FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اردو کا پہلا آن لائن سہ ماہی ادبی جریدہ

فہرست مضامین

سَمت

مدیر

اعجاز عبید

شمارہ ۶۱، جنوری تا مارچ ۲۰۲۴ء

اداریہ

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

اداریہ

مجھے کہنا ہے کچھ …….

نئے سال کے نئے شمارے کے ساتھ حاضر ہوں۔ مگر کس دل سے نئے سال کی آمد پر خوشیاں منائی جائیں جب کہ غاصب اسرائیل کی جانب سے مسلسل معصوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ پچھلے شمارے کا یکم اکتوبر کو اجراء ہونے کے بعد اگلے ہی ہفتے اسرائیل کے حملے شروع ہو گئے، نام نہاد طوفان اقصیٰ کے خلاف۔ جو مسلسل جاری ہیں۔ خدا کرے کہ نئے سال میں اس پر روک لگ جائے۔ خواہش تو یہی ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی زمین واپس مل جائے، لیکن کم از کم یہ دعا تو فوری قبولیت پا سکتی ہے کہ ان پر مظالم کا خاتمہ ہو جائے۔

بہر حال زیرِ نظر شمارے میں ایک خصوصی گوشہ فلسطین کے موضوع پر شامل کیا جا رہا ہے۔

ایک بات یہ بھی کہنی ضروری ہے کہ اس بار کچھ تخلیقات ایسی ہیں جو ایک سے زائد زمروں میں شامل کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً محمود درویش ، خالد جمعہ اور رفعت العریر کی عربی نظمیں، جن کے ترجمے گوشۂ فلسطین میں شامل ہیں۔ اور اس وجہ سے ’مانگے کا اجالا‘ زمرہ الگ سے شامل نہیں ہے۔  اسی طرح ’گاہے گاہے باز خواں ‘کے تحت اقبال کی فارسی نظم  ؔحضور رسالتؐ‘ کا ترجمہ بھی اس زمرے کے علاوہ، ’مانگے کا اجالا‘ کے تحت بھی شامل کیا جا سکتا ہے اور ’عقیدت‘ کے تحت بھی۔

مشہور افسانہ نگار سلام بن رزاق کی زیر نگرانی سوشل میڈیا پلیٹ فارم واٹس ایپ پر بزم افسانہ نامی گروپ کافی فعال ہے۔ اس گروپ میں پچھلے دنوں ہمارے دوست سید محمد اشرف کا مشہور افسانہ ’بادِ صبا کا انتظار‘، جو اسی نام کے مجموعے میں شامل ہے، پیش کیا گیا اور اس پر گفتگو کی گئی۔ یہ افسانہ اور اس پر گفتگو اس شمارے میں شامل کی جا رہی ہے۔

کچھ عرصے سے یاد رفتگاں سلسلہ موقوف تھا، جو از حد مسرت کی بات تھی۔ لیکن اس سہ ماہی میں یکے بعد دیگرے تین ستون ڈھہ گئے۔ اسلامیات کے نبض شناس، ڈرامہ نگار اور شاعر انور معظم ارض دکن میں ہی انتقال کر گئے۔ وہ عرصے سے ادبی طور سے خاموش تھے، اور ان کا تعارف محض مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو کے شوہر کی حیثیت سے ہی ہونے لگا تھا۔ بہر حال سَمت کے قارئین کو ان کا مکمل تعارف دینے کی ضرورت تھی، اس لئے ان پر گوشہ بھی شامل اشاعت ہے۔ اس کے علاوہ افسانہ نگار انور قمر اور اردو اور ادب کے فعال جہد کار امام اعظم بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ ان دونوں پر گوشے بھی شامل اشاعت ہیں۔

اصغر وجاہت کے ہندی ناولٹ ’من ماٹی‘ کا اردو روپ ’خاکِ دل‘ کے عنوان سے پچھلے شمارے میں شامل کیا گیا تھا۔ اس شمارہ ۶۱ میں اس ناولٹ کی دوسری اور آخری قسط پیش کی جا رہی ہے۔

امید ہے کہ یہ شمارہ بھی آپ کو پسند آئے گا۔

اپنی آراء سے نوازتے رہیں اور تخلیقات سے بھی۔ بطور خاص نظمیں اور افسانے، کہ معیاری نظموں اور افسانوں کا فقدان ہے۔

ا۔ع

پس تحریر:

یہ شمارہ مکمل ترتیب پا چکا تھا کہ ایک عزیز دوست کے انتقال کی خبر ملی، اردو ویب کی معروف شخصیت، ایک نابغۃ روزگار ہستی، اردو محفل کے بنیاد گذار اور ہر دلعزیز رکن محمد وارث اسدؔ اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان شاء اللہ ان کے تعارف کے ساتھ مختصر گوشہ اگلے شمارے میں شائع کیا جائے گا۔ یہ سطور بھی صرف ویب پر پوسٹ کی جا رہی ہیں، یہ اضافہ ڈاؤن لوڈ کئے جانے والے جریدے کی فائلوں میں نہیں ملے گا کہ اب ان کی باز ترمیم اور باز تشکیل کا یارا نہیں۔
رہے نام اللہ کا.
ا۔ ع۔

عقیدت

تازہ نعتِ حضورؐ ۔۔۔ جلیل عالی

دل جو یادِ حرا جِیا ہی نہیں

آشنائے خدا ہوا ہی نہیں

جس کی خاطر یہ کائنات بنی

کون سی شے پہ اُسؐ کی شاہی نہیں

دیکھ لہجہ لبِ رسالت کا

مامتائی ہے انتباہی نہیں

اُن لبوں نے نہ جس پہ جُنبش کی

وہ سمجھ مرضیِ خدا ہی نہیں

جانے کیا درد مندیاں اُسؐ کی

آنکھ رستے جو دل بہا ہی نہیں

جس کو سیرت نہ ہو سکی ازبر

اس پہ قرآں کبھی کھلا ہی نہیں

ایسا صاحب جنوں بھی کیا معنی

اُسؐ کے لشکر کا جو سپاہی نہیں

طائف و بدر کی گواہی ہے

اس کی تعلیم خانقاہی نہیں

اُس درِ خیرِ تام پر عالی

مانگنے کی کوئی مناہی نہیں

٭٭٭

گاہے گاہے باز خواں…..

حضور رسالتؐ ۔۔۔ سر محمد اقبال / ترجمہ: شفیق فاطمہ شِعریٰ

مرسلہ : ارشد مسعود ہاشمی

نوٹ از ارشد مسعود ہاشمی، مدیر معاصر مجلہ اردو سٹدیز

اس ترجمے کا صرف ایک حصہ ‘سرود رفتہ’ کے عنوان سے ”شعرو حکمت“ کے شمارہ 7-6، 1974 میں شائع ہوا تھا۔ مکمل ترجمہ شعریٰ نے کبھی شائع نہیں کروایا۔  موجودہ ترجمہ شعریٰ کی بہن ڈاکٹر ذکیہ فاطمہ، اور شعریٰ کے فرزندوں کی عنایت سے ’اردو اسٹڈیز ‘کے لیے موصول ہوا تھا۔ ’شعرو حکمت‘ میں شائع شدہ حصے اور پیش نظر مسودے کے مصرعوں میں جا بجا فرق موجود ہے۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اولین اشاعت کے بعد اسے از سر نو مکمل کیا گیا تھا۔ باقر مہدی کے نام نومبر 1956 کے مکتوب میں شعریٰ نے لکھا تھا کہ وہ ’ارمغان حجاز‘ کا منظوم ترجمہ مکمل کر چکی ہیں۔ (’شفیق فاطمہ شعریٰ کے کلام کا ایک جائزہ‘۔ ’جامعہ‘، جنوری تا مارچ 2004۔ ص  63) اس لحاظ سے یہ ترجمہ شعریٰ کی نوجوانی کے زمانے کا ہے۔ ’جاوید نامہ‘ کے ’فلک قمر‘ کے چند حصوں کے ترجمے ”سوغات“ (چھٹا شمارہ 1961) میں شائع ہوئے تھے۔ شعری اس ترجمے کو بہت عزیز رکھتی تھیں۔ اس کی اشاعت مقصد اس سرمایہ کی حفاظت ہے۔

٭٭

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنیدؓ و بایزیدؓ اینجا

عزت بخاری

۱

تو اے خیمہ نشیں خیمہ کو چھوڑ اب

کہ پیش آہنگ منزل تک رواں ہے

خرد تھک تھک کے پیچھے رہ چکی ہے

جنوں کے ہاتھ اب دل کی عناں ہے

تڑپ ہو یا سکوں سر چشمہ ان کا

یہی محفوظ اپنا جوہر دل

نہ راس آئی ہوائے قریہ و شہر

کشادہ دشت میں پایا در دل

قرار یک نفس سے جو ہے محروم

یہ دل کس کا شہید آرزو ہے

ہوا کچھ اور صحرا میں فسردہ

تو اشک افشاں کنار آبجو ہے

یہی ہے کاروان جلوہ مستاں

نہیں جویا جو اسباب جہاں کے

جرس کا شور سن کر ان کے دل میں

بھڑک اٹھے شرر آہ و فغاں کے

شب پیری میں یثرب لے چلا ہے

مجھے جذب و سرود عاشقانہ

کہ جیسے طائر صحرا سر شام

اڑے بے تاب سوئے آشیانہ

۲

گناہ عشق و مستی عام ہے آج

دلیل پختہ کاری خام ہے آج

حجازی لے میں پھر نغمہ سرا ہوں

ازل کے کیف سے پر جام ہے آج

نہ پوچھو ان مقامات نوا کو

ندیموں کو خبر کیا میں کہاں ہوں

اسی خلوت میں دشت بیکراں کی

جو تنہا ہوں تو تنہا نغمہ خواں ہوں

۳

چل آہستہ کہا ناقہ سے میں نے

کہ راکب پیر ہے اور ناتواں ہے

مگر مستانہ قدموں سے رواں وہ

کہ گویا ریگ صحرا پرنیاں ہے

مہار اے سارباں اس کی ہٹا دے

اسے بھی دی گئی ہے چشم بینا

یہ بتلاتی ہے اس کی طرز رفتار

کہ درد دل سے پر ہے اس کا سینہ

جو دیکھی میں نے اس کی چشم پرنم

تو یاد آنے لگے مجھ کو مرے غم

وہی مے جس سے روشن ہے مرا دل

چھلکتی ہے نظر سے اس کی پیہم

۴

یہ کیسا دشت ہے جس میں مسافر

کھنچے آتے ہیں مشتاق و ثنا خواں

کرو اس ریگ سوزاں پر وہ سجدے

جبیں جن سے ہو مثل مہ درخشاں

یہاں کی شام میں جلوے سحر کے

فضائیں نو دمیدہ اور پر نور

مسافر اور آہستہ قدم رکھ

ہر اک ذرہ کا دل زخموں سے ہے چور

۵

امیر کارواں کون اجنبی ہے

جو آہنگ عرب میں گا رہا ہے

کہ اس کے گیت کی شادابیوں سے

بیاباں لہلہاتا جا رہا ہے

عجب آتش ہے اس کے آب و گل میں

مقام عشق و مستی اس کی منزل

مسافر اس کے نغمہ کو یہ سمجھے

کہ ہے وہ خود انھیں کا نالۂ دل

۶

غم دل بے کہے خود ہی عیاں ہے

زباں تک آئے تو اک داستاں ہے

دیا بھی بجھ گیا تاریک شب میں

رہِ پر پیچ و راہی خستہ جاں ہے

بہاروں سے بنے صحرا بھی گلزار

ہوئے احباب یکجائی سے سرشار

مجھے راس آئی بس تنہا نشینی

تو آ بیٹھا کنار جوئے کہسار

۷

کبھی ورد زباں شعر عراقیؔ

کبھی جامی ؔ سے میں آتش بجاں ہوں

نہیں معلوم آہنگ عرب اور

شریک نغمہ ہائے سارباں ہوں

غم راہی نشاط آمیز تر ہو

فغاں اس کی جنوں انگیز تر ہو

کوئی راہ دراز اے سارباں ڈھونڈ

مرا سوز جدائی تیز تر ہو

۸

ادھر اے کشتۂ شان جمال آ

کہ ہم مل کر بہائیں اشک پیہم

جبینیں رکھ کے سنگ آستاں پر

سنائیں ان کو بھی افسانۂ غم

متاع جلوۂ مستانہ پا کر

سمجھتا ہے کہ حکمت نارسا ہے

وہ قسمت کا دھنی درویش جس پر

در سلطان کھلتا جا رہا ہے

جہان چار سو باطن میں ہے گم

ہوائے لامکاں سودائے سر ہے

ہوئی اس اوج تک کیوں کر رسائی

پر پرواز بھی خود بے خبر ہے

اسی وادی کی خاک بے بہا سے

اگیں گے بے صور ایسے معانی

کلیمی اور حکمت جن سے ہم دوش

کہ کہہ سکتا ہے مشکل لن ترانی

۹

وہ درویش فلک رتبہ مسلماں

نہیں سینہ میں اس کے آہ سوزاں

نہ جانے اس کا دل کیوں رو رہا ہے

کرم اے غم گسار بے نوایاں

تڑپ ہے دل میں تیرے سوز غم سے

مرے نغمے تری تاثیر دم سے

یہ رونا ہے کہ ارض ہند میں اب

نہیں واقف کوئی میر امم سے

خبر ہندی غلاموں کی بھی لیجے

شب غم کو نوید صبح دیجے

وہ ہیں مشرق کی اک بیچارہ تر قوم

نگاہ فیض اک ان پر بھی کیجے

گہر میں ارجمندی جس کی پہچان

یہی ملت وہ رفعت کا ستارہ

خدا اس محنت جاں کا پاسباں ہو

نہ ہو افتاد سے یہ پارہ پارہ

بتا کر اس کی حالت فائدہ کیا

کہ ہے پنہاں بھی تجھ پر آشکارا

یہی ہے اپنی دو صدیوں کی روداد

کہ ضرب غم سے دل ہے پارہ پارہ

فلک کی گردشیں اب بھی وہی ہیں

نہ بدلے دہر کے آئین و دستور

نہیں سالار کوئی کارواں کا

مسافر منزلوں سے ہیں بہت دور

نہ اس کے خوں میں باقی وہ تب و تاب

نیام و کیسہ بے شمشیر و بے زر

کتاب اس کی رہین طاق ویراں

گلستاں اس کا محروم از گل تر

دل اس کا اب اسیر رنگ و بو ہے

نظر بھی بے فروغ آرزو ہے

اسے قلزم کے طوفاں کی ہو کیا تاب

فقط وہ آشنائے آبجو ہے

دل آگاہ سے محروم ہے وہ

نہیں اس کی خودی اب آسماں گیر

حریم ذکر بھی مدت سے ویراں

ضمیر اس کا تہی از بانگ تکبیر

۱۰

گریباں چاک و بے فکر رفو ہے

نہیں معلوم کیوں بے آرزو ہے

ہے مرگ ناتمام انجام اس کا

کہ وہ بیگانۂ اللہ ہو ہے

حق اس کا بخش چاہے وہ نہ مانگے

کہ غیرت مند ہے اس کی فقیری

در مے خانہ پا کر بند اب موت

وہ چاہے جان لیوا تشنگی کی

جہان نو ہو پیدا اس کے دل میں

جو اس کی خاک ہو دوبارہ روشن

چراغ اس کا کہیں گل ہو نہ جائے

ہوا ہے تیز اور وہ چاک دامن

مقام نیستی کے بے بصر کو

عروس زندگی خلوت میں ہے غیر

گنہگار اک ہے پیش از مرگ در گور

نکیریں اک کلیسا اور اک دیر

نہیں نور و سرور آنکھوں میں اور دل

نہیں سینہ میں محو نالۂ زار

خدا اس قوم کا یار و مددگار

کہ جس سے چھن چکی ہے روح بیدار

مسلماں زادہ اور نامحرم مرگ

ہراساں مرگ سے وہ تا دم مرگ

دل آگاہ سے محروم سینہ

تنفس سرد و دھیما اور غم مرگ

۱۱

ملوکیت سراپا شیشہ بازی

نہ ایمن اس سے رومی نے حجازی

غم یاراں سنا دوں پیش خواجہؐ

یہی شاید ہو وقت دل نوازی

یہ ملت مٹ نہیں سکتی جہاں سے

کہ ہے اس کی بنا میں پائیداری

کسی نباض نے کی ہے یہ تشخیص

خودی پر اس کی رعشہ سا ہے طاری

خجل کرتی ہے اس کو بے کلاہی

ملا دیں کھو کے فقر خانقاہی

جہاں میں کیا ہے میراث مسلماں

گلیم اک رشک تاج بادشاہی

نہ مجھ سے پوچھ حال زار اس کا

زمیں ہے سخت اور دور آسماں ہے

ترا پروردۂ انجیر طائر

تلاش دانہ میں گم گشتہ جاں ہے

کیے دور زماں کے راز افشا

سراغ منزل ہستی بتایا

مگر کچھ اور ہوتی شرح و تعبیر

کبھی نطق عرب مجھ کو جو ملتا

مسلماں بے سپاہ و اسلحہ ہے

مگر اس کا ضمیر اک شاہ کا ہے

مقام گم شدہ پا لے اگر وہ

جمال اس کا جلال حق نما ہے

اساطیر کہن ہے دولت شیخ

حدیث اس کی وہی تخمین و ظن ہے

ابھی اسلام زناری ہے شاید

حرم اک دیر ہے وہ برہمن ہے

مٹا دے گی یہ لادینی جہاں کو

بدن کا اک اثر کہتے ہیں جاں کو

وہ بادہ جس سے تھے صدیقؓ سرشار

عطا کر آج پھر لب تشنگاں کو

حرم بھی رنگ و بوئے دیر میں گم

بت اپنا پیر ہے آشفتہ مو اب

نہیں ہم تیرہ بختوں کا مقدر

دل روشن بہ نور آرزو اب

یہ صف بستہ رہے مسجد میں جب تک

ہلا ڈالے شہنشاہوں کے ایواں

وہ آتش جب ہوئی افسردہ دل کی

تو درگاہوں میں کھنچ آئے مسلماں

وہ باہم بر سر پیکار ہیں آج

محبت میں جو تھے مشہور دوراں

جو ٹوٹے خشت مسجد کی تو برہم

رہے جس سے ہمیشہ خود گریزاں

جھکائیں پیش غیر اللہ ماتھے

یم پر شور اور محتاج شبنم

خطا اپنی ہے کیا شکوہ کسی سے

ترے شایان شاں ہرگز نہ تھے ہم

پیالے مے گساروں کے ہیں خالی

نہیں غم خواہ محفل اپنا ساقی

فقط اک آہ ہے محفوظ دل میں

کہ جس کی اصل ہے وہ نور باقی

سبوئے خانقاہاں خالی از مے

تو مکتب طے شدہ راہوں کے درپے

حریم شعر بھی ویران و بے سوز

سرود زندہ سے نا آشنا نے

مسلماں ہوں سدا کا بے وطن ہوں

مجھے اس خاکداں سے کیا سروکار

شکستوں نے جو اکسایا تو پھر ہوں

میں غیراللہ سے سرگرم پیکار

تری بخشی ہوئی رفعت سے اڑ کر

خود اپنے نغمہ کی آتش میں تڑپا

وہ مسلم موت بھی ہو جس سے لرزاں

بہت ڈھونڈا کہیں اس کو نہ پایا

بہت پیش خدا رویا میں اک رات

مسلماں کیوں ہیں زار و خوار و مضطر

ندا آئی وہ دل رکھتے ہیں لیکن

نہیں ان کا کوئی دلدار و دلبر

شکوہِ رفتہ کے قصے کہوں کیا

بیاں کرنا ہے بس احوال دوراں

دو صدیوں کی مخالف آندھیوں نے

بجھا دی دل کی شمع نور افشاں

نگہبان حرم صورت گر دیر

یقیں کھویا ہوا نظریں سوئے غیر

پتہ چلتا ہے انداز نگہ سے

کہ ہے نومید باب رحمت و خیر

تڑپ سے اس فقیر رہ نشیں کی

عطا اس کو ضمیر آتشیں ہو

دل افسردہ میں جاگیں امیدیں

امیدوں میں نہاں نور یقیں ہو

یہ خوں ریزی مری بے تیغ و شمشیر

یہاں گر گر کے پھر اٹھنا روا ہے

ذرا تو بھی تو آ جا بر سر بام

کہ عصر نو سے اپنا معرکہ ہے

سوئے یثرب سفر بے کارواں ہو

یونہی تنہائی و آہ و فغاں ہو

ادھر مکتب ادھر میخانۂ شوق

تو خود فرما دے اب منزل کہاں ہو

اڑایا مجھ کو نم دیدہ پروں نے

وہ باران حرم میں میری پرواز

مرے دل سے مرے تار نفس سے

نکلتی تھی حرم کے دل کی آواز

نہ میرے نخل سے خرما کبھی وہ چکھ پائے

نہیں سمجھے وہ میرا راز پنہاں

سن اے میر امم فریاد میری

مجھے سمجھا گیا بس اک غزل خواں

نہ سمجھو شاعری تم اس نوا کو

کہ موتی آگہی کے جس نے دمکائے

تپایا اس توقع پر مس خام

کہ فیض عشق سے اکسیر ہو جائے

ترا فرمان ہے اے میر امم یہ

کہ مردوں کو پیام زندگی دے

مگر مجھ سے کیا جاتا ہے اصرار

کہ تاریخ وفات مردہ لکھیے

غم پنہاں سے چہرہ زعفرانی

لہو روتی ہے چشم ارغوانی

مری آواز بھی تھرا گئی اب

سن اک افسانہ آنکھوں کی زبانی

زباں اپنی زبانِ بے زبانی

تجھے خود دل کی حالت کا پتہ ہے

خطا ہے اپنے فن میں لب کشائی

زباں خاموش ہے اور چشم وا ہے

دیا میں نے پیام خود شناسی

جگایا آب و گل میں اس کے زمزم

مجھے وہ آہ سوزاں دے کہ جس سے

غمِ دیں کے سوا مٹ جائے ہر غم

بجز دود نفس سینہ میں کیا ہے

ہمیں تیرا ہی بس اک آسرا ہے

کہیں افسانۂ غم اور کس سے

کہ تو ہی درد اپنا جانتا ہے

غریب و درد مند و بے نوا ہے

سخن کے سوز سے پگھلا ہوا ہے

یہ دل جو بے نیاز دو جہاں ہے

تجھے معلوم ہے کیا چاہتا ہے

نسیم صبح سے کیوں رنگ و نم لوں

کہ ہوں پروردہ تیرے فیض دم کا

مزاج ناکساں نظروں میں رکھ کر

نہ آیا مجھ کو اب تک شعر کہنا

یہ دریا بے کنار و پر خطر ہے

بجز دل کون اپنا راہبر ہے

ترے کہنے سے چن لی راہ بطحا

وگرنہ تو ہی مقصود سفر ہے

نہ مشتاقوں کو لوٹا آستاں سے

کہ دل بے تاب ہے سوز نہاں سے

ہوئے ہیں دست کش پھر تاب و توں سے

شکیب و صبر ہم پائیں کہاں سے

کبھی دل میں فرنگی بت بسائے

کبھی دامن کشاں تھا جلوۂ دیر

رہا خود سے مگر یوں بے خبر میں

کہ اپنی ضو کو سمجھا جلوۂ غیر

چکھی ہے میں نے بھی ہمدم مے غرب

نہ اس میں سوز و ساز درد مندی

ہیں یاد اب تک وہ خوبان فرنگی

کہ اب تک روح میں باقی ہے اک کرب

مرا تنکا پہاڑوں کو ہلا دے

اسی ہنگامہ کا میں منتظر ہوں

یہ درد سر ہے میرا درس حکمت

کہ میں پروردۂ فیض نظر ہوں

مجھے ملا و صوفی سے غرض کیا؟

میں اپنی راہ خود پہچانتا ہوں

فقط اللہ لکھ دے لوح دل پر

کہ خود کو اور اس کو جان پاؤں

دلِ ملّا اسیر غم نہیں ہے

کبھی اس کی نگہ پر نم نہیں ہے

کنارہ کش ہوں میں مکتب سے اس کے

کہ اس کے نجد میں زمزم نہیں ہے

سر منبر خطابت، اس پہ نازاں

کہ ہے وہ خود مجسم اک دبستاں

مگر کہتے ہوئے تجھ سے خجل ہوں

وہ ہے ہم پر عیاں اور خود سے پنہاں

دل صاحب دلاں کس نے لبھایا

پیام شوق پہنچایا ہے کس نے

کمان دین کے ہم دونوں دو تیر

ہدف اپنا مگر پایا ہے کس نے

کوئی محرم نہیں محفل میں میرا

میں اپنی مشکل اب کس کو بتاؤں

نہ ہو جائے کہیں راز نہاں فاش

غم دل سب سے کہتے ڈر رہا ہوں

کسی کے دام میں یہ دل نہ الجھا

رہا خود اپنے ہی بادہ سے مخمور

بنایا جب کبھی غیروں کو رہبر

تو کوسوں اپنی منزل ہو گئی دور

وہی سوز جنوں ہے اب بھی سر میں

وہی ہنگامے برپا ہیں نظر میں

ابھی طوفان رفتہ کے اثر سے

تلاطم سا ہے اک موج گہر میں

ابھی یہ خاک دارائے شرر سے

ابھی سینہ میں اک آہ سحر ہے

تجلی تیری ہے آنکھوں میں اپنی

بسا لوں اب بھی وہ تاب نظر ہے

نظاروں سے نظر ہے بے نیاز اب

کہ دل سوز دروں سے گھل رہا ہے

کہاں یہ عصر بے اخلاص و بے سوز

کہاں میں اے خدا یہ راز کیا ہے

جب ایسے دور میں پیدا ہوا میں

تو کیوں بخشی مجھے یہ روح پر شور

بنی یہ زیست تعزیر مسلسل

کیا اس کشمکش نے زندہ در گور

رہے بیگانہ مجھ سے لالہ و گل

نہ لب تک آ سکا حرف تمنا

رہے مکتوم دل میں راز کتنے

اگر کہتا بھی میں تو کس سے کہتا

میں خود کو اس جہاں کی وسعتوں میں

ہمیشہ بے وطن پاتا رہا ہوں

بنایا دل کو آخر محرم راز

یونہی غربت کو بہلاتا رہا ہوں

کیا باطل طلسم عصر حاضر

اٹھایا دانہ اور دام اس کا توڑا

خدا نے مثل ابراہیم مجھ کو

بچایا آگ سے گلشن میں چھوڑا

ہوئی بینا فروغ لا الہ سے

نظر میری تو شاید منتظر ہے

وہ صبح من رآنی جس کے انوار

طلوع دمبدم ہیں تیرے دم سے

نہ خود اپنی جھلک جب دیکھ پایا

تری ضو نے مقام اپنا بتایا

نوائے صبح سے میں نے زمیں پر

جہان عشق و مستی اک بسایا

بہشت جاوداں ہے اک جہاں میں

مرے اشکوں سے سبزی جس کا تر ہے

نہیں وہ ہاو ہو اس کی فضا میں

کسی آدم کی گویا منتظر ہے

اسے ہے انتظار اس نوجواں کا

جو خود آگاہ ہو اور پاک جاں ہو

قوی بازو ہو جو مانند حیدر

دل اس کا بے نیاز دو جہاں ہو

ہے کب سے میکدہ ویران ساقی

اٹھا پھر اپنے جام زر فشاں کو

مرے سینہ میں دل ہو ایسا جس سے

بدل دوں جس سے تقدیر جہاں کو

مدار عالم امکاں ہے وہ عیش

کہ سرچشمہ ہے جس کا سینہ تیرا

بتا دوں یہ کہ ہے روح الامیں کون

وہ ہے اک جوہر آئینہ تیرا

مرے ساغر کی مے تیرا ہی زمزم

مرا یہ سوز تیرے فیض دم سے

ترا مسکن ہے جب سے میرے دل میں

ہے روشن تر مرا دل جام جم سے

کسی سے جب نہ میں نے دل لگایا

ہوا یہ بتکدہ تاراج مجھ سے

وہی بت کل جسے توڑا تھا میں نے

طلب کرتا ہے سجدے آج مجھ سے

مری مشت غبار اب سرخرو ہے

کہ اس میں ایک لالہ کھل رہا ہے

نہ کیجے گا قبول اس ارمغاں کو

بجز دل میرے پاس اب اور کیا ہے

حضور ملت بیضا میں تڑپا

نوا کی دلگدازی پائی پیہم

یہی ہے مختصر روداد میری

تپیدم آفریدم آرمیدم

یہ صدق فطرت رندانہ میرا

طفیل اس کے مراد دل بر آئے

برس جائے سحاب فیض کھل کر

مرا نخل تمنا بار لائے

کوئی معمورۂ گیتی میں میری

متاع دل کا غارت گر نہیں ہے

مرے سینہ میں ہو تیرا بسیرا

کہ مجھ سے کوئی تنہا تر نہیں ہے

اذاں دی ہے حرم میں مثل رومی

اسی کی نے سے ہوں آتش بجاں میں

بہ دور فتنۂ عصر کہن وہ

بہ دور فتنۂ عصر رواں میں

کھلا دے خاک میں میری گلستاں

شگوفوں کو مرا خون جگر دے

نہیں گر اہل میں تیغ علیؓ کا

تو ان کی تیغ جیسی اک نظر دے

ہوا آسودۂ ساحل مسلماں

کہ سہماتا ہے اس کو شور طوفاں

بجز مجھ بے نوا کے کس کو معلوم

وہ زخم اس کے دل مضطر میں پنہاں

کہا کس نے کہ اب سجنے کو ہے بزم

دیا کس نے پیام نو بہاراں

ہوا سوز کہن جب اس کا رخصت

شرر نے کس کے بھڑکایا نیستاں

گہر دے بحر دے اس آبجو کو

وہی دولت بہ کوہ و دشت و در دے

نہ راس آیا مجھے طوفان بے جوش

مجھے پر گوش طوفان دگر دے

یہ میری جلوتوں کی نے نوازی

یہ میری خلوتوں کی خود گدازی

بزرگوں کی عطا اک نکتۂ فقر

در سلطاں سے میری بے نیازی

میں جس حالت میں تھا نغمہ سرا تھا

نقاب روئے معنیٰ ہٹ رہا تھا

نہ پوچھ اب مجھ سے راز قربت دوست

ابھی میں تھا ابھی میں گم شدہ تھا

دل ہر نالہ کا میں ترجماں تھا

ضمیر زندگی کا راز داں تھا

نہ جانے کون تھا میرا مخاطب

کہ میں تنہائیوں میں نغمہ خواں تھا

تجلی تیری نظروں میں بسا لوں

کہ دیکھوں دل میں کیا ہے مہر و مہ کے

لرزتا ہوں مسلماں کہہ کے خود کو

کہ واقف ہوں مقام لا الہ سے

ترے در پر گداز یک نوا بس

مری یہ ابتدا یہ انتہا بس

کہا یزداں سے ہم کو مصطفے بس

۱۲

مجھے بخشا گیا وہ نغمۂ شوق

جو پتھر سے نکالے آبجو کو

یہ ہے اب آرزو میری کہ جاوید

تری الفت سے پا لے رنگ و بو کو

یہ زنگی کج کلاہوں سے نہ بچ پائے

وہ گل رخسار و شوخ شنگ و طرار

مرا شاہیں ہے نو آموز پرواز

نہ ہو جائے اسیر زلف زرتار

جو غیر اللہ کو دل دے نہ پائے

انھیں میری جہاں تاب اک نظر دے

اس آتش سے جو بھڑکی میرے دل میں

مسلماں زادگاں کو کچھ شرر دے

۱۳

وہ خاک پاک وہ خاک در دوست

مژہ سے اپنی چومی ہے جو جھک کر

اسے عبد العزیز اک سجدہ سمجھا

رکھا بے دینی کا الزام مجھ پر

تو سلطان حجاز اور میں ہوں نادار

مگر اک قطرۂ قلزم نما ہوں

جہان لا الہ جس میں ہے آباد

میں اس معمورۂ دل کی صدا ہوں

سراپا درد بے درماں ہوں لیکن

نہ سمجھو زار و پیر و ناتواں ہوں

میں تیر شیر افگن ہوں تمھارا

ابھی افتادہ و دور از گماں ہوں

ہر اک ذرہ ہے رقصاں آؤ ہم بھی

جہاں سے دل ہٹا کر رقص کر لیں

حریم دوست بن جائے شفق زار

نظر سے خوں بہا کر رقص کر لیں

بیاباں سے ترا وہ دشت روشن

کہ جس کی شام بھی ہے صبح پیکر

جہاں چاہے وہاں خیمہ لگا دے

طناب غیر سے لیکن حذر کر

مسلماں ہیں اور آزاد از مکاں ہیں

غبار راہ اپنے آسماں ہیں

وہ ذوق سجدہ پایا ہے کہ جس سے

ہر اک بت کے بہا کے راز داں ہیں

نہ روشن کر سکے گی رہگذر کو

فرنگی شمع کی دم توڑتی لو

نگاہیں قرض لو از چشم فاروقؓ

وہ دیکھو سامنے اک عالم نو

٭٭٭

گوشۂ فلسطین

اسرائیل کے قیام کے متعلق بعض تاریخی تسامحات ۔۔۔ محمد علم اللہ

فلسطین پر اسرائیلی بمباری کا دوسرا دن تھا۔ کثیر تعداد میں معصوم اور بے گناہ لوگ، جن میں بوڑھے، بچے اور خواتین شامل تھیں، جاں بحق ہو رہے تھے۔ اپنے آن لائن انگریزی کی کلاس میں جب میں عالم افسردگی میں بیٹھا ہوا تھا تو میرے امریکی نژاد استاذ نے افسردگی کی وجہ دریافت کی۔ میں نے غزہ کے روح فرسا حالات کا ذکر کیا، جس پر گفتگو ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچی کہ اسرائیلی مظلوم ہیں اور یہ کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔

ہمارے استاذ کی عیسائی شریک حیات نے دلیل دی کہ فلسطین کی زمین در حقیقت یہودیوں کی تھی، جس پر مسلمانوں نے قبضہ کیا تھا۔ کسی ایسے شخص کی طرف سے اس قدر ناقص اور خلاف تاریخ بیان سن کر مجھے حیرانی تو ہوئی مگر افسوس بھی ہوا کہ جس کی پوری زندگی پڑھنے پڑھانے اور علم و حکمت کی گفتگو کرتے گذری تھی، ان کے دماغ میں بھی زہر بھرا ہوا ہے۔ میں نے انھیں بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ خود ساختہ تاریخ اور صہیونی پروپیگنڈے کا اس قدر شکار تھے کہ انہیں تاریخی واقعیت سمجھانا آسان نہیں تھا۔

اس واقعے کو ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ میں نے اسی قسم کا بیانیہ خود اپنے کئی مسلم بھائیوں سے سنا۔ سوشل میڈیا پر بھی کئی جگہوں پر اس قسم کی تحریریں دیکھنے کو ملیں۔ تاریخ کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے ایسی باتیں مجھے بہت آزردہ کرنے والی تھیں۔ اسی آزردہ طبعی نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا۔

تو آئیے جانتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور حقائق کو کیسے مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے:

تاریخی طور پر فلسطین میں اسرائیل کے قیام پر صہیونی قبضے تین محاذوں پر آگے بڑھے: 1) قتل عام، دہشت گردی اور نقل مکانی، 2) عوامی زمینوں کی لوٹ مار، 3) اراضی اور جائیداد کی منتقلی۔ تاریخ کے لحاظ سے اس کی وضاحت کرنے کے لیے، آئیے آخر سے شروع کرتے ہیں:

1800 کی دہائی میں جب سلطنت عثمانیہ نسبتاً مستحکم تھی، دنیا کے کئی ممالک سے مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگ سرزمین فلسطین پر نمودار ہونے لگے۔ اس وقت ریاست کی سیاست اور توازن کی پالیسیوں کے فریم ورک کے اندر مختلف ریاستوں اور ان کی رعایا کو مراعات دی گئیں، انہیں عبادت گاہیں بنانے، جائیدادیں خریدنے کے حقوق اور رئیل اسٹیٹ کے لین دین میں نرمی برتی گئی۔ فلسطین میں فلسطینی النسل یہودی، عیسائی اور مسلمان آباد تھے۔ حال ہی میں یورپ اور دیگر خطوں سے آنے والے یہودیوں نے اس فریم ورک کے اندر زمینیں خریدیں اور بستیاں قائم کیں۔ اس وقت کے اس ماحول میں کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ یہودی ایک دن مقامی آبادی کو اپنے وطن سے بے دخل کر کے وہاں ایک قابض ریاست قائم کر لیں گے۔ لیکن سلطان عبد الحمید کے دور میں جب صیہونی ریاست ایک خطرے کے طور پر ابھری تو سلطنت عثمانیہ نے یہودیوں کو جائیداد کی فروخت کو روکنے کے لیے ہر طرح کی احتیاط برتی۔ ہمارے پاس اس وقت کے عرب علما کے بہت سے فتوے موجود ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ باہر کے یہودیوں کو جائیداد اور زمین فروخت کرنا ’’مذہبی طور پر ناجائز اور حرام‘‘ ہے۔

زمین اور جائیداد کی فروخت کے حوالے سے درج ذیل باتوں پر غور کرنا ضروری ہے: خاص طور پر فلسطین، لبنان اور مصر کے شمالی علاقوں میں عرب زمینداروں کے وسیع علاقے تھے جن میں زیادہ تر غیر مسلم تھے۔ مثال کے طور پر وادی مرک ابن عامر حیفہ کے جنوب مشرق میں درجنوں دیہاتوں اور ان علاقوں میں رہنے والے ہزاروں عرب کسانوں کے ساتھ، لبنان سے تعلق رکھنے والے سرسوک خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سرسوک جو یونانی آرتھوڈوکس عیسائی تھے، نے ان سالوں میں عثمانی حکومت سے زمین خرید لی اور 1912 اور 1925 کے درمیان، انہوں نے اسے صیہونی تنظیموں کو فروخت کر دیا۔ اسی طرح یروشلم میں جس زمین پر اسرائیلی پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، وہ کبھی یروشلم یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ کی ملکیت تھی۔

1900 کی دہائی کے اوائل سے جیسے ہی سلطنت اپنے آخری دنوں میں کمزور ہونی شروع ہوئی، اس نے خطے پر اپنا مؤثر کنٹرول کھونا شروع کر دیا۔ دنیا کے کونے کونے سے فلسطین آنے والے یہودیوں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری زمینوں پر قبضہ کر لیا اور نیم فوجی ملیشیاؤں کے ذریعے گھیرے ہوئے علاقوں پر قائم کردہ کھیتوں ”کبوتزم“ کی حفاظت پر توجہ مرکوز کی۔ یہ مسلح ملیشیا، مختلف ناموں سے اسرائیل کے قیام کے عمل کے دوران منظم ہوئیں، جن میں سے کچھ کو ختم کر دیا گیا اور دیگر نے مل کر اسرائیلی فوج کی بنیاد رکھی۔

فلسطین میں بسنے والے سویلین اور مقامی آبادی کے خلاف قتل عام، دہشت گردی اور جبری نقل مکانی صہیونی قبضے کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے اور مؤثر ترین طریقے تھے۔ 1930 کی دہائی کے دوسرے نصف حصے سے لے کر 1948 تک فلسطینی علاقوں نے اپنی تاریخ کے سب سے خونیں اور سب سے زیادہ تنازعات والے ادوار کا تجربہ کیا۔ ساڑھے سات لاکھ سے زائد افراد کو مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرنی پڑی، 20 ہزار سے زائد شہری مارے گئے، دیہاتوں کو آگ لگا دی گئی اور لوٹ مار کی گئی اور جو کچھ پیچھے رہ گیا وہ خوفناک تجربہ، قتل و غارت گری، بے ایمانی اور استحصال کے لا متناہی سلسلے تھے جو اسرائیل کے وجود میں آنے کے لئے کسی بھی ریاست کے قیام کے دوران ہونے والے ’نقصانات‘ سے کہیں زیادہ تھے۔ تقریباً ایک ہزار فلسطینی بستیوں کو نقشے سے مٹا دیا گیا اور مقامی لوگوں کی چھوڑی ہوئی ہر چیز پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا۔ اسرائیل کی بنیادیں خون کے سمندر کے درمیان رکھی گئیں۔

ان سب کے علاوہ، 1948-1949، 1967 اور 1973 میں عربوں کے ساتھ جنگوں کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کی متعدد جائیدادوں اور زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ اس تناظر میں نوآبادیاتی نظام جس کا ہم نے مختصراً تذکرہ ’بستیوں‘‘ کے طور پر کیا ہے، اس پر الگ سے بحث کی جانی چاہیے۔ سنہ 1967 میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد جن علاقوں میں فلسطینی رہتے تھے ان کے لیے ’یہودیت کے مستقل طریقے‘ کے طور پر استعمال کی جانے والی آباد کاری کی پالیسی اب ایک ایسے نقطہ میں تبدیل ہو چکی ہے جس نے اسرائیل کی داخلی سیاسی زمین کو مکمل طور پر زہر آلود کر دیا ہے۔

یہاں پر اس تاریخی تناظر کو بھی یاد کرنا ضروری ہے جو خلافت عثمانیہ کے دور میں بیت المقدس کی مقدس سرزمین کو گھیرے ہوئے تھا۔ اس زمانے میں یہ زمین صرف مسلمانوں کے لیے وقف تھی اور اس کی خرید و فروخت پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔ یہ مقدس سرزمین کے طور پر قابل احترام علاقہ تھا اور بیت المقدس کے مسلمان باشندوں اور خلافت عثمانیہ کے درمیان ایک مضبوط معاہدہ تھا۔ اس عہد میں اوقاف کا قیام، زمین کے لین دین پر مستقل ممانعت اور یہ یقین دہانی شامل تھی کہ یہاں کے باشندوں کو ان کے وطن سے زبردستی بے گھر نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ، جسے عام طور پر ’کشان‘ کہا جاتا ہے، ایک پختہ عہد تھا جس میں دیگر اہم دستاویزات کے ساتھ ایک کلید بھی شامل تھی۔ جس کے مطابق ایک فرد کے پاس متعدد کشان بھی ہو سکتے تھے، ہر ایک اپنے حقوق اور دعووں کی نمائندگی کرتا تھا۔ یہاں یہ ذکر اہم ہے کہ اس عرصے میں یہودی، عیسائی اور مسلمان فلسطین میں مقیم تھے، جہاں یہودیوں کی آبادی محض 3 فی صد تھی۔

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی افواج نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ دھوکہ دہی سے، برطانوی انتظامیہ نے اس قبضے کے لیے ’مینڈیٹ‘ کی اصطلاح رائج کی، جو گمراہ کن طور پر آزادی کے مشن کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے ایک داستان کا پرچار کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ عثمانی ظالم تھے اور انگریز اس سرزمین کو آزادی دلانے کے لیے موجود تھے۔ ان کے جانے کے بعد، عثمانیوں نے کشان کی دستاویزات ان کے حق داروں کو سونپ دیں۔ ایسے معاملات میں جہاں جلد بازی یا لاجسٹک مسائل کی وجہ سے مالکان کی شناخت نہیں ہو سکی، یہ دستاویزات عراقی شاہ فیصل کو منتقل کر دی گئیں۔ اس کے بعد شاہ فیصل نے یہ دستاویزات موجودہ اردنی بادشاہ کے دادا عبد اللہ اول کے حوالے کر دیں۔

تسلیم شدہ حکومت کی عدم موجودگی میں ریاست کی عدم موجودگی واضح ہو جاتی ہے۔ برطانوی حکومت کی طرف سے من گھڑت باتیں اس تاریخی سچائی کے سامنے غیر اہم ہیں۔ افواہیں یہ بھی گردش کر رہی ہیں کہ اردن کے شاہ عبد اللہ اوّل نے کشان دستاویزات کو برطانیہ کو بیچ دیا یا چھوڑ دیا۔ 1924 سے 1948 تک برطانیہ نے منظم طریقے سے یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کے جانے کے بعد، اسرائیل کو ایک ریاست قرار دیا گیا، جس نے فلسطینیوں کو سلطنت، ریاست، حکومت، فوج یا عدلیہ کے بغیر چھوڑ دیا۔ اس حوالے سے راشد خالدی نے بڑا اچھا کام کیا ہے جو ایک فلسطینی نژاد امریکی مورخ ہیں اور جنھوں نے فلسطین کی تاریخ اور اسرائیل فلسطین تنازع پر کئی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے کام تنازعات کے تاریخی تناظر کا گہرائی سے تجزیہ فراہم کرتے ہیں۔

نور مصالحہ ایک فلسطینی تاریخ داں اور مصنف ہیں جو فلسطین کی تاریخ پر اپنی تحقیق بشمول نکبہ (1948 کا فلسطینیوں کا خروج) کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کام اسرائیل کی تخلیق کے ارد گرد کے واقعات پر تنقیدی تناظر فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق فلسطینیوں کی جانب سے اپنی زمین کو اپنی مرضی سے فروخت کرنے کے دعوے اسرائیلی اور برطانوی استعمار کی طرف سے جاری مسخ شدہ بیانیے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ جو بھی اس طرح کے دعوے کی آواز اٹھاتا ہے اس کی سخت مخالفت کی جانی چاہیے۔ اس کے بجائے، عثمانی کشان کی مستند دستاویزات پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اسرائیلی اور برطانوی دستاویزات قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں۔ اس امکان پر بھی غور کرنا مضحکہ خیز ہے کہ فلسطینی جنہوں نے اپنی سرزمین کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، یہودیوں کو چھوڑ کر اسے کسی کو بھی بیچ دیں گے۔ مزید برآں، وہ زمین جو فلسطینیوں کو فروخت کرنے کے لیے واضح طور پر ممنوع تھی، یہودی آباد کاروں کو کیسے فروخت کی جا سکتی ہے؟ یہ دعوے استدلال اور تاریخی درستی کی نفی کرتے ہیں۔

نوجوان نسل کو اس بات کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے کہ فلسطین کی سرزمین مقدس ہے جس کا خاکہ خلافت عثمانیہ اور فلسطینیوں کے درمیان ’کشان معاہدے‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ فلسطین کو وقف کے طور پر نامزد کرتا ہے، جو فلسطینیوں کی مجازی ملکیت کی نشاندہی اور اس کی فروخت کو باطل بناتا ہے۔ چونکہ ایک چھوٹے سے کالم میں بہت ساری چیزوں کو نہیں سمیٹا جا سکتا اس وجہ سے ہم نے یہاں محض جدید تاریخ کے حوالے سے گفتگو کی ہے، تاہم اس بابت ایلان پیپے، بینی مورس، ایڈورڈ سعید اور جوزف مساد وغیرہ کے کاموں کو دیکھنا چاہیے جو اس حوالے سے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ اگلے کالم میں قدیم تاریخ اور مذہب کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔

٭٭٭

شام و فلسطین ۔۔۔ علامہ اقبال

رندان فرانسیس کا مے خانہ سلامت

پُر ہے مے گل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا

٭٭٭

فلسطینی عرب سے !۔۔۔ علامہ  اقبال

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ ِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے

٭٭٭

ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے ۔۔۔ فیض احمد فیض

یہ نظم فیضؔ نے فلسطین کے مجاہدوں کے نام ١٥ جون ١٩٨٣ کو لکھی تھی۔ یاسر عرفات سے فیض کی قریبی دوستی تھی۔

ہم جیتیں گے

حقا ہم اک دن جیتیں گے

بالآخر اک دن جیتیں گے

کیا خوف ز یلغار اعدا

ہے سینہ سپر ہر غازی کا

کیا خوف ز یورش جیش قضا

صف بستہ ہیں ارواح الشہدا

ڈر کاہے کا

ہم جیتیں گے

حقا ہم اک دن جیتیں گے

قد جاء الحق و زھق الباطل

فرمودۂ رب اکبر

ہے جنت اپنے پاؤں تلے

اور سایۂ رحمت سر پر ہے

پھر کیا ڈر ہے

ہم جیتیں گے

حقا ہم اک دن جیتیں گے

بالآخر اک دن جیتیں گے

٭٭٭

پھر فلسطین پر بم گرا ۔۔۔ غضنفر

پھر فلسطین پر بم گرا

ان گنت لوگ مارے گئے

سیکڑوں بے مکاں ہو گئے

باپ کے سامنے ایک معصوم بیٹے کا سر کٹ گیا

دھڑ کسی کا جدا ہو گیا

ماں کے آغوش میں لاڈلا چل بسا

جسم کے چیتھڑے اڑ گئے

ایک بیٹی کو دشمن اٹھا لے گئے

ماں کوئی مر گئی

گاؤں کے گاؤں بارود کی آگ میں جل گئے

پوری بستی ہی سونی ہوئی

شہر ویراں ہوئے

مسجدیں، مدرسے، خانقاہیں سبھی نذرِ آتش ہوئیں

اس دفعہ جل گئے وہ مقامات بھی

جو جِلاتے تھے انسان کو

جان رکھتے تھے بے جان میں

دانہ، پانی، دوا، ہر طرح کی غذا ہو گئے بند انسان پر

بچ گئے تھے جو بارود سے

بھوک سے مر گئے

کربلا بن گئی پھر سے کوئی زمیں

چپ ہے پھر بھی مہذب جہاں

اے خدا آ گئے ہم کہاں

٭٭٭

فلسطین کے شہیدوں کے نام ۔۔۔ عشرت معین سیما

میری بے شکوہ آنکھوں میں

جو بینائی تھی، وہ مر چکی تھی

یہ جو منظر لیے پھرتی ہوں میں اکثر

کسی ویران بستی کے

یہاں پر خاک اُڑاتی،

ہوا نوحے سناتی ہے، رُلاتی ہے

یہاں آہیں بھٹکتی ہیں

در و دیوار سے ٹکرانے والی گرم یہ ظالم ہوائیں

بین کرتی ہیں

یہاں پر گونگے لفظوں کی دعائیں

عرش تکتی ہیں، بہت آنسو بہاتی ہیں

لہو کے رنگ میں تر لوٹ آتی ہیں

یہاں معصوم بچے موت کو بانہوں میں لے کر

بھینٹ چڑھ جاتے ہیں دہشت کی

یہاں زیتون کے باغوں میں

مائیں دفن کرتی ہیں

جواں بچے

یہاں پر نوجوانی میں سسکتی شام

مہندی نوچ کر

لباسِ بیوگی تقسیم کرتی ہے

مگر حیرت ہے

جب‘ اللہ اکبر! کی صدائیں

خدا کے شکر میں سجدے میں گرتی ہیں

لہو کی گرم جب بارش برستی ہے

مہک تازہ لہو کی پھر یہ نغمہ گنگناتی ہے

شہادت مرتبہ اولیٰ ہے اور یہ شانِ مومن ہے

(جنگل میں قندیل ۲۰۱۷)

٭٭٭

۔۔۔ اور فلسطین ۔۔۔ پیرزادہ قاسم

قتل گاہ کی رونق

حسب حال رکھنی ہے

غم بحال رکھنا ہے

جاں سنبھال رکھنی ہے

زور بازوئے قاتل

انتہا کا رکھنا ہے

دشنہ تیز رکھنا ہے

اور بلا کا رکھنا ہے

اور کیا مرے قاتل

انتظام باقی ہے

کوئی بات ہونی ہے

کوئی کام باقی ہے

وقت پر نظر رکھنا

وقت ایک جادہ ہے

ہاں بتا مرے قاتل

تیرا کیا ارادہ ہے

وقت کم رہا باقی

یا ابھی زیادہ ہے

میں تو قتل ہونے تک

مسکرائے جاؤں گا

٭٭٭

غزل ۔۔۔ گلناز کوثر

بے سبب خوں بہانا تو معمول کی بات ہے اور معمول کی بات پر سوچتا کون ہے؟

ہاں مگر ننھے جسموں کے پرزے اڑاتے ہوئے وحشیو! یہ بتاؤ تمہارا خدا کون ہے؟

یہ بتاؤ کہ معصوم دل اور آنکھیں کچلتے ہوئے روح لرزی نہیں؟ ہاتھ کانپے نہیں؟

تم ابھی بھی اگر خود کو انساں سمجھتے ہو پھر شہر میں دندناتا ہوا بھیڑیا، کون ہے؟

اور تم بھی جو کمزور کے دکھ پہ کڑھتے ہو، نعرے لگاتے ہو انصاف کے، رحم کے، امن کے؟

تم کہو چیتھڑوں میں دبی سانس کو ٹوٹتے دیکھ کر مُسکراتا ہوا، مسخرا، کون ہے؟

اور تم سب بھی جو یہ سمجھتے ہو ہم تو پیمبر ہیں، ہادی ہیں، صوفی ہیں، شاعر ہیں، درویش ہیں

تو جلو میں تمہارے چلی آ رہی ہے جو انسان کے ماس پر پلنے والی بلا، کون ہے؟

کیا کہوں میں تو اپنے ہی اندر کہیں سر اٹھاتی ہوئی ایک کایا پلٹ سے پریشان ہوں

مجھ میں میرے سوا اور کوئی نہیں ہے تو بڑھ بڑھ کے جی کی رگیں نوچتا، کاٹتا، کون ہے؟

یہ بھی کیوں مان لوں دفن ہوتے ہوئے بیَن کے شور میں میری اپنی صدائیں بھی موجود ہیں

میں یہاں گر جنازے اٹھانے پہ مامور ہوں تو وہاں قاتلوں کی صفوں میں کھڑا، کون ہے؟

٭٭٭

فلسطین تجھے سلام ۔۔۔ سردار سلیمؔ

اے فلسطین! تری خاک کے ذروں کو سلام

تیرے جلتے ہوئے زخموں کی شعاعوں کو سلام

تیرے بچوں، ترے بوڑھوں کو جوانوں کو سلام

ان کی رگ رگ میں مچلتے ہوئے جذبوں کو سلام

تو مقدس ہے، مرا قبلہ اول ہے تو

تیری دیواروں کو محرابوں کو طاقوں کو سلام

تو شہادت گہہ الفت کا وہ مرکز ہے جہاں

زندگی اٹھ کے کرے موت کے پنجوں کو سلام

ہے رواں اب بھی جہاں قافلۂ ایوبی

اے فلسطین ترے شہر کی گلیوں کو سلام

خسروی قیصری تقدیر پہ ان کی نازاں

تیرے باشندوں کے ہاتھوں کی لکیروں کو سلام

جان قربان ترے در کے فقیروں پہ مری

صدق دل سے میں کروں تیرے امیروں کو سلام

میرا تابوت سکینہ ہے ترا سنگ در

تیری چوکھٹ پہ چہکتی ہوئی چڑیوں کو سلام

تیرے آنگن میں مہکتے ہیں لہو کے بوٹے

تیرے دروازوں سے لپٹی ہوئی بیلوں کو سلام

تیری دھرتی کے چراغوں کی لویں زندہ باد

تیرے امبر کے پرندوں کی اڑانوں کو سلام

رشک فردوس بنایا ہے جنھوں نے تجھ کو

پیش کرتا ہوں میں ان سارے قبیلوں کو سلام

غازیوں کو ترے نذرانہ آداب و نیاز

مر مٹے تجھ پہ جو ان سارے شہیدوں کو سلام

پیار ان بچوں کو پڑھتے ہیں جو مکتب میں ترے

دیکھتی ہیں جو تجھے روز ان آنکھوں کو سلام

جن کے دل میں ہے تمنا تری آزادی کی

تیرے احرار کے پر جوش ارادوں کو سلام

پیش اگر سات سمندر بھی کریں تو کم ہے

خوں میں لتھڑے ہوئے معصوم جنازوں کو سلام

عرض کرتے ہوئے تھراتا ہے شاعر کا قلم

اے فلسطین! ترے نام کے ہجوں کو سلام

کام ہے جن کا ترے حق میں دعائیں کرنا

پیش کرتا ہے سلیم ان کی دعاؤں کو سلام

٭٭٭

دو نظمیں ۔۔۔ الیاس بابر اعوان

فلسطین کے نام

تاریخ کے کالے پنوں پر

تقدیس کی سرخ عقیدت سے

کچھ منظر سینچے جائیں گے

کچھ باتیں لکھی جائیں گی

بارود پہ جن کا نم ہو گا

دنیائے رنگ و نُور کے ہاتھ میں

بندِ قبا کا غم ہو گا

اور بڑے بڑے ایوانوں میں

ارفع اور زرّیں باتوں کی دستار اچھالی جائے گی

تاریکی بچے جنمے گی

اور علم کو تلچھٹ خانے سے

دو گھونٹ پلائے جائیں گے

سچائی کا ویرانے میں اسقاطِ حمل ہو جائے گا

سب سوچنے والے ذہنوں میں

تشکیک پروئی جائے گی

اور اِندر خانے میں جب جھوٹ کے پاؤں بنائے جائیں گے

تم دیکھنا عریاں لاشوں پر

سورج کی چادر پھیلے گی

صہیونی توپوں کے لشکر پر

خوف کے بادل چھائیں گے

تب راکھ کے رحم سے پھُوٹے گا

اک پھول ضیا پھیلاتا ہُوا

ننھے بچوں کی قبروں پر

جب صبح کا تاج سجا ہو گا

اور خندق خندق غزہ کو ہم

دستارِ فلک پر دیکھیں گے۔

بس وقت کی نیلی چرخی میں

جس سُوئی نے آگے چلنا ہے

وہ سُوئی ہمارے ساتھ نہیں

ہم ہاتھوں والے لوگوں میں

بس اک دوجے کا ہاتھ نہیں

٭٭٭

زعمِ ناخدائی کا طلسم

بموں کے سرخ حاشیے پہ

زعمِ ناخدائی کا طلسم دیکھیے ذرا

گلاب سے بنا ہُوا لطیف گال

چیر کر عدو کے تازیانے سے

صدف مثال خون سنگِ مرمریں میں ڈھل گیا

پھسل پھسل رہے ہیں اُمتِ ملال کے قدم

مراقبوں میں غرق اشتعال سے پرے پرے

سپاہ کا مزاج ناگہانیوں سے ڈر گیا

اُدھر یہود اور نصاریٰ آشنائے سامری

گھروں کو راکھ کر رہے، زمیں کو تنگ کر رہے

لباس تار تار ہے حریم سرزمین کا

نہ عصمتوں کی بے دری کسی شمار میں پڑی

نہ مرقدوں کی شکل ہے، نہ آئنے بچے ہوئے

مسجدوں پہ گر رہے بموں سے پھوٹتی ہوئی

اذاں نہیں سُنی گئی

فقط مذمتوں کی دھُن میں چیختے ہیں قافلے

جو اک ملالِ محض ہے

یہ امتِ ضعیف ہے جو وہن میں گندھی ہوئی

کھڑی ہوئی ہے اک طرف

بس اپنی اپنی بار کا سبھی کو انتظار ہے

یہ دولتوں میں کھیلتے عساکرانِ مضطرب

یہ رہنمائے امتِ ملال دیکھیے ذرا

شراب اور شباب کی مجاوری میں ڈولتے

توقعات کا لہُو سجا ہے اِن کے ہاتھ پر

انہیں ضلال جانیئے

مرے عظیم ساتھیو! غزہ کی سرخ شام میں

عمارتوں کے ڈھیر پر پڑی ہوئی ہے زندگی

لہُو کے بازوؤں میں جھولتے ہوئے مسافرو

تمھیِں حیات آشنا، تمھیں فروغِ زندگی

تمام شائقین ہیں مرے ہوئے، کٹے ہوئے

تعفنِ قبیح کی صلیب پر جڑے ہوئے

ہم اہتمامِ اضطراب موج موج ظلم ہیں

مِرے عظیم ساتھیو! تمھیں حیات آشنا، تمھِیں فروغ زندگی

تمھِیں شعورِ وقت ہو۔

٭٭٭

فلسطین ۔۔۔ پرویز مظفر

ہم کو نہیں دیکھنا

ہم کو چپ رہنا ہے

جو ظلم ہوتا ہے

جو ظلم ہو رہا ہے

زمانہ کھلی آنکھوں سے سو رہا ہے

سن رہا ہے بمباری کی آوازیں

وہ چیخیں زندہ لاشوں کی

وہ درد بھرے نغمات

اتنا ظلم اتنی دہشت

دیکھ کر بھی اٹھی نہیں کوی آواز

یہ بھی ہوئی کوئی بات

کہ انسانوں کے اس بھرے جنگل میں

شاید سب ہی

دہشت زدہ ہیں

کہ ہم نے اگر کچھ دیکھ لیا

ہم کچھ بولے

ہم نے اگر لب کھولے

کسی نے کچھ پوچھ لیا

تو کیا بولیں گے

اس لیے بہتر ہے کہ چپ رہنا ہے

ک خدا تو ہے

وہ سب دیکھ رہا ہے

اس لیے

ظلم کی رسی کو دراز ہونے دو

فلسطین کو خود ہی آزاد ہونے دو

٭٭٭

فلسطینی بچے کی فریاد ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی

دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح

اسکول کے میدان میں کھیلنا

لائبریری میں کتاب پڑھنا

میرے مقدر میں نہیں

کیونکہ میں غزہ میں پیدا ہوا

اچھی زندگی کیا ہوتی ہے

میں نہیں جانتا

ہم پتھروں سے کھیلتے ہیں

بدلے میں گولیاں کھاتے ہیں جو بچ جائیں تو

فوجی عدالتوں سے سزا پاتے رہتے ہیں

ایک پتلی سی لکیر جیسا وطن ہے میرا

یہاں تابوت سکینہ دفن ہے

انبیاء کی میراث

سکوں بخش اور فرحت آمیز

مگر اس کے سائے میں میرے لئے

بادلوں سے پانی نہیں

بارود برستا ہے

آسماں والے تک

میری فریاد پہنچتی نہیں

گو قبلہ اول کا رکھوالا ہوں

انبیاء کی اصل میراث ہوں

مگر میرے اطراف ملبے کے ڈھیر ہیں

جہاں سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا

میرے ان دیکھے خواب بھی

٭٭٭

آج اصحابِ اُخدود مارے گئے ۔۔۔ احمد حاطب صدیقی

آسماں کی قسم

اس کے بُرجوں کی

اونچے قلعوں کی قسم

اور جس دن کا وعدہ ہے، اُس کی قسم

وہ جو محوِ تماشا ہیں اُن کی قسم

اور قسم اُن کی جن کو ستم کا تماشا بنایا گیا

آگ کی خندقوں میں گرایا گیا

وہ جو کہتے تھے

’ربِّ عزیز الحمید!

تو ہی حاکم ہے ارض و سماوات کا‘

بس اِسی جُرم میں

گھر میں محصور تھے

بھوک سے، پیاس سے، درد سے چُور تھے

پر یہ سب تا بہ کَے؟

وہ یکایک اُٹھے

اور غزہ اُٹھ گیا

ایک طوفانِ اقصیٰ بپا ہو گیا

لا الٰہ کی صدا سے فضا گونج اٹھی

ہر سُو تکبیر کا غُلغُلہ مچ گیا

بس اِسی جُرم میں

اہلِ ایمان پھر آگ کی خندقوں میں اُتارے گئے

ماؤں کی گود میں کُلبُلاتے جری

گود سے گورِ آتش میں وارے گئے

دودھ پیتے شہیدوں کے خوں کی قسم

آج اصحابِ اُخدود مارے گئے

آج اصحابِ اُخدود مارے گئے

میرے آقا کی امت کے اہلِ وفا

غازیان و شہیدانِ اہلِ غزہ

بس یہی زندہ ہیں اے عزیزانِ ما!

بس یہی زندہ ہیں اے عزیزانِ ما!

آئیے، ہم نمازِ جنازہ پڑھیں

اپنی اُمت کے شاہانِ ذی جاہ کی

اپنے خاموش و خائف سلاطین کے تخت اور تاج کی

جوہری اسلحوں سے مسلح کھڑی

مسلم افواج کی

غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھیں!

٭٭٭

فلسطین کی آواز ۔۔۔ ڈاکٹر شفیق آصف

کہہ رہی ہے

حق پرستوں کے

لہو کی روشنائی

سن سکو تو

سن لو اسرائیلیو

تم ہو غاصب

تم ہو قاتل

کب تلک

روکو گے ہم کو

کب تلک

ٹوکو گے ہم کو

مسجد اقصیٰ ہماری

منزلِ مقصود ہے

قبلۂ اول ہے یہ

اور خانۂ معبود ہے

٭٭٭

فلسطین ۔۔۔ عابد رشید

میں فلسطین کا غم کیسے سناؤں مولا

ان پہ جو بیتی وہ کس طرح بتاؤں مولا

تُو بتا تیرے سِوا کِس کو سُناؤں مولا

کس کے دربار میں فریاد لگاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

پھر سے کھیلی گئی غزّہ میں لہو کی ہولی

آسماں لرزہ نہ دھرتی نے زباں تک کھولی

تیرے قبلے کے لئے بچوں نے کھائی گولی

کیسے یہ ننھے سے لاشے میں اُٹھاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

آج صیہونی ہیں پھر خصلتِ حیوانی پہ

خون کے دھبّے ہیں انصاف کی پیشانی پہ

بھیڑیئے بیٹھے ہیں بھیڑوں کی نگہبانی پہ

ایسے انصاف کو میں آگ لگاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

شرم آتی ہے اب امّت کے نگہبانوں پہ

تیغ زن ہیں یہ مسلمان مسلمانوں پہ

خون کے چھینٹے ہیں امت کے گریبانوں پہ

کیسے اپنوں کو میں اپنوں سے بچاؤں مولا

میں کہاں عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا

ہے فلسطین کا دکھ اور کبھی کشمیر کا ہے

کیسے کہہ دوں کہ یہ لکھا ہُوا تقدیر کا ہے

معاملہ سارا فقط عدل کی زنجیر کا ہے

آ زمیں پر تجھے دکھ ان کے سناؤں مولا

’’میں ترے عدل کی زنجیر ہلاؤں مولا‘‘

٭٭٭

تین نظمیں  فلسطین کے لئے ۔۔۔ قاسم خیال

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

فلسطین کے فطری

دِلکش و حسیں نظاروں کے

گداز بدن پر

قاتل اسرائیل کے

جنونی ڈرون

آگ برساتے

۔۔ زہر اُگلتے

میزائیل برس رہے ہیں

اور غزہ کے سبز بدن کی نرماہٹ پہ

لاکھوں بے بس اور نادار

نو زائیدہ!

دُودھِیا جسموں کی۔۔۔۔۔ راکھ پڑی ہے

دشمن کی خونی آنکھوں سے گِرنے والی

منجنیقوں سے۔۔۔۔۔

گَڑے پڑے ہیں

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

انسانیت اور قومیت کے گُلدستے کو

پتی پتی۔۔۔ ریزہ ریزہ۔۔۔ کرنے والے

یزیدی لشکر کے

مردہ سرمائے کی کچرا کُنڈی کے

رکھوالوں کے

آہنی پنجے

مسلم اُمہ کے

پاکیزہ بدن کی عظمت پر

اپنے ظلم کی ضرب لگاتے

نوچ رہے ہیں۔۔۔

محنت کرنے والے کومل ہاتھوں کو

اپنی نسلِ نو کی بے قدری

اور پائمالی کے

مسخ شدہ سب رنگ لیئے

بھیگ چُکی ہے

اور اِدھر ہم

احتجاج کی تسبیح تھامے

ہمدردانہ بزدلانہ

دِکھلاوے کا شور مچاتے

۔۔۔۔ عمرانیات میں

ایم فِل کرتے جاتے ہیں

سوشل میڈیا کی لذت میں گُم ہیں

اور ایک طرف

سنہری اربوں ڈالروں کے کہُسار

لا وارِث لاشوں کی طرح

ہمارے۔۔۔۔۔

بینکوں میں پڑے ہیں

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟

ہم حق پرستی کے داعی

ہڑپا کی تہزیب کے وارث!!

اہلِ ہنر

ہم اہلِ سخن!

صرف لفظوں کی کمندیں ڈالتے

اندھے جذبوں!!

اور بانجھ دماغوں والی

اِک بھیڑ لئے

یہ سوچ رہے ہیں

ہم ایمان و جرات میں بھی

سب سے بڑے ہیں

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟؟؟

ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟؟؟

٭٭٭

شکوہ

اے مالکِ کُن

وارثِ کون و مکاں

یہ جو غزہ میں تڑپتی تری

احسن مخلوق ہے

کیوں

موت جیسی زندگی کو ترس رہی ہے

اور تری رحمت کہاں پر برس رہی ہے

٭٭٭

فلسطین کی پکار

رات کے پُورے تین بجے ہیں

بوجھل آنکھیں

نیند سے خالی ہونے پر

فوراً

جب دروازہ کھولا تو چوکیدار

وِسل بجاتا گزر گیا ہے

میز پہ رکھی اخباروں میں

اک تصویر کو دیکھ کے یارو

ذہن میں سکتا ٹھہر گیا ہے

اور میرا ہمزاد _____ بیچارا

سوتے سوتے چونک اُٹھا ہے

لرز گیا ہے

غزہ کے سیکڑوں بھوکے پیاسے بچوں کی

نوحہ کرتیں

سِسکیاں

گُونج رہی ہیں

اجلے چہروں اور میلے کپڑوں میں

بِلکتی آہیں

مرے ساکت کانوں کی پگڈنڈیوں پر

شور مچاتی رینگ رہی ہیں

فلسطین کے سِتم رسیدہ لاکھوں بوڑھے

تِشنہ لب

لاچاری اور مجبوری کی تصویر بنے

حُر، حسنین اور شیرِ خدا کی راہ تکتے

محمود غزنوی، قاسم اور ایوبی کو

آوازیں دیتے

خون میں لت پت

ماتم کرتے درد میں ڈوبے

ہجرت کرتے جاتے ہیں

اُن لاغر پیروں سے رِستے

خون کے چھینٹے

اور پیاسی دوشیزاؤں کے پینے والا

گدلا پانی

میری آنکھوں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے

٭٭٭

ایک مظلوم و عاجز بچے کی دعا اپنے شہر فلسطین کے لئے ۔۔۔ زارا طیب قاسمی

میں ایک ننھا سا ہوں بھکاری

تمہارے در پر کھڑا ہوا ہوں

میرے خدایا، مجھے بچا لے

تیری زمیں ہے …. ترے ممالک

تو سارے جگ کا ہے تنہا خالق

میرے خدایا

تو جانتا ہے

میں ایک بے بس و بے سہارا

ہوں اس وطن کا میں رہنے والا

جہاں کبھی ترے انبیاء کا

ہوا اشارہ

فرشتے نازل ہوئے جہاں پر

وحی بھی اتری اسی زمیں پہ……

اس وطن کی سر زمیں پر

قدم مبارک

ہمارے آقا کے پڑ چکے ہیں

وہی وطن ہے

قرآن میں جس کا ذکر آیا

وہ منکشف سب پہ ہو رہا ہے

وہ دِکھ رہا ہے

ہوئی ہے سچ ساری پیشن گوئی

میں مانتا ہوں اے میرے مولا

میرے وطن میں جو ہے تباہی

شہید بہنیں شہید بھائی

ہر ایک سو

صرف خون ریزی

لہو کا دریا سا بہہ رہا ہے

بہن ہماری ردا لٹا کر

گنوا کے عزت

موت کو خود گلے لگایا

جوان بھائی نے جاں گنوا دی

ہوا ہے مقتول کنبہ سارا

کیا گیا مجھ کو

بے سہارا

لہو میں ڈوبا میں چیختا ہوں

کوئی مسیحا ادھر تو آئے

کبھی تو ظلم و ستم سے اک دن

ہمیں بچائے

اسیرِ رنج و الم بہت ہیں

معاف کر دے

نجات دے دے

اے میرے مولا

میں ہوں بھکاری

میں ترے آگے

بلند ہیں خالی ہاتھ میرے

خدا تجھی سے میں مانگتا ہوں

میرے وطن کے

جابروں کو

مٹا دے مو لا

مرے وطن کو بچا لے مولا

مرا شہر دیکھ آج پھر سے

جل رہا ہے

یہ آگ پل میں بجھا دے مولا

ہر ایک سو شہر جل رہا ہے

کہاں ہیں دنیا کے کلمہ گو سب

سہم گئے ہیں

کیا مصلحت ہے

کوئی اپنی مدد کو آئے

کوئی تو اٹھّے؟ جو ظلم جورو جفا مٹائے ……

کہاں ہیں وہ کلمہ گو مسلماں

کوئی تو ائے .

جو فتح یابی ہمیں دلائے

اے میرے مالک میں ہوں بھکاری

تمہارے در پہ کھڑا شکستہ

میں مانگتا ہوں پناہ تیری

میرے وطن کو بچا لے مولا

میں شام کا اک غریب بندہ

میں امن کا طالب

مرے وطن کو قدیم جیسا وطن بنا دے،

محبتوں کا چمن بنا دے

٭٭٭

غزہ! ۔۔۔ محمد خرم یاسین

پھولوں کے چہرے۔۔۔ زخم خوردہ ہیں

جلے کٹے ہیں، پھٹے پڑے ہیں

کتنے ہی بچے۔۔۔ سسک رہے ہیں

کتنے ہی بچے۔۔۔ مر چکے ہیں!

بکھرے ملبے پہ ماتم کناں افسردہ اور لاچار بوڑھے

جواں بیٹوں کی لاشیں اٹھانے سے قاصر

نا امید اور منتظر ہیں

کہ۔۔۔ شاید کوئی جوان آ جائے

جنازے اٹھیں، انھیں دفنایا جائے

بوڑھی عورتیں، جن کی آہیں۔۔۔

عرش ہلا ہلا کر تھک چکی ہیں

بکھرے چیتھڑوں پہ بے جان سا سوگ منا رہی ہیں

کہ وہ ادھ مری اور تھکن زدہ ہیں

روتی آ رہی ہیں، بہت رو چکی ہیں

شہدا کے قافلے آج بھی رواں ہیں

لیکن یہ نہ سلسلہ رکا ہے

کچھ ملے جلے بیمار اور معذور۔۔۔

نجات دہی کے منتظر ہیں

نوجوانوں کے خوں میں حشر اٹھا ہے

غزہ پہ پھر اک بم گرا ہے!

٭٭٭

فلسطین ۔۔۔ نوید کاش

اسرائیل نے

مسلسل بمباری سے

سرحدی دیواروں کے ساتھ ساتھ

میرے دل کے شہرِ جنوں کے

مضافات میں تعمیر شدہ

ضبط کی نوے فیصد عمارتیں تباہ کر دی ہیں

اس وقت میرے دماغ کے وسط میں واقع زندان میں قید امیدِ مسیحا کا رنگ زرد پڑتا جا رہا ہے

اسے مسلسل چکر آ رہے ہیں

اور اس پہ مایوسی کی غنودگی کا اثر بڑھتا جا رہا ہے

مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ امداد نہ ملنے پر اس کی موت واقع ہو سکتی ہے

لگاتار یہودیوں کے گولے برساتے سینکڑوں ٹینک

غزہ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں پھنسے زخمی معصوم بچوں کی

دعاؤں کے خون آلود لاشوں کو کچلتے ہوئے

تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں

تازہ خبر یہ ہے کہ

فلسطین کی سرزمین کے تباہ شدہ مکانوں کے ملبے تلے دبے انگنت لاشوں کے بے یار و مددگار ورثہ بار بار خدا کی جانب دیکھ رہے ہیں

اور خدا امتِ مسلمہ کی مسلح افواج کے نظریں چراتے ہوئے سربراہان کی جانب دیکھ رہا ہے۔

٭٭٭

ابابیلیں نہیں آتیں ۔۔۔ عمر عزیز

مقدس سرزمیں پر

سینکڑوں بدمست ہاتھی آن پہنچے ہیں

زبان ابرہہ

فرمان جاری کرنے والی ہے

’حرم کو ڈھا دیا جائے‘

شکست بے اماں کے خوف سے

ایمان بھی شل ہو چکے ہیں۔

کوئی اندر سے یہ کہتا ہے

یقیں سے دل ہوں خالی تو

ابابیلیں نہیں آتیں

٭٭٭

فلسطین کی آواز ۔۔۔ ڈاکٹر شفیق آصف

کہہ رہی ہے

حق پرستوں کے

لہو کی روشنائی

سن سکو تو

سن لو اسرائیلیو

تم ہو غاصب

تم ہو قاتل

کب تلک

روکو گے ہم کو

کب تلک

ٹوکو گے ہم کو

مسجد اقصیٰ ہماری

منزلِ مقصود ہے

قبلۂ اول ہے یہ

اور خانۂ معبود ہے

٭٭٭

غزل ۔۔۔ خالدؔ علیگ

غزہ کے بہادر عوام کے نام

میں ڈرا نہیں میں دبا نہیں میں جھُکا نہیں میں بِکا نہیں

مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری

جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قرار دادِ وفا

میں صلیبِ وقت پہ کیسے ہوں مُجھے اب تو اُس سے اتار لو

کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں

مرا شہر مُجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں

وہ چراغِ راہ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بُجھا نہیں

٭٭٭

اے ارض فلسطین ۔۔۔ سرفراز بزمی

عروجِ آدم کا اک قصیدہ جہان سے بدگمان لاشیں

کفن دریدہ ستم رسیدہ یہ سر بریدہ جوان لاشیں

حکایتِ کہسارِ غزنی، شکایتِ آبِ رودَ دجلہ

لہو میں ڈوبی ہوئی صدائیں سنا رہی ہے زمین اقصیٰ

صدائے فرعون سن رہا ہوں صدائے نمرود آ رہی ہے

کہ سامریوں کے سلسلے ہیں کہ یاد اخدود آ رہی ہے

بغیر مرہم یہ زخم سارے تمہیں دکھانے کی آرزو ہے

تمہارے بزمی کو شاہ بطحا کہاں زمانے کی آرزو ہے

سسکتی ماؤں! بلکتے بچو! یتیم بہنو! شہید روحو!

تمہارے دم سے ہے کفر لرزاں تمہی تو امت کی آبرو ہو

سمٹ رہی خزاں کی چادر بہار آنے کی آرزو ہے

تمہارے بزمی کو شاہ بطحا کہاں زمانے کی آرزو ہے

٭٭٭

شناختی کارڈ ۔۔۔ محمود درویش، ترجمہ: شاہد ماکلی

عربی

بطاقة ہویة

(1)۔

سجِّل

آنا عربی

ورقمُ بطاقتی خمسونَ آلفْ

وآطفالی ثمانیةٌ

وتاسعہُم.. سیآتی بعد صیفْ!

فہلْ تغضبْ؟

(2)۔

سجِّلْ

آنا عربی

وآعملُ مع رفاقِ الکدحِ فی محجرْ

وآطفالی ثمانیةٌ

آسلُّ لہمْ رغیفَ الخبزِ،

والآثوابَ والدفترْ

من الصخرِ

ولا آتوسَّلُ الصدقاتِ من بابِکْ

ولا آصغرْ

آمامَ بلاطِ آعتابکْ

فہل تغضب؟

(3)۔

سجل

آنا عربی

آنا اسمٌ بلا لقبِ

صبورٌ فی بلادٍ کلُّ ما فیہا

یعیشُ بفورةِ الغضبِ

جذوری

قبلَ میلادِ الزمانِ رستْ

وقبلَ تفتّحِ الحقبِ

وقبلَ السّروِ والزیتونِ

وقبلَ ترعرعِ العشبِ

آبی.. من آسرةِ المحراثِ

لا من سادةٍ نجبِ

وجدّی کانَ فلاحاً

بلا حسبٍ.. ولا نسبِ!

یعلّمنی شموخَ الشمسِ قبلَ قراءةِ الکتبِ

وبیتی کوخُ ناطورٍ

منَ الآعوادِ والقصبِ

فہل ترضیکَ منزلتی؟

آنا اسمٌ بلا لقبِ

(4)۔

سجلْ

آنا عربی

ولونُ الشعرِ.. فحمیٌّ

ولونُ العینِ.. بنیٌّ

ومیزاتی:

على رآسی عقالٌ فوقَ کوفیّہ

وکفّی صلبةٌ کالصخرِ

تخمشُ من یلامسَہا

وعنوانی:

آنا من قریةٍ عزلاءَ منسیّہْ

شوارعُہا بلا آسماء

وکلُّ رجالہا فی الحقلِ و المحجرْ

فہل تغضبْ؟

(5)۔

سجِّل!

آنا عربی

سلبتَ کرومَ آجدادی

وآرضاً کنتُ آفلحُہا

آنا وجمیعُ آولادی

ولم تترکْ لنا.. ولکلِّ آحفادی

سوى ہذی الصخورِ

فہل ستآخذُہا

حکومتکمْ.. کما قیلا؟

إذنْ

سجِّل.. برآسِ الصفحةِ الآولى

آنا لا آکرہُ الناسَ

ولا آسطو على آحدٍ

ولکنّی.. إذا ما جعتُ

آکلُ لحمَ مغتصبی

حذارِ.. حذارِ.. من جوعی

ومن غضبی!!

اردو ترجمہ

۱

لکھو

میں عرب ہوں

اور میرا شناختی کارڈ نمبر پچاس ہزار ہے

اور میرے آٹھ بچے ہیں

اور ان میں نواں جلد آئے گا، گرمیوں کے بعد

تو کیا تم (اتنی سی بات پر) غضب کرو گے؟

۲

لکھو

میں عرب ہوں

اور میں کام کرتا ہوں

ساتھ محنت کش دوستوں کے، پتھر کی کان میں

اور میرے آٹھ بچے ہیں

میں حاصل کرتا ہوں ان کے لیے خوراک

اور کپڑے اور کتابیں

چٹانوں سے

اور میں نہیں مانگتا صدقات تمھارے دروازے سے

اور نہ میں اتنا چھوٹا ہوں

کہ چلا آؤں، تمھارے ایوانوں کی سیڑھیوں تک

تو کیا تم (اس بات پر) غضب کرو گے؟

۳

لکھو

میں عرب ہوں

میرا صرف نام ہے، شناخت کوئی نہیں

میں صبر کیے ہوئے ہوں ایک ایسے خطے میں

جہاں ہر کوئی فوری غم و غصے میں رہتا ہے

میری جڑیں گہری ہو چکی تھیں

وقت کی پیدائش سے پہلے

اور زمانوں کے منکشف ہونے سے پہلے

اور سرو، اور زیتون سے پہلے

اور سبزہ اُگنے سے پہلے

میرا باپ۔۔۔۔۔ ہل چلانے والے خاندان سے ہے

کسی نجیب طبقے سے نہیں

اور میرا دادا کسان تھا

بے حسب۔۔۔۔ بے نسب!

اس نے مجھے سکھایا سورج کا غرور،

کتاب کی قرات سے پہلے

اور میرا گھر ہے چوکیدار کی کوٹھڑی کے مانند

شاخوں اور بانس سے بنا ہوا

کیا تم میری منزلت (حیثیت) سے راضی ہو؟

میرا صرف نام ہے، شناخت کوئی نہیں

۴

لکھو

میں عرب ہوں

اور بالوں کا رنگ۔۔۔۔۔ کوئلے کی طرح سیاہ

اور آنکھوں کا رنگ۔۔۔۔۔۔ بھورا

اور میری شناختی علامات:

میرے سر پر عربی رو مال ہے، اس کے اوپر سیاہ حلقہ

اور وہ کافی محکم ہے پتھر کے مانند

چھیل ڈالتا ہے چھونے والے کو

اور میرا پتا:

میں ہوں ایک دور دراز، فراموش شدہ گاؤں سے

جس کی سڑکیں بے نام ہیں

اور جس کے تمام مرد کام کرتے ہیں

کھیتوں اور پتھر کی کانوں میں

تو کیا تم (اس بات پر) غضب کرو گے؟

۵

لکھو

میں عرب ہوں

اور تم نے ہتھیا لیے ہیں میرے اجداد کے باغات

اور وہ زمین بھی۔۔۔ جہاں کاشت کاری کرتے تھے

میں اور میری تمام اولاد

اور تم نے کچھ باقی نہ چھوڑا

ہمارے لیے اور میرے تمام پوتوں کے لیے

سوائے اِن چٹانوں کے

تو کیا عنقریب اِنھیں بھی ہتھیا لے گی؟

تمہاری حکومت۔۔۔ جیسا کہ کہا گیا ہے

خیر!

لکھو۔۔۔۔ پہلے صفحے پر، سب سے اوپر

میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتا

اور نہ میں حد سے تجاوز کرتا ہوں

لیکن جب مجھے بھوک لگے گی

میں نوچ کھاؤں گا اپنے غاصب کا ماس

حذر کرو

حذر کرو

میری بھوک سے

میرے غضب سے

٭٭٭

اے غزہ کے شرارتی بچو ۔۔۔ خالد جمعہ

اردو ترجمہ: محمد علم اللہ

اے غزہ کے شرارتی بچو!

تم! جو میری کھڑکی تلے اپنی تیز آوازوں سے مجھے پریشان رکھتے تھے

تم! جن کے دم سے میری ہر صبح دھما چوکڑی اور شور شرابے سے آباد رہتی تھی

تم! جو میرے گلدان کو بھی نہیں چھوڑتے، توڑ دیتے تھے

اور میری بالکونی میں کھلے اکلوتے پھول کو بھی نوچ لیتے تھے

واپس آؤ! پھر تم شور کرو، جتنا چاہو! چیخو اور چلاؤ!!

میرے سارے گلدان توڑ ڈالو

اچک لے جاؤ! سارے پھول۔۔

مگر واپس آؤ!

آ بھی جاؤ!!!

٭٭٭

اگر میں مر جاؤں ۔۔۔ ڈاکٹر رفعت العریر / ترجمہ نجمہ ثاقب

غزہ یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ڈاکٹر رفعت العریر  نے اپنی شہادت سے پہلے ٹویٹر پہ اپنی آخری نظم جو شیئر کی تھی، اس کا اردو ترجمہ ۔۔۔۔۔۔

اور اگر میں مر جاؤں

تم میری خاطر زندہ رہنا

مجھ پر جو کچھ بیت چکا وہ

دنیا کے لوگوں سے کہنا

میری چھوڑی چیزیں لے جا

ان کے ہاتھوں بیچ کے آنا

اور اس کے بدلے میں لینا

کپڑے کی اک چھوٹی دھجی

اور کچھ ڈوریں

دودھ کی رنگت جیسی دھجی

ڈوروں سے دمدار بنانا

نیل گگن کی سمت اڑانا

تاکہ دور کہیں غزہ میں

رہنے والا کوئی بچہ

روشن آنکھوں کی کھڑکی سے

گردوں کی جانب تکتا ہو

اپنے پیارے باپ کا رستہ

باپ جو اس کو چھوڑ گیا تھا

آگ اور خون کی برساتوں میں

جاتے دم کا آخری بوسہ

تک جو اس کو دے نہ سکا تھا

سوختہ تن کا ماس اور ہڈی

ساتھ وہ اپنے لے نہ سکا تھا

آنکھ کا روشن دیا جلائے

جب یہ بچہ

تیری ڈور، پتنگ، یہ دھجی

دور سے اڑتے دیکھے گا

اک لمحے کو یوں سمجھے گا

شاید کوئی پاک فرشتہ

اس کی ’جنت‘ کو لوٹانے

دنیا کی جانب آتا ہے

دیکھ مرے ہمدم، ہر صورت

یہ امید بچائے رکھنا

اور اگر میں مر بھی جاؤں

اس کی ننھی آنکھوں کا

یہ روشن دیا جلائے رکھنا

٭٭٭

عرب کا بہادر بیٹا ۔۔۔ انتظار حسین

’’عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟‘‘ چلانے والے نے چلا کر پوچھا۔

عرب کا بہادر بیٹا؟ سب ٹھٹک گئے، متعجب ہوئے، ہاں عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے، پھر ایک آواز ہو کر چلائے، ’’عرب کا بہادر بیٹا کہاں ہے؟ عرب کے بہادر بیٹے کو باہر لاؤ۔‘‘

تب جھلسے چہرے خونم خوں وردی والا سپاہی مجمع کو چیرتا ہوا آگے آیا، گویا ہوا، ’’ایہا الناس، عرب کے بہادر بیٹے میدانوں میں سوتے ہیں، جو مارے گئے، وہ اچھے رہے بہ نسبت ان کے جو زندہ رہے اور ذلیل ہوئے اور عرب کے بہادر بیٹے بلند و بالا کھجوروں کی مانند میدانوں میں پڑے ہیں، صحرا کی ہواؤں نے ان پر بین کیے، اور گرد کی چادر میں ان کی تکفین کی۔‘‘

’’اے خون میں نہائے ہوئے غازی، ہمارے ماں باپ تجھ پر سے فدا ہوں کچھ بتا کہ عرب کے بہادروں پر کیا گزری۔‘‘

’’اے لوگو!، میں تمہیں کیا بتاؤں اور کیسے بتاؤں کے میں تو زندہ ہی نہیں ہوں۔‘‘‘

’’یہ شخص زندہ نہیں ہے؟ عجب ثم العجب۔‘‘ تعجب، سرگوشیاں۔

ایک آواز، ’’اے خون میں نہائے ہوئے عرب کے فرزند، تو کیوں زندہ نہیں ہے؟‘‘

’’ایہا الناس، میں زندہ تھا مگر زندہ نہیں رہا، میں زندہ نہیں رہا، میں زندہ تھا۔ جب میں بگولے کی مثال اٹھا اور آندھی کی طرح یروشلم کو عبور کر کے یروشلم میں گیا، میں نے عمان، دمشق اور قاہرہ کے ڈھے جانے کی خبریں سنیں اور زندہ رہا، پھر میں نے بیت المقدس کے ڈھے جانے کی منادی سنی اور ڈھینے لگا، میں نے بیت المقدس کے گلی کوچوں میں عرب جوانوں کو یوں پڑے دیکھا جیسے صبح ہو گئی ہے۔ اور ٹھنڈے پتنگے پھیلے بکھرے پڑے ہیں، میں نے عرب جوانوں کو پتنگوں کی مثال پھیلے دیکھا اور زندہ رہا، میں نے عرب کی کنواریوں کو لیر لیر لباس میں بال کھولے زمین پر جھکتے دیکھا اور میں زندہ رہا، اور میں پکارا کہ اے بیت المقدس کی بیٹی، کمر پر ٹاٹ باندھ اور بین کر تیرے فرزند خاک و خوں میں غلطاں ہوئے اور تیری کنواریاں گلی گلی رسوا ہوئیں، اس آن میں نے دیکھا کہ بیت المقدس کی بیٹی بے حرمت ہوتی ہے، تب میں نے اپنی گنہگار آنکھیں موند لیں، میں ڈھے گیا اور مر گیا۔‘‘

جھلسے ہوئے چہرے خونم خون وردی والے سپاہی نے آنکھیں موندیں، پھر وہ ڈھے گیا اور مر گیا، ایک مرد اعرابی نے روتے روتے اپنا عمامہ زمین پر پھینکا اور اپنے گیسو بکھیرتے ہوئے چلایا کہ عرب کے سب صحراؤں کی خاک میرے سر میں، عرب کی غیرت مر گئی۔ دوسرا درد سے بولا کہ اے کاش میرا سر پانی ہوتا اور میری آنکھیں آنسوؤں کا سوتا ہوتیں کہ تا عمر روتا رہتا اور آنکھ کی پتلی کو سستانے نہ دیتا۔ سفید ریش اعرابی نے آنسوؤں میں تر ہوتی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور منادی کرنے لگا، ’’القارعۃ مالقارعہ و ما ادراکَ مالقارعہ، یوم یکونُ الناس کا الفراش المبثوث۔‘‘

اس آن ایک بر بر بگولے کی مثال اٹھا اور ٹیلے پر چڑھ کر قبضے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نعرہ زن ہوا کہ قسم ہے سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی، اور قسم ہے ان کے سموں کی جو پتھروں سے ٹکراتے ہیں اور چنگاریاں اڑاتے ہیں اور قسم ہے اس دن کی جب گیا بھن اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور جب پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے مثال اڑتے پھریں گے۔ اور جب دریاؤں اور سمندروں میں آگ لگ جائے گی کہ میری تیغ نیام سے نکل آئی ہے اور وہ نیام میں نہیں جائے گی۔

یہ کلام کر کے اس نے اونچے ٹیلے پر آگ روشن کی اور نیام کو دو ٹکڑے کر کے اس میں جھونک دیا، یہ دیکھ کر سب نے اپنی اپنی تلواریں نیاموں سے نکالیں اور نیام توڑ کر الاؤ میں جھونک دیے۔

٭٭٭

بچے نہ دیکھیں!!! ۔۔۔ سبین علی

کثیف دھند کی اوٹ سے جھانکتا سورج اداس اور بوڑھا نظر آ رہا تھا شام ہونے کو تھی اور وہ پریشان تھی کہ آخر کس کے ساتھ کھیلے؟ اس کا کوئی ہمجولی کہیں دکھائی نہیں دے رہا؟ – –

اچانک گلی کی مغربی نکڑ پر اسے ایک غبارے والا دکھائی دیا جو ایک لمبے بانس کے ڈنڈے پر کئی چھوٹے بڑے غبارے لٹکائے جا رہا تھا ـ وہ اس غبارے والے کو پکارتی پیچھے بھاگنے لگی مگر اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا ـ بھاگتے بھاگتے اس کی سانس پھول گئی مگر اسے غبارے ملنا تھے نہ ملے ـ وہ ننھی لڑکی اداس دل سے واپس پلٹی تو دیکھا چند گھڑیوں میں ساری عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی ہیں دھوئیں گرد اور انسانی جسموں کے جلنے کی بساند نے فضا کو مسموم کر دیا ہے ـ کھجور اور پام کے تنے مردہ انسانوں کے ساتھ زمین پر اوندھے منہ پڑے ہیں اور سبزہ زاروں میں ہریالی کی بجائے بارود کی بساند نتھنوں کو چیر رہی ہے

وہ ہرنی کے سہمے ہوئے بچے کی مانند مخالف سمت میں بھاگنے لگی اِس بار اُسے پھر ایک غبارے والا دکھائی دیا – اس کا گھر محلہ گلیاں سب ملبے کا ڈھیر بنے اپنی شناخت کھو چکے تھے ـ اور وہ سرپٍٹ بھاگتی جا رہی تھی جب غبارے والے کے قریب پہنچی تو دیکھا بانس کے ڈنڈے پر رنگ برنگے غباروں کی بجائے ہینڈ گرنیڈ اور مختلف اشکال کے بمب لٹک رہے ہیں ـ وہ دہشت زدہ ہو کر پھر الٹے قدموں دوڑنے لگی ـ اس بار سمتوں کا تعین معدوم ہو چکا تھا گرد و غبار اور دھوئیں میں سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا کہ اچانک اسے کسی نے بازو سے پکڑ کر ایک عمارت کے اندر کھینچ لیا –

گول گنبد کے نیچے بنی ہال نما عمارت میں کئی بچے پہلے سے ہی موجود تھے جنہوں نے دائرہ نما حلقہ بنایا ہوا تھا- وہ مبہوت کھڑی سب بچوں کے چہرے تکنے لگی جو ہر رنگ اور ہر نسل سے تھے -ان سب کے چہروں پر گہری اداسی اور سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔  کہیں دور سے کورس میں کچھ پڑھنے کی آواز آ رہی تھی۔  وہ لڑکی کان لگا کر سننے لگی

______

سورج کو گرہن نہیں لگا پھر بھی دن کے وقت اندھیرا چھا چکا ہے۔  دشت کے سینے میں کوئی ایسی آگ بھڑکی کہ ریت بے قرار ہو کر اوپر کو اٹھی اور ایک پیالے کی مانند بستی کی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔  ہاتھ کو دوسرا ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا گردو غبار کے طوفان نے دور کہیں لوگوں کا سانس لینا بھی دوبھر کر دیا۔

ہم کہاں جائیں؟

راستے کیا ہوئے؟

ہم سب مصلحتوں کی چادر میں بکل مارے اپنی اپنی بغلوں میں چور چھپائے بیٹھے ہیں۔ مگر چور کیا چوری کرے گا؟

یہاں تو فقط ریت کا چھلاوا ہے

اور منرل آئل کی بساند

جو عطر کی شیشیوں میں بھری ہے ۔

——–

دوستو! سب کواڑوں کو مقفل کر دو تاکہ باہر کی آوازیں اندر نہ آئیں اب ہمیں اُن پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے دماغ سے کچھ سوچنا ہو گا۔

قریب کوئی نو سال کا لڑکا کھڑا ہو کر دیگر سب بچوں سے مخاطب تھا اس لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے غباروں کے پیچھے بھاگتی بچی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس حلقے میں آ کر بیٹھ گئی ۔

اسی دائرے میں موجود ایک کم سن لڑکی جس کے تن پر کوئی چیتھڑا تک نہیں تھا خوف سے ستا ہوا چہرہ اور آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہرا ہوا سوال اورنج بمب سے متاثرہ عجیب الخلقت بچوں کی بگڑے اعضاء کی مانند نظر آ رہا تھا۔  شاید بہت دنوں سے اس کی ماں نے اس کا چہرہ نہیں دھویا تھا یا بمباری کے بعد اڑنے والے غبار کو لاج آ گئی تھی جو اس کے بے ستر جسم پر ایک تہہ کی صورت جم چکا تھا-

اس کے ساتھ ہی ایک شیر خوار سوختہ تن، کھیلنے والی رنگین کنکریاں ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔  اس کے قریب بکھری راکھ بجائے خود ایک داستان تھی۔

نو سالہ لڑکا کہنے لگا دوستو چلو اپنی اسمبلی شروع کرتے ہیں۔  ہمیں اس مسئلے کی تہہ میں اترنا ہو گا ورنہ ان بستیوں میں کوئی ذی روح نہ بچے گا۔

تو سنو! ہماری زمین پیغمبروں کی سر زمین تھی پیغمبر زیادہ وہیں آتے رہے جہاں ضرورت زیادہ ہو۔

مگر اب ہماری زمینوں پر کہ جن کے کھیتیوں پھلوں اور زیتون کی پیداوار میں برکت دی گئی تھی ۔  ہمارے لوگوں کی رنگت سیبوں کی مانند سرخ اور چہرے تر و تازہ تھے ان کے بالوں کی رنگت گندم کی بالیوں سے زیادہ سنہری تھی ان کی زبان شستہ اور نرم تھی ہمارے مزاج میں نرم دلی اور ہمدردی تھی۔  مگر اب یہاں خدا کے نام پر لڑنے کے لیے دنیا کے ہر کونے سے انسان نما عفریت آ گئے ہیں جن کے پاس گولہ بارود کیمکل ہتھیار اور میزائیلوں سے لیس وہ آہنی پرندے جو بچوں کو چوہے سے بھی حقیر سمجھ کر ان کا شکار کرتے ہیں۔  ہمارے کھیت اور باغ ویران ہوئے باغبان مارے گئے اور جو باقی بچے ان کی پسلیاں ماس سے باہر جھانکتی ہیں اور پیٹ کمر سے جا لگے ہیں۔  ہماری بستی کے بچے رسیلے پھلوں کی بجائے اب بارود سے اجڑے کھیتوں میں اگنے والی خود رو گھاس ابال کر کھاتے ہیں۔  ان پر دنیا کا بہترین اسلحہ چلا کر تباہی کے اس کیل کی پیمائش کی جاتی ہے۔  ہمارے ہم جنس تجربہ گاہوں میں پالے گئے سفید چوہوں کی مانند بے بس ہیں جن پر دواؤں کی آزمائش کرنے کے بعد انہیں بھٹی میں راکھ کر دیا جاتا ہے۔  پھر ٹی وی پر یہ مناظر دکھا کر ساتھ لکھا جاتا ہے بچے نہ دیکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بچے تو یہ سب اپنی جانوں پر سہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور بچے نہ دیکھیں؟ ان میں سے کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بچے یہ سب نہ سہیں!

یہ سن کر ایک سنہرے بالوں والی لڑکی کہنے لگی: خدا کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں گولڈ آئل اور ڈرگس کی تجربہ گاہیں ہیں جہاں دنیا کی طاقت ور اور جنونی اقوام اپنے تجربات کر رہی ہیں۔

قریب ہی بیٹھی کیمکل حملے سے بری طرح مجروح اور بینائی سے محروم کم سن لڑکی کہنے لگی ۔

اب ان بستیوں میں مصلح نہیں بلکہ خود کو سپر ہیرو سمجھنے والے آسیب نازل ہونے لگے ہیں۔  جانے ہمارے بڑوں نے مصنوعی ہیرو بے مہار طاقت سے آراستہ کردار کیوں بنا دیے گئے تھے۔  بہترین تقویم پر پیدا کیے گئے انسان کو سپر ہیروز کے سامنے کمتری کا احساس کیوں دلایا گیا؟

آج کے انسان نے اپنی معراج ان جنگجو کرداروں کو سمجھ لیا ہے۔  یہ باہر سے آئے جنگجو کیپٹاگون کھا کر خود کو سپر مین سمجھتے جیتے جاگتے انسانوں کو کسی ویڈیو گیمز کے ہیولوں کی مانند مارتے چلے جاتے ہیں۔

نہ خون دیکھ کر ان کا دل لرزتا ہے اور نہ ہی قتل و غارت گری سے یہ اکتاتے ہیں۔  یہ چھوٹی چھوٹی سفید گولیاں نگل کر یہ ایسے عفریت بن جاتے ہیں جنہیں ننھے گلابی پھولوں کو سفیدی پہناتے کسی ملامت کا احساس تک نہیں ہوتا انہیں نیند آتی ہے نہ ماڑ دھاڑ کی تکان ان پر غالب آتی ہے۔

یہ آج کا نیا سپر مین ہے ۔ ۔ ۔ ۔

یہ سن کر سرخ دھبوں سے اٹے سبز کوٹ اور خاکی پتلون میں ملبوس سکول کا لڑکا کہنے لگا

اچھا تو کیا تم لوگوں کی بستی میں بھی جنگ اور ڈرگس ساتھ ساتھ چلتی ہیں؟

دودھیا گلابی رنگت پر جا بجا زخم اور جلے بارود کے سیاہ داغ لیے دوسرا کم سن بچہ پوچھنے لگا!

تم سکول سے سیدھے یہاں آ گئے ہو؟ کیا تمہاری بستی میں جنگ اچانک شروع ہوئی تھی؟

نہیں یہ جنگ تو عشروں پہلے انہی کھلاڑیوں نے شروع کی جو اب تمہاری بستی میں آئے ہیں۔  ہمارے دادا نانا نے جو پرائی جنگوں میں پوست کی فصل کاشت کی تھی ہم اس کی کٹائی پر مجبور ہوئے ۔  ہمارے ہیروں جیسے جوان اپنی توانائیوں سے بستی کی تعمیر کی بجائے ببولوں سے اٹی خاردار جھاڑیاں کاٹ رہے ہیں۔  ہمارے ہاتھ ان کانٹوں سے فگار ہو چکے ہیں اور ماؤں نے کمسن بچوں کے تابوتوں پر نوحوں کی لوریاں پڑھی ہیں۔  ہمارے لوگ اور ہمارے محافظ آئے دن کہیں بھی لاشوں میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔  کم سن بچوں کو یوں زخم لگائے جیسے وہ پوست کے ڈوڈوں کو چِرکا لگاتے ہیں۔

میر و سلطاں نرد باز و کعبتینِ شان دغل

جانِ محکوماں ز تن بردند و محکوماں بخواب

——

کہیں دور سے کورس میں ہائم پڑھنے کی آواز پھر بلند ہونے لگی جس کے سُر نوحوں میں ڈھل رہے تھے۔  معبد خانوں کے مقفل دروازوں سے آوازیں چھن چھن کر آ رہی تھیں جو کبھی مدھم ہو جاتیں تو کبھی بلند۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرے ساتھیو! اگر ان نوحوں سے زخم مندمل ہو سکتے جنگیں رک سکتیں تو ہم اتنا روتے اتنا روتے کہ آنسوؤں کی جھڑی سے لہو کے سب دھبے دھل جاتے۔  ہمارے کم سن بچوں نے بغیر نوحہ کیے اپنے نازک ہاتھوں سے چمکیلے فرشوں پر پونچھا لگا لگا کر بیسیوں انسانوں کے لہو دھوئے ہیں ۔  کیونکہ وہ جانتے تھے گریہ کچھ فائدہ نہ دے پائے گا۔  انسانی تہذیب کے ارتقاء نے ہم سب بچوں کو ایسی تنزلی میں دھکیلا ہے جس کا ادراک ان بڑوں کو ہو ہی نہیں رہا۔  یا پھر وہ اس زمین پر سرخ لال نیلے پیلے بھورے انسانوں کی بجائے فقط گوشت پوست کی پتلیاں اور مشینیں باقی رکھنا چاہتے ہیں۔

بے ستر جسم پر راکھ اوڑھے پیلے چہرے والی کم سن لڑکی، جس کی دہشت زدہ تصویر دنیا کے بیشتر اخبارات کا حصہ بن چکی تھی، کہنے لگی:

ساتھیو! بچوں کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ رنگ نسل ملک وطن کے خانوں میں بٹے ہوتے ہیں۔  ہم بڑوں کی سازشوں، سیاستوں اور تعصبات سے پاک ہیں اسی لیے ہم سب ایک دوسرے کا درد جانتے ہیں۔  ہمیں دنیا بھر کے بچوں کے حقوق کی لڑائی لڑنا پڑے گی۔

یہ وحشی درندے سادیت پسندی کا شکار ہو چکے ہیں۔  ان کے ساتھ مل کر زمین آگ و خون کی ہولی کھیلتی اور دھواں اگلتی ہے۔  خون ماس جلنے کی بساند اور دھواں ان درندوں کی اشتہا میں اضافہ کرتا ہے ۔  ان کے لیے میزائل اور کیمیائی حملے بھرے سگریٹ کا کش لگانے جیسے لذت انگیز ہو چکے ہیں۔  زمینوں پر حکمرانی کا خواب اور طاقت کی ہوس ان کی ایکسٹیسی ہے۔

ان سادیت پسندوں نے کم سن لڑکیاں ملیں یا بڑی بوڑھیاں سب کو اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔  طاقت کے وحشی رقص پر جنگی جنون کی بھینٹ چڑھتے بچوں اور عورتوں کی سیکس ٹریڈ دنیا بھر کے روٹس پر جاری رکھی گئی۔  جنگ سے متاثرہ پناہ گزین خیمہ بستیوں نے ان تاجروں کی راہیں مزید آسان کر دیں۔  چند عشروں میں دنیا بھر سے تیس ملین بچے جنسی تجارت کی بھٹی میں جھونکے جا چکے ہیں جو اپنے گھروں اور ماؤں کی شفقت میں کبھی واپس نہ لوٹ سکے۔

اس کی بات جاری تھی کہ گہرے نیلے پانیوں سے اٹھی لہروں نے ایک شیر خوار کو اوندھے منہ ان کے بیچ لا کر لٹا دیا۔  اس بچے کی آمد کے ساتھ ہی پھر سسکیوں میں ڈوبے مرثیے فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرنے لگے ۔  کسی ہلچل اور بے چینی کے آثار شدت سے ابھرنے لگے

۔ ۔ ۔ ۔

حد نظر محدود ہو چکی ہے

قف!

قف!

آگے مت بڑھو! آگے خطرہ ہے

درد کی رگیں نیلی ہوتیں تو آج سمندر درد کا استعارہ ہوتا

درد کی رگیں سرخ ہوتیں تو سورج محض آگ کا گولا ہوتا

مگر سمندر تو موتی اگل رہا ہے

اور روشنی کے گولے کو

ریت کے طوفان نے ڈھانپ رکھا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عبادت گاہوں کے روشندان بھی بند کیے جا چکے تھے۔  دعاؤں کی آواز مدھم پڑھنے لگی۔

پو پھٹی تھی یا جھٹپٹے کا وقت تھا کچھ اندازہ نہ ہوا ۔  اس شیر خوار کے بعد بھی بے شمار بچے وہاں آتے اور اس اجتماع میں شامل ہوتے جا رہے تھے گویا کسی شاطر پائپ پائپر نے گلابوں کا شہر اجڑنے کے بعد سارے دریدہ بدن بچوں کو اپنے پیچھا لگا کر اس ہال کے اندر جمع کر لیا ہو۔

تیز سائرن بجنے کی آوازیں مدھم پڑنے لگیں تو اسکول یونی فارم میں ملبوس لڑکا پھر اٹھا کھڑا ہوا۔

بچو! ہمیں دنیا کا دستور نئے سرے سے لکھنا ہو گا ہمیں پرانے پیمانے الٹنا ہوں گے ہمیں اب بڑوں سے جرح کرنا ہو گی آخر یہ جنگیں کس لیے اور کیوں؟

ایک چپٹی ناک اور پیلی رنگت والا گول مٹول لڑکا کہنے لگا۔  یہ جرح اتنی آسان نہیں ہے۔  ماؤ کے ثقافتی انقلاب میں ایسا ہی کچھ تجربہ کیا گیا تھا اور نوجوانوں نے اپنے اساتذہ افسران صنعتکاروں حتی کہ خاندان کے بزرگوں پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے تھے۔  کہیں جوان پیروں کے استاد بن کر وہی ستم نہ ڈھانے لگیں۔

نہیں ایسا نہیں ہو گا۔  یہ سب جوان نہیں بلکہ سو سالہ شخص سے بھی زیادہ بوڑھے بچے ہیں ۔ خون ریزیوں جنسی درندگیوں انسانی جان کی ارزانی اور حالات کی سختیوں نے انہیں وقت سے بہت پہلے بوڑھا اور سیانا بنا دیا ہے۔  ان ننھی جانوں نے اپنی زندگی کے چند برسوں میں ایسے تلخ تجربات سہے ہیں جو بزرگوں کو عشروں اور صدیوں میں وہ شعور وہ فہم بخشتے ہیں۔

نہیں اب مزید خونریزی نہیں ہمیں پھول اور پودے اگانا ہیں ہمیں محبت کا درس دینا ہے گروہ بندیاں اور تعصبات ختم کرنا ہیں۔  اب وقت آن پہنچا ہے کہ رنگ نسل مذہب اور قومیت کے نعرے تلے بہتا خون روک کر دھرتی کو پھولوں اور آزاد پرندوں سے رنگین کیا جائے ۔

بچوں کے دائرے کے قریب ہی موجود بال بیرینگ اور بارود سے بنی جیکٹ کے چیتھڑے تن پر لیے ایک کم سن لڑکا جو سر تا پا تاسف کی تصویر بنا چپ چاپ سب سنتا چلا آ رہا تھا، بولنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔

ہال میں موجود سب بچے خاموش ہو گئے ان کے چہرے کی شکنوں میں تفکرات، اندیشے مستقبل کا خوف اور مجروح بدن پر اٹی گرد انہیں سو سالہ بوڑھے جیسا خستہ حال اور ضعیف دکھا رہی تھی۔

خود کش حملہ آور کہنے لگا پیارے ساتھیو سب سے پہلے ان بڑوں سے وہ خود ساختہ نصاب چھین لو وہ درس گاہیں لپیٹ دو جو تمہارے اذہان پر پٹی باندھ کر تمہیں ایک روبوٹ بنا کر ان کے ہاتھ میں تھما دے اور وہ جب چاہیں ریموٹ کا بٹن دبا کر انسانی مشین کو پھاڑ دیں۔

ان خون آشامیوں پر روک اور نسل انسانی کی بقا کا یہی حل ہے۔ ۔ ۔ ۔  ان متعصب اور جنونی بڑوں کے ہاتھ روک دو ان سے سوال کرو ان سے پوچھو آخر اتنی جنگیں کیوں اور کب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہم۔ بچے آخر کب تک ان جنگوں کا ایندھن بنتے رہیں گے اٹھو اور سب کچھ پلٹ کر رکھ دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سب بچے غبارے کے پیچھے بھاگتی ننھی لڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔  پھٹا ہوا خود کش حملہ آور اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا جاؤ اس عمارت سے باہر نکلو اور باقی بچ جانے والے بچوں کو ہمارا پیغام دے دو۔  بچوں کا کوئی برانڈ نہیں ہوتا اٹھو اور مل کر ان جنگوں کے خلاف سینہ سپر ہو جاؤ۔  زمین کی گود پھر سے سبزہ اگانے لگے گی اور دھواں اگلنے کی بجائے آسمان چھاچھوں مینہ برسائے گا جاؤ اور دنیا کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لو۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گنبد سے باہر  دعاؤں، مرثیوں، ہائم اور قوالوں کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

با ضعیفاں گاہ نیروے پلنگاں می دہند

شعلہ شاید بروں آید ز فانوسِ حباب

انقلاب

انقلاب، اے انقلاب

بعض دفعہ کمزوروں کو شیروں کا جسم و طاقت مل جاتی ہے۔ شاید پانی کے بلبلوں سے شعلہ برآمد ہو جائے۔

الٹا ڈالو

بدل ڈالو، سب کچھ بدل ڈالو

ننھی لڑکی ہوائی حملے کے بعد منہدم ہو جانے والی عمارتوں کے پاس حیران کھڑی تھی۔  اس کے چہرے پر معصومیت کھلونوں کے اشتیاق اور شرارت کی جگہ لاتعداد جھریاں پڑ چکی تھیں۔  اس کی آنکھوں میں بزرگوں کی سی متانت اور چہرے پر سمندروں کا سا ٹھہراؤ تھا۔  اپنے سابقہ خوف پر قابو پاتے ہوئے وہ ملبہ بنی عمارتوں میں زندہ بچ جانے والے بچوں کو نام لے کر پکارتی آوازیں دیتی، تلاش کرنے لگی۔

٭٭٭

افسانچے ۔۔۔ عبد الرحمان واصف

گندی نسل

مار کھانے والے کی چیخوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا اور وہ بچاؤ بچاؤ کی فریاد کیے جا رہا تھا۔ مگر ہجوم میں سے کوئی بھی اس کی مدد کو آگے نہ بڑھ رہا تھا۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ پرائی آگ میں کودنے کا کیا فائدہ۔

اتنے میں چند اجنبی لوگوں کا وہاں سے گزر ہوا جن میں سے ایک نے بستی والوں کو شرم دلائی کہ مار کھانے والے کو بچاتے کیوں نہیں۔

مجمع میں سے تو کوئی نہ بولا البتہ فٹ پاتھ پر بیٹھے فقیر نے ہانک لگائی

’’بچائے کون صاحب، بچانا تو مردوں کا کام ہے، اور یہاں تو سب سالے ہیجڑے ہیں ہیجڑے‘‘

اور یہ سن کر شرم دلانے والے کا سر جھک گیا۔

٭٭

غزہ

اسے بستی کے بھرے بازار میں بیچ چوراہے بیس سے بائیس افراد ٹھوکروں پر رکھا ہوا تھا۔ دائیں بائیں بستی کے کئی لوگ تماش بین بن کر سارا منظر دیکھ رہے تھے۔

ان میں سے ہر دو منٹ بعد کوئی نہ کوئی مارنے والا مجمع کو للکارتا

’’ہے کوئی مرد کا بچہ جو اس پِلے کو ہمارے ہاتھوں بچا سکے‘‘

’’مرد بن رہا تھا نا سالے؟ اب چکھ سزا کا مزا، زبان چلاتا ہے؟‘‘

’’بلا اپنے ہمدردوں کو‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل