FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

عشق اول

عطیہ خالد

’’تو چاہے تو مجھے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔۔‘‘

”تو جو چاہتا تو میں مامن بھکاری کے گھر پیدا ہی نہ ہوتا۔۔‘‘

”مگر تو کیوں چاہتا۔۔۔۔ میں کوئی تیرا پیارا تھوڑی ناں ہوں!!‘‘

”پر، سن!! تیری مجھ سے دوستی ہو یا نہ ہو میں تو تجھی کو دوست کہتا ہوں۔

تو ہی ہے میرا۔۔ بس تو!!!!۔۔ تیرے سوا کوئی نہیں۔۔!!‘‘

تنہا رات آج کچھ زیادہ ہی تنہا تھی۔ جابر اور سرد اندھیرا دور دور تک ہر چیز کو چھپائے ہوئے تھا۔ گھور سیاہ آسمان پر جھلمل کرتے تاروں کو دیکھتا سجاول ریت کے بستر پر لیٹا تھا اپنے جھولے کا تکیہ بنائے۔ اس سے کچھ دور اس کے تمام ساتھی جھگی میں سو رہے تھے۔ ان میں سے کئی ایک کے خراٹوں کی آواز جھینگروں کی آواز سے مل کر ایک نیا ساز بن رہی تھی۔۔۔

"سب کو جھولی بھر بھر کے نیند دینے والے میرے حصے کی نیند کہاں ہے؟؟؟‘‘

"سب کو بے فکری عطا کرنے والا مجھے فکر میں ڈال کے بھول گیا ہے تو!۔۔‘‘

تھر کے دور دراز صحرا میں یہ ایک فقیروں کی بستی تھی۔ نجانے کتنا عرصہ ہوا وہ یہاں آن بسے تھے۔ ماسی جیراں کے مطابق وہ ہمیشہ سے یہیں رہتے آئے تھے۔ صبح سویرے یہ فقیر مٹھی اور اسلام کوٹ کے شہروں میں پھیل جاتے۔ مامن ان سب کا مکھیا تھا جو بڑی سمجھداری سے تیس برسوں سے اپنی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔۔ سب کے لیے اس کی بات ماننا فرض تھا۔ بستی کے اپنے قواعد اور اصول تھے۔ جن سے انحراف کی سخت سزا ملتی تھی۔ مکھیا کے منہ سے نکلنے والا ہر ہر لفظ ماننا ان سب کی بقاء کے لئے ضروری تھا۔ انسانوں کے جنگل میں ان کی طاقت اتحاد سے ہی ممکن تھی۔ اور اتحاد بنا فرمانبرداری کے ممکن نہیں تھا۔۔

اب یہ سزا کا خوف تھا یا عادت۔۔۔ وہ سب فقیر اس کی فرمانبرداری کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔ اس کی بات ٹالی جائے۔۔ ایسا ہوتا تو سمجھو اس بستی کے لیے قیامت آ چکتی۔ اور قیامت سے وہ سب ہی بہت ڈرتے تھے۔

مامن اور اس کے نائب جاکھے نے سب کی الگ الگ جگہ مقرر کر رکھی تھی۔ کوئی دوسرے کی حدود میں داخل نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح سب کو اچھی بھیک ملتی تھی۔ جو کہ ساری کی ساری لا کر مامن کے سامنے رکھ دی جاتی۔ اس کا ایک حصہ بھکاری کو دے کر باقی ساری رقم مامن سنبھال لیتا۔ یہی ان کا اصول تھا یہی قاعدہ۔

٭٭٭٭

"بس!!؟‘‘ جاکھے کے لہجے میں پھنکار تھی۔

"دیکھ لو مکھیا! یہ ہے صاحب کی آج کی کمائی۔‘‘ جاکھے نے روپے گنتے ہوئے راجا کے ہاتھ پر سجاول کی کمائی رکھ دی۔

"ایک سو ساٹھ روپے کل‘‘ راجا نے دانت پیسے۔

’’کل تو صرف نوے روپے لایا تھا سجاول‘‘ پیچھے سے گوتم کی جلی بھنی پکار آئی۔ اس کو بہت غصہ تھا۔

’’سجاول کے سوا کوئی اتنی کم کمائی لا کر تو دکھائے‘‘ اس کا لہجہ آگ کی طرح لپکتا ہوا تھا۔ کم کمائی لانے پر کئی بار اس نے سزا بھگتی تھی۔

’’ہاں سجاول کو تو مکھیا کچھ کہتا ہی نہیں۔ لاٹ صاحب ہے سجاول تو جیسے کہیں کا۔‘‘ یہ سورج تھا راجے کا دوست۔

’’یہ پیسے سجاول کے ہیں‘‘ پیچھے سے زیبا نے نکل کر کچھ نوٹ سامنے رکھ دئے۔

’’سجاول ابھی باہر میرے ساتھ گن رہا تھا تو میرے پیسوں میں مل گئے تھے۔‘‘

’’جھوٹ بولتی ہے زیبا‘‘

’’تو ہو گا جھوٹا‘‘ زیبا کی آواز میں للکار تھی۔ سورج فوراً چپ ہو گیا۔ لیکن مقدمہ ختم نہ ہوا۔ آہستہ آہستہ سب ہی بولنے لگے تو مامن نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے سب کو گھورا۔ سب کو جیسے ایکدم سانپ سونگھ گیا تھا۔ سب خاموشی سے باری باری آ کر اپنی کمائی رکھنے لگے۔ سب سے زیادہ کمائی آج بھی رانی کی تھی تین ہزار نو سو آٹھ روپے۔ رقم سنبھال لی گئی تو سب کھانے کے لیے بیٹھ گیے۔ دال گوشت اور چاول۔۔

ماسی جیراں کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا۔ سب نے اپنی پلیٹیں چاٹ کر صاف کر ڈالی تھیں۔ برتن دھونے والیوں کے سوا سب اپنی اپنی جھگیوں میں چلے گیے۔ بستی کے سب لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ الگ الگ چولہے جلنے کی بجائے ایک جگہ کھانا پکتا تھا۔ سب کے ذمے الگ الگ کام مقرر تھے۔۔۔ سب خوشی خوشی اپنی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ صبح صبح سب چائے کے ساتھ پاپے کھا کر کام پر چل دیتے تھے۔ دوپہر کو سب اپنے اپنے اڈے پر مانگ تانگ کے کھا لیتے۔ رات کو ماسی جیراں دو تین عورتوں کے ساتھ مل کر سب کا کھانا پکاتیں۔۔ سب ہی خوش اور مطمئن تھے سوائے سجاول کے جس کا خون کبھی ابل ابل کر کنپٹیوں کو ٹھوکریں مارتا تو کبھی رگوں میں جم کر اس کو ساکت کر دیتا مٹی کی طرح۔۔۔۔

ہر روز کی طرح آج بھی وہ کھلے آسمان تلے لیٹا شکوے شکایتوں میں مصروف تھا۔

’’سجاول!‘‘ مامن کی آواز اس خاموشی میں سانپ کی طرح سرسرائی تھی، وہ ایکدم اٹھ بیٹھا۔

’’مکھیا!!‘‘ اس کی آواز میں بے انتہا تحیر تھا۔ اس کی زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ مکھیا خود کسی کے پاس چل کر آیا ہو۔۔ مکھیا کا بیٹا ہونے کا نقصان یہ تھا کہ ان کے درمیان باپ بیٹے کا عمومی رشتہ استوار نہیں ہو سکتا تھا۔ مکھیا سارے قبیلے کا باپ تھا۔ اسے سب سے ایک برابر پیار کرنا تھا۔ سب کا خیال رکھنا تھا۔

مامن نے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’ابا (بیٹا) بستی والوں کو سمجھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے‘‘ مامن نے اس کے کندھے کو زور سے دبایا اور واپس جھگی میں چلا گیا۔

سجاول نے بے ساختہ اپنا سر اوپر اٹھایا اور پہلے سے بڑھ کر شکوے اپنی نگاہوں میں سمو کر اوپر دیکھا جیسے کہتا ہو

’’اب!!‘‘

٭٭٭٭٭

’’چریا ہو گیا ہے کیا چھورے!!’’جیراں فوراً آگے آئی اور اپنے الفاظ سے اس کے جرم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ جیراں کو سجاول سے بہت محبت تھی۔ جب سجاول کی ماں اس کو چھوڑ کر چل بسی تھی تو جیراں نے ہی اسے اپنی گود کی گرمی دی تھی۔۔۔ وہی اس کے ساتھ راتوں کو جاگی تھی۔ صرف اس کو دودھ پلانے کی خاطر اس نے بکری پالی تھی۔۔

جاکھے نے اپنے گھٹنوں کے بیچ اس کا سر پھنسا کر مارنا شروع کیا تو وہ تڑپ کر اس کی مار اپنے ہاتھوں پر لینے لگی۔۔۔

’’ ناں ادا جاکھن ناں! چھوڑ دے اس کو۔ اب کی بار معاپھی دے دو۔ پھر کبھی ایسی گلطی ناں کرے گا۔‘‘ اس نے جاکھن کے سخت ظالم ہاتھوں سے اسے چھڑا کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ اور راجے کو کوسنے لگی تھی جو ہنس رہا تھا۔

’’سمجھا دے اس کو ماسی اب کے گلطی کرے گا تو پچھلی جھگی میں لے جاؤں گا۔‘‘ ماسی جیراں تو کانپ گئی تھی، جانتی تھی کہ یہ صرف دھمکی نہیں تھی۔

’’کیوں گیا تھا سجاول وہاں؟ کیا ہے اس بڈھے کے پاس؟ کیا دیتا ہے وہ تجھ کو۔۔۔ بھٹہ!!!! بس ایک بھٹے کے لیے اتنی مار کھا لیتا ہے تو!‘‘ جیراں اس کے سر کو سہلاتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

’’پچھلی کوٹھری کی سجا سے بھی نہیں ڈرتا تو۔ ارے ہنٹر سے ماریں گے وہاں تجھے۔ باندھ دیں گے بیڑیوں سے۔ سب تو جانتا ہے تو۔‘‘

’’آج تو جاکھا مکھیا سے جرور شکایت کرے گا۔ بس تو فوراً ماپھی مانگ لیجیو۔۔۔ اور آئندہ کبھی اس بھٹے والے کے پاس مت جائیو۔‘‘

چپ چاپ اس کی باتیں سنتا سجاول اس کی گود سے نکل کر باہر بھاگ گیا۔

وہ ابھی چھوٹا تھا۔ اس کو اپنا مافی الضمیر ظاہر کرنا نہیں آتا تھا۔۔ لیکن اس کو ہاتھ پھیلانے سے نفرت تھی۔ وہ مانگنا نہیں چاہتا تھا۔ نجانے کب سے اس کے دل میں بھیک مانگنے سے نفرت بیٹھ گئی تھی۔ اس کے خون مین حلول کر گئی تھی۔ وہ کام کرنا چاہتا تھا۔ کام۔۔ کوئی بھی کام۔۔ اس کے ایریے میں ایک بوڑھا بھٹے والا اپنا ٹھیلہ لگاتا تھا۔۔۔ وہ اپنے ساتھ اپنی مدد کے لیے اپنے بیٹے کو رکھتا تھا۔ بچہ بالکل سجاول کی عمر کا تھا۔ اپنے باپ کے ساتھ ساتھ ٹھیلے کو گھسیٹتا۔ بڑی مہارت سے کاغذ میں بھٹے لپیٹ کر گاہکوں کو دیتا۔ ریزگاری سنبھالتا۔۔۔۔ ۔۔ پھر بھی ذرا بھی غفلت کرنے پر باپ اس کو پاس پڑی ہوئی چھڑی دے مارتا۔۔

اس بچے کو دیکھتے ہوئے سجاول کو اپنی بھری ہوئی جیب کا بوجھ اٹھانا بہت مشکل لگتا۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے اس محنت کش بچے کی طرف دیکھتا۔۔۔ وہ بچہ سجاول کو کتنا بلند کتنا عظیم دکھائی دیتا تھا۔۔ یہ تو کوئی سجاول سے ہی پوچھتا۔۔۔ اس کو پڑنے والی کیکر کی چھڑیاں سجاول کو پھولوں کا ہار معلوم ہوتی۔ وہ گلیوں گلیوں صدائیں لگاتے گھومتے اور بھٹے بیچتے۔۔ سجاول ان کے پیچھے پیچھے چلتا اپنے فرض کو فراموش کر دیتا۔ نتیجتاً جاکھا اور اس کے نائبین مار مار کر اس کی کھال ادھیڑ دیتے۔ دکھتا بدن اور جا بجا کھرونچیں اور رستا خون بس ایک دو دن تک اس کو خوفزدہ رکھتا۔۔۔۔ تیسرے دن وہ پھر اس بھٹے والے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا سارا دن گذار دیتا۔۔۔

وہ اپنی ریڑھی آدھی چھٹی کے وقت ہائی اسکول کے باہر لگا دیتے۔۔ اس وقت اس کی اور اس کے بیٹے کی مصروفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔۔۔ باوجود اس کے کہ وہ بچوں کے باہر آنے سے پہلے بے شمار بھٹوں پر مصالحہ لگا کر ان کو کاغذ میں لپیٹ کر رکھ دیتے تھے۔ پھر بھی ان کو پیسے لینے اور گننے اور ریزگاری سنبھالنے میں اپنی ساری تیزی اور مہارت بروئے کار لانی پڑتی تھی۔۔۔ رش ختم ہو جاتا۔۔۔ باپ سارے پیسے سنبھال لیتا تب وہ سامنے بنے تنور سے روٹیاں منگواتا اور اپنا چھوٹا سا ڈبہ کھولتا اور دونوں کھانا کھاتے۔۔۔

تب چھپ چھپ کر ان کو دیکھتے سجاول کا پیٹ دہائی دیتا جو عام طور پر سزا کی وجہ سے رات بھر سے بھوکا ہوتا۔۔۔ ایسے میں سجاول تنور کے ارد گرد یا کچھ دور موجود ہوٹل کے قریب جا کر بیٹھ جاتا۔۔۔ اس کا پھٹا پرانا لباس۔۔۔ اس کے ننگے پاؤں۔۔۔ اس کا بھوک سے نڈھال چہرہ چیخ چیخ کر لوگوں کو متوجہ کرتا۔۔۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسی بے بسی اور تڑپ نظر آتی تھی کہ جس کی بھی نظر پڑ جاتی وہ اس کے صدا کا انتظار کئے بنا اس کی جھولی میں کچھ ضرور ڈال دیتا۔۔۔

ہر بار بھیک ملنے پر اس کا چھوٹا سا وجود لرز جاتا۔ آنکھوں میں شرمساری اتر آتی وہ اپنی نگاہوں کو اٹھانے سے قاصر پاتا۔۔۔۔ ایسے میں اس کو اس بھٹے والے کے بچے پر رشک آتا۔۔ اور اپنے آپ اور اپنے پیشے سے شدید نفرت محسوس ہوتی۔۔

٭٭٭٭

’’ہا! کوئی اتنا کھوبصورت کیسے ہووے ہے!!‘‘

’’کوئی بھی تو نہ ہووے اس جیسا! ماں قسم کوئی بھی تجھ جیسا نہ دکھے۔‘‘

”پر ہے ناں تو اتنا ہی کھوبصورت۔۔ ایکدم بادساہ دکھے ہے۔۔ تبھی تو اتنا گھمنڈی ہے۔ بات بھی نہ کرے مارے سے۔‘‘

’’ ایک دم ساندار!‘‘ وہ اندھیرے میں اس کے نقش ٹٹول رہی تھی۔

”ایک بار تو نجر اٹھا کے دیکھ۔۔ دیکھ ناں میری طرف‘‘ نم آواز میں دل کو چیر دینے والی منت تھی۔

”کتنی کھوبصورت ہووے ہے تیری تکنی۔‘‘ آواز میں زمانوں کی حسرت نوحہ کناں تھی۔۔

کوٹھری میں شدید گرمی تھی۔ اس کا وجود پسینے سے تر ہو چکا تھا۔ لیکن اس کو احساس نہ تھا۔ وہ اپنے محبوب کے قدموں سے لپٹی اس کو منانے میں مگن تھی۔ محبوب جو مان کے نہیں دے رہا تھا کسی طرح۔ اس کی بے نیازی جان لیوا تھی۔۔ اس کے دل میں گڑا ہوا تیٖر جو نہ نکالے بنتا تھا نہ گاڑے۔

’’چریا ہو گئی ہے میرا… چل آ کے سو جا۔۔۔ سویرے اٹھنے میں اڑی کرے گی۔‘‘ ماں نے ساتھ والی چارپائی خالی دیکھ کر اس کو آواز لگائی۔

’’تجھ سے پہلے اٹھ جاؤں گی اماں۔‘‘ وہ اندر ہی سے بولی۔

’’کیا کبھی دن کے اجالے میں نہ ملے گا مارے سے؟‘‘ وہ پھر اس کے قدموں میں گر گئی۔ اپنے آنسوؤں سے اس کا دل نرم کرنے کی کوشش میں ہارنے لگی تھی جان اپنی۔ اس کی تڑپ جانگسل تھی۔۔ اس کی بے قراری جان لیوا تھی۔ مگر دیکھنے والے کی نظر میں اس کے لئے شناسائی تک نہ جاگتی تھی۔ وہ میرا کا مرلی تھا۔ اس کا مرلی اگر دھتکارتا نہیں تھا تو اٹھا کر سینے سے بھی نہیں لگاتا تھا۔ بس مند مند مسکاتا تھا۔ پھر بھی میرا کی دیوانگی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔ ۔ آپ ہی آپ مسکاتی۔۔ گنگناتی۔۔۔ تو کبھی سسکیاں بھر بھر کے رونے لگتی۔۔۔ ماں باپ پریشان تھے۔ منتوں مرادوں سے ملنے والی اکلوتی اولاد تھی۔۔

’’میرا چل ناں۔ جلدی کر چھوری!‘‘ باپ کی آواز سن کر وہ نکل آئی۔

’’آج تو اچھی کمائی ہو گئی تو تجھے مچھلی کھلاؤں گا۔۔‘‘

’’بابا میں جھولے پر بھی بیٹھوں گی۔‘‘

’’اچھا! اچھا! آج ہسپتال کے باہر پھیرا لگا لیں گے۔ پھر کل تجھے جھولے پر بیٹھانے کے لیے لے چلوں گا۔‘‘ کہتے کہتے اس نے اپنے دونوں پیروں کے جوڑ اتار لیے تھے۔ اور میرا نے اس کی گاڑی دھکیلنی شروع کر دی تھی۔

’’جو دے اس کا بھی بھلا۔۔۔ جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔۔

٭٭٭٭

’’سبطین شاہ، چیف ایگزیگٹو آف شاہ انڈسڑیز‘‘۔ کیا ایکسینٹ تھا۔! کیا وجاہت تھی، کیا بے نیازی تھی!!

یہ بزنس ٹائیکونس کی نیو ایئر گیدرنگ تھی۔ جس میں میں تو پچھلے تین سال سے ڈیڈی کے ساتھ شامل ہو رہی تھی۔۔۔ لیکن سرفراز انکل پہلی بار اپنے بیٹے کو لائے تھے۔ اور بڑے فخر سے اس کا تعارف کروا رہے تھے۔ ان کا فخر بے جا نہ تھا۔ میری ساری بوریت اڑن چھو ہو گئی تھی۔

’’ماہم بیٹا! یہ میرا بیٹا سبطین شاہ۔۔۔۔ اور سبطین یہ ماہم ملک‘‘

’’ہیلو!‘‘ میں نے اس کے چہرے کو تکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔

’’اسلام و علیکم! وہ میرا بڑھا ہوا ہاتھ نظر انداز کر کے اس دل کشی سے مسکرایا کہ میرا دل اس کی مسکراہٹ کے گرداب میں پھنس کر نظر اندازی کو بھی بھول گیا۔

”ماہم بیٹا اب تم سبطین کو کمپنی دو۔ میں اپنے دوستوں سے مل لوں۔‘‘

’’ضرور انکل‘‘ میں نے بڑی خوش دلی سے یہ خوبصورت کمپنی قبول کر لی۔ پارٹی میں موجود ہر لڑکی اس بے نیاز کی کمپنی کی آرزو مند تھی جو قسمت سے میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ پاپا نے مجھے پہلے ہی اس کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔ تب میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔ لیکن اب سبطین شاہ کو دیکھنے کے بعد میں نے پاپا کے فیصلے کو جی جان سے سراہتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔ بڑی شاندار اور دبنگ شخصیت تھی سبطین شاہ کی۔۔۔ میں تو پہلی ہی نظر میں دل ہار رہی تھی جیسے۔ لیکن وہ تو بے نیازی کے نئے نئے اسباق لکھ رہا تھا۔ اس کی توجہ حاصل کرنا نا ممکن نہ سہی مشکل ضرور تھا۔ خیر آج تو پہلی ملاقات تھی۔

بظاہر وہ مسکرا مسکرا کر بات مجھ ہی سے کر رہا تھا۔۔۔ لیکن اس کی نظر سرسری تھی۔ اس کی نظر میں ماہم ملک کے حسین اور دلنواز وجود کے لیے کوئی گرمی نہیں تھی، کوئی چاہ نہیں تھی۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ دوبارہ ایسی بے نیازی برداشت کرنے کا میرا ارادہ تھا نہ عادت۔۔۔

مجھے اپنی بے کلی پر حیرت بھی تھی اور میں اس سے لطف اندوز بھی ہو رہی تھی۔ اپنے نرم گرم بستر میں چھپی اسی ظالم کو سوچتے ہوئے میں نے رات آنکھوں میں کاٹ دی تھی۔۔۔ اب میرا ارادہ سونے کا تھا کہ رانی نے ناشتے لگ جانے کی اطلاع دی۔

اوہ! آج اتوار تھا۔ اور اتوار کو میں پاپا کے ساتھ ناشتہ کرتی تھی۔

٭٭٭٭

ایک سے ایک بزنس مین شاہ انٹر پرائزز کو جوائن کرنے کا خواہشمند نظر آ رہا تھا۔ بابا کی ساکھ پورے بزنس امپائر میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک کے بعد ایک بزنس میٹنگس، بزنس اور فارمل ڈنرز اٹیند کرتے ہوئے میں حیران تھا۔ بابا نے کیسے اتنا سب کچھ مینٹین کر رکھا تھا۔ اور جب یہ سوال میں نے ان سے کیا تو وہ مسکرائے۔

”میں نے آج تک اپنے ہدف سے نظر ہٹا کر ادھر ادھر نہیں دیکھا۔ مرا مطمع نظر کبھی نہیں بدلا۔ اس لئے تھکنے یا پریشان ہونے کا سوال ہی نہیں۔‘‘

”میں نے رات دو بجے سے پہلے اور صبح نماز کے بعد بستر کو اپنے لئے حرام سمجھا ہے۔ ایک دمڑی دھیلے کی ہیرا پھیری یا دھوکہ دہی کو بھی میں ناجائز سمجھتا ہوں۔ اور اپنے ورکرز سے بھی اس درجے کی ایمانداری کی پابندی کرواتا ہوں۔ ان کے جائز حقوق اور محنتانے میں میں نے کبھی کمی نہیں کی۔ اس لئے جو ایک بار شاہ اندسٹری میں آ گیا۔ چھوڑ کر نہیں گیا۔‘‘

میں نے ان کے ایک ایک لفظ کو بغور سنا۔ کیا ہی سچا اور سادہ اصول تھا۔ مجھے ان پر فخر تھا۔

آج کئی دن بعد ہم ڈنر ٹیبل پر گھر میں اکٹھے ہوئے تھے۔ میرے پاس بھی ان کو سنانے کے لئے بے شمار باتیں تھیں۔ ہمارا ایک دوسرے کے علاوہ اور کون تھا۔ شاید اسی لئے ان کو اتنی جلدی تھی میری شادی کی۔ وہ تو جیسے سب طے کیے بیٹھے تھے۔ ٹھیک تھا ماہم بہت اچھی تھی۔ ویل ایجوکیٹڈ، ویل آف۔۔ خوبصورت بھی بہت تھی۔ لیکن میں ابھی پابند نہیں ہونا چاہتا تھا۔ ویسے بھی مجھ کو وہ ذرا مختلف سی لگی۔

”کیسی لگی تم کو ماہم!‘‘

”ہمم، ٹھیک ہے۔ اب ایک ملاقات میں کسی کا کیا پتہ چلتا ہے۔‘‘

”تو ملو اس سے۔ پتہ چلا لو جلدی سے۔ میں جلدی ہی تمھاری شادی کر دینا چاہتا ہوں۔ ہاں اگر ماہم پسند نہیں آئی تو دوسری بات ہے۔‘‘

”مجھے ابھی اتنی جلدی شادی نہیں کرنی ورنہ ماہم بھی ٹھیک ہے۔۔۔ آپ بھی جلدی نہ کریں بابا”

”سبطین، ملک نے خود مجھ سے اس رشتے کی بات کی ہے۔ اور مجھے بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ اچھی لڑکی ہے ماہم۔‘‘

’’بابا ابھی تو کام شروع کیا ہے میں نے۔ میں پہلے دیا کا پراجیکٹ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

”لیکن ماہم تمھارے کام میں سپورٹ کرے گی۔ ہمیں مخلص لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔ ملک تو اس پراجیکٹ سے بہت خوش ہے۔ اسی نے بتایا کہ ماہم کو بھی اس پراجیکٹ میں بہت انٹرسٹ ہے۔‘‘

”اس نے بیٹی کا باپ ہو کر خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تو بلا وجہ اس کو نظر انداز کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ لڑکیاں سب ہی اچھی ہوتی ہیں۔‘‘

”جیسا آپ مناسب سمجھیں۔‘‘

’’اچھا۔ شادی نہ سہی ابھی بات پکی کر لیتے ہیں۔ بس زبانی زبانی۔ تب تک تمھارا مائنڈ بھی بن جائے گا۔ اور دیا کا پراجیکٹ بھی شروع ہو جائے گا۔ شادی کچھ عرصے بعد۔۔۔۔‘‘

اگر آج ہی ڈاکٹر خان نے مجھے ان کی بیماری سے آگاہ نہ کیا ہوتا تو میں شاید کچھ دیر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا رہتا۔۔ لیکن اس وقت میرے لیے مزید انکار ممکن نہیں رہا تھا۔

’’جیسے آپ کی مرضی بابا‘‘ میں نے ان سے لپٹ کر اپنے آنسو چھپا لیے تھے۔۔۔ چند دنوں بعد ایک فیملی ڈنر میں ہماری منگنی ہو گئی۔ ہم نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا دی۔۔ اور بس۔ ماہم اور ملک انکل کا خیال تھا کہ منگنی کا باقاعدہ فنکشن رکھا جائے۔ لیکن میں نے منع کر دیا۔

شادی کچھ عرصے بعد۔۔۔ بابا خوش تھے اور میں ان کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

ماہم کی خوشی قابل دید تھی۔ ہماری کلاس میں ایسی بولڈ نیس معمول کی بات تھی۔ رات بستر پر پہنچتے ہی اس کی کال آ جاتی۔ کسی نہ کسی بہانے روز ہی ہماری ملاقات بھی ہو جاتی۔ ہم ڈنرز پر بھی چلے جاتے۔ لانگ ڈرائیو بھی ہو جاتی۔ کبھی کبھار شاپنگ بھی۔ لیکن ماہم اتنے رابطے پر مطمئن نہیں تھی۔ اور اب اس کے بڑھتے ہوئے التفات کو برداشت کرنا میرے جیسے بندے کے لیے بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ اپنی کلاس کے لڑکوں مردوں کے بر عکس میں فلرٹی نہیں تھا۔۔۔ میری توجہ صنف مخالف کی طرف بالکل بھی نہیں تھی۔۔ میرا نصب العین، میرا مقصد کچھ اور تھا۔۔ ماہم اس سارے پس منظر میں کہیں بھی فٹ نہیں ہوتی تھی۔۔ اس لیے میں قدرے الجھ سا گیا تھا۔۔۔

”کہاں ہو تم جان من!!‘‘ ماہم کے میسیج نے مجھے غصہ دلا دیا تھا۔ کچھ زیادہ ہی بے باک تھی وہ۔

"میٹنگ میں۔۔۔‘‘

میں نے موبائیل سائلنٹ کیا۔۔

’’میں تمھارے آفس میں ہوں۔۔‘‘ وہ برا مان کر بولی۔

’’میٹنگ آفس میں نہیں ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خان کو داخل ہوتا دیکھ کر میں نے موبائل آف کر دیا۔

"دیکھو سبطین میں نے ساری رپورٹس دوبارہ چیک کر لی ہیں۔ ان کی بیماری ابھی درمیانی سٹیج پر ہے۔ میڈیسن سے کور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر میڈسن سے بات نہ بنی تو پھر ہم کو دوسرے آپشن سوچیں گے۔‘‘

"کوئی احتیاط؟‘‘

’’بس ان کو ٹینشن فری رکھیے۔ ایکسرسائز وہ پہلے ہی کرتے ہیں۔ ڈائٹ چارٹ بھی میں نے بنوا لیا ہے۔ ہر پندرہ دن بعد وزٹ کرواتے رہیں۔ ہاں دوائی کافی ہارڈ ہے۔ ان کا پراپر ریسٹ کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘

"شکریہ ڈاکٹر صاحب‘‘ ہوسپٹل سے نکل کر موبائل آن کیا تو ماہم کے پچاس میسیج تھے۔ میں نے گاڑی اس کے گھر کی طرف موڑ دی۔

٭٭٭٭

جب سے اس نے جاکھے کے سامنے زبان کھولی تھی معاملہ صرف اتنا نہیں رہا تھا۔ سزا کے طور پر پہلے اس کو خوب مارا گیا۔۔۔ پھر دو دن بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ پیروں میں بھاری بیڑی ڈالی گئی۔۔ اور اس کے بعد اس کا اڈا بدل دیا گیا۔۔۔ اب وہ بارہ سال سے زیادہ عمر کا ہو چکا تھا۔ راجا اور سورج اچھی خاصی کمائی کرنے لگے تھے۔ ان کو جیب خرچ الگ دیا جاتا اور انعام کے طور پر سنیما جانے کی اجازت۔

اس کی اپنے پیشے سے نفرت روز بروز بڑھ رہی تھی۔ ہر دن بڑھتی سزا اس نفرت کو مزید پختہ کر رہی تھی۔ اب اسے جاکھے کے ساتھ بھیک مانگنے جانا پڑتا تھا۔ جس کی نگاہ ہی اس کا پتہ پانی کر دیتی تھی۔ اس کو صدا بھی لگانی پڑتی۔۔ ہاتھ بھی پھیلانا پڑتا۔ گاڑیوں کے دروازے بھی کھٹکھٹا نے پڑتے۔۔۔۔

البتہ بھیک لے کر دعا دینا وہ اب تک نہیں سیکھ سکا تھا۔

کئی دن جاکھے کے زیر تربیت رہ کر اس نے کافی کمائی کی تھی۔ اور ہفتے والے روز تو راجے اور سورج سے بھی بازی لے گیا تھا۔۔۔ سو روپے کا لال نوٹ اسے انعام میں ملا اور سو روپیہ سنیما جانے کے لئے۔۔۔۔ ۔ مامن بہت سمجھ دار تھا۔ وہ جانتا تھا کچے ذہنوں کو کیسے ساتھ لگانا ہے۔ وہ بیج کے ساتھ کھاد ڈالنے کے فن کو جانتا تھا۔۔۔۔ جاکھے اور دوسرے بوڑھوں کے اعتراضات کو ان سنا کر کے وہ انعام ضرور دیتا تھا۔

دو لال نوٹ اپنے پھٹے ہوئے کرتے کے اندر موجود بنڈی میں سنبھالے ہوئے وہ سوچ میں گم تھا۔ اسے اس زندگی سے نجات چاہئے تھی کسی بھی قیمت پر۔۔۔۔ اس کا دل بھاگ جانے پر اکسا رہا تھا۔ لیکن دماغ ڈرا رہا تھا۔ وہ گلی گلی محلہ محلہ پھرنے والے لوگ تھے۔ ان کی ذہنی استعدادیں گھروں میں پلنے والے بچوں کی نسبت بہت پختہ تھیں۔ وہ دور تک کے کواکب دیکھنے اور سمجھنے پر قادر تھے۔ گروہ اور قبیلے کے قاعدوں کو جانتے تھے اور ان سے الگ ہونے کے نقصانات پر بھی ان کی پوری نظر رہتی تھی۔۔۔

اس لیے دل سے اٹھنے والی لہروں کو دماغ بٹھا دیتا تھا۔

بابو بھگوڑے کی کہانی پوری جزئیات کے ساتھ آنکھوں کے آگے لہراتی تھی۔ بابو بھگوڑا بھکاریوں کی داستانوں کا قابل نفرت مگر جانباز کردار تھا۔ جس کی داستان ہر بھکاری کے لئے داستان عبرت تھی۔

اسی مد و جزر کا شکار سجاول لگاتار کئی ہفتے جاکھے کے ساتھ جاتا رہا۔ اب اس کی جیب میں اچھی خاصی رقم جمع ہو چکی تھی۔ جاکھے کو سردی لگ کر تاپ ہو رہا تھا تبھی اس کو پچھلے ایک ہفتے سے زیبا کے ساتھ بھیجا جا رہا تھا۔ زیبا جاکھے کی بیٹی تھی۔ ویسی ہی ہوشیار اور پھرتیلی۔۔۔ لیکن بہت نرم دل۔ اور سجاول کے لیے تو اس کی نرمی کیسی تھی سب ہی جانتے تھے۔ یہ بندھن بندھ جاتا تو بہت اچھا تھا، وہی باندھ سکتی تھی اس کو قبیلے کے ساتھ۔ جب بھی اس کی کمائی کم ہوتی تو وہ اس میں حصہ ڈالنے کو ہمیشہ تیار رہتی تھی۔۔۔ لیکن سجاول اب وہ حصہ قبول کر رہا تھا۔ وہ یہ دان سویکار کر کے اس کے بھاگ سنوار رہا تھا۔

جون کا سورج آگ برسا رہا تھا۔ زیبا سجاول کو لے کر کسی نئی سی کالونی کی طرف نکل آئی تھی۔ سکر دوپہر میں سنہرا گولا دونوں ہاتھوں سے بھر بھر کے آگ الٹ رہا تھا۔ دھوپ کے ڈر سے لوگ اندر مکانوں میں چھپے ہوئے تھے۔ سڑک دور دور تک سنسان پڑی تھی۔ وہاں بھیک ملنے کا امکان تو نہیں تھا لیکن تنہائی تھی، خاموشی تھی اور محبت تھی۔ دونوں ننگے پاؤں تارکول کی پگھلی سڑک پر دھوپ دھوپ کھیل رہے تھے گا رہے تھے لہرا رہے تھے۔ وہ محبت ناچ رہے تھے۔

کچرے کے ڈھیر کے ساتھ کچھ پتھر پڑے تھے۔ سجاول نے زیبا کو وہاں بٹھا دیا۔ پھر سجاول نے اپنی قمیض کے دامن سے اس کے پیروں کی مٹی جھاڑی۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی محبت کی اس ادا نے اسے بے حد محظوظ کیا تھا۔ اس کی توجہ کو محسوس کرتا اس کا نیلگوں سیاہ رنگ چمک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک ہیروں کو بھی مات دیتی تھی۔ سجاول نے کچرے کے ڈھیر کو ہلایا تو ایک جوس کا ڈبہ پڑا تھا۔۔ کیسی نعمت غیر مترقبہ تھی۔ اس نے پاس کے نلکے سے اسے دھو کر زیبا کو دے دیا۔ دونوں باری باری گھونٹ بھرنے لگے۔ ان کے قہقہے ان کی دلی خوشی کے گواہ تھے۔ تبھی ایک بکروٹا ادھر آ نکلا۔ زیبا نے اسے گود میں بھر لیا۔ پھر چوم کر چھوڑ دیا۔

ان کی محبت کو الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ان کے حال سے عیاں تھی۔ وہ ان کی ہاتھوں میں بولتی تھی، نظروں سے بکھرتی تھی۔ بڑی سمجھداری سے ایک ہفتے میں اس نے زیبا کو پوری طرح مطمئن کر دیا تھا کہ وہ بھاگ جائے گا۔ لیکن زیبا کے لئے واپس آئے گا۔ وہ اس سے شادی کرے گا۔ زیبا ایک بارہ سال کی لڑکی اس محبت بھرے وعدوں پر کیسے کیسے نہ ایمان لاتی۔ وہ وعدے تو اس کی جبیں کا ستارہ تھے۔ اس کی خوش بختی کا جھومر۔

"میں تھک گیا ہوں زیبا۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ ا س نے لاری اڈے کی دیوار کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں آج تو گرمی بھی تو بہت ہے۔ ٹہر میں تجھے ٹھنڈی بوتل پلاتی ہوں‘‘ زیبا ایک منٹ میں سامنے کے کھوکھے سے دودھ کی ٹھنڈی ٹھار بوتل لے آئی۔

"واہ! بڑی ہوشیار ہے تو تو!‘‘ زیبا نے کچھ اٹھلا کر تعریف کو وصول کیا اور اس کا ماتھا چھو کر چیک کرنے لگی جو پسینے سے ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ اپنے دوپٹے سے ہوا کرتی زیبا فکر مندی سے کبھی اس کی نبض دیکھتی تو کبھی ماتھا۔

"تو نہیں پئے گی؟‘‘ آدھی سے زیادہ بوتل پینے کے بعد سجاول کو اس کا خیال آیا۔ اس کے تحیر کو محسوس کر کے زیبا چہرہ چمک کر ایسا ہو گیا کہ وہ اس کو دیکھتا ہوا کھو سا گیا۔

"میں نے ابھی تو وہ ٹھنڈی ٹوٹی سے ڈھیر سا پانی پیا ہے۔ اچھا اب تو یہیں بیٹھ۔ میں سامنے کا چکر لگا لوں۔ کم کمائی ہوئی تو مار پڑے گی” وہ بولی۔

"میں بھی سامنے لاریوں کی طرف جاتا ہوں۔‘‘

”نہ تو بیٹھا رہ۔ میں بابا کو بول دوں گی۔ تیری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘

”اب ٹھیک ہوں میں۔‘‘ وہ اٹھ کر چل پڑا تھا۔

"اچھا! زیادہ دور نہ جانا۔ تیری طبیعت ٹھیک نہیں۔‘‘ کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔

سامنے حیدرآباد کی بڑی بس لگی تھی۔ کنڈیکٹر آوازیں لگا رہا تھا۔ لوگ ٹکٹ آفس سے ٹکٹ لے کر آ رہے تھے۔ کچھ دیر میں بس بھر گئی۔ ادھر ادھر چوکنی نظروں سے دیکھتا سجاول بھی بس میں سوار ہو گیا۔ اس کے سیٹ پر بیٹھنے کی دیر تھی کہ کنڈیکٹر نے دروازہ بند کر دیا اور بس چل پڑی۔ اپنے دل دھڑکنے کی آواز سنتا وہ سخت گھبرایا ہوا تھا۔۔۔۔ ۔ سارا پنڈا پسینے سے تر تھا۔ اس نے اپنا پھٹا ہوا لباس اتار کر لاری اڈے کے غسلخانے میں چھوڑ دیا تھا۔ اندر وہ اپنا وہی کرتا پجامہ پہن کر آیا تھا جو پہن کر وہ لوگ سنیما جاتے تھے۔ سامنے سکرین پر لگی فلم نے تمام مسافروں کا دھیان اپنی طرف باندھ رکھا تھا۔ اس کے باوجود اسے لگ رہا تھا کہ سب اسی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بس ڈائریکٹ حیدرآباد ہی جانی تھی۔ وہ پوری تسلی کر کے بیٹھا تھا لیکن پھر بھی ہر جھٹکے ہر موڑ پر اس کا سانس رک جاتا تھا۔

اس نے خوب سوچ سمجھ کر زیبا کو اپنے معین پروگرام سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ پہلے وہ تو کامیاب ہو جاتا۔ اور اس نے صبح کا وقت فرار کے لیے چنا تھا۔ کیونکہ زیبا یا اس کے دوسرے ساتھی اس کو پہلے اپنے اڈوں پر ہی ڈھونڈھتے رہتے۔ بستی جا کر مامن اور جاکھے کو خبر کرتے کہیں شام ہو جاتی۔ جاکھا تو بستی میں ہی تھا۔ اور مامن کا اڈا ان سب سے بہت دور تھا۔ کچھ جوان تو کچھ دور کے شہروں میں بھی جاتے تھے۔ اس لیے اس کو انہی علاقوں میں ڈھونڈا جاتا۔۔۔ حیدرآباد کی طرف کسی کا خیال نہ جاتا۔۔۔

٭٭٭٭

جگمگاتی روشنیاں رات کی سیاہی کو نگل رہی تھیں۔ انسانوں کے ہجوم سے بچتا بچاتا وہ سڑک کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ تنہائی اور اجنبیت اس کو گھیر رہی تھی۔۔۔ دل چاہتا تھا کہ واپس چلا جائے اور مامن کے پیروں میں گر کر معافی مانگ لے۔ کچھ تو رعایت کرے گا وہ۔۔ آخر کو وہ اس کا بیٹا تھا۔ گو کہ اس قبیلے میں ایسا کوئی رواج نہ تھا۔۔۔۔ ۔

جاکھے کے سخت ہاتھ۔ اس کا چمڑے کا کوڑا۔۔۔۔ کھال ادھڑنے کے احساس سے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سارے پچھلے زخم دکھنے لگے تھے جیسے۔۔۔۔ ۔!! بے اختیار ایک درد بھری کراہ منہ سے نکل گئی۔ اب کے تو سزا بھی بہت سخت ہو گی۔

پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔۔۔ یہی ان کا اصول تھا۔ بھاگنے والے کا پاؤں کاٹ دیا جاتا تھا۔ اس نے پاؤں کٹتا نہیں دیکھا تھا۔ لیکن ایسی عبرت آمیز داستانیں اس کے ذہن میں اس طرح گڑی ہوئی تھیں کہ وہ اس کو اپنا کٹا ہوا پاؤں نظر آ رہا تھا۔۔۔۔ درد کی ٹیسیں ناقابل برداشت تھیں۔ ذلت اور معذوری کے احساس نے اس کو بری طرح جکڑ لیا تھا۔۔ بابو بھگوڑا اپنے کٹے ہوئے پاؤں کے ساتھ ایک پاؤں پر اچھلتا داستان سے نکل کر سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔

واپسی کی کوئی صورت نہیں۔۔

پاس سے سیٹی بجاتے موٹر سائیکلوں پر سوار کچھ منچلے گزرے تو اس کے قدم آگے بڑھنے سے انکاری ہو گئے۔۔

کیسی غلطی ہو گئی اس سے؟ وہ کیوں آ گیا تھا۔ کہاں رہے گا؟ کیا کرے گا؟ اس کو تو کچھ بھی نہیں آتا تھا۔۔ سوائے۔۔۔۔!!!!

اس نے اپنے سیدھے ہاتھ کو دیکھا۔۔۔۔ ۔۔ سامنے پھیلا کر۔۔۔۔۔

نہیں۔ نہیں۔۔۔۔۔ وہ بھیک نہیں مانگے گا۔ اگر بابو بھگوڑا ٹانگ کٹنے کے باوجود ایک ٹانگ سے بھاگنے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں۔ اس کے تو دونوں پاؤں سلامت تھے۔

وہ محنت مزدوری کر لے گا۔ لیکن واپس نہیں جائے گا۔ فیصلہ ہو گیا تھا۔ سارے ڈر خوف بھاگ گئے فیصلے کے ساتھ ہی۔ اس نے اپنے آپ کو تھپکی دی۔ اور قریب کے چائے کے کھوکھے میں چلا گیا۔ بسکٹ کھا کر چائے پی لی۔ اور وہاں سے نکل آیا۔ وہ جلد از جلد لاری اڈے سے دور نکل جانا چاہتا تھا۔ پیدل چلنے کی عادت کی وجہ سے اس کو کوئی دقت نہیں تھی۔ سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا وہ کافی دور نکل آیا تھا۔ بڑا رونق والا بازار تھا۔ رات کے اس پہر بھی لوگ بازار میں بھرے ہوئے تھے۔ چاروں طرف محتاط نظروں سے دیکھتا ہوا وہ چلتا رہا۔ اسے رات بسر کرنے کے لئے کسی جگہ کی تلاش تھی۔

شاید یہ کوئی پارک تھا۔ اس کے بیرونی گیٹ کے ساتھ والے بینچ پر کوئی سویا ہوا تھا۔ کچھ دور ایک بینچ خالی تھا۔ وہ اس پر بیٹھ گیا اور کب سو گیا اسے خبر ہی نہیں ہوئی۔ صبح کے وقت اس کی آنکھ خاکروب کے جھاڑو کی آواز سے کھلی۔ خاکروب نے دونوں ٹانگوں کے بیچ میں جھاڑو کو دبا کر بیڑی سلگاتے ہوئے غور سے اس کی طرف دیکھا اور سر کے اشارے سے پوچھا،

"کون ہو بھائی؟‘‘

بنا کوئی جواب دئے وہ اٹھ کر ایک طرف کو چل دیا۔ کچھ دور جا کر پلٹ کر دیکھا تو وہ اپنے کام میں مگن تھا۔ پہلی ہی رات امن سے گذر گئی یعنی اس شہر نے اسے قبول کر لیا تھا۔ آج اس کے قدموں میں اعتماد تھا۔ وہ چوکنا ضرور تھا لیکن خوفزدہ نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو اس نے خوف پر قابو پا لیا تھا۔۔۔۔ اب اسے کام کی تلاش تھی۔ ایک چھوٹے سے ہوٹل سے ناشتہ کر کے وہ بازاروں میں پھرتا پھرتا اس طرف آ نکلا جہاں چوڑیاں بنانے کا کام ہو رہا تھا۔ وہ انہماک سے مصروف لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ یہ ساری بستی ہی چوڑیاں بنانے والوں کی تھی۔

’’کون ہو؟ کدھر سے آئے ہو؟‘‘ پوچھنے والی ایک بوڑھی عورت تھی۔

’’مجھے کام چاہئے؟‘‘ اس نے ہکلا کر جواب دیا۔

’’کہاں رہتے ہو؟‘‘ بڑھیا نے پوچھا۔

"لاری اڈے کے پاس‘‘ بڑی دیر سے سوچے ہوئے جواب اس کی زبان سے ادا ہو گئے۔

"ساتھ میں کون ہے؟‘‘

"ساتھ میں۔۔۔۔ ۔! ساتھ میں کوئی نہیں کہتے کہتے زبان کو بڑی مشکل سے روکا۔

"گھر میں کون کون ہے؟‘‘ باتیں سنتی پاس کھڑی لڑکی بولی۔

"یا گھر سے بھاگ آئے ہو؟‘‘ لڑکی نے جملے کے آخر پر خود ہی قہقہہ لگایا۔ اس کے قہقہے نے سجاول کی گھبراہٹ کا پردہ رکھ لیا۔

"دادی دادی! جلدی چلو دادا بلا رہے ہیں۔‘‘ چھوٹے سے بچے نے بڑھیا کا پلو کھینچا۔

"آتی ہوں بچے۔۔‘‘ جاتے جاتے وہ عورت سر پر پیار دے کر بولی،

"کل اپنی ماں کو لے کر آنا۔ کام مل جائے گا۔‘‘

ماں کو!! اس کے لمس سے بے اختیار جیراں ماسی کی یاد اس کے دل میں امڈ آئی تھی۔ جیراں ماسی اور زیبا۔۔۔۔ لیکن اس نے ان کے خیال کو فوراً جھٹک دیا۔ اس کا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔ ۔ وہ کسی کو نہیں جانتا۔ وہ کوئی اور کام ڈھونڈھ لے گا۔ جہاں کوئی ایسی باتیں نہ پوچھے۔ ہاں! بالکل وہ ایسا ہی کرے گا۔

٭٭٭٭

گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے کچھ چہل پہل کا احساس ہوا۔ اندر لاؤنج میں بابا کے ساتھ ملک انکل اور ماہم بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ میں کمرے میں جانے کی بجائے سیدھا ان کی طرف ہی آ گیا۔ سامنے ٹیبل بہت سارے گفٹ پیکس سے بھری ہوئی تھی۔

”سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ انکل نے مجھے گلے لگایا۔

”اٹس آ بگ سرپرائز۔‘‘ میں واقعی حیران ہوا تھا۔

”ماہم کا اصرار تھا کہ پارٹی رکھی جائے۔ لیکن میں نے منع کر دیا کہ جانے تم کو کیسا لگے۔‘‘

”بہت شکریہ انکل۔ میں پارٹیوں سے ڈنرز سے تنگ آ گیا ہوں۔‘‘

”ہاں شاہ نے بتایا کہ آج کل تم صرف سبزیاں اور دالیں کھا رہے ہو۔‘‘

”بالکل انکل۔ میرا وزن بڑھ گیا تھا۔‘‘

”لیکن آج تو تم کو ہماری طرف ڈنر کے لئے آنا ہی ہے۔‘‘

”ماہم کی آنٹی بھی آئیں ہوئی ہیں امریکہ سے۔ ان کو تم سے ملنے کی بہت خواہش ہے۔‘‘

”آج؟‘‘ میں نے بابا کی طرف دیکھا۔ وہی مجھے اس مشکل سے نکال سکتے تھے۔ آج تو مجھے ایڈوکیٹ صاحب سے مل کر دیا کی ساری ڈیلز فائنل کرنی تھی۔ ان کے پاس آج ہی کا وقت تھا۔ صبح وہ ابراڈ جا رہے تھے۔

”ماہم بیٹا آج تو سبط کو معاف کر دو۔ آج تو ہماری میٹنگ پہلے سے طے ہے۔ البتہ کل آپ سب ہماری طرف ڈنر کریں۔ آپ کی آنی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔‘‘ بڑی مشکل سے ہم نے ان کو راضی کیا۔ پھر بھی ماہم کا موڈ آف تھا۔ رات فون پر بہت سارے وعدے کر کے میں نے اسے منایا۔ میں تو سخت الجھن کا شکار تھا۔ بجائے مدد کے ماہم تو میرے لئے درد سر بنتی جا رہی تھی۔ اس کے نزدیک زندگی ایک بار ملنے والی نعمت تھی۔ جسے وہ کسی فضول اور چیپ قسم کے سوشل ورک کے پیچھے ضائع نہیں کر سکتی تھی۔ ایک دل میں خیال آتا کہ بابا کو ساری صورتحال بتا کر ماہم سے جان چھڑا لوں۔ لیکن بابا کی روز بروز گرتی صحت مجھے روک دیتی۔

٭٭٭٭

”سبط کیا مسئلہ ہے تمھارے ساتھ۔ کس قسم کا سوشل ورک کرنا چاہتے ہو تم آخر۔۔۔ سارا سارا دن بھکاریوں کے پیچھے پھرتے ہو…!‘‘ وہ بے حد غصے میں تھی۔ میں اتنا مصروف تھا کہ اس سے ملنے کے وقت نکال ہی نہیں پا رہا تھا۔

"میری زندگی کا مقصد یہی ہے ماہم میں ان بھکاریوں کو ہاتھ کی کمائی کی اہمیت سمجھانا چاہتا ہوں۔ میں ان کے ہاتھ سے کشکول لے کر قلم پکڑانا چاہتا ہوں۔‘‘

’’او کم آن سبط! کوئی فرق نہیں پڑنے والا ان بھکاریوں کو۔‘‘

’’اتنی حقارت سے مت بولو ماہم، یہ بھی انسان ہیں۔ بس ان کو اپنے مرتبے کا احساس نہیں۔‘‘

"تمھیں تو ہائجین کا بھی احساس نہیں رہا۔۔۔ کل تم نے اس بھکارن عورت کے بچے کو چھو لیا تھا۔۔۔‘‘

"تو کتنا پیارا اور بھولا بچہ تھا ماہم وہ۔۔۔۔ میں تو اس کو گود میں لینا چاہتا تھا۔ مگر وہ مجھ سے ڈر رہا تھا۔‘‘

ماہم نے جھرجھری لی۔ اس کو تو تصور سے ہی ابکائی آ رہی تھی۔۔۔۔

’’ٹھیک ہے اپنا شوق جلد پورا کر لو شادی سے پہلے پہلے۔۔‘‘ ماہم کے پاپا کا اصرار تھا کہ ہم شادی کے بعد وہ دونوں اپنے کاروبار سمیت امریکہ شفٹ ہو جائیں۔۔ میں اس بارے میں خاموش تھا۔ مجھے بابا کی صحت کی فکر تھی۔ میری خاموشی کو ماہم اقرار سمجھ رہی تھی۔

"میرے مشن کا حصہ بن جاؤ ماہم۔ جب کوئی انسان اس طرح بھیک مانگتا ہے ناں اپنے مرتبے سے گر کر تو ساری انسانیت نوحہ کناں ہو جاتی ہے۔ خدا نے یہ ہاتھ محنت کرنے کے لیے دئے ہیں، انسان کے آگے پھیلانے کے لیے نہیں۔‘‘ میں نے اس کو سمجھانا چاہا۔

"یہ کتابی باتیں ہیں سبط۔۔۔ ہزاروں بھکاریوں میں سے کس کس کو سمجھاؤ گے؟ اس سے بہتر نہیں کہ چیریٹی کر دو۔‘‘

"تم کس چیریٹی کی بات کرتی ہو ماہم؟ جو رقم ہم نکالتے ہیں اس سے ہمارے اثاثوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔ چیریٹی کرنی ہے تو آؤ میرے ساتھ اپنے وقت میں سے اپنی صلاحیتوں میں سے کچھ دان کر دو۔ آؤ ان اندھیروں میں کچھ ہمیشہ رہنے والے دئے روشن

کر دیں۔‘‘

"میری ٹائپ ایسی نہیں ہے سبط۔ مجھے ان راستوں کی طرف نہ بلاؤ۔۔۔۔ مجھے ایسا کچھ پسند نہیں۔‘‘ وہ تلخی سے کہتی پلٹ گئی۔

٭٭٭٭

محبت کا تعلق کسی خاص رنگ و نسل سے ہوتا تو باقی ماندہ نسلیں حسرت و یاس سے فنا ہو جاتیں۔ بھلا عشق کے بغیر    بھی کوئی زندگی ہے۔ بھلا محبت کے جوہر کے بنا بھی انسان، انسان کے مرتبے پر فائز رہ سکتا ہے!! عشق کا موتی جس دل کو سیپ کے طور پر چنتا ہے وہ دل لازوال زندگی پا جاتا ہے۔ امر ہو جاتا ہے۔

عشق اول در دل معشوق پیدا می شود

’’اگلے برس میرا بیاہ ہو جائے گا۔۔ دوسرے شہر میں رہتا ہے کالی۔ پھر کیسے ملوں گی میں تم سے۔‘‘ وہ پھر اپنے مرلی کے قدموں میں بیٹھی

اس کی آرتی اتار رہی تھی۔

”بہت کڑوا ہے کالی۔ اپنے رنگ اور نام سے بھی جیادہ کڑوا۔‘‘

”پر بابا کی بہن کا بیٹا ہے ناں وہ۔۔۔ اسی کا پہلا حق ہے مجھ پر۔۔ وہ نہیں چھوڑنے والا اپنا حق۔۔۔!!‘‘

"چھوڑے بھی کیوں۔ میرے جیسے چھوری پوری بستی میں نہیں ملے گی اس کو نہ سکل میں نہ اکل میں کوئی بھی تو نہ ہووے میرے جیسی چھوری بلادری میں — بیاہ تو مجھے اس سے ہی کرنا ہو گا۔۔ پر میرا من سدا تمھارا رہے گا۔‘‘ آنسوؤں نے اس کے چہرے کو تر کر دیا تھا۔ وہ سسکیاں لیتی ہوئی اس سے وعدہ کر رہی تھی۔

کیسا معصوم تھا یہ وعدہ!

کیسی عجیب تھی یہ محبت!!

"کس سے باتیں کرتی ہے میرا؟؟‘‘ ماں نے اس کے آنسو اپنی اوڑھنی سے پوچھ ڈالے۔

"ماں! تو نے کبھی پیار کیا ہے کسی سے؟‘‘

"یہ کیسی بات کرے ہے میرا۔۔۔ تجھے سک ہووے ہے میرے پیار پر!‘‘

"نہیں ماں! نہیں یہ والا پیار نہیں۔۔۔۔ تو نہیں سمجھے گی ماں۔‘‘ ماں تو خوب سمجھ بھی رہی تھی اور سمجھا بھی رہی تھی۔۔۔

"پیار تو وہی ہووے ہے چھوری جو میں تجھ سے کروں ہوں، تیرا بابا تجھ سے کرے ہے۔۔۔۔ باقی سب چھل ہووے مایا ہووے۔‘‘

"کیسے چھل ہووے؟‘‘ وہ تڑپ گئی۔ جس پیار کے دئے کو وہ اپنا لہو پلا کر جلا رہی تھی۔۔۔ اس پر لانچھن لگا رہی تھی ماں۔ اس کو مایا کہہ رہی تھی۔

"دیکھ چھوری یہ پیار ویار کچھ نہ ہووے۔ روگ ہووے ہے یہ۔۔۔ سارا پنڈا جل جاوے۔۔ جی جان جل جاوے۔ ہاتھ کیا آوے۔۔ کالک؟‘‘

"نہ چھوری نہ۔۔۔ بس اٹھ جا اب۔۔۔ تیرا بابا آتا ہو گا۔ اٹھ کے باہر آ جا۔ آ کے چولہا جلا۔ تیرا بابا قیمہ لایا ہے آج۔‘‘ ماں نے اس کے سامنے زندگی کا تازہ سبق پڑھ دیا۔ سیدھا اور صاف۔

"تو بس میں بیاہ ناں کروں گی۔۔!‘‘ وہ ماں کے پیچھے پیچھے باہر چلی آئی۔

”بیاہ ناں کرے گی تو کیا کرے گی بول۔ جبان دی ہے کالی کی ماں کو تیرے بابا نے۔ ساری بلادری کے چھوروں سے اچھا ہے کالی‘‘

”تو کالی کو نہ بول دے ماں۔ میں بیاہ نہ کروں گی۔‘‘

’’کالی کو ناں بول دوں۔۔۔ اس کاگت (کاغذ) کے واسطے؟‘‘ اب کے اس نے غصے سے کانپ کر کہا۔

’’ادھر لا یہ کاگت۔۔۔ آگ پر دھروں اس کو۔۔۔!‘‘ ماں نے ادھر ادھر ہاتھ مارا۔

’’ماں میں بھی آگ پر بیٹھ جاؤں گی جو تو نے ایسی بات کی۔۔‘‘ میرا نے وہ ٹکڑا سینے سے لگا لیا۔ اس کے لہجے میں ایسی آنچ تھی کہ ماں پوری کی پوری جھلس گئی۔ اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کی طرف دیکھا جس نے جانے کب اپنی ذات میں خود سیندھ لگا لی تھی۔ اب اس سیندھ سے اس کا وجود رس رہا تھا قطرہ قطرہ۔۔۔۔ وہ گھل رہی تھی، فنا ہو رہی تھی۔۔

٭٭٭٭

"چھوڑ دو چھوڑ دو مجھے۔ جانے دو۔۔

"ماسی، جیراں ماسی، مکھیا! بچاؤ! بچاؤ!‘‘

وہ رات کے وقت تندور سے روٹی اور دال لے کر تندور کی پچھلی طرف نکل آیا تھا جہاں اندھیرا تھا۔۔

اسے شیطانی اندھیرے نے نگل لیا تھا۔ وہ کہیں کا نہیں رہا تھا۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں تھا وہ۔۔۔ اس کا جسم ہی نہیں اس کی روح بھی زخموں سے اٹ گئی تھی۔ شیطانی رقص جاری تھا۔

کاش وہ پیدا نہ ہوا ہوتا۔

کاش وہ بھکاری نہ ہوتا۔ اگر بھکاری ہی تھا تو اس کو بھیک مانگنے سے نفرت نہ ہوتی۔۔۔

کاش وہ بھاگ کر اس عقوبت خانے میں نہ آیا ہوتا۔۔

بے بسی کی انتہا تھی۔ جانے کب سے وہ ان شیطانوں کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا۔۔۔ اس اندھیر نگری میں دن رات کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ وہ آنکھیں بند رکھتا یا کھلی۔ وہاں صرف تاریکی تھی۔۔۔۔ چیخ چیخ کر اس کا گلا بند ہو چکا تھا۔ وہ بہت سارے تھے ایک جیسے ظالم اور خون آشام۔ سفلیت کے مارے وہ نہ جانے کیسے درندے تھے۔ قوم لوط کے جانشین۔۔

پانی پانی کی پکار اس کے جسم کے ہر مسام سے پھوٹ رہی تھی۔۔ لیکن اس تاریک صحرا میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں تھی۔۔۔۔ ۔ جانے کتنی بار وہ بے ہوش ہوا اور کتنی بار ہوش میں آیا۔

٭٭٭٭

کتنا خوبصورت آبشار تھا، ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔۔۔۔۔

پانی میں ماکھی گھلا ہوا تھا جیسے۔۔۔۔۔۔ پی پی کر اس کا پیٹ بھر گیا تھا۔ لیکن نیت سیر نہیں ہو رہی تھی۔۔۔

ایک چشمہ دودھ کا تھا۔۔ ایسا ٹھنڈا دودھ۔۔۔ جیسا زیبا نے پلایا تھا۔ وہ بوتل تو بس چار گھونٹ تھی۔ ادھر پینا شروع کیا ادھر ختم۔ لیکن یہ تو ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔۔۔ وہ رہ رہ کے پیتا۔۔ کیسی گہری، سکون سے بھری نیند آتی تھی اسے پی کر۔۔۔۔۔

وہیں مخملی سبزے پر وہ سو جاتا۔ سبز درختوں کی چھاؤں میں، اپنی ہتھیلی کا تکیہ بنائے۔۔۔۔

تب اس نے جان لیا کہ وہ جنت تھی۔۔۔۔

تب اس کے دل کے سارے شکوے ختم ہو گئے تھے۔۔۔

وہ ذلت اور دکھ سب بھول گیا تھا۔ نجانے وہ کتنی دیر وہ وہاں رہا۔

٭٭٭٭

کراہ کر اس نے آنکھ کھول دی۔

ایک چھناکے سے جنت کا تصور پاش پاش ہو گیا۔۔۔۔

جیراں اس کے بدن پر چندن کا لیپ کر رہی تھی۔ جاکھا کوئی کڑوا سا عرق اس کا منہ کھول کر ٹپکا رہا تھا۔۔ اس کو آنکھ کھولتا دیکھ کر سب ہی شکر کا کلمہ پڑھنے لگے اور ایک آنسو اس کی آنکھ کے کونے سے ٹپک گیا تھا۔۔۔۔ آہ!!

٭٭٭٭

میں نے وقت کے پر کھول دیئے تھے، اس کو اپنی پسند ناپسند سے آزاد کر دیا تھا۔۔۔ اب میں وقت کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ اس کی مرضی کے مطابق۔

جاکھن اور سورج نے مجھے ڈھونڈھ نکالا تھا۔ میں مرنے کے قریب تھا لیکن مرا نہیں تھا۔ جب انہوں نے مجھے حیدرآباد کے اس ویرانے میں پڑا ہوا پایا تھا جہاں وہ ہیجڑے مجھے مردہ سمجھ کر پھینک گئے تھے۔ وہ مجھے واپس بستی میں لے آئے تھے۔

میرا زندہ بچ جانا ایک معجزہ تھا۔

قدرت نے مجھے فرار کی سزا خود ہی دے دی تھی۔

نفرت اور ذلت نے مجھے مزید مسخ کر دیا تھا۔ میں دنوں مہینوں بستر پر پڑا رہا۔ لیکن کب تک؟؟ میرے بدن کے گھاؤ بھر چکے تھے۔ میری روح کے چھید نہ بھرنے والے تھے۔ میں کب تک ان کا غم منا سکتا تھا۔ میں اٹھ بیٹھا۔ کئی مہینوں کے بعد جب میں جھگی سے نکلا اور بستی کا چکر لگایا تو مامن نے میٹھے چاولوں کی دیگ پکوا کر سب کو کھلائی۔

راجا اور سورج اٹھتے بیٹھتے مجھ پر ہنستے لیکن مجھے کسی کی پرواہ نہیں رہی تھی۔ میں مامن کے ساتھ کام پر جانے لگا تھا۔ وقت کی تیز ترین چرخی پر زندگی کا سوت کتتا رہا۔۔۔ کتتا رہا۔ یہاں تک کہ میں وقت اور زندگی دونوں کا سب حساب کتاب ہی بھول گیا۔۔۔۔۔

مامن مکھیا کافی بوڑھا ہو چکا تھا۔ لیکن اپنی ذمہ داری بڑی سمجھداری سے نباہ رہا تھا۔ جب کے جاکھا ہیضے کا شکار ہو کر مر گیا تھا۔ اب موہن اس کا نائب تھا۔ راجا اور سورج کی شادی ہو چکی تھی۔ زیبا کی ماں کئی مرتبہ مجھ سے شادی کے لیے کہہ چکی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا تھا۔ بھلا میں کیسے شادی کر سکتا تھا۔۔

شادی کے نام سے ہی میرے ذہن میں وہ تاریک راتیں ابھرے ہوئے نوکدار نقش کی طرح اگ آتی تھیں جس کی ہر حرکت اور سکوت چبھتی تھی۔ یہ نقش گزرتے وقت کے ساتھ مزید گہرا اور کاٹ دار ہو گیا تھا۔

ہر گزرتا دن میرے ذہن کو مزید کڑوا کرتا چلا گیا۔۔۔۔ کوئی گرد اس نقش پر جم نہ سکی تھی۔

"زیبا میں تجھ سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔‘‘ اپنے آگے پیچھے پھرتی زیبا پر میں چلایا۔

”تو کس سے کرے گا؟‘‘ پل بھر میں اس کی آنکھوں میں باڑھ آ کھڑی ہوئی تھی۔

"کسی سے بھی نہیں؟ میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ جا، جا کر اپنی ماں کو بتا دے۔۔۔۔‘‘

"اب کے اس نے ایسی بات کی تو اسے بھی کاٹ ڈالوں گا اور تجھے بھی۔۔۔‘‘ منہ پر ہاتھ رکھے وہ اپنا رونا روکتی ہوئی بھاگ گئی۔ رات مامن نے مجھے اپنی جھگی میں بلایا۔ تو اس کے پوچھنے سے پہلے ہی میں نے اقرار کر لیا،

"ہاں میں نے کہا ہے زیبا سے۔۔۔۔ اور تم سے بھی کہتا ہوں مکھیا کہ سب کو بول دو کہ مجھ سے جس نے بھی ایسی بات کی میں اس کو کاٹ ڈالوں گا۔‘‘ کہہ کر میں رکا نہیں۔ بھلا بچھڑنے کے لئے اس ہاڑ ماس کی موت ضروری تھوڑا تھی۔ اس جگ میں کتنے ہی مردے چلتے پھرتے تھے بولتے تھے ہنستے تھے۔

٭٭٭٭٭

بھلا زندگی کا فلسفہ پڑھنے کے لئے انسان کو کسی مدرسے کسی مکتب کی ضرورت ہے۔ وہ فلسفہ تو انسان کے اندر اس کے وجدان میں درج کیا جا چکا ہے روز ازل سے۔ انسان کی اولین نسل بھی اس بنیادی نقش کا انکار نہیں کر سکتی جو اس کی روح میں درج کر دیا گیا ہے۔

’’ہم تو بھکاری ہیں۔۔۔۔۔۔ جس کی چوکھٹ پکڑ لیویں ہیں چھوڑیں ناہی۔‘‘

"بابا تم ہی تو کہتے ہو انسان بھکاری ہے۔ اس کو پہلا سبق مانگنے کا ہی سکھایا ہے پیدا کرنے والے نے۔‘‘

”تم ہی تو کہتے ہو ہمیسہ کہ نر گدا بنو، نر گدا۔‘‘

”در پکڑنا تو بس نر گدا کو آوے ہے۔ نر گدا تو لے کے ہی در چھوڑے ہے۔ اور جو بنا لیے چھوڑ دے وہ خر گدا کہلاوے ہے۔ وہ بھکاریوں کے نام پے دھبا ہووے ہے‘‘

"تو اب کا ہے روکتے ہو مجھ کو۔۔۔۔ ۔ میں نے پکڑ لیا جس کا در پکڑنا تھا!‘‘

”مجھے بیاہ نہیں کرنا کسی سے بھی نہیں کرنا بابا۔ میں یہ چوکھٹ نہ چھوڑوں گی۔‘‘

چندو بہت دھیان سے اپنی بیٹی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کی لاڈلی غلط نہیں کہتی تھی۔ یہ سب سبق تو اس نے لوریوں میں اسے سنائے تھے۔ اس کی ماں نے اپنے دودھ کے ساتھ پلائے تھے۔۔ بھکاریوں کا فلسفہ ان کا گرنتھ ہی تو سنا رہی تھی وہ۔

کچھ دنوں سے تو اس کی حالت ہی اور ہو گئی تھی۔ اس کی ماں نے تو چپکے چپکے کئی ٹونے ٹوٹکے کر ڈالے تھے۔ تعویذ دھاگے کر لئے تھے۔ ان کو فکر تھی کہ کالی کے گھر تک کہیں ان کی بیٹی کی ایسی شہرت نہ پہنچ جائے۔ اوپر سے اسکول والا بابو ہر دوسرے روز چلا آتا تھا۔ ان کو سمجھانے۔ لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ پھر پہنچ جاتا تھا ان لوگوں کو منانے۔ میرا تو اس کی بات سنتے ہی ضد پکڑ بیٹھی تھی پڑھنے کی۔

"بابا مجھے پڑھنا ہے۔۔۔‘‘ اب تو ایک ہی رٹ تھی اس کی اٹھتے بیٹھتے۔

"ماں مجھے پڑھنے بھیج دے‘‘

"چھوری چریا ہو گئی! کبھی بولے ہے بیاہ ناہی کروں گی۔۔۔ کالی کو منع کر دو۔

اب پڑھنے کی جد کرے ہے۔‘‘

"ساری بستی میں عجت رول دیوے گی۔‘‘ کبھی غصہ نہ کرنے والی ماں بپھر کر کھڑی ہو گئی تھی۔

"منع کر دے بابو کو۔ تو نہ کرے گا تو اس کی ہمت نہ ہووے گی پھر سے ادھر آنے کی۔۔۔ مانگنا ہے ہمارا کام۔ بس۔۔۔ سمجھ لے تو بھی چھوری۔ کالی کے گھر سندیسہ بھیج دے چندو۔ بس دو چار دن میں آ کر اپنی امانت لے جاویں۔ ‘‘ بیوی کی بات سمجھ آتی تھی۔ اس لیے چپ چاپ بیٹھا تھا چندو۔

”ماں ایسا نہ جلم نہ کر ماں۔‘‘ وہ کر لانے لگی۔

”بابا!‘‘ اس کی پکار سے لرز گیا تھا چندو۔ اکلوتی بیٹی تھی۔

اس نے روتی ہوئی میرا کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ تپ رہا تھا۔۔۔ وہ تو بخار سے جل رہی تھی۔

"میرا کی ماں! دیکھ تو میرا کو کیسا تاپ چڑھا ہے‘‘ .تاپ کا سن کر ماں کا کلیجہ دہل گیا مگر لہجہ وہی رکھ کے بولی،

”جاتی ہوں۔ دینٖے سے کاڑھا لے کر آتی ہوں۔ سام تک بھلی چنگی ہو جائے گی۔‘‘

میرا کا تاپ اگلے روز اور تیز ہو گیا تھا۔ کاڑھا پی پی کر زبان اینٹھ گئی۔ چھالے نکل آئی۔ مگر بخار نہ اترا۔

ہفتہ گزرا تو پڑھائی والا بابو پھر آ گیا۔ میرا کے باپ کو سمجھا بجھا کے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ کئی دن میرا کو دوائیاں دی گئیں، سیرپ پلائے گئے، گنے کا رس اور مٹھوں کا رس چندو دو وقت لا کے پلاتا رہا۔ لیکن میرا کا تاپ نہ اترا۔ جس دن وہ بے ہوش ہو گئی تو ماں باپ کے ہاتھ پاؤں سے جیسے جان ہی نکل گئی۔ چندو نے بابو کا کارڈ نکال کے اس کو فون کر دیا۔ وہ فوراً ہی ڈاکٹر کو لے کر پہنچ گیا۔

اور میرا کے آنکھیں کھولتے ہی اس کے ماں باپ نے اس کو پڑھانے کا وعدہ کر لیا۔ ان کے حامی بھرتے ہی مانو اسے نئی زندگی مل گئی۔ کچھ دن بیتے تو وہ بھلی چنگی ہو کر وہ دیا پہنچ گئی۔

٭٭٭٭

آج دیا کا افتتاح تھا۔ گیارہ خاندانوں نے ہمیں اپنے پندرہ بچے دئے تھے۔ ہم نے یہ بچے ان سے خریدے تھے۔۔ پندرہ بچوں کے علاوہ دو نوجوان جوڑوں اور ایک لڑکی کو ہم قائل کر کے لائے تھے۔۔ ان کو دیا میں ہی نوکری اور رہائش فراہم کی گئی تھی۔ افتتاح کی تقریب کافی بڑے پیمانے پر منعقد کی گئی تھی۔ اخباروں اور چینلز نے اس کو خوب کوریج دی تھی۔۔۔

بابا کی خوشی دیدنی تھی۔ میں نے ان کو کبھی ایسے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آج وہ ہنس رہے تھے۔۔۔۔۔۔ کھلکھلا کر معصوم بچے کی طرح ساری زندگی میں نے ان کو صرف اس مقصد کے لیے کوشاں دیکھا۔۔ انہوں نے بہت محنت کی۔ بہت کمایا۔ رقم جمع کی۔۔۔۔ صرف اس مقصد کے لیے۔ ورنہ وہ بے حد سادہ آدمی تھے۔ بہت بچپن سے انہوں نے مجھے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ کسی بھی مانگنے والے کو دیکھ کر وہ جذباتی ہو جاتے۔

’’انسان جب اپنا منصب حقیقی فراموش کر بیٹھتا ہے پھر ایسے اسفل اور ارذل کام اس سے سرزد ہوتے ہیں۔۔۔ ہم نے ان کو واپس انسانوں کے درجے تک پہچانے میں ان کی مدد کرنی ہے۔۔۔ ان کا سہارا بننا ہے۔۔ ان کے ہاتھ سے کشکول لے کر ان کو محنت کی لذت سے آشنا کروانا ہے۔‘‘

"سبط ایک بار ایک بار جب انسان محنت کا ثمر چکھ لیتا ہے ناں پھر اس کو کوئی بھکاری نہیں بنا سکتا۔۔۔۔ تم ایک مزدور کو کبھی بھیک مانگتے ہوئے نہیں دیکھو گے۔ چاہے اس پر کیسی تنگی وارد ہو جائے۔۔‘‘

"لیکن ایک بھکاری کو مزدور بنانا بہت مشکل ہے۔ اس کے لیے جوگ لینا پڑتا ہے۔ آرزوؤں کا ارمانوں کا لہو جلانا پڑتا ہے برسوں۔۔ تب ایک بھکاری مزدور بنتا ہے۔۔۔ اپنے پسینے کی کمائی کھانے والا خوش بخت مزدور۔۔۔۔‘‘

٭٭٭٭

مامن مکھیا کی طبیعت خراب تھی۔۔ سب بستی میں پریشان تھے۔ رات کے کھانے کے بعد اس نے نیا مکھیا چننے کے لیے سب بستی والوں کو اپنی جھگی کے باہر اکٹھا کر لیا تھا۔ سب بیٹھ گئے تو مامن کو سہارا دے کر موہن لایا اور اس کی کھاٹ پر بٹھا دیا۔ دھیرے دھیرے اس نے بات شروع کی۔

"بستی کا اصول تم سب جانتے ہو۔ مکھیا کی بات ہی ہمارے لوگوں کا اصول ہے۔ جو وہ کہہ دے تم سب کو وہی ماننا ہو گا۔۔ نہ ماننے کی سزا دینے کے لیے سورج اور موہن موجود ہیں۔۔۔۔ کمائی کی بانٹ کا طریقہ نیا مکھیا طے کرے گا۔‘‘

”اب میں نئے مکھیا کا نام لیتا ہوں۔‘‘ مامن نے چاروں طرف نظر گھمائی۔۔

’’سورج اور راجا کہاں ہیں؟‘‘ کھلے ہوئے چہرے لیے پل بھر میں دونوں مامن کے قدموں میں بیٹھ گئے۔

سجاول ادھر آؤ۔‘‘

میں یہاں ہوں۔ اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔

"ادھر آؤ‘‘ مامن نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔ اور ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھاٹ پر بٹھا لیا۔

’’سجاول ہے تمھارا نیا مکھیا۔ راجا اور سورج اس کے ساتھی ہوں گے۔‘‘ مامن بول رہا تھا۔

کسی کو کچھ بولنا ہے؟”

’’نہیں۔ نہیں‘‘ بھن بھن کرتی آوازیں آئیں۔

’’تو اپنے مکھیا کا سمان کرو‘‘ مامن کے خاموش ہوتے ہی سب سے پہلے جیراں ماسی نے آ کر اس کی بلائیاں لیں۔ اس کا گھٹنا چھوا اور اپنی کمائی اس کے قدموں میں رکھ دی۔ بس اس کے بعد تو ایک ایک کر کے سب آتے بدھائی دیتے۔ گھٹنا چھوتے اور کمائی اس کے قدموں میں رکھ دیتے۔

سورج نے مامن کا اشارہ سمجھ کر رقم گننی شروع کر دی۔ اور راجا سب کو لائن سے بھیجنے لگا۔۔۔

جب آخری آدمی بھی کمائی رکھ گیا۔ تو مامن بولا،

اب تمھارا نیا مکھیا تم سے بات کرے گا۔

"آج کی ساری کمائی سب کو واپس کر دی جائے۔ اب سبھا ختم ہے‘‘

سجاول کے کہتے ہی سب سجاول مکھیا کے نعرے لگانے لگے۔ کچھ دیر تک وہ سنتا رہا۔ پھر لاٹھی اٹھا کر اشارہ کر دیا تو سب لوگ اپنی اپنی جھگیوں میں چلے گئے۔ سجاول تو جیسے بنا بنایا مکھیا تھا۔۔

٭٭٭٭٭

کافی دیر سے موبایل پر رابط کرنے کی کوشش کرتی ماہم اب خود ہی اس کے پاس پہنچ گئی تھی۔

"کیا ہو گیا ہے تم کو سبط۔ فون تم نہیں اٹھاتے۔ میسیج کا رپلائی نہیں کرتے۔ گھر پر جاؤ تو ملتے نہیں۔‘‘ وہ بھری ہوئی تھی۔

"تم کو پتہ ہے ماہم کتنی مصروفیت ہے۔ کتنا کام ہے۔ میرا بس نہیں چلتا میں دن کو کھینچ کر لمبا کر دوں۔۔۔‘‘

"کتابیں آ گئی ہیں۔ ٹیچرز کا انتظام ہو گیا ہے۔ کل سے ان کی پڑھائی شروع ہو جائے گی۔۔۔۔ پھر اگلے مرحلے میں ہم تھر جائیں گے۔ وہاں بہت بڑی بستی ہے۔ بابا کی طبیعت خراب ہے۔ بس ان کے سنبھلنے کا انتظار ہے‘‘

"بس کر دو.. سبط بس کر دو۔۔۔ میں یہ سننے کے لیے نہیں آئی۔ میں نے آج اپنے سب دوستوں کو ڈنر پر بلایا ہے۔ میں تم کو انوائٹ کرنے آئی ہوں۔ تم وہاں آؤ گے یا نہیں۔ کب سے کہہ رہی ہوں میرے دوست تم سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

’’آج؟ آج تو میری بڑی اہم میٹنگ ہے یار!‘‘

”آج بابا کو بھی ڈاکٹر خان کے پاس ضرور لے جانا ہے۔ تم مجھ سے شیڈیول پوچھ تو لیتیں۔‘‘

"نو ایکسکیوز! ہاں یا ناں؟‘‘

"آج تو ممکن نہیں ماہم۔‘‘

’’او کے۔‘‘

"ماہم! ماہم!‘‘ میں پکارتا ہوا نکلا لیکن وہ جا چکی تھی۔

٭٭٭٭

سجاول کے مکھیا بننے کے تیسرے دن مامن مر گیا تھا۔ اب اسے ہر قسم کے فیصلے کا اختیار تھا۔ پہلے اس نے آدھی کمائی کامے کو دینے کا فیصلہ کیا۔ سوائے زیبا کے کسی نے اختلاف نہیں کیا تھا۔ زیبا جس کو اس کی ماں نے مامن کے کہنے پر گوتم سے بیاہ دیا تھا۔ لیکن وہ شادی کے سات مہینے بعد ہی سانپ کاٹنے سے مر گیا تھا۔ زیبا اس کا بچہ کوکھ میں لیے بیوہ ہو گئی تھی۔ نصیب سے کون لڑ سکتا ہے بھلا۔۔۔ ہر غم کو نصیب کا لیکھا سمجھ کر سہہ جانے والی زیبا سجاول کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ قبیلے کو باندھ کر نہیں رکھ سکے گا۔ اس نے صحیح پہچانا تھا۔۔ مامن کو مرے ہوئے دو مہینے ہو چکے تھے۔

سجاول نے بستی والوں کے سامنے دو راستے رکھے تھے۔۔۔۔

پہلا یہ کہ سب برابر کا حصہ لے کر الگ ہو جائیں۔ کوئی بھی کام کر لیں۔ بستی میں کل انیس خاندان تھے۔ بینک کے سب کھاتے چیک کر لئے گئے تھے۔ ہر ایک کے حصے میں قریباً نو لاکھ روپے آتے۔ لیکن سب نے یہی کہا کہ ان کو کوئی اور کام نہیں آتا۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ اس کے سوا وہ کچھ اور نہیں کرنا چاہتے۔

دوسری تجویز یہ تھی کہ وہ لوگ سجاول کو اس کا حصہ لے کر جانے دیں۔ وہ نہ بھی مانتے تو بھی سجاول نے تو جانا ہی تھا۔ یہ طے تھا، ان لوگوں کو یہ بات سمجھ آ گئی تھی۔ اس لئے کچھ رد و کد کے بعد دوسری تجویز مان لی گئی۔ سجاول نے راجا کو مکھیا بنا دیا۔ اور خود وہ بستی وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ اس کے جانے سے پہلے زیبا نے اپنا چار سال کا بیٹا اس کے حوالے کر دیا۔ وہ اس کو بھکاری نہیں بنانا چاہتی تھی۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ وہ سجاول کی محبت کو دل سے نکال نہیں سکی تھی۔ اسی لیے اس کو اکیلا چھوڑ نہیں سکی تھی۔۔۔ کچھ سوچے بنا سجاول نے اس بچے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ کہ وہ کم سے کم کسی ایک کا نجات دہندہ بننا چاہتا تھا۔

وہ وہاں سے سیدھا کراچی چلا آیا۔ وہ تو سڑک کے کنارے، فٹ پاتھ پر بھی رہ سکتے تھے۔ لیکن اب ان کو مہذب دنیا کا حصہ بننا تھا۔ اس لئے ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے لیا۔ اپنے اور بچے کے لئے کپڑے خریدے۔ بچے کو اسکول داخل کروا دیا۔ اسے اب کام کی تلاش تھی۔ لیکن کوئی بھی ہنر ہاتھ میں نہیں تھا۔ نہ ہی وہ پڑھنا لکھنا جانتا تھا۔ کوئی مشورہ دینے والا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ جس علاقے میں اس نے کمرہ لیا تھا وہاں زیادہ تر لوگ دوائیاں بنانے کے کارخانے میں کام کرتے تھے۔ اس نے بھی وہاں کوشش کی۔ مضبوط کاٹھی کی وجہ سے اسے چوکیداری کی نوکری مل گئی۔

محنت کی کمائی کی لذت کوئی اس سے پوچھتا۔۔۔ سولہ گھنٹے کی ڈیوٹی اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ پہلی کمائی کے آٹھ ہزار روپے وصول کرتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اس نے جان لیا تھا اس کا حسین و دلکش سفر زیست اب شروع ہو رہا تھا۔۔۔

ہر گذرتا دن اس کے اور اس کے ماضی کے درمیان خلیج بنتا جا رہا تھا۔ سبطین کے پہلی کلاس پاس کرتے ہی اس نے اس سے پڑھنا شروع کر دیا۔ دونوں بند کمرے میں گھنٹوں پڑھنے پڑھانے میں مشغول رہتے۔ سبطین کے میٹرک کرنے تک وہ ایک میڈیکل سٹور کا مالک ہو چکا تھا۔ آگے کا سفر تو برق رفتار تھا جیسے۔۔۔۔ سبطین کو انگلینڈ بھیجنے تک دوائیوں کی تین تین کمپنیاں اس کی ملکیت تھیں۔ اب وہ بے دھڑک بڑے بڑے پراجیکٹس لے رہا تھا۔۔۔۔ اس کو بہت آگے جانا تھا۔ یہ اس کی منزل یہ نہیں تھی۔۔۔ اس کا مطمع نظر کچھ اور تھا۔۔۔ اسے زندگی کا قرض چکانا تھا۔ اس کی راہ بہت کٹھن تھی۔ تمام عمر اس نے ایک ہی خواب دیکھا تھا۔

اسے ہاتھوں سے کشکول لے کر ان میں قلم پکڑانا تھا۔۔۔۔

لینے والے ہاتھوں کو دینے والا بنانا تھا۔ وہ رات دن اپنے قول و عمل سے اپنا نسب العین سبط کے ذہن پر نقش کرتا رہا۔

٭٭٭٭

’’وہ مجھ سے شادی نہیں کرے گا پاپا۔ اگر کر بھی لے گا تو ان بھکاریوں میں ہی گھرا رہے گا۔ اب تو اس کے پاس سے بھی ویسی ہی فیلنگ آنے لگی ہے مجھے۔۔ اس کا اپنے بزنس میں انٹرسٹ ہی نہیں۔۔۔ نہ جانے اس نے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہی کیوں لی۔۔۔‘‘

"نہیں مائی ڈئیر، وہ بزنس سے کٹ آف نہیں ہو سکتا۔۔۔ یہ چیریٹی یہ سوشل ورک اس عمر کا خبط ہوتا ہے۔ ایسی شہرت، فیم اس عمر میں اچھا لگتا ہے۔۔۔ تمھیں بھی بہت شوق ہوا تھا کچھ سال پہلے سوشل ورک کا۔۔۔۔‘‘

"پاپا آپ اس کو مس جج کر رہے ہیں۔۔۔ اس کا کنسرن نہیں دیکھا آپ نے ابھی۔۔

مجھے تو لگتا ہے اس کا فیملی بیک گراؤنڈ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔۔ دیکھیے ناں ان لوگوں کی فیملی کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب وہ ان میں بیٹھتا ہے۔۔۔ آئی کانٹ ایکسپلین۔‘‘

”تم یہ سب چھوڑو۔ تم اس کا پیسہ دیکھو بس۔ بزنس کی دنیا کا بادشاہ ہے اس وقت۔‘‘

میں آج ماہم کو منانے کے ارادے سے اس کے گھر چلا آیا تھا۔۔ مجھے ماہم کے کمرے میں جانے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔ لیکن اندر سے آنے والی آوازوں نے میرے قدم روک لیے تھے۔

"داد دیتا ہوں ماہم تمھاری زیرک نگاہ کی۔۔۔ بہت خوب پہچانا تم نے مجھے۔۔۔‘‘

میں اندر داخل ہوتے ہوئے بولا،

’’اپنی بات مکمل کرو ماہم۔‘‘

انکل اور ماہم گھبرا کر مڑے۔۔۔۔

"کیا لگتا ہے تم کو۔۔۔ میرا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟‘‘

"ارے سبط بیٹا! بیوقوف ہے۔ تمھاری توجہ چاہتی ہے بس۔ میں نے سمجھایا ہے اسے کہ کچھ دن شوق پورا کر لینے دے تم کو۔‘‘

’’انکل یہ چند دن کا شوق نہیں ہے۔۔۔۔ یہ میرا جنون ہے میرا مقصد حیات ہے۔‘‘ میرا دو ٹوک بات کرنا بے حد ضروری تھا۔

"تم کو اس گھٹیا جنون اور مجھ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا!‘‘

وہ کمرے سے نکل گئی۔ میرا غصہ ایک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس منگنی کے بعد سے چھائی ہوئی کلفت ہوا ہو گئی۔ دل ہلکا ہو گیا۔

ملک انکل فوراً درمیان میں بول پڑے۔

’’بیٹا تم خیال نہ کرنا۔۔۔ میں سمجھا دوں گا۔‘‘

’’لیکن فیصلہ تو ہو گیا انکل۔۔۔ میں دیا کا مشن نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ کسی قیمت پر بھی نہیں۔‘‘

’’میں ماہم کو سمجھا لوں گا۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘ انہوں نے میرا کندھا تھپکا۔

"ارے بس بچی ہی ہے ابھی۔۔۔‘‘ انہوں نے شاید خود کو تسلی دی تھی۔

٭٭٭

رات فارغ ہوتے ہوتے بہت لیٹ ہو گیا تھا میں۔ بابا میرے انتظار میں جاگ رہے تھے۔ وہ سنجیدہ تھے۔ میرے دل کو کچھ ہوا۔

’’سبط بیٹا ملک کا فون آیا تھا۔ وہ شادی کے لیے اصرار کر رہا تھا۔‘‘ میں حیران رہ گیا

’’بابا ماہم کا کہنا ہے کہ میں دیا یا ماہم میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لوں۔ اور میں نے دیا کو چن لیا۔‘‘

’’میں نے ٹھیک کیا ناں بابا!‘‘

”نہیں بیٹا، وہ غصے میں اول فول بول گئی۔ بہت معذرت کر رہا تھا ملک۔‘‘

”میرا خیال ہے کہ اب شادی کو ڈلے نہ کیا جائے۔ بس دو تین دن میں فنکشن رکھ لیتے ہیں۔ سادگی سے شادی پھر ولیمہ میں گیدرنگ رکھ لیں گے۔ لیکن خیر تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم اپنا کام کرو۔ میں سب انتظام دیکھ لوں گا‘‘

میں ان کو دیا کی پروگریس کے بارے میں بتانے لگا۔

’’کیا نام ہے اس لڑکی کا سبط جو چند دن پہلے آئی ہے۔‘‘

’’میرا۔۔۔ میرا کے بارے میں پوچھ رہے ہیں آپ۔ ….‘‘

’’کیا بنا اس کا؟ سنا تھا اس کا منگیتر بہت جھگڑا کر رہا تھا۔‘‘

’’جی بابا! میں ملا ہوں اس سے۔ میں اس کو بھی لانا چاہتا ہوں۔ لیکن بات ابھی بنی نہیں۔ وہ توقع سے زیادہ پرابلم پیدا کر رہا ہے۔‘‘

’’تو اپنی آفر بڑھاؤ۔ رقم کی فکر مت کرو۔‘‘

’’جی بابا۔‘‘ ہم ڈنر کے دوران دیا کو ہی ڈسکس کرتے رہے۔

”سنو، لڑکیوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ منا لو اس کو۔‘‘ انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

٭٭٭٭

بابا کی طرف سے شادی کا پروگرام سن کر ماہم خوشی سے کھلی پری تھی۔ میں جب تیار ہو کر ناشتے کے لئے آیا تو وہ بابا کے ساتھ ہوٹلز ڈسکس کر رہی تھی۔ اس کی امریکن خالہ اور کزنز بھی موجود تھیں۔ بڑے زور و شور کے ساتھ مایون اور مہندی کے تھیم ڈسکس ہو رہے تھے۔

میری طبیعت بھی خوشگوار ہو گئی۔ ناشتے کے لوازمات میرے آگے رکھتی ماہم سرخ ٹاپ میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ بابا نے آج آئٹمز بھی برنچ والے بنوائے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے فیورٹ چیز آملیٹ کے فولڈڈ پراٹھے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ باقی سب بھی اپنا اپنا ناشتہ کرنے کے ساتھ پروگرام طے کر رہے تھے۔

بابا نے لکھا ہوا پروگرام سب کو پڑھ کر سنایا۔

جمعہ۔ رسم حنا

ہفتہ۔ نکاح اور رخصتانہ

اتوار۔ ولیمہ۔

نوجوان نسل تو سیٹیاں بجانے لگی۔ درمیان میں صرف دو دن تھے۔ مجھے اور ماہم کو فوراً شاپنگ کے نکلنے کا حکم سنایا گیا۔ چائے کا کپ رکھتے ہی ہم تو نکل کھڑے ہوئے۔ دو دن ہم نے بازار میں ہی گزارے۔ صد شکر کہ ماہم خوش تھی۔

مہندی کا فنکشن مشترکہ رکھا گیا تھا۔ سبز بنارسی جوڑے میں پیلا گھونگھٹ اوڑھے ماہم پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ فنکشن اچھا رہا۔ میں ولیمے میں دیا کے سب مہمانوں اور ورکرز کو بلانا چاہتا تھا۔ ماہم کو اس پر سخت اعتراض تھا۔ دھیرے دھرے یہ جھگڑا بڑھ گیا۔ شکر ہے بابا گھر جا چکے تھے۔

ماہم رونے لگی۔ میں نے اسے صاف کہہ کر چلا آیا کہ وہ آئیں گے تو شادی ہو گی، ورنہ نہیں۔ رات اس کی آنے والی کالز کو دیکھتے ہوئے میں نے فون آف کر دیا تھا۔

صبح ابھی میں اور بابا ناشتہ کر رہے تھے جب دیا سے فون آ گیا۔ کالی نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کچھ پرابلم پیدا کر دی تھی۔ میں فوراً دیا پہنچ گیا۔ میرا بہت رو رہی تھی۔

’’وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا تمھارا۔۔ اب اگر اس نے یہاں آنے کی کوشش کی تو گارڈ پولیس کو بلوا لے گا۔‘‘ وہ بہت گھبرا رہی تھی۔

”وہ بہت جیادہ کڑوا ہے۔ میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گی‘‘

اس نے اپنے انداز میں مجھے وارن کیا۔

”وہ مجھے لے جائے گا۔‘‘ اور ایک دم اٹھ کر مرے پیروں کو پکڑ لیا۔

میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسی وقت آفس کا دروازہ کھول کر ماہم داخل ہوئی۔ میں نیچے بیٹھی ہوئی ماہم کو بازوؤں سے پکڑ کر اٹھا رہا تھا۔ میرا عمل بے ساختہ تھا۔

’’واہ! تو سوشل ورک ہو رہا ہے سبطین شاہ صاحب۔۔۔۔ بہت خوب!!‘‘

’’فضول مت بولو ماہم۔‘‘

"ابھی بھی۔۔۔۔ یعنی کہ ابھی بھی ہم ہی غلط ہیں۔ پاپا نے مجھے بھیجا تم سے سوری کرنے کے لیے۔ تم سے سبط۔۔ اور تم۔۔۔۔ شرم آنی چاہیئے سبط تم کو۔۔۔ کم از کم اپنا معیار تو دیکھ لیتے۔۔۔۔ ۔ چھی۔ چھی۔۔۔ ایک بھکارن…‘‘

"شٹ اپ، شٹ اپ ماہم۔ ایک لفظ بھی اگر تم بولیں!!‘‘

"بولوں گی، چیخ چیخ کر بولوں گی کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔۔ بھکاریوں کو کون سی تعلیم دی جا رہی ہے۔‘‘

میں نے پلٹ کر ایک طمانچہ ماہم کے چہرے پر رسید کر دیا۔

"تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔ ایک بھکارن کے لیے۔۔۔ مجھ پر۔۔۔ ماہم ملک پر۔۔۔ یو ول پے فار اٹ۔۔۔۔۔‘‘

وہ آندھی طوفان کی طرح دیا سے نکل گئی۔

میرا اپنا رونا دھونا بھول کر ساکت کھڑی تھی۔۔۔

"تم اپنے کمرے میں جاؤ میرا۔‘‘

میں نے اسے بھیج کر بابا کو ساری صورت حال کی اطلاع دی۔ انہوں نے فوری طور پر ڈی ایس پی صاحب سے بات کر کے نفری، دیا کی سیکیورٹی کے لیے بھجوا دی۔ ماہم نے مختلف چینلز کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ لیکن پولیس نے صورت حال سنبھال لی۔۔ بابا ہمارے پاس پہنچ گئے۔ ڈی ایس پی صاحب خود آ گئے۔ لیکن چینلز والوں کا دباؤ ابھی بھی تھا۔ ایک چینل والوں نے میرا کے ماں باپ کو بلا لیا تھا۔۔۔۔ اب وہ میرا کو واپس لے جانے پر مصر تھے۔ میں سخت پریشان تھا۔

"ہم بھکاری ہیں صاحب مگر بے گیرت نہیں۔۔۔ ہم نے بیٹی اس لیے چھوڑی تھی کہ اس کو عجت ملے گی۔۔ بیٹا صاحب نے کہا تھا وہ یہاں پڑھے گی۔ ہم تو اس کے منگیتر کو سمجھانے بجھانے میں لگے تھے۔ اب تو وہ کبھی بھی نہ مانے گا۔ کبھی نہ کرے گا اس سے سادی‘‘ اس کا باپ ہاتھ جوڑے زار زار رو رہا تھا۔۔۔۔

لیکن میرا کے چلے جانے کا مطلب تھا باقی جو بچیاں ہیں ان کے ماں باپ بھی ان کو لے جاتے۔۔۔ ساری محنت غارت۔ میرا دل چاہ رہا تھا ماہم کو گولی مار دوں۔

’’تمھاری بیٹی کو عزت ملے گی۔ میرا بیٹا دے گا۔۔ میرا بیٹا کرے گا اس سے شادی۔‘‘

بابا کے کہتے ہی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ بابا نے میرا کے باپ سے پھر پوچھا۔

’’بولو میرے بیٹے کا رشتہ قبول ہے۔‘‘

’’صاحب اتنی عجت کے قابل نہیں ہیں ہم۔۔۔۔ اپنی برادری سے باہر سادی کریں گے تو برادری سجا دے گی۔‘‘ وہ تو ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔

’’ہماری تمھاری برادری ایک ہی ہے۔۔۔ مامن مکھیا کا نام سنا ہے۔؟”

’’مامن مکھیا تھری۔۔۔۔؟”

’’ہاں میں اس کا بیٹا ہوں۔‘‘ بابا نے سارے مجمعے کے سامنے اعلان کر دیا تھا۔ اور لہرا کر نیچے گر پڑے تھے۔ ہسپتال پہنچ کر بس دو دن ہی وہ زندہ رہے۔ شاید قدرت ان کو میرے نکاح کی خوشی دکھانا چاہتی تھی۔ ان کے اصرار پر ہسپتال میں ہی میرا نکاح ہوا۔ میرا کے بابا تھر جا کر بابا کی بستی والوں کو لے آئے تھے۔ بستی والوں تو ہماری حالت دیکھ کر گنگ تھے۔ ہسپتال والے تو کسی صورت ان کو بابا کے پاس آنے نہیں دے رہے تھے۔ بڑی مشکل سے سورج اور راجا کو آنے کی اجازت ملی۔

اپنے بچے سبط کو دے دو اگر زندگی بدلنا چاہتے ہو تو۔۔ بس بابا نے اتنا کہہ کر جاں جاں آفریں کے سپرد کر دی۔

بابا کی موت نے وہ کام کر دکھایا تھا جو شاید ہم کئی برسوں میں نہ کر پاتے۔ بستی نے اپنے بتیس بچے دیا کے حوالے کر دیے تھے۔ اور میری ماں۔۔۔ جو مجھے دور دور سے دیکھ کر روتی تھی۔ مجھے چھونے سے گھبراتی۔۔ دور دور سے بلائیں لیتی۔

وہ اب دیا کے سب بچوں کی ماں تھی۔

٭٭٭٭

تو یہ تھا تمھارا ماضی سجاول شاہ۔ جس سے تم پیچھا چھڑا آئے تھے۔ تم کو کیا سمجھا میں نے اور کیا نکلے تم۔

سبطین شاہ۔۔۔ سرفراز سجاول شاہ کا بیٹا۔ انگلینڈ سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لینے والا۔ بزنس کی دنیا کا بادشاہ۔۔۔۔ ۔ جس کو خود بھی اپنی دولت کا اندازہ نہیں۔ وہ ایک بھکاری۔

تم کہتے ہو تم نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔ تم۔۔۔ تم دھوکے باز ہو۔

تم نے دھوکہ دیا۔۔ تم نے میرے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو تھاما۔ اپنی وجاہت اپنی دولت اپنے ایٹی کیٹس سے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا۔ یہ دھوکہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔ سبطین شاہ۔

اور میری طلب کس قدر گھٹیا نکلی!!!

اف تم نے تو مجھے بھی داغدار کر دیا۔ میلا کر دیا۔۔

شکر ہے۔ شکر ہے۔۔۔۔ بات ابھی صرف منگنی مہندی تک ہی تھی۔

میں یہیں سے پلٹ جاؤں گی۔ بلکہ پلٹ چکی ہوں۔۔۔۔۔ میں بھول جاؤں گی کہ کوئی سبطین میری زندگی میں آیا تھا۔

میں کسی بھکاری کو نہیں جانتی۔

میں شاور کے نیچے کھڑی شاور جیل میں ڈوبی اس احساس غلاظت کو دھو رہی تھی۔۔۔ بہترین خوشبوؤں کو خود پر انڈیل کر نئے لباس میں ملبوس ہو کر میں نے شاہ رُخ کو کال کی تھی۔۔۔۔۔ توبہ سبطین کے پیچھے پاگل ہو کر تو میں سب کو بھول گئی تھی۔ شاہ رخ تو میری ایک کال پر بھاگا چلا آیا۔ لیکن نجانے کیوں دل کھل کے نہیں دے رہا تھا۔۔ شاید کہ اب ایسے ہی رہنا تھا۔

٭٭٭٭٭

’’ہاں کیوں گھبراتی ہو میرے دیکھنے سے تم!!‘‘ میں نے اس کو بازو کے گھیرے میں لے کر پوچھا۔۔

’’تمھاری تکنی میں عجیب موکھے ہیں۔۔۔۔ آنکھوں سے نکل کر سیدھے دل میں جا گھستے ہیں۔۔ چاہے نجر جھکا کر رکھو چاہے اٹھا کر۔۔۔ تمھاری نجروں سے موکھے چلتے ہیں۔‘‘

"ذرا پھر سے کہنا۔۔ کیا کیا چلتے ہیں میری نظروں سے۔ موکھے کیا ہوتے ہیں؟ بڑی فرصت چاہیے یار تم کو انجوائے کرنے کے لئے۔‘‘

میں تو چند دن میں دیوانہ ہو گیا تھا اس کا۔

وہ بھاگ کر گئی اور اردو کا قاعدہ اٹھا لائی۔۔۔۔ ۔ اور انگلی رکھ کے مجھے دکھانے لگی۔۔ ’۔ ت۔ تیٖر‘

’’اچھا!! تیر ہیں میری نظروں میں۔۔۔ اور کہاں لگتے ہیں یہ تیٖر۔۔۔‘‘

اس نے ایک ادا سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا۔۔ سبز کپڑوں میں اس کا کندنی رنگ چمک رہا تھا۔ چند دنوں کی گرومنگ نے اس کو کیا سے کیا بنا دیا تھا۔ اس کی آنکھیں بالکل کیری کی طرح تھیں لمبی اور غلافی۔ اس کا حسن بے ساختہ تھا جیسے۔۔۔۔ معصوم اور دلربا۔۔۔

بابا کا فیصلہ کتنا اچھا تھا۔۔۔ میرا تو میری زندگی میں بہار بن کر آئی تھی۔

’’اچھا اب وہ دوسری بات بتاؤ جو بتاتے بتاتے رک جاتی ہو!‘‘

اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ اس کا چہرے پر شفق اتر آئی تھی۔

’’آج تو بتانا ہی ہو گا۔‘‘ میں نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی تھام لیا۔

”اونہوں،‘‘ اس نے سر جھکا لیا۔

”چائے پیو گے؟‘‘

”نہیں وہ بات سننی ہے بس‘‘

’’وہ بتانے کی نہیں دکھانے کی بات ہے۔‘‘

مجھ سے ہاتھ چھڑا کر اس نے سائڈ کی دراز سے ایک بوسیدہ اخبار کا ٹکڑا نکالا۔ اور اس کی تہیں کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔

یہ تو میری تصویر تھی۔۔ قریباً تین سال پہلے جب میں انگلینڈ سے واپس آیا تھا تو بابا نے نیو ائیر پارٹی ارینج کی تھی۔۔ یہ اس تقریب کی تصویر تھی۔

’’ماں اس میں لپیٹ کر مونگ پھلی لائی تھی۔ میں نے دیکھا تو بس!!‘‘

’’ارے تم تو بہت چھپی رستم نکلیں۔۔۔ اچھا بتاؤ! اتنا یقین تھا تم کو کہ میں تم کو ملوں گا۔۔‘‘

’’ہاں صاحب یقین تھا پکا پکا۔۔۔‘‘

’’کیسے تھا اتنا یقین؟‘‘

”ہم تو بھکاری ہیں صاحب۔ کیا اتنا بھی نہیں جانیں گے۔ مانگنے پر تو سب ہی دیتے ہیں۔ اور جو نہ مانگو تو۔۔۔۔۔ دل کی دل ہی میں رکھ لو تو۔۔۔۔۔ صرف وہی دیتا ہے۔

٭٭٭٭٭

ماخذ:

https://www.deedbanmagazine.in/blog/aashq-wl

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل