FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

عبد اللہ جاوید کی منتخب غزلیں

 

 

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، عبد اللہ جاوید نمبر، شمارہ ۲۷، مدیر: ارشد خالد

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

جس کو بھی دی صدا، وہ بڑی دیر سے ملا

جو بھی بھلا لگا، وہ بڑی دیر سے ملا

ملتے گئے جو لوگ وہ دل کو نہیں لگے

جس سے بھی دل لگا، وہ بڑی دیر سے ملا

باہر سے کوئی عکس نہ دل میں اتر سکا

جو عکس دل میں تھا، وہ بڑی دیر سے ملا

اک عمر کٹ گئی یونہی خوابوں کو دیکھتے

تعبیر جو بنا، وہ بڑی دیر سے ملا

ہم مدّتوں کسی کی پرستش نہ کر سکے

اپنا جو تھا خدا، وہ بڑی دیر سے ملا

ہنگا مِ شکر ہے وہ ملا تو زہے نصیب

اب اس کا کیا گلہ، وہ بڑی دیر سے ملا

جاویدؔ گو دعا تری مقبول ہو گئی

جو تھا پسِ دعا، وہ بڑی دیر سے ملا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ننگے پاؤں کی آہٹ تھی یا نرم ہوا کا جھونکا تھا

پچھلے پہر کے سنّاٹے میں دل دیوانہ چونکا تھا

پانچوں حواس کی بزم سجا کر اس کی یاد میں بیٹھے تھے

ہم سے پوچھو شبِ جدائی کب کب پتّا کھڑ کا تھا

اور بھی تھے اس کی محفل میں باتیں سب سے ہوتی تھیں

سب کی آنکھ بچا کر اس نے ہم کو تنہا دیکھا تھا

چاہ کی بازی ہار کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پا یا

اس کے ملن کی بات نہ پوچھو سپنا سا اک دیکھا تھا

چاند گگن میں ایک ہے لیکن عکس ہزاروں پڑ تے ہیں

جس کی لگن میں ڈوب گئے ہم، دریا میں اک سایہ تھا

دل کے دھڑکنے پر مت جاؤ دل تو یوں بھی دھڑکتا ہے

سوچو باتوں ہی باتوں میں نام کسی کا آیا تھا

کیسا شکوہ کیسی شکایت دل میں یہی سوچو جاویدؔ

تم ہی گئے تھے اس کی گلی میں وہ کب تم تک آیا تھا

٭٭٭

 

 

 

کھلا جو پھول کوئی، کوئی پھول مرجھایا

تضادِ زیست نے ہر رنگ میں ستم ڈھایا

جنوں سے کم تو نہیں ہے یہ شدّتِ احساس

جو شاخِ گل کہیں لچکی تو سانپ لہرایا

ہر ایک لمحۂ گزراں کا احترام کرو

بچھڑنے والا کبھی لوٹ کر نہیں آیا

نگاہِ یار کی یہ روشنی رہے تو رہے

وگر نہ دہر میں جو کچھ ہے سر بسر سایہ

رہا ہے پیشۂ آ با سپہ گری جاویدؔ

یہ اور بات ہمیں شاعری نے اپنا یا

٭٭٭

 

 

 

 

لگے ہے آسماں جیسا نہیں ہے

نظر آتا ہے جو ہوتا نہیں ہے

تم اپنے عکس میں کیا دیکھتے ہو

تمہارا عکس بھی تم سا نہیں ہے

ملے جب تم تو یہ احساس جاگا

اب آگے کا سفر تنہا نہیں ہے

بہت سوچا ہے، ہم نے زندگی پر

مگر لگتا ہے کچھ سوچا نہیں ہے

یہی جانا ہے، ہم نے کچھ نہ جانا

یہی سمجھا ہے،  کچھ سمجھا نہیں ہے

یقیں کا دائرہ دیکھا ہے کس نے

گماں کے دائرے میں کیا نہیں ہے

یہاں تو سلسلے ہی سلسلے ہیں

کوئی بھی واقعہ تنہا نہیں ہے

بندھے ہیں کائناتی بندھنوں میں

کوئی بندھن مگر دکھتا نہیں ہے

ہو‘کس نسبت سے تم جاویدؔ صاحب

نہ ہونا توہے یاں ہونا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

بن برسے برسات کھڑی ہے باہر

دن ہے یا کہ رات کھڑی ہے باہر

روح کے دروازے پر دستک ہوتی ہے

لینے کو بارات کھڑی ہے باہر

دل کی اک اک بات چھپائی تھی ہم نے

دل کی اک اک بات کھڑی ہے باہر

جیت کے گاجے باجے بجتے ہیں

ماتم کرتی مات کھڑی ہے باہر

تم جاویدؔ ابھی تک اندر بیٹھے ہو

سورج کی سوغات کھڑی ہے باہر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

صدا دے کر چلا جاتا ہے کوئی

درِ دل کو بجا جاتا ہے کوئی

مَیں جب ہٹتا ہوں اُس کے راستے سے

مجھے رستہ دکھا جاتا ہے کوئی

بچا لیتا ہے دریا سے تو اکثر

سمندر میں گرا جاتا ہے کوئی

اندھیرا کر کے جب میں بیٹھتا ہوں

اندھیرے کو جلا جاتا ہے کوئی

اُتر کر آسمان سے دل کی چھت پر

فضا کو جگمگا جاتا ہے کوئی

ستاروں کے دئیے سارے بجھا کر

دیا دل کا جلا جاتا ہے کوئی

ہوا پر بیٹھ کر آتا ہے گھر میں

ہواؤں میں سما جاتا ہے کوئی

تماشہ دیکھنا چاہو تو دیکھو

تماشہ سا دکھا جاتا ہے کوئی

زمانے کو اٹھا کر بازوؤں میں

زمانہ سا اڑا جاتا ہے کوئی

کلاہ وجبہ و دستار لے کر

فقیروں سا بنا جاتا ہے کوئی

محبت کو جنوں کا رنگ دے کر

سرِمحفل نچا جاتا ہے کوئی

ہمیشہ ساتھ رہنے کی لکیریں

ہتھیلی سے مٹا جاتا ہے کوئی

تم اس کو روکنا چاہو ہو جاویدؔ

دھواں بن کر اڑا جاتا ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

زندگی میں ابتری پہلے سے تھی

گھر کے اندر بے گھری پہلے سے تھی

اپنے اندر کا سفر پہلے سے تھا

اپنے باہر بے کلی پہلے سے تھی

زندگی کے شور کو گھیرے ہوئے

ایک گہری خامشی پہلے سے تھی

چہچہوں سے گو قفس معمور تھا

روح پر تولے کھڑی پہلے سے تھی

میری بربادی پہ کیوں نادم ہوں آپ

میری قسمت تو لکھی پہلے سے تھی

اس زمیں پر آپ آئے بعد میں

یہ زمیں جاویدؔ جی پہلے سے تھی

٭٭٭

 

 

 

 

آپ ہی ان کو جدا ہونے دیا

جس میں تھا ان کا بھلا ہونے دیا

جان کر ان کو بگاڑا پیار سے

با وفا کو بے وفا ہونے دیا

لوگ سب آتے رہے، جا تے رہے

دل کے گھر کو راستا ہونے دیا

آپ کے دل کو نہ اپنا کر سکے

اپنے دل کو آپ کا ہونے دیا

زندگی میں خواب تو دیکھے نہیں

زندگی کو خواب سا ہونے دیا

آپ کے اور اپنے دل کے درمیاں

کھیل تھا یا عشق تھا، ہونے دیا

صبر تھا یا ظلم تھا، اپنے خلاف

جو نہ ہو نا تھا ہوا، ہونے دیا

جان کر اپنا زیاں کرتے گئے

جان کر سب کا بھلا ہونے دیا

عمر بھر چنتے رہے خار و خزف

اور چمن کو خوشنما ہونے دیا

جب ہرے پتّوں کو ڈھانپا برف نے

زخم کو دل کے ہرا ہونے دیا

ہم عدالت میں بھی سچ کہتے رہے

اور جھوٹا فیصلہ ہونے دیا

ہاتھ اٹھائے تو دعا مانگی نہیں

لکھنے والے کا لکھا ہونے دیا

آپ چھوٹے رہ گئے جاویدؔ جی

اور لوگوں کو بڑا ہونے دیا

٭٭٭

 

 

 

 

دل کی دیوانگی کا سماں ہر طرف

آسماں، آسماں آسماں ہر طرف

سوجھتا ہی نہیں راستہ کیا کریں

اک دھواں، اک دھواں، اک دھواں ہر طرف

اُڑ گئی ہے زمیں، پاؤں رکھئے کہاں

فرش ہے یا کہ آ بِ رواں ہر طرف

ایک دریا ہے پیروں سے لپٹا ہوا

بے سکوں، بے سکوں، بے کراں ہر طرف

اصل چہرے کی پہچان ممکن نہیں

عکس ہی عکس ہیں در میاں ہر طرف

ایک صورت کی سو صورتیں بن گئیں

آئینے رکھ دیئے ہیں یہاں ہر طرف

اتنی آنکھیں کہاں، دیکھ سکتے جو ہم

آپ کے حسن کی کہکشاں ہر طرف

آپ سے دور جا تے تو جا تے کہاں

آپ ہی آپ تھے مہرباں ہر طرف

کون کہتا ہے جاویدؔ جی مر گئے ؟

وہ تو موجود ہیں اے میاں ہر طرف

٭٭٭

 

 

 

 

ناچنے لگتا ہے بازاروں کے بیچ

بند کیجیے دل کو دروازوں کے بیچ

عشق ہے ظاہر میں خوشبو کا سفر

راستہ جا تا ہے انگاروں کے بیچ

دیکھئے آ کر کبھی دنیائے دل

بیٹھئے آ کر کبھی یاروں کے بیچ

کاسۂ درویش بھی رکھ دیجئے

کچھ جگہ خالی ہے دستاروں کے بیچ

آپ کو نشہ نہیں کرتی شراب

آپ کا کیا کام مے خواروں کے بیچ

شہر جاں تک آ گئی جنگل کی آگ

جل رہی ہے عین گلزاروں کے بیچ

کیسی وحشت ہے زمیں سے تا فلک

چاند ہے سہما ہوا تاروں کے بیچ

امن ہے بغداد میں چاروں طرف

فاختہ اُڑتی ہے تلواروں کے بیچ

مانگئے جاویدؔ  اب مشرق کی خیر

گھِر گیا مغرب کے ہتھیاروں کے بیچ

٭٭٭

 

 

 

 

سبھی آلام لے کر اُڑ گیا ہے

پرندہ دام لے کر اُڑ گیا ہے

دریچے میں ذرا سی دیر گا کر

وہ طائر شام لے کر اُڑ گیا ہے

ہم اس کا نام بھی کیسے بتائیں

جو اپنا نام لے کر اُڑ گیا ہے

ہمارے دل کا سودا کرنے وا لا

بڑا انعام لے کر اُڑ گیا ہے

جسے ساقی سمجھ کر جام سونپا

وہ ظالم جام لے کر اُڑ گیا ہے

یقین کی روشنی کا ایک جگنو

سبھی اوہام لے کر اُڑ گیا ہے

کسی کی یاد کا خاموش جھونکا

غمِ ایّام لے کر اُڑ گیا ہے

جسے جاویدؔ سمجھے تھے وہ لمحہ

خیالِ خام لے کر اُڑ گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی رکتا نہیں ہے راستے میں

شجر تک چل رہے ہیں راستے پر

یہ کیسا مرحلہ آیا سفر کا

مسافر جل رہے ہیں راستے پر

فرشتے بھا گتے ہیں راستے سے

شیاطیں پَل رہے ہیں راستے پر

جو صدیوں سے مسلسل چل رہے ہیں

وہ پل دو پل رہے ہیں راستے پر

کبھی تپتے ہوئے بے آب صحرا

کبھی جل تھل رہے ہیں راستے پر

کبھی رستہ اُڑا ہے آسماں تک

کبھی بادل رہے ہیں راستے پر

یقیں سے کوئی کہہ سکتا نہیں یہ

گزشتہ کل رہے ہیں راستے پر

بدلتے منظروں کی زد پہ جاویدؔ

بہت بے کل رہے ہیں راستے پر

٭٭٭

 

 

 

 

فلک پر جب ستارے ٹوٹتے ہیں

زمیں پر دل ہما رے ٹوٹتے ہیں

یہ کیسے فیصلے ہوتے ہیں اوپر

جو نیچے عہد سارے ٹوٹتے ہیں

ُسُبک موجوں سے بن جا تے ہیں دھارے

سُبک موجوں سے دھا رے ٹوٹتے ہیں

کوئی طوفاں دستک دے رہا ہے

لبِِ دریا کنا رے ٹوٹتے ہیں

جُدا یہ بات کچھ برسے نہ برسے

بظاہر ابر پارے ٹوٹتے ہیں

بجائے آب قحطِ آب بر سا

یونہی اکثر سہا رے ٹوٹتے ہیں

خوشی کے موڑ پر ہی کیوں یہ آخر

ہمارے خواب سارے ٹوٹتے ہیں

ہمیں پہچان ہوتی ہے خدا کی

ارادے جب ہمارے ٹوٹتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

کیا ہمیں ہو نا ہے ؟ کیا ہو نا نہیں ؟

موت سے پہلے پتا ہونا نہیں

روح کا تن سے جدا ہونا تو ہے

روح کی قسمت فنا ہونا نہیں

موت بے شک ہی نہیں بر حق بھی ہے

موت اپنی انتہا ہونا نہیں

ما ورائے مرگ بھی ہے زندگی

زندگی کے ما سوا ہونا نہیں

اس کی مرضی ہے اسا سِ ہست و بود

اس کی مرضی کے سوا ہو نا نہیں

ہے خدا لا ابتداء لا انتہا

صرف ہونا ہی خدا ہونا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

بند دروازے کہاں تک کھولتے

کیا زمیں سے آسماں تک کھولتے

دائرہ در دائرہ تھی زندگی

دائروں کو ہم کہاں تک کھولتے

آپ نے پوچھا تو ہوتا دل کا حال

ہم زباں کیا زخمِ جاں تک کھولتے

کوئی دل کا راز داں ملتا اگر

چاک سینے کے دہاں تک کھو لتے

عشق کی نشتر زنی کا حال ہم

یاد یا رِ مہرباں تک کھولتے

مہرباں سورج کے سارے راز بھی

سایۂ نامہرباں تک کھولتے

کشتیِ عمرِ رواں کا باب ہم

جنگ باد و بادباں تک کھولتے

ذہن و دل کی جستجو کا ما حصل

ماورائے بے نشاں تک کھولتے

کھولتے ہر چیز کے سارے پرت

سب یقینوں کو گماں تک کھولتے

لمحے لمحے کو رواں رکھنے کے ساتھ

لا زماں و لا مکاں تک کھولتے

نقل کی بھی نقل تھے جاویدؔ جی

اصل کو کیسے کہاں تک کھولتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

غم کی پرچھائیں میں درخت رہا

اب کے موسم ہی اتنا سخت رہا

جیسے دریا کے دو کنارے ہوں

ہم رہے، درمیان وقت رہا

زندگی انتظار میں کاٹی

اور یہ انتظار، سخت رہا

تخت پر کون تھا نہ دیکھ سکے

بعد میں وہ رہا نہ تخت رہا

کیا رہا اپنے ساتھ زادِ سفر

زخم خوردہ بدن ہی رخت رہا

سب رویے انا کی بھینٹ رہے

جو رویہّ تھا سخت، سخت رہا

دکھ تو یہ ہے کہ یہ ہمارا وطن

ایک ہو کر بھی لخت لخت رہا

ایک ہو کر بھی ہم نہ ایک ہوئے

ڈالیوں سے جدا درخت رہا

باہمی گفتگو تھی لا حاصل

سب کا لہجہ بڑا کرخت رہا

بخت کی بات گو زباں پہ رہی

ہاتھ میں اپنے، اپنا بخت رہا

ہم ہی جاویدؔ وقت سے روٹھے

ڈھونڈھتا ہم کو، اپنا وقت رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چمکا جو چاند رات کا چہرہ نکھر گیا

مانگے کا نور بھی تو بڑا کام کر گیا

یہ بھی بہت ہے سینکڑوں پودے ہرے ہوئے

کیا غم جو بارشوں میں کوئی پھول مر گیا

سا حل پہ لوگ یونہی کھڑے دیکھتے رہے

دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا

ہر سخت مرحلے پہ اکیلے ہی رہ گئے

جو کارواں تھا ساتھ ہما رے بکھر گیا

سایہ بھی آپ کا ہے فقط روشنی کے ساتھ

ڈھونڈو گے تیر گی میں کہ سایہ کدھر گیا

جھپکی پلک تو موسمِ گل کا پتہ نہ تھا

’ جھونکا سا اک ہوا کا ادھر سے ادھر گیا‘

ہم جس کے انتظار میں جاگے تمام رات

آیا بھی وہ تو خواب کی صورت گزر گیا

مشکل ہے اب کسی کا سمانا نگاہ میں

وہ اک جھلک کے ساتھ ہی آنکھوں کو بھر گیا

ہم نے تو گل کی، چاند کی، تا رے کی بات کی

سب اہلِ انجمن کا گماں آپ پر گیا

بجلی کا قمقمہ سا چراغِ حیات ہے

ٹوٹا نفس کا تار اندھیرا اُبھر گیا

جیتے جی مر چکے تھے مگر اپنا ہر نفس

ہم ہی پہ سانس لینے کا الزام دھر گیا

گھر ہی نہیں رہا ہے سلا مت بتائیں کیا

غالبؔ کے بعد سیلِ بلا کس کے گھر گیا

مقطع کہو کہ لطفِ سخن کا بھرم رہے

جاویدؔ اب غزل کا نشہ سا اتر گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کی باتوں کے پردے میں کہہ لیتے ہیں اپنی بات

آج کی دنیا میں سنتا ہے کون بھلا کس کے حا لا ت

کس کو اتنی فرصت ہے کہ دل کا زخمِ نہاں دیکھے

کس کو رکنے دیتے ہیں یاں قدموں سے لپٹے لمحات

اس کے لب و رخسار کی باتیں سکھ کے دنوں کی باتیں ہیں

اس کی زلف کے ذکر کے پیچھے پھیلی ہوئی ہے درد کی رات

دنیا کے اصنام میں سارے ایک صنم ہی سچا ہے

جیسے خدا کی ذات ہے سچّی باقی سا رے لات و منا ت

اہلِ مجاز صنم کہتے ہیں اہلِ حقیقت اس کو خدا

ہم سے اگر پوچھو تو یارو وہ ہے سپنوں کی سوغات

آگ اور خون کے اس دریا سے کون ہے یاں جو پار ہوا

زیست میں کس کی جیت ہوئی ہے کس نے نہیں کھائی ہے مات

روز و شب کی یکسانی پر سانس گھٹی سی جا تی ہے

دن میں بھی ہے سنّا ٹا سا رات تو کہنے کو ہے رات

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک انجانے سفر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

ہم فقط اک رہ گزر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

اجنبی اک راستہ تھا، پاؤں سے لپٹا ہوا

اندر، اندر، ایک ڈر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

چل رہے تھے زندگی کا خواب سا دل میں لئے

اور فنا کی رہ گزر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

وقت کو باہر گزرتا دیکھنے والے یہ لوگ

وقت کے اندر سفر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

اک طلسمِ ہفت پیکر تھی یہ دنیا اور ہم

ایک جا دو کے نگر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

پہلے ہی پتھر سے چکنا چور ہو کر رہ گیا

آپ بھی شیشے کے گھر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

ہم نے جن کو دل میں، آنکھوں میں سجا رکھا تھا وہ

اک زمانے کی نظر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

جو زمانے پر اثر انداز ہوتے تھے وہ لوگ

خود زمانے کے اثر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

ایک ہم ہی حادثوں کی زد پہ کچھ آئے نہ تھے

حادثے سب بحر و بر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

زندگی کے گھر میں تھے کچھ ٹمٹماتے سے دیئے

قمقمے سب بام و در میں تھے کھلا مدّت کے بعد

جو نظر آتا نہیں سب پر نظر رکھتے ہوئے

ہر گھڑی اس کی نظر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

عصرِ حاضر کو غرض شہرت سے ہے فن سے نہیں

ہم عبث عرض ہنر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

ہم ہی خود جاویدؔ تھے اپنے مقابل دو بدو

وسوسے اپنے ہی دل میں تھے کھلا مدّت کے بعد

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

راہ میں دھوپ تھی سایوں کے شجر پیچھے تھے

دل تڑپتا تھا، مگر دل کے نگر پیچھے تھے

راستے نے کہاں دیکھے تھے مسا فر ایسے

جن کے تن آگے تھے، کاٹے ہوئے سر پیچھے تھے

فاختہ امن کی تھی، نوک سناں پر آگے

شہرِ تا راج میں، ٹوٹے ہوئے پر پیچھے تھے

کارواں والوں نے ان کو نہ کبھی یاد کیا

کیا ہوئے راہ میں، جو خاک بسر پیچھے تھے

یہ بھی دیکھا ہے کہ تقسیمِ انعامات کے وقت

بے ہنر آگے تھے اور اہلِ ہنر پیچھے تھے

فرض بھی کر لیں کہ رَن میں تھے لڑا نے والے

مرنے اور مارنے والوں سے مگر پیچھے تھے

ہم چلے جا تے تھے جاویدؔ سفر کی دھن میں

جن کو سمجھا تھا کہ آگے ہیں وہ گھر پیچھے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

مر گیا پانی جو تھا ٹھہرا ہوا

سوچئے، ہے اور کیا ٹھہرا ہوا

ڈھونڈھتی پھرتی ہے جس کو اب دعا

ہے کہاں دستِ دعا ٹھہرا ہوا

دھیان کی شاخِ شجر پر ہے ابھی

ایک چہرا پھول سا ٹھہرا ہوا

گھر کے اندر آبسی کیوں بے گھری

کون یہ گھر سے گیا ٹھہرا ہوا

پاؤں چلتے ہیں، سفر کٹتا نہیں

ہے سفر کا راستا ٹھہرا ہوا

گھنٹیاں بجنے لگیں کانوں کے پاس

قافلہ دل کا چلا ٹھہرا ہو

کام ایسا کیجئے جس کو کہیں

چشمۂ آبِ بقا ٹھہرا ہوا

آسماں پر ہے چڑھائی کا خیال

آسماں پر ہے خدا ٹھہرا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

صنم کدے میں صنم کے سوا بہت کچھ تھا

میں کیا بتاؤں، اے میرے خدا بہت کچھ تھا

کسی کے نام سے کھنچا گیا خطِ تنسیخ

وگرنہ لوح پہ لکھا ہوا بہت کچھ تھا

وہ جس نے باندھ رکھا ہے عمر بھر مرے دل کو

جو میرا ہو نہ سکا وہ مرا بہت کچھ تھا

بدن میں روح تھی لیکن پہنچ سے باہر تھی

بدن سے روح تک فاصلہ بہت کچھ تھا

جہاں میں آپ کے، میری بساط ہی کیا تھی

جہاں میں آپ کے اچھا برا بہت کچھ تھا

زمانے بھر کے تماشے، نظر میں تھے جاویدؔ

میں دیکھتا ہی نہ تھا، جانتا بہت کچھ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

گریۂ ندامت کے ما سوا مرا کیا تھا

اس کباڑ خانے میں اے خدا مرا کیا تھا

آسماں بھی ان کا تھا اور زمین بھی ان کی

درمیان دونوں کے جو بھی تھا مرا کیا تھا

سب وسائلِ ہستی آپ ہی کی قدرت میں

جو پڑا تھا دنیا میں آپ کا، مرا کیا تھا

آتے جاتے لوگوں سے، ہے بسی ہوئی دنیا

آتے جاتے لوگوں کا سلسلہ مرا کیا تھا

جگ بسائی تھی ان کی، جگ ہنسائی تھی میری

کھیل تھا، تماشہ تھا، جو بھی تھا، مرا کیا تھا

میرے ہر سفرمیں تھا، وقت کا سفر شامل

راستہ جو کٹتا تھا، راستا مرا کیا تھا

میری اک دعا بھی کیوں مستجاب ہو جا تی

ہر دعا سے یہ پوچھا مدعا مرا کیا تھا

مانتا ہوں رہتا تھا کوئی میرے اندر بھی

سوچتا ہوں اس سے بھی واسطا مرا کیا تھا

جس کو میں نے چاہا تھا، جس کو میں نے پوجا تھا

وہ جو مجھ پہ مرتا تھا، کون تھا، مرا کیا تھا

میری سوچ جس کی تھی، جس کی سوچ میری تھی

جس کو میں نے اپنا دل دے دیا، مرا کیا تھا

حرف و صوت سے جاویدؔ بارہا یہ پو چھا ہے

حرف و صوت میں جو بھی، تھا رچا، مرا کیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

آگ کو مطلب جلانے سے رہا

وقت بھی بدلاؤ لانے سے رہا

ہم جلے جس آگ میں، اس آگ کو

زور دریا کا، بجھانے سے رہا

جو زمانے سے، سدا بچتے رہے

واسطہ ان کا زمانے سے رہا

ہجرتیں کیسی یہاں، کیسے قیام

ہر تعلق آب و دانے سے رہا

موسموں پر کچھ مرا قا بو نہیں

دید کا موسم بلانے سے رہا

حا سدوں کی ہم نے کب تذلیل کی

ایک اک حاسد ٹھکا نے سے رہا

جس گلی میں عمر کاٹی میرؔ  نے

میں وہاں کسِ کسِ بہانے سے رہا

زندگی جاویدؔ گز ری حرف حرف

واسطہ لکھنے لکھانے سے رہا

٭٭٭

 

 

 

 

اگر سیلاب کا چہرا نہ دیکھا

تو گویا آپ نے دریا نہ دیکھا

رکھیں آنکھیں کھلیں گو ہم نے دل کی

مگر دل سا کوئی اندھا نہ دیکھا

بہت سے آئینے دیکھے دِکھائے

مگر جو عکس چاہا تھا، نہ دیکھا

عبث تھا بھاگنا دنیا کے پیچھے

جو بھاگے ان نے پھر کیا کیا نہ دیکھا

فقیری تو گنوانے کا ہنر ہے

وہ پیالہ کیا جسے ٹوٹا نہ دیکھا

پڑی جب روشنی پرچھائیں ناچی

کوئی بھی ناچنے والا نہ دیکھا

رہے سب پیڑ کے سائے کے نیچے

کسی نے پیڑ کو جلتا نہ دیکھا

گلی میں ہم نے اکثر دھوپ تاپی

کسی دیوار کا سایہ نہ دیکھا

زمانے نے بہت سے لوگ دیکھے

کوئی مجھ سا، کوئی تجھ سا نہ دیکھا

وہ سب دیکھا فلک نے جو دکھایا

زمیں نے آج تک کیا کیا نہ دیکھا

(ق)

مگر جو آدمی دکھلا رہا ہے

زمیں نے آج تک سوچا نہ دیکھا

کبھی جاویدؔ یہ دنیا سے پو چھو

یہاں کیا دیکھنا تھا کیا نہ دیکھا

٭٭٭

 

 

 

روح کو قا لب کے اندر جاننا مشکل ہوا

لفظ میں احساس کو پہچاننا مشکل ہوا

لے اُڑی پتّے ہوا تو شاخِ گل بے بس ہوئی

پھول پر سائے کی چادر تاننا مشکل ہوا

اپنے خلوت خانۂ دل سے جو نکلے تو ہمیں

سب کے غم میں اپنا غم بھی جاننا مشکل ہوا

وقت نے جب آئنہ ہم کو دکھا یا رو پڑے

اپنی صورت آپ ہی پہچاننا مشکل ہوا

اس مشینی عہد میں کیا ذات کیا عرفانِ ذات

آدمی کو آدمی گرداننا مشکل ہوا

دل نہ چھوٹا کیجیے نا قدریِ احباب پر

عیب جویوں کو ہنر پہچاننا مشکل ہوا

کیا کریں جاویدؔ اس بہروپیوں کے دیس میں

گل کو گل کانٹے کو کا نٹا ماننا مشکل ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

غم تمہارا تھا ہمیشہ

یہ سہا را تھا ہمیشہ

ہجر کی تاریک شب میں

یاد، تارا تھا ہمیشہ

تم ہمارے تھے، نہیں تھے

دل تمہارا تھا ہمیشہ

ڈوبنے سے ڈرنے وا لو !

عشق دھارا تھا ہمیشہ

کیسی دریا سے شکایت

جب کنارا تھا ہمیشہ

حسن اس کا، عشق اپنا

استعارہ تھا ہمیشہ

گنبد و محراب و منبر

اور منارا تھا ہمیشہ

خار و گل، صیاد و بلبل

باغ سارا تھا ہمیشہ

کوٹھیوں، محلوں کے نیچے

گھر ہمارا تھا ہمیشہ

سب فسانے تھے ازل سے

ہر نظارہ تھا ہمیشہ

نسلِ انسانی کے ہاتھوں

میں خسا رہ تھا ہمیشہ

(سورۃالعصر)

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اک سیلِ بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت

تنکے سمجھ رہے ہیں کہ وہم و گماں ہے وقت

پرکھو تو جیسے تیغِ دو دم ہے کھنچی ہوئی

ٹالو تو ایک اڑ تا ہوا سا دھواں ہے وقت

ہم اس کے ساتھ ہیں کہ وہ ہے اپنے ساتھ ساتھ

کس کو خبر کہ ہم ہیں رواں یا رواں ہے وقت

تاریخ کیا ہے وقت کے قدموں کی گرد ہے

قوموں کے اوج و پست کی اک داستاں ہے وقت

خاموشیوں میں سرّ نہاں کھولتا ہوا

گونگا ہے لا کھ پھر بھی سراپا زباں ہے وقت

ہمدم نہیں رفیق نہیں ہم نوا نہیں

لیکن ہمارا سب سے بڑا راز داں ہے وقت

کُل کائنات اپنے جلو میں لئے ہوئے

جاویدؔ ہست و بود کا اک کارواں ہے وقت

٭٭٭

 

 

 

میں نے وفا کا نام لیا میری بھول تھی

حسنِ گریز پا سے یہ خواہش فضول تھی

لمحوں کی زد میں اس کا بدلنا ہی خوب تھا

ورنہ یہ لوگ کہتے وہ کاغذ کا پھول تھی

اس کی ہر ایک بات پہ یوں مطمئن تھے ہم

جیسے خدا تھی یا وہ خدا کا رسول تھی

انگشتِ خونچکاں سے یہ عقدہ کھلا کہ وہ

تھی شاخِ گل ضرور پہ شاخِ ببول تھی

 

اُڑتی پھری وہ پھول کی پتّی ہوا کے ساتھ

یوں وہ ذرا سی جان بڑی با اصول تھی

مٹھّی کھلی ہوا کی تو دل خون ہو گیا

دستِ صبا میں گل کی جگہ صرف دھول تھی

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

شاخِ ببول۔ میرے نا چیز خیال میں ایسی تراکیب  سماعت پر گراں نہ ہونے کی صورت میں جائز ہیں۔ (جاوید)

٭٭٭

 

 

 

 

ماتھے کی ایک ایک شکن کھولتی رہی

اس کی شبیہ جھوٹ کئی بولتی رہی

تنہائیوں میں بھی کبھی تنہا نہیں رہے

پرچھائیں سی وہ پاس کہیں ڈولتی رہی

ہم بھی غزل سنا کے رلاتے رہے اسے

وہ رات موتیوں میں ہمیں تولتی رہی

حالات دل پہ زخم لگاتے رہے صدا

کوئی حسین یاد بھی سم گھولتی رہی

کس آرزو کی بات کریں صحنِ دل کے بیچ

ہر لحظہ آرزو نئی پر تولتی رہی

کس کا خیال آیا کہ آنکھوں کے سا منے

تتلی سی پھول پھول کوئی ڈولتی رہی

جاویدؔ تم نے شعر کہے یا کہ بیت بیت

خود روحِ شاعری ہی گہر رولتی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دستِ اجل نے دست دعا کو نگل لیا

مٹّی نے ایک جانِ حیا کو نگل لیا

دریا کی پیاس ساحل غم سے نہ بجھ سکی

موجوں نے آج شہرِ وفا کو نگل لیا

کوہِ نداسے کوئی صدائے ’ ’ اخی ‘‘ اٹھی

یا راستے نے آبلہ پا کو نگل لیا

دنیا و دین وقت کی گردش میں آ گئے

لمحوں نے آدمی کی انا کو نگل لیا

صحنِ چمن میں، تیز ہواؤں نے، شاخ شاخ

پھولوں کی رنگ رنگ قبا کو نگل لیا

تہذیبِ نو میں مہر و محبت کہاں ملے

اک اژدہے نے لعلِ وفا کو نگل لیا

جاویدؔ  ہم بھی غم کے سمندر کو پی گئے

شبنم نے ایک دشتِ بلا کو نگل لیا

٭٭٭

 

 

 

 

مٹی پر کیا تیرا حق، کیا میرا حق

آ، مٹی میں مل کر دیکھیں کس کا حق

جس دھرتی پر جس کا جینا مرنا ہو

اس دھرتی پر سچ پو چھو تو اس کا حق

کلھا ڑے سے منوا لینا آسان ہے

نا حق سے نا حق ہو چاہے جتنا حق

سب سے سچی، سب سے اونچی انساں ذات

انساں ذات کا ہر مٹی پر پورا حق

پاکستان کا چپہ چپہ سب کا ہے

اس کے چپے چپے پر ہے سب کا حق

٭٭٭

 

 

 

میعادِ حیات بھر رہا ہوں

جینے کی ہے شرط مر رہا ہوں

یہ وقت گزر رہا ہے یا میں

خود وقت ہوں اور گزر رہا ہوں

اے موجِ نفس گواہ رہنا

میں ڈوب کے بھی ابھر رہا ہوں

کیا عیش میں زندگی کٹی ہے

تلوار کی دھار پر رہا ہوں

ہر سمت ہیں غول حاسدوں کے

شاید کو ئی کام کر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہواؤں میں رچا کچھ اور ہی تھا

وہ جو ہم نے پیا، کچھ اور ہی تھا

اسے چہروں کے جنگل میں نہ ڈھونڈو

وہ چہرے کے سوا کچھ اور ہی تھا

پرندہ مطمئن لگتا تھا لیکن

پرندہ سوچتا کچھ اور ہی تھا

جو باہر لٹ گیا، ہے ذکر اس کا

جو اندر لٹ گیا، کچھ اور ہی تھا

کنارے پر تو بچے کھیلتے تھے

سمندر میں ہوا کچھ اور ہی تھا

زمانے کی زباں کچھ اور ہی تھی

زمانہ بولتا کچھ اور ہی تھا

تمہارے لفظ تھے جاویدؔ  کچھ اور

تمہارا مدّعا کچھ اور ہی تھا

٭٭٭

 

 

 

 

کیوں رہے آسمان کے نیچے

کیا ملا اس مچان کے نیچے

لان تو ہے ہرا بھرا لیکن

خشک مٹّی ہے لان کے نیچے

جس کو دیکھو زمیں کے پیچھے ہے

کچھ تو ہے خاکدان کے نیچے

ہے زمیں کی بقا اگر منظور

رکھ زمیں آسمان کے نیچے

رات آ ئی تو اک زمیں والا

سو گیا آسمان کے نیچے

یہ جو اک آن بان ہے اوپر

کیا ہے اس آن بان کے نیچے

گو یقیں تھا گمان کے اوپر

لوگ ٹھہرے گمان کے نیچے

یہ جو سیلاب رود جاں میں ہے

اس کو رکھئے نشان کے نیچے

تھی غزل جب زبان کے اوپر

آبلے تھے زبان کے نیچے

عمر ساری گزر گئی جاویدؔ

صبر کی اک چٹان کے نیچے

٭٭٭

 

 

 

کچھ یہاں پھیلا ہوا تھا، کچھ وہاں پھیلا ہوا

خواب میں دیکھا، زمیں پر آسماں پھیلا ہوا

شب کے اندھیارے میں دیکھی روشنی ہی روشنی

دن کے اجیالے میں تھا، ہر سو دھواں پھیلا ہوا

ہم نے پھولوں کی طرف جب بھی کیا اپنا سفر

ہر قدم ہم کو ملا، دشتِ تپاں پھیلا ہوا

بے اماں اکثر ہوا ہے، آدمی اس کے تلے

آ دمی کے سر پہ جو ہے سائباں پھیلا ہوا

ایک نقطے پر سمٹ آ یا یقیں کا ارتکاز

اس سے پہلے، عالم عالم تھا گماں پھیلا ہوا

عمر بھر باندھی تھی، جس دامن میں اپنی ہر طلب

آج وہ دامن تھا سوئے آسماں پھیلا ہوا

٭٭٭

 

 

جانبِ در دیکھنا اچھا نہیں

راہ شب بھر دیکھنا اچھا نہیں

عاشقی کی سوچنا تو ٹھیک ہے

عاشقی کر دیکھنا اچھا نہیں

اذن جلوہ ہے جھلک بھر کے لئے

آنکھ بھر کر دیکھنا اچھا نہیں

اک طلسمی شہر ہے یہ زندگی

پیچھے مُڑ کر دیکھنا اچھا نہیں

اپنے باہر دیکھ کر ہنس بول لیں

اپنے اندر دیکھنا اچھا نہیں

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے

خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

سر بدن پر دیکھئے جاویدؔ جی

ہاتھ میں سر دیکھنا اچھا نہیں

٭٭٭

 

 

 

پھول کے لائق فضا رکھنی ہی تھی

ڈر ہوا سے تھا ہوا رکھنی ہی تھی

گو مزاجاً ہم جدا تھے خلق سے

ساتھ میں خلقِ خدا رکھنی ہی تھی

یوں تو دل تھا گھر فقط اللہ کا

بت جو پا لے تھے تو جا رکھنی ہی تھی

ترک کرنی تھی ہر اک رسمِ جہاں

ہاں مگر رسمِ وفا، رکھنی ہی تھی

صرف کعبے پر نہ تھی، حجّت تمام

بعدِ کعبہ کر بلا، رکھنی ہی تھی

٭٭٭

 

 

 

اول تو دل کی بات سنائی نہیں دیتی

اور جب سنائی دے تو رہائی نہیں دیتی

آنکھیں تلاش کرتی ہی رہتی ہیں عمر بھر

ہر دیکھنے کی چیز دکھائی نہیں دیتی

ایسی شکستہ پائی پہ قربان راستے

سہتی ہے جو عذاب، دہا ئی نہیں دیتی

کثرت جھلک جھلک میں جھلکتی ہے کو بہ کو

وحدت کسی جھلک کو رسائی نہیں دیتی

جاویدؔ تشنگی ہے کہ دیوانگی ہے یہ

قدموں میں جوئے آب سجھا ئی نہیں دیتی

٭٭٭

 

 

 

 

دل کی دیوانگی کا سماں ہر طرف

آسماں آسماں آسماں ہر طرف

سوجھتا ہی نہیں راستہ کیا کریں

اک دھواں، اک دھواں، اک دھواں، ہر طرف

اُڑ گئی، ہے زمیں، پاؤں رکھئے کہاں

فرش ہے یا کہ آبِ رواں ہر طرف

ایک دریا ہے پیروں سے لپٹا ہوا

بے سکوں، بے سکوں، بے کراں ہر طرف

اصل چہرے کی پہچان ممکن نہیں

عکس ہی عکس ہیں درمیاں ہر طرف

ایک صورت کی سو صورتیں بن گئیں

آئینے رکھ دیے ہیں یہاں ہر طرف

اتنی آنکھیں کہاں، دیکھ سکتے جو ہم

آپ کے حسن کی کہکشاں ہر طرف

آپ سے دور جاتے تو جاتے کہاں

آپ ہی آپ تھے مہر باں ہر طرف

کون کہتا ہے جاویدؔ جی مر گئے ؟

وہ تو موجود ہیں اے میاں ہر طرف

٭٭٭

 

 

 

 

قفس تو ہے مگر دکھتا نہیں ہے

جو یہ گھر ہے تو گھر دکھتا نہیں ہے

تم اپنے آشیاں کو رو رہے ہو

ہمیں اپنا شجر دکھتا نہیں ہے

مشینوں کے گھنے جنگل ہیں اتنے

کہیں دل کا نگر دکھتا نہیں ہے

ملے جب وہ اسے جی بھر کے دیکھو

وہ یاں بارِ دگر دکھتا نہیں ہے

صدف دو لخت جب تک ہو نہ جائے

صدف کو بھی گُہر دکھتا نہیں ہے

عجب وحشت میں ہم سب جی رہے ہیں

عجب ڈر ہے کہ ڈر دکھتا نہیں ہے

جہاں زیر و زبر کر کے وہ بو لے

جہاں زیر و زبر دکھتا نہیں ہے

فقیری میں ہم اتنے مطمئن ہیں

کسی کا کرّ و فر دِکھتا نہیں ہے

وہ سب سے با خبر رہتا تو ہو گا

وہ ہم سے با خبر دکھتا نہیں ہے

ہماری شاعری عرض ہنر ہے

مگر کارِ ہنر دکھتا نہیں ہے

میں جب بھی آئینہ دیکھوں ہوں جاویدؔ

بدن دِکھتا ہے سر دِکھتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اشک ڈھلتے نہیں دیکھے جاتے

دل پگھلتے نہیں دیکھے جا تے

پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں

پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے

تتلیاں ہاتھ بھی لگ جائیں تو

پر، مسلتے نہیں دیکھے جاتے

جبر کی دھوپ سے تپتی سڑکیں

لوگ، چلتے نہیں دیکھے جا تے

خواب دشمن ہیں زمانے وا لے

خواب، پلتے نہیں دیکھے جاتے

دیکھ سکتے ہیں، بدلتا سب کچھ

دل بدلتے نہیں دیکھے جاتے

کر بلا میں رخِ اصغر کی طرف

تیر چلتے نہیں دیکھے جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

دریا میں کاغذ کی کشتی ڈالی ہے

خوابوں میں جانے کی راہ نکالی ہے

اک تتلی کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں

اک تتلی کو رخصت بھی دے ڈالی ہے

اک ہرنی کے پیچھے گھوڑے ڈالے ہیں

اک ہرنی خود اپنے گھر میں پالی ہے

جس ہرنی کی آنکھوں پر ہم پاگل ہیں

وہ ہرنی وحشت کے جنگل والی ہے

وحشت کے اس بن میں گھر ہے پیارا سا

اس گھر کے اطراف بڑی ہریالی ہے

اونچی اونچی دیواریں ہیں اس گھر کی

لیکن ہر دیوار کے اندر جالی ہے

ہر جالی کے پیچھے کالی آنکھیں ہیں

ان کالی آنکھوں میں ہلکی لالی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو دل کی بات ہی کرنی نہیں تھی

تو کوئی بات بھی کرنی نہیں تھی

اگر اندر سے اتنا چاہنا تھا

تو با ہر بے رخی کرنی نہیں تھی

خطائیں اور تھیں کرنے کے لائق

خطائے عاشقی کرنی نہیں تھی

ہمیں یہ امتحاں دینا نہیں تھا

ہمیں یہ زندگی کرنی نہیں تھی

محبت بھول تھی تو بھول ایسی

کبھی بھولے سے بھی کرنی نہیں تھی

بکھر کے پھول یہ بولے شجر سے

ہوا سے دوستی کرنی نہیں تھی

ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ جاویدؔ

زمانے کی خوشی کرنی نہیں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

شجر سب چہچہوں کے اڑ گئے کیا

بھرے گھر الفتوں کے اڑ گئے کیا

یہ سورج پوچھتا پھرتا ہے سب سے

چمن تھے شبنموں کے اُڑ گئے کیا

کہاں جا کر ہم اپنی رات جاگیں

تھے کوچے رَت جگوں کے اُڑ گئے کیا

فلک کا چاند تو روٹھا ہوا تھا

ستارے بھی شبوں کے اُڑ گئے کیا

نئے مو سم میں طائر، پھول، پودے

پرانے موسموں کے اُڑ گئے کیا

چمن سنسان، جنگل بے زباں ہیں

پرندے ہجرتوں کے اُڑ گئے کیا

عجب حالت ہے دل کے آسماں کی

غبارے رنگتوں کے اُڑ گئے کیا

زمانہ ساتھ لے کر اُڑ رہا تھا

مسافر بے پروں کے اُڑ گئے کیا

ہوا گریاں ہے جلتے جنگلوں میں

مکیں ان جنگلوں کے اُڑ گئے کیا

زمیں روتی ہے خالی آسماں کو

نشاں بھی رحمتوں کے اُڑ گئے کیا

ہوا معصومیت سے پوچھتی ہے

منارے عظمتوں کے اُڑ گئے کیا

نظر آتے نہیں جاویدؔ صاحب

تھے عاشق عز لتوں کے اُڑ گئے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

گرمیِ با زار ہی سب کچھ نہیں

شہر ۰ شور و شار ہی سب کچھ نہیں

لکھنے والے کے لئے سوچیں بہت

اک دلِ بیمار ہی سب کچھ نہیں

ہے بہت کچھ عشق نا ہنجار بھی

عشقِ نا ہنجار ہی سب کچھ نہیں

تشنگی دل کی بجھا نے کے لئے

چشم و لب، رخسار ہی سب کچھ نہیں

بو ریا بھی ہے بہت، عزت کے ساتھ

کرسی و دستار ہی سب کچھ نہیں

نو بہ نو آ زار ہیں اک دل کے ساتھ

دل کا اک آ زار ہی سب کچھ نہیں

آپ کے دیدار کا کہنا ہی کیا

آپ کا دیدار ہی سب کچھ نہیں

گھر کے باہر ہیں، حریفوں کے حصار

گھر کے اندر یار ہی سب کچھ نہیں

دوریاں دل کی بڑی سنگین ہیں

درمیاں دیوار ہی سب کچھ نہیں

( * جائز خیال کرتا ہوں )

٭٭٭

 

 

 

اکیلا ہوں کہ تنہائی بہت ہے

کسی کی یاد بھی آئی بہت ہے

مجھے ہرجائی آنکھوں نے بنایا

مری آنکھوں میں بینائی بہت ہے

محبت۔۔ اور یہ عمرِ گریزاں

تعارف اور شناسائی بہت ہے

تعلق توڑنا آساں ہے لیکن

جدا ہونے میں رسوائی بہت ہے

تری سوچوں سے عاجز ہوں میں جاویدؔ

تری سوچوں میں گہرائی بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

پتھر وہ پتھر ہو تے ہیں

جو دل کے اندر ہو تے ہیں

کچھ لوگوں کے دل نہیں ہو تے

دل کی جگہ پتھر ہو تے ہیں

آپ بھی اپنا گھر بنوا لیں

سانپوں کے بھی گھر ہو تے ہیں

امن کے بھاشن دینے والے

ساتھ لئے لشکر ہوتے ہیں

دور گھروں سے رہنا سیکھو

جنگ کی زد پہ گھر ہو تے ہیں

فلک فلک، ہوائی حملے

زمیں زمیں لشکر ہوتے ہیں

(ق)

آدم زاد جہاں رہتے ہیں

وہاں یہی منظر ہو تے ہیں

٭٭٭

 

 

 

وہ گیا ابرِ رواں ٹھہرا رہا

اس کے جا نے کا سماں ٹھہرا رہا

پاؤں کے نیچے زمیں چلتی رہی

سر کے اوپر آسماں ٹھہرا رہا

مر حلہ ایسا بھی آیا کوچ کا

ہم چلے اور کارواں ٹھہرا رہا

بعد اپنے یاد باقی رہ گئی

بجھ گیا شعلہ دھواں ٹھہرا رہا

اصل مہماں کے چلے جانے کے بعد

صرف اک خالی مکاں ٹھہرا رہا

٭٭٭

 

 

 

پھول پر زخم نہ آنے دینا

دل نہ کانٹوں سے لگانے دینا

عشق کی آگ میں جلنا لیکن

عشق پر آنچ نہ آنے دینا

چھوٹی چڑیوں کو بڑے خطرے ہیں

ان کو محفوظ ٹھکانے دینا

جہاں ہجرت کے پرندے اتریں

وہاں افراط سے دانے دینا

اک دیا اور بجھانے والو

اک دیا اور جلا نے دینا

اے زمانوں کو بنانے والے

میرے لفظوں کو زمانے دینا

٭٭٭

 

 

 

 

بہتر تو ہے یہی کہ پر و بال کاٹ دے

یا پھر کو ئی فضا کے سبھی جال کاٹ دے

فن کار سنگ و چوب تراشے تو احتساب

موسم جو پیڑ پیڑ پہ اشکال کاٹ دے

اک عمر کاٹ دی ہے جہاں ہم نے کو ئی اور

اک روز، ایک ماہ، یا اک سال کاٹ دے

یا ہر عمل کے ساتھ لکھے سب محرکات

یا لکھنے والا نامۂ اعمال کاٹ دے

لکھے وہ حرف حرف جو دل پر گزر گیا

یا حرف حرف سارا ہی احوال کاٹ دے

جس طور سوچ، شعر اسی طور ہی سے لکھ

شاعر حصولِ داد کا جنجال کاٹ دے

جاویدؔ تا کُجا یہ فریب نبود و بود

اشیا سے ان کا رشتۂ تمثال کاٹ دے

٭٭٭

 

 

 

 

دل کے رستے پہ کچھ نہیں ملتا

لمبی لمبی مسافتیں اور برف

کیا دریچے کے پار دیکھو ہو

اونچی اونچی عمارتیں اور برف

آسماں، راستے، شجر اور گھر

زندگی کی علامتیں اور برف

سرد موسم میں ساتھ رہتی ہیں

جھوٹی، سچی حرارتیں اور برف

پھول چہروں کو رنگ دیتی ہیں

شوخیاں اور شرارتیں اور برف

لوگ اکتا گئے ہیں موسم سے

ہر طرف ہیں شکایتیں اور برف

آنے والے سہانے موسم کی

ہر زباں پر بشارتیں اور برف

کب سے با ہم دگر مقابل ہیں

آدمی کی مہارتیں اور برف

آپ نے بھی سمیٹ لیں جاویدؔ

کینیڈا کی حکایتیں اور برف

٭٭٭

 

 

 

 

ہاتھ اٹھائے تو دعا بھول گئے

مانگنے بیٹھے تھے کیا بھول گئے

جذب میں آ گئے جب وقتِ دعا

ہم ہیں بندے کہ خدا بھول گئے

یوں شب و روز کی اللہ اللہ

نام ہی اپنا گدا بھول گئے

بھول جانے پہ جو آئے اس کو

اور سب اس کے سوا بھول گئے

یاد رکھنے کی کبھی کوشش کی

جس نے جو زخم دیا بھول گئے

اپنے اندر وہ تماشے دیکھے

اپنے باہر جو ہوا بھول گئے

اپنے باہر کے خدا کو ڈھونڈا

اپنے اندر کا خدا بھول گئے

خود سے جب پہنچے خدا تک جاویدؔ

اپنے ہی گھرکا پتا بھول گئے

٭٭٭

 

 

 

کہیں سے آ ہی گیا ہے جو پیار جیسا کچھ

مزے سے کھینچئے اب انتظار جیسا کچھ

خزاں کی شام میں پہلی نظر کا چاند کھلا

خزاں کی شام میں جھمکا بہار جیسا کچھ

کبھی تو ایسا ہو اپنی حسین دنیا میں

نہ جنگ ہو نہ کہیں، کارزار جیسا کچھ

یہ کیسا وقت ہے ہر چھوٹے ملک کے اطراف

کھنچا ہوا سا لگے ہے حصار جیسا کچھ

سفید برف سے لڑتے ہیں سب گلی کے لوگ

سفید برف کا گرنا ہے وار جیسا کچھ

میں لفظ لفظ اترتا رہا ہوں کاغذ پر

سو میرے بعد رہے یاد گار جیسا کچھ

٭٭٭

 

 

 

سچ رکھا یا کوئی دھوکہ رکھا

آئینے نے ہمیں الٹا رکھا

باغ کے سارے شجر بھیگ گئے

بارشوں نے کسے سوکھا رکھا

سامنا ہو تو ہوا سے پوچھوں

ڈالیوں میں کو ئی پتّا رکھا

رکھنے والے نے جدائی رکھی

ایک کو ایک کا پردا رکھا

رکھا نانا کو مدینے میں الگ

کربلا تجھ میں نواسا رکھا

بڑی مشکل مجھے پیش آئی ہے

بڑی مشکل سے سنبھا لا رکھا

تو جو بکھری ہو ئی سچائی ہے

میں نے مالک تجھے یک جا رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

منزلیں دور گم ہوئی ہوں گی

وقت پیما الٹ گئے ہوں گے

اور تاریخ کی کتابوں کے

چند پنّے پلٹ گئے ہوں گے

کارواں منتشر ہوا ہو گا

لوگ راہوں میں بٹ گئے ہوں گے

دائرے دائروں میں گم ہو کر

اصل مر کز سے ہٹ گئے ہوں گے

پیڑ خالی ہوئے ہیں چڑیوں سے

چیل شکرے جھپٹ گئے ہوں گے

اب نہ بچے ہیں نا غبارے ہیں

ایک اک کر کے پھٹ گئے ہوں گے

زندہ لو گوں کی کھوج جاری ہے

ڈھیر ملبے کے چھٹ گئے ہوں گے

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل