا پیدائشی گناہ کے کسی تصور کو تسلیم نہیں کرتا۔  اس کے مطابق ہر انسان اخلاقی اعتبار سے بالکل معصوم پیدا ہوتا ہے (مثلاً دیکھیں 30: 30)۔  نیک یا بد وہ اپنے شعوری اعمال کی بنیاد پر بنتا ہے۔  ’’توبہ‘‘ کا تصور قرآن کے بنیادی تصورات میں سے ایک ہے۔  اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا نے انسان کے لیے واپسی کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔  خدا رحمان اور رحیم ہے۔  اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔  اگر انسان سے کوئی بھول چوک، یا گناہ، سرزد ہو جائے تو وہ مایوس نہ ہو۔  اس کے لیے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ وہ سچے دل سے خدا کی طرف لوٹ آئے اور ممکنہ حد تک اپنے کئے کی تلافی کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کا آغاز کرے۔

قرآن کے قصۂ آدم کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی کا ذمہ دار اکیلے مرد یا اکیلے عورت کو نہیں ٹھہراتا بلکہ قرار دیتا ہے کہ یہ خطا دونوں سے برابر طور پر سرزد ہوئی ہے۔  قرآن کہتا ہے:

’’پھر شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کے باعث پھسلادیا، اور انہیں وہاں سے جہاں وہ تھے نکلوا دیا‘‘۔ (2: 36)

لہٰذا، یہ خیال کہ عورت جنت سے اخراج کا باعث بنی تھی، قرآن کے مطابق درست نہیں۔

 

حضرت آدم اور بابا آدم

 

جیسا کہ ہم نے شروع میں ثابت کیا ہے، قرآن پاک کا قصۂ آدم کل نوعِ انسانی کی تمثیل ہے۔  یہ ماضی میں گزرا ہوا کسی ایک انسان کا واقعہ نہیں بلکہ ماضی، حال اور مستقبل پر محیط نسلِ انسانی کا تمثیلی بیان ہے۔  یہ انسان کی فطرت، کائنات میں اس کے مقام و مرتبہ اور اس کے مقصد و نصب العین کا ایک نہایت دلنشیں اور پر معنی تمثیل کی شکل میں اظہار و بیان (description) ہے۔  لہٰذا، اس تمثیل میں، جیسا کہ کئی بار پہلے بیان ہوا ہے، ’ آدم‘ کا لفظ کسی معین شخص کے لیے نہیں استعمال ہوا، بلکہ کل نوعِ انسانی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔  یعنی، یہ اسمِ جنس (generic name) طور پر استعمال ہوا ہے نہ کہ ذاتی نام کے طور پر۔  مثال کے طور پر تفسیر القرآن بالقرآن میں ہے:

’’لفظ آدم سے …نوعِ آدم مراد ہے …یہاں لفظ آدم اسمِ جنس ہے‘‘۔  (جلد سوئم، صفحہ 324)

قرآن پاک کی یہ آیت کہ ’’جو زمین میں فساد برپا کرے گا اور اس میں خون ریزی کرے گا‘‘، اس بات پر واضح دلالت کرتی ہے کہ قرآن کے قصۂ آدم میں ’آدم ‘سے مراد اللہ کے نبی حضرت آدم ؑ نہیں بلکہ کل نوعِ انسانی ہے۔  اسی طرح، قصۂ آدم کے ضمن میں سورہ طٰہٰ (20: 121) میں ہے:

وَعَصٓیٰ ادَمْ رَبہ فغویٰ

اگر اس کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ یہ ہو گا:  ’’اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی، پس وہ بے راہ ہو گیا‘‘۔  ظاہر ہے یہ بات اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔  مترجمین جن کے نزدیک یہاں آدم سے مراد حضرت آدمؑ ہی ہیں، آیت کے ترجمہ کو انبیاء کے شایانِ شان بنانے کی عمدہ کوششیں کی ہیں۔ تاہم قرآن کا متن ہمارے سامنے ہے جسے ہم نے اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے۔

علامہ اقبال اپنے خطبہ ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دعا‘‘ میں لفظ ’آدم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’یہاں اس کا اشارہ کسی مخصوص انسان کی طرف نہیں۔  اس کی حیثیت ایک تصور کی ہے‘‘۔ (صفحہ126)

اپنے اس نتیجۂ فکر کے حق میں وہ درج ذیل آیتِ قرآنی کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:

وَلقد خَلقنٰکم ثم صورنکم ثم قلنا لالملا ئکۃ اسجدوا لادم… (7: 11)

’’اور بے شک ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہاری صورت گری کی، پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو…‘‘

اس آیتِ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں:

’’دیکھیے یہاں نوعِ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے آدم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے‘‘۔  (فکرِ اقبال، صفحہ 653)

ڈاکٹر خلیفہ، فکر اقبال میں تشریح کرتے ہوئے، لکھتے ہیں:

’’قرآن کا زاویۂ نگاہ فقط معنوی ہے (نہ کہ تاریخی)، قرآن جس آدم کو پیش کرتا ہے وہ کوئی ایک فرد نہیں بلکہ انسانیت کا ایک تصور ہے۔  قرآن نے آدم کے لفظ کو انسانیت یا نوعِ انسانی کے معنوں میں استعمال کیا ہے‘‘۔ (فکرِ اقبال صفحہ 652)

علامہ محمد اسد نے بھی اپنے تفسیری نوٹس میں کئی بار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قصۂ آدم میں ’آدم‘ کا لفظ نسل انسانی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔  سوہ الاعراف (7: 11) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

…”the story of Adam and Eve is, in reality, an allegory of human destiny.” (Note 16 on 7: 21)

اگرچہ قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں، تاہم مسلمانوں میں یہ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ حضرت آدمؑ خدا کے نبی تھے۔ مسلم اہلِ فکر جو نامیاتی ارتقاء کے حق میں موجود زبردست دلائل سے آگاہ ہیں، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ روایات اور علمی حقائق کے باہمی تعلق پر ازسرِنو ناقدانہ نگاہ ڈالیں اور ان میں تطبیق کی کوئی ایسی راہ نکالیں جو علمی طور پر قابلِ قبول ہو۔ ارتقائی تخلیق کے تصور کے مطابق اس مسئلہ کے حل کی ایک صورت یہ ہے:  حضرت آدم ؑ ابتدائی انسانوں کی طرف خدا کے نبی تھے جو عام الٰہی قاعدے کے مطابق انھیں میں سے چنے گئے تھے۔  نوعِ انسانی ارتقاء کے مراحل طے کرتے کرتے جب اپنی مکمل انسانی حیثیت میں سامنے آ گئی تو نوعِ انسانی کے افراد میں سے خدا نے ایک ہستی کو نبی کے طور پر منتخب فرمایا۔  یہ حضرت آدمؑ تھے۔

سورہ آل عمران میں آدم کا لفظ جس سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے، اس کی تشریح ایک معین شخصیت کے طور پر کی جا سکتی ہے:

’’بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو جہانوں پر چن لیا۔  یہ ایک نسل ہے، بعض ان میں سے بعض کی اولاد ہیں اور اللہ سمیع (اور) علیم ہے‘‘۔  (3: 33)

ممکن ہے یہاں بھی لفظ ’آدم‘ انسان اور نوعِ انسانی کے معنوں میں آیا ہو، اور مطلب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کل مخلوق سے انسان کو چنا اور انسانوں میں سے نوح، آل ابراہیم اور آلِ عمران کو فضیلت عطا فرمائی۔

 

آدم کی تخلیق کہاں ہوئی؟

 

جدید سائنسی تحقیق سے پہلے آدم کی تخلیق کے متعلق طرح طرح کے خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔  کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آدم (اور ان کی بیوی) کی تخلیق خدا نے جنت میں کی تھی۔  بعض کی رائے میں تخلیق تو زمین پر ہی ہوئی تھی مگر پھر خدا ان کو جنت میں لے گیا۔ جیسا کہ ہم نے گزشتہ باب میں تفصیل سے وضاحت کی ہے، قرآن پاک نے کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ خدا نے انسان کو زمین پر بے جان مادے (مٹی، پانی، کیچڑ) سے شروع کرتے ہوئے (ایک ارتقائی عمل سے) تخلیق فرمایا ہے۔  مثال کے طور پر وہ کہتا ہے:

وبداخلق الانسان من طین

’’اور اس نے انسان کی تخلیق کا آغاز کیچڑ سے کیا‘‘ (32: 7)

انی خالق بشر من طین فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی۔۔۔

’’میں کیچڑ سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پس جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک چکوں …‘‘

اور اسی طرح،

لقد خلقنٰکم ثم صوّرنٰکم۔۔۔

’’بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت گری کی…‘‘

اس طرح، قرآنِ پاک نے کئی مقامات پر انسان کی مرحلہ وار تخلیق یا تدریجی تخلیق کا ذکر کیا ہے۔  چنانچہ، زمین پر ہی انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوئی، یہیں یہ ارتقاء کے مراحل طے کر کے مکمل انسان کی شکل و صورت، form، میں ظہور پذیر ہوا، اور پھر یہیں اس کا تہذیبی اور تمدّنی ارتقاء ہوا۔ یہ ہزاروں لاکھوں سالوں پر محیط داستان اسی زمین سے تعلق رکھتی ہے۔ عورت اور مرد اسی ارتقائی سلسلۂ عمل سے تخلیق ہوئے۔  قرآنِ مجید مختلف مقامات پر انسان کی تخلیق کا بطورِ مجموعی ذکر کرتا ہے، عورت یا مرد کی تخلیق کا نہیں۔ عورت اور مرد دونوں قرآن کی رو سے ایک ہی نوع اور قسم (kind) سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ انسان ہونے میں برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور کرامت کا معیار، قرآن کی رو سے، تقویٰ ہے۔

 

خلاصۂ بحث

قرآن کا قصۂ آدم ایک نہایت پُر معنی قصہ ہے، جو قرآن کے فلسفۂ انسانیت کو ایسے و سیع، جامع، اور بلیغ انداز میں بیان کرتا ہے، کہ علمی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کی معنویت نمایاں تر ہوتی جا رہی ہے۔ بہت سے داخلی دلائل سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ یہ قصہ کل نوعِ انسانی کی مجموعی تمثیل ہے، اس کا مطالعہ ہمیں قرآن کے نظریۂ انسانیت سے روشناس کرتا ہے۔

انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسے خدا نے ارادہ و اختیار کی طاقت عطا فرمائی ہے۔ اس معنی میں وہ زمین میں خدا کا خلیفہ یا نائب ہے۔ اس سے زمین میں انسان کی حیثیت واضح ہوتی ہے۔ وہ، گویا، ایک دائرے کے اندر، زمین کی دیگر مخلوقات اور وسائل کے لئے منتظم اور نگران کی ذمہ داری پر فائز ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو خدائی اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال میں لائے۔  صرف اسی صورت میں وہ اپنے مقصدِ تخلیق کو حاصل کر سکتا ہے۔

انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ارفع مقام کا حامل ہے۔ یہ با شعور ہے، اسے سوچنے سمجھنے، اور تعقل و تدبر کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ کائنات کی قوتیں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے سامنے مطیع اور سرنگوں ہیں۔

عورت اور مرد انسان ہونے میں برابر ہیں۔  ’’حالتِ جنت‘‘ سے انسان کا نکلنا اس کے لئے ضروری تھا، صرف اسی صورت میں اس کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ اپنی مضمر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر منزلِ تکامل حاصل کر سکے۔  ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ سے مرد اور عورت دونوں نے کھایا تھا، دونوں ابلیس کے بہلاوے میں آئے تھے۔ پھر، جب انھیں غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے خدا کی بارگاہ میں توبہ کی۔ خدا جو کہ رحمان اور رحیم ہے، نے ان کی توبہ قبول کر لی، اور انھیں اپنی رضا اور خوشنودی عطا فرمائی۔  ہر انسان حالتِ فطرت پر اور معصوم پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ چاہے تو خدا کا شکر گزار بندہ بنے اور چاہے تو ناشکری کی روش اپنا لے۔

انسان دنیا میں حالتِ امتحان میں ہے۔  شیطان ہر لمحے اسے انحراف کی راہوں کا مسافر بنانا چاہتا ہے۔  انسان جب بدی کو رد کر کے نیکی کو اختیار کرتا ہے تو اس کی ذات نشو و نما پاتی ہے۔ اس طرح، وہ بلند سے بلند تر مقام حاصل کرتا جاتا ہے۔ جن کا عزم صمیم اور نظر خدا پر ہو وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے۔

سورہ البقرہ میں قصۂ آدم کا اختتام جس طرح ہوتا ہے، وہ نہایت معنی خیز ہے:

’’ (اللہ فرماتا ہے) ہم نے حکم دیا:  اتر جاؤ اس سے سب کے سب۔ پھر اگر تمھارے پاس میری طرف سے (پیغامِ) ہدایت

آئے تو جنھوں نے میری ہدایت کی پیروی کی انھیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔ (2: 38)

 

 

 

اختتامیہ

 

انسان کی حقیقت، آخری تجزیئے میں، روحانی ہے۔  مگر اس سے اس کے جسمانی پہلو کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔  اللہ تعالیٰ کی تخلیقی اسکیم میں انسان کا جو منفرد مقام ہے اس کا تعلق اس کی پوری ہستی اور وجود سے ہے، جسے ذاتِ انسانی یا Human personality کہا جاتا ہے۔  انسان کی ظاہری شکل و صورت اور ساخت و بناوٹ ہو، ذہنی اور عقلی قوتیں ہوں، یا اس کی روحانی و باطنی کیفیات ہوں، سب اسے دنیا کے دوسرے تمام جانداروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ وہ مختلف، منفرد اور ممتاز ہے۔  قرآن کی سورہ التین کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بہترین ساخت پر کی ہے، لیکن وہ اپنے برے اعمال کے ذریعے خود کو انسانیت کے بلند مقام سے گرا لیتا ہے اور بعض اوقات وہ اتنا گرتا ہے کہ اس کی پستی کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔  لیکن جو لوگ خود کو نورِ ایمان سے منور کرتے، اور صالح اعمال سر انجام دیتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔  گویا، وہ چیز جو انسان کو اس کے بلند مقام پر رکھتی بلکہ اس کے لئے مزید بلندیوں کی راہیں استوار کرتی ہے، وہ ایمان اور اعمالِ صالحہ ہیں۔  ایمان سے مراد خدا پر پختہ یقین ہے جبکہ اعمالِ صالحہ وہ مثبت اور تعمیری سرگرمیاں ہیں جن کی بنیاد پر انسان معاشرے کا مفید اور کار آمد شہری بنتا ہے۔

قرآن کے مطابق خدا نے انسان کو اپنی کثیر مخلوق پر واضح فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے:

’’بے شک ہم نے بنی آدم کو بڑی عزت بخشی ہے، اور انھیں خشکی اور سمندر میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا، اور انھیں پاکیزہ

چیزوں سے رزق عطا کیا۔  اور ہم نے انھیں اپنی بہت سی مخلوق پر نمایاں فضیلت بخشی۔ (سورہ الاسرا، 17: 70)

انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اس فضیلت کا پاس اور لحاظ رکھے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان زمین پر خدا کا بندہ بن کر رہے۔  وہ معاشرے کا ایک مفید فرد بنے۔ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور مثبت طور پر بروئے کار لائے۔ اس کے اخلاقی اور سماجی رویے دوسروں کے لئے نفع بخشی اور فیض رسانی کے جذبے پر مبنی ہوں۔

’’ میں نے جن و انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔  میں ان سے رزق نہیں چاہتا، نہ ان سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔

بے شک اللہ ہی (سب کو) سامانِ نشو و نما دینے والا، قوت والا، زور والا ہی‘‘۔ (سورہ الذاریات، 51: 56-58)

یعنی، اللہ تعالیٰ کا انسان سے اپنی عبادت کا تقاضا، نعوذ باللہ، اپنی کسی کمی کی تکمیل کے لئے نہیں، وہ تو ہر احتیاج سے بلند و بالا ہستی ہے۔  بلکہ اس لئے ہے کہ انسان میں ارتقاء ہو اور وہ اپنے کمال اور نشو و نما یافتگی کی حالت کو حاصل کر سکے۔

مفسرین کے نزدیک یہاں عبادت سے مراد ’’معرفت‘‘ ہے۔  یعنی، خدا کی پہچان۔ انسان چونکہ ایک وجودِ شعوری (Intellectual, rational being) ہے، اس لئے اس کی نشو و نما اور تکامل (Perfection) معرفتِ ربّ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ یہ انسان کا خود کو بہ حیثیتِ انسان بڑا کرنے کا عمل ہے۔ جیسے جیسے انسان خدا کی معرفت حاصل کرتا جائے گا وہ بڑا ہوتا جائے گا، اس کی نشو و نما ہوتی جائے گی، یوں وہ درجۂ کمال کی طرف بڑھتا جائے گا۔

’’اے نفسِ مطمئن! واپس چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی۔

پس شامل ہو جا میرے (خاص) بندوں میں، اور داخل ہو جا میری جنت میں‘‘۔ (سورہ الفجر، (89: 27-30

’’بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہمیں اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘ (سورہ البقرہ، 2: 156)۔

 

 

 

 

حوالہ جات

 

اردو کتب

 

  1. علامہ اقبال، تشکیل جدیدِ الٰہیاتِ اسلامی، بزمِ اقبال، کلب روڈ لاہور۔ (1986)
  2. a. ڈاکٹر نعیم احمد، اقبال کا تصورِ بقائے دوام، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور (1989)
  3. i. ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، فکرِ اقبال، لاہور
  4. مولانا شبلی نعمانی، مقالات شبلی نعمانی، جلد ہفتم، مرتبہ سید سلیمان ندوی
  5. عبد الرحمٰن ابنِ خلدون المغربی، مقدمہ، (مترجم مولانا سعد حسن خان یوسفی) ، نور محمد کارخانہ تجارت کتب، آرام باغ، کراچی۔
  6. ابو الکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد اوّل اسلامی اکادمی اردو بازار، لاہور
  7. علامہ عنایت اللہ المشرقی، تذکرہ، جلد اول، ناظر: الحاج محمد سرفراز خان، متولی و منتظم علامہ ٹرسٹ
  8. خدا بخش کلیار ایڈووکیٹ، فلسفہ سائنس اور قرآن، الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار، لاہور۔
  9. خواجہ احمد دین، تفسیر بیان للناس، دوست ایسوسی ایٹس، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور، (1999)
  10. ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطباتِ بہاولپور، ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، پاکستان، (2005)
  11. ڈاکٹر اسرار احمد، ایجادو ابداع عالم، مرکزی انجمن خدام القرآن، 36کے، ماڈل ٹاؤن، لاہور (2005ء)
  12. علامہ محمود الوسی، تفسیر روح المعانی، زیر آیت 4: 1 بحوالہ ابنِ بابویہ (م 991ء) ، مکتبۂ امدادیہ، ملتان،
  13. محی الدین ابن عربی، فتوحات المکیہ، جلد سوم صفحہ 607)
  14. مولانا عبد الرشید نعمانی، لغات القرآن، دار الاشاعت، کراچی، (1994)
  15. قاضی ثناء اللہ پانی پتی، تفسیرِ مظہری، (اردو ترجمہ سید عبد الدائم جلالی، دار الاشاعت، کراچی، (1999)
  16. علامہ فخر الدین رازی، تفسیرِ کبیر، دار احیا التراث العربی، بیروت، (1995)
  17. ابنِ جریر طبری، جامع البیان، دار ابنِ حزم، بیروت، (2002)
  18. ابنِ کثیر، تفسیرِ ابنِ کثہر
  19. علامہ راغب اصفہانی، مفردات القرآن، (اردو ترجمہ) ، شیخ شمس الحق، لاہور، (1987)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل