FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

طلوع

ضیا فتح آبادی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل
پی ڈی ایف فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں …..

طلوع

ضیا فتح آبادی

آرزو کا نہ خُون کر ساقی

دل دکھانے سے کچھ تو ڈر ساقی

دیکھ گھنگھور وہ گھٹا آئی

لا صراحی، پیالہ بھر ساقی

کر کیف کی خلّاقی ساقی

حسرت نہ رہے باقی ساقی

یوں دور ہو جام رنگیں کا

ہر لب پر ہو ساقی ساقی

چمن میں شور ہے ابر بہار آیا ہے

جہانِ غنچۂ و گل پر نکھار آیا ہے

پیالہ تو بھی مئے ارغواں سے بھر ساقی

کہ پُر اُمید ترا میگسار آیا ہے

کام شام و سحر ہے مستی سے

میں ہوں آزاد رنج ہستی سے

کیوں میں، اے فکر باطل فردا!

باز آ جاؤں مے پرستی سے

لے کالی گھٹائیں آئی ہیں

پرُکیف ہوائیں آئی ہیں

لا بادۂ و مینا اے ساقی

ہر سمت بہاریں چھائی ہیں

دور میں جام ارغوانی ہے

صحبتِ عیش جاودانی ہے

کیا ڈراتا ہے مجھ کو اے واعظ

میں جواں ہوں، مری جوانی ہے

ہے غلامی سے اسیری اچھی

اور امیری سے فقیر اچھی

جس میں حاصل نہ ہو آرام ضیا!

اس جوانی سے تو پیری اچھی

جھٹپٹا وقت، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا

آسماں پر خرام بادل کا

جان و دل کو خرید لیتی ہے

ایسے عالم میں بانسری کی صدا

جب جہاں محو خواب ہوتا ہے

بیچ کر عقل و ہوش سوتا ہے

موت دنیا پہ دیکھ کر طاری

میں بھی روتا ہوں، دل بھی روتا ہے

شب کی تاریکیوں میں گُم ہے جہاں

حُکمراں ہر طرف ہے خواب گراں

میری آنکھیں لگی ہیں تاروں سے

یہ بھی میری طرح ہیں سوز بجاں

ہے مُخالف اگر جہاں، پھر کیا

تیغ برسر ہے آسماں، پھر کیا

پاؤں میرے نہ ڈگمگائیں گے

سخت مشکل ہے امتحاں، پھر کیا

داستانِ الم سُنا دوں گا

داغ ہائے جگر دکھا دوں گا

وقت کا انتظار ہے مجھ کو

پردۂ راز خود اٹھا دوں گا

سوز مطلق ہے داستاں میری

کہہ سکے گی نہ کچھ زباں میری

ابھی آتِش کدے میں دل کے ضیا!

بند ہے آتشِ نہاں میری

ہے مُخالف ہوا زمانے کی

ان کو عادت ہے دل دکھانے کی

اے ضیا! کام لے تحمل سے

ہے ضرورت یہاں نبھانے کی

اپنی دھن ہی میں مست رہنے دو

زحمت اضطراب سہنے دو

میرے بارے میں دوستو! تم سے

کوئی کہتا ہے کچھ تو کہنے دو

شمع احساس جلتی رہتی ہے

آگ دل میں ابلتی رہتی ہے

لب پر آتا نہیں مگر شکوہ

چُپکے چُپکے پگھلتی رہتی ہے

واقف عیش و غم شناسا ہے

نور و ظلمت کا آئینہ سا ہے

حامل وسعت و نشیب و فراز

دل کی دنیا عجیب دنیا ہے

ابر چھایا ہے آسماں پہ ضیا

اور کیف آفریں ہے بادِ صبا

آرزوئیں ہیں اضطراب انگیز

کیا بتاؤں کہ چاہتا ہوں کیا

رات، اف کس قدر ہے ظلمت کوش

ہیبت افزا، ڈراؤنی، خاموش

دور اس وقت گا رہا ہے کوئی

میں سراپا بنا ہوا ہوں گوش

یہ مانا خموشی سے سب کچھ سہے گا

نہ اپنی زباں سے کبھی کچھ کہے گا

مگر تیری غمّاز نظروں سے اے دل

عیاں راز الفت کا ہو کر رہے گا

تجربہ ایک بار کر دیکھو

دل کو بے اختیار کر دیکھو

مجھ سے کیا پوچھتے ہو حالِ فراق

ایک دن انتظار کر دیکھو

حُسن کو بد گمان ہونا ہے

عشق کا امتحان ہونا ہے

صبر کر اے ضیا! ابھی تیری

حسرتوں کو جوان ہونا ہے

زندگی نذر جام اُلفت ہے

یہ بھی مل جائے تو غنیمت ہے

عشرت جان و دل سمجھ اس کو

ورنہ دنیا نہیں، مصیبت ہے

سر میں سودائے جستجو بھی ہے

دل میں مٹنے کی آرزو بھی ہے

موردِ مرگ زندگی ہے ضیا!

ذوقِ غم بھی، مذاقِ ہُو بھی ہے

قتل کرنا ہے اگر، کر بھی دے

ہدفِ تیغ نظر کر بھی دے

ناوک غمزۂ دل دوز کی خیر

ٹکڑے دل اور جگر کر بھی دے

روئے رنگیں ذرا دکھائیں تو

میرے دل کی خلِش مٹائیں تو

ساتھ غیروں کے ہی سہی، لیکن

وہ ضیا! ایک بار آئیں تو

داستانِ الم سُناؤں کسے

داغ ہائے جگر دکھاؤں کسے

کوئی اپنا نہیں ہے دنیا میں

راز داں اپنا میں بناؤں کسے

عشق اور حُسن کو جدا سمجھے

آہ، سمجھے بھی یہ تو کیا سمجھے

میری دیوانگی پہ خنداں ہیں

’ہوش‘ اور  ’عقل‘ سے خدا سمجھے

درد کو ہم کنار کرتا ہوں

رات دن انتظار کرتا ہوں

سادہ لوحی مری کوئی دیکھے

حُسن کا اعتبار کرتا ہوں

حاصل سعی نا تمام نہ پوچھ

لذتِ  آرزوئے خام نہ پوچھ

دیکھ ہونٹوں پہ رنگِ بتخالہ

حالِ  اُمیدِ تشنہ کام نہ پوچھ

مجھ سے پوچھو کہ ’عشق‘ چیز ہے کیا؟

اور کہتے ہیں کس بال کو وفا

ان حسینوں کو کیا خبر اس کی

جن کے پیش نظر ہے صرف جفا

کون اپنا ہے یہاں اور کسے بیگانہ کہوں

لب تک آ پہنچی ہے جو بات کہوں یا نہ کہوں

اے ضیا! عالم ہستی میں ہے نفسی نفسی

آہ کس سے دل پُر درد کا افسانہ کہوں

مفلسی کا گلہ کروں توبہ

بے بسی کا گلہ کروں توبہ

بے وطن ہوں وطن سے کوسوں دور

پھر کسی کا گلہ کروں توبہ

آسماں سے مجھے شکایت ہے

باغباں سے مجھے شکایت ہے

پُر ہے شکووں سے داستاں میری

اک جہاں سے مجھے شکایت ہے

عاصیوں کی سزا یقینی ہے

ہر مرض کی دوا یقینی ہے

ہے خدا کے یہاں اگر انصاف

ظلم کی انتہا یقینی ہے

رات بھر آسماں ڈراتا ہے

اور دن آگ میں جلاتا ہے

میری ناکامیاں کوئی دیکھے

زندگی سے بھی خوف آتا ہے

حق و باطل میں امتیاز بھی ہے

ناز بھی مجھ میں ہے، نیاز بھی ہے

خود ہی ہستی کی سجدہ گاہ ہوں میں

اور پھر حسرت نماز بھی ہے

کام دیتی نہیں ہے کچھ تقدیر

ساتھ جب تک نہ اس کے ہو تدبیر

ہے میرا تجربہ کہ دونوں میں

ایک پر ہے تو ایک نوک تیر

اک طرف خار زار، عصیاں کا

اک طرف باغ، دین و ایماں کا

کار گاہِ جہاں میں شام و سحر

امتحاں ہو رہا ہے انساں کا

ہے انسان مجسّم کما ل الٰہی

امینِ صفات و جلالِ الٰہی

نگاہِ بصیرت سے کر غور غافل

تجھی میں چُھپا ہے جمال  الٰہی

فلسفی سے غرض نہیں ہے مجھے

مدّعی سے غرض نہیں ہے مجھے

حُسن فطرت کا میں تو جویا ہوں

اور کسی سے غرض نہیں ہے مجھے

موت کو زندگی سمجھتا ہوں

بے خودی کو خودی سمجھتا ہوں

حُسن کو دیکھتا ہوں ہر شے میں

رنج کو بھی خوشی سمجھتا ہوں

سر سبز ہے گلزار جہاں ابرِ کرم سے

ہر پھول یہاں کا ہے حسیں باغ ارم سے

بے جسم بھی با جسم بھی ہے تیری تجلی

یہ راز کھلا سیر کلیسا و حرم سے

ِ

صبح مشرق سے آفتاب آیا

دور بیدار ہمرکاب آیا

خواب غفلت سے آنکھ کھول ضیا!

دیکھ دنیا میں انقلاب آیا

فائدہ کیا تمہارے ڈرنے سے

رات دن آہِ سرد بھرنے سے

ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے ہو،

کچھ نہیں ہوتا کچھ نہ کرنے سے

دست و پا تو ہلائیے حضرت

کچھ مشق اُٹھائیے حضرت

وقت باتوں کا اب نہیں باقی

کام کر کے دکھائے حضرت

قید مذہب سے جو رہے آزاد

نہیں ممکن وہ مُلک ہو برباد

ٹکڑے ہوتی ہے اس سے ’جمعیت‘

قومیت اس سے ہوتی ہے ناشاد

آنکھوں سے اشکِ گرم کہاں تک بہایئے

تکمیلِ  ذوق ہو چُکی، بس باز آیئے

دُنیا میں رہ کے دیکھیئے دنیا کی محفلیں

جنگل میں جا کے خاک نہ ہر سُو اُڑائیے

آ رہا ہوں کدھر سے، کیا معلوم

جا رہا ہوں کہاں، خدا معلوم

نہ مرے ساتھ کوئی رہبر ہے

نہ مجھے اپنا راستہ معلوم

نا امیدی ہے، بے قراری ہے

دن پہاڑ اور رات بھاری ہے

لیکن اس پر بھی لطف یہ ہے ضیا!

زندگی جان سے بھی پیاری ہے

ِ

نشیب دہر، فراز جہاں کو دیکھ لیا

نشاط و عیش و سرور و فغاں کو دیکھ لیا

ہر ایک دست فنا کی گرفت میں ہے ضیا!

مکیں کو دیکھ لیا اور مکاں کو دیکھ لیا

راز اس زندگی کا کیا معلوم

کیا طلسمات ہے خدا معلوم

کام انساں کا خود پرستی ہے

اس سے بڑھ کر نہ کچھ ہوا معلوم

دیکھ کر بے نقاب جلوۂ نور

ہو گیا تھا سیاہ دام طور

اس سے ثابت ہوا کہ دنیا میں

ظلمتیں بھی ہیں نور میں مستور

وہم ہے ہستیِ باطل اپنی

چمن اپنا ہے نہ محفل اپنی

دم پہنچ کر وہیں ہم لیں گے ضیا!

قبر ہے آخری منزل اپنی

کہیں ماتم ہے، کہیں شادی ہے

کوئی نالاں، کوئی فریادی ہے

اب حقیقت یہ کھلی مجھ پہ ضیا!

نام ویرانے کا آبادی ہے

ناشاد نہ ہو دہر سے جانے والے

پاتے ہیں خوشی رنج اٹھانے والے

کر دیتے ہیں زندگی جو اپنی برباد

رکھتے ہیں انھیں یاد زمانے والے

٭٭٭

ماخذ:

https://ziafatehabadi.weebly.com/uploads/2/0/7/0/20704710/kuliyaat_e_zia_fatehabadi_vol.1.pdf

پی ڈی ایف سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل
پی ڈی ایف فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل