فہرست مضامین
- عبد اللہ جاوید کی منتخب نظمیں
- موئن جو ڈارو
- سروائیول
- ا ک بار پھر
- ضرورت
- لفظ لکھتے رہو
- لفظ
- ہُو۔۔
- پیَر
- پنجرہ
- اَنا
- بلا عنوان
- اب کہاں
- اِک سکوتِ خواب آسا
- بھیگنا بارش میں تھا
- زیست
- چاند
- عشق نے
- سر گزشت
- ڈیپریشن
- کیا دیا۔ ؟
- ہمیں آہستہ چلنا تھا
- بے چہرگی
- نقاد کی مشکل
- دن کے سورج تلے
- تشکیک
- اھدنا !
- راستہ
- آزار لوحِ جاں پہ
- مشینوں کے جنگل میں کھوئے ہوئے
- گراؤنڈ زیرو، پہ اس برس بھی (۲۰۰۶ء)
- گراؤنڈ زیرو سے
- برف پچھلے سال کی
- اے چشمِ تماشا
- نقشِ دوام
- یادِ وطن
- ہونے اور نہ ہونے کے درمیاں
- اک سکُوتِ خواب آسا
عبد اللہ جاوید کی منتخب نظمیں
جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، عبد اللہ جاوید نمبر، شمارہ ۲۷، مدیر: ارشد خالد
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں
موئن جو ڈارو
میرا ماضی مری ہستی کا موئن جو ڈارو
تو اسے دیکھ کر ممکن ہے فسردہ بھی نہ ہو
لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ نظارہ لے کر
ذوقِ نظارہ سے ممکن نہیں
انساں کو نجات !
یہ بھی اک تلخ حقیقت ہے مرے دوست کہ آج
یہ کھنڈر
کل جو تھا اک قصرِ نگارین جہاں
آج مرحوم تمنّاؤں کا گورِستاں ہے
لوگ آتے ہیں یہاں ذوقِ تجسّس لے کر
اور کچھ دیر نظارہ کر کے
اپنی راہوں پہ چلے جا تے ہیں
کس کو احساس ہے اس خاک کے ہر ذرّے میں
دلِ حساس کے زخموں کا لہو شامل ہے
ہر طرف پھیلی ہوئی گہری سی تاریکی میں
آرزوؤں کی حنا جذبوں کی ضو شا مل ہے
لوگ کہتے ہیں کہ جو وقت کٹا، بیت چکا
بات جو بیت چکی، بیت چکی ختم ہو ئی !
دل یہ کہتا ہے مرا زخم ابھی بھر نہ سکا
بات جو بیت چکی دل میں کھٹکتی ہے ابھی
اور احساس میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں
کسی مہتاب سے چہرے کے دل آویز نقوش !!
یہ گزرتا ہوا لمحہ ہے اک آ زاد پرند
برق رفتاری سے اُڑتا ہی چلا جا تا ہے
ایک موہوم حقیقت ہے، حقیقت ہی سہی
اک بدلتی ہوئی شے
جس کا نہ ادراک ہو!!
اور گزر اہوا لمحہ ہے گرفتارِقفس
یاد کے پردے پہ ابھرا ہوا اک نقشِ دوام
اک اٹل ٹھوس حقیقت جو نہ بد لے گی کبھی
ایک تاریخ جو ہر لمحۂ ساکت میں ہے قید
’ ’ وقت لا فانی! ‘‘
’ ’ عدم وقت ‘‘ کی حالت کا شعور!
ایسے ہی وقت سے ماضی مرا تشکیل ہوا
اس کو تخریب بھی کہہ سکتے ہیں کہنے والے
گر تو آیا ہے یہاں
ذوقِ نظارہ لے کر
میں بھی تاریخ کے بوسیدہ ورق الٹوں گا
تا کہ کھنڈر سے تجھے شہر کا ادراک ملے
اور مٹّی کے ہر اک ذرّے سے
دلِ حسّاس کے زخموں کا لہو پھوٹ بہے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
( موجِ صد رنگ)
سروائیول
بدلتے موسموں کے ساتھ ہی
حلیے بدلتے ہیں شجر
خزاں پہلے تو ہولی کھیلتی ہے
پتّے، پتّے سے شجر
صد رنگ پوشاکیں پہن کر
رقص کرتے ہیں
ہوا
مستی لٹاتی
ناچتی ہے اور نچاتی ہے
شجر
انجام سے کچھ بے خبر
کچھ با خبر
ہوا کے دوست بن کر
رقص کرتے ہیں
ہوا جب
جھومتی شاخوں کے سر سے
کھینچ لیتی ہے
ردائیں۔
قبائے برگ و گل
اک اک شجر کی،
پتّا، پتّا
پتّی، پتّی
جب اتر تی ہے
شجر
بے پیرہن
اور بے حیا،
ز میں بستہ
بڑے لا چار لگتے ہیں
برہنہ
سرسے پا تک۔
سرد،
یخ بستہ
ہواؤں کے تھپیڑے
سہنے والے
ہر شجر کو
خواب دیتا ہے
وہی
جو زندہ رہنے کو
کئی اسباب دیتا ہے
شجر کو، آپ کو، ہم کو،
ہوا والوں کو،
زمین و آب والوں،
آسماں والوں کو۔
وہ جن کو زندہ رکھنا چاہتا ہے
جہاں بھی ہوں
وہی تو خواب دیتا ہے
آنے والے اچھے مو سم کے
شجر کو
کبھی تو برف رت
چاندی کے گہنوں سے
سجا تی ہے
برہنہ ڈالیوں کو، چا ؤ سے
دلہن بناتی ہے
خزاں کی چیرہ دستی
موسمِ سرماں کی یخ سر دی
بھی اک دن
بھو لی بسری بات ہو جا تی ہے
زمیں
انگڑائی لے کر
سبز مخمل اوڑھ لیتی ہے
نئے کپڑے پہن کر
پیڑ، پودے
رقص کرتے ہیں
ہوا
پھولوں کو چٹکا تی ہے
اور پتّوں کو چمکا کر
شجر
اک اک شجر کو
شان سے
جینا سکھا تی ہے۔ ! !
عبد اللہ جاوید
مہلت
صبح دم، اشکِ شبنم
کوئی
دیر تک
عارضِ گل پہ ٹھہرا رہا
اک نئے دن کا سورج
( جو خود بھی نیا اور تازہ تھا)
نیم خوابیدہ چہرہ چھپا تا رہا
ابر کی اوٹ میں دیر تک
کسمسا تا رہا
پاس کے پیڑ پر
نیند سے جاگ کر
چہچہا تی رہیں
ننھّی چڑیاں کئی
گیت گاتی رہیں
اور
پہاڑی کی چوٹی پہ بیٹھا ہوا
ایک شا ہیں
اپنے زخمی پر و بال کا سوچ کر
غم زدہ ہے کہ پیڑوں کی چڑیوں
کے اوپر
جھپٹنے کا یارا نہیں
آج کی صبح مہلت میسّر ہے
چڑیوں کو، شبنم کو،
ہم کو۔۔
٭٭٭
ا ک بار پھر
( ایک رومانی نظم)
وقت کے بہتے ہوئے
دریا میں تھی
یا فقط
محسوس ہوتی تھی کہیں
اور کہیں
محسوس بھی ہوتی نہ تھی
موج
اک چھوٹی سی
تیرے نام کی
موج
اک چھوٹی سی
میرے نام کی
تم کہ اپنے وقت میں تھیں
میں کہ اپنے وقت میں تھا
وقت کے بہتے ہوئے
دریا کے بیچ
اپنے اندر کی کشش سے
تند دریا کی روش سے
ایک دوجے کے قریب آئیں
قریب
اتنا قریب
آنکھ بھر کر دیکھنے
پہچان لینے
جاننے، جتنا قریب۔۔ !
’ ’تم ہو۔۔ ؟ ‘‘
وہ لہرا کے بو لی
’ ’ تم ہو۔۔ ؟ ‘‘
میں لہرا کے بولا
’ ’میں تمہیں کیسے نہیں پہچانتی
میرے ہو تم
تم مجھے کیسے نہیں پہچانتے
کس کی ہوں میں۔ ؟ ‘‘
’ ’ اک بار پھر ‘‘
میں نے کہا
’ ’اک بار پھر ‘‘
اس نے کہا
ساتھ ہم رہنے لگے
ساتھ ہم بہنے لگے
اک بار پھر
وقت کے دریا کے بیچ
وقت نے ہنس کر کہا
’ ’ اک بار پھر۔۔ ۔ ‘‘!
اور۔۔ اک سیلِ بلا
درمیاں حائل ہوئی
اک بار پھر۔
اک بار پھر۔
اک بار پھر !!!۔
٭٭٭
ضرورت
ٹپکتے ٹپکتے ہوئے خشک
آنسو
یہ دل نے کہا
’ ’ آنسوؤں کی زباں کو
سمجھنے کی مہلت نہیں ہے
جہاں کو
کہ سارا جہاں
تیز سے تیز تر دوڑ نے میں
مگن ہے ‘‘
یہاں آنسوؤں کی
ہے قیمت نہ وقعت
کوئی رو تی آنکھوں کو
چہروں کو
دیکھنا بھی نہیں چاہتا
یہاں سرد آ ہوں
کراہوں کو
چیخوں کو
سننے کے قابل
سماعت نہیں ہے
سماعت اگر ہے تو
فرصت نہیں ہے
جو فرصت اگر ہے
ضرورت نہیں ہے۔ !
٭٭٭
لفظ لکھتے رہو
لفظ لکھتے رہو
انگلیاں اور قلم
اپنے خونِ جگر میں
ڈبو تے رہو
لفظ لکھتے رہو
اپنے چھوٹے بڑے درد و غم
اور چھوٹی بڑی، جھوٹی، سچّی خوشی
بھولی بھٹکی خوشی
دوسروں کے غموں اور خوشیوں سے
آمیز کرتے ہوئے
ساتھ جیتے ہوئے، ساتھ مرتے ہوئے
عصر حاضر کے فرعون و قا رون کے
روپ، بہروپ کو
مکر کی چھاؤں کو، جبر کی دھوپ کو
دیکھتے بھالتے۔۔
اور تار یخ کے
آئینے میں عیاں
آنسوؤں سے رچا
خوں میں ڈوبا ہوا
جدلیاتِ زماں و مکاں کا بنا
عکسِ نو دیکھتے۔۔
اپنے لفظوں میں
فقروں میں
مصرعوں میں، شعروں میں
حرف اور صوت کی
سب خفی و جلی
ظاہری، باطنی
صورتوں میں
سمو تے رہو
لفظ لکھتے رہو !
٭٭٭
لفظ
جب یہاں کچھ نہ تھا
جب وہاں کچھ نہ تھا
یہ جہاں کچھ نہ تھا
وہ جہاں کچھ نہ تھا
کہکشانوں کا یہ کارواں کچھ نہ تھا
جب زمیں کچھ نہ تھی
جب زماں کچھ نہ تھا
اور
وجودِ زماں و مکاں کچھ نہ تھا
نہ ازل نہ ابد
اک نہ ہونا تھا
پھیلا ہوا
چار سو
پھر جو، ہونا ہوا
سارے ہونے سے پہلے
بس اک "لفظ”تھا
"لفظ”تھا
آپ کا
٭٭٭
ہُو۔۔
وقت کی، وجود کی
زیست کی، نمود کی
بود اور نبود کی
ابتداء
صدائے کن
انتہا
صدائے صُور
ارتعاشِ موجِ نور۔۔ !
وقت کیا۔۔ ؟۔۔ ہوا ہوا
زیست کیا۔۔ ۔ ہَوا ہَوا
سانس کیا۔۔ ہوا ہوا
ابتداء کی ابتداء۔۔ !
انتہا کی انتہا۔۔ !
ایک "ہُو”۔۔ !!
٭٭٭
پیَر
امریکہ کا شہر تھا کوئی
شریمد بھگوت گیتا پڑھتے
لفظوں پر میں ٹھہر گیا تھا
یا لفظوں نے روک لیا تھا
نظروں کو
آگے پڑھنے سے
اندر سے کوئی کہتا تھا
دھیان کرو!
’ ’دھیان اگر کرنا ہے اس کا
پَیروں سے آغاز کرو۔ ‘‘
دھیان تو کرتا
لیکن دھیان کی خاطر۔
پَیر
کہاں سے لاتا۔ ؟
پَیر کہاں تھے۔ ؟
میرے اندر، میرے باہر،
پَیر کہاں تھے۔ ؟
میرے چاروں اور بہت کچھ تھا
یا سب کچھ
کاٹھ کباڑ سا پھیلا تھا۔ !
دھرتی اور آکاش تھے
دنیائیں ہی دنیائیں تھیں۔
دھواں، دھواں تھا
اور دھویں میں
مادّے کے ذرات کا پھٹنا،
ٹوٹنا، بٹنا اور سمٹنا
جاری تھا۔۔
پَیر کہاں تھے۔ ؟
جانے کون ساشہر تھا۔۔ جو تھا
شہروں کے بھی نام کئی تھے۔
ملکوں کے بھی نام کئی تھے۔
گیا، بہار، موئن جو ڈارو،
ٹیکسلا، کاشی، مکّہ، روم
شِکاگو، مونٹریال، منی ٹوبا
ٹورانٹو۔۔ ۔۔
لوگ تھے
چاروں اور تھے
(ملکوں، شہروں ہوتے ہی ہیں )
دھیان کا موقع تھا
نہ سمے تھا
پھر بھی آنکھیں پَیروں پر تھیں
اور میں اس کے
دھیان میں گم تھا
٭٭٭
پنجرہ
رات موجِ ہوا
ایک چھوٹے سے کمرے کے
چھوٹے دریچے میں
آ کر کھڑی ہو گئی
بولی، ’ ’ اے بے خبر!
خوابِ راحت میں تم ہو یہاں
اور وہاں
اجنبی ملک کے
اجنبی باغ کی
اجنبی بینچ پر
بیٹھے بیٹھے
کسی سمت کو اڑ گئی
ایک مینا
تمہاری جو دلدار تھی
بینچ پر
خالی پنجرہ
دھرا رہ گیا۔۔ ! !‘‘
٭٭٭
اَنا
اَنا کی سنگلاخ
چوٹیوں پر
پہنچ گئے ہو تو جان لو گے
اَنا کی سنگلاخ چوٹیوں پر
بجز
بانجھ، پتھروں کے
نمو نہیں ہے
٭٭٭
بلا عنوان
دھرتی پر
اور آگ کی بارش
سوچیں کیسی سوچیں ہیں
دھرتی پر
تو بستے ہیں
پودے، بچے، پھول اور گھر
٭٭٭
اب کہاں
ملاقات ہو
نگاہوں نگاہوں میں
ہر بات ہو
جو کہے دل کہے
جو سنے دل سنے
لب ہلیں تو ہلیں کپکپاتے ہوئے
فرطِ جذبات سے گنگناتے ہوئے
جسم سے جسم کی
روح سے روح کی
انگ سے انگ کی
روم سے روم کی
نگہتیں بھی ملیں
لمس سے لمس کی لذتیں بھی ملیں
یوں ملیں
جیسے پہلے جدا ہی نہ تھے
دردِ فرقت میں ہم مبتلا ہی نہ تھے
کاش ایسی بھی کوئی ملاقات ہو!
اس نئے عصر میں
جب مشینوں کے آقا
مشیں بن گئے
خون کا پمپ دل کو پکارا گیا
ذہن کمپیوٹروں میں
ابھارا گیا
روح کو لے کے صنعت کا دھارا گیا
دل سے جب دل لگی، دلبری ہی گئی
روح سے روح کی نغمگی ہی گئی
جب مشینوں نے
تہذیب کو ڈس لیا
قطرہ قطرہ
ثقافت کا سب رس لیا
لمس اور لمس کی لذتیں نگہتیں
اُلفتیں، فرقتیں، رنجٹیں، راحتیں
عشق کی نگہتیں
عقل کی تہمتیں
سب مشین ہو گئیں !
اب مشینوں میں کیسے ملاقات ہو
اور نگاہوں نگاہوں میں ہر بات ہو
جو کہے دل کہے، جو سنے دل سنے
لب ہلیں تو ہلیں
کپکپاتے ہوئے، فرطِ جذبات سے گنگناتے ہوئے ؟
وہ نگاہیں کہاں
دل کہاں، لب کہاں
فرطِ جذبات کی کپکپی اب کہاں
دل لگی اب کہاں، دلبری اب کہاں
اب کہاں ؟ اب کہاں ؟
اب کہاں ؟ اب کہاں۔ ؟
٭٭٭
اِک سکوتِ خواب آسا
اِک سکوتِ خواب آسا
زیست کا سہارا ہے
دل کے گہرے کنویں میں
کنکری نہیں ڈالو
موجیں جاگ جائیں گی
دائرے سے ابھریں گے
خواب ٹوٹ جائے گا!
٭٭٭
بھیگنا بارش میں تھا
بھیگنا بارش میں تھا
لیکن
گزشتہ رات کو
آسماں سے عشق برسا
اور ہم
بھیگے بہت
٭٭٭
زیست
یہ سکڑتی، سمٹتی، ہوئی، سردرات
ہولے ہولے خراماں ہے سوئے سحر
چاند کا نور
ما نگا ہوا نور ہے
ٹمٹما تے ہوئے ننھے ننھے دیئے
پل کے پل کے لئے
شب کے مہمان ہیں
کون لیتا رہا، رات بھر سسکیاں
کس کی آنکھوں سے شبنم نے موتی چنے
پو پھٹے، رات جانے کہاں جائے گی
چاند مر جائے گا
تارے بجھ جائیں گے !
٭٭٭
چاند
چاند کو گھورتے گھورتے بجھ گئی
آنکھ کی جوت بھی
ہر نئی رات کی کوکھ سے چاند کا
اک نیا روپ
پیدا ہوا۔۔ ۔۔ ۔ مرگیا!
کالی راتیں بھی خالی نہ تھیں چاند سے
روشنی
شب کے زنداں میں محبوس تھی
دل نے ہر شام جس کا سواگت کیا
پو کے پھٹتے ہی وہ چاند کمھلا گیا!!
٭٭٭
عشق نے
عشق نے
بے قراریاں بخشیں
عشق نے، کب کسے
قرار دیا
عشق نے
پہلے چھین لی دستار
بعد میں پیرہن اتار دیا
عشق نے
لمحہ لمحہ زخم دیئے
عشق نے
لحظہ لحظہ مار دیا
٭٭٭
سر گزشت
عشق مذہب کیا
اور مذہب
جسم سے جان تک
اتار دیا
لوگ باہر کے سانپ پر
بھاگے
ہم نے اندر کا سانپ
مار دیا
وقت نے
دل کو زخم زخم کیا
دل نے ہر زخم کو
نکھار دیا
زندگانی نے
کیا دیا ہم کو
جو دیا، ہم نے
یادگار دیا
٭٭٭
ڈیپریشن
شاخ آشنائی کی
جب شجر سے کٹ جائے
شام دل ربائی کی روٹھ کر پلٹ جائے
قلب و جاں میں پت جھڑ رت
لوٹ سی مچا بیٹھے
یاس کھول کر بازو، روح کو دبا بیٹھے
آسمانِ دنیا میں، آگ کے پہاڑوں سے
موت جب برستی ہو
نیچے ارض کے اوپر زندگی ترستی ہو
ہر نئے کھنڈر میں جب
امن اور کلچر کے
بھوت رقص کرتے ہوں
بستیوں کی گلیوں میں
موڑ، موڑ، ملبہ ہو
غاصبوں کا غلبہ ہو
آس کی سبک ڈالی
ہاتھ سے پھسل جائے
جسم و جان کی خاطر
بھاگتے ہوئے انسان
آس کی چٹانوں سے
جا بجا لٹکتے ہوں
نیچے
منتظر جن کی
ظلم کی دراڑیں ہوں
جبر کی کچھاریں ہوں
نت نئی بلائیں ہوں
جو نظر نہیں آئیں
اور گرنے والے کا
اندرون کھا جائیں۔۔ ۔ ! !
٭٭٭
کیا دیا۔ ؟
مختصر سا ساتھ
اک لمبی جدائی
کیا دیا۔
آپ کو حاصل تھی گو
ساری خدائی
کیا دیا۔
یاد دی
یا، دل کے اندر نرم گوشے میں کہیں
جلتی بجھتی ایک چنگا ری کوئی
بھسم کر دے روح کو
اور جب بجھے
ڈپریشن کے اندھے کنویں میں گرا دے
ذہن کو۔
کیا دیا۔
لفظ بخشا
لفظ مخفی اَن سنا
اَن کہا اور اَن لکھا
جو کسی منہ بند سیپی میں
سسکتا رہ گیا
سچے موتی کی طرح
گھپ اندھیرے میں کہیں
گہرے سمندر کے تلے
تنہا
دمکتا رہ گیا
کیا دیا
زندگی دی۔۔ ۔۔
ذمّے داری، معنویت سے تہی
تشکیک کے کہرے میں بند
سوچ
بے حد و حساب
از زمیں تا بہ فلک
از فلک تا بہ خلا
بے کراں، بے سمت اور بھٹکی ہو ئی
کیا دیا۔
٭٭٭
ہمیں آہستہ چلنا تھا
ہمیں آہستہ چلنا تھا
بہت
آہستہ چلنا تھا
گلی میں یار کی
ہم کو
بہت آہستہ چلنا تھا
گلی کی ابتدا سے
ان کے در تک
جاتے جاتے عمر مُک جاتی
ہماری سانس رک جا تی
وہ
دروازے پہ آ تے
اور ہم
آنکھیں بچھا کر
ان کے قدموں میں
بہت آہستہ
مر جا تے ! !
٭٭٭
بے چہرگی
یہاں کوئی چہرہ، کسی دوسرے کو
نہیں دیکھتا ہے
یہاں
اصل چہروں سے بیزار لو گوں نے
چہرے اتارے ہوئے ہیں
کہ بے چہرگی میں، سہولت بڑی ہے
کسی فرد کا کو ئی چہرہ نہیں ہے
کسی چیز کی کوئی صورت نہیں ہے
یہ مانا کہ چہرے،
زبانوں کے مالک ہیں اور بولتے ہیں،
زبانوں میں اپنی
مگر یہ بھی سچ ہے کہ سچ سے گریزاں
زمانے کا کلچر ہے بے چہرگی کا
کہ بے چہرگی میں سہولت بڑی ہے
اگر اصل چہرے، زباں کھولتے تو،
جو محسوس کرتے وہ سب بول دیتے۔
وہ ’ سچ ‘ بول دیتے !!
٭٭٭
نقاد کی مشکل
مانتا ہوں
اچھا لکھتا ہے
جانتا ہوں
شاعر اچھا ہے
میں خود اس کو،
اپنے قلم سے
اس کی شناخت عطا
کر دیتا
اس کا مقام بنا کر دیتا
لیکن میری
مشکل یہ ہے
میرا قلم
اس پر چلتا ہے
جس کی ناک کی نوک کا لکّھا
میرے در کی چوکھٹ پر،
قدموں میں بچھ جا تا ہو
لکھنے پر اکساتا ہو
آتے جاتے،
ناک سے لکّھی،
سب تحریریں پڑھتا ہوں
اُس شاعر کی
ناک نے اب تک
میرے گھر کی چوکھٹ پر
کوئی لفظ
نہیں لکھا
کوئی لکیر نہیں کاڑھی! !
٭٭٭
دن کے سورج تلے
شب ڈھل گئی
تارے خلا میں کھو گئے
ایک ایک کر کے رات کے خوش ہونے والے سو گئے
سب رونے والے سو گئے
چاند کے اندر جو مانگے کی چمک
روشن تھی شب
ماند پڑتے پڑتے وہ
ساری کی ساری بجھ گئی
رات کی سب بتیاں
شا ہرا ہوں، راستوں، گلیوں میں روشن قمقمے
سب بجھ گئے
کون سوچے، کون پوچھے
کب جلے کب بجھ گئے۔ ؟
دن کے سورج تلے ہر نور
لا یعنی ہوا
شب کی بے توقیری کے سا تھ
٭٭٭
تشکیک
زیست کی راہ پر
چلنے والے سبی
طے شدہ وقت وقت پر اک معین جگہ
اپنے اپنے قفس
چھوڑ جاتے ہوئے، گردنیں موڑ کر
دیکھتے ہیں تو کیا۔
دیکھتے ہیں کہ پیچھے جو چھوڑا وہ سب
کچھ اگر تھا
حقیقت میں کچھ بھی نہ تھا
ا ور جب حال پر غور کرتے ہوئے سوچتے ہیں
’ ’ بِنا جسم کیا رہ گیا۔ ؟
اپنے ہونے کا احساس سا رہ گیا
یا پھر احساس کے روپ میں
۔۔ یہ ہمارا نفس
خود کو محسوس کرتا ہوا۔۔ رہ گیا
ہم میں کیا تھا جو آخر بچا۔۔ رہ گیا۔۔ ؟
ہم اگر روح ہیں تو ہما را وجود
روح کے بھیس میں
ہے بھی یا کچھ نہیں ؟
امر ربی ہے اور
ما سوا کچھ نہیں۔ !!
٭٭٭
اھدنا !
آسماں
حدِ نظر تک آسماں
اس کے آگے آسماں
وہم و گماں
اور آگے ہر طرف پھیلا ہوا
بے ہوا، بے فضا
اک خلائے بے کراں
مجھ کو جانا ہے کہاں
جاؤں کہاں
منزل نہاں، رستہ نہاں
کہکشاؤں کا مقرر سلسلہ
اھدِنا!
اھد نا!اے خالقِ ارض و سما
میں سفر میں ہوں میری امداد کر
٭٭٭
راستہ
یہ راستہ۔۔
یہ عجب ہے راستہ۔
نصب گو اس پر نہیں
کوئی نشاں
پھر بھی ہر دم ہیں رواں
گاڑیاں۔
اور پیدل آدمی،
دائیں بائیں، درمیاں۔
جس کو، جس جس سمت چلنا
اور مڑنا ہے اسے
’ روڈ سائن ‘ سوجھ جاتے ہیں،
نظر آ تے نہیں۔
جانے کب مجھ کو سجھائی دے ’ نشاں۔
آگے رستہ بند ہے۔ ‘
میں کھڑا رہ جاؤں اک بے جان
پُتلے کی طرح۔
خاک ہونے کے لئے۔
طائرِ جاں
( راستے سے بے نیاز )
چھوڑ کر اپنا قفس
بے صدا،
اُڑنے لگے۔۔
طائرِ جاں کو
کسی رستے سے کیا۔ ؟
طائرِ جاں کا کوئی
رستہ نہیں۔۔ !!
٭٭٭
آزار لوحِ جاں پہ
آزار لوحِ جاں پہ
محبت نے لکھ دیئے
کانٹے کسی کی پھول سی
صورت نے لکھ دیئے
٭٭٭
مشینوں کے جنگل میں کھوئے ہوئے
مشینوں کے جنگل میں کھوئے ہوئے
آدمی کے لئے
راستے ہیں بہت۔۔ ۔
ذہن کے راستے
ذہن سے ذہن کی سمت جاتے ہوئے
دل کی جانب
کوئی راہ جاتی نہیں
اور مشکل یہ ہے
آدمی کے لئے۔۔ زندگی کے لئے
ذہن کے ساتھ دل کی ضرورت بھی ہے
دل
مشین کے علاوہ بھی اک چیز ہے
اور مشینوں کے جنگل میں
اس چیز کا
شائبہ تک نہیں
راستہ تک نہیں
ما ورائے مشیں دل کی جا نب
سفر کے لئے
کوئی رستہ نہیں
مشینوں کے جنگل سے با ہر
نکل بھاگنے کی ضرورت بھی ہو
اور چا ہت بھی ہو
کوئی صورت نہیں۔۔ !
٭٭٭
گراؤنڈ زیرو، پہ اس برس بھی (۲۰۰۶ء)
شمع جلا کر
اداس دل
ملول چہرہ
خموش گریہ بھری نگاہیں
لئے
کھڑا رہ گیا ہوں
تنہا
میں دو منٹ تک
گرؤنڈ زیرو، پہ
مرنے والوں سے معذرت کی
تمام نوعِ بشر کی جانب سے
تعزیت کی
’ ’ اے میرے پیارو
اے میرے معصوم مر نے والو
گراؤنڈ زیرو کرانے والے
کہا یہ جا تا ہے
خود۔۔ بشر تھے
یہی سبب ہے کہ ساری نو عِ بشر
کی آنکھیں
جھکی ہو ئی ہیں ندامتوں سے
ضمیر چُپ ہیں
ملامتوں سے
گراؤنڈ زیرو کرانے والے
اے کاش
ہم سے بشر نہ ہو تے
یا ہم کوئی اور جنس ہو تے
بشر نہ ہو تے۔ !! ‘‘
٭٭٭
گراؤنڈ زیرو سے
کس نے
کھینچی ہے خونی ریکھا
جو، آگے چلتی ہی جا رہی ہے
جو، اپنے خونی سفر پہ آگے
رواں، دواں ہے
زمین اپنی طنابیں کھینچے
ہوئے کھڑی ہے
فلک کا خیمہ
جگہ جگہ سے جلا ہوا ہے
گراؤنڈ زیرو سے خونی ریکھا
جہاں گئی
بے اماں گئی ہے
وہاں وہاں آہنی پرندے
گدہیں، عقاب، چیل
اور کوے
بلند و بالا فضا سے نیچے
بسی ہو ئی
جیتی جاگتی زمیں پر
بموں کے گولے
گرا چکے
یا
گرا رہے ہیں
جہاں جہاں بم برس رہے ہیں
وہاں، وہاں
آگ
خون
اور تباہی
کے بھوت، شیطان
دیو، عفریت
بہم دگر
لپٹ لپٹ کر
’ فضیلتِ آدمی‘ کے
بے کار
بچکانہ
دعوے پہ ہنس رہے ہیں
( اقتباس)
٭٭٭
منتشر ہو گئے اجزائے طلسماتِ وجود
ایک اک کر کے
پریشاں ہوئے اوراقِ حیات!
حجلۂ شوق کا در
باز ہوا تو دیکھا
لیلیٰ ہستی کی آنکھوں سے رواں تھے آنسو
ہو نٹ ہلتے تھے کہ مصروفِ دعا ہوں جیسے
’ ’ کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو‘‘
کون سنتا ہے یہاں
کس کی دعا، کس کی صدا
’ ’ کس سے بے مہریِ قسمت کی شکایت کیجیے ‘‘
مہرِ تا باں کی ضیا پاش شعاعوں کے طفیل
ریت کے ذرّے
نگینوں میں ہوئے ہیں تبدیل
آب سے جن کی نظر خیرہ سی ہو جا تی ہے
ان سے اک پانی کے قطرے کی تمنا بے سود !!
آب مانگو گے تو
ہر ذرہ ہنسے گا تم پر
موج در موج ابھر آئے گا دریائے سراب
حیف تم اپنی امیدوں پہ پشیماں ہو گے۔ !!
موج در موج ابھرتی گئیں دل کی ٹیسیں
درد، دریا کے تلاطم کی طرح بڑھتا گیا
پھول کی شاخ کے
سائے میں کسی بلبل کو
سانپ نے سونگھ لیا، کس کو خبر کس کو پتا
چاند کے نور کی
ٹھنڈک سے بڑھی دل کی جلن
چاندنی رات کی
تنہا ئی ہمیں ڈسنے لگی
چاند کہنے لگا
فن میں ہے مداوا دل کا
حسن تخلیق کرو، حسن کو حاصل ہے دوام
فکرِ دنیا تو
مرے دوست ہے اک جذبۂ خام
ورقِ قرطاس پہ کچھ
نقش نرالے کھینچو !
کچھ نئے رنگ بھرو، خون جگر سے اپنے
اس سے پہلے کہ تمہیں موت کا افعی ڈس لے !
(اقتباس)
٭٭٭
تم، جو اب سامنے ہو، کیسے میں تسلیم کر لوں
وہی چہرہ، وہی مہتاب سی رنگت اس کی
وہی زلفیں، وہی چھائی ہوئی گھنگور گھٹا
وہی آنکھیں، وہی پیالوں سے چھلکتی ہو ئی مے
وہی ابرو وہی کھینچتی ہو ئی عشوے کی کمال
وہی رخسار کے شبنم سے دھلے سرخ گلاب
وہی لب، نیم وا غنچوں پہ وہی ہلکی آنچ !
خمِ گردن میں وہی دل کو لبھانے کی ادا
وہی اعضا کا تناسب وہی سینے کا ابھار
وہی بازو، وہی شانے، وہی دستِ سیمیں
وہی ساقیں، وہی ساعد، وہی گورے پاؤں
وہی لچکیلی کمر، جیسے ہو گل کی ٹہنی
وہی سانچے میں ڈھلا جسم وہی نا چتا گات
مریم و زہرہ کے سنگم سے ہو جس کی تخلیق
وہی شبنم سے شرارے کا
پر اسرار رچا ؤ !
وہی سرگوشیاں کرتا ہوا اندازِ حیا
جیسے کہتا ہو کو ئی
’ ’ آپ مرے پاس تو آؤ !‘‘
دیکھنے دو مجھے
دم بھر کے لئے دیکھنے دو !
یہ وہی روپ ہے، میں نے جسے پوجا تھا کبھی
وہی لب
ثبت ہو ئی تھیں جن پر
میری الفت کی ہزاروں مہریں !!
یہ وہی جسم ہے، آغوش میں جس کو لے کر
میں نے دنیا کی ہر اک چیز کو ٹھکرایا تھا
تم، جو اب سامنے ہو، کیسے تسلیم کر لوں
کسی انجان نگر میں ہے تمہارا مسکن
یہ حسیں جسم، یہ آنکھیں، یہ لرزتے ہوئے لب
چاند سے چہرے پر چھائی ہو ئی گھنگور گھٹا
در حقیقت
کہیں رکھتے ہی نہیں اپنا وجود !
میں اگر ہاتھ بڑھاؤں کبھی چھونے کے لئے
واہمے کی طرح تم نذرِ فضا ہو جا ؤ !!
میں نے خود
آنکھوں سے دیکھی ہے تمہاری تر بت
میں نے خود
اشک بہائے ہیں
دعائیں کی ہیں
تم، جو اَب سامنے ہو، کیسے تسلیم کر لوں ؟
٭٭٭
برف پچھلے سال کی
پچھلے برس کی برف پر چلتے ہوئے
وہ اچانک لڑ کھڑائی
اور پھسل کر، میری با ہوں میں گری
دیر تک لپٹی رہی
میری کمر کے گرد حلقہ سا کئے
بازوؤں سے اپنے مجھ کو خاص اپنا سا کئے
گرم سی پوشاک میں دونوں بدن ملفوف تھے
دونوں جڑے، دونوں جدا
برف رُت کی جیکٹوں کا درمیانی فاصلہ
لحظہ بھر کے اس جکڑ لینے سے
کیسے اٹھ گیا۔۔ ۔ ؟
سوچتا ہی رہ گیا،
من سوچتا ہی رہ گیا، تن سوچتا ہی رہ گیا
وہ الگ ہو کر، ہٹی
تھینک یو اور بائی کہنے کے تکلف کے بِنا
برف پر چلتی ہو ئی۔۔ ۔
نظروں سے غائب ہو گئی۔۔ میں اکیلا رہ گیا۔ !
میں اکیلا رہ گیا
برف پچھلے سال کی مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
۔۔ ۔۔ ۔۔ خود بھی غائب ہو گئی۔۔ !
اس برس کی برف میں، پچھلے برس کی برف کو
ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں۔ !
ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں۔ ! !
٭٭٭
اے چشمِ تماشا
ہر لمحہ
آ کر عکس نیا
ہر شے کا دکھلا جا تا ہے
اس آئینے میں
روپ نیا
بہروپ نیا ڈھل جا تا ہے
اے چشمِ تماشا
مجھ کو بتا
ہے پیشِ نظر تیرے کیا کیا
وہ شے ہے یا ہے صرف شیشہ
یا عکس ہے آئینے میں کو ئی
یا تو ہے اور ترے آگے
آئینہ سا کوئی رکھا ہے
یا نور ہے
جو خود آئینہ ہے
اور آئینے میں
عکس بھی ہے
شے بھی ہے، چشمِ تماشا بھی ! !
٭٭٭
نقشِ دوام
دوست، تم نے کبھی محسوس کیا تو ہو گا
اجنبی لوگ
نئی چیزیں، نئے شہر بھی کیوں
دیکھے بھالے سے شناسا سے نظر آ تے ہیں ؟
جیسے حیرت کدۂ دہر میں
ہم اہلِ دوام
مختلف شکلوں میں ڈھلتے ہی رہے ہیں اب تک
اور ڈھلتے ہی چلے جائیں گے !!
وقت کے دھارے سے ہر چیز ابھرتی ہے یہاں
اور دھارے ہی میں کھو جا تی ہے
پھر کسی وقت کہیں اور ابھرنے کے لئے
ڈوبنے اور ابھرنے کا عمل جاری ہے
ابتدا جس کی ازل
انتہا جس کی ابد
موج در موج رواں ہے آگے !!
دوست تم نے کبھی محسوس تو کیا ہو گا
آج سے پہلے بھی دنیا، یہی دنیا ہو گی
آج سے پہلے بھی
مٹی سے اگے ہوں گے شجر
آج سے پہلے کسی سوکھے ہوئے پھول کی خاک
اک نئے پھول کے
سانچے میں ڈھلی بھی ہو گی
پھول اور دھول کا یہ ربط نئی بات نہیں
بیج بھی خاک کے ذروں میں بدل جاتے ہیں
آج سے پہلے بھی دنیا میں کہیں تم ہو گی
آج سے پہلے بھی میں نے تمہیں چا ہا ہو گا۔ !!
٭٭٭
یادِ وطن
کھڑکی کے اندر کی جانب
میں
تنہا
شیشے کے باہر کی جانب
اک چڑیا
برف کے بیچوں بیچ میں چلتا
پارک کے آگے کا رستہ
چھوٹے بڑے پیڑوں کے اوپر
برف کی بور
چاروں جانب حدِّ نظر تک
برف سماں
جلتے آنسو گرم دھواں
روح میں سنّاٹے کا شور۔ !!
٭٭٭
ہونے اور نہ ہونے کے درمیاں
ہو نے اور نہ ہونے کے
درمیان بھی
کچھ ہے
ہے یقیں۔
نہیں کچھ بھی
ہاں۔ گمان بھی
کچھ ہے
آسماں نہیں لیکن
آسمان بھی کچھ ہے
ہونے اور نہ ہونے کے
درمیان۔۔ سورج کی
روشنی نہیں جاتی
کوئی رَو تمازت کی
بھی۔۔ کبھی نہیں جاتی
فکر اور دانش کی
آگہی نہیں جاتی
ہو نے اور نہ ہونے کے
درمیان جانے کا
بال سے مہین رستہ
یعنے درمیاں کا پُل
مثلِ تیغِ بُرّاں ہے
پُل کے پار جانا ہے
دوسری نہیں کوئی
رو گزار۔۔ ۔
جانا ہے
سیفِ تیز جیسی ہے
پُل کی دھار
جانا ہے
جبر ہو کہ شاید ہو
اختیار۔۔ ۔
جانا ہے۔۔ ۔ !!
٭٭٭
اک سکُوتِ خواب آسا
اک سکوتِ خواب آسا
زیست کا سہارا ہے
دل کے گہرے کنویں میں
کنکری نہیں ڈالو
موجیں جاگ جائیں گی
دائرے سے ابھریں گے
خواب ٹوٹ جائے گا !
٭٭٭
تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں