فہرست مضامین
سنن نسائی
امام ابو نسائی
جلد ہشتم
نکاح سے متعلقہ احادیث
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نکاح سے متعلق فرمان اور ازواج اور ان کے بارے میں جو کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر حلال فرمائی لیکن لوگوں کے واسطے حلال نہیں اور اس کا سبب اعزاز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فضیلت مطلع فرمانا ہے
ابو داؤد سلیمان بن سیف، جعفر بن عون، ابن جریج، حضرت عطاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس کے ہمراہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہلیہ محترمہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے جنازہ میں شرکت کی جو کہ (مقام) سرف پر ہوا چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ میمونہ رضی اللہ عنہ ہیں جس وقت تم لوگ ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اس کو حرکت نہ دینا بلکہ سکون و اطمینان سے اس کو اٹھانا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نو بیویاں تھیں جن میں سے آٹھ کا نمبر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقرر فرمایا کرتے تھے اور ایک اہلیہ محترمہ کا نمبر مقرر نہیں فرماتے تھے۔
٭٭ ابراہیم بن یعقوب، ابن ابی مریم، سفیان، عمرو بن دینار، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت وفات نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح مبارک میں نو بیویاں تھیں جن میں سے حضرت سودہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنا نمبر حضرت عائشہ صدیقہ کو دے دیا تھا
٭٭ اسمعیل بن مسعود، یزید، ابن زریع، سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح میں نو بیویاں تھیں۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ان خواتین کے بارے میں شرم و حیا محسوس کرتی تھی جو خود کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد فرمایا کرتی تھیں اور میں کہا کرتی تھی کہ کیا کوئی آزاد خاتون خود کو ہبہ کر سکتی ہے ؟ اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی آخرتک۔ یعنی ان میں سے جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دل چاہے دور رکھیں اور جس کو دل چاہے نزدیک رکھیں۔ پھر جن کو دور رکھا تھا اگر ان میں سے پھر کسی کو طلب کریں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ تو میں نے عرض کیا خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پروردگار جس بھی شئی کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خواہش فرماتے ہیں فوراًعطا فرما دیتا ہے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن دوسرے لوگوں کے ساتھ میں بھی مجلس میں شریک تھا کہ ایک خاتون نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں خود کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کرتی ہوں میرے بارے میں جو مناسب خیال فرمائیں وہ فیصلہ فرما دیں۔ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرا اس خاتون سے نکاح فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اور تم کچھ لے آؤ چاہے وہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ وہ شخص روانہ ہو گیا تو اس کو کچھ نہیں مل سکا۔ یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی تک نصیب نہ ہو سکی (تاکہ اس انگوٹھی کو ہی مہر مقرر کر سکے ) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم کو قرآن کریم کی کچھ سورتیں یاد ہیں ؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم کی بعض سورتوں کے عوض اس کا نکاح اس خاتون سے فرما دیا۔
جو کام خداوند قدوس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقام بلند فرمانے کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فرض فرمائے اور عام لوگوں کے واسطے حرام فرمائے ؟
محمد بن یحیی بن عبداللہ بن خالد، محمد بن موسیٰ بن اعین، ابیہ، معمر، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہلیہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم فرمایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں کو اختیار عطا فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دن میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے آغاز فرمایا اور فرمایا میں تم سے ایک بات بتلانے والا ہوں لیکن تم (اس مسئلہ میں ) والدین کی رائے مشورہ کے بغیر فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرنا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کا علم تھا کہ میرے والدین کبھی مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (یعنی اس ذات مبارک سے ) الگ کرنے کا حکم نہیں فرمائیں گے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی آخر تک۔ یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں سے فرما دیں اگر تم کو دنیا کی زندگی اور اس کی رونق کی خواہش ہو تو آؤ میں تم کو کچھ مال و دولت دے کر حسن و خوبی سے رخصت کروں اور اگر تم خدا اور اس کے رسول اور آخرت کی خواہش رکھتی ہو تو تمہارے میں سے نیک (اور اعلیٰ کردار کی) خواتین کے واسطے خداوند قدوس نے اجر عظیم مقرر فرما رکھا ہے (جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس آیت کریمہ کی تلاوت سے فارغ ہو گئے ) تو میں نے عرض کیا کیا اسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اپنے والدین سے مشورہ کرنے کا حکم فرما رہے ہیں میں تو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آخرت کی خواہش رکھتی ہوں۔
٭٭ بشر بن خالد عسکری، غنذر، شعبہ، سلیمان، ابو ضحی، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازواج مطہرات کو اختیار عطا فرما دیا تھا تو کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی۔
٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، اسماعیل، شعبی، مسورق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو اختیار عطا فرمایا تھا کہ یہ طلاق نہیں تھی۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عمرو، عطاء، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام بیویاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر حلال تھیں۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو ہشام، وہیب، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ خداوند قدوس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وفات سے قبل اس بات کا اختیار عطا فرما دیا تھا کہ خواتین میں سے جس سے دل چاہے نکاح فرما سکتے ہیں۔
نکاح کی ترغیب سے متعلق
عمرو بن زرارہ، اسماعیل، یونس، ابو معشر، ابراہیم، علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چند نوجوانوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اگر تمہارے میں سے کوئی نان و نفقہ کی قوت رکھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ نکاح کرے اس لیے کہ اس سے نگاہ نیچی رہتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت رہتی ہے لیکن اگر کسی شخص میں اس قدر طاقت نہ ہو تو روزہ اس کی شہوت میں کمی کر دے گا۔
٭٭ بشر بن ، خالد، محمد بن جعففر، شعبہ، سلیمان، ابراہیم، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دل چاہے تو میں تمہارا نکاح ایک نوجوان خاتون سے کر دوں۔ پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے جو کوئی بیوی کا نان و نفقہ برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہو تو اس کو نکاح کر لینا چاہیے اس لیے کہ اس سے نگاہ نیچی رہتی ہے (یعنی نگاہ کی حفاظت رہتی ہے ) اور شرم گاہ کی حفاظت رہتی ہے لیکن اگر کسی شخص میں قوت نہ ہو تو وہ شخص روزے رکھ لے اس طریقہ سے اس کی شہوت میں کمی واقع ہو جائے گی۔
٭٭ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس مضمون کی حدیث نقل ہے امام نسائی فرماتے ہیں اس سند میں مذکور حضرت اسود محفوظ راوی نہیں ہیں۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، اعمش، عمارہ بن حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے خطاب فرما کر ارشاد فرمایا اے نوجوانو تمہارے میں سے جس شخص میں قوت ہو تو وہ شخص نکاح کرے پھر اسی مضمون کی حدیث نقل فرمائی۔
٭٭ محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، عمارہ، عبدالرحمن بن یزید، عبد اللہ، ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ احمد بن حرب، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مقام) منیٰ میں جارہا تھا کہ میری ملاقات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی انہوں نے فرمایا اے ابو عبدالرحمن کیا میں آپ کا نکاح ایک نوجوان لڑکی سے نہ کرا دوں جو کہ آپ کو گزرے ہوئے دن یاد کرا دے (یعنی دل خوش کر دے ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ یہ بات آج بیان کر رہے ہو اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے یہ بات بہت پہلے ارشاد فرمائی تھی کہ اے نوجوانو! تم لوگوں میں سے جس میں قوت ہو اس کو نکاح کرنا چاہیے۔
ترک نکاح کی ممانعت
محمد بن عبید، عبداللہ بن مبارک، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن مظعون کو نکاح نہ کرنے سے منع فرمایا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اجازت عطا فرمائی ہوتی تو ہم لوگ خصی ہو جاتے۔
٭٭ اسمعیل بن مسعود، خالد، اشعث، حسن، سعد بن ہشام، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکاح چھوڑنے کی ممانعت فرمائی۔ (یعنی اگر عورت کا نان و نفقہ ادا کرنے کی طاقت ہے تو ضرور نکاح کرنا چاہیے )
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، ابیہ، قتادہ، حسن، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مضمون کی حدیث نقل ہے۔
٭٭ یحیی بن موسی، انس بن عیاض، الاوزعی، اسن شہاب، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ میں ایک جوان شخص ہوں اس وجہ سے مجھ کو اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میں کسی گناہ میں مبتلا ہو جاؤں لیکن مجھ میں اس قدر طاقت بھی نہیں کہ میں نکاح کر سکوں تو میں کیا خصی نہ ہو جاؤں ؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چہرہ انور کا رخ دوسری طرف فرما لیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے تین مرتبہ یہی عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو ہریرہ! قلم خشک ہو گیا ہے اور جو کچھ (مقدر میں ) لکھا جا چکاہے۔ وہ ہر صورت پیش آ کر رہے گا چاہے تم خصی ہو یا نہ ہو۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ، ابو سعید، ہاشم، حصین بن نافع، حسن، حضرت سعد بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہاں داخل ہوا اور عرض کیا کہ میں آپ سے نکاح نہ کرنے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا اس سلسلہ میں کیا مشورہ ہے کہ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرنا کیا تم نے ارشاد خداوندی نہیں سنا آخر تک۔ (یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل بھی رسول بھیجے تھے جن کو بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی دی تھی) پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس وجہ سے تم ترک نکاح نہ اپنانا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے بعض حضرات فرمانے لگے کہ میں کبھی نکاح نہیں کروں گا دوسرے صحابی نے کہا کہ میں گوشت کبھی نہیں کھاؤں گا۔ ایک صحابی کہنے لگ گئے کہ میں کبھی بستر پر نہیں سوں گا (وغیرہ وغیرہ) اور ایک صحابی کہنے لگے میں روزہ نہیں رکھوں گا (یعنی جائز چیز کو اپنے واسطے ناجائز کرنے لگے اور اسی کا نام تبتل ہے ) چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی اور فرمایا کیا معاملہ ہے کہ لوگ اس اس طرح سے کہہ رہے ہیں حالانکہ میں نماز بھی ادا کرتا ہوں اور سوتا (یعنی آرام) بھی کرتا ہوں روزے بھی رکھتا ہوں اور روزے چھوڑتا بھی ہوں اور نکاح بھی کرتا ہوں پس جو کوئی میری سنت سے کنارہ کشی کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جو کوئی گناہ سے محفوظ رہنے کے واسطے نکاح کرتا ہے تو خداوند قدوس اس کی مد د فرماتے ہیں
قتیبہ، لیث، محمد بن عجلان، سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین آدمیوں کی امداد کرنا خداوند قدوس نے اپنے ذمہ واجب کر لیا ہے (1) وہ مکاتب جو بدل کتابت ادا کرنا چاہتا ہو (2) وہ نکاح کرنے والا شخص جو کہ اس مقصد سے نکاح کرے کہ میں گناہ سے بچوں گا (3) راہ خدا میں جہاد کرنے والا شخص۔
کنواری لڑکیوں سے نکاح سے متعلق احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
قتیبہ، حماد، عمرو، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نکاح کیا اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نے نکاح کر لیا ہے ؟ اے جابر! میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیوہ خاتون سے (نکاح کیا ہے ) یا کنواری لڑکی سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ خاتون سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کنواری لڑکی سے کس وجہ سے شادی نہیں کی کہ وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے۔ (یعنی وہ تمہارا دل خوش کرتی اور تم اس کا دل خوش کرتے )
٭٭ حسن بن قزعہ، سفین، ابن حبیب، ابن جریج، عطاء، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو فرمایا اے جابر! کیا تم ہمارے بعد بیوی والے ہو گئے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کنواری سے شادی کی یا بیوہ عورت سے ؟ میں نے عرض کیا بیوہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کنواری سے کیوں نہیں کی جو تم سے کھیلتی۔
٭٭ حسین بن حریث، فضل بن موسی، حسین بن واقد، حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر نے کے واسطے پیغام (یعنی رشتہ بھیجا) تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ابھی وہ چھوٹی ہیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے نکاح کر دیا۔
غلام کا آزاد عورت سے نکاح
کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان رضی اللہ عنہ نے جوانی ہی میں سعد بن زید کی لڑکی جن کی والدہ قیس کی لڑکی ہیں کو تین طلاقیں دے دیں یہ مروان کے امیر ہونے کے زمانہ کی بات ہے اس پر ان کی خالہ فاطمہ بنت قیس نے ان کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے گھر سے منتقل ہو جانے کا حکم دیا۔ جب مروان کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ان کو حکم فرمایا کہ اپنے مکان واپس چلے جائیں اور اس جگہ رہیں اور دریافت کیا کہ ان کی عدت پوری ہونے سے قبل وہ گھر چھوڑ جانے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہلوایا کہ میری خالہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے مجھے اس بات کا حکم دیا تھا تو حضرت فاطمہ بنت قیس نے فرمایا کہ میں حضرت عمرو بن حفص کے نکاح میں تھی چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا امیر مقرر کیا تو حضرت ابو عمرو بھی ان کے ساتھ چلے گئے اور جاتے ہوئے مجھے دو طلاق بھی بھیج دی جو تین میں سے بچ گئی تھی پھر حارث بن ہشام اور عباس بن ابی ربیعہ کو مجھ کو نفقہ دینے کا کہلا بھیجا میں نے ان دونوں سے دریافت کرایا۔ ابو عمرو نے میرے بارے میں کیا کہا ہے ؟ تو کہنے لگے خدا کی قسم اس کو خرچ تو ایسی صورت میں ملے گا کہ وہ خاتون حمل سے ہو اور وہ ہمارے مکان میں ہماری اجازت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ پھر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور واقعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان دونوں کی بات کی تصدیق کی اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں کہاں منتقل ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابن مکتوم کے ہاں منتقل ہو جاؤ۔ جو نابینا ہیں اور جن کا تذکرہ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں کیا ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان کے ہاں عدت مکمل کی اور میں اپنے کپڑے اتار دیا کرتی تھی اس لیے کہ وہ دیکھ نہیں سکتے تھے (اتارنے سے مراد اوپر کے کپڑے (چادر وغیرہ) ہیں نہ کہ بالکل برہنہ ہونا) یہاں تک کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے فرما دیا لیکن مروان نے ان کی حدیث شریف پر نکیر نہیں فرمائی اس وجہ سے میں تو اس پر عمل کروں گا جس پر کہ لوگوں کو میں نے عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے یہ روایت اختصار اور خلاصہ کے ساتھ نقل ہے۔
٭٭ عمران بن بکار بن راشد، ابو یمان، شعیب، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابو حذیفہ بن عتبہ ربیعہ (بدری صحابی) نے سالم کو اپنا بیٹا بنایا اور ان کا نکاح اپنی بھتیجی ہند بن ولید بن عتبہ سے کیا حالانکہ سالم ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی زید کو اپنا بیٹا بنایا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ متبنی کو لوگ اسی کا بیٹا کہہ کر پکارتے اور اسے اس کی میراث میں سے حصہ دیتے۔ یہاں تک کہ اللہ عز و جل نے آیت نازل فرمائی تم انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہی اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں الغرض جس کے باپ کے متعلق علم نہ ہو تو وہ دینی بھائی اور دوست ہے۔ یہ حدیث یہاں مختصر نقل کی گئی ہے۔
٭٭ محمد بن نصر، ایوب بن سلیمان بن بلال، ابو بکر بن ابو اویس، سلیمان بن بلال، یحیی، ابن شہاب، عروہ بن زبیر و ابن عبداللہ بن ربیعہ، حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ان حضرات میں سے تھے کہ جن حضرات نے غزوہ بدر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ شرکت فرمائی انہوں نے بھی ایک انصاری خاتون کے غلام سالم کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا جس طریقہ سے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ پھر حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سالم کا نکاح اپنی بھتیجی ہند بن ولید کے ہمراہ فرما دیا جو کہ پہلے ہجرت کرنے والی خاتون میں سے تھیں اور اس وقت قریش کی تمام بیوہ خواتین سے افضل تھیں چنانچہ جس وقت خداوند قدوس نے حضرت زید بن حارثہ کہ بارے میں یہ آیت نازل فرمائی تو ہر ایک منہ بولے بیٹے کو اس کے والد کی طرف منسوب کیا جانے لگا اور اگر کسی کے والد کا علم نہ ہوتا تو اس کے مولاؤں کی جانب اس کا نسب منسوب کیا جاتا۔
حسب سے متعلق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
یعقوب بن ابراہیم، ابو ثمیلہ، حسین بن واقد، ابن بریدہ، حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے نقل فرماتے ہیں کہ دنیا داروں کا حسب جس کے پیچھے وہ لوگ دوڑتے ہیں مال دولت ہے۔
عورت سے کس وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے متعلق حدیث
اسماعیل بن مسعود، خالد ، عبدالملک، عطاء، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ایک خاتون سے نکاح کیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ اے جابر! کیا تم نکاح کر چکے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کی ہے یا بیوہ خاتون سے ؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ خاتون سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کس وجہ سے کنواری لڑکی سے شادی نہیں کی کہ وہ تم سے کھیلتی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بہنیں ہیں میں نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ میرے اور میری بہنوں کے درمیان حائل ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر یہ معاملہ ہے تو تم نے اچھا کیا پھر فرمایا عورت سے اس کے دین اس کی دولت اور اس کے حسن و جمال کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے تم کو چاہیے کہ تم کسی دین دار خاتون کو اختیار کرو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہو جائیں۔
بانجھ خاتون سے شادی کے مکروہ ہونے سے متعلق
عبد الرحمن بن خالد، یزید بن ہاورن، مستلم بن سعید، منصور بن زاذان، معاویہ بن قرہ، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! مجھ کو ایک حسب و نسب والی خاتون ملی ہے لیکن وہ عورت بانجھ ہے (یعنی اس میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ) کیا میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے شادی کرنے کو منع فرما دیا پھر دوسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرما دیا پھر تیسرا آدمی حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرما دیا اور فرمایا کہ تم ایسی خواتین سے نکاح کرو کہ جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور مرد (یعنی شوہر سے ) محبت کرنے والی ہوں اس لیے کہ میں تم سے امت کو بڑھاؤں گا۔ (یعنی قیامت کے دن امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اضافہ پر فخر کروں گا)
زانیہ سے نکاح
ابراہیم بن محمد، یحیی، عبید اللہ بن اخنس، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے نقل فرماتے ہیں مرثد بن ابی مرثد ایک قوت والے شخص تھے جو کہ قیدیوں کو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ لایا کرتے تھے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو لے جانے کے واسطے بلایا وہاں پر مکہ مکرمہ میں عناق نام کی ایک زناکار عورت تھی جو ان کی دوست تھی جس وقت وہ عورت نکلی تو اس نے دیوار پر میرا سایہ دیکھا اور کہنے لگی کہ کون شخص ہے ؟ مرثد! اے مرثد!خوش آمدید آ جاؤ۔ تم آج کی رات ہمارے پاس قیام کرو۔ میں نے عرض کیا اے عناق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زنا حرام قرار دیا ہے۔ اس بات پر وہ (خفا ہو کر اونچا) کہنے لگی۔ اے خیمہ والو یہ وہ دلدل ہے جو تم لوگوں کے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ منورہ لے جاتا ہے چنانچہ میں عندمہ (پہاڑ) کی جانب دوڑا اور میرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑے وہ لوگ آئے اور یہاں تک کہ انہوں نے میرے سر پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا جس کے قطرات اڑ کر میرے اوپر پڑے۔ لیکن خداوند قدوس نے ان کو مجھ کو دیکھنے سے اندھا کر دیا (یعنی وہ لوگ مجھے نہ دیکھ سکے ) پھر میں اپنے ساتھی کے پاس پہنچا اور اس کو اٹھا کر روانہ کر دیا۔ جس وقت ہم لوگ مقام اراف پہنچے تو میں نے اس کی قید کھول ڈالی۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں عناق نام کی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاموشی اختیار فرمائی یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ آخر تک نازل ہوئی یعنی زناکار عورت سے وہی شخص شادی کر سکتا ہے جو کہ خود زنا کرنے والا ہو یا پھر وہ شخص مشرک ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو بلا کر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا تم اس عورت سے شادی نہ کرو۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، حماد بن سلمہ، ہارون بن رئاب، عبداللہ بن عبید بن عمیر و عبدالکریم، عبداللہ بن عبید بن عمیر، عباس عبدالکریم، حضرت ابن عباس و ہارون فرماتے ہیں کہ ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے پاس ایک خاتون ہے جو کہ مجھ کو میرے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ محبوب اور عزیز ہے لیکن اس میں یہ عیب ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ یعنی کسی کو اس سے زنا کرنے کو منع نہیں کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو طلاق دے دو اس شخص نے عرض کیا میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس سے نفع حاصل کرتے رہو۔
زنا کار عورتوں سے شادی کرنا مکروہ ہے
عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، سعید بن ابو سعید، ابیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال دولت کی وجہ سے اس سے حسن کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تم لوگ دین دار خاتون سے نکاح کرنا اختیار کرو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔
(نکاح کے واسطے ) بہترین خواتین کون سی ہیں ؟
قتیبہ، لیث، ابن عجلان، سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ بہترین عورت کون سی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ خاتون کہ اس کا خاوند جب اس کو دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے اور جس وقت وہ حکم دے تو وہ اس کی فرما برداری کرے اور اپنے نفس اور دولت میں اس کی رائے کے خلاف نہ کرے۔
نیک خاتون سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن یزید، ابیہ، حیوۃ، شرجیل بن شریک، ابو عبدالرحمن، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دنیا پوری کی پوری مال و متاع ہے اور دنیا کی بہترین اور زیادہ نفع بخش شئی نیک عورت ہے۔
زیادہ غیرت مند عورت
اسحاق بن ابراہیم ، نضر، حماد بن سلمہ، اسحاق بن عبد اللہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انصاری عورت سے کس وجہ سے نکاح نہیں فرماتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان میں بہت زیادہ شرم و غیرت ہوتی ہے۔
شادی سے قبل عورت کو دیکھنا کیسا ہے ؟
عبدالرحمن بن ابراہیم، مروان، یزید و ابن کیسان، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی نے ایک انصاری عورت سے رشتہ کیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کیا تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو دیکھ لو یہ (چیز) تمہاری محبت و الفت کو زیادہ مضبوط کر دے گی۔
٭٭ محمد بن عبدالعزیز بن ابو رزمہ، حفص بن غیاث، عاصم بکر بن عبداللہ مزنی، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک میں میں نے ایک خاتون کو پیغام نکاح بھجوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ میں نے نفی میں جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (شادی سے قبل) اسے دیکھ لو۔ اس سے تمہاری محبت زیادہ بڑھ جائے گی۔
شوال میں نکاح کرنا
عبید اللہ بن سعید، یحیی، سفیان، اسماعیل بن امیہ، عبداللہ بن عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے ساتھ ماہ شوال میں نکاح فرمایا اور وہ ماہ شوال ہی میں رخصت ہو کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ محبوب تھا کہ لوگ ماہ شوال میں اپنی بیویوں کے پاس جائیں اس لیے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ صاحب قسمت کون خاتون ہو سکتی ہے۔
نکاح کے لیے پیغام بھیجنا
عبدالرحمن بن محمد بن سلام، عبدالصمد بن عبد الوارث، ابیہ، حسین معلم، عبداللہ بن بریدہ، عامر بن شراجیل شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ جو کہ پہلے ہجرت کرنے والی خواتین میں سے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مجھ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ اسی طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے غلام حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطے مجھ کو پیغام بھیجا۔ میں نے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جو کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے وہ اسامہ سے بھی محبت کرے چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے گفتگو فرمائی تو میں نے عرض کیا کہ میرا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس سے دل چاہے میرا نکاح فرما دیں۔ پھر فرمایا تم (حضرت) ام شریک کے پاس جاؤ وہ ایک انصاری دولت مند خاتون ہیں یعنی اہل مدینہ میں سے وہ زیادہ راہ خدا میں مال دار اور خرچ کرنے والی خاتون ہیں اور ان کے یہاں بہت زیادہ مہمانوں کی آمدورفت ہے۔ اس پر قیس کی لڑکی فاطمہ نے کہا کہ میں اسی طریقہ سے کرتی ہوں یعنی میں ام شریک کے گھر جا کر رہتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ایسا نہ کرو کیونکہ ام شریک کے گھر میں بہت زیادہ مہمان آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارا دوپٹہ ہٹ جائے یا پنڈلیوں سے کپڑا ہٹ جائے۔ پھر لوگ تم کو ننگی حالت میں دیکھ لیں گے تو تم کو برا معلوم ہو گا اپنے چچازاد بھائی عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے پاس جانا مناسب ہے اور وہ قبیلہ بنو فہر کا شخص ہے۔ فاطمہ نقل کرتی ہیں کہ میں ان کے پاس جا رہی ہوں اور اس حدیث شریف میں مختصر کر کے نقل کیا گیا ہے یعنی فاطمہ نے اپنے رہنے کی حالت کو اس حدیث شریف میں نقل نہیں کیا اور دوسری حدیث شریف میں بیان کیا ہے۔
پیغام پر پیغام بھیجنے کی ممانعت کا بیان
قتیبہ، لیث، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ کسی دوسرے کے رشتہ پر رشتہ نہ بھیجا کرو۔
پیغام پر پیغام بھیجنے کی ممانعت کا بیان
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، ، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک بن محمد بن یحیی بن حبان، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نکاح کا پیغام نہ بھیجے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیغام پر یہاں تک کہ نکاح کرے وہ یا چھوڑ دے۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ قتیبہ، غنذر، ہشام، محمد، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث شریفہ کا ترجمہ سابق میں گزر چکاہے اس لیے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔
رشتہ بھیجنے والے کی اجازت سے یا اس کے چھوڑنے کے بعد رشتہ بھیجنا
ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، ابن جریج، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی تاجر آدمی کسی دوسرے تاجر کو کوئی چیز فروخت کرنے کے وقت خریدار کو اپنی چیز کی طرف بلائے (یعنی فروخت ہونی والی شئی کی طرف مائل کرے ) نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی دوسرے کے پیغام نکاح کے بعد پیغام بھیجنے کی ممانعت فرما دی لیکن اگر وہ شخص چھوڑ دے یا وہ اس کو نکاح کا رشتہ بھیجنے کی اجازت دیدے تو کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔
٭٭ حاجب بن سلیمان، حجاج، ابن ابو ذئب، زہری و یزید بن عبداللہ بن قسیط، ابو سلمہ بن عبدالرحمن و حارث بن عبدالرحمن، محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اپنے بارے میں بیان فرماتی ہیں میرے شوہر نے مجھ کو تین طلاقیں دے دیں تو نفقہ وغیرہ کے طور سے صحیح غلہ نہیں دیا میں کہنے لگ گئی کہ خدا کی قسم اگر میری رہائش اور نان نفقہ ان پر لازم ہے تو میں یقینی طور سے ان سے وصول کروں گی اور یہ روم کا اناج اور غلہ نہیں لوں گی اس پر میرے شوہر کے وکیل کہنے لگے کہ ان کے ذمہ نہ تو تمہاری رہائش لازم ہے اور نہ خرچہ۔ چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ارشاد فرمایا کہ تمہارا خرچہ اور رہائش کا نظم اس کے واسطے لازم نہیں۔ اس وجہ سے تم فلاں خاتون کے پاس اپنی عدت گزار لو۔ حضرت فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس حضرات صحابہ کرام کی کافی آمدورفت تھی اس لیے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے حضرت ابن مکتوم نابینا صحابی کے پاس عدت گزارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ جس وقت عدت گزر جائے تو تم مجھ کو اطلاع دینا۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ جس وقت میں اپنی عدت مکمل کر چکی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا تم کو کس نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضرت معاویہ اور ایک دوسرے قریش شخص نے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جہاں تک کہ معاویہ کا تعلق ہے وہ تو قریش کے بچوں میں سے ایک بچہ ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے جب کہ دوسرا شخص یہ ہے کہ اس سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے اس وجہ سے تم اس طریقہ سے کرو کہ تم حضرت اسامہ بن زید سے شادی کر لو وہ ان کو ناپسند تھے۔ لیکن جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا تو انہوں نے ان سے شادی کر لی۔
اگر کوئی خاتون کسی مرد سے نکاح کا رشتہ بھیجنے والے کے بارے میں دریافت کرے تو اس کو بتلا دیا جائے
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن یزید، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتہ دے دی تو وہ اس وقت حالت سفر میں تھے چنانچہ انہوں نے اپنے وکیل کو جو دے کر حضرت فاطمہ کو دینے کے واسطے روانہ کیا جس وقت وہ لے کر پہنچا تو حضرت فاطمہ خفا ہو گئیں۔ وکیل نے عرض کیا خدا کی قسم ہمارے ذمہ تمہارا کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہے اس پر وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا خرچہ اس کے ذمہ نہیں ہے پھر حکم فرمایا کہ حضرت ام شریک کے گھر اپنی عدت مکمل کر لے لیکن پھر فرمایا حضرت ام شریک کو تو ہمارے صحابہ کرام (چاروں طرف سے ) گھیرے رہتے ہیں۔ تم حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں عدت مکمل کر لو ہاں اگر اپنے کپڑے بھی تم اتار دو گی تو جب بھی کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ ایک نابینا شخص ہے پھر جس وقت تمہاری عدت پوری ہو جائے تو مجھ کو اطلاع دینا۔ فرماتی ہیں کہ جس وقت میری عدت مکمل ہوئی تو میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا اور بتلایا کہ حضرت معاویہ اور ابو جہم نے مجھ کو نکاح کے پیغامات روانہ کیے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جہاں تک ابو جہم کا تعلق ہے تو وہ تو اس قسم کے شخص ہیں جو کہ اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتے (یعنی زیادہ سفر کرتے ہیں کہ لاٹھی ہر وقت ان کے کندھوں پر رہتی ہے یا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ زیادہ سختی اور مار پیٹ کرتے ہیں ) اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تو کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ البتہ تم حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے شادی کر لو۔ چنانچہ میں نے ان سے نکاح کر لیا اور اس قدر بھلائی مجھ کو ملی کہ مجھ سے لوگ رشک کرنے لگے۔
اگر کوئی آدمی کسی دوسرے سے عورت کے متعلق مشورہ کرے ؟
محمد بن آدم، علی بن ہاشم بن برید، یزید بن کیسان، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں ایک خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے اس کو دیکھ لیا ہے کیونکہ کے انصار قبیلہ کے لوگوں کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، یزید بن کیسان، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ایک خاتون سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس کو دیکھ لو کیونکہ قبیلہ انصار کی خواتین میں کچھ ہوتا ہے۔
اپنے پسندیدہ آدمی کے واسطے اپنی لڑکی کو نکاح کے واسطے پیش کرنا
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا صاحبزادی حضرت عمر اپنے شوہر خنیس بن خذافہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں۔ یہ صحابی غزوہ بدر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ شریک تھے۔ ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میری ملاقات حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہو گئی تو میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کے واسطے پیش کیا اور کہا کہ اگر آپ کا دل چاہے تو میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو آپ کے نکاح میں پیش کر سکتا ہوں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ میں اس مسئلہ پر غور کروں گا پھر کچھ دن کے بعد میں نے دوسری مرتبہ ان سے ملاقات کی تو وہ فرمانے لگے کہ میں ان دونوں کا نکاح نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے بعد میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اگر آپ کا دل چاہے تو میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو آپ کے نکاح میں پیش کر دوں لیکن انہوں نے کسی قسم کا جواب نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے مجھ کو حضرت عثمان کی گفتگو سے بھی زیادہ تکلیف ہوئی پھر چند دن کے بعد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے واسطے نکاح کا رشتہ بھیجا تو میں نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح میں دے دیا پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملاقات کی اور فرمایا ہو سکتا ہے کہ جس وقت میں نے آپ کو کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا تو آپ کو تکلیف پہنچی ہو گی۔ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا اس کے علاوہ دوسری وجہ نہیں ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کا تذکرہ فرماتے ہوئے سنا تھا اور میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا راز نہیں ظاہر کر سکتا چنانچہ اگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے نکاح نہ فرماتے تو میں ان سے نکاح کر لیتا۔
کوئی خاتون جس سے شادی کرنا چاہے تو وہ خود اس سے (ہونے والے شوہر سے ) کہہ سکتی ہے
محمد بن مثنی، مرحوم بن عبدالعزیز عطار ابو عبدالصمد، حضرت ثابت بنانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کی لڑکی بھی ان کے پاس موجود تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک خاتون خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میری ضرورت ہے ؟ یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میری ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے نکاح فرمائیں۔
٭٭ محمد بن بشار، مرحوم، حضرت ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں انہوں نے بیان فرمایا کہ ایک خاتون نے خود کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کیا اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی صاحبزدای نے فرمایا کہ وہ تمہارے سے بہتر تھی اس نے خود کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا
اگر کسی خاتون کو پیغام نکاح دیا جائے تو وہ نماز پڑھے اور استخارہ کرے
سوید بن نصر، عبد اللہ، سلیمان بن مغیرہ، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی عدت مکمل ہو گئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ ان کو میری جانب سے پیغام دو۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گیا اور میں نے عرض کیا کہ اے زینب تمہارے واسطے ایک خوشخبری ہے وہ یہ ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہارے پاس اپنی جانب سے پیغام نکاح دے کر بھیجا ہے۔ وہ فرمانے لگ گئیں کہ میں ابھی کچھ نہیں کروں گی یہاں تک کہ میں اپنے پروردگار سے مشورہ کر لوں (یعنی استخارہ نہ کر لوں ) پھر اپنی نماز ادا کرنے کھڑی ہو گئیں اور اسی وقت قرآن کریم نازل ہوا چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اجازت حاصل کیے بغیر اندر تشریف لے گئے۔
٭٭ احمد بن یحیی، ابو نعیم، عیسیٰ بن طہمان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا تمام ازواج مطہرات پر فخر فرمایا کرتی تھیں۔ وہ فرماتی تھیں کہ خداوند تعالیٰ نے آسمان کے اوپر سے میرا نکاح کیا ہے نیز پردہ کی آیت کریمہ بھی ان ہی سے متعلق نازل ہوئی۔
استخارہ کا مسنون طریقہ
قتیبہ، ابن ابو موال، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو ہر ایک کام میں استخارہ کرنے کی تعلیم فرماتے تھے (یعنی اہم امور میں ) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم استخارہ کرنے کی اس طریقہ سے تعلیم فرماتے تھے جس طریقہ سے قرآن مجید کی کوئی سورت مبارکہ کی تعلیم دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اگر تمہارے میں سے کوئی شخص کچھ کرنے کا ارادہ کرے تو وہ دو رکعت نماز نفل ادا کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے۔ دعا یہ ہے اس دعا کا ترجمہ یہ ہے یعنی اے خدا! میں تجھ سے تیرے علم کی برکت سے خیر اور بھلائی چاہتا ہوں اور تیری قدرت کی مد د مانگتا ہوں نیز میں تیرے فضل عظیم کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں نہیں رکھتا تو واقف ہے اور میں واقف نہیں ہوں اس لیے کہ تو تمام غیب کی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ اے خدا اگر تو سمجھتا ہے کہ یہ کام میرے واسطے اور میرے دین اور معاش کے واسطے بہتر ہے اور اس کا انجام بہتر ہے راوی کو شک ہے کہ آپ نے فرمایا یا ارشاد فرمایا (مطلب دونوں جملوں کا قریب قریب کاہے ) یعنی اے اللہ! تو مجھ کو اس کام سے قدرت عطا فرما دے اور تو میرے واسطے اس کو آسان فرما دے اور اس میں برکت عطا فرما دے اور اگر میرے واسطے میرے دین کے واسطے اور میرے روزگار کے واسطے بہتر نہیں ہے اور اس کا انجام بھی بہتر فرما اور تو اس کو مجھ سے اور مجھ کو اس سے دور فرما دے پھر میرے واسطے کہیں سے بھی بھلائی کو مقدر فرما۔ مجھے اس پر صبر عطا فرما اور اپنی حاجت اور ضرورت بیان کرے۔
بیٹے کا والدہ کو کسی کے نکاح میں دینا
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، حماد بن سلمہ، ثابت بنانی، ابن عمر بن ابی سلمہ، ابیہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ جس وقت میری عدت مکمل ہو گئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نکاح کا پیغام آیا جس کو میں نے قبول نہیں کیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمرانہ کو نکاح کا پیغام دے کر روانہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کر لو کہ میں ایک غیرت مند خاتون ہوں میرے بچے بھی ہیں اور پھر اس وقت میرے اولیاء میں سے بھی یہاں پر کوئی شخص موجود نہیں ہے چنانچہ حضرت عمر بن خطاب خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان سے کہہ دو کہ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ میں غیرت دار ہوں تو میں خداوند قدوس سے دعا مانگو گا کہ وہ تمہاری اس غیرت (یعنی آفت) کو ختم فرما دیں جہاں تک کہ تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ میں بچوں والی خاتون ہوں تو (خداوند قدوس) تمہاری اور تمہارے بچوں کی کفالت کے واسطے کافی ہیں پھر جہاں تک کہ تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ میرے اولیاء میں سے کوئی موجود نہیں تو یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے موجود اور غیر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی اس قسم کا نہیں ہے کہ اس بات کو پسند نہیں کرتا ہے اس بات کو انہوں نے اپنے لڑکے حضرت عمر سے کہا کہ اے عمر تم اٹھ جاؤ اور مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح میں دے دو اس طریقہ سے انہوں نے اپنی والدہ صاحبہ کا نکاح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرما دیا۔ یہ حدیث مختصر طریقہ سے بیان کی گئی ہے۔
لڑکی کا چھوٹی عمر میں نکاح سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے نکاح فرمایا تو ان کی عمر تقریباً چھ سال تھی جب کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔
٭٭ محمد بن نضر بن مساور، جعفر بن سلیمان، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے نکاح فرمایا تو میری عمر سات سال تھی پھر جس وقت میری عمر نو سال کی ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے (یعنی نو سال کی عمر میں رخصتی عمل میں آئی)۔
٭٭ قتیبہ، عبثر مطرف ابو اسحاق، ابو عبیدہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مجھ سے نکاح کیا تو میں نو سال کی تھی اور میں نو ہی سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہی۔
٭٭ محمد بن علاء و احمد بن حرب، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے نو سال کی عمر میں نکاح کیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے وقت وہ (یعنی میں ) اٹھارہ سال کی تھی۔
بالغ لڑکی کے نکاح سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن مبارک، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابیہ، صالح، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ جس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ کی وفات ہونے کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں اور ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور اپنی لڑکی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بیان کرتے ہوئے بیان کیا کہ اگر تم رضامند ہو تو میں اس کا نکاح تمہارے سے کر دوں گا وہ بیان کرنے لگے کہ میں اس مسئلہ میں غور کروں گا پھر کچھ روز کے بعد میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے غور کیا ہے ان دنوں میں نکاح نہیں کروں گا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو آپ کے نکاح میں دے دوں۔ یہ سن کر وہ خاموش رہے اور کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس بات پر مجھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ غصہ آیا پھر کچھ روز کے بعد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکاح میں دے دیا۔ اس کے بعد میری ملاقات حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو فرمانے لگے جس وقت آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح کرنے کے واسطے پیش کیا اور میں نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا تو ہو سکتا ہے کہ آپ کو غصہ آ گیا ہو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمانے لگے میری خاموشی کی صرف یہ وجہ تھی کہ مجھ کو علم تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا تذکرہ فرمایا ہے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا راز ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو چھوڑ دیتے تو میں قبول اور منظور کر لیتا۔
کنواری سے اس کے نکاح کی اجازت لینا
قتیبہ، مالک، عبداللہ بن فضل، نافع بن جبیر بن مطعم، ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بیوہ خاتون اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری لڑکی سے اجازت حاصل کرنے کے بعد اس کا نکاح کیا جائے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت پر دلالت کرتی ہے (ابن عباس راوی ہیں )۔
عورت کے دودھ پلانے سے مرد سے بھی رشتہ قائم ہو جاتا ہے
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرے دودھ شریک چچا ابو جعد رضی اللہ عنہ میرے گھر آئے تو میں نے ان کو واپس کر دیا۔ حضرت ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی کنیت ابو قیس تھی پھر جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے چچا کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو اجازت دے دو۔
٭٭ عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث، ابیہ، ایوب، وہب بن کیسان، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو قیس کے بھائی نے پردہ کی آیت کریمہ کے نزول کے بعد میرے مکان پر آنے کی اجازت حاصل کرنا چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں اس بات کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ان کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں میں نے عرض کیا مجھ کو دودھ عورت نے پلایا تھا مرد نے نہیں پلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تمہارے چچا ہیں اور وہ تمہارے یہاں آ سکتے ہیں (یعنی ان سے تمہارا پردہ نہیں ہے )۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو قیس کے بھائی افلح نے جو میرے دودھ شریک چچا تھے میرے یہاں آنے کی اجازت حاصل کی تو میں نے ان کو گھر میں داخلہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کو اجازت دے دو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے چچا ہیں (اگرچہ دودھ شریک ہی سہی) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ حکم پردہ سے متعلق حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔
٭٭ عبدالجبار بن علاء، سفیان، زہری و ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے چچا افلح نے پردہ کی آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد میرے گھر داخل ہونے کی اجازت چاہی تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا پھر جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے گھر تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا تھا نہ کہ کسی مرد نے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو اجازت دے دو اور تمہارا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو (یعنی تمہارا بھلا ہو) اس لیے کہ وہ تمہارے چچا ہیں۔
٭٭ ربیع بن سلیمان بن داؤد ، ابو الاسود و اسحاق بن بکر، بکر بن مضر، جعفر بن ربیعہ، عراک بن مالک، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو قیس کے بھائی افلح نے میرے یہاں داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو میں نے کہا کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیے بغیر منظوری نہیں دے سکتی۔ اس وجہ سے جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ ابو قیس کے بھائی افلح نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں میں نے عرض کیا مجھ کو تو ابو قیس کی بیوی نے دودھ پلایا تھا کسی مرد نے نہیں پلایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو اجازت دے دو کیونکہ وہ تمہارے چچا ہیں۔
بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق
یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، مخرم بن بکیر، ابیہ، حمید بن نافع، زینب بنت ابی سلمہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سہلہ بنت سہیل رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں سالم کے گھر آنے پر ابو حذیفہ کے چہرہ پر غصہ اور ناگواری کے آثار محسوس کرتی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو اپنا دودھ پلا دو۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو ایک ڈاڑھی والے شخص ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو دودھ پلا دو اس طریقہ سے ابو حذیفہ کے چہرہ پر غصہ کے آثار ختم ہو جائیں گے۔ سہلہ فرماتی ہیں اس کے بعد میں نے ان کے چہرہ پر کبھی وہ بات نہیں دیکھی۔
بڑے کو دودھ پلانے سے متعلق
عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سہلہ بنت حضرت سہیل رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سالم کے اپنے پاس داخل ہونے پر حضرت ابو حذیفہ کے چہرہ پر غصہ کے آثار دیکھتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس کو اپنا دودھ پلا دو۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو بڑے آدمی ہیں ان کو کس طریقہ سے دودھ پلاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا مجھ کو اس کا علم نہیں کہ وہ آدمی ہے پھر وہ اس کے بعد دوسری مرتبہ آئیں اور عرض کیا اس کے بعد میں نے ان کے چہرہ پر ناگواری کے آثار نہیں دیکھے۔
٭٭ احمد بن یحیی ابن وزیر، ابن وہب، سلیمان، یحیی و ربیعہ، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت سہیلہ رضی اللہ عنہا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے یہاں آنا جانا ہے اور کچھ سمجھنے اور جاننے لگا ہے جو مرد سمجھتے اور جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے اپنا دودھ پلا کر خود کو اس پر حرام کر دو۔ حضرت ابن ابی طیکہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سننے کے بعد ایک سال تک بیان نہیں کی پھر جس وقت میری حضرت قاسم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ تم اس سے نہ ڈرو بلکہ تم اس کو نقل کرو۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، سفیان، ابن جریج، ابن ابی ملیکہ، قاسم بن محمد، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ عمرو بن علی، عبدالوہاب، ایوب، ابن ابی ملیکہ، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولی سالم حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے ساتھ ان کے مکان میں رہا کرتے تھے ایک روز حضرت سہیل کی صاحبزادی حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سالم عاقل بالغ ہو گئے ہیں اور ہمارے یہاں وہ آتے رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان کی آمد حضرت ابو حذیفہ کے قلب پر ناگوار گزرتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس کو دودھ پلا کر خود کو اس پر حرام کر لو۔ چنانچہ انہوں نے سالم کو دودھ پلایا اور اس طریقہ سے حضرت ابو حذیفہ کے قلب سے بھی وہ بات نکل گئی پھر کچھ روز کے بعد دوسری مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میں نے اس کو دودھ پلایا تھا چنانچہ حضرت ابو حذیفہ کے قلب سے وہ بات نکل گئی۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس و مالک، ابن شہاب، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تمام ازواج مطہرات نے انکار فرمایا اور فرمایا کہ اس دودھ کے رشتہ کی وجہ سے کسی کو مکان میں داخلہ کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔ اس دودھ کے رشتہ سے یہ مطلب ہے کہ بڑی عمر میں جو کسی کو دودھ پلایا جائے تو اس کی وجہ سے کسی کو مکان میں داخلہ کی اجازت نہیں ہو سکتی اور تمام نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کیا کہ خدا کی قسم حضرت سہلہ رضی اللہ عنہا کو جو حکم فرمایا گیا تھا وہ حکم خاص سالم سے متعلق تھا اور انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ اس دودھ کے رشتہ کی وجہ سے کوئی شخص ہمارے مکان میں داخل نہ ہو (اور نہ ہم کسی کو اس رشتہ کی وجہ سے گھر میں دیکھیں )
٭٭ عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابیہ، جدی، عقیل، ابن شہاب، ابو عبیدہ بن عبداللہ بن زمعہ، زینب بنت ابی سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی سابقہ حدیث کی مانند یہ حدیث منقول ہے۔
بچے کو دودھ پلانے کے دوران بیوی سے صحبت کرنا
عبید اللہ و اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، مالک، ابو اسود، عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے ارادہ کیا تھا کہ دودھ پلانے کی مدت میں بیوی سے صحبت کرنے کی ممانعت کر دوں لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ اہل فارس اور اہل روم بھی اسی طریقہ سے کیا کرتے ہیں اور اس سے ان کی اولادوں کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ حضرت اسحاق کی روایت میں یصنعہ کی جگہ یصنعونہ ہے۔
عزل کے بارے میں
اسمعیل بن مسعود و حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، ابن عون، محمد بن سیرین، عبدالرحمن بن بشر بن مسعود، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں عزل سے متعلق تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ کسی کی بیوی ہے اور وہ اس سے صحبت کرتا ہے لیکن وہ شخص نہیں چاہتا کہ اس کو حمل قرار پائے پھر اسی طریقہ سے کوئی آدمی اپنی باندی سے صحبت کرتا ہے لیکن وہ شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کو اس سے حمل قرار پائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم اس طریقہ سے نہ کرو تو کیا نقصان ہے اس لیے کہ حمل تو مقدر کی وجہ سے ہی قرار پاتا ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، ابو الفیض، عبداللہ بن مرہ، حضرت ابو سعید زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا اور عرض کیا میری بیوی بچہ کو دودھ پلاتی ہے اس وجہ سے میں نہیں چاہتا کہ اس کو حمل قرار پائے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تقدیر میں لکھا ہے کہ رحم میں کیا ہے ؟وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
رضاعت کا حق اور اس کی حرمت سے متعلق حدیث
یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ہشام، ابیہ، حجاج بن حجاج، حضرت حجاج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ پر سے حق رضاعت کس طریقہ سے ادا ہو سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دودھ پلانے والی کو ایک غلام یا باندی دینے سے۔
رضاعت میں گواہی کے متعلق
علی بن حجر، اسماعیل، ایوب، ابن ابو ملیکہ، عبید بن ابو مریم، عقبہ بن حارث، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک خاتون سے نکاح کیا تو ایک کالے رنگ کی عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے اس پر میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میں نے بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چہرہ انور پھیر لیا۔ میں دوسری جانب سے آیا اور عرض کیا کہ وہ جھوٹی عورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم کیسے مان لیں کہ وہ جھوٹی ہے حالانکہ وہ کہتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے تم اس کو چھوڑ دو۔
والد کی منکوحہ عورت سے نکاح کرنے والے شخص سے متعلق حدیث
احمد بن عثمان بن حکیم، ابو نعیم، حسن بن صالح، سدی عدی بن ثابت، حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں سے ملاقات کی تو ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے عرض کیا کہ تم کس طرف جا رہے ہو انہوں نے فرمایا کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک اس قسم کے شخص کی گردن اتارنے کے واسطے روانہ فرمایا ہے کہ جس نے اپنے والد کی وفات کے بعد اس کی اہلیہ سے نکاح کر لیا ہے۔
٭٭ عمرو بن منصور، عبداللہ بن جعفر، عبید اللہ بن عمرو، زید، عدی بن ثابت، حضرت یزید بن براء رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا سے ملاقات کی تو ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے دریافت کیا تمہارا کس جگہ جانے کا ارادہ ہے تو فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک ایسے آدمی کی جانب بھیجا ہے کہ جس نے کہ اپنے والد کی عورت سے شادی کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حکم فرمایا ہے کہ میں اس شخص کی گردن اتار لوں اور میں اس شخص کا مال غضب کر لوں۔
آیت کریمہ کی تفسیر کا بیان
محمد بن عبدالاعلی، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، ابو الخلیل، ابو علقمہ ہاشمی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اوطاس کی جانب لشکر روانہ فرمایا جو کہ طائف میں ایک جگہ کا نام ہے پھر دشمن سے مقابلہ ہوا اور انہوں نے ان کو مار ڈالا اور ہم لوگ مشرکین پر غالب آ گئے اور ہم کو باندیاں ہاتھ لگ گئیں اور ان کے شوہر مشرکین میں رہ گئے تھے (یعنی ان کی عورتیں ہاتھ لگ گئیں ) اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ ہمبستری کرنے سے پرہیز اختیار کیا پھر خداوند قدوس نے آیت کریمہ آخر تک نازل فرمائی یعنی وہ عورتیں تم پر حرام ہیں جو کہ دوسروں کے نکاح میں ہیں لیکن اس وقت حرام نہیں جس وقت تم مالک ہو تم ان کے پاس جاؤ اور اس حدیث میں جو تفسیر مذکور ہے اس سے بھی یہی مطلب نکلتا ہے اور وہ تفسیر یہ ہے یعنی یہ عورتیں تم کو حلال نہیں عدت گزرنے کے بعد اس لیے کہ جس وقت یہ خواتین جہاد میں گرفتار ہوئیں تو وہ باندیاں بن گئیں اگرچہ ان کے شوہر کافر زندہ ہوں لیکن عدت کے بعد مسلمان ان سے ہم بستری کر سکتے ہیں۔
لڑکی یا بہن کے مہر کے بغیر نکاح کرنے کی ممانعت سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکاح شغار سے ممانعت فرمائی۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، بشر، حمید، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اسلام میں جلب جنب اور شغار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کوئی آدمی (کسی دوسرے شخص کا) مال چھینے گا تو اس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں۔
٭٭ علی بن محمد بن علی، محمد بن کثیر، فزاری، محمید، انس رضی اللہ عنہ اس سند سے بھی حدیث سابق جیسی روایت مروی ہے۔ صاحب کتاب کہتے ہیں یہ حدیث خطاء فاحش ہے۔ روایت وہی صحیح ہے جو بشر سے مروی ہے۔
شغار کی تفسیر
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، نافع، ح، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکاح شغار کی ممانعت فرمائی اور شغار (کی وضاحت) یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی صاحبزادی کو کسی دوسرے کے نکاح میں اس شرط سے دے کہ وہ (دوسرا شخص) بھی اپنی صاحبزادی کا اس سے نکاح کرے گا اور دونوں (خواتین) کا مہر کچھ بھی نہ ہو۔
٭٭ محمد بن ابراہیم و عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق الازرق، عبید اللہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا شغار سے اور حضرت عبید اللہ جو کہ اس حدیث کے راویوں میں سے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ اس حدیث شریف میں شغار کے معنی یہ ہیں کوئی شخص اپنی لڑکی کا نکاح اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص اپنے بہن کا (یا لڑکی کا) اس شخص سے نکاح کرے (اور مہر ایک دوسرے کے نکاح کے عوض ہو)۔
قرآن کریم کی سورتوں کی تعلیم پر نکاح سے متعلق
قتیبہ، یعقوب، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اچھی طرح سے نظر اٹھا کر دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا سر مبارک نیچے کی جانب فرمالیا اس خاتون نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو کچھ نہیں فرماتے۔ تو وہ خاتون بیٹھ گئی کہ اس دوران وہ کھڑا ہوا شخص جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے تھا وہ کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس خاتون کی خواہش نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس خاتون کا مجھ سے نکاح فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ موجود ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ نہیں خدا کی قسم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کچھ بھی میسر نہیں (یعنی میں بالکل خالی ہوں ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دیکھو تم جا کر لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ تمہارے پاس لوہے کی انگوٹھی ہی ہو چنانچہ وہ شخص واپس حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ خدا کی قسم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو تو لوہے کی انگوٹھی تک نصیب نہیں ہو سکی۔ البتہ یہ میرا تہہ بند ہے میں اس کو آدھا دے دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تمہارا تہہ بند لے کر کیا کرے گی اگر تم اس کو پہن لو تو اس کے واسطے کچھ بھی نہیں اور اگر وہ پہن لے تو تم ننگے رہ جاؤ۔ چنانچہ وہ شخص کافی دیر تک اس طرح سے بیٹھا رہا پھر اٹھ کر چل دیا۔ پھر جاتے وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف دیکھا چنانچہ اس کو بلایا گیا جس وقت وہ شخص حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے دریافت فرمایا کہ تم کو قرآن کریم کا کچھ علم ہے ؟ (یعنی کیا تم قرآن کریم کی تعلیم دے سکتے ہو؟) اس شخص نے عرض کیا کہ مجھ کو فلاں فلاں سورت یاد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم وہ سورتیں مجھ کو حفظ پڑھ کر سنا سکتے ہو اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے اس خاتون کو تمہارے قبضہ میں کر دیا (یعنی اس عورت کا نکاح تم سے کر دیا) اس قرآن کریم کے عوض جو کہ تم کو یاد ہے۔
اسلام قبول کر نے کی شرط رکھ کر نکاح کرنا
قتیبہ، محمد بن موسی، عبداللہ بن عبداللہ بن ابو طلحہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو طلحہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور ان دونوں کے درمیان اسلام تھا۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کو پیغام نکاح بھیجا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ میں تو اسلام قبول کر چکی۔ اگر تم بھی اسلام قبول کر لو تو میں تم سے نکاح کر لوں گی پھر وہ مسلمان ہوئے اور ان کا مہر اسلام مقرر ہوا۔
٭٭ محمد بن نضر بن مساور، جعفر بن سلیمان، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا خدا کی قسم ابو طلحہ رضی اللہ تم رد کرنے کے لائق نہیں ہو (یعنی تمہاری گزارش منظور ہو گی) مگر اس وجہ سے کہ تم کافر ہو اور میں مسلمان ہوں میرے واسطے حلال اور جائز نہیں ہے کہ میں تم سے نکاح کروں البتہ اگر تم اسلام قبول کر لو۔ پس تمہارا اسلام قبول کرنا تمہارا مہر ہو گا۔ یعنی میں مہر کسی دوسری چیز کا مقرر نہیں کرتی صرف تمہارا اسلام قبول کرنا ہی مہر ہے اور میں تم سے کچھ اور نہیں مانگتی۔ پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور مہر وہی رہا اور حضرت ثابت رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بعد حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایسی عورت نہیں سنی کہ جس کا مہر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا سے زیادہ با عزت ہو اس لیے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مہر اسلام تھا اور اسلام سے زیادہ با عزت کونسی شئی ہو سکتی ہے ؟ اور حضرت ابو طلحہ نے ان سے صحبت کی اور حضرت ام سلیم سے بچے بھی پیدا ہوئے۔
آزاد کر نے کو مہر مقرر کر کے نکاح کر نے سے متعلق
قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ و عبد العزیز، انس بن مالک، ح، قتیبہ حماد، ثابت و شعیب، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد فرمایا اور ان کے آزاد کرنے کو ان کا مہر مقرر فرمایا۔
٭٭ محمد بن رافع، یحیی بن آدم، سفیان، ح، عمرو نب منصور، ابو نعیم، سفیان، یونس، ابن حبحاب، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آزاد فرمایا اور آزادی کو اس بیوی کا مہر مقرر فرمایا۔
باندی کو آزاد کرنا اور پھر اس سے شادی کرنے میں کس قدر ثواب ہے ؟
یعقوب بن ابراہیم، ابن ابو زائدہ، صالح بن صالح، عامر، ابو بردہ بن ابو موسی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین ایسے آدمی ہیں کہ جن کو دوگنا ثواب ہے پہلے تو وہ شخص کہ جس کے پاس باندی ہو اور اس شخص نے اس کو ادب سکھلایا جیسا کہ ادب سکھلانے کا حق ہے اور تعلیم دی جیسا کہ تعلیم دینے کا حق ہے یعنی علم اور ادب میں اس کو قابل اور لائق بنایا اور آزاد کرنے کے بعد اس سے شادی کرے اور دوسرا غلام جو کہ اپنے آقا کا حق ادا کرے اور تیسرا اہل کتاب جو کہ ایمان لے آیا ہو۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو زبید عبثر بن قاسم، مطرف، عامر، ابو بردہ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے اپنی باندی کو آزاد کیا اور پھر اس سے نکاح کر لیا تو اس شخص کے واسطے دوگنا ثواب ہے یعنی ایک تو آزاد کرنے کا اور دوسرے اس سے شادی کرنے کا۔
مہروں میں انصاف کرنا
یونس بن عبدالاعلی و سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس آیت کریمہ کی تفسیر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمائی اور وہ آیت کریمہ یہ ہے یعنی اگر تم اس سے اندیشہ کرو کہ تم یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو تم ان خواتین سے نکاح کرو جو کہ تم کو پسندیدہ ہوں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میرے بھانجے ! اس آیت کریمہ میں ان یتیم لڑکیوں کا تذکرہ ہے جو کہ اولیاء کے پاس پرورش حاصل کرتی ہے اور وہ لڑکیاں مال میں حصہ رکھتی ہیں جو مال کہ ان کے ورثا کو ملا ہے ان کے سبب کی وجہ سے ان کے اولیاء نے ان کی صورت اور دولت دیکھ کر اس طریقہ سے چاہا کہ ان کو اپنے نکاح میں کر لیں۔ لیکن اس قدر مہر سے جس قدر ان کو غیر شخص دے سکتا ہے۔ یعنی آپ ان سے نکاح نہ کریں اور دوسرے لوگوں سے ان کا نکاح کر دیں تو دوسرا مہر زیادہ دے گا لیکن عورت کے ولی چاہتے کہ ان کے ساتھ نا انصافی کر کے کچھ مہر پر آپ ان سے نکاح کر لیں۔ خداوند قدوس کی جانب سے ان کی ممانعت نازل ہوئی اور ان کے ساتھ کم مہر پر نکاح کر نے سے ممانعت فرمائی گئی اور حکم ہوا کہ اگر تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو تم انصاف کرو۔ ورنہ جس کو تمہارا دل چاہے وہ کرو اور ان کے علاوہ پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کے بعد فرمایا کہ لوگوں نے دریافت کیا یعنی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا پھر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ ترجمہ لوگ تم سے رخصت مانگتے ہیں عورتوں کے بارے میں تم کہہ دو کہ ان سے متعلق خداوند تعالیٰ تم کو حکم فرماتا ہے اور وہ آیات بھی جو کہ قرآن کریم میں سے تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور جو ان یتیم لڑکیوں سے متعلق ہیں جن کو کہ تم ان کا مقرر کردہ حق نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنے میں تم لوگ رغبت رکھتے ہو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گزشتہ آیت کریمہ میں مذکور آیات سے مراد پہلی آیت کریمہ ہے یعنی آخر تک۔ یعنی اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتامیٰ کے درمیان انصاف قائم نہیں کر سکو گے تو تم اپنی پسند کی خواتین سے نکاح کرو پھر ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دوسری آیت کریمہ میں مذکور سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے کہ جس نے کہ تمہارے پاس پرورش پائی لیکن تم اس کے کم مالدار ہونے اور کم خوبصورت ہونے کی وجہ سے اس سے نکاح کرنے سے نفرت کرتے ہو چنانچہ ان لوگوں کو ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا گیا کہ جن کی جانب ان کی دولت کی وجہ سے رغبت تھی کہ ان سے اس شرط پر نکاح کر سکتے ہو کہ ان کے مہر میں تم انصاف سے کام لو۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز بن محمد، یزید بن عبداللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارہ اوقیہ اور نش مہر مقرر فرمائے اور اس کی مقدار پانچ سو درہم مقرر ہوئی۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن مہدی، داؤد بن قیس، موسیٰ بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور مبارک میں دس اوقیہ مہر مقرر تھا۔
٭٭ علی بن حجر بن ایاس بن مقاتل بن مشمرخ بن خنالد، اسماعیل بن ابراہیم، ایوب و ابن عون و سلمہ بن علقمہ و ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، سلمہ، ابن سیرین، حضرت ابو عجفا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا خبردار! تم لوگ خواتین کے مہر میں حد سے تجاوز نہ کیا کرو۔ کیونکہ اگر یہ کام دنیا میں کچھ عزت کا ہوتا یا خداوند قدوس کے نزدیک پرہیزگاری کا کام ہوتا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم سب سے پہلے اس کے حقدار ہوتے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازواج مطہرات میں سے کسی کا اور کسی لڑکی کا مہر اس سے زیادہ یعنی جس کی مقدار بارہ اوقیہ ہوتی ہے مقرر نہیں فرمایا اور انسان اپنی اہلیہ کے سلسلہ میں حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اس کو اپنی بیوی سے دشمنی ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے تمہارے واسطے مشک کی رسی کے واسطے بھی مصیبت برداشت کی (یعنی تمہارے واسطے میں نے سخت تکلیف برداشت کی) اور ایک دوسری روایت میں علق القربۃ کا لفظ ہے یعنی مجھ کو پسینہ آ گیا۔ حضرت ابو عجفا رضی اللہ نے فرمایا کہ میں ایک لڑکا تھا مولد (یعنی خاص عرب نہ تھا) تو میں نہیں سمجھ سکا کہ کیا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ ایک دوسری بات کہتے ہیں کہ تم لوگوں کا اگر کوئی شخص جنگ میں قتل کر دیا جائے تو کیا کہا جاتا ہے کہ وہ شخص شہید ہے اور وہ شخص شہید مارا گیا یا وہ شخص شہید ہے۔ ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنے اونٹ کی سرین پر وزن لادا ہو یا اونٹ کے کجاوے پر سونے چاندی کی تجارت کی ہو (یعنی اس شخص کی نیت خالص جہاد کی نہ رہی ہو بلکہ دنیا حاصل کرنا مقصود ہو) تو تم اس طریقہ سے نہ کہو بلکہ اس طریقہ سے کہو کہ جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص راہ خدا میں مارا جائے یا قتل ہو جائے تو وہ شخص جنت میں داخل ہو گا اور تم لوگ کسی خاص آدمی سے کوئی بات نہ کہو خداوند قدوس کو معلوم ہے کہ اس شخص کی کیا نیت تھی۔
٭٭ عباس بن محمد دوری، علی بن حسن بن شقیق، عبداللہ بن مبارک، معمر، زہری، عروہ بن زبیر، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے نکاح فرمایا اور وہ ملک حبش میں تھیں وہاں کے بادشاہ نے کہ جس کا نام نجاشی بادشاہ تھا نکاح کر نے کے بعد جہیز وغیرہ اپنی جانب سے دے دیا اور مہر چار ہزار مقرر فرمایا اور شرحبیل بن حسنہ کے ساتھ دے کر بھیج دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ام حبیبہ اپنی اہلیہ محترمہ کو مہر کا کوئی حصہ نہیں بھیجا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اور دوسری ازواج مطہرات کا مہر چار سو درہم تھا۔
سونے کی ایک کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر کے بقدر نکاح کرنا
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اس وقت ان کے کپڑے یا جسم پر زرد رنگ کا دھبہ تھا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کیا مہر ادا کیا ہے ؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ایک نواۃ (یعنی کھجور کی گٹھلی کے وزن کے بقدر) سونا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک بکری کا ہی ولیمہ ہو۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، شعبہ، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ شادی کی مسرت کا نشان ہے۔ میں نے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میں نے شادی کر لی ہے ایک انصاری خاتون سے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ تم نے مہر کس قدر مقرر کیا ہے ؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ایک (نواۃ) سونے کے بقدر۔
٭٭ ہلال بن علاء، حجاج، ابن جریج، عمرو بن شعیب، ح، عبداللہ بن محمد بن ثمیم، حجاجا، ابن جریج، عمرو بن شعیب، ابیہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس خاتون نے مہر پر نکاح کیا یا جس خاتون نے بخشش پر نکاح کیا یعنی بخشش کے وعدہ پر نکاح کیا تو یہ چیزیں عورت کی ہیں اور جو کچھ نکاح کے بعد ہو گا وہ دینے والے شخص کا حق ہے اور انسان کی عظمت اور عزت بیٹی اور بہن کی وجہ سے ہے یعنی اگر لڑکی اور بہن کو دوسرے کے نکاح میں دینے یا اپنے نکاح میں ان کو لانے سے خوش رکھے گا تو ایسا شخص (معاشرہ میں ) قابل تعریف سمجھا جائے گا۔
مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا
عبدالرحمن بن محمد بن عبدالرحمن، ابو سعید عبدالرحمن بن عبد اللہ، زائدہ بن قدامہ، منصور، ابراہیم، حضرت علقمہ اور حضرت اسود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا اور وہ اس طرح کا تھا کہ ایک شخص نے کسی خاتون سے نکاح کیا اور نکاح میں کسی قسم کا مہر ذکر نہیں کیا گیا یعنی مہر کچھ مقرر نہیں ہوا اور وہ شخص عورت سے ہم بستری کیے بغیر فوت ہو گیا۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں سے دریافت کرو کہ اس مسئلہ میں کوئی حدیث شریف ہے یا نہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم کو اس کے بارے میں علم نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنی عقل سے اس مسئلہ میں بیان کروں گا۔ اگر ٹھیک ہوا تو خداوند قدوس کی جانب سے ہے یہ کہہ کر انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اس عورت کو مہر مثل ادا کیا جانا چاہیے یعنی جس طریقہ سے مہر اس خاتون کے خاندان اور قبیلہ میں دوسری خواتین کاہے جو کہ اس خاتون کی ہم عمر ہیں اس خاتون کا بھی اس طرح کا مہر ہے بغیر کسی زیادتی اور کمی کے اور اس خاتون کا حصہ اس کے ترکہ میں بھی ہے اور اس کو حد سے بھی گزرنا چاہیے۔ یہ بات سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اسی طریقہ سے ہماری بیوی کا ایک مقدمہ کا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا تھا اس خاتون کو بردع بنت واشق کہتے تھے اس نے اس شخص سے نکاح کیا پھر وہ شخص مر گیا اور اس کو عورت سے صحبت کرنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ پھر اس شخص سے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک اس قسم کے مہر کا حکم فرمایا جو کہ اس خاتون کہ یہاں (یعنی اس کے خاندان کی دوسری خواتین) کا مہر تھا اور اس خاتون کو وراثت میں شامل فرمایا اور اس خاتون کے واسطے عدت کا حکم فرمایا یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا لیے اور اللہ اکبر فرمایا۔ یعنی اس فیصلہ سے ان کو مسرت ہوئی (کہ انہوں نے صحیح فیصلہ فرمایا) حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ اس حدیث شریف میں اسود کا تذکرہ علاوہ زریدہ کسی سے منقول نہیں ہے۔
مہر کے بغیر نکاح کا جائز ہونا
احمد بن سلیمان، یزید، سفیان، منصور، ابراہیم، حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک خاتون کا مقدمہ پیش ہوا اور اس خاتون کا مہر مقرر نہیں تھا اور اس کے شوہر نے اس سے ہم بستری بھی نہیں کی تھی اور اس کا شوہر بغیر صحبت کے ہی فوت ہو گیا۔ لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس مسئلہ کے دریافت کرنے کے واسطے تقریباً ایک ماہ تک پھرتے رہے۔ تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم شرعی بتلایا آخر ایک دن فرمانے لگے کہ میری رائے ہے کہ اس خاتون کا مہر اس کے خاندان کی خواتین جیسا ہے نہ تو کم اور نہ ہی زیادہ اور اس کے واسطے وراثت بھی ہے اور اس کو عدت کرنا ضروری ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات اور ان کے فیصلہ پر حضرت معقل بن سنان نے شہادت دی اور کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بردع واشق کی لڑکی کے مقدمہ اسی طریقہ سے فیصلہ فرمایا تھا جیسا کہ تم نے فیصلہ کیا۔
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، فراس، شعبی، مسروق، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے مقدمہ میں فیصلہ فرمایا کہ جس نے ایک خاتون سے نکاح کیا تھا اور نہ تو اس نے مہر مقرر کیا تھا اور نہ اس نے ہم بستری کی تھی اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح کا حکم فرمایا کہ ایسی خاتون کو مہر دلایا جائے اور اس کو ترکہ بھی دلایا جائے اور اس پر عدت کرنا لازم ہے۔ یہ بات سن کر حضرت معقل بن سبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واثق کی لڑکی یروع کے جھگڑے میں اسی طریقہ سے فیصلہ فرمایا تھا۔
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت علقمہ بن مسعود سے بھی اس مضمون کی روایت منقول ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔
٭٭ علی بن حجر، علی بن مسہر، داؤد بن ابی ہند، شعبی، حضرت علقمہ بن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کسی قوم کے کچھ لوگ آئے اور عرض کرنے لگے کہ کسی شخص نے کسی خاتون سے نکاح کیا تھا اور نہ تو اس کا مہر مقرر کیا تھا اور نہ اس سے ہم بستری کی تھی اور اس شخص کا اس طریقہ سے انتقال ہو گیا۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے۔ اس طرح کی مشکل بات اور مشکل سوال حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کسی نے مجھ سے نہیں دریافت کیا تھا اس وجہ سے تم کسی دوسرے شخص کے پاس چلے جاؤ غرض ان لوگوں نے ایک ماہ تک پیچھا کیا اور آخرکار عرض کرنے لگے ہم لوگ اب کس کے پاس جائیں اور مسئلہ کا حکم کس سے دریافت کریں اور (ہماری نظر میں تو) صحابہ کرام میں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسا صاحب علم اور بزرگ اس شہر میں کوئی نہیں ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اب میں اپنی رائے کے زور سے حکم کرتا ہوں اگر حکم درست ہوا تو خداوند قدوس کی جانب سے ہے جو کہ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ ہے اور اگر غلط ہو تو یہ میری غلطی ہے اور شیطان کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں غلطی سے بالکل بری ہیں۔ میری رائے میں ایسی خاتون کو مہر دینا چاہیے کہ جس قدر اس کے خاندان کی خواتین کا مہر ہے نہ تو اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ اور اس خاتون کے واسطے وراثت بھی ہے اور اس کو عدت گزارنا چاہیے چار ماہ اور دس دن اور کہا کہ یہ مسئلہ چند لوگوں نے حضرت اشجع سے مناسب لوگ پھر اٹھ گئے اور کہنے لگے کہ ہم لوگ گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اس قسم کا فیصلہ فرما دیا ہے جیسا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری برادری کی ایک عورت کا فیصلہ فرمایا تھا۔ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس قدر کبھی خوش و خرم نہیں دیکھا (کہ جس قدر اس دن ان کو خوش و خرم دیکھا) مگر اسلام قبول کرنے کے وقت میں۔ اس لیے کہ ان کی رائے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رائے کے مطابق ہو گئی۔
ایسی خاتون کا بیان کہ جس نے کسی مرد کو بغیر مہر کے خود پر ہبہ اور بخشش کیا
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اپنی جان کو بخشش دے رہی ہوں وہ عورت یہ جملہ کہہ کر کھڑی ہو گئی اور دیر تک کھڑی رہی اس دوران ایک شخص اٹھا اور عرض کرنے لگا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس خاتون کی خواہش نہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس خاتون کا مجھ سے نکاح فرما دیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ کچھ نہیں اور مجھے کچھ بھی میسر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے فرمایا کہ جاؤ تم تلاش کر لاؤ اگرچہ کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم کو قرآن کریم آتا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ مجھ کو یہ سورتیں یاد ہیں اور اس شخص نے ان سورتوں کا نام لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارا نکاح اس خاتون سے کر دیا اس قرآن پر جو کہ تم کو یاد ہے (یعنی مہر کے بدلہ تمہارا نکاح کر دیا)۔
کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا
محمد بن بشار، محمد، شعبہ، ابو بشر، خالد بن عرفطہ، حبیب بن سالم، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کے واسطے کہ جس نے اپنی بیوی کی باندی سے زنا کا ارتکاب کیا تھا یہ فرمایا تھا کہ اگر حلال کر دی تھی اس عورت نے وہ باندی اس شخص (یعنی زنا کرنے والے کے لیے ) تو میں اس صورت میں اس زانی کو سو کوڑے ماروں گا اور اگر اس عورت نے (یعنی زانی کی بیوی نے ) وہ باندی زانی کے لیے حلال نہیں کی تھی تو میں اس کو سنگسار کروں گا۔
کسی کے واسطے شرم گاہ حلال کرنا
محمد بن معمر، حبان، ابان، قتادہ، خالد بن عرفطہ، حضرت حسیب بن سالم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا اور وہ اس شخص کا تھا کہ جس کا نام عبدالرحمن تھا اور لوگوں نے اس کا نام قرقور بھی رکھ لیا تھا وہ جھگڑا یہ تھا کہ وہ شخص اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر بیٹھا حضرت نعمان بن بشیر فرمانے لگے کہ میں اس مقدمہ کا فیصلہ اس طرح سے کروں گا کہ جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فیصلہ فرمایا تھا اور حضرت نعمان بن بشیر نے فرمایا کہ اگر تیرے واسطے وہ باندی حلال کر دی تھی تو میں تیرے کوڑے ماروں گا ورنہ پھر میں تجھ کو سنگسار کروں گا آخرکار اس کے سو کوڑے مارے کیونکہ اس کی بیوی نے اس کو وہ باندی حلال کر دی تھی حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے حسیب بن سالم کو تحریر کیا تھا کہ اس نے مجھ کو یہی لکھا تھا۔
٭٭ ابو داؤد ، عارم، حمادبن سلمہ، سعید بن ابو عروبہ، قتادہ، حبیب بن سالم، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا ترجمہ مندرجہ بالا حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، قتادہ، حسن، قبیصہ بن حریث، حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک اس قسم کے بارے میں جس نے کہ اپنی بیوی کی باندی سے زنا کیا تھا فیصلہ فرمایا کہ اگر اس شخص نے زبردستی زنا کا ارتکاب کیا ہے تو وہ باندی آزاد ہو گی اور اس شخص کو اس باندی کے عوض ایک باندی خرید کر اپنی بیوی کو دینا ہو گی اور اگر وہ اس پر راضی تھی تو وہ باندی اسی کی ہو گئی ہے اور وہ شخص اپنی بیوی کو اس کے عوض ایک باندی دے گا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، سعید، قتادہ، حسن، سلمہ بن محبق، حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کا فیصلہ فرمایا کہ جس شخص نے کہ اپنی اہلیہ کی باندی سے زنا کا ارتکاب کیا تھا (اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ اگر اس مرد نے عورت سے زبردستی کر کے زنا کا ارتکاب کیا تھا) تو اس عورت کی وہ باندی آزاد ہو گی اور اس مرد کو (ضمانت میں ) اس جیسی ایک باندی دینا پڑے گی یعنی وہ مرد بیوی کو اس جیسی دوسری باندی خرید کر دے گا۔ اس لیے کہ یہ باندی زبردستی کی وجہ سے آزاد ہو گی اور اس شخص کے مال سے اس باندی کی مالک (یعنی بیوی) کو یہ شخص دوسری باندی دے دے گا اگر زبردستی نہیں کی بلکہ خوشی اور رضامندی سے یہ کام ہوا تو یہ باندی اس کی رہی کہ جس کی وہ باندی تھی اور دوسری باندی اس جیسی اس شخص کے ذمہ لازم اور واجب ہو گی۔ (واضح رہے کہ مذکورہ حکم بطور جرمانہ کے بیان فرمایا گیا ہے )
نکاح کے متعہ حرام ہونے سے متعلق
عمرو بن علی، یحیی، عبید اللہ بن عمر، زہری، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جو کہ دونوں اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو یہ اطلاع ملی کہ ایک شخص ایسا ہے کہ جو متعہ کی کچھ حرمت نہیں سمجھتا۔ اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ یہ گمراہ شخص ہے کیونکہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے دن متعہ سے اور گدھے کے گوشت سے منع فرمایا (واضح رہے کہ مذکورہ بالا روایت میں ہم نے حدیث بالا میں مذکورہ لفظ عنہا کا ترجمہ اس کے بجائے متعہ سے کیا ہے کیونکہ اس جگہ اس سے مراد متعہ ہے۔
٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، عبداللہ و حسن، محمد، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے دن خواتین کے ساتھ متعہ کرنے اور شہری گدھے کے گوشت سے منع فرمایا۔
٭٭ عمرو بن علی و محمد بن بشار و محمد بن مثنی، عبدالوہاب، یحیی بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبداللہ و حسن، محمد بن علی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر والے روز خواتین کے ساتھ متعہ کرنے کی ممانعت ارشاد فرمائی اور حضرت ابن مثنی ٰسے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ حنین والے دن (نکاح متعہ) سے منع فرمایا اور ابن مثنیٰ نقل فرماتے ہیں کہ مجھ کو عبدالوہاب نے اپنی کتاب میں اس طریقہ سے حدیث بیان فرمائی ہے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ربیع بن سبرہ، حضرت سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے نقل ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت (نکاح) متعہ کی اجازت عطا فرمائی تو میں اور ایک دوسرا شخص قبیلہ بنی عامر کی ایک خاتون کے پاس پہنچے اور ہم نے اس سے اپنا ارادہ ظاہر کیا وہ کہنے لگی کہ تم مجھ کو کیا بخشو گے ؟ میں نے جواب دیا میں چادر دیتا ہوں اور میرے ساتھی نے بھی یہی کہا۔ لیکن میرے ساتھی کے پاس جس قسم کی چادر تھی وہ میری چادر سے عمدہ اور اعلی ٰ تھی لیکن میں اس شخص (یعنی ساتھی) سے زیادہ جوان (اور خوبصورت) تھا۔ جب وہ خاتون میرے ساتھی کی چادر دیکھتی تو وہ اس کی طرف مائل ہوتی۔ لیکن جب وہ مجھ پر نگاہ ڈالتی تو میں اس کو زیادہ پرکشش لگتا بہرحال وہ خاتون مجھ سے کہنے لگی کہ تم میرے پاس آ جاؤ مجھ کو تم اور تمہاری چادر کافی ہے (اشارہ ہے نکاح متعہ کی رضامندی کی طرف) پھر اس کو میں نے تین دن اپنے پاس رکھا۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کسی کے پاس متعہ والی خواتین ہیں (یعنی جن لوگوں نے نکاح متعہ کر رکھا ہے ) وہ لوگ ان خواتین کو گھر سے نکال دیں (یعنی ان سے بالکل لاتعلق ہو جائیں اس لیے کہ اب متعہ حرام قرار دے دیا گیا ہے )
نکاح کی شہرت آواز اور ڈھول بجانے سے متعلق
مجاہد بن موسی، ہشیم، ابو بلج، حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حلال نکاح اور حرام کی تمیز آواز اور ڈھول سے ہوتی ہے۔
٭٭ محمد بن عبد الاعلی، خالد، شعبہ، ابو بلج، حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (نکاح) حلال اور حرام کے درمیان فرق اعلان کرنے کاہے۔
دولہا اور (نکاح کے موقع پر) کیا دعا دی جائے ؟
عمرو بن علی و محمد بن عبدالاعلی، خالد، اشعث، حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عقیل بن ابی طالب نے قبیلہ بنو جشم کی کسی خاتون سے نکاح کیا پس لوگوں نے ان کو دعا دی (اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اور تمہاری اولاد میں خداوند قدوس اتحاد و اتفاق قائم فرمائے اور تم کو صاحب اولاد کرے ) اور وہ خاتون قبیلہ جشم کی تھی۔ یہ سن کر عقیل کہنے لگے کہ جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا تم اس طریقہ سے کہو اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے ارشاد فرمایا تھا یعنی خداوند قدوس تمہاری ہر شئی میں برکت اور خیر عطا فرمائے اور تم کو صاحب برکت بنا دے۔
جو شخص نکاح کے وقت موجود نہ ہو تو اس کو اس کی دعا دینے سے متعلق
قتیبہ، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے کپڑے پر ایک نشان دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے ایک خاتون سے نکاح کر لیا ہے اور اس کا مہر سونے کی گٹھلی کے وزن کے برابر مقرر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا دی اور فرمایا کہ اس نکاح میں خداوند قدوس تم کو برکت عطا فرمائے اور تم ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔
شادی میں زرد رنگ لگانے کی اجازت سے متعلق
ابو بکر بن نافع، بہز بن اسد، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوف تشریف لائے اور ان کے اوپر زعفران کے رنگ کا اثر تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ کیا ہے ؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا یہ شادی کا نشان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے مہر کتنا مقرر کیا ہے ؟ حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا ایک گٹھلی کے برابر سونا مہر مقرر کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہو۔
٭٭ احمد بن یحیی بن وزیر بن سلیمان، سعید بن کثیر بن عفیر، سلیمان بن بلال، یحیی بن سعید، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ پر زردی کا اثر دیکھا۔ یعنی یہ قول حضرت عبدالرحمن بن عوف کاہے۔ پھر فرمایا اے عبدالرحمن! یہ کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے عرض کیا یہ شادی کرنے کانشان ہے۔ میں نے قبیلہ انصار کی ایک خاتون سے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ہو۔
سہاگ رات میں اہلیہ کو تحفہ دینا
عمرو بن منصور، ہشام بن عبدالملک، حماد، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا میری دلہن کو میرے پاس بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس کو کچھ ہدیہ دے دو۔ میں نے عرض کیا میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ حطمی زرہ کہاں ہے ؟ (حطمیہ بن حارث نامی شخص کی جانب لفظ حطمیہ منسوب ہے اور حطمیہ نامی شخص عرب میں زرہ بنایا کرتا تھا) بہرحال میں نے عرض کیا کہ وہ تو میرے پاس موجود ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم وہ دلہن کو دے دو
٭٭ ہارون بن اسحاق، عبدہ، سعید، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ دے دو۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری زرہ حطمیہ کس جگہ چلی گئی؟
ماہ شوال میں (دلہن کو سہاگ رات کے لیے ) دولہا کے پاس بھیجنا
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سفیان، اسماعیل بن امیہ، عبداللہ بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شوال کے مہینہ میں نکاح فرمایا اور میں ان کے پاس اسی ماہ شوال میں آئی پھر ازواج مطہرات میں سے کون سی اہلیہ محترمہ مجھ سے زیادہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تم سے خوش اور محفوظ تھی۔
نو سالہ لڑکی کو شوہر کے مکان پر رخصت کرنے سے متعلق
محمد بن آدم، عبدہ، ہشام، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکاح کیا جب کہ میری عمر چھ سال کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے نزدیک اس وقت آئے جب کہ میں نو سال کی تھی اور میں لڑکیوں میں کھیلا کرتی تھی (یعنی نو سال کی عمر میں میری رخصتی ہوئی)۔
٭٭ احمد بن سعد بن حکم بن ابی مریم، عمی، یحیی بن ایوب، عمارہ بن غزیہ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکاح کیا جب کہ میری عمر چھ سال کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے نزدیک اس وقت آئے جب کہ میں نو سال کی تھی اور میں لڑکیوں میں کھیلا کرتی تھی (یعنی نو سال کی عمر میں میری رخصتی ہوئی)۔
حالت سفر میں دلہن کے پاس (سہاگ رات کے لیے ) جانے سے متعلق
زیاد بن ایوب، اسماعیل ابن علیہ، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جہاد فرمانے کے لیے خیبر کے لیے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو ہم لوگوں نے اندھیرے ہی میں خیبر کے نزدیک نماز فجر ادا کی پھر سوار ہوئے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو طلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ان کی سواری پر بیٹھا جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خیبر کی گلیوں میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے فرمانے لگے پہلے اللہ اکبر فرمایا اور پھر فرمایا خیبر برباد ہو گیا۔ جن لوگوں کے مکانات اور صفوں کے درمیان ہم لوگ اتریں گے (یعنی ہم لوگ جن پر حملہ آور ہوں گے ) اور ان لوگوں پر برا دن چڑھے گا (یعنی وہ دن ان کے واسطے برا ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ اس طریقہ سے ارشاد فرمایا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت ہم لوگ اپنے اپنے کام کے واسطے نکل رہے تھے (حدیث کے راوی عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تو) کہنے لگے کہ یہ تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ (جبکہ ہم لوگوں کے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ وہ اس طریقہ سے کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کا لشکر پہنچ گیا۔) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم لوگوں نے زبردستی خیبر فتح کیا اس کے بعد قیدیوں کو جمع کیا گیا تو اس دوران خیبر زبردستی حاصل کیا گیا پھر قیدی لوگ ایک جگہ جمع کیے گئے تو اس دوران حضرت دحیہ کلبی حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان میں سے ایک باندی مجھ کو عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جاؤ اور تم اس کو لے لو۔ انہوں نے حضرت صفیہ بنت حی کو لے لیا۔ اس بات پر ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت دحیہ کو قبیلہ بنو قریظ اور قبیلہ بنو نضیر کی سردار حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا ہے وہ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی کے علاوہ کسی کے واسطے درست نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو اس خاتون کے واسطے بلا لو چنانچہ وہ ان کو لے کر حاضر ہوئے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی جانب دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ تم کوئی دوسری باندی لے لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو آزاد فرما کر ان کے ساتھ نکاح فرما لیا۔ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت انس سے دریافت فرمایا کہ اے ابو حمزہ! حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بطور مہر کیا چیز عنایت فرمائی؟ انہوں نے فرمایا ان کی آزادی کو ان کا مہر مقرر فرما کر ان سے نکاح فرما لیا پھر راستہ ہی میں ام سلیم نے ان کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے تیار کیا اور رات کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے گئیں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح تک ان کے پاس رہے اور فرمایا کہ کسی کے پاس کچھ ہو وہ لے کر آ جائے۔ پھر دستر خوان بچھایا گیا اور کوئی شخص پنیر لے کر حاضر ہوا تو کوئی شخص کھجور لے کر حاضر ہوا اور کوئی شخص گھی لے کر حاضر ہوا پھر ان سب کو ملا دیا گیا اور یہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ولیمہ (یعنی مسنون ولیمہ تھا)۔
٭٭ محمد بن نصر، ایوب بن سلیمان، ابو بکر بن ابو اویس، سلیمان بن بلال، یحیی، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت صفیہ بنت حی سے نکاح فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر خیبر کے دوران راستہ میں تین روز ٹھہرے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد وہ پردہ نشین خواتین میں شامل کی گئیں۔
٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر اور مدینہ منورہ کے درمیان تین روز قیام فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں حضرت صفیہ بنت حی کے پاس رہے اور میں نے مسلمانوں کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت ولیمہ کے واسطے بلایا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دستر خوان بچھانے کا حکم فرمایا اس وقت وہاں پر روٹی اور گوشت موجود نہ تھا پھر اس چمڑے کے دستر خوان پر کھجوریں اور پنیر اور گھی وغیرہ آنے لگ گئے۔ پس اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ولیمہ ہو گیا۔ مطلب یہ ہے کہ کسی شخص نے کھجوریں لا کر ڈال دیں اور کسی شخص نے پنیر اور کسی نے گھی اور کسی نے مالیدہ بنا کر پیش کیا۔ سب نے مل کر وہ کھانا کھا لیا پھر لوگوں نے یہ بات کہنا شروع کر دیا کہ صفیہ بھی ایک شادی شدہ خاتون ہو گئیں اور ازواج مطہرات اور جیسی اور دوسری شادی شدہ خواتین ہیں اس طریقہ سے صفیہ بھی ہیں اور وہ سب لوگوں کی ماں بن گئیں یا ابھی وہ باندی ہی ہیں۔ پھر کہنے لگے اگر وہ باپردہ ہو گئیں تو یہ سمجھو کہ وہ مومنین کی ماں ہیں یعنی دوسری ازواج مطہرات کی طرح وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ بن گئیں۔ جس وقت وہاں سے کوچ ہوا یعنی اس جگہ سے روانگی ہوئی تو کجاوہ پر بسترا بچھایا گیا۔ پیچھے کی جانب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پردہ لگایا گیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا۔ (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ساتھ صفیہ بھی تھیں اس لیے کہ پردہ سے آڑ کرنا لازم تھا)
شادی میں کھیلنا اور گانا کیسا ہے ؟
علی بن حجر، شریک، ابو اسحاق، حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک شادی میں کہ جس جگہ حضرت قرظہ بن کعب اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اتفاق سے اس جگہ لڑکیاں گانا گا رہی تھیں۔ میں نے عرض کیا کہ تم دونوں بدری بھی ہو اور تمہارے سامنے یہ کام ہو رہا ہے وہ دونوں حضرات فرمانے لگے تمہارا دل چاہے تو ہمارے ساتھ سن لو ورنہ تم یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ ہمارے واسطے شادی کے موقعہ پر کھیلنے کی گنجائش دے دی گئی ہے کیونکہ شادی ایک خوشی ہے اس میں جائز کھیل و تفریح کی اجازت ہے۔
اپنی لڑکی کو جہیز دینے سے متعلق
نصیر بن فرج، ابو اسامہ، زائدہ، عطاء بن سائب، ابیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک کالے رنگ کی چادر اور ایک مشک اور ایک تکیہ دیا۔ اس تکیہ میں اذخر (عرب میں پیدا ہونے والی) ایک قسم کا گھاس کا بھرا تھا۔
بستروں کے بارے میں
یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، ابو ہانی خولانی، ابو عبدالرحمن حبلی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک بستر مرد کے واسطے اور دوسرا اس کی اہلیہ کے واسطے اور تیسرا مہمان کے واسطے اور چوتھا شیطان کے واسطے ہوتا ہے۔
حاشیہ اور چادر رکھنے سے متعلق
قتیبہ، سفیان، ابن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کیا تم نے نکاح کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے نانہال بھی بنا لی ہے۔ میں نے عرض کیا میرے پاس نانہال کہاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب ہوں گی یعنی وہ زمانہ نزدیک ہے کہ جب مسلمان دولت مند ہوں گے اور تمام آرام کی چیزیں ان کو حاصل ہوں گی۔
دولہا کو ہدیہ اور تحفہ دینا
قتیبہ، جعفر، جعد ابو عثممان، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکاح فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اہلیہ محترمہ کے پاس گئے اور میری والدہ صاحبہ ام سلیم نے حیس تیار کیا (یہ ایک قسم کا کھانا ہے جو کہ کھجور اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے ) پھر اس کو میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں لے گیا اور میں نے عرض کیا کہ میری والدہ محترمہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام فرمایا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑی سی چیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو رکھ دو اور تم فلاں فلاں شخص کو بلا کر لے آؤ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے کچھ حضرات کا نام لیا تھا اور جو شخص مجھ سے ملا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد نے دریافت کیا کہ کس قدر آدمی ہو گئے تھے انہوں نے فرمایا کہ تین سو آدمی۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ دس دس آدمی گھیرا بنا کر بیٹھ جاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ تمام کے تمام لوگ پیٹ بھر کر کھا گئے پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر لوگ دوبارہ آئے اور وہ لوگ بھی کھا گئے۔ اسی طریقہ سے ایک گروہ آتا تھا اور ایک چلا جاتا تھا۔ جب تمام کے تمام لوگ کھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے انس تم اٹھاؤ یعنی وہ کھانا جو کہ لا کر رکھا گیا تھا۔ وہ کھانا اٹھا لیا حضرت انس فرماتے ہیں کہ مجھ کو یہ علم نہ ہو سکا کہ وہ کھانا اٹھاتے وقت بہت تھا یا رکھنے کے وقت؟
٭٭ احمد بن یحیی بن وزیر، سعید بن کثیر، سلیمان بن بلال، یحیی بن سعید، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریش اور انصار کے درمیان باہمی محبت قائم فرما دی تو حضرت سعد بن ربیع کا بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوف کو بنا لیا اور حضرت سعد نے ان سے کہا کہ میرے پاس مال موجود ہے میں اس کے دو حصے کرتا ہوں ایک حصہ تو تم لے لو اور دوسرا حصہ میں رکھوں گا اور میرے پاس دو عورتیں ہیں تو تم دونوں کو دیکھو۔ ان میں سے جو تم کو پسند ہو میں اس کو طلاق دیتا ہوں جس وقت عدت پوری ہو جائے تو تم اس سے نکاح کر لینا۔ حضرت عبدالرحمن نے بیان کیا کہ خداوند قدوس تمہاری بیویوں اور مال میں برکت عطا فرمائے تم مجھ کو بازار دکھلاؤ۔ پھر وہ بازار چلے گئے اور وہ واپس نہیں آئے یہاں تک کہ وہ گھی اور نفع حاصل کر کے لائے۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا کہ یہ زردی کا نشان کس قسم کاہے ؟ میں نے عرض کیا میں نے شادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی ہو۔
عورتوں کے ساتھ حسن سلوک
عورتوں سے محبت کرنا
شیخ الامام ابو عبدالرحمن، حسین بن عیسی، عفان ابن مسلم، سلام ابو منذر، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں میں خواتین اور خوشبوئیں محبوب اور پسندیدہ ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔
٭٭ علی بن مسلم، سیار، جعفر، ثابت، انس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ احمد بن حفص بن عبد اللہ، ابی، ابراہیم بن طہمان، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خواتین کے بعد کوئی شئی زیادہ پسندیدہ نہیں تھی گھوڑوں سے۔
مرد کا اپنی ازواج میں سے کسی ایک زوجہ کی طرف قدرے مائل ہونا
عمرو بن علی، عبدالرحمن، ہمام، قتادہ، نضر بن انس، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہے تو وہ قیمت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے بدن کا ایک حصہ ایک طرف کو جھکا ہوا ہو گا۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، حماد بن سلمہ، ایوب، ابو قلابہ، عبداللہ بن یزید، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی تمام ازواج مطہرات میں کوئی بھی چیز تقسیم کرتے ہوئے برابری کا خیال رکھتے اور پھر فرماتے اے اللہ! میرا کام تو اتنا ہی ہے جتنا مجھے اختیار ہے۔ اے اللہ! تو بھی مجھ سے اس چیز پر باز پرس مت کیجیو جس کی مجھ میں تیری طرح قدرت نہیں۔ حماد بن زید نے یہ حدیث مرسلاً روایت کی ہے۔
٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، عمی، ابیہ، صالح، ابن شہاب، محمد بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی محترمہ تھیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ساتھ (یعنی حضرت عائشہ صدیقہ کے ساتھ) ایک چادر میں لیٹے ہوئے تھے تو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اندر آنے کی اجازت عطا فرما دی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے مجھ کو (آج) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں بھیجا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت قحافہ (یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں انصاف فرمائیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں خاموش تھی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم چاہتی ہو کہ جس کو میں چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر تم اس سے محبت کیا کرو۔ یہ بات سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تو تم پھر اس سے محبت کیا کرو۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ کھڑی ہو گئیں اور دوسری ازواج مطہرات کے پاس جا کر ان کو بتلایا کہ انہوں نے کیا کہا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا جواب ارشاد فرمایا اس پر ازواج مطہرات کہنے لگیں کہ تم سے کام نہیں ہو سکا پھر جاؤ اور تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کرو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیویاں ابو قحافہ کی لڑکی (حضرت عائشہ صدیقہ) کے بارے میں انصاف چاہتی ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ نہیں خدا کی قسم میں کبھی ان کے بارے میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو نہیں کروں گی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر ازواج مطہرات نے حضرت زینب بنت جحش کو بھیجا جو کہ ازواج مطہرات میں سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک درجہ اور مقام میں مجھ سے مقابلہ کرتی تھیں۔ میں نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے زیادہ دین کے راستے پر چلنے والی، خدا رسیدہ، صلہ رحمی کر نے والی، سچی بات کہنے والی، زیادہ صدقہ دینے والی اور اپنے نفس کو کام میں ذلیل کرنے والی خاتون کبھی نہیں دیکھی اور اس کام کی بھی ضرورت ان کو صدقہ و خیرات کے واسطے پڑتی تھی صرف ان میں ایک ہی چیز تھی اور وہ یہ کہ وہ زیادہ غصہ والی اور تیز مزاج خاتون تھیں۔ لیکن ان کا غصہ جلد ہی ختم ہو جاتا تھا بہرحال وہ حاضر ہوئیں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے انہوں نے اجازت مانگی اس وقت بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی چادر میں ان کے ساتھ اس حالت میں تھے کہ جس حالت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوئیں تھیں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطا فرمائی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا ہے ان کی قلبی تمنا ہے کہ ابو قحافہ کی لڑکی (یعنی حضرت عائشہ صدیقہ) کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ساتھ انصاف فرمائیں پھر انہوں نے مجھ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کافی برا بھلا کہا۔ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں ؟ اس وقت حضرت زینب اس حال میں تھیں کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میرا جواب دینا گوار نہیں گزرے گا۔ چنانچہ جس وقت میں بولنا شروع ہوئی تو ان کو گفتگو کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرمایا۔ یہاں تک کہ ان پر غالب ہو گئی۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آخر یہ بھی حضرت ابو بکر کی صاحبزادی ہیں۔
ایک بیوی کو دوسری بیوی سے زیادہ چاہنا
عمران بن بکار، ابو یمان، شعیب، زہری، محمد بن عبدالرحمن، بن حارث بن ہشام، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی سابقہ حدیث کی مانند منقول ہے۔
٭٭ محمد بن رافع نیسابو ری، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات ایک دن جمع ہو گئیں اور انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں بھیجا اور یہ کہلوایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات انصاف چاہتی ہیں حضرت ابو بکر کی صاحبزادی (یعنی حضرت عائشہ صدیقہ میں ) چنانچہ حضرت فاطمہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چادر میں تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں بھیجا ہے اور وہ حضرت ابو قحافہ (یعنی حضرت ابو بکر) کی صاحبزادی (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کے درمیان انصاف چاہتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے محبت رکھتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر تم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرو۔ یہ بات سن کر حضرت فاطمہ واپس تشریف لے آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات سے عرض کیا جو کچھ کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا اور عرض کرنے لگ گئیں کہ تم نے تو کوئی کام انجام نہیں دیا۔ تم اب پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو جاؤ۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیا کہ اس سلسلہ میں خدا کی قسم میں اب نہیں جاؤں گی اور آخر حضرت فاطمہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی تھیں (وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کے خلاف کس طرح کر سکتی تھیں ) اس کے بعد تمام ازواج مطہرات نے حضرت زینب بنت جحش کو بھیجا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضرت زینب وہ بیوی تھیں جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں میرے برابر کی خاتون تھیں (یعنی عزت و احترام خاندان وجاہت اور حسن جمال میں ) پھر حضرت زینب نے فرمایا کہ مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے بھیجا ہے اور وہ انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں (یعنی ازواج مطہرات کے درمیان وہ انصاف چاہ رہی ہیں ) حضرت ابو قحافہ کی صاحبزادی یعنی حضرت عائشہ صدیقہ کے درمیان میں پھر میری جانب چہرہ متوجہ فرمایا اور مجھ کو برا بھلا کہنے لگ گئیں اور میں اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہوں کی جانب دیکھتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اجازت فرماتے ہیں ان کے جواب دینے کی اور وہ مجھ کو برا کہتی رہی یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا جواب دینا برا محسوس نہیں ہو گا۔ اس وقت میں بھی سامنے ہوئی اور میں نے کچھ دیر میں ان کو بند کر دیا یعنی میں نے خاموشی اختیار کی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ حضرت ابو بکر کی صاحبزادی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ میں نے (آج تک) کوئی خاتون نیکی صدقہ و خیرات اور اپنے نفس پر محنت مشقت اٹھانے میں اجر و ثواب کے واسطے حضرت زینب سے زیادہ (با صلاحیت خاتون) نہیں دیکھی اور ان کے مزاج میں صرف معمولی قسم کی تیزی تھی لیکن وہ تیزی جلد ہی ختم اور زائل ہو جاتی تھی۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ روایت خطاء ہے اور دراصل صحیح روایت وہی ہے جو کہ سابق میں گزر چکی ہے۔
٭٭ اسمعیل بن مسعود، بشر، ابن المفضل، شعبہ، عمرو بن مرہ، مرہ جہنی، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عظمت اور بزرگی تمام خواتین پر ایسی ہے کہ جیسی کہ ثرید کی فضیلت (یعنی شوربے کی فضیلت) دوسرے کھانوں پر ہے۔
٭٭ علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، ابن ابو ذئب، حارث بن عبدالرحمن، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ کی عظمت اور بزرگی تمام خواتین پر ایسی ہے کہ جیسی کہ ثرید کی فضیلت (یعنی شوربے کی فضیلت) دوسرے کھانوں پر ہے۔
٭٭ ابو کبر بن اسحاق، شاذان، حماد بن زید، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اے ام سلیم تم مجھ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں تکلیف نہ دو خدا کی قسم مجھ پر کبھی وحی نازل نہیں ہوتی مگر یہ کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی چادر یا لحاف میں ہوتا ہوں۔
٭٭ محمد بن آدم، عبدہ، ہشام، عوف بن حارث، رمیثہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے ان سے عرض کیا کہ تم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کرو اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سلسلہ میں لوگوں کی یہ حالت تھی کہ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حصے اور ہدایا بھیجا کرتے تھے اور جس دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باری ہوتی (تو لوگ اور زیادہ ہدایہ بھیجتے تھے ) اور لوگ کہتے تھے کہ ہم لوگ بھلائی کے طلب گار ہیں جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت فرماتے آپ بھی اسی طرح محبت فرماتے۔ ایک روز حضرت ام سلمہ نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حضرت عائشہ صدیقہ سے متعلق عرض کیا (کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرنے میں غور کریں ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جس وقت حضرت ام سلمہ نے پھر عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن جس وقت ان کی باری آئی (یعنی حضرت ام سلمہ کی) تو انہوں نے دوسری مرتبہ اس سلسلہ میں گفتگو فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دفعہ بھی کوئی جواب عطا نہیں فرمایا۔ ازواج مطہرات ان سے دریافت کرنے لگیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ہمارے مسئلہ کا) کیا جواب ارشاد فرمایا؟ تو حضرت ام سلمہ نے جواب دیا کہ مجھ سے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چنانچہ حضرات ازواج مطہرات (ہی خود) پھر حضرت ام سلمہ سے فرمانے لگیں کہ تم اس کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جواب لینا چنانچہ جب ان کا نمبر آیا تو پھر حضرت ام سلمہ نے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ام سلمہ تم مجھ کو (حضرت) عائشہ صدیقہ کے سلسلہ میں تکلیف نہ پہنچاؤ (یعنی تمہارے بار بار سوال کرنے سے مجھ کو تکلیف پہنچ رہی ہے ) میرے اوپر وحی نہیں نازل ہوتی مگر یہ کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کے لحاف میں ہوتا ہوں۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ دونوں روایات راوی عہدہ کی روایت سے صحیح ہیں۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدہ بن سلیمان، ہشام، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ لوگ حضرت عائشہ صدیقہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نمبر دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حصے بھیجا کرتے تھے اور اس سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت فرماتے تھے اسی وجہ سے لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت عائشہ صدیقہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی باری والے دن ان کو حصہ اور ہدیہ زیادہ بھیجا کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن آدم، عبدہ، ہشام، صالح بن ربیہ بن ہدیر، حضرت عائشہ صدیقہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی کہ خداوند قدوس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل فرمائی۔ چنانچہ میں اٹھی اور دروازہ کی آڑ میں ہو گئی۔ جس وقت وحی آنا بند ہو گئی تو مجھ سے فرمایا اے عائشہ صدیقہ جبرائیل علیہ السلام تم کو سلام فرما رہے ہیں۔
٭٭ نوح بن حبیب، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام تم کو سلام فرما رہے ہیں انہوں نے عرض کیا عَلَیْکِ السَّلَامَ وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ سب کچھ دیکھ لیتے ہیں جو کہ ہم نہیں دیکھتے۔
٭٭ عمرو بن منصور، حکم بن نافع، شعیب، زہری، ابو سلمہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے بیان فرمایا کہ اے عائشہ صدیقہ! یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جو کہ تم کو سلام فرما رہے ہیں۔ اس کی ہی طرح اوپر بھی روایت گزر چکی ہے۔ امام نسائی نے فرمایا یہ روایت درست ہے اور پہلی روایت خطا ہے۔
رشک اور حسد
محمد بن مثنی، خالد، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اہلیہ محترمہ کے پاس تھے تو دوسری اہلیہ محترمہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کھانے کا پیالہ بھیجا۔ ان اہلیہ نے (حسد کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک ہاتھ پر ہاتھ مارا اور آخرکار وہ پیالہ گر کر ٹوٹ گیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیالہ کے دونوں ٹکڑے لے کر ملائے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانا جمع فرمانے لگے اور فرمایا کہ تمہاری ماں کو جلن پیدا ہو گئی یعنی حسد میں مبتلا ہو گئیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں سوکن کے کھانا بھیجنے کی وجہ سے حسد پیدا ہو گیا۔ تو تم کھانا کھا لو پھر سب کے سب لوگوں نے کھانا کھا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی سی اہلیہ محترمہ پیالہ لے کر حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ پیالہ کھانا لانے والے شخص کو لا کر دے دیا اور وہ ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں ہی چھوڑ دیا کہ جنہوں نے پیالہ توڑ دیا تھا۔
٭٭ ربیع بن سلیمان، اسد بن موسی، حماد بن سلمہ، ثابت، ابو متوکل، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک روز ایک پیالہ لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں۔ تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی چادر مبارک لے کر حاضر ہوئیں۔ ایک پتھر لیے ہوئے اور انہوں نے وہ پیالہ لے کر توڑ ڈالا اور انہوں نے اسی پتھر سے پیالہ توڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دونوں ٹکڑے لے کر ملا دیئے اور فرمانے لگے کہ تم کھاناکھا لو تمہاری والدہ صاحبہ کے دل میں جلن پیدا ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مرتبہ یہی جملے ارشاد فرمائے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا صحیح و سالم پیالہ لے کر حضرت ام سلمہ کے گھر بھیج دیا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا ٹوٹا ہوا پیالہ عائشہ صدیقہ کو دے دیا۔
٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، جسرہ بنت دجاجہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کوئی خاتون حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جیسی نہیں دیکھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برتن میں کھانا بھر کر بھیجا۔ مجھ سے یہ منظر نہ دیکھا جا سکا۔ میں نے (غصہ میں آ کر) وہ برتن توڑ ڈالا۔ پھر میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ اس کا بدلہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کسی برتن کا بدلہ دوسرا برتن ہے (مطلب یہ ہے کہ تم نے جس طرح کا برتن توڑا ہے اسی طرح کا برتن تم کو دینا ہو گا اور کھانے کا برتن اس قسم کا کھانا دینا ہے۔
٭٭ حسن بن محمد، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے اور شہد نوش فرماتے۔ میں نے ایک مرتبہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا کہ ہمارے میں سے جس کسی کے پاس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائیں تو اس طرح سے کہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منہ مبارک سے مغافیر کی بدبو محسوس ہو رہی ہے (یہ عرب میں پیدا ہونے والا لہسن کی طرح کا ایک پھل ہے جس سے کہ بدبو محسوس ہوتی ہے ) ہم کو ایسا لگ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مذکورہ پھل) مغافیر کھا رکھا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے۔ دونوں میں سے کسی کے پاس۔ اس نے یہی کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے شہد پی لیا ہے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس اور کبھی نہیں پیوں گا۔ اس لیے کہ آپ کو بڑی نفرت ہے۔ اسی وقت آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی اے نبی تم ان چیزوں کو کس وجہ سے حرام کر رہے ہو جن کو خداوند قدوس نے حلال کیا ہے تمہارے واسطے (یعنی شہد کو) اور آیت کریمہ (یعنی اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو یعنی حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما) اور یہ آیت کریمہ جب پوشیدہ طریقہ سے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی کسی اہلیہ محترمہ سے ایک بات فرمائی (یعنی یہ بات کہ میں نے آج شہد پی لیا ہے )
٭٭ ابراہیم بن یونس بن محمد، ابیہ، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک باندی تھی کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم بستری فرماتے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے لگی رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس باندی کو اپنے اوپر حرام فرما لیا۔ اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی آخر تک۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یحیی، عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلاش کیا تو (اتفاق سے ) میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بالوں میں پڑ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے پاس تمہارا شیطان آ گیا ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے شیطان نہیں ہے ؟ فرمایا کسی وجہ سے نہیں۔ میرے واسطے بھی شیطان ہے لیکن خداوند قدوس نے اس پر میری مد د فرما دی ہے اس وجہ سے وہ میرا فرماں بردار بن گیا ہے (مطلب یہ ہے کہ شیطان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میرے اوپر اس کا اثر نہیں پڑتا اور دوسرے لوگوں پر تو اس کا اثر پڑتا ہے )
٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عطاء، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں دیکھا تو مجھ کو یہ خیال ہوا کہ آج کی رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی دوسری اہلیہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کافی تلاش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت رکوع میں تھے یا سجدہ فرما رہے تھے : (تو پاک ہے میں تیری تعریف کرتا ہوں تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ) میں نے عرض کیا میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہو جائیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے کام میں مشغول ہیں اور میں دوسرے خیال میں ہوں۔ (مطلب یہ ہے کہ مجھ کو تو رشک ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی وجہ سے دوسری اہلیہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند قدوس کی عبادت میں مشغول ہیں )
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرزاق، ابن جریج، ابی ملیکہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں پایا۔ مجھ کو خیال ہوا کہ (آج کی رات) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اہلیہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے تلاش کیا پھر میں واپس ہوئی۔ تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع یا سجدہ کی حالت میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ تو اے میرے پروردگار پاک ہے۔ تیرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کام میں مشغول ہیں اور میں دوسرے کام میں مشغول ہوں۔
٭٭ سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن کثیر، حضرت محمد بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ انہوں نے فرمایا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حال بیان نہ کروں۔ اور میں اپنا کیا حال عرض کروں۔ ہم نے عرض کیا کس وجہ سے نہیں بیان فرمائیں۔ انہوں نے کہا میری ایک رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کروٹ لی اور اپنے پاؤں مبارک کے نزدیک جوتے رکھے اور چادر اٹھائی اپنا سر مبارک سرہانے پر پھیلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قدر دیر ٹھہرے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیال فرمایا کہ مجھ کو نیند آ گئی اس کے بعد خاموشی سے جوتے پہن لیے اور جلدی سے چادر لی اور دروازہ کھولا آہستہ سے اور پھر باہر نکل آئے پھر آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔ میں نے بھی جلدی سے دوپٹہ اوڑھا۔چادر اوڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنت البقیع (نامی قبرستان) میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ہاتھ اٹھائے اور میں دیر تک کھڑی رہی۔ پھر میں واپس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیز چلے میں بھی تیز چلی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی چلے میں بھی جلدی چلی میں آگے کی جانب نکل کر مکان کے اندر داخل ہوئی اور میں لپٹی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ تم کو کیا ہو گیا ہے۔ تمہارا پیٹ پھولا پھولا ہے یا تمہارا سانس چڑھ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم بتلاؤ ورنہ خداوند قدوس مطلع فرما دے گا جو کہ لطیف اور خبردار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر میرے والدین قربان ہو جائیں۔ پھر میں نے تمام حالت بیان کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم ہی تھی میں کہتا تھا کہ یہ میرے سامنے کون آدمی جا رہا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں میں تھی۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے سینے میں ایک مکا رسید کیا جس کی وجہ سے میرے سینہ میں درد ہو گیا اور فرمایا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم پر ظلم کریں گے کہ تمہارے نمبر پر میں اپنی دوسری اہلیہ کے پاس جاؤں گا۔ میں نے کہا لوگ کس جگہ تک چھپائیں گے خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع فرمادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور وہ تمہارے پاس نہ تشریف لا سکے کیونکہ تم اس وقت برہنہ تھیں پھر آہستہ سے انہوں نے مجھ کو آواز دی چنانچہ میں پھر گیا اور میں تم سے پوشیدہ طریقہ سے گیا اس لیے کہ مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ تم کو نیند آ گئی ہے اور مجھ کو تم کو بیدار کرنا ناگوار اور برا محسوس ہوا۔ مجھ کو خوف ہوا کہ تم کو وحشت نہ ہو (تنہا رہنے سے ) پھر جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو حکم فرمایا کہ میں بقیع (قبرستان) پہنچ جاؤں اور جو لوگ وہاں پر مدفون ہیں ان کے واسطے میں دعا مانگوں۔
٭٭ یوسف بن سعید بن مسلم، حجاج، ابن جریج، عبداللہ ابن ابی ملیکہ، حضرت محمد بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ انہوں نے فرمایا کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حال بیان نہ کروں۔ اور میں اپنا کیا حال عرض کروں۔ ہم نے عرض کیا کس وجہ سے نہیں بیان فرمائیں۔ انہوں نے کہا میری ایک رات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کروٹ لی اور اپنے پاؤں مبارک کے نزدیک جوتے رکھے اور چادر اٹھائی اپنا سر مبارک سرہانے پر پھیلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قدر دیر ٹھہرے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیال فرمایا کہ مجھ کو نیند آ گئی اس کے بعد خاموشی سے جوتے پہن لیے اور جلدی سے چادر لی اور دروازہ کھولا آہستہ سے اور پھر باہر نکل آئے پھر آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔ میں نے بھی جلدی سے دوپٹہ اوڑھا۔چادر اوڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنت البقیع (نامی قبرستان) میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ہاتھ اٹھائے اور میں دیر تک کھڑی رہی۔ پھر میں واپس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیز چلے میں بھی تیز چلی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی چلے میں بھی جلدی چلی میں آگے کی جانب نکل کر مکان کے اندر داخل ہوئی اور میں لپٹی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ تم کو کیا ہو گیا ہے۔ تمہارا پیٹ پھولا پھولا ہے یا تمہارا سانس چڑھ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم بتلاؤ ورنہ خداوند قدوس مطلع فرما دے گا جو کہ لطیف اور خبردار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر میرے والدین قربان ہو جائیں۔ پھر میں نے تمام حالت بیان کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم ہی تھی میں کہتا تھا کہ یہ میرے سامنے کون آدمی جارہا ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں میں تھی۔ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے سینے میں ایک مکا رسید کیا جس کی وجہ سے میرے سینہ میں درد ہو گیا اور فرمایا تم نے یہ خیال کیا کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم پر ظلم کریں گے کہ تمہارے نمبر پر میں اپنی دوسری اہلیہ کے پاس جاؤں گا۔ میں نے کہا لوگ کس جگہ تک چھپائیں گے خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور وہ تمہارے پاس نہ تشریف لا سکے کیونکہ تم اس وقت برہنہ تھیں پھر آہستہ سے انہوں نے مجھ کو آواز دی چنانچہ میں پھر گیا اور میں تم سے پوشیدہ طریقہ سے گیا اس لیے کہ مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ تم کو نیند آ گئی ہے اور مجھ کو تم کو بیدار کرنا ناگوار اور برا محسوس ہوا۔ مجھ کو خوف ہوا کہ تم کو وحشت نہ ہو (تنہا رہنے سے ) پھر جبرائیل علیہ السلام نے مجھ کو حکم فرمایا کہ میں بقیع (قبرستان) پہنچ جاؤں اور جو لوگ وہاں پر مدفون ہیں ان کے واسطے میں دعا مانگوں۔
٭٭ علی بن حجر، شریک، عاصم، عبداللہ بن عامر بن ربیعہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ترجمہ حسب سابق ہے ،
طلاق سے متعلقہ احادیث
جو وقت اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کے لیے مقرر کیا ہے
عبید اللہ بن سعید، یحیی بن سعید، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ اس وقت حالت حیض میں تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس بات کا تذکرہ فرمایا یعنی یہ بات دریافت کی کہ عبداللہ کا یہ طلاق دینا درست ہے یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم عبداللہ سے یہ بات بیان کرو کہ وہ اپنے قول سے رجوع کر لیں یعنی اس طلاق کو توڑ دیں اور وہ عورت کو اپنی بیوی بنا لیں پھر اس کو پاک ہونے تک چھوڑ دیں جس وقت وہ حالت حیض سے پاک ہو جائیں اور پھر دوسری مرتبہ حائضہ ہو کر پاک ہو جائے۔ تب اگر اس کا دل چاہے تو ان سے وہ علیحدگی اختیار کر لیں۔ صحبت کرنے سے پہلے پہلے اور اگر چھوڑنے کو دل نہ چاہے تو رکھ لے اس لیے کہ خداوند قدوس بزرگی اور عزت والے نے خواتین کو ان کی عدت کے مطابق طلاق دے دینے کا حکم فرمایا ہے۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اپنی اہلیہ کو طلاق دی اور وہ حالت حیض میں تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ دریافت فرمایا۔ یعنی حضرت عبداللہ نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے یہ طلاق دینا کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم حضرت عبداللہ سے کہو کہ وہ اپنی بیوی کی جانب رجوع کر لیں۔ پھر وہ ان کو روکے رکھیں۔ یہاں تک کہ وہ حالت حیض سے پاک ہو جائیں۔ پھر جس وقت اس کو دوسرا حیض آ جائے اور وہ اس سے پاک ہو جائیں تو جب اگر عبداللہ کا دل چاہے تو اس کو رکھ لیں یا طلاق دے دیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس دوسرے حیض کے بعد بھی ان کے پاس نہ جائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہی عدت ہے اور خدا تعالیٰ نے اسی کے مطابق طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے۔
٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت زہری سے کسی نے یہ دریافت کیا کہ عدت پر طلاق کس طرح سے واقع ہوتی ہے ؟ یعنی خداوند قدوس نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے تو اس کے معنی کیا ہوئے اور عدت کے دوران طلاق دینا کس طریقہ سے ہوتا ہے ؟ حضرت زہری نے جواب دیا کہ میں نے حضرت سالم بن عبداللہ سے سنا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے تھے کہ میں نے اپنی بیوی کو دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں طلاق دی اور وہ خاتون اس وقت حالت حیض میں تھیں۔ پھر میرے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت یہ بات سنی تو ان کو غصہ آ گیا اور وہ فرمانے لگے عبداللہ کو اس واسطے رجوع کرنا مناسب ہے اور ان کو چاہیے کہ وہ طلاق سے رجوع کر لیں اور عورت کو پاک ہونے دینا چاہیے پھر اگر اس کو طلاق دینا بہتر ہوا تو عورت کو طلاق دینا چاہیے۔ وہ اس عورت کو پاکی کی حالت میں ہم بستری کرے بغیر طلاق دے دیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہی معنی ہیں آیت کریمہ میں کے یہی معنی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں میں نے رجوع کیا اور اس طلاق کو حساب میں لگایا یعنی میں نے جو طلاق دی تھی اس کا میں نے حساب لگایا۔ اس لیے کہ وہ طلاق اگرچہ سنتوں کے خلاف تھی اور حرام تھی لیکن طلاق واقع ہو چکی تھی۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، عبداللہ بن محمد بن ثمیم، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت عبدالرحمن بن ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر سے دریافت کیا ایسے شخص سے متعلق آپکی کیا رائے ہے کہ جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی ہو۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میں نے دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بیوی کو ایسی حالت میں طلاق دی کہ جس وقت اس کو حیض آ رہا تھا۔ حضرت عمر نے یہ مسئلہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایسی حالت میں طلاق دے دی ہے کہ جب کہ وہ بیوی حائضہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ رجوع کرنا مناسب ہے (یعنی عبداللہ بن عمر طلاق سے رجوع کر لیں ) اور انہوں نے اس طلاق کو میری جانب لوٹا دیا اور فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت عورت پاک ہو (یعنی حیض نے آ رہا ہو) تو اس کو اس وقت طلاق دینا یا نہ دینا یہ تمہارا اختیار ہے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تم طلاق دو اپنی عورتوں کو تو تم ان کو طلاق دو ان کی عدت سے پہلے پہلے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حکم، مجاہد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ کی تفسیر کے سلسلہ میں انہوں نے فرمایا یعنی عدت سے پہلے۔
طلاق سنت
محمد بن یحیی بن ایوب، حفص بن غیاث، الاعمش، ابو اسحاق، ابو الاحوص، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طلاق سنت اس طریقہ سے ہے کہ انسان بغیر جماع کیے عورت کو پاکی کی حالت میں طلاق دے دے پھر جس وقت اس کو حیض آ جائے اور وہ عورت پاک ہو جائے تو اس وقت اس کو دوسری طلاق دے دے پھر جس وقت اس کو حیض آ جائے اور وہ پاک ہو جائے جب اس کو اور ایک طلاق دے پھر اس کے بعد عورت ایک حیض عدت گزارے۔ حضرت اعمش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا تو انہوں نے بھی اسی طریقہ سے بیان فرمایا۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، ابو اسحاق، ابو الاحوص، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو پاکی کی حالت میں بغیر ہم بستری کے طلاق دی جائے۔
اگر کسی شخص نے حیض کے وقت عورت کو ایک طلاق دے دی؟
محمد بن عبدالاعلی، معتمر، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے طلاق دی یعنی حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی اہلیہ محترمہ کو طلاق حالت حیض میں دے دی تو حضرت عمر حضرت رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس واقعہ سے مطلع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم حضرت عبداللہ سے کہو کہ وہ اس کی جانب رجوع کریں پھر جس وقت وہ عورت حیض سے پاک ہو جائے اور وہ غسل کر لے تو اس کو ٹھہرے رہنے دے یہاں تک کہ وہ عورت دوسرے حیض سے فراغت حاصل کر لے اور اسے نہ ہم بستری کرے اس کو پھر طلاق دے پھر اگر چاہے اس سے صحبت کرے تو رکھ لے اس کو اور طلاق نہ دے اس لیے کہ خداوند قدوس نے جس عدت کے مطابق طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے یہ وہ ہی عدت ہے یعنی اس طریقہ سے طلاق دینے کا نام عدت پر طلاق دینا فرمایا ہے۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، محمد بن عبد الرحمن، طلحہ، سالم بن عبد اللہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو حالت حیض میں طلاق دے دی چنانچہ اس واقعہ کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس سے کہو کہ وہ اس سے رجوع کر لیں پھر جس وقت وہ عورت پاک ہو جائے گی یا حاملہ ہو جائے گی تو تم اس کو اس وقت طلاق دینا۔
غیر عدت میں طلاق دینا
زیاد بن ایوب، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اس خاتون کو واپس فرما دیا۔ یہاں تک کہ جب وہ خاتون پاک ہو گئیں (حیض سے ) تو جب ان کو طلاق دی۔
گر کوئی شخص عدت کے خلاف طلاق دے (یعنی حالت حیض میں طلاق دے ) تو کیا حکم ہے ؟
قتیبہ ، حماد، ایوب، محمد، حضرت یونس بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ جس کسی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تم چاہتے ہو کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کو طلاق دے دی تھی حالت حیض میں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی (کی طلاق سے ) رجوع کر لے۔ پھر وہ اس کی عدت کا انتظار کرے میں نے عرض کیا کہ تم جو طلاق دے چکے ہو وہ تو واقع ہو چکی ہے اور وہ شمار ہو گی انہوں نے کہا کہ کس وجہ سے نہیں اور اگر طلاق سے رجوع نہ کرتے اور حماقت کرتے رہتے تو کیا وہ طلاق شمار نہ ہوتی۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیہ، یونس، محمد بن سیرین، حضرت یونس بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ جس کسی نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی حضرت ابن عمر فرمانے لگے کہ تم چاہتے ہو کہ حضرت عبداللہ بن عمر کو، انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ کو طلاق دے دی تھی حالت حیض میں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت عمر نے مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی (کی طلاق سے ) رجوع کر لے۔ پھر وہ اس کی عدت کا انتظار کرے میں نے عرض کیا کہ تم جو طلاق دے چکے ہو وہ تو واقع ہو چکی ہے اور وہ شمار ہو گی انہوں نے کہا کہ کس وجہ سے نہیں اور اگر طلاق سے رجوع نہ کرتے اور حماقت کرتے رہتے تو کیا وہ طلاق شمار نہ ہوتی۔
ایک ہی وقت میں تین طلاق پر وعید سے متعلق
سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، مخرمہ، ابیہ، حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کسی آدمی سے متعلق یہ خبر دی گئی کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دے ڈالی ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور غصہ میں فرمانے لگے کہ کیا کتاب اللہ سے کھیل ہو رہا ہے۔ حالانکہ میں ابھی تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں۔ یہ بات سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس کو قتل کر ڈالوں ؟
ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے کی اجازت
محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان سے حضرت عویمر عجلان نے بیان کیا کہ میں حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی اہلیہ کے پاس کسی اجنبی آدمی کو دیکھے اور وہ شخص اس اجنبی شخص کو قتل کر دے تو اس قتل کرنے کے عوض کیا اس شخص کو بھی قتل کر دیں گے اگر وہ شخص ایسا نہ کرے ؟ یعنی اس عورت کے شوہر کے واسطے کیا شرعی حکم ہے ؟ تم یہ مسئلہ اے عاصم میری جانب سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو چنانچہ پھر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے یہ مسئلہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مذکورہ سوال ناگوار محسوس ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سوال کو برا خیال فرمایا اور سائل کے اس سوال کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معیوب خیال فرمایا حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ناگواری محسوس کر کے گراں محسوس ہوا اس وجہ سے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کو اس سوال سے افسوس ہوا اور ان کو اس سوال سے شرمندگی محسوس ہوئی اور خیال ہوا کہ میں نے خواہ مخواہ یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا بہرحال جس وقت حضرت عاصم رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے واپس گھر تشریف لائے جب حضرت عویمر کہنے لگے کہ تم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ حضرت عویمر سے حضرت عاصم نے کہا کہ تم نے مجھ کو اس طرح کے سوال کرنے کا خواہ مخواہ مشورہ دیا (یعنی مجھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ نہیں دریافت کرنا چاہیے تھا) اس پر حضرت عویمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں اس مسئلہ کو بغیر دریافت کیے نہیں رہوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت عویمر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چل دئیے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے کو دیکھے اور اگر یہ شخص اس کو قتل کر دے تو کیا اس کو بھی قتل کر دیا جائے گا؟ آیا اس کے ساتھ (یعنی قاتل کے ساتھ) کس قسم کا معاملہ ہو گا؟ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے واسطے حکم خداوندی نازل ہو چکاہے تم جاؤ اور اس عورت کو لے کر آؤ۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں نے لعان کیا یعنی حضرت عویمر اور ان کی اہلیہ محترمہ نے اور ہم لوگ بھی اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک موجود تھے۔ جس وقت حضرت عویمر لعان سے فارغ ہو گئے تو فرمانے لگے کہ اگر اب میں اس خاتون کو مکان میں رکھوں تو میں جھوٹا اور غلط گو قرار پایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کو اسی وقت تین طلاقیں دے ڈالیں اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کا انتظار بھی نہ فرمایا۔
٭٭ احمد بن یحیی، ابو نعیم، سعید بن یزید، شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ میں خالد کی لڑکی ہوں اور فلاں کی اہلیہ ہوں اور اس نے مجھ کو طلاق کہلوائی ہے اور میں اس کے لوگوں سے خرچہ اور رہائش کے واسطے مکان مانگ رہی ہوں۔ وہ انکار کرتے ہیں۔ شوہر کی جانب کے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس عورت کے شوہر نے اس کو تین طلاقیں دے کر بھیجا ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کا نان نفقہ اور رہائش کے واسطے جگہ اس خاتون کو ملتی ہے کہ جس خاتون سے مرد طلاق سے رجوع کرے اور تین طلاق دینے کے بعد طلاق سے رجوع نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے ایسی عورت کا نان نفقہ بھی نہ ملے گا۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، سلمہ شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس خاتون کو تین طلاقیں دی گئی ہوں اس کو مرد کی جانب سے نہ تو مکان دیا جائے گا نہ نفقہ۔
٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، ابی عمرو، یحیی، ابو سلمہ، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو عمرو مخزومی نے حضرت فاطمہ کو تین طلاقیں دیں ہیں۔ حضرت خالد بن ولید قبیلہ مخزوم کے لوگوں میں مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو عمرو بن حفص نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو تین طلاقیں دی ہیں۔ پھر کیا حضرت فاطمہ کے واسطے نان نفقہ دلایا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ تو اس کے واسطے نفقہ ہے اور نہ رہائش کے واسطے مکان ہے۔
تین طلاقیں مختلف کر کے دینے کا بیان
ابو داؤد سلیمان بن یوسف، ابو عاصم، ابن جریج، ابن طاؤس، ابیہ، حضرت ابو صہبا سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے ابن عباس کیا تم اس سے واقف نہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک دور میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شروع خلافت میں تین طلاقیں ایک طلاق کی جانب لوٹائی جاتی تھیں۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا جی ہاں (واقعی) لوٹائی اور رد کی جاتی تھیں (تین طلاق کی ایک طلاق کی جانب)۔
کوئی شخص عورت کو صحبت کرنے سے قبل طلاق دے
محمد بن علاء، ابو معاویہ اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کسی شخص نے یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر اس کی بیوی نے دوسرے شخص سے شادی کر لی اور دوسرا شوہر اور عورت دونوں کے درمیان خلوت (صحیحہ) بھی ہو گئی لیکن مرد نے اس عورت سے صحبت نہیں کی اور اس عورت کو طلاق دے دی تو کیا ایسی عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو گئی یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ جب تک دوسرا شوہر اس عورت کی مٹھاس کا ذائقہ نہ چکھ لے اور وہ عورت اس شخص کا مٹھاس کا ذائقہ نہ چکھ لے۔
٭٭ عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب بن لیث، ابیہ، ایوب بن موسی، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ کی اہلیہ ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے حضرت عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کیا ہے اور ان کی یہ حالت ہے کہ ان کے پاس کپڑے کی جھاڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شاید تم حضرت رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو تمہاری یہ بات نہیں چلے گی جس وقت تک حضرت عبدالرحمن تمہارا اور تم عبدالرحمن کا مزہ نہ چکھ لو۔
طلاق قطعی سے متعلق
عمرو بن علی، یزید بن زریع، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس موجود تھی وہ عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حضرت رفاعہ قرظی کی اہلیہ ہوں وہ مجھ کو طلاق دے چکاہے ایسی طلاق جو کہ عورت کو شوہر سے بالکل علیحدہ اور لاتعلق کر دیتی ہے یعنی تین طلاق۔ اس کو چھوڑ کر میں نے حضرت عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا تھا۔ خدا کی قسم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عبدالرحمن کے پاس اس چادر کے پلے یعنی جھالر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات اپنی چادر کا پلہ پکڑ کر بیان فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ اس وقت حضرت خالد بن سعید دروازہ پر موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اندر داخل نہ ہونے کا حکم فرمایا اور فرمایا ابو بکر! تم سن رہے ہو یہ خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بھی یہی کہہ رہی ہے جو کہ وہ دوسرے لوگوں سے کہہ رہی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس خاتون سے دریافت کیا کہ تم حضرت رفاعہ کے پاس جانا چاہ رہی ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ جس وقت تک کہ تم سے عبدالرحمن صحبت نہ کر لے۔
لفظ امرک بیدک کی تحقیق
علی بن نصربن علی، سلیمان بن حرب، حضرت حماد بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ایوب سے دریافت کیا کہ کیا تم اس شخص سے واقف ہو جو کہ جملہ امرک بیدک بولنے سے تین طلاق کے واقع ہونے کا قائل ہو علاوہ حضرت حسن کے وہ فرماتے ہیں اس جملہ کے کہنے سے تین طلاق واقع ہو جاتیں ہیں۔ حضرت ایوب نے جواب دیا کہ میں نے کسی شخص کو اس طریقہ سے کہتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ کہہ رہے ہیں اس جملہ کے کہنے سے تین طلاق (یعنی طلاق مغلظہ) واقع ہو جاتی ہے۔ یہ بات سن کر خدا ان کی مغفرت فرما دے اگر ان سے غلطی ہو گئی ہو لیکن وہ حدیث شریف جو کہ مجھ سے حضرت قتادہ نے نقل کی۔ حضرت کثیر کی روایت ہے اور کثیر نے حضرت ابو سلمہ سے اور حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس طریقہ سے بیان کیا کہ وہ تین طلاقیں ہوتی ہیں۔ راوی کہتا تھا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور میں نے ان سے یہ حالت نقل کی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ وہ بھول گیا۔ حضرت عبدالرحمن جو کہ اس کتاب کے مصنف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔
تین طلاق دی گئی عورت کے حلال ہونے اور حلالہ کے لیے نکاح سے متعلق احادیث
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ کی بیوی ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگیں کہ میرے شوہر نے مجھ کو تین طلاقیں دے دیں تھیں اس کے بعد میں نے حضرت عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لیکن ان کے پاس کپڑے کے جھالر کے علاوہ کچھ نہیں تھا (یہ ان کے نامرد ہونے کی طرف اشارہ ہے ) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بات سن کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے ایسا لگتا ہے کہ تمہارا ارادہ یہ ہے کہ تم حضرت رفاعہ سے دوبارہ نکاح کر لو اور یہ بات چلنے والی نہیں ہے جس وقت تک عبدالرحمن بن زبیر تم سے ہم بستر نہ ہو جائیں اور تم دونوں ایک دوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو (یعنی صحبت نہ کر لو)۔
٭٭ محمد بن مثنی، یحیی، عبید اللہ، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں اور اس خاتون نے دوسرا شوہر کر لیا۔ اس دوسرے شوہر نے ابھی اس کو ہاتھ تک نہ لگایا تھا طلاق دے دی پھر یہ مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا اس قسم کی عورت پہلے شوہر کے واسطے جائز ہو جاتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جائز نہیں ہوتی جس وقت تک کہ اس خاتون کا شوہر (یعنی دوسرا شوہر) پہلے شوہر کی طرح مزہ نہ چکھ لے (یعنی صحبت نہ کر لے )
٭٭ علی بن حجر، ہشیم، یحیی بن ابی اسحاق، سلیمان بن یسار، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک خاتون کے جس کا نام) غمیصاء یا رمیصاء تھا ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی۔ اس نام میں راوی کو شک ہے کہ اس خاتون کا صحیح نام کیا تھا۔ بہرحال اس خاتون نے اپنے شوہر کی شکایت کی اس بات کی کہ اس کا شوہر اس کے پاس نہیں آتا پھر کچھ ہی دیر بعد اس کا شوہر بھی آ گیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ عورت بالکل جھوٹ بھول رہی ہے میں تو اس کے پاس جاتا ہوں لیکن اس کا یہ ارادہ ہے کہ مجھ سے جھوٹ بھول کر پہلے شوہر کے پاس پہنچ جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے واسطے یہ بات بالکل مناسب نہیں ہے مگر اس وقت جبکہ یہ دوسرے شخص کا مزہ چکھ لے (یعنی دوسرا شخص اس سے ہمبستری کر لے )
٭٭ عمرو بن علی، محمد بن جعفر، شعبہ، علقمہ بن مرثد، سالم بن رزین، سالم بن عبد اللہ، سعید بن مسیب، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ ایک شخص کی ایک بیوی تھی اس نے اس کو طلاق دے دی پھر اس خاتون سے دوسرے شخص نے نکاح کر لیا پھر دوسرے شخص نے بھی بغیر ہمبستری کے اس کو طلاق دے دی۔ پھر اس خاتون نے پہلے شوہر کی طرف دوبارہ واپس جانا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ ممکن نہیں ہے جس وقت تک کہ وہ خاتون اس دوسرے شوہر کے شہد کو نہ چکھ لے یعنی اس سے صحبت نے کرے اس وقت تک وہ پہلے شوہر کے واسطے جائز نہیں ہو سکتی۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، علقمہ بن مرثد، رزین بن سلیمان، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیں پھر دوسرے شخص نے نکاح کر لیا اور نکاح ہونے کے بعد دونوں کو (شوہر اور بیوی) ایک کمرہ میں بند کر دیا گیا (یعنی خلوت صحیحہ ہو گئی) اور پردے بھی چھوڑ دیئے گئے لیکن اس دوسرے شوہر نے صحبت نہیں کی اس نے اس عورت کو طلاق دے دی کیا یہ عورت دوسرے شوہر کے واسطے جائز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہیں۔ جس وقت تک اس عورت سے اس کا دوسرا شوہر صحبت نہ کرے۔ حضرت ابو عبدالرحمن یعنی اس کتاب کے مصنف فرماتے ہیں یہ حدیث صواب سے بہت نزدیک ہے (یعنی صحیح ہے )
طلاق مغلظہ دی گئی خاتون سے حلالہ اور تین طلاق دینے والے پر وعید
عمرو بن منصور، ابو نعیم، سفیان، ابو قیس، ہزیل، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی گدوانے والی پر اور گندوانے والی پر بالوں میں بال ملانے والے اور ملوانے والی پر سود کھانے والے پر اور سود کھلانے والے پر حلالہ کر نے والے اور جس کے واسطے حلالہ کیا جاتا ہے اس پر لعنت فرمائی
اگر مرد عورت کا چہرہ دیکھتے ہی (یعنی خلوت کے بغیر ہی) طلاق دے دے
حسین بن حریث، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت کلابیہ (نامی خاتون) خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی تو وہ کہنے لگی یعنی میں اللہ کی پناہ میں آتی ہوں تیرے سے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تو نے بہت بڑے کی پناہ حاصل کی ہے تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا
کسی شخص کی زبانی بیوی کو طلاق کہلوانے سے متعلق
عبید اللہ بن سعید، عبدالرحمن، سفیان، ابو بکر، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو میرے شوہر نے طلاق کہلوا کر بھیجی پھر میں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ تم کو تمہارے شوہر نے کتنی طلاقیں دیں ہیں۔ میں نے عرض کیا تین طلاق دیں ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے واسطے نان و نفقہ یعنی عورت کا خرچہ تمہارے شوہر کی جانب نہیں ملے گا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے چچازاد بھائی کے گھر یعنی حضرت عبداللہ بن مکتوم کے گھر عدت گزارو کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہیں اور اپنے کپڑے ان کے نزدیک اتار سکتی ہو پھر ارشاد فرمایا جب تمہاری عدت پوری ہو جائے تو اس وقت مجھ کو مطلع کرنا (واضح رہے کہ اس جگہ یہ حدیث مختصر کر کے نقل کی گئی ہے )
٭٭ عبید اللہ بن سعید، عبدالرحمن، سفیان، منصور، مجاہد، تمیم، حضرت قیم رضی اللہ عنہ نے بھی اسی مضمون کی حدیث نقل کی ہے۔
اس بات کا بیان کہ اس آیت کریمہ کا کیا مفہوم ہے اور اس کے فرمانے سے کیا مقصد تھا؟
عبد اللہ بن عبدالصمد بن علی، مخلد، سفیان، سالم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا میں نے اپنی اہلیہ کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ عورت تمہارے لیے حرام نہیں ہے پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی اور فرمایا تمہارے واسطے لازم ہے ایک سخت کفارہ یعنی ایک غلام آزاد کرنا۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ کی دوسری تاویل
قتیبہ، حجاج، ابن جریج، عطاء، سمع عبید بن عمیر، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دیر تک قیام فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پر شہد نوش فرماتے تو میں نے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہاں پر مشورہ کیا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائیں گے تو میں عرض کروں گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منہ مبارک سے تو مغافیر کی بو آ رہی ہے (مغافیر عرب میں لہسن کی طرح کا ایک بدبو دار پھل ہوتا ہے ) اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہارے پاس تشریف لائیں تو تم بھی یہی کہنا۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی کے یہاں تشریف لے گئے تو اس نے وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے اور کچھ نہیں کھایا زینب کے گھر شہد پیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اب میں دوبارہ نہیں پیوں گا۔ اس پر یہ آیت کریمہ یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ چیز کس وجہ سے حرام فرماتے ہیں کہ جس کو خداوند قدوس نے تجھ پر حلال فرمایا اور ان تتوبا فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ سے متعلق یعنی تم دونوں توبہ کرتی ہو تو تمہارے قلوب جھک گئے اور ارشاد باری تعالیٰ یعنی جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی کسی اہلیہ محترمہ سے کوئی بات چھپا کر ارشاد فرمائی اور بات وہی ہے جو کہ گزر چکی (یعنی یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شہد پیا ہے ) اور حضرت عطا کی روایت میں یہ واقعہ مکمل طریقہ سے بیان فرمایا گیا ہے۔
اگر کوئی شخص بیوی سے اس طریقہ سے کہے کہ جا تو اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر رہ لے
محمد بن حاتم بن نعیم، محمد بن مکی بن عیسی، عبد اللہ، یونس، زہری، حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت کعب بن مالک سے سنا وہ اس وقت کا اپنا حال بیان فرماتے تھے کہ جس وقت غزوہ تبوک میں جاتے وقت وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پیچھے رہ گئے تھے اور اسی سلسلہ میں حضرت کعب بن مالک نے فرمایا ایک روز اتفاق سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد میرے پاس حاضر ہوا اور اس نے بیان کیا جس طریقہ سے آگے کی حدیث میں مذکور ہے۔
٭٭ سلیمان بن داؤد ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت عبدالرحمن بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت کعب بن مالک سے سنا وہ اپنا اس وقت کا حال بیان فرماتے تھے کہ جس وقت وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غزوہ تبوک میں چھوڑ کر گئے تھے راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ پورا واقعہ نقل فرمایا اور یہ واقعہ حضرت کعب بن مالک نے نقل فرمایا اور وہ فرمانے لگے میں جس وقت اس حالت میں تھا اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہارے واسطے یہ حکم فرمایا ہے کہ تم اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لو حضرت کعب نے دریافت کیا کہ کنارہ کرنے سے کیا مراد اور مقصد ہے ؟ قاصد نے کہا کہ طلاق دینا مراد نہیں بلکہ علیحدہ رہنے کے واسطے حکم فرمایا ہے اور اس کے نزدیک جانے سے منع فرمایا ہے حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم جاؤ اپنے گھر والوں کے پاس جا کر رہو اور تم وہاں سے میرے پاس نہ آنا جس وقت تک کہ اللہ عزت اور بزرگی والا اس مسئلہ میں کوئی حکم نہ صادر فرما دے۔
٭٭ محمد بن جبلہ و محمد بن یحیی بن محمد، محمد بن موسیٰ بن اعین، ابیہ، اسحاق بن راشد، زہری، عبدالرحمن بن عبداللہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت کعب سے سنا اور راوی کہتے ہیں کہ کعب ان تین افراد میں سے ہیں کہ جن کی توبہ قبول ہوئی وہ اپنی حالت اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو میرے اور میرے ساتھی کے پاس بھیجا اور اس شخص نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم کو حکم فرمایا ہے کہ تم اپنی خواتین سے علیحدگی اختیار کر لو اور تم ان کے پاس نہ جاؤ۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے قاصد سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی اہلیہ کو طلاق دے دوں یا میں کیا کروں ؟ تو اس نے جواب دیا کہ تم اس کو طلاق نہ دو بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کر لو اور تم اس کے پاس نہ جاؤ۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اہلیہ سے کہا جاؤ تو اپنے لوگوں میں شامل ہو جاؤ اور تو وہیں جا کر رہ۔ چنانچہ ان کی بیوی ان ہی لوگوں میں جا کر شامل ہو گئی۔
٭٭ یوسف بن سعید، حجاج بن محمد، لیث بن سعد، عقیل، ابن شہاب، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب، عبداللہ بن کعب، حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ اپنا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے رہ گئے تھے غزوہ تبوک میں اور اس سلسلہ میں حدیث کے راوی نقل کرتے ہیں کہ اس دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا میرے پاس نمائندہ حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمہارے واسطے حکم فرمایا ہے کہ تم لوگ اپنی عورتوں سے علیحدگی اختیار کر لو یعنی مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو حکم فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نمائندہ سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کس طریقہ سے کروں ؟ نمائندہ نے عرض کیا کہ الگ رہنے کے واسطے حکم ہوا ہے اور طلاق دینے کے واسطے حکم نہیں ہوا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اہلیہ کو تو جاہل عورت (جا کر) اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ۔ جس وقت تک کہ خدا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ صادر نہ ہو۔ حضرت معقل بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کا اختلاف کیا ہے یعنی زہری بن شہاب کے شاگردوں میں حضرت معقل بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ان کی روایت حضرت عبداللہ بن کعب سے ہے جیسا کہ آگے مذکور ہے۔
٭٭ محمد بن معدان بن عیسی، حسن بن اعین، معقل، زہری، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب، حضرت عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد حضرت کعب سے سنا وہ نقل فرماتے تھے کہ تیرے پاس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی میرے پاس بھیجا اور میرے ساتھی کے پاس بھی ایک شخص کو بھیجا اس نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم نقل کیا) اور کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا ہے کہ تم اپنی عورتوں سے الگ رہو۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس شخص سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی اہلیہ کو طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ تم اس کو طلاق نہ دو بلکہ تم اپنے پاس سے اس کو الگ کر دو اور تم اس کے پاس نہ جانا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو چلی جا اور اپنی گھر والوں میں جا کر شامل ہو جا اور تو ان میں جا کر رہ۔ جس وقت تک کہ خدا بزرگ و برتر اس سلسلہ میں حکم نہ کرے پھر ان کی اہلیہ اپنے گھر والوں میں چلی گئیں یعنی میکہ جا کر رہنے لگیں۔ (معمر نے معقل کے خلاف کیا ہے )
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، محمد، معمر، زہری، حضرت عبدالرحمن بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی حدیث میں نقل کیا ہے اتفاق کی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نمائندہ میرے پاس آیا اور اس نمائندے نے کہا تم اپنی اہلیہ مترمہ کو الگ کر دو پھر میں نے اس نمائندہ سے عرض کیا کیا میں اہلیہ کو طلاق دے دوں ؟ اس نے کہا کہ تم ان کو طلاق نہ دو لیکن تم ان کے نزدیک نہ جاؤ اور اس حدیث میں مذکور نہیں ہے۔
غلام کے طلاق دینے سے متعلق
عمرو بن علی، یحیی، علی بن مبارک، یحیی بن ابو کثیر، عمر بن معتب، حضرت ابو حسن مولی بن نوفل سے روایت ہے کہ میں اور میری بیوی دونوں حالت غلامی میں تھے میں نے اس خاتون کو دو طلاق دے دی۔ پھر اس کے بعد ہم دونوں ایک مرتبہ اکٹھے آزاد کیے گئے میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم اس کی جانب رجوع کر لو یعنی طلاق واپس لے لو تو وہ عورت تمہارے پاس ہی رہے گی اور ایک ہی طلاق پر تمہارے پاس رہے گی (یعنی ایک طلاق دینے کی صورت میں تم اندرون عدت رجوع کر سکتے ہو بعد عدت طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور عورت نکاح سے باہر ہو جائے گی) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم فرمایا ہے اور اس روایت میں معمر نے خلاف کیا ہے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، یحیی بن ابو کثیر، عمر بن معتب، حضرت حسن مولی بنی نوفل سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس غلام سے متعلق مسئلہ دریافت کیا جس نے اپنی عورت کو دو طلاقیں دے دی ہوں اور پھر وہ دونوں آزاد ہو گئے ہوں تو کیا وہ آزاد غلام اس آزاد باندی سے نکاح کر سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کر سکتا ہے کسی نے اس مسئلہ کے بارے میں سند دریافت کی تو حضرت ابن عباس نے اس کو جواب دیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مسئلہ میں ایسا ہی ابن المبارک نے معمر سے کہا کہ یہ حسن کون ہے تو اس نے بڑا بھاری پتھر اپنے اوپر لاد لیا اس لیے کہ یہ روایت غلط ہو تو سینکڑوں ناجائز نکاح کا عذاب اس کا گردن پر ہو گا۔
لڑکے کا کس عمر میں طلاق دینا معتبر ہے ؟
ربیع بن سلیمان، اسد بن موسی، حمادبن سلمہ، ابی جعفر، عمارہ بن خزیمہ، حضرت کثیر بن سائب رضی اللہ عنہ بنو قریظ کے دو لڑکوں سے روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو)
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عبدالملک بن عمیر، حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے روز جس وقت وہ چودہ سال کے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو قبول نہیں فرمایا پھر وہ دوسری مرتبہ غزوہ والے روز پیش کیے گئے جب کہ وہ پندرہ سال کے تھے جب ان کو قبول کیا۔ (یعنی نابالغ ہونے کی وجہ سے ان کو جہاد کے واسطے قبول نہیں کیا گیا)۔
بعض لوگ جن کا طلاق دینا معتبر نہیں ہے
یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن بن مہدی، حماد بن سلمہ، حماد، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا دیا گیا (یعنی تین قسم کے لوگ مرفوع القلم اور غیر مکلف ہیں ) ایک تو سونے والے سے جاگنے تک اور بچہ سے بڑا ہونے تک اور مجنون سے ہوش آنے تک (جب تک جنون نہ ختم ہو جائے اس وقت تک وہ غیر مکلف ہے )۔
جو شخص اپنے دل میں طلاق دے اس کے متعلق
ابراہیم بن حسن و عبدالرحمن بن محمد بن سلام، حجاج بن محمد، ابنجریج، عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس میری امت کو ان خیالات سے معاف فرما دے گا جو خیالات انسان کے دل میں آتے ہیں جس وقت کے ان کو زبان پر نہ لائیں یا ان خیالات پر عمل نہ کریں۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، ابن ادریس، مسعر، قتادہ، زراہ بن اوفی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس میری امت کی ان باتوں پر گرفت نہیں فرماتے جو کہ اس کے قلب میں ہیں یا جو ان کے قلب میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کریں یا اس کے متعلق گفتگو کریں۔
٭٭ موسیٰ بن عبدالرحمن، حسین جعفی، زائدہ، شیبان، قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس میری امت کی ان باتوں پر گرفت نہیں فرماتے جو کہ اس کے قلب میں ہیں یا جو ان کے قلب میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کریں یا اس کے متعلق گفتگو کریں۔
ایسے اشارہ سے طلاق دینا جو سمجھ میں آتا ہو
ابو بکر بن نافع، بہز، حماد بن سلمہ، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک پڑوسی تھا جو کہ فارس کا باشندہ تھا جو کہ بہت عمدہ قسم کا شوربہ بنایا کرتا تھا وہ شخص ایک مرتبہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں تو اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ تشریف لے آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جانب اشارہ فرمایا یعنی کیا میں ان کو بھی لے کر آں۔ اس شخص نے ہاتھ سے اشارہ نہیں کیا دو مرتبہ یا تین مرتبہ یعنی اگر اشارہ سے طلاق دینا سمجھ میں آ رہا ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
ایسے کلام کے بارے میں جس کے متعدد معنی ہوں اگر کسی ایک معنی کا ارادہ ہو تو وہ درست ہو گا
عمرو بن منصور، عبداللہ بن مسلمہ، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، محمد بن ابراہیم، علقمہ بن وقاص، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم نے ارشاد فرمایا (بندہ کے ) اعمال نیت کے ساتھ ہی معتبر ہیں اور مقصد میں وہی کامیاب ہو گا جو کہ نیت کرے تو جس کسی کا مکان سے ہجرت کرنا خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے ہے تو اس کی ہجرت خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے کی جائے گی یعنی خدا اور اس کی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب ہجرت کرنے کا ثواب پائے گا اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے واسطے ہے تو اس شخص کو دنیا حاصل ہو گی اور اگر عورت کے واسطے اگر کسی کی ہجرت ہوئی تو اس شخص کو بیوی حاصل ہو جائے گی اور دراصل کسی کا اپنے گھر بار وطن سے ہجرت کرنا جس ارادہ سے ہو گا تو اس کو وہ ہی چیز ملے گی کہ جس کے لیے اس نے یہ ہجرت کی ہے۔
اگر کوئی ایک لفظ صاف بولا جائے اور اس سے وہ مفہوم مراد لیا جائے جو کہ اس سے نہیں نکلتا تو وہ بیکار ہو گا
عمران بن بکار، علی بن عیاش، شعیب، ابو زناد، عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا دیکھو خداوند قدوس قریش کے مجھ کو برا بھلا کہنے کو مجھ سے کس طرح پھیر دیتے ہیں کہ وہ لوگ مجھ کو گالیاں دیتے اور مجھ پر لعنت بھیجتے ہیں جبکہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں۔
اختیار کی مدت مقرر کر نے کے بارے میں
یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس بن یزید و موسیٰ بن علی، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس روز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کا حکم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اہلیہ محترمہ کو اختیار عطا فرما دیں تو وہ اختیار دینا مجھ سے شروع فرمایا اور فرمانے لگے کہ میں تم سے ایک بات کا تذکرہ کروں گا تو اس میں تم جلدی نہ کرنا اور تم اپنے والدین کی رائے کے بغیر اس بات کا جواب نہ دینا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے والدین کا مشورہ حاصل کرنا اس وجہ سے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو علم تھا کہ میرے والدین مجھ کو حضرت سے الگ ہونے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بیویوں سے فرمائیں کہ اگر تم دنیاوی زندگی کی خواہش رکھتی ہو اور یہاں کی رونق اور بہار چاہتی ہو تو تم آؤ کچھ فائدہ کے لیے اور میں تم کو اچھی طرح سے رخصت کروں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے یہ آیت کریمہ سن کر کہا کیا اسی چیز کے واسطے مشورہ کر لوں اور میں اپنے والدین سے مشورہ کیوں کروں ؟ میں نے اختیار کیا اللہ عزت اور بزرگی والے کو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آخرت کے مکان کو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر تمام کی تمام بیویوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طریقہ سے کہا کہ جس طریقہ سے میں نے کہا تھا۔ یعنی تمام بیویوں نے اسی طرح سے کہا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار فرمایا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بیویوں سے سوال کرنا اور ان کو اختیار دے دینا طلاق نہیں تھا کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار کیا اور ان کے غیر کو اختیار نہیں کیا
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، محمد بن ثور، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت آیت کریمہ میرے پاس تشریف لائے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو فرمایا اے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا! میں کہتا ہوں تجھ کو ایک بات تو جلدی نہ کر اور اپنے والدین سے مشورہ اس بات میں کر لے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشورہ لینے کے واسطے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو علم تھا کہ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے علیحدگی کرنے کی رائے مجھ کو نہ دیں گے۔ پھر یہ آیت کریمہ یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما دیں اپنی عورتوں سے کہ اگر تم دنیا کی زندگی چاہتی ہو اور یہاں کی رونق (اور بہار) چاہتی ہو آخر تک۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کیا یہی معاملہ ہے مشورہ اور اصلاح کر لوں میں اپنے والدین کی یعنی اس بات میں مشورہ کرنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ میں بغیر مشورہ لیے یہ بات کہتی ہوں کہ میں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار کیا۔ حضرت ابو عبدالرحمن مصنف نسائی فرماتے ہیں اس روایت میں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں بلکہ بہت زیادہ ٹھیک ہے۔
ان خواتین سے متعلق کہ جن کو اختیار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنے شوہر کو اختیار دیا
عمرو بن علی، یحیی، اسماعیل، عامر، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا اور اختیار دینے سے ان کو طلاق نہیں ہوئی اس لیے کہ جس وقت ان کو اختیار دے دیا گیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار کر لیا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عاصم، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دے دیا اور اختیار دینے سے ان کو طلاق نہیں ہوئی اس لیے کہ جس وقت ان کو اختیار دے دیا گیا تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار کر لیا۔
٭٭ محمد بن ابراہیم بن صدران، خالد بن حارث، اشعث، عاصم، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار فرمایا اور اختیار دینے سے ان پر طلاق واقع ہو گئی۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سلیمان، ابو ضحی، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات کو اختیار فرمایا اور اختیار دینے سے ان پر طلاق واقع ہو گئی۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو اختیار عطا فرمایا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار عطا فرمایا پھر اختیار کو شمار نہیں فرمایا۔
جس وقت شوہر اور بیوی دونوں ہی غلام اور باندی ہوں پھر وہ آزادی حاصل کر لیں تو اختیار ہو گا
اسحاق بن ابراہیم، حماد بن مسعدہ، ابن موہب، حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس غلام اور باندی تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارادہ ہوا کہ ان دونوں کو آزاد کر دیں پھر انہوں نے اس بات کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تم باندی سے قبل غلام کو آزاد کرنا۔
باندی کو اختیار دینے سے متعلق
محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ربیعہ، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ واقعہ حضرت بریرہ میں تین سنت تھیں ایک سنت تو یہ ہے کہ وہ آزاد کی گئی پھر ان کو ان کے شوہر کے ساتھ رہنے کا سلسلہ میں اختیار دیا گیا یعنی ان سے کہا گیا کہ اگر تمہاری رضامندی ہو تو تم اپنے شوہر کے پاس رہ لیا کرو یا تم اس شوہر کو چھوڑ کر (یعنی اس شوہر سے طلاق حاصل کر کے ) دوسرے شخص سے نکاح کر لو اور دوسری بات یہ ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حضرت بریرہ کے واقعہ کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ وراثت تو آزاد کرنے والے شخص کے واسطے ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکان پر تشریف لائے اور اس وقت ہانڈی میں گوشت ابل رہا تھا۔ وہ گوشت لے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس روٹی اور سالن موجود تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں نے گوشت کی ہانڈی نہیں دیکھی ہے۔ (یعنی جس ہانڈی میں گوشت تیار کیا جاتا ہے ) تم لوگ وہ ہانڈی کس وجہ سے نہیں لاتے ہو۔ گھر کے لوگوں نے عرض کیا جی ہاں گوشت تو پک جاتا ہے لیکن وہ گوشت حضرت بریرہ کو صدقہ کر دیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صدقہ کی چیز نہیں کھاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کے واسطے تو صدقہ ہے اور ہمارے واسطے وہ ہدیہ ہے۔
٭٭ محمد بن آدم، ابو معاویہ، ہشام، عبدالرحمن بن قاسم، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے تین سنتیں جاری ہوئیں چنانچہ جس وقت ان کے آقاؤں نے ان کو آزادی دینے کا ارادہ کیا اور انہوں نے وراثت (خود) وصول کرنے کی شرط مقرر کی تو میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو خرید کر آزاد کر دو اور وراثت تو اس کا حق ہے جو کہ آزاد کرتا ہے پھر ان کو آزاد کر دے گا۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اختیار عطا فرمایا کہ تمہارا دل چاہے تو تم اپنے شوہر ہی کے نکاح میں رہو اور تمہارا دل چاہے تو تم کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لو چنانچہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرنے کو اختیار کیا۔ پھر ان کو صدقہ دیا جاتا تو وہ اس صدقہ میں سے ہدیہ تحفہ کے طور پر کچھ بھیجا کرتی تھی جس وقت میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو بھی اس میں سے کھانے کے واسطے دو اس لیے کہ اس کے واسطے صدقہ اور ہمارے واسطے ہدیہ ہے۔
اس باندی کے اختیار دینے سے متعلق جو کہ آزاد کر دی گئی ہو اور اس کا شوہر آزاد ہو
قتیبہ، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا اور ان کے والیاء نے یہ شرط رکھی تھی کہ اس وراثت کے حقدار ہم لوگ ہوں گے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو آزاد کر دو اس لیے کہ باندی یا غلام آزاد کرنے والے کا حق ہوتا ہے (مطلب یہ ہے کہ وہ مال دولت جو چھوڑ کر جائے یہ دونوں اس کے فروخت کر نے والے کا حصہ نہیں ہے بلکہ وراثت میں حسب ضابطہ شرعی حصہ ہے ) یہ بات سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کو آزادی دے دی ان کے شوہر کے سلسلہ میں پھر وہ کہنے لگ گئیں کہ اگر مجھ کو چاہے جس قدر مال دولت دے دے تو جب بھی میں ان کے پاس قیام نہ کروں گی اور پھر اس کے بعد وہ با اختیار خاتون بن گئیں اور ان حضرت بریرہ کے شوہر ایک آزاد شخص تھے وہ کسی شخص کے غلام نہیں تھے۔
٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، شعبہ، حکم، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ فرمایا لیکن ان کے اولیاء نے یہ شرط لگائی کہ ولاء ہم لوگ وصول کریں گے (یعنی حضرت بریرہ کی وراثت ہم کو حاصل ہو گی) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو خرید لو اور تم اس کو آزاد کر دو کیونکہ ولاء یعنی وراثت غلام یا باندی کی ہے جو آزاد ہو چکے آزاد کرنے والے کا اور فروخت کر نے والے کا حق نہیں ہوتا اگرچہ اگر کوئی فروخت کرنے والا شخص شرط لگایا کرے فروخت کرنے کے وقت۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں گھر کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے گوشت لے کر حاضر ہوئے اور ان لوگوں نے یہ بات بھی کہہ دی کہ یہ گوشت کسی شخص نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ گوشت حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے تو صدقہ تھا اور ہمارے واسطے تحفہ اور ہدیہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار عطا فرمایا اور ان کا شوہر آزاد تھا غلام نہیں تھا۔
اس مسئلہ سے متعلق کہ جس باندی کا شوہر غلام ہے اور وہ آزاد ہو گئی تو اس کو اختیار ہے
اسحاق بن ابراہیم، جریر، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آپ کو مبلغ نو اوقیہ پر مکاتب بنایا اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا مقرر ہوا۔ اس کے بعد حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا میرے پاس پہنچیں (یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس) حاضر ہو کر عرض کیا اور ان سے اپنے بدل کتابت میں مد د طلب کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اس طریقہ سے تو مد د نہیں کرتی ہوں لیکن اگر وہ لوگ چاہیں تو میں ایک ہی مرتبہ رقم شمار کر کے ادا کر دوں اور ولاء میرا حق ہو گا اس کے بعد حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے لوگوں کے پاس پہنچ گئیں اور انہوں نے ان سے گفتگو کی۔ ان لوگوں نے اس سلسلہ میں کچھ نہیں مانا اور کہا کہ اس کی ولاء ہم ہی وصول کریں گے۔ تو پھر حضرت بریرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی تشریف لے آئے پھر حضرت بریرہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آ کر کہا جو کچھ کہ ان لوگوں نے کہا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پر فرمایا کہ ایسا ہے تو خدا کی قسم میں مد د نہیں کرتی لیکن ولاء اگر میرا حق ٹھہرے گا تو تمہاری مد د کروں گی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا کس بات کا تذکرہ ہے۔ یہ بیوی حضرت عائشہ صدیقہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! حضرت بریرہ حاضر ہوئی تھیں اور وہ میرے پاس اپنے بدل کتابت میں مد د طلب کرنے کے لیے آئی تھیں۔ میں نے تو ان سے کہہ دیا کہ میں اس طریقہ سے تو مد د نہیں کرتی ہوں لیکن اگر وہ چاہیں تو ایک ہی مرتبہ تمام بدل کتابت میں ادا کر سکتی ہوں لیکن ولاء میرے واسطے ہو گی یہ بات حضرت بریرہ نے ان سے کہی انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ ولاء ہم لیں گے اور ایک دوسرے کی امداد کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ عائشہ صدیقہ تم اس کو خرید لو اور ان سے شرط مقرر کر لو ولاء کی اور شرط کرنے سے ان کے ساتھ کس قسم کا کوئی حرج نہیں ہو گا اس لیے کہ ولاء حق آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دینے کے واسطے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حمد باری تعالیٰ پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں کو کیا ہوا کہ اس قسم کی شرط باندھ لیتے ہیں جو کہ ان کو خداوند قدوس کی کتاب میں اور کہتے ہیں ولاء ہم لیں گے کتاب اللہ عزت اور بزرگی والے کی بہت ٹھیک ہے اور حق ہے اور جو شرائط خداوند قدوس نے قائم فرمائی ہیں اور مقرر فرمائیں وہ ہی مضبوط اور قابل اعتماد ہیں وہ شرط باطل ہے اور بے اصل ہے اس کا ادا کرنا کچھ لازم نہیں ہے اگرچہ وہ شرائط کیسی ہی کیوں نہ ہوں پھر اختیار دیا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، مغیرہ بن سلمہ، وہیب، عبید اللہ بن عمر، یزید بن رومان، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک غلام شخص تھے۔
٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، حسین، زائدہ، سماک، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو انصاری لوگوں سے خریدا۔ ان انصاری لوگوں نے ولاء کو اپنے واسطے مقرر کرا لیا تھا۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ولاء کا حقدار وہ ہی ہوتا ہے کہ جس نے غلام خریدا اور غلام خرید کر آزاد کیا اور (صرف) خریدنے والے شخص کا حق نہیں ہوتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو احتیار عطا فرمایا اور حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ایک غلام تھے اور حضرت بریرہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو گوشت ہدیہ بھیجا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہم کو اس گوشت میں سے حصہ دے دیتی تو بہتر تھا۔ ایک بیوی نے فرمایا کہ یہ گوشت حضرت بریرہ کو کسی نے صدقہ میں دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ گوشت حضرت بریرہ کے واسطے تو صدقہ تھا اور ہمارے واسطے صدقہ نہیں ہے بلکہ ہدیہ ہے۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یحیی بن ابو بکر، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، ابیہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے متعلق دریافت کیا اور میں نے اس سلسلہ میں اپنا ارادہ عرض کیا کہ میرا ارادہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے خریدنے کاہے اور اس کے واسطے لوگ شرط لگا رہے ہیں کہ ولاء ان کو دی جائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو خرید لو اس واسطے کہ ولاء اسی کا حق ہے جو کہ آزاد کرتا ہے۔ راوی نے کہا کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا اپنے شوہر کے چھوڑنے کا اور ان کا شوہر ایک غلام شخص تھا پھر راوی نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ اس کا شوہر غلام تھا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گوشت پیش کیا گیا اور گھر کے لوگوں نے کہا کہ یہ گوشت کسی شخص نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ گوشت حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کے حق میں صدقہ تھا اور ہمارے واسطے تو ہدیہ ہے۔
ایلاء سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن حکم، مروان بن معاویہ، حضرت ابو ضحی سے حضرت ابو یعفور روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ ابو ضحی کے نزدیک ذکر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مہینہ کی مدت تیس روز ہے اور بعض حضرات فرماتے تھے کہ 29 دن ہے۔ اس دوران حضرت ابو ضحی نے نقل کیا مجھ سے حضرت ابن عباس ایک دن اٹھ گئے صبح کے وقت تو کیا معاملہ دیکھتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات رو رہی ہیں اور ہر ایک زوجہ مطہرہ کے پاس ان کے گھر کے لوگ موجود تھے۔ پھر میں مسجد میں حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے۔ حضرت عمر نے سلام فرمایا یعنی کسی شخص نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر سلام کیا لیکن کسی نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے تین مرتبہ اسی طریقہ سے کیا پھر وہ واپس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ وہ اوپر تشریف لے گئے جناب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اور کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طلاق دے دی؟ یعنی کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی محترم اہلیہ کو طلاق دے دی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن میں نے ان سے ایک ماہ کا ایلاء کیا جسے راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مکان میں 29 روز ٹھہرے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے نیچے اتر آئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے مکان میں ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے۔
٭٭ محمد بن مثنی، خالد، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف نہ لے جانے کی قسم کھائی یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ عہد کر لیا کہ میں ایک ماہ تک بیویوں کے پاس نہیں جاؤں گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے بالاخانہ میں راتوں تک قیام فرما رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتر کر آ گئے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو ایک ماہ تک کا ایلاء فرمانا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہینہ 29 دن کا بھی ہوتا ہے۔
ظہار سے متعلق احادیث
حسین بن حریث، فضل بن موسی، معمر، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے اپنی اہلیہ سے ظہار کیا تھا پھر میں نے اس سے ہمبستری کر لی کفارہ ادا کرنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حرکت کی ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ میں اس کی پاء زیب اس کی چاندی میں دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا تم اب اس کے پاس نہ جانا کہ جس وقت تک تم وہ کام نہ کرو جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ہے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، حکم بن ابان، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا لیکن اس نے پھر اس عورت سے ہمبستری کر لی کفارہ ادا کرنے سے قبل۔ اس کے بعد اس نے اپنا حال خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ وہ کونسی چیز تھی کہ جس نے تجھ کو اس کام پر آمادہ کیا؟ اس نے عرض کیا کہ خداوند قدوس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر رحم فرمائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے دیکھی اس کے پاؤں کی کڑی یعنی اس کے پاؤں میں پازیب دیکھی یا اس نے کہا کہ میں نے اس کی پنڈلیاں چاند کی روشنی میں دیکھیں۔ یہ بات سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس سے دور رہو جس وقت تک کہ وہ کام انجام دو جو کہ تم کو عزت اور بزرگی والے نے حکم فرمایا ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معتمر، ح، حکم بن ابان، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص نے اپنی اہلیہ سے ظہار کر لیا تھا پھر اس شخص نے کفارہ ادا کرنے سے قبل عورت سے ہمبستری کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کس وجہ سے یہ حرکت کی؟ اور تجھ کو کس بات نے کس کام پر آمادہ کیا وہ شخص کہنے لگا اے خدا کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اس عورت کی سفید سفید پنڈلیاں چاندنی میں نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس سے دور رہو جس وقت تک تم ادا نہ کرو جو کچھ تمہارے ذمہ ادا کرنا لازم ہے اب مصنف نسائی شریف فرما رہے ہیں کہ راوی حضرت اسحاق نے اپنی حدیث شریف میں فرمایا ہے اور اس حدیث کے لفظ محمد کے ہیں اور مصنف فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مرسل ہونا صحیح اور اولی ہے مسند ہونے سے اور خداوند قدوس زیادہ دانا ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، ثمیم بن سلمہ، عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خداوند قدوس کا شکر ہے جو سنتا ہے تمام آوازوں کو۔ حضرت خولہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے اپنے شوہر کا شکوہ پیش کیا یعنی ان کے ظہار کرنے سے مکان اور بال بچے سب کے سب تباہ ہو گئے اور وہ اپنی گفتگو مجھ سے چھپاتی تھی۔ جس وقت خداوند قدوس نے عزت اور بزرگی والے خدا نے یہ آیت کریمہ آخر تک نازل فرمائی۔ یعنی خداوند قدوس نے اس خاتون کی بات سن لی جو کہ تجھ سے جھگڑا کرتی ہے اور خداوند قدوس تم دونوں کا سوال و جواب سنتا ہے۔ اس کے بعد خداوند قدوس نے ظہار اور اس کے کفارہ کا بیان فرمایا۔
خلع سے متعلق احادیث
اسحاق بن ابراہیم، مخزومی، وہیب، ایوب، حسن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے شوہروں سے کشیدہ رہنے والی اور خلع کرنے والی خواتین منافق اور دھوکہ باز ان کو ہی کہنا چاہیے۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، عمرہ بنت عبدالرحمن، حضرت حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اہلیہ حضرت صامت بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حضرت حبیبہ بنت سہل بیان کرتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح صادق کے شروع میں نماز کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حبیبہ کو دروازہ کے نزدیک پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کون ہو؟ تو حضرت حبیبہ نے فرمایا میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کس وجہ سے کیا بات پیش آئی؟ حضرت حبیبہ نے فرمایا کہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان نبھا نہیں رہتا۔ میرے شوہر کا نام حضرت ثابت بن قیس ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ حبیبہ بنت سہل کچھ بیان کر رہی ہیں جو کچھ کہ خداوند قدوس نے چاہا اس کی زبان سے نکلا۔ یہ سن کر حبیبہ نے بیان کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس نے جو کچھ مجھ سے کہہ دیا وہ میرے پاس موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم حضرت ثابت بن قیس کے لے لو۔ یعنی تم ان سے اپنی چیز واپس لے لو۔ چنانچہ حضرت ثابت بن قیس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمانے کے مطابق وہ چیز ان سے واپس لے لی اور اپنا چڑھایا ہوا مال واپس لے لیا اور حضرت حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر والوں میں بیٹھ گئیں یعنی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے گھر چلی گئیں۔
٭٭ ازہر بن جمیل، عبدالوہاب، خالد، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ مجھ کو غصہ اور ناراضگی نہیں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی عادت اور دین کی طرف سے لیکن اسلام میں کفر اور ناشکری کرنا برا سمجھتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان کا باغ واپس کر دو۔ وہ کہنے لگ گئیں کہ ہاں واپس کر دوں گی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ثابت بن قیس سے فرمایا کہ تم اپنا باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دے دو۔
٭٭ حسین بن حریث، فضل بن موسی، حسین بن واقد، عمارہ بن ابو حفصہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میری بیوی ایک ایسی عورت ہے کہ اس کو جو شخص بھی ہاتھ لگائے تو وہ اس کو منع نہیں کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو دور اور دفع کر دو (یعنی اس کو طلاق دے دو) اس شخص نے عرض کیا کہ مجھ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس وجہ سے میری جان نہ چلی جائے یعنی بے قراری کی وجہ سے میرا دل اس کی طرف نہ لگا رہے اور ایسا نہ ہو کہ میں اس کو اپنے سے الگ کر کے گناہ میں مبتلا ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس کو اپنے استعمال میں رکھو۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، حماد بن سلمہ، ہارون بن رئاب، عبداللہ بن عبید بن عمیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے نکاح میں ایک عورت ہے جو کہ کسی کے ہاتھوں کو رد نہیں کرتی جب کوئی اس کو ہاتھ لگاتا ہے (تو وہ اس کے ہاتھوں کو نہیں روکتی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو طلاق دے دو اس نے کہا کہ میں اس کے علاوہ صبر نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو روک دو (یعنی اس عورت کی تم پوری طرح سے حفاظت اور نگرانی کرو اور اس کو ایسا کرنے سے روک دو)۔
لعان شروع ہونے سے متعلق
محمد بن معمر، ابو داؤد ، عبدالعزیز بن ابو سلمہ و ابراہیم بن سعد، زہری، سہل بن سعد، حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عجلانی قبیلہ میں ایک شخص کہنے لگا کہ اے عاصم تم کیا کہتے ہو تم اس مسئلہ میں کیا کہہ رہے ہو کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھا اگر اس عورت کا شوہر اس غیر اور اجنبی شخص کو قتل کر دے تو کیا تم بھی اس کے شوہر کو قتل کر دو گے اے عاصم تم یہ مسئلہ میرے واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کر لو چنانچہ حضرت عاصم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سوال کو دریافت کرنا ناگوار خیال فرمایا۔ پھر حضرت عویمر آئے اور ان سے کہنے لگے کہ اے عاصم تم نے کیا کہا۔ انہوں نے کہا کہ میں کیا کروں تمہاری بات ہی خراب ہے کیونکہ اس سوال سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ناگواری ظاہر فرمائی۔ حضرت عویمر نے کہا کہ خدا کی قسم میں یہ مسئلہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کروں گا اور وہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خداوند قدوس نے تم سے متعلق حکم نازل فرمایا ہے اور تمہاری بیوی سے متعلق بھی ارشاد فرمایا ہے تم اس کو بلا کر لاؤ۔ سہیل نقل فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تھے کہ جس وقت حضرت عویمر اس خاتون کو لے کر آئے اور دونوں نے آپس میں لعان کیا اور حضرت عویمر بیان فرمانے لگے اور قسم سے بیان فرمانے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر میں اس کو اب رکھوں گا تو میں اس کو تہمت اور الزام لگانے والا قرار دوں گا یہ بات کہہ کر انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی اور اپنے سے الگ کر دیا۔ ابھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم بھی نہیں فرمایا تھا ان کو عورت کے الگ کرنے کا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر یہی عادت اور طریقہ قرار پا گیا لعان والوں کے لیے یعنی لعان کے بعد شوہر اور بیوی الگ الگ ہو جائیں۔
حمل کے وقت لعان کرنا
احمد بن علی، محمد بن ابو بکر، عمر بن علی، ابراہیم بن عقبہ، ابو زناد، قاسم بن محمد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عویمر عجلانی اور ان کی اہلیہ محترمہ کے درمیان لعان کرایا تو اس وقت وہ حمل سے تھیں۔
اگر کوئی شخص مقررہ آدمی کا نام لے کر عورت پر تہمت لگائے ان کے درمیان لعان کی صورت
اسحاق بن ابراہیم، عبدالاعلی، حضرت ہشام سے مروی ہے کہ ان سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ جو اپنی اہلیہ پر زنا کی تہمت لگاتا ہو تو انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا قول بیان فرمایا کہ میں نے حضرت ابن مالک رضی اللہ عنہ سے یہی مسئلہ دریافت کیا تھا کہ ان کو اس مسئلہ کا علم ضرور ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ہلال بن امیہ نے اپنی اہلیہ پر حضرت شریک بن سماد کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی حضرت شریک حضرت براء بن مالک کے بھائی تھے (ماں شریک) اور وہ پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے لعان کیا چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے درمیان لعان کرایا اور فرمایا کہ اس کو دیکھنا کہ اگر اس نے اسی طرح کا بچہ پیدا کیا کہ اس کا رنگ سفید اور اس کے بال سیدھے اور اس کی آنکھیں بگڑی ہوئی ہوں تو وہ بچہ ہلال بن امیہ کاہے اور اگر کالے رنگ کی آنکھوں والا ہو گا اور اس کے بال گنگھریالے ہوں گے اور اس کی پنڈیاں پتلی ہوں گی تو وہ شریک بن سماد کا ہو گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس نے کالے رنگ کی آنکھوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ پیدا کیا۔
لعان کا طریقہ
عمران بن یزید، مخلد بن حسین، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی مرتبہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے لعان کیا اور انہوں نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماد کے ساتھ تہمت زدہ کیا۔ چنانچہ وہ ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار گواہ پیش کرنے کے واسطے فرمایا ورنہ تم پر حد قائم کی جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متعدد مرتبہ یہی جملے ارشاد فرمائے تو ہلال کہنے لگے خدا کی قسم خداوند قدوس واقف ہیں کہ میں سچا انسان ہوں اس وجہ سے وہ یقینی طریقہ سے کوئی اس قسم کا حکم نازل فرمائیں گے جس کی وجہ سے میری پشت کوڑے مارے جانے سے بچ جائے گی۔ اس دوران آیت لعان نازل ہوئی یعنی اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے علاوہ کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ان کی گواہی یہی ہے کہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ بلاشبہ میں تو سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت اور اس عورت کی سزا اس طریقہ سے ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ بے شک یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر یہ شخص سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ہلال کو حکم فرمایا اور انہوں نے چار مرتبہ یہ شہادت دی کہ خدا کی قسم میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ کہا اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت۔ پھر اس عورت کو بلایا گیا اور اس نے بھی چار مرتبہ گواہی دی کہ اللہ کی قسم یہ شخص جھوٹا ہے۔ راوی نقل فرماتے ہیں کہ چوتھی یا پانچویں مرتبہ گواہی دیتے وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس کو روک دو۔ اس لیے کہ یہ اس کے واسطے ہلاکت کا ذریعہ ہو گی۔ اس پر اس شخص نے توقف کیا تو ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب یہ اقرار کر لے گی۔ لیکن پھر وہ کہنے لگی کہ میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے واسطے ذلیل نہیں کروں گی اور پانچویں مرتبہ بھی قسم پوری کر لی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس خاتون کو دیکھتے رہنا اگر اس نے سفید سیدھے بالوں والا اور بگڑی ہوئی آنکھوں والا بچہ جنا تو یہ بچہ ہلال بن امیہ کا ہو گا اور اگر اس نے گندمی رنگت والا اور گنگھریالے بالوں والا درمیانہ قد اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا تو یہ شریک بن سحماد کا ہو گا چنانچہ اس نے گندمی رنگت والا اور گنگھریالے بالوں والا درمیانہ قد اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ ہی پیدا کیا اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر سابقہ حکم نازل ہوا ہوتا تو میں اس کے ساتھ دوسرا معاملہ کرتا۔ حضرت امام نسائی فرماتے ہیں۔ قضی العینین سے مراد آنکھوں کے بالوں کا دراز ہونا ہے نیز یہ آنکھیں بڑی اور کھلی نہ ہوں۔
امام کا دعا کرنا کہ اللہ تو میری رہبری فرما
عیسیٰ بن حماد، لیث، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم بن محمد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لعان کا تذکرہ ہوا تو عاصم بن عدی نے کوئی بات کہہ دی اور روانہ ہو گئے پھر ان کے پاس ان کی قوم کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ ایک شخص نے اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی غیر آدمی کو دیکھا ہے عاصم کہنے لگے مجھے اس میں اس وجہ سے بتلایا گیا ہے کہ میں نے اس کے بارے میں بات کی تھی۔ پھر وہ اس کو لے کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو کسی حالت میں دیکھا ہے۔ اس کا حلیہ اس وقت اس طرح سے تھا زرد رنگ چھریرہ بدن اور سیدھے بال اور جس شخص کے ساتھ تہمت لگائی تھی اس کا حلیہ اس طرح سے تھا گندمی رنگ بھری ہوئی پنڈلیاں اور باقی جسم بھی گوشت سے بھرا ہوا۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے خدا حکم واضح فرما۔ چنانچہ جس وقت اس عورت کے بچہ کی ولادت ہوئی تو وہ اسی انسان کی شکل کا تھا کہ جس کے بارے میں اس شخص نے بتلایا تھا کہ میں نے اس کو اپنی اہلیہ کے ساتھ دیکھا ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو لعان کرنے کا حکم فرمایا۔ اس پر حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی خاتون ہے کہ جس کے بارے میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو بغیر گواہان کے سنگسار کرتا تو وہ یہ خاتون ہوتی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا نہیں وہ دوسری عورت تھی جو کہ اسلام میں شرانگیزی کرتی تھی اور بدکاری میں مبتلا تھی۔ لیکن اس کے واسطے گواہ یا ثبوت نہیں تھا۔
٭٭ یحیی بن محمد بن سکن، محمد بن جہضم، اسماعیل بن جعفر، یحیی، عبدالرحمن بن قاسم، ابیہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث جیسا ہے۔
پانچویں مرتبہ قسم کھانے کے وقت لعان کرنے والوں کے چہرہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم
علی بن میمون، سفیان، عاصم بن کلیب، ابیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو حکم فرمایا کہ جس وقت یہ لعان کرنے والے لعان کریں تو پانچویں مرتبہ قسم کھانے کے وقت تم ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دینا اور فرمایا اس سے اللہ کا عذاب لازم ہو جاتا ہے۔
امام کا لعان کے وقت مرو و عورت کو نصیحت کرنا
عمرو بن علی و محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالملک بن ابو سلیمان، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی امارت کے دوران کسی شخص نے لعان کرنے والے سے متعلق دریافت کیا کہ لعان کے بعد ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جاتی ہے ؟ مجھ کو اس بات کا کوئی جواب نہیں بن پایا تو میں اٹھ گیا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے مکان کی جانب روانہ ہو گیا میں نے ان سے کہا اے ابو عبدالرحمن! کیا لعان کرنے والے افراد کے درمیان علیحدگی کرا دی جاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا جی ہاں سُبحَانَ اللہ یہ مسئلہ سب سے پہلے فلاں بن فلاں نے دریافت کیا تھا اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! اگر کوئی شخص اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی کو گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو اگر وہ شخص کچھ کہے تو جب بھی یہ بہت بڑی بات ہے اور اگر وہ خاموش رہے تو اس قسم کی بات پر خاموش رہنا بھی اس طریقہ سے بہت بڑی بات ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی قسم کا جواب ارشاد نہیں فرمایا پھر وہ آدمی دوسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جس شئی کے بارے میں میں نے سوال کیا تھا میں اس میں مبتلا ہو گیا ہوں اس پر خداوند قدوس نے سورہ نور کی آیت لعان نازل فرمائی وہ آیت کریمہ یہ ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شوہر سے شروعات فرمائیں اور اس کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ وہ کہنے لگا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے جھوٹ نہیں بولا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح سے عورت کو بھی نصیحت فرمائی اس نے بھی یہی عرض کیا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حق کے ساتھ (نبی بنا کر) بھیجا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے پھر مرد نے چار مرتبہ خداوند قدوس کی قسم کھا کر گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہا کہ اگر وہ سچا ہے تو اس عورت پر خدا کا غضب نازل ہو۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو علیحدہ فرما دیا۔
لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی
عمرو بن علی و محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، ابیہ، قتادہ، عزرہ، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو کیا حکم ہے ؟ ارشاد فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنو عجلان کے درمیان علیحدگی فرما دی تھی۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا خداوند قدوس خوب واقف ہیں کہ تم دونوں میں سے ایک شخص جھوٹا ہے کیا تمہارے میں سے کوئی ایک گناہ سے توبہ کرنے کا خواہش مند ہے ؟ اسی طریقہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا لیکن دونوں نے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بعد دونوں میں تفریق فرما دی۔
لعان کرنے والے لوگوں سے لعان کے بعد توبہ سے متعلق
زیاد بن ایوب، ابن علیہ، ایوب، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو کیا حکم ہے ؟ تو فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبیلہ بنوعجلان کے شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق اور علیحدگی فرما دی تھی۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کو علم ہے کہ تمہارے دونوں میں سے کون شخص جھوٹا ہے ؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طریقہ سے تین مرتبہ ارشاد فرمایا لیکن ان دونوں نے انکار کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بعد ان دونوں کے درمیان علیحدگی فرمادی۔ پھر شوہر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میری دولت کا کیا انجام ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے واسطے کوئی دولت نہیں ہے اس لیے کہ اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو تم اس سے نفع حاصل کر چکے ہو اور اگر جھوٹے ہو تو دولت واپس کرنا ایک مشکل کام ہے۔
لعان کرنے والے افراد کا اجتماع
محمد بن منصور، سفیان، عمرو، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے لعان کرنے والوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعان کرنے والوں سے متعلق ارشاد فرمایا اب تم دونوں کا حساب و کتاب خداوند قدوس کے ذمہ ہے تم دونوں میں سے ایک نہ ایک جھوٹا ہے (پھر شوہر سے فرمایا) اب تمہارا اس پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میرا مال دولت (جو کہ میں نے اس کو دیا ہے ) اس کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے واسطے کسی قسم کا مال دولت نہیں ہے اس لیے کہ اگر تم ایک سچے انسان ہو تو تم نے وہ مال دولت اپنی شرم گاہ حلال کرنے کے بدلے میں دے دیا اور اگر تم ایک جھوٹے انسان ہو تو تم اس کو مانگنے کا کسی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتے ہو۔
لعان کی وجہ سے لڑکے کا نکار کرنا اور اس کو اس کی والدہ کے سپرد کرنے سے متعلق حدیث
قتیبہ، مالک ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرد اور عورت کے درمیان لعان کرانے کے بعد ان دونوں کے درمیان تفریق کر دیا اور اس بچہ کو اس کی والدہ کے ساتھ کر دیا۔
اگر کوئی آدمی اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرے لیکن اس کا ارادہ اس کا انکار کرتا ہو؟
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ فرازہ کا ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری عورت نے ایک بالکل کالے رنگ کے بچہ کو جنم دیا ہے اور اس کا ارادہ اپنے بچہ سے انکار کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس اونٹ موجود ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا ان کے درمیان خاکی رنگ کے بھی ہیں۔ عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری رائے میں وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا ممکن ہے کہ کسی رگ نے کھینچ دیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ راوی نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے انکار کی اجازت عطا نہیں فرمائی۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید بن زریع، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ فرازہ کا ایک آدمی خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری عورت نے ایک بالکل کالے رنگ کے بچہ کو جنم دیا ہے اور اس کا ارادہ اپنے بچہ سے انکار کرنے کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے پاس اونٹ موجود ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا ان کے درمیان خاکی رنگ کے بھی ہیں۔ عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری رائے میں وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا ممکن ہے کہ کسی رگ نے کھینچ دیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ راوی نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے انکار کی اجازت عطا نہیں فرمائی۔
٭٭ احمد بن محمد بن مغیرہ، ابو حیوۃ، شعیب بن ابو حمزہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے یہاں ایک کالے رنگ کا بچہ پیدا ہوا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ بچہ کہاں سے آیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کس جگہ سے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا یہ کہاں سے آیا یہ سنگ رنگ کا۔ اس نے کہا مجھ کو علم نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس اونٹ بھی ہیں۔ اس نے کہا کہ آپ نے اس کے کیا رنگ دیکھے ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ سرخ رنگ کے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی خاکی رنگ کا بھی ان میں ہے۔ اس نے کہا کہ خاکی رنگ کے بھی اونٹ ہیں اس میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ خاکی رنگ کس جگہ سے آیا۔ اس نے کہا کہ مجھ کو اس کا بالکل علم نہیں ہے کہ وہ کس جگہ سے آیا لیکن کسی رگ نے اس کو ضرور کھینچ لیا ہو گا۔ اس کو راوی نقل کرتا ہے کہ اسی لیے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ یہ جائز نہیں ہے مرد کو اس کا نکار کرنا لڑکے سے جو پیدا ہو اس کی اہلیہ سے مگر اس وقت کہے میں نے دیکھا ہے اور میں اس سے واقف ہوں کہ وہ عورت ایک فاحشہ عورت ہے۔
بچے کا انکار کرنے پر وعید شدید کا بیان
محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، ابن الہاد، عبداللہ بن یونس، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت لعان کی آیات نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو عورت کسی قوم میں ان کے علاوہ کسی شخص کو داخل کرے گی تو اس کے واسطے خداوند قدوس کے پاس کچھ نہیں ہے اور خداوند قدوس اس کو جنت میں داخل نہیں فرمائے گا اس طریقہ سے جو شخص جان بوجھ کر اپنی اولاد کو اپنی جانب نسبت کا انکار کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی نگاہوں سے دور کر دیں گے اور قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کی موجودگی میں ذلیل کرے گا۔
جبکہ کسی عورت کا شوہر بچے کا منکر ہو تو بچہ اسی کو دے دینا چاہیے
قتیبہ، سفیان، زہری، سعید و ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لڑکا بستر والے (شوہر) کاہے اور زنا کرنے والے شخص کے واسطے پتھر ہیں۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، سعید و ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بچہ بستر والے (یعنی شوہر) کاہے اور زنا کرنے والے کے لیے تو پتھر ہے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اور عبد بن زمعہ نے ایک دوسرے سے جھگڑا کیا ایک بچہ کے سلسلہ میں۔ حضرت سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بچہ میرا بھتیجا ہے کہ جن کا نام عتبہ بن ابی وقاص ہے یہ ان کا لڑکا ہے اور میرے بھائی نے وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی شباہت ملاحظہ فرما لیں۔ ایک نسخہ میں ہے کہ عبد زمعہ نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے یہ میرے والد کی باندی سے پیدا ہوا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی شباہت ملاحظہ فرمائی تو وہ شباہت بالکل صاف معلوم ہوئی اور عتبہ کی شکل و صورت اس سے ملتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عبد بن زمعہ وہ تمہارا لڑکا ہے اس لیے کہ بچہ کو بستر والے (یعنی شوہر) کاہے اور زناکار کے لیے تو پتھر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم اس سے پردہ کر لو تو اس نے کبھی حضرت سودہ کو نہیں دیکھا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، مجاہد، یوسف بن زبیر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زمعہ کی ایک باندی تھی جس سے زمعہ صحبت کیا کرتا تھا اور زمعہ کو یہ بھی گمان تھا کہ اس باندی کے ساتھ کسی دوسرے شخص نے زنا کیا ہے۔ آخر اس کو لڑکا پیدا ہوا اس شخص کی صورت پر کہ جس کو اس کا گمان تھا اور زمعہ اس لڑکے کے پیدا ہونے سے قبل مر گیا تھا۔ یہ واقعہ بیوی حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچہ بستر والے کاہے اور تو اس سے پردہ کر لے۔ اے سودہ! اس لیے کہ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، مغیرہ، ابی وائل، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بچہ بستر والے کاہے (یعنی شوہر کاہے ) اور حرام کار کے واسطے پتھر ہے اور حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میرے گمان میں یہ عبداللہ بن مسعود نہیں ہیں۔
باندی کے بستر ہونے (یعنی باندی سے صحبت) سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن زمعہ کے درمیان جھگڑا ہوا۔ حضرت سعد کہتے تھے کہ میرے بھائی عتبہ نے وصیت کی تھی کہ جس وقت کہ میں مکہ مکرمہ آیا اس وقت انہوں نے وصیت کی کہ تم زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھو وہ میرا بیٹا ہے اور عبداللہ بن زمعہ نے نقل کیا کہ وہ میرے والد کی باندی کا لڑکا ہے کہ اس کو میرے والد کی ملکیت میں پیدا کیا پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا تو عتبہ کی صاف شباہت تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچہ تو اس کاہے کہ جس کے واسطے فراش (بستر) ہے (یعنی شوہر کہ جس نے کہ عورت سے صحبت کی) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے سودہ! تم اس سے پردہ کر لو۔
جس وقت لوگ کسی بچہ سے متعلق اختلاف کریں تو اس وقت قرعہ ڈالنا
ابو عاصم خشیش بن اصرم، عبدالرزاق، ثوری، صالح، شعبی، عبد خیر، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص ملک یمن میں آئے تھے۔ جنہوں نے کہ ایک ہی عورت سے صحبت کی تھی ایک ہی طہر میں۔ (یہ سن کر) آپ نے ان میں سے دو شخص کو الگ کر کے فرمایا تم تیسرے شخص (یعنی اپنے ساتھی) کے حق میں اس بچہ کا اقرار کر لو لیکن ان لوگوں نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ پھر آپ نے دوسرے دو شخص سے دریافت فرمایا پھر ان لوگوں نے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا پھر ان تین شخصوں کے نام کا قرعہ ڈالا گیا اور جس کے نام قرعہ نکلا وہ لڑکا اسی کو دے دیا گیا اور ایک تہائی دیت اس سے ان دونوں کو دلوا دی گئی۔ جب خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس مسئلہ کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسی آ گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ڈاڑھی کھل گئی۔
٭٭ علی بن حجر، علی بن مسہر، اجلح، شعبی، عبداللہ بن ابو خلیل، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اس دوران ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جو کہ ملک یمن سے آیا تھا۔ وہ شخص عرض کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جھگڑا کرتے ہوئے آئے کہ جنہوں نے ایک ہی طہر میں ایک عورت سے صحبت کر لی تھی پھر پوری حدیث بیان کی (یعنی جو حدیث شریف اوپر مذکور ہے )۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، اجلح، شعبی، عبداللہ بن ابو خلیل، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھا اور ان دنوں حضرت علی ملک یمن میں تھے کہ تین شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے وہ تینوں شخص ایک بچہ سے متعلق دعوی دار تھے۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان میں سے ایک اس کے واسطے چھوڑ رہے ہو تو ان میں سے ایک شخص نے یہ بات ماننے سے انکار کیا۔ پھر دوسرے شخص سے دریافت کیا کہ کیا تو ساتھی کے لیے اس بچہ کو چھوڑتا ہے (یعنی کیا تو اپنے ساتھی کے واسطے اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہے ؟) لیکن اس شخص نے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر حضرت علی نے فرمایا تم لوگ آپس میں مختلف ہو اور جھگڑا کرتے ہو اور میں اب قرعہ ڈالوں گا اور تمہارے میں سے جس کسی کا قرعہ میں نام آئے گا تو اس کو وہ لڑکا ملے گا اور اس پر دو تہائی دیت پڑے گی۔ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ واقعہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسی آ گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دانت مبارک نظر آنے لگے۔
٭٭ اسحاق بن شاہین، خالد، شیبانی، شعبی، رجل من حضر موت، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملک یمن کی جانب روانہ فرمایا اور ان کے پاس ایک لڑکے سے متعلق مقدمہ پیش ہوا کہ جس مقدمہ میں تین آدمیوں نے جھگڑا کیا تھا پھر تمام حدیث بیان کی جو کہ گزر چکی ہے واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں راوی سلمہ بن کہیل نے اختلاف کیا ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، حضرت سلمہ بن کہیل سے روایت ہے کہ میں نے حضرت شعبی کو حدیث نقل کرتے ہوئے سنا۔ انہوں نے ابی الخیل کی یا ابن ابی الخیل سے روایت کرتے ہیں وہ حدیث شریف یہ ہے کہ تین شخص شریک ہوئے (یعنی صحبت کی) ایک ہی طہر میں پھر حدیث کو نقل فرمایا اس طریقہ سے اور اس روایت میں حضرت زید بن ارقم کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس روایت کو مرفوع کیا حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ یہ صحیح ہے اور خداوند قدوس زیادہ علم رکھتا ہے۔
علم قیافہ سے متعلق احادیث
قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز میرے پاس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوشی سے چمک رہے تھے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت زیادہ خوش نظر آ رہے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمانے لگے کہ تم کو علم ہے کہ (ایک آدمی کہ جس کا نام مجزز ہے جو کہ قیافہ کا علم رکھتا ہے ) اس نے زید بن حارثہ کو دیکھا پھر بیان کیا کہ ان دونوں شخص کی پاؤں کی بناوٹ ایک دوسرے کے پاؤں کی بناوٹ سے ملتی ہے (یعنی دونوں پاؤں کے حصے ایک دوسرے سے ملتے ہیں ہو سکتا ہے کہ دونوں کی پاؤں کی انگلیاں یا ایڑیاں دونوں کی مشابہ ہوں گی)
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میرے پاس ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت بہت خوش تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمانے لگے کہ اے عائشہ صدیقہ! کیا تم کو علم نہیں (قیافہ جاننے والے ایک شخص کا نام) مجززمدلجی ہے وہ آیا تھا اور اس وقت میرے پاس اسامہ بن زید موجود تھے۔ اس قیافہ جاننے والے نے اسامہ بن زید کو دیکھا اور زید کو دیکھا اور دونوں کاچہرہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا اور پاؤں کھلے ہوئے تھے اس قیافہ کے علم رکھنے والے شخص نے کہا کہ یہ پاؤں ایک دوسرے سے پیدا ہوئے ہیں (یعنی ایک دوسرے کے مشابہ ہیں )۔
شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک کے مسلمان ہونے اور لڑکے کا اختیار
محمود بن غیلان، عبدالرزاق، سفیان، عثمان، حضرت عبدالحمید انصاری اپنے والد ماجد سے اور ان کے والد ماجد اپنے دادا سے روایت نقل کرتے ہیں وہ مسلمان ہوئے یعنی عبدالحمید کے دادا اور ان کی اہلیہ محترمہ نے ان کے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا (یعنی عبدالحمید کی دادی نے انکار کیا) ان دونوں کا ایک لڑکا تھا جو کہ ابھی بالغ نہیں ہوا تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بٹھلایا اور اس کے والدین وہاں پر موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اس لڑکے کو اختیار دیا اور دعا فرمائی کہ اے خدا اس کو ہدایت عطا فرما۔ وہ لڑکا اپنے والد کے پاس چلا گیا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، زیاد، حضرت ہلال بن اسامہ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ بیوی حضرت میمونہ نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ ایک دن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا کہ ایک خاتون ایک روز حضرت ابو ہریرہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا میرے والدین آپ پر فدا ہو جائیں۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میرا شوہر میرے بچے کو مجھ سے لینے کا ارادہ کرتا ہے اور اس بچے سے مجھ کو نفع ہے اور وہ مجھ کو قبیلہ ابی عبسہ کے کنویں کا پانی بھی پلاتا ہے اس دوران اس خاتون کا شوہر بھی آ گیا اور کہنے لگا کہ میرے لڑکے کے سلسلہ میں کون شخص جھگڑ رہا ہے ؟ آپ نے فرمایا اے بیٹا یہ تیرا والد ہے اور یہ تیری والدہ ہے ان دونوں میں سے جس کا تیرا دل چاہے اس کا ہاتھ تھام لے چنانچہ لڑکے نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا اور اس کو اپنے ساتھ لے گئی۔
خلع کر نے والی خاتون کی عدت
ابو علی محمد بن یحیی، شاذان بن عثمان، ابیہ، علی بن مبارک، یحیی بن ابی کثیر، حضرت عبدالرحمن بن مسعود بن عفراء کی لڑکی ربیع سے سن کر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ثابت بن شماس نے اپنی اہلیہ جمیلہ، عبداللہ بن ابی کی لڑکی کے مارا اور اس کا ہاتھ توڑ دیا اس کے بھائی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ثابت کو طلب فرمایا جس وقت حضرت ثابت حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس خاتون سے اپنی چیز واپس لے لو اور تم اس کا راستہ چھوڑ دو۔ حضرت ثابت نے عرض کیا کہ بہت بہتر ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس خاتون کو ایک حیض کی عدت گزارنے کے واسطے پھر اس کو اس کے والدین کے گھر چلے جانے کے لیے حکم فرمایا۔
٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، عمی، ابیہ، ابن اسحاق، عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت، حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اپنے شوہر سے خلع حاصل کیا پھر میں عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے دریافت کیا کیا حکم ہے میری عدت کے واسطے یعنی میں کتنی عدت گزاروں ؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے ذمہ عدت واجب نہیں جس وقت تم ان ہی دنوں میں اپنے شوہر کے پاس رہی ہو تو تم ٹھہر جانا یہاں تک کہ تم کو ایک حیض آ جائے اور بیان کیا کہ میں اس مسئلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیصلہ کا تابع ہوں جو کہ مریم مغالیہ کا فیصلہ تھا وہ مریم ثابت بن قیس کی اہلیہ تھی کہ جنہوں نے شوہر سے خلع کیا تھا۔
مطلقہ خواتین کی عدت سے متعلق جو آیت کریمہ ہے اس میں سے کون کون سی خواتین مستثنی ہیں
زکریا
بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، ابیہ، یزید، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کریمہ سے متعلق فرمایا یعنی جو موقوف کرتے ہیں کوئی آیت کریمہ یا ہم بھلا دیتے ہیں تو ہم اس سے بہتر پہنچاتے ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے جس وقت ہم بدلتے ہیں ایک آیت کریمہ کی جگہ دوسری آیت کریمہ اور خداوند قدوس خوب واقف ہے جو وہ نازل کرتا ہے تو (اس بات پر) وہ (کافر) لوگ کہتے ہیں کہ تو تو بنا کر لایا ہے اس طریقہ سے نہیں ہے لیکن ان میں سے بہت سے لوگوں کو کوئی خبر نہیں ہے اور فرمایا ترجمہ اور اللہ تعالیٰ مٹاتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور ثابت کرتا ہے جو دل چاہے اور اس کے پاس ہے اصل کتاب، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن میں جو (حکم) منسوخ ہوا وہ قیام ہے۔ پھر انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ تلاوت فرمائی یعنی مطلقہ خواتین تین حیض تک عدت گزاریں اور یہ آیت کریمہ یعنی عورتیں حیض سے نا امید ہو چکی ہیں تو اگر تم کو شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے بھی اس آیت کریمہ سے منسوخ ہو گئیں یعنی اگر تم ان کو چھونے سے قبل ہی ان کو طلاق دے دو تو ان پر تمہارے واسطے عدت میں بیٹھنا لازم نہیں ہے۔
جس کے شوہر کی وفات ہو گئی اس کی عدت
ہناد بن سری، وکیع، شعبہ، حمید بن نافع، زینب بنت ام سلمہ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی اللہ اور قیامت کے روز پر ایمان لانے والی خاتون کے واسطے جائز نہیں کہ وہ کسی کے انتقال پر تین روز سے زیادہ غم منائے البتہ شوہر کی وفات پر وہ چار ماہ دس روز تک عدت گزارے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، حمید بن نافع، زینب بنت ام سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی آنکھیں خراب ہو گئی ہیں کیا وہ سرمہ ڈال سکتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے ہر ایک دور جاہلیت میں ایک سال تک کجاوے کے نیچے ڈالے جانے جیسے بدترین کپڑے پہن کر عدت گزارا کرتی تھی اور اب اس کے چار ماہ اور دس روز بھی مشکل سے گزر رہے ہیں۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، یحیی بن سعید بن قیس بن قہد، حمید بن نافع، زینب بنت ام سلمہ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک خاتون خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا میری لڑکی کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور مجھ کو اس کی آنکھوں سے متعلق خراب ہونے کی وجہ سے اندیشہ ہے کیا میں اس کے سرمہ ڈال سکتی ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے ہر ایک عورت ایک سال تک عدت میں بیٹھا کرتی تھی اور یہ تو صرف چار ماہ اور دس دن ہی ہیں پھر وہ ایک سال کے مکمل کرنے کے بعد نکلتی اور وہ اپنے پیچھے ایک مینگنی پھینک دیتی۔
٭٭ محمد بن بشار، عبدالوہاب، نافع، صفیہ بنت ابی عبید، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس اور قیامت کے روز پر ایمان لانے والی خاتون کے واسطے کسی مردہ پر تین دن سے زیادہ ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن شوہر کے انتقال پر اس کو چار ماہ دس روز تک عدت گزارنا لازم ہے۔
٭٭ عبید اللہ بن صباح، محمد بن سواء، سعید، ایوب، نافع، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس اور قیامت کے روز پر ایمان لانے والی خاتون کے واسطے کسی مردہ پر تین دن سے زیادہ ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن شوہر کے انتقال پر اس کو چار ماہ دس روز تک عدت گزارنا لازم ہے۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، سہمی، سیعد، ایوب، نافع، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس اور قیامت کے روز پر ایمان لانے والی خاتون کے واسطے کسی مردہ پر تین سے زیادہ ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن شوہر کے انتقال پر اس کو چار ماہ دس روز تک عدت گزارنا لازم ہے۔
حاملہ کی عدت کے بیان میں
محمد بن سملہ و حارث بن مسیکن، ابن قاسم، مالک، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کے وفات کے چند دن کے بعد ایک بچہ کو جنم دیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے نکاح کرنے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اجازت عطا فرما دی اور انہوں نے نکاح کر لیا۔
٭٭ نصر بن علی بن نصر، عبداللہ بن داؤد ، ہشام بن عروہ، ابیہ، حضرت مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سبیعہ کو حکم فرمایا کہ جس وقت وہ نفاس سے پاک ہو جائیں تو نکاح کر لیں۔
٭٭ محمد بن قدامہ، جریر، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت ابو سنابل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سبیعہ کے بچہ کی ولادت ہوئی تو ان کے شوہر کی وفات کو 23 یا 25 رات گزری تھیں چنانچہ جس وقت وہ نفاس سے پاک ہو گئیں تو آپ سے وہ نکاح کر نے کے واسطے سنگھار (وغیرہ) کرنے لگیں۔ لوگوں نے اس کو برا سمجھا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے واسطے اب کون سی رکاوٹ ہے اس کی عدت تو گزر چکی ہے۔
٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد ، شعبہ، عبدربہ بن سعید، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے درمیان اس خاتون کی عدت سے متعلق اختلاف ہو گیا کہ جس کا شوہر وفات کر گیا ہو اور وہ خاتون حمل سے ہو۔ حضرت ابو ہریرہ فرمانے لگے کہ جس وقت وہ بچہ جنے گی تو اس کے واسطے نکاح کرنا درست ہو گا جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمانا تھا کہ وہ زیادہ زمانہ پورا کرے گی تو اس پر انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت سبیعہ کے شوہر کی وفات ہو گئی تو وفات کے 15 دن یعنی آدھے مہینہ کے بعد انہوں نے بچہ کو جنم دیا پھر انہیں دو آدمیوں نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے ایک کے ساتھ رغبت ظاہر کی۔ اس پر دوسرے آدمی کے رشتہ داروں کو اندیشہ ہوا۔ یہ بات سن کر وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم حلال ہو گئی ہو اور تم جس سے دل چاہو نکاح کر لو۔
٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبدربہ بن سعید، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر کسی عورت کے شوہر کی وفات ہو جائے اور وہ عورت حمل سے ہو تو وہ عورت کتنے زمانہ سے عدت میں رہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا دونوں میں سے زیادہ عرصہ تک وہ عدت گزارے گی جب کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمانا تھا کہ جس وقت بچہ پیدا ہو جائے تو عدت مکمل ہو جائے گی۔ یہ بات سن کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت فرمایا سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے نصف ماہ کے بعد بچہ کو جنم دیا تو دو آدمیوں نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ان دونوں میں سے ایک شخص جوان تھا اور ایک ادھیڑ عمر کا تھا انہوں نے جوان شخص کے ساتھ رغبت ظاہر کی۔ اس پر ادھیڑ عمر کے آدمی نے کہا کہ تم ابھی حلال نہیں ہوئی ہو۔ ان دنوں حضرت سبیعہ کے گھر کے لوگ (والدین) موجود نہیں تھے۔ اس وجہ سے ادھیڑ عمر کے شخص نے سوچا کہ جس وقت وہ آئیں گے تو اس کو سمجھا بجھا کر اس سے نکاح کرنے پر رضامند کر لیں گے لیکن وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم حلال ہو چکی ہو اور جس سے تم چاہو نکاح کر سکتی ہو۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، حجاج، یحیی بن ابو کثیر، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس رات گزرنے کے بعد بچہ کو جنم دیا کیا وہ نکاح کر سکتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں وہ زیادہ زمانے پورا کرے گی (یعنی چار مہینہ دس روز عدت گزارے گی) حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا لیکن خداوند قدوس کا یہ ارشاد ہے وہ فرمانے لگے کہ یہ مطلقہ عورت کا حکم ہے۔ یہ سن کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں بھی حضرت ابو سلمہ کے قول کی تائید کرتا ہوں چنانچہ انہوں نے اپنے غلام حضرت کریب کو بھیجا کہ حضرت ام سلمہ سے وہ دریافت کر کے آئیں کہ کیا یہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت ہے چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے دریافت کیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جی ہاں اس لیے کہ حضرت سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس دن کے بعد بچہ کو جنم دیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نکاح کا حکم فرمایا۔ جن لوگوں نے ان کو نکاح کا پیغام دیا تو ان میں حضرت ابو سنابل بھی تھے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یحیی، حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے سے عورت کی عدت کے بارے میں گفتگو کی جو کہ شوہر کے انتقال کے چند روز کے بعد بچہ کو جنم دے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ نہیں بلکہ بچہ کی والادت کے وقت وہ حلال ہو جائے گی اور حضرت ابو ہریرہ فرمانے لگے کہ میں بھی اپنے بھتیجا حضرت ابو سلمہ کی تائید کرتا ہوں چنانچہ انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مسئلہ دریافت کرایا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت سبیعہ اسلمیہ نے اپنی شوہر کی وفات کے بعد کچھ روز کے بعد بچہ کو جنم دیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس سلسلہ میں فتوی حاصل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ عبد الاعلی بن واصل بن عبدالاعلی، یحیی بن آدم، سفیان، یحیی بن سعید، سلیمان بن یسار، کریب، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت سبیعہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ دن کے بعد بچہ کو جنم دیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابو سلمہ کے درمیان اس عورت کی عدت کا بارے میں اختلاف ہو گیا جو کہ شوہر کے وفات کے کچھ روز کے بعد بچہ جنے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمانا تھا کہ وہ زیادہ زمانہ تک عدت گزارے گی جب کہ ابو سلمہ کا کہنا تھا کہ بچہ کی ولادت کے وقت اس کی عدت مکمل ہو جائے گی۔ اس دوران حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ میں اپنے بھتیجا حضرت ابو سلمہ کی تائید کرتا ہوں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس کے غلام کریب کو حضرت ام سلمہ سے یہ مسئلہ دریافت کرنے کے واسطے روانہ کیا وہ واپس آئے اور فرمایا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان فرمایا کہ حضرت سبیعہ نے شوہر کی وفات کے کچھ روز کے بعد جب بچہ کو جنم دیا تو انہوں نے اس بات کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم حلال ہو گئی ہو۔
٭٭ حسین بن منصور، جعفربن عون، یحیی بن سعید، سلیمان بن یسار، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جنے تو اس کی عدت زیادہ زمانہ تک ہو گی۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ہم نے کریب کو حضرت ام سلمہ سے یہ مسئلہ دریافت کرنے کے واسطے بھیجا تو وہ یہ خبر لے کر آئے کہ حضرت سبیعہ کے شوہر کا انتقال ہو گیا تو چند روز کے بعد ان کے یہاں بچہ کی پیدائش ہوئی چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ عبد الملک بن شعیب بن لیث بن سعد، ابیہ، جدہ، جعفر بن ربیعہ، عبدالرحمن بن ہرمز، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، زینب بنت ابو سلمہ، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں قبیلہ بنو سلمہ کی ایک سبیعہ نام کی خاتون کے شوہر کی وفات ہو گئی تو وہ اس وقت حمل سے تھی پھر اس کو ابو سنابل سے نکاح کا پیغام بھیجا لیکن سبیعہ کے منع کرنے پر وہ کہنے لگا کہ تم اس وقت نکاح نہیں کر سکتیں۔ جس وقت تک زیادہ زمانہ تک عدت نہ مکمل کر لو۔ ابھی بیس راتیں ہی گزری تھیں کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا پھر وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نکاح کر لو۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، ابن جریج، داؤد بن ابو عاصم، حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے کہ ان کے پاس ایک خاتون پہنچی کہ جس کے شوہر کی وفات ہو گئی تھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم زیادہ زمانہ تک عدت گزارو گی (یعنی چار ماہ دس دن عدت کے پورا کرو گی) حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے ایک صحابی سے سنا کہ حضرت سبیعہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا شوہر انتقال کر گیا تو میں حمل سے تھی۔ پھر ان کی وفات کو چار ماہ ہونے سے قبل ہی میرے یہاں بچہ کی ولادت ہو گئی۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نکاح کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ سن کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے میں اس بات کا گواہ ہوں۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں قبیلہ بنوعامر کے ایک آدمی حضرت سعد بن خومہ کے نکاح میں تھی۔ حضرت سعد ان حضرات میں سے تھے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ بہرحال میرے شوہر کا انتقال حجۃ الوداع کے موقع پر ہو گیا اور میں اس وقت حمل سے تھی لیکن ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میرے یہاں بچہ پیدا ہو گیا میں جس وقت نفاس سے فارغ ہو گئی تو پیغام نکاح دینے والے کے واسطے میں نے سنگھار کرنا شروع کر دیا اس پر بنوعبدالدار کے ایک آدمی حضرت ابو سنابل کے پاس گئے اور کہنے لگے کیا بات ہے ؟ تم کو سنگھار اور زینت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ممکن ہے کہ تم چاہ رہی ہو شادی کر لوں۔ خدا کی قسم تم چار ماہ دس دن مکمل کرنے سے قبل شادی نہیں کر سکتی ہو۔ حضرت سبیعہ فرماتی ہیں کہ میں نے یہ بات سن کر اپنا لباس پہن لیا اور میں شام کے وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور میں نے مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتوی دیا کہ میں بچہ پیدا کرنے کے بعد حلال ہو چکی (یعنی میری عدت تو گزر چکی) اگر میرا دل چاہے تو میں شادی کر سکتی ہوں۔
٭٭ محمد بن وہب، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید بن ابو انیسہ، یزید بن ابو حبیب، محمد بن مسلم، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت زفر بن اوس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سنابل رضی اللہ عنہ بن بعلبک نے حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تم چار ماہ دس دن سے قبل شادی نہیں کر سکتیں۔ عدت یعنی تم کو زیادہ مدت تک گزارنا ہو گی اس بات پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور حکم شرعی معلوم کیا۔ چنانچہ وہ نقل فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو یہ حکم شرعی ارشاد فرمایا کہ وہ بچہ پیدا ہونے کے بعد شادی کر سکتیں ہیں ان کو ان کے شوہر کی وفات کے وقت حمل تھا اور وہ نویں ماہ میں تھیں یعنی ان کو نو ماہ کا حمل تھا کہ ان کے شوہر کی وفات ہو گئی ان کے شوہر کا نام حضرت سعد بن خومہ ہے جو کہ حجۃ الوداع میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور ان کی اسی جگہ وفات ہو گئی چنانچہ بچہ کی ولادت کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان شخص سے نکاح کر لیا تھا۔
٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عتبہ، حضرت زفر بن اوس فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سنابل بن بعلبک نے حضرت سبیعہ سے فرمایا کہ تم چار ماہ دس دن سے قبل شادی نہیں کر سکتیں۔ عدت یعنی تم کو زیادہ مدت تک گزارنا ہو گی اس بات پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور حکم شرعی معلوم کیا۔ چنانچہ وہ نقل فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو یہ حکم شرعی ارشاد فرمایا کہ وہ بچہ پیدا ہونے کے بعد شادی کر سکتیں ہیں ان کو ان کے شوہر کی وفات کے وقت حمل تھا اور وہ نویں ماہ میں تھیں یعنی ان کو نو ماہ کا حمل تھا کہ ان کے شوہر کی وفات ہو گئی ان کے شوہر کا نام حضرت سعد بن خومہ ہے جو کہ حجۃ الوداع میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور ان کی اسی جگہ وفات ہو گئی چنانچہ بچہ کی ولادت کے بعد انہوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان شخص سے نکاح کر لیا تھا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن عون، حضرت محمد فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کوفہ میں انصار کی بڑی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے حضرت سبیعہ کا تذکرہ کیا۔ اس وقت حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی بھی موجود تھے۔ چنانچہ میں نے حضرت عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی حدیث نقل کی۔ جو کہ حضرت ابن عون کے مطابق تھی کہ اس کی عدت بچہ کی ولادت تک ہے۔ ابن ابی لیلی کہنے لگے لیکن ان کے چچا اس بات پر قائل نہیں ہیں اس پر میں نے اپنی آواز بلند کر کے کہا کیا میں اس کی جرات کر سکتا ہوں کہ حضرت عبداللہ بن عتبہ کی جانب جھوٹ منسوب کروں اور وہ کوفہ ہی میں موجود ہوں پھر جس وقت میں نے مالک سے ملاقات کی اور میں نے دریافت کیا کہ حضرت ابن مسعود حضرت سبیعہ کے بارے میں کیا فرماتے تھے ؟ وہ بیان کرنے لگے کہ تم لوگ اس پر سختی کرتے ہوئے رخصت نہیں دیتے۔ حالانکہ خواتین کی چھوٹی سورت سورہ طلاق لمبی سورت سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔
٭٭ محمد بن مسکین بن نمیلہ یمامی، سعید بن ابو مریم، محمد بن جعفرح میمون بن عباس، سعید بن حکم بن ابو مریم، محمد بن جعفر، ابن شبرمہ، ابراہیم، علقمہ بن قیس، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص چاہے میں اس سے اس مسئلہ میں مباہلہ کرنے کے واسطے آمادہ ہوں کہ وہ آیت یعنی حمل والی خواتین کے واسطے عدت یہ ہے کہ وہ بچہ پیدا کریں۔ اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں شوہر کے مرنے پر عدت کا بیان ہے چنانچہ اگر کسی عورت کے شوہر کی وفات ہو جائے تو بچہ کی ولادت کے ساتھ ہی اس کی عدت مکمل ہو جاتی ہے۔
٭٭ ابو داؤد سلیمان بن سیف، حسن، زہیر، ح، محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یحیی، زہیر بن معاویہ، ابو اسحاق، اسود و مسروق و عبیدہ، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خواتین کی چھوٹی سورت (سورہ طلاق) سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی۔
اگر کسی کا شوہر ہمبستری سے قبل ہی انتقال کر جائے تو اس کی عدت؟
محمود بن غیلان، زید بن حباب، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ ایک آدمی نے کسی خاتون سے نکاح کیا اور اس کے واسطے مہر مقرر کرنے سے قبل اور ہم بستری کیے بغیر ہی وفات کر گیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کو مہر مثل دیا جائے گا نہ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی کی جائے گی اور یہ اضافہ اس کو عدت مکمل کرنا ہو گی اور اس کو میراث اور وراثت میں بھی حصہ ملے گا۔ یہ بات سن کر معقل بن سنان اشجعی کھڑے ہوئے اور فرمایا ہمارے میں سے ایک بروع بنت واثق نامی خاتون کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیصلہ کی طرح ہی فیصلہ فرمایا تھا اس بات پر ابن مسعود خوش ہو گئے۔
سوگ سے متعلق حدیث
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی خاتون کے واسطے اپنے شوہر کی موت کے علاوہ وہ کسی کی موت پر تین روز سے زیادہ ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔
٭٭ محمد بن معمر، حبان، سلیمان بن کثیر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مذکورہ مضمون کے مطابق یہ حدیث ہے۔ ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر بیوی اہل کتاب میں سے ہو تو اس پر عدت کا حکم ساقط ہو جاتا ہے
اسحاق بن منصور، عبداللہ بن یوسف، لیث، ایوب ابن موسی، حمید بن نافع، زینب بنت ابو سلمہ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی منبر پر فرمایا اور قیامت کے دن پر ایمان لانے والی کسی خاتون کے واسطے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ ماتم کرے لیکن شوہر کی وفات پر چار ماہ دس روز تک وہ غم منائے (یعنی عدت گزارے )۔
شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت گزارنے والی خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت مکمل ہونے تک اپنے گھر میں رہے
محمد بن علاء، ابن ادریس، شعبہ و ابن جریج، یحیی بن سعید و محمد بن اسحاق، سعد بن اسحاق، زینب بنت کعب، حضرت فارعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ اس کا شوہر اپنے غلام کو تلاش کرنے کے واسطے گیا (وہ غلام عجمی تھا) ان کا شوہر وہاں قتل ہو گیا ان غلاموں نے اس کو قتل کر دیا یا کسی دوسرے نے اس کو قتل کر دیا۔ حضرت شعبہ اور حضرت ابن جریح نقل فرماتے ہیں آبادی سے اس خاتون کا مکان فاصلہ پر واقعہ تھا پھر وہ خاتون اپنے بھائی کے ہمراہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس نے اپنا حال عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اپنے حالات عرض کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دوسرے مکان میں چلے جانے کی اجازت فرمائی۔ جس وقت وہ خاتون اپنے مکان جانے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو بلایا اور فرمایا تم اپنے مکان میں بیٹھ جاؤ جب تک کہ (تقدیر کا) لکھا ہوا پورا ہو جائے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، یزید بن محمد بن سعد بن اسحاق، زینب بنت کعب، حضرت فریعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ میرے شوہر نے عجمی غلاموں کو ملازم رکھا یعنی کام کرنے کے واسطے ملازم رکھا لیکن ان لوگوں نے اس کو قتل کر دیا۔ پھر میں نے اس بات کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا یعنی شوہر کی وفات ہو جانے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا اور کہا فریعہ نے کہ میرے شوہر کی ملکیت میں نہ تو کوئی مکان ہے اور نہ کوئی کھانے کا نظم ہے میرے واسطے میرے شوہر کی جانب سے میں چاہتی ہوں کہ میں اپنے لوگوں میں میں چلی جاؤں اور میں اپنے یتیم بچوں میں جا کر رہنے لگ جاؤں اور میں ان کی خبر گیری کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم چلی جاؤ۔ پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا اے فریعہ تم نے کس طریقہ سے بیان کیا کہ تم دوبارہ پورا واقعہ مذکورہ بیان کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسی جگہ عدت مکمل کر لو یعنی جس جگہ تم کو اطلاع ملی ہے۔
٭٭ قتیبہ، حماد، سعد بن اسحاق، زینب، حضرت فریعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ ان کا شوہر اپنے غلاموں کی تلاش میں نکلا اور وہ قدوم نامی جگہ میں قتل ہو گیا۔ فریعہ نقل کرتی ہیں۔ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور میں نے اپنے واقعہ کا تذکرہ کیا میری خواہش ہے کہ میں شوہر کے مکان سے رخصت ہو جاؤں اور میں اپنے شوہر کے قبیلہ میں جا کر رہائش اختیار کر لوں اور میں نے اپنا حال عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اپنے حالات عرض کر دیئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اس کی اجازت عطا فرمائی میں جس وقت چلنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم عدت گزارنے تک اپنے شوہر کے گھر میں رہو۔
کہیں بھی عدت گزارنے کی اجازت
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، ورقاء، ابن ابو نجیح، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت جس میں یہ مفہوم بیان فرمایا گیا تھا کہ عورت اپنے شوہر کے مکان میں عدت مکمل کرے یہ آیت کریمہ منسوخ ہو گئی اب کو اس اختیار ہے کہ وہ جس جگہ دل چاہے عدت گزارے۔
جس کے شوہر کی وفات ہو جائے تو اس کی عدت اسی وقت سے ہے کہ جس روز اطلاع ملے
اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، سعد بن اسحاق، زینب بنت کعب، حضرت فریعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ (یہ فریعہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں ) وہ نقل کرتی ہیں کہ میرے شوہر کی قدوم نامی جگہ میں وفات ہو گئی میں پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور میں نے عرض کیا کہ ہمارا مکان بستی سے کافی فاصلہ پر واقع ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اجازت عطا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو پکارا اور ارشاد فرمایا تم ٹھہر جاؤ یعنی تم اپنے گھر ٹھہر جاؤ یعنی تم اپنے شوہر کے گھر ٹھہر جاؤ چار ماہ دس روز تک۔ یہاں تک کہ لکھا ہوا اپنی مدت تک پہنچ جائے یعنی عدت پوری گزر جائے۔
مسلمان خاتون کے لیے سنگھار چھوڑ دینا نہ کہ یہودی اور عیسائی خاتون کے لیے
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابو بکر، حمید بن نافع، حضرت زینب بنت سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے تین احادیث شریفہ کو حضرت حمید بن نافع سے کہا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوئی جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہلیہ محترمہ تھیں اس وقت جب کہ ان کے والد ابو سفیان بن حرب کی وفات ہو گئی تھی ان کا انتقال ہو گیا تھا تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگائی اور پہلے خوشبو باندی کے لگائی پھر وہ خوشبو اپنے چہرہ پر ملی اور اس طرح سے فرمایا خدا کی قسم مجھ کو خوشبو کی ضرورت نہیں تھی مگر اس قدر بات کے واسطے لگائی کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا جو عورت خداوند قدوس اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے واسطے کسی کے لیے تین دن سے زیادہ غم منانا حلال نہیں ہے لیکن شوہر کے واسطے چار ماہ اور دس دن تک سوگ کرے اور دوسری حدیث یہ ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں ایک دن حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس گئی وہاں پر ان دنوں ان کے بھائی کی وفات ہو گئی تھی۔ انہوں نے خوشبو منگا کر خوشبو لگائی اور کہا کہ خدا کی قسم مجھ کو خوشبو کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر فرماتے تھے جو خاتون یقین لائی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تو اس کے واسطے درست نہیں کہ وہ غم منائے کسی کے واسطے تین رات سے زیادہ علاوہ شوہر کے۔ اس لیے کہ شوہر کا غم چار مہینہ دس دن تک ہے تیسری روایت کے بیان میں حضرت زینب فرماتی ہیں میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا ایک خاتون ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری لڑکی کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھنے آ گئیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرمائیں تو میں آنکھوں میں سرمہ ڈال لیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سرمہ نہ لگاؤ اور فرمایا دور جاہلیت میں ہر ایک (عدت گزارنے والی) عورت سال گزارنے پر مینگنی پھینکتی تھی۔ راوی حمید بن نافع بیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت زینب سے دریافت کیا کہ مینگنی پھینکنے سے کیا مراد ہے ؟ حضرت زینب نے فرمایا کہ دور جاہلیت میں جس عورت کے شوہر کی وفات ہو جاتی تھی تو وہ عورت ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں اور بہت زیادہ تنگ اور تاریک کمرہ میں داخل ہو جاتی تھی اور وہ عورت خراب سے خراب تر لباس پہن لیا کرتی تھی اور ایک سال پورا ہونے پر اس کے پاس کوئی گدھا یا بکری یا کوئی پرندہ لاتے پھر وہ عورت اپنی کھال اور جسم کو رگڑتی وہ جانور مر جاتا۔ اس کے بعد وہ عورت کمرہ سے باہر نکلتی۔ اس اندیشہ سے اس وقت اس کو ایک اونٹ کی مینگنی دیتے اس کو پھینک دینے کے بعد جس طرف اس کا دل چاہتا وہ رجحان کرتی۔ یعنی اس کا دل چاہے تو وہ خوشبو لگائے یا کوئی دوسرا کام کرے اس کو اختیار ہوتا۔ حضرت امام مالک نے فرمایا اس حدیث میں جو لفظ تفتض ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے جسم کو ملے اور محمد کی روایت میں حضرت مالک نے کہا کہ خفش خص کو کہتے ہیں۔
(شوہر کی موت کا) غم منانے والی خواتین کا رنگین لباس سے پرہیز
حسین بن محمد، خالد، ہشام، حفصہ، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی خاتون کسی کی وفات پر تین روز سے زیادہ غم نہ منائے لیکن شوہر کی وفات پر وہ چار ماہ دس روز تک عدت گزارے اور اس دوران نہ رنگ دار کپڑے پہنے نہ دھاری دار نہ سرمہ ڈالے نہ کنگھی کرے اور نہ ہی خوشبو لگائے۔ البتہ اگر وہ حیض سے پاک ہونے پر خون کی بدبو زائل کرنے کے لیے کچھ قسط یا اظفار لگائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یحیی بن ابو بکیر، ابراہیم بن طہمان، بدیل، حسن بن مسلم، صفیہ بنت شیبہ، ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس عورت کے شوہر کی وفات ہو گئی ہو تو نہ تو وہ کسم (زعفران وغیرہ میں ) رنگے ہوئے کپڑے پہنے نہ گیرو کے رنگ میں رنگین لباس پہنے اور نہ وہ خضاب لگائے اور نہ ہی وہ سرمہ لگائے۔
دوران عدت مہندی لگانا
محمد بن منصور، سفیان، عاصم، حضصہ، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لانے والی کسی خاتون کے واسطے جائز نہیں کہ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ غم منائے ہاں البتہ خاوند کی وفات پر جائز ہے اور اس دوران اس کے واسطے سرمہ ڈالنا خضاب لگانا اور رنگین لباس استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
دوران عدت بیری کے پتوں سے سر دھونے سے متعلق
احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، مخرمہ، ابیہ، مغیرہ بن ضحاک، حضرت ام حکیم بنت اسید رضی اللہ عنہا اپنی والدہ سے نقل کرتی ہیں کہ ان کے شوہر کی جب وفات ہو گئی تو ان کی آنکھیں دکھنے لگ گئیں انہوں نے اثمد کا سرمہ لگایا اور اپنی باندی کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اثمد کا سرمہ لگانے کا حکم دریافت کرنے کے واسطے بھیجا۔ انہوں نے فرمایا اس وقت تک سرمہ نہ لگاؤ جس وقت تک اس کے بغیر کوئی چارہ باقی نہ رہے۔ اس لیے کہ جس وقت حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اس وقت میں نے اپنی آنکھوں پر ایلوے کا لیپ کیا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اے ام سلمہ! یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یہ ایلوہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس سے چہرے پر چمک آ جاتی ہے اس وجہ سے تم اس کو صرف رات کے وقت لگا لیا کرو اور تم خوشبودار شئی یا مہندی سے سر نہ دھویا کرو۔ اس لیے کہ یہ خضاب ہے۔ میں نے عرض کیا میں پھر کس چیز سے سر دھوؤں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم بیری کے پتوں سے سر دھویا کرو۔
دوران عدت سرمہ لگانا
ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، ابیہ، ایوب، حمید، زینب بنت ابو سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک قریشی قبیلہ کی خاتون خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں لڑکی کی آنکھیں دکھنے آ گئیں ہیں کیا میں اس کے سرمہ ڈال سکتی ہوں راوی کہتے ہیں کہ وہ خاتون اپنی شوہر کی وفات کے بعد عدت میں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم چار ماہ دس دن بھی صبر نہیں کر سکتی وہ عرض کرنے لگی کہ مجھے اس کی آنکھ کے درد و تکلیف میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو چار مہینہ دس دن سے قبل نہیں کیا تم کو یاد نہیں کہ دور جاہلیت میں ایک خاتون اپنے شوہر کی وفات کے بعد ایک سال تک عدت میں رہنے کے بعد نکل کر مینگنی پھینکا کرتی تھی (اس کی تفصیل گزر چکی) کہ یہ بات تو کچھ نہیں۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، یحیی بن سعید، حمید بن نافع، زینب بنت ابو سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک خاتون خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس نے اپنی لڑکی سے متعلق دریافت کیا کہ اس کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور اس کی آنکھیں دکھنے آ گئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دور جاہلیت میں تمہارے میں سے ہر ایک عورت ایک سال تک عدت میں رہتی اور پھر وہ عدت سے باہر آ کر مینگنی پھینکا کرتی یہ تو صرف چار ماہ دس دن ہیں۔
٭٭ محمد بن معدان بن عیسیٰ بن معدان، ابن اعین، زہیر بن معاویہ، یحیی بن سعید، حمید بن نافع، زینب بنت ابو سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش کی ایک خاتون ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اپنی لڑکی سے متعلق دریافت کیا کہ اس کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور مجھے تو اس کی آنکھوں سے متعلق اندیشہ ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ خاتون (دوران عدت) سرمہ لگانے کی اجازت چاہتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں اگر تمہارے میں سے کسی کے شوہر کی وفات ہو جاتی تو وہ ایک سال عدت گزارنے کے بعد مینگنی پھینک کر عدت سے نکل جایا کرتی تھی۔ یہ تو صرف چار ماہ دس دن ہیں حمید نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا راس الحول سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا دور جاہلیت میں دستور تھا کہ اگر کسی کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک بدترین مکان میں رہنے لگتی تھی اور ایک سال تک وہیں رہنے کے بعد نکلتی اور اپنے پیچھے وہ مینگنی پھینکتی تھی (یہ دور جاہلیت کی عدت گزارنے کا طریقہ کی طرف اشارہ ہے )۔
٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، یحیی بن سعید، حمید بن نافع، حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ شوہر کی وفات کی عدت میں عورت سرمہ ڈال سکتی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک خاتون خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے اگر زمانہ جاہلیت میں کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جاتا تو وہ عورت ایک سال تک عدت میں رہتی اور پھر اپنے پیچھے مینگنی پھینکتی۔ پھر (عدت ْ) سے باہر آتی اور یہ تو صرف چار ماہ دس دن ہیں وہ عدت مکمل ہونے تک سرمہ نہیں ڈال سکتی۔
دوران عدت (خوشبو) قسط اور اظفار کے استعمال سے متعلق
عباس بن محمد، اسود بن عامر، زائدہ، ہشام، حفصہ، حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شوہر کی وفات کے بعد عدت گزارنے والی خواتین کے لیے حیض سے پاک ہونے پر قسط اور اظفار (خوشبو) کے استعمال کرنے کی اجازت دی۔
شوہر کی وفات کے بعد عورت کو ایک سال کا خرچہ اور رہائش دینے کے حکم کے منسوخ ہونے کے بارے میں
زکریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، ابیہ، یزید، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ اس آیت کریمہ سے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ سے منسوخ ہے جس میں بیوی کے چوتھے اور آٹھویں حصہ کا تذکرہ ہے نیز ایک سال تک عدت میں رہنے کا حکم بھی چار ماہ دس روز سے منسوخ ہو گیا۔
٭٭ قتیبہ، ابو الاحوص، سماک، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ اس آیت کریمہ سے منسوخ ہو گئی ہے
تین طلاقوں والی خاتون کے واسطے عدت کے درمیان مکان سے نکلنے کی اجازت کے متعلق
عبد الحمید بن محمد، مخلد، ابن جریج، عطاء، حضرت عبدالرحمن بن عاصم حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے نقل کرتی ہیں کہ وہ قبیلہ بنومخزوم کے ایک آدمی کے نکاح میں تھیں اس نے ان کو تین طلاقیں دے دیں اور کسی جہاد میں وہ چلا گیا اور اس نے جاتے ہوئے اپنے وکیل کو حکم دیا کہ اس کو کچھ خرچہ دے دینا۔ اس نے خرچہ دیا تو حضرت فاطمہ نے اس کو کم سمجھ کر واپس فرما دیا اور بعض حضرات ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئیں چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو وہ وہیں پر تھیں۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلایا۔ یہ حضرت فاطمہ بنت قیس ہے ان کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی ہے اور کچھ خرچہ بھی روانہ کیا ہے جس کو اس نے واپس کر دیا ہے (کہ یہ کم ہے ) اس شخص کا کہنا ہے کہ یہ بھی اس کا احسان ہے کہ وہ کچھ تو دے رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ تم اس طریقہ سے کرو کہ تم حضرت ام کلثوم کے گھر منتقل ہو جاؤ اور تم اپنی عدت مکمل کر لو۔ پھر فرمایا لیکن ام کلثوم کے گھر لوگوں کی آمدورفت زیادہ رہتی ہے اس وجہ سے تم حضرت عبداللہ بن مکتوم کے گھر چلی جاؤ اس لیے کہ وہ ایک نابینا شخص ہیں چنانچہ وہ حضرت عبداللہ بن مکتوم کے گھر منتقل ہو گئیں اور وہیں عدت گزاری جس وقت عدت مکمل ہو گئی تو حضرت ابو جہیم اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے ان کو نکاح کے پیغامات بھیجے۔ اس پر وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے انہوں نے مشورہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو تمہارے بارے میں لاٹھی کا اندیشہ ہے کہ جب کہ حضرت ابو معاویہ ایک مفلس شخص ہیں یہ بات سن کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا۔
٭٭ محمد بن رافع، حجین بن مثنی، لیث، عقیل، ابن شہاب، حضرت ابو سلمہ ، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ابو عمرو حفص بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں کہ انہوں نے ان کو تیسری اور آخری طلاق دے دی۔ وہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فتوی دریافت کیا کہ کیا میں مکان سے نکل سکتی ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا ابن مکتوم نابینا کے گھر تم منتقل ہو جاؤ۔ یہ سن کر مروان نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات کی تصدیق نہیں کی کہ مطلقہ عورت مکان سے باہر جا سکتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس بات کا انکار فرمایا تھا۔
٭٭ محمد بن مثنی، حفص، ہشام، ابیہ، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دی ہیں اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ میرے گھر چور وغیرہ آ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر ان کو اس جگہ سے چلے جانے کا حکم دیا۔
٭٭ یعقوب بن ماہان بصری، ہشیم، سیار و حصین و مغیرہ و داؤد بن ابی ہند و اسماعیل بن ابو خالد، حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور میں نے ان سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں کیا حکم دیا تھا؟ وہ فرمانے لگیں کہ جس وقت میرے شوہر نے مجھ کو تین طلاقیں دے دیں تو میں ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور رہائش اور خرچہ کا میں نے ان سے مطالبہ کیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو مجھ کو کسی قسم کا کوئی خرچہ دلایا اور نہ ہی رہنے کے واسطے مکان دلایا اور مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ بن مکتوم کے مکان میں عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن اسحاق، ابو جواب، عمار، ابو اسحاق، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت میرے شوہر نے مجھ کو طلاق دے دی تو میں نے اس جگہ سے چلے جانے کا ارادہ کیا چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اپنے چچازاد بھائی حضرت عمرو بن مکتوم کے مکان میں چلی جاؤ اور تم اسی جگہ پر عدت گزارو۔ یہ بات سن کر حضرت اسود نے ان کو کنکری ماری کہ تمہاری ہلاکت ہو جائے تم اس قسم کا فتوی کس وجہ سے دے رہی ہو۔ پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ اگر تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فرمان مبارک پر دو گواہ پیش کرو تو ٹھیک ہے ورنہ ہم تو کتاب اللہ کو ایک خاتون کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے اور وہ آیت کریمہ یہ ہے یعنی تم ان کو ان کے مکان سے نہ نکالو اور وہ نہ خود ہی مکانوں سے نکلیں۔ البتہ اگر وہ واضح طور پر برے کام کا ارتکاب کریں تو ان کو مکانوں سے نکال دیا جائے۔
جس عورت کے شوہر کی وفات ہو گئی تو اس کا عدت کے درمیان مکان سے نکلنا
عبد الحمید بن محمد، مخلد، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ کو طلاق دی گئی تو انہوں نے اپنے کھجوروں کے باغ میں چلے جانے کا ارادہ فرمایا۔ چنانچہ ان کی ایک آدمی سے ملاقات ہوئی تو اس نے ان کو منع کر دیا۔ وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے باغ میں چلی جاؤ اور تم اس کے پھل توڑو تاکہ تم صدقہ دو اور کوئی نیک کام کرو۔
بائنہ کے خرچہ سے متعلق
احمد بن عبداللہ بن حکم، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو بکر بن ابو جہم، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھ کو طلاق دے دی نہ تو اس نے مجھ کو خرچہ دیا اور نہ ہی رہنے کے واسطے جگہ دی پھر دس قفیر انہوں نے اپنے چچازاد بھائی کے لیے رکھوائے ان میں سے پانچ قفیز تو جو کے تھے اور پانچ کھجور کے۔ اس بات پر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے پورا واقعہ عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس نے ٹھیک کام کیا پھر مجھ کو حکم فرمایا کہ تم فلاں آدمی کے گھر عدت گزارو۔ راوی کہتے ہیں کہ ان کے شوہر نے ان کو طلاق بائن دیدی تھی۔
تین طلاق والی حاملہ خاتون کا نان و نفقہ
عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ابیہ، شعیب، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت سعید بن زید اور حضرت حمنہ بنت قیس کی لڑکی کو تین طلاقیں دے دیں تو ان کی خالہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے ان کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے مکان سے چلے جانے کا حکم فرمایا جس وقت حضرت مروان نے یہ بات سنی تو ان کو حکم بھیجا کہ اپنے مکان واپس چلی جائیں اور عدت مکمل ہونے تک وہ اسی جگہ رہیں۔ انہوں نے بتلایا کہ ان کی خالہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے ان کو اس طریقہ سے کرنے کا حکم فرمایا۔ ان کا کہنا ہے کہ جس وقت حضرت ابو عمرو بن حفص نے ان کو طلاق دے دی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کو منتقل ہونے کا حکم فرمایا تھا۔ یہ بات سن کر حضرت مروان نے حضرت قبیصہ بن ذریب کو حضرت فاطمہ سے یہی مسئلہ دریافت کرنے کے واسطے بھیجا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت ابو عمرو بن حفص کے نکاح میں تھیں یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کو ملک یمن کا حاکم مقرر فرمایا تو حضرت ابو عمرو بھی ان کے ساتھ ہی ساتھ روانہ ہو گئے اور ان کو انہوں نے ایک طلاق دے دی جو کہ آخری طلاق تھی اس لیے کہ وہ دو طلاق اس سے قبل دے چکے تھے اور حضرت حارث بن ہشام اور حضرت عیاش بن ربیعہ کو ان کا خرچہ دینے کا حکم ہوا۔ انہوں نے حضرت حارث اور حضرت عباس کو پیغام بھیجا کہ جو خرچہ میرے شوہر نے میرے واسطے دیا ہے وہ دے دیں۔ وہ دونوں کہنے لگے کہ خدا کی قسم ہمارے ذمہ اس کا خرچہ لازم نہیں ہے البتہ یہ عورت حمل سے ہوتی تو اس کا نان و نفقہ ہمارے ذمے لازم ہوتا۔ اسی طریقہ سے یہ ہمارے مکان میں بھی ہماری بغیر اجازت کے نہیں رہ سکتی۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں پھر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان دونوں کی تصدیق فرمائی چنانچہ میں نے عرض کیا میں کس جگہ منتقل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حضرت ابن مکتوم کے گھر تم چلی جاؤ یہ وہ ہی نابینا آدمی ہیں جن کی وجہ سے خداوند قدوس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عتاب فرمایا۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ پھر میں ان کے مکان میں منتقل ہو گئی اور میں اپنے کپڑے گرمی کی وجہ سے اتار دیا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت اسامہ بن زید سے میری شادی کر دی۔
لفظ قرء سے متعلق ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
عمرو بن منصور، عبداللہ بن یوسف، لیث، یزید بن ابو حبیب، بکیر بن عبداللہ بن اشج، منذر بن مغیرہ، عروہ بن زبیر، حضرت فاطمہ بنت ابی جیش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے (شدت سے ) خون جاری ہونے کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کسی ایک رگ کی وجہ سے ہے یعنی کوئی رگ کھل جاتی ہے اسی رگ سے خون آ رہا ہے اس وجہ سے تم اس کا خیال رکھو کہ جس وقت تمہارے قرو (حیض) کے دن آ جائیں تم اس زمانہ میں نماز (روزہ) چھوڑ دیا کرو اور جس وقت (حیض) پورے ہو جائیں تو پاک ہو کر غسل کر لو۔ راوی نقل کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک حیض سے دوسرے حیض کے دوران تم نماز پڑھ لیا کرو۔
تین طلاق کے بعد حق رجوع منسوخ ہونے سے متعلق
زکیریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، ابیہ، یزید، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ان تین آیات کریمہ یعنی ہم کسی آیت کریمہ کو اس وقت تک منسوخ نہیں کرتے یا نہیں بھلاتے جس وقت تک کہ اس سے بہتر آیت کریمہ نازل نہیں کرتے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے یعنی جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے تبدیل کرتے ہیں پھر ارشاد فرمایا گیا یعنی خداوند کریم جو چاہتے ہیں باقی رکھتے ہیں اور ان کے پاس ام الکتاب ہے کہ تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن مجید میں قبلہ کا حکم منسوخ ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت دور جاہلیت میں دستور تھا کہ اگر پہلے کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تو وہ شخص اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حقدار ہوتا تھا۔ چاہے اس نے تین طلاقیں کیوں نہ دی ہوں لیکن پھر خداوند قدوس نے اس آیت کو منسوخ فرما دیا وہ آیت یہ ہے یعنی طلاق صرف دو مرتبہ ہے پھر یا تو اس کو دستور کے مطابق رکھ لیا جائے یا اسے طریقہ کے مطابق اس کو چھوڑ دیا جائے۔
طلاق سے رجوع کے بارے میں
محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، قتادہ، یونس بن جبیر، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو حکم دے دو کہ اس طلاق سے رجوع کر لے اور اگر طلاق ہی دینا چاہتا ہو تو جس وقت وہ حیض سے پاک ہو جائے تو طلاق دے دے راوی کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عروہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کیا پہلی والی طلاق بھی شمار کی جائے گی؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے شمار نہ کیے جانے کی کیا وجہ ہے ؟ پھر دیکھو کہ اگر کوئی عاجز ہو جائے یا حماقت اور بے وقوفی کرے تو کیا وہ طلاق شمار نہیں ہو گی؟
٭٭ بشر بن خالد یحیی بن آدم، ابن ادریس، محمد بن اسحاق، یحیی بن سعید و عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمرح زہیر، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مطلع کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو حکم دو کہ وہ اس طلاق سے رجعت کر لے اور دوسرے حیض سے پاک ہونے تک وہ اس کو نکاح میں رکھے پھر اگر دل چاہے تو طلاق دے دے اور اگر رکھنا چاہے تو رکھ لے کیونکہ خداوند قدوس نے قرآن کریم میں اسی طرح سے طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے یعنی ان کو عدت کے مطابق طلاق دو۔
٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، ایوب، حضرت نافع فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی ہو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو فرماتے اگر اس نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو ایسی صورت میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ اس سے رجعت کر لو اور دوسرے حیض سے پاک ہونے تک اپنے پاس رکھ لے پھر اگر طلاق دینا چاہتا ہو تو اس سے رجعت سے قبل قبل طلاق دے دے لیکن اگر اس نے ایک ہی ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں تو اس نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی بھی بائنہ ہو گئی۔ (مطلب یہ ہے کہ اب حلالہ کے بغیر پہلے شوہر کے لیے وہ عورت حلال نہیں رہی)۔
٭٭ یوسف بن عیسی، فضل بن موسی، حنظلہ، سالم، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو حالت میں حیض طلاق دے دی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا کہ وہ طلاق سے رجوع کر لیں۔
٭٭ عمرو بن علی، ابو عاصم، ابن جریج، حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ جس نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہو وہ فرمانے لگے کیا تم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے واقف ہو؟ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ انہوں نے فرمایا اس نے بھی اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ اس سے رجوع کر لیں اور اس کے پاک ہونے تک اپنے نکاح میں رکھ لے۔ راوی نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس سے زیادہ نقل نہیں کیا۔
٭٭ عبدہ بن عبد اللہ، یحیی بن آدم، ح، عمرو بن منصور، سہل بن محمد، یحیی بن زکریا، صالح بن صالح، سلمہ بن کہیل، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت ابن عمر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کو طلاق دی پھر ان سے رجوع کیا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید