FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

سوزِ نہاں

نعمان نیئر کلاچوی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

سوزِ نہاں

نظمیات، غزلیات، قطعات

نعمان نیئر کلاچوی

آئی ایس بی این 978-969-2228-02-2

برائے رابطہ:

Whatsapp+Voice: +923451919810

Email: noman.kulachvi@gmail.com

انتساب

نفاق اور بے ضمیری کی بے ہنگم غوغا میں ایک نحیف سی آواز یعنی

ن۔ م۔ راشد کے نام

سوزِ نہاں کیا ہے؟

لسانیات، اُصولِ شعر اور صرف و نحو پر تفصیلی بحث میں آگے مقدمہ میں کرنے والا ہوں یہاں پر پیشِ نظر معروضات کا مقصدِ اصلی اپنی اُس دیرینہ کیفیت کو بیان کرنا ہے جس کی بنیاد پر میں نے شعر جیسے ایک عمومی ابلاغ کو منتخب کیا بلکہ اگر میں یوں کہوں کہ غیر ارادی طور اِس کا انتخاب ہو گیا تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ حصولِ علم کے طویل اور نہایت اذیت ناک سفر کے بعد یا پھر یوں سمجھ لیں کہ جاری سفر میں جس ناقابل تردید و ناقابل بیان حقیقت کا انکشاف ہوا، اُس انکشاف نے نہ صرف شعور کو ریزہ ریزہ کر دیا بلکہ جذباتی و جسمانی وجود کو بھی شدید متاثر اور مضمحل کرد یا اور یہ انکشاف ایسا ہے کہ ع

ہُوک کروں تو جگ جرے اور جو کچھ ہے جر جائے

پاپی جیارا ناہی جرے کہ جاں میں ہُوک سمائے

شعور تو خیر فرو ہو ہی گیا ہے بلکہ جسم بھی اب بہت تیزی کے ساتھ نحیف ہو رہا ہے۔ بے خوابی، اضمحلالِ طبع، پژمردگی، یقیں تہی، بے ثباتی اور ایک لا محدود لایعنیت پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ زیرک مخاطب اِن تمام مسائل کو جدید علمِ نفسیات کی رُو سے مختلف نفسیاتی بیماریاں بھی کہہ سکتا ہے لیکن ایک ماہرِ علم الابدان و روح یا شعور سے ہم صحتِ حقیقی کے بارے ضرور دریافت کریں گے کہ صحت کی مطلق تعریف کیا ہوتی ہے۔

حقیقت شاید اتنی سی ہے کہ در حقیقت کوئی حقیقت نہیں بلکہ اِس کا اِمکان بھی شعور سے بالا تر ہے۔ رب جو کبھی ایک سکوں آور تصور ہوتا ہے جذبات کی لپیٹ میں آ کر ربیا کی صورت اختیار کر لیتا ہے جسے ہم مجاز کے معانی میں استعمال کرتے ہیں۔ پھر یہی رب ربیا کی صورت اختیار کرنے کے بعد واپس رب بننے کی کوشش کرتا ہے تو عشاق کہتے ہیں کہ ع

رب رانجھے ورگا ناہیں

یعنی مجاز ہی پھر حقیقت بن کر وحدتِ اصلی پیدا کر دیتا ہے جہاں پھر مجاز اور حقیقت میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی۔ اِسی کیفیت کو صوفیاء وحدت الوجود، ہمہ اُوست یا ویدانت کہتے ہیں۔ یہاں تک بھی معاملہ اتنا گھمبیر نہیں رہتا بلکہ اضطراب کو ہم مجاز کی بنیاد پر رفع کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ لیکن اِس سے بھی آگے ایک مقام آتا ہے جہاں مجاز، حقیقت، وحدت اور وجود سارا کچھ معدوم ہو جاتا ہے۔ یعنی ع

خبرِ تحیرِ عشق سن! نہ جنوں رہا نہ پری رہی

نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

ذہین اِسے بے خبری اور عشاق فراقِ ظاہری کہتے ہیں۔ پس اِنہی دونوں کیفیات کا مرقع ہے میرا شعر۔ فراقِ ظاہری کو میں نے سوزِ نہاں سے تعبیر کر دیا ہے۔ خبر اِمکان سے بالاتر ہے اِس لئے جذبہ طالب بنا دیتا ہے جبکہ جذبہ کسی موضوعی قانون اور ضبط و تربیت کا رہین نہیں ہوتا۔

منزل مِرے مقصد کی کعبہ ہے نہ بُت خانہ

اِن دونوں سے آگے چل اے ہمتِ مردانہ

لاشے

فقیر

نعمان نیئر کلاچوی 24 جنوری 2023، کلاچی

٭٭٭

پیش لفظ

ماہی ماہی کو کدی

فقیر نعمان ایک اچھوتے اور منفرد انسان ہیں۔ آپ اِنہیں ایک لاکھ انسانوں میں بیٹھا دیکھیں وہ سب سے الگ اور جدا نظر آئیں گے۔ مزاجاً صوفی ہونا اختیاراً صوفی ہونے سے بھی امتیاز رکھتا ہے۔ فقیر نعمان مزاجاً صوفی ہیں۔ اِن کا دل تصوف کے رنگوں میں رنگا ہوا اور دماغ راہ تصوف کے اسرار کی گتھیوں کو سلجھاتا ہوا خارجی اور باطنی دونوں دنیاؤں میں محو سفر ہیں۔ ان کی شاعری جذب و مستی، بے قراری و سرشاری اور انکساری و بے اختیاری سے لبالب بھری ہوئی ہے۔ موسیقی کے آہنگ پر لکھی گئی نظمیں اپنی تاثیر اور تلاطم خیز جذباتی بہاؤ میں قاری کو ساتھ بہا لے جانے کی قوت رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری کیفیت کی شاعری ہے جس میں مجاز اور حقیقت میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہجے کی حلاوت الگ سے رچاؤ لئے ہوئے ہے اور اپنی پوری چھب دکھاتی ہے۔ ماہی ماہی کی کوک آتشِ عشق میں جل کر راکھ ہوتی اور راکھ پر فراق کی بارش سے ققنس کی طرح دوبارہ خلق پاتی ہوئی شاعری کے خد و خال اوڑھتی ہے تو لگتا ہے لفظوں کا رقص برپا ہو گیا ہے۔ ایسی منفرد شاعری کی اردو ادب کو بہت ضرورت ہے تاکہ یکسانیت اور جمود ٹوٹتا رہے۔

فرحت عباس شاہ

(حامل صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی)

5 دسمبر 2022، لاہور

٭٭٭

مقدمہ

زبان کا تخم لفظ ہے۔ لفظ کا تخم تصویر ہے۔ تصویر کا تخم تصور ہے۔ تصور کا تخم یاداشت ہے اور یاداشت انسانی مشاہدات و تجربات کے بھنڈار سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اُردو ہماری اپنی زبان ہے اور اِس کا خمیر ہماری اپنی ہی دھرتی سے اُٹھا یعنی خطۂ بر صغیر اُردو کی بلا شرکتِ غیرے جنم بھومی ہے۔ اِس کے برعکس عربی فارسی ہماری زبانیں نہیں ہیں اور انگریزی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے اِس جدید تکنیکی دور میں انگریزی کے بغیر چارہ نہیں اور بہتر یہی ہے کہ اُردو سے کنارہ کر کے ساری توجہ انگریزی کی جانب مرکوز کر لی جائے۔ بالکل بجا ہے لیکن یہ بھی تو دیکھنا پڑے گا کہ جن گوروں کی ذہنی و سماجی غلامی سے جان چھڑانے میں تمام اہلِ ہند کو دو سو سال سے زائد کا عرصہ لگ گیا واپس اُنہی کی زبان اور تمدن کو اختیار کرنے میں ہماری اپنی تہذیبی و لسانی شناخت کس حد تک مسخ ہو سکتی ہے۔

میری مادری زبان سرائیکی ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ سرائیکی میں بہت بعد میں لکھنا شروع کیا۔ اب شاید کسی حد تک اِس غبار سے گلو خلاصی نصیب ہو رہی ہے لیکن یہ تو معجزہ سا ہو گیا کہ سرائیکی میں لکھنے کے فوری بعد معلوم ہوا کہ سرائیکی زبان کا قریباً نوے فیصد ذخیرۂ الفاظ اُردو ہی کی طرح فارسی اور عربی ہے۔ رہ گیا پیچھے نحو کا معاملہ تو اُسے برتنے کے باوجود بھی سرائیکی اُردو سے الگ کوئی زبان نظر نہیں آ رہی تھی بالکل یہی صورتحال اُس پنجابی کی بھی ہے جو پاکستان میں لکھی جا رہی ہے۔ سرائیکی لکھتے وقت جب میں نے لکھے گئے پیراگراف پر نظر ڈالی تو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ اُردو لکھی ہوئی ہے۔ پھر میں نے کوشش کی کہ سرائیکی کی صَرف کا کچھ انتظام کیا جائے لیکن بہتیری کوشش اور غور و فکر کے بعد بھی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کیلئے آپ کو خواجہ غلام فرید سائیں کا کلام پڑھنا پڑے گا جس میں آپ نے فارسی اور عربی اصطلاحات کا خوب استعمال کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ سرائیکی زبان کی بُنت سمجھنے کیلئے خواجہ صاحب کا کلام فی نفسہٖ ممد و معاون ہے۔ پس اب مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ ہمارے پاس اِس وقت اُردو کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی فی الحال اِس زبان کی کوئی متبادل زبان موجود ہے۔ مذکورہ مسائل کے سبب سرائیکی میں لکھنے کا جنون فی الحال تو ماند پڑ گیا لیکن اِس مسئلے کے حل کیلئے میں تا حال سرگرداں ہوں کہ اپنی ماں بولی کی کم از کم صَرف کا تو لازماً کوئی انتظام کیا جانا چاہئے تاکہ فارسی اور عربی کے دخیل الفاظ سے سرائیکی کو کسی حد تک محفوظ کر لیا جائے ورنہ بہتر یہی ہو گا کہ اُردو پر اکتفاء کر لیا جائے۔ پس اس مسئلہ پر میں اپنی سرائیکی کتاب میں تفصیل سے بحث کروں گا۔

مسئلہ یہ ہے کہ اِس وقت اُردو سرائیکی اور پنجابی دونوں منفرد زبانوں کا انفرادی استحقاق غٹک چکی ہے۔ چنانچہ سرائیکی لوگ تو پھر بھی دورانِ اَبلاغ سرائیکی نحو استعمال کر لیتے ہیں لیکن پنجابی تو اپنی ٹھیٹھ پنجابی سے اتنے دور ہو چکے ہیں جتنے گورے اب پنجاب سے۔ دریں اثناء کئی ایک تحریکیں اٹھیں اُردو کو پنجابی سے الگ کرنے کی اور اِس پر علمی کام بھی بہت زیادہ ہو چکا ہے جیسا کہ حافظ محمود شیرانی نے بہتیری مشقت اُٹھائی۔ بالکل یہی صورتحال پیدا کرنے کیلئے ڈاکٹر مہر عبد الحق نے بھی اُردو کو سرائیکی کی گود میں سلانے کی ریاضت کی۔ کافی مشقت کے بعد بھی معجزاتی طور پر پنجابی اور سرائیکی اُردو کی رہین رہیں اور اب ہم لاکھ کوشش کر لیں پھر بھی اُردو کا متبادل کسی بھی مقامی زبان کو نہیں بنا سکتے اور یہ اِس وقت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے پھر بھلے ہم اِس کے برعکس مدلّل اختلاف کا حق بھی رکھتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت ہمارے پاس کم سے کم اُردو کا کوئی متبادل ابلاغ نہیں ہے۔

بہت ہی چھوٹی عمر سے مجھے اُردو کا عشق لاحق ہو گیا تھا اور پھر غالباً جماعت چہارم سے اُردو میں شعر لکھنے کی کوشش کی تھی جو آج بھی جاری و ساری ہے۔

زبان کا ایک اٹل اُصول یہ ہے کہ یہ کبھی پرانی یا غیر مؤثر نہیں ہوتی گو کہ بحیثیتِ زبان اُردو آج محض شعر و شاعری تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن اِس کا ہرگز یہ معنیٰ نہیں کہ اُردو اب غیر مستعمل یا متروک ہو چکی ہے اور کیوں ہو کہ ہر زبان کا تخم کسی نہ کسی خطہ سے اُٹھتا ہے تو ایسی صورت میں اہلِ علاقہ اپنی زبان سے کبھی بھی اجنبی اور غیر متعلق نہیں ہو سکتے۔ پس ہر زمانے میں کچھ ایسے تہذیب پرور ضرور پائے جاتے ہیں جنہیں اپنی زبان سے عشق کی حد تک لگاؤ ہوتا ہے اور وہ دیوانے اپنی زبان کی ترویج کیلئے تن من اور دھن قربان کرتے رہتے ہیں۔

کوئی بھی زبان پسماندہ یا بیکار نہیں ہوتی۔ ہر زبان بولنے والوں کیلئے یکساں مفید اور کارآمد ہوتی ہے۔ چنانچہ آج لاطینی، یونانی اور سنسکرت اپنی اصل حالت میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہیں لیکن اپنے وقتوں میں یہ زبانیں آج کی انگریزی، چائنیز اور ہندی سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور رواج یافتہ زبانیں تھیں۔

ہندوستان میں تُرکوں نے فارسی اپنائی جبکہ پٹھانوں نے پشتو لیکن عربوں نے عربی نہیں اپنائی بلکہ انہوں نے ہندی نحو پر مبنی عربی، فارسی اور سنسکرت الفاظ کے سنگم سے ایک ایسی زبان کو رواج دیا جسے آج ہم پاکستان میں اُردو اور بھارت میں ہندی کے نام سے جانتے ہیں۔ اُردو کا اوّلین اعجاز یہ ہے کہ اِس کی پیدائش خاص ہندوستان کی زمین پر واقع ہوئی کیونکہ اُردو کی نحو (Syntax) خالص ہندی سے لی گئی ہے۔ اِس لئے تمام ہندوستانی بلا تخصیص اُردو یا ہندی کے اہلِ زبان ہیں بشرطیکہ وہ بغیر کسی تعصب کے اُردو کو دل و جان سے اپنانے کیلئے تیار ہو جائیں۔

اہلِ زبان ہونے کی لغوی اور قانونی تعریف تو یہی ہے کہ یہ آپ کے والدین کی زبان ہو یا کم از کم گھر کی لیکن اُردو کے معاملے میں مجھے ایسا کہنے میں ذرا سا بھی تردّد نہیں کہ اُردو کے عشاق بھی اہلِ زبان میں شمار ہوتے ہیں۔ بھلا اگر ایک شخص جس نے پوری زندگی ایک زبان کی آبیاری میں کھپا دی ہو وہ اُس کا اہل نہیں تو اور کون ہے؟۔ اُردو یوپی، بِہار میں پیدا ہوئی یا دکن میں یا پھر اسے عسکری مقتدرہ نے خطۂ پاکستان کی عوام پر زبردستی تھوپ دیا ہو لیکن اب تو یہ ہماری زبان بن چکی ہے اور ہمیں اب اسے اپنی مادری زبان کی طرح برتنے میں کوئی مضائقہ ہے نہ عار بلکہ اس میں ابلاغ اب پورے خطے کیلئے طبعی بن چکا ہے۔

میرے گھر کی زبان سرائیکی ہے لیکن یہ تو میں ہی جانتا ہوں کہ مجھے اپنی اس زبان میں لکھنے کیلئے کن کن مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ اُردو کے معاملے میں مجھے کبھی کوئی ایسی دِقّت محسوس نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں اُردو زبان سے جو ایک عین طبعی تعلق بن چکا ہے اِس سے کنارہ اب بارہا اور بہتیری کوشش کے باوجود بھی ممکن نہیں رہا۔

اِن دنوں میں انگریزی زبان کے اثر میں ہوں مگر یقین جانئے ایک طویل عرصہ انگریزی سے رہ و رسم کے باوجود بھی یہ دل پر لگتی ہے نہ ہی دماغ پر۔ اُردو سے لاشعوری رغبت، بے ساختہ میلان اور فہم کی وہ گہری روشنی چھپائے نہیں چھپتی اور اِدھر اُدھر کی علمی تھکن اُردو کی گود میں سر رکھ کر ہی رفع ہوتی ہے۔

کوئی بھی اَدب در اصل زبان کی اولاد ہوتا ہے اِس لئے میں اپنی شاعری پر کچھ بھی کہنے کی بجائے اُس زبان پر گفتگو کر رہا ہوں جس میں یہ شاعری کی گئی ہے۔ یہ زبان نہ ہوتی تو میرا شعر بھی نہ ہوتا۔ اشعار پر رائے قارئین کا کام ہے۔ میرا حال تو یہ ہے کہ جسے ہم اُردو زبان کہتے ہیں اِس کے معجزات نے مجھے سرنگوں کیا ہوا ہے۔

تُرک مرزا غالب نے جس زبان میں اشعار کہے وہ بھی اُردو ہے۔ کشمیری برہمن علامہ محمد اقبال نے جس زبان میں شاعری کی وہ بھی اُردو ہے۔ علامہ نیاز فتح پوری جیسے آزاد منش کی نگارشات بھی اُردو زبان میں ہی ہیں جبکہ ایک معتبر ہندو اُستاد شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کے اشعار بھی اُردو زبان میں ہیں۔ منشی پریم چند اور سعادت حسن منٹو کے افسانے بھی اُردو میں ہیں۔ انڈین فلم مغلِ اعظم اور چِتر لیکھا بھی اُردو میں ہیں جبکہ پاکستانی فلمیں ارمان اور سہیلی بھی اُردو میں ہیں۔ نیٹ فلیکس پر ہندی ویب سیریز بھی اُردو میں ہیں اور ہم ٹی وی پر پاکستانی ڈرامے بھی اُردو میں ہیں۔ البتہ یہاں اُردو اُس پار (انڈیا) میں اِسے ہندی کہا جاتا ہے اور یہی زبان آج پورے بر صغیر میں لنگوا فرانکا بن چکی ہے۔

پس کہیں یہ اُردو فارسی اور عربی کے ہار پہنے ہوئے ہے تو کہیں یہ سنسکرت اور پراکرتوں کے گھونگھٹ لئے ہوئے ہے جبکہ کہیں انگریزی کی نکٹائی لگائے ہوئے ہے۔ چنانچہ آپ اِس میں دنیا کی کسی بھی زبان کی صحیح یا معلول آواز برت سکتے ہیں۔ فارسی میں ہائیہ آوازیں نہیں ہیں جیسے پھ، تھ، ڈھ، کھ، گھ وغیرہ، اِسی طرح عربی میں گ،چ اور ڈ جیسے صحیح حروف نہیں ہیں جبکہ انگریزی زبان میں ت، د،خ اور غ جبکہ سنسکرت میں ث، غ، ض،ق اور ظ جیسی اصوات کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر اُردو کا خاص اعجاز یہ ہے کہ اِس میں لاطینی اور جرمنی کے علاوہ آپ انگریزی کی خاص آوازیں بھی استعمال کر سکتے ہیں گویا اُردو میں دنیا کی کسی بھی زبان کی آواز برتی جا سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پٹھان اِس میں پشتو دھر لیتا ہے تو پنجابی اس میں پنجاب کی دھُن، سرائیکی اس میں اپنے لہجے کی مٹھاس گھول لیتا ہے تو تمل اِس میں اپنا تیکھا پن۔ پس پشاور سے پانڈیچری تک ہم جسے بہر صورت بہر طور سمجھ لیتے ہیں اُسے اُردو یا ہندی کہا جاتا ہے۔

چاہے آپ اِسے نسخ، نستعلیق یا پھر دیوناگری رسم الخط میں لکھیں یہ اُردو ہی رہے گی پس اُردو یا ہندی دیوناگری لِپی میں لکھے جانے کے سبب اُردو سے الگ نہیں ہو جاتی گو کہ آج ایک فیصد پاکستانی ادیب بھی دیوناگری لپی نہیں جانتے جس کے سبب یہ دیوناگری میں لکھی گئی اُردو کو ہندی سمجھ کر اُردو سے بالکل الگ کر لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اُردو کو صرف پرسو عریبک رسم الخط کے سبب ہم ایک بالکل نئی زبان نہیں بنا سکتے۔ اِسی خلیج کو پاٹنے کیلئے میں نے کوشش کی کہ چند ایک نظموں کو دیوناگری رسم الخط میں بھی لکھ لوں تاکہ سند رہے کہ اُردو دیوناگری میں ڈھل جانے کے بعد کوئی الگ زبان نہیں بن جاتی۔

دخیل الفاظ استعمال کرنے سے کسی بھی زبان کا نحوی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہو جاتا۔ زبان نحو سے بنتی ہے۔ صَرف (Morphology)کسی بھی زبان میں موتیوں کا کام دیتا ہے جبکہ نحو اُس لڑی کا جس میں یہ موتی پروئے جائیں۔ اُردو زبان میں سنسکرت سے لئے گئے تت سم ہوں یا پھر متبدل شدہ تت بھو اُردو کی نحو میں ایسے الفاظ کی بُنت سے کوئی فرق نہیں پڑتا حتیٰ کہ آپ چاہیں تو اُردو عبارت میں انگریزی تک کے الفاظ داخل کر لیں تب بھی یہ اُردو ہی رہے گی۔ اِن فیکٹ اُردو ہے ہی ایسی یونیورسل لینگویج۔ سو آپ اِس میں کسی بھی لینگویج کا کوئی بھی ورڈ اِیزیلی اِنکلوڈ کر سکتے ہیں وِد آؤٹ اینی کنفیوژن۔

کوئی بھی زبان فی نفسہٖ کسی خاص قاعدہ یا ضابطہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ اہلِ زبان پر نِربھر ہے کہ وہ اپنی زبان کو کیسے برتتے ہیں۔ چنانچہ جیسے جیسے وہ برتتے جاتے ہیں ویسے ویسے زبان کے اُصول و قواعد بھی مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی زبان کو اُصول و قواعد سے سیکھنا انتہائی مشکل اَمر ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی زبان بولنے والے کسی خاص اصل و قاعدہ کو سامنے رکھ کر نہیں بوتے بلکہ اُن کا بولنا ہی اصل و قاعدہ ہوتا تھا۔

اس کو کئی ایک مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہم اُردو میں ایک بالکل عام سا لفظ ’’مسئلہ‘‘ روزانہ کئی بار استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن اس کو عام طور پر ’’مَس۔ اَلہ‘‘ نہیں بولتے بلکہ ’’مَس۔ لَہ‘‘ بولتے ہیں جو کہ عربی قواعد کے لحاظ سے بالکل غلط ہے اور اکثر ادیب یوں بولنے پر تیوری بھی چڑھانے لگتے ہیں لیکن میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ چونکہ ہم اُردو بولتے ہیں اور اُردو میں ہم اِسے مَسلَہ کہتے ہیں تو ہمارے ہاں یہ مسلہ ہی رہے گا۔ پس اِنہی پیچیدہ مسائل کے سبب اُردو اور ہندی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔

خیر یہ تو رہا زبان کا وہ تنازعہ جسے ہمارے ہاں کے ادیبوں نے بالخصوص اور ہمسایہ ادیبوں نے بالعموم خوب بڑھاوا دیا اور ہر ادیب نے اپنی اپنی رائے پیش کی جبکہ مجھے اس ضمن میں گیان چند جین کی رائے سب سے زیادہ معقول اور معتدل لگی۔ اس کے برعکس اُردو کو فرقہ پرستی اور اسے دائرۂ مذہب و ملت کے حوالے سے جانچنے کا کام فرمان فتح پوری نے کیا حالانکہ زبان کا مذہب سے کیا ربط۔

علاوہ ازیں اُردو ابتداء ہی سے عقیدت و تقلید اور تبلیغی روش میں محبوس رہی ہے۔ نثر میں تو ایک فلک بوس انبار لگا پڑا ہے اور بعض اوقات تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اُردو کا خاص احیاء اسی مقصد کے پیش نظر کیا گیا تھا کہ اس میں فرقہ پرستی اور تبلیغی روش کو پروان چڑھایا جائے۔ پس ’’توبۃ النصوح‘‘ (مصنفہ ڈپٹی نذیر احمد) سے لے کر ’’جنت کے پتے‘‘ (مصنفہ نمرہ احمد) تک وہی ایک مضمون ہے جو مختلف پیرایوں اور استعاروں میں بیان کیا جا رہا ہے یعنی ایک اچھا اور اخلاقی انسان بننے کیلئے آپ کو پہلے راسخ العقیدہ بننا پڑے گا۔

بلا شبہ یہ گھٹن اور پُر تکلف مبالغہ ہے جس کا زبان کی افزائش و ترویج سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

کلیشے تبلیغ اور گل و بلبل کی تکرار نثر و نظم کے خاص میدان ہیں اور یار لوگ ان میدانوں میں خوب سرگرداں رہے۔ پوری دنیا میں عقل و دانش تک رسائی اور تنقیدی روش کی نشو و نما کا سب سے مؤثر ذریعہ نظم رہا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں نظم جن مذکورہ بالا بیڑیوں میں محبوس رہی اِس کا تذکرہ ایک الگ تحقیقی مقالہ کا متقاضی ہے۔ آج اُردو یا ہندی دنیا کی پانچ اہم ترین زبانوں میں شمار ہوتی اگر اِسے کوئی دس مزید ن۔ م راشد، مِیرا جی، مجید امجد، مخدوم محی الدین، اختر الایمان اور فیض احمد فیض مل جاتے۔

حسِ جمالیات کا اظہار اور لطائفِ فطرت کا بیان شعر کے اوصافِ حمیدہ ہیں۔ لیکن شعر کی بنیادی خوبی شعور ہے جیسا کہ یہ اصطلاح فی نفسہٖ تنقید و دانش سے مملو ہے۔ اُردو نظم میں آپ کو یہ روش کہ انسان فطرت کا مطیع و پِچھلگ ہے خال خال ہی نظر آئے گی۔ متقدم نے پیشرو کی اطاعت کی اور وہی کیا جو پہلے ہو چکا تھا۔ یوں کلیشے کے انبار لگ گئے۔ چنانچہ اُردو نظم میں مطلق تنقید، مزاحمت اور اطاعتِ فطرت ناپید ہی رہے حتیٰ کہ اس جدید تکنیکی ترقی کے زمانے میں بھی جہاں ہر فن اپنے اوجِ کمال کو چھو رہا ہے اُردو نظم اٹھارویں صدی میں ہی کہیں گھوم پھر رہی ہے۔ ثقافت اور زبان جب مذاہب و عقائد کی رہین بن جائیں تو جہاں ثقافت مسخ ہو جاتی ہے تو وہاں زبان بھی مشرف بہ تقلید ہو جاتی ہے۔ پس یہی ہوا اُردو اور چھ ہزار سال پرانی تہذیبِ ہند کے ساتھ۔ محبوب کے حُسن اور ناز و اَدا کی تعریف تو شعر کی خاص صفت بن گئی مگر اُسی محبوب سے فطرتی مراسم طبو ٹھہرے۔ پس یہ خاص قسم کا نفاق صرف اُردو ادب ہی کا تفاخر ہے ورنہ دنیا کی کسی زبان میں بھی ایسی روش نہیں ملتی۔

شعر فی نفسہ المیہ کا اظہار ہے اگر شعر اپنی اس صفت سے گرتا ہے تو وہ محض شُغل بن جاتا ہے۔ پس شعر اور شُغل میں یہی بنیادی فرق ہے۔ اقبال کی شہادت ملاحظہ فرمائیں۔ ع

صد نالۂ شب گیرے صد صبح بلا خیزے

صد آہِ شرر ریزے یک شعر دل آویزے

ابلاغ کی سب سے عمدہ اور مستند صورت تو یہ ہے کہ اگر آپ میرے سامنے ہوتے تو میں آپ کو ہارمونیم پر راگ درباری کانہڑہ کے سُروں میں اپنے اشعار سنا دیتا کیونکہ سُر الفاظ سے کہیں زیادہ اثر رکھتے ہیں اور احساسات و جذبات ابلاغ کی سب سے جامع صورت ہیں۔ لیکن چونکہ لفظ دور رہ کر ابلاغ کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں اس لئے الفاظ کے بغیر چارہ نہیں حتیٰ کہ آپ سامنے بھی ہوتے تب بھی ابلاغ کی یہی ایک صورت یعنی الفاظ ہی کے ذریعے تخاطب ممکن ہوتا۔ علاوہ ازیں کوئی معتبر صورت نہیں۔ پس یہ ایک عالمگیر سماجی مسئلہ ہے۔ لفظ فی نفسہٖ ایک صورت ہے نہ کہ کوئی علامت گو کہ اب علامت بن چکا لیکن یہ بھی شدید مجبوری کے باعث ورنہ تصویروں کے اتنے گنجلک کو ذہن سمجھنے اور اس کی تفہیم حاصل کرنے سے قطعی عاجز آ جاتا۔ پس اگر آپ کسی کو سمجھانا چاہیں کہ ’’محبت‘‘ کیا ہے تو اِس کیلئے آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ لفظ محبت لکھ کر اس کی لفظوں ہی میں کچھ تعریف کر دیں گے۔ اِس سے زیادہ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ممکن ہی نہیں ہے۔ ہر مخاطب آپ کو یہ اجازت تھوڑی دے گا کہ آپ اُس سے لپٹ کر ہی اُسے سمجھا دیں کہ یہ لو اب محسوس کرو۔ یہ ہوتی ہے محبت۔

لفظ ابلاغ کی سب سے ناقص صورت ہے لیکن کیا کریں علاوہ ازیں کوئی چارہ ہی نہیں۔ تصویر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ یہ ایک سطحی قسم کا نقش ذہن میں ترتیب دیدے گی۔ احساس کو منتقل کرنا تصویر سے بھی ممکن نہیں لیکن تصویریں ذہن میں نقوش ضرور ثبت کر سکتی ہیں۔ الفاظ تو اتنا بھی نہیں کرتے کہ ایک سطحی سا نقش ہی ذہن میں ترتیب دے ڈالیں بلکہ اُلٹا معاملہ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔

آپ لکھیں گے کچھ اور پڑھنے والا سمجھے گا کچھ اور پھر سمجھ جانے والا اُن الفاظ کی تفسیر کچھ اور بیان کر لے گا۔ یوں الفاظ کے چکروں میں لفظی جگلری جاری رہے گی جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔

مجھے آج تک یہ مسئلہ سمجھ نہ آ سکا کہ کوئی ایک ادیب کسی دوسرے ادیب کے کلام کی شرح کیسے کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی کسی کی تصنیف کا ملخص کیسے نکال سکتا ہے؟۔ یہ تو شرح سے بھی کوئی بہت گیا گزرا کام ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ ایک مصنف کی تصنیف کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر سکتے ہیں لیکن اس میں بھی قوی احتمال ہے کہ مصنف کے مطالب اپنی اصل سے اِدھر اُدھر نہ لڑھک جائیں چونکہ ترجمہ ابلاغ کی ایک دیرینہ اور مستقل مجبوری ہے اس لئے اس سے اغماض برتنا بعید از عقل نہیں۔

انتخابِ الفاظ (Diction)، مصطلحات (Terminologies) اور تصوراتی دنیا (Fictional Universe) ہر مصنف کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی مصنف یا مترجم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے مصنف کی تصنیف یا تالیف کی تشریح یا تلخیص کرتا پھرے۔ کیا کسی کے لفظ کے خول میں پوشیدہ احساس کو اس طرح لفظ پر ایک نظر ڈالنے سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟، چہ جائیکہ ان الفاظ کی اپنے تئیں تفسیر کی جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں مگر لوگ ایسا کر تو رہے ہیں۔ کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں صرف اُردو ادب میں ہی دیکھ لیں۔ گزشتہ صدی میں سب سے زیادہ تفسیر کا کام غالب اور اقبال پر ہوا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ صرف ایک غالب کی شروح کی تعداد دیکھ لیں، ہزاروں میں ہیں۔ حالی سے لے کر شمس الرحمان فاروقی تک کونسا ایسا معتبر ادیب ہے جس نے غالب کے کلام کی شرح پر قلم نہ اُٹھایا ہو، لیکن حاصل کیا ہوا؟۔

در حقیقت کچھ بھی نہیں۔ صورت تو یہ ہے کہ بعض اوقات خود لکھاری بھی اپنے احساسات بیان کرنے کیلئے موزوں الفاظ سے محروم رہ جاتا ہے اور وہ جو الفاظ رقم کر لیتا ہے وہ الفاظ بھی اس کے دروں کی کماحقہ عکاسی نہیں کر پاتے چہ جائیکہ کوئی اور صاحبِ کلام اُن الفاظ کی شرح پر کمر کَس لے۔ شعر کوئی انوکھا کام نہیں کرتا یہ بھی ابلاغ ہی کی ایک صورت ہے لیکن ایک عمدہ صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریر کی ایجاد کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ ابلاغ اشعار ہی میں ہوا ہے پھر چاہے وہ دنیا کی سب سے قدیم تحریری دستاویز رزمیۂ گلگامش ہو یا پھر تہذیبِ ہند کی مذہبی دستاویز سام وید۔ علومِ ابلاغ میں شعر کی حیثیت نہ صرف مسلم الثبوت ہے بلکہ معتبر اور خوشگوار بھی ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب میں اس کا اثر ثابت ہو چکا ہے۔ لفظ انسان کی ایک جدید ایجاد ہے گو کہ یہ ناقص ہے لیکن فی الحال یہی ایک صورت مروج ہے اور یہی دنیا کی ہر منظم اور غیر منظم زبان کا تخمِ اعلیٰ ہے۔

تحریر کی ایجاد سے لے کر اب تک ابلاغ کا سب سے مؤثر وسیلہ ادب رہا ہے۔ آپ گلگامش کی رزمیہ پڑھیں، ہومر کی ایلیاڈ، ارسطو کی بوطیقا، چاسر اور شیکسپیئر کی نظمیں، اِمراؤ القیس کے قصائد اور الاعشیٰ قیس کے اَبیات، رودکی کی غزلیں اور عمر خیام کی رباعیات، لی بائی کی نظمیں اور سو شی کے گیت، باشو اور بوسن کی ہائیکو، کالی داس کی مختصر نظمیں، رائے داس، کبیر داس، دادو دیال اور مِیرا بائی کے دوہے، غالب اور اقبال کی غزلیں جبکہ ن۔ م۔ راشد، مِیرا جی اور فیض احمد فیض کی جدید نظمیں پڑھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ ابلاغ کا سب سے معتبر وسیلہ آج بھی ادب ہی ہے۔ البتہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب تک جو ادب تخلیق کیا گیا ہے وہ ادب برائے ادب تھا یا ادب برائے زندگی جبکہ جدید زمانے میں تو ادب برائے ادب کا کافی غلغلہ مچا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ادب کو لوگ ادب تک ہی محدود کر لیں۔

آخر لکھنا تو انسان ہی نے ہے پھر یہ ادب کسی بھی صورت ادب برائے ادب تک محدود نہیں ہو پائے گا اور نہ ہی ہوا ہے۔ بالکل سیدھی اور دو ٹوک بات یہ ہے کہ زندگی کے دکھ درد پریشانیوں اور بے ثباتی کا باقاعدہ اظہار ادب ہے۔

شعر کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ پڑھنے والا صرف حظ لے جبکہ یہ خاص ضرورت موسیقی اور مصوری آرام سے پوری کرتی رہی ہے۔ موسیقی میں صرف مستی ہی کی گنجائش ہے جبکہ شعر کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ شعر مکمل انسانی زندگی کو محیط ہے۔ اِس میں سکھ بھی ہے۔ درد بھی ہے۔ بے بسی اور آزادی بھی ہے۔ مطلق جہالت تو ہے ہی دانشمندی اور راست بازی بھی ہے۔ پس انسانی زندگی سے جڑا ہر معاملہ شعر سے براہ راست متعلق ہے ورنہ محض ذوق کی تسکین کیلئے موسیقی سے عمدہ کوئی وسیلۂ اظہار نہیں۔

شعر کی صفتِ عالیہ ردھم ہے جسے موسیقی کی اصطلاح میں تال کہتے ہیں۔ الفاظ تال کے بغیر جس قدر بھی لطیف و گداز کیوں نہ ہوں انشاء ہی ہیں۔ چنانچہ نثری نظم، انشائے لطیف یا ادبِ لطیف جیسی کوئی شے نہیں ہے۔ شعر عروض یا تال کے بغیر شعر نہیں نثر ہے۔ یہ انتہائی اہم اور جوہری فرق شعر اور نثر کے درمیان ہمیشہ قائم رہے گا جبکہ شعر اور نثر میں یہی حدِ فاصل بھی ہے۔ شعر نظم کی اکائی ہے اور شعر میں ردھم الفاظ کے تسلسل کو توڑتا ہے نہ کہ فکر جب کہ اس کے برعکس نثر میں فکر کا سکتہ ہی جملے کی تکمیل کا کام دے دیتا ہے۔ اِس لطیف فرق کو نہ سمجھنے کے سبب فی زمانہ نثر نما شاعری نے شعر اور نثر میں جوہری اور نہایت واضح تضاد کو خلط ملط کر دیا ہے۔ شعر گیت ہے اور نثر تہذیب چنانچہ مصرع، بیت، ثلاثی، رباعی، قطعہ، مسدس، غزل، نظم، نغمہ، قصیدہ، ہجو، واسوخت، شہرِ آشوب وغیرہ در حقیقت گیت کی مختلف اقسام ہیں جبکہ اس کے برعکس انشاء، مضمون، قصہ، کہانی، افسانہ، ناول، ڈراما وغیرہ تہذیب کی مختلف اقسام ہیں۔ گیت گایا جاتا ہے اِس میں ردھم ہوتا ہے اور تہذیب برتی جاتی ہے۔ پس گیت آپ کو متحرک کرتا ہے۔ مست و بے خود کرتا ہے۔ آپ بے ساختہ ناچنے لگتے ہیں۔ عرب کی ثقافت میں دورانِ جنگ سپاہیوں کو متحرک رکھنے کیلئے شعر کی ایک صنف رجز با آوازِ بلند ترنم میں پڑھی جاتی تھی تاکہ سپاہی مست و بے خود ہو کر دیوانہ وار لڑتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں ر۔ ج۔ ز کا مادہ پیہم تحریک کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

اُردو شاعری میں شعر کا سفر Lyrics یعنی گیت سے شروع ہوا تھا۔ پھر قابل اور قادر الکلام شعراء نے گیت کو عوامی ذوق کے کھاتے میں ڈال کر غزل کی طرف توجہ دی جبکہ غزل بنیادی طور پر فارسی شاعری کی ادبی مشق تھی۔ خیر اُردو میں بھی اس نے اپنا سکہ خوب منوایا۔ پابند نظم کا مزاج بھی اُردو ادب میں بہت تیز رہا۔ بڑے عمدہ فن پارے ایجاد ہوئے۔ حالی تک آتے آتے غزل اور پابند نظم اپنی طبعی عمریں پوری کر چکی تھیں۔ اقبال، فیض اور ناصر کاظمی نے تو بس پرانی روایت میں دو چار نئے پیوند لگانے کی کوشش کی جو غالب اور میر کا اثر زائل نہ کر سکے اور یوں غزل اور پابند نظم واصل بحق ہوئیں۔ اس کے بعد معریٰ نظم پر چند روزہ بہار آئی لیکن وہ نگوڑی بھی عین جوانی میں انتقال کر گئی۔ ایک اکلوتی اب آزاد نظم ہی جوان تھی۔ بلا شبہ اُردو ادب میں آزاد نظم کی جوانی قیامت خیز تھی۔ راشد اور مخدوم جیسے پالنہار جو مل گئے تھے۔ خیر اب تو آزاد نظم بھی اپنی طبعی عمر پوری کر کے رخصت ہو چکی لیکن اِس کا غم ابھی تازہ ہے۔ پس اس کے ساتھ ہی اُردو ادب میں شعر اپنا فطرتی دور پورا کر چکا۔ چنانچہ آنے والے وقتوں میں عروض صرف گیت تک ہی محدود ہو جائے گا بلکہ صورتحال تو اب بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آزادانہ اظہار کا کلی دار و مدار صرف ’’منثور کلام‘‘ پر ہی آ دھمکا۔ پس یہی فطرت ہوتی ہے ادب کی۔

وہ وقت بھی دور نہیں اب جب اُردو میں بہت عمدہ لکھنے والے بھی عروض سے نابلد ہو جائیں گے۔ لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ارتقاء کو کون روک پایا۔

ٹھمک رے نرتکی

میرے گیت میں کوئی لَے ہی نہیں

تُو رک کیوں گئی

سَم تھوڑی تھا

لیکن منثور کلام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہونے والا ہے کہ اب اس میں منطق کا خوب اور بہتیرا پرچار ہو پائے گا۔ قافیہ اور ردیف کی سکہ بند اور انتہائی دقیق بندشوں نے غزل کے مزاج سے تیکھا پن اور دو ٹوکیت معدوم کر دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غزل میں ایہام اور ابہام کا خوب چلن رہا۔ پابند نظم ردیف سے تو آزاد ہو گئی مگر قافیہ پیمائی کی زحمت سے آزاد نہ ہو سکی گو کہ یہ زحمت فطرتی معلوم ہوتی ہے مگر پھر بھی دقت فطرتی ہو یا مصنوعی بہرحال دقت ہی ہوتی ہے۔ بالآخر قافیہ پیمائی بھی تمام ہوئی اور لوگ صرف ردھم کی بنیاد پر اظہارِ خیال کرنے لگے۔ دریں اثناء حالی نے اِس روش کو پروان چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

خیر اب ردھم بھی گیا۔ اظہار سرے سے گیت کے علاقہ سے ہی باہر آ نکلا۔ اب محض خیال آفرینی ہی منثور کلام کا تخم ٹھہرا۔ پس اس سے کم تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ فی الحال ادب میں اظہار کی یہ مطلق آزادی ہے۔ اگر ہم گیت کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گیت تہذیب سے پہلے کی ایجاد ہے۔ اس کے بعد تہذیب ہے جو انسانی وجود کو مہذب کرتی ہے۔ تعقل و تدبر پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ڈراما اور ناول نے انسانی کردار پر گہرے اثر ات مرتب کئے۔

پس آج بھی تہذیب کے جدید خط و خال تک رسائی کیلئے ہم ڈراما یا فلم کے ڈائیلاگ کا سہارا لیتے ہیں۔ خلطِ مبحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اگر آپ شعر اور نثر کی ثقافتی اور فکری وضع جان لیتے ہیں۔

مضمون آفرینی، قافیہ اور ردیف شعر کے ظاہری محاسن ہیں بشرطیکہ شعر عدم ترسیل (Complexity) اور ابہام (Ambiguity) جیسے معائب سے منزہ ہو۔ اس کے علاوہ بھی آپ مختلف اوصاف سے شعر کی تزئین کر سکتے ہیں جیسے صنائع و بدائع، فصاحت و بلاغت وغیرہ لیکن شعر کا گیت ہونا اس کا غیر متبدل مقدر ہے جس سے مفر کسی طور ممکن نہیں۔

اس کے برعکس نثر میں کچھ لطیف اور فصیح منقطع جملے لکھ لینے سے وہ نظم نہیں بن جاتی۔ زیادہ سے زیادہ اسے ’’منثور کلام‘‘ ہی کہا جائے گا اور ایسی نثر لکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بھی اظہار کی ایک مطلق آزاد صورت ہے جیسا کہ ہم عرض کر چکے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ نثر ہی کی کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ بے شک نام کوئی بھی رکھ لیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر مختصر افسانے میں لطافت و فصاحت پیدا ہو سکتی ہے تو اسی طرح ایسی انشاء کیوں نہیں لکھی جا سکتی جس میں جملے منقطع لیکن لطافت و جاذبیت سے لبریز ہوں۔ پس ایسی لطیف و شستہ نثر لکھی جا سکتی ہے لیکن نہ تو ایسی کوئی کاوش نظم میں شمار ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے ’’نثری شاعری‘‘ جیسی انتہائی مبہم اور فکری اُلجھن پیدا کرنے والی اصطلاح سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ المختصر نثر میں بلا کی فصاحت، بدعت، ندرت، چاشنی، لطافت، نزاکت، لفظی، صوتی اور معنوی آہنگ کیوں نہ پیدا کر لیں یہ جدید اظہار نثر ہی رہے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جدید اظہار اپنے ظہور ہی سے اُردو ادب میں گوناگوں تنازعات و تمحیصات کا مؤجب بنا رہا اور یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب علامہ نیاز فتح پوری نے 1914ء میں رابندر ناتھ ٹیگور کے بنگالی گیتوں ’’گیتانجلی‘‘ کا اُردو میں نثری ترجمہ بعنوان ’’عرضِ نغمہ‘‘ کیا تو اس جدید اسلوب کو آپ نے انشائے لطیف کا نام دے دیا یا بعد میں دیگر نقادوں نے یہ اصطلاح وضع کر لی ہر دو صورتوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ اس جدید قسم کی نثر یا پھر شاعری نما نثر کو کیا نام دیا جائے۔ پس نظم تو یہ تھی نہیں جبکہ اِس کی لطافت کے سبب اِسے مطلق نثر کہنے میں بھی مضائقہ محسوس ہوا تب کسی نے کہا کہ یہ نثری شاعری ہے تو کسی نے کہا کہ یہ نثری نظم وغیرہ وغیرہ۔

مجھے محسوس ہوا کہ اس نثری نظم کو اگر بغیر کسی ہیئتی انقطاع کے اگر بالکل مربوط جملوں میں تسلسل سے لکھ دیا جائے تو تب انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہے کہ اس کی نظمیہ صورت سامنے آئے۔ چنانچہ ردھم تو اِس میں ہے نہیں جو تالی اور خالی کے اُصول کے مطابق اِس میں وقفہ اور تسلسل کے تحت زبان سکتے میں آئے فی الہذا چار و ناچار یہ مطلق نثر یا انشاء ہی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اگر ہم یہاں پر نثری نظم کیلئے انگریزی زبان کے الفاظ کا Stress (نامیاتی تناؤ) کی دلیل قائم کریں تو یہ اُردو زبان میں اِس لئے ممکن نہیں کہ اُردو میں انگریزی زبان کے الفاظ کی طرح سٹریس نہیں ہوتا جبکہ انگریزی زبان کا ہر لفظ دو، تین، چار، پانچ یا اس سے زائد Syllables (اجزائے آہنگ) لئے ہوتا ہے جیسا کہ لفظ Sufficient (کافی) میں تین اجزائے آہنگ ہیں۔ سَ، فِش، اِینٹ جبکہ سٹریس پہلے ایف پر ہے۔ چنانچہ انگریزی زبان میں جب Prose Poetry (نثری شاعری) لکھی جاتی ہے تو اُس میں یہی نامیاتی تناؤ یعنی Stress ایک لطیف ردھم کی فضاء قائم کر دیتا ہے۔ اُردو زبان کے الفاظ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں۔ بے شک الفاظ کے وسیلے سے فصاحت و بلاغت کے دریا کیوں نہ بہا دیئے جائیں اور مضمون آفرینی اپنے اوج پر کیوں نہ پہنچ جائے جب تک جملوں میں انقطاع نہیں ہو گا یہ جملے مطلق نثر ہی رہیں گے۔ اِس کے برعکس بالکل یہی صورت پابند، معریٰ اور آزاد نظم میں بھی پیدا ہو سکتی ہے لیکن ایسے اسلوب میں ردھم ہی خود ساختہ انقطاع ہے جیسے تال میں تالی اور خالی کا اُصول ہوتا ہے مثلاً غالب کا یہ شعر۔ ع

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

اِس کو اب ہم بغیر انقطاع کے لکھتے ہیں۔

’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘۔ اگر آپ کو کلامِ موزوں کی ذرا سی بھی شدھ بدھ ہے تو آپ نے قدرتی طور پر رک جانا ہے پس یہی شعر کی وہ فطری صفت ہے جس کا ذکر ہم درج بالا سطور میں کر چکے ہیں۔ ’’ہوتا‘ کے بعد وقفِ تام ہے جو کلامِ موزوں کی بنیادی صفت ہوتی ہے جبکہ اس کے برعکس نثر نما نظم یا ’’منثور کلام‘‘ میں ایسا کوئی التزام نہیں ہوتا۔ احمد جاوید کی ایک نثر نما نظم ’’مایوس سورما کا خطاب‘‘ کی اوّلیں چار سطریں ملاحظہ ہوں۔ پہلے منقطع صورت میں۔

میں نے وہ رات دیکھ لی تھی

جو سورج نگل جاتی ہے

سیاروں پر کالک کی طرح لپی ہوئی نحوست

یا ستاروں کو پیس دینے والا بگولا

اب مربوط صورت میں ملاحظہ ہو۔۔۔۔

’’میں نے وہ رات دیکھ لی تھی جو سورج نگل جاتی ہے سیاروں پر کالک کی طرح لپی ہوئی نحوست یا ستاروں کو پیس دینے والا بگولا‘‘۔ بھلے اب آپ کہنہ مشق عروضیا کیوں نہ ہوں اپنی زبان میں سکتہ پیدا کر کے دکھا دیں؟۔ دس بار تو پڑھ لیں وقف کا شائبہ تک محسوس نہیں کریں گے۔ پس شعر سے تال نکال دیں تو وہ انشاء بن جاتی ہے جبکہ مضمون آفرینی نکال دیں تو وہ شُغل بن جاتا ہے اور شُغل سے مراد یہاں مزاح نہیں بلکہ ناقص، لچر اور کلیشے مضمون کو شعر میں لا کر صرف تال اور قافیہ کا سہارا لینا ادبی اصطلاح میں شُغل کہلاتا ہے۔

شعر فی نفسہٖ محض منطق ہے نہ ہی عروض یعنی تال بلکہ ان دونوں مبادیات کا مرقع ہے۔ چنانچہ عمدہ نثر میں حلاوت و جاذبیت پیدا کی جا سکتی ہے۔ ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام انشاء پرداز ایسا فن پارہ تخلیق کر سکتا ہے جسے پڑھ کر ذہن بے ساختہ شعریت کی جانب چل پڑے لیکن اس خاص کیفیت کے وقوع سے نثر پارہ شعر نہیں بن جائے گا۔ شعر میں اُس کی صفتِ عالیہ یعنی ردھم کی موجودگی لابدی ہے ورنہ آنے والے وقتوں میں منظوم اور منثور کلام کے درمیان تمیز جاتی رہے گی اور پھر نثر کو شعر سے الگ کرنا قریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ پس یہ شعر کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ قافیہ اور ردیف کے ساتھ کسی خاص موضوع کو ردھم میں بیان کرنا چاہتے ہیں تو پابند نظم لکھیں۔ نپے تُلے ردھم میں لیکن قافیہ اور ردیف سے کنارہ کر کے کسی خاص موضوع کو بیان چاہ رہے ہیں تو معریٰ نظم لکھیں۔ ردھم کے زیر و بم کے ساتھ لیکن قافیہ اور ردیف کے بغیر کسی خاص موضوع کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو آزاد نظم لکھیں۔ موضوع متعین کئے بغیر اگر آپ ردھم میں اظہار کرنا چاہ رہے ہیں تو غزل کی صنف منتظر ہے آپ کی۔ دکھائیں اپنے جوہر۔ موضوع متعین کر لیا ہے لیکن ردھم پلے نہیں پڑ رہا تو لکھیں پھر نثریا انشاء۔ کوئی پابندی نہیں ہے۔

اب آخری صورت یہ ہے کہ آپ لکھنا تو نظم چاہتے ہیں لیکن ردھم، قافیہ، ردیف گویا شعر کی تمام بنیادی صفات سے آزاد ہو کر لکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کے علاوہ کوئی صورت ممکن نہیں کہ آپ ’’منثور کلام‘‘ لکھیں لیکن تب آپ نثر کے آنگن سے باہر نہیں جا پائیں گے کیونکہ شعر صرف بنیادی تین صفات ہی سے شعر بنتا ہے۔ صفتِ عالیہ ’’ردھم‘‘ (تال یا بحر)۔ صفتِ قائمہ ’’مضمون آفرینی‘‘ (ندرت و نیرنگی)۔ صفتِ بیانیہ ’’ ڈکشن‘‘ (انتخابِ الفاظ)۔

نثری نظم پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور پچھلی چند دہائیوں سے اس میں اچھی خاصی ریاضت بھی ہو رہی ہے یعنی آپ خود اندازہ لگا لیں کہ فی زمانہ جب امجد اسلام امجد جیسے سکہ بند اور احمد جاوید جیسے صاحبِ نظر شاعر نثری نظم میں اظہار کر رہے ہیں تو یقیناً اس صنف پر اب مزید تنقید کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اِس وقت میرے سامنے احمد جاوید کے دو مجموعے ’’آندھی کا رجز‘‘ اور ’’ مناجات‘‘ پڑے ہیں اور دونوں میں نوے فیصد کلام اسی نثر نما نظم کی لا ہیئت میں مزین ہے۔ نثر نما نظم کی قدیم دستاویز جناب سجاد ظہیر کا منثور کلام ’’پگھلا نیلم‘‘ جو غالباً 1964 ء میں شائع ہوا اور پھر ن۔ م۔ راشد اور مِیرا جی کی چند نثر نما نظمیں، احمد ہمیش، قمر جمیل، مخدوم منور، انیس ناگی، افضال احمد سید، رئیس فروغ، سلیم آغا، ثروت حسین، نصیر احمد ناصر، فرحت عباس شاہ، سارا شگفتہ، کشور ناہید اور فاطمہ حسن کی نثرنما شاعری بھی اس جدید لاہیئتی صنف کی آبیاری میں ایک نمایاں کردار کی حامل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کیلئے نہ تو میں نے اُردو زبان کا انتخاب کیا اور نہ ہی اس کیلئے میں نے معریٰ یا آزاد نظم کی ہیئت کو ترجیح دی۔ یہ سب بس خود ہی ہوتا رہا حتیٰ کہ بہت بعد میں بنیادیں نکھر کر سامنے آئیں۔ چنانچہ اب مجھے لگتا ہے کہ آزادانہ اظہار کیلئے معقول اور مناسب ہیئت آزاد نظم ہی ہو سکتی ہے۔ البتہ کسی حد تک اس اصول میں قطعہ کو بھی ہم شامل کر سکتے ہیں۔ میرے بس میں ہوتا تو میں سرائیکی کے بزرگ صوفی شاعر علی حیدر ملتانی کی طرح سرائیکی میں ہی متصوفانہ رنگ میں کچھ لکھ لیتا لیکن شاید یہ بچپن کی تربیت ہی کا اثر ہے کہ اُردو سے دور جا کر بھی جو زبان منہ میں پڑ جاتی ہے وہ اُردو ہی ہوتی ہے۔ پس یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچپن کی تربیت در اصل آپ کی شخصیت کے وہ فطرتی پہلو تراش لیتی ہے جو بعد میں کسی بھی صورت نہیں بدلتے۔ شاید طبیعت کی کروٹ ہی اِس کا مداوا ہو۔

’’سوزِ نہاں‘‘ میں اظہار کی ترجیحی ہیئت معریٰ اور آزاد نظم ہی ہے گو کہ ساتھ میں کچھ غزلیں اورایک خاصی تعداد قطعات کی بھی شامل کر لی گئی ہے تاکہ یہ موزوں مواد بھی اپنی جگہ بنا لے۔ شاید پہلی بار ایسا ہو کہ ایک شاعر خود ہی اپنی شاعری کمپوز کر کے ساتھ اُس کی دھن بھی اپنے شعری مجموعہ میں شامل کر رہا ہو۔ اگر اِس سے قبل ایسا ہو چکا ہے تو پھر میرے علم میں نہیں لیکن میں نے یہ کوشش کی کہ جو نظمیں اور غزلیں میں نے کمپوز کر رکھی تھیں اُن کے ساتھ ہی اُن کی راگ کا اثر، سکیل اور تال درج کر دی ہے جبکہ ساتھ کیو آر کوڈ بھی شامل کر دیا ہے تاکہ قاری جو نظم پڑھ رہا ہے چاہے تو اُس کی دھن بھی سماعت فرما لے۔ پھر عرض کروں گا کہ شاید یہ کوئی نیا تجربہ ہو لیکن ایسا نہ بھی ہو تو اِس بار یہ کافی دلچسپ ہے۔ علاوہ ازیں ادیب اور اُس کے ادب کا معاملہ گائے اور اُس کے دودھ سے بننے والے گھی کی مثل ہے جو دس کلو دودھ دیتی ہے پھر جب اُس دودھ کو اُبال دیا جاتا ہے تو باقی نو کلو بچ جاتا ہے۔ اُبال دینے کے بعد اُسے جاگ لگائی جاتی ہے اور دہی بننے کے بعد اُسے جب بلوتے ہیں تو صرف ایک کلو مکھن نکلتا ہے۔ پھر اُسی ایک کلو مکھن کو جب پگھارا جاتا ہے تو اُس سے صرف تین پاؤ گھی نکل آتا ہے پس یہی تین پاؤ ہی در اصل ایک ادیب کا اصل کام ہوتا ہے۔ ’’سوزِ نہاں ‘‘ میں اپنی ظاہری ہیئت اور فکری لحاظ سے بہت کچھ نیا ہے۔ لیکن کیا نیا ہے اِس کی کھوج قارئین ہی کے ذمہ۔ پس ’’سوزِ نہاں ‘‘ پڑھیں اور غور کریں کہ اِس میں کیا نیا ہے۔

نعمان نیئر کلاچوی

28 جنوری 2022

٭٭٭

اس برقی کتاب  میں دیوناگری رسم الخط کا مواد شامل نہیں کیا گیا ہے اور نہ موسیقی کے کیو ۔ آر۔ کوڈ

ناشر

نظمیات

شروعات

تمہاری شروعات ہے مِری جاں

میں خاتمے کی طرف رواں ہوں

تِرا تصور ابھی جواں ہے

مِرے خیالات ڈھل چکے ہیں

تمہیں محبت سُرور دے گی

تمہیں وفاداریوں کی قسمیں

سراپا لطف و سکون دیں گی

وجود میرا مگر یہ اب تو

فقط اذیت، فقط ہزیمت

نہیں ہے اِس کو مزید پڑھنی

کوئی محبت کی نئی کہانی

مِری زبانی، زباں ہے پانی

تمہاری شروعات ہے مری جاں

میں خاتمے کی طرف رواں ہوں

اثر: راگ ایمن کلیان

سکیل: F minor

تال: دادرا (6 ماترے)

اضطراب

کسی طرح بھی نہیں ہے جاتا

یہ بے سبب اضطراب دل کا

محبتیں بھی ہیں کر کے دیکھیں

وصالِ رُت کے مزے بھی لُوٹے

مگر یہ بد بیں رہا اَوارہ

نہیں ہے کوئی سو اِس کا چارہ

کڑی اذیت کا ہے یہ مارا

یہ دل ہے میرا عذابِ دوزخ

بھڑک رہا ہے دہک رہا ہے

کسی طرح بھی نہیں ہے جاتا

یہ بے سبب اضطراب دل کا

٭٭٭

پریم دیوانی

پریم دیوانی بن بن ڈولوں

وِرہ کے گیت سناؤں ری

اپنا جی بہلاؤں

جیا مورا موسے دور گیو رے

سُدھ بُدھ کہیں نہ پاؤں ری

وا کا نام ہی جھپتی جاؤں ری

وِرہ کے گیت سناؤں ری

موسے گُیّاں پوچھن پیا دُوارے

چپ سادھ کھری میں پیڑ پسارے

موہ مَری میں پنتھ نہارے

وِرہ کے گیت سناؤں ری

اپنا جی بہلاؤں

٭٭٭

اثر: راگ درباری کانہڑہ

سکیل: C-sharp minor

تال: کہروا (8 ماترے)

٭٭٭

دلِ بے تاب

دلِ بے تاب تجھے شرم تو آتی ہو گی

تُو تو کہتا تھا کہ مر جاؤں گا

گر کبھی اُس نے مجھے چھوڑ دیا

کیا وہ اب ساتھ ہے تیرے

ݨدلِ بے تاب؟

گر نہیں ہے تو تُو زندہ کیوں ہے؟

گر نہیں ہے تو تُو ہنستا کیوں ہے؟

گر نہیں ہے تو تُو کھاتا کیوں ہے؟

گر نہیں ہے تو تُو پیتا کیوں ہے؟

گر نہیں ہے تو تُو سوتا کیوں ہے؟

دلِ بے تاب تجھے شرم تو آتی ہو گی

تُو تو کہتا تھا کہ مر جاؤں گا

گر کبھی اُس نے مجھے چھوڑ دیا

٭٭٭

لمس

بِن ترے سانس بھی اَکارت ہے

زندگی لمس سے عبارت ہے

فرحتِ حُسن اور شفاف بدن

بِن چھوئے مقبرۂ مرمر ہے

یہ جو سرخی ہے لال ہونٹوں پہ

دعوتِ لمس دے رہی ہے مجھے

یہ بدن کی جو تازگی ہے اِسے

خوشبوؤں سے میں مندمل کر لوں

یہ قیامت کے جو نشیب و فراز

چھو کے پوروں سے

میں صندل کر لوں

عشق جتنا نہ کیوں مقدس ہو

حسرتیں جس قدر ہوں پاکیزہ

کچھ معانی نہیں جو لمس نہیں

لمس تو زندگی کا کارن ہے

لمس جس رنگ میں ہو کامل ہے

لمس جیسا بھی ہو مقدس ہے

لمس تہذیب کا پازیب نہیں

لمس قرطاس کا رہین نہیں

وہ بھلا کیا محبتیں ہوں گی

جو مقید ہوں کورے کاغذ میں

عشق کو حاجتِ رسوم نہیں

عشق تو خود ہے سندِ کامل

لمس گر ہے گناہ تو ہم سب

پھر سبب ہیں اِنہی گناہوں کے

٭٭٭

تنہائی

اُف یہ خوں آشام تنہائی

کسے آواز دوں

اُف یہ محتاجی یہ رسوائی

کسے آواز دوں

پڑھتے پڑھتے دُکھ گئی ہیں پُتلیاں

اور دھندلاتی ہوئی جاتی ہے بینائی

کسے آواز دوں

دل دھڑکنے کا سبب کیا ہے

کسے معلوم ہو تو دے بتا

ہم کو تو کچھ دے سجھائی اب نہ یاں

کسے آواز دوں

درد کی تعبیر سے آگے

کہیں یہ زندگی

ہمنوا کوئی نہیں یاں

ہم نفس کے روپ میں

ہو چکی ہے بے اثر اب ہر دُہائی

کسے آواز دوں

اُف یہ خوں آشام تنہائی

کسے آواز دوں

اُف یہ محتاجی یہ رسوائی

کسے آواز دوں

٭٭٭

سزا

اے خدا پھر نہ دینا محشر میں

زندگی جیسی سزا آدم کو

کس قدر جاں گسل ہے فکرِ معاش

اور پھر اِس پہ مستزاد ہے عشق

بے ثمر ہے وہ جس کی آرزو ہے

اور جو ہے وہ ایک دم بے کار

زندگی کیا ہے جس طرح ہو بسر

لامحالہ ہے ایک موت اُمّید

میں اگر واقعی واقع ہوں تو پھر

موت اِک بے سبب تماشا ہے

اور گر موت ہے یہ برحق تو

وہ گیا اصل میں جو میرا نہ تھا

٭٭٭

گلاب موسم

گلاب موسم تو آ گیا ہے

مگر وہ اپنے کہاں ملیں گے

جو دل میں بستے تھے آٹھ پہروں

کسی بہانے وہ اُڑ کے آئیں

تو ہم بھی مانیں

مگر یہ شاید بس ایک وہم ہے

اُداس شام ہے

ستارے ڈوبیں وہ یاد آئیں

اندھیرا چھائے وہ یاد آئیں

میں اُن کو ڈھونڈوں

کہاں کہاں اب

مجھے وہ اپنے کہاں ملیں گے

گلاب موسم تو آ گیا ہے

کٹھن ہے منزل وفا شعاری

دلوں کو پھرنے کی ہے بیماری

جو آج اپنے وہ کل پرائے

ہیں کالے بادل وِرہ کے چھائے

اب اِن کو کیسے کوئی ہٹائے

ہمیں تو اِک پل نہ چین آئے

ہے ایک دل میں ہزار ہائے

اُف آئے ہائے اُو ہائے ہائے

گلاب موسم تو آ گیا ہے

مگر وہ اپنے کہاں ملیں گے

٭٭٭

خدا اور عقل

جب خدا عقل میں نہیں آتا

پھر کہ ہم کس طرح مکلف ہیں؟

دیر و کعبہ میں کیسا جمگھٹ ہے؟

مکہ اور کاشی میں رکھا کیا ہے؟

کیسے نازل ہوا کلام مجید؟

جب کسی طور بھی نہیں ممکن

بندے سے رابطہ خدا کا یہاں

کیا حقیقت ہے اِن تماشوں کی

جو کئی صدیوں سے جاری ہیں

کیا یہ سب جھوٹ کی تجارت ہے؟

یا کہ چند شاطروں کی چال ہے یہ؟

کچھ تو ہم کو بھی راہ دکھلاؤ

راہبرو! اے ہمارے ہم نفسو

کوئی رستہ جو سیدھا پہنچائے

ہم کو بھی یاں خدا کی بستی میں

کوئی الفاظ جن میں ہوں پنہاں

پختہ ایمان کے صریح معانی

کوئی ایسا یقین کامل ہو

جو بنا دے ہمارے دل کو بھی

ایسی محفل جہاں خدا کا کلام

خود خدا آ کے ہم کو سنوائے

اپنی آیات اپنی گیتائیں

اپنا الہام اپنی بپتائیں

٭٭٭

میں معصوم تھی

میں معصوم تھی اور مجھے ورغلایا

کبھی شعر کہہ کر کبھی دھُن سنا کر

کبھی سپنے دنیا جہاں کے دکھا کر

کبھی میٹھی میٹھی سی لوری سنا کر

میں معصوم تھی اور مجھے ورغلایا

کبھی یہ کہا کہ مِری جاں تِرا ہوں

کبھی یہ کہا کہ میں تیرا جہاں ہوں

مجھے ایسی باتوں میں اکثر لگا کر

کیا پورا جو بھی ارادہ تھا اُس کا

میں بیٹھی ہوں اب

جوگ خود کو لگا کر

تھا پاس اپنے جو بھی

وہ سب کچھ لُٹا کر

مِرے ہم نفس میرے

پیارے سے دلبر

کہیں اور مصروف ہیں آج کل وہ

سنا ہے کسی اور کے ہیں سرہانے

محبت کی باتیں وہ جھوٹے فسانے

کسی اور کو وہ سنانے لگے ہیں

کسی اور کو ورغلانے لگے ہیں

اثر: راگ تلک کامود

سکیل: C-sharp major

تال: دادرا (6 ماترے)

٭٭٭

پریم رِیتو

محبتوں کی سبھی رُتوں میں

عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں

اذیتیں بھی ملال بھی ہیں

شراب آنکھیں گُلال بھی ہیں

عنایتیں بھی بغاوتیں بھی

حکایتیں بھی روایتیں بھی

ہوا کے جھونکے خزاں رسیدہ

گلاب و سوسن مہک گزیدہ

محبتوں کی سبھی رُتوں میں

عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں

یہاں فتور و سُرور بھی ہے

یہاں مدبّر شعور بھی ہے

فنائے ہستی بقائے ہستی

غریب دل کی اُجاڑ بستی

وصالِ رُت کو رہی ترستی

یہ لوحِ محفوظ سے بھی پختہ

نوشتہ ہائے غم و اَلم یہ

ازل سے ایسے ہی آ رہے ہیں

محبتوں کی سبھی رُتوں میں

عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں

کہانیوں سے الگ ہیں رسمیں

کہ در حقیقت ہیں جھوٹی قسمیں

جو دل کو بھاتے ہیں پاس آ کر

وہ دل دُکھاتے ہیں یوں بالآخر

محبتوں کی سبھی رُتوں میں

عذاب بھی ہیں گلاب بھی ہیں

٭٭٭

عہدِ محبت

تمہاری آنکھوں کی روشنی سے

مِری مقدر کی صبح کاذب

سویرا بن کے چمک رہی ہے

مگر یہ اندیشہ ہائے اُلفت

کسی ٹھکانے لگیں تو سوچوں

یہ وحشتِ دل یہ بے قراری

حسین وہموں کی اضطراری

کسی ٹھکانے لگیں تو پرکھوں

کہ میری قسمت میں وہ چنبیلی

کھِلے گی یا کہ شگوفہ بن کے

غبارِ حسرت سے مر پڑے گی

چمک رہا ہے یہ قمقمہ جو

نویدِ صبح ہے زندگی کی

اِسے کبھی بھی نہ بجھنے دینا

کہ یہ ہماری حیاتِ نو کا

اکیلا اکلوتا راستہ ہے

پکڑ لو میرا وجیہ بازو

لپٹ لو مجھ سے قضا کی مانند

کہ موت بھی تو نہ کر سکے گی

کبھی بھی ہم کو جدا مِری جاں

مگر بس اتنی سی شرط بھی ہے

کہ چاہے کچھ بھی کہے زمانہ

کبھی نہ مجھ سے تُو دور جانا

اثر: راگ مِشر بھوپالی (مدھم تیور)

سکیل: C-sharp major

تال: کہروا (8 ماترے)

٭٭٭

اِک تھی عبیرہ

کبھی یہ حسرت بھری نگاہیں

قرار پائیں تو اِس بھرم میں

تری گلی کا طواف کر لیں

کہ ہم بھی تو ہیں ازل سے تیرے

یقیں رسیدہ پجاریوں میں

کبھی جو تیرے رُخِ مقدس کی

ضو فشانی جہان بانی

نگہ میں آتی تو ہم بھی دل کے

یقینِ محکم بسرّ و چشماں

سراپا مستی و بے خودی میں

بہشت و عالم ترے لبوں پہ

غریق ہو کے نثار کرتے

تری ہی قربت کے لمس میں ہم

حواس کھو کے جنوں گزیدہ

حسین زلفوں کی بیڑیوں سے

اُلجھ اُلجھ کے بڑی ہی مستی سے رقص کرتے ہوا میں اُڑتے

یہ لمس ہونٹوں کا حوضِ کوثر کا

جام گویا پیام گویا

تری جبیں پہ شعاعِ یزداں کی

ثبت قائم ہے ربط دائم

کہ وصل تیرا خدا کی معراج کا وسیلہ

تمام عالم کی رونقوں کو ثبات تم سے

کہ لوحِ دل پہ تری ہی چاہت کے نقش قائم ہیں ضبط دائم

ترا ہی درشن مجھے حیاتِ دوام بخشے

ترے لقاء میں خدا کے چہرے کی

اِک جھلک ہے

تُو جب تلک ہے خدا بحق ہے

٭٭٭

زندگی

زندگی کیا ہے پوچھ لے مجھ سے

میں بتاتا ہوں غور سے سن لے

اِس سے پہلے کہ تُو کہاں تھا یہاں

غور اِس پر کبھی کیا ہے بھلا

اَن گنت صدیوں سے ہے

تیرا جہاں اور یہاں

پر نہیں ہے یہ صرف تیرا جہاں

تجھ سے پہلے یہاں کئی آئے

آئے اور آہا کیا وہ خوب آئے

پر نہیں ہیں اب اُن کے نام و نشاں

یاں کسی کو کسی نے کب پوچھا

پھر وہ چاہے خدا ہو یا انساں

صرف دارا فرعوں نہیں مٹتے

کتنے یزداں بھی تو ہوئے ہیں فنا

ہم جو باسی دہکتے کوئلے کے

اَن گنت صدیوں سے نہیں تھے ہم

اور پھر ایک دن نہیں ہوں گے

دو نہ ہونے کے بیچ میں یہ کہیں

ایک موہوم سا بس ہونا ہے

اور نہیں جانتے کہ یہ ہونا

واقعی میں یہ ہونا ہے بھی سہی

یا کہ پھر محض ایک سپنا ہے

یہ جسے ہم بڑے دھڑلّے سے

زندگی کہتے ہیں نہیں تھکتے

یہ بھی ممکن ہے خواب ہو کوئی

اور پھر اس کے بعد جینا ہو

یا کہ یہ بھی ہے ایک وہم کوئی

زندگی آج بھی تو راز ہے اِک

کون اس راز تک پہنچ پایا

بات پھر مختصر وہیں پہ کھڑی

دو نہ ہونے کے بیچ میں یہ کہیں

ایک موہوم سا بس ہونا ہے

اور پھر یہ بھی تو نہیں معلوم

کیا یہ ہونا بھی سچ میں ہونا ہے

یا کہ بس زندگی کو ڈھونا ہے

٭٭٭

توہم

ہیں تم کو لاحق عجب توہم

کہ لوگ اب بھی محبتوں کے

حسین دھوکے میں آ ہیں جاتے

ہیں پیار کرتے و دل لگاتے

لگی ہے دل کی نہ دل لگانا

نہیں ہے رستہ محبتوں کا

کوئی فسانہ نہ دل لگانا

خدا کا لو نام پیارے نیئر

کرو تم اب کوئی کام ڈھنگ کا

شکستہ دل کو وہاں رِجھاؤ

جہاں محبت کا نام دھندہ

جہاں عبادت اَنا پرستی

جہاں کی خصلت ہو خود پرستی

ہو ایسی جگمگ خدا کی بستی

میں ہاتھ آگے ہوں جوڑ کر اب

کہو تو پاؤں پکڑ ہوں لیتا

مگر نہ مجھ کو یہ اب تُو کہنا

فلاں حسیں ہے فلاں ہے من موہ

فلاں کی آنکھیں بڑی ہیں پیاری

فلاں تو حقدار و مستحق ہے

تری محبت و اِلتفت کا

کہ اِس سے چپکے سے

دل لگاؤ سکون پاؤ

ہے اِنّا للہ ہے توبہ توبہ

بتوں کی چاہ سے

بتوں کی راہ سے

خدا بچائے اب اِس بلا سے

٭٭٭

حاجت

نہیں ہے حاجت مجھے خدا کی

خدا گواہ ہے یہ خوبی اُس نے

مجھے عطاء کی

وہ ایک دولت جو تھی اَنا کی

خدا سے مربوط تھی بلا کی

لُٹا کے بیٹھا ہوں داد مارا

نہیں ہے کوئی بھی اب ہمارا

کسی کا کیوں ہو نہ پھر سہارا

جو آج میرا وہ کل تمہارا

یہی ہے جیون کی بہتی دھارا

بھروسہ جس نے کیا وہ ہارا

خدا سے تحذر رہے خدارا

وگرنہ اِک روز یہ سہارا

کرے گا آخر کو بے سہارا

٭٭٭

بسنت پنچمی

دن ڈوب گئے ماگھ کے

سرما ہوا مہماں

حاجت نہیں اب آگ کی

تن ہو گیا آساں

بدھائی ہو سب کو کہ

پھر اب آ گیا پھاگن

راتیں ہوئیں چھوٹی جو

تو دن ہو گئے لامبے

بیٹھا کہاں جاتا ہے

سو اب دھوپ کے آگے

لے آئی ہے پھاگن کی ہوا

گیتوں کا موسم

رقصاں ہیں سراپا سبھی

سرسوتی کے چوپھیر

ایماں اگر عربی ہے تو

سنسکرتی ہے ہندی

پوجا جو ولایتی ہے

تو دل اب بھی ہے سندھی

عربی ہے نہ ترکی ہے

نہ تورانی ہے تہذیب

ہندو ہی ہیں ہم اصل میں

اور ہندو ہے تہذیب

گر شرم ہے تجھ کو

تو رہ شرمندۂ دوراں

ہم نے تو دی کر آن

سو سنسکرتی پہ قربان

٭٭٭

قحطِ تسکیں

قحطِ تسکیں ہوا ہے ایسا بپا

عاریتاً بھی یاں نہیں ملتی

ایک ساعت وہ جس میں آ جائے

شورشِ دل کو ایک دم سے قرار

درد بڑھتے ہی جا رہے ہیں سدا

اور جس سے ہو افاقہ وہ دوا

کس طرح سے بھی یاں نہیں ملتی

تُو نے دیکھا نہیں محبت سے

تُو نے پوچھا نہیں ہے دل کا مرض

ورنہ کیوں اتنے مضطرب ہوتے

درد کیوں اتنے جاں گسل ہوتے

بات یہ ہے کہ تُو نے چھوڑ دیا

بے سبب دل کو میرے توڑ دیا

٭٭٭

دسمبر

دسمبر آ رہا ہے پھر

اُداسی چھا رہی ہے پھر

کئی صدیوں کی اَن تھک جاں

سلگتی جا رہی ہے پھر

محبت جاں فشانی اور وفاداری

نئے قصے سنائے جا رہی ہے پھر

پر اب تو دل نہیں لگتا

محبت میں رفاقت میں

نئی یک طرفہ چاہت میں

کسی کی ناز برداری

کسی کی لاڈ برداری

وہ پہلے کی سی دل داری

کہاں ہوتی ہے اب ہم سے

عجب اِس بار ہے حالت

کہ یاسیت کی ہے شدت

مگر کہنے کو آمد ہے

دسمبر کی پیمبر کی

پیمبر وہ جو اہلِ دل کے سینوں پر

اُتارے گا نئے الہام یعنی

غلافِ دکھ کشافِ سکھ

اثر: راگ مشرشیو رنجنی

سکیل: C-sharp minor

تال: دادرا (6ماترے)

٭٭٭

رشتے ناتے

کون کہتا ہے کہ رشتے ہیں مقدس

کون کہتا ہے کہ ناتے ہیں اُلوہی

تُو نے چہرے کو کبھی ماں باپ کے

ایک پل کیا غور سے دیکھا نہیں؟

کس قدر آلودہ ہیں دکھ سے شکن

اُن کے ماتھے پہ مرقّص نوحہ کن

بلبلاتے ہیں کہ ہو گی کب نجات

یعنی رشتوں سے تعلق سے نجات

خود غرض بچے اور بچیوں سے نجات

ہم بھی فارغ بال ہوں اِن سے کبھی

دکھ گزیدہ یہ ہنگامے زیست کے

سونپ دیں ہم اِن کو بھی

اِک دن کبھی

درد وہ جن کی اِنہیں کچھ سُدھ نہیں

دکھ وہی جس سے یہ

اب تک تھے فراغ

کون کہتا ہے کہ ہیں دکھ سے بری

وہ جو ہم جن کو ہیں کہتے ہمسفر

یہ تعلق تو ہے پس اُس وقت تک

خوب ڈھنکا بجتا ہے جو جب تلک

جب تلک ہے تاباں تیری آن بان

تب تلک ہیں لوگ

اپنے سب یہاں

تب تلک ہمدم ہوا

جاتا ہے ہر ایک

مفلسی میں کون ہے کس کا رفیق

ہو پرایا یا کوئی اپنا عزیز

٭٭٭

چھُوہ منتر

وہ آدھا پل کہ جس میں

اچانک سے لپٹ کر

مجھے چھو کر وہ بولی

میرے ہمدم تُو اپنی

یہ آنکھیں بند کر لے

سمیٹے جا رہی ہوں

تجھے تجھ سے بہت دور

میں لے کے جا رہی ہوں

ذرا سا اِک ذرا سا

توقّف! جان میری

توقّف! آن میری

ابھی یہ درد سارے

ابھی یہ دکھ کے دھارے

اِسی پل ایک دم سے

سبھی کچھ چھُوہ منتر

٭٭٭

مِرتیو کی انوکمپہ

جیوں سار نہ کس نے پایا

پل دو پل ہے دکھ کی چھایا

پریم راگ ہی کیول بھایا

ورنہ ہر اِک رنگ ہے مایا

مہاویر کو گیان دلایا

بدھ کو دھیان کا پاٹ پڑھایا

چونڑک کو کیا چتر سکھایا

چندر گپت کو راج تھمایا

راج پاٹ نے درد بڑھایا

گیان دھیان نے بھی بھٹکایا

منجدھار میں پران کی کایا

لے دے کے بس ایک سہایا

جیون اصل تو مِرت ہے لایا

مِرت نے جیون پار لگایا

٭٭٭

بیعتِ عشق

مذہب کے سارے وعدے

خرد کی بھول بھلیاں

خیالوں کے پیام

یہ سب ہیں سود مند گر

اِرادت عشق کی ہو

عبادت حُسن کی ہو

حرارت درد کی ہو

ریاضت ہجر کی ہو

اگر یہ سب خزانے

ترے دل میں ہیں محفوظ

تُو مخدوم و منور

تُو پیرِ عشق و مذہب

تُو مرجعِ محبت

تُو مل جائے عبادت

تُو شیخِ با طریقت

تُو عرفانِ حقیقت

تُو حق و سچ کا محور

تُو قبلہ اور کعبہ

تِرے دستِ مقدس میں ہے قدرت

ہمہ عظمت و رفعت

تُو کثرت میں ہے وحدت

٭٭٭

مِرگ تِرشنا

جھوٹا ہے سنسار ری اَڑیا

جھوٹا ہے سنسار

جھوٹی ہیں سب کی پریم کی کھتیاں

کون سنے یاں دل کی بتیاں

جس کو لاگی آپ سہائے

بِن لاگا اَڑی ہنستا جائے

من چنچلتا کون سدھائے

سپنوں کی بھرمار ری اَڑیا

جھوٹا ہے سنسار

وِرتھ رہ جائیں روتی رتیاں

کاسے بھیجوں پیا کو پتیاں

من موہ کی بات جو آئے

کون بلا یہ سر سے ہٹائے

پریم کی دھارا بہتی جائے

دکھوں کی یلغار ری اَڑیا

جھوٹا ہے سنسار

٭٭٭

مفلسی

مجھ کو قسمت کی لوریاں دے کر

ذہن خوابیدہ کر لیا میرا

ہر طرح کی مزاحمت سے مِری

سوچ مفلوج کر کے رکھ دی ہے

میں جو کہتا ہوں حق کہاں ہے مِرا

کہے دیتے ہیں رب کی ہے تقسیم

تجھ کو کمّی بنایا اُس رب نے

اور ہم کو عطاء کی شہن شہی

تُو ترستا رہے گا روٹی کو

اور کتے ہمارے چاٹیں گھی

گر تجھے لڑنا ہے خدا سے لڑ

ہم تو بس اُس کے حکم کے تابع

اور تجھ پر مسلط حاکم ہیں

اِس زمیں پر خدا کا سایہ ہیں

تم نے کیا خطبوں میں نہیں ہے سنا

السلطان ظل اللہ یعنی

من اھانہ اھان اللہ

یہ جسے مفلسی ہو تم کہتے

اِس کو لکھا نصیب کا تُو سمجھ

اب یہ جو بھی ہے تیری قسمت ہے

اپنی قسمت کو رو اور چپ کر جا

ہم کو تُو خواہ مخواہ بے چین نہ کر

ہم تو جیسے بھی ہیں سو اعلیٰ ہیں

اور تُو لعنتی مقدر کا

اِس جہاں میں نہیں ہے تیرا کچھ

یاں تو جو بھی ہے سب ہمارا ہے

تجھ کو بس اللہ کا سہارا ہے

نام لے اُس کا اور بھوکوں مر

کیونکہ یہ ہے ازل سے تیرا نصیب

٭٭٭

دل

دل دل سے ملا ہوتا

پھر کتنا سکوں ہوتا

خدمت میں مِری تم بھی

دن رات کھڑی ہوتیں

میں تجھ کو اَنا دے کے

بے خود سا کھڑا ہوتا

خاطر میں تِری ہر دن

پُر کیف جہاں ہوتا

دل دل سے ملا ہوتا

پھر کتنا سکوں ہوتا

ملتی جو خوشی جیسے

تیسے بھی میں لے لیتا

گر یہ کسی اشیاء کی

مانند جو مل جاتی

بازار میں پیسوں سے

پھر جتنی گراں ہوتی

چپ کر کے میں لے لیتا

پر یہ بھی تو اِک سچ ہے

دل آج بھی بے مُل ہے

دل آج بھی دل دل ہے

اثر: راگ مالکونس

سکیل: F-sharp minor

تال: روپک (7ماترے)

٭٭٭

میکدہ

تہذیب کا پابند تھا میں اَبلۂ مسجد

جب راز کھلا مجھ پہ

تو پھر بن گیا مفرور

کچھ کام نہ آیا مِرے

اِس دنیا کا دستور

چلتے ہوئے اِک دن میں رُکا

شیو کے مندر

پرانام کیا بھیرو کو اور ہو گیا بے خود

مندر کے کیواڑوں نے مجھے

گھور کے دیکھا

جیسے میں کوئی اجنبی

بے ڈھب سا بیٹھا

میں ستو کا راہی تھا

دھرا بودھ پر ہی دھیان

پر عقد کھلا واں پہ کہ

کچھ دیگر و نیرنگ نہیں ہے

وِشواس کی نیّہ ہے

اور اَگیان کے پتوار

وِشواس تو وِشواس ہے

پھر چاہے ہو بے شک

اللہ پہ احمد پہ علی پہ یا ہو شیو پہ

تب دوڑ کے آیا میں

سو مندر کے دروں سے

اب سوچ رہا تھا کہ کہاں

بھاگ کے جاؤں

مسجد میں رکھا کچھ بھی نہیں

جز خالی عمارت

مندر میں دھرا کچھ بھی نہیں

جز بت کی عبادت

کیا فرق یاں پڑتا ہے کہ تم

اللہ کو مانو

اور کچھ نہیں ہوتا تم اگر

رام کے بھگت ہو

گر مجھ پہ نہیں عِتبار

تو خود ڈھونڈ کے دیکھو

اللہ کو شیوا کو یاں احمد کو علی کو

سب محترم و قابل تعظیم ہیں ہر طور

پر سچ کے مسافر کیلئے

کچھ بھی نہیں ہے

پھر چاہے وہ دنیا کے سبھی

کیوں نہ ہوں مذہب

ایسے میں بھٹکتا ہوا

اِک روز میں گزرا

اِک حلقۂ یاراں سے جسے

کہتے تھے رندی

رندی کوئی مجلس نہیں

مندر نہیں مسجد

یہ ایک سلوکِ طبع آزار

ہے جس میں

پس درد عقیدہ اور بَلا عین عبادت

آہیں یہاں تسبیح ہیں تو

سسکیاں دعا ہیں

یہ میکدۂ رنداں ہے مسجد نہیں مُلّا

مخلوق کی صورت میں یہاں

ملتا ہے اللہ

گر تجھ کو بھی ملنا ہے خدا سے

تو خوش آمدید

رحمت کی یاں دولت ہے

فقط یار کی اِک دید

٭٭٭

چھنڑ بھنگھور

دو چھنڑ کا ہے پریم پریسی

کر لے چاہے جتنا دھیان

تن من چاہے کر قربان

ہے پِیڑا کی دھار

اَدھ بُدھ ہے سنسار

من مورا نہ دھیر دھرے یاں

سندرتا کے پیچھے مَرے یاں

کام کی اگنی مُول جھرے یاں

پریم بنا ہتھیار

اَدھ بُدھ ہے سنسار

پریتم کی وہ چُپڑی بتیاں

موہ لے جائیں اِک

چھنڑ بھنگ میں

رنگتی جاؤں اُس کے رنگ میں

لے ڈوبے اھَنکار

اَدھ بُدھ ہے سنسار

اِک چھنڑ میں ہے ایشور پریتم

اِک چھنڑ میں ہے چتُر کھیلاری

شبدوں کو وہ مہا بیوپاری

کون لگائے نیّہ پار

اَدھ بُدھ ہے سنسار

پریسی اپنی جان کو روئے

جب پریتم کسی اور کو بھائے

پیا اُس اُور کو ڈُولتا جائے

کس پر کریں عِتبار

اَدھ بُدھ ہے سنسار

٭٭٭

دھرم

مومن کہو یا ہندو کرسچن کہو یا جیو

یا پھر کہو اَدھرمی

کچھ اَنتر نہیں پڑنی

تم آزاد ہو اپنے تئیں

میں نے پا لیا اپنا سائیں

دین دھرم سب

مذہب کے دھاگے

بندھے ہیں یہ منش کی موہ سے

پھر جس کو چاہو کہو پیمبر

جس کو چاہو کہو دگمبر

اِس سے فرق نہیں کچھ پڑتا

کون کسی سے کب ہے ڈرتا

اصل حقیقت دل کے اندر

میں دیوانہ مست قلندر

کفر کی لے ایمان کے سُر میں

اللہ والے دھیان کے گُر میں

مت کہو تم کسی کو کافر

یہ حق نہیں ہے تم کو حاصل

تیری پرارتھنا میری چندر

میری دعا ترے لئے وِرتھ

کب تک چلتا رہے گا بیر

آؤ مل کر مانگیں خیر

اُس سائیں سے اے پیمبر

جو بیٹھا ہے دل کے اندر

٭٭٭

اپنے اور سپنے

پاس اپنے جو ہیں وہ اپنے ہیں

اور جو دور ہیں وہ سپنے ہیں

وہ جو دل کی زباں سمجھتے ہیں

ساتھ جیتے ہیں ساتھ مرتے ہیں

کچھ بھی ہو جائے وہ نہیں رہتے

ایک پل دور دل کی راہوں سے

ایسے دلدار ہی تو اپنے ہیں

اور جو ہوتے ہیں خیالوں میں

چاندنی رات کے نظاروں میں

رنگ و بُو سے بھری بہاروں میں

صبح کے نور میں ستاروں میں

دل کی دنیا کے سبزہ زاروں میں

وہ بھی ہم راز ہیں مگر ہمدم

ایسے ہم راز صرف سپنے ہیں

پاس اپنے جو ہیں وہ اپنے ہیں

اور جو دور ہیں وہ سپنے ہیں

٭٭٭

توحید راجہ

کنول رسیدہ شباب کی تھی

وہ ایک شب

کہ جس میں ایسا اُمڈ پڑا تھا غبارِ دل

مگر وہ رات کوئی تھی

ایسی مہک گزیدہ

کہ اک تصور کی خوشبوؤں سے

ہوا تعارف طلب روی سے

ہے نام اُس کا ’’ توحید راجہ ‘‘

سجیلا بانکا خرد فروزاں

سراپا مسرور و مست و بے خود

ہوا مدلل کلام اُس سے

بس ایک لمحے میں اُس کو ایسا

سو جانا دل سے نہیں خرد سے

وہ ایسا چُلبل سیماب طبع

بَلا کا مخلص نِہا کا دلبر

مِری طبیعت کا راز داں وہ

نسیمِ اُلفت کا بادباں وہ

وفا شعاری کا اِک جہاں وہ

دلِ شکستہ کی ہے زباں وہ

مزاج کا ہے انوشیراں وہ

اندھیری شب میں چمکتا تارہ

گلوں سے شیریں کشیدہ بھنورہ

وہ حلوہ لہجہ وہ جلوہ محفل

اُسی سے تو ہے زہیر یہ دل

ہے چھ برس سے معلّق اُس سے

غبارِ خاطر کی تارِ ہشت پا

ہزار منطق ہے یاں خرد کی

ہے ایک نسخہ آباد دل کا

بھرم یاں رکھ لو جو دوستی کا

تو مسئلہ حل ہے سو زندگی کا

7٭٭٭

تیوہار

ہولی دیوالی اور گُڑی پاڑوہ

کجری بیساکھی اور بسنت کے رنگ

چھین کر راہزنوں نے سب ہم سے

دھرتی کے رنگے اور برنگے تیوہار

اب ہمیں فکر ہے شبِ قدر کی

ہم منائیں گے بس

اب عید شب برات

نام لیں گے نہ اب دسہرے کا

کچھ نہیں چاہ اب شیو راتری سے

ایسی تہذیب جس سے راہ نہ تھی

راہزنوں نے اُسی کا راہرو کیا

ہم جو باسی تھے سندھو دھرتی کے

گُن گاتے ہیں اب

حرم پاک کے

شرم آتی ہے اب جو خود کو کہیں

سندھو دھرتی کے ہندو سواپُتر

پوری دنیا میں ہم اِک ایسی قوم

اپنے آباء پہ ہیں جو شرمندہ

وقت اب آ گیا ہے کہ جاگیں

اور پہچان لیں ہم اصل اپنی

سنسکرتی جس کو ہم بھلا بیٹھے

دھرم اپنا جو ہم گوا بیٹھے

سینے سے اِس کو اب لگا لیں ہم

ہو مبارک اُن کو دھرم اپنا

اور ہم کو ہماری سنسکرتی

ایشور اُن پہ اپنی کرپا کرے

راہ جن کو ہے اپنی دھرتی سے

٭٭٭

استحصال

یہ عشقِ الٰہی یہ اذکار کی دھُن

یہ نو اِنچ کی داڑھی یہ ساٹھ اِنچ کا جُبّہ

عصا طورِ سینا کی اور دل میں کدرت

بتاتے ہیں ہم کو کہ

غربت ہے مِیری

پیمبر کے گھر میں نہیں تھی پنجیری

مگر اِن کے اطوار ہیں کوروش جیسے

زمیں پر ہیں چلتے کچھ ایسے کہ

جیسے فرعوں کوئی نازِ خرام ہو

جہاں میں سبھی نعمتیں ہیں اِنہی کی

یہ دنیا میں اعلیٰ مقدس ہوئے ہیں

غریبوں کے داتا یہ ڈھونگی بنے ہیں

ہے اِک لعنتِ مطلق یہ مولویت

ضرورت نہیں اِس کی انسانیت کو

خدا اور مذہب کو دھندہ بنا کر

بِنا ایک پیسہ لگا کر

کروڑوں کا بزنس دعا میں یہ پا کر

غریبوں کو جنت کے لالچ میں لا کر

رہے ہیں کھتور اِن سے اِن کی کمائی

امیروں کے کرتوتوں کو یہ سجا کر

بغاوت کی ہر راہ کو

روکے ہوئے ہیں

امیروں کی بخشش غریبوں کی جنت

اِنہی کی وساطت سے ممکن ہوئی ہے

یہی ہیں جہاں میں خدا کے دروغہ

نہ مانو گے اِن کی تو کافر کہو گے

٭٭٭

شِکشہ

اللہ میاں جب عربوں کو

قلم کتاب اور علم کی عظمت

نبی کریمؐ کے واسطے سے

سمجھا اور پڑھا رہا تھا

تب ہماری دھرتی پر

گیان کا سورج دمک رہا تھا

نالندہ کے وِشو وِدیالے

پڑھ رہے تھے چھاتر نرالے

قلم کتاب اور ترک سے ناتہ

ہے پرانا کئی صدیوں سے

کپل مُنی کا سانکھ درشن

چارواک اَجیت کی شیلی

ایک گیان براہمانڑ کا دیتا

دوجا پاٹ ناستِکتہ پڑھاتا

آریا ستو سدھارتھ لایا

سوا رمن وردھمان سکھایا

آدی نے وید اَنت پڑھایا

یوگ درشن پتنجلی لایا

سنجے نے اَگیان سکھایا

ماکھلی نے اَجیو سُدھایا

واتسائن نے سمبھوگ سکھایا

کوک پنڈت پریم ساشتر لایا

تکشلا جیسے وِشو وِدیالے

تین ہزار وہ ورش پرانے

سنسکرتی کے جگمگ تارے

گیان کے سوتے یہاں سے پھوٹے

پورے جگ میں جے جے کرتے

پھر بھی تُرک پٹھان اور بدّو

جاہل ہم کو کہتے نہیں تھکتے

٭٭٭

کال چکر

درد مسلسل ہائے ہائے اُف اُف

علم کتاب اور فکر کی بک بک

بھوگ سمبھوگ اور کام واسنا

موہ کرود اور چھینا جھپٹی

دھوکہ پریم اور جال متھیا کا

کال چکر ہے یہ عجب ڈھنگ کا

ایشور نام تُو جھاپ پیارے

کہتا جا رے جھپ نام ست نام

پھر جب کیا وچار کبھی تو

کیسا ایشور کا ہے جھپ نام

میٹھا دھوکہ موہنا پاکھنڈ

چکر ویو کسی ڈھوں گی کا

دھرم گیان وِگیان کے دھاگے

اُلجھ پڑے ہو تم اِن سب سے

سویدان! نروان اور موکش سے

مُکتی مغفرت نجات کا دھوکہ

اِن میں تُو اب مت آ جانا

سویدان! اُو مِتر پیارے

جی لے جتنا جی سکتا ہے

کال چکر سے نہیں چھُوٹے گا

جب تک مرتیو نہ آن پدھارے

جی لے جتنا جی سکتا ہے

نہیں تو آتما ہتھیا کر لے

جیون سے ہے پاپ بڑا کیا

جیون یدی وردان ہے پھر تو

مرتیو اِس سے مہا وردان

٭٭٭

چارواک

نہ میں ہوں اِک دوے ویدی

نہ ہی ہوں میں تری ویدی

پھر بھی میں اِک پکا ہندو

ابراہیم نہ دادا تھا مِرا

اور اسحاق نہ ابا میرا

نہ ہی ہوں میں آلِ ہاشم

پر محسن اسلام ہمارا

جس نے ہم پر اَتی شودر کا

ٹھپہ مٹایا وقار دلایا

لیکن یہ بھی تو اِک سچ ہے

میں ہوں بیٹا ساگر سندھ کا

نام ہے میرا ہندو سندھو

شکشہ میری چونڑک والی

اور طبیعت گوتم والی

وویک کا میں پنتھ نِہاروں

گیان کی گا تھا گاتا جاؤں

میری مانِتا جیون دوارے

چارواک ہے درشن میرا

یاوت جیویت سکھم جیویت

رڑم کرتو گرتم پیویت

جیون ہے اِک نشور دھارا

اور پرلوک ہے سیدھا لارا

جی لے جیسے جینا تجھ کو

ورنہ سب کچھ مان کے بھی تُو

اِک دن مٹی ہو جائے گا

٭٭٭

غزلیات

عشق محبت اور وفا

عشق محبت اور وفا

اِنّا للہ اِنّا للہ اِنّا للہ

بات سنے اور سمجھ بھی جائے

توبہ توبہ توبہ توبہ

دل کی کھڑکی بند کرو اب

ہونا ہے اور کتنا رسوا

حسن کے پیکر کاغذی پھول

دھوکہ دھوکہ دھوکہ دھوکہ

دردِ دل تک کس کی رسائی

جو بھی آیا مارا ٹہوکا

دیوانوں کا عقل سے کیا کام

عشق ہے رستہ عشق ہے ملجا

اثر: راگ اَڈاناکانہڑہ

سکیل: C minor

تال: دادرا (6 ماترے)

٭٭٭

صدف

دل کی ٹھنڈک ہو مِری آنکھ کا ہو نور صدف

کیسے میں جاؤں بھلا تجھ سے کبھی دور صدف

مخملیں گالوں پہ ہے عرق جیسے اُوس بہ گل

تیرے ہونٹوں پہ میں قربان مِری حور صدف

زندگی مانندِ شب ہے تُو جو مسکائے نہیں

مسکراتا ہوا چہرہ ترا مہ نور صدف

ہم کلامی کا ہو اب شرف عطاء میری خدا!

ایک مدت سے کھڑا ہوں میں سرِ طور صدف

ماہِ کامل بھی ترے حسن کا گرویدہ ہے

صبح کی لو بھی ترے جلوے سے معمور صدف

تیرا ہونا ہی تو ہے اصل میں ہونا میرا

میرے جُثّے میں سراپا ہے ترا نور صدف

اپنے بیمار پہ کچھ خاص کرم ہو جائے

دردِ فرقت سے ہے اب چُور صدف

اثر: راگ بھیم پلاسی

سکیل C-sharp minor:

تال: کہروا (8 ماترے)

٭٭٭

ورطۂ تعجب

خدا کو ڈال دیں ہم ورطۂ تعجب میں

کہیں سے بندہ فقط ایک بھی جو مل جائے

اب عشق کے بعد محض لن ترانیاں ہیں بچیں

فضول ہے جو اس کے بعد کہیں دل جائے

کٹی ہے سکھ کی اُمیدوں میں زندگی دکھ میں

کریں گے کیا اب اس کے بعد سکھ جو مل جائے

تمام عمر رفوگر رہے رفو کرتے

حرام ہے جو یہ زخمِ فراق سِل جائے

نصیب اپنا تو ہاتھوں کی لکیروں سے مٹا

دعا ہے تُو نے جو چاہا وہ تجھ کو مل جائے

٭٭٭

آہ

شکوہ نہ کر سکے ہیں نہ طاقت ہے آہ کی

اے دوست اب نہ پوچھ خبر رسم و راہ کی

باقی رہیں اُمیدیں نہ باقی رہا سلوک

اِک درد کی سی لہر ہے اُن سے نباہ کی

ہم سے کوئی نہ پوچھے رفاقت کا اضطراب

اِس راستے میں زندگی ہم نے تباہ کی

سب کچھ یہی رہے گا اگر وہ بھی چھوڑ دے

قاتل سے اب اُمید بھلا کس دواہ کی

اِک شُغل بن چکا ہے محبت کا سلسلہ

خوابوں میں اب تُو ڈھونڈ کہانی وفاہ کی

ہر واسطے کے پیچھے اب منطق ہے غرض کی

باقی رہی نہ راہ وہ بے غرض چاہ کی

تل جھل رہے نہ سبز کبھی تیرا عمر بھر

اِک رُو سیاہ نے ہم کو کچھ ایسی دعاہ کی

روح مضطرب ہے اور بدن ہو چکا نحیف

پر التجا نہیں ہے خدا سے شفاہ کی

اثر: راگ بھیرویں

سکیلE-major:

تال: کہروا (8ماترے)

٭٭٭

حسرت

ہر روز تیرے عہد پہ حسرت رہی حزیں

گو انتظار کی رہیں گھڑیاں یہیں کہیں

کھا کھا فریب دل کی یہ حالت ہوئی ہے اب

جس جا کرے نچوڑ لو قطرہ لہو نہیں

تُو دل میں تھا تو روشنی ہر سُو گئی تھی پھیل

اب روشنی ہے دل میں مگر تُو کہیں نہیں

درماں نہ بن سکا کوئی ہم سے ملال کا

اب تک رہے ہیں ڈھونڈ اُسی کو یہیں کہیں

کچھ تجھ سے ہے گلہ و گلہ کچھ نصیب سے

دونوں نے مل کے خوب کیا ہے مجھے حزیں

٭٭٭

رنجشیں

رنجشیں ایسی بڑھی ہیں چاہتوں کے ساتھ ساتھ

اُڑ رہی ہو گرد جیسے قافلوں کے ساتھ ساتھ

دور تر ہوتی گئی منزل اُسے پانے کے بعد

فاصلے بڑھتے گئے ہیں قربتوں کے ساتھ ساتھ

یاد بھی اُس کی سدا برسات کی مانند رہی

آنکھ برسی ہے ہمیشہ بارشوں کے ساتھ ساتھ

اب تو کھڑی سے مجھے وہ گلبدن دِکھتا نہیں

کھو گیا ہے وہ بھی شاید منظروں کے ساتھ ساتھ

کٹ گئی ہے عمر لیکن جستجو باقی رہی

پھر رہے ہیں دربدر اب حسرتوں کے ساتھ ساتھ

دھوپ چھاؤں کی طرح سے زندگی نعمان کی

یاس کے عالم میں گزری خواہشوں کے ساتھ ساتھ

اثر: راگ ایمن کلیان

سکیل: C-sharp minor

تال: دادرا (6 ماترے)

٭٭٭

نہ فہیم زیست دارم

نہ فہیم زیست دارم، نہ چمن نہ گل نہ خارم

پس ازاں کہ من بیزارم، گویا کونج بے قطارم

مجھے علم نے جھنجھوڑا، مجھے فکر نے مروڑا

میں ہوں درد کا سنبھوڑا، زہے روز اشک بارم

موری پریم کی نگریا، موری سانولی سنوریا

توری موہنی نجریا، توری یاد میں بیمارم

تجھے زندگی مبارک، تجھے ہمسفر مبارک

میری ٹوٹ گئی آرک، سو اب نہ دوست دارم

موری درد کی کویتا، موری موم کی وہ سیتا

مورے پریم کی وہ گیتا، تورے نین کا مہ خوارم

٭٭٭

قہرِ عظیم

عشق و رحمت نہ سہی بھیج کوئی قہرِ عظیم

ہم کو بے وجہ جئے جانے پہ مجبور نہ کر

کٹ گیا سر تو بڑی بات بھلا اِس سے ہے کیا

سر کے ہوتے ہوئے سر درد سے معمور نہ کر

تُو اگر واقعی واقع ہے تو آ مل مجھ کو

خواہ مخواہ مجھ کو یوں دیوانوں میں مشہور نہ کر

درد گر حتمی ودیعت ہے تو پھر میرا شعور

اُس کی یادوں سے سرِ دست تُو مخمور نہ کر

اُن کی اُلفت جو نہیں میرے مقدر میں تو پھر

لذتِ درد کے احساس سے معذور نہ کر

پیرِ غم جذبِ اَلم کو ہیں ترے سات سلام

ہم کو صرف اپنے کرم سے تُو کبھی دور نہ کر

٭٭٭

انتظارِ اَجل

زندگی کیا ہے انتظارِ اَجل

موت گر ہے تو زندگی کیسی

عقل سے ماوراء ہے اپنی خودی

میں نہیں ہوں تو بندگی کیسی

ایک ادراک درد کا ہے یہاں

یہ جو نہ ہو تو پھر خوشی کیسی

موت سے جس کو خوف لاحق ہو

ایسے عاشق کی عاشقی کیسی

کٹ مرے اُس پہ جس کو حق جانے

ورنہ پھر مردانگی کیسی

٭٭٭

بُت

یاد میں اُس بُت کے روئیں اِس قدر آنکھیں مِری

پُتلیاں دونوں نہا دھو کر مسلماں ہو گئیں

خامشی سے تھیں مزین تتلیاں خیالات کیں

اُس کی یادوں سے جو اُلجھیں تو پریشاں ہو گئیں

انتسابِ زندگی ہم لازماً اُس کو کئے دیتے مگر

اصطلاحاتِ کسک اِس دل کا عنواں ہو گئیں

دیکھ کر اُس نازنینِ راحت و جاں آفریں کو

ہو گئے اوساں خطاء آنکھیں فروزاں ہو گئیں

بے سبب پوچھا کئے جو بارہا دل کے حوال

مہ جبیں کی لٹ پیچاں تیر مژگاں ہو گئیں

٭٭٭

دغا

دوستی میں دغا پہ حیرانی

پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی

آنکھ جب مبتلائے وحشت ہو

پھر کسی طور بھی نہیں لگتی

غیرتِ عشق کی یہ حالت ہے

آنکھ بھی بھول کر نہیں روتی

دل جو دکھ درد سے مزیّن تھا

پھر کہاں یاد روشنی لاتی

کر کے ویران میری دنیا کو

کس کی دنیا سنوارنے جاتی

٭٭٭

نادم

دل اب بھی تِرا قائل دل اب بھی تِرا محرم

گزری ہوئی باتوں پہ دل اب بھی بہت نادم

خود غرض تھا میں بے حس کچھ ایسا سمجھتا ہوں

پر تجھ سے کئے وعدے پر اب بھی ہوں میں قائم

روتے ہوئے چھوڑا تھا روتا ہی رہا ہوں میں

اِک عرصہ ہوا گزرے دل اب بھی نہیں بے غم

یہ عشق نہیں جبر اِک اپنوں کی عنایت ہے

جس نے اِسے اپنایا پُر درد رہا دائم

یادوں کے بگولے ہیں خیالوں کے سمندر میں

دل ہجر سے آشفتہ آنکھیں ہیں بہت پُر نم

افسوس دلِ ما را درماں نہ شود پیدا

یک لمحہ خطا سرزد تا عمر شدہ مجرم

اثر: راگ ایمن کلیان

سکیل: E minor

تال: دادرا (6 ماترے)

٭٭٭

ہنگامہ

کس کس کو خدا مانیں

کس کس کا خدا مانیں

ہنگامہ عجب برپا

کس کس کی بتا مانیں

چیرے نہ فلک کو جو

وہ کیسے صدا مانیں

ابدال یہاں لاکھوں

کس کس کو گدا مانیں

تاثیر نہ ہو جس میں

وہ کیسے دعا مانیں

٭٭٭

حکیمی

حکیمی درد سر است

ایں درد سر بسر است

سراپا من فریبم

سرابِ خشک و تر است

نمی دانم چہ گویم

کلامِ بے اثر است

جنوں یک کار آمد

خرد آشفتہ سر است

خموش اے دل آزردہ

فغاں ایں بے ثمر است

اثر: راگ بھیرویں

سکیل: C-sharp major

تال: تنگڑا (7ماترے، اَتنڑ ٹھیکہ)

٭٭٭

قطعات

تتلی

چھو کے دیکھوں تو مُرَجھ جاتی ہو

زندگی! تُو کہیں تتلی تو نہیں؟

مستی و ذوق میں ڈوبا ہوا اِک بار کا لمس

زندگی بھر کے دکھوں کی کوئی پٹلی نہیں؟

دیپ

جل اُٹھے دیپ تیری یادوں کے

جب ڈھلی شام میرے گاؤں کی

اور سوچوں سے تیرے ٹکرا کر

مسکراہٹ نے لی پھر انگڑائی

کیڈبری چاکلیٹ

اُس نے کئی بار مسکرا کے مجھے

کیڈبری ہاتھ میں تھما کے مجھے

کہنا چاہا مگر وہ کہہ نہ سکی

کیا ملا ہے تجھے ستا کے مجھے

زہر

ایک مدت سے جی رہا ہوں میں

زہر سانسوں کا پی رہا ہوں میں

آئے اب موت تو افاقہ ہو

چاک دل کب سے سی رہا ہوں میں

عدم کی راہ

نعمان ہم وہ لوگ کہ جن کی یہ کل حیات

ہے انتظار موت کا اور پھر عدم کی راہ

کچھ حاصل و وصول نہیں ربط و ضبط سے

اِک واہمہ سا لاحق ہے جیسا کرم کی چاہ

لِیلا

عجب اِک کشمکش ہے یہ حیاتِ بے سروپا بھی

کہ مرنے کیلئے جاری ہے کوشش صرف جینے کی

یہ کس نے زندگی بخشی یہ کس نے موت جاری کی

نہیں معلوم کہ اُلجھی ہوئی لِیلا یہ کس کی تھی

بھرم

ہِردے کے آنگن میں آیا تُو جو ورشا کے سمان

موہ کی نیہ گئی چپ چاپ اب منجدھار میں

بھرم نہ ٹوٹے کہیں یہ بیچ دریا چاہ کے

وِرہ کی جلتی اَگن ہے پریم کے آکار میں

زفاف

ابھی تلک تو حنا کے نہ رنگ ہوئے تھے رقیق

پیامِ ہجر لے آئی اَنا زِفاف کے بعد

بس اِتنا قصّۂ عشق و جنون ٹھہرا ہے

کتابِ درد نظر آ رہی غلاف کے بعد

تغیر

سب کچھ بدل چکا ہے سب کچھ بدل رہا ہے

یہ دل ہے جو کہ اب بھی ویسے سُلگ رہا ہے

کیسا تغیر ہے یہ مُڑ مُڑ جو آ رہا ہے

میں آگے جا رہا ہوں دکھ پیچھے آ رہا ہے

جگنو

چپکے سے کان میں کہا اُس نے

تیری تتلی اُداس ہے جگنو

مسکرائے تو روشنی پھیلی

کیسا دلکش نِواس ہے جگنو

صحیفہ

مجھے پڑھنے کی زحمت نہ کرو اے میرے ہمدم

غلافِ درد میں لپٹا ہوا ہوں اِک صحیفہ

اَلم میری وجہ سے ہیں سلامت

دکھوں کا مجھ کو کہتے ہیں وظیفہ

روح

دہک رہا ہے بدن اور روح شکستہ ہے

کہاں پہ لا کے دیا چھوڑ تیری فرقت نے

ہر ایک روک کے کہتا ہے اب سنا دل کی

بنا دیا ہے تماشا وہ تیری قربت نے

ضد

اُن کو ضد تھی کہ مجھے جیسے بھی ہو خوش رکھے

اور میں تھا کہ بہرحال بہرطور اذیت میں رہا

مجھ پہ گزری جو سو گزری مگر اُس کو کیا غم

ماننا فرض تھا میرا بھلے پھر جو بھی کہا

درد و اَلم

عمر بھر بھول کے جس نے مجھے رونے نہ دیا

آج وہ شخص مجھے درد و اَلم دے کے چلا

کل کائنات تھی جس کیلئے اِک ذات مِری

اور اُس ذات کو ٹکڑوں میں اُس نے توڑ دیا

رُت

گلوں میں رنگ بھرے اور نہ بہار آئی

تمہارے بعد رُتوں نے بھی رُخ کو موڑ لیا

عجیب گردشِ دوراں کے ہاتھ آئے تھے

کہ جو بھی ساتھ چلا اُس نے تنہا چھوڑ دیا

احکامِ شریعت

خوب معلوم ہیں احکامِ شریعت یہ مگر

ہجر افطار کرے تو میں کروں سحریِ صوم

دل جن کے ہوں مکدر وہ بھلا کیا جانیں

آہ تسبیح و تراویح ہے جو ہوں سینے موم

تخیل

پھونک کر روح مُردہ لفظوں میں

میں نے دی ہے زباں تخیل کو

اور پھر لفظوں کے مجسموں سے

مل گیا آشیاں تخیل کو

معجزہ

اب اِس سے بڑھ کر ہے معجزہ کیا

کہ تیرے بعد بھی جی رہے ہیں

جو کہتے اِک پل نہ جی سکیں گے

وہ جی رہے ہیں، وہ جی رہے ہیں

وجود

ترا وجود مِری آرزو میں پنہاں تھا

بدل گئی جو مِری آرزو تو تُو بھی گیا

خرد جو کتنا ہی روشن ہو یہ حقیقت ہے

جو بات چاہ کی آئی تو فکر خو بھی گیا

برکت

یہ ماہ و سال کی برکت یہ بدھ خمیس کی رحمت

غرض نہیں ہے کوئی اِس سے بت پرستوں کو

تمہارے ہجر نے لُوٹے جو قافلے دل کے

ملی ولایتِ کبریٰ وہ خود پرستوں کو

نمازِ عشق

مذاقِ تسبیح مصلیٰ نہیں ہے حق میں حلول

کلیجا چیر کے رکھ دیتی ہے نمازِ عشاق

دہر میں ڈھونڈتے پھرتے ہو کس مسیحا کو

دوا ہے ٹوٹے ہوئے دل کی پس غمازِ عشاق

خط و خال

ہم خود تراشتے ہیں خداوند کے خط و خال

ہم وہ نہیں ہیں جن کو خدا خود بنا گیا

وہ اور ہوں گے جن کو عبادت کا شوق ہے

ہم نے تو بت پرستی میں خود کو گنوا دیا

زخم

بڑے ہی زخم دیئے ہیں مجھے اُمیدوں نے

کہ اب تو کچھ بھی جو ہو جائے کچھ نہیں ہوتا

رفاقتوں نے کچھ ایسا بے حس مزاج کیا

جو دل کو توڑ دے کوئی تو دکھ نہیں ہوتا

گاؤں کی شام

فاصلے لاکھ سہی پھر بھی مِری آنکھوں میں

چپکے سے بس سی گئی ہے وہ ترے گاؤں کی شام

تُو کبھی یاد تو کر بھول کے وہ میری وفا

کیسے منسوب ہوئی عمر مِری یادوں کے نام

ہم سفر

ہائے وہ دل جسے دلدار ہم سفر نہ ملے

ہائے وہ دید جسے شوخیِ منظر نہ ملے

حیف صد اُس پہ ہے کم جس کو کبھی

مستیِ ذوق و فنا پہلوئے دلبر نہ ملے

خوددار

کتنا خوددار تھا نعمان بچھڑنے والا

مجھ سے بچھڑا تو کبھی یاد نہ آیا مجھ کو

کھا گئی کس طرح اِک پل میں محبت کو اَنا

دور جا کے بھی کبھی خیال نہ آیا تجھ کو

منتظر

اور بس درد سے گزر جائیں

اتنا کیا کم ہے ہم کہ مر جائیں

کس بھروسے پہ ہم جئیں آخر

منتظر موت کے رہیں یا کہ مر جائیں؟

آن

دیا تج ایمان گیان پیا

اِک تیری رہ گئی آن پیا

توری بتیاں مورا دھیان پیا

مورا جیون ہے تورا دھان پیا

جنوں

تقدیس سے ناکارہ نہ کر اپنے جنوں کو

یہ زندگی مستی کے سوا کوہِ گراں ہے

دے زہد کی دعوت اور رہے آپ مزے میں

مُلّا کی منطق نہیں یہ جی کا زیاں ہے

تراویح و تسبیح

فراقِ یار سے فرصت ملے تو ہم بھی سنیں

قیامِ لیل کی باتیں دعا تراویح و تسبیح

ایماں سے افضل و اعلیٰ ہے مرتبہ عشق کا

نہیں جو عشق تو بے کار بندگی ہے سبھی

حقیقت

تم جو کہہ دو وہی حقیقت ہے

بات اتنی سمجھ میں آئی ہے

جھوٹ تیرا کہاں کا جھوٹ بھلا

تیری ہر بات میں سچائی ہے

پناہ گاہ

تھام کے ہاتھ چھوڑنے والے

تُو مِری آخری پناہ گاہ تھا

اب میں کس سمت دل کو لے جاؤں

اُس کی جانب ہی ایک راستہ تھا

موت

ایک لمحے کیلئے جس میں موت آنی ہے

جی رہا ہوں میں کئی سالوں سے

دکھ کی تشہیر بہر طور نہیں شیوہ مِرا

کچھ نہیں حاصل و موصول کڑے نالوں سے

رسوائی

خوف جسے رسوائی کا ہو

ہم سے آنکھ لڑائے کیوں

دیوانوں سی حالت کر کے

خود کو روگ لگائے کیوں

شکستہ دل

پری وشوں پہ میں ایمان وار کر اب

شکستہ دل میں بڑا کفر لئے پھرتا ہوں

یقیں ہے حُسن کا تابع اور حُسن عشق کا

شرابِ عشق تبھی تو میں پئے پھرتا ہوں

ہجر

ایسے ویراں ہے تیرے ہجر میں دل

جیسے بستر جوان بیوہ کا

درد کا گھپ اندھیرا چاروں طرف

اور یادوں کا ہو گیا در وا

عشق

تا حدِ نظر سلسلۂ درد و اَلم ہے

اے عشق تری خیر کہ یہ کیسی عطاء ہے

روتے ہوئے سوتے ہیں تو اُٹھ کر ہیں سسکتے

یہ دل کی لگی بن گئی ہر لمحہ سزا ہے

خدا کا خیال

کسی بھی طور سے ممکن نہیں خدا کا خیال

خیالِ یار ہی اب بن گیا خدا کا خیال

جو بندگی سے خدا کے نقوش در آتے

تو نارسائی کا ہوتا بھلا یاں کس کو ملال

خامشی

میں تو لفظوں کے جال بُنتا تھا

کیا تری خامشی بھی دھوکہ تھی؟

حدّتِ عشق نے تمہیں بھی چھُوا

یہ الگ بات تم نے چپ سَدھ لی

خدا کی تلاش

ہے تجھ پہ فرض فقط بندۂ خدا کی تلاش

خدا کہاں ہے، ہے کیسا تُو اِس کی فکر نہ کر

خدا خیال کی تشبیہ ہے اپنے بندے میں

نہیں جو درک، کسی سے تُو اِس کا ذکر نہ کر

سائے

نہیں معلوم کب تک درد کے سائے رہیں گے

کہ اب تو زندگی کا گرہن سورج ڈھل چکا ہے

ضعیفی میں بھی ہے باقی حرارت عشق و چاہت کی

ہزارہا بار اِس آتش میں یہ دل جل چکا ہے

خرد

خرد کے دائرے محدود تر ہیں

حماقت کی کوئی سرحد نہیں ہے

بغاوت نے کی ہے پیدا ذہانت

بصیرت مان لینے میں کہیں ہے؟

حق زاد

حق زاد صفت عشق کے حامل ہم لوگ

مارے فرقت کے نہ ہوتے تو خداوند ہوتے

حدِ ہا ہوت سے سیدھا ہمیں ناسوت کی سمت

گر نہ پھینکا گیا ہوتا تو قلندر ہوتے

تِل کی چمک

بس ایک جست میں لے آئی کفر کی جانب

تمہاری آنکھ کی لالی تمہارے تِل کی چمک

چلائے تیر جو آنکھوں سے سربسر تُو نے

سکوت بن کے رہ گئی وہ گفتگو کی دھمک

معتکف

سر بہ زانو جنوں کی مسجد میں

معتکف ہے ترے فراق کا درد

تسبیحِ یار ہے تراویحِ دل

اور ایماں تو ہے سو عشق کی گرد

شوق

شوق تھا تتلیاں پکڑنے کا

بھول بیٹھا ہوں راستہ گھر کا

حُسن ایسی بلا کے جس نے بھی

اِس کا پیچھا کیا وہ در در کا

ایماں

ایماں کا ذکر کیا کروں فرسودہ چیز ہے

مجھ کو تو تیرے جلوے کی ندرت عزیز ہے

ہو عقل کا مطیع اور رہے حُسن میں غریق

دیوانگی میں کیسی بھلا یہ تمیز ہے؟

خیالِ یار

خیالِ یار کی زلفوں سے اُلجھے

عبادت کے کئی مبروک لمحے

سروشِ بے نوا اللہ سے کہنا

جنوں کے مارے ہیں بے ڈھنگ اَٹکے

پتہ

تم نہ ہوتے تو دنیا والوں کو

اپنے ہونے کا کیا پتہ دیتی

عشق گر مجھ پہ نہ کرم کرتا

حُسن کو کس طرح پناہ دیتی

درد کی مُورت

اِس کارگہِ رنگ و چمن سے ہے تِرا ربط

اے ہستیِ ناچارہ رسا درد کی مُورت

تحذیر نہ کر لذتِ صہبائے جنوں سے

جز اِس کے نہیں کوئی بھی تسکین کی صورت

جوت

اپنے بھِیتر جھانک کے دیکھا تم ہو پیا پدھارے

من میں پریم کی جوت جلائی مٹ گئے سب اندھیارے

تن میں اگنی موہ کی ڈولے شُول وِرہ کے پھُولے

رِدے پرتکشہ پل پل جھولے نینن پنتھ پُہارے

بستی

لے چلو مجھ کو ایسی بستی میں

پیار کرنا جہاں عبادت ہو

لوگ جیتے ہوں پیار کے دم پہ

عشق کرنا جہاں ریاضت ہو

لطف

ساتھ مرنے سے بڑا لطف ہے کیا

آؤ مل کر یاں ہم وفا ہو جائیں

اِس سے پہلے کہ زندگی ہم کو

ایسا توڑے کہ ہم جدا ہو جائیں

تھکن

تھکن سے چُور ہوں میں

اے دل مجبور ہوں میں

زمانے بھر کے غم سے

بہت رنجور ہوں میں

لایعنی

لایعنی سی رات ہماری بے مطلب سا دن

کیا پوچھے ہو جیون بپتا سُونا سا ہے من

پریت کری تو سو دکھ پایا جی کو خوب جلایا

بن گئے چندر گیت سہانے من چاہے تو سُن

حق

حق توحید کا تجلّیٰ ہے

ورنہ پھر وہم کا مصلّیٰ ہے

دل میں تُو دردِ اُنس پیدا کر

خدمتِ خلق ہی میں اللہ ہے

جہنم

بھُک مَری بے بسی اور رسوائی

ایسی ہے بس یہاں یہ زندگی

لوگ ڈرتے ہیں کس جہنم سے

اِس سے بڑھ کر جہنم کیا ہو گی

چِتا

کیا قبرستاں کیا شمشان

دفن کرو یا چِتا جلا دو

تمہاری مرضی پیچھے والو

الحمد پڑھو یا چندر گوا دو

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل