FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عربی زبان و ادب

نا معلوم

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند

۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘

http://urdupedia.in

 

 

تعارف

عربی زبان  و ادب عرب قوم سامی اقوام کی ایک شاخ ہے۔  ان قوموں میں بابلی، سریانی فینیقی، آرمینی، حبشی، سبئی اور عربوں کو شامل کیا جاتا ہے۔  مؤرخین نے عرب اقوام کو مندرجہ ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

 (۱) عرب بائدہ: یہ وہ عربی اقوام ہیں جن کے حالات کا نہ تو تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور نہ ہی آثار قدیمہ سے البتہ ان کی زبان کا نمونہ ان کتبوں اور تحریروں میں ہے جو حال کی کھدائیوں میں ملے ہیں۔

(۲) عرب عاربہ یا قحطانی عرب: یہ یمن کے وہ باشندے ہیں جو نسلاً یعرب بن قحطان کی اولاد میں سے ہیں۔  عربی زبان کے اصلی بانی یمن کے یہی باشندے تھے۔

(۳) عرب مستعربہ یا عدنانی عرب: یہ حجاج کے وہ عرب ہیں جو عدنان کی نسل سے تھے یہ لوگ انیسویں صدی قبل مسیح حجاز میں آ کر ٹھہرے اور یہی بس گئے۔

             مذکورہ بالا تمام اقوام عربی زبان بولتی تھیں۔  عربی زبان کی ابتدا اور اس کی نشوونما ماہرین لسانیات کا اتفاق ہے کہ سامی اقوام اپنی بستیوں میں جو زبانیں بولتی تھیں ان ہی ایک شاخ عربی زبان بھی ہے۔  اور اس طرح عربی زبان کو آریائی یا حامی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  عربی زبان دنیا کی ان وسیع ترین سلیس اور خوبصورت زبانوں میں سے ہے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔  یہ زبان دائیں سے بائیں طرف کو لکھی جاتی ہے۔  اس میں ۲۸ حروف تہجی ہیں۔  اس زبان میں بعض حروف جیسے (ض) ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں نہیں ملتے اور نہ دوسری قومیں ان کا صحیح تلفظ کرسکتی ہیں اسی لیے عرب فخریہ کہتے ہیں کہ ’’نحن الناطقون بالضاد‘‘ یعنی دنیا میں صرف ہم ہی ضاد کا صحیح تلفظ کرسکتے ہیں۔  اس زبان میں الفاظ کی آخر آواز کو مخصوص نشانوں (اِعراب) کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔  حروف کے ذریعہ لکھ کر نہیں ، جیسا کہ آریائی زبانوں میں ہوتا ہے۔  اسی زبان میں مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن شریف نازل ہوئی ہے اور اسی زبان میں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باتیں کہی ہیں اور مذہبی تعلیم دی ہے۔  ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق اس زبان کو جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ ہلال حصیب شمالی افریقہ اور دوسرے ملکوں کے ایک کروڑ سے زائد اشخاص بولتے ہیں۔  اور چوں کہ اس زبان میں قرآن اور حدیث کے علاوہ تمام اسلام علوم و فنون بھی لکھے گئے ہیں اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اسے اپنی مقدس مذہبی زبان مانتے ہیں۔  انجمن اقوام متحدہ نے دوسری چار زبانوں کے ساتھ اسے بھی اپنی کارروائیوں کے لئے تسلیم کر کے اس کی بین الاقوامی حیثیت کو سندِ اعتبار عطا کی ہے۔

 عربی زبان کے مختلف لہجے عربی زبان اپنی اصلی شکل میں کس طرح وجود میں آئی اس کا یقینی پتہ لگانا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ جس وقت اس کی واضح شکل ہمارے سامنے آئی ہے وہ اسلامی زمانہ تھا اور اس وقت عربی زبان اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔  مگر اب مختلف عرب ممالک میں کھدائیاں کرنے کے بعد جو آثار قدیمہ ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان تین مختلف لہجوں میں بولی جاتی تھی۔  لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ں جوں عرب قبائل میں تجارت، میلوں ٹھیلوں ، حج کعبہ اور دوسرے ذرائع سے آپس میں میل جول بڑھا تو لہجوں کا یہ اختلاف رفتہ رفتہ مٹ گیا اور ایک نئی اور خوبصورت زبان نکل آئی جو ’’لہجہ قریش‘‘ میں تھی۔  اور جب اس لہجہ میں قرآن شریف بھی نازل ہو گیا تو اس زبان کو عمر جاوداں مل گئی۔  اور یہی وہ زبان ہے جو آج بھی علمی، ادبی، سیاسی، تاریخی، فنی، تکنیکی اور دیگر ضرورتوں میں عرب ملکوں میں استعمال ہوتی ہے۔

 عربی رسم خط جس طرح عربی زبان کی ابتدا اور ع اس کی نشوونما کے متعلق اب تک کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی تھی اسی طرح عربی زبان کے رسم خط کے بارے میں بھی علما اور ماہرین لسانیات کی معلومات محدود تھیں۔  تقریباً نوے سال ہوئے مستشرقین (اسلامی علوم و فنون اور عربی کے ماہر یورپین علما) نے مختلف عرب ممالک میں کھدائیاں کر کے جو تحریریں اور کتبے نکالے ہیں ان کی بنیاد پر ان علما کا خیال ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے حجری عہد کے دوسرے دور میں بحر روم کے ساحلوں پر بسنے والی قوموں میں جب تہذیب و تمدن کو نشوونما ہوا تو انہوں نے اس وقت تک رائج نقوش کی زبان کو پہلی مرتبہ رسم خط میں تبدیل کیا۔  بعد میں جب ان کے یہاں تہذیب و تمدن نے مزید ترقی کی، صنعت و حرفت بڑھی اور تجارت میں مزید توسیع ہوئی تو ۳۶۰۰ ق م بلکہ غالباً اس سے بہت پہلے ایلام سومیریا اور مصر میں ایک ایسا رسمِ خط ایجاد ہوا جس میں دل کی بات تصویروں کے ذریعہ اد ا کی جاتی تھی اس رسم خط کا نام ’ہیرو غلیقی‘ یا قدیم مصری طرز تحریر تھا۔  اس رسمِ خط کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پورے جملے کی ترجمانی ایک تصویر کرتی تھی۔  فینیقی قوم نے جو ان دنوں کنعان میں بحر روم کے ساحل پر آباد اور تجارت پیشہ تھی مصر میں ایجاد شدہ حروف تہجی کو ٹائر (Tyre)سِڈون (Sidon) ببلوس(Byblos)کے علاقوں کے علاوہ بحر روم کے ساحل پر آباد تمام شہروں میں پہنچایا اور انہیں شہروں میں قدیم سامی قوم آرامی بھی رہتی تھی جس نے اس رسم خط کو ان کے ذریعہ سیکھا۔  فینیقوں کے رواج دیے ہوئے اس رسم خط سے جس کا سلسلہ ہیرو غلیقی سے جا ملتا ہے ، بعد میں دو رسم خط نکلے ایک جنوبی عرب یعنی یمن میں جس کا نام ’’خط مسند‘‘ تھا یہ خط قبل مسیح پورے جزیرہ نمائے عرب میں استعمال ہوتا تھا۔  دوسرا خط ’’آرامی یا نبطی خط‘‘ تھا اس کا رواج شمالی عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کے واسطے سے ہوا جوا س وقت بنی ارم کی زبان میں لکھتے تھے۔  بعد میں خط مسند کی کئی اور شاخیں ہو گئیں۔  چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمالی حصہ میں رسم خط صفوی، ثمودی اور لحیانی کا رواج رہا اور جنوبی حصہ میں حیری کا۔  عربوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا حجازی رسم خط حیرہ اور انبار کے لوگوں سے لیا اور انہوں نے نبطیوں اور کندیوں سے اور ان لوگوں نے خط مسند سے اس طرح عربی خط کا سلسلہ مسندیعنی یعنی میں رائج شدہ خط سے جا ملتا ہے۔  عرب مؤرخین کا بیان ہے کہ قبیلہ طے کے تین افراد نے عربی رسم خط ایجاد کیا تھا جن کے نام مرار بن مرۃ، اسلم بن سدرۃ اور عامر بن جدرۃ ہیں۔  انہوں نے سریانی زبان کے قاعدوں کے مطابق عربی زبان کے رسم خط کو ڈھالا ور انبار کے بعض لوگوں نے اس کی تعلیم دی انباریوں نے اس خط کو حیرہ کے لوگوں کو سکھایا اور بشر بن عبدالملک نے جو دوت الجندل کے والی اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن الکندی کا بھائی اور مذہباً عیسائی تھا حیرہ میں اپنے قیام کے زمانے میں اس رسم خط کو سیکھا اور مکہ میں جب ایک مرتبہ ٹھہرا تو اس نے سفیان بن امیہ اور ابوقیس بن عبدمناف کو لکھنے کا طریقہ بتایا اور اس طرح مکہ میں لکھنے کا رواج ہوا۔  لیکن مکہ اور مدینہ دونوں شہروں میں اسلام سے پہلے لکھنا جاننے والے بہت کم تھے مکہ کی بہ نسبت مدینہ کے یہودی زیادہ تعداد میں لکھنا جانتے تھے۔  غزوہ بدر میں مکے کے جو لوگ قید ہوئے ان میں سے پڑھے لکھے قیدیوں کا فدیہ رسول اللہ صلعم نے یہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔  اس طرح مدینہ کے اندر لکھنے پڑھنے کا رواج پڑا بعد میں جب تعلیم کا رواج بڑھا تو نئی نسل پوری تعلیم یافتہ ہو گئی۔  ذیل میں عربی رسم خط کا شجرہ نسب دیا جاتا ہے۔  عربی ادب کی تاریخ کو عام طور سے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۱-جاہلی زمانہ: یہ زمانہ پانچویں صدی سے شروع ہو کر اسلام کے ظاہر ہونے پر ۶۲۲/۶۲۳ء میں ختم ہوتا ہے۔

 ۲-اسلامی زمانہ: اسلام کے ظاہر ہونے سے شروع ہوتا ہے اور بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ پر ۱۷۹۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

۳- عباسی زمانہ : عباسی سلطنت کے قیام سے شروع ہو کر زوال بغداد سنہ ۱۲۵۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

 ۴- انحطاط کا زمانہ: بغداد کی تباہی (۱۲۵۸ء) سے شروع ہو کر نیپولین کے حملہ مصر پر ۱۷۹۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

  ۵- موجودہ زمانہ: نیپولین کے مصر پر حملہ اور محمد علی پاشا کی حکومت سے شروع ہوتا ہے اور اب تک جاری ہے (۱۷۹۸ء۔  تا حال) اس زمانہ کے دو دور ہیں۔  ایک نشاۃ ثانیہ کا پہلا دور اور دوسرا ’’نشاۃ ثانیہ کا دوسرا دور‘‘ جو چل رہا ہے۔

فینیقی

(۱)مسند (۲) آرامی یا نبطی

(۱) لحیانی (۲)نمودی (۳)صفوی (۴)حیری

کندی اور نبطی حیری اور انباری حجازی کوفی جاہلی زمانہ ۴۵۰ء۔۶۲۲ء

دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی ادب کی دونوں قسمیں نظم و نثر پائی جاتی ہیں۔  لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں عرب ادبا اور شعرا بعض خاص میلوں میں سال میں ایک دفعہ جمع ہو کر خرید و فروخت کے علاوہ شعر و شاعری اور خطابت میں مقابلہ اور اپنے آبا و اجداد کے کارناموں کو گنا کر ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے۔  ان میلوں میں قابل ذکر عکآظ مجنتہ اور ذوالمجاز ہیں۔  ان میلوں کی وجہ سے شعر و ادب کا پورے جزیرہ میں سال بھر تک چرچا رہتا تھا۔  زمانہ جاہلیت کی نثر عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے اسلام سے پہلے کا اکثر ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا پھر بھی جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس کی بنیاد پر نثر جاہلی کو تین قسموں میں بانٹا جاتا ہے۔  (۱) تقریر (۲) کہاوتیں (۳) نصیحتیں اور حکیمانہ جملے۔

تقریر

تقریر نثر کی وہ قسم ہے جس میں عربوں نے اپنی زبان کے جوہر دکھائے ہیں۔  یہ تقریریں عام طور پر کسی اونچی جگہ سے یا اونٹنی کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے کی جاتی تھیں۔  مقصد ہوتا تھا جنگوں میں جوش دلانا، اپنے قبیلہ اور اپنے آبا و اجداد کے کارنامے گنانا۔  اپنی اور قبیلہ کی مدافعت کرنا، صلح و صفائی کرانا، بادشاہوں اور امرا کی تعریف کرنا اور اعلیٰ اخلاق کی تلقین کرنا۔  زمانۂ جاہلیت میں بہت سے ممتاز مقررین گزرے ہیں ان میں دو قابل ذکر ہیں قیس بن ساعدہ الایادی یہ نجران کا پادری تھا اور ملکۂ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری اور حکمت و فلسفہ میں بھی بہت مشہور تھا۔  اسے عکاظ کے میلہ میں اکثر جج مقرر کیا جاتا تھا۔  عمرو بن معدی کرب الزبیدی ۶۴۳ء قیس بن ساعدہ کے بعد فن خطاب میں سارے عرب میں مشہور تھا۔  اس کی تقریر کا موضوع عام طور پر بہادر اور ’’مرواۃ‘‘ یعنی شرافتِ نفس اور اعلیٰ اخلاق کی تلقین ہوتا تھا۔

کہاوتیں

 عربی میں کہاوتیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک ’’حقیقی‘‘ جنہیں انسانوں نے کہا ہے اور دوسری ’’فرضی‘‘  جو جانوروں کے منہ سے ادا کرائی گئی ہیں۔

زمانۂ جاہلیت میں چھوٹے چھوٹے لیکن حکمت و فلسفہ اور عقل مندی کی باتوں سے بھرے ہوئے جملوں کا جو کوئی شخص اپنے کسی عزیز دوست یا جاننے والے سے کسی نقصان سے بچانے یا کوئی فائدہ پہنچانے کی غرض سے کہتا تھا، بہت رواج تھا۔  اس زمانہ میں زہیر بن جناب الکبی اور ذوالا صبع العدوانی نے اس صنف میں بڑا امتیاز حاصل کیا۔

  قصے کہانیاں

 نثر کے ان اصناف کے علاوہ زمانۂ جاہلی میں قصے کہانیوں کا بھی بہت رواج تھا۔  یہ کہانیاں دو قسم کی ہوتی تھیں ایک ’’لوک کتھا‘‘ تھی جس کا موضوع جنگ اور بہادروں کی شجاعت اور جنگی کارناموں کا ذکر تھا۔  جیسے عنترہ یا الزیر سالم بن ہلال وغیرہ کے قصے دوسری قسم ان کہانیوں کی ہے جسے عربوں نے دوسری قوموں سے لے کر عربی رنگ میں ڈھال کر بیان کیا ہے جیسے شریک نامی ایک شخص کا قصہ کہ دراصل یہ کہانی ایک یونانی کہانی ہے جسے عربوں نے اپنے رنگ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ بالکل عربی کہانی لگتی ہے۔

جاہلی زمانہ کی شعر و شاعری (نظم)

عربوں کو من حیث القوم شاعری کا ذوق فطری طور ملا ہے۔  یہ قوم بدوی زندگی گزارتی تھی۔  ان کی نسل ہر طرح کی آزادی کے ساتھ آغوشِ فطرت میں پروان چڑھتی تھی۔  حد نگاہ تک پھیلا ہوا صحرا تیز اور جھلسا دینے والا سورج سخت اور تند صحرائی آندھیاں ، چمکتا دمکتا چاند، ہنستے مسکراتے ستارے ، نشیلی صبحیں اور پر کیف شامیں ان کا سرمایہ فکر و نظر تھیں چنانچہ عرب شاعر اپنے فطری ماحول میں ڈوب کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار شہر میں کرتا تھا۔  یہی وجہ ہے کہ زمانۂ جاہلی کا جو شعری سرمایہ ہم تک پہنچا ہے وہ بہت مؤثر اور وقیع ہے اور زبان و بیان کا بہترین نمونہ ہے۔  اور اسی کے ساتھ بدوی زندگی کا مرقع تھا۔  چوں کہ جاہلی زمانہ میں شاعر اپنے قبیلہ کی مدح اس کے کارنامے گنا کر فخر کرنے کے علاوہ اس کی طرف سے دوسرے قبیلوں کے شاعروں کا جواب دیتا تھا اپنے قبیلہ کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرتا تھا۔  اس لیے عربوں کے یہاں شاعروں کی بڑی قدر تھی۔  چنانچہ جب کسی قبیلہ میں کوئی لڑکا شاعر بن کر چمکتا تو لوگ اس قبیلہ کو مبارکباد دیتے تھے ، خوشی کے شادیانے بجائے جاتے تھے۔  اور وہ قبیلہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنا سر اونچا کر کے چلتا تھا۔  زمانہ جاہلی میں ایک سو بیس سے زائد شعرا نے نام پیدا کیا لیکن ان میں سے اکثر کا کلام ضائع ہو گیا۔  عام جاہلی شعرا کے کلام میں اس زمانہ کے اعتبار سے اعلیٰ بدوی اخلاق کی تعلیم عمدہ اور پاکیزہ مضامین و معانی اور بلند پایہ اغراض و مقاصد ملتے ہیں۔

  اگر چہ عام طور سے عرب شعرا انعام و اکرام کے لالچ سے بادشاہوں ، امرا اور رئیسوں کی شان میں مدحیہ قصیدے نہیں کہتے تھے۔  پھر بھی دو ایک شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جیسے النابغہ الذبیانی اور حسّان بن ثابت جنہوں نے بادشاہوں کی شان میں مدحیہ قصائد کہے ہیں۔  جاہلی شعرا اپنے کلام میں بھاری بھرکم اور پرشکوہ الفاظ استعمال کرتے تھے ان کے یہاں خیالات میں گہرائی یا افکار میں ندرت اور بلندی نہیں ملتی۔  سیدھے سادے خیال کو حسین مگر پر شکوہ الفاظ کا جامہ پہنا کر کلام کے اثر کو دوبالا کر دیتے تھے مبالغہ، استعارہ، باریک تشبیہات یا فلسفیانہ مضامین ان کے کلام میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔  البتہ وصف اور منظر کشی، جیسے اونٹ گھوڑے اور بھیانک رات کے وصف میں انہوں نے اپنا پورا زورِ بیان صَرف کر دیا ہے۔

 عام طور سے جاہلی شعرا نے حسبِ ذیل اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔  (۱) فخر و حماسہ (۲) وصف (۳) مدح (۴) ہجو (۵) مرثیہ (۶) غزل (۷) معذرت اور حکمِ وامثال۔  مُعلقّات۔  یوں تو جاہلی زمانہ میں بہت سے نامور شعرا پیدا ہوئے جن کا کلام عربی شاعری میں زبان و بیان اور اغراض و مقاصد کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے مگر ان میں ایک خاص طبقہ سب سے زیادہ ممتاز رہا ہے جن کو ’’اصحاب معلّقات‘‘ کہتے ہیں۔  یعنی وہ شاعر جن کے قصیدے خانۂ کعبہ میں لٹکائے گئے۔  زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا کہ عکّاظ کے میلے میں عرب کے تمام شعرا جمع ہوتے تھے (النابغہ الذبیانی) مشہور جاہلی شاعر کی صدارت میں محفل مشاعرہ گرم ہوتی تھی جس میں تمام شعرا اپنا کلام سناتے تھے۔  آخر میں میر مشاعرہ فیصلہ سناتا تھا کہ اس سال کس شاعر کا قصیدہ سب سے زیادہ اچھا رہا۔  چنانچہ اس شاعر کے قصیدے کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا۔  ایسے قصیدہ کو ’’مُعلّقہ‘‘ یعنی خانۂ کعبہ میں لٹکایا ہوا قصیدہ کہتے تھے۔  چنانچہ ان بے شمار شاعروں میں جو زمانہ جاہلی میں نامور سمجھے جاتے تھے آٹھ شعرا کا کلام عکاظ کے میلے میں اول آنے پر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا۔  اور یہی معلقات جاہلی شاعری کی جان اور اس کا صحیح اور اصل نمونہ ہیں۔  ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔  ۱-امراؤ القیس م ۵۳۹ء ۲- النابغہ الذبیانی م ۶۰۴ء ۳-زہیر بن ابی سلمیٰ۔  سنہ ۹ ھ مطابق ۶۳۱ء ۴-عنترہ بن شداد العبسی م ۶۱۵ء ۵-الاء عشیٰ قیس م ۶۲۹ء ۶- طرفۂ بن العبدم ۵۵۲ء ۷- عمرو بن کلثوم ۵۷۱ء ۸- لبید بن ربیعہ م ۴۱ھ مطابق ۶۸۰ء

مذکورہ بالا شعرا میں اسے امراؤ القیس دورِ جاہلیت کی شاعری کا نمائندہ شاعر مانا جاتا ہے۔  اس کو ’’بگڑا نواب‘‘ (الملک الفلیل) کہتے ہیں کیوں کہ یہ شراب و کباب اور حسن و شباب کا رسیا تھا۔  امراؤ القیس نے سب سے پہلے عربی شاعری میں محبوبہ کے دیار پر کھڑے ہو کر رونے کی رسم نکالی۔  اس نے اپنے معلقہ میں گھوڑے اور محبوبہ کا سراپا کھینچنے تاریک اور وحشتناک رات اور اس کی درازی اور پانی برس کر کھل جانے کی منظر کشی میں بڑی فنی مہارت اور قدرتِ زبان قوتِ تخیل اور ندرت بیان دکھائی ہے۔  اسی لیے عربی ادب میں اس کا معلقہ اول نمبر پر رکھا جاتا ہے

اصحاب معلقات میں دوسرا شاعر جسے امتیازی حاصل حیثیت حاصل ہے وہ النابغہ الزبیانی ہے اس کے کلام میں جذبات انسانی کی بڑی صحیح اور سچی تصویر ہوتی ہے اور خاص طور سے صدق و صفا کے نغمے  اس نے بڑے مؤثر انداز میں گائے ہیں۔  اس کی امتیازی خصوصیت معذرت خواہی ہے۔

  اصحاب معلقات میں تیسرے نمبر پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا نام ہے یہ بڑا پاکباز انسان دوست، صلح پسند اور صلح جو شاعر تھا۔  اس کے گھر کے تمام افراد شاعر تھے۔  جاہلی معاشرہ میں یہ پہلا شخص ہے جس نے صلح و آشتی، میل جول اور محبت و خلوص کے لافانی نغمے گائے ہیں اور جنگ و جدال کے برے نتیجوں کو دکھ اکر ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔  وہ ایک قصیدہ کہنے کے بعد سال بھر تک اس کی نوک پلک درست کرتا تھا۔  ا ور ہر طرح سے جب مطمئن ہو جاتا تھا۔  تب ہی اسے سناتا تھا۔  اس نے اپنے معلقہ میں عرب کے ان دو امرا کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔  جنہوں نے جنگ داحس وعنبرا کے مقتولین کا خوں بہا اپنی جیب سے دے کر اس منحوس لڑائی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کرایا۔

 معلّقات کو چوتھا مشہور شاعر عمر و بن کلثوم ہے۔  اسے فخر و مباہات میں امتیازی شان حاصل تھی۔  عزت نفس، خودی و خود داری میں اس کا جواب نہیں اس نے اپنے علاقہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کو صرف اس وجہ سے بھری محفل میں قتل کر دیا کہ عمرو کی ماں نے شاعر کی ماں سے ایک دعوت میں پلیٹ اٹھا کر دینے کو کہا تھا۔  اس واقعہ کے بعد اس نے اپنا معلقہ کہاجس میں اپنی اور اپنے قبیلہ اور خاندان کی ایسی تعریف و توصیف کی ہے جس کا جواب پوری عربی شاعری میں نہیں ملتا۔

  عنترہ بن شداد العبسی جو لونڈی زادہ تھا، فن سپہ گری میں ممتاز اور معرکہ کار زار کا ہیرو تھا۔  حرب داخس و غبرا میں اس نے وہ دادِ شجاعت دی تھی جس کی مثال نہیں ملتیں۔  اس کی شاعری جنگ کے میدان کا نقشہ کھینچنے بہادری اور بے جگری سے لڑنے پر اکسانے اور ’’جان جائے پر آن نہ جائے ‘‘ کی زندہ مثال ہے۔

  ان خاص شعرا کے علاوہ جاہلی زمانے میں چند ممتاز شعرا اور بھی ہوئے ہیں۔  جن میں سے بعض نامور شعرا کے نام یہ ہیں۔  مہلہل بن ربیعہ (م ۵۰۰ء) کہتے ہیں کہ یہ عربوں کا پہلا شاعر تھا شراب و کباب اور رندی وہوسناکی کا رسیا تھا۔  شراب و شباب کی تعریف اور معرکہ کارزار کی منظر کشی اس کا خاص موضوع تھی۔  عمرو بن مالک الازدی جس کا لقب شنفری تھا۔  یہ طبقہ ’’صحالیک الشعرا‘‘ یعنی خانماں برباد منچلے نوجوان شعرا کا ہیرو تھا۔  جو گھر بار چھوڑ جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے تھے۔  شنفری کا کلام بڑا مؤثر، الفاظ بڑے پر شکوہ ثقیل اور بھاری بھرکم ہیں اس کا قصیدہ لامیۃ العرب عرب بدوی نوجوان کی زندگی اس کی تکالیف اور گھر بار دوست و احباب سے دوری اور مہجوری کی دل خراش داستان ہے اور صحرا کی زندگی کی صحیح تصویر۔

 ان کے علاوہ اس عہد کے شعرا میں المتلمس (م ۵۵۰ء) المسول بن عادیہ (م ۵۶۰ء) اوس بن حجر (م۶۱۱ء) امیہ بن ابی ا لصلت (م ۶۲۴ء) حاتم طائی (م ۶۹۰ء) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

 اسلامی زمانہ (۶۲۲ء سے ۷۵۰ء مطابق ۱ھ سے ۱۳۲ھ ’’رسول اللہ صلعم خلفائے راشدین اور بنو اُمیہ کا زمانہ )

 رسول اللہ صلعم اور خلفائے راشدین کا زمانہ زمانہ جاہلیت کے آخری دور میں اور اسلام کے آنے سے تھوڑے پہلے تک عرب قوم بدستور اپنی فطری بدوی زندگی گزارتی تھی۔  چنانچہ ان کے معاشرہ میں نہ علوم و فنون کا رواج تھا اور نہ کوئی بندھا ٹکا ملکی اور سماجی قانون تھا۔  قبیلہ کے دستور اور رواج قانون تھے اور شیخِ قبیلہ حاکمِ مطلق۔  نہ صنعت تھی نہ حرفت نہ تجارت تھی اور نہ زراعت انتقام اور بدمعاملگی اور لاقانونیت نے ایک طرف نراج کا سا عالم طاری کر رکھا تھا تو دوسری طرف علمی و ادبی افلاس کا دور دورہ تھا۔  اس حالت میں اسلام کا ظہور ہوا اور اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں عربوں کی ایسی کایا پلٹ کر دی کہ وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے مالک بن گئے اور تیر اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے انہوں نے ایک ایسا صالح اور پاک سماج تعمیر کیا جس میں روحانی غذا کے ساتھ مادی وسائل کی بھی حریت ناک فراوانی ہوئی اور علم و فضل نے بے مثال پیش رفت کی۔  سیاسی اور سماجی اعتبار سے اسلام نے ساری قوم کو ایک جھنڈے ، ایک رہبر، ایک نظامِ حکومت، ایک زبان اور ایک ایسی بامعنی زندگی کے قابل میں ڈھال دیاجس کی بنیاد قرآن اور سنت رسول پر تھی۔  قرآن کریم قرآن مجید میں ۱۱۴ سورتیں ہیں۔  ان میں سے ۹۱ مکہ میں نازل ہوئیں اور ۲۳ مدینہ میں۔  مکی سورتوں میں اسلام کی دعوت دی گئی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا بلا شرکت غیر ے ایک ہے ، وہ قادرِ مطلق ہے ، زمینوں اور آسمانوں میں اسی کا حکم کی کارفرمائی ہے۔  اسی لیے صرف وہی عبارت اور بندگی کے لائق ہے وہی پیدا کرتا اور وہی مارتا ہے۔  ہر آدمی کو مر کر دوبارہ زندہ ہو کراس کے سامنے جانا ہے اور دنیا میں جو کچھ کیا ہے۔  اس کا حساب و کتاب دینا ہے اور اس کے مطابق اچھے کام کا انعام اور برے کام کی سزا پانی ہے۔  مدینہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں اسلام کے ارکان دینی مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ اور ان کے ادا کرنے کے طریقوں کا بیان ہے۔  اور چوں کہ یہاں سے ایک نئے معاشرہ اور نئی مملکت کی ابتدا ہو رہی تھی اس لیے معاشرہ کی تعلیمات اور ملکی و سیاسی قواعد و ضوابط کے اصول اور بنیادی باتیں بھی یہیں نازل ہونا شروع ہوئیں۔  قرآن کریم کا ایک ایسا دل نشین، معجز نما مؤثر انداز بیان ہے جس کی مثال وہ خود آپ ہے۔  عرب شعرا و ادبا میں سے کوئی بھی باوجود کوشش کے اس جیسی ایک آیت بھی نہ لکھ سکا۔  قرآن کریم اپنی فنی امتیاز خصوصیات کی بنا پر عربی زبان و ادب کی کسوٹی بن گیا اور آج تک اس کا یہ امتیاز باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔  قرآن کریم کی بدولت عربی زبان میں بہت سے نئے معانی نئی تعبیریں اور نئے الفاظ کے ساتھ بہت سے نئے علوم و فنون پیدا ہوئے اور بعض پرانے الفاظ کے معانی نئے سرے سے متعین ہوئے۔  اس کے لکھے جانے کی وجہ سے فن کتاب کو بڑا فروغ ہوا اور اس نے تاریخ کے بہت سے بھولے بسرے ابواب سے دنیا کو روشناس کرایا۔  قرآن کی بدولت تمام ممالک اسلامیہ میں عربی زبان مسلمانوں کی واحد مذہبی زبان کی حیثیت سے مانی جاتی ہے۔  قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے کا رواج شروع سے چلا آ رہا ہے اور آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو پورا قرآن زبانی یاد ہے اور ہر سال رمضان کے مہینہ میں پورا قرآن تراویح میں سنایا جاتا ہے۔

حدیث

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو حدیث کہتے ہیں۔  قرآن کے بعد عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اور زبان دانی میں آپ امام تھے آپ کی حدیثیں اور تقریریں عربی ادب کے شہ پارے سمجھی جاتی ہیں۔  آپ کی حدیثوں اور تقریروں نے بھی عربی زبان و ادب کو نئے الفاظ نئی تعبیریں اور اچھوتا انداز بیان دے کر مالا مال کیا۔

رسول صلعم اور خلفائے راشدین کے عہد میں چوں کہ مسلمان ایک طرف نیا دین سیکھنے اور اس کے دشمنوں سے جنگوں میں مشغول رہے۔  ا س لیے نثر میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔  البتہ خطابت کو رسول اللہ صلعم کے خطبات کی وجہ سے جو آپ خاص طور پر جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر دیتے تھے۔  بڑی ترقی ہوئی۔  چنانچہ آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قادر الکلام اور معجز بیان مقرر تھے۔  آپ کے بعد آپ کے جانشین خلفائے راشدین میں بھی ملکہ خطابت پوری طرح موجود تھا۔  حضرت علی کو اس صنف میں امتیاز حاصل تھا۔  قرآن کی تلاوت اور رسول اللہ صلعم کے فیض صحبت نے آپ کی زبان و بیان کو نکھار دیا تھا۔  چنانچہ آپ بہت قادر الکلام فصیح و بلیغ ادیب و مقرر بن کر چمکے۔  آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں جو تقریریں کی تھیں وہ خطابت کا اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب و فن کا بھی بہترین نمونہ ہیں جواب تک داخل درس ہیں۔  رسول اللہ صلعم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں شعر و شاعری رسول صلعم ایک خاص دعوت لے کر تشریف لائے تھے۔  اس دعوت کے اصول اور احکامات عرب جاہلی معاشرے کے معتقدات، رسم و رواج اور عادات کے بڑی حد تک مخالف تھے شعر و شاعری جو عربوں کی گھٹی میں داخل تھی جس نہج پر زمانۂ جاہلی میں چل رہی تھی نئی دعوت اور اس نئے معاشرہ کے متقضیات کے منافی تھی اسی لیے رسل اللہ صلعم نے شعرو شاعری کی ہمت افزائی نہیں کی۔  دوسری طرف نئے مسلمانوں کو دین سیکھنے اور اس کو پھیلانے سے ہی فرصت نہ تھی کہ وہ دوسری طرف دل و دماغ لگاتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس زمانہ میں سرزمین عرب سے نئے شعراء نہ ابھرسکے۔  زمانہ جاہلی کے شعرا میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان میں سے بعض نے شعر کہنا بالکل چھوڑ دیا تھا جیسے لبید بن ربیعہ اور مشہور جاہلی مرثیہ گو شاعر خنسا۔  البتہ جن شعرا نے مشق سخن جاری رکھی انہوں نے پرانی ریت کو چھوڑ کر اسلامی تعلیمات اور ارشادات نبوی کے دائرہ میں رہ کر رسول اللہ صلعم کی مدافعت یا آپ کی مدح اور کُفّارِ مکہ کی ہجو اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے شعر کہے۔  شعرا کے اس طبقہ کو زمانہ جاہلی میں ابھرا اور بعد میں مسلمان ہوا ’’مخضر مین ‘‘ یعنی دو زمانے پائے ہوئے (جاہلیت اور اسلام) شعرا کہتے ہیں۔  ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت حسان بن ثابت ہیں جو رسول اللہ صلعم کے خاص شاعر تھے اور آپ کی طرف سے مکہ والوں کو جواب دیتے تھے۔  اور دوسرے کعب بن زہیر ہیں۔  مخضرین میں ایک اور شاعر الحطیۃٔ بھی ہے جس نے جاہلی رنگ میں ہجو گوئی میں کمال پیدا کیا تھا۔  اور جس نے شرفا کے علاوہ اپنے ماں باپ اور حد تو یہ ہے کہ خود اپنی ہجو لکھی ہے۔  خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی شعر و شاعری کی یہی کیفیت رہی۔  البتہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد دینی اور سیاسی فرقوں کے پیدا ہونے اور ان کی آپس کی کشمکش سے فنِ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی ترقی ہوئی جس کے اثرات کھل کر عہد بنی امیہ میں سامنے آئے اور نظم میں نت نئی تعبیریں آئیں اور نئی راہیں کھلیں۔

 عہد بنوامیہ

 نثر خطابت

مملکت اسلامی کے عام حالات اور عہد بنو امیہ میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے فن تقریری کی بڑی گرم بازاری ہوئی کیوں کہ بنوامیہ کو اپنی حکومت کو جمانے کے لیے قلم کے زور کے علاوہ زبان کے زور کی بھی ضرورت تھی۔  چنانچہ بنوامیہ کو چند ایسے اولوالعزم اور خدا داد صلاحیتوں کے مالک نوجوان مل گئے جنہوں نے انتظام و انصرام میں کمال مہارت اور چابک دستی دکھانے کے ساتھ خطابت میں بھی ایسے کمال فن کا مظاہرہ کیا کہ آج بھی ان کی تقریریں ادبی جواہر پاروں کی شکل میں داخل درس ہیں۔  بنوامیہ کے اس قسم کے مقررین میں حجاج بن یوسف الثقفی اور زیاد بن ابیہ بہت مشہور ہیں۔  یہ واقعہ ہے کہ ان دونوں کی تلوار اور زبان نے بنوامیہ کے پاؤں عراق میں جمادیئے۔  بنوامیہ کے مخالفین میں فطری بن الفجا، عبداللہ بن الزبیر اور عمران بن حطان مشہور ہیں۔

نثر فنی

ظہور اسلام کے وقت قبائل مصر میں چند ہی افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔  ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان سے آنحضرت قرآن لکھوانے کا کام لیتے تھے چنانچہ ان کا نام ’’کاتبین وحی‘‘ یا ’’وحی لکھنے والے ‘‘ پڑ گیا تھا۔  آپ کو جب بادشاہوں اور امرا کو دعوت اسلام کی غرض سے خطوط لکھنے کی ضرورت پڑی تو آپ نے انہی لوگوں سے کام لیا۔  بعد میں صلح نامے اور معاہدے بھی آپ نے انہیں لوگوں سے لکھوائے۔  خلفائے راشدین کے زمان میں حضرت عمر نے معاہدوں ، صلح ناموں اور خطوط کے علاوہ ایک نیا تحریری کام فوج کے رجسٹر بنانے کا کرایا۔  اموی زمانہ میں حضرت معاویہ نے اس کام کو اور آگے بڑھایا اور چند نئے شعبے کھولے جن میں ’’محکمہ خراج‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔  دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ سرکاری خطوط اور فرامین لکھنے کے لیے ایک الگ محکمہ ’’دیوان الرسائل‘‘ کے نام سے کھولا جس کا نگراں عبید اللہ بن اوس الفانی تھا۔  ان محکموں کے نگراں شروع میں رومی اور فارسی مبان میں اپنے دفتری کا م کرتے تھے لیکن بعد میں ولید بن عبد الملک (۸۶۔  ۹۶ھ) کے زمانے میں سارے محکموں کی زبان عربی ہو گئی اور ایک نئی قسم کا طرز تحریر وجود میں آیا جس کا نام ’’خطوط اور یاد داشت نویسی‘‘ پڑا اور یہیں سے عربی میں نثر کا وجود ہوا۔  اس وقت تک عام طور سے خلفائے اور امرا اپنے خطوط املا کرتے تھے لیکن جب اس قسم کے کاموں کا دائرہ بڑھا اور اس میں شام، عراق اور مصر کے عربوں اور ایرانی، رومی اور مصری قبطیوں کی اولاد آگے بڑھی جس نے عربی زبان پر پورا عبور حاصل کر لیا تھا تو انہوں نے نہ صرف خود اس قسم کے خطوط اور فرامین لکھنے شروع کیے بلکہ دوسری زبانوں کے محاسن اور فنی خوبیوں کو لے کر خود انہوں نے بھی اس میں جدت اور تنوع پیدا کیا۔  اس فن میں ہشام بن عبد الملک (۱۰۵۔  ۱۲۵ھ) کے آزاد کردہ غلام ابو العلا سالم نے بڑا کام کیا اس سے اس کے شاگرد عبد الحمید بن یحیی نے یہ فن سیکھا اور اسے اتنی ترقی دی کہ اب ’’فن کتابۃ الرسائل یعنی’’ فن خطوط یویسی‘‘ایک مستقل فن بن گیا۔  اور اسی وجہ سے عبدالحمید عربی ادب میں ’’الکاتب‘‘ کے لقب سے مشہور ہوا۔  عبد الحمید الکاتب نے جس کام کی ابتدا اس زمانے میں کی تھی آگے اس نے ترقی کی انتہائی منزلیں عبد الحمید الکاتب کے زمانے میں طے کیں اور اس کے بعد ترقی معکوس کی شکل اختیار کر لی۔  اور آخر کار محض پر شکوہ الفاظ گنجلک پیرایہ بیان کا گورکھ دھندا بن کر رہ گیا چنانچہ عربی میں ایک مقولہ رائج ہو گیا کہ ’’بدأت الکتابۃ بعیدالحمید وانتہت بعبد الحمید‘‘ یعنی دفتری خطوط نویسی کی ابتدا عبد الحمید سے ہوئی اور انتہا عبد الحمید پر۔  ‘‘ عہد اموی میں دیگر علوم و فنون کی تدوین عرب زمانہ جاہلی سے اپنی ادبی و علمی تخلیقات کو لکھ کر رکھنے کے عادی نہ تھے بلکہ سب کچھ اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے اور حسب ضرورت زبانی بیان کرتے۔  عہد عثمان میں پہلی دفعہ قرآن لکھ کر ممالک اسلامیہ میں تقسیم کیا گیا۔  رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کو بھی سینوں میں ہی محفوظ رکھا گیا تھا۔  مگر اموی عہد میں سیاسی اغراض کے لیے بعض لوگوں نے حدیثیں گڑھنی شروع کیں تو حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے صحیح حدیثوں کو یکجا کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔  یہ ایک مختصر سی کتاب تھی جو عہد عباسی میں جب حدیث کی بڑی کتابیں لکھی گئیں تو ان میں ہل مل گئی۔  باقی علوم مثلاً تفسیر، حدیث وغیرہ کو علما بدستور زبانی یاد رکھتے تھے۔  اس عہد میں البتہ دو بہت اہم کام انجام پائے : ایک تو قرآن پر اعراب لگانے کا کام تاکہ غیر عرب قرآن کو صحیح پڑھ سکیں اس کام کو حجاج بن یوسف ثقفی نے کرایا۔  دوسرا کام نحو میں ایک رسالے کے لکھنے کا ہے جسے ابو اسود الدولی نے انجام دیا۔  یونانی کتابوں کے ترجمے عہد اموی میں خراج کا حساب کتاب مغربی صوبوں میں رومی زبان میں اور مشرقی صوبوں کا فارسی زبان میں رکھا جاتا تھا اس کام میں عجمیوں کی اجارہ داری کو دیکھ کر حجاج بن یوسف نے ایک نو مسلم ایرانی نو جوان صالح بن عبد الرحمن کے ذریعہ دفتر خراج کو فارسی سے عربی میں منتقل کرایا۔  شام میں خراج کا حساب رومی زبان میں ہوتا تھا جس کا سربراہ سرجون بن منصور النصرانی تھا۔  عبد الملک بن مروان نے ابو ثابت سلمان بن سعد الخشی سے کہہ کر رومی زبان سے عربی میں خراج کے رجسٹر کو منتقل کرایا۔  یونانی اور دیگر زبانوں سے عربی میں ترجمہ کا کام پہلی مرتبہ عبد الملک بن مروان کے عہد میں (۶۵۔  ۸۶ھ) امیر معاویہ کے پوتے خالد بن یزید کے ایما سے ہوا۔  اس نے فن کیمیا سازی کی وہ کتابیں جو یونانی اور قبطی زبانوں میں تھیں عربی میں ترجمہ کرائیں۔  علم طب میں سب سے پہلی کتاب جو عربی میں ترجمہ ہوئی۔  وہ ’’کناش اہرون ابن اعین الطبیب‘‘ ہے جسے سرجویہ یہودی نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے عربی میں منتقل کیا۔  حضرت معاویہ کے متعلق روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے صنعاء سے ایک شخص عبید بن شریہ کو بلا کر اس سے ’’کتاب الملوک والاخبار الماضیہ‘‘ عربی میں لکھوائی تھی۔  یہ صحیح ہے کہ عہد اموی میں تصنیف و تالیف کا کام باقاعدہ اور فنی طریقے سے نہ ہو سکا۔  لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عہد میں علوم و فنون کے مدوّن اور ترجمہ کرنے کے جس کام کی شروعات ہوئی اس کی بنیاد پر عہد عباسی میں علم وفن تالیف و تصنیف اور ترجمہ کا وہ قصر زریں تعمیر ہوا جس سے بعد میں سارے عالم نے کسب فیض کیا۔

  نظم سلطنت کی توسیع کے ساتھ اسباب تعیش کی فراوانی نازو نعم کی زندگی، فکر فردا سے بے پرواہی اور سماج میں احساس برتری کے زیر اثر لطیف احساسات کو جلا، ذوق حسن و جمال کو نکھار اور جذبات و خیالات کو رنگینی و رعنائی ملی۔  چنانچہ عربی زبان میں پہلی مرتبہ حقیقی غزل کا ظہور ہوا۔  اس صنف کا باقی فریش کا ایک بانکا اور طرح دار نوجوان ’’عمر بن ابی ربیعہ‘‘ تھا جس نے بقول فرزق شاعری کی ابتدا تو ہذیان گوئی سے کی تھا لیکن اس صنف میں اس نے زبان و بیان، وصف و منظر کشی، مکالمہ و معاملہ بندی اور حدیث دیدہ و دل بیان کرنے کا ایسا اچھوتا، دل نشین اور سحر طراز انداز ایجاد کیا کہ اس طرز کی غزلوں کو شریف گھرانے کے لڑکے ، لڑکیاں چھپ کر پڑھتے اور منچلے نو جوان گلی کوچوں میں اور گانے بجانے والے بزم ہائے طرب میں گاتے بجاتے اور ایک عالم کو سرمست و گے خود بناتے تھے۔  مکہ سے نکل کر مدینہ میں بھی اس غزل کی صدائے باز گشت وہاں کے شعرا کی زبانوں سے سنائی دی جن کا سردارمحمد بن الاخوصاالانصاری تھا۔  غزل کا بقول ڈاکٹر طٰہ حسین مرحوم ’’یہ حقیقی رنگ‘‘ اس قدر جما اور اس کی تانیں اتنی بلند ہوئیں کہ عباسی دور تک جاتے جاتے ’’غزل اباحی‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’غزل عریاں ‘‘ بن گیا جس نے موالی شعرا کے ہاتھوں فروغ پایا۔  بادیہ میں رہنے والے غریب بدوی عربوں کا معاملہ مکہ اور مدینہ کے امیر عربوں سے ذرا مختلف تھا۔  یہاں کے باشندے اپنی بدوی خصوصیات پر نازاں اور اپنے رسم و رواج کوسینوں سے لگائے ہوئے تھے۔  ان کو اس عہد سے پہلے بھی کوئی سیاسی اہمیت نہیں حاصل تھی اور اب بھی نہیں ہوئی۔  بڑے بوڑھوں کو اس سے سکون مل جاتا تھا کہ انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کا حق ادا کر دیا اور ان کی تلواروں کی بدولت آج قیصر و کسریٰ کے ایوانوں پر اسلامی جھنڈا لہرا رہا ہے۔  مگر نئی نسل کو جو اپنے شعور کے ساتھ اعلی اخلاقی اقدار کی بھی حامل تھی بڑی مایوسی ہوئی۔  اس نے دیکھا کہ امویوں نے دار الخلافہ کو مدینہ سے شام منتقل کر کے اور سیاسی پارٹیوں نے اپنی تگ و دو کا مرکز عراق کو بنا کر ان کے علاقے کی اہمیت یکسر گھٹا دی۔  چنانچہ مایوسی اور حالات کے تقاضوں نے ان میں ایک خاص قسم کا زاہدانہ انداز فکر پیدا کر دیا۔  دوسری طرف ان کی عزت نفس بدوی نخوت اور عربی مروت نے ان کے اندر ایسی ذہنی کیفیت پیدا کر دی کہ نہ وہ اپنی بات برملا کہہ سکتے تھے اور نہ کسی کے آگے دستِ سوال دراز کر سکتے تھے۔  نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل کی بات دل ہی میں رہی اور وہ اپنی سوزش پنہاں سے آپ ہی جلتے رہے۔  احساس مایوسی اور سوز دروں کا زخم جب ان کے دل کے تاروں کو چھیڑتا تھا تو اس کی جھنکار غزل کے ان اشعار میں سنائی دیتی تھی جن میں پاک اور لاہوتی قسم کی محبت کے نغمے گائے گئے تھے ، جنہیں عاشق، محبوب کو اپنے من مندر کا دیوتا بنا کر پوجتا ہے ، چھوتا نہیں ، ہجر و فراق میں صحراؤں اور بیابانوں میں مارا مارا پھرتا ہے مگر محبوب مل جائے تو اس سے ملتا نہیں اس لیے کہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ ’’عالم سوزو ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق‘‘ غزل کی اس قسم کو ’’الغزل العذری‘‘ (قبیلہ عذرہ کی طرف نسبت ہے جو اخلاق کریمانہ اور عفت و پاک دامنی میں مشہور قبیلہ تھا) یا پاک غزل کہتے ہیں۔

اس صنف غزل میں طبع آزمائی کرنے والے وہ شعرا میں جن کے عشق و محبت کے افسانے آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔  ان میں سے خاص طور پر قابل ذکر لیلی کا عاشق مجنوں ، بشینہ کا عاشق جمیل اور عزہ کا عاشق کثیر ہیں۔  اس وضع غزل گوئی کو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے بدویوں کی نسبت سے مدنی غزل کہا جاتا ہے۔  بادیہ کے ان نوجوانوں میں ایک گروہ اور بھی تھا جو صاحب سیف ہونے کے ساتھ صاحب قلم بھی تھا۔  یہ لوگ امویوں کے خلاف معرکۂ کارزار میں تلوار کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف شعلہ بار اشعار بھی کہتے تھے۔  ان میں قابل ذکر الکمیت بن زید (م ۱۲۰ھ مطابق ۷۳۸ء) ہے جس نے بنو ہاشم کی مدح میں ایسے شاندار قصیدے کہے ہیں جو اپنی خوبیوں کی وجہ سے ’’ہاشمیات‘‘ کے نام سے عربی ادب میں مشہور ہیں۔  اور جنہیں سن کر فرزق جیسے شاعر نے کہا تھا کہ ’’خدا کی قسم تم گزشتہ اور موجودہ تمام شعرا میں سب سے بڑے شاعر ہو‘‘ اس کے علاوہ اس گروہ میں الطرماح بن حکیم (م ۱۰۰ھ مطابق ۷۱۹ء) اور عمر ان بن حطان (م ۸۹ھ مطابق ۷۱۴ء) بھی نامور شعرا گزرے ہیں۔  حضرت معاویہ کے انتقال کے بعد یزید مروان اور عبد الملک بن مروان کے زمانے میں ہر قسم کے قبایلی دینی اور سیاسی ہنگامے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن بنو امیہ نے بھی جم کر اس صورت حال کا مقابلہ کیا۔  اور مال و زر کے علاوہ شعرا، ادبا اور خطبا کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔  اس صورت حال سے زبان و ادب کو بڑا فائدہ پہنچا اور پہلی مرتبہ عربی زبان میں ایک طرف سیاسی شاعر کا وجود اور عروج ہوا۔  اور دوسری طرف میدان خطابت میں بھی ایسے قادر الکلام فصیح و بلیغ اور شعلہ بار مقرر پیداہوئے جن کی مثال عربی ادب میں نہیں ملتی۔  سیاسی شاعری میں جن شعرا نے کمال حاصل کیا ان میں ممتاز مسکین الدارمی، اخطل، جریر، فرزق، ابو العباس الاعمی اعمثی ربعیہ اور عدی بن الرقاع ہیں۔  ان شعرا کو قرآن و حدیث کا معجز نما اسلوب بیان ورثہ میں ملا تھا۔  خدا داد صلاحیت اور فہم و ذکا قدرت سے اور ان سب کو بروئے کار لانے کا داعیہ سیاسی حالات اور مادی منفعت سے چنانچہ انہوں نے بنو امیہ کی مدافعت میں اپنا زور طبع اور فطری صلاحیتیں لگادیں جس کی وجہ سے عربی ادب میں نئے نئے مضامین، اچھوتے خیالات اور منجھا ہوا ایک خاص اسلوب بیان پیدا ہوا جو بے حد پسندیدہ اور مقبول تھا۔  پھر ان شعرا کی آپس کی ادبی جھڑپوں سے بھی شاعری میں نت نئی راہیں کھلیں جریر، فرزق اور اخطل کی شاعرانہ چشمکیں اس کی زندہ مثال ہیں۔  ان شعرا میں اکثر نے دوسرے اصناف مثلاً غزل، مدح، ہجو اور مرثیہ وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔

 

عباسی زمانہ

 ۱۔  ترقی و عروج کا زمانہ : ۷۵۰ء سے ۹۴۷ء مطابق ۱۳۲ھ سے ۳۳۲ھ تک۔

۲۔  طوائف الملوکی کا زمانہ : ۹۴۶ء سے ۱۲۵۸ء مطابق ۳۳۲ھ سے ۶۵۶ ھ تک (زوال بغداد)۔

علم سیاسی و ملکی حالت بنی امیہ کی حکومت لگ بھگ ایک صدی تک رہی۔  اس زمانہ میں پورے معاشرے اور حکومت میں صرف عربوں کی عملداری تھی۔  اس اثنا میں دنیا کی مہذب ترین قومیں اپنے علم و ادب اور فن و فلسفہ کے ساتھ اس نئے اسلامی سماج میں شامل ہونے لگیں۔  اس کے نتیجہ میں بنو عباس نے ان عجمیوں کی مدد سے جن میں اکثر ایرانی تھے وہ حکومت قائم کی جس کے علمی و ادبی، تہذیبی و تمدنی اور فنی و صنعتی کارنامے تاریخ اسلام میں سنہری حرفوں سے لکھے گئے خلفائے بنی عباس نے عجمیوں کے ساتھ اپنائیت اور برابری کا سلوک روا رکھا۔  ا س رویہ کو اس دور کی ہمہ جہت ترقی میں بڑا دخل ہے۔  چنانچہ اس زمانے میں قصر سلطانی کے ادنی سقہ سے لے کر فوج کے سپہ سالار اور سلطنت کے وزرا کی بڑی تعداد عجمی اور بالخصوص ایرانی تھی۔  اور یہیں سے عربوں کا سیاسی اثرورسوخ ختم ہونا شروع ہوا اور ان کی بڑائی اور فضیلت کی ہوا اکھڑنے لگی۔  اب مجبوراً عربوں کو عجمیوں کے ساتھ گھلنا ملنا پڑا۔  اور اس میل جول سے ایک نیا اور اچھوتا معاشرہ وجود میں آیا جس کی بنیاد تو تھی اسلامی عقائد و عبادات پر مگر جن کی سیاست و معیشت میں ایرانی اثر اور علمی و فکری کاموں میں یونانی رنگ پوری طرح نمایاں تھا۔  علم و فن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے مراکز بھی بڑھے۔  چنانچہ اس عہد میں سب سے بڑا مرکز بغداد تھا۔  یہیں مامون نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے مشہور اکادمی ’’بیت الحکمت‘‘ قائم کی تھی۔  اور یہیں ایک حد تک علوم و فنون پروان چڑھے۔  دوسرا مرکز کوفہ تھا جہاں دین اور زبان سے متعلق علوم کو فروغ ہوا یہیں کی خاک سے لغت ابن الغربی، فرا اور ثعلب اٹھے اور یہیں امام ابو حنیفہ نے مسلک حنفی کی ابتدا کی۔  تیسرا مرکز بصرہ تھا جس نے عربی نحو و لغت کے اکابر علما جیسے الخلیل سیبویہ اور ابن درید پیدا کیے۔  مجاز میں مدینہ حدیث و فقہ کا مرکز رہا جہاں کی خاک سے مشہور محدث اور فقیہ حضرت مالک بن انس اٹھے جنہوں نے فقہ میں مسلک مالکی کی بنیاد رکھی۔  مصر میں فسطاط (قاہرہ) دینی علوم اور زبان کا مرکز بنا۔  جہاں قرطبہ امویوں کا مرکز تھا مختلف مدارس اور مکاتب کھلے یہاں کی خاک سے مشہور ادیب اور نحوی ابن عبد الرب العقد الضرید کے مصنف اٹھے عروج و ترقی کا یہ دور۔  ۱۳۲ھ ۷۵۱ء سے لے کر ۳۳۲ھ ۹۴۰ء تک چلا۔  اس کے بعد یعنی ۳۳۲ھ سے ۶۵۶ھ مطابق ۹۴۶ء سے ۱۲۵۸ء کا زمانہ ہے جس میں ترکوں کا عمل دخل رہا اور ان کی سرکشی کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان عباسی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور اقالیم اور صوبوں کے والیوں اور گورنروں نے اپنے قبیلوں کی خود مختار سلطنتیں قائم کر لیں۔  اگرچہ مرکز خلافت اب بھی بغداد رہا لیکن حکومت اور علم و ادب کے مراکز شام و عراق سے منتقل ہو کر بخارا، جرجان، غزنہ، حلب، قاہرہ اور قرطبہ پہنچ گئے۔  اور علم و ادب تاریخ فلسفہ اور دیگر علوم میں عرب وعجم کی مشترکہ کوششوں سے جو ترقیاں ہوئی تھیں۔  اس زمانہ طوائف الملوکی میں ماند پڑنے لگیں اور مشرق میں انحطاط و تنزلی کا دور شروع ہوا۔  جس کی انتہا ہلاکو کے ہاتھوں زوال بغداد پر ہوئی۔  البتہ مصر و شام میں فاطمیوں اور ایوبیوں کے سایۂ عاطفت میں اندلس میں امویوں کی سرپرستی میں علم و ادب کے سرچشمے جاری رہے۔

عہد عباسی کا پہلا دور نثر

اس عہد میں اصناف نثر میں ایک نئی صنف نکلی جس کو ’’مقامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔  مقامہ ایک خیالی قصہ ہوتا ہے جو ایک راوی بیان کرتا ہے اور ایک مرکزی کردار کے ارد گرد گھومتا ہے جو مختلف بھیس بدل کر مختلف مزاحیہ مضحکہ خیز اور کبھی سنجیدہ رول ادا کر کے لوگوں کو لوٹتا کھسوٹتا ہے۔  مقامہ کی عبارت مقفی مسجع اور اس میں بھاری بھرکم، شاذا ور متروک الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔  اسی لیے یہ رنگ بہت دنوں تک نہ چلا البتہ اس نئے ڈرامہ کے لیے راہ ہموار ہوئی مقامات کو لکھنے والوں میں بدیع الزمان الہمدانی اور حریری نے نام پیدا کیا بیسویں صدی میں ابراہیم مویلحی نے ’’حدیث عیسی بن ہشام‘‘ لکھی جو مقامہ اور ڈرامہ کی بیچ کی چیز تھی۔

علوم دینیہ میں اس زمانہ میں بہت کام ہوا۔  سب سے پہلے تفسیر و حدیث کی جمع و تدوین ہوئی تفسیر میں سفیان بن عین وکیع بن الجراح، شعبہ بن الحجاج، اسحاق بن راہویہ، مقاتل بن سلیمان اور النصر ا نے چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں۔  اس طبقہ کے بعد فن تفسیر میں مکمل اور جامع کتاب جریر الطبری نے لکھی ان کے بعد ابراہیم الثعلبی النیشاپوری نے ، پھر محمد الواحدی نے کتابیں مرتب کیں۔  اس زمانے میں اس علم کو باقاعدہ فن کی حیثیت دی گئی۔  تفسیر کے بعد تدوین حدیث کا کام ہوا۔  حدیث میں سب سے پہلی کتاب مؤطا امام مالک ہے اس کے بعد امام بخاری نے ’’صحیح بخاری‘‘ پھر ان کے شاگرد مسلم النیشاپوری نے ’’صحیح مسلم‘‘ پھر عیسی الترمذی پھر ابو داؤد سجستانی ان کے بعد احمد بن شعیب النسائی اور محمد بن ماجہ نے اپنی اپنی کتابیں ترتیب دیں۔  ان ہی چھ کتابوں کو ’’صحاح ستہ‘‘ یعنی حدیث کی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔  اسی زمانہ میں فقہ کی بھی تکمیل ہوئی اور اس میں چار مسلک پیدا ہوئے (۱) مسلک حنفی۔  اس کے بانی امام ابو حنیفہ تھے (۲) مسلک مالکی۔  اس کے بانی حضرت امام مالک بن انس تھے (۳) مسلک شافعی۔  اس کے بانی محمدادریس بن شافع تھے (۴) مسلک حنبلی۔  اس کی بنا احمدبن محمد بن جنبل نے ڈالی تھی۔  علوم کلام میں بھی اس زمانہ میں خاصا کام ہوا۔  آخری ابو الحسن الشعری نے کلام کے تمام مکاتب فکر کو ملا کر بیچ کا راستہ جسے اہل سنت والجماعت کا مسلک کہتے ہیں۔  ادبی تصنیف و تالیف میں اسی زمانے میں ابن المقفع اور الجاحظ نے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔  ابن المقفع کی مشہور کتاب ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ ہے جو سنسکرت کی کتاب پنچ تنتر کا عربی میں ترجمہ ہے۔  جاحظ نے مختلف علوم و فنون میں معیاری کتابیں لکھیں جن میں قابل ذکر البیان والتبیین، کتاب الحیوان اور کتاب الخلاء ہیں۔  احمد بن طیفور نے نظم و نثر پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ۱۴ املاؤں میں لکھی۔  اس کے بعد محمد المبرد، ابو حنیفہ الدینوری، ابو بکر محمد الصولی ابن قتیبہ ابن عبد رب ابو علی الفالی اور آخر میں ابو الفرح الاصفہانی نے اپنی مشہور کتاب ’’الاغانی‘‘ مرتب کی۔

  زبان سے متعلق علوم میں نحو میں سیویہ نے سب سے پہلی کتاب ’’کتاب النحو‘‘ لکھی اور اس علم کو علیحدہ فن کی حیثیت دی۔  اس کے بعد نحو میں اختلافات بڑھے اور کوفہ مکتب فکر اور بصرہ مکتب فکر پیدا ہو گئے جو بعد میں مل کر ’’مکتب فکر بغداد‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔  بصرہ کے علمائے نحو میں ابو عمر بن العلاء خلیل بن احمد، سیبویہ، اخفش مشہور ہیں اور کوفہ کے مکتب فکر میں معاذ اسرار (اس نے علم صرف ایجاد کیا) الرواسی اور الکسائی والنصراء قابل ذکر ہیں۔

 علم عروض کو خلیل ابن احمد نے ایجاد کیا۔  اور ۱۵ بحریں نکالیں بعد میں الاخفش نے ’’متدارک‘‘ بحر ایجاد کی فن لغت میں الخلیل بن احمد نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب العین‘‘ ترتیب دی۔  اس کے بعد ابو بکر بن درید نے ’’الجمرہ‘‘ الازہری نے ’’کتاب التہذیب‘‘ پھر حماد الجوہری نے ’’کتاب الصحاح‘‘ ابن سیدہ الاندلسی نے ’’کتاب المحکم‘‘ ابن فارسی نے ’’کتاب الجمل‘‘ اور صاحب بن عباد نے ’’کتاب المحیط‘‘ لکھی۔  علم معانی و بیان میں خلیل کے شاگرد عبیدہ نے ’’مجاز القرآن‘‘ علم بیان جاحظ نے ’’اعجاز القرآن‘‘ علم معانی میں اور ابن المعتز اور قدامہ بن جعفر نے علم بدیع میں کتابیں لکھیں۔  آخر میں امام عبد القاہر البحرجانی نے علم معانی میں ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور علم بیان میں ’’اسرار البلاغہ‘‘ لکھ کر ان علوم کو مکمل کر دیا۔  اس سلسلہ کی مبسوط کتاب السکا کی ’’مفتاح العلوم‘‘ ہے جو مسک خنام ہے۔

 فن سیرت و غزوات میں سب سے پہلے محمد بن اسحق نے کتاب لکھی فتوحات اسلامیہ پر واقدی مدائنی اور لوط بن یحیی نے کام کیا۔  فن انساب پر الکلبی، ایام عرب پر ابو عبیدہ اور الاصمعی نے بادشاہوں کی تاریخ پر سب سے پہلے ابن قتیبہ نے پھر الہثیم بن عدی ابن واضح الیعقوبی نے کتابیں لکھیں۔  آخر میں محمد بن جریر الطبری نے سن ہجری کے مطابق سن وار اپنی کتاب مرتب کی۔  اور ابن الاثیر انے ’’تاریخ الکامل‘‘ لکھ کر اس فن کو مکمل کر دیا۔  علم جغرافیہ میں محمد بن الغزاری نے کتاب السند ہند کو ہندی سے عربی میں منتقل کیا۔  پھر بطلیموس کی کتاب ’’المحبسطی‘‘  کو حجاج بن مطر نے عربی کا جامہ پہنایا۔  پھر احمد بن خود انوبہ نے کتاب المالک والممالک لکھی۔  اس فن میں بعد میں علماء نے بڑی پیش رفت دکھائی چنانچہ عدہ عباسی کے دوسرے دور میں بڑے نامور جغرافیہ داں ہوئے جیسے ابن المائک جس نے ’’صفۃ جزیرۃ العرب‘‘ لکھی اور یعقوبی جس نے ’’کتاب البلدان‘‘ تصنیف کی۔

غیر ملکی زبانوں سے عربی میں ترجمہ کا باقاعدہ کام منصور کے زمانہ میں شروع ہوا۔  ہارون الرشید نے ترجمہ کی طرف توجہ دی اور اس کے بعد مامون نے اپنی قائم کردہ اکادمی ’’بیت الحکمت‘‘ کے ذریعہ ترجمہ کا بہت کام کرایا۔  چنانچہ یونانی سریانی ایرانی اور ہندوستانی زبانوں سے فلسفہ طبیعات اور ریاضیات کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔  ان ترجموں کے زیر اثر مسلمانوں میں بھی باکمال اور قابل ذکر فلاسفہ پیدا ہوئے جنہوں نے عہد عباسی کے دوسرے دور میں اپنی فلسفیانہ تصنیفات اور آرا سے عربی کو مالامال کر دیا۔  اس زمانے کے قابل ذکر فلاسفر ہیں ابو نصر فارابی، یعقوب الکندی، ابو جعفر الخوارزمی، ابو بکر رازی، موسی بن شاکر ہیں جنہوں نے فلسفہ، منطق، سیاسیات، ادب، حساب جیومیٹری اور طب وغیرہ میں اہم کتابیں لکھیں۔  عباسی زمانے کے دوسرے دور میں نثر عہد عباسی کے دور اول میں علم و فن شعر وادب تاریخ و سیرت ترجمہ و نقل کا کام عروج کو پہنچ چکا تھا۔

دوسرے دور میں علما، ادبا، فقہا اور محدثین نے اس سلسلہ کی کمیوں کو پورا کیا۔  چنانچہ ادب و زبان میں ابن الحمید، الصاحب بن عباد ابو بکر الخوارزمی، الصابی، القاضی، الفاضل، ابن شہید، ابو المطرف بن عمیرہ، ابن زیدون اور لسان الدین الخطیب نے اپنی تخلیقات سے عربی ادب کے دامن کو بھر دیا۔  علم فقہ مین ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ برہان الدین الغرفانی ’’الہدایہ‘‘ اور محمد الغزالی نے اپنی مشہور کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ تصنیف کی فن تفسیر میں الثعلبی نے ’’الکشف و البیان میں تفسیر القرآن‘‘ محمود الزمخشری نے انکشاف’’ اور فخرالدین الرازی نے ’’مفاتیح الغیب‘‘ لکھی فن حدیث میں الحاکم نیشاپوری، سلیم الرازی اور الحافظ بیہقی نے نام پیدا کیا۔  فن تاریخ میں اس عہد کی ممتاز کتابیں یہ ہیں :۔  ابو نصر العتبی کی کتاب ’’الیمینی‘‘ الفتح بن خاقاں کی کتاب ’’قلائد العقیال‘‘ المسعودی کی ’’مروج الذہب‘‘ ابن مسکویہ کی ’’تجارب الامم‘‘ ابن الندیم کی ’’الفہرست ‘‘ اور ابن الاثیر کی کتاب ’’الکامل‘‘ فن جغرافیہ میں اس زمانے میں الاسطخری نے ’’کتاب الاقانیم‘‘ ابن حوقل نے ’’المالک والممالک‘‘ الادریسی نے ’’نزہت المشتاق فی اختراق الآفاق‘‘ لکھی یاقوت الحموی نے ’’معجم البلدان‘‘ جغرافیہ میں ’’ ارشاد الادیب‘‘ اور ادب میں ’’کتاب المہدا والمال‘‘ تاریخ میں لکھی علوم، فلسفہ، منطق، طب، ریاضی، الہیات وغیرہ میں جو ترقی ہوئی اس کا تفصیلی تذکر رہ اسلامی فلسفہ و کلام کے تحت یا اسلامی تصوف کے ضمن میں درج ہے۔  جہاں مشرق و مغرب کے مشہور فلسفی اور مفکروں جیسے کندی، فارابی، ابن سینا، امام غزالی یا ابن رشد اور ابن طفیل کی تصانیف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

عباسی زمانہ میں شعر و شاعری (دور اول)

 اموی زمانہ تک شعر و شاعری کے مرکز حجاز، نجد، عراق اور آس پاس کے علاقے تھے۔  مگر عراق میں بنو عباس کی اور اندلس میں امویوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد بغداد اور قرطبہ میں بزم سخن گرم ہونے لگی۔  ان دونوں مرکزوں کو بسے سو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ ہر طرف سے شعرا کھنچ کر یہاں پہنچنے لگے اور انہوں نے شاعری میں نئی راہیں اور نئی اصناف بھی ایجاد کیں مگر پیرا یہ بیان اور انداز جاہلی رہا۔  عباسی دور کے وسط تک یہ رنگ اتنا بدلا کہ اب بجائے دیار محبوب اور اس کے کھنڈرات سے اظہار تشبیب کرنے کے محلات اور کوٹھیوں ، عیش و عشرت کے سازو سامان، مے نوشی، مطرب کی دلنوازی اور ممدوح کے دربار میں بذریعہ کشتی جانے کے ذکر ہونے لگے۔  اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ شاعری کی پرانی ریت کا مذاق اڑایا جانے لگا۔  درباری شعرا نے مدحیہ قصائد میں چاپلوسی اور مبالغہ آرائی کو اپنا شعار بنا لیا۔  کہیں کہیں اخلاقی پستی کا یہ عالم ہوا کہ بعض اوقات شاعری، شہدا پن  ابتذال اور جنسی و اخلاقی جرائم کی حکایت عریاں بن گئی اور حالت یہاں تک گری کہ تغزل بالمذکر کی نئی اور مذموم صنف ایجاد کی گئی۔  اور بیشتر نئی باتیں کرنے والے وہ موالی اور نوجوان شعرا تھے جو اکثر عجمی اور خاص طور سے ایرانی النسل تھے جن کا نام شعرا المجون الخلاصہ یعنی ’’اوباش اور اباحی شعرا‘‘ پڑ گیا تھا۔

  اباحی شعرا کے طبقہ میں بہت سے شعرا گزرے ہیں لیکن ان میں کلام کی جملہ خصوصیات کے اعتبار سے مشہور اور ان کا نمائندہ اور امام بشارین برد (۹۰۵۔  ۱۶۷ھ۔  ۷۱۴۔  ۷۸۴ء)تھا۔  اور اس کا ساتھی ابو نواس (۱۴۵۔  ۱۹۸ھ۔  ۷۶۲۔  ۸۱۳ء) ان دونوں کے ہمنواؤں میں ’’صریع الغوانی‘‘ یعنی کشتہ ناز نیناں مسلم بن الولید (م ۲۰۸ھ) اور ابن الضحاک خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔  اباحی شعرا کے ساتھ ساتھ روایت پسند شعرا کا بھی ایک طبقہ اسی زمانے میں داد سخن دے رہا تھا۔  جن میں سے اکثر عربی النسل تھے لیکن اس نے اپنی بزم بغداد کی فضا سے دور شام میں سجا رکھی تھی۔  اس طبقے میں ایسے قادر الکلام منجھے ہوئے اور یکتائے روزگار شاعر تھے جن کا لوہا ہر ایک مانتا تھا۔  انہوں نے ان شعرا کے مقابلہ میں پرانے جاہلی رنگ اور آہنگ کو بنیاد بنا کر شعر و شاعری کا وہ معجز نما ڈھنگ نکالا جس میں تمام مروجہ انداز ہائے نگارش کے ساتھ زہد و تقویٰ، پاکیزہ خیالات، اخلاق اقدار، مروت، اور شرافت کے ابدی نغمے گائے گئے۔  ان شعرا کا یہ اثر ہوا کہ اباحی شعرا کے خاتمہ کے ساتھ اباحی انداز کا رواج بھی ختم ہو گیا۔  ان شعرا میں ابو تمام (۱۹۵۔  ۲۳۱ھ) البحری (۲۰۶۔  ۲۸۴ھ) ابن الرومی (۲۲۱۔  ۲۸۳ھ)ابن المقز (۲۴۵۔  ۲۹۶ھ) اور ابوالطیب المتنبی (۳۰۳۔  ۳۵۴ھ) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

عہد عباسی کے دوسرے دور میں شعرو شاعری اس دور میں ایران اور خراسان کے علاقوں میں جہاں عربوں اور عربی زبان کا اثر کم ہوتا جا رہا تھا۔  فارسی ادب نے زور پکڑا اور اس کے ساتھ دیا اور شعرا کی زبان میں عجمیت کا اثر بڑھنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عربی شاعری کی سابقہ روایات اور انداز بیان کے گرنے کے ساتھ اس کی قدر و منزلت بھی گر گئی۔  البتہ عراق میں ممالک عربیہ کی قربت کی وجہ سے عربی شعر و شاعری کا بازار گرم رہا۔  تاتاریوں کے ہاتھوں جب بغداد کی تباہی ہوئی تو یہاں کے شعرا اور ادبا نے مصر و شام میں پناہ لی اور وہاں علم و ادب کی محفل سجائی جس کے نتیجہ میں بہت سے نامور شعرا ابھرے جنہوں نے تمام قدیم اصناف سخن میں زبان کے جوہر دکھائے اور بعض نے مضامین باندھے جیسے فاطمی تہذیب و معاشرت کی تعریف علوی عقائد و نظریات کی تحسین و توصیف۔  شام میں اس عہد کے شعرا میں المتنبی (۳۰۳۔  ۳۵۴ھ۔  ۹۱۸۔  ۹۶۸ء) ابو الفراس الحمدانی (۳۲۰۔  ۳۵۷ھ۔  ۹۳۴۔  ۹۷۰ء) ابو العلا المعری (۳۶۳۔  ۴۴۹ھ۔  ۹۷۶۔  ۱۰۶۰ء) اور مصر میں ابن الفارض (۵۷۶۔  ۶۶۳ھ۔  ۱۱۸۰۔  ۱۲۶۵ء) اور بہاؤ الدین زہیر (۵۸۱۔  ۶۵۶ھ۔  ۱۱۸۵۔  ۱۲۵۸ء) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

 اسی زمانہ میں عربی میں صوفیانہ شاعری کی داغ بیل پڑی۔  اندلس میں جہاں امویوں کی حکومت تھی ادباء اور شعراء جب آ کر جمع ہوئے تو یہاں شعر و ادب نے بڑی ترقی کی۔  جب اس سلطنت کا شیرازہ بکھرا اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا تب بھی حکمراں طبقہ نے ادبا و شعرا کی توقیر و عزت میں کوئی کمی نہ کی۔  جس کی وجہ سے شعر و ادب کی محفلیں جوں کی توں سجی رہیں۔  یہاں کے شعرا نے فنی اعتبار سے شعرائے مشرق کی ہی پیروی کرتے رہے۔  البتہ مناظر قدرت کی تصویر کشی میں ان سے بھی بڑھ گئے۔  اس کے علاوہ بزم یاراں و مجالس شراب و کباب کے وصف میں انہوں نے نیا انداز اور نیا اسلوب بیان ایجاد کیا۔  اندلس کے شعرا میں خاص طور سے قابل ذکر ابن ہانی، ابن خفاجہ ہیں۔  ان کے علاوہ ابن سعید ابن الخطیب اور مشہور رحل نگار ابن فرمان نے بڑا نام پیدا کیا۔  مشرق کے علاقہ عراق، فارس اور خراسان میں جن شعرا نے شہرت حاصل کی ان میں الشریف الراضی مہیار الدیلمی اور اطغرائی کے علاوہ ابن نبات السعدی اسری الرفاء اور سبط التعاویذی ہیں۔  تنزل کا زمامہ ۱۲۵۸۔  ۱۷۹۷ء (۶۵۶ھ۔  ۱۲۲۰ھ) ہلاکو کے حملہ بغداد اور اس کی تباہی کے بعد ایک جمود و تعطل کا سا عالم طاری ہو گیا۔  چنانچہ اس عہد میں ادبی علمی اور تاریخی تخلیقات کم ہوئی البتہ اسلاف کے علمی سرمایہ میں ان کے ادبی و فنی دیگر کارناموں کو چند علما نے بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں جمع کیا۔  یہ علما وہ تھے جنہوں نے تباہیِ بغداد کے بعد مصر و شام کے علاقوں میں پناہ لی تھی۔  اور یہیں انہوں نے اپنی بزم علم و فن سجائی۔  اسی لیے اس عہد کو ’’عہد موسوعات‘‘ یعنی انسائیکلوپیڈیا کا زمانہ کہتے ہیں۔  اس میں مندرجہ ذیل علماء نے نمایاں خدمات انجام دیں۔  شہاب الدین النویری نے ’’نہایت الادب فی فنون الادب‘‘ سولہ ضخیم جلدوں میں لکھی جو زبان و ادب کی انسائکلوپیڈیا تھی ابن فضل اللہ العمری نے ’’مسالک الالبہار فی ممالک الامصار‘‘ جغرافیہ اور تاریخ پر ترتیب دی جس کی بیس سے زیادہ جلدیں تھیں۔  ابن منطور نے ’’لسان العرب‘‘ کے نام سے لغت کی تمام کتابوں کو یکجا جمع کر دیا اور القلقشندی نے ’’صبح الاعشی‘‘ ترتیب دے کر فن کتابت اور تاریخ کو یکجا کر دیا۔

  ترکی زمانہ میں جو دور انحطاط ہے مختلف سرگرمیوں اور جنگوں کی وجہ سے علم و ادب کے میدان میں کوئی اہم تخلیقی کام نہ ہو سکا۔  تصنیف و تالیف اور سرکاری کاغذات کے لکھنے میں اس زمانے میں القاضی الفاضل کی پیروی کی گئی۔  مختلف ممالک اسلامیہ میں جن علماء نے اس زمانے میں مختلف علمی و ادبی کام کیے ان میں قابل ذکر لسان الدین الخطیب، ابن البصری، ابن فلکان، ابو الفداء المقریزی، الدجی، ابن بطوطہ ابن خلدون اور المقری ہیں۔  ہندوستان کے ایک نامور عالم محمد بن محمد المرتضی بلگرامی نے جو ’’الزبیدی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں ۔ فیروزآبادی کی مشہور لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عربی میں شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  دور انحطاط میں شعر و شاعری اسی زمانہ میں مشرق علاقوں اور مصر و شام میں بادشاہ اور ارباب حکومت عام طور سے غیر عرب تھے اس لیے عربی شعر و شاعری کی طرف نہ ان کا رجحان تھا اور نہ وہ شعرا کی قدر و منزلت کرتے تھے۔  اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسط ایشیا میں عربی شعر و شاعری کا رواج تقریباً ختم ہو گیا۔  البتہ عراق اور قرب و جوار میں اس کی کچھ رمق باقی رہی۔  شام، مصر، اندلس اور مغرب اقصی میں بہر حال عربی شعر و شاعری کی حالت اچھی رہی مگر یہاں کے شعرا نے پرانی ریت اور پرانے مضامین کو چھوڑ کر خلفا اور امرا کی مدح کے بعد جن امور پر طبع آزمائی کی وہ ایک حد تک نئے تھے جیسے نعت رسول، تصوف اور صوفیا کی تعریف اور زہد و تقویٰ کے مضامین، غزل میں تغزل بالمذکر کی ریت کو ان شعرا نے دوبارہ زندہ کیا۔  یہ شعرا بعض اوقات توریہ اور خباس کو استعمال کر کے شعر کو پہیلی بنا دیتے تھے۔  ابتذال، معاملہ بندی اور فحش گوئی کا رواج بڑھ گیا، علمی زبان کی شاعری کے اصناف مثلاً موشحات، صوالیا، زجل اور قومہ کا اضافہ ہوا۔  ان اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا میں سے قابل ذکر ہیں۔  ۱۔  شرف الدین الانصاری (م۶۶۲ھ) ۲۔  جمال الدین ابن نبات المصری (م ۷۵۸ھ) ۳۔  شہاب الدین التلعفری (م ۷۶۵ھ) ۴۔  الشاب الظریف (م ۶۸۷ھ) ۵۔  الامام ابومیری (م ۶۹۵ھ) ۶۔  ابن الوردی (م ۷۴۹ھ) ۷۔  ابو بکر بن مجہ (م ۸۳۷ھ) ۸۔  سفی الدین الحلی (م ۷۵۰ھ) ۹۔  فخر الدین بن مکالس (م ۸۶۴ھ) ۱۰۔  ابن معتوق الموسوی (م ۱۰۲۵ھ)

نشاۃ ثانیہ کا پہلا دور (۱۸۰۵ء۔  ۱۹۱۹ء)

مصر پر نیپولین کے حملہ کا اثر نیپولین نے مصر کو ۱۷۹۸ء میں فتح کیا تو پہلی بار مشرق کو مغرب اور اس کی تہذیب و تمدن سے براہ راست سابقہ پڑا نیپولین اپنے ساتھ علما انجینئروں ، کاریگرو ں اور صنعت و حرفت کے ماہرین کی ایک ٹیم لے کر آیا تھا۔  جن کی مدد سے اس نے مصر میں مکاتب اور مدارس کھولے اور کارخانے قائم کیے اور مشرق میں پہلی بار ایک یرلس کھولا اور پہلی بار یہاں سے ایک اخبار نکالا۔  اس کا سب سے اہم علمی و ادبی کام ’’المجمع العلمی المصری‘‘ (مصری علمی اکادمی) کا قیام ہے اس اکادمی کے ۴۸ ممبر تھے جو مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔  یہ ماہرین اپنے علمی اور تحقیقی کارناموں کو ہر تیسرے مہینے ایک کتابچہ کی شکل میں شائع کرتے تھے انہوں نے پہلی بار یہاں ایک اسٹیج بھی بنایا جس پر فرانسیسی مبان کے ڈرامے اسٹیج کیے جاتے تھے۔  یہ سب کام مصر اور مشرق کے لوگوں کے لیے بالکل نئے تھے۔  فرانسیسیوں نے اپنی تین سالہ مدت حکومت میں جو کارنامے انجام دیے بعد میں محمد علی پاشا کے زمانے میں وہی ملک و قوم کی ہمہ جہت ترقی کی بنیاد بنے۔  محمد علی پاشا محمد علی پاشا نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ایک قومی کالج قائم کیا۔  اس کے بعد بہت سے مدرسے اور اعلی تعلیمی ادارے کھولے۔  ذہین اور محنتی طلبہ اور حکومت کے کارندوں کو فرانس بھیج کر تربیت دلائی اور چھاپے خانے اور نشر و اشاعت کے مرکز قائم کیے۔  لولاق کے پہلے پریس میں سب سے پہلے اب المقفع کی ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ چھپی اس کے بعد بغدادی کی ’’خزانۃ الادب الکبری‘‘ ابن خلدون کا مقدمہ، حریری کے مقامات، رازی کی تفسیر اصفہانی کی الاغانی اور لغت میں ’’القاموس‘‘ شائع ہوئی۔  ۱۸۸۲ء میں مصر میں سب سے پہلا اخبار ’’الوقائع المصریہ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں چھپا۔  شام میں سب سے پہلا اخبار ۱۸۵۸ء میں ’’حدیقۃ الاخبار‘‘کے نام سے نکلا۔  اور قسطنطنیہ میں پہلا عربی اخبار ۱۸۶۰ء میں ’’الجوائب‘‘ کے نام سے نکلا۔  محمد علی پاشا نے عربی کو مصر کی سرکاری زبان بنا دیا تھا۔  محمد علی کے پوتے اسمعیل پاشا نے اپنے دادا کے نقش قدم پر چل کر ہر قسم کے علمی، ادبی اور فنی کاموں کی ہمت افزائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے زمانے میں مصری علماء و فضلاء اب ترجمہ کرنے کی منزل سے نکل کر خود مختلف موضوعات پر عربی زبان میں معیاری فنی کتابیں لکھنے لگے۔

علم و فن کی جو شمع یہاں روشن ہوئی اس کی شعاعیں شام اور لبنان میں بھی پہنچیں۔  یہاں بھی بہت سے مدرسے اور تعلیمی ادارے کھلے۔  پریس قائم ہوئے۔  اخبارات نکلے اور ارباب حکومت کی سرپرستی میں یہاں کے علما نے بھی علم و ادب کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  اور یہیں سے عربی ادب نے حصہ لیا اور جن کی کوششوں سے اگلی منزل کی راہ ہموار ہوئی۔

مصر میں شعرا ۱۔  السید اسماعیل الخشاب (م ۱۸۱۵ء) (۲) الشیخ حسن العطار (م ۱۸۳۴ء) (۳) ابراہیم بک مرزوق (م ۱۸۶۶ء) (۴) الشیخ علی ابو النصر (م۱۸۸۰ء) (۵) عبد اللہ پاشا فکری (م ۱۸۸۹ء) (۶) محمد شہاب الدین (م۱۸۵۷ء) (۷) عبد القادر الجزائری(م۱۸۸۸ء) (۸) الشیخ علی اللیثی (م۱۸۹۶ء) (۹) محمود سامی البارودی (م۱۹۰۲ء) (۱۰) اسماعیل صبری پاشا (م۱۹۲۳ء)۔  ادبا اور مصنفین ۱۔  رفاعہ بک رافع (م۱۸۷۳ء) ۲۔  الشیخ حسین المرصفی (م ۱۸۸۹ء) ۳۔  علی مبارک پاشا (م۱۸۹۳ء) ۴۔  امین فکری پاشا (م۱۸۹۹ء) ۵۔  محمود پاشا الفلکی (م۱۹۰۳ء) ۶۔  الشیخ محمد عبدہ (م ۱۹۰۵ء) ۷۔  ابراہیم بک المویلحی (م ۱۹۰۶ء) ۸۔  قاسم بک امین (م۱۹۰۸ء) ۹۔  جرجی زیدان (م۱۹۱۴ء) ۱۰۔  احمد فتحی زغلول (م ۱۹۱۴ء) ۱۱۔  حمرہ فتح الہ (م۱۹۱۸ء)۔  ۱۲ ملک حفنی ناصف (م ۱۹۱۸ء)۔

مقررین اخبار نویس (۱) سلیم تقلا اور بشارہ تقلا ایڈیٹر الابرام (۲) الشیخ علی یوسف ایڈیٹر الموید (۳) فارس نمرود اور یعقوب صروف ایڈیٹر المقطم (۴) جمال الدین افغانی ایڈیٹر اللواء

 لبنان کے شعرا میں اس زمانے میں نقولا الترک (م۱۸۲۸ء) بطرس کرامۃ (م ۱۸۵۱ء) اور ناصف الیازجی (م۱۸۷۱ء) اور ادبا و مصنفین میں یہ لوگ مشہور ہوئے۔  ۱۔  مارون النقاش (ڈرامہ کے موجد اور فن کار) (۱۸۵۵ء) بطرس البستانی (م ۱۸۸۳ء) اور فارعہ الشدباق (م ۱۸۸۷ء) کے علاوہ ابراہیم الیازجی (م۱۹۰۶ء) اور المطران الدبس (م۱۹۰۷ء) شہرت حاصل کی۔  شام کی ممتاز ہستیوں میں حسین جنبہ، محمد عابدین، ادبی اسحاق اور میخائیل مشاقہ اور ابراہیم الحورانی کے نام ہیں۔

عراق میں ابو الثناء الشہاب الالوسی، محمود شکری الالوسی، السید حیدر المحلی، ابراہیم طباطبائی اور جعفر الحلی نے نام پیدا کیا۔  نثر اس زمانے کے شروع تک نثر نگار القاضی الفاضل کے طریقہ پر مسجع و مقفی عبارتیں لکھتے رہے تھے مگر جب اس زمانے میں پریسوں کی کثرت، اخبارات و رسال کے اجراء اور علمی و ادبی کتابوں کے شائع ہونے کا رواج عام ہو ا تو ادبا اور فن کاروں کا انداز تحریر بھی بدلنا شروع ہوا۔  اور عام طور سے ادبا نے جاحظ کا طرز تحریر اختیار کیا۔  مغربی ادب کے اثر سے بیان میں سادگی اور پرکاری آئی اور الفاظ کے مقابلہ میں معانی و مطالب پر زیادہ زور دیا جانے لگا۔  فن خطابت جو اس سے پہلے ماند پڑنے لگا تھا ملکی و ملی ضروریات کی وجہ سے پھر چمک اٹھا اور اس کے ممتاز فن کار پیدا ہوئے جیسے عبد اللہ ندیم، جمال الدین افغانی شیخ محمد عبدہ، مصطفے کامل اور بطرس البستانی، ان تمام خوش آئند تبدیلیوں کی وجہ سے نثر کی جملہ اقسام میں بڑی ترقی ہوئی اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا یہاں تک کہ نشاۃ ثانیہ کے دوسرے دور یعنی ۱۹۱۹ء کے بعد عربی نثر دنیا کی ممتاز اور ترقی یافتہ زبانوں کی ہم پلہ ہو گئی۔

شعر و شاعری

اس زمانے کے نصف اول تک شعر و شاعری زمانۂ انحطاط و تنزّل کی ڈگر پر چلتی رہی مگر اس زمانہ میں جو ں جوں علمی و ادبی ترقیاں ہوتی گئیں شعر و شاعری کا اندازہ بھی بدلتا گیا۔  چنانچہ مغربی ادب و تہذیب کے میل جول سے نئے خیالات اور نیا اسلوب بیان ابھرنے لگا۔  اندازِ نگارش اور الفاظ کے انتخاب میں ان شعراء نے جاہلی شعرا کی پیروی کی معانی و مطالب میں حکمت و فلسفہ کی آمیزش سے کلام کو خوبصورت بنانے کی ادا مولدین سے لی۔  حقیقت پسندی، رفعتِ خیال اور نزاکت بیانی مغربی ادب سے اس گروہ میں جو ممتاز شعرا گزرے ہیں ان کے نام ہیں۔  الشیخ علی ابوالنصر، عبداللہ پاشا فکری، ناصف الیازجی، سامی البارودی وغیرہ۔

  دوسرے علوم و فنون دیگر علوم و فنون میں اس زمانے میں جو کام ہوا اور جن ادبا و فضلا نے نام پیدا کیا وہ ہیں : رفاعہ رافع کے ترجمے ، مطران دبس کی تاریخ کتابیں۔  جرجی زیدان کی تاریخِ ادب اور تہذیب و تمدن اور فلسفہ لغب۔  شہاب الدین الالوسی کے سفرنامے زبانِ لغت میں شیخ حمرہ فتح اللہ، حفنی ناصف بک، فارس الشدیاق، الشیخ محمد عبدہ وغیرہ نے جو کام کیے وہ کاروانِ علم و ادب کے لیے شمع راہ ثابت ہوئے۔

  ’’مہجری ادب ‘‘

’’مہجری ادب‘‘ سے مراد عربی نظم و نثر کی وہ قسم ہے جو دیارِ عرب سے دور پردیس میں امریکہ کے مختلف شہروں میں پروان چڑھی۔  انیسویں صدی کے وسط میں لبنان اور شام کے بعض عرب عیسائی خاندانوں نے ہجرت کر کے امریکہ کے بعض شہروں جیسے بوسٹن وغیرہ میں سکونت اختیار کر لی اور جب جم گئے تو وہاں علمی و ادبی سرگرمیاں شروع کیں۔  ان سرگرمیوں کی ابتدا ۱۹۱۳ء سے ہوتی ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد عروج کو پہنچ گئیں۔  ان سرگرمیوں کے روح رواں جبران خلیل جبران اور ان کے ہم نوا میخائل لقیمہ اور ایلیا ابوماضی تھے۔  یہاں شعر و شاعری کی محفلیں بھی گم ہوئیں اور ادب و فن کی مجالس بھی۔  مغربی ادب کے اثر اور امریکی زندگی کی چھاپ کے نتیجہ میں یہاں نظم و نثر میں نئے اور اچھوتے تجربے کئے گئے۔  ان لوگوں نے یہاں ادبی انجمنیں جیسے ’’الرابطۃ العلمیہ‘‘ اور ’’الوصبہ الاندلسیہ‘‘ قائم کیں۔  یہاں سے پہلا اخبار ’’کوکب امریکہ‘‘ کے نام سے ۱۸۸۸ء میں نکلا مہجری شعرا میں قابلِ ذکر جبران خلیل جبران امین الریحانی، نسیب عریضہ، ایلیا ابوماضی، قرحاتا ور القروی ہیں۔  نثر میں جبران خلیل کے علاوہ میخائیل نعیمہ شکر اللہ البحر، یوسف الضریب، بنیہ فارس رشید الحوری وغیرہ نے یہاں نام پیدا کیا۔

 

 نشاۃ ثانیہ کا دوسرا دور (۱۹۲۰ء سے لے کر آج تک)

بیسویں صدی کے شروع میں عرب دنیا ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی۔  ایک طرف ترک پوری عثمانی سلطنت کو ترکی کے رنگ میں رنگنے میں لگے ہوئے تھے اور دوسری طرف عرب ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دھن میں تھے کہ پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔  جس میں ترکی نے جرمنوں کا ساتھ دیا اور عربوں نے حلیفوں کا۔  اس امید میں کہ مغربی طاقتیں انہیں آزادی دلا کر ان کی خود مختار ریاستیں قائم کر دیں مگر جنگ کے خاتمہ پر ہوا یہ کہ مغربی طاقتوں نے عرب ریاستوں کو آپس میں بانٹ لیا اور فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کر دیا۔  عالمِ عرب تڑپ اٹھا اور انقلاب و شورش کی ایک شدید لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔  اس وقت شدید ضرورت اس کی تھی کہ سارے عربوں کو متحد اور متفق کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا جائے۔  چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے ادبا شعرا اور اخبار نویسوں نے اپنی ساری قوتیں اور ساری فکری ذہنی اور تخلیقی طاقتیں صرف کر دیں اسی لیے اس زمانے کے ادب کو ’’ادب الشورہ و التجمع‘‘ یعنی انقلابی اور اتحادی ادب کہتے ہیں۔  اس معرکہ میں جن ادبا و شعرا نے قلم کے جوہر دکھائے ان میں قابل ذکر عراق کے الرہاوی، الرصافی اور الکاظمی مصر کے بارودی، حافظ ابراہیم شقی، محرم، نسیم اور ادیب اسحٰق، حلب کو الکواکبی، تیونس کے الثعالبی اور محمد بیرم الخامس، الجزائر کے عبدالحمید بن بادیس، لبنان کے بستانی۔  شام کے عبدالقادر مغربی اور ابراہیم یازجی، فرابلس کے نوفل اور مراکش کے سلاوی ہیں۔  ابھی یہ کوششیں جاری تھیں کہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اس میں عربوں نے پھر اتحادیوں کا ساتھ دیا۔  اور آخر اتحادی اس جنگ سے کامیاب ہو کر نکلے جنگ کے خاتمہ کے بعد جب اقوام متحدہ نے آزادی اقوام کا اعلان کیا تو عربوں نے اطمینان کا سانس لیا اور ۱۹۵۰ء سے جبکہ ممالک عریبہ رفتہ رفتہ آزاد و خود مختار ہونے لگے اور قلم و زبان پر عاید پابندیاں ہٹنے لگیں تو عربی ادب میں بھی ایک انقلاب آفریں دور شرع ہوا۔  اس دور میں ادب کی مُروّج اصناف میں عظیم الشان ترقی کے علاوہ چند ایسی اصناف داخل ہوئیں جن سے عربی ادب اب تک نا آشنا تھا۔  مصر اپنی دیرینہ روایات اور فطری توانائیوں کے سہارے حسبِ سابق اس زمانہ میں بھی مرکز علم و فن رہا۔  اور اس سرزمین سے ایسے فن کار اور ادیب اٹھے جنہوں نے عربی ادب کو گلہائے رنگا رنگ سے سجا کر ایک گلدستہ بنا دیا۔

قاہرہ کے بعد شام و لبنان کا نمبر آتا ہے۔  شام علمی تحقیق و تدقیق کے لئے ہمیشہ سے مشہور رہا ہے اس نے اپنے اس امتیاز کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے بہت ترقی دی۔  لبنان مین بیروت کو اس سلسلہ میں بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔  یہاں نوجوان ادیبوں نے ہلکے پھلکے ادب کو بڑا فروغ دیا۔  مختصر افسانہ نویسی، آزاد نظم اور ادبِ لطیف یہاں کا خاص رنگ بن گیا۔  عراق نے مختلف خونی ڈرامے دیکھنے کے بعد اب علم و ادب کی محفل پھر سے سجانی شروع کی ہے۔  مغرب کے ملکوں میں بھی ادبی و علی سرگرمیاں پوری توانائیوں کے ساتھ جاری ہیں۔  نثر خطابت: اس زمانہ میں خطابت کو بڑی ترقی ہوئی۔  ابتدا میں السید عبداللہ ندیم الشیخ محمدعبدہ۔  مصطفیٰ کامل نے سیاسی اور دینی خطابت میں۔  احمد فتحی زغلول، عبدالخالق ثروت پاشا نے قانونی اور عدالتی تقریروں میں اور سعد زغلول نے سیاسی اور عام ملکی مسائل میں خطابت کے جوہر دکھائے۔  پانچویں دہے میں اربابِ حکومت اور مملکتوں کے صدور میں بھی بعض اچھے مقرر پیدا ہوئے۔  ان سب میں جمال عبدالناصر مرحوم کو امتیاز حاصل ہے۔

 تصنیف و تالیف

 اس زمانے میں ادبا نے تقریباً نثر کی ہر صنف میں داد تحقیق دی اور معیاری کتابیں لکھیں۔  فنون میں سیاسیات، معاشیات، تاریخ، جغرافیہ اور سائنس کے اکثر موضوعات پر ماہرین نے کتابیں شائع کی ہیں۔  نیز تاریخ ادب عربی قبل اسلام اور بعد اسلام پر بہت کام ہوا۔  جُرجی زیدان نے جس کام کی ابتدا کی تھی عصر حاضر کے ادبا نے اسے کمال تک پہنچایا۔  اس فن میں محمود مصطفیٰ، احمد حسن الزیات، حناالفاخوری، احمد الاسکندری، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، ڈاکٹر شقی ضیف، ڈاکٹر سہیر القلماوی اور بنت الشاطی نے جو کام کیے ہیں ان سے عربی ادب کے تمام گوشے روشن ہو گئے ہیں۔  اسلام سے پہلے عربوں اور عربی زبان کی تاریخ پر ڈاکٹر جواد علی عراقی نے تاریخ العرب قبل الاسلام، کی متعدد جلدیں لکھ کر اس موضوع میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔  عربوں کی تہذیبی و تمدّنی تاریخ پر احمد امین مصطفیٰ صادق الرافعی اور ڈاکٹر طٰہٰ حسین نے معیاری کتابیں لکھ کر اس کو مکمل کر دیا۔

  علوم دینیہ

اس زمانہ میں دینی علوم مثلاً ترجمہ و تفسیر قرآن، احادیث کی تشریح و توضیع، فقہی مسائل میں حالات و اقتضائے زمانہ کے پیش نظر دینی نقطہ نظر کی توضیح و تفسیر کی گئی۔  ا ن مسائل اور معاملات میں سید قطب شہید الشیخ ابوزہرہ نے بہت نمایاں کام کیے ہیں۔

 افسانہ ناول اور ڈرامہ

 عربی ادب میں افسانہ فن کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا۔  اس صنف میں مصطفی لُطفی متفلوطی اور جبران خلیل جبراننے کچھ طبع زاد اور کچھ ترجمہ شدہ کہانیوں کے ذریعہ پہل کی۔  لطفی کی مثال کہانیاں  ’’العبرات‘‘ اور ’’النظرات‘‘ ہیں اور جبران کی ’’الارواح المتمروہ‘‘ اور ’’الاجنحہ المتکّسرہ‘‘ میں ملتی ہیں۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد افسانہ نگاری میں بڑی ترقی ہوئی اور اس کے تین مکتبِ فکر وجود میں آئے۔  ایک رومان پسند مکتبہ فکر جس کے رہبر اور امام لطفی اور جبران تھے۔  دوسرا حقیقت پسند مکتب فکر، جس میں آزمودہ کار، منجھے ہوئے اور نامور ادبا تھے جیسے افسانہ کے بابا آدم محمود تیمور اور ان کے بعد یحییٰ حفی، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، ابراہیم المارتی، عباس محمود العقار، میخائیل نعمیہ، توفیق عواد، سید تقی الدین، خوادالشائب وغیرہ۔  تیسرا مکتب فکر ان نوجوان ادیبوں کا ہے جن کی نگارشات میں زمانۂ حال کے فنی میلانات اور ترقی پسند خیالات کا عکس نظر آتا ہے ان کے خاص موضوع سماجی پسماندگی اور مزدور طبقہ کے مسائل اور مشکلات کی تصویر کشی ہے۔  ان میں قابل ذکر یوسف ادریس، محمود بدوی یوسف السبائی، اور احسان عبدالقدوس وغیرہ ہیں۔

 اس عہد میں افسانہ نگاری کو ترقی دینے میں اخبارات و رسائل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔  انہوں نے نہ صرف مغربی افسانوں اور ڈراموں کے ترجمے کرا کے چھاپے بلکہ مختصر ترین افسانے لکھنے کی ریت بھی نکالی۔  جنہیں آپ ٹرام میں بیٹھے بیٹھے پڑھ لیں یا چند سطروں میں ایک قصہ۔  ناول اس عہد کی ایک دین ناول بھی ہے اس صنف میں ڈاکٹر طٰہٰ حسین، نجیب محفوظ، احسان عبدالقدوس اور یوسف السباعی نے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔  نجیب محفوظ نے اپنی چار ناولوں (زقاق المدق، السکریۃ، قصڑ الشود اور بدایہ بلانہایہ) کے ذریعہ مصر کی گزشتہ سے لے کر آج تک کی تہذیبی، معاشرتی، اور عام ملکی و سیاسی حالت کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔  احسان عبدالقدوس اور یوسف السباعی کے ناولوں اور کہانیوں میں ادب مکشوب یا اباخی رنگ جھلکتا ہے۔

  ڈرامہ

 اسٹیج ڈرامہ کی ابتدا سب سے پہلے بیروت میں مارون النقاش نے کی۔  انہوں نے سب سے پہلا ڈرامہ ’’البخیل‘‘ ۱۸۴۸ء میں اسٹیج کیا۔  ۱۸۵۵ء میں مارون کے انتقال کے بعد اسٹیج ڈرامہ مصر میں آیا۔  ۱۸۷۸ء میں قاہرہ میں ’’دارالاوپرا‘‘ بنا تو اسٹیج ڈرامہ کو بہت ترقی ہوئی۔  اور زمانے کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا کبھی رکتا کبھی آگے بڑھتا ہوا عربی ڈرامہ آج ترقی کی اس منزل پر پہنچ گیا ہے جہاں فنی اعتبار سے پختگی آ چکی ہے۔  اس زمانہ میں ڈرامہ نویسی میں کئی ادیب ابھرے ، لیکن اس کو کمال بخشا توفیق الحکیم نے جو عربی میں ڈرامہ کے باوا آدم ہیں۔  توفیق نے نہ صرف یونانی کلاسیکی ڈراموں مثلاً ’’ایڈیپس دی کنگ‘‘ یا ’’پگمیلین‘‘ کو عربی کا جامہ پہنایا بلکہ بعض ان قصوں کو بھی جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے جیسے ’’اصحابِ کہف‘‘ ڈرامہ کے قالب میں بکمال مہارت ڈھال دیا۔  اسی طرح بعض فرعونی کلاسیکی کہانیوں کو بھی ڈرامہ کا روپ دے کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔  اس قسم کے ڈراموں کے علاوہ توفیق نے مختلف موضوعات پر فصیح عربی اور عامی زبان میں بیسوں ڈرامے لکھے جن میں بعض مزاحیہ بھی ہیں۔  توفیق کے ڈرامے قاہرہ کے اسٹیجوں پراور گاؤں میں بھی اسٹیج ہوتے ہیں۔  عربی میں منظوم ڈرامہ کا ظہور بھی اسی زمانے کی دین ہے۔  اس کی ابتدا شقی نے کی بعض کلاسیکل کہانیوں کو نظم کر کے۔

صحافت

 اس زمانے میں صحافت کی بڑی گرم بازاری ہوئی عرب صحافیوں نے ملکی یونیورسٹی میں جرنلزم کی تعلیم حاصل کر نے کے علاوہ مغربی ممالک کی درسگاہوں سے بھی فیض اٹھایا۔  صحافت میں ایک جدّت ’’طنزیہ و مزاحیہ‘‘ پرچوں کا اجرا ہے جس میں اوّلیت مصر کے مشہور پرچہ ’’روز الیوسف‘‘ کو حاصل ہے۔  دوسری جدّت اخباری تصویر کشی اور کارٹون کا رواج ہے۔  آج اخبارات اور رسائل تقریباً تمام ممالک عربیہ سے نکل رہے ہیں۔  علم و فن کی ہمہ جہت ترقی اور یورپی زبانوں میں وضع شدہ سائنسی اور ٹیکنیکل اصطلاحات کو عربی میں منتقل کر نے کے لیے ادارے مجالس اور انجمنیں عرب دنیا کے مختلف حصوں میں قائم ہیں۔  جنہیں ان ملکوں کی اور عرب لیگ کی سرپرستی حاصل ہے ان میں المجمع العلمی اللغوی، مجلس التقریب فی الوطن العربی خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔

نشاۃ ثانیہ کے دوسرے دور میں شعر و شاعری

 پہلی جنگ عظیم سے لے کر دوسری جنگِ عظیم تک شعر و شاعری بھی نثری ادب کی طرح ’’ادبِ انقلاب و اتحاد‘‘ بن کر رہ گئی تھی، مگر محمود سامی البارودی نے جو صُور پھونکا اور اس کی صدائے بازگشت لبنان کے پہاڑوں سے ابراہیم الیازجی کی آواز میں گونجی تو ارضِ فراعنہ نے حافظ و شوقی کی صورت میں اس آواز پر لبیک کہا۔  جنہوں نے شعر و شاعری کی خوابیدہ دنیا میں ایک ہلچل سی مچا دی۔  چنانچہ اس زمانے میں نئی نسل نے پھر سے اپنے آبا و اجداد کے کلام سے کسبِ فیض کرنا شروع کر دیا۔  گزشتہ عہود کی فنی خصوصیات کے تانے سے نئے ماحول نئے حالات اور افکار و خیالات کے بانے کو ملا کر میدان شعر و شاعری میں زبان و بیان میں قادر الکلامی کی شان دکھائی قد ما کا وقار اور گمبھیر پن ان کی اثر انگیزی اور گہرائی کے ساتھ انہوں نے عصر حاضر کی روانیٔ ادا اور خیالات کی رفعت اور تنّوع اور موضوعات و مسائل کی ہمہ گیری اور وضاحت کو جوڑ دیا ہے۔  اس طرح سے ان شعراء نے شراب کہن کو ساغرِ نو میں ڈال کر عربی شاعری کو اچھوتی اور انمول تخلیقات سے مالامال کر دیا۔  موجودہ دور کے شعراء میں قابلِ ذکر عمر ابوریشہ، الاخطل الصغیر طٰہ مندور، علی محمود، ایلیا ابوماضی فرحات اور القروی وغیرہ ہیں۔  اس زمانے میں شاعری کی بعض نئی اصناف کا بھی تجربہ کیا گیا چنانچہ پہلی بار عربی میں آزاد نظم کا تجربہ غالباً لبنان میں ہوا اس کے بعد مصر میں بھی اس کے تجربے ہوئے لبنانی مکتبِ فکر میں فدوی طوفان میں ، موسی الصایغ ار ان کے ہمنواؤں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔  مصری مکتبِ فکر میں اس کے عَلَم بردار نزار قبانی اور عزیز اباظہ ہیں۔  چوں کہ آزاد نظم عربی ذوق پر گراں اور مزاج کے خلاف ہے اس لیے اس صنف کو فروغ نہ حاصل ہوسکا۔  البتہ مہجری ادب میں یورپی اور امریکی ادب کے اثر سے اس صنف میں جبران امین الریحانی اور نسیب عریضہ نے کمال فن کا مظاہر کیا۔

  ہندوستان

ہندوستان میں عربی زبان کی درس وتدریس کا سلسلہ مسلمانوں کی آمد کے وقت سے جاری ہے۔  اور یہاں کے علما نے بھی اس میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔  قاضی محمد اعلیٰ تھانوی (بارہویں صدی ہجری) نے علوم و فنون کی اصطلاحات میں کتاب ’’کثاف اصطلاحات الفنون‘‘ اور علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی معروف بزبیدی (م ۱۲۰۵ھ) نے مجد الدین فیروز آبادی کی لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عرب شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  مولانا سید عبدالجلیل بلگرامی اور میر غلام علی آزاد بلگرامی نے بلاغ و بدائع اور فن عروض میں اضافے کیے اور عربی شاعری میں ہندوستانی موزونیتِ طبع کے جوہر دکھائے جسٹس کرامت حسین اور مولانا سلیمان اشرف بہاری نے فقہ اللسان اور المبین کے ذریعہ عربی زبان کے فلسفہ لغت اور نحو پر معرکہ آراء کام کیا۔  عربی درس گاہوں میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے حلقہ سے عربی زبان و ادب کے گوہر نایاب پیدا ہوئے۔  اس کے سابق ناظم مولانا عبدالحسنی مرحوم مے الثقافتہ الہندیہ کے علاوہ ہندوستانی علما و فضلا کے تذکر رہ میں ایک مبسط کتاب عربی میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے نام سے لکھی، جس کی آٹھ جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔  ندوہ کے فارغین میں کئی ادیب محقق اور شاعر پیدا ہوئے جن میں مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی اور شاعر عبدالرحمن کا شغری ندوی سرفہرست ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی علمی، ادبی اور دینی عربی کتابوں کی وجہ سے عالم اسلام اور عرب میں جانی پہچانی شخصیت بن چکے ہیں۔  مولانا کو عربی خطابت میں حیرت ناک ملکۂ ہے۔  عربی صحافت میں بھی ندوہ نے پہل کی تھی اور اس وقت بھی یہاں سے عربی کا ایک ماہوار رسالہ ’’البعث الاسلامی‘‘ کے نام سے اور ایک پندرہ روزہ ’’الرائد ‘‘ کے نام سے نکل رہا ہے۔  دارالعلوم دیوبند سے بھی عربی کا ایک رسالہ ’’الداعی‘‘ کے نام سے نکلتا ہے۔

عہد قدیم کا ادب (مغرب و مشرق وسطیٰ میں ) عہدِ قدیم کے ادب کا ایک بہت بڑا حصہ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا طریقۂ تحریر کے وجود میں آنے سے پہلے ہی فراموش ہو گیا تھا۔  آثارِ قدیمہ اور فنِ کتبہ خوانی کے ماہروں کی کاوش سے جو معلومات اس بارے میں فراہم ہوئی ہیں وہ بہت تشنہ اور ناکافی ہیں۔  مغرب اور مشرقِ قریب یا مغربی ایشیا کی قدیم تہذیبیں اسیریا، بابل، مصر، یونان اور رومہ کی تہذیبوں اور فلسطین کی اسرائیلی تہذیب پر مشتمل تھیں۔  ان میں سے ہر ایک کا دوسری کسی ایک یا ایک سے زیادہ تہذیبوں سے ربط ضبط تھا۔  ان میں سب سے زیادہ پرانی تہذیبیں اسیریا ااور بابل کی تھیں جن کے متعلق بہت سی ٹوٹی پھوٹی مٹی کی تختیاں دستیاب ہوئی ہیں۔  ان کے علاوہ قدیم مصر کے سڑے گلے پے پی رس (Papyrus)پارچے ملے ہیں جو ہماری دنیا کے لیے کچھ زیادہ بامعنی نہیں ہیں۔  بابل نے البتہ دنیا کا پہلا ضابطۂ قوانین چھوڑا اور اولین اساطیری نمونے (Acrhelypalmyh)پر مبنی دو ایسی نظمیں تخلیق کیں جن کی گونج دو دراز علاقوں میں بھی سنائی دی۔  مصر کے باطنی اور مابعد الطبیعی تصورات اور ایک عالم ماورا کے عرفان نے یونان و رومہ کے ذہن کو متاثر کیا۔  مغربی دنیا کی ذہنی اور تہذیبی روایت یونان و رومہ کے افکار اور عبرانی تہذیب کی گہری روحانیت سے مستعار ہے۔  عبرانی اثرات کے ماخذ توریت (Old Testament)اور انجیل ہیں جو مغرب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابیں رہی ہیں۔  مغربی انسان کا تخیل اس کے اخلاقی اقدار اور ادبی اصناف یونان و رومہ کے رہین منت ہیں۔  یونانی اور لاطینی مصنفوں نے جو اخلاقی اور بشری نصب العین (Human Ideal)پیدا کیا وہ عہدِ قدیم کے ختم ہوتے ہوتے یہود و نصرانی روحانی نصب العین میں جذب ہو کر دور وسطیٰ کے ادب کا پیش رو ثابت ہوا۔  اسیر یا اور بابل کا ادب قدیم اسیریا اور بابل کی زبان اکے ڈین (Akkadian)وہ پہلی سامی زبان ہے جس کے کچھ آثار ہم تک پہنچے ہیں اور اس لحاظ سے تقابلی لسانیات میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔  اس کا نظامِ تحریر سُمیری (Sumerian)سے ماخوذ ہے۔  جو دنیا کی قدیم ترین تحریری زبان مانی جاتی ہے۔  دجلہ و فرات کے کناروں پر جو اسیر یائی و بابلی تہذیب پائی جاتی تھی اس میں بحیثیت بول چال کی زبان کے اکے ڈین سے سمیری کی جگہ لے لی تھی۔  یہ قبل مسیح کے الفِ ثالث کی بات ہے۔  ویسے تحریری زبان کی شکل میں سمیری پہلی صدی عیسوی تک اکے ڈین کے شانہ بہ شانہ باقی رہی۔  اس تہذیب کے بہت سے آثار ادبی سے زیادہ لسانی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔  عام لفظوں اور خداؤں کے ناموں کی فہرستیں ملتی ہیں جو الفاظ اور تصورات کے باضابطہ مجموعوں کی شکل رکھتی ہیں اور جن کا مقصد انسائیکلو پیڈیائی معلوم ہوتا ہے۔  بعض ایسی فہرستیں ہیں جن میں سمیری تلفظ کے ساتھ الفاظ اروع ان کے اکے ڈین مترادفات دو مختلف کالموں میں دیے گئے ہیں۔  یہ لغات کا کام دیتی ہوں گی۔  ان کے علاوہ بہت سے کتبے ملے ہیں جن کی اہمیت تاریخی ہے۔  اسیریائی اور بابلی تحریریں مٹی کی تختیوں پر ملی ہیں جن میں سے بعض ۲۵۰۰ ق م کی ہیں۔  ان تختیوں پر اساطیری عبارتیں ابتدائی حکمرانوں کے کارناموں کے بارے میں رزمیے ، دعائیں اور کہاوتیں لکھی ہوئی ہیں۔  ادبی حیثیت سے سب سے زیادہ اہم اینو ماایلیش (Enuma elish)یعنی تخلیق کا رزمیہ اور گل گامیش کا رزمیہ (Epic of Gilgamesh)نامی دو نظمیں ہیں۔  پہلی نظم میں شہر بابل کے خدا مارڈوک (Marduk)کی کہانی ہے جس نے تیامت (Tiamat)نامی ایک مہیب عجیب الخلق مونث مخلوق کو تہِ تیغ کر کے اس کے جسم سے دنیا کو جنم دیا اور اس کے کارنامے کے صلے میں دوسرے خداؤں نے اسے کائناتی بالادستی عطا کر دی۔  دوسری نظم جو اکے ڈین زبان کا سب سے اہم ادبی کارنامہ ہے ایک سمیری ہیرو گل گامیش اور ع اس کے ساتھی ان کی ڈو (Enkidu)کی داستان ہے۔  اس کا پورا متن نینو ا میں شاہ اسیریا آشور بنی پال (AShurbanipal)(۶۶۸-۶۲۷ق م)کے کتب خانے سے دستیاب ہونے والی تختیوں پر موجود ہے۔  یہ نظم بابل کی تخلیق ہے اور اس میں بہت سی سمیری کہانیوں کو یکجا کر کے ایک نیا خیال داخل کیا گیا ہے یعنی گل گامیش کی اپنے ساتھی ان کی ڈوک کی موت کے بعد لافانیت کی تلاش۔  ایک اور دلچسپ چیز اس میں طوفانِ نوح کی ایک بابلی روایت ہے جس کا قصہ اس سیلاب سے بچنے والا ایک شخص اتنا پِش تِن (Ulnapishin) گِل گامیش کو سناتا ہے۔  یہ داستان ایشیائے کوچک میں اکے ڈین کے علاوہ اور زبانوں میں بھی موجود تھی اور امکان ہے کہ یونانی آڈیسی (Odyssey)پر اس کا اثر پڑا ہو۔  قدیم مصری ادب جو مصری ادب ہم تک پہنچا ہے وہ زیادہ تر پے پی رس (Papyrus)پر لکھی پروہتی (Pieratic)تحریروں پر یا پھر مکتبوں میں استعمال ہونے والی تختیوں ، ٹھیکروں اور چو نے کے پتھروں کے ٹکڑوں پر نوشتہ درسی نسخوں پر مشتمل ہے۔  کوئی ستر (۷۰)تصنیفوں کا پتہ چلا ہے لیکن یہ زیادہ تر ادھوری ہیں اور مصر کے ادبی کارنامے کا ایک بہت نامکمل نمونہ۔  نوع کے اعتبار سے یہ تحریریں تاریخ اساطیری پر مبنی مقبول عام داستانوں یا مثنویوں سیکولر (Secular)یا غیر مذہبی نظموں ، خط نویسی کے نمونوں اور اخلاقی اصولوں یا پند و مواعظِ کے مجموعوں پر مشتمل ہیں۔  مقبولِ عام کہانیوں میں یہ قابلِ ذکر ہیں ’’شاخوں غو اور جادوگر‘‘ ’’تباہ شدہ جہاز کا ملاح‘‘ (جس میں ایک ویران جزیرے پر افتادہ ملاح کی کہانی ہے جسے ایک عفریت نما سانپ پناہ دیتا ہے ) ’’دوبھائیوں کی کہانی‘‘ یہ آخری کہانی پاتال کی دیو مالائی دیوتا آسی رس (Osiris)کے قصے پر مبنی اور خیر و شر کی کش مکش کے موضوع سے متعلق ہے۔  دوسری عام کہانیاں ایسی ہیں جو فوق الفطرت عناصر سے عاری ہیں مثلاً ’’چرب زبان دہقان کی کہانی‘‘ جس میں ایک کسان اپنی فصیح البیانی کے زور پر انصاف پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔  ناصحانہ اور پند آموز ادب بعض عقل مندوں کے اقوال کی شکل میں ہے۔  جس میں کوئی مردِ سال خوردہ اپنے بیٹے کو یا کوئی بادشاہ اپنے جانشین کو نصیحتیں کرتا ہے۔  یہ عبرانی خرد مندانہ ادب (Wisdom Literature)سے مماثل ہے۔  ان کے مماثل لیکن قنوطی رنگ لیے ہوئے وہ نغمے ہیں جنہیں ’’بربط نوازن کے گیت‘‘ (Song of the Harpers)کا نام دیا گیا ہے اور جو مقبروں کی دیواروں پر کندہ ملتے ہیں۔  معبدوں کی دیواروں پر بھی کچھ طویل عباداتی تحریریں ملی ہیں۔  ایتھنز میں ’’مردوں کی کتاب‘‘ (Book of the Dead)شامل ہے جو جادوئی اور اساطیری قصوں کا مجموعہ ہے اور دیوتاؤں کے ذکر سے پُر ہے۔  یونانی اور لاطینی مصنف مصر کی قدامت اور رنگا رنگی سے بہت متاثر تھے اور ان کی تحریروں میں بہت سی مصری حکایتوں کا سراغ ملتا ہے۔  قدیم عبرانی ادب عبرانی ادب کی روایت بارہویں صدی ق م سے قائم ہے۔  ۱۲۰۰ ق م سے ۲۰۰ء تک عبرانی فلسطین میں بول چال کی زبان رہی پہلے توراتی عبرانی (Biblical Hebrew)کی صورت میں اور پھر مِشنائی عبرانی (Mishnaic Hebrew)کی شکل میں۔  (یہودی فقہی اصولوں اور موسوی قوانین (Mosaic Law)کے مجموعے کو مِشنا کہا جاتا تھا) مِشنائی عبرانی ایک بعد کی بولی ہے جس کا توراتی عبرانی سے راست تعلق نہیں۔  دوسری صدی ق م میں جب فریسیوں (Pharisces)نے اس بولی کو اپنی تعلیم و تعلّم کا ذریعہ بنایا تو اسے ادبی درجہ حاصل ہو گیا۔  عبرانی زبان نے ہمیشہ بدلتے ہوئے ادبی ذوق کے تقاضوں کا ساتھ دیا۔  چناں چہ مختلف زبانوں میں وہ کبھی باریک مذہبی فکر کبھی صحت علمی (Scientific Precision)  اور کبھی تصوف کی سرمستی کا گہوارہ بنتی رہی۔  توراۃ کے وسیع حلقہ اثر کے سبب عبرانی نے براہِ راست یا ترجموں کی وساطت سے مغربی ادب پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید