FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سنن نسائی

 

 

                   امام ابو نسائی

 

 

جلد ہفتم

 

 

 

 

 

حج  کا بیان (متفرق)

 

 

قلیل صدقہ سے متعلق

 

عمرو بن یزید، عبدالرحمن، اعمش، عیاش عامری، ابراہیم تیمی، ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حج تمتع خاص طریقہ سے ہم لوگوں کے واسطے بطور رخصت تھا۔ (یعنی ہمارے لیے اس کی اجازت تھی)۔

 

 

٭٭ محمد بن اسحاق ، احمد بن اسحاق ، حماد بن سلمہ، حمید، عکرمۃ، ابن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح فرمایا۔

 

محرم کے واسطے جو شکار کھانا جائز ہے اس سے متعلق حدیث

 

قتیبہ، مالک، ابو نضر، نافع، ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میں مکہ مکرمہ کے واسطے روانہ ہوا۔ جس وقت کچھ معمولی سا فاصلہ رہ گیا تو میں چند صحابہ کرام کے ہمراہ پیچھے رہ گیا۔ وہ اس وقت احرام باندھے ہوئے تھے۔ جس وقت میں احرام کے بغیر تھا تو اس دوران میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو اپنے گھوڑے پر میں سوار ہو کر ساتھیوں سے میں نے ایک کوڑا دینے کے واسطے کہا انہوں نے کوڑا دینے سے انکار کر دیا۔ پھر میں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا لیکن انہوں نے وہ بھی نہیں دیا تو میں نے خود ہی وہ نیزہ اٹھا لیا اور میں نے نیزہ لے کر اس جنگلی گدھے کا تعاقب کرنا شروع کر دیا اور پھر میں نے اس کو ہلاک کر ڈالا۔ بعض حضرات صحابہ کرام نے اس میں سے کھایا اور بعض نے انکار کر دیا چنانچہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا یہ ایک کھانا تھا جو کہ تم کو خداوند قدوس نے کھلایا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، ابن جریج، محمد بن منکدر، معاذ بن عبدالرحمن تیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور حالت احرام میں تھے کہ ان کے پاس تحفے میں ایک پرندہ آیا وہ اس وقت سو رہے تھے کہ بعض ساتھیوں نے اس میں سے کچھ کھا لیا جس وقت کہ بعض ساتھیوں نے پرہیز کیا چنانچہ جس وقت وہ لوگ جاگ گئے تو ان کا انہوں نے ساتھ دیا جنہوں نے وہ کھایا تھا پھر فرمایا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علی و سلم کے ہمراہ مل کر کھایا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ وحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، محمد بن ابراہیم بن حارث، عیسیٰ بن طلحہ، عمیر بن سلمہ ضمری، بہزی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ جانے کے واسطے احرام باندھ کر روانہ ہوئے جب مقام روحا پر آئے تو ایک جنگلی گدھا نظر آیا (اس کو ذبح کیا جا چکا تھا لیکن سانس باقی تھا) چنانچہ اس کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تذکرہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو پڑا رہنے دو۔ ایسا ممکن ہے کہ اس کا مالک پہنچ جائے کہ اس دوران حضرت بہزی آ گئے جو کہ اس کے مالک تھے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! یہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اختیار میں ہے۔ اس بات پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس کا گوشت ساتھیوں میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا پھر آگے بڑھ گئے اور مقام اثایہ پر پہنچ گئے جو کہ رویثہ اور (مقام) عرج کے درمیان ہے تو دیکھا ایک ہرن (درخت کے ) سایہ میں پڑا ہوا ہے اور ایک تیر اس کے اندر تک داخل ہے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ اس کے پاس کھڑا رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے کی طرف بڑھ جائیں۔

 

محرم کے واسطے جس شکار کا کھانا درست نہیں ہے

 

قتیبہ بن سعید، مالک، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ، عبداللہ بن عباس، صعب بن حثامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن ایک جنگلی گدھا خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پیش کیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ابو اء یا مقام ودان پر تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو واپس فرما دیا چنانچہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے چہرہ پر غم کے آثار دیکھے تو فرمایا ہم نے صرف اس وجہ سے واپس کیا ہے کہ میں حالت احرام میں ہوں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد بن زید، صالح بن کیسان، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس، صعب بن حثامۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ودان تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جنگلی گدھے کو دیکھا اور اس کو واپس فرما دیا پھر ارشاد فرمایا کہ ہم لوگ حالت احرام میں ہیں اس وجہ سے ہم لوگ شکار نہیں کھا سکتے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عفان، حماد بن سلمہ، قیس بن سعد، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تم کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شکار کے جانور کا ایک ٹکڑا احرام کی حالت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو قبول نہیں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہاں (یعنی قبول فرمایا ہے )۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابو عاصم، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو ان سے فرمایا آپ نے کس طریقہ سے بیان فرمایا تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حالت احرام میں شکار کا گوشت پیش کیا گیا فرمایا کہ جی ہاں۔ ایک آدمی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شکار کے گوشت کا ایک حصہ پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو واپس فرما دیا اور ارشاد فرمایا ہم لوگ حالت احرام میں ہیں اس وجہ سے نہیں کھا سکتے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر منصور، حکم، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت صعب بن حثامہ رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جنگلی گدھے کی ران بطور ہدیہ پیش کی اس میں خون جاری تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت مقام قدیر میں تھے اور احرام کی حالت میں تھے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو واپس فرمایا دیا

 

 

٭٭ یوسف بن حماد، سفیان بن حبیب، شعبہ، الحکم و حبیب، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

باب اگر محرم شکار کو دیکھ کر ہنس پڑے ؟

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ گئے ان کے ساتھیوں نے احرام باندھا لیکن انہوں نے احرام نہیں باندھا میرے والد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تھا کہ اچانک وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں نے دیکھا تو ایک وحشی گدھا تھا۔ میں نے نیزہ مارا اور ساتھیوں کی مد د سے درخواست کی تو انہوں نے میری مد د نہیں کی پھر ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اور اس کے بعد ہم کو یہ اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پیچھے ہی رہ جائیں۔ چنانچہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تلاش میں گھوڑے کو تیزی کے ساتھ دوڑا دیا۔ پھر رات کے وقت میری ملاقات قبیلہ غفار کے ایک آدمی سے ہوئی تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کس جگہ چھوڑ کر آئے تھے ؟ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سقیا کے مقام پر قیلولہ میں مشغول تھے۔ اس پر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کہتے ہیں اور ان کو اندیشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے الگ ہو جائیں اس وجہ سے ان کا انتظار کر لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتظار فرمایا پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے ایک وحشی گدھے کا شکار کیا تھا۔ جس میں سے کچھ ابھی میرے پاس باقی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے کہا کہ کھا حالانکہ وہ حالت احرام میں تھے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم نسائی، محمد، ابن مبارک صوری، معاویہ، ابن سلام، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں غزوہ حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا۔ چنانچہ میں نے عمرہ کرنے کی نیت کی (راستہ ہی میں ) میں نے ایک وحشی گدھے کا شکار کر کے اپنے ساتھیوں کو کھلایا حالانکہ وہ حالت احرام میں تھے۔ پھر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتلایا کہ میرے پاس اس کا گوشت اس قدر موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو احرام کے باوجود کھانے کا حکم دیا۔

 

اگر محرم شکار کی طرف اشارہ کرے اور غیر محرم شکار کرے

 

محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبۃ، عثمان بن عبداللہ بن موہب، عبداللہ بن ابی قتادۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حالت سفر میں تھے۔ بعض لوگ حالت احرام میں تھے اور بعض لوگ بغیر احرام کے تھے۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک وحشی گدھا دیکھا تو اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میں نے اپنا نیزہ لیا اور ساتھیوں سے امداد طلب کی لیکن انہوں نے میری امداد کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میں نے ایک نیزہ لیا گدھے کا میں تعاقب کرنے لگا۔ جس وقت میں نے اس کو مارا تو ان لوگوں نے بھی اس کو کھا لیا لیکن بعد میں خوفزدہ ہوئے کہ (ایسا نہ ہو کہ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہو) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کسی نے اس کو اشارہ یا اس کی امداد کی تھی؟ عرض کیا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر کھا سکتے ہو۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، یعقوب، ابن عبدالرحمن، عمرو، مطلب، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خشکی کا شکار تم لوگوں کے واسطے حلال ہے بشرطیکہ تم نے خود شکار نہ کیا ہو یا تمہارے واسطے شکار نہ کیا ہو۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں عمرو بن ابی عمر قوی راوی نہیں ہے اگرچہ ان سے مالک نے بھی احادیث نقل کی ہیں۔

 

کاٹنے والے کتے کو محرم کا قتل کرنا کیسا ہے ؟

 

قتیبہ، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا محرم کے واسطے پانچ اشیاء کو ہلاک کرنے پر کسی قسم کا گناہ نہیں ہے پانچ چیزیں یہ ہیں (1) کوا (2) چیل (3) چوہا (4) پاگل کتا (5) بچھو۔

 

سانپ کو ہلاک کرنا کیسا ہے ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، شعبۃ، قتادۃ، سعید بن مسیب، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ نقل فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا محرم پانچ چیزوں کو قتل کر سکتا ہے (1) سانپ (2) چیل (3) چت کبرا کوا (4) چوہا (5) کاٹنے والا کتا۔

 

چوہے کو مارنا

 

قتیبہ بن سعید، لیث، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ محرم کو پانچ چیزیں مارنے کی اجازت دی ہے کوا چیل چوہا کاٹنے والا کتا اور بچھو۔

 

گرگٹ کو مارنے سے متعلق

 

ابو بکربن اسحاق ، ابراہیم بن محمد بن عرعرۃ، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادۃ، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک خاتون حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو ایک کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا کہ یہ ایک چھپکلی کو مارنے کے واسطے ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ابراہیم علیہ السلام کے واسطے جلائی جانے والی آگ کو اس کے علاوہ تمام جانور بجھا رہے تھے۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو اس کو قتل کرنے کا حکم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفید سانپ کو مار ڈالنے سے منع فرمایا لیکن اگر سانپ دو نشان والا یا دم کٹا ہوا ہو تو ان کو مارنے کا حکم فرمایا کیونکہ یہ دونوں (آنکھوں کی) روشنی کو ضائع کرتے ہیں۔

 

بچھو کو مارنا

 

عبید اللہ بن سعید ابو قدامۃ، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں ان کو قتل کرنے والے پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے چاہے وہ حالت احرام میں ہوں چیل چوہا کاٹنے والا کتا بچھو اور کوا۔

 

چیل کو مارنے سے متعلق

 

زیاد بن ایوب، ابن علیۃ، ایوب، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ ہم لوگ حالت احرام میں کن چیزوں کو مار سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ چیزوں کو قتل کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے چیل کوا چوہا بچھو اور کاٹنے والا کتا۔

 

کوے کو مارنا

 

یعقوب بن ابراہیم ، ہشیم، یحیی بن سعید، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کی سند اور روایت سابقہ کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، الزہری، سالم، ابیہ اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

محرم کو جن چیزوں کو مار ڈالنا درست نہیں ہے

 

محمد بن منصور، سفیان، ابن جریج، عبداللہ بن عبید بن عمیر، ابن ابو عمار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بجو کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ شکار ہے ؟ ارشاد فرمایا جی ہاں۔ پھر میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے۔ ارشاد فرمایا جی ہاں۔

 

محرم کو نکاح کرنے کی اجازت سے متعلق

 

قتیبہ، داؤد، ابن عبدالرحمن عطار، عمرو، ابن دینار، ابو شعثاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، عمرو بن دینار، ابو شعثاء، ابن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کی حالت میں نکاح فرمایا۔ (یعنی میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکاح احرام کی حالت میں کیا)۔

 

محرم کو پچھنے لگانا

 

ابراہیم بن یونس بن محمد، وہ اپنے والد سے ، حماد بن سلمہ، حمید، مجاہد، ابن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو دونوں حالت احرام میں تھے۔

 

 

٭٭ شعیب بن شعیب بن اسحاق و صفوان بن عمرو، ابو المغیرہ، الاوازاعی، عطاء بن ابو رباح، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، ابو زبیر، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عمرو، طاؤس، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عمرو بن دینار، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، یعقوب، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک کہ مسلمان ترکی لوگوں سے جنگ نہیں کریں گے اور ان لوگوں کے منہ ڈھالوں کی طرح چپٹے ہوں گے اور وہ لوگ بال ہی پہنیں گے اور بالوں ہی میں وہ لوگ چلیں گے (یعنی ان لوگوں کے بال جوتے تک ہوں گے )۔

 

٭٭ محمد بن منصور، سعید بن عبدالرحمن، سفیان، زہری، سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم خریدار کو دھوکہ دینے کے واسطے کسی چیز کی قیمت نہ بڑھایا کرو اور کوئی مقیم شخص کسی مسافر شخص کا مال فروخت نہ کرے اور کوئی مسلمان شخص اپنے مسلمان بھائی کی بکری نہ فروخت کرے اور رشتہ نہ بھیجے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے رشتہ بھیجنے کے بعد (یعنی منگنی پر منگنی نہ کرے ) اور نہ خاتون اپنی مسلمان بہن (سوکن) کے لیے طلاق کی خواہش کرے تاکہ الٹ دے وہ شئی جو اس کے برتن میں ہے۔

 

اس کی ممانعت سے متعلق

 

قتیبہ، مالک، نافع، نبیہ بن وہب، ابان بن عثمان، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا محرم نہ تو نکاح کرے نہ رشتہ بھیجے اور نہ ہی دوسرے کا نکاح کرائے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، نبیہ بن وہب، ابان بن عثمان، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا محرم نہ تو نکاح کرے نہ رشتہ بھیجے اور نہ ہی دوسرے کا نکاح کرائے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ایوب بن موسی، انبیہ بن وہب، عمر بن عبید اللہ بن معمر، ابان بن عثمان، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا محرم نہ تو نکاح کرے نہ کسی کا نکاح کرائے اور نہ منگنی کرے۔

 

محرم کا کسی بیماری کی وجہ سے پچھنے لگانا

 

محمد بن عبداللہ بن مبار ک، ابو ولید، یزید بن ابراہیم، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حالت احرام میں (پاؤں میں ) موچ آنے کی وجہ سے پچھنے لگوائے۔

 

محرم کے پاؤں میں پچھنے لگوانے کے بارے میں

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، قتادۃ، انس، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاؤں میں موچ آنے کی وجہ سے اس پر پچھنے لگوائے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت حالت احرام میں تھے۔

 

محرم کا سر کے درمیان فصد لگوانا کیسا ہے ؟

 

ہلال بن بشر، محمد بن خالد، ابن عثمۃ، سلیمان بن بلال، علقمۃبن ابو علقمۃ، اعرج، عبداللہ بن بحینۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حالت احرام میں لحی جمل کے مقام پر سر کے درمیانی حصہ میں پچھنے لگوائے یہ جگہ مکہ مکرمہ کے راستہ میں ہے۔

 

اگر کسی محرم کو جوں کی وجہ سے تکلیف ہو تو کیا کرنا چاہیے ؟

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبدالکریم بن مالک جزری، مجاہد، عبدالرحمن بن ابی لیلی، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حالت احرام میں تھے کہ ان کو جوں کی وجہ سے سر میں تکلیف ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا کہ سر منڈوا دو اور تین روزے رکھو پھر چھ مساکین کو دو دو مد کھانا کھلاؤ پھر ایک بکری ذبح کرو۔ ان تینوں اشیاء میں سے کوئی بھی چیز تمہارے واسطے کافی ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سعید رباطی، عبدالرحمن بن عبد اللہ، عمرو، ابن ابو قیس زبیر، ابن عدی، ابو وائل، کعب بن عجرہ فرماتے ہیں کہ میں نے احرام باندھا تو میرے سر کی جوئیں بہت زیادہ ہو گئیں جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اس وقت میں ساتھیوں کے واسطے دیگ پکا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی انگلی سے میرا سر چھوا اور فرمایا جا کر سر منڈوا اور چھ مساکین کو صدقہ ادا کرو۔

 

اگر محرم مر جائے تو اس کو بیری کے پتے ڈال کر غسل دینے سے متعلق

 

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ (سفر میں ) تھا کہ اس کی اونٹنی نے اس کی گردن توڑ دی اور وہ حالت احرام میں انتقال کر گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر ان کو دو کپڑوں میں کفن دے دو پھر تدفین کے وقت اس کا سر ڈھانپ دو اور اس کے خوشبو لگاؤ۔ اس وجہ سے کہ قیامت کے روز یہ شخص اسی طریقہ سے لبیک پڑھتا ہوا اٹھے گا۔

 

اگر محرم مر جائے تو اس کو کس قدر کپڑوں میں کفن دینا چاہیے ؟

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حالت احرام میں اپنی اونٹنی سے نیچے گر گیا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی۔ اس وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ اس شخص کو بیری کے پتوں سے اور پانی سے غسل دو اور اس کو ان ہی دو کپڑوں میں کفن دو لیکن اس کا سر باہر کی طرف رکھنا اور اس کے خوشبو لگانا کیونکہ یہ شخص قیامت کے دن اس طریقہ سے لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔ حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث شریف دس سال کے بعد حضرت ابو شر (راوی) سے دوسری مرتبہ دریافت کی تو انہوں نے اس طریقہ سے بیان فرمایا لیکن یہ الفاظ مزید بیان فرمائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا چہرہ اور سر نہ ڈھکو۔

 

اگر محرم مر جائے تو اس کو خوشبو نہ لگانا

 

قتیبہ، حماد، ایوب، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عرفات میں کھڑا ہوا تھا کہ وہ شخص اونٹنی سے گر گیا اور گردن ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر اس کو دو کپڑوں میں کفن دے دو پھر تم اس کے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ہی اس کا سر ڈھانپو۔ اس لیے کہ خداوند قدوس قیامت کے روز اس طریقہ سے لبیک کہتے ہوئے اٹھائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، حکم، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی کی اونٹنی نے اس کی گردن توڑ دی اور وہ شخص مر گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور ارشاد فرمایا تم اس کو غسل دے کر کفن دو اور اس کا سر نہ ڈھانکنا اور نہ تم اس کو خوشبو لگانا اس لئے کہ یہ شخص قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا۔

 

اگر کوئی آدمی حالت احرام میں وفات پا جائے تو اس کا سر اور چہرے نہ چھپاؤ

 

محمد بن معاویہ، خلف، ابن خلیفۃ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کرنے کے واسطے روانہ ہوا تو اس کی اونٹنی نے اس کو گرا دیا اور اس کا انتقال ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو غسل دے کر ان ہی دو کپڑوں میں کفن دیا جائے اور سر اور چہرہ نہ ڈھکا جائے اس لیے کہ قیامت کے روز یہ تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا۔

 

اگر محرم کی وفات ہو جائے تو اس کا سر نہ ڈھانکنا چاہیے

 

عمران بن یزید، شعیب بن اسحاق ، ابن جریج، عمرو بن دینار، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ احرام کی حالت میں چل رہا تھا کہ اونٹنی سے گر گیا اور گردن ٹوٹ جانے کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کو غسل دے کر ان ہی دو کپڑوں میں کفن دیا جائے اور سر اور چہرہ نہ ڈھکا جائے کیونکہ قیامت کے روز یہ تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا۔

 

اگر کسی شخص کو دشمن حج سے روک دے تو کیا کرنا چاہیے ؟

 

محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، وہ اپنے والد سے ، جویریۃ، نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ جس وقت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے واسطے حجاج بن یوسف کا لشکر آیا تو ان کی شہادت سے قبل دونوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر اس سال آپ حج نہ کریں تو کوئی نقصان نہیں ہو گا اس لئے یہ اندیشہ ہے کہ ہم کو خانہ کعبہ جانے سے منع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ (حج کرنے کے واسطے ) روانہ ہوئے تو کفار قریش نے ہم کو بیت اللہ شریف تک نہیں جانے دیا چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قربانی ذبح فرمائی اور اپنا سر منڈایا اور میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ انشاء اللہ میں نے اپنے ذمہ عمرہ لازم کر لیا ہے۔ اگر راستہ چھوڑ دیا گیا تو میں خانہ کعبہ کا طواف کروں گا اور اگر روک دیا گیا تو میں وہی کروں گا جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا۔ اس وقت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا حج اور عمرہ دونوں ایک ہی طرح ہیں اس وجہ سے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج کو بھی لازم کر دیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام نہیں کھولا یہاں تک کہ یوم نحر آ گیا تو اس دن احرام کھولا اور ہدی کی قربانی فرمائی۔

 

اگر کسی شخص کو دشمن حج سے روک دے تو کیا کرنا چاہیے ؟

 

حمید بن مسعدۃ بصری، سفیان، ابن حبیب، حجاج، یحیی بن ابو کثیر، عکرمۃ، حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا اگر کسی شخص کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو اس شخص کا احرام کھل جائے گا تو وہ آئندہ سال حج کرے چنانچہ میں نے ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا یہ درست ہے۔

 

 

٭٭ شعیب بن یوسف و محمد بن المثنی، یحیی بن سعید، حجاج بن الصواف، یحیی بن ابو کثیر، عکرمہ، حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بارے میں

 

عبدۃ بن عبد اللہ، سوید، زہیر، موسیٰ بن عقبہ، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذی طویٰ پر رات گزارتے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کی جگہ وہ نہیں ہے کہ جس جگہ اب مسجد تعمیر ہوئی ہے بلکہ وہ جگہ ہے کہ جو نیچے سخت قسم کے ٹیلہ پر ہے۔

 

رات کے وقت مکہ مکرمہ داخل ہونے کے بارے میں

 

عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، مزاحم بن ابو مزاحم، عبدالعزیز بن عبد اللہ، محرش کعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے وقت مقام جعرانہ سے عمرہ کرنے کے واسطے تشریف لے گئے اور عمرہ کر کے فجر تک جعرانہ واپس تشریف لائے گویا کہ رات اسی جگہ رہے ہوں پھر زوال آفتاب کے بعد جعرانہ سے نکل کر بطن سرف پہنچ گئے اور وہاں سے مدینہ منورہ کے راستہ پر روانہ ہوئے۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، سفیان، اسماعیل بن امیۃ، مزاحم، عبدالعزیز بن عبداللہ بن خالد بن اسید، محرش کعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں مقام جعرانہ سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رنگ چاندی کی طرح چمک رہا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ فرمایا اور صبح تک پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جعرانہ ہی میں تھے گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی جگہ رات گزاری۔

 

مکہ مکرمہ میں کس جانب سے داخل ہوں ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ میں اونچی گھاٹی کی جانب سے داخل ہوئے مقام بیت العلبا کی جانب سے اور نیچے والی گھاٹی کی جانب سے روانہ ہوئے مقام کدی کی جانب سے۔

 

مکہ مکرمہ میں جھنڈا لے کر داخل ہونے کے بارے میں

 

اسحاق بن ابراہیم، یحیی بن آدم، شریک، عمار دہنی، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا۔

 

مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا

 

قتیبہ، مالک، ابن شہاب، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک پر (لوہے ) کا ایک خود (جنگی لباس) تھا۔ لوگوں نے عرض کیا ابن خطل کعبہ کے لباس میں لپٹا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس کو قتل کر ڈالو۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، عبداللہ بن زبیر، سفیان، مالک، زہری، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے جس سال کہ مکہ مکرمہ فتح ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر پر خود تھا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، معاویہ بن عمار، ابو زبیر مکی، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے روز مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر پر کالے رنگ کی پگڑی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت احرام میں نہیں تھے۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مکہ میں داخل ہونے کا وقت

 

محمد بن معمر، حبان، وہیب، ایوب، ابو عالیۃ، براء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ ماہ ذی الحجہ کی چار تاریخ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ میں حج کرنے کے واسطے لبیک کہتے ہوئے داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو عمرہ کر کے احرام کھولنے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن کثیر، ابو غسان، شعبۃ، ایوب، ابو عالیۃ، براء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کی نیت کی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطحاء کے مقام پر نماز فجر ادا فرمائی اور ارشاد فرمایا جس شخص کا دل چاہے اس کو عمرہ میں تبدیل کر لے۔

 

 

٭٭ عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار ذوالحجہ کی صبح کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔

 

حرم میں اشعار پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کے متعلق

 

ابو عاصم خشیش بن اصرم، عبدالرزاق، جفعر بن سلیمان، ثابت، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت قضا عمرہ ادا فرمانے کے واسطے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو حضرت عبداللہ بن روحہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے چلتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ اے مشرکین کی اولاد! تم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ سے ہٹ جاؤ آج ہم تم کو ان کے حکم سے اس طرح قتل کریں گے جس سے سر گردن سے الگ ہو جائے گا اور دوست دوست سے بے خبر ہو جائے گا۔ یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے عبد اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں حرم شریف میں تم شعر پڑھ رہے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عمر! اس کو چھوڑ دو یہ اشعار کفار کے دلوں میں تیر سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

 

مکہ مکرمہ کی تعظیم سے متعلق

 

محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ دو شنبہ ہے کہ جس کو خداوند قدوس نے اس روز حرام کیا تھا جس روز آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ اس وجہ سے یہ قیامت تک اللہ کے حرام کرنے کی وجہ سے حرام ہے اس کا کاٹنا نہ کاٹا جائے اور اس کا شکار نہ بھگایا جائے یہاں تک کہ کوئی گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے لیکن اگر کوئی اس کی شہرت اور اعلان کی غرض سے اٹھائے تو جائز ہے اور یہاں کی گھاس نہ کاٹی جائے اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! لیکن اذخر نام کی گھاس کاٹنے کی اجازت دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اس کی اجازت ہے۔

 

مکہ میں جنگ کی ممانعت

 

محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے روز فرمایا یہ مہینہ حرام ہے اس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور اس میں میرے علاوہ کسی کے واسطے لڑائی کرنا جائز نہیں قرار دیا گیا اور میرے واسطے بھی ایک گھڑی تک اس کی اجازت تھی اور پھر بحکم الٰہی حرام قرار دی گئی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، سعید بن ابو سعید، ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمرو بن سعید سے مکہ مکرمہ کی جانب لشکر روانہ کرتے ہوئے فرمایا اے امیر مجھ کو ایک بات بیان کرنے کی اجازت دو۔ جو کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح کے دوسرے روز فرمائی تھی۔ اس کو میرے کانوں نے سنا اور دل نے محفوظ رکھا اور میری آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خداوند قدوس کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا مکہ مکرمہ ایسا شہر ہے کہ جس کو لوگوں نے نہیں بلکہ خداوند قدوس نے حرام قرار دیا ہے اس وجہ سے کسی مسلمان کے واسطے جو کہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ اس میں کسی کا خون بہا دے یا یہاں کا درخت کاٹ ڈالے اور اگر کوئی اپنے فعل پر بطور دلیل کے میرے قتال سے دلیل پکڑے تو تم اس سے کہہ دو کہ خداوند قدوس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اجازت عطا فرمائی تھی تم کو اجازت نہیں عطا فرمائی۔ پھر مجھ کو دن کا ایک حصہ اس کی اجازت تھی اور اس کے بعد اس کی حرمت اس طرح سے دوبارہ واپس آ گئی جس طریقہ سے کہ کل تھی اور جو لوگ اس وقت موجود ہیں تو ان کو چاہیے کہ جو لوگ اس وقت موجود نہیں ہیں ان تک پہنچا دیں۔

 

حرم شریف کی حرمت

 

عمران بن بکار، بشر، وہ اپنے والد سے ، زہری، سحیم، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خانہ کعبہ سے لڑائی کرنے کے واسطے ایک لشکر آئے گا اور وہ لشکر مقام بیداء پر پہنچ کر دھنس جائے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن ادریس، ابو حاتم الرازی، عمر بن حفص بن غیاث، وہ اپنے والد سے ، مسعر، طلحہ بن مصرف، ابو مسلم الاغر، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لشکر خانہ کعبہ سے جنگ کرنے کے واسطے اس وقت تک باز نہیں آئیں گے جس وقت تک کہ ان میں سے ایک زمین میں نہیں دھنس جائے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن داؤد المصیصی، یحیی بن محمد بن سابق، ابو اسامۃ، عبدالسلا م، دالانی، عمرو بن مرۃ، سالم بن ابو جعد، اخیہ، ابن ابو ربیعۃ، حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک لشکر خانہ کعبہ کی جانب سے روانہ کیا جائے گا جس وقت وہ لشکر مقام بیداء پہنچ جائے گا تو اس کا اگلا اور پچھلا حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور درمیان والے بھی نہیں بچ سکیں گے میں نے عرض کیا کہ اگر ان میں مسلمان بھی ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کی قبریں بن جائیں گی۔

 

 

٭٭ حسین بن عیسی، سفیان، امیۃ بن صفوان بن عبداللہ بن صفوان، حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک لشکر اس مکان کی جانب سے روانہ ہو گا اور جس وقت مقام بیداء پر وہ پہنچ جائے گا تو درمیان والے پہلے دھنس جائیں گے اس پر آگے والے پیچھے والے کو آواز دیں گے اور تمام کے تمام لوگ دھنس جائیں گے ان میں سے صرف وہی بچ سکے گا جو کہ فرار ہو کر ان کے بارے میں بتلائے گا یہ حدیث شریف سن کر ایک آدمی نے راوی سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے اپنے دادا سے جھوٹ کی نسبت نہیں کی نہ انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے اور نہ ہی حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب جھوٹ کی نسبت کی۔

 

حرم شریف میں جن جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت ہے

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ برے جانور حل اور حرم دونوں میں قتل کئے جائیں (1) کوا (2) چیل (3) کاٹنے والا کتا (یعنی پاگل کتا) (4) بچھو (5) چوہا۔

 

حرم شریف میں سانپ کو مار ڈالنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، شعبۃ، قتادۃ، سعید بن مسیب، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ برے جانور قتل کر دیئے جائیں چاہے وہ حرم میں ہوں یا غیر حرم میں۔ سانپ۔ کاٹنے والا کتا۔ چت کبرا کوا۔ چیل اور چوہا۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، حفص بن غیاث، اعمش، ابراہیم، اسود، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مسجد خفیف میں مقام منی میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ تھے کہ سورہ مرسلات نازل ہوئی اس دوران سانپ نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا تم لوگ اس کو قتل کر دو ہم لوگ اس کے پیچھے بھاگ پڑے لیکن وہ اپنے بل میں گھس گیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، ابو زبیر، مجاہد، ابو عبیدۃ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ عرفات کی رات یعنی عرفہ والے دن سے قبل والی رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک سانپ کی آہٹ محسوس ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ اس کو مار ڈالو لیکن وہ بل میں داخل ہو گیا۔ چنانچہ ہم لوگوں نے سوراخ میں ایک لکڑی داخل کر دی اور کچھ پتھر نکالے پھر لکڑیاں جمع کر کے سوراخ میں داخل کیں اور ان میں آگ لگا دی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے اس کو تمہارے شر سے اور تم کو اس کے شر سے بچا لیا۔

 

گرگٹ کے مار ڈالنے سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، سفیان، عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ ، سعید بن مسیب، ام شریک رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو گرگٹ کے مارنے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ وہب بن بیان، ابن وہب، مالک و یونس، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گرگٹ ایک برا جانور ہے۔

 

بچھو کو مارنا

 

عبدالرحمن بن خالد، حجاج، ابن جریج، ابان بن صالح، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور برے ہیں ان کو حل اور حرم دونوں میں مار ڈالا جائے۔ کاٹنے والا کتا، کوا، چیل، بچھو اور چوہا۔

 

حرم میں چوہے کو مارنا

 

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جن کا شمار برے جانوروں میں ہوتا ہے اس وجہ سے ان کو حرم اور حل دونوں میں مار ڈالا جائے۔ کوا چیل کاٹنے والا کتا بچھو اور چوہا۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن ابراہیم، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر، حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی پانچ جانوروں کو ہلاک کر دے تو اس پر کسی قسم کا گناہ نہیں۔ بچھو، کوا، چیل، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔

 

حرم میں چیل کو مارنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبد الرزاق، معمر، الزہری، عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ مضمون کے مطابق ہے۔

 

حرم میں کوے کو قتل کرنا

 

احمد بن عبدہ، حماد، ہشام، ابیہ، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

حرم میں شکار بھگانے کی ممانعت سے متعلق

 

سعید بن عبدالرحمن، سفیان، عمرو، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ مکہ مکرمہ ہے جس کو خداوند قدوس نے اسی روز حرام قرار دیا تھا جس روز آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا اور مجھ سے پہلے یا میرے بعد اس کو کسی کے واسطے حلال نہیں فرمایا گیا۔ میرے واسطے بھی دن کی ایک گھڑی میں حلال فرمایا گیا اور پھر دوسری مرتبہ خداوند قدوس کے حکم سے قیامت تک اس کو حرام فرمایا گیا اس وجہ سے نہ اس کی گھاس کاٹی جائے اور نہ کوئی درخت کاٹا جائے اور نہ اس کی جگہ سے شکار کو بھگایا جائے اور نہ یہاں سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے ہاں اس کی شہرت اور اعلان کرنے کے واسطے جائز ہے اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے جو کہ ایک تجربہ کار شخص تھے اور فرمایا اذخر کی اجازت عطا فرمائی اس لیے کہ ہم لوگوں کے یہ مکانات اور قبروں کے کام آتا ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی اجازت عطا فرمائی۔

 

حج میں آگے چلنے سے متعلق

 

محمد بن عبدالملک بن زجنویۃ، عبدالرزاق، جعفر بن سلیمان، ثابت، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت عمرۃ القضاء میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آگے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔ اے کفار کے بیٹو تم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا راستہ چھوڑ دو آج ہم لوگ ان کے حکم سے اس قسم کی مار ماریں گے کہ تم لوگوں کے سر گردنوں سے الگ ہو جائیں گے اور دوست دوست سے بے خبر ہو جائے گا۔ اس پر عمر نے کہا اے عبد اللہ! نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں اور اللہ کے حرم میں تم اشعار پڑھ رہے ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو چھوڑ دو اللہ کی قسم یہ اشعار کفار کے قلوب پر تیر کی چوٹ سے زیادہ سخت لگ رہے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، یزید، ابن زریع، خالد، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ میں داخل ہوئے تو قبیلہ بنو ہاشم کے بچوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا استقبال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کو آگے کی طرف اور ایک کو پیچھے کی طرف بٹھلایا۔

 

بیت اللہ شریف کو دیکھ کر ہاتھ نے اٹھانا

 

محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، ابو قزعۃ باہلی، مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا اگر کوئی شخص خانہ کعبہ کی طرف نظر کرے تو کیا وہ ہاتھ اٹھائے ؟ تو انہوں نے فرمایا میرے خیال میں یہودیوں کے علاوہ کوئی شخص اس طریقہ سے نہیں کرتا ہم نے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج ادا کیا ہے اور ہم نے ہاتھ نہیں اٹھائے۔

 

خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنا

 

عمرو بن علی، ابو عاصم، ابن جریج، عبید اللہ بن ابو یزید، عبدالرحمن بن طارق بن علقمہ اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت یعلی کے مکان کے نزدیک پہنچے تو قبلہ کی طرف رخ فرما کر دعا مانگتے۔

 

مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت

 

عمرو بن علی و محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، موسیٰ بن عبداللہ جہنی، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری مسجد (یعنی مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں نماز ادا کرنا دوسری مساجد کی ایک ہزار نماز کے برابر ہے علاوہ مسجد حرام کے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم و محمد بن رافع، اسحاق ، محمد، عبدالرزاق، ابن جریج، نافع، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری اس مسجد میں (یعنی مسجد نبوی میں ) نماز ادا کرنا (مسجد حرام کے علاوہ) دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازیں ادا کرنے سے زیادہ افضل ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، محمد، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابو سلمہ، الاغر، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن محمد بن ابو بکر صدیق، عبداللہ بن عمر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں نے جس وقت خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پایوں (یعنی عمارت کے پایوں سے ) کم پائے تیار کئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پایوں تک پہنچا دیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا کفر کا زمانہ (چھوڑے ہوئے زیادہ عرصہ) نہ ہوتا تو میں بنا دیتا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے تو یہی وجہ ہے کہ حجر اسود کے علاوہ دوسرے دو پتھروں کو بوسہ نہ دینے کی بھی وجہ ہے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی بنیادوں پر نہیں ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدۃ و ابو معاویہ، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہاری قوم کے کفر و شرک کا زمانہ نہ ہوتا (یعنی نزدیک میں کفر کا زمانہ نہ گزرتا) تو میں خانہ کعبہ کو توڑتا اور میں اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پائے پر (یعنی اس کے مطابق) بناتا اور میں اس میں پیچھے کی جانب ایک دروازہ رکھتا (سامنے کے ) دروازہ کے مقابل کیونکہ جس وقت قریش نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تو اس میں کمی چھوڑ دی۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود و محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، ابو اسحاق ، اسود، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میری اور تمہاری قوم کا زمانہ زمانہ جاہلیت سے نزدیک نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو گرا کر اس کی دوبارہ تعمیر کرتا اور پھر میں اس کے دو دروازے بناتا اس وجہ سے جس وقت حضرت عبداللہ بن عمر حاکم مقرر کیے گئے تو انہوں نے اس کے دو دروازے تیار کیے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام، یزید بن ہارون، جریر بن حازم، یزید بن رومان، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ صدیقہ! اگر تم لوگوں کی قوم کا زمانہ دور جاہلیت سے نزدیک نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو گرانے کا حکم دیتا اور میں اس میں دو وہ چیزیں داخل کرتا کہ جو اس میں سے نکال دی گئی ہیں اور میں اس کو زمین کے برابر کرتا پھر میں اس کے دو دروازے رکھتا ایک دروازہ مشرق کی طرف اور دوسرا دروازہ مغرب کی طرف۔ اس لیے کہ یہ لوگ اس کی تعمیر سے تھک چکے تھے میں اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی تعمیر تک تعمیر کراتا (راوی فرماتے ہیں ) یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کو مسمار کرا دیا مزید نقل کرتے ہیں جس وقت ابن زبیر نے اس کو منہدم کر کے تعمیر کرایا تو اس وقت میں موجود تھا انہوں نے حطیم کو بھی اس میں شامل کر دیا۔ نیز میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رکھے ہوئے پتھر بھی دیکھے۔ وہ اونٹ کے کوہان کی طرح تھے اور ملائم اور ایک دوسرے سے وابستہ تھے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، زیاد بن سعد، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خانہ کعبہ کو دو چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی برباد کرے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن عون، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیت اللہ شریف کے نزدیک پہنچا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، بلال اور اسامہ بن زید اندر داخل ہو چکے تھے اور حضرت عثمان بن طلحہ نے دروازہ بند کر لیا تھا پھر کافی وقت تک وہ حضرات اندر رہے پھر دروازہ کھولا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر کی طرف تشریف لائے تو میں سیڑھی پر چڑھ کر اندر کی طرف داخل ہو گیا اور دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کس جگہ ادا فرمائی؟ فرمانے لگے کہ یہاں لیکن یہ دریافت کرنا بھول گیا کہ کس قدر رکعت ادا کی؟

 

خانہ کعبہ میں داخلہ سے متعلق

 

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، ابن عون، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حضرت عثمان بن طلحہ اور حضرت اسامہ حضرت بلال تھے انہوں نے دروازہ بند کر لیا اور جس قدر دیر خداوند قدوس کو منظور تھا اندر رہنے کے بعد باہر کی طرف تشریف لائے پھر سب سے پہلے میں نے حضرت بلال سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کس جگہ ادا فرمائی ہے ؟ فرمایا کہ دو ستونوں کے درمیان۔

 

خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ

 

عمرو بن علی، یحیی، سائب بن عمر، ابن ابو ملیکۃ، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نکلنے کا وقت نزدیک پہنچا تو مجھ کو کچھ احساس ہوا (اجابت کی ضرورت ہوئی) تو دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر کی جانب تشریف لے آئے ہیں پھر میں نے حضرت بلال سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ میں نماز ادا فرمائی تھی؟ فرمایا جی ہاں ! دو ستونوں کے درمیان۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو نعیم، سیف بن سلیمان، مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے مکان میں تشریف لائے تو فرمایا دیکھ لو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ہیں میں نے آ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکل چکے تھے جب کہ بلال دروازہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے بلال سے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ میں نماز ادا فرمائی تھی فرمایا جی ہاں۔ میں نے دریافت کیا کس جگہ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دو ستونوں کے درمیان دو رکعت ادا کی ہیں۔ پھر باہر کی طرف نکل کر خانہ کعبہ کے سامنے دو رکعت ادا کی ہیں۔

 

 

٭٭ حاجب بن سلیمان، ابن ابو رواد، ابن جریج، عطاء، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے کونوں میں تسبیح اور تکبیر پڑھی۔ نماز نہیں پڑھی پھر باہر تشریف لائے اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت ادا کر کے ارشاد فرمایا یہ قبلہ ہے۔

 

حطیم سے متعلق حدیث

 

ہناد بن سری، ابن ابو زائدۃ، ابن ابو سلیمان، عطاء، ابن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر لوگ نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے اور میرے پاس دولت موجود ہوتی جو کہ مجھ کو اس کی تعمیر پر قوت پہنچاتی تو میں پانچ گز حطیم کعبہ میں داخل کر دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا ایک دروازہ داخل ہونے اور دوسرا دروازہ باہر کی طرف نکلنے کے واسطے۔

 

 

٭٭ احمد بن سعید رباطی، وہب بن جریر، قرۃ بن خالد، عبدالحمید بن جبیر، صفیہ بنت شیبہ ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں خانہ کعبہ میں داخل نہ ہو جاؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حطیم میں داخل ہو جاؤ کیونکہ وہ خانہ کعبہ ہی ہے۔

 

حطیم میں نماز ادا کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز بن محمد، علقمۃ بن ابو علقمۃ، امہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں یہ چاہتی تھی کہ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر اس میں نماز ادا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھ کو حطیم میں داخل کر کے فرمایا اگر تم خانہ کعبہ میں داخل ہونا چاہو تو یہاں پر نماز ادا کیا کرو۔ اس لیے کہ یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے لیکن تم لوگوں کی قوم نے اس کی تعمیر کرتے ہوئے اس کو مکمل نہیں کیا۔

 

خانہ کعبہ کے کونوں میں تکبیر کہنے سے متعلق

 

قتیبہ، حماد، عمرو، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیت اللہ شریف کے اندر نماز ادا نہیں فرمائی بلکہ اس کے کونوں میں تکبیر پڑھی۔

 

بیت اللہ شریف میں دعا اور ذکر

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال کو دروازہ بند کرنے کا حکم فرمایا ان دنوں خانہ کعبہ میں چھ ستون ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روانہ ہوئے اور دروازہ کے نزدیک کے دو ستون کے درمیان پہنچ کر بیٹھ گئے پھر خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی اور اس سے دعا مانگی اور توبہ کرنے کے بعد کھڑے ہو گئے پھر ہر ایک کونے کے بعد سامنے کی طرف جا کر تکبیر پڑھتے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھتے۔ خداوند قدوس کی تسبیح اور اس کی حمد بیان کرتے اور توبہ کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے دو رکعت نماز ادا کی پھر فراغت ہوئی تو فرمایا کہ یہ قبلہ ہے۔

 

خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ سینہ اور چہرہ لگانا

 

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، عبدالملک، عطاء، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ خانہ کعبہ میں داخل ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی پھر تکبیر اور تہلیل کہا اور خانہ کعبہ کے سامنے والی دیوار کی جانب تشریف لے گئے اور اپنا سینہ اپنے رخسار اور دونوں ہاتھ اس پر رکھ کر تکبیر و تہلیل کی اور دعا مانگی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام کونوں میں جا کر اس طریقہ سے کیا پھر باہر آ گئے اور دروازہ پر پہنچ کر قبلہ کی جانب رخ کر کے فرمایا کہ یہ قبلہ ہے یہ قبلہ ہے۔

 

خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے کی جگہ سے متعلق

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، عبدالملک، عطاء، اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے اور خانہ کعبہ کے سامنے دو رکعت ادا کرنے کے بعد فرمایا یہ قبلہ ہے۔

 

 

٭٭ ابو عاصم حشیش بن اصرم نسائی، عبدالرزاق، ابن جریج، عطاء، ابن عباس، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو چاروں کونوں میں دعا مانگی اور اس میں نماز ادا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب باہر تشریف لائے تو خانہ کعبہ کے سامنے دو رکعت ادا فرمائیں۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سائب بن عمر حضرت سائب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو لے کر حجر اسود کے بعد تیسرے ٹکڑے کے پاس دروازہ کے نزدیک آتے اور ان کو کھڑا کرتے چنانچہ انہوں نے فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جگہ نماز ادا فرماتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں۔ پھر وہ آگے کی جانب بڑھ کر نماز ادا فرماتے۔

 

خانہ کعبہ کے طواف کی فضیلت

 

ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب، قتیبہ، حماد، عطاء، عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمن! کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ آپ صرف ان دو پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی کو) چھوتے ہیں انہوں نے فرمایا جی ہاں کیونکہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ ان کو چھونے سے گناہ مٹ جاتے ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ سات چکر طواف کرنا ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

 

دوران طواف گفتگو کرنا

 

یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، سلیمان احول، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طواف فرما رہے تھے کہ ایک آدمی کو دوسرے شخص کی ناک میں نکیل ڈال کر کھینچتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو کاٹ دیا اور اس شخص کو حکم فرمایا کہ ہاتھ پکڑ کر لے جا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، سلیمان الاحول، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ دوسرے آدمی کو کسی چیز سے کھینچ رہا ہے (جس شئی سے اس نے کھینچ جانے کی منت مانی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو کاٹ کر فرمایا یہ بھی نذر ہے (مطلب یہ ہے کہ تمہاری نذر اس طریقہ سے بھی ادا ہو جائے گی)۔

 

دوران طواف گفتگو کرنا درست ہے

 

یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، حسن بن مسلم و حارث بن مسکین، ابن وہب، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس ایک ایسے آدمی سے نقل فرماتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خانہ کعبہ کا طواف نماز ہے تم لوگ اس میں کم گفتگو کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن سلیمان، شیبانی، حنظلۃ بن ابو سفیان، طاؤس، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ حالت طواف میں گفتگو کم کرو کیونکہ تم (طواف کرتے وقت) نماز میں ہو یعنی طواف بھی نماز ہے۔

 

طواف کعبہ ہر وقت صحیح ہے

 

عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، ابو زبیر، عبداللہ بن بابا، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بنو عبد مناف کسی بھی آدمی کو کسی بھی وقت میں اس مکان کا طواف کرنے یا یہاں پر نماز ادا کرنے سے منع نہ کرو چاہے دن ہو یا رات ہو۔

 

مریض شخص کے طواف کعبہ کرنے کا طریقہ

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، محمد بن عبدالرحمن بن نوفل، عرو ۃ، زینب بنت ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کی شکایت کی کہ میں مریض ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر تم طواف کرنا۔ چنانچہ میں نے طواف کیا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک نماز ادا کر رہے تھے اور اس میں سورہ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔

 

مردوں کا عورتوں کے ساتھ طواف کرنا

 

محمد بن آدم، عبدۃ، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اللہ عز و جل کی قسم میں نے طواف وداع نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس طریقہ سے کرنا کہ جس وقت جماعت کھڑی ہو تو اونٹ پر سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کر لینا۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، عبدالرحمن، مالک، ابو الاسود، عروۃ، زینب بنت ام سلمہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ مکہ مکرمہ تشریف لائیں تو بیمار تھیں چنانچہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نمازیوں کے پیچھے سے سوار ہو کر طواف کر لینا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خانہ کعبہ کے پاس سورہ طور تلاوت فرماتے ہوئے سنا۔

 

اونٹ پر سوار ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرنا

 

عمرو بن عثمان، شعیب، ابن اسحاق ، ہشام بن عروۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر خانہ کعبہ کا طواف اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود کو اپنی نوک دار چھڑی سے چھوتے۔

 

حج افراد کرنے والے شخص کا طواف کرنا

 

عبدۃ بن عبد اللہ، سوید، ابن عمرو کلبی، زہیر، بیان، وبرۃ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سے کسی شخص نے سوال کیا کہ کیا میں خانہ کعبہ کا طواف کر لوں میں نے حج کا احرام باندھا ہے انہوں نے دریافت فرمایا تم کو کسی شئی نے طواف کرنے سے منع کیا ہے ؟ عرض کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اس سے روکتے ہوئے سنا ہے لیکن آپ کی بات ہم لوگوں کے نزدیک زیادہ بہتر ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف حج کی نیت فرمائی اور خانہ کعبہ کا طواف بھی فرمایا اور سعی بھی فرمائی۔

 

جو کوئی عمرہ کا احرام باندھے اس کا طواف کر نا

 

محمد بن منصور، سفیان، عمرو سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ایک آدمی نے خانہ کعبہ کا طواف کیا ہے لیکن صفا مروہ میں نہیں دوڑا تو کیا ایسا شخص اپنی بیوی سے ہم بستری کرے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کے ساتھ طواف فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت ادا فرمائیں اور صفا اور مروہ پہاڑ کے درمیان میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوڑے اور تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تابعداری کرنا چاہیے۔

 

جو آدمی حج اور عمرہ ایک ہی احرام میں ساتھ ساتھ ادا کرنے کی نیت کرے اور ہدی ساتھ نہ لے جائے تو اس کو کیا کرنا چاہیے ؟

 

احمد بن الازمر، محمد بن عبداللہ انصاری، اشعث، حسن، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت روانہ ہوئے تو ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ تھے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو نماز ظہر ادا کی۔ پھر اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے۔ جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر مقام بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اور عمرہ کرنے کے واسطے لبیک پڑھا اس پر ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اسی طریقہ سے کیا لیکن جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور ہم نے طواف کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم فرمایا اس پر لوگ خوفزدہ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میرے پاس ہدی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ چنانچہ لوگوں نے احرام کھول دیا اور وہ اپنی بیویوں کے پاس نہیں گئے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو احرام کھولا اور نہ ہی دس تاریخ تک بال کم کرائے (یعنی حلق نہیں کرایا)۔

 

قران کرنے والے شخص کے طواف سے متعلق

 

محمد بن منصور، سفیان، ایوب بن موسی، نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حج قران میں ایک ہی طواف کیا اور فرمایا میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ علی بن میمون رقی، سفیان، ایوب سختیانی و ایوب بن موسیٰ و اسماعیل بن امیۃ و عبید اللہ بن عمر، نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جس وقت نکلے اور وہ مقام ذوالحلیفہ پہنچے تو انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر روانہ ہوئے کچھ دیر چلے تو ان کو اس بات کا خوف ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ ان کو خانہ کعبہ جانے سے منع کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ کہنے لگ گئے کہ اگر مجھ کو منع کر دیا گیا تو میں اسی طریقہ سے کروں گا کہ جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا پھر فرمانے لگے حج کا راستہ بھی وہی ہے جو کہ عمرہ کاہے اس وجہ سے میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج بھی اپنے ذمہ لازم کر لیا۔ پھر کچھ دیر تک آئے اور وہاں پر ایک جانور خریدا پھر مکہ مکرمہ تشریف لائے اور سات مرتبہ خانہ کعبہ کا طواف فرمایا اور صفا اور مروہ پہاڑ کے درمیان سعی فرمائی پھر فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، عبدالرحمن بن مہدی، ہانی بن ایوب، طاؤس، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہی طواف فرمایا۔

 

حجر اسود سے متعلق

 

ابراہیم بن یعقوب، موسیٰ بن داؤد، حماد بن سلمہ، عطاء بن سائب، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حجر اسود جنت کے پتھروں میں سے ہے۔

 

حجر اسود کو بوسہ دینا

 

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ابراہیم بن عبدالاعلی، سوید بن غفلۃ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو پلٹ گئے پھر فرمایا میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تم پر مہربانی فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس و جریر، اعمش، ابراہیم، عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ حجر اسود کی جانب تشریف لائے اور فرمایا میں اس سے واقف ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تم کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی کبھی تم کو بوسہ نہ دیتا۔ پھر اس کے نزدیک آئے اور اس کو بوسہ دیا۔

 

بوسہ کس طریقہ سے دینا چاہیے

 

عمرو بن عثمان، ولید، حنظلۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس کو دیکھا کہ وہ جس وقت حجر اسود کے سامنے سے گزرتے تو اگر وہاں پر ہجوم ہوتا تو گزر جاتے اور اگر خالی ہوتا (یعنی ہجوم نہ ہوتا) تو ٹھہر کر تین مرتبہ بوسہ دیتے پھر فرمایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے عمر کو اسی طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے فرمایا کہ تم ایک پتھر ہو نہ تو تم کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی نقصان اگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تم کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تم کو بوسہ نہ دیتا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

طواف شروع کرنے کا طریقہ اور حجر اسود کو بوسہ دینے کے بعد کس طریقہ سے چلنا چاہیے ؟

 

عبدالاعلی بن واصل بن عبدالاعلی، یحیی بن آدم، سفیان، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو مسجد حرام میں داخل ہوئے اور حجر اسود کو چھونے کے بعد دائیں طرف روانہ ہوئے پھر تین چکروں میں تیز تیز اور کندھے پھیلاتے ہوئے چلے پھر چار چکروں میں عام رفتار سے چلے پھر مقام ابراہیم پر تشریف لائے اور یہ آیت کریمہ پڑھی وہ آیت کریمہ یہ ہے پھر اسی طریقہ سے دو رکعت نماز ادا فرمائی کہ مقام ابراہیم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور خانہ کعبہ کے درمیان تھا پھر دو رکعات نماز ادا کر کے خانہ کعبہ کے پاس تشریف لائے اور حجر اسود کے بعد صفا (پہاڑ) کی جانب روانہ ہو گئے۔

 

کتنے طواف میں دوڑنا چاہیے

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ تین طواف میں تیز تیز چلتے تھے اور باقی چار چکر عام چال چلتے پھر فرماتے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طریقہ سے کرتے تھے۔

 

کتنے چکروں میں عادت کے مطابق چلنا چاہیے

 

قتیبہ، یعقوب، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت حج اور عمرہ کا طواف فرماتے تو تین چکروں میں تیز تیز چلتے تھے اور چار طواف میں حسب عادت چلتے تھے پھر دو رکعات نماز ادا فرماتے اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے۔

 

سات میں سے تین طواف میں دوڑ کر چلنے سے متعلق

 

احمد بن عمرو سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو طواف قدوم فرماتے وقت تین چکر تیز تیز چلتے اور چار چکر عادت کے مطابق چلتے پھر فرماتے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طریقہ سے فرماتے تھے۔

 

حج اور عمرے میں تیز تیز چلنا

 

محمد و عبدالرحمن، عبداللہ بن حکم، شعیب بن لیث، وہ اپنے والد سے ، کثیر بن فرقد، نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جس وقت عمرہ یا حج کرنے کے واسطے تشریف لاتے تو طواف قدوم فرماتے وقت تین چکر تیز تیز چلتے اور چار چکر عادت کے مطابق چلتے پھر فرماتے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طریقہ سے فرماتے تھے۔

 

حجر اسود سے حجر اسود تک تیز تیز چلنے سے متعلق

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین چکروں میں حجر اسود سے لے کر حجر اسود تک تیز تیز چلتے (یعنی رمل فرماتے )۔

 

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رمل کرنے کی وجہ

 

محمد بن سلیمان، حماد بن زید، ایوب، ابن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکین کہنے لگے کہ ان لوگوں کو بخار نے کمزور کر دیا ہے وہاں پر پہنچ کر انہوں نے تکلیف بھی اٹھائی ہیں یہ بات خداوند قدوس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام کو حکم فرمایا کہ رمل کرنا چاہیے اور ان دو ارکان یعنی رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال سے چلیں اس وقت مشرکین مکہ حطیم کی جانب تھے چنانچہ کہنے لگے یہ لوگ تو فلاں شخص سے بھی زیادہ قوت والے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، زبیر بن عدی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کو بوسہ دینے سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کو چومتے اور چھوتے ہوئے دیکھا ہے اس آدمی نے عرض کیا اگر وہاں پر لوگ زیادہ ہو جائیں اور میں مغلوب ہو جاؤں تو؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اپنے اگر مگر کو یمن ہی میں رکھو۔ میں تو فقط اس قدر جانتا ہوں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے اور ہاتھ سے چھوتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

رکن یمانی اور حجر اسود کو ہر ایک چکر میں چھونے کے بارے میں

 

محمد بن مثنی، یحیی، ابن ابو داؤد، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود اور رکن یمانی کو ہر ایک چکر میں چھوا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود و محمد بن مثنی، خالد، عبید اللہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوا کرتے تھے۔

 

حجر اسود اور رکن یمانی پر ہاتھ پھیرنے سے متعلق

 

قتیبہ، لیث، ابن شہاب، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خانہ کعبہ میں سے صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

دوسرے دو رکن کو نہ چھونے سے متعلق

 

محمد بن العلاء، ابن ادریس، عبید اللہ بن ابن جریج و مالک، مقبری، عبید بن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہوئے دیکھا ہے انہوں نے فرمایا اس لیے کہ میں نے بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان دو رکن کے علاوہ کسی رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو و الحارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کے دو رکن کے علاوہ کسی رکن کو نہیں چھوا۔ ایک حجر اسود اور دوسرا اس کے ساتھ والا جو کہ جمحی لوگوں کے محلہ کی جانب ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رکن یمانی اور حجر اسود کو چھوتے ہوئے دیکھا ہے جب سے میں نے کبھی ان کو چھونا نہیں چھوڑا۔ چاہے آسان ہو یا دشواری کے ساتھ چھونا پڑے۔

 

 

٭٭ عمران بن موسی، عبدالوارث، ایوب، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت سے میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا تو اس وقت سے میں نے بھی کبھی اس کو چھونا نہیں چھوڑا۔

 

لاٹھی سے حجر اسود کو چھونا

 

یونس بن عبدالاعلی و سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر خانہ کعبہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود کو اپنی لاٹھی سے چھوتے تھے۔

 

حجر اسود کی جانب اشارہ کرنا

 

بشر بن ہلال، عبدالوارث، خالد، عکرمۃ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خانہ کعبہ کا طواف اونٹ پر سوار ہو کر فرمایا کرتے تھے اور حجر اسود کے نزدیک پہنچاکرتے تو اس کی جانب اشارہ فرماتے۔

 

آیت کریمہ کا شان نزول

 

محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، سلمہ، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کیا کرتی تھی اور شعر پڑھا کرتی تھی جس کا ترجمہ یہ ہے آج کا پورا یا دوسروں کا بعض حصہ ظاہر ہے اور جس قدر حصہ ظاہر ہے جس کسی نے اس کو دیکھا میں اس کو معاف نہیں کروں گی کہ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی اے انسانو! ہر ایک مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، یعقوب، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حجۃ الوداع سے پہلے والے سال جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر کو امیر حج بنا کر بھیجا تو انہوں نے مجھ کو کچھ آدمیوں کے ساتھ لوگوں میں یہ اعلان کرنے کے واسطے روانہ فرمایا کہ اس سال کے بعد نہ تو کوئی مشرک حج ادا کرے اور نہ ہی وہ خانہ کعبہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد و عثمان بن عمر، شعبۃ، مغیرۃ، شعبی، محرر بن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورہ برات مکہ مکرمہ والوں کو سنانے کے واسطے روانہ کیا تو میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ راوی کہتے ہیں میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح سے اعلان کرتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ اعلان کرتے تھے کہ جنت میں صرف اہل ایمان داخل ہوں گے اور کوئی شخص خانہ کعبہ کا ننگا ہو کر طواف نہ کرے پھر جس آدمی کا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ کوئی معاملہ ہے تو اس کی مدت چار مہینہ تک ہے جس وقت چار مہینے مکمل ہو جائیں گے تو خداوند قدوس اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے بری ہیں۔ نیز اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس قدر اعلان کیا کہ میری آواز بیٹھ گئی۔

 

طواف کی دو رکعات کس جگہ پڑھنی چاہئیں ؟

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن جریج، کثیر بن کثیر، وہ اپنے والد سے ، مطلب بن ابی وداعۃ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سات چکروں سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مطاف کے کنارہ پر تشریف لائے اور دو رکعات نماز ادا فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی شئی حائل نہ تھی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عمرو، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف سات چکر لگا کر طواف فرمایا پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعات نماز ادا فرمائی پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی اور ارشاد فرمایا تمہارے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی عمدہ اور اعلی نمونہ ہے۔

 

طواف کی دو رکعات کے بعد کیا پڑھنا چاہیے ؟

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، ابن ہاد، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کے چاروں جانب سات چکر لگا کر طواف فرمایا ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین میں رمل فرمایا اور چار میں عادت کے مطابق چلے پھر مقام ابراہیم کے نزدیک کھڑے ہو کر دو رکعات ادا فرمائیں اور یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی آخر تک۔ یہ آیت کریمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس قدر آواز سے تلاوت فرمائی کہ لوگوں نے سنی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود کے نزدیک تشریف لے گئے اور اس کو چھوا۔ پھر یہ کہتے ہوئے روانہ ہو گئے کہ ہم بھی اس جگہ سے شروع کرتے ہیں کہ جس جگہ سے خداوند قدوس نے شروع فرمایا ہے چنانچہ صفا (پہاڑ) سے شروع فرمایا اور اس پر چڑھ گئے یہاں تک کہ وہاں خانہ کعبہ نظر آنے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ اس طریقہ سے تلاوت فرمایا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ سے قدیر تک۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ اکبر فرمایا اور خداوند قدوس کی تعریف بیان کرنے کے بعد جو مقدر ہوا خداوند قدوس سے مانگا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چلتے ہوئے نیچے کی طرف تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک نالے کے درمیان (نیچے ) کی جانب پہنچ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک بلندی تک پہنچ گئے پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مروہ پہاڑ تک آہستہ چلے اور اس پر چڑھ گئے۔ یہاں تک کہ خانہ کعبہ دکھلائی دینے لگا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ یہ دعا پڑھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ سے قدیر تک۔ پھر خداوند قدوس کا ذکر اس کو تسبیح اور حمد بیان فرمائی پھر جس طریقہ سے خداوند قدوس کو منظور ہوا دعا مانگی اور فراغت کے بعد تک اسی طریقہ سے عمل فرمایا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف میں سات چکر لگائے تین رمل فرمایا اور چار میں عادت کے مطابق چلے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی پھر اس طرح سے دو رکعات تلاوت فرمائیں کہ مقام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خانہ کعبہ کے درمیان تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کو چھوا اور وہاں سے یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے گزرے۔ صفا اور مروہ خداوند قدوس کی نشانیوں میں سے ہیں پھر فرمایا تم لوگ اس جگہ سے شروع کرو کہ جس جگہ سے خداوند قدوس نے شروع فرمایا ہے۔

 

طواف کی دو رکعتوں میں کونسی سورتیں پڑھی جائیں

 

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ولید، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مقام ابراہیم کے پاس پہنچے تو یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی پھر دو رکعت ادا کی اور ان میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ کافرون اور سورہ اخلاص تلاوت فرمائی پھر حجر اسود کی جانب تشریف لے گئے اور اس کو بوسہ دیا پھر صفا روانہ ہو گئے۔

 

آب زمزم پینے سے متعلق

 

زیاد بن ایوب، ہشیم، عاصم و مغیرۃ، یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، عاصم، شعبی، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آب زمزم کھڑے ہو کر پیا۔

 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آب زمزم کھڑے ہو کر پینا

 

علی بن حجر، عبداللہ بن مبارک، عاصم، شعبی، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آب زمزم پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیا۔

 

صفا کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسی دروازے سے جانا جس سے جانے کے لیے نکلا جاتا ہے

 

محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عمرو بن دینار، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف سات چکر لگا کر طواف فرمایا پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعات ادا فرمائیں۔ پھر صفا پہاڑ تشریف لے جانے کے واسطے صفا اور مروہ کے درمیان سعی فرمائی۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہی سنت ہے۔

 

صفا اور مروہ کے بارے میں

 

محمد بن منصور، سفیان، زہری، عروۃ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی آخر تک یعنی صفا اور مروہ خداوند قدوس کی نشانیاں ہیں اس وجہ سے جو شخص خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر ان دونوں کے درمیان طواف کر نے کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے اور عرض کیا ان دونوں کے درمیان پھرنا لازم نہیں سمجھنا۔ اس لیے کہ اس جگہ اس کو لازم نہیں کیا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ تم نے کس قدر غلط بات کی ہے لوگ دور جاہلیت میں ان کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے لیکن اسلام جس وقت آیا اور قرآن کریم نازل ہوا تو یہ آیت کریمہ بھی نازل ہوئی اس کے بعد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کے درمیان طواف کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ساتھ اسی طریقہ سے کیا چنانچہ یہ مسنون ہو گیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، وہ اپنے والد سے ، شعیب، زہری، عرو ۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کریمہ کی تفسیر دریافت کی اور عرض کیا خداوند قدوس کی قسم اس سے تو یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو شخص ان کا طواف نہ کرے تو اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے وہ فرمانے لگیں کہ تم نے کس قدر غلط بات کی ہے۔ اے میری بہن کے صاحبزادے ! اگر اس سے یہی مراد ہوتی جو کہ تم نے سمجھی ہے تو یہ اس طریقہ سے نازل ہوتی لیکن اس طریقہ سے نہیں ہے بلکہ یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ اس لیے کہ وہ لوگ مسلمان ہونے سے قبل منات بت کے واسطے احرام باندھا کرتے تھے جس کی وہ مقام مثل پر عبادت کیا کرتے تھے اور جو مناۃ کے واسطے احرام باندھا وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا برا سمجھتا تھا۔ چنانچہ جس وقت انہوں نے اس کے متعلق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی صفا اور مروہ کا طواف مسنون قرار دیا ہے اس وجہ سے کسی آدمی کے واسطے اس کو چھوڑنا درست نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، عبدالرحمن بن قاسم، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد سے نکل کر صفا کی جانب جاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم بھی اسی جگہ سے شروع کرتے ہیں کہ جس جگہ سے خداوند قدوس نے کی ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا پہاڑ کی جانب تشریف لے گئے تو فرمایا ہم لوگ بھی اسی جگہ سے شروع کرتے ہیں جس جگہ سے خداوند قدوس نے ابتداء فرمائی ہے اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی۔

 

صفا پہاڑ پر کس جگہ کھڑا ہونا چاہیے ؟

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا پہاڑ پر چڑھے یہاں تک کہ جس وقت خانہ کعبہ دکھلائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ٹھہر کر) تکبیر پڑھی۔

 

صفا پر تکبیر کہنا

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت صفا پہاڑ پر کھڑے ہوتے تو تین مرتبہ پڑھنے کے بعد اس طریقہ سے فرماتے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ۔ پھر دعا مانگتے اور مروہ پر اسی طریقہ سے کرتے۔

 

صفا پر لا الہ الا اللہ کہنا

 

عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، جعفر بن محمد، جابر، فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صفا اور مروہ پر کھڑے ہو کر لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ ارشاد فرمایا اور دعا مانگی۔

 

صفا پر ذکر کرنا اور دعا مانگنا

 

محمد بن عبداللہ بن الحکم، شعیب، لیث، ابن الہاد، جعفر بن محمد، ابیہ، جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

صفا اور مروہ کی سعی اونٹ پر سوار ہو کر کرنا

 

عمران بن یزید، شعیب، ابن جریج، ابو زبیر، جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں طواف خانہ کعبہ اور صفا اور مروہ کی سعی اونٹ پر سوار ہو کر کی تاکہ لوگ دیکھ سکیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی نگرانی کر سکیں نیز اس واسطے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاروں جانب جمع ہو گئے تھے۔

 

صفا اور مروہ کے درمیان چلنا

 

محمود بن غیلان، بشر بن سری، سفیان، عطاء بن سائب، کثیر بن جمہان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو صفا اور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا انہوں نے فرمایا کہ اگر میں چلوں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی چلا کرتے تھے اور اگر دوڑوں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی دوڑا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، الثوری، عبدالکریم، سعید بن جبیر، ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ حدیث بھی سابقہ حدیث کے مطابق ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ میں ضعیف العمر ہو گیا ہوں۔

 

صفا اور مروہ کے درمیان رمل

 

محمد بن منصور، سفیان، صدقۃبن یسار، زہری فرماتے ہیں کہ لوگوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صفا اور مروہ کے درمیان رمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ فرمانے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کے درمیان تھے چنانچہ لوگوں نے رمل کیا اور میری رائے ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر ہی اس طریقہ سے کیا ہو گا۔

 

صفا اور مروہ کی سعی کرنا

 

ابو عمار حسین بن حریث، سفیان، عمرو، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا اور مروہ کے درمیان دوڑے تاکہ کفار اور مشرکین کو دکھلا سکیں کہ ہم قوت والے ہیں۔

 

وادی کے درمیان دوڑنا

 

قتیبہ، حماد، بدیل، مغیرۃ بن حکیم، صفیہ بنت شیبہ ایک خاتون سے نقل فرماتی ہیں کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وادی کے درمیان (نچلی جگہ) دوڑتے ہوئے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہاں سے دوڑ کر ہی گزرنا چاہیے۔

 

عادت کے موافق چلنے کی جگہ

 

محمد بن سلمہ وحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا پہاڑ سے نیچے کی طرف تشریف لاتے تو عادت کے موافق چلتے تھے لیکن جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک وادی کے درمیان پہنچتے تو دوڑنے لگتے۔ یہاں تک کہ اس سے نکل جاتے۔

 

رمل کس جگہ کرنا چاہیے ؟

 

محمد بن مثنی، سفیان، جعفر، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت کوہ صفا سے اترتے تو عادت کے موافق چلتے لیکن جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم وادی کے درمیان پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمل فرمایا یہاں تک کہ اس سے باہر نکل گئے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت صفا سے نیچے کی طرف اترتے تو عادت کے موافق چلتے۔ لیکن جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک وادی کے درمیان پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمل فرمایا۔ پھر جس وقت صفا پر چڑھنے لگ گئے تو دوسری مرتبہ عادت کے موافق چلنے لگے۔

 

مروہ پہاڑ پر کھڑے ہونے کی جگہ

 

؂محمد بن عبداللہ بن حکم، شعیب، لیث، ابن ہاد، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ صفا کی جانب تشریف لائے تو اس پر چڑھنے لگے پھر جس وقت خانہ کعبہ نظر آنے لگا تو تین مرتبہ اس طریقہ سے کہا لا الہ الا اللہ سے لے کر قدیر تک۔ پھرذکر خداوندی کا تذکرہ کیا اس کی تسبیح اور حمد بیان فرمائی اور اس کے بعد جس طریقہ سے خداوند قدوس کو منظور ہوا دعا فرمائی اور فراغت تک اسی طریقہ سے کیا۔

 

مروہ پہاڑ پر کس جگہ کھڑا ہو؟

 

علی بن حجر، اسماعیل، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا پہاڑ کی جانب تشریف لے گئے تو اس پر چڑھ گئے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خانہ کعبہ نظر آنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر تکبیر پڑھی اور اس کے ایک اور وحدہ لا شریک ہونے کا اقرار کیا پھر اس طریقہ سے پڑھا لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ سے لے کر قدیر تک۔ پھر عادت کے موافق چلتے ہوئے وادی کے درمیان پہنچ گئے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک وہاں پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوڑنے لگ گئے۔ یہاں تک کہ قدم مبارک اوپر چڑھنے لگے۔ یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عادت کے مطابق چلتے ہوئے مروہ پہاڑ تک تشریف لائے اور یہاں پر بھی اسی طریقہ سے کیا کہ جس طریقہ سے صفا پہاڑ پر کیا تھا یہاں تک فراغت ہو گئی۔

 

قران اور تمتع کرنے والا شخص کتنی مرتبہ سعی کرے ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام نے صفا اور مروہ پہاڑ کے درمیان صرف ایک مرتبہ سعی فرمائی (یعنی سات چکر لگائے )۔

 

عمرہ کرنے والا شخص کس جگہ بال چھوٹے کرائے ؟

 

محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، ابن عباس، معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال(مبارک) مروہ (نامی جگہ) تیر کے پیکان سے کم کیے (یعنی تیر کے آگے کے حصہ سے )

 

 

٭٭ محمد بن یحیی بن عبد اللہ، عبدالرزاق، معمر، ابن طاؤس، وہ اپنے والد سے ، ابن عباس، معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مروہ پہاڑ پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بال مبارک ایک دیہاتی شخص کے تیر کی پیکان سے کم کیے (یعنی تیر کے اگلے حصہ سے )

 

بال کس طرح کترے جائیں ؟

 

محمد بن منصور، حسن بن موسی، حماد بن سلمہ، قیس بن سعد، عطاء، معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بالوں کو کنارہ سے پکڑا اور میں نے ان کو تیر کی پیکان سے کاٹ ڈالا جو کہ اس وقت میرے پاس تھا جب سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کعبہ اور صفا اور مروہ کا طواف کیا تھا (یعنی ماہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں ) لیکن حضرت قیس فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے انکار کرتے ہیں۔

 

جو شخص حج کی نیت کرے اور ہدی ساتھ لے جائے

 

محمد بن رافع، یحیی، ابن آدم، سفیان، ابن عیینہ، عبدالرحمن بن قاسم، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے ارادہ سے چلے۔ جس وقت بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے ساتھ ہدی لایا ہو وہ حالت احرام میں رہے اور جو اپنے ساتھ ہدی نہیں لایا وہ اپنا احرام کھول دے۔

 

جو شخص عمرہ کی نیت کرے اور ہدی ساتھ لے جائے

 

محمد بن حاتم، سوید، عبد اللہ، یونس، ابن شہاب، عروۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ روانہ ہوئے۔ تو بعض لوگوں نے حج کا احرام باندھ لیا تھا اور بعض نے عمرہ کیا اور ان کے ساتھ ہدی بھی تھی۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کسی نے عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو وہ ساتھ میں ہدی لے کر نہیں آیا تو وہ احرام کھول دے اور جس نے عمرہ کرنے کا احرام باندھا ہے اور وہ ساتھ میں ہدی بھی لے کر آیا ہے تو وہ احرام نہ کھولے اور جس کسی نے حج کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھی تو وہ حج مکمل کر لے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں بھی ان ہی میں سے تھی کہ جنہوں نے عمرہ کرنے کی نیت کی تھی۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو ہشام، وہیب بن خالد، منصور بن عبدالرحمن، امہ، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے واسطے تلبیہ پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے ہم جب مکہ مکرمہ کے پاس پہنچ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی اپنے ساتھ ہدی نہ لے کر آیا ہو تو وہ شخص احرام کھول دے اور جس کے ساتھ ہدی ہو تو وہ شخص احرام کی ہی حالت میں رہے حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ حضرت زبیر کے ساتھ چونکہ ہدی تھی اس وجہ سے وہ بھی احرام ہی میں تھے اور لیکن میں ان میں سے تھی جن کے پاس ہدی نہیں تھی۔ اس وجہ سے میں نے احرام کھول کر کپڑے پہن لیے اور خوشبو لگا لی اور حضرت زبیر (اپنے خاوند) کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ کہنے لگے مجھ سے دور رہو میں نے عرض کیا کیوں ؟ کیا آپ کو اس کا اندیشہ ہے کہ میں آپ پر کود پڑوں۔ (یعنی ہم بستر نہ ہو جاؤں )۔

 

یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے خطبہ دینا

 

اسحاق بن ابراہیم، علی بن قرۃ موسیٰ بن طارق، ابن جریج، عبداللہ بن عثمان بن خثیم، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت جعرانہ والے عمرہ سے تشریف لائے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا ہم لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ چل دئیے۔ جس وقت ہم لوگ عرج نامی جگہ پر پہنچے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (فجر سے قبل کی) دو سنتیں ادا فرمائیں اور نماز کی تکبیر پڑھنے کے واسطے کھڑے ہوئے تو پیچھے سے اونٹ کی آواز سنی۔ یہ سن کر وہ لوگ اس جگہ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ یہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (مبارک) اونٹنی جدعاء (نام اونٹنی کا) کی آواز ہے یہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی حج کے واسطے تشریف لانے کا ارادہ فرما لیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ہوں اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہی نماز ادا کریں اس دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم امیر بن کر آئے ہو یا کوئی پیغام بھی لائے ہو۔ وہ فرمانے لگے پیغام لے کر حاضر ہوا ہوں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو حج کے اجتماع میں سورہ برات کی تلاوت کرنے کے واسطے روانہ فرمایا ہے چنانچہ جس وقت ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو ترویہ کے دن (یعنی ذی الحجہ) سے ایک دن قبل حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کیا اور ان کو مناسک حج بتلائے جس وقت وہ فارغ ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور سورہ برات کے شروع سے لے کر آخر تک تلاوت فرمائی اس کے بعد ہم لوگ ان کے ساتھ آئے یہاں تک کہ عرفات والے دن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر خطاب کیا اور لوگوں کو حج کے ارکان سکھلائے جب فارغ ہو گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سورہ برات کی تلاوت کی اور اس کو مکمل فرمایا پھر قربانی کے دن جس وقت ہم لوگ طواف زیارت کر کے واپس آئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پھر خطبہ پڑھا اور لوگوں کو طواف زیارت قربانی اور مناسک حج بتلائے کہ جس وقت فراغت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر سورہ برات تلاوت فرمائی پھر جس روز واپس جانے کا دن تھا اس روز بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خطاب کیا اور واپس آنے کا طریقہ اور حج کے مناسک بیان کیے جس وقت فراغت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر سورت برات تلاوت فرمائی اور اس کو ختم فرمایا۔

 

تمتع کرنے والا کب حج کا احرام باندھے ؟

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، عبدالملک، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ماہ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو (مکہ پہنچے ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس حج کو عمرہ میں تبدیل کر کے عمرہ کرو اور احرام کھول ڈالو۔ یہ بات ہم لوگوں پر گراں گزری اور ہم لوگوں نے تنگی محسوس کی۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! تم لوگ احرام کھول ڈالو اس لیے کہ اگر میرے ہمراہ بھی یہ ہدی نہ ہوں تو میں بھی تم لوگوں کی طرح ہی کرتا۔ اس بات پر ہم لوگ حلال ہو گئے۔ یہاں تک کہ اپنی بیویوں سے صحبت کی اور ہر ایک وہ کام بھی کیا جو کہ کوئی حلال شخص کرتا ہے پھر ترویہ کے دن (آٹھ ذی الحجہ کو) مکہ سے روانہ ہوئے اور حج کرنے کے واسطے تلبیہ پڑھا۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، محمد بن عمرو بن حلحلۃ، محمد بن عمران انصاری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے ٹھہر گیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے میری جانب رخ فرمایا اور دریافت فرمایا کہ تم اس درخت کے نیچے کس وجہ سے ٹھہرے ہوئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس کے سایہ کی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم ان دو پہاڑوں کے درمیان ہو پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی جانب اشارہ کیا تو وہاں پر ایک وادی ہے جس کا نام سریہ ہے وہاں پر ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر حضرات انبیاء علیہ السلام کی آنول کاٹی گئی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم بن نعیم، سوید، عبد اللہ، عبدالوارث، حمید اعرج، محمد بن ابراہیم تیمی، رجل، عبدالرحمن بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منی میں خطبہ دیا تو خداوند قدوس نے ہمارے کان کھول دئیے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو فرما رہے تھے وہ ہم لوگ سن رہے تھے اپنے ٹھکانوں سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو بتلانا شروع فرمایا یعنی حج کے طریقے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان لوگوں کے حجروں کے پاس تشریف لے گئے تو چھوٹی چھوٹی کنکری ماری اور انگلیوں سے کنکریاں ماریں اور مہاجرین کو مسجد میں اترنے اور انصار کو نیچے اترنے کا حکم فرمایا۔

 

آٹھویں تاریخ کو امام نماز ظہر کس جگہ پڑھے ؟

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم و عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق الازرق، سفیان ثوری، عبدالعزیز بن رفیع سے روایت ہے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر کس جگہ ادا کی؟ یعنی 8 ویں تاریخ میں تو اس پر انہوں نے فرمایا کہ مقام منی میں۔ میں نے عرض کیا کوچ کرتے یعنی روانہ ہونے والے دن نماز عصر کس جگہ ادا کی؟ تو انہوں نے فرمایا مقام ابطح میں (یعنی محصب میں جو کہ مکہ سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے )۔

 

منی سے عرفات جانا

 

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، یحیی بن سعید انصاری، عبداللہ بن ابو سلمہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ منی سے روانہ ہوئے تو ہمارے میں سے کوئی شخص عرفہ کو جانے کے لیے روانہ ہوا اور ہمارے میں سے کوئی شخص تکبیر کہتا اور کوئی لبیک پڑھتا۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، یحیی، عبداللہ بن ابو سلمہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابق حدیث کے مطابق ہے۔

 

عرفات روانہ ہوتے وقت تکبیر پڑھنا

 

اسحاق بن ابراہیم، ملانی، ابو نعیم فضل بن دکین، مالک، محمد بن ابو بکر ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اور ہم دونوں روانہ ہو کر مقام عرفات سے مقام منی کی جانب چلے جا رہے تھے۔ تم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آج لبیک میں کیا کہا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کوئی شخص لبیک پڑھتا تو اس کو برا نہیں خیال کرتے تھے اور جو تکبیر پڑھتا تو برا نہیں خیال کرتے تھے (اس لیے کہ اصل مقصد ذکر خداوندی ہے )۔

 

منیٰ سے عرفات روانہ ہونے کے وقت تلبیہ پڑھنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن رجاء، موسیٰ بن عقبہ، محمد بن ابی بکر ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرفہ کے دن حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کس طریقہ سے تلبیہ پڑھیں گے ؟ تو انہوں نے فرمایا میں نے یہ سفر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرات صحابہ کرام کے ساتھ بھی کیا ہے چنانچہ ان میں سے کوئی شخص لبیک کہتا اور کوئی شخص تکبیر کہتا اور کوئی ایک دوسرے پر اعتراض نے کرتا۔

 

عرفات کے دن سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس، وہ اپنے والد سے ، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اگر یہ آیت کریمہ آخر تک۔ ہم لوگوں پر نازل ہوتی تو ہم لوگ اس دن کو عید کا دن مقرر کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بہت اچھی طرح سے وقف ہوں کہ یہ آیت کس روز نازل ہوئی ہے۔ وہ جمعہ کی رات تھی اور ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ عرفات میں تھے۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن ابراہیم، ابن وہب، مخرمۃ، وہ اپنے والد سے ، یونس، ابن مسیب، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس عرفہ کے دن سے زیادہ غلام اور باندیاں کسی روز دوزخ سے آزاد نہیں کرتے اس روز پروردگار اپنے بندوں سے نزدیک ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر ناز کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔

 

یوم عرفہ کو روزہ رکھنے کی ممانعت

 

عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، عبد اللہ، ابن یزید مقری، موسیٰ بن علی، ابیہ، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عرفہ کا دن یوم النحر اور ایام تشریق ہم مسلمانوں کے واسطے عید اور کھانے پینے کا دن ہے۔

 

عرفہ کے دن مقام عرفات میں جلدی پہنچنا

 

یونس بن عبدالاعلی، اشہب، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ احکام حج میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف نہ کرنا چنانچہ عرفہ کے دن دوپہر کے زوال کے بعد ہی حضرت ابن عمر اس کے پاس تشریف لائے میں بھی ان کے ساتھ تھا اور ان کے پردہ کے پاس آ کر فرمایا یہ کس کی جگہ ہے ؟ اس بات پر وہ حجاج باہر آیا اور ایک زرد رنگ کی اس نے چادر لپیٹ رکھی تھی۔ اس نے عرض کیا اے ابو عبد الرحمن! کیا ہو گیا ہے ؟ کہنے لگے اگر تم سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو تم چل دو۔ اس نے کہا ابھی سے ہی؟ تو انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ اس نے عرض کیا کہ میں اپنے اوپر پانی ڈال کر واپس آتا ہوں چنانچہ انہوں نے اس کا انتظار کیا یہاں تک کہ وہ باہر آ گئے اور میرے اور میرے والد حضرت ابن عمر کے درمیان چلنے لگ گئے میں نے کہا کہ اگر تم نیک عمل کرنا چاہتے ہو تو تم خطبہ مختصر دینا اور عرفات کے قیام میں جلدی کرنا۔ اس بات پر وہ ابن عمر کی طرف دیکھنے لگا۔ جس وقت انہوں نے اس کی جانب دیکھا تو فرمایا یہ شخص سچ کہہ رہا ہے

 

عرفات میں لبیک کہنا

 

احمد بن عثمان بن حکیم الاودی، خالد بن مخلد، علی بن صالح، میسرۃ بن حبیب، منہال بن عمرو، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مقام عرفات میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے مجھ سے فرمایا کیا معاملہ ہے کہ لوگ لبیک نہیں پڑھ رہے ہیں ؟ میں نے کہا کہ لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خوف کرتے ہیں۔ اس بات پر وہ اپنے رہنے کی جگہ سے باہر آئے اور لبیک آخر تک پڑھا پھر ارشاد فرمایا ان حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دشمنی میں اس سنت کو چھوڑ دیا ہے۔

 

عرفات میں نماز سے پہلے خطبہ دینا

 

عمرو بن علی، یحیی، سفیان، سلمہ بن نبیط اپنے والد ماجد سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مقام عرفات میں نماز سے قبل ایک لال رنگ کے اونٹ پر خطبہ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

عرفہ کے دن اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھنا

 

محمد بن آدم، ابن المبارک، سلمہ بن نبیط، ابیہ، اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

عرفات میں مختصر خطبہ پڑھنا

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، مالک، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ عرفات کے روز سورج کے زوال کے بعد حجاج بن یوسف کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ اگر تم سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو چل دو۔ اس نے کہا ابھی؟ تو فرمایا جی ہاں۔ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ پھر میں نے حجاج سے کہا کہ اگر تم آج کے دن سنت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو تم خطبہ مختصر پڑھنا اور تم نماز جلدی پڑھنا۔ اس بات پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔

 

عرفات میں نماز ظہر اور نماز عصر ساتھ پڑھنا

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ سلیمان، عمارۃ بن عمیر، عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ ہمیشہ نماز وقت پر ادا کرتے تھے۔

 

مقام عرفات میں دعا مانگتے وقت ہاتھ اٹھانا

 

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، عبدالملک، عطاء، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مقام عرفات میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سو رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا مانگتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا لیے۔ اس دوران اونٹنی نے رخ موڑا تو اس کی نکیل پکڑی اور دوسرا ہاتھ اسی طریقہ سے اٹھاتے رہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، ہشام، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش کے لوگوں کو حمس کہا جاتا ہے مزدلفہ میں وہ لوگ قیام کرتے اور باقی عرب کے حضرات مقام عرفات میں چنانچہ خداوند قدوس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں قیام کریں اور وہیں سے واپس آئیں اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی وہاں ہی سے واپس ہوا کرو کہ جس جگہ سے لوگ واپس ہوتے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، سفیان، عمرو بن دینار، محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مقام عرفات میں میرا اونٹ گم ہو گیا تو میں اس کو تلاش کرنے کے واسطے عرفات کے پہاڑ پر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس جگہ دیکھا میں نے عرض کیا یہ کیا ہوا یہ تو قریش ہیں یہ اس جگہ کس وجہ سے آئے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عمرو بن دینار، عمرو بن عبداللہ بن صفوان، یزید بن شیبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم لوگ مقام عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ سے فاصلہ پر رکے تو حضرت ابن ربع انصاری رضی اللہ عہ ہم لوگوں کے پاس آئے اور بیان کیا کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تم لوگ اپنے مقرر کیے ہوئے ٹھکانوں پر موجود رہو اس لیے کہ تم لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہو۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد اپنے والد ماجد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حجۃ الوداع کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے نقل کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (مقام) عرفات پورا کا پورا قیام کرنے کی جگہ ہے۔

 

عرفات میں ٹھہر نے کی فضیلت

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سفیان، بکیر بن عطاءل عبدالرحمن بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا کہ کچھ آدمی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حج کے بارے میں دریافت کرنے کے واسطے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ حج عرفات میں قیام کرنے کا نام ہے اس وجہ سے جو شخص مزدلفہ والی رات میں فجر کے طلوع سے قبل (مقام) عرفات پہنچ گیا تو اس کا حج ہو گیا۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، ابن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفات سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ سر سے نیچے تک دعا کرنے کے واسطے اٹھے ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام مزدلفہ تک اسی حالت میں چلتے رہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یونس بن محمد، وہ اپنے والد سے ، حماد، قیس بن سعد، عطاء، ابن عباس، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام عرفات سے واپس ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو آہستہ چلانے کے واسطے اس کی نکیل کھینچ دی تو اس کے کانوں کی جڑیں پالان کے آگے کے حصہ کے نزدیک ہو گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے اے لوگو! تم لوگ وقار (اور آہستہ) اطمینان و سکون کے ساتھ چلو اس لیے کہ اونٹ کو دوڑانا اور بھگانا کوئی نیک کام نہیں۔

 

عرفات سے لوٹتے وقت اطمینان و سکون کے ساتھ چلنے کا حکم

 

محمد بن علی بن حرب، محرز بن وضاح، اسماعیل، ابن امیۃ، ابو غطفان بن طریف، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مقام عرفات سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹنی کی نکیل اس قدر کھینچ دی کہ اونٹنی کا سر پالان کی لکڑی کو چھونے لگ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے فرما رہے تھے کہ اے لوگو! تم لوگ عرفہ کی شام کو اطمینان کے ساتھ چلو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، ابو زبیر، ابو معبد، ابن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفہ کے دن شام کے وقت اور مزدلفہ کی صبح جس وقت لوگ روانہ ہونے لگ گئے تو فرمایا تم لوگ سکون اور وقار اختیار کرو پھر جس وقت مقام محسر میں پہنچ گئے جو کہ منی میں واقع ہے تو اونٹنی کو روک لیا گیا اور فرمایا اس جگہ سے رمی کے واسطے چھوٹی چھوٹی کنکریاں لے لو پھر جمرہ عقبہ (بڑے شیطان) کو کنکریاں مارنے تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لبیک پڑھتے رہے

 

 

٭٭ محمد بن منصور، ابو نعیم، سفیان، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت عرفات سے واپس ہوئے تو اطمینان اور سکون کے ساتھ واپس ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو بھی اسی طریقہ سے روانہ ہونے کا حکم فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادیِ محسر میں تیزی سے نکلے اور پھر لوگوں کو جمرہ عقبیٰ کو چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارنے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ایوب، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مقام عرفات سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے اے خدا کے بندو تم لوگ وقار سکون و اطمینان کے ساتھ چلو پھر (حدیث کے راوی) حضرت ایوب رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی سے آسمان کی جانب اشارہ فرمایا۔

 

عرفات سے روانگی کا راستہ

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ہشام، وہ اپنے والد سے ، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ کے حجۃ الوداع میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عرفات سے چلنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم درمیانی چال سے چل رہے تھے۔ لیکن سج وقت جگہ ملتی تو اس سے کچھ جلدی ہی روانہ ہوتے۔

 

عرفات سے واپسی پر گھاٹی میں قیام سے متعلق

 

قتیبہ، حماد، ابراہیم بن عقبہ، کریب، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت عرفات سے واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک گھاٹی کی جانب تشریف لے گئے میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا نماز مغرب ادا فرمائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز ادا کرنے کی جگہ تو آگے ہے۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ابراہیم بن عقبہ، کریب، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس گھاٹی میں قیام فرمایا کہ جس گھاٹی میں حکام قیام کرتے ہیں اور پیشاب کر کے ہلکا سا وضو فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز آگے (ادا کریں گے ) پھر جس وقت ہم لوگ مزدلفہ پہنچ گئے تو ابھی آخر میں آنے والے لوگ پہنچے بھی نہیں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فراغت حاصل فرما چکے تھے۔

 

مزدلفہ میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا

 

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، یحیی، عدی بن ثابت، عبداللہ بن یزید، ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا فرمائی۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا، مصعب بن مقدام، داؤد، اعمش، عمارۃ، عبدالرحمن بن یزید، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی گزشتہ حدیث کی طرح سے یہ حدیث منقول اور مروی ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن ابو ذئب، زہری، سالم، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام مزدلفہ میں نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ساتھ ایک ہی تکبیر سے ادا فرمائیں نہ تو ان کے درمیان نوافل ادا فرمائے اور نہ ہی بعد میں۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن ابراہیم، ابن وہب، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ہی وقت میں ادا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں ادا فرمائی چنانچہ پہلے مغرب کی تین رکعات ادا فرمائیں اور پھر عشاء کی دو رکعات ادا فرمائیں۔ راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی وفات تک اسی طریقہ سے کرتے رہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، ابو نعیم، سفیان، سلمہ، سعید بن جبیر، ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مغرب اور نماز عشاء مقام مزدلفہ میں ایک ہی وقت میں ایک ہی تکبیر سے ادا فرمائیں۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، ابراہیم بن عقبہ، کریب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جو کہ مقام عرفہ کی شام رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سوار تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ تم نے کس طریقہ سے کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا ہم لوگ مقام عرفات سے روانہ ہوئے تو مسلسل چلتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ مقام مزدلفہ پہنچ گئے وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی کو بٹھلایا اور نماز مغرب ادا کی پھر ہم لوگوں کو کہلوایا تو ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے اونٹ اپنے اپنے ٹھکانوں پر بٹھلائے لیکن پھر (بھی) آخر میں آنے والے لوگ پہنچے نہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عشاء سے فراغت فرما چکے تھے۔ پھر لوگ بھی پہنچ گئے اور رک گئے جس وقت صبح ہو گئی تو میں قبیلہ قریش کے آگے چلنے والوں کے ساتھ پیدل روانہ ہو گیا اور فضل بن عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سوار ہو گئے۔

 

خواتین اور بچوں کو مزدلفہ پہلے بھیج دینے سے متعلق

 

حسین بن حریث، سفیان، عبید اللہ بن ابو یزید، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ان حضرات میں سے تھا کہ جن کو مزدلفہ کی شب میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کمزور خیال فرما کر پہلے روانہ فرما دیا تھا۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عمرو، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابو داؤد، ابو عاصم و عفان و سلیمان، شعبۃ، مشاش، عطاء، ابن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبیلہ بنو ہاشم کے کمزور افراد (خواتین اور بچوں ) کو مزدلفہ کی رات میں منی روانگی کا حکم فرما دیا تھا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن جریج، عطاء، سالم بن شوال، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو حکم فرمایا کہ مزدلفہ سے اندھیرے ہی میں وہ مقام منی روانہ ہو جائیں

 

 

٭٭ عبدالجبار بن العلاء، سفیان، عمرو، سالم بن شوال، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں اندھیرے ہی میں مزدلفہ سے مقام منی چلے جایا کرتے تھے۔

 

خواتین کے واسطے مقام مزدلفہ سے فجر سے قبل نکلنے کی اجازت

یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، منصور، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو مقام مزدلفہ سے صبح سے نکلنے کی اجازت عطا فرمائی تھی اس لیے کہ وہ بھاری جسم کی تھیں۔

 

مزدلفہ میں نماز فجر کب ادا کی جائے ؟

 

محمد بن العلاء، ابو معاویہ، اعمش، عمارۃ، عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی کسی وقت کی نماز غیر وقت پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مقام) مزدلفہ میں نماز مغرب اور نماز عشاء ایک ہی ساتھ پڑھیں اور نماز فجر قبل از وقت پڑھی۔

 

جو شخص مقام مزدلفہ میں امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے

 

سعید بن عبدالرحمن، سفیان، اسماعیل و داؤد و زکریا، شعبی، عروۃ بن مفرس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مقام مزدلفہ میں کھڑے ہو کر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کسی نے ہمارے ساتھ (فجر) کی نماز اس جگہ ادا کی پھر ہم لوگوں کے ساتھ اس نے قیام کیا اور اس سے قبل رات یا دن میں مقام عرفات میں بھی قیام کر چکا تھا تو اس شخص کا حج مکمل ہو گیا۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، مطرف، شعبی، عروۃ بن مفرس بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی مزدلفہ میں امام اور لوگوں کے ہمراہ وہاں سے واپس ہونے تک موجود رہا تو اس شخص کا حج پورا (اور ادا ہو گیا) جس شخص نے امام اور لوگوں کے ساتھ شرکت نہیں کی تو اس شخص کا حج ضائع ہو گیا۔

 

 

٭٭ علی بن حسین، امیۃ، شعبۃ، یسار، شعبی، عروۃ بن مفرس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا مزدلفہ میں اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں مقام طئی کے پہاڑوں سے آیا ہوں اور راستہ میں کوئی ٹیلہ اس قسم کا نہ چھوڑا کہ جس پر میں نہ ٹھہرا ہوں تو کیا میرا حج ادا ہو گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ہم لوگوں کے ساتھ یہ نماز فجر ادا کی اور اس سے قبل عرفات میں دن یا رات کے وقت قیام کر چکا تھا تو اس شخص کا حج ہو گیا اور میل کچیل صاف نہ کرنے کی مدت مکمل ہو گئی۔

 

 

٭٭ اسمعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، عبداللہ بن ابو سفر، شعبی، عروہ، مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام، اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، اسماعیل، عامر، عروہ بن مضرس، اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، بکیر بن عطاء، عبدالرحمن بن یعمر الدیلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مقام عرفات میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا کہ نجد کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور ایک آدمی کو حکم دیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حج کے متعلق دریافت کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ حج عرفہ کا نام ہے جو شخص مزدلفہ والی رات فجر سے قبل مقام عرفات پہنچ گیا تو اس شخص نے حج حاصل کر لیا اور مقام منی میں قیام کے تین روز میں لیکن اگر کوئی آدمی جلدی کر کے دو روز میں چلا جائے تو اس شخص پر کسی قسم کا گناہ نہیں ہے اور اگر کوئی شخص تین روز ٹھہرے تو اس پر بھی کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی اپنے ساتھ سوار کر لیا کہ لوگوں میں اس بات کا اعلان کر دے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی بن سعید، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مزدلفہ پورا قیام کرنے کی جگہ ہے۔

 

مزدلفہ میں تلبیہ کہنا

 

ہناد بن سری، ابو احوص، حصین، کثیر، ابن مدرک، عبدالرحمن بن یزید، ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں تھے کہ جس شخص (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تو میں نے اس کو اس جگہ بھی لبیک کہتے ہوئے سنا۔

 

مزدلفہ سے واپس آنے کا وقت

 

اسمعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو (مقام) مزدلفہ میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ مزدلفہ سے سورج نکلنے سے قبل واپس نہیں ہوتے تھے اور لوگ کہتے اے شبیر! (پہاڑ کا نام) تم پر آفتاب نکل آئے یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی مخالفت کی اور سورج نکلنے سے قبل اس جگہ سے چل دئیے۔

 

ضعفاء کو مزدلفہ کی رات فجر کی نماز منی ٰ پر پہنچ کر پڑھنے کی اجازت

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، اشہب، داؤد بن عبدالرحمن، عمرو بن دینار، عطاء بن ابو رباح، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کمزور افراد کے ساتھ مجھ کو روانہ فرما دیا تھا۔ چنانچہ ہم نے نماز فجر منی میں ادا کی اور کنکریاں ماریں۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم بن سلیمان ، عبدالرحیم بن سلیمان ، عبیداللہ بن عبدالرحمن بن قاسم ، حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ مجھ کو اس بات کی خواہش ہوئی کہ میں بھی حضرت سودہ کی طرح سے حضرت رسول اکرم سے اجازت لے لیتی اور لوگوں کے پہنچے سے قبل نماز فجر منی جا کر ادا کرتی چنانچہ حضرت سودہ بھاری بھر کم خاتون تھیں انہوں نے حضرت رسول کریم سے اجازت مانگ لی تو آپ نے اجازت دی دے۔ پھر انہوں نے نماز فجر منی ادا کی اور لوگوں کے آنے سے قبل ہی کنکریاں ماریں۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، عطاء بن ابو رباح، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے ایک غلام کہتے ہیں کہ میں حضرت اسماء کے ساتھ اندھیرے ہی میں منی پہنچ گئے (حالا نکہ روشنی ہونے کے بعد آنا چاہیے ) وہ فرمانے لگیں ہم اس شخص کے ساتھ اس طریقہ سے کرتے تھے جو کہ تم سے بہتر تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، عبدالرحمن بن قاسم، مالک، ہشام بن عروۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع کے موقع پر مقام مزدلفہ سے واپس ہوتے تو کس طریقہ سے واپس آتے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اونٹنی کو آہستہ آہستہ چلایا کرتے تھے لیکن جس وقت کشادہ جگہ مل جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹنی کو تیزی سے بھی چلاتے تھے (دوڑایا کرتے تھے جس کو عربی میں نص کہا جاتا ہے )۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، ابن جریج، ابو زبیر، ابو معبد، عبداللہ بن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح روانہ ہوتے وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی کو روک کر فرمایا تم لوگ سکون اور وقار کے ساتھ چلو پھر جس وقت (مقام) منی میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادیِ محسر میں پہنچے تو اونٹنی سے اتر کر فرمایا جمرات کو مارنے کے بعد کنکریاں جمع کر لو پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا جس طریقہ سے انسان کنکریاں مارتا ہے۔

 

وادیِ محسر سے تیزی سے گزرنے کا بیان

 

ابراہیم بن محمد، یحیی، سفیان، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ودائی محسر سے تیزی سے گزرتے تھے (محسر منیٰ کے نزدیک ایک جگہ کا نام ہے

 

 

٭٭ ابراہیم بن ہارون، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ سے سورج نکلنے سے قبل روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو لے لیا (یعنی سوار کر لیا) جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی محسر میں پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک اونٹ کو تیز کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس راستہ پر چلے جو کہ درخت کے نزدیک ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات کنکریاں ماریں اور ہر ایک کنکری مارنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر پڑھتے تھے یعنی اللہ اکبر فرماتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وادی کے اندر کی طرف سے چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں

 

 

چلتے ہوئے لبیک کہنا

 

حمید بن مسعدۃ، سفیان، ابن حبیب، عبدالملک بن جریج و عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، ابن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میں سوار تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کنکری مارنے تک لبیک فرماتے رہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مسعدہ، سفیان، ابن حبیب، عبد الملک بن جریج و عبدالملک بن ابی سلیمان، ابن عباس، الفضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اس مضمون کی حدیث منقول ہے۔

 

کنکری جمع کرنے اور ان کے اٹھانے کے بارے میں

 

یعقوب بن ابراہیم الدورقی، ابن علیۃ، عوف، زیاد بن حصین، ابو عالیہ سے روایت ہے کہ دس ذی الحجہ کی صبح کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تم یہاں آ جاؤ اور تم میرے واسطے کنکریاں چن لو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لیں جو کہ انگلیوں سے پھینکی جاتی رہی جب میں نے دو کنکریاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک ہاتھ میں رکھ دیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس طریقہ سے کنکریاں مارنا اور تم دین میں سختی سے بچنا کیونکہ تم سے قبل کی امتیں دین میں غلو (شدت) اختیار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، ابن جریج، ابو زبیر، ابو معبد، عبداللہ بن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح روانہ ہونے کے وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ سکون اور وقار کے ساتھ چلو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے تھے پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام منی پہنچ کر وادیِ محسر میں پہنچے تو ارشاد فرمایا چھوٹی چھوٹی کنکریاں لے لو جن سے کہ جمرات کو مارتے ہیں اس درمیان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھ سے اشارہ فرما کر بتلاتے جس طریقہ سے کہ کوئی شخص کنکری مارتا ہے۔

 

کس قدر بڑی کنکریاں ماری جائیں ؟

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی، عوف، زیاد بن حصین، ابو عالیۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن جمرہ عقبہ کے کنکریاں ماری تھیں اس دن صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے مجھ سے ارشاد فرمایا میرے واسطے کنکریاں چن لو۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لیں جو کہ انگلیوں سے ماری جا سکتی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ میں رکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو ہاتھ میں ہلاتے ہوئے فرمانے لگے اس طریقہ سے کنکری مارو اس حدیث کے راوی یحییٰٰ نے ہاتھ ہلا کر بتلایا کہ اس طریقہ سے ہلا رہے تھے۔

 

جمرات پر سوار ہو کر جانا اور محرم پر سایہ کرنا

 

عمرو بن ہشام، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید بن ابو انیسۃ، یحیی بن حصین، ام حصین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کیا تو دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کی نکیل پکڑے ہوئے تھے۔ میں اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک کپڑے سے سایہ کیے ہوئے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احرام کی حالت میں تھے یہاں تک کہ جمرہ عقبہ تک تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب فرمایا پہلے خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی اور پھر بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ایمن بن نابل، قدامۃ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قربانی والے دن جمرہ عقبہ پر اپنی اونٹنی صہباء پر سوار ہو کر کنکریاں مارتے ہوئے دیکھا کہ اس جگہ نہ تو کسی قسم کی مار تھی اور دھتکار تھی اور نہ ہی لوگوں کو ہٹو بچو کہا جا رہا تھا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، ابن جریج، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر جمرے کو (کنکریاں ) مارتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے کہ اے لوگو تم حج کے مناسک مجھ سے سیکھ لو مجھ کو علم نہیں کہ شاید اس سال کے بعد تم لوگوں کے ساتھ حج بھی نہ ادا کر سکوں۔

 

دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ پر کنکریاں مارنے کا وقت

 

محمد بن یحیی بن ایوب بن ابراہیم ثقفی مروزی، عبداللہ بن ادریس، ابن جریج، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ پر سورج نکلنے کے بعد جس وقت کہ بعد کے دو دن میں سورج کے زوال اور اس کے ڈھل جانے کے بعد۔

 

طلوع آفتاب سے پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے کی ممانعت

 

محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، سفیان، سفیان ثوری، سلمہ بن کہیل، حسن عرنی، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لڑکوں کو بنو عبد المطلب کے گدھوں پر سوار کر کے روانہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے فرماتے کہ بیٹو! جمرہ عقبہ کو سورج نکلنے سے قبل کنکریاں نہ مارنا۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، بشر بن سری، سفیان، حبیب، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے گھر کے لوگوں کو پہلے ہی روانہ فرما دیا تھا اور حکم فرمایا تھا کہ سورج نکلنے سے قبل کنکریاں نہ ماریں۔

 

خواتین کے واسطے اس کی اجازت سے متعلق

 

عمرو بن علی، عبدالاعلی، بن عبدالاعلی، عبداللہ بن عبدالرحمن طائفی، عطاء بن ابو رباح، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازواج مطہرات میں سے کسی کو مزدلفہ سے رات ہی کو نکل جانے کا حکم دیا تھا نیز فرمایا کہ جمرہ عقبہ کو کنکریاں مار کر اپنی جگہ پہنچ جائیں۔ حضرت عطاء بھی اپنے انتقال کے وقت تک اس طرح سے کرتے رہے۔

 

شام ہونے کے بعد کنکریاں مارنے سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، ابن زریع، خالد، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں لوگ منی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے (مسائل و احکام حج) دریافت کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ اس میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ ایک آدمی نے عرض کیا میں نے قربانی سے قبل سر منڈا لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے ایک آدمی نے عرض کیا میں نے شام ہونے کے بعد کنکریاں ماریں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے۔

 

چرواہوں کا کنکری مارنا

 

حسین بن حریث و محمد بن مثنی، سفیان، عبداللہ بن ابو بکر، وہ اپنے والد سے ، ابو بداح بن عدی، اپنے والد ماجد سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چرواہوں کو ایک روز کنکری مارنے اور ایک روز کنکری نہ مارنے کی اجازت عطا فرمائی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، وہ اپنے والد سے ، ابو بداح بن عاصم بن عدی فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چرواہوں کو منی میں رات نہ گزارنے کی اجازت عطا فرمائی نیز یہ کہ وہ 10 تاریخ کو رمی کرنے کے بعد دو روز کی رمی ایک ہی دن میں کر لیں۔

 

جمرۂ عقبی ٰ کی رمی کس جگہ سے کرنا چاہیے ؟

 

ہناد بن سری، ابو محیاۃ، سلمہ بن کہیل، عبدالرحمن بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ لوگ جمرہ عقبہ پر کنکری مارنے کا عمل گھاٹی کے اوپر سے کرتے ہیں اس پر انہوں نے وادی کے درمیان سے رمی کی اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی اس نے بھی یہاں سے ہی کنکری مارنا شروع کی۔

 

 

٭٭ حسن بن محمد زعفرانی و مالک بن خلیل، ابن ابو عدی، شعبۃ، حکم و منصور، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس طریقہ سے سات کنکریاں ماریں کہ خانہ کعبہ بائیں طرف اور عرفات ان کے دائیں جانب تھا پھر فرمایا کہ جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی انہوں نے بھی یہاں سے ہی کنکریاں ماریں۔

 

 

٭٭ مجاہد بن موسیٰ ، ہشیم ، مغیرہ، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید، اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن ابو زائدۃ، اعمش، حجاج سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ سورہ بقرہ نہ کہا کرو بلکہ تم اس طریقہ سے کہا کرو کہ وہ سورت کہ جس میں بقرہ (یعنی گائے ) کا تذکرہ ہے۔ اعمش نقل فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات ابراہیم سے نقل کی تو فرمایا کہ عبدالرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ انہوں نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو وادی کے درمیان کرتے اور جمرے کے سامنے کھڑے ہو کر سات کنکری ماری۔ ہر ایک مرتبہ کنکری مارتے وقت اللہ اکبر فرماتے۔ میں نے عرض کیا پہاڑ پر چڑھ کر رمی کرتے ہیں۔ فرمایا اس ذات کی قسم کے جس کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔ میں نے اس شخص (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اس جگہ سے کنکری مارتے ہوئے دیکھا ہے جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم، عبدالرحیم، عبید اللہ بن عمر، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمرات پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی، ابن جریج، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جمرات پر چھوٹی چھوٹی کنکری مارتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

کتنی کنکری سے رمی کرنا چاہیے ؟

 

ابراہیم بن ہارون، حاتم بن اسماعیل، جعفر بن محمد بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درخت کے پاس والے جمرہ کو وادی کے درمیان سے سات چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں اور ہر ایک کنکری مارتے وقت تکبیر پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی کی جگہ تشریف لے گئے اور قربانی کی۔

 

 

٭٭ یحیی بن موسیٰ بلخی، سفیان بن عیینہ، ابن ابو نجیح، مجاہد، سعد رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج سے واپس ہوئے تو کوئی شخص کہتا کہ میں نے سات کنکریاں ماریں اور کوئی شخص کہتا کہ میں نے پھر کنکری ماری اور کوئی کسی شخص کی عیب تراشی نہ کرتا اور نہ کوئی ایک دوسرے پر الزام لگاتا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، قتادۃ، ابو مجلز فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کنکری کے بارے میں کچھ دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا مجھ کو علم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چھ کنکریاں ماریں یا سات کنکریاں ماریں۔

 

ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہنا

 

ہارون بن اسحاق ہمدانی کوفی، حفص، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، علی بن حسین، ابن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سوار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمرہ عقبہ کو کنکری مارنے تک لبیک فرمانا نہیں چھوڑا پھر اس کو سات کنکریاں ماریں اور ہر ایک کنکری مارنے کے وقت تکبیر فرمائی۔

 

جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد لبیک نے کہنے کے متعلق

 

ہناد بن سری، ابو احوص، خصیف، مجاہد، ابن عباس، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سوار تھا۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جمرہ عقبہ کی رمی تک لبیک کہتے ہوئے سنتا رہا پھر کنکری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لبیک کہنا موقوف کر دیا۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء، حسین، ابو خیثمہ، خصیف، مجاہد و عامر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون بھی سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ابو عاصم، خشیش بن اصرم، علی بن معبد، موسیٰ بن اعین، عبدالکریم، سعید بن جبیر، ابن عباس، الفضل بن العباس رضی اللہ عنہ مذکورہ حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

جمرات کی طرف کنکری پھینکنے کے بعد دعا کرنے کے بارے میں

 

عباس بن عبدالعظیم عنبری، عثمان بن عمر، یونس، زہری فرماتے ہیں کہ ہم کو یہ اطلاع ملی ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت اس جمرہ پر کنکری مارتے تھے جو کہ منی کی قربانی کرنے کی جگہ کے نزدیک ہے تو اس کو سات کنکری مارتے اور ہر ایک مرتبہ کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے پھر تھوڑا سا آگے بڑھتے اور قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھاتے اور کافی دیر تک کھڑے ہو کر دعا کرتے رہتے پھر دوسرے جمرے پر تشریف لاتے اور اس کو بھی سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے پھر بائیں طرف رخ کر کے قبلہ رخ فرماتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے پھر اس جمرے کے نزدیک تشریف لاتے جو کہ عقبہ کے نزدیک ہے اور اس کو سات کنکریاں مارتے لیکن یہاں پر کھڑے نہیں ہوتے۔ زہری فرماتے ہیں کہ سالم یہ حدیث اپنے والد ماجد سے اور وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی اس پر عمل فرماتے تھے۔

 

کنکریاں مارنے کے بعد کون کون سی اشیاء حلال ہوتی ہیں ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، سفیان، سلمہ بن کہیل، حسن عرنی، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ کنکری مارنے کے بعد خواتین کے علاوہ ہر ایک چیز حلال اور درست ہو جاتی ہے۔ کسی نے کہا اور خوشبو؟ انہوں نے فرمایا میں نے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مشک لگاتے ہوئے دیکھا ہے کیا یہ خوشبو نہیں ہے۔

 

 

 

جہاد سے متعلقہ احادیث

 

جہاد کی فرضیت
عبدالرحمن بن محمد بن سلام، اسحاق الازرق، سفیان، اعمش، مسلم، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ مکرمہ سے باہر نکالا گیا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکال دیا اب یہ لوگ ضرور تباہ و برباد ہوں گے۔ اِنَّا َللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔ اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ یعنی جن لوگوں سے مشرکین جنگ کرتے ہیں ان کو بھی ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور خداوند قدوس ان کی مد د کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو مجھ کو اس بات کا علم ہو گیا کہ اب لڑائی ہو گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلے یہی آیت نازل ہوئی۔

 

 

٭٭ محمد بن علی بن حسن بن شقیق، وہ اپنے والد سے ، حسین بن واقد، عمرو بن دینار، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اور ان کے کچھ دوسرے دوست و احباب مکہ مکرمہ میں ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جس زمانہ میں ہم لوگ مشرک تھے تو عزت سے رہتے تھے لیکن جب سے ہم مسلمان ہوئے تو ہم لوگ ذلیل ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو تو درگزر کرنے کا ہی حکم فرمایا گیا ہے اس وجہ سے تم لوگ جنگ نہ کرو۔ چنانچہ جس وقت خداوند قدوس ہم کو مدینہ منورہ لے گیا تو ہم کو جہاد کرنے کا حکم فرمایا گیا۔ اس پر کچھ لوگ کشمکش میں مبتلا ہو گئے تو خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نہیں دیکھا کہ جس وقت ان کو کہا گیا کہ ہاتھوں کو روکے رہو نمازوں کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہا کرو لیکن جس وقت ان پر جہاد فرض لازم کر دیا گیا تو یہ ہوا کہ ان میں سے کچھ لوگ تو لوگوں سے اس طریقہ سے خوفزدہ رہنے لگے کہ جس طریقہ سے کوئی شخص خداوند قدوس سے خوف کرتا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر کس وجہ سے تو نے جہاد لازم کر دیا؟ ہم کو کچھ اور وقت دے دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما دیں کہ دنیا کے مال و متاع صرف کچھ روز کی ہے جب کہ آخرت اس شخص کیلئے ہر طریقہ سے بہتر ہے جو کہ اللہ کی مخالفت سے محفوظ رہے اور تم لوگوں پر معمولی سا بھی ظلم نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، معمرا، زہری، سعید، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوامع الکلم عطا فرمائے گئے اور میری امداد رعب سے کی گئی اور میں سو رہا تھا کہ زمین کے خزانوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں دے دی گئیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو تشریف لے گئے لیکن تم لوگ ان خزانوں کو نکال رہے ہو۔

 

 

٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، سعید بن المسیب و ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو اس بات کا حکم فرمایا گیا ہے میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں جس وقت تک وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ (کلمہ توحید) نہ کہہ لیں اور جس کسی نے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہہ لیا تو اس نے مجھ سے اپنا مال و جان محفوظ کر لیا مگر یہ کہ وہ شخص کسی دوسرے کی حق تلفی کرے اور اس کا حق چھین لے اور اس کے عوض اس سے اس کا مال و جان لیا جائے اور اس شخص کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔

 

 

٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب زبیدی، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالا اور اہل عرب میں بعض لوگ مرتد اور دین سے منحرف ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کس طریقہ سے لڑائی کریں گے ؟ حالانکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑائی کروں کہ جس وقت تک وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ نہ کہہ دیں اور اگر وہ اس کلمہ کا اقرار کر لیں گے تو مجھ سے اپنی جان و مال محفوظ کر لیں گے لیکن اگر کسی شخص کو کوئی ناحق قتل کرے گا یا اس کی (کسی قسم کی) حق تلفی کرے گا تو اس کے عوض اس کی جان و مال لی جا سکتی ہے اور اس کا حساب خداوند قدوس کے ذمہ ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرے گا میں اس سے ضرور جنگ کروں گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھ کو ایک بکری کا بچہ دینے سے انکار کریں گے جس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کی عدم ادائیگی پر بھی ان سے لڑائی کروں گا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے دیکھا کہ خداوند قدوس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سینے کو جہاد کے واسطے کھول دیا اور میں اس بات سے واقف ہو گیا کہ حق یہی ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، مومل بن فضل، ولید، شعیب بن ابو حمزۃ و سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کرنے کا پختہ عزم کر لیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کیا اے ابو بکر رضی اللہ عنہ! آپ کس طریقہ سے ان لوگوں سے لڑیں گے اس کے بعد گزشتہ حدیث شریف کے مضمون جیسی حدیث نقل کی گئی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عمرو بن عاصم، عمران ابو عوام قطان، معمر، زہری، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی اور عرب کے لوگ دین سے منحرف ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ عرب سے کس طریقہ سے لڑائی کریں گے اور کہنے لگے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھوں جس وقت تک کہ وہ اس بات کی شہادت نہ دیں کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور یہ کہ میں خداوند قدوس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہوں پر نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں خداوند قدوس کی قسم اگر ان لوگوں نے مجھ کو ایک بکری کا بچہ بھی دینے سے انکار کر دیا جو کہ یہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا کرتے تھے تو اس پر بھی ان سے لڑائی کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں نے دیکھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے گرامی خداوند قدوس کی جانب سے ہے تو مجھ کو بھی اس بات کا علم ہو گیا کہ یہی حق ہے حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ راوی حضرت عمران القطان قوی ٰراوی نہیں ہیں اور یہ حدیث خطاء ہے جب کہ پہلی حدیث شریف صحیح حدیث ہے (جس کا نمبر 3095ہے ) اور جس کو حضرت زہری نے حضرت عبید اللہ بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن سعید، خالد بن نزار، قاسم بن مبرور، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث شریف بھی بالکل حدیث 3095 جیسی منقول ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن محمد بن مغیرہ، عثمان بن سعید، شعیب، زہری، عبید اللہ، کثیر بن عبید، شعیب، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عقبہ بن مسعود، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان، شعیب، زہری، عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، وہ اپنے و الد سے ، شعیب، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو حکم فرمایا گیا ہے کہ میں اس وقت تک جہاد لڑائی کروں کہ جس وقت تک وہ لوگ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ نہ کہہ دیں اور جو شخص یہ کلمہ کہے گا وہ مجھ سے اپنا مال و جان کو محفوظ کرے گا مگر یہ کہ کسی دوسرے کی حق تلفی کی وجہ سے اور اس کا حساب خداوند قدوس کے ذمہ ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، محمد بن اسماعیل، یزید، حماد بن سلمۃ، حمید، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مشرکین سے اپنے مال ہاتھوں اور زبانوں سے جہاد کیا کرو۔

 

جہاد چھوڑ دینے پر وعید

 

عبدۃ بن عبدالرحیم، سلمۃ بن سلیمان، ابن المبارک، وہب، ابن الورد، عمر بن محمد بن المنکدر، سمی، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں جو کوئی اس حالت میں مرے گا نہ تو اس نے کبھی جہاد کیا ہو گا اور نہ اس کی نیت کی ہو گی تو وہ شخص نفاق کے ایک حصہ پر مرا۔

 

لشکر کے ساتھ نے جانے کی اجازت

 

احمد بن یحیی بن الوزیر بن سلیمان، ابن عفیر، الیث، ابن مسافر، ابن شہاب، ابو سلمۃ بن عبدالرحمن و سعید بن المسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کچھ مومنین مجھ سے پیچھے رہنے میں رضامند نہ ہوتے اور میرے پاس ان کو (سب کو) ساتھ لے جانے کے واسطے سواریاں ہوتیں تو ہر ایک اس لشکر کے ساتھ جاتا جو کہ راہ خدا میں جہاد کرنے کے واسطے جاتا اور اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے میری تمنا ہے کہ میں راہ خدا میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ ہوں اور پھر میں قتل کیا جاؤں۔

 

جہاد کرنے والے مجاہدین کے برابر نہیں ہو سکتے

 

محمد بن عبید اللہ بن بزیع، بشر، ابن المفضل، عبدالرحمن بن اسحاق، زہری، سہل بن سعد، مروان بن الحکم، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن مکتوم رضی اللہ عنہ (نابینا صحابی) تشریف لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت مجھ کو پڑھ کر سنا رہے تھے پھر (ابن مکتوم نے ) عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر ممکن ہوتا مجھ سے جہاد کرنا تو بلاشبہ میں مجاہد ہوتا۔ اس کے بعد خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ گزشتہ آیت نازل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ران مبارک میری ران کے اوپر تھی پھر مجھ پر وزن محسوس ہوا یہاں تک کہ میں سمجھ گیا کہ میری ران ٹوٹ اور پھٹ جائے گی پھر وہ حالت وحی موقوف ہو گئی کہ جس وجہ سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی ران کا وزن زیادہ محسوس ہوا۔ امام نسائی کی اس روایت کی سند میں راوی عبدالرحمن بن اسحاق ہے وہ راوی کوئی برا راوی نہیں ہے۔ اس سے علی بن مسہر، ابو معاویہ، عبدالواحد بن زیاد، نعمان بن مسعود نے روایت کی ہے اور وہ ثقہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن یحیی، عبد اللہ، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابیہ، صالح، ابن شہاب، سہل بن سعد، مروان، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت آیت کریمہ لکھوا رہے تھے تو حضرت ابن مکتوم تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر میں جہاد کے قابل ہوتا تو میں ضرور جہاد کرتا اس لیے کہ وہ نابینا تھے اس پر خداوند قدوس نے (غیر اولی الضرر) کے الفاظ نازل فرمائے اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ران مبارک میری ران پر تھی یہاں تک کہ ممکن تھا کہ میری ران کچل جائے اس کے بعد وحی نازل ہونا بند ہو گئی۔

 

 

٭٭ نصر بن علی، معتمر، ابی اسحاق، حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شانے کی ہڈی اور تحتی منگائی اور اس پر آیت کریمہ آخر تک لکھوائی۔ اس وقت حضرت عمرو بن مکتوم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھے انہوں نے عرض کیا کیا میرے واسطے رخصت اور سہولت ہے ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی

 

 

٭٭ محمد بن عبید، ابو بکر بن عیاش، ابو اسحاق، حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جس وقت یہ آیت کریمہ آخر تک نازل ہوئی تو حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے وہ ایک نابینا شخص تھے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں ایک نابینا شخص ہوں میرے متعلق کیا حکم گرامی ہے ؟ ابھی کچھ وقت نے گزرا تھا کہ نازل ہوئی (یعنی معذور لوگ اس حکم سے مستثنی ہیں۔)

 

جس شخص کے والدین حیات ہوں اس کو گھر رہنے کی اجازت

 

محمد بن المثنی، یحیی بن سعید، سفیان و شعبہ حبیب بن ابو ثابت، ابو العباس، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جہاد کی اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم ان کی خدمت کرو۔

 

جس کی صرف والدہ زندہ ہو اس کے لیے اجازت

 

عبدالوہاب بن عبدالحکم، حجاج، ابن جریج، محمد بن طلحہ، ابن عبداللہ نب عبدالرحمن، ابیہ طلحہ، حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں نے جہاد میں شرکت کا ارادہ کر لیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں مشورہ کرنے کے واسطے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہاری والدہ صاحبہ زندہ ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم ان کی خدمت کرو کیونکہ جنت ان کے پاؤں کے نیچے ہے۔

 

جان و مال سے جہاد کرنے والے کے بارے میں احادیث

 

کثیر بن عبید، بقیہ، زبیدی، زہری، رجل، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! سب سے زیادہ افضل کون لوگ ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص گھاٹے میں رہتا ہو اور خداوند قدوس سے ڈرتا ہو اور اس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں۔

 

اللہ کی راہ میں پیدل چلنے والوں کی فضیلت

 

قتیبہ، لیث، یزید، ابو حبیب، ابو خیر، ابو الخطاب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سواری سے سہارا لگائے ہوئے خطبہ دے رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تم کو بہترین اور بدترین لوگوں کے بارے میں نہ بتلاؤں۔ لوگوں میں سے بہترین شخص وہ ہے جو کہ راہ خدا میں اپنے گھوڑے یا اونٹ کی پشت پر سوار ہو کر یا پیدل چلتا ہے یہاں تک کہ اس کی موت آ جاتی ہے۔ جب کہ بدترین شخص وہ ہے جو کہ فاجر ہے وہ خداوند قدوس کی کتاب کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر کسی طریقہ سے عمل نہیں کرتا۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، جعفر بن عون، مسعر، محمد بن عبد الرحمن، عیسیٰ بن طلحہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص خداوند قدوس کے خوف سے ڈرتا ہے اس کو دوزخ کی آگ اس وقت تک نہیں چھو سکتی جب تک کہ دودھ چھاتی میں واپس نہیں آتا اور راہ خدا میں جہاد کرنے والے مسلمان کے تھنوں میں دوزخ کا دھواں اور جہاد کا غبار اکٹھا نہیں ہو سکتے۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابن المبارک، مسعودی، محمد بن عبد الرحمن، عیسیٰ بن طلححہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص خوف خداوندی سے رویا وہ اس وقت تک دوزخ میں داخل نہیں ہو سکتا جس وقت تک کہ دودھ تھن میں نہ واپس آ جائے اس طریقہ سے جہاد کا غبار اور دوزخ کا دھواں اکٹھا نہیں ہو سکتا۔

 

 

٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث، ابن عجلان، سہیل بن ابو صالح، ابیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس مسلمان نے کسی کافر کو قتل کر ڈالا اور پھر درمیانہ راستہ اختیار کیا تو وہ شخص جہنم میں نہیں داخل ہو گا اس طریقہ سے دوزخ کی گرمی اور اس کا دھواں اور جہاد کا گرد و غبار اکٹھا نہیں ہو سکتا نیز کسی مسلمان کے قلب میں ایمان اور حسد دونوں چیزیں اکٹھا نہیں ہو سکتیں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، سہیل، صفوان بن ابو یزید، قعقاع بن لجلاج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی بندہ میں جہاد کا غبار اور دوزخ کا دھواں کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ اس طریقہ سے کنجوسی اور ایمان کبھی ایک بندہ کے قلب میں اکٹھا نہیں ہو سکتے نیز مسلمان کے قلب میں ایمان اور حسد دو چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، مہدی، چماد بن سلمہ، سہیل بن ابو صالح، صفوان بن سلیم، خالد بن لجلاج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی شخص کے چہرہ پر جہاد کا غبار اور دوزخ کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے اسی طریقہ سے بخل اور ایمان بھی کبھی ایک قلب میں جمع نہیں ہو سکتے۔

 

 

٭٭ محمد بن عامر، منصور بن سلمہ، لیث بن سعد، ابن لہاد، سہیل بن ابو صالح، صفوان بن ابو یزید، قعقاع بن لجلاج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عرعرہ بن البرند و ابن ابو عدی، محمد بن عمرو، صفوان بن ابو یزید، حصین بن لجلاج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ شعیب بن یوسف، یزید بن ہارون، محمد بن عمرو، صفوان بن ابو یزید، حصین بن لجلاج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون بھی سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبد اللہ، شعیب، لیث، عبید اللہ بن ابو جعفر، صفوان بن ابو یزید، ابو علاء بن لجلاج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خداوند قدوس نے فرمایا مسلمان شخص میں دوزخ کا دھواں اور جہاد کا غبار اکٹھا نہیں ہوں گے اور خداوند قدوس کسی مسلمان کے قلب میں اللہ پر ایمان اور بخل اکٹھا نہیں ہوا کرتے۔

 

جس آدمی کے پاؤں پر راہ خدا میں جہاد کا غبار پڑا ہو

 

حسین بن حریث، ولید بن مسلم، یزید بن ابی مریم، عبایہ بن رافع، حضرت ابو عبس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کے پاوں جہاد میں گرد آلود ہوئے وہ جہنم پر حرام ہو گیا۔

 

جہاد میں رات میں جاگنے والی آنکھ کا اجر و ثواب

 

عصمہ بن الفضل، زید بن حباب، عبدالرحمن، شریح، محمد بن شمیر، ابو علی تجیبی، حضرت ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا جو آنکھ خدا کی راہ میں جاگی ہو وہ دوزخ پر حرام کر دی جاتی ہے۔

 

جہاد کے واسطے صبح کے وقت کی فضیلت سے متعلق

 

عبدہ بن عبد اللہ، حسین بن علی، زائدہ، سفیان، ابو حلزم، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک دن صبح یا شام کو راہ خدا میں (جہاد کرنے کے واسطے ) نکلنا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

 

بوقت شام جہاد کرنے کے واسطے فضیلت سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن یزید، ابیہ، سعید بن ابو ایوب، شرجیل بن شریک معافری، ابو عبدالرحمن الحبلی، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا میں (جہاد کرنے کے واسطے ) ایک مرتبہ صبح یا شام نکلنا ان تمام چیزوں سے بہتر ہے جن پر آفتاب طلوع اور غروب ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، ابیہ، عبداللہ بن المبارک، محمد بن عجلان، سعید المقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن کی مد د کرنا اپنے ذمہ لازم کر رکھا ہے (1) مجاہد کی امداد کرنا (2) ایسے نکاح کرنے والے شخص کی امداد کرنا جو کہ ہر ایک برائی سے بچنے کے واسطے نکاح کرے اور (3) وہ غلام جو کہ حق مکاتبت ادا کرنا چاہتا ہو اس کی امداد کرنا۔

 

مجاہدین اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے وفد ہیں

 

عیسیٰ بن ابراہیم، ابن وہب، مخرمہ، ابیہ، سہیل بن ابو صالح، ابیہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین آدمی خداوند قدوس کے وفد ہیں (1) مجاہد (2) حج کرنے والا اور (3) عمرہ کرنے والا۔

 

خداوند قدوس مجاہد کی جن چیزوں کی کفالت کرتا ہے اس سے متعلق

 

محمد بن سلمہ و الحارث بن مسکین، ابن القاسم، مالک، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مومن صرف جہاد کی ہی نیت اور ایمان کی وجہ سے مکان سے نکلتا ہے خداوند قدوس اس کو جنت میں داخل کرنے کی ذمہ داری دیتے ہیں یا پھر اس کے مکان کی جانب مال غنیمت اور اجر کے ساتھ واپسی فرما دیتے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، سعید، عطاء بن میناء، ابن ابو ذباب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جہاد کرنے کے واسطے نکلتا ہے اور اس کے نکلنے کی وجہ ایمان اور جہاد کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ خداوند قدوس اس کی نگرانی اور حفاظت فرماتے ہیں اور اس کو جنت میں داخل کرنے کی ذمہ داری لیتے ہیں چاہے وہ قتل کر دیا جائے یا اس کی موت آ جائے یا پھر اس کو اس کے ٹھکانے کی جانب مال غنیمت اور ثواب اور اجر کے ساتھ واپس فرما دیتے ہیں۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، ابو شعیب، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو کہ تمام دن روزہ رکھے اور عبادت میں مشغول رہے اور خداوند قدوس خوب واقف ہیں کہ کون شخص راہ خدا میں جہاد کرتا ہے نیز خداوند قدوس جہاد کرنے والے شخص کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اگر وہ شخص مر جائے تو اس کو جنت میں داخل کر دیں گے اور اگر اس کو سلامتی کے ساتھ واپس لوٹائیں گے تو غنیمت کا مال اور اجر و ثواب عطا فرما کر واپس فرمائیں گے۔

 

ان مجاہدین کے متعلق جنہیں مال غنیمت نہ مل سکے

 

محمد بن عبداللہ بن یزید، ابیہ، حیوۃ، ابو ہانی خولانی، ابو عبدالرحمن، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو مجاہد شخص جہاد میں مشغول رہتا ہے اور مال غنیمت لیتا ہے ان کو آخرت میں ملنے والے اجر و ثواب میں سے دو تہائی ثواب دنیا میں ہی مل جاتا ہے اور ایک تہائی حصہ آخرت کے واسطے باقی رہ جاتا ہے جن مجاہدین کو مال غنیمت نہیں ملتا اور ان کو تمام کا تمام ثواب آخرت میں ملے گا۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، حجاج، حماد بن سلمہ، یونس، حسن، ابن عمر رضی اللہ عنہما حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حدیث قدسی نقل فرماتے ہیں کہ خداوند قدوس ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے بندوں میں سے جو بندہ میری رضامندی کے واسطے جہاد میں شریک ہوتا ہے میں اس کو اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اگر اس کو واپس کرتا ہوں تو اجر و ثواب اور مال غنیمت دے کر واپس کرتا ہوں اور اگر دیتا ہوں تو اس کی بخشش کرتا اور اس پر رحم کرتا ہوں۔

 

جہاد کرنے والے کی مثال کا بیان

 

ہناد بن الری، ابن المبارک، معمر، زہری، سعید بن المسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص راہ خدا میں جہاد کرتا ہے اور خداوند قدوس کو اچھی طرح علم ہے اس کے راستہ میں کون شخص جہاد کرتا ہے تو اس شخص کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کہ کوئی روزہ دار شخص حالت قیام اور رکوع اور سجدہ کی حالت میں ہو۔

 

کونسا عمل جہاد کے برابر ہے ؟

 

عبید اللہ بن سعید، حماد، ہمام، محمد بن جحادہ، ابو حصین، ذکوان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا مجھ کو کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو کہ جہاد کے برابر ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو ایسا کوئی عمل معلوم نہیں۔ پھر اس شخص نے ارشاد فرمایا کیا تم یہ کر سکتے ہو کہ جس وقت مجاہد اپنے مکان سے باہر ہو اور تم مسجد میں داخل ہو پھر تم نماز پڑھنے کے واسطے کھڑے ہو اور تم ہمیشہ کھڑے رہو اور تم کبھی نہ تھکو اور تم روزہ رکھو اور نہ تم روزہ چھوڑو؟ یہ سن کر اس شخص نے عرض کیا بھلا کون شخص یہ کام کر سکتا ہے ؟

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، عبید اللہ بن ابو جعفر، عروہ، ابو مرواح، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کونسا کام بہتر ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس پر ایمان لانا۔ پھر عرض کیا کونسا عمل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! سب سے زیادہ بہتر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابن المسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا کونسا عمل سب سے زیادہ افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس پر ایمان لانا۔ اس شخص نے پھر عرض کیا پھر کونسا عمل سب سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جہاد کرنا راہ خدا میں پھر اس شخص نے عرض کیا کونسا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حج مبرور جو کہ بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو

 

مجاہد کے (بلند) درجے کا بیان

 

حارث بن مسکین، ابن وہب، ابو ہانی، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو سعید جو شخص خداوند قدوس کے پروردگار ہونے پر رضامند ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغمبر ہونے پر رضامند ہو گیا اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا تو ایسا شخص جنت کا مستحق ہو گا۔ راوی نے کہا کہ یہ کلمات حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کو اچھے معلوم ہوئے پھر انہوں نے عرض کیا کہ پھر فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر یہی کلمات ارشاد فرمائے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک دوسری عبادت ہے جس کی وجہ سے بندہ کے ایک سو درجات ہیں جس قدر آسمان اور زمین کے درمیان فرق ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! وہ کونسی عبادت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا راہ خدا میں جہاد کرنا راہ خدا میں جہاد کرنا۔

 

 

٭٭ ہارون بن محمد، بکار بن بلال، محمد بن عیسیٰ بن قاسم بن سمیع، زید بن واقد، بسر بن عبید اللہ، ابو ادریس خولانی، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے نماز پڑھی اور زکوٰۃ ادا کی اور خداوند قدوس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں قرار دیا اور اس شخص کی وفات ہو جائے تو خداوند قدوس اس شخص کی مغفرت فرما دے گا چاہے اس نے ہجرت کی ہو یا اس شخص کی موت اسی جگہ آ گئی ہو کہ جہاں پر وہ شخص پیدا ہوا تھا۔ حضرات صحابہ کرام نے یہ بات سن کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس خوشخبری سے ہم لوگ لوگوں کو راضی اور خوش کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت کے سو درجات ہیں اور ہر ایک درجہ میں اس قدر فرق ہے کہ جس قدر آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے اور یہ درجات اس شخص کے واسطے تیار کیے گئے ہیں جو کہ جہاد میں مشغول رہتے ہیں اور اگر میں اہل اسلام پر مشکل اور دشوار خیال نہ کرتا اور مجھ کو اس بات کی دشواری نہ ہوتی اور میں وہ چیز نہ پاتا کہ جس پر ان کو سوار کروں اور میرے ساتھ نے رہنے سے اور ساتھ چھوٹ جانے سے ان لوگوں کو ناخوشی بھی ہوتی تو میں کسی دوسرے معمولی سے لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر میں زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں۔

 

جو کوئی اسلام قبول کرے اور جہاد کرے ایسے شخص کا ثواب

 

حارث بن مسکین، ابن وہب، ابو ہانی، عمرو بن مالک، حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ میں ذمہ دار ہوں جو کوئی میرے اوپر ایمان لائے اور میری فرمانبرداری کرے اور ہجرت کرے تو اس شخص کو جنت میں ایک مکان ملے گا اور ایک مکان جنت سے باہر ملے گا اور میں ذمہ دار ہوں اور جو کوئی شخص میرے اوپر ایمان لائے اور فرمانبرداری کرے اور راہ خدا میں جہاد کرے تو اس شخص کو جنت میں ایک مکان ملے گا جنت کے باہر اور ایک جنت کے اندر درمیان میں اور ایک مکان جنت کے اوپر کے درجات سے اوپر کے درجات میں ملے گا اور جس شخص نے یہ کام انجام دیئے (مراد ایمان اختیار کرنا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا ہے ) تو اس شخص نے نیکی کی کوئی بات نہ چھوڑی اور وہ شخص بالکل برائی سے دور رہا (مراد یہ ہے کہ اس شخص کے واسطے یہ کافی ہے )

 

 

٭٭ ابراہیم بن یقوب، ابو النضر ہاشم بن القاسم، ابو عقیل عبداللہ بن عقیل، موسیٰ بن المسیب، سالم بن ابو الجعد، حضرت سبرہ بن فاکہہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شیطان انسان کے راستوں پر بیٹھا ہے پھر اس کو روکتا ہے (سیدھے ) راستہ سے اور اسلام کے راستہ سے روکتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے کہ تو مسلمان ہوتا ہے اور تو اپنے دین کو چھوڑتا ہے اور اپنے والد اور باپ دادا کے مذہب کو چھوڑتا ہے پھر انسان اس کی بات نہیں سنتا اور اسلام قبول کرتا ہے اور (شیطان) انسان کو ہجرت کے راستہ سے روکتا ہے تو ہجرت کرتا ہے اور چھوڑتا ہے اپنے زمین اور آسمان کو اور کہتا ہے کہ ہجرت کرنے والے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے گھوڑا اپنا طویلہ (گھوڑا باندھنے کی جگہ) میں پر انسان اس بات سے انکار کرتا ہے اور انسان ہجرت کرتا ہے پھر شیطان اس کو جہاد سے روکتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ تو جہاد کرتا ہے وہ ایک آفت ہے جان اور مال کے واسطے تو جھگڑا کرے گا اور قتل کیا جائے گا پھر لوگ تمہاری بیوی کا نکاح (دوسری جگہ) کر دیں گے اور تمہارا مال و دولت تقسیم کر لیں گے پھر انسان اس بات کو نہیں سنتا اور جہاد میں مشغول ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ارشاد فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جس شخص نے یہ کام انجام دیئے خداوند قدوس کے ذمہ اس کا حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر دے اور اگر وہ شخص قتل کر دیا جائے یا اگر اس کو گرا دے یا وہ غرق ہو کر مر جائے اور فوت ہو جائے تو جب بھی خداوند قدوس پر حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل فرما دے۔

 

جو شخص اللہ کی راہ میں ایک جوڑا دے

 

عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، عمی، ابیہ، صالح، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خداوندی میں ایک جوڑا دے گا (یعنی دو چیز کا جوڑا جیسے کہ دو کپڑے یا دو جوتے دو گھوڑے وغیرہ وغیرہ) تو وہ شخص جنت میں اس طریقہ سے پکارا جائے گا کہ اے بندہ خدا یہ بہتر چیز ہے تو جو شخص غازی ہو گا (یعنی میدان جہاد میں کامیاب ہو کر گھر واپس ہو گا) تو اس کو نماز کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو شخص مجاہد ہو گا تو اس کو جہاد کے دروازہ سے آواز دیں گے اور جو شخص خیرات و صدقہ نکالنے والا ہو گا تو اس کو خیرات کے دروازہ سے آواز دیں گے اور جو شخص روزہ دار ہو گا تو اس کو باب ریان سے آواز دیں گے (یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا اس پر کسی قسم کا کوئی الزام ہے کہ جو شخص تمام کے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا (یعنی جب ایک سے پکارا گیا تو اب دوسرے سے پکارا جانے کی کیا ضرورت ہے ؟) اور کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جو کہ تمام کے تمام دروازوں سے پکارا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایسے ہی (خوش نصیب) ہو گے۔

 

اس مجاہد کا بیان جو کہ نام الٰہی بلند کرنے کے واسطے جہاد کرے

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، عمرو بن مرہ، ابو وائل، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک گاؤں کا باشندہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا لوگ اس وجہ سے جہاد کرتے ہیں تاکہ ان کا تذکرہ اور ذکر ہوتا ہے اور بعض لوگ اس وجہ سے جہاد کرتے ہیں ان کو مال و دولت ہاتھ آئے اور کچھ لوگ اس وجہ سے جہاد کرتے ہیں کہ اپنا درجہ اونچا ظاہر کریں پھر کون شخص ہے جو کہ راہ خدا میں جہاد کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس واسطے جہاد کرے کہ خداوند قدوس کا نام بلند ہو تو وہ شخص راہ خدا کا مجاہد ہے اور خدا کے واسطے جہاد اسی کو کہتے ہیں۔

 

اس شخص کا بیان جو کہ بہادر کہلانے کے واسطے جہاد کرے

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، یونس بن یوسف، سلیمان بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں کہ جن پر سب سے پہلے قیامت کے دن حکم ہو گا (1) شہید شخص بارگاہ خداوندی میں پیش ہو گا پھر خداوند قدوس اس کو اپنی نعمتیں شمار کرائے گا پھر شہید ان نعمتوں کو پہچانے گا یعنی تمام نعمت کا اقرار کرے گا پھر خداوند قدوس فرمائے گا کہ تم نے کون سا عمل کیا ہے یعنی ان انعامات کے شکر میں ؟ کہے گا کہ میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا اس پر حکم ہو گا کہ تو جھوٹا ہے بلکہ تو نے اس وجہ سے جہاد کیا تھا کہ تو لوگوں میں بہادر مشہور ہو جائے اور مخلوق کہے گی کہ فلاں شخص بڑا بہادر اور جرات مند تھا اور یہ بہادری اور جرات دنیا میں مشہور ہو گی پھر اس کے واسطے حکم ہو گا یعنی دوزخ کو لے جانے کا۔ پھر گھسیٹیں گے اس کو فرشتے منہ کے بل گھسیٹیں گے اور اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے پھر وہ شخص پیش ہو گا کہ جس نے علم (دین) سیکھا ہو گا اور دوسروں کو سکھلایا ہو گا اور قرآن کریم کی تلاوت کی ہو گی اور خداوند قدوس اس کو اپنی نعمتیں شمار کرائے گا پھر یہ شخص اقرار کرے گا ان تمام نعمتوں کا پھر سوال ہو گا کہ ان نعمتوں کے بدلے کیا اعمال انجام دیئے تو یہ شخص جواب دے گا کہ تیرے لیے میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن کریم تیری رضامندی کے واسطے سکھلایا اس پر حکم سنایا جائے گا کہ یہ شخص جھوٹا ہے بلکہ تو نے اس لیے علم سیکھا تاکہ تو دنیا میں عالم مشہور ہو جائے اور تو نے قرآن کریم اس وجہ سے پڑھا تاکہ تجھ کو لوگ قاری کہیں اور تو اس نام سے شہرت حاصل کر چکا پھر حکم ہو گا اس شخص کے واسطے اور اس کو (فرشتے ) چہرہ کے بل کھینچ لیں گے آخر کار وہ شخص دوزخ کی آگ میں جا گرے گا پھر وہ شخص حاضر ہو گا کہ جس کو گنجائش دی گئی تھی خداوند قدوس کی طرف سے اور اس شخص کے یہاں ہر قسم کا مال تھا اس کو پھر خداوند قدوس تمام نعمتیں شمار کرا دے گا اور وہ شخص ان تمام نعمتوں کا قرار کرے گا پھر حکم ہو گا اس کو کہ تو نے کیا عمل اختیار کیا ان چیزوں کے بدلہ؟ تو وہ شخص عرض کرے گا کہ میں نے مال دولت خرچ کیا ہر جگہ کہ جہاں تیری رضامندی تھی اور مجھ سے کوئی راستہ نہیں چھوٹا کہ جس میں تو نے خرچ کرنا فرمایا تھا اس پر حکم ہو گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے بلکہ تو سخی کہلانے کی وجہ سے خرچ کرتا تھا اور تو سخی مشہور ہو گیا پھر حکم ہو گا اس شخص کے واسطے اور اس شخص کو منہ کے بل کھینچ لیا جائے گا۔

 

جس شخص نے راہ خدا میں جہاد تو کیا لیکن اس نے صرف ایک رسی حاصل کرنے کی نیت کی

 

عمرو بن عل، عبدالرحمن، حماد بن سلمہ، جبلہ بن عطیہ، یحیی بن ولید بن عبادہ بن صامت، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں جہاد کرے اور نیت نہ رکھے مگر رسی حاصل کرنے کی بس اس کو وہی چیز مل جائے گی جو کہ اس کی نیت ہے (مراد یہ ہے کہ ایسے شخص کو جہاد کا کسی قسم کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اس کی نیت میں کسی قسم کا اخلاص نہ تھا۔)

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، جبلہ بن عطیہ، یحیی بن ولید، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس نیت سے جہاد کرے کہ اس کو عقال (یعنی اونٹ کے پاؤں باندھنے کی رسی حاصل ہو جائے ) تو اس کو وہی چیز ملے گی کہ جس کا اس نے ارادہ کیا۔

 

اس غزوہ کرنے والے شخص کا بیان جو کہ مزدوری اور شہرت حاصل کرنے کی تمنا رکھے

 

عیسیٰ بن ہلال، محمد بن حمیر، معاویہ بن سلام، عکرمہ بن عمار، شداد ابی عمار، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا اگر کوئی آدمی جہاد کرے مزدوری کے لالچ میں (کہ دولت حاصل ہو گی) اور نام آوری کے واسطے جہاد کرے ؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو کسی قسم کا ثواب نہ ملے گا۔ پھر اس آدمی نے دریافت کیا اور یہی سوال پوچھا تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی جواب دیا کہ ایسے شخص کے واسطے کوئی اجر نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس قبول نہیں فرماتا مگر وہ عمل جو کہ خالص اسی کے واسطے ہو اور اس کے کرنے سے خالص رضا خداوندی مقصود ہو اور مال دولت اور نام اور شہرت حاصل کرنا مقصود نہ ہو ورنہ خداوند قدوس کے نزدیک اس شخص کی نیکی بیکار بلکہ باعث عذاب ہو گی۔

 

جو شخص راہ خدا میں اونٹنی کے دوبارہ دودھ اتارنے تک جہاد کرے اس کا اجر و ثواب

 

یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، سلیمان بن موسی، مالک بن یخامر، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان اللہ جل جلالہ کے راستہ میں اونٹنی کے دوبارہ دودھ اتارنے تک جہاد کرے تو ایسے شخص کے واسطے جنت لازم ہو گئی اور جس کسی نے سچے دل سے دعا مانگی بارگاہ خداوندی میں اپنے قتل کیے جانے کے واسطے پھر وہ شخص مر گیا یا قتل کیا گیا تو اس کو شہید کے برابر اجر ہے اور اس شخص کو کسی قسم کا کوئی زخم لگ جائے راہ خدا میں یا اس پر کسی قسم کی کوئی آفت یا مصیبت آ جائے تو وہ شخص قیامت کے دن ایسا ہو گا کہ جیسے کہ وہ ابھی ابھی زخمی ہوا ہے اور اس کا رنگ زعفرانی ہو گا اور اس کے جسم سے خوشبو مہک رہی ہو گی یعنی وہ شخص بدبودار اور خراب رنگ و روپ میں نہ ہو گا اور جس شخص کے جسم میں زخم ہو۔ خداوند قدوس اس پر شہید کی مہر لگا دے گا۔

 

راہ خداوندی میں تیر پھینکنے والوں سے متعلق

 

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، بقیہ، صفوان، سلیم بن عامر، شرجیل بن سمط، حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خداوندی میں بوڑھا ہو گا اور جس کسی نے راہ خداوندی میں تیر مارا دشمن تک وہ تیر گیا اور یا درمیان میں وہ تیر رہ گیا تو گویا اس نے آزاد کیا ایک غلام اور جس نے آزاد کیا ایک غلام ایماندار تو گویا کہ وہ شخص (دوزخ کی) آگ سے آزاد ہو گیا اور اس کے عوض آزاد کرنے والے شخص کا جسم ہر ایک عضو اور جسم کا ہر ایک حصہ (دوزخ سے آزاد ہو گیا)۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ہشام، قتادہ، سالم بن ابو جعد، معدان بن ابو طلحہ، حضرت ابو نجیح سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا تو اس کو جنت میں درجہ حاصل ہو گیا تیر مارنے کے عوض۔ حضرت ابو نجیح نے کہا کہ میں نے اس دن راہ خدا میں سو تیر چلائے اور جس شخص نے راہ خدا میں تیر چلایا تو یہ تیر چلانا اس کے واسطے غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، عمرو بن مرہ، سالم بن ابو جعد، شرجیل بن سمط، حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے حضرت شرجیل بن سمط نے بیان کیا کہ اے کعب! ہم کو تم حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیان کرو اور تم اس کے بیان کرنے میں کسی قسم کی کمی بیشی سے ڈرو۔ حضرت کعب نے کہا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص اسلام کی حالت میں راہ خداوندی میں جہاد کر کے بوڑھا ہوا تو اس کا بڑھاپا قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہو گا۔ حضرت شرجیل نے بیان کیا کہ ہم کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث بیان فرمائیں اور خوف الٰہی پیش نظر رکھنا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم تیر مارو۔ جس شخص کا تیر دشمن تک پہنچ جائے گا تو اس شخص کے واسطے خداوند تعالیٰ ایک درجہ اونچا فرما دے گا یہ بات سن کر ابن سخام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ درجہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ درجہ تمہاری والدہ کی چوکھٹ نہیں ہے (یعنی اس قدر تھوڑا اونچا) بلکہ دو درجات کے درمیان میں اس قدر فاصلہ ہے کہ جس قدر فاصلہ انسان ایک سو سال میں طے کرتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبد الاعلی، معتمر، خالد،شرجیل، بن سمط، حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے راہ خداوندی میں تیر کا نشانہ لگایا یعنی تیر مارا تو چاہے وہ تیر دشمن کے لگ گیا ہو یا نشانہ غلطی سے گر گیا ہو تو اس شخص کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور جس شخص نے ایک غلام مسلمان آزاد کیا تو اس غلام آزاد کرنے والے شخص کا جسم کا ہر ایک عضو دوزخ کی آگ سے آزاد ہو گیا اور جس شخص کے بال راہ الٰہی میں سفید پڑ گئے تو اس کے واسطے (قیامت کے دن) نور ہو گا۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید، ولید، ابن جابر، ابو سلام ، خالد بن یزید، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس عزت اور بزرگی والا تین آدمیوں کو جنتی بنا دے گا ایک تیر کی وجہ سے۔ ایک تیر نیک نیتی سے بنانے والا۔ دوسرے تیر چلانے والا اور تیسرے تیر پھینکنے والا۔

 

اللہ تعالیٰ ٰ کے راستے میں زخمی ہونے سے متعلق
محمد بن منصور، سفیان، زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خداوندی میں زخمی ہوتا ہے اور خداوند قدوس کو اچھی طرح سے علم ہے کہ راہ خدا میں کون زخمی ہوتا ہے تو وہ شخص قیامت کے دن حاضر ہو گا اور اس کے زخم سے خون ٹپک رہا ہو گا کہ جس کا رنگ بظاہر خون جیسا ہو گا لیکن اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابن المبارک، معمر، زہری، حضرت عبداللہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (شہداء کرام کو) ڈھانپ دو خون لگا ہوا تو وہ شخص بارگاہ خداوندی میں پیش ہو گا اور اس کے زخم سے خون جاری ہو گا اس کا رنگ خون جیسا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔

 

جس وقت دشمن زخم لگائے تو کیا کہنا چاہیے ؟

 

عمرو بن سواد، ابن وہب، یحیی بن ایوب، عمارہ بن عزیہ، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن جس وقت مسلمانوں کو شکست ہو گئی اور وہ بھاگ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کونے میں تھے بارہ انصاری حضرات میں اور ان میں حضرت طلحہ بن عبداللہ بھی تھے مشرکین نے ان کو گھیر لیا اس خیال سے کہ یہ کچھ ہی لوگ ہیں (ان کو حملہ کر کے ختم کر ڈالو) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی جانب دیکھ کر اشارہ فرمایا اب ہم لوگوں کی جانب سے کون جنگ کرے گا؟ اور ہم کو کون بچائے گا؟ حضرت طلحہ نے عرض کیا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے حال پر رہو یعنی تم ٹھہرے رہو۔ ایک انصاری شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو۔ پھر تو وہ شخص جنگ کرتا رہا یہاں تک کہ وہ شخص شہید ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کی جانب دیکھا اور فرمایا قوم کی کون شخص حفاظت کرے گا یعنی ان کی جانب سے لڑائی کرے گا؟ حضرت طلحہ نے عرض کیا کہ میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی حال پر رہو۔ ایک انصاری شخص نے کہا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اس شخص نے جنگ کی یہاں تک کہ وہ شخص شہید ہو گیا پھر برابر اسی طریقہ سے فرماتے رہے اور ایک ایک انصاری شخص لڑائی کرنے کے واسطے نکلتا گیا اور شہید ہوتا رہا یہاں تک کہ فقط حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت طلحہ رہ گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اب کون شخص لڑائی کرے گا؟ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں۔ پھر حضرت طلحہ نے بھی لڑائی کی پہلے گیارہ لوگوں کی طرح۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ پر ایک زبردست زخم لگا اور ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ انہوں نے کہا حش (یہ جملہ درد اور تکلیف کے وقت بولا جاتا ہے ) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم بسم اللہ کہتے (جب تم کو زخم لگا تھا) تو تم کو فرشتے اٹھاتے اور تم کو لوگ دیکھتے رہتے۔ پھر خداوند قدوس نے مشرکین کا رخ موڑ دیا۔

 

جس کسی کو اس کی (اپنی) تلوار پلٹ کر لگ جائے اور وہ شہید ہو جائے ؟

 

عمرو بن سواد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبدالرحمن و عبداللہ ابنا کعب بن مالک، حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ خیبر میں میرے بھائی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک رہ کر بہت جنگ کی پھر (اتفاق سے ) اس کی تلوار پلٹ کر اس کے ہی لگ گئی پھر وہ اسی تلوار سے مر گیا اور حضرات صحابہ کرام نے اس کا بہت تذکرہ فرمایا اور اس کی وفات سے متعلق شک ہو گیا اس لیے کہ وہ مر گیا تھا خود اپنے ہی ہتھیار سے۔ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اگر اجازت عطا فرمائیں تو میں رجز پڑھوں (یہ کلمات اہل عرب جنگ کے وقت پڑھتے ہیں تاکہ خوب دل کھول کر جنگ کی جا سکے ) پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو حکم فرمایا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اکوع! تم سوچ سمجھ کر گفتگو کرو۔ حضرت اکوع نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر عنایت خداوندی شامل حال نہ ہوتی تو ہم کو راہ ہدایت نصیب نہ ہوتی اور نہ یقین لاتے ہم کسی بات پر اور نہ نماز پڑھتے اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا کہ تم سچ کہہ رہے ہو۔ حضرت اکوع نے نقل کیا پھر یا اللہ جل و شانہ ہم کو اطمینان عطا فرما دے اور دشمن کے مقابلے میں ہمارے پاؤں قائم رکھے (یعنی ثابت قدمی عطا فرما) اور مشرکین بدل گئے پھر حضرت سلمہ بن اکوع فرمانے لگے کہ جس وقت میں رجز مکمل کر چکا تو اس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کس نے اس طریقہ سے کیا؟ یعنی مذکورہ بالا رجز کس کی ایجاد ہے ؟ تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے بھائی نے اللہ رحم فرمائے اس پر پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کی قسم لوگ خوف کرتے تھے اس پر نماز پڑھنے سے اور کہتے تھے یہ آدمی اپنے ہی ہتھیار سے قتل ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ سعی میں قتل ہوا ہے اور درحقیقت وہ مجاہد ہوا۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں نے دریافت کیا کہ حضرت سلمہ بن اکوع کے لڑکے سے اس نے اپنے والد سے اسی طریقہ سے حدیث بیان فرمائی لیکن یہ بات زیادہ کہی کہ جس وقت حضرت ابن اکوع نے کہا کہ لوگ اندیشہ کرتے تھے اس کی نماز (جنازہ) پڑھنے سے (یعنی اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھنا چاہتے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ اس نے خودکشی کی ہی حالانکہ وہ شخص شہید ہوا تھا) اس کے جواب میں فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور وہ شخص تو جہاد کی کوشش میں قتل ہوا ہے اور وہ شخص مجاہد ہوا اور اس کے دو اجر ہیں یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا۔

 

راہ الٰہی میں شہید ہونے کی تمنا کرنے سے متعلق

 

عبید اللہ بن سعید، یحیی یعنی ابن سعید قطان، یحیی یعنی ابن سعید الانصاری، ذکوان ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر میری امت پر گراں نہ گزرتا تو کسی ادنیٰ لشکر سے بھی پیچھے نہ رہتا لیکن لوگوں کو بار برداری میسر نہیں اور میں وہ چیز نہیں پاتا ہوں جس پر ان سب کو سوار کروں اور لوگوں پر یہ بات گراں ہے کہ میرا ان سے ساتھ چھوٹ جائے اور میں اس بات کی بہت خواہش کرتا ہوں کہ میں راہ خدا میں شہید ہو جاؤں اور میں پھر زندہ کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کیا جاؤں۔ یہ جملے تین مرتبہ فرمائے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید، ابیہ، شعیب، زہری، سعید بن المسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر ایماندار لوگوں کو میرا ساتھ چھوڑنے سے ناگواری نہ ہوتی اور یہ دشواری بھی نہ ہوتی کہ میں وہ چیز نہیں پاتا ہوں کہ جس پر ان کو سوار کروں تو میں کسی معمولی سے معمولی لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا۔ جب وہ لشکر راہ خدا میں جہاد کرے۔ مجھ کو اپنی جان کے مالک کی قسم کہ میری عین تمنا ہے کہ میں راہ خدا میں شہید ہو جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید ہو جاؤں۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، بحیر بن سعد، خالد بن معدا، جبیر بن نفیر، حضرت ابن عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی آدمی کا دل نہ چاہے گا کہ وہ مرنے کے بعد پھر واپس آئے اگرچہ اس کو پوری دنیا دے دی جائے مگر شہید آدمی تمنا کرے گا کہ میں پھر دنیا میں واپس جاؤں اور دوبارہ راہ خداوندی میں شہید ہو جاؤں۔ ابن ابی عمیرہ نے فرمایا میرے لیے راہ خدا میں شہید ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ مجھ کو دنیا اور سب کچھ دے دیا جائے۔

 

راہ خداوندی میں شہید ہونے سے متعلق

 

محمد بن منصور، سفیان، عمرو، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے غزوہ احد کے دن کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! ارشاد فرمائیں اگر میں شہید کیا جاؤں راہ الٰہی میں تو میرا ٹھکانہ کس جگہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت میں۔ پھر اس شخص نے ہاتھ میں لی ہوئی کھجوریں (دوسری طرف) ڈال دیں (وہ شخص اس وقت کھجور کھا رہا تھا لیکن جنت حاصل کرنے کے شوق میں اس نے کھجوریں ایک طرف ڈال دیں اور آخر کار وہ شخص) جنگ لڑا اور شہید ہو گیا۔

 

اس شخص کا بیان جو کہ راہ خدا میں جہاد کرے اور اس پر قرض ہو

 

محمد بن بشار، ابو عاصم، محمد بن عجلان، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے اس نے عرض کیا کہ ارشاد فرمائیں اگر میں راہ خدا میں جہاد کروں ثابت قدمی کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے جہاد کروں اور جہاد سے منہ نہ پھیروں تو کیا میرے گناہ معاف ہو جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے ایک گھڑی تک پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ سائل کہاں ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر خدمت ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے ابھی کیا کہا تھا؟ اس نے عرض کیا کہ اگر میں قتل کیا جاؤں راہ خدا میں ثابت قدم رہ کر اجر و ثواب کیلئے جہاد کروں اور اس سے نہ ہٹ جاؤں دشمن کے مقابلہ سے تو کیا خدا تعالیٰ میری مغفرت فرما دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں مگر مقروض کی مغفرت نہیں کی جائے گی (کیونکہ قرض بندہ کا حق ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھ سے خاموشی سے فرمایا ہے (حضرت ابن حجر نے فرمایا دوسرے ظلم بھی جو کہ انسان دوسرے بندوں پر کرتا ہے وہ معاف نہ ہوں گے اگرچہ شہید ہو جس وقت تک بندہ سے معاف نہ کرائے وہ حقوق معاف نہ ہوں گے

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یحیی بن سعید، سعید بن ابو سعید، حضرت عبداللہ بن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر میں راہ خدا میں جہاد کروں۔ آخر تک پہلی روایت نقل کی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، سعید بن ابو سعید، عبداللہ بن ابو قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور ان کے سامنے جہاد کا تذکرہ ہوا کہ جہاد کرنا خدا کے راستہ میں اور ایمان لانا خداوند قدوس پر تمام کاموں سے زیادہ ہے اس دوران ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ فرمائیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر میں جہاد کروں راہ خدا میں تو کیا خداوند قدوس میری غلطیاں معاف فرما دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ اگر وہ ثابت قدم رہے اور اس کی نیت ثواب کی رہے اور دشمن کو پشت نہ دکھلائے لیکن قرض معاف نہیں ہو سکتا کیونکہ جبرائیل علیہ السلام نے اسی طریقہ سے بیان فرمایا۔

 

 

٭٭ عبد الجبار بن علاء، سفیان، عمرو، محمد بن قیس، عبداللہ بن ابو قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت منبر پر تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا ارشاد فرمائیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اگر میں یہ تلوار راہ خدا میں ماروں اجر و ثواب کیلئے اور ثابت قدم رہوں اور چہرہ نہ پھیروں دشمن کے مقابلہ سے تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہ کو مجھ سے دور فرما دیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! پس جس وقت وہ رخصت ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو آواز دی اور فرمایا یہ دیکھ لو! جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تیرا قرضہ معاف نہیں ہو گا۔

 

راہ الٰہی میں جہاد کرنے والا کس چیز کی تمنا کرے گا؟

 

ہارون بن محمد بن بکار، محمد بن عیسی، ابن قاسم، زید بن واقد، کثیر بن مرہ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی جان قتل نہیں ہوتی جس کے لیے خداوند قدوس کے نزدیک بہتری ہو کہ اس کو اچھا معلوم ہو یہ بات کہ وہ دنیا کی طرف واپس آئے ایسی حالت پر کہ اس کو دنیا حاصل ہو جائے (مراد یہ ہے کہ جس شخص کی بخشش ہو گی تو اس کو تمنا نہیں کہ وہ پھر دنیا میں آئے اگرچہ اس کو سب کچھ مل جائے) لیکن شہید چاہتا اور تمنا کرتا ہے کہ وہ پھر دنیا میں واپس آ جائے اور دوبارہ راہ خدا میں قتل ہو جائے۔

 

جنت میں کس چیز کی تمنا ہو گی؟

 

ابو بکر بن نافع، بہز، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک شخص جنت والوں میں سے پیش کیا جائے گا پھر اس سے خداوند قدوس ارشاد فرمائے گا اے اولاد آدم! تجھ کو کس قسم کا ٹھکانہ ملا تو وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو عمدہ جگہ نصیب ہوئی پھر اس سے خداوند قدوس ارشاد فرمائے گا کہ تجھ کو کس قسم کا ٹھکانہ ملا؟ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو عمدہ جگہ نصیب ہوئی پھر فرمائے گا ان سے خداوند قدوس کہ مانگ اور تمنا کر کسی چیز کی تو وہ عرض کرے گا کہ میں مانگتا ہوں لیکن مجھ کو دنیا کی جانب بھیجنا کہ میں تیرے راستہ میں شہید ہو جاؤں اور دس مرتبہ وہ اس تمنا کا اظہار کرے گا۔

 

اس بات کا بیان کہ شہید کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے ؟

 

عمران بن یزید، حاتم بن اسماعیل، محمد بن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا شہید کو اسی قدر تکلیف شہادت میں ہوتی ہے جیسے تمہارے میں سے کسی شخص کو چٹکی لینے میں ہوتی ہے (یا چیونٹی یا کھٹمل کے کاٹنے میں ہوتی ہے ) پھر اس کے بعد آرام ہی آرام ہے۔

 

شہادت کی تمنا کرنا

 

یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عبدالرحمن بن شریح، حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی سچے دل کے ساتھ اللہ عز و جل سے شہادت کی تمنا کرتا ہے اللہ عز و جل اس مقام شہدا تک پہنچا ہی دیتا ہے اگرچہ اس کو بستر پر ہی موت آئے۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، عبدالرحمن بن شریح، عبداللہ بن ثعلبہ حضرمی، حجیرہ، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی وفات ان پانچ حالتوں میں ہو تو وہ شخص خداوند قدوس کے نزدیک شہید ہے (1) راہ خدا میں شامل ہو کر وہ قتل ہو جائے (2) غرق ہو جائے (3) یا دست کے مرض میں وفات پا جائے (4) یا طاعون کے مرض میں اس کی موت واقع ہو جائے یا (5) کوئی خاتون حالت نفاس میں فوت ہو جائے ان سب کا درجہ شہادت ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، بحیر، خالد، ابن ابی بلال، حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (قیامت کے دن) جھگڑا (یعنی اختلاف) ہو گا شہدا اور ان لوگوں کے درمیان جو کہ اپنے بستر پر ہمارے پروردگار کے سامنے ان آدمیوں کے واسطے جو کہ وبا سے مر گئے ہیں تو شہداء کہیں گے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں کیونکہ یہ لوگ اس طریقہ سے قتل کیے گئے تھے اور بستروں پر مرنے والے یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اس لیے کہ یہ لوگ ہم لوگوں کی طرح سے بستروں پر مرے ہیں اس پر ہمارے پروردگار کی جانب سے حکم ہو گا کہ ان لوگوں کے زخموں کو دیکھو اگر شہدا سے ملاقات کرتے ہیں تو بلاشبہ شہدا میں سے ہیں اور جس وقت زخموں کو دیکھیں گے تو یہ زخم ان کے شہدا کے مانند ہوں گے۔

 

شہید اور اس آدمی کے متعلق جو کہ قاتل تھا ان دونوں کے متعلق احادیث

 

محمد بن منصور، سفیان، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس بزرگی اور عظمت والا اس بات سے حیرت اور تعجب کرتا ہے ان دو شخصوں سے وہ دونوں لڑائی کریں اور ایک دوسرے کو قتل کر دے اور دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے فرمایا خداوند قدوس ہنستا ہے ان دو آدمیوں کے معاملہ کی جانب کہ ایک نے دوسرے کو قتل کر ڈالا اور دونوں جنت میں داخل ہو گئے۔

 

مذکورہ بالا حدیث کی تفسیر

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس ان دو آدمیوں کو دیکھ کر ہنستا ہے کہ جو آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی کریں اور ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا اور دونوں جنت میں داخل ہو گئے اور اس کا بیان اس طریقہ سے ہے کہ ان میں سے ایک آدمی راہ خدا میں لڑائی کرتا تھا اور وہ شخص راہ خدا میں شہید ہو گیا اور قتل کرنے والے شخص نے توبہ کی یعنی خداوند قدوس نے اس کو اسلام کی دولت سے نوازا اس کے بعد وہ شخص بھی راہ خدا میں شہید ہو گیا اور شہادت کا درجہ حاصل کر گیا۔

 

پہرا دینے کی فضیلت

 

حارث بن مسکین، ابن وہب، عبدالرحمن بن شریح، عبدالکریم بن حارث، ابو عبیدہ بن عقبہ، شرجیل بن سمط، حضرت سلمان خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے راہ خدا میں ایک دن اور ایک رات پہرا دیا تو اس شخص کو ایک مہینہ روزہ کا ثواب ملا اور جو شخص پہرا دینے کی حالت میں مر گیا تو اس کے واسطے جاری رہے گا اس قدر اجر و ثواب اور اس کا رزق جاری رہے گا اور وہ شخص فتنہ ڈالنے والے کے فساد سے بچ گیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، عبداللہ بن یوسف، لیث، ایوب بن موسی، مکحول، شرجیل بن سمط، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے راہ خدا میں ایک دن اور ایک رات پہرا دیا تو اس کو ایک مہینہ کے روزے نماز کا ثواب ملے گا اور اس کا کام جاری رہے گا جو وہ انجام دے رہا تھا اور وہ شخص قبر اور حشر کے فتنوں سے محفوظ رہا اور اس کا رزق موقوف نہ ہو گا۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، عبداللہ بن یوسف، لیث، زہرہ، معبد، ابو صالح، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک دن کا راہ خدا میں پہرا دینا ہزار دنوں سے بہتر ہے اور ہزار درجات سے افضل ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، ابن مبارک، ابو معن، زہرہ بن معبد، ابو صالح، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا راہ خدا میں ایک دن ہزار دنوں سے بہتر ہے۔

 

سمندر میں جہاد کی فضیلت

 

محمد بن سلمہ، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، اسحاق بن عبد اللہ، قاسم، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مقام) قباء کی جانب تشریف لے جاتے تو ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ام حرام کے یہاں تشریف لائے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانا کھلا رہی تھی اور ام حرام ملحان کی لڑکی تھی جو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ اتفاق سے ایک دن ان کے گھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو حضرت ام حرام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانا کھلایا اور وہ بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک سے جوئیں تلاش کرنے لگ گئیں پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنستے ہوئے اٹھے۔ وہ خاتون یہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا چیز دیکھ کر ہنس رہے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ کو خداوند قدوس نے میری امت کے لوگ جہاد کرتے ہوئے دکھلائے اور وہ لوگ اس دریا کی بلندی پر چڑھتے ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ بادشاہوں کی طرح سے تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ راوی کو اس میں شک ہو گیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے الفاظ مثل فرمایا تھا۔ یا اس کے بغیر فرمایا تھا۔ ملحان کی لڑکی نقل کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند قدوس سے دعا مانگیں کہ خداوند قدوس مجھ کو بھی ان میں سے بنا دے (یعنی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل کر دے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے واسطے دعا فرمائی پھر سو گئے اور حارث کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنس پڑے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ رضی اللہ عنہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس بات پر ہنس رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر وہی جواب ارشاد فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے لیے دعا فرمائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم پہلے لوگوں میں سے ہو چنانچہ حضرت معاویہ کے زمانہ میں سمندر میں سوار ہوئیں اور سمندر سے نکلتے وقت سواری سے گر کر وفات پا گئیں۔

 

 

٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، یحیی بن سعید، محمد بن یحیی بن حبان، انس بن مالک، حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے مکان پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیلولہ فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہنستے ہوئے اٹھے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کی وجہ دریافت کی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس وجہ سے ہنس رہے ہیں ؟ فرمایا میری امت کے چند لوگ اس سمندر میں اس طرح سوار ہوئے جس طریقہ سے کہ بادشاہ تخت پر۔ میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند قدوس سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ کو بھی ان میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ان ہی میں سے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسری مرتبہ سو گئے اور اس طریقہ سے ہنستے ہوئے بیدار ہوئے میں نے اس مرتبہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہی جواب دیا جو کہ پہلے جواب دیا تھا۔ چنانچہ میں نے عرض کیا دعا فرمائیں کہ خداوند قدوس مجھ کو بھی ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ان میں سے اولین میں سے ہو۔ راوی نقل فرماتے ہیں کہ پھر حضرت عبادہ بن صامت نے ان سے نکاح فرمایا اور وہ سمندر میں سوار ہو گئیں جس وقت سمندر سے نکلیں تو ایک خچر لایا گیا وہ اس پر سوار ہو گئیں اور گر گئیں جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی۔

 

ہند میں جہاد کرنا

 

احمد بن عثمان بن حکیم، زکریا بن عدی، عبید اللہ بن عمرو، زید بن ابو انیسہ، سیار، ہشیم، سیار، جبر بن عبیدہ، عبید اللہ، جبیر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ ہند میں مسلمان جہاد کریں گے اگر وہ میری حیات میں ہوا تو میں اس کے واسطے اپنا جان و مال صرف کر دوں گا۔ چنانچہ اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں سب سے زیادہ افضل شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ بچ گیا تو میں ابو ہریرہ (جیسا) ہوں گا جو کہ عذاب دوزخ سے آزاد اور بری کر دیا گیا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، ہشیم، سیار ابو حکم، جبر بن عبیدہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث شریف کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم، اسد بن موسی، بقیہ، ابو بکرزبیدی، اخیہ محمد بن ولید، لقمان بن عامر، عبدالاعلی بن عدی، بہرانی ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غلام حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں سے دو طبقے ایسے ہیں جن کو خداوند قدوس دوزخ سے آزاد فرما دیں گے ان میں سے ایک طبقہ تو وہ ہے جو کہ ہند سے جہاد کرے گا جب کہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہو گا۔

 

ترکی اور حبشی لوگوں کے ساتھ جہاد سے متعلق

 

عیسیٰ بن یونس، ضمرہ، ابو زرعہ، ابو سکینہ، رجل من المحررین، رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خندق کی کھدائی کا حکم فرمایا تو اس وقت (یعنی خندق کھودنے کے وقت) ایک بڑا پتھر نکل آیا تو اس کی وجہ سے خندق کھودنے میں مشکل پیش آ گئی اور لوگوں کو اس کا توڑنا مشکل ہو گیا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ ہتھیار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جس سے پتھر توڑا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر مبارک خندق کے کنارہ پر رکھی اور یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آیت کریمہ تلاوت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہتھیار اٹھا کر مارا اور پتھر ٹوٹ کر گر پڑا اور مذکورہ بالا آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے تیرے پروردگار کا کلام سچائی اور انصاف میں پورا ہوا اور کوئی اس کی باتوں کو تبدیل کرنے والا نہیں اس وقت حضرت سلمان فارسی وہاں کھڑے تھے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مارنے کے وقت ایک بجلی جیسی چمک ہوئی۔ پھر دوسری مرتبہ وہ ہی آیت کریمہ تلاوت فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ہتھیار سے مارا۔ پھر ایسی ہی بجلی جیسی چمک ظاہر ہوئی اور دوسری تہائی پتھر سے الگ ہوئی تیسری مرتبہ آیت کریمہ تلاوت فرما کر جب مارا تو تیسرا ٹکڑا بھی گر گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے ہٹ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے پھر اپنی چادر مبارک لے کر تشریف فرما ہو گئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں دیکھ رہا تھا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چوٹ مار رہے تھے اس کے ساتھ ایک بجلی چمک رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم یہ بات دیکھ رہے تھے سلمان! اس پر حضرت سلمان نے عرض کیا اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دین حق دے کر بھیجا ہے میں نے دیکھا ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت میں نے پہلی چوٹ ماری تو میرے سامنے سے پردے ہٹا دئیے گئے یہاں تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے شہر فارس کے اور جو اس کے نزدیک کی بستیاں ہیں اور بہت سے شہر دیکھے ہیں جو لوگ اس جگہ موجود تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند قدوس سے دعا فرمائیں کہ وہ ان شہروں کو ہم لوگوں کے ہاتھوں فتح فرما دیں اور ہم لوگوں کو وہاں کا مال و دولت عطا فرما دے اور فرمایا کہ جس وقت میں نے دوسری چوٹ ماری تو قیصر کے شہر روم اور اس کے نزدیک کے علاقے سب کے سب میرے سامنے کر دئیے گئے۔ کہ جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا فرمائیں کہ خداوند قدوس ہم لوگوں کے ہاتھوں سے ان شہروں کو تباہ و برباد کر دے ہم لوگ وہاں کا مال غنیمت لوٹ لیں اور ہم کو ان پر فتح حاصل ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا فرمائی پھر ارشاد فرمایا جس وقت میں نے تیسری چوٹ ماری تو میرے سامنے حبشہ کے شہر اور اس کی آس پاس کی بستیاں کر دی گئیں جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ تم لوگ ترک اور حبشہ کے لوگوں کو اس وقت تک نہ چھیڑنا جس وقت تک وہ تم کو نہ چھڑیں (یعنی جب تک وہ لوگ تم پر حملہ نہ کریں تو تم بھی ان پر حملہ نہ کرنا)۔

 

کمزور شخص سے امداد لینا

 

محمد بن ادریس، عمر بن حفص بن غیاث، ابیہ، مسعر، طلحہ، مصرف، مصعب بن سعد، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا مقام حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دوسرے صحابہ کرام سے زیادہ ہے اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس اس امت کی امداد کمزور افراد کی دعا اور ان کے خلوص سے فرمائیں گے۔

 

 

٭٭ یحیی بن عثمان، عمر بن عبدالواحد، ابن جابر، زید بن ارطاۃ، جبیر بن نفیر، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے میرے واسطے تم لوگ کمزور لوگوں کو تلاش کیا کرو کیونکہ ان کی وجہ سے تم کو روزی پہنچائی جاتی ہے اور تم لوگوں کی امداد کی جاتی ہے۔

 

مجاہد کو جہاد کیلئے تیار کرنے کی فضیلت

 

سلیمان بن دواود، حارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر بن اشج، بسر بن سعید، حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کسی جہاد کرنے والے کو آمادہ کیا گویا کہ اس نے خود جہاد کیا اس طریقہ سے جس شخص نے مجاہد کے گھر کے لوگوں کی بھلائی کے ساتھ دیکھ بھال اور نگرانی کی تو گویا کہ اس نے بھی جہاد کیا۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، حرب بن شداد، یحیی، ابو سلمہبن عبدالرحمن، بسر بن سعید، زید بن خالد رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبداللہ بن ادریس، حصین بن عبدالرحمن، عمرو بن جاوان، حضرت احنف بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حج کرنے کے واسطے نکلے تو مدینہ منورہ گئے چنانچہ ہم لوگ ابھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر اپنی سواریاں تیار کر رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ لوگ مسجد میں اکھٹا ہیں اور کافی خوفزدہ ہیں۔ ہم لوگ گئے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ مسجد کے درمیان چاروں طرف اکٹھا ہیں ان میں حضرت علی حضرت طلحہ حضرت زبیر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم بھی شامل ہیں اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے ایک زرد رنگ کی چادر لپیٹ رکھی تھی جس سے کہ سر بھی ڈھکا ہوا تھا وہ فرمانے لگے کہ کیا حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت سعد رضی اللہ عنھم بھی موجود ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ وہ فرمانے لگے کہ میں تم کو اس اللہ کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص لوگوں کو مربد (یعنی اونٹ یا بکریاں باندھنے کی جگہ یا کھجوروں کے خشک کرنے کی جگہ) خریدے گا تو خداوند قدوس اس کی مغفرت فرما دے گا چنانچہ میں نے وہ مربد 20،25 ہزار میں خریدا اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو کر عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو ہم لوگوں کی مسجد میں شامل کر دو تم کو اس کا اجر ملے گا۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ خداوند قدوس گواہ ہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تم کو اس ذات کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے کہ کیا تم کو علم ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص روم کے کنوئیں خریدے گا تو خداوند قدوس اس کی مغفرت فرما دے گا چنانچہ میں نے اس کو اتنی اتنی مقدار اور رقم دے کر خریدا اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو کر عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو مسلمانوں کے پانی پینے کے واسطے وقف کر دو خداوند قدوس تم کو اس کا اجر عطا فرمائے گا انہوں نے کہا کہ جی ہاں اے خدا تو گواہ ہے پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر میں تم کو اس ذات کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے کہ کیا تم کو علم ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے چہروں کی جانب دیکھ کر فرمایا تھا کہ جو شخص ان کو جنگ کرنے کے واسطے تیار کرے گا تو خداوند قدوس اس کو معاف کر دے گا یعنی غزوہ تبوک کیلئے جاتے وقت میں نے ان کو اس طریقہ سے آمادہ کیا کسی کو اونٹ وغیرہ باندھنے یا اس کی لگام کے واسطے رسی کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی انہوں نے کہا جی ہاں۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے خدا تو گواہ ہے۔

 

راہ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق

 

محمد بن سلمہ و الحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں جوڑا خرچ کرے گا تو اس کو جنت میں اس طریقہ سے آواز دی جائے گی اے اللہ کے بندے یہ (خیر) تیرے واسطے ہے۔ چنانچہ جو شخص نمازی ہو گا تو اس کو وہ نماز کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو شخص مجاہد ہو گا تو اس کو باب جہاد سے اور جو خیرات کرنے والا ہو گا تو اس کو خیرات کے دروازہ سے اور جو روزہ دار شخص ہو گا تو اس کو باب ریان سے آواز دی جائے گی۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس کو ان میں سے ایک دروازہ سے آواز دی جائے گی اس کو کسی دوسرے دروازہ سے پکارے جانے کی ضرورت تو نہیں ؟ لیکن کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو گا کہ جو کہ ان تمام کے تمام دروازوں سے پکارا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں ! اور مجھ کو توقع ہے کہ تم ان ہی میں سے ہوں گے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیہ، اوزاعی، یحیی، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی راہ خدا میں کسی چیز کا ایک جوڑا دے گا تو اس کو جنت کے نگراں جنت کے دروازوں سے پکاریں گے اے فلاں ! تم اس طرف آ جاؤ اور تم لوگ اس طرف سے داخل ہو جاؤ۔ اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! وہ آدمی تو بالکل ہی نقصان میں نہیں رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم ان ہی میں سے ہو۔

 

 

٭٭ اسمعیل بن مسعود، بشر بن مفضل، یونس، حسن، صعصہ بن معاویہ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس مسلمان نے ہر قسم کے مال میں سے ایک جوڑا راہ خدا میں خرچہ کیا ہو گا تو جنت کے تمام محافظ اس شخص کے استقبال کے واسطے آئیں گے اور اپنی اپنی چیزوں کی جانب بلائیں گے راوی نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کس طریقہ سے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مثلا اگر اس شخص کے پاس اونٹ ہیں تو دو اونٹ دے دو اور یہ گائے ہیں تو دو گائے دے دو۔

 

 

٭٭ ابو بکر بن ابی نضر، ابو نضر، عبید اللہ اسجعی، سفیان ثوری، رکین فزاری، ابیہ، یسیر بن عمیلہ، حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک چیز خرچ کرتا ہے تو خداوند قدوس اس کے واسطے سات سو گنا اجر لکھ دیتے ہیں۔

 

اللہ کی راہ میں صدقہ دینے کی فضیلت

 

بشر بن خالد، محمد بن جعفر، شعبہ، سلیمان، ابو عمرو شیبانی، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک مہار والی اونٹنی راہ خدا میں صدقہ کے طور سے دی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے روز اس کے عوض سات سو مہار والی اونٹنیاں عطا ہوں گی۔

 

 

٭٭ حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جہاد دو قسم کاہے ایک تو یہ کہ کوئی آدمی خداوند قدوس کی رضا مندی کے واسطے جہاد کرے اور وہ امام کی فرما برداری کرے اور اپنی اعلی ٰ سے اعلی ٰ چیز (راہ خدا میں ) خرچ کرے اور اپنے ساتھی کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے اور فساد سے محفوظ رہے تو اس آدمی کا سونا جاگنا تمام کا تمام ثواب ہے لیکن جو کوئی ریاکاری یا دوسروں کو سنانے کے واسطے جہاد کرے اور امام کی نافرمانی کرے اور زمین پر فتنہ مچائے تو ایسے انسان کا اس حالت میں واپس آنا دشوار ہے (وہ شخص عذاب میں ضرور مبتلا ہو گا)۔

 

مجاہدین کی عورتوں کی حرمت

 

حسین بن حریث، محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد ماجد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خواتین مجاہدین غیر مجاہدین پر اس طریقہ سے حرام ہیں جس طریقہ سے ان کی مائیں اور اگر کوئی شخص مجاہدین کی خواتین کی نگرانی کرتے ہوئے خیانت (یعنی گناہ) کا ارتکاب کرے گا تو قیامت کے دن اس کو کھڑا کر دیا جائے گا اور مجاہد اس شخص کے اعمال میں سے جو دل چاہے وہ لے لے گا اب تمہاری کیا رائے ہے ؟ (خوب غور کر لو)۔

 

جو شخص مجاہد کے گھر والوں کے ساتھ خیانت کرے

 

ہارون بن عبد اللہ، حرمی بن عمارہ، شعبہ، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھر بیٹھنے والے پر خواتین مجاہدین اس طریقہ سے حرام ہیں جس طریقہ سے کہ ان پر ان کی مائیں۔ اس وجہ سے اگر کسی مجاہد نے کسی کو اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے واسطے مقرر کیا اور اس نے اس میں خیانت کی تو قیامت کے روز مجاہد سے کہا جائے گا کہ اس شخص نے تیرے گھر والوں کے متعلق تجھ سے خیانت کی تھی اس وجہ سے تم اس شخص کے نیک اعمال میں سے جس قدر دل چاہے لے سکتے ہو اب تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، قعنب کوفی، علقمہ بن مرثد، حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گھر بیٹھے رہنے والے لوگوں پر مجاہدین کی خواتین ان کی ماں کی طرح سے حرام ہیں اگر گھر بیٹھے رہنے والوں میں سے کوئی شخص کسی مجاہد کے مکان کی حفاظت کر نے کے دوران (خیانت اور گناہ) کا مرتکب ہو گا تو اس کو قیامت کے دن کھڑا کر دیا جائے گا اور مجاہد شخص سے کہا جائے گا اے فلاں شخص! یہ فلاں شخص ہے تم اس کے نیک اعمال میں سے جس قدر دل چاہے لے لو۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے صحابہ کرام کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا تمہاری کیا رائے ہے ؟ کیا وہ اس کے نیک اعمال میں سے کچھ باقی چھوڑ دے گا؟ (یعنی یقیناً تمام نیک اعمال لے لے گا)۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، حماد بنسلمہ، حمید ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنی زبانوں سے اور اپنے مال دولت سے جہاد کرو۔

 

 

٭٭ ابو محمد موسیٰ بن محمد، میمون بن اصبغ، یزید بن ہارون، شریک، ابو اسحاق، قاسم بن عبدالرحمن ، ابیہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سانپوں کو ہلاک کر ڈالنے کا حکم کیا اور فرمایا جو کوئی ان کے بدلہ سے خوف کرے گا اس کا ہم میں سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، جعفر بن عون، ابو عمیس، عبداللہ بن عبداللہ بن جبر، حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت جبیر رضی اللہ عنہ کی مزاج پرسی کے واسطے تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواتین کو روتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں کہ ہماری آرزو تھی کہ تم لوگ جہاد میں شہید ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم لوگ اس شخص کو شہید خیال کرتے ہو جو جہاد میں شہید ہو؟ اگر ایسا ہوتا تو لوگوں میں بہت کم شہدا ہوتے لیکن جہاد میں مارے جانے والا شخص شہید ہے اور پیٹ کے مرض میں مرنے والا شخص شہید ہے اور جل کر مرنے والا شخص شہید ہے اور ڈوب کر مرنے والا شخص شہید ہے اور مرض ذات الجنب میں مرنے والا شخص شہید ہے پھر ایک آدمی نے عرض کیا کہ کیا تم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں رو رہی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو رونے دو اس لیے کہ مرنے سے قبل رونا ممنوع نہیں ہے لیکن جب کوئی شخص مر جائے تو پھر رونے والا نہ روئے

 

 

٭٭ احمد، بن یحیی، اسحاق بن منصور، داؤد ، عبدالملک بن عمیر، حضرت جبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک جنازہ میں تشریف لے گئے تو خواتین رو رہی تھیں۔ اس پر جبر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا تم لوگوں میں تو ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہیں اور تم رو رہی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو چھوڑ دو جس وقت تک وہ ان میں (زندہ) موجود ہیں رونے دو لیکن جس وقت مر جائے تو کوئی رونے والی خاتون نہ روئے (یعنی نہ کوئی مرد روئے اور نہ ہی عورت)۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید