FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عید میلاد النبی

 

 

 

               صادق رضا مصباحی

 

 

 

عید میلاد النبی:آئیے ہم سب مل کر غور کریں

 

 

موجودہ دور بڑا عجیب دور ہے تقریباً ہر قوم نے اپنے مذہب کو محض رسوم و روایات کا مجموعہ سمجھ لیا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو مذہب کی روح سے قریب ہیں اور مذہب کی روشنی ہی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی دینِ اسلام کو روایتی اور رواجی دین سمجھ لیا ہے مسلمانوں کے متعدد تیوہار اور خوشی کے مواقع ہیں جو انہیں اپنے نفس کی پاکیزگی، جذبۂ قربانی، کردار و عمل کی شفافی، دوسروں کے ساتھ ہمدردی نیز اللہ ورسول کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم انہیں خرافات کی نذرکر دیتے ہیں اور ان سب مواقع پر وہی کرتے ہیں جن سے ہمارا نفس خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں میں سے ایک ہے جو اپنی حقیقی معنویت کھوتا جا رہا ہے۔ ہر مسلمان واقف ہے کہ عیدِ میلاد النبی کیوں منایا جاتا ہے مگر صد حیف اس موقع پر لایعنی کاموں، فضول خرچیوں اور خرافاتوں کا اس قدر اہتمام ہوتا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ میلاد النبی کا جشن ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری بلا شبہ رحمت تھی اور بلا تفریق مذہب و ملت انہوں نے ہر شخص کو فیض پہنچایا تو ہونا یہ چاہیے کہ ہم اس خوشی کے موقع پر دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدے پہنچائیں، غریبوں کا خیال رکھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں غریب بچیوں کی شادی کا انتظام کریں اورآپسی نفرت و اختلاف ختم کر کے اتحاد و اتفاق کی دعوت دیں مگر ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہے الا ماشاء اللہ۔ ان سے محبت و عشق کا تقاضا تو یہ ہے کہ جن کاموں کا انہوں نے حکم دیا ہم اس کو اپنے عمل سے جوڑیں۔ یہ کیسا عشق ہے اور کیسی محبت ہے کہ ایک طرف تو ان کے فرمودات کی صریح خلاف ورزی کی جاتی ہے اور پھر بھی عشقِ نبوی کے دعوے بلند کیے جاتے ہیں۔ ہم قدم قدم پر ببانگ دہل عشقِ مصطفی کا نعرہ لگاتے ہیں اوراس عشق کی توہین کرنے والوں کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیتے ہیں مگر پیارے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کہ جن سے معاشرے میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے، ذہن و دماغ کو بالیدگی ملتی ہے اور سوسائٹی میں انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں، کو جزوی یا کلی طور پر بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ گھروں میں چراغاں کر کے، ذکرِ ولادت منعقد کر کے، خوشیاں منا کراورجلوس نکال کر ہم اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ عیدِ میلاد النبی کے مطالبات پورے ہو گئے اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں پر عمل ہو گیا مگر کوئی ہمیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کیا ایساکر کے اس عظیم الشان جشن کا حق ادا ہو گیا ؟ کیا اسلام صرف رواجی اوررسمی دین ہے ؟نعوذ باللہ ہمارا مدعا یہ نہیں ہے کہ آپ میلاد نہ منائیں، چراغاں نہ کریں اور خوشیوں کا اظہار نہ کریں۔ آپ یہ سب ضرور کیجیے کہ بلاشبہ اس موقع پر مختلف اندازسے خوشیاں کا عملی اظہار ہماری دینی وراثت کا حصہ ہے جس سے ہم کسی بھی قیمت پردست بردار نہیں ہوسکتے مگر ان کے ساتھ ساتھ ان کو بھی بروئے کار لائیے کہ جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو سختی سے تلقین فرماتے رہے اور جن سے دینِ اسلام کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔

عید میلاد النبی دراصل اسی عہد کو دوہرانے کا دن ہے جوسرکارِدوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں سے لیا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا جشن ہر سال منانے کا حقیقی مطلب یہی ہے کہ ان کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ کر کے ان پر عمل کرنے کا تہیہ کیا جائے، جو لوگ سیرتِ نبوی کو عملی طور پر فراموش کر چکے ہیں وہ اس روز سیرتِ نبوی کو اپنے عمل سے ہم آہنگ کرنے کا عہد کر لیں اور اسی کے مطابق اپنی اگلی زندگی کا لائحہ عمل طے کریں، جو لوگ سیرتِ رسول سے قریب ہیں وہ اور قریب ہو جائیں اور معاشرے میں سیرتِ طیبہ کے مظاہر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس دن بعض مسلمان جلوسِ محمدی میں ڈھول باجے کا اہتمام کرتے ہیں، خواتین اور لڑکیاں بے پردگی کے ساتھ جلوس دیکھنے نکلتی ہیں، پٹاخے چھوڑتے ہیں، شور و غل کرتے ہیں، موسیقی والی نعتیں دھوم دھام سے سنی سنائی جاتی ہیں اور ان نعتوں کی دھن پر نوجوان لڑکے رقص کرتے ہیں۔ یہ چیزیں شریعت اسلامیہ میں بالکل نا جائز ہیں دین کا ان سے کوئی تعلق نہیں مگر دین کے نام پر انہیں فرو غ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب گناہ کے کام ہیں ہرمسلمان کی ذمے داری ہے کہ وہ ان خرافات سے خود بھی بچے اوردوسروں کو بھی بچنے کی تلقین کرے۔ خصوصاً ائمہ مساجداپنے اپنے مصلیوں کو ان سے بچنے کی سختی سے ہدایت کریں۔

سیکڑوں طوفان ہیں جو امتِ مسلمہ کو نگلنے کے لیے کھڑے ہیں ہزاروں قیامتیں ہیں جو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔ جگہ جگہ ہماری پسماندگی کے چرچے عام ہیں مگر ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہم اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرہ دوسروں کے سر پھوڑتے ہیں اور صرف شکوے شکایات کر کے ہی اپنی ناکامیوں پر ماتم کرتے ہیں۔ اکثر مسلمانوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہم کیسے آگے بڑھیں مگر یہی لوگ جلوسِ محمدی میں ڈھول باجے اور ڈی جے جیسے دوسرے فضول اور غیر شرعی چیزوں میں لاکھوں روپے صرف کر دیتے ہیں اور انہیں ذرا بھی ملال نہیں ہوتا۔ ان کے پڑوس کی غریب بچیوں کے پھول جیسے چہرے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے انتظار میں مرجھا جاتے ہیں لیکن ان کے ماتھے پر شکن بھی نمودار نہیں ہوتی۔ خدارا ہوش میں آئیے دین کی آڑ میں آپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے کنارہ کش ہو جائیے۔

آج عصری تناظر میں عید میلاد النبی کو با مقصد بنانے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس کے مقاصد کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر صرف جلوس نکال لینا اور چراغاں کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اس موقع پرایسے تعمیری اور ترقیاتی کاموں پربھی توجہ دینا ہو گی کہ جن سے مسلمانوں کی پسماندگی دورہوسکے۔ جلوس کو غیر شرعی کاموں سے پاک کرنا اور اس جلوس کو با مقصد بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی غلط فہمی راہ نہ پا سکے۔ ہم نے بعض علاقوں میں دیکھا ہے کہ جلوسِ محمدی کے موقع پر بعض لوگ جلوس کے آگے آگے عربی لباس زیب تن کر کے گھوڑوں پر تلوار لے کر چلتے ہیں۔ ہماری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ اس کا مقصد کیا ہے اوراس سے دنیا کو کیا پیغام دیا جاتا ہے؟یہ رواج کبھی کسی زمانے میں تھا مگر آج بالکل زیب نہیں دیتا اس سے برادرانِ وطن میں یہ غلط فہمی پھیلتی ہے کہ اسلام تلوار کی زور سے پھیلا اوراسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے تعلق سے جو جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں ان میں غیر ارادی طورپرمسلمان بھی ملوث ہیں اور انہیں مواد بھی مسلمان ہی فراہم کر رہے ہیں۔ یہ روایت بالکل ختم ہونی چاہیے اس وقت سوائے نقصان کے اس کا اور کچھ بھی فائدہ نہیں۔ اسی طرح جلوس میں بزرگانِ دین کے مزارات، مقاماتِ مقدسہ اور تاریخی مساجد وغیرہ کی جھانکیاں بھی بنائی جاتی ہیں جس پرمجموعی طور پر ہزاروں، لاکھوں نہیں کروڑوں کا صرفہ ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس پر بالکل پابندی لگا دی جائے مگر مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ اس کی بھی حد بندی کر دی جائے۔ آخراس کا مصرف کیا ہے اور اتنا زرِ کثیر صرف کر کے آخر اس سے کیا فوائد حاصل کیے جا رہے ہیں ؟ اس کا جواب جھانکیاں بنانے والے بھی نہیں دے سکتے۔ بس ایک رواج ہے جس پر عمل کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے اور اپنی عقیدت کی تسکین کر لی جاتی ہے مگر حد یہ ہے کہ اس کو مذہب اور اسلا م سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

اس مبارک موقع پر انفرادی یا اجتماعی طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر مشتمل کتابچے اردو، ہندی، مراٹھی، انگلش اور دیگر زبانوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں تک پہنچائے جائیں۔ دراصل عید میلاد النبی کا سب سے اہم تقاضا تو یہی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو عام سے عام تر کیا جائے، غریبوں کے لیے علاج کا اہتمام کیا جائے، اسپتالوں میں جا کر مریضوں کو پھل اور دودھ وغیرہ تقسیم کیے جائیں، نادار مگر شوقین بچوں کی ایک یا دویا پانچ سال کی فیس کا انتظام کیا جائے، غیر مسلم قائدین و مذہبی شخصیات کے ساتھ امن اورشانتی کے موضوعات پر مذاکرات منعقد ہوں۔ اس سے یقیناً ایک اچھا پیغام جائے گا اور اسلام ومسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا۔ ہر مسلمان اپنے اپنے طور پر اپنے کسی غیر مسلم دوست کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور ان کے فرمودات سے آگاہ کرے۔ ہم اپنی نبوی کردارسے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا دیں، تعلیم عام کر کے جہالت کی ظلمتیں بھگا دیں اور انصاف و دیانت کے تقاضے پورے کر کے نا انصافیاں و خرابیاں ختم کرنے کی کوشش کریں۔ جب تک ان باتوں پر عمل نہیں کیا جائے گا عید میلاد النبی کا قرض ہم پر ہمیشہ باقی رہے گا۔ کرنے کے کام یہی تو ہیں کہ انہیں کاموں کے لیے سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد ہوئی۔ اسلام کا صحیح تصور یہی ہے اور اسی پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔ اگر مذکورہ خرافات پر عمل کیا جاتا رہا تو نہ صرف ہم گناہِ عظیم کے مرتکب ہوں گے بلکہ اسلام کی بنیادوں کو خود ہی منہدم کریں گے۔ صرف کلمہ پڑھ لینا، داڑھی رکھ لینا، اسلامی لباس پہن لینا، اسلام کی باتیں کر لینا اور نماز پڑھ لینا اسلام نہیں ہے بلکہ دل سے حقیقی تعلیمات پر ایمان لانا اور ان پر عمل کرنے کا نام اسلام ہے اوراسی سے اسلام کو تقویت پہنچتی ہے اور مسلمان صحیح مسلمان بنتا ہے۔ دیکھیے ڈاکٹر اقبال نے کتنی اچھی بات کہی ہے۔

خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل

دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

عید میلادالنبی: یہ موقع تعلیمات نبوی کو عام کرنے کاہے

 

 

ربیع الاول کا مہینہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے مسرتوں کی نوید لے کر آتا ہے۔ مسلمان ا س مہینے کی بارہ تاریخ کو چراغاں کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کرتے ہیں۔ بلا شبہ اپنے محسنین کو یاد رکھنا اپنے ضمیر کی زندگی کا ثبوت فراہم کرنا ہے اور یہ ثبوت مسلمان صدیوں سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ مسلمان بارہ ربیع النور کے موقع پر مختلف اندازسے خوشیاں منا کر اللہ اوراس کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو راضی ضرور کر لیتے ہیں۔ عشق رسول بلا شبہ اللہ عزوجل کی بڑی عظیم نعمت ہے اس کے بغیر عقبیٰ تو دور اپنی دنیا بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں سنواری سجائی جا سکتی۔

اسے المیہ کہیے یا امت مسلمہ کی بدقسمتی کہ اب کوئی بھی اسلامی روایت یا تیوہار ایسی باقی نہیں رہ گیا ہے جس میں نفسانیت، انانیت، خود غرضی، اسراف، ممنوع چیزوں کا ارتکاب وغیرہ کی شعور ی یا لا شعوری طور پر آمیزش نہ ہو گئی ہو۔ عید میلاد النبی کے موقع پربھی مسلمان بہت سارے کام ایسے کر دیتے ہیں جنہیں کسی بھی طرح مستحسن نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں شعور اور لا شعور دونوں کا دخل ہے۔ اگر بات یہاں تک ہوتی تب بھی ٹھیک تھا مگر معاملہ اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہماری ان ممنوع حرکتوں کی وجہ سے مسلمان اوراسلام بدنام ہو رہا ہے۔ ان کی یہ حرکتیں نہ اسلام کے حق میں جاتی ہیں اور نہ کسی مہذب سماج کے بلکہ ان سے توشریعت کا بھی مذاق بنتا ہے۔ آئیے جائزہ لیں کہ ہم کہاں کہاں غلطی کر رہے ہیں۔

عید میلاد النبی کے موقع پر پوری دنیا میں مسلمان اپنی اپنی روایت اوراندازسے جلوس نکالتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہندوستا ن میں بھی مسلمانوں کا شاید و باید ہی کوئی چھوٹایابڑاشہرایساہو جہاں جلوس عید میلاد النبی نہ نکالا جاتا ہو۔ یہاں کے مسلمان اپنی تہذیب اور مبلغ فکر کے حساب سے جلوس عید میلاد النبی کا انعقاد کرتے ہیں اور حتی المقدور پیام سیرت عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بہت سارے عمل ایسے بھی کر لیے جاتے ہیں جنہیں شریعت مذموم قرار دیتی ہے مثلاً آتش بازی، پٹاخہ بازی وغیرہ۔ بلا شبہ اسلام کا ایسی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس موقع پرنہ ا س کی ضرورت ہے اور نہ یہ خوشی کے اظہار کا کوئی انداز ہے۔ اس میں سراسرپیسے کا ضیاع ہے، ماحولیاتی آلودگی بھی پھیلتی ہے جس سے کئی طرح کے نقصانات پیدا ہوتے ہیں اوربسا اوقات اس سے جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ ممبئی سمیت دیگر بڑے شہروں میں دیکھا گیا ہے کہ جلوس کے دوران میوزک والی نعتوں پر نوجوان رقص کرتے ہیں۔ یہ نہایت قبیح حرکت ہے۔ اسلام ہرگزاس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ بڑی بے حیائی اور بے شرمی کی بات ہے۔ اس سے نعت کاتقدس تو مجروح ہوتا ہی ہے جلوس کی حرمت بھی پامال ہوتی ہے۔ یقین جانیے یہ حرکت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دل آزاری کاسبب بنتی ہے اس لیے اس سے فوراً باز آ جانا چاہیے۔

یہ جلوس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں نکالا جاتا ہے اس کامقصدسیرت نبوی اور تعلیمات نبوی کو عام کرنا ہوتا ہے۔ ا س لیے ا س اہم موقع پرجلوس نکالنے کے ساتھ ساتھ ایسے کام بھی کیے جانا چاہیے کہ جس سے دنیا والوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں، انہیں ایک اچھا پیغام مل سکے اور وہ اسلام اورمسلمانوں سے قریب ہوسکیں۔ ہرسال میلاد النبی کا جشن آتا ہے اور ہم ہرسال بس رسم کے طورپرجلوس نکال لیتے ہیں مگر اس کے جو عظیم ترین مقاصد ہیں ا س سے دنیا والے غافل ہی رہتے ہیں۔ جلوس اور چراغاں دیکھ کر انہیں بس اتنا معلوم ہو جاتا ہے کہ آج کے دن مسلمانوں کے پیغمبر پیدا ہوئے تھے۔ ا س کے سوانہ انہیں نبی کی سیرت سے آشنائی ہوپاتی ہے اور نہ وہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی اچھامیسیج (MESSAGE)وصول کر پاتے ہیں۔ یقین کیجیے جب تک اس نوعیت کے کام نہ کیے جائیں گے اس وقت تک عید میلاد النبی کا صحیح حق ادا نہیں ہو گا، نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تئیں ہماری محبت اور ان کی آمد پر ہماری خوشیاں ادھوری ہی رہیں گی اور عید میلاد منانے کے وہ نتائج حاصل نہ ہوں گے جو ہونا چاہیے۔

دراصل یہ موقع تعلیمات نبوی کو عام کرنے کا ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو مقصد لے کرا س عالم میں جلوہ گر ہوئے اگر ہم اس کو عملی جامہ پہنائیں تو یقیناً یہ ایک بہت بڑا کام ہو گا۔ یہ ملت کے لیے بھی نفع بخش ہو گا اور پورے معاشرے کے لیے بھی مثلاً بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے، غریبوں کو کپڑے پہنائے جائیں، مریضوں کی عیادت کی جائے، غریب مریضوں کی امداد کی جائے ان کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے جائیں، یتیم وبے سہارابچوں کے سروں پردست شفقت پھیرا جائے اور ان کی کفالت کا انتظام کیا جائے۔ غریب اور بے سہارابچیوں کی شادی کا انتظام کیا جائے۔ اتحاد و اتفاق کی دعوت دی جائے۔ اسپتال اسپتال جا کر مریضوں کی عیادت کر کے انہیں پھل تقسیم کیے جائیں۔ ان سارے کاموں میں مسلم اورغیرمسلم کی کوئی تخصیص نہ رکھی جائے کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں وہ پوری دنیا کے لوگوں کے لیے رحمت بن کر آئے ہیں لہٰذا ہم اس میں صرف مسلمانوں کو شامل نہیں کرسکتے۔ جو لوگ اسلام سے دور ہیں یا جن لوگوں کے دلوں میں اسلام سے نفرت بیٹھی ہوئی ہے ان کے لیے الگ سے پروگرام کیے جائیں اور انہیں اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔ یقیناً اس کے نتائج خیز اثرات برآمد ہوں گے۔ اپنے غیرمسلم دوستوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے انہیں اسلامی تعلیمات پر مبنی چھوٹی چھوٹی کتابیں تحفتاً پیش کی جائیں۔ اس خاص موقع پر ایک اہم کام یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ حضور کے نام پر غریب اور پڑھنے کے شوقین بچوں یا ذہین بچوں کی فیس کا انتظام کیا جائے اورحسب استطاعت چھ مہینے، ایک سال یادوسال یامزیدسالوں کے لیے ان کی تعلیم کا ذمہ لیا جائے۔ آپ یقین کیجیے ا س سے جو فوائد حاصل ہوں گے وہ صدیو ں پر محیط ہوں گے۔

ہمارے ملک کے بعض شہروں میں جلوس عید میلاد النبی کے دوران بعض حضرات گھوڑو ں پر عربی لباس زیب تن کر کے اور ہاتھوں میں تلوار بلند کیے ہوئے بیٹھتے ہیں۔ ہماری آج تک یہ سمجھ میں نہ آسکاکہ آخراس کا مقصد کیا ہے ؟آپ کو شاید اندازہ نہ ہو کہ ہمارے ا س عمل سے اسلام کے متعلق اس غلط فہمی کو تقویت ملتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ اس طرح کی رسم صدیوں پہلے انجام دی جاتی تھی مگر چوں کہ ہم میں سے اکثریت کے ذہن و دماغ کے سوتے خشک ہو چکے ہیں ا س لیے ہمیں کوئی نئی بات سوجھتی ہی نہیں۔ بس روایت پر اندھا دھند چل پڑنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ افسوس توا س بات ہے کہ ان علاقوں کے ذمے دار علما اور قائدین ان کی صحیح رہنمائی بھی نہیں کرتے۔ بے چارہ عوام اپنے علما کے پیچھے چلتے ہیں جب انہیں صحیح رہنمائی نہیں کی جائے گی تو ظاہر ہے وہ وہی کام کریں گے جو پچھلے زمانے سے چلتا آ رہا ہے۔ ان کو کیا معلوم کہ زمانے کے تقاضے کیا ہیں اوراسلام کے تعارف کے نئے نئے طریقے کیاہوسکتے ہیں۔ گھوڑوں پر تلوار لے کر بیٹھنا اور وہ بھی عید میلاد کے اس اہم موقع پر اسلام کے تعارف کاکسی بھی طرح اچھا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ ا س لیے کوشش یہ کی جائے دنیاکواسلام سے قریب کرنے کے لیے زمانے کی نفسیات کے اعتبارسے نئے نئے طریقے وضع کیے جائیں۔

عید میلاد النبی کے ا س مبارک موقع پرحسب استطاعت انفرادی یا اجتماعی طور پر ہر وہ کام کیا جانا چاہیے جوراست طورپراسلا م کے حق میں جاتا ہو۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھی جانی چاہیے کہ صرف مسلمان ہو جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ لوگوں کواسلام کی طرف بلانا بھی ضروری ہے۔ یہ بلانا چاہے با الواسطہ ہویابلاواسطہ۔ اچھے اعمال سب سے بڑی اور سب سے مؤثر تبلیغ ہے۔ ا س کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہزاروں تقریروں اور ہزاروں تحریروں سے بھی نہیں ہوتے۔ ہم سال بھر تو اپنی اپنی خانگی اور معاشی ذمے داریوں میں الجھے رہتے ہیں سال میں کم از کم ایک دن توایسانکالیں کہ بہکے ہوئے لوگوں کواسلام کے متعلق بتاسکیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ بارہ ربیع الاول کا دن ہم ا سی کے لیے خاص کر دیں اور یہ عہد کر لیں کہ آج کے دن کم از کم ایک غیرمسلم کواسلام کی تعلیمات سے ضرور آشنا کرائیں گے اوراسلام کے متعلق ا س کی غلط فہمی دور کریں گے۔

یہ ہماری کم نصیبی ہے عام طور پر ہم لوگوں میں سیرت کے حوالے سے ہماری معلومات واجبی سی ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اہم اور ضروری معلومات سے بھی ہم میں سے اکثر لوگ نا واقف ہیں۔ حالانکہ مطالعۂ سیرت ہر دور کی سب سے بڑی ضرورت رہی ہے اور آج کے حالات کے تناظر میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اس لیے سیرت کے مطا لعے کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ عید میلاد کے موقع پر بچوں کے درمیان سیرت نبوی کے انعامی مسابقے منعقد کیے جائیں، لوگوں کوسیرت نبوی کے مطالعے پر ابھارا جائے اور اس موضوع پر اچھی اچھی کتابیں مختلف زبانو ں میں مفت تقسیم کی جائیں۔ ہمیں یہ اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ جلوس عید میلاد النبی اس ذات گرامی سے منسوب ہے جو دنیا کا سب سے عظیم انسان ہے ا س لیے خدارا ایسی کوئی بھی حرکت نہ کی جائے جوان کی تعلیمات و ارشادات کے منافی ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

عید میلاد النبی:کچھ باتیں ذمے داروں سے

 

 

تعظیم اور اتباع دو مختلف لفظ ہیں اور ددنوں کی معنیاتی سرحدیں بھی الگ الگ ہیں۔ اسلام کے ماننے والوں کو دونوں کا حکم ہے۔ اسلام کی کلیت پراسی وقت بھرپور عمل ہوسکے گا جب اپنے مقتد اور رہنما کی تعظیم بھی بجا لائی جائے اوراس کے ارشادات و فرمودات کو اتباع و عمل کے رشتے سے ہم کنار کیا جائے بصورت دیگر کوئی بھی مسلمان مکمل طورپراسلام کا نام لیوا نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مگر عصری ماحول کے جبر اور دین کے حوالے سے بے اطمینانی نے مسلمانوں کے ذہنوں میں دین و مذہب کا معنی گڈمڈ کر دیے۔ یہ صورت حال دین کے کسی ایک پہلوسے متعلق نہیں ہے بلکہ دین کی پوری کلیت ا س کی زد میں ہے۔ یہ مسلمانوں کی بدنصیبی ہی توہے کہ دین کے احکامات و ہدایات کورسوم و رواج کا مجموعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ جس دن نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ آرائے کائنات ہوئے۔ یہ معظم، مقدس، متبرک، تاریخی اور تاریخ سازدن بھی مجموعۂ رسم و رواج بن کر رہ گیا ہے۔ ہم مسلمانوں کوا س عظیم دن سے نہ کچھ سیکھنے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ سکھانے کی۔ ظاہر ہے کہ انسان جب تک خود کوئی چیز نہ سیکھے تو وہ دوسروں کو کیوں کرسکھانے کا فریضہ انجام دے سکتا ہے؟

ایک بڑی غلط فہمی جو ذہنوں میں پرورش پاچکی ہے بلکہ ا س کے مظاہر اندرون سے بیرون تک منتقل بھی ہو چکے ہیں وہ علاقائی رسوم و روایات کو دین سے منسوب کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ رواج کسی بھی طرح کے ہوں اگر وہ دین کے احکام کے مطابق نہیں ہیں تو دین سے ان کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ انہیں اپنانے کی کسی بھی صور ت میں اجازت نہیں دی جا سکتی لیکن اگر وہ احکام شرعیہ سے متصادم نہیں ہیں تواس کی اجازت دی جا سکتی ہے مگر وہ دین کا حصہ نہیں کہلاسکتے۔ جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض چیزیں ایسی در آئی ہیں جو علاقائی رسم و رواج کا حصہ ہیں۔ اسلام میں نہ ان کی شرعی حیثیت ہے اور نہ اسلاف سے ان کا کوئی ثبوت مگر چوں کہ ہمیں اس مبارک موقع پر ہر طرح کی جائز و مباح خوشی منانے اوردوسروں کواس کی ترغیب دینے کا حکم ہے۔ ا س لیے اس کی صرف اتنی ہی مقدار کی اجازت ہو گی کہ دین کا کوئی بھی حکم ا س سے متصادم نہ ہوتا ہو۔ اگرایساہے تواسے اپنانا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہو گا چہ جائیکہ اسے رسولِ گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر اپنایا جائے۔ انصاف سے بتائیے کہ ہماراجلوس کیاواقعتاًایساہے کہ اسے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا جائے؟یہ جلوس بدعات و خرافات، ہلڑ بازی اورموسیقی والی نعتوں پر رقص وسرود اور ڈی جے کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کے انداز سے ایساظاہرہوتا ہے کہ مسلمان گویاجلوس کے دن زیادہ سے زیادہ شرکت کر کے اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہوں۔ ہم لاکھ چیخیں، تحریریں لکھیں، تقریریں کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبر امن تھے، سفیرمحبت تھے، انسانیت و روا داری کے داعی تھے اورسارے عالم کے لیے رحمت تھے مگر ہمارے عمل اوراندازسے اس کی تکذیب ہی ہوتی ہے۔ بلا شبہ مسلمان اپنے نبی کی تعظیم تو ضرور بجا لاتے ہیں مگر اطاعت نہیں کرتے تو جب تک اطاعت نہیں ہو گی تو تعظیم حقیقتاً تعظیم نہ ہو گی بلکہ یہ غیر شعوری طور پر توہین کا اشاریہ بن جائے گی۔

عید میلاد النبی کے جلوس سے اگر ہمارے اندرتقدس و احترام کا جذبہ نہ جاگے توایساجلوس، جلوس عید میلاد النبی کیوں کرہوسکتا ہے اور کیوں اسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت سے منسوب کیا جا سکتا ہے؟اگرجلوس میں وہی سب کچھ روا رکھا جائے جو غیروں کے یہاں ہوتا ہے یامسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ و خوشی کے مواقع پر ہوتا ہے تو پھر ان دونوں کے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟ہم ڈی جے بجاتے ہیں، موسیقی والی نعتیں سنتے ہیں اورلائوڈاسپیکرکی آواز اتنی تیز کر دیتے ہیں کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ اس سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے مریضوں اور بوڑھوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ کسی کوکسی بھی طرح کی تکلیف دینا تو ہر وقت منع ہے مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک موقع پر خاص طور پر کوشش کی جائے کہ ہمارے حرکت سے کسی کو چھوٹی سی بھی تکلیف نہ ہو۔ ان ساری چیزوں کو دیکھ کر کیا ہمارایہ جلوس اسلامی جلوس معلوم ہوتا ہے۔ ؟اگراس مبارک دن پر یہ جلوس نہ نکالا جائے تو لگے گا کہ یہ کسی دنیا دار قائد کا جلوس ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کا نہیں۔

بعض ہمارے نوجوان بھائی اس موقع پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جواسلامی احکام کے بھی خلاف ہیں اور ہمارے ملک کے قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ حالانکہ ہمیں جہاں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں اپنے وطن اور اپنے ملک کے قوانین کا تحفظ بھی ہماری ذمے داری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں جلوس کے موقع پر ٹریفک کا بہت بڑامسئلہ پیدا ہو جاتا ہے جس سڑک سے جلوس گزرتا ہے وہاں ٹریفک کی لمبی قطار لگ جاتی ہے اورسڑک پر آنے جانے والوں کو پریشانی کاسامناکرناپڑتا ہے۔ جلوس عید میلاد النبی کے یہ شایان شان نہیں کہ ا س کی وجہ سے کسی کو کچھ تکلیف ہو۔ ایک بات یہ دیکھی گئی ہے کہ موسیقی والی نعتیں سن کر اور ڈی جے کے زور پر ہمارے نوجوان بھائی رقص کرتے ہیں، بدتمیزیاں کرتے ہیں اور خلافِ شرع امور انجام دیتے ہیں۔ جلوس عید میلاد النبی میں ان خرافات و بدعات کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ اس ضمن میں شہر اور محلوں کی انجمنوں، تنظیموں اور اداروں کے ذمے داران جو جھانکیوں کا اہتمام کرتے ہیں، اس طرح کی حرکتیں کرنے والے نوجوانوں کو سمجھائیں اورجلوس کے تقدس و احترام کی نصیحت کریں بصورت دیگر انہیں جلوس سے الگ کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہ کریں کیوں کہ ان کے اس طرز عمل سے اسلام کے متعلق غیروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور غلاظت اسلام کے پاکیزہ چہرے پر آتی ہے۔ اس لیے خدارا ا س اندازسے قطعاً پرہیز کیا جائے۔

علمائے کرام انہیں سمجھاتے ہیں اور ائمہ مساجدجمعے کے خطبوں میں ا س کی تنبیہ کرتے ہیں مگر چوں کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کو دین کا ہر حکم اپنی نفسانیت کے آئینے میں دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہے ا س لیے وہ لوگ وہی کام کرتے ہیں جہاں کے رجحانات و مذاق کی تسکین ہوتی ہو۔ اس تناظر میں سوائے اس کے اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ شہر کے ذمے داران اور با اثر لوگوں کی دو کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ ایک کمیٹی ایسے افراد پر نگاہ رکھے جو غیر شرعی امور کا ارتکاب کرتے نظر آئیں اوردوسری ٹریفک کے نظام کو بحال رکھنے کے لیے کام کرے۔

ایک طرف تواسلام اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے غلط فہمیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ پورا مغرب ہمارے خلاف سینہ تانے کھڑا ہے۔ امریکہ میں بنی توہین آمیز اور دردناک فلم INNOCENECE OF MUSLIMکو بنے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے مگر یہ مسلمان ہی ہے جواس تعصب، عداوت اور غلط فہمی کی آگ میں مزید پٹرول ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری ذلتیں اپنی انتہا کی آخری حد کو پہنچ چکی ہیں ہم پر قیامت پر قیامت ٹوٹ رہی ہے کیا اب اور بھی کسی خطرناک قیامت کا انتظار ہے ؟عید میلاد النبی بڑا مبارک ومسعوددن ہے۔ یہ بڑا اچھا موقع ہے کہ تعلیمات نبوی کو عام کیا جائے اوراسلام کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے۔ اگر ہم اپنی ذمے داری پوری کرنے لگیں تو ہمیں کبھی بھی کسی سے کوئی شکوہ نہ ہو۔ ہم غیروں کے تئیں ا س لیے ہمیشہ شکوہ سنج رہتے ہیں کہ ہم اپنی ذمے داریاں اور فرائض فراموش کر کے دوسروں سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور جب وہاں سے امید کا دامن سرکتامحسوس ہوتا ہے تو واویلا کرنے لگتے ہیں۔ اس لیے ان غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہمیں ہی آگے آنا ہو گا۔ ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ غیروں کا کام کانٹے بچھانا ہے۔ ان کو اگر یہ کرنا ہو تو شوق سے کریں ہم تو صرف ان کی راہ میں پھول ہی بچھائیں گے۔ اگر ہم بھی ان کے ا س عمل پر رد عمل پر آمادہ ہو جائیں تو پھر ہمارے اور ان کے درمیان فرق کیا رہ جائے گا اور ہمارے پیشوا محمد عربی مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اہمیت و معنویت کیسے واضح ہو گی۔ آئیے ہم سب مل کر عید میلاد النبی کے جلوس کو با مقصد بنائیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا جھنڈا گھر گھر لہرائیں۔

٭٭٭

 

 

 

عید میلاد النبی:تاریخ انسانی کا عظیم ترین دن

 

 

اسلام اس قدر عقلی، فطری اورسائنٹیفک دین ہے کہ ذہن انسانی اگر علم و فکر اور گہرے شعور و ادراک کے ساتھ اس میں غور کرے تواسے یہ ایک جہانِ حیرت نظر آئے اور اس کے احکام بڑے واضح اور روشن دکھائی دیں۔ مگر جب سے ہم نے غور و فکر کا دروازہ خود پر بند کر لیا ہے صرف ظواہر تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں اوراسی کو اعلیٰ و ارفع مقصد تصور کیے بیٹھے ہیں۔ ایک عام، بے پڑھا لکھا اور بصیرت سے عاری شخص اگرایساکرے تواس سے زیادہ ا س سے امید بھی نہیں رکھی جا سکتی مگر جب معاشرے کے ’’دانش ور‘‘ کہلائے جانے والے لوگ ایساسمجھنے اور کرنے لگیں تب معاملہ بڑا گمبھیر ہو جاتا ہے۔ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو منائی جانے والی عید میلاد النبی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ دن تاریخ انسانی کے عظیم محسن کا دن ہے، دنیا کے سب سے عظیم انسان کا دن ہے۔ اس دن ہم اپنے اس محسن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اس کا برتھ ڈے مناتے ہیں۔ ہم اگر یہ کہیں کہ میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وسلم )کے موقع پر یہ جشن صدیوں سے منایا جا رہا ہے تو شاید ہمارے بعض دوستوں کو ہضم نہ ہواس لیے ہم اسے یہیں اٹھا رکھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔

تاریخ انسانی میں کون سا ایساملک، ایسی قوم، ایساقبیلہ، ایسامعاشرہ، ایساعلاقہ اورایسافردہے جو اپنے محسن کو یاد نہیں کرتا اوراس کی ولادت اور وصال کی تاریخوں میں اس کے لیے گلہائے عقیدت نہیں پیش کرتا۔ ہم اپنے ملک ہی میں دیکھ لیں یہاں کے بڑے بڑے محسنین کے نام پر حکومتیں جشن کا انعقاد کرتی ہیں، حکومتوں نے ان کی ولادت یا وصال کی متعینہ تاریخوں کو ایک ’’تاریخی‘‘ حیثیت دے دی ہے اور وہ دن انہیں کے نام سے منسوب ہیں۔ اس تناظر میں عید میلاد النبی پراگرمسلمان خوشی کا اظہار کرتے ہیں، چراغاں کرتے ہیں، بزموں کا انعقاد کرتے ہیں، جھنڈے لگاتے ہیں تواس میں حیرت کیا ہے اوراس میں برائی کے کون سے عناصر ہیں؟ یاد رکھیے بذات خود کوئی چیز غلط نہیں ہوتی بلکہ غلط اس وقت ہو جاتی ہے جب اس کے پردے میں بہت ساری غلط چیزیں شامل کی جانے لگتی ہیں اوراسی کو اصل سمجھا جانے لگتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد صبح و شام بہت ساری ایسی چیزیں دیکھتے ہوں گے جن کی روح دب گئی ہے اور ان پر ظواہر کا دبیز پردہ پڑ گیا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اسی کو اصل سمجھا جانے لگا ہے۔ آپ ذراسے غوروفکرسے ایسی چیزوں کوبآسانی تلاش کر لیں گے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کہ کیا غیر ضروری چیزوں کے شامل کر دینے سے اصل چیز پر ہی خط تنسیخ کھینچ دیا جاتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تب تو آپ کو اپنے اپنی ملکی، علاقائی، سماجی، قبائلی روایات سے بھی ہاتھ دھوناپڑسکتا ہے۔ میلاد النبی کے موقع پرجن حضرات نے کچھ غلط رسوم ایجاد کی ہیں تو قصور ان کا ہے، عید میلاد کا نہیں۔ ان غلط رسوم نے عید میلاد النبی کی اصل روح کو فنا کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ اسے غیر شعوری کوشش ہی کہا جائے گا کہ عوام کا الانعام ہیں۔ وہ اپنے مزاج کے مطابق اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کچھ نہ کچھ تراش ہی لیتے ہیں۔ موسیقی والی نعتوں پر بچوں اور نوجوانوں کا رقص، پٹاخے بازی، عورتوں کا ہجوم وغیرہ وغیرہ سب اسی ذیل میں آتا ہے۔ لہٰذا ان کا حد درجہ رد کیا جانا چاہیے، باقاعدہ مہم چلا کر ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جزو ایمان ہے۔ اس میں ذراسی بھی کمی ہمارے ایمان کی پوری عمارت کوہی زمیں بوس کر دیتی ہے کیوں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل سے نکل گئی تو بچے گا کچھ بھی نہیں اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس اسلامی اقدار و روایات کا جو کچھ سرمایہ ہیں اس کے اصل الاصول ہمارے اور آپ کے پیارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ لیکن یہاں ایک بات یاد رہے کہ صرف جلوس نکال لینا، چراغاں کرنا ہی سب کچھ نہیں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرموادت پر عمل اور ان کے دین کے فروغ کی کوشش بھی ہماری اولین ذمے داری ہونا چاہیے۔ ہمیں عید میلاد النبی کے موقع پربلکہ ہر وقت اپنے دل کو ٹٹولتے رہنا چاہیے کہ کیا واقعی ہم سچے غلام ہیں، کیا حقیقت میں ہم سچے دل سے حضورسے محبت کرتے ہیں یا ہمارے دعوے محض دعوے ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

ہمارے زمانے تک آتے آتے ہمارے دین میں دین ہی کے نام پر کچھ علاقائی رسمیں شامل ہو گئی ہیں یا کر لی گئی ہیں اوربدقسمتی سے ہم اسی کو اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں اور جو اصل دین ہے اسے فراموش کر بیٹھے ہیں۔ یہ قصور ہماری سمجھ کاہے ہماری دینی روایات کا نہیں اس لیے ہمیں اپنی فہم کا علاج کرانا چاہیے روایات ہی کے خلاف کمربستہ ہو جانا دانش مندی نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عید میلاد النبی:ماہِ ربیع الاول میں وقوع پذیر ہونے والے بعض اہم واقعات

 

 

٭   ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۲ ربیع الاول ۵۷۱ ء

٭سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سفر مدینہ کیلئے غار ثور سے باہر تشریف لائے مع یارِ غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکم ربیع الاول قبل ہجری

٭مدینہ منورہ تشریف آوری اور قیام حضرت کلثوم ابن ہدم کے مکان میں، بمقام قبا ء مدینہ منورہ۔ ۔ بروز پیر۸ یا ۱۲ ربیع الاول یکم ہجری

٭ مسجد ”قبا ”کی بنیاد محلہ بنی سالم، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکم ہجری

٭ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان پر بیٹھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ماہ قیام فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکم ہجری

٭اذان کی ابتدا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکم ہجری

٭۔ غزوہ بنی نضیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴؍ ہجری

٭۔ غزوہ دومۃ الجندل (نصرانی مشرکین لڑے بغیر فرار ہو گئے)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۵ہجری

٭۔ مختلف ممالک اور ریاستوں کے فرمانرواؤں کو تبلیغی خطوط روانہ کئے گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۷ ہجری

٭قبائلِ تہامہ اسلام لائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۸ہجری

٭سریہ اُسامہ بن زید روانگی اور توقف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۱۱ہجری

٭خلافت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۱؍ہجری

٭۔ ۔ قتل اسود بن کعب عنسی کذّاب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۱؍ہجری

٭۔ (وصال) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ بروز پیر، ۷ یا ۸ جون ۶۳۲ئ؁

٭فتح عراق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۲ ہجری

٭ فرارطلیحہ اسدی کذاب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۲ہجری

٭فتح دمشق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۴ہجری

٭وصال معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۸ہجری

٭وفات ام المؤمنین زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰ہجری

٭وفات ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۱ہجری

٭وفات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۶ہجری

٭تکمیل مدتِ خلافت علیٰ، امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت سے دستبرداری اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت کا قیام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۱ہجری

٭تکمیل فتح کابل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۴ہجری

٭شہادت حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۹ہجری

٭وفات سعید بن زید (عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں )۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۵۱ہجری

٭بغاوت مختار ثقفی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۶۳ہجری

٭یزید انتہائی تکلیف کے عالم میں مرگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۶۴ہجری

٭وفات ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۷۴ہجری

٭عراق میں بغاوت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۷۶ہجری

٭وفات قاضی شریح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۷۸ہجری

٭شہر واسط کی تعمیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۸۲ہجری

٭وفات قاضی مدینہ طلحہ الزہری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۹۷ہجری

٭وصال تابعی فقیہہ حضرت عطا بن یسار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۰۳ہجری

٭وفات جریر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۰۵ہجری

٭جنگ موقان(بنو امیہ ہشام بن عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں لڑی گئی)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۰۸ہجری

٭وفات عمرو بن شعیب السہمی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۱۸ہجری

٭بسطام اللیثی کی بغاوت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۲۸ہجری

٭معتزلہ فرقہ کے بانی واصل بن عطاء کی موت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۳۱ہجری

٭وفات سلمہ بن دینار الاعرج۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۴۰ہجری

٭وفات خالد بن الخداء۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۴۲ہجری

٭فتنہ محمرہ و عبدالقہار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۶۲ہجری

٭عباسی فرمانروا مہدی نے زندیقیوں کے خلاف مہم شروع کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۶۳ہجری

٭ہارون رشید کی فاتحانہ یلغار (زندیقیوں کے خلاف)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۶۵ہجری

٭مہدی نے مسجد حرام کی توسیع و تعمیر کا کام کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۶۶ھ؍۱۶۷ہجری

٭وفات عباسی فرمانروا ابو محمد موسیٰ بن المہدی الملقبہ ہادی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۷۰ہجری

٭تخت نشینی ابو جعفر ہارون الرشید بن مہدی بن منصور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۷۰ہجری

٭مملکت روم پر یلغار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ربیع الاول تا شعبان۱۷۰ہجری

٭فتح ارض روم ہارون رشید کے زمانے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۷۶ہجری

٭وفات القاضی شریک الکوفی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۷۷ہجری

٭ترک خاقان کے مظالم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۸۳ہجری

٭وفات ابراہیم الاسلمی الفقیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۸۴ہجری

٭آل برامکہ کا قلع قمع ہارون رشید نے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۸۷ہجری

٭قتل فضل الوزیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۲ہجری

٭مامون الرشید نے بوران بنت حسین ابن سہل سے شادی کی اور اس شادی پر بے انتہا دولت خرچ کی ایک ماہ تک شادی کا جشن منایا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۱۰ہجری

٭وفات معروف شاعر ابو العتاہیہ اللغوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۱۱ہجری

٭وفات حافظ معاویہ الازدی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۱۴ہجری

٭شہادت محمد بن نوح العجلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۱۸ہجری

٭وفات معروف تابعی بزرگ امام الاولیا حضرت محمد بشر حافی قدس سرہ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۲۷ہجری

٭وفات المعتصم عباسی و خلافت الواثق باللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۲۷ھ؍۸۴۲ء

٭وفات حافظ ابو جعفر الجعفی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۲۹ہجری

٭وفات امیر عبداللہ بن ظاہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۳۰ہجری

٭دمشق میں شدید زلزلہ متعدد جانوں کا اتلاف اور عمارات کا انہدام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۳۳ہجری

٭وفات ماہر علم الانساب مصعب بن عبداللہ الزبیری المالکی قدس سرہ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۳۶ہجری

٭وفات ابو ثورالکلبی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۴۰ہجری

٭وفات تیسری صدی کے مجدد، پیکر استقامت و جرأت امام اہلسنت حضرت احمد بن حنبل علیہ الرحمہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۴۱ہجری

٭ ایران میں زلزلہ و تباہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۴۲ہجری

٭شہادت حضرت سیدنا امام حسن عسکری قدس سرہ، (آئمہ اہلِ بیت میں گیارہویں امام)۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۶۰ہجری

٭وفات وزیر عباسی مملکت عبید اللہ بن خاقان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۶۳ہجری

٭وفات ابراہیم المزنی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۶۶۴ہجری

٭سلطنت عباسیہ کے بعض علاقوں پر زنگیوں کا قبضہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۶۷ہجری

٭وفات احمد بن سیار مروزی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۶۸ہجری

٭ ٭ ٭وفات بکر بن سہل الدمیاطی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۸۹ہجری

٭قرامطہ اور فاطمیہ کے مظالم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۹۰ہجری

٭وفات ابو الحسن بن کسیان النحوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۹۹ہجری

٭عبیداللہ المہدی کا مصر پر حملہ اور ناکامی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۰۲ہجری

٭وفات ابو بکر الخلال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۱۱ہجری

٭رومیوں سے جنگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۱۵ہجری

٭وفات عبید اللہ المہدی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۲۲ہجری

٭وفات الراضی باللہ و خلافت ابراہیم المتقی باللہ العباسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۲۹ہجری

٭وفات ابو علی الکتامی القرطبی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۳۱ہجری

٭وفات ابن ولاد النحوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۳۲ہجری

٭وفات ابن درستویہ الفارسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۴۷ہجری

٭وفات فقیہ حسان الاموی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۴۹ہجری

٭بغداد میں معزالدولہ کے مظالم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۵۱ہجری

٭وفات ابو القاسم خالد القرطبی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۵۲ہجری

٭قتل معزالدولہ ابن بویہ الدیلمی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۵۶ہجری

٭وفات ابو علی الحسن بن الخضرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۶۱ہجری

٭وفات ابو اسحق بن رجاء۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۶۴ہجری

٭وفات ابو بکر ابن القوطیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۶۷ہجری

٭فوجی انقلاب بغداد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۷۶ہجری

٭وفات ابو علی الفارسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۷۷ہجری

٭وفات عباسی وزیر جعفر ابن الفرات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۹۱ہجری

٭وفات ابوالحسن الخفاف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۹۵ہجری

٭وفات ابو سعد بن الاسماعیلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۹۶ہجری

٭فاطمینِ مصر نے کینسہ قما مہ مسمار کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۹۸ہجری

٭معزولی اموی حکمران محمد المہدی و خلافت المستعین الاموی اندلس میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۰۰ہجری

٭الحاکم الفاطمی نے بے پردہ عورتوں کو قتل کرایا، اور دریا میں ڈبو دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۰۵ہجری

٭وفات ابو بکر فورک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۰۶ہجری

٭قتل فخر الملک دیلمی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۰۷ہجری

٭قادر با اللہ العباسی نے محمود غزنوی کو خلعت بھجوائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۰۸ہجری

٭سلطان محمود غزنوی نے خیر سگالی کا پیغام اپنے قاصد کے ذریعے قادر باللہ کو بھجوایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۴۱۰ہجری

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ کہ انہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید