FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

سنن ابن ماجہ

 

حصہ سوم

امام ابن ماجہ

جنازوں کا بیان

بیمار کی عیادت

ہناد بن سری، ابو الاحوص، ابو  اسحاق ، حارث، حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان کے مسلمان کے ذمہ چھ حق ہیں۔ جب اس سے ملاقات ہو تو سلام کرے اگر وہ دعوت کرے تو قبول کرے جب چھینکے تو اس کو (یَرحَمُکَ اللہ) کہہ جواب دے بیمار ہو تو عیادت کرے اور فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ میں شریک ہو اور اس کے لئے وہ سب کچھ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہو۔   ٭٭ ابو بشر بکر بن خلف و محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، عبد الحمید بن جعفر، جعفر، حکیم بن افلح، حضرت ابو مسعود سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان کے (دوسرے ) مسلمان پر چار حق ہیں جب چھینکے تو جواب دے بلائے تو اس کے پاس جائے مر جائے تو جنازہ میں شریک ہو بیمار ہو جائے تو عیادت کرے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا دعوت قبول کرنا جنازہ میں شریک ہونا بیمار کی عیادت کرنا چھینکنے پر (اَلحَمدُ للہ) کہے تو (یَرحَمُکَ اللہ) کہنا۔   ٭٭ محمد بن عبد اللہ صنعانی، سفیان، منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر چل کر میری عیادت کو تشریف لائے جبکہ میں بنو سلمہ میں تھا (مدینہ سے دو میل دور ہے )۔   ٭٭ ہشام بن عمار، مسلمہ بن علی، ابن جریج، حمید طویل، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین رات بعد بیمار کی عیادت فرماتے تھے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عقبہ بن خالد سکونی، موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی، محمد بن ابراہیم تیمی، حضرت ابو سعید خدری بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس کو زندگی کی امید دلاؤ کیونکہ یہ کسی چیز کو لوٹا تو نہیں سکتا لیکن بیمار کے دل کو خوش کر دیتا ہے۔   ٭٭ حسن بن علی خلال، صفوان بن ہبیرۃ، ابو مکین، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد کی عیادت کی تو اس کو پوچھا کس چیز کی خواہش ہے؟ کہنے لگا گندم کی روٹی کی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے پاس گندم کی روٹی ہو تو اپنے بھائی کے ہاں بھیج دے پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے بیمار کو کسی چیز کی خواہش ہو تو اس کو وہ چیز کھلا دے۔   ٭٭ سفیان بن وکیع، ابو یحییٰ حمانی، اعمش، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بیمار کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ آپ نے پوچھا کس چیز کی خواہش ہے؟ کیا روٹی کی خواہش ہے؟ کہنے لگا جی۔ تو لوگوں نے اس کیلئے روٹی منگوائی۔   ٭٭ جعفر بن مسافر، کثیر بن ہشام، جعفر بن برقان، میمون بن مہران، حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرمایا جب تم بیمار کے پاس جاؤ اس سے کہو کہ تمہارے حق میں دعا کرے کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کے برابر ہے۔

بیمار کی عیادت کا ثواب

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، حکم، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے آ رہا ہو تو وہ جنت میں چل رہا ہے یہاں تک کہ بیٹھ جائے اور جب وہ بیٹھ جائے تو رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے اگر صبح کا وقت ہو تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے رحمت و بخشش کی دعا کرتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔   ٭٭ محمد بن بشار، یوسف بن یعقوب، ابو سنان قسملی، عثمان بن ابی سودۃ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کسی بیمار کی عیادت کرے تو آسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ تم نے خوب کیا اور تمہارا چلنا بھی پسندیدہ ہے اور تم نے جنت میں گھر بنا لیا۔

میّت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، یزید بن کیسان، ابو حازم ، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے مردوں (یعنی قریب المرگ) کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی تلقین کیا کرو۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرحمن بن مہدی، سلیمان بن بلال، عمارۃ بن غزیہ، یحییٰ بن عمارۃ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے مرنے والوں کو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہِ کی تلقین کیا کرو۔   ٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، کثیر بن یزید، اسحاق بن عبد اللہ بن جعفر، حضرت عبد اللہ بن جعفر فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے مرنے والوں کو ان کلمات کی تلقین کیا کرو لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! زندہ کیلئے یہ دعا پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا بہت عمدہ ہے بہت عمدہ ہے۔

موت کے قریب بیمار کے پاس کیا بات کی جائے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم بیمار یا مرنے والے کے پاس جاؤ تو بھلائی کی بات کہو کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔ جب ابو  سلمہ کا انتقال ہوا تو میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! ابو  سلمہ فوت ہو گئے۔ آپ نے فرمایا یہ دعا مانگو اے اللہ میری اور ان کی بخشش فرما دیجئے اور مجھے ان کا بہتر بدل عطا فرما دیجئے۔ ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے یہ دعا مانگ لی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عطا فرما دیئے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن حسن بن شقیق، ابن مبارک، سلیمان تیمی، عثمان، حضرت معقل بن یسار فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے مردوں (قریب المرگ) کے پاس سورۃ یٰسین پڑھا کرو۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، یزید بن ہارون، محمد بن اسماعیل، محاربی، محمد بن اسحاق ، حارث بن فضیل، زہری، عبد الرحمن بن کعب بن مالک، حضرت کعب بن مالک کی وفات کا جب وقت آیا تو حضرت ام بشر بنت براء بن معرور آئیں اور کہنے لگیں ایابو عبد الرحمن اگر تم فلاں سے ملو تو اس کو میری طرف سے سلام کہنا۔ کہنے لگے اے ام بشر اللہ تمہاری مغفرت فرمائے ہمیں اتنی فرصت کہاں ہو گی (کہ سلام پہنچائیں ) تو کہنے لگیں اے ابو عبد الرحمن تم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے نہ سنا کہ مؤمنین کی روحیں پرندوں میں ہوتی ہیں جو جنت کے درخت سے لٹکتے پھرتے ہیں کہنے لگے کیوں نہیں (ضرور سنا ہے ) کہنے لگیں بس پھر یہی بات ہے۔   ٭٭ احمد بن ازہر، محمد بن عیسیٰ، یوسف بن ماجشون، محمد بن منکدر، حضرت محمد بن منکد رحمۃ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ کے پاس گیا وہ قریب المرگ تھے تو میں نے عرض کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کیجئے گا۔

مومن کو نزع یعنی موت کی سختی میں اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے

ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، اوزاعی، عطاء، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس آئے اس وقت ان کے پاس ان کا ایک رشتہ دار بھی تھا جن کا دم گھٹ رہا تھا (موت قریب تھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ کی پریشانی کو دیکھا تو فرمایا اپنے رشتہ دار پر غمگین مت ہونا کیونکہ یہ بھی اس کی نیکیوں میں سے ہے۔   ٭٭ بکر بن خلف ابو بشر، یحییٰ بن سعید، مثنی بن سعید، قتادۃ، ابن بریدۃ، حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن پیشانی کے پسینہ سے مرتا ہے۔   ٭٭ روح بن فرج، نصر بن حماد، موسیٰ بن کر دم، محمد بن قیس، ابو بردۃ، حضرت ابو  موسیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا بندے کی لوگوں سے جان پہچان کب ختم ہو جاتی ہے فرمایا جب مشاہدہ کر لے (آخرت کی چیزوں مثلاً ملائکہ وغیرہ گا)۔

میّت کی آنکھیں بند کرنا

اسماعیل بن اسد، معاویہ بن عمرو، ابو  اسحاق فزاری، خالد حذاء، ابو قلابہ، قبیصہ بن ذویب، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابو  سلمہ کے پاس آئے۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں آپ نے ان کی آنکھیں بند کر دیں پھر فرمایا جب روح قبض ہوتی ہے تو نگاہ اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔   ٭٭ ابو داؤد سلیمان بن توبہ، عاصم بن علی، قزعہ بن سوید، حمید اعرج، زہری، محمود بن لبید، شداد، حضرت شداد بن اوس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جب تم اپنے مردوں کے پاس جاؤ تو ان کی آنکھیں بند کر دو اس لئے کہ نگاہ روح کے پیچھے پیچھے جاتی ہے اور بھلی بات کہو اس لئے کہ فرشتے میّت والوں کی بات پر آمین کہتے ہیں۔

میّت کا بوسہ لینا

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، عاصم بن عبید اللہ، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عثمان بن مظعون کے مرنے کے بعد ان کا بوسہ لیا۔ گویا وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ آپ کے آنسو رخساروں پر بہہ رہے ہیں۔   ٭٭ احمد بن سنان و عباس بن عبد العظیم و سہل بن ابی سہل، یحییٰ بن سعید، سفیان، موسیٰ بن ابی عائشہ، عبید اللہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر نے آپ کا بوسہ لیا۔

میّت کو نہلانا

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الوہاب، ثقفی، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے ہم آپ کی صاحبزادی ام کلثوم کو نہلا رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا اگر تم مناسب سمجھو تو پانی میں بیری کے پتے ڈال کر تین یا پانچ یا اس سے زائد مرتبہ ان کو غسل دو اور آخری مرتبہ تھوڑا سا کافور بھی ملا لینا اور جب غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع کر دینا۔ جب ہم فارغ ہوئیں تو ہم نے اطلاع کر دی آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا اور کہا یہ ان کے اندر کا کپڑا بنا دو۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الوہاب ثقفی، ایوب، حفصہ، ام عطیہ دوسری روایت بھی ویسی ہی ہے جیسے اوپر گزری اور اس میں یہ بھی ہے کہ ان کو طاق مرتبہ غسل دو اور پہلی روایت میں تھا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو اور اس میں یہ بھی ہے کہ دائیں سے ابتداء کرو اور اعضاء وضو سے شروع کرو اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ام عطیہ نے کہا کہ ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کر کے تین چوٹیاں بنا دیں۔   ٭٭ بشر بن آدم، روح بن عبادۃ ابن جریج، حبیب بن ابی ثابت، عاصم بن ضمرۃ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ارشاد فرمایا اپنی ران ننگی نہ کرنا اور کسی زندہ یا مردہ کی ران پر (بھی) نظر نہ ڈالنا۔   ٭٭ محمد بن مصفی حمصی، بقیہ بن ولید، مبشر بن عبید، زید بن اسلم، حضرت عبد اللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چاہئے کہ تمہارے مردوں کو با اعتماد لوگ غسل دیں۔   ٭٭ علی بن محمد، عبد الرحمن محاربی، عباد بن کثیر، عمرو بن خالد، حبیب بن ابی ثابت، عاصم بن ضمرۃ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کسی میّت کو نہلائے کفن پہنائے خوشبو لگائے اور اس کو اٹھائے نماز جنازہ پڑھے اور کوئی عیب وغیرہ دیکھا تو اس کو ظاہر نہ کرے وہ اپنی خطاؤں سے ایسے پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے پیدائش کے دن تھا۔   ٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہل بن ابی صالح، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کسی میّت کو غسل دے تو اس کو (بعد میں ) خود بھی غسل کر لینا چاہئے۔

مرد کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو غسل دینا

محمد بن یحییٰ، احمد بن خالد زہبی، محمد بن اسحاق ، یحییٰ بن عباد بن عبد اللہ بن زبیر، عباد بن عبد اللہ زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ اگر مجھے پہلے وہ خیال آ جاتا جو بعد میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات ہی غسل دیتیں۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، احمد بن حنبل، محمد بن سلمہ، محمد بن اسحاق ، یعقوب بن عتبہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بقیع سے واپس تشریف لائے تو مجھے اس حالت میں پایا کہ میرے سر میں درد تھا اور میں کراہ رہی تھی ہائے میرا سر۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! میں کہتا ہوں ہائے میرا سر (یعنی میرے سر میں بھی درد ہے ) پھر فرمایا اگر تم مجھ سے قبل فوت ہو جاؤ تو تمہارا کیا نقصان میں تمہارا کام کروں گا غسل دوں گا کفن دوں گا اور تمہارا جنازہ پڑھا کر دفن کر دوں گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کیسے غسل دیا گیا؟

سعید بن یحییٰ بن ازہر واسطی، ابو معاویہ، ابو بردہ، علقمہ بن مرثد، ابن بریدہ، حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غسل دینے لگے تو اندر سے کسی پکارنے والے نے پکارا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قمیص نہ اتارنا  (اس سے قبل صحابہ اکرام تردد میں تھے کہ غسل کے لئے کپڑے اتاریں یا نہیں)۔   ٭٭ یحییٰ بن حذام، صفوان بن عیسیٰ، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ نبی کو غسل دیا تو ڈھونڈ نے لگے اس چیز کو جس کو عام میّت میں ڈھونڈتے ہیں (یعنی پیٹ وغیرہ ذرا دبا کر دیکھتے ہیں کہ نجاست نکلے تو صاف کر دیں ) سو ان کو کچھ نہ ملا تو فرمایا آپ پر میرا باپ قربان ہو۔ آپ پاک صاف ہیں زندگی میں بھی پاک صاف رہے اور وفات کے بعد بھی پاک صاف رہے۔   ٭٭ عباد بن یعقوب، حسین بن زید بن علی بن حسین بن علی، اسماعیل بن عبد اللہ بن جعفر، عبد اللہ بن جعفر، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب میں مر جاؤں تو مجھے میرے کنویں بیئر عرس سے سات مشکوں سے غسل دینا۔

نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کفن

ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ان میں قمیص تھی نہ پگڑی۔ تو حضرت عائشہ سے کسی نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کو دھاری دار سرخ چادر میں کفنایا گیا۔ فرمایا لوگ یہ چادر لائے تھے لیکن اس میں کفن نہیں دیا گیا۔   ٭٭ محمد بن خلف عسقلانی، عمرو بن ابی سلمہ، سلیمان بن موسی، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تین باریک سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا جو سحول (یمن کا ایک گاؤں ہے ) کے بنے ہوئے تھے۔   ٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن ادریس، یزید بن ابی زیاد، حکم، مقسم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تین کپڑوں میں کفنایا گیا آپ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قمیص جس میں انتقال ہوا اور نجرانی جوڑا۔

مستحب کفن

محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء مکی، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے بہترین کپڑے سفید کپڑے ہیں اس لئے انہی میں اپنے مردوں کو کفناؤ اور (زندگی میں ) انہی پہنا کرو۔   ٭٭ یونس بن عبد الاعلی، ابن وہب، ہشام بن سعد، حاتم بن ابی نصر، عبادۃ بن نسمی، حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین کفن جوڑا (یعنی ازار و چادر) ہے۔   ٭٭ محمد بن بشار، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابو قتادہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا متولی ہو تو اس کو اچھا کفن دے۔   ٭٭ محمد بن اسماعیل بن سمرۃ، ابو شیبہ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو کفن میں نہ لپیٹو تاکہ میں اس کا دیدار کر لوں۔ پھر آپ ان کے قریب ہوئے ان پر جھکے اور رو دیئے۔

موت کی خبر دینے کی ممانعت

عمر بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، حبیب بن سلیم، حضرت بلال بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ جب حضرت حذیفہ کے ہاں کسی کا انتقال ہو جاتا تو فرماتے کسی کو خبر نہ کرنا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہیں یہ نعی نہ جائے میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نعی (موت کی خبر دینے ) سے منع فرماتے ہے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنازے میں جلدی کرو اگر اچھا شخص تھا تو تم اس کو بھلائی کی طرف بڑھا رہے ہو اور اگر کچھ اور تھا تو شر کو اپنی گردنوں سے ہٹا رہے ہو۔   ٭٭ حمید بن مسعدہ حماد بن زید، منصور، عبید بن نسطاس، ابو عبیدۃ، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا جو کوئی جنازے کے ساتھ چلے تو چارپائی کی چاروں جانب سے (باری باری) اٹھائے کیونکہ یہ سنت ہے اس کے بعد اگر چاہے تو نفل کے طور پر اٹھا لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔   ٭٭ محمد بن عبید بن عقیل، بشر بن ثابت، شعبہ، لیث، ابو بردۃ، حضرت ابو  موسیٰ سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا ایک جنازہ کو لوگوں جلدی جلدی لے جا رہے ہیں تو فرمایا تم پر سکون اور وقار کی کیفیت ہونی چاہئے۔   ٭٭ کثیر بن عبید حمصی، بقیہ بن ولید، ابو بکر بن ابی مریم، راشد بن سعد، رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک جنازے میں کچھ لوگوں کو سواریوں فرشتے پیدل جا رہے ہیں اور تم سوار ہو۔   ٭٭ محمد بن بشار، روح بن عبادۃ، سعید بن عبید اللہ بن جبیر بن حیہ، زیاد بن جبیر بن حیہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا سوار جنازے کے پیچھے پیچھے رہے اور پیدل جہاں چاہے چلے۔

جنازہ کے سامنے چلنا

علی بن محمد و ہشام بن عمار و سہل بن ابی سہل، سفیان، زہری، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر و عمر کو جنازے کے سامنے بھی چلتے دیکھا۔   ٭٭ نصر بن علی جہضمی و ہارون بن عبد اللہ حمال، محمد بن بکر برسانی، یونس بن یزید ایلی، زہری، حضرت انس بن مالک بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرات ابو بکر عمر اور عثمان جنازے کے سامنے چلا کرتے تھے۔   ٭٭ احمد بن عبدۃ، عبد الواحد بن زیاد، یحییٰ بن عبد اللہ تیمی، ابو ماجدۃ حنفی، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنازے کے پیچھے چلنا چاہیئے جنازہ کے آگے نہیں چلنا چاہئے جو جنازہ سے آگے چلے وہ جنازے کے ساتھ نہیں۔

جنازے کے ساتھ سوگ کا لباس پہننے کی ممانعت

احمد بن عبدۃ، عمرو بن نعمان، علی بن حزور، نفیع، حضرت عمران بن حصین اور ابو برزور فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک جنازے میں گئے تو کچھ لوگوں کو دیکھا کہ چادریں پھینک کر قمیصیں پہنے چل رہے ہیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا جاہلیت کے کام کر رہے ہو یا جاہلیت کے طور طریقہ کی مشابہت اختیار کر رہے ہو میں ارادہ کر چکا تھا کہ تمہارے لئے ایسی بد دعا کروں کہ صورتیں مسخ ہو کر لوٹو۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے چادریں لے لیں اور دوبارہ ایسا نہ کیا۔

جب جنازہ آ جائے تو نماز جنازہ میں تاخیر نہ کی جائے اور جنازے کے ساتھ آگ نہیں ہونی چاہئے

حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، سعید بن عبد اللہ جہنی، محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب، عمر بن علی بن ابی طالب، حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب جنازہ آ جائے تو نماز جنازہ میں تاخیر نہ کیا کرو۔   ٭٭ محمد بن عبد الاعلی صنعانی، معتمر بن سلیمان، فضیل بن میسرۃ، ابو جریر، ابو بردۃ، حضرت ابو  موسیٰ کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو وصیت فرمائی دھونی دان (جس سے خوشبو کی دھونی دی جاتی ہے ) میرے ساتھ نہ لے جانا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اس بارے میں کچھ سن رکھا ہے؟ فرمایا جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے۔

جس کا جنازہ مسلمانوں کی ایک جماعت پڑھے

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ، شیبان، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کا جنازہ سو مسلمان پڑھیں اس کی مغفرت کر دی جائے گی۔   ٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی، بکر بن سلیم، حمید بن زیاد خراط، کریب مولی عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ابن عباس کے ایک بیٹے کا انتقال ہوا تو مجھے فرمانے لگے اے کریب ! اٹھ کر دیکھو میرے بیٹے کی خاطر کوئی جمع ہوا؟ میں نے کہا جی کہنے لگے افسوس! کیا خیال ہے چالیس ہوں گے؟ میں نے کہا نہیں ! بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ فرمایا پھر میرے بیٹے کو (نماز کیلئے ) باہر لے جاؤ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس مؤمن کی شفاعت چالیس اہل ایمان کریں اللہ ان کی شفاعت قبول فرما لیتے ہیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبد اللہ یزفی، حضرت مالک بن ہبیرہ شامی جن کو شرف صحبت حاصل ہے ان کے پاس جب کوئی جنازہ آتا اور اس کے شرکاء کم معلوم ہوتے تو ان کو تین صفوں میں تقسیم کر دیتے۔ پھر جنازہ پڑھاتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس میّت پر مسلمانوں کی تین صفیں جنازہ پڑھیں اس کیلئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔

میّت کی تعریف کرنا

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اس کی خوبیاں اور تعریفیں کی گئیں۔ آپ نے فرمایا واجب ہو گئی (یعنی جنت) پھر ایک اور جنازہ گزرا جس کی برائیاں ذکر کی گئیں تو آپ نے فرمایا واجب ہو گئی (دوزخ) تو عرض کیا گیا اس کے لئے بھی واجب ہو گئی اور اس کے لئے بھی واجب ہو گئی؟ فرمایا لوگوں کی گواہی ہے۔ اہل ایمان زمین میں اللہ کے گواہ ہیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا اس کی خوبیاں اور بھلائیں ذکر کی گئیں۔ آپ نے فرمایا واجب ہو گئی پھر ایک اور جنازہ گزرا اس کی برائیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا واجب ہو گئی تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو

نماز جنازہ کے وقت امام کہاں کھڑا ہو؟

علی بن محمد، ابو اسامہ، حسین بن ذکوان، عبد اللہ بن بریدۃ اسلمی، حضرت سمرۃ بن جندب فزاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک عورت کا جنازہ پڑھایا جو حالت زچگی میں فوت ہوئی تھی۔ آپ اس کے وسط کے مقابل کھڑے ہوئے۔   ٭٭ نصر بن علی جہضمی، سعید بن عامر، ہمام، حضرت ابو غالب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ انس بن مالک نے ایک مرد کا جنازہ پڑھا تو اس کے سر کے مقابل کھڑے ہوئے۔ پھر ایک عورت کا جنازہ آیا تو لوگوں نے کہا یا ابو حمزہ اس کا جنازہ پڑھا دیجئے۔ آپ چارپائی کے وسط کے مقابل کھڑے ہوئے اس پر علاء بن زیاد نے ان سے کہا کہ یا ابو حمزہ ! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح دیکھا کہ مرد اور عورت کے جنازہ میں اسی اسی جگہ کھڑے ہوئے جہاں جہاں آپ کھڑے ہوئے؟ فرمانے لگے جی ! پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یاد رکھو۔

نماز جنازہ میں قرأت

احمد بن منیع، زید بن حباب، ابراہیم بن عثمان، حکم، مقسم، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنازہ میں فاتحۃ الکتاب پڑھی۔   ٭٭ عمرو بن ابی عاصم نبیل و ابراہیم بن مستمر، ابو عاصم، حماد بن جعفر عبدی، شہر بن حوشب، حضرت ام شریک انصاریہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں جنازے میں سورۃ فاتحۃ پڑھنے کا حکم دیا۔

نماز جنازہ میں دعا

ابو عبید محمد بن عبید بن میمون مدینی، محمد بن سلمہ حرانی، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی، ابو  سلمہ بن عبد الرحمن ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جب تم میّت کا جنازہ پڑھو تو خلوص کے ساتھ میّت کے لئے دعا کیا کرو۔   ٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، محمد بن اسحاق ، محمد بن ابراہیم، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کوئی جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الْإِیمَانِ اللَّہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہُ اے اللہ ! بخش دیجئے ہمارے زندوں کو اور مردوں کو حاضر کو اور غائب کو چھوٹے کو اور بڑے کو مرد کو اور عورت کو یا اللہ آپ ہم میں سے جس کو زندہ رکھیں تو سلام پر اور موت دیں تو ایمان پر اے اللہ ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرمایئے اور اس کے بعد گمراہ نہ ہونے دیجئے۔   ٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، مروان بن جناح، یونس بن میسرۃ بن حلبس، حضرت واثلہ بن اسقع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مسلمان مرد کا جنازہ پڑھایا تو میں آپ کو یہ پڑھتے سن رہا تھا اللَّہُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِی ذِمَّتِکَ وَحَبْلِ جِوَارِکَ فَقِہِ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ النَّارِ وَأَنْتَ أَہْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ فَاغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ اے اللہ ! فلاں بن فلاں آپ کے ذمہ میں ہے اور آپ کی پناہ کی رسّی میں ہے۔ لہذا اس کو قبر کی آزمائش اور دوزخ کے عذاب سے بچا دیجئے آپ وفا اور حق والے ہیں اس کو بخش دیجئے اس کو پر رحم فرمایئے بلاشبہ آپ بہت بخشنے والے اور مہربان ہیں۔   ٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد طیالسی، فرج بن فضالہ، عصمۃ بن راشد، حبیب بن عبید، حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انصاری مرد کا جنازہ پڑھا میں حاضر تھا میں نے سنا آپ فرما رہے تھے اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ وَاغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہُ وَاغْسِلْہُ بِمَائٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ وَنَقِّہِ مِنْ الذُّنُوبِ وَالْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْہُ بِدَارِہِ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ وَأَہْلًا خَیْرًا مِنْ أَہْلِہِ وَقِہِ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ اے اللہ ! اس شخص پر اپنی رحمت اتارئیے اس کی بخشش فرما دیجئے اس پر رحم فرمایئے اس کو عافیت میں رکھئے اور اس کو دھو دیجئے پانی برف اولوں سے اور اس کو گناہوں اور خطاؤں سے ایسے صاف کر دیجئے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف کر دیا جاتا ہے اور اس کو اس کے گھر سے بہتر گھر اور گھر والوں سے بہتر گھر والے عطا فرما دیجئے اور اس کو بچا دیجئے قبر کے فتنے اور دوزخ کے عذاب سے۔ حضرت عوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس جگہ تمنا ہونے لگی کہ کاش یہ میّت میں ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتنی دعاؤں کو حاصل کرتا۔   ٭٭ عبد اللہ بن سعید، حفص بن غیاث، حجاج، ابو زبیر، حضرت جابر نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر و عمر نے ہمیں کسی بات میں اتنی چھوٹ نہ دی جتنی نماز جنازہ میں کہ اس کا وقت مقرر فرمایا۔

جنازے کے چار تکبیریں

یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرۃ بن عبد الرحمن، خالد بن ایاس، اسماعیل بن عمرو بن سعید بن عاص، عثمان بن عبد اللہ بن حکم بن حارث، حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عثمان بن مظعون کے جنازہ میں چار تکبیریں کہیں۔   ٭٭ علی بن محمد، عبد الرحمن محاربی، حضرت ابو بکر ہجری کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ رسول حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی اسلمی کے ساتھ ان کی بیٹی کی نماز جنازہ پڑھی۔ آپ نے چار تکبیریں کہی اور چوتھی تکبیر کے بعد کچھ دیر خاموش رہے تو دیکھا کہ لوگ صفوں کی اطراف سے سُبْحَانَ اللَّہِ سُبْحَانَ اللَّہِ کہہ رہے ہیں تو سلام پھیرا اور کہا کہ تمہارا خیال ہو گا کہ پانچویں تکبیر کہنے لگا ہوں۔ لوگوں نے کہا ہمیں اس کا خدشہ ہو رہا تھا۔ فرمایا میں ایسا نہیں کرتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار تکبیریں کہہ کر کچھ دیر ٹھہرتے پھر کچھ پڑھ کر سلام پھیرتے۔   ٭٭ ابو ہشام رفاعی و محمد بن صباح و ابو بکر بن خلاد، یحییٰ بن یمان، منہال بن خلیفہ، حجاج، عطاء، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (جنازہ کی نماز میں ) چار تکبیریں کہیں۔

جنازے میں پانچ تکبیریں

محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، یحییٰ بن حکیم، ابن ابی عدی و ابو داؤد، شعبہ، عمرو بن مرۃ، حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں حضرت زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے پوچھا؟ (جواباً) فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ تکبیریں بھی کہیں۔   ٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی، ابراہیم بن علی رافعی، کثیر بن عبد اللہ اپنے والد سے اور وہ داد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہیں۔

بچے کی نماز جنازہ

محمد بن بشار، روح بن عبادۃ، سعید بن عبید اللہ بن جبیر بن حیہ، زیاد بن جبیر، ابو جبیر بن حیہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔   ٭٭ ہشام بن عمار، ربیع بن بدر، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بچہ روئے (یعنی اس کے زندہ ہونے کا علم ہو جائے ) تو اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی اور وراثت بھی جاری ہو گی۔   ٭٭ ہشام بن عمار، بختری بن عبید، عبید، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے بچوں کی نماز جنازہ پڑھا کرو کیونکہ وہ تمہارے لئے پیش خیمہ ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے کی وفات اور نماز جنازہ کا ذکر

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، حضرت اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہے کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی سے کہا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے جناب ابراہیم کی زیارت کی؟ کہنے لگے کم سنی میں ان کا انتقال ہو گیا اور اگر محمد کے بعد کسی نبی نے آنا ہوتا تو آپ کے صاحبزادے زندہ رہتے (اور بڑے ہو کر نبی بنتے ) لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔   ٭٭ عبد القدوس بن محمد، داؤد بن شبیب باہلی، ابراہیم بن عثمان، حکم بن عتیبہ، مقسم حضرت ابن عباس فرماتے ہی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے جناب ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنازہ پڑھایا اور فرمایا جنت میں اس کو دودھ پلانے والی بھی ہے اور اگر یہ زندہ رہتا تو صدیق نبی ہوتا اور اگر یہ زندہ رہتا تو اس کے ننھیال کے لوگ قبطی آزاد ہو جاتے پھر کوئی قبطی غلام نہ بنتا۔   ٭٭ عبد اللہ بن عمران، ابو داؤد، ہشام بن ابی الولید، ام ہشام، فاطمہ بنت حسین، حضرت حسین بن علی فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو خدیجہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! قاسم کی چھاتی کا دودھ زائد ہو گیا کاش اللہ تعالیٰ اس کو رضاعت پوری ہونے تک زندگی عطا فرماتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی رضاعت جنت میں پوری ہو گی۔ عرض کرنے لگیں اے اللہ کے رسول! اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے تو میرا غم ذرا ہلکا ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں پھر اللہ تعالیٰ تمہیں قاسم کی آواز سنوا دیں۔ خدیجہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس کی بجائے میں اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کرتی ہوں۔

شہداء کا جنازہ پڑھنا اور ان کو دفن کرنا

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو بکر بن عیاش، یزید بن زیاد، مقسم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ احد کے روز شہداء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا گیا آپ نے دس دس پر جنازہ پڑھنا شروع کیا اور حضرت حمزہ جوں کے توں رکھے رہے اور باقی شہداء اٹھا لئے جاتے ان کو نہ اٹھایا جاتا۔   ٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن شہاب، عبد الرحمن بن کعب بن مالک، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شہداء احد میں سے دو یا تین کو ایک کفن میں لپیٹتے اور پوچھتے کہ ان میں کس کو زیادہ قرآن یاد تھا جس کی طرف اشارہ کیا جاتا۔ لحد میں اس کو آگے رکھتے اور فرماتے میں ان سب کا گواہ ہوں اور خون سمیت ان کو دفن کرنے کا حکم دیا اور نہ کا جنازہ پڑھا نہ ان کو غسل دیا گیا۔   ٭٭ محمد بن زیاد، علی بن عاصم، عطاء بن سائب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شہداء اسلحہ اور زائد لباس اتارنے اور خون اور کپڑوں سمیت دفن کرنے کا حکم دیا۔   ٭٭ ہشام بن عمار و سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، اسود بن قیس، نبیحا عنزی، حضرت جابر بن عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شہداء احد کو واپس ان کی جائے شہادت لے جانے کا حکم دیا جبکہ ان کو مدینہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

مسجد میں نماز جنا زہ

علی بن محمد، وکیع، ابو ذئب، صالح مولی توامہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھے اس کو کچھ بھی نہ ملا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، فلیح بن سلیمان، صالح بن عجلان، عباد بن عبد اللہ بن زبیر، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں بخدا ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سہیل بن بیضاء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔

جن اوقات میں میّت کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور دفن نہیں کرنا چاہئے

علی بن محمد، وکیع، عمر بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، موسیٰ بن علی بن رباح، حضرت عقبہ بن عامر جہنی بیان فرماتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں نماز پڑھنے اور مردوں کو دفنانے سے منع فرماتے تھے۔ جب سورج طلوع ہو رہا ہو اور جب ٹھیک دوپہر ہو۔ یہاں تک کہ زوال ہو جائے اور جب سورج ڈوبنے کے قریب ہو یہاں تک کہ ڈوب جائے۔   ٭٭ محمد بن صباح، یحییٰ بن یمان، منہال بن خلیفہ، عطاء، حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد کو رات کے وقت قبر میں داخل کیا اور دفن کرتے وقت روشنی کی۔   ٭٭ عمرو بن عبد اللہ اودی، وکیع، ابراہیم بن یزید مکی، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے مردوں کو رات کو نہ دفن کرنا الا یہ کہ مجبوری ہو (اور دن میں دفن نہ کیا جا سکا ہو   ٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، ابن لہیعہ، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنے مردوں پر دن رات میں جنازہ پڑھ سکتے ہو۔

اہل قبلہ کا جنازہ پڑھنا

ابو بشر بکر بن خلف، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی (رئیس المنافقین) مرا تو اس کا بیٹا نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! مجھے اپنی قمیص دیجئے میں اس کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے فرمایا جب (جب جنازہ تیار ہو تو) مجھے اطلاع کر دینا۔ جب نبی نے اس کا جنازہ پڑھنا چاہا تو عمر نے کہا یہ آپ کے لائق نہیں (کیونکہ یہ رئیس المنافقین ہے اس لئے کوئی اور پڑھ لے ) لیکن نبی نے اس کا جنازہ پڑھا اور حضرت عمر سے فرمایا مجھے چیزوں میں اختیار دیا گیا۔ منافقوں کیلئے استغفار کروں یا نہ کروں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ) 9۔ التوبہ:84) منافقوں میں سے کوئی مر جاۓ تو کبھی اس کا جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔   ٭٭ عمار بن خالد واسطی و سہل بن ابی سہل، یحییٰ بن سعید، مجالد، عامر، جابر فرماتے ہیں کہ مدینہ میں منافقین کا سرغنہ مرا اور اس نے وصیت کی کہ اس کا جنازہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پڑھائیں اور اس کو اپنی قمیص مبارک میں کفن دیں تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا جنازہ پڑھایا اور اپنی قمیص میں کفن دیا اور اس کی قبر پر کھڑے ہوئے۔ اس پر اللہ نے یہ آیت اتاری (وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ) 9۔ التوبہ:84) منافقوں میں سے کوئی مر جاۓ تو اس کا جنازہ ہرگز مت پڑھو اور نہ ہی اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو۔   ٭٭ احمد بن یوسف سلمی، مسلم بن ابراہیم حارث بن نبہان، عتبہ بن یقظان، ابو سعید، مکحول، حضرت واثلہ بن سقع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میّت کا جنازہ پڑھو اور ہر امیر کے ساتھ مل کر جہاد کرو۔   ٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارۃ، شریک بن عبد اللہ، سماک بن حرب، حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب میں سے ایک مرد زخمی ہو گیا۔ زخم کافی تکلیف دہ ثابت ہوا تو وہ گھسٹ گھسٹ کر تیر کے پیکانوں تک پہنچا اور اپنے آپ کو ذبح کر ڈالا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا اور یہ آپ کی جانب سے تایب تھی (کہ اور لوگ کبھی نہ کریں )۔

قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، ثابت، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک سیاہ فام خاتون مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نہ دیکھا تو کچھ روز بعد اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ عرض کیا گیا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی پھر آپ ان کی قبر پر تشریف لے گئے اور نماز جنازہ پڑھی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشیم، عثمان بن حکیم، خارجہ بن زید بن ثابت، یزید بن ثابت جو زید بن ثابت کے بڑے بھائی ہیں فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ باہر آئے جب آپ بقیع پہنچے تو ایک نئی قبر دیکھی اس کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ فلاں خاتون ہیں۔ آپ نے پہچان لیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ لوگوں نے عرض کیا آپ روزے میں دوپہر کو آرام فرما رہے تھے اس لئے ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ فرمایا آئندہ ایسا نہ کرنا کہ مجھے پتہ ہی نہ چلے تم میں جو بھی فوت ہو تو جب میں تمہارے درمیان ہوں مجھے اس کی اطلاع دینا کیونکہ میرا جنازہ پڑھنا اس کیلئے رحمت کا باعث ہے۔ پھر آپ قبر پر تشریف لے گئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں۔ آپ نے چار تکبیریں کہیں۔   ٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن محمد دراوردی، محمد بن زید بن مہاجر بن قنفذ، عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ، حضرت عامر بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ایک سیاہ فام خاتون کا انتقال ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع نہ کی گئی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اطلاع کیوں نہ کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمایا صفیں بناؤ اور اس پر نماز پڑھی   ٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، ابو  اسحاق شیبانی، شعبی، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک صاحب کا انتقال ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی عیادت فرمایا کرتے تھے لوگوں نے ان کو رات میں ہی دفن کر دیا صبح مجھے بروقت بتانے میں کیا رکاوٹ تھی؟ عرض کیا رات اور تاریکی تھی اس لئے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا آپ ان کی قبر پر گئے اور نماز پڑھی۔   ٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری و محمد بن یحییٰ، احمد بن حنبل، غندر، شعبہ، حبیب بن شہید، ثابت، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میّت کے دفن کئے جانے کے بعد قبر پر نماز پڑھی۔   ٭٭ محمد بن حمید، مہران بن ابی عمر، ابو سنان، علقمہ بن مرثد، حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک میّت پر دفن کے بعد نماز جنازہ پڑھی۔   ٭٭ ابو کریب، سعید بن شرحبیل، ابن لہیعہ، عبید اللہ بن مغیرہ، ابو الہیثم، حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ ایک سیاہ خاتون مسجد میں جھاڑو دیتی تھیں رات میں ان کا انتقال ہو گیا صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی وفات کی اطلاع دی گئی۔ آپ نے فرمایا اسی وقت کیوں نہ بتا دیا پھر آپ صحابہ کو لے کر نکلے اس کی قبر پر کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی لوگ آپ کے پیچھے تھے اس کے لئے دعا فرمائی اور واپس تشریف لے آئے۔

نجاشی کی نماز جنازہ

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نجاشی کا انتقال ہو گیا آپ اور صحابہ بقیع تشریف لے گئے ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آگے بڑھ کر چار تکبیرات کہی۔   ٭٭ یحییٰ بن خلف و محمد بن زیاد، بشر بن مفضل، عمر بن رافع، ہشیم، یونس، ابو قلابہ، ابو مہلب، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہو گیا اس کی نماز جنازہ پڑھو۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے ہم نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی اور میں دوسری صف میں تھا اس کی نماز میں دو صفیں تھیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، سفیان، عمران بن اعین ، ابی طفیل، حضرت مجمع بن جاریہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہو گیا۔ اٹھو ! اس کا جنازہ پڑھو تو ہم نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنائیں۔   ٭٭ محمد بن مثنی، عبد الرحمن بن مہدی، مثنی بن سعید، قتادۃ، ابو طفیل، حضرت حذیفہ بن اسید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کو لے کر نکلے اور فرمایا اپنے اس بھائی کا جنازہ پڑھو جو تمہارے وطن کے علاوہ کسی اور جگہ انتقال کر گئے لوگوں نے پوچھا کون ہیں؟ فرمایا نجاشی۔   ٭٭ سہل بن ابی سہل، مکی بن ابراہیم ابو السکن، مالک، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجاشی کا جنازہ پڑھایا تو چار تکبیریں کہیں۔

نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب اور دفن تک شریک رہنے کا ثواب

ابو بکر بن ابی شیبہ، الاعلیٰ، معمر، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کوئی جنازہ پڑھے اس کو ایک قیراط ثواب ملے گا اور جو دفن سے فارغ ہونے تک انتظار کرے اس کو دو قیراط ثواب ملے گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یہ قیراط کیسے ہیں؟ فرمایا پہاڑ کے برابر۔   ٭٭ حمید بن مسعدۃ، خالد بن حارث، سعید ، قتادۃ، سالم بن ابی الجعد، معدان بن ابی طلحہ، حضرت ثوبان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کوئی نماز جنازہ پڑھے تو اس کو ایک قیراط ثواب ملے اور جو دفن میں بھی شریک ہو اس کو دو قیراط کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا احد کے برابر۔   ٭٭ عبد اللہ بن سعید، عبد الرحمن محاربی، حجاج بن ارطاۃ، عدی بن ثابت، ذر بن حبیش، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو کوئی جنازہ پڑھے اس کو ایک قیراط ثواب ملے گا اور جو دفن تک شریک رہا اس کو دو قیراط ثواب ملے گا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے یہ قیراط اس احد سے بھی بڑا ہے۔

جنازہ کی وجہ سے کھڑے ہو جانا

محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، ابن عمر، حضرت عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے لئے کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے نکل جائے یا زمین پر رکھ دیا جائے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و ہناد بن سری، عبدۃ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب سے ایک جنازہ گزرا آپ کھڑے ہو گئے اور فرمایا کھڑے ہو جاؤ اس لئے کہ موت کی گھبراہٹ ہوتی ہے۔   ٭٭ علی بن محمد ، وکیع ، شعبہ ، محمد بن منکدر، مسعود بن حکم ، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازے کی وجہ سے کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے حتیٰ کہ آپ بیٹھ گئے تو ہم بھی بیٹھ گئے۔   ٭٭ محمد بن بشار ، عقبہ بن مکرم، صفوان بن عیسیٰ ، بشر بن رافع، عبد اللہ بن سلیمان بن جنادہ ، ابن ابی امیہ ، حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی جنازہ میں تشریف لے جاتے تو لحد میں رکھے جانے تک نہ بیٹھتے۔ پھر ایک یہودی عالم آپ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا اے محمد ! ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ گئے اور فرمایا یہود کی مخالفت کرو۔

قبرستان میں جانے کی دعا

اسماعیل بن موسی، شریک بن عبد اللہ، عاصم بن عبید اللہ، عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ پایا پھر دیکھا کہ آپ بقیع میں ہیں۔ آپ نے فرمایا السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَإِنَّا بِکُمْ لَاحِقُونَ اللَّہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہُمْ تم پر سلامتی ہو اے ایمان داروں کے گھر والو! تم ہمارے پیش خیمہ ہو اور ہم تم سے ملنے والے ہیں اے اللہ ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ فرمایئے اور ان کے بعد آزمائش میں نہ ڈا لئے۔   ٭٭ محمد بن عباد بن آدم، احمد، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریدۃ، حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو سکھاتے تھے کہ جب وہ قبرستان کی طرف نکلیں تو یوں کہیں السَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ نَسْأَلُ اللَّہَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِیَۃَ سلام ہو تم پر اے گھر والو! اہل اسلام اور اہل ایمان میں سے اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں ہم اللہ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں۔

قبرستان میں بیٹھنا

محمد بن زیاد، حماد بن زید، یونس بن خباب، منہال بن عمرو، زاذان، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے تو آپ قبلہ کی طرف (منہ کر کے ) بیٹھے۔   ٭٭ ابو کریب، ابو خالد احمر، عمرو بن قیس، منہال بن عمرو، زاذان، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک جنازے میں گئے جب قبر کے پاس پہنچے تو آپ بیٹھ گئے اور ہم بھی بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرندے ہیں۔

میّٹ کو قبر میں داخل کرنا

ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، لیث بن ابی سلیم، نافع۔ حجاج، نافع، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میّت کو قبر میں داخل کرتے تو (اس موقع پر) کہتے بِسْمِ اللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ دوسری روایت میں ہے بِسْمِ اللَّہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ ایک اور روایت میں ہے بِسْمِ اللَّہِ وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ   ٭٭ عبد الملک بن محمد رقاشی، عبد العزیز بن خطاب، مندل بن علی، محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع، داؤد بن حصین، حصین، حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سعد کو سر کی جانب سے قبر میں داخل کیا اور ان کی قبر پر پانی چھڑکا۔   ٭٭ ہارون بن اسحاق ، محاربی، عمرو بن قیس، عطیہ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قبلہ کی طرف سے لیا گیا اور آپ کا چہرہ مبارک قبلہ کی طرف کیا گیا۔   ٭٭ ہشام بن عمار، حماد بن عبد الرحمن کلبی، ادریس اودی، حضرت سعید مسیب فرماتے ہیں میں ابن عمر کے ساتھ ایک جنازہ میں شریک تھا۔ جب انہوں نے  اس کو قبر میں رکھا تو کہا بِسْمِ اللَّہِ وَفِی سَبِیلِ اللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ جب لحد کی اینٹیں برابر کرنے لگے۔ تو کہا اللَّہُمَّ أَجِرْہَا مِنْ الشَّیْطَانِ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ بچا دیجئے۔ اے اللہ!  اس کو شیطان سے اور قبر کے عذاب سے بچا دیجئے۔ اے اللہ ! زمین کو اس کی پسلیوں سے جدا رکھئے (کہیں زمین کس کر اس کی پسلیاں توڑ دے ) اور اس کی روح کو اوپر اٹھا لیجئے اور  اس کو اپنی رضا سے نواز دیجئے۔ میں نے عرض کیا اے ابن عمر آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا یا کہ خود اپنی رائے سے پڑھا؟ فرمانے لگے پھر تو مجھے سب کچھ کہنے کا اختیار ہونا چاہئے (حالانکہ ایسا نہیں ہے ) بلکہ میں نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔

لحد کا اولیٰ ہونا

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، حکام بن سلم رازی، علی بن عبد الاعلی، عبد الاعلیٰ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لحد (یعنی قبر) ہمارے لئے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لئے ہے۔   ٭٭ اسماعیل بن موسیٰ سدی، شریک، ابو الیقظان، زاذان، حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لحد ہمارے لئے ہے اور درمیانی قبر اوروں کے لئے ہے۔   ٭٭ محمد بن مثنی، ابو عامر، عبد اللہ بن جعفر زہری، اسماعیل بن محمد بن سعد، عامر بن سعد، حضرت سعد نے بیان فرمایا کہ میرے لئے لحد بنا اور کچی اینٹوں سے اس کو بند کر دینا۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے کیا گیا۔

قش ( صندوقی قبر)

محمود بن غیلان، ہاشم بن قاسم، مبارک بن فضالہ، حمید طویل، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہوا مدینہ میں ایک صاحب لحد بناتے تھے اور دوسرے صاحب صندوقی قبر۔ تو صحابہ نے کہا ہم اپنے ربّ سے استخارہ کرتے ہیں اور دونوں کی طرف آدمی بھیجتے ہیں سو جو پہلے آیا ہم اسے موقع دیں گے تو لحد بنانے والے صاحب پہلے آئے اور آپ کے لئے لحد بنائی۔   ٭٭ عمر بن شبہ بن عبیدۃ بن زید عبید بن طفیل مقری، عبد الرحمن بن ابی ملیکہ قرشی، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا تو صحابہ میں اختلاف ہوا کہ لحد بنائیں یا صندوقی قبر اس بارے میں گفتگو کے دوران آوازیں بلند ہو گئیں تو حضرت عمر نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس شور نہ کرو نہ زندگی میں نہ وفات کے بعد یا ایسا ہی کچھ فرمایا۔ آخر لوگوں نے لحد بنانے والے اور صندوقی قبر بنانے والے دونوں کی طرف آدمی بھیجا تو لحد بنانے والے صاحب (پہلے ) آئے اور آپ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے لحد بنائی پھر آپ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دفن کیا گیا۔

قبر گہری کھودنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، موسیٰ بن عبیدۃ، سعید بن ابی سعید، حضرت ادرع سلمی فرماتے ہیں کہ میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چوکیداری کیلئے آیا تو ایک صاحب کی قرأت بہت اونچی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر آئے تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ ریا کار ہے۔ کہتے ہیں کہ پھر ان کا مدینہ میں انتقال ہوا لوگوں نے ان کا جنازہ تیار کر کے ان کی نعش کو اٹھایا تو نبی نے فرمایا اس کے ساتھ نرمی کرو اللہ بھی اس کے ساتھ نرمی فرمائے یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا کہتے کہ ان کی قبر کھودی گئی تو آپ نے فرمایا اس کی قبر کشادہ کرو اللہ تعالیٰ اس پر کشادگی فرمائے تو ایک صاحب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کو ان کے انتقال پر افسوس ہے؟ فرمایا جی کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا تھا۔   ٭٭ ازہر بن مروان، عبد الوارث بن سعید، ایوب، حمید بن ہلال، ابو دہماء، حضرت ہشام بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبر خوب کھودو کشادہ رکھو اور اچھی بناؤ

قبر پر نشانی رکھنا

عباس بن جعفر، محمد بن ایوب، ابو ہریرہ واسطی، عبد العزیز بن محمد، کثیر بن زید، زینب بنت نبیط، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عثمان بن مظعون کی قبر پر نشانی کے طور پر ایک پتھر لگایا۔

میّت کی تعریف کرنا

ازہر بن مروان و محمد بن زیاد، عبد الوارث، ایوب، ابو زبیر، حضرت جابر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے قبروں کو پختہ بنانے سے منع فرمایا۔

قبر پر عمارت بنانا اس کو پختہ بنانا اس پر کتبہ لگانا ممنوع ہے

عبد اللہ بن سعید، حفص بن غیاث، ابن جریج، سلیمان بن موسی، حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبر پر کچھ بھی لکھنے سے منع فرمایا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن عبد اللہ رقاشی، وہب، عبد الرحمن بن جابر، قاسم بن مخیمرہ، حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبر پر عمارت بنانے سے منع فرمایا۔

قبر پر مٹی ڈالنا

عباس بن ولید دمشقی، یحییٰ بن صالح، سلمہ بن کلثوم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جنازے پر نماز پڑھی پھر میّت کی قبر پر آئے اور سر کی جانب تین لپ مٹی ڈالی۔

قبروں پر چلنا اور بیٹھنا منع ہے

سوید بن سعید، عبد العزیز بن ابی حازم، سہیل، ابو سہیل، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی انگارے پر بیٹھے جو اس کو جلا دے یہ اس کے لئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔   ٭٭ محمد بن اسماعیل بن سمرۃ، محاربی، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، ابو الخیر مرثد بن عبد اللہ یزنی، حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں انگارے یا تلوار پر چلوں یا جوتے پاؤں کے ساتھ سی لوں یہ مجھے زیادہ پسند ہے کسی مسلمان کی قبر پر چلنے سے اور میں قبروں کے درمیان یا بازار کے درمیان قضاء حاجت (پیشاب پاخانہ کرنے میں کوئی قضاء حاجت بے شرمی اور کشف ستر اسی طرح قبروں کے درمیان بھی اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کو شعور ہوتا ہے )

قبر ستان میں جوتے اتار لینا

علی بن محمد، وکیع، اسود بن شیبان، خالد بن سمیر، بشیر بن نہیک، حضرت بشیر بن خصاصیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ نے فرمایا اے ابن خصاصیہ ! تم اللہ کی طرف سے کس چیز کو ناپسند سمجھتے ہو حالانکہ تم اللہ کے رسول کی معیت میں چل رہے ہو؟ تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میں اللہ کی کسی بات کو ناپسند نہیں سمجھتا سب بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرما دی ہیں تو آپ مسلمانوں کے قبرستان سے گزرے اور فرمایا کہ ان لوگوں نے بہت سی خیر حاصل کی پھر مشرکین کے قبرستان سے گزرے تو فرمایا یہ لوگ بہت سے خیر سے پہلے آ گئے۔ فرماتے ہیں کہ آپ نے توجہ فرمائی تو دیکھا کہ ایک صاحب جوتے پہنے قبرستان میں چل رہے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا اے جوتوں والے اپنے جوتے اتار دو۔

زیارت قبور

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبید، یزید بن کیسان، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبروں کی زیارت کرو کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔   ٭٭ ابراہیم بن سعید جوہری، روح، بسطام بن مسلم، ابو التیاح، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کی زیارت میں رخصت دی۔   ٭٭ یونس بن عبد الاعلی، ابن وہب، ابن جریج، ایوب بن ہانی، مسروق بن اجداع، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کر دیا تھا تو اب قبروں کی زیارت کر سکتے ہو کیونکہ اس سے دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد حاصل ہوتی ہے۔

مشرکوں کی قبروں کی زیارت

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبید، یزید بن کیسان، ابو حازم، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی والدہ محترمہ کی قبر کی زیارت کی تو روئے اور پاس والوں کو بھی رلا دیا اور فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے والدہ کیلئے بخشش طلب کی جازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور میں نے اپنے رب سے والدہ کی قبر کی زیارت کیلئے اجازت چاہی تو اجازت دے دی سو تم بھی قبروں کی زیارت کر لیا کرو کیا یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہیں۔   ٭٭ محمد بن اسماعیل بن بختری واسطی، یزید بن ہارون، ابراہیم بن سعد، زہری، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے والد صلہ رحمی کرتے تھے اور ایسے ایسے تھے (بھلائیاں گنوائیں ) بتایئے وہ کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں۔ راوی کہتے ہیں شاید ان کو اس سے رنج ہوا۔ کہنے لگے اے اللہ کے رسول ! تو آپ کے والد کہاں ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جہاں بھی تم کسی مشرک کی قبر سے گزرو تو  اس کو دوزح کی خوشخبری دے دو کہ وہ صاحب بعد میں اسلام لے آئے اور کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے مشکل کام دے دیا میں جس کافر کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں اس کو دوزخ کی خوشخبری ضرور دیتا ہوں۔

عورتوں کے لئے قبروں کی زیارت کرنا منع ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ و ابو بشر، قبیصہ، ابو کریب، عبید بن سعید، محمد خلف عسقلانی، فریابی و قبیصہ، سفیان، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں پر جانے والے عورتوں پر لعنت فرمائی۔   ٭٭ ازہر بن مروان، عبد الوارث، محمد بن حجادۃ، ابو صالح، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔   ٭٭ محمد بن خلف عسقلانی ابو نصر، محمد بن طالب، ابو عوانہ، عمرو بن ابی سلمہ، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔

عورتوں کا جنازہ میں جانا

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام، حفصہ، حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ ہمیں جنازوں میں شرکت سے منع کر دیا گیا اور ہمیں (شرکت نہ ہونے کا) لازمی حکم نہیں دیا گیا   ٭٭ محمد بن مصفی، احمد بن خالد، اسرائیل، اسماعیل بن سلیمان، دینار ابو عمر، ابن حنفیہ، حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے تو دیکھا کچھ عورتیں بیٹھی ہیں۔ فرمایا کیوں بیٹھی ہو؟ عرض کرنے لگیں جنازے کے انتظار میں۔ فرمایا کیا تم (شرعا ً) غسل دے سکتی ہو؟ کہنے لگیں نہیں۔ فرمایا کیا تم میّت کو قبر میں داخل کرنے والوں میں ہو گی؟ کہنے لگیں نہیں۔ فرمایا پھر واپس ہو جاؤ گناہ کا بوجھ لے کر ثواب کے بغیر۔

نوحہ کی ممانعت

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، یزید بن عبد اللہ مولیٰ صحباء، شہر بن حوشب، حضرت ام سلمہ نبی سے روایت کرتی ہیں کہ وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ کہ عورتیں نیک کام میں آپ کی نافرمانی کریں سے مراد نوحہ کرنا ہے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، عبد اللہ بن دینار، جریر مولیٰ معاویہ، حضرت معاویہ نے حمص میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نوحہ کرنے سے منع فرمایا۔   ٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری و محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، یحییٰ بن کثیر، ابن معانق یا ابی معانق، حضرت ابو مالک اشعری بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نوحہ کرنا جاہلیت کا کام ہے اور نوحہ کرنے والی جب توبہ کے بغیر مرے تو اللہ تعالیٰ  اس کو تارکول کا لباس اور دوزخ کے شعلوں کا کرتہ پہنائیں گے۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، محمد بن یوسف، عمر بن راشد یمامی، یحییٰ بن ابی کثیر، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میّت پر نوحہ کرنا جاہلیت کا کام ہے اور نوحہ کرنے والی جب توبہ سے قبل مر جائے تو اسے روز قیامت تارکول کے لباس میں اٹھایا جائے گا پھر اس پر دوزخ کے شعلوں کا کرتہ پہنایا جائے گا۔   ٭٭ احمد بن یوسف، عبید اللہ، اسرائیل، ابو یحییٰ، مجاہد، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جنازے کے ساتھ جانے سے منع فرمایا جس کے ساتھ نوحہ کرنے والی عورت ہو۔

چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑ نے کی ممانعت

علی بن محمد، وکیع، محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید و عبد الرحمن، سفیان، زبید، ابراہیم، مسروق، علی بن محمد و ابو بکر بن خلاد، اعمش، عبد اللہ بن مرۃ، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو گریبان چاک کرے چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی سی باتیں کرے۔ (یعنی واویلا کرے )۔   ٭٭ محمد بن جابر محاربی و محمد بن کرامہ، ابو اسامہ، عبد الرحمن بن یزید بن جابر، مکحول و قاسم، حضرت ابو امامہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چہرہ نوچنے والی گریبان چاک کرنے والی اور ہائے تباہی ہائے ہلاکت پکارنے والی (عورتوں اور مردوں ) پر لعنت فرمائی۔   ٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم اودی، جعفر بن عون، ابو الحمیس، ابو صخرۃ، حضرت عبد الرحمن بن یزید اور ابو بردہ فرماتے ہیں کہ جب ابو  موسیٰ بیمار ہوئے تو ان کی اہلیہ ام عبد اللہ رونے چلانے لگے۔ جب کچھ ہوش آیا تو فرمانے لگے تمہیں معلوم نہیں کہ جس سے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بری ہیں میں بھی اس سے بری ہوں اور وہ ان کو یہ حدیث سنایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں سر منڈانے والے رو رو کر چلانے والے اور کپڑے پھاڑنے والے سے بیزار ہوں۔

میّت پر رونے کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروۃ، وہب بن کیسان، محمد بن عمرو بن عطاء، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جنازے میں تھے کہ حضرت عمر نے ایک عورت کو (روتے ) دیکھ کر پکارا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے عمر اس کو چھوڑ کیونکہ آنکھ روتی ہے دل مصیبت زدہ اور (صدمہ کا) وقت قریب ہے۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔   ٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد الواحد بن زیاد، عاصم احول، ابو عثمان، حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک نواسے کا انتقال ہونے لگا تو صاحبزادی صاحبہ نے نبی کو کہلا بھیجا آپ نے جواب میں کہلا بھیجا اللہ ہی کاہے جو اس نے لے لیا اور اسی کاہے جو اس نے عطا فرمایا اور ہر چیز کا اللہ کے ہاں ایک وقت مقرر ہے۔ لہٰذا صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو تو صاحبزادی نے دوبارہ آپ کو بلا بھیجا اور قسم (بھی) دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے۔ میں معاذ بن جبل ابی بن کعب اور عبادہ بن صامت (رضی اللہ عنہم) ساتھ ہولئے جب ہم اندر گئے تو گھر والوں نے بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا جبکہ اس کی روح سینے میں پھڑک رہی تھی۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا پرانی مشک کی مانند (جیسے اس میں پانی ہلتا ہے اسی طرح روح سینہ میں حرکت کر رہی تھی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رونے لگے۔ عبادہ بن صامت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ کیا؟ فرمایا وہ رحمت جو اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم میں رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے نندوں میں سے رحم کرنے والوں پر ہی خصوصی رحمت فرماتے ہیں۔   ٭٭ سوید بن سعید، یحییٰ بن سلیم، ابن خیثم، شہر بن حوشب، حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رونے لگے تو تعزیت کرنے والے (ابو بکر یا عمر رضی اللہ عنہما) نے کہا آپ سب سے زیادہ اللہ کے حق کو بڑا جاننے والے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آنکھ برس رہی ہے دل غمزدہ ہے اور ہم ایسی بات نہیں کہیں گے جو پروردگار کی ناراضگی کا باعث ہو گو یہ سچا وعدہ نہ ہوتا۔ اس وعدہ میں سامنے والے نہ ہوتے اور بعد والے پہلے والے کے تابع نہ ہوتے۔ اے ابراہیم ہمیں اب جتنا رنج ہے اس سے کہیں زیادہ رنج ہوتا اور ہم اب بھی تمہاری جدائی پر رنجیدہ ہیں۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، اسحاق بن محمد فروی، عبد اللہ بن عمر، ابراہیم بن محمد بن عبد اللہ بن جحش، محمد بن عبد اللہ بن جحش، حضرت حمنہ بنت جحش سے کہا گیا کہ آپ کا بھائی مارا گیا۔ تو کہنے لگیں اللہ اس پر رحمت فرمائے رَحِمَہُ اللَّہُ وَإِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ لوگوں نے کہا آپ کا خاوند مارا گیا۔ کہنے لگیں ہائے افسوس ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت کو خاوند سے جو تعلق ہے وہ کسی سے نہیں ہوتا۔   ٭٭ ہارون بن سعید مصری، عبد اللہ بن وہب، اسامہ بن زید، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبیلہ عبد الا شہل کی کچھ عورتوں کے پاس سے گزرے جو اپنے احد کی لڑائی میں مارے جانے والوں پر رو رہی تھیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حمزہ پر رونے والی کوئی بھی نہیں؟ تو انصاری عورتیں آئیں اور حضرت حمزہ پر رونے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیدار ہوئے تو فرمایا ان کا ناس ہو ابھی تک واپس نہیں گئیں ان سے کہو کہ چلی جائیں اور آج کے بعد کسی مر نے والے پر نہ روئیں۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سفیان، ابراہیم ہجری، حضرت ابن ابی اوفی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔

میّت پر نوحہ کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، شاذان، محمد بن بشار و محمد بن ولید، محمد جعفر، نصر بن علی، عبد الصمد و وہب بن جریر، شعبہ، قتادۃ، سعید بن مسیب، ابن عمر، حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میّت پر نوحہ کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔   ٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن محمد دراوردی، اسید بن اسید، موسیٰ بن ابی موسیٰ اشعری، حضرت اسید روایت کرتے ہیں موسیٰ سے وہ اپنے والد ابو  موسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میّت کو زندوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے جب وہ کہیں ہائے ہمارے مد د کرنے والے ہائے پہاڑ کی مانند مضبوط اور اس جیسے کلمات تو میّت کو ڈانٹ کر پوچھا جاتا ہے کہ تو ایسا ہی تھا؟ تو ایسا ہی تھا؟ اسید کہتے ہیں میں نے کہا سُبْحَانَ اللَّہِ (تعجب ہے کہ) اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا تو موسیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھا یا یہ کہو گے کہ میں نے ابو  موسیٰ پر جھوٹ باندھا۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عمرو، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک یہودی عورت مر گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے گھر والوں کو اس پر روتے ہوئے سنا تو فرمایا اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں حالانکہ اس کو اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔

مصیبت پر صبر کرنا

محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سعد بن سنان، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ صبر تو صدمہ کی ابتداء میں ہوتا ہے   ٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، ثابت بن عجلان، قاسم، حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں آدم کے بیٹے اگر صدمہ کے شروع میں تو صبر اور ثواب کی امید رکھے تو میں (تیرے لئے ) جنت کے علاوہ اور کسی بدلہ کو پسند نہ کروں گا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، عبد الملک بن قدامہ جمحی، قدامہ جمحی، عمر بن ابی سلمہ، ام سلمہ، حضرت ابو  سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر بھی مصیبت آئے پھر وہ گھبراہٹ میں اللہ کا حکم پورا کرے یعنی یہ کہے کہ ( إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ اللَّہُمَّ عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی ہَذِہِ فَأْجُرْنِی عَلَیْہَا) اے اللہ ! میں اپنی مصیبت میں آپ ہی سے اجر کی امید رکھتا ہوں مجھے اس پر اجر دیجئے اور اس کا بدلہ دیجئے تو اللہ تعالیٰ اس کو مصیبت پر اجر بھی دیتے ہیں اور اس سے بہتر بدلہ بھی عطا فرماتے ہیں ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب ابو  سلمہ کا انتقال ہوا تو مجھے ان کی یہ حدیث یاد آئی جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کر کے مجھے سنائی تھی تو میں نے یہی کلمات کہے ( إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ) جب میں یہ کہنے لگتی (وَعِضْنِی خَیْرًا مِنْہَا) کہ مجھے ان سے بہتر بدلہ عطا فرما۔ تو دل میں سوچتی کہ ابو  سلمہ سے بہتر بھی مجھے ملے گا؟ بالا آخر میں نے یہ کلمہ بھی کہہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے (ابو سلمہ کے ) بدلہ میں محمد دے دیئے اور مصیبت میں مجھے اجر عطا فرمایا۔   ٭٭ ولید بن عمرو بن السکین، ابو ہمام، موسیٰ بن عبیدۃ، مصعب بن محمد، ابو  سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مرض الوفات میں ) ایک دروازہ کھولا جو آپ کے اور لوگوں کے درمیان تھا فرمایا کہ پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ لوگ ابو بکر کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے تو لوگوں کی یہ اچھی حالت دیکھ کر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی اور اس امید پر (حمد و ثنا کی) کہ اللہ تعالیٰ آپ کا خلیفہ و جانشیں انہی کو بنائیں گے جن کو دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا اے لوگو! جس انسان یا مسلمان پر کوئی مصیبت آئے تو وہ میری مصیبت (کو یاد کر کے اس) سے تسلی حاصل کرے اس مصیبت کیلئے جو میرے علاوہ دوسروں پر آئی اس لئے کہ میری امت پر میرے بعد میری مصیبت سے زیادہ گراں مصیبت ہرگز نہ آئے گی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، بن جراح، ہشام بن زیاد، ام زیاد، فاطمہ بنت حسین، حضرت حسین سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس پر کوئی پریشانی آئی پھر وہ اس کو یاد کر کے ازسر نو ( إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ) کہے خواہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اتنا ہی اجر لکھیں گے جتنا پریشانی کے دن لکھا تھا۔

مصیبت زدہ کو تسلی دیئے کا ثواب

ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، قیس ابو عمارۃ مولیٰ انصار، عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، حضرت محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ایمان والا اپنے بھائی کو پریشانی میں تسلی دلائے اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کو عزت کا لباس پہنائیں گے۔   ٭٭ عمرو بن رافع، علی بن عاصم محمد بن سوقہ، ابراہیم، اسود، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مصیبت زدہ کو تسلی دی اس کو مصیبت زدہ کے برابر اجر ملے گا۔

جس کا بچہ مر جائے اس کا ثواب

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ ہو گا کہ کسی آدمی کے تین بچے مر جائیں پھر وہ دوزخ میں جائے مگر قسم پوری کرنے کی خاطر۔   ٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اسحاق بن سلیمان، جریر بن عثمان، شرحبیل بن شفعہ، حضرت عتبہ بن عبد السلمی بیان فرماتے تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یوں ارشاد فرماتے سنا جس مسلمان کے تین بچے جوانی سے قبل مر جائیں تو وہ (بچوں کے والدین) جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے داخل ہونا چاہیں (مقرب فرشتے انکا) استقبال کریں گے۔   ٭٭ یوسف بن حماد، عبد الوارث بن سعید، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جن دو مسلمان خاوند بیوی کے تین بچے جوانی سے قبل مر جائیں اللہ تعالیٰ اپنی زائد رحمت سے ان سب (والدین اور بچوں ) کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔   ٭٭ نصر بن علی جہضمی، اسحاق بن یوسف، عوام بن حوشب، ابو محمد مولی عمر بن خطاب، حضرت عمر، ابو عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص تین بچے جوانی سے قبل ہی آگے بھیج دے تو وہ دوزخ سے (بچاؤ کے لئے اس کا) مضبوط قلعہ بن جائیں گے تو ابو ذر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں نے دو بھیجے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا اور دو ہی سہی تو قاریوں کے سردار ابی بن کعب نے عرض کیا کہ میں نے ایک بھیجا ہے؟ فرمایا ایک ہی سہی۔

جس کسی کا حمل ساقط ہو جائے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد، یزید بن عبد الملک نوفلی، یزید بن رومان، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا البتہ کچا بچہ جس کو میں آگے بھیجوں مجھے زیادہ پسند ہے سوار سے جس کو میں پیھچے چھوڑ آؤں۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ و محمد بن اسحاق ابو بکر بکانی، ابو غسان، مندل، حسن بن حکم نخعی، اسماء بنت عابس بن ربیعہ، عابس بن ربیعہ، حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کچا بچہ جھگڑا کرے گا اپنے مالک (اللہ عزوجل) سے جب مالک اس کے والدین کو دوزخ میں ڈالے گا پھر حکم ہو گا اے کچے بچے جھگڑنے والے اپنے مالک سے اپنی ماں باپ کو جنت میں لے جاؤ وہ ان دونوں کو جنت میں لے جائے گا۔   ٭٭ علی بن ہاشم بن مرزوق، عبیدۃ بن حمید، یحییٰ بن عبید اللہ، عبید اللہ بن مسلم حضرمی، حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کچا بچا اپنی ماں کو اپنی آنول سے کھینچ لے جاوے گا جنت میں جب وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے۔

میّت کے گھر کھا نا بھیجنا

ہشام بن عمار و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، جعفر بن خالد، خالد، حضرت عبد اللہ بن جعفر بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت جعفر کی شہادت کی اطلاع آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو۔   ٭٭ یحییٰ بن خلف ابو  سلمہ، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، عبد اللہ بن ابی بکر، ام عیسیٰ حزار، ام عون، محمد بن جعفر، حضرت اسماء بنت عمیس بیان فرماتی ہیں کہ جب جعفر بن ابی طالب شہد ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے گھروں کے پاس لوٹے اور ارشاد فرمایا جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لوگ (گھر والے ) مشغول ہیں اپنی میّت کے کام میں تم ان کے لئے کھانا تیار کرو۔ حضرت عبد اللہ نے کہا پھر یہ کام سنت رہا یہاں تک کہ ایک نیا کام ہو گیا تو چھوڑ دیا گیا۔

میّت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے کی ممانعت اور کھا نا تیار کرنا

محمد بن یحییٰ، سعید بن منصور، ہشیم، شجاع بن مخلد ابو الفضل، ہشیم، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی بیان فرماتے ہیں کہ ہم میّت کے گھر والوں کے پاس جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔

جو سفر میں مر جائے

جمیل بن حسن، ابو منذر، ہذیل بن حکم، عبد العزیز بن ابی رواد، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سفر کی موت شہادت ہے۔   ٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، حی بن عبد اللہ معافری، ابو عبد الرحمن جبلی، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ ایک صاحب کی مدینہ میں وفات ہوئی ان کی پیدائش بھی مدینہ میں ہی ہوئی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا جنازہ پڑھا کر فرمایا کاش وہ دوسرے ملک میں مرتا۔ ایک شخص نے عرض کیا کیوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؟ آپ فرمایا جب آدمی اپنی پیدائش کے مقام سے لے کر موت کے مقام تک اس کو جگہ جنت میں جگہ دی جائے گی۔

بیماری میں وفات

احمد بن یوسف، عبد الرزاق، ابن جریج، ابو عبیدۃ بن ابی السفر، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابراہیم بن محمد بن ابی عطاء، موسیٰ بن وردان، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو بیماری میں مرا شہادت کی موت مرا وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا صبح شام جنت سے اس کا رزق پہنچایا جاتا ہے۔

میّت کی ہڈی توڑنے کی ممانعت

ہشام بن عمار، عبد العزیز بن محمد دراوردی، سعد بن سعید، عمرۃ، حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میّت کی ہڈی توڑنا زندگی میں اس کی ہڈی توڑنے کے مترادف ہے۔   ٭٭ محمد بن معمر، محمد بن بکر، عبد اللہ بن زیاد، ابو عبیدۃ بن عبد اللہ بن زمعہ، ام ابو عبیدہ، حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میّت کی ہڈی کو توڑنا گناہ میں زندہ کی ہڈی توڑنے کی مانند ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری کا بیان

سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ سے کہا اماّں ! مجھ سے آنحضرت کی بیماری کا حال بیان کرو۔ انہوں نے کہا آپ بیمار ہوئے تو آپ نے پھونکنا شروع کیا (اپنے بدن پر بیماری کی شدت کی وجہ سے ) تو ہم نے مشابہت دی آپ کے پھونکنے کو انگور کھانے والے کے پھونکنے سے (جیسے انگور کھانے والا اس کی گرد اور خاک پھونکتا ہے اور آپ پھوکا کرتے تھے باری باری۔ جب آپ بیمار ہوئے تو اور بیبیوں سے اجازت مانگی بیماری میں عائشہ کے گھر میں رہنے کی) (اس لئے کہ وہ محبوبہ خاص تھیں اور سب بیبیوں سے زیادہ محبت ان سے تھی) اور تمام بیبیوں کو آپ کے پاس گھومنے کی (جیسے صحت میں آپ ان کے پاس گھومتے تھے ) عائشہ نے کہا آنحضرت میرے پاس آئے دو مردوں پر سہارا دیئے ہوئے۔ ان میں سے ایک ابن عباس تھے۔ عبید اللہ نے کہا میں نے یہ حدیث ابن عباس سے بیان کی انہوں نے کہا تو جانتا ہے۔ دوسرا مرد کون تھا جس کا نام عائشہ نے نہیں لیا؟ وہ علیٰ بن ابی طالب تھے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آنحضرت پناہ مانگتے تھے ان کلموں کے ساتھ ( أَذْہِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ) یعنی دور کر دے بیماری اے مالک لوگوں کی اور تندرستی دے تو ہی تندرستی دینے والا ہے۔ تندرستی تیری تندرستی ہے تو ایسی تندرستی عطا فرما کہ بالکل بیماری نہ رہے جب آنحضرت بیمار ہوئے  اس بیماری میں کہ جس میں انتقال فرمایا تو میں نے آپ کا ہاتھ تھاما اور اس کو پھیرنا شروع کیا آپ نے جسم پر یہ کلمات کہے اور (عائشہ نے آنحضرت کا ہاتھ پھرایا اس کی برکت سے جلد آپ کو صحت خاص ہو۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے نکال لیا پھر فرمایا اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ الْأَعْلَی یا اللہ ! مجھ کو بخش دے اور بلند رفیق سے (ملائکہ انبیاء صدیقین اور شہداء سے ) ملا دے مجھ کو عائشہ نے کہا تو یہ آخری کلمہ تھا جو میں نے آپ سے سنا۔   ٭٭ ابو مروان عثمانی، ابراہیم بن سعد، سعد، عروۃ، عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم کو یہ فرماتے سنا جو نبی بھی بیمار ہو جائے تو اسے دنیا میں رہنے اور آخرت کا سفر کرنے کا ختیار دے دیا جاتا ہے۔ مرض وفات میں آپ کو کھانسی اٹھی تو میں نے آپ کو یہ کہتے سنا (مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ) ان لوگوں کے ساتھ جس پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا یعنی صد یقین شہداء اور صالحین تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ کو بھی اختیار دے دیا گیا ہے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، زکریا، فراس، عامر، مسروق، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات جمع ہو گئیں کوئی بھی ان میں باقی نہ رہی پھر فاطمہ حاضر ہوئیں ان کی چال بعینہ رسول اللہ کی چال تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرحبا میری بیٹی۔ پھر انہیں اپنی بائیں جانب بٹھایا اور ان سے سرگوشی کی تو وہ رونے لگیں پھر آپ نے دوبارہ سرگوشی کی تو ہنسنے لگیں میں نے ان سے کہا آپ کیوں روئیں؟ کہنے لگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راز کو فاش نہیں کرنا چاہتی میں نے کہا میں نے آج کا سا دن نہیں دیکھا جس میں خوشی ہے لیکن رنج سے ملی ہوئی (خوشی تو یہ کہ آپ نے کوئی بشارت دی اسی لیے فاطمہ ہنسیں اور رنج یہ کہ آپ کی بیماری کا صدمہ) جب وہ روئیں تو میں نے ان سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف تمہیں سے ہی کوئی بات فرمائی ہمیں نہیں بتائی پھر بھی تم رو رہی ہو اور ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا فرمایا؟ فرمانے لگیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راز کو فاش نہیں کرنا چاہتی حتی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تو پھر میں نے پوچھا کہ وہ کیا بات فرمائی تھی؟ کہنے لگیں کہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل ہر سال ایک مرتبہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے اور تم میرے اہل خانہ میں سے سب سے پہلے مجھے ملو گی تو میں تمہارے لیے بہترین پیش خیمہ ہوں تو میں رو پڑی پھر دوبارہ سرگوشی کی تو فرمایا تم اس پر خوش نہ ہو گی کہ تم اس امت کی یا مومنین کی عورتوں کی سردار بنو گی یہ سن کر میں ہنسی۔   ٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، صعب بن مقدام، سفیان، اعمش، شقیق، مسروق، حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ بیماری کی شدت کسی پر نہیں دیکھی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، موسیٰ بن سرجس، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وفات کے وقت دیکھا۔ آپ کے پاس ایک پیالے میں پانی تھا آپ پیالے میں ہاتھ ڈال کر منہ پر پھیرتے اور فرماتے اے اللہ ! سکرات موت میں میری مد د فرما۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری دیدار میں نے پیر کے دن کیا آپ نے پردہ اٹھایا میں نے آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا (خوبصورتی اور نورانیت میں ) گویا مصحف کا ورق تھا۔ اس وقت لوگ سیدنا ابو بکر کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے تھے۔ وہ ہٹنے لگے تو آپ نے اپنی جگہ ٹھہرنے کا اشارہ فرمایا اور پردہ ڈال دیا پھر اسی دن کے آخری حصہ میں آپ کا وصال ہوا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ہمام، قتادۃ، صالح سفینہ، حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مرض وفات میں فرماتے رہے نماز کا اہتمام کرنا اور غلاموں کا خیال رکھنا اور مسلسل یہی فرماتے رہے حتیٰ کہ آپ زبان مبارک رکنے لگی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ابن عون، ابراہیم، حضرت اسود کہتے ہیں کہ لوگوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے حضرت علی کے وصی ہونے کا ذکر چھیڑا۔ فرمانے لگیں آپ نے کب ان کو وصی بنایا میں اپنے سینے سے یا گود میں آپ کو سہارا دیئے ہوئے تھی۔ آپ نے طشت منگوایا پھر میری گود میں ہی جھک گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا آپ کا وصال ہو گیا تو کب آپ نے وصی بنایا۔ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔   ٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، عبد الرحمن بن ابی بکر، ابن ابی ملیکہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا، عوالی میں تھے (عوالی بستیاں تھیں مدینہ کے اطراف میں ) تو لوگ ہی کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وہی کیفیت طاری ہے جو کبھی وحی کے وقت ہوا کرتی ہے۔ ابو بکر صدیق آئے آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا اور کہا کہ آپ کا اعزاز اللہ تعالیٰ کے ہاں اس سے زیادہ ہے کہ آپ کو دو بار موت دے۔ بخدا! یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتقال فرما گئے اور حضرت عمر مسجد کے ایک کونے میں یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال نہیں ہوا اور جب تک آپ بہت سے منافقوں کے ہاتھ پاؤں نہ کٹوا دیں آپ کا وصال نہ ہو گا۔ تو ابو بکر اٹھ کر منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی پرستش اور بندگی کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہیں مرے نہیں اور جو محمد کی بندگی کرتا تھا تو محمد کا انتقال ہو چکا پھر یہ آیت پڑھی (  وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ  قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ  اَفَاىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْا ٍوَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ) 3۔ ال عمران:144) اور محمد پیغبر ہی تو ہیں ان سے قبل بہت سے پیغمبر ہو گزرے پھر اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید کر دیئے جائیں تو کیا تم ایڑیوں کے بل واپس ہو جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں کے بل واپس ہو جاؤ گے تو وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ تعالیٰ جزا دیں گے شکر کرنے والوں کو حضرت عمر فرماتے ہیں گویا یہ آیت میں نے اسی دن سمجھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات اور تدفین کا تذکرہ

نصر بن علی جہضمی، وہب بن جریر، جریر، محمد بن اسحاق ، حسین بن عبد اللہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قبر کھودنے لگے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی طرف آدمی بھیجا اور وہ اہل مکہ کی طرح صندوقی کھودتے تھے اور ابو طلحہ کی طرف بھی آدمی بھیجا وہ اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر کھودا کرتے۔ غرض صحابہ نے دونوں کی طرف بلاوا بھیجا اور یہ کہنے لگے اے اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے (بہتر صورت کو) اختیار فرما لیجئے۔ آخر ابو طلحہ ملے وہ آئے اور ابو عبیدہ نہ ملے تو رسول اللہ کے لئے بغلی قبر کھودی گئی۔ جب منگل کے روز رسول اللہ کی تجہیز و تدفین سے فارغ ہوئے تو آئے تو آپ کے گھر میں تخت پر رکھا گیا پھر لوگ فوج در فوج آپ کے گھر جا کر نماز پڑھتے رہے جب مرد فارغ ہو گئے تو عورتوں کو موقع دیا جب عورتیں فارغ ہو گئیں تو بچوں کو موقع دیا۔ آپ کے جنازہ میں کسی نے امامت نہیں کی (بلکہ لوگوں نے فرداً فرداً نماز جنازہ پڑھی) پھر مقام تدفین کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہوئی۔ بعض نے کہا کہ آپ کو مسجد نبوی میں دفن کیا جائے اور بعض نے کہا کہ آپ صحابہ کے ساتھ ہی دفن کیا جائے۔ تو ابو بکر نے فرمایا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے سنا جس نبی کا بھی انتقال ہوا تو اس کو وہیں دفن کیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پھر صحابہ نے رسول اللہ کا وہ بستر اٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہو اور وہیں آپ کی قبر کھودی اور بدھ کی شب کے درمیان آپ کو دفن کیا گیا۔ آپ کی قبر میں حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت فضل بن عباس ان کے بھائی قسم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام شقران اترے اور حضرت ابو لیلیٰ اوس بن خولی نے حضرت علی بن ابی طالب سے کہا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہمارا بھی تعلق ہے۔ حضرت علی نے ان سے کہا (قبر میں ) اترو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام شقران نے چادر پکڑی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اوڑھا کرتے تھے اور یہ کہہ کر قبر میں دفن کر دی کہ اللہ کی قسم ! آپ کے بعد کوئی بھی یہ چادر نہیں اوڑھ سکتا سو وہ چادر آپ کے ساتھ ہی دفن ہوئی۔   ٭٭ نصر بن علی، عبد اللہ بن زبیر، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سکرات شروع ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہائے میرے والد کی تکلیف۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج کے بعد تمہارے والد پر کبھی سختی اور تکلیف نہ آئے گی۔ تمہارے والد پر وہ وقت آ گیا جو سب پر آنے والا ہے اب قیامت کے روز ملاقات ہو گی۔   ٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ نے کہا اے انس ! تمہارے دلوں کو یہ کیسے گوارا ہو کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر مٹی ڈال دی۔ حضرت ثابت ، حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا تو حضرت فاطمہ نے کہا آہ میرے والد ! میں جبرائیل علیہ السلام کو ان کے وصال کی اطلاع دیتی ہوں۔ آہ میرے والد ! اپنے ربّ کے کس قدر قریب ہو گئے۔ آہ میرے والد ! جنت فردوس ان کا ٹھکانہ ہے۔ حماد کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ثابت ہمیں یہ حدیث سناتے ہوئے رو رہے تھے حتیٰ کہ ان کی پسلیاں اوپر تلے ہو گئیں۔   ٭٭ بشر بن ہلال صواف، جعفر بن سلیمان ضبحی، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ تشریف لائے مدینہ کی ہر ہر چیز روشن ہو گی اور جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی تو ہر چیز تاریک ہو گئی اور ہم نے تو ابھی آپکی تدفین کے بعد ہاتھ بھی نہ جھاڑے تھے کہ دلوں میں تبدیلی محسوس ہونے لگی۔   ٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، عبد اللہ بن دینار، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اپنی عورتوں سے باتیں کرنے اور زیادہ کھلنے سے بھی بچتے تھے اس خوف سے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن نازل نہ ہو جائے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا تو ہم باتیں کرنے لگے۔   ٭٭ اسحاق بن منصور، عبد الوہاب بن عطاء عجلی، ابن عون، حسن، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے ہوتے ہوئے ہماری نگاہیں ایک ہی طرف لگی رہتی تھیں۔ آپ کے وصال کے بعد ہم ادھر ادھر دیکھنے لگے۔   ٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی، خالد بن محمد بن ابراہیم بن مطلب بن سائب بن ابی وداعہ سہمی، موسیٰ بن عبد اللہ بن ابی امیہ مخزومی، مصعب بن عبد اللہ، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بنت ابی امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد میں نمازی کی نگاہ نماز میں اپنے قدموں سے آگے نہ پڑھتی تھی۔ جب رسول اللہ کا انتقال ہوا تو اس کے بعد جب کوئی نماز میں کھڑا ہوتا تو اس کی نگاہ پیشانی کی جگہ سے آگے نہ پڑھتی پھر جب حضرت ابو بکر کا بھی انتقال ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا تو لوگوں کی نگاہیں قبلہ کی طرف سے متجاوز نہ ہوئیں (یعنی دائیں بائیں نہ دیکھتا) اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں فتنہ عام ہو گیا تو لوگ دائیں بائیں متوجہ ہونے لگے۔   ٭٭ حسن علی خلال، عمرو بن عاصم، سلیمان بن مغیرۃ، ثابت، حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ابو بکر نے عمر سے کہا آؤ ہمارے ساتھ ، ام ایمن سے مل کر آئیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے جایا کرتے تھے۔ انس فرماتے ہیں جب ہم ان کے پاس پہنچے تو رو پڑیں تو حضرت شیخین نے ان سے کہا کہ آپ روتی کیوں ہیں؟ اللہ کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے خیر ہیں خیر ہے فرمانے لگیں مجھے یہ یقین ہے کہ اللہ کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیلئے خیر ہے لیکن میں اس لئے رو رہی ہوں کہ اب آسمان سے وحی اترنا موقوف ہو گئی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ام ایمن نے حضرات شیخین کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، عبد الرحمن بن یزید بن جابر، ابو الشعث صنعانی، حضرت اوس بن اوس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے افضل دنوں میں جمعہ کا دن ہے۔ اسی روز آدم پیدا ہوئے اور اسی دن صور پھونکا جائے گا ، اسی دن بے ہوش کیا جائے گا لہذا اس دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔ ایک صاحب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ ! ہمارا درود آپ کے سامنے کیسے لایا جائے گا؟ حالانکہ آپ گل کر مٹی ہو گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے بدنوں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔   ٭٭ عمرو بن سواد مصری، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابی ہلال، حضرت ابو الدرداء اضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے روز بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس روز فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بھی مجھ پر درود بھیجے فرشتے اس کا درود میرے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہو جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کے وصال کے بعد بھی؟ فرمایا موت کے بعد بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام کر دیا پس اللہ کا نبی زندہ ہے اور ان کو روزی دی جاتی ہے۔

رمضان کا بیان

روزوں کی فضیلت

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ و وکیع، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے آگے تک جتنا اللہ چاہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سوائے روزہ کے کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا آدمی اپنی خواہش اور غذا میری خاطر چھوڑتا ہے۔ روزہ رکھنے والے کو دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت اور بلاشبہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔   ٭٭ محمد بن رمیح مصری، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سعید بن ابی ہند، مطرف، قبیلہ بنو عامر بن صعصعہ کے مطرف کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی نے ان کے پینے کے لئے دودھ منگوایا۔ تو انہوں نے کہا کہ میں روزہ دار ہوں اس پر حضرت عثمان ثقفی نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا روزے دوزخ سے ایسے ہی ڈھال ہیں جیسے لڑائی میں تمہارے پاس ڈھال ہوتی ہے۔   ٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، ہشام بن سعد، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے اس کو ریّان کہا جاتا ہے قیامت کے روز پکار کر کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ تو جو روزہ دار ہوں گے وہ اس دروازے میں داخل ہوں گے اور جو اس میں (ایک دفعہ) داخل ہو گا (پھر) کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا۔

ماہ رمضان کی فضیلت

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضل ، یحییٰ بن سعید، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان بھر کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔   ٭٭ ابو کریب محمد بن علاء، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان کی پہلی شب شیاطین اور سرکش جنات کو قید کر دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ایک دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ایک دروازہ بھی بند نہیں رہتا اور پکار نے والا پکارتا ہے اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے شر کے طالب ٹھہر جا اور اللہ تعالیٰ بہت سوں کو دوزخ سے آزاد فرماتے ہیں اور ایسا (رمضان کی) ہر رات ہوتا ہے۔   ٭٭ ابو کریب، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابو سفیان، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ بہت سوں کو دوزخ سے آزاد فرماتے ہیں اور ایسا ہر شب ہوتا ہے۔   ٭٭ ابو بدر عباد بن ولید، محمد بن بلال، عمران قطان، قتادۃ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم پر یہ مہینہ آ گیا اور اس میں ایک رات ہزار ماہ سے افضل ہے جو اس سے محروم ہو گیا وہ خیر سے محروم ہو گیا اس کی بھلائی سے وہی محروم رہے گا جو واقعتا محروم ہو۔

شک کے دن روزہ

محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو خالد احمر، عمرو بن قیس، ابو  اسحاق ، حضرت صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم شک کے دن حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بکری (بھونی ہوئی) لائی گئی تو بعض لوگ سرک گئے اس پر حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جس نے ایسے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، عبد اللہ بن سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاند دیکھنے سے ایک دن قبل روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔   ٭٭ عباس بن ولید دمشقی، مروان بن محمد، ہیثم بن حمید، علاء بن حارث، قاسم ابو عبد الرحمن، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان سے قبل منبر پر فرمایا کرتے تھے کہ رمضان کے روزے سے فلاں فلاں دن سے شروع ہوں گے اور ہم اس سے قبل (نفلی) روزہ رکھ رہے ہیں تو جو چاہے پہلے روزہ (نفلی) رکھے اور جو چاہے رمضان تک تاخیر کر لے۔

شعبان کے روزے رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا دینا

ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب، شعبہ، منصور، سالم بن ابی الجعد، ابو  سلمہ، حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزۃ، ثور بن یزید، خالد بن معدان، حضرت ربعیہ غاز نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کے متعلق پوچھا تو فرمانے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان بھر روزے رکھ کر اسے رمضان سے ملا دیتے۔

رمضان سے ایک دن قبل روزہ رکھنا منع ہے ، سوائے اس شخص کے جو پہلے سے کسی دن کا روزہ رکھتا ہو اور وہی دن رمضان سے پہلے آ جائے

ہشام بن عمار، عبد الحمید بن حبیب ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رمضان کے روزوں سے ایک دو دن پہلے روزہ مت رکھا کرو الاّ یہ کہ کوئی اس دن کا روزہ پہلے سے رکھتا ہو تو وہ رکھ سکتا ہے۔   ٭٭ احمد بن عبدۃ، عبد العزیز بن محمد۔ ہشام بن عمار، مسلم بن خالد، علاء بن عبد الرحمن، عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب نصف شعبان ہو جائے تو پھر رمضان آنے تک کوئی روزہ نہیں۔

چاند دیکھنے کی گواہی

عمرو بن عبد اللہ اودی و محمد بن اسماعیل، ابو اسامہ، زائدہ بن قدامہ، سماک بن حرب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دیہات کے رہنے والے صاحب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات میں نے چاند دیکھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ کی گواہی دیتے ہو؟ اس نے عرض کیا جی۔ ارشاد فرمایا بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اٹھو اور لوگوں میں اعلان کر دو کہ صبح روزہ رکھیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ہشیم، ابو بشیر، حضرت ابو عمیر بن انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میرے چچاؤں نے جو انصاری صجابی تھے یہ حدیث بیان کی کہ ایک بار (ابر کی وجہ سے ) ہمیں شوال کا چاند دکھائی نہ دیا تو صبح ہم نے روزہ رکھا پھر اخیر دن میں چند سوار آئے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے یہ شہادت دی کہ کل انہوں نے چاند دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر ڈالیں اور کل صبح عید کے لئے آ جائیں۔

چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر افطار ( عید) کرنا

؂ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابراہیم بن سعد، زہری، سالم بن عبد اللہ، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم (رمضان کا) چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم (عید کا) چاند دیکھو تو روزہ موقوف کرو اور اگر کبھی ابر کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دے تو حساب (کر کے تیس دن پورے ) کر لو اور ابن عمر (رمضان کا) چاند نظر آنے سے ایک دن قبل روزہ رکھا کرتے تھے (نفل کی نیت سے )۔   ٭٭ ابو مروان عثمانی، ابراہیم بن سعد، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چاند دیکھو تو روزے شروع شروع کر دو اور چاند دیکھ کر ہی روزہ موقوف کرو اور اگر کبھی چاند دکھائی نہ دے تو تیس دن کے روزے پورے کر لو۔

مہینہ کبھی انتیس دن کا بھی ہوتا ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہینے میں سے کتنے دن گزر گئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہ) کبھی مہینہ اتنا ہوتا ہے کہ اور اتنا ہوتا ہے اور اتنا تیسری مرتبہ ایک انگلی بند کر لی۔   ٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، اسماعیل بن ابی خالد، محمد بن سعد بن ابی وقاص، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کبھی مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا اور آخر میں انتیس کا عد د بتایا۔   ٭٭ مجاہد بن موسی، قاسم بن مالک مزنی، جریری، ابو نضرۃ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ہم تیس روزوں کی بنسبت انتیس روزے زیادہ بار رکھتے۔

عید کے دونوں مہینوں کا بیان

حمید بن مسعدۃ، یزید بن زریع، خالد حذاء، عبد الرحمن بن ابی بکرۃ، حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عید کے دو مہینے رمضان اور ذی الجحہ کم نہیں ہوتے۔   ٭٭ محمد بن عمر مقری، اسحاق بن عیسیٰ، حماد بن زید، ایوب، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عید فطر اسی دن ہے جس دن تم (مسلمانوں کی جماعت) فطر کرو اور عید مناؤ اور عید الاضحی اسی روز ہے جس روز تم قربانی کرو۔

روزہ دار کے لئے بوسہ لینے کا حکم

ابو بکر بن ابی شیبہ و عبد اللہ بن جراح، ابو الاحوص، زیاد بن علاقہ، عمرو بن میمون، حضرت عائشہ رضی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ صیام میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبید اللہ، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے اور تم میں سے کون اپنی خواہش پر ایسا اختیار رکھتا ہے۔ جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی خواہش پر اختیار رکھتے تھے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، شتیر بن شکل، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، اسرائیل، زید بن جبیر، ابو یزید ضنی، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باندی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ مرد اپنی بیوی کا بوسہ لے جبکہ دونوں روزہ دار ہوں تو کیسا ہے؟ فرمایا دونوں نے افطار کر لیا۔

روزہ دار کے لئے بیوی کے ساتھ لیٹنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ابن عون، حضرت ابراہیم کہتے ہیں کہ جناب اسود اور مسروق عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ کی حالت میں اپنی ازواج کے ساتھ لیٹ جاتے تھے؟ فرمانے لگیں ایسا بھی کر لیتے تھے لیکن وہ تم سب سے زیادہ اپنی خواہش پر قابو رکھتے تھے۔   ٭٭ محمد بن خالد بن عبد اللہ واسطی، خالد بن عبد اللہ واسطی، عطاء بن سائب، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ معمر روزہ دار کے لئے اس کی رخصت ہے اور جوان کے لئے مکروہ ہے۔

روزہ دار کا غیبت اور بیہودہ گوئی میں مبتلا ہونا

عمرو بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، ابن ابی ذئب، سعید مقبری، ابو سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جھوٹی بات جہالت اور جہالت پر چلنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے اس کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔   ٭٭ عمرو بن رافع، عبد اللہ بن مبارک، اسامہ بن زید، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت سے روزہ داروں کو روزہ میں بھوک کے علاوہ کچھ حاصل نہیں اور بہت سے (رات کو) قیام کرنے والوں کو جاگنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں۔   ٭٭ محمد بن صباح، جریر، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو بے ہودگی اور جہالت سے باز رہے اور اگر کوئی اس کے ساتھ جہالت کی بات کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔

سحری کا بیان

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، عبد العزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔   ٭٭ محمد بن بشار، ابو عامر، زمعہ بن صالح، سلمہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سحری کے کھانے سے دن کے روزے میں اور دوپہر کو سو کر تہجد کی نماز میں مد د حاصل کرو۔

سحری دیر سے کرنا

علی بن محمد، وکیع، ہشام دستوائی، قتادۃ، انس بن مالک، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سحری کا کھانا کھایا پھر نماز کے لئے اٹھے (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے کہا ان کے درمیان کتنا وقفہ تھا۔ فرمایا پچاس آیات کی تلاوت کے بقدر۔   ٭٭ علی بن محمد، ابو بکر بن عیاش، عاصم، زر، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سحری کھائی دن ہو گیا تھا بس سورج نہیں نکلا تھا۔   ٭٭ یحییٰ بن حکیم، یحییٰ بن سعد و ابن ابی عدی، سلیمان تیمی، ابو عثمان نہدی، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلال کی اذان تم میں سے کسی کو سحری سے نہ روکے وہ اس لئے اذان دیتے ہیں کہ سونے والا بیدار ہو جائے اور جو نماز پڑھ رہا ہو وہ لوٹ جائے (اور سحری کھا لے ) اور فجر یہ نہیں ہے بلکہ یہ ہے آسمان کے کناروں میں چوڑائی میں (نمودار ہونے والی روشنی)۔

جلد افطار کرنا

ہشام بن عمار و محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ خیر پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے تم افطار میں جلدی کیا کرو کیونکہ یہود افطار میں تاخیر کرتے ہیں۔

کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے َ

عثمان بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان و محمد بن فضیل، ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، عاصم احول، حفصہ بنت سیرین، رباب ام الرائح بنت صلیع، حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرنے لگے تو کھجور سے افطار کرے۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو پھر پانی سے افطار کر لے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے۔

رات سے روزہ کی بیت کرنا اور نفلی روزہ میں اختیار

ابو بکر بن ابی شیبہ، خالد بن مخلد قطرانی، اسحاق بن حازم، عبد اللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم، سالم، ابن عمر، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو رات سے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں۔   ٭٭ اسماعیل بن موسی، شریک، طلحہ بن یحییٰ، مجاہد، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آتے اور فرماتے تمہارے پاس کچھ ہے۔ میں عرض کرتی نہیں۔ آپ فرماتے پھر میرا روزہ ہے اور اپنے روزے پر قائم رہتے پھر کوئی چیز ہمارے ہاں ہدیہ آتی تو آپ روزہ افطار کر لیتے۔ فرماتی ہیں کہ کبھی آپ روزہ رکھنے کے بعد توڑ بھی دیتے۔ (راوی کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا یہ کیوں؟ فرمانے لگیں یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی صدقہ کے لئے کچھ نکالے پھر کچھ دے دے اور کچھ روک لے۔

روزہ کا ارادہ ہو اور صبح کے وقت جنابت کی حالت میں اٹھے

ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عمر بن دینار، یحییٰ بن جعدۃ، عبد اللہ بن عمر قاری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ربّ کعب کی قسم یہ بات میں نے نہیں کہی جو جنابت کی حالت میں صبح کرے وہ روزہ نہ رکھے بلکہ (یہ بات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمائی ہے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، مطرف، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں حالت جنابت میں ہوتے کہ حضرت بلال آ کر نماز کی اطلاع دیتے۔ آپ اٹھتے اور غسل کرتے مجھے آپ کے سر سے پانی ٹپکتا نظر آ رہا ہوتا۔ آپ باہر تشریف لے جاتے پھر مجھے نماز فجر میں آپ کی آواز سنائی دیتی۔ مطرف کہتے ہیں میں نے عامر شعبی سے پوچھا کہ یہ رمضان میں ہوتا تھا کہنے لگے رمضان اور غیر رمضان برابر ہیں۔   ٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، عبید اللہ، حضرت نافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جنابت کی حالت میں آدمی صبح کرے اور روزہ کا ارادہ بھی ہو؟ تو فرمانے لگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنابت صحبت سے ہوتی نہ کہ احتلام سے پھر آپ غسل کرتے اور پورا روزہ رکھتے۔

ہمیشہ روزہ رکھنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن سعید، محمد بن بشار، یزید بن ہارون و ابو داؤد، شعبہ، قتادۃ، مطرف بن عبد اللہ شخیر، حضرت عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ہمیشہ (بلاناغہ) روزہ رکھے اس نے نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، مسعر و سفیان، حبیب بن بی ثابت، ابو العباس مکی، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو ہمیشہ روزہ رکھے (وہ ایسے ہے گویا کہ) اس نے روزہ رکھا ہی نہیں

ہر ماہ میں تین دن

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، شعبہ، انس بن سیرین، عبد الملک بن منہال، حضرت منہال سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایاّم بیض میں تیرہویں چودہویں پندرہویں کے روزہ کا فرمایا کرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ یہ (ہر ماہ تین روزے رکھنے ) زندگی بھر روزہ رکھنے کے برابر ہے۔   ٭٭ سہل بن ابی سہل، ابو معاویہ، عاصم احول، ابو عثمان، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے ہر ماہ تین دن روزہ رکھا تو یہ زمانہ بھر کے روزے ہیں (ثواب کے اعتبار) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق نازل فرمائی جو کوئی بھی نیکی لائے تو اس کو اس کا دس گنا ملے گا تو ایک دن دس کے برابر ہوا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، یزید رشک، معاذۃ عدوی، حضرت معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کون سے تین دن تو فرمایا یہ خیال نہ فرماتے تھے کہ کون سے دن سے دن ہیں (بلکہ بلا تعیین تین دن روزہ رکھتے تھے )۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزے

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابن ابی لبید، ابو  سلمہ، ابو  سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ سے نبی کے روزے کے متعلق دریافت کیا۔ تو فرمایا آپ روزے رکھتے چلے جاتے حتیٰ کہ ہم یہ کہتے کہ اب تو روزہ ہی رکھیں گے اور روزہ موقوف فرما دیتے تو ہم کہتے اب تو روزہ ہی رکھیں گے اور روزہ موقوف فرما دیتے تو ہم کہتے اب تو موقوف ہی کر دیا میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے شعبان سے زیادہ کسی مہینہ روزے رکھے ہوں۔ آپ چند روز کے علاوہ پورا شعبان روزے رکھتے۔   ٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابو بشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ اب روزہ موقوف نہ فرمائیں گے اور روزہ چھوڑ دیتے حتیٰ کہ ہم کہتے اب روزہ نہ رکھیں گے اور جب سے مدینہ تشریف لائے مسلسل پورا مہینہ رمضان کے علاوہ کبھی روزے نہیں رکھے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے

ابو اسحاق شافعی ابراہیم بن محمد بن عباس، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، عمرو بن اوس، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب حضرت داؤد علیہ السلام جیسا روزہ ہے۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے (روزہ نہ رکھتے ) اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ نماز حضرت داؤد علیہ السلام کی ہے آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی نماز پڑھتے اور چھٹا حصہ پھر سو جاتے۔   ٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، عبد اللہ بن معبد زمانی، حضرت ابو قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! جو شخص دو روزے رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کسی میں اتنی طاقت بھی ہے؟ عرض کیا اے اللہ کے رسول ! جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کر وہ کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی۔

حضرت نوح علیہ السلام کی روزے

سہل بن ابی سہل، سعید بن ابی مریم، ابن لہیعہ، جعفر بن ربیعہ، ابو فراس، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ حضرت نوح علیہ السلام ہمیشہ (اور بلاناغہ) روزہ رکھا کرتے تھے صرف فطر اور ضحی کے دن روزہ نہ رکھتے تھے۔

ماہ شوال میں چھ روزے

ہشام بن عمار، بقیہ، صدقہ بن خالد، یحییٰ بن حارث ذماری، ابو اسماء رحبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو عید الفطر کے بعد چھ دن روزہ رکھے اس کو پورے سال کے روزوں کا ثواب ملے گا جو ایک نیکی لائے اس کو اس کا دس گنا اجر ملے گا۔   ٭٭ علی بن محمد، عبد اللہ بن نمیر، سعد بن سعید، عمر بن ثابت، حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال میں چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی مانند ہے۔

اللہ کے راستے میں ایک روزہ

محمد بن رمح بن مہاجر، لیث بن سعد، ابن الہاد، سہیل بن ابی صالح، نعمان بن ابی عیاش، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے دوزخ کو اس سے ستر سال (کی مسافت کے برابر) دور فرما دیں گے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، انس بن عیاض، عبد اللہ بن عبد العزیز لیثی، مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ دوزخ کو اس سے ستر سال دور فرما دیں گے۔

ایّام تشریق میں روزہ کی ممانعت

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحمن بن سلیمان، محمد بن عمر، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا منیٰ میں رہنے کے دن کھانے پینے کے دن ہیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، نافع بن جبیر بن مطعم، حضرت بشر بن سحیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایام تشریق میں خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ جنت میں صرف مسلمان جائے گا اور یہ دن کھانے پینے کے دن ہیں۔

یوم الفطر اور یوم الا ضحی روزہ رکھنے کی ممانعت

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن یعلی تیمی، عبد الملک بن عمیر، قزعہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔   ٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان، زہری، حضرت ابو عبید فرماتے ہیں کہ میں عید میں حاضر ہوا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ نے پہلے نماز پڑھائی خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا یوم الفطر اور یوم الاضحی۔ یوم الفطر تو تمہارے افطار کا دن ہے (رمضان کے روزوں سے ) اور یوم الاضحی کو تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔

جمعہ کو روزہ رکھنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ و حفص بن غیاث، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا الا یہ کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھے (تو اس کی اجازت ہے )۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبد الحمید بن جبیر بن شیبہ، حضرت محمد بن عباد بن جعفر فرماتے ہیں کہ میں نے بیت اللہ کے طواف کے دوران حضرت جابر بن عبد اللہ سے رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا؟ فرمایا جی ہاں اس گھر کے رب کی قسم۔   ٭٭ اسحاق بن منصور، ابو داؤد شیبان، عاصم، ذر، حضرت عبد اللہ بن مسعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جمعہ کے روز بہت کم افطار (روزہ موقوف) کرتے دیکھا۔

ہفتہ کے دن روزہ

ابو بکر بن ابی شیبہ، عیسیٰ بن یونس، ثور بن یزید، خالد بن معدان، حضرت عبد اللہ بن بسر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہفتہ کے دن فرض روزہ کے علاوہ نہ رکھو اگر تم میں سے کسی کو کھانے کو کچھ نہ ملے تو انگور کی شاخ یا درخت کی چھال ہی چوس لے۔ حضرت عبد اللہ بن بسر اپنی ہمشیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا ہی ارشاد فرمایا۔

ذی الحجہ کے دس دنوں کے روزے

علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، مسلم بطین، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کے روزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں میں باقی دنوں سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں الّا یہ کہ کوئی مرد جان مال سمیت نکلے اور پھر کچھ بھی لے کر واپس نہ لوٹے (بلکہ مال خرچ کر دے اور جان کی قربانی دے دے )۔   ٭٭ عمر بن شیبہ بن عبیدۃ، مسعود بن واصل، نہاس بن قہم، قتادۃ، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام ایام میں اللہ تعالیٰ کو ان دس دنوں کی عبادت سے زیادہ کوئی عبادت پسند نہیں ان میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ایک رات (کی عبادت) لیلۃ القدر کے برابر ہے۔   ٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دس دنوں میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔

عرفہ میں نویں ذی الحجہ کا روزہ

احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، عبد اللہ بن معبد زمانی، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اللہ سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔   ٭٭ ہشام بن عمار، یحدی بن حمزہ، اسحاق بن عبد اللہ، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید خدری، حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا اس کے ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، حوشب بن عقیل، مہدی عبدی، عکرمہ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے گھر جا کر ان سے عرفات میں عرفہ کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا۔ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں عرفہ کے روزہ سے منع فرمایا۔

عاشورہ کا روزہ

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ابن ابی ذئب ، زہری، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عاشورہ کا روزہ خود بھی رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے۔   ٭٭ سہل بن ابی سہل ، سفیان بن عیینہ ، ایوب ، سعید بن جبیر ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودیوں کا روزہ۔ آپ نے دریافت فرمایا یہ روزہ کیسا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی اور فرعون کو غرق کیا۔ تو موسیٰ علیہ السلام نے خود بھی شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حقدار ہیں پھر آپ نے بھی اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل ، حصین ، شعبی ، حضرت محمد بن صیفی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عاشورہ کے دن ہمیں فرمایا کہ تم میں سے کسی نے آج کچھ کھایا ہم نے عرض کیا کہ بعض نے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا۔ فرمایا جس نے کچھ کھایا اور جس نے کچھ نہ کھایا دونوں شام تک (کچھ نہ کھائیں اور روزہ) پورا کریں اور مدینہ کے اطراف میں گاؤں والوں کی طرف آدمی بھیجو کہ وہ بھی بقیہ دن کچھ نہ کھائیں۔   ٭٭ علی بن محمد ، وکیع ، ابن ابی ذئب ، قاسم بن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غلام عبد اللہ بن بن عمیر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھوں گا دوسری سند میں یہ اضافہ ہے کہ اس خدشہ سے کہ عاشورہ کا روزہ چھوٹ نہ جائے۔   ٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس یوم عاشوراء کا تذکرہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس روزہ اہل جاہلیت روزہ رکھا کرتے تھے تم میں سے جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔   ٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، عبد اللہ بن معبد الزمانی، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھے اللہ سے امید ہے کہ یوم عاشوراء کے روزہ سے گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔

سوموار اور جمعرات کا روزہ

ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، ثور بن یزید، خالد بن معدان، حضرت ربیعہ بن غاز نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کے متعلق دریافت کیا تو فرمانے لگیں آپ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے۔   ٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری، ضحاک بن مخلد، محمد بن رفاعہ، سہیل بن ابی صالح، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں؟ فرمایا سوموار اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی بخشش فرما دیتے سوائے دو قطع کلامی کرنے والوں کے۔ فرماتے ہیں کہ ان کو چھوڑ دو تاوقتیکہ یہ صلح کر لیں۔

اشہر حرم کے روزے

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، جریری، ابو السبیل، حضرت ابو مجیبہ باہلی روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد یا چچا نے کہا کہ میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے نبی ! میں وہی شخص ہوں جو گزشتہ سال آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ فرمایا تم کمزور لگ رہے ہو۔ عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں دن کو کھانا نہیں کھاتا ، صرف رات کو کھانا کھاتا ہوں۔ فرمایا تمہیں کس نے کہا کہ اپنی جان کو عذاب میں مبتلا کرو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! مجھ میں (روزہ رکھنے کی) قوّت ہے۔ فرمایا صبر کا مہینہ (رمضان) روزہ رکھو اور اس کے بعد (مہینہ میں ) ایک۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس زائد کی قوّت ہے۔ فرمایا ماہ صبر کے روزے رکھو اور اس کے بعد (ہر ماہ) دو دن۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زائد قوّت ہے۔ فرمایا ماہ صبر کے روزہ رکھو اور اس کے بعد (ہر ماہ) تین دن اور اشہر حرام کے روزے رکھ لو۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسین بن علی، زائدۃ، عبد الملک بن عمیر، محمد بن منتشر، حمید بن عبد الرحمن حمیری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت کن روزوں کی ہے؟ فرمایا اللہ کا مہینہ جسے تم محرم کہتے ہو۔   ٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی، داؤد بن عطاء، زید بن عبد الحمید بن عبد الرحمن بن زید بن خطاب، سلیمان، ابو سلیمان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رجب کے روزوں سے منع فرمایا۔   ٭٭ محمد بن صباح، عبد العزیز دراوردی، یزید بن عبد اللہ بن اسامہ، حضرت محمد بن ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید اشہر حرم کے روزے رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا شوال میں روزے رکھا کرو تو انہوں نے اشہر حرم کو چھوڑ دیا اور تاوقت وفات شوال میں روزے رکھتے رہے۔

روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے

ابو بکر، عبد اللہ بن مبارک، محرز بن سلمہ عدنی، عبد العزیز بن محمد، موسیٰ بن عبیدۃ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے۔ بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ محرز کی روایت میں اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روزہ آدھا صبر ہے۔

روزہ دار کو روزہ افطار کرانے کا ثواب

علی بن محمد، وکیع، ابن ابی لیلیٰ و یعلی، عبد الملک و ابو معاویہ، حجاج، عطاء، حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کو بھی اس کے برابر ثواب ملے گا۔ روزہ دار کے ثواب میں کمی بھی نہ ہو گی۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سعید بن یحییٰ لخمی، محمد بن عمرو، مصعب بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سعد بن معاذ کے ہاں روزہ افطار کیا تو دعا دی کہ روزہ دار تمہارے ہاں افطار کریں نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمہارے لئے دعائیں کریں۔

روزہ دار کے سامنے کھانا

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد و سہل، وکیع، شعبہ، حبیب بن زید انصاری، لیلیٰ، حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ہاں تشریف لائے آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ بعض حاضرین کا روزہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جائے تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔   ٭٭ محمد بن مصفی، بقیہ، محمد بن عبد الرحمن، سلیمان بن بریدۃ، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا بلال ناشتہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ میرا روزہ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم اپنا رزق کھا رہے ہیں اور بلال کا رزق جنت میں ہے۔ بلال آپ کو معلوم بھی ہے کہ جب تک روزہ دار کے سامنے کھایا جائے اس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں اور فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں۔

روزہ دار کو کھانے کی دعوت دی جائے تو کیا کرے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ و محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی روزہ دار ہو اور اسے کھانے کی دعوت دی جائے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔   ٭٭ احمد بن یوسف سلمی، ابو عاصم، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کو کھانے کی دعوت دی جائے اور وہ روزہ دار ہو تو دعوت قبول کرے (اور حاضر ہو جائے ) پھر اگر چاہے تو کھائے (اور قضا کر لے ) اور چاہے تو نہ کھائے۔

روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی

علی بن محمد، وکیع، سعدان جہنی، سعد ابو مجاہد طائی، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی، امام عادل ، روزہ دار کی افطار تک اور مظلوم کی دعا کہ اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت بادلوں سے اوپر اٹھائیں گے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میری عزت کی قسم !ضرور تیری مد د کروں گا گو کچھ وقت کے بعد۔   ٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، اسحاق بن عبید اللہ مدنی، عبد اللہ بن ابی ملیکہ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی۔ حضرت ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو افطار کے وقت یہ دعا مانگتے سنا اے اللہ ! میں آپ کو آپ کی رحمت کا واسطہ دے کر جو ہر چیز کو شامل ہے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری بخشش فرما دیجئے۔

عید الفطر کے روز گھر سے نکلنے سے قبل کچھ کھانا

جبارۃ بن مغلس، ہشیم، عبید اللہ بن ابی بکر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید الفطر کے روز کچھ چھوہارے کھائے بغیر نہ نکلتے۔   ٭٭ جبارۃ بن مغلس، مندل ابن علی، عمر بن صہبان، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ نبی عید الفطر کے روز عیدگاہ کو نہ جاتے تھے جب تک اپنے صحابہ کو صدقہ فطر میں سے ناشتہ نہ کروا دیتے (جو صدقہ فطر آپ کے پاس جمع ہوتا نماز عید جانے سے قبل آپ مساکین صحابہ میں تقسیم فرما دیتے )۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو عاصم، ثواب بن عتبہ مہری، ابن بریدۃ، حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید الفطر کے روز کچھ کھائے بغیر نہ نکلتے اور عید الاضحی کو (نماز سے ) واپس آنے تک کچھ نہ کھاتے۔

جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ رمضان کے روزے ہوں جن کو کوتاہی کی وجہ سے نہ رکھا

محمد بن یحییٰ، قتیبہ، عبثر، اشعث، محمد بن سیرین، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کے ذمے کچھ روزے ہوں اور وہ فوت ہو جائے تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔

جس کے ذمے نذر کے روزے ہوں اور وہ فوت ہو جائے

عبد اللہ بن سعید، ابو خالد احمر، اعمش، مسلم، بطین و حکم و سلمہ بن کہیل، سعید بن جبیر و عطاء و مجاہد، حضرت ابن عباس اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگیں اے اللہ کے رسول میری ہمشیرہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کے ذمے مسلسل دو ماہ کے روزے تھے۔ فرمایا بتاؤ اگر تمہاری ہمشیرہ کے ذمہ قرض ہوتا تم ادا کرتیں۔ عرض کرنے لگیں کیوں نہیں ضرور۔ فرمایا تو اللہ کا حق زیادہ اس لائق ہے کہ ادا کیا جائے۔   ٭٭ زہیر بن محمد، عبد الرزاق، سفیان، عبد اللہ بن عطاء، ابن بریدہ، حضرت بریدہ فرماتے ہیں ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میری والدہ کے ذمہ روزہ تھے ، ان کا انتقال ہو گیا۔ کیا میں ان کی جانب سے روزے رکھ لوں؟ فرمایا جی۔

جو ماہ رمضان میں مسلمان ہو

محمد بن یحییٰ، احمد بن خالد وہبی، محمد بن اسحاق ، عیسیٰ بن عبد اللہ بن مالک، حضرت عطیہ بن سفیان بن عبد اللہ بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہمارا وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ انہوں نے ہمیں ثقیف کے اسلام لانے کے متعلق بتایا کہ وہ رمضان میں حاضر خدمت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں ان کے لئے قبہ لگوایا جب وہ مسلمان ہو گئے تو باقی مہینہ روزے رکھے۔

خاوند کی اجازت کے بغیر بیوی کا روزہ رکھنا

؂ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر بیوی رمضان کے علاوہ ایک دن بھی روزہ نہ رکھے۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ بن حماد، ابو عوانہ، سلیمان، ابو صالح، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو خاوند کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزے رکھنے سے منع فرمایا۔

مہمان میزبان کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے

محمد بن یحییٰ ازدی، موسیٰ بن داؤد و خالد بن ابی یزید، ابو بکر مدنی، ہشام بن عروۃ، عروۃ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی قوم کا مہمان ہو تو ان کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔

کھا نا کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کر صبر کر نے والے کے برابر ہے

یعقوب بن حمید بن کاسب، محمد بن معن، معن، عبد اللہ عبد اللہ اموی، معن بن محمد، حنظلہ بن علی اسلمی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کھانا کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کے برابر ہے۔   ٭٭ اسماعیل بن عبد اللہ رقی، عبد اللہ بن جعفر، عبد العزیز بن محمد، محمد بن عبد اللہ بن ابی حرۃ، حکیم بن ابی حرۃ، حضرت سنان اسلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کھانا کھا کر شکر کرنے والوں کو روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کے برابر ملے گا۔ (یعنی اللہ اس عمل کو بہت پسند کرتے ہیں اور بے بہا اَجر و ثواب عنایت کرتے ہیں )۔

لیلۃ القدر

ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ہشام دستوائی، یحییٰ بن کثیر، ابو  سلمہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھے لیلۃ القدر دکھا کر بھلا دی گئی۔ تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

ماہ رمضان کی آخری دس راتوں کی فضیلت

محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب و ابو  اسحاق ہروی ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم، عبد الواحد بن زیاد، حسن بن عبید اللہ، ابراہیم نخعی، اسود، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری دس راتوں میں عبادت میں ایسی کوشش فرماتے جو اس کے علاوہ میں نہ فرماتے۔   ٭٭ عبد اللہ بن محمد زہری، سفیان، ابن عبید بن نسطاس، ابو الضحی، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری عشرے میں شب بیداری کرتے ازار کس لیتے اور گھر والوں کو (عبادت کے لئے ) جگا دیتے

اعتکاف

ہناد بن سری، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر سال دس روزہ اعتکاف فرماتے تھے جس سال آپ نے بیس روز اعتکاف فرمایا ہر سال ایک مرتبہ آپ کے ساتھ قرآن کا دور کیا جاتا وصال کے سال دوبارہ کیا گیا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرحمن بن مہدی، حماد بن سلمہ، ثابت، ابو رافع، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے۔ ایک سال آپ نے سفر کیا تو اس سے اگلے سال بیس روز اعتکاف فرمایا۔

اعتکاف شروع کرنا اور قضا کرنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، یعلی بن عبید، یحییٰ بن سعید، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں جاتے آپ کا ارادہ ہوا کہ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کریں۔ آپ کے فرمانے پر خیمہ نصب کرنے کا کہا۔ ان کے لئے بھی خیمہ نصب کر دیا گیا۔ حضرت زینب نے ان کا خیمہ دیکھا تو ایک اور خیمہ نصب کرنے کا کہہ دیا ان کے لئے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا تو فرمایا تم نے نیکی کا ارادہ کیا؟ سو آپ نے رمضان میں اعتکاف نہ فرمایا اور شوال میں ایک عشرہ اعتکاف فرمایا

ایک دن یا رات کا اعتکاف

اسحاق بن موسیٰ خطمی، سفیان بن عیینہ، ایوب، نافع، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی منت مانی تھی۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اعتکاف کرنے کا حکم دیا۔

معتکف مسجد میں جگہ متعین کرے

؂احمد بن عمرو بن سرح، عبد اللہ بن وہب، یونس، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ حضرت نافع کہتے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعتکاف کی جگہ دکھائی۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، نعیم بن حماد، ابن مبارک، عیسیٰ بن عمر بن موسی، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اعتکاف فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بستر یا تخت ستون اسطوانہ کے پیچھے لگا دیا جاتا۔

مسجد میں خیمہ لگا کر اعتکاف کرنا

محمد بن عبد الاعلی صنعانی، معتمر بن سلیمان، عمارۃ بن عزیہ، محمد بن ابراہیم، ابو  سلمہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ترکی خیمہ میں اعتکاف فرمایا اس کے دروازے پر چٹائی کا ٹکڑا لگا ہوا تھا۔ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چٹائی کو ہاتھ سے پکڑ کر خیمہ کے کونہ میں کر دیا اور اپنا سر باہر نکال کر لوگوں سے گفتگو فرمائی۔

دوران اعتکاف بیمار کی عیادت اور جنازے میں شر کت

محمد بن رمح، لیث بن شہاب، عروۃ بن زبیر و عمرۃ بنت عبد الرحمن، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کسی کام کے لئے گھر جاتی گھر میں مریض ہوتا تو میں چلتے چلتے ہی اس سے حال احوال لیتی۔ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوران اعتکاف بلا ضرورت گھر نہ جاتے۔

زکوٰۃ کا بیان

 

اونٹوں کی زکوٰۃ

محمد بن عقیل بن خویلد نیشاپوری، حفص بن عبد اللہ سلمی، ابراہیم بن طہمان، عمرو بن یحییٰ بن عمارۃ، یحییٰ بن عمارۃ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اونٹوں سے کم اونٹوں میں زکوٰۃ نہیں اور نہ ہی چار میں کچھ ہے۔ پانچ سے نو تک اونٹوں میں ایک بکری ہے اور دس سے چودہ تک میں دو بکریاں اور پندرہ سے انیس تک تین بکریاں اور بیس سے چوبیس تک اونٹوں میں چار بکریاں ہیں اور پچیس سے چونتیس تک ایک سالہ اونٹنی ہے اور ایک سالہ اونٹنی نہ ہو تو دو سالہ اونٹ ہے اور چھتیس سے پینتالیس تک میں دو سالہ ایک اونٹنی اس سے ایک اونٹ بھی زیادہ ہو تو ساٹھ تک میں تین سالہ اونٹنی ہے اس سے ایک اونٹ بھی زائد ہو تو پچھتر تک چار سالہ اونٹنی ہے اس سے ایک اونٹ بھی زائد ہو تو نوے تک دو سالہ دو اونٹنیاں ہیں اس سے ایک اونٹ بھی زائد ہو تو اس میں ایک سو بیس تک تین سالہ دو اونٹنیاں ہیں پھر ہر پچاس میں تین سالہ اونٹنی ہے اور ہر چالیس میں دو سالہ اونٹنی ہے۔

زکوٰۃ میں واجب سے کم یا زیادہ عمر کا جانور لینا

محمد بن بشار و محمد بن یحییٰ و محمد بن مرزوق، محمد بن عبد اللہ مثنی، مثنی، ثمامہ، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے انہیں لکھا بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ یہ زکوٰۃ کے وہ احکام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں پر فرض فرمائے۔ جس پر چار سالہ اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ تین سالہ اونٹنی ہو تو اس سے تین اونٹنیاں لے لی جائیں اور چار سالہ کی جگہ میسر ہو تو دو بکریاں لے لی جائیں یا بیس درہم اور جس پر تین سالہ اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس دو سالہ اونٹنی ہی ہو تو اس سے دو سالہ اونٹنی کے ساتھ دو بکریاں بیس درہم لئے جائیں اور جس پر دو سالہ اونٹنی واجب ہو جو اس کے پاس نہ ہو بلکہ اس کے پاس تین سالہ اونٹنی ہو تو اس سے وہی لے لی جائے اور زکوٰۃ وصول کرنے والا اس کو بیس درہم یا دو بکریاں دے دے۔ اور جس پر دو سالہ اونٹنی واجب ہو جو اس کے پاس نہیں ہے بلکہ اس کے پاس ایک سالہ اونٹنی ہے تو اس سے وہی لے لی جائے اور اس کے ساتھ وہ بیس درہم یا دو بکریاں بھی دے اور جس پر ایک سالہ اونٹنی واجب ہے اور اس کے پاس وہ نہیں بلکہ اس کے پاس دو سالہ اونٹنی ہے تو مصدق (زکوٰۃ وصول کرنے والا) اس سے وہی لے لے اور اسے بیس درہم یا دو بکریاں دے دے۔ اور اگر اس کے پاس پوری ایک سالہ اونٹنی نہ ہو بلکہ ایک سالہ اونٹ ہو تو اس سے وہی لے لیا جائے اور اس کے علاوہ اس سے کچھ نہ لیا جائے۔

زکوٰۃ وصول کرنے والا کس قسم کا اونٹ لے

علی بن محمد، وکیع، شریک، عثمان ثقفی، ابو لیلیٰ ، سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی کی جانب سے زکوٰۃ وصول کرنے والا آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی دستاویز پڑھی اس میں تھا زکوٰۃ کے ڈر سے متفرق کو جمع نہ کیا جائے اور مجتمع کو متفرق نہ کیا جائے تو ان کے پاس ایک صاحب بہت عمدہ موٹی اونٹنی لے کر آئے اس نے لینے سے انکار کر دیا تو وہ دوسری پہلی سے کم درجہ کی لے کر آئے تو لے لی اور کہنے لگا جب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک مسلمان کا بہترین اونٹ لے کر پہنچوں گا تو (آپ کی ناراضگی) میں کون سی زمین مجھے برداشت کرے گی اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، جابر، عامر، حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زکوٰۃ وصول کرنے والا خوشی سے واپس ہو۔

گائے بیل کی زکوٰۃ

محمد بن عبد اللہ نمیر، یحییٰ بن عیس رملی، اعمش، شقیق، مسروق، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا اور فرمایا کہ ہر چالیس گائے میں سے دو سالہ گائے اور ہر تیس گائے میں سے ایک سالہ گائے یا بیل وصول کروں۔   ٭٭ سفیان بن وکیع، عبد السلام بن حرب، خصیف، ابو عبیدۃ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تیس گائے میں ایک سالہ گائے یا بیل ہے اور چالیس میں دو سالہ۔

بکر یوں کی زکوٰۃ

بکر بن خلف، عبد الرحمن بن مہدی، سلیمان بن کثیر، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں ابن شہاب کہتے ہیں کہ حضرت سالم نے زکوٰۃ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات سے پہلے کی یہ تحریر میرے سامنے پڑھی اس میں تھا۔ چالیس بکریوں میں ایک بکری ہے ایک سو بیس تک۔ اس میں ایک بھی زائد ہو تو دو سو تک دو بکریاں ہیں اس سے ایک بھی زائد ہو سو میں ایک بکری ہے اور اس تحریر میں یہ بھی تھا کہ متفرق کو مجتمع کو متفرق نہ کیا جائے اور یہ بھی تھا کہ زکوٰۃ میں نر بوڑھا اور معیوب جانور نہ لیا جائے۔   ٭٭ ابو بدر عباد بن ولید، محمد بن فضل، ابن مبارک، اسامہ بن زید، زید، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں کی زکوٰۃ ان کے پانیوں (ڈیروں ) پر ہی وصول کی جائے۔   ٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم اودی، ابو نعیم، عبد السلام بن حرب، یزید بن عبد الرحمن، ابو ہند، نافع، حضرت ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں چالیس سے ایک سو بیس تک بکریوں میں ایک بکری ہے اس سے ایک بھی زئد ہو جائے تو دو بکریاں ہیں دو سو تک۔ اس سے ایک بھی بڑھ جائے تو ہر سو میں ایک بکری ہے اور زکوٰۃ کے ڈر سے متفرق کو جمع نہ کیا جائے اور مجتمع کو متفرق نہ کیا جائے اور دونوں شریک (اپنے اور حساب کریں اور بوڑھا ، معیوب اور نر جانور صدقہ وصول کرنے والے کو نہ دیا جائے الاّ یہ کہ وہ خود چاہے۔

زکوٰۃ وصول کرنے والوں کے احکام

عیسیٰ بن حماد مصری، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سعد بن سنان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زکوٰۃ وصول کرنے میں زیادتی کرنے والا (گناہ میں ) زکوٰۃ نہ دینے والے کی مانند ہے۔   ٭٭ ابو کریب، عبدۃ بن سلیمان و محمد بن فضیل و یونس بن بکیر، محمد بن اسحاق ، عاصم بن عمر بن قتادۃ، محمود بن لبید، حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا امانتداری کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا اللہ کی راہ میں لڑنے والے کے برابر ہے۔ یہاں تک یہ لوٹ کر اپنے گھر آئے۔   ٭٭ عمرو بن سواد مصری، ابن وہب، عمر بن حارث، موسیٰ بن جبیر، عبد اللہ بن عبد الرحمن حباب انصاری، ایک روز حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان زکوٰۃ سے متعلق گفتگو ہو رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زکوٰۃ میں چوری کا ذکر فرماتے ہوئے یہ کہتے نہیں سنا کہ جس نے زکوٰۃ کا اونٹ یا بکری چرائی وہ قیامت کے روز اسے اٹھائے ہوئے پیش ہو گا تو حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں۔   ٭٭ ابو بدر عباد بن ولید، ابو عتاب، ابراہیم بن عطاء مولیٰ عمران، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر کیا گیا جب وہ واپس ہوئے تو ان سے پوچھا گیا مال کہاں ہے؟ فرمانے لگے تم نے ہمیں مال کی خاطر بھیجا تھا ہم نے جن لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں زکوٰۃ وصول کیا کرتے تھے ان سے وصول کر کے وہاں خرچ کر آئے جہاں (اس مبارک دور میں ) خرچ کیا کرتے تھے۔

گھوڑوں اور لونڈیوں کی زکوٰۃ کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبد اللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں۔   ٭٭ سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، ابو  اسحاق ، حارث، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ تمہیں معاف کر دی

اموال زکوٰۃ

عمرو بن سواد مصری، عبد اللہ بن وہب، سلیمان بلال، شریک بن ابی نمر، عطاء بن یسار، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں یمن بھیجا اور فرمایا اناج میں سے اناج ، بکریوں میں سے بکری ، اونٹوں میں سے اونٹ اور گائے بیلوں میں سے گائے (بطور زکوٰۃ) لو۔   ٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، محمد بن عبید اللہ، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پانچ چیزوں میں زکوٰۃ مقرر فرمائی گندم ، جو ، کھجور ، کشمش اور جوار۔

کھیتی اور پھلوں کی زکوٰۃ

اسحاق بن موسیٰ ابو  موسیٰ انصاری، عاصم بن عبد العزیز بن عاصم، حارث بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن سعد بن ابی ذباب، سلیمان بن یسار، بسر بن سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو زمین بارش اور چشموں سے سیراب کی جائے اس میں عشر ہے اور جو پانی کھینچ کرسیراب کی جائے اس میں نصف عشر ہے۔   ٭٭ ہارون بن سعید مصری، ابو جعفر، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ میں نے بارش اور نہروں چشموں سے سیراب ہو یا بعلی ہو اس میں عشر ہے اور جو ڈول سے سیراب ہو اس میں نصف عشر ہے۔   ٭٭ حسن بن علی بن عفان، یحییٰ بن آدم، ابو بکر بن عیاش، عاصم بن ابی النجود، وائل، مسروق، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یمن بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ بارانی اور بعلی زمین سے عشر لوں۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں اور عشری وہی زمین ہے جس کو بارش کے علاوہ اور کوئی نہ لگتا ہو اور بعل وہ انگور کی بیل جس کی جڑیں زمین میں پانی کے اندر ہوں اس وجہ اسے پانچ چھ سال تک پانی لگانے کی ضرورت نہ ہو تو یہ ہے بعل اور سیل کہتے ہیں ندی کے پانی کو اور غیل سیل سے کم ہوتا ہے۔

کھجور اور انگور کا تخمینہ

عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی و زبیر بن بکار، ابن نافع، محمد بن صالح تمار، زہری، سعید بن مسیب، حضرت عتاب اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کی کھجوروں اور انگوروں کا اندازہ کرنے کے لئے آدمی روانہ فرمایا کرتے تھے۔   ٭٭ موسی بن مروان رقی، عمر بن ایوب، جعفر بن برقان، میمون بن مہران، مقسم، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی نے جب خیبر فتح فرمایا تو ان سے یہ طے ہوا کہ سب زمین اور سونا چاندی ہمارا ہے۔ خیبر والوں نے عرض کیا کہ ہم زراعت خوب جانتے ہیں تو آپ ہمیں زمین اس شرط پر (زراعت کرنے کیلئے ) دے دیں کہ آدھی پیداوار ہماری اور آدھی آپ کی۔ راوی کہتے ہیں کہ اس شرط پر آپ نے زمین ان کے حوالے کر دی جب کھجور اتارنے کا وقت آیا تو آپ نے عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا تو انہوں نے کھجور کا اندازہ لگایا اہل مدینہ کی اصطلاح میں اسے خرص کہتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا اس درخت میں اتنی کھجور ہے تو اس میں اتنی تو یہود نے کہا اے ابن رواحہ تم نے ہمیں زیادہ بتایا (واقعی میں اتنی کھجور نہیں تم غلط کہہ رہے ہو) تو ابن رواحہ نے فرمایا میں کھجور کاٹ لیتا ہوں اور جو کچھ میں نے کہا اس کا نصف تمہیں دے دیتا ہوں تو کہنے گے یہی حق ہے جس سے آسمان و زمین قائم ہیں ہم راضی ہیں کہ جتنا آپ نے کہا اتنا ہی آپ لیں۔

زکوٰۃ میں برا مال نکالنے کی ممانعت

ابو بشر بکر بن خلف، یحییٰ بن سعید، عبد الحمید بن جعفر، صالح بن ابی عریب، کثیر بن مرۃ حضرمی، حضرت عوف بن اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے کسی نے مسجد میں کھجور کا خوشہ یا خوشے لٹکا دیئے تھے۔ آپ کے دست مبارک میں چھڑی تھی آپ چھڑی اس پر مارتے جاتے اس سے ٹھک ٹھک کی آواز آ رہی تھی اور یہ فرماتے جاتے اگر یہ صدقہ دینے والا چاہتا تو اس سے عمدہ مال صدقہ میں دیتا۔ ایسا صدقہ کرنے والا قیامت کے روز ردی کھجور کھائے گا۔   ٭٭ احمد بن محمد بن یحییٰ بن سعید قطان، عمرو بن محمد عنقزی، اسباط بن نصر، سدی، عدی بن ثابت، براء بن عازب فرماتے ہیں کہ (وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ:267) انصار کے بارے میں نازل ہوئی جب کھجور کی کٹائی کا وقت آتا تو اپنے باغوں سے کھجور کے خوشے توڑ کر مسجد نبوی میں دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی رسی پر لٹکا دیتے اسے فقراء مہاجرین کھا لیتے تو کوئی ایسا بھی کر دیتا کہ ان میں ردی کھجور کا خوشہ ملا دیتا اور یہ سمجھتا کہ اتنے بہت سے خوشوں میں یہ بھی جائز ہے۔ تو ایسا کرنے والوں سے متعلق یہ آیت (وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۠ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ:267) یعنی خراب اور ردی کھجور دینے کا ارادہ نہ کرو تم اسے خرچ تو کر دیتے ہو لیکن اگر تمہیں ایسا ردی مال کوئی دے تو ہرگز نہ لو مگر چشم پوشی کر کے یعنی اگر ایسا خراب مال تمہیں تحفہ میں دیا جائے تو تم اسے قبول نہ کرو مگر تحفہ بھیجنے والے سے شرم کر کے لے لو اور تمہیں اس پر غصہ بھی ہو کہ اس نے تمہیں ایسی چیز بھیجی جس کی تمہیں کوئی حاجت نہیں اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات سے بے پرواہ ہے۔

شہد کی زکوٰۃ

ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، سعید بن عبد العزیز، سلیمان بن موسی، حضرت ابو سیارہ متقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے پاس شہد کے چھتے ہیں۔ فرمایا اس کا عشر ادا کیا کرو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول وہ میرے لئے مخصوص فرما دیجئے آپ نے میرے لیے مخصوص فرما دیا (اور بطور جاگیر ان کو دے دیا)۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، نعیم بن حماد، ابن مبارک، اسامہ بن زید، عمرو بن شعیب، شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے شہد میں عشر لیا۔

صدقہ فطر

محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے گندم کے دو مد کو اس کے برابر سمجھا۔   ٭٭ حفص بن عمر، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر مسلمان مرد عورت آزاد غلام پر ایک صاع کھجور یا جو صدقہ فطر کا متعین فرمایا۔   ٭٭ عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان و احمد بن ازہر، مروان بن محمد، ابو یزید خولانی، سیار بن عبد الرحمن صدفی، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھلانے کے لئے صدقہ فطر مقرر فرمایا۔ لہٰذا جو نماز عید سے قبل ادا کرے اس کا صدقہ مقبول ہوا اور جو نماز کے بعد ادا کرے تو عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، سلمہ بن کہیل، قاسم بن مخیمرہ، ابو عمار، حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے قبل ہمیں صدقہ فطر کا حکم دیا۔ جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تو آپ نے ہمیں (صدقہ فطر کا) نہ حکم دیا اور نہ روکا اور ہم (بدستور) ادا کرتے رہے (کیونکہ پہلا حکم کافی تھا اور زکوٰۃ کی وجہ سے یہ منسوخ نہ ہوا تھا)۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، داؤد بن قیس فراء، عیاض بن عبد اللہ بن ابی سرح، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ہم صدقہ فطر میں کھجور جو پینر کشمش سب کا ایک صاع دیتے تھے اور ہم اتنا ہی دیتے رہتے حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو آپ نے دوران کفتگو یہ بھی کہا میرے خیال میں شام کی گندم کے دو مد ان اشیاء کے ایک صاع کے برابر میں۔ تو لوگوں نے اس بات کو قبول کر لیا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں عمر بھر اتنا ہی ادا کروں گا جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں ادا کیا کرتا تھا۔   ٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن سعد بن عمار، عمر بن حفص، عمار بن سعد، حضرت مؤذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کھجور جو اور بغیر چھلکے کے جو کا ایک صاع صدقہ فطر میں دینے کا حکم دیا۔

عشر و خراج

حسین بن جنید دامغانی، عتاب بن زیاد مروزی، ابو حمزہ، مغیرہ ازدی، محمد بن زید، حیان اعرج، حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بحرین یا ہجر بھیجا تو میں ایسے باغ میں بھی جاتا جو چند بھائیوں میں مشترک ہوتا اور ان میں سے ایک مسلمان ہوتا تو میں مسلمان سے عشر اور مشرک سے خراج وصول کرتا۔

وسق سا ٹھ صاع ہیں

عبد اللہ بن سعید کندی، محمد بن عبید طنافسی، ادریس اودی، عمرو بن مرۃ، ابو البختری، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔   ٭٭ علی بن منذر، محمد بن فضیل، محمد بن عبید اللہ، عطاء بن ابی رباح و ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔

رشتہ دار کو صدقہ دینا

علی بن محمد ، ابو معاویہ ، اعمش ، شقیق ، عمرو بن حارث بن مصطلق ، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا میرا اپنے خاوند پر اور ان یتیموں پر جو میری پرورش میں خرچ کرنا صدقہ میں کافی ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زینب کو دہرا اجر ملے گا صدقہ کا ثواب اور صلہ رحمی کا ثواب۔ دوسری روایت میں بھی یہی مضمون مروی ہے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ، یحیی بن آدم ، حفص بن غیاث ، ہشام بن عروہ، زینب بنت ام سلمہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے عرض کیا میرے خاوند جو کہ نادار ہیں اور یتیم بھانجوں میں ہر حال میں اتنا اتنا خرچ کرتا ہوں یہ صدقہ کافی ہو گا۔ فرمایا جی ہو گا اور حضرت زینب دستکاری میں مہارت رکھتی تھیں۔

سوال کرنا اور مانگنا نا پسندیدہ عمل ہے

علی بن محمد و عمرو بن عبد اللہ اودی، ہشام بن عروۃ، عروہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آدمی اپنی رسیاں لے کر پہاڑ پر جائے اور اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور بیچ کر استغناء حاصل کرے یہ لوگوں سے مانگنے سے بہتر ہے (یعنی ان کی تو مرضی ہے کہ) لوگ دیں یا نہ دیں۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابن ابی ذئب، محمد بن قیس، عبد الرحمن بن یزید، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کون ہے میری ایک بات قبول کرے ، میں اس کے لئے جنت کا ذمہ لیتا ہوں؟ میں نے عرض کیا میں۔ آپ نے فرمایا لوگوں سے کچھ نہ مانگنا۔ کہتے ہیں کہ اگر حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سوار ہوتے اور چھڑی گر جاتی تو کسی سے یہ نہ کہتے کہ یہ مجھے پکڑا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔

محتاج نہ ہونے کے باوجود مانگنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے لوگوں سے ان کے اموال مانگے اپنا مال بڑھانے کے لئے تو وہ دوزخ کے انگارے ہی مانگ رہا ہے۔ کم مانگ لے یا زیادہ اس کی مرضی ہے۔   ٭٭ محمد بن صباح، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، سالم بن ابی الجعد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مالدار کے لئے اور تندرست و توانا کے لئے صدقہ حلال نہیں۔   ٭٭ حسن بن علی خلال، یحییٰ بن دم، سفیان، حکیم بن جبیر، محمد بن عبد الرحمن بن یزید، عبد الرحمن بن یزید، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس نے محتاج نہ ہونے کے باوجود سوال کیا تو قیامت کے روز اس کا سوال کرنا اس کے چہرہ میں زخم (بدنما داغ کی طرح) کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ! محتاج نہ ہونے کی حد کیا ہے؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کی قیمت کے برابر سونا۔

جن لوگوں کے لئے صدقہ حلال ہے

محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مالدار کیلئے صدقہ حلال نہیں صرف پانچ آدمیوں کیلئے حلال ہے جو صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرنے پر مقرر ہو (وہ اپنی متعین تنخواہ لے ) اور راہ خدا میں لڑنے والا اور وہ مالدار جو صدقہ کی چیز (نادار سے ) خرید لے اور اپنے مال سے اس کی قیمت ادا کرے یا نادار کو کوئی چیز صدقہ میں ملی اور اس نے وہ مال دار کو ہدیہ میں دے دی اور قرض دار۔

صدقہ کی فضیلت

عیسٰی بن حماد مصری، لیث بن سعد، سعید بن ابی سعید مقبری، سعد بن یسار، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بھی پاکیزہ مال سے صدقہ کرے اور اللہ کے ہاں پاکیزہ مال ہی قبول ہوتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ سے لیتے ہیں۔ اگرچہ ایک کھجور ہو پھر وہ اللہ کے ہاتھ میں بڑھتے بڑھتے پہاڑ سے بھی بری ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسے پالتے رہتے ہیں جیسے تم اپنے بچھیرے کو پالتے ہو۔ اونٹ کا بچھیرا فرمایا یا گھوڑے کا۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، خثیمہ، حضرت ابن حاتم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر شخص سے اس کا پروردگار کفتگو فرمائے گا ان کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو گا سامنے دیکھے گا تو دوزخ دکھائی دے گی دائیں دیکھے گا تو اپنے بھیجے ہوئے اعمال نظر آئیں گے۔ بائیں دیکھے تو بھی اپنے بھیجے ہوئے اعمال نظر آئیں گے۔ لہٰذا تم میں سے جو بھی دوزخ سے بچنے کی استطاعت رکھے گو کھجور کے ٹکڑے کے ذریعہ ہو تو وہ بچ جائے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ و علی بن محمد، وکیع، ابن عون، حفصہ بنت سیرین، رباب ام الرائح صلیع، حضرت سلمان بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسکین پر صدقہ ایک صدقہ ہے اور قرابت دار پر صدقہ دو نیکیاں ہیں صدقہ اور صلہ رحمی۔

نکاح کا بیان

 

نکاح کی فضیلت

عبد اللہ بن عامر بن زرارہ، علی بن مسہر، اعمش، ابراہیم، حضرت علقمہ بن قیس فرماتے ہیں کہ میں منیٰ میں عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ تھا۔ حضرت عثمان ان کے ساتھ تنہائی میں ہوئے تو میں ان کے قریب بیٹھ گیا۔ حضرت عثمان نے فرمایا تمہارا دل چاہتا ہے کہ میں ایسی لڑکی سے تمہاری شادی کرا دوں جو تمہارے لئے عہد ماضی کی یاد تازہ کرے۔ جب ابن مسعود نے دیکھا کہ حضرت عثمان کو ان سے اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں (راز کی بات نہیں کرنی) تو ہاتھ سے اشارہ سے مجھے بلایا میں حاضر ہوا اس وقت ابن مسعود فرما رہے تھے کہ اگر تم یہ کہہ رہے ہو تو رسول اللہ نے بھی یہ فرمایا ہے کہ اے جوانو! تم میں سے جس میں بھی نکاح کی استطاعت ہو تو وہ شادی کر لے کیونکہ اس سے نگاہ جھکی رہتی ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اور جس میں نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو وہ روزوں کا اہتمام کرے کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔   ٭٭ احمد بن ازہر، آدم، عیسیٰ بن میمون، قاسم ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا نکاح میری سنت ہے جو میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نکاح کیا کرو اس لئے کہ تمہاری کثرت پر میں امتوں کے سامنے فخر کروں گا اور جس میں استطاعت ہو تو وہ نکاح کر لے اور جس میں استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزہ اس کی شہوت کو توڑ دے گا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، سعید بن سلیمان، محمد بن مسلم، ابراہیم بن میسرہ، طاؤس، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا دو محبت کرنے والوں (میں محبت بڑھانے ) کے لئے نکاح جیسی کوئی چیز نہ دیکھی گئی۔

مجرد رہنے کی ممانعت

ابو مروان، محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعد، زہری، سعید بن مسیب، حضرت سعد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے حضرت عثمان بن مظعون کو مجرد رہنے سے منع فرما دیا اور اگر آپ ان کو اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے (تاکہ عورتوں کا خیال بھی نہ آئے )   ٭٭ بشر بن آدم، زید، معاذ بن ہشام، قتادہ، حسن، حضرت سمرۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجرد رہنے سے منع فرمایا زید بن احزم کہتے ہیں کہ حضرت قتادہ نے یہ حدیث سنا کر یہ آیت پڑھی بے شک ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور ان کو بیویاں اور اولاد دی۔

خاوند کے ذمہ بیوی کا حق

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، شعبہ، ابی قزرہ، حکیم بن معاویہ فرماتے ہیں کہ ایک مرد نے نبی سے پوچھا کہ خاوند کے ذمہ بیوی کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے اور جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے اور چہرے پر نہ مارے اور برا بھلا نہ کہے اور اسے الگ نہ سلائے مگر اپنے ہی گھر میں۔   ٭٭ ابو بکر بن شیبہ، حسین بن علی، زائدہ ، شبیب بن غرقدہ، سلیمان بن حضرت عمرو بن احوص فرماتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم کے ساتھ شریک ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور وعظ و نصیحت فرمائی پھر فرمایا عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت (مجھ سے ) لو اس لئے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں تم ان سے (جماع) کے علاوہ اور کسی چیز کے مالک نہیں ہو الاّ یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کو بستروں میں اکیلا چھوڑ دو (یعنی اپنے ساتھ مت سلا) اور انہیں مارو لیکن سخت نہ مارو (کہ ہڈی پسلی توڑ دو) پھر اگر یہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے لئے اور راہ نہ تلاش کرو تمہارا حق عورتوں پر ہے اور تمہاری عورتوں کا حق تم پر ہے تمہارا بیویوں پر یہ حق ہے کہ تمہارا بستر اسے نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو (یعنی تمہاری اجازت اور مرضی کے بغیر گھر نہ آنے دیں ) اور جس کو تم ناپسند کرتے ہو اسے تمہارے گھر آنے کی اجازت نہ دیں اور سنو! ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم لباس اور کھانا دینے میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔

بیوی کے ذمہ خاوند کا حق

ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان ، حماد بن سلمہ، علی بن زید جدعان، سعید بن مسیب، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں کسی کو یہ حکم دیتا کہ وہ دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے اور اگر کوئی مرد بیوی کو حکم دے کہ سرخ پہاڑ سے سیاہ پہاڑ پر اور سیاہ پہاڑ سے سرخ پہاڑ پر (پتھر) منتقل کرو تو عورت کو چاہئے کہ ایسا کر گزرے۔   ٭٭ ازہر بن مروان، حماد بن زید، ایوب، قاسم، شیبانی، عبد اللہ بن اوفی، حضرت معاذ جب شام سے آئے تو نبی اکرم کو سجدہ کیا آپ نے فرمایا معاذ! یہ کیا؟ عرض کیا میں شام گیا تو دیکھا کہ اہل شام اپنے مذہبی اور عسکری رہنماؤں کو سجدہ کرتے ہیں تو میرے دل کو اچھا لگا کہ ہم آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں تو اللہ کے رسول نے فرمایا! آئندہ ایسا نہ کرنا اس لئے کہ اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ غیر اللہ کو سجدہ کرے تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدے کرے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے عورت اپنے پروردگار کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی اور اگر خاوند اس سے مطالبہ کرے کہ اپنے آپ کو میرے سپرد کر دو (صحبت کے لئے ) اور بیوی اس وقت پالان پر ہو (جہاں صحبت مشکل ہے ) تو بھی عورت کو انکار نہیں کرنا چاہئے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، ابی نصر ، عبد اللہ بن عبد الرحمن، مساور، حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو عورت بھی اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے خوش ہو وہ جنت میں داخل ہو گی۔

عورتوں کی فضیلت

ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، عبد الرحمن بن زیاد بن انعم، عبد اللہ بن یزید، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا! دنیا نفع اٹھانے (اور استعمال کرنے ) کی چیز ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر فضیلت والی کوئی چیز متاع دنیا میں نہیں ہے۔   ٭٭ محمد بن اسماعیل بن سمر، وکیع، عبد اللہ بن عمر بن مرہ، سالم بن ابی جعد، حضرت ثوبان جب سونے چاندی کے متعلق قرآن کی آیات وَالَّذِینَ یَکنِزُونَ الذَّھَبَ نازل ہوئیں تو لوگوں نے کہا ہم کون سا مال (ضرورت کے وقت کے لئے جمع کر کے ) رکھیں حضرت عمر نے فرمایا میں تمہیں بتاؤں گا انہوں نے اپنا اونٹ تیز کیا اور نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ان کے پیچھے پیچھے تھا عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم کون سا مال رکھیں آپ نے فرمایا تم میں سے ایک شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان اور ایمان دار بیوی جو آخرت کے معاملہ میں اس کی معاون بنے رکھ لے (درحقیقت یہی چیزیں ضرورت کے وقت کام نے والی ہیں )   ٭٭ ہشام بن عمار ، صدقہ بن خالد ، عثمان بن ابی عاتکہ ، علی بن یزید ، قاسم ، ابو امامہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے اللہ کے تقویٰ کے مومن نے نیک بیوی سے بھلی کوئی چیز حاصل نہیں کی۔ اگر اسے حکم دے تو فرمانبرداری کرے اس پر نگاہ ڈالے تو ( خاوند کو ) سرور حاصل ہو اور اگر اس کے بھروسہ پر قسم کھا لے تو وہ اس قسم کو سچا کر دکھائے اور خاوند کی غیر موجودگی میں اپنی ذات اور خاوند کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے ( یعنی اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے )

دیندار عورت سے شادی کرنا

یحییٰ بن حکیم، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا عورت سے چار وجوہ سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے حسب نسب کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کی دینداری کی وجہ سے پس تو دیندار بیوی کو حاصل کر تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔   ٭٭ ابو کریب، عبد الرحمن، جعفر بن عون، عبد اللہ بن یزید، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا عورتوں سے ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی نہ کرو ہو سکتا ہے کہ ان کی خوبصورتی ان کو ہلاکت میں ڈال دے اور نہ ان سے ان کے اموال ان کو سرکش بنادیں گے البتہ دینداری کی بنیاد پر شادی کرو اور یقیناً کان میں سوراخ والی کالی باندی جو دیندار ہو بہتر ہے۔

کنواریوں کے بیان میں

ہناد بن سری، عبدہ ابن سلیمان، عبد الملک، عطاء، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے عہد مبارک میں ایک عورت سے شادی کی تو آپ نے فرمایا جابر تم نے شادی کر لی؟ میں نے عرض کیا جی۔ فرمایا کنواری ہے یہ ثیبہ (بیوہ یا مطلقہ) سے میں نے عرض کیا ثیبہ سے۔ فرمایا! کنواری سے کیوں نہ کی وہ تمہارے ساتھ کھیلتی میں نے عرض کیا میری (دس) بہنیں ہیں اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہو جائے گی۔ فرمایا! پھر درست ہے۔   ٭٭ ابراہیم بن منذر، محمد بن طلحہ، عبد الرحمن بن سالم بن عتبہ بن حضرت عویمر بن ساعدہ انصاری سے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا تم کنواری عورتوں کو (نکاح کے لئے ) اختیار کرو کیونکہ وہ شیریں دہن ، زیادہ رحم جننے والی اور تھوڑے مال پر راضی ہونے والی ہوتی ہیں۔

آزاد اور زیادہ جننے والی عورتوں سے شادی کرنا

ہشام بن عمار، سلام ابن سوار، کثیر بن سلیم، ضحاک بن مزاحم، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو چاہے کہ اللہ کی بارگاہ میں صاف حاضر ہو تو وہ آزاد عورتوں سے شادی کرے۔   ٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد اللہ بن حارث، مخزومی، طلحہ ، عطاء حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ نکاح کیا کرو اس لئے کہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔

کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو ایک نظر اسے دیکھنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، حجاج، محمد بن سلیمان، سہل بن ابی حثمہ، حضرت محمد بن سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا پھر میں چپکے سے کوشش کرنے لگا یہاں تک میں نے اس پر ایک نظر ڈال ہی لی وہ اپنے ایک کھجور کے باغ میں تھی کسی نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ کے صحابی ہو کر ایسا کر رہے ہیں فرمایا میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی مرد کے دل میں ڈال دے کہ وہ کسی عورت کو پیغام نکاح بھیجے تو ایک نظر اسے دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔   ٭٭ حسن بن علی، زہیر بن محمد، محمد بن عبد الملک، عبد الرزاق، معمر ، ثابت ، انس بن مالک، مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے شادی کا ارادہ کیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جاؤ اس پر ایک نگاہ ڈال لو اس لئے کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت میں اہم کر دار ادا کرے گا انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہوں نے اپنی باہمی موافقت کا تذکرہ کیا۔   ٭٭ حسن بن ابی ربیع، عبد الرزاق، معمر ، ثابت بنانی، بکر بن عبد اللہ، مزنی، حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک عورت کا تذکرہ کیا جسے میں نکاح کا پیغام دے رہا تھا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اسے دیکھ بھی لو اس لیے کہ یہ تمہاری باہمی محبت کے لئے بہت مناسب ہے تو میں ایک انصاری عورت کے پاس گیا اور اس کے والدین کے ذریعے اسے پیغام نکاح دیا اور میں نے اس کے والدین کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان بھی سنادیا، شاید انہیں یہ اچھا نہ لگا (کہ دولہا لڑکی کو دیکھے ) تو اس عورت نے پردے میں یہ ساری بات سن لی کہنے لگی اگر تو اللہ کے رسول نے تمہیں اجازت دی ہے کہ دیکھو تو دیکھ سکتے ہو ورنہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتی ہوں (کہ ایسا نہ کرنا) گویا اس نے اسے بڑی بات سمجھا ، فرمایا پھر میں نے اسے دیکھ لیا پھر انہوں نے موافقت کا تذکرہ کیا (کہ باہم بہت الفت ہے )

مسلمان بھائی پیغام نکاح دے تو دوسرا بھی اسی کو پیغام نہ دے

ہشام بن عمار، سہل بن ابی سہل، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کوئی مرد اپنے (مسلمان) بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔   ٭٭ یحییٰ بن حکیم، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کوئی مرد اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی بکر بن ابی الجہم بن صخیر، حضرت فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول نے مجھے فرمایا جب تمہاری عدت گزر جائے تو مجھے بتا دینا میں نے آپ کو بتا دیا۔ پھر معاویہ ، ابو الجہم بن صخیر اور اسامہ بن زید نے ان کو پیام دیا تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا معاویہ تو مفلس اور نادار ہے البتہ اسامہ مناسب ہے انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا اسامہ! اسامہ! (فاطمہ بنت قیس نے اسامہ کو اہمیت نہ دی اس لئے کہ وہ زید کے بیٹے تھے اور زید غلام نبی تھے ) آپ نے ان سے فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تمہارے لئے بہتر ہے۔ فرماتی ہیں اسی پہر میں نے اسامہ سے شادی کر لی تو مجھ پر رشک کیا جانے لگا۔

کنواری یا ثیبہ دونوں سے نکاح کی اجازت لینا

اسماعیل بن موسی، مالک بن انس، عبد اللہ بن فضل، نافع بن جبیر بن مطعم، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا شوہر والی عورت (بیوہ یا مطلقہ) اپنے ولی سے زیادہ اپنے نفس پر حق رکھتی ہے۔ اور کنواری سے اس کے بارے میں اجازت لی جائے گی کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کنواری بات کرنے سے شرماتی ہے۔ فرمایا اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔   ٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا ثیبہ کا نکاح نہ کرایا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لی جائے اور کنواری کا بھی نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے اجازت لی جائے اور کنواری کا خاموش رہنا اجازت ہے۔   ٭٭ عیسی بن حماد، مصری، لیث بن سعد، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی حسین، حضرت عدی کندی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا! ثیبہ خود اپنی مرضی کا اظہار کرے اور کنواری کی رضامندی خاموشی ہے۔

بیٹی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی کرنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید، قاسم بن محمد، عبد الرحمن بن یزید، اور مجمع بن یزید دونوں انصاری ہیں روایت کرتے ہیں کہ ان میں ایک شخص خدام نامی نے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا۔ بیٹی کو باپ کا یہ نکاح پسند نہ آیا وہ اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوئی اور یہ بات عرض کر دی آپ نے باپ کے نکاح کو رد فرما دیا۔ پھر اس نے ابو لبابہ بن عبد المنذر سے نکاح کیا۔ حضرت یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ یہ لڑکی ثیبہ (مطلقہ یا بیوہ) تھیں۔   ٭٭ ہناد، وکیع، کہمس بن حسن، ابن حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ ایک جوان عورت نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میرے والد نے اپنے بھتیجے سے میری شادی اس لئے کرا دی تاکہ میری وجہ سے اس کاخسیست اور اس کا حقارت ختم ہو جائے۔ فرماتے ہیں کہ آپ نے اس عورت کو اختیار دے دیا تو کہنے لگی میرے والد نے جو کر دیا میں اس کی اجازت دیتی ہوں لیکن میں یہ چاہتی تھی عورتوں کو معلوم ہو جائے کہ باپ کو ان کے بارے میں یہ اختیار نہیں (کہ رضامندی کے بغیر ان کی شادی کر دیں )   ٭٭ ابو سقر، یحییٰ بن یزداد ، حسین بن محمد، جریر بن حازم، ایوب، عکرمہ ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس کے والد نے زبردستی اس کا نکاح کرا دیا ہے تونبی نے اس لڑکی کو اختیار دیا۔   ٭٭ ٭٭ (جیسا کہ اوپر گزرا) مضمون مروی ہے۔

نابالغ لڑکیوں کے نکاح ان کے باپ کر سکتے ہیں

سوید بن سعید، علی بن مسہر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے نکاح کیا جس وقت میری عمر چھ برس تھی۔ ہم مدینہ آئے تو بنو الحارث بن خزرج کے محلہ میں قیام کیا۔ مجھے اتنا شدید بخار ہوا کہ کہ بال جھڑ گئے پھر بالوں کا چھوٹا سا گچھا مونڈھوں تک ہو گیا میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں تو میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولے میں تھی۔ انہوں نے مجھے بلند آواز سے پکارا میں ان کے پاس چلی گئی اور مجھے معلوم بھی نہ تھا کہ ان کا کیا ارادہ ہے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازہ پر کھڑا کر دیا اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا یہاں تک کہ میرا سانس ٹھہر گیا پھر انہوں نے کچھ پانی لیا میرا چہرہ دھویا سر پونچھا اور گھر لے آئیں تو کمرہ میں کچھ انصاری عورتیں تھی کہنے لگیں خیر و برکت والی اور اچھی قسمت والی ہو۔ میری والدہ نے مجھے ان کے سپرد کر دیا۔ انہوں نے میرا سنگھار کیا پھر مجھے دن چڑھے رسول اللہ کی اچانک آمد سے گھبراہٹ سی ہوئی اس وقت میری عمر نو برس تھی۔   ٭٭ احمد بن سنان، ابو احمد ، اسرائیل، ابی اسحاق ، ابی عبیدہ، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے حضرت عائشہ سے نکاح کیا جبکہ ان کی عمر سات سال تھی اور نوسال کی عمر رخصتی ہوئی اور جب آپ کا وصال ہوا تو اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔

نابالغ لڑکی کا نکاح والد کے علاوہ کوئی اور کر دے تو؟

عبد الرحمن بن ابراہیم ، عبد اللہ بن نافع، عبد اللہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا انہوں نے ایک بیٹی چھوڑی ابن عمر فرماتے ہیں کہ میرے ماموں قدامہ نے جو اس لڑکی کے چچا تھے اس لڑکی سے مشورہ لئے بغیر ہی میرا نکاح اس سے کرا دیا اس وقت اس کے والد انتقال کر چکے تھے۔ تو اس نے اس نکاح کو پسند نہ کیا۔ اس کی مرضی تھی کہ مغیرہ بن شعبہ سے اس کی شادی ہو بالآخر قدامہ نے ان سے ہی نکاح کرادیا۔

ولی کے بغیر نکاح باطل ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، معاذ ، ابن جریج، سلیمان بن موسی، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا! جس عورت کا نکاح ولی نہ کرایا ہو تو اس کا نکاح باطل ہے اس کا نکاح باطل ہے اگر مرد نے اس سے صحبت کر لی تو اسے اس وجہ سے مہر ملے گا اور لوگوں میں جھگڑا ہو تو بادشاہ ولی ہے اس کا جس کا کوئی ولی نہ ہو۔   ٭٭ ابو کریب، عبد اللہ بن مبارک، حجاج، زہری، عروہ، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا! ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں اور جس کا ولی نہ ہو تو اس کا ولی بادشاہ ہو سکتا ہے۔   ٭٭ محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، ابو عوانہ، ابو  اسحاق ، ابی بردہ، حضرت ابو  موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا! ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔   ٭٭ جمیل بن حسن، محمد بن مروان، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا! عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ اپنا نکاح کرے اس لئے کہ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے۔

شغار کی ممانعت

سوید بن سعید، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے منع فرمایا ایک مرد دوسرے سے کہے کہ اپنی دختر یا ہمشیرہ کا نکاح مجھ سے کر دو اس شرط پر کہ میں اپنی دختر یا ہمشیرہ کا نکاح تم سے کر دوں گا اور دونوں کا (اس نکاح کے علاوہ) کچھ مہر نہ ہو گا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحیی بن سعید، ابو اسامہ ، عبد اللہ ، ابو زناد، اعرج ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شغار سے منع فرمایا ہے   ٭٭ حسین بن مہدی عبد ا لرزاق معمر ثابت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا اسلام میں شغار نہیں ہے۔

عورتوں کا مہر

محمد بن صباح، عبد العزیز، یزید بن عبد اللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابی سلمہ، عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ نبی اکرم کی ازواج مطہرات کا مہر کتنا تھا؟ فرمانے لگیں آپ کی ازواج کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔ تمہیں معلوم ہے نش کتنا ہوتا ہے نصف اوقیہ ہوتا ہے اور یہ پانچ سو درہم ہوا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ابن عون، نصر بن علی، یزید بن زریع، ابن عون، محمد بن سیرین، ابی عجفاء، حضرت عمر بن الخطاب فرماتے ہیں کہ عورتوں کے مہر گراں نہ رکھو اس لئے کہ اگر یہ دنیاوی یا خدا کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو تم سب میں اس کے حقدار محمد تھے۔ آپ نے اپنی ازواج میں سے اور اپنی صاحبزادیوں میں سے کسی کا مہر بھی بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ مقرر فرمایا اور مرد اپنی بیوی کا مہر زیادہ رکھتا ہے پھر اس کے دل میں دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ (بیوی مطالبہ کرتی ہے اور یہ ادا نہیں کر سکتا) اور کہتا ہے میں نے تیرے لئے مشقت برداشت کی یہاں تک مشکیزہ کی رسی بھی اٹھانی پڑی یا مشک کے پانی کی طرح مجھے پسینہ آیا۔ ابو العجفاء کہتے ہیں کہ میں اصل عرب نہ تھا بلکہ بائیں طور پر دوسرے علاقہ کا تھا اس لئے علق القربہ یا عرق القربہ کا مطلب نہیں سمجھا۔   ٭٭ ابو عمر، ہناد بن سری، وکیع، سفیان ، عاصم بن عبید اللہ، عبد اللہ بن حضرت عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ بنونزارہ کے ایک مرد نے (بطور مہر) جوتوں کے جوڑے کے بدلہ میں نکاح کیا۔ نبی اکرم نے اس کے نکاح کو نافذ قرار دیا۔   ٭٭ حفص بن عمر ، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، ابی حازم، حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ نبی اکرم نے فرمایا ان سے کون نکاح کرے گا ایک مرد نے عرض کیا، میں۔ نبی اکرم نے فرمایا اسے کچھ دو اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو اس نے عرض کیا میرے پاس تو یہ بھی نہیں۔ فرمایا تمہارے پاس جو قرآن ہے اس کے عوض میں نے اس کا نکاح تمہارے ساتھ کر دیا۔   ٭٭ ابو ہشام، محمد بن یزید، یحییٰ بن یمان، رفاشی، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے حضرت عائشہ سے ایک گھر کے سامان کے عوض نکاح کیا جس کی قیمت پچاس درہم تھی۔

مرد نکاح کرے مہر مقرر نہ کرے اسی حال میں اسے موت جائے

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، فراس، شعبی، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا گیا ایک مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا اور رخصتی سے پہلے ہی فوت ہو گیا اور اس نے مہر بھی مقرر نہ کیا ہو (تو کیا حکم ہے ) فرمایا عورت کو مہر بھی ملے گا اور ترکہ میں حصہ بھی ملے گا اور اس پر عدت بھی واجب ہو گی۔ تو حضرت معقل بن سنان اشجعی فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ نے بروع بنت واسق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ فرمایا تھا۔ دوسری سند میں بھی عبد اللہ بن مسعود سے یہی مضمون مروی ہے۔

خطبہ نکاح

ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، ابی ، جدی، ابی اسحاق ، ابو احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کو بھلائی کی جامع اور ابتدائی وانتہائی باتیں عطا ہوئی تھیں آپ نے ہمیں نماز کا خطبہ سکھایا اور حاجت (نکاح) کا۔ نماز کا خطبہ یہ ہے۔ التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَخُطْبَۃُ الْحَاجَۃِ أَنْ الْحَمْدُ لِلَّہِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَہْدِہِ اللَّہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تَصِلُ خُطْبَتَکَ بِثَلَاثِ آیَاتٍ مِنْ کِتَابِ اللَّہِ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَائَلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا   ٭٭ بکر بن خلف، ابو بشر، یزید بن زریع، داؤد بن ابی ہند، عمرو بن سعید، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا! الْحَمْدُ لِلَّہِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِینُہُ وَنَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَہْدِہِ اللَّہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ أَمَّا بَعْدُ   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن یحییٰ ، محمد بن خلف، عبید اللہ بن موسی، اوزاعی، قرہ، زہری، ابو  سلمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا! ہر مہتم بالشان کام جس میں حمد سے ابتداء نہ کی جائے ناتمام ہوتا ہے۔

نکاح کی تشہیر

نصر بن علی، خلیل بن عمرو، عیسیٰ بن یونس، خالد بن ایاس، ربیعہ بن ابی عبد الرحمن، قاسم، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا! اس نکاح کی تشہیر کیا کرو اور اس میں دف بجا۔   ٭٭ عمرو بن رافع، ہشیم ، ابی بلج، محمد بن خاطب، فضل ، حضرت محمد بن حاطب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حلال اور حرام میں فرق دف اور نکاح میں آواز سے ہوتا ہے۔

شادی کے گیت گانا اور دف بجانا

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، حضرت ابو الحسین خالد مدنی فرماتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے (کم سن) بچیاں دف بجا رہی تھیں اور گیت گا رہی تھیں ہم ربیع بنت معوذ کے پاس گئے اور یہ بات ان سے ذکر کی۔ فرمانے لگیں کہ میری شادی کی صبح رسول اللہ میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت (کم سن) بچیاں میرے پاس گیت گا رہی تھیں اور میرے آباء کا تذکرہ کر رہی تھیں جو بدر میں شہید ہوئے اور گانے گانے میں وہ یہ بھی گانے لگیں اور ہم میں ایسے نبی ہیں جو کل (آئندہ) کی بات جانتے ہیں آپ نے فرمایا یہ بات مت کہو اس لئے کہ کل کی بات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ابو بکر میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس دو (کم سن) انصاری بچیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کے دن کے متعلق کہے تھے۔ (بعاث نامی جگہ میں انصار کے دو قبیلوں اوس خزرج کی جنگ ہوئی پھر ا برس تک جاری رہی اسلام کی برکت سے یہ لڑائی موقوف ہوئی) یہ بچیاں باقاعدہ گانے والی نہ تھیں تو ابو بکر نے کہا شیطان کا باجا لے کر نبی کے گھر میں آئی ہو۔ یہ عید الفطر کا دن تھا۔ نبی اکرم نے فرمایا اے ابو بکر ہر قوم کی کوئی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، عوف، ثمامہ بن عبد اللہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم مدینہ میں کسی جگہ گزر رہے تھے دیکھا کہ کچھ بچیاں دف بجا رہی ہیں اور یہ گا رہی ہیں ہم بنو نجار کی بچیاں ہیں محمد کیا خوب پڑوسی ہیں نبی اکرم نے فرمایا اللہ جانتا ہے کہ میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔   ٭٭ اسحاق بن منصور، جعفر بن عون، ابی زبیر، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ عائشہ نے اپنی ایک قرابت دار انصاریہ کی شادی کرائی۔ رسول اللہ تشریف لائے اور پوچھا تم نے دلہن کو روانہ کر دیا؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا اس کے ساتھ کسی (بچی) کو بھیجا جو گیت گائے؟ عائشہ نے عرض کیا نہیں۔ اللہ کے رسول نے فرمایا انصاری گیت گانے کو پسند کرتے ہیں اگر تم ان کے ساتھ کوئی بھیج دیتے جو یہ کہتیں ہم تمہارے پاس آئی ہیں ہم تمہارے پاس آئی ہیں اللہ ہمیں بھی خوش رکھے اور تمہیں بھی خوش رکھے۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، ثعلبہ بن ابی مالک، لیث، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ کہ میں حضرت ابن عمر کے ساتھ تھا۔ آپ نے ڈھول کی آواز سنی تو دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور وہاں سے ہٹ گئے۔ تین بار ایسا ہی کیا پھر فرمایا اللہ کے رسول نے ایسا ہی کیا۔

ہیجڑوں کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ، زینب بنت حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ان کے پاس تشریف لائے تو سنا کہ ایک ہیجڑا حضرت عبد اللہ بن امیہ سے کہہ رہا ہے اگر اللہ کل طائف فتح کرا دیں تو میں تمہیں بتاؤں گا وہ عورت جو سامنے آئے تو پیٹ میں چار بل ہوتے ہیں اور واپس جائے تو (وہی بل دونوں طرف سے نکل کر) آٹھ ہو جاتے ہیں تو اللہ کے رسول نے فرمایا اس کو اپنے گھروں سے نکال دو۔   ٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن ابی حازم، سہیل ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے اور اس مرد پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے۔   ٭٭ ابو بکر بن حلاد، خالد بن حارث، شعبہ، قتادہ، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر بھی لعنت فرمائی۔

نکاح پر مبارک باد دینا

سوید بن سعید، عبد العزیز بن محمد، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ سے ہے کہ نبی اکرم جب نکاح پر مبارکباد دیتے تو فرماتے اللہ تمہیں برکت دے اور تم پر برکت ڈالے اور تمہیں عافیت کے ساتھ متفق و مجتمع رکھے۔   ٭٭ محمد بن بشار، محمد بن عبد اللہ، حضرت عقیل بن ابی طالب نے قبیلہ بنوجشم کی ایک عورت سے شادی کی تو لوگوں نے کہا تم میں اتفاق ہو اور بیٹے پیدا ہوں۔ آپ نے فرمایا ایسے نہ کہو بلکہ وہ کہو جو اللہ کے رسول نے (اس موقع پر) کہا اے اللہ ان کو برکت دے اور ان پر برکت ڈال دے۔

ولیمہ کا بیان

احمد بن عبدہ، حماد بن زید، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف پر زرد نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیسا ہے؟ عرض کیا اے اللہ کے رسول میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض نکاح کیا ہے آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کر لینا خواہ ایک بکری ہی ہو۔   ٭٭ احمد بن عبدہ، حماد بن زید، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ نبی اکرم نے اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی کا ولیمہ ایسا کیا جیسا حضرت زینب کا کیا۔ آپ نے ایک بکری ذبح کی۔   ٭٭ محمد بن ابی عمر، غیاث بن جعفر، سفیان بن عیینہ، وائل بن داؤد، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے حضرت صفیہ کا ولیمہ ستو اور چھوہارے سے کیا۔   ٭٭ زہیر بن حرب، ابو خیثمہ، سفیان، علی بن زید بن جدعان، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم کے ایک ولیمہ میں شریک ہوا اس میں نہ گوشت تھا نہ روٹی۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف امام ابن عیینہ ہی روایت کرتے ہیں۔   ٭٭ سوید بن سعید، فضل بن عبد اللہ، جابر، شعبی، مسروق، حضرت عائشہ اور ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم نے ہمیں حکم دیا کہ حضرت فاطمہ کو تیار کر کے حضرت علی کے پاس بھیجیں ہم کمرہ میں گئیں اور بطحا کے اطراف کی نرم مٹی اس میں بچھائی پھر دو تکیوں میں کھجور کی چھال بھری۔ پھر ہاتھوں سے ہی اس کی دھنائی کی۔ پھر ہم نے لوگوں کو چھوہارے اور کشمش کھلائی، شیریں پانی پلایا اور ایک لکڑی کمرہ کے کونے میں کپڑے اور مشکیزہ لٹکانے کے لئے لگائی اور ہم نے فاطمہ کی شادی سے اچھی شادی نہیں دیکھی۔   ٭٭ محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، ابی حازم، ابی ، سہل بن سعد، حضرت ابو اسید ساعدی نے نبی اکرم کو اپنی شادی میں بلایا۔ دلہن نے ہی مہمانوں کی خدمت کی۔ دلہن نے کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے رسول اللہ کو کیا پلایا رات کو کچھ چھوہارے بھگو دئیے تھے۔ صبح ان کو صاف کر کے وہ شربت آپ کو پلایا۔

دعوت قبول کرنا

علی بن محمد، سفیان، ابن عیینہ، زہری، عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ بدترین کھانا ولیمہ کا کھانا ہے جس میں دعوت مالداروں کو دی جاتی ہے اور ناداروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو دعوت قبول نہ کرے اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔   ٭٭ اسحاق بن منصور، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نکاح کے ولیمہ میں دعوت دی جائے تو وہ قبول کر لے۔   ٭٭ محمد بن عبادہ، یزید بن ہارون، عبد الملک بن حسین ، منصور، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا! ولیمہ پہلے دن کا حق ہے دوسرے دن نیکی ہے تیسرے دن ریاکاری اور شہرت طلبی ہے۔

کنواری اور ثیبہ کے پاس ٹھہرنا

ہناد بن سری، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، ایوب، ابو قلابہ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ثیب (مطلقہ یا بیوہ) کے لئے تین دن ہیں اور کنواری کے لئے سات دن ہیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن سعید، سفیان، محمد بن ابی بکر، عبد الملک، حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے جب ان سے شادی کی تو تین راتیں ان کے ہاں قیام کیا اور فرمایا اپنے خاوند (یعنی میرے ) نزدیک تمہارے لئے رسوائی (اور بے رغبتی) نہیں ہے اگر تم چاہو تو سات روز تمہارے ہاں ٹھہروں اور اگر تمہارے پاس سات روز ٹھہرا تو باقی بیویوں کے پاس بھی سات روز ٹھہروں گا۔

جب بیوی مرد کے پاس آئے تو مرد کیا کہے؟

محمد بن یحییٰ ، صالح بن محمد، یحییٰ، عبید اللہ بن موسی، سفیان، محمد بن عجلان، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی بیوی ، خاوند یا جانور حاصل کرے تو اس کی پیشانی پکڑ کر کہے اے اللہ میں اس کی بھلائی آپ سے مانگتا ہوں اور اس کی خلقت اور طبیعت کی بھلائی اور آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور اس کی خلقت و طبیعت کے شر سے۔   ٭٭ عمرو بن رافع، جریر، منصور، سالم بن ابی جعد، کریب، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا! اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو یہ کہے اے اللہ دور کر دے مجھے شیطان سے اور دور کر دے شیطان کو اس (اولاد) سے جو آپ مجھے عطا فرمائیں گے پھر ان کی اولاد ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط نہ ہونے دیں گے یا فرمایا کہ شیطان اس بچہ کو ضرر نہ پہنچا سکے گا۔

جماع کے وقت پردہ

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، ابو اسامہ، حضرت بہر بن حکیم اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بتائیے کہ ہم کس حد تک ستر کھول سکتے ہیں اور کس حد تک چھپانا ضروری ہے۔ فرمایا اپنی بیوی اور باندی کے علاوہ ہر ایک سے اپنا ستر بچا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول بتائیے اگر لوگ (رشتہ دار باہم) اکٹھے رہتے ہوں؟ فرمایا اگر تمہارے بس میں ہو کہ کوئی ستر نہ دیکھ سکے تو ہرگز ہرگز کوئی نہ دیکھے میں نے عرض کیا کہ اگر ہم میں سے کوئی اکیلا ہو۔ فرمایا اللہ تعالیٰ سے انسانوں کی بنسبت زیادہ شرم و حیا کرنی چاہئے۔   ٭٭ اسحاق بن وہب، ولید بن قاسم، احوص بن حکیم، راشد بن سعد، عبد الاعلی بن عدی، حضرت عتبہ بن عبید سلمی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے تو پردہ کرے اور گدھوں کی طرح ننگا نہ ہو (یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، منصور، موسیٰ بن عبد اللہ بن یزید، حضرت عائشہ کی ایک باندی روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے اللہ کے رسول کا مقام ستر نہ دیکھا۔

عورتوں کے ساتھ پیچھے کی راہ سے صحبت کی ممانعت

محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیز بن مختار، سہیل بن ابی صالح، حارث بن مخلد، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس مرد کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتے جو اپنی بیوی سے پیچھے کی راہ سے صحبت کرے۔   ٭٭ احمد بن عبدہ، عبد الواحد بن زیاد، حجاج بن ارطاۃ، عمرو بن شعیب، عبد اللہ بن ہرمی، حضرت خزیمہ بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے حیا نہیں فرماتے (پھر ارشاد فرمایا) عورتوں کے پاس پیچھے کی راہ سے مت جا۔   ٭٭ سہل بن ابی سہل ، جمیل بن حسن، سفیان، محمد بن منکدر، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ یہودی کہا کرتے تھے کہ جو شخص عورت کی آگے کی راہ میں پیچھے کی جانب سے صحبت کرے گا تو بچہ بھینگا ہو گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تمہاری عورتیں کھیتیاں ہیں تمہارے لئے۔ سو اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ۔

عزل کا بیان

ابو مروان، محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عزل کے متعلق دریافت کیا فرمایا کیا تم ایسا کرتے ہو؟ اگر نہ کرو تو حرج بھی نہیں اس لئے کہ جس جان کے ہونے کا اللہ نے فیصلہ فرما دیا وہ ہو کر رہے گی۔   ٭٭ ہارون بن اسحاق ، سفیان، عمرو، عطاء، جابر حضرت جابر فرماتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں عزل کرتے تھے قرآن بھی اترتا تھا (لیکن قرآن میں اس کی ممانعت نہ آئی نہ وحی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منع کرایا گیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ جائز ہے۔   ٭٭ حسن بن علی، اسحاق بن عیسی، ابن لہیعہ، جعفر بن ربیعہ، زہری، محرز، حضرت عمر بن الخطاب فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل سے منع فرمایا۔

پھوپھی اور خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھتیجی اور بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھوپھی اور خالہ کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھتیجی اور بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے۔   ٭٭ ابو کریب، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، یعقوب بن عتبہ، سلیمان بن یسار، ابی سعید، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دو نکاحوں سے منع فرماتے سنا یعنی یہ آدمی خالہ اور بھانجی کو نکاح میں جمع کرے اور بھتیجی اور پھوپھی کو نکاح میں جمع کرے۔   ٭٭ جبارہ بن مغلس، ابو بکر، ابو بکر بن ، حضرت ابو  موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھوپھی اور بھانجی سے نکاح نہ کیا جائے۔

مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے وہ کسی اور سے شادی کر لے اور دوسرا خاوند صحبت سے پہلے طلاق دے دے تو کیا پہلے خاوند کے پاس لوٹ کر سکتی ہے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی تین طلاقیں۔ پھر میں نے عبد الرحمن بن زبیر سے شادی کر لی اس کے پاس تو کپڑے کا پلو ہے۔   ٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، علقمہ، سلم بن زریر، حضرت ابن عمر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت نقل کرتے ہیں اس مرد کے متعلق جس کی بیوی ہو وہ اسے طلاق دے دے کوئی اور مرد اس سے شادی کر لے پھر صحبت سے پہلے طلاق دے دے کیا وہ پہلے خاوند کے پاس لوٹ سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لوٹ سکتی یہاں تک کچھ شہد چکھ لے۔

حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے

محمد بن بشار، ابو عامر، ذمعہ بن صالح، سلمہ بن و ہرام، عکرمہ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی حلالہ کرنے والے پر اور اس شخص پر جس کے لئے حلالہ کیا جائے۔   ٭٭ محمد بن اسماعیل واسطی، ابو اسامہ، ابن عون، مجالد بن اسماعیل، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت فرمائی حلالہ کرنے والے پر اور اس شخص پر جس کے لئے حلالہ کیا جائے۔   ٭٭ یحییٰ بن عثمان بن صالح، لیث، ابن سعد، ابو مصعب، مشرح بن ہامان، حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں مانگے ہوئے سانڈ کے متعلق نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ فرمایا وہ حلالہ کرنے والا ہے اللہ نے لعنت فرمائی حلالہ کرنے والے پر اور اس پر جس کے لئے حلالہ کیا جائے۔

جو نسبی رشتے حرام ہیں وہ رضاعی بھی حرام ہیں

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، حجاج، حکم، عراک بن مالک، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رضاع سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔   ٭٭ حمید بن مسعدہ، ابو بکر بن خلاد، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، جابر بن زید، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مشورہ دیا گیا کہ حمزہ بن عبد المطلب کی صاحبزادی سے نکاح کا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ میری رضاعی بھتیجی ہے اور رضاعت سے وہی رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہیں۔   ٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، زینت بنت ابی سلمہ، ام المومنین حضرت ام حبیبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں یہ پسند ہے۔ عرض کیا جی ہاں میں اکیلی تو آپ کے پاس نہیں ہوں (کہ سوکن کو ناپسند کروں آپ کی تو بہت سی ازواج ہیں ) اور بھلائی میں میری شرکت کے لئے میری بہن بہت موزوں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے لئے حلال نہیں۔ عرض کیا کہ ہم میں تو باتیں ہوتی رہتی ہیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فرمایا ام سلمہ کی بیٹی۔ عرض کیا جی ہاں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی تو بھی میرے لئے حلال نہ ہوتی کیونکہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے مجھے اور اس کے والد کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ لہذا اپنی بہنیں اور بیٹیاں میرے سامنے پیش نہ کیا کرو۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے

ایک دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، ابن ابی عروبہ، قتادہ، ابو خلیل، عبد اللہ بن حارث، حضرت ام الفضل بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک دو بار دودھ چوسنا حرام نہیں کرتا (حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی)   ٭٭ محمد بن خالد بن خداش، ابن علبہ، ایوب، ابن ابی ملیکہ، عبد اللہ بن زبیر، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔   ٭٭ عبد الوارث بن عبد الصمد بن عبد الوارث، حماد بن سلمہ، عبد الرحمن بن قاسم، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ قرآن کریم میں یہ نازل ہوا تھا کہ پھر موقوف ہو گیا کہ حرام نہیں کرتا مگر پانچ یا دس بار دودھ پینا جس کا یقینی علم ہو۔

بڑی عمر والے کا دودھ پینا

ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، عبد الرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سہلہ بنت سہیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ سالم کے میرے پاس آنے سے مجھے (اپنے خاوند) ابو حذیفہ کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسے دودھ پلا دو۔ عرض کیا اسے دودھ کیسے پلاؤں وہ تو بڑی عمر کا مرد ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے اور فرمایا مجھے بھی معلوم ہے کہ وہ بڑی عمر کا مرد ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کر لیا پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ اس کے بعد میں نے ابو حذیفہ میں ناپسندیدگی کی کوئی بات نہ دیکھی اور ابو حذیفہ بدری تھے۔   ٭٭ ابو سلمہ ، یحییٰ بن خلف، عبد الاعلی، محمد بن اسحاق ، عبد اللہ بن ابی بکر، عمرہ، عائشہ، عبد الرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رجم کی آیت اور بڑی عمر کے آدمی کو دس بار دودھ پلانے کی آیت نازل ہوئی اور وہ میرے تخت تلے تھی۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہوا اور ہم آپ کی وفات کی وجہ سے مشغول ہوئے تو ایک بکری اندر آئی اور وہ کاغذ کھا گئی۔

دودھ چھوٹنے کے بعد رضاعت نہیں

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان، اشعث ابن ابی شعشاء، مسروق، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے ان کے پاس ایک مرد تھا فرمایا یہ کون ہے۔ عرض کیا میرا بھائی ہے۔ فرمایا غور کرو تم کن کو اپنے پاس آنے دیتی ہو اس لئے کہ رضاعت اسی وقت ہوتی ہے جب بچہ کی غذا دودھ ہو (یعنی بچپن میں )   ٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، ابی اسود، عروہ، حضرت عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رضاعت وہی ہے جو نتیں چیرے (کم سنی میں ہو، یعنی جتنی مدت فقہاء کرام نے بتائی ہے اس کے اندر ہو)   ٭٭ محمد بن رمح، عبد اللہ بن لہعیہ، یزید بن ابی حبیب، عقیل ابن شہاب، ابو عبیدہ، عبد اللہ بن زمعہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تمام ازواج مطہرات نے حضرت عائشہ کی مخالفت کی اور انہوں نے حذیفہ کے غلام سالم کی طرح رضاعت کر کے اپنے پاس (اسی طرح باقی عورتوں کے پاس بھی) آنے جانے سے منع فرمایا اور سب نے کہا کیا خبر یہ صرف اکیلے سالم کے لئے رخصت ہو (باقیوں کے لئے ایسا حکم نہ ہو)۔

مرد کی طرف سے دودھ

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد میرے رضاعی چچا افلح بن قعیس میرے پاس آئے اندر آنے کی اجازت چاہی میں نے اجازت دینے سے انکار کیا۔ یہاں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا وہ تمہارے چچا ہیں ان کو اجازت دے دو۔ میں نے عرض کیا مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے تو نہیں پلایا فرمایا تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور میرے پاس آنے کی اجازت طلب کی میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے چچا تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا مجھے تو عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں پلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تمہارے چچا ہیں تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔

مرد اسلام لائے اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد السلام بن حرب، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فردہ، ابی وہب، ابی خراش، حضرت دیلمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں جن سے جاہلیت میں نکاح کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ واپس جاؤ تو ان میں سے ایک کو طلاق دے دینا۔   ٭٭ یونس بن عبد الاعلی، ابن وہب، ابن لہعیہ، ابی وہب، ضحاک بن حضرت فیروز دیلمی فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول میں مسلمان ہو گیا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا ان میں سے جس ایک کو چاہو طلاق دے دو۔   ٭٭ احمد بن ابراہیم، ہشیم، ابن ابی لیلی، حمیصہ بنت شمردل، حضرت قیس بن حارث فرماتے ہیں کہ میں اسلام لایا تو میری آٹھ بیویاں تھیں۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ بات عرض کی۔ فرمایا ان میں سے چار کا انتخاب کر لو۔   ٭٭ یحییٰ بن حکیم، محمد بن جعفر، معمر ، زہری، سالم، ابن عمر، غیلان بن سلمہ، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا ان میں سے چار رکھ لو۔

نکاح میں شرط کا بیان

عمرو بن عبد اللہ، محمد بن اسماعیل، ابو اسامہ، عبد الحمید بن جعفر، یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبد اللہ، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ جس شرط کو پورا کرنا ضروری ہے وہ شرط ہے جس کی بنیاد پر تم (اپنے لئے ) فرجوں کو حلال کرو۔   ٭٭ ابو کریب، ابو خالد، ابن جریج، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نکاح بندھنے سے قبل جو بھی مہر، تحفہ، ہدیہ ہو وہ بیوی کاہے اور جو نکاح بندھنے کے بعد ہو تو وہ اس کاہے جسے دیا گیا یا ہبہ کیا گیا اور سب سے زیادہ آدمی کا اعزاز جس کی وجہ سے کیا جائے اس کی بیٹی یا بہن ہے۔

مرد اپنی باندی کو آزاد کر کے اس سے شادی کر لے

عبد اللہ بن سعید، ابو سعید، عبدہ بن سلیمان، صالح بن صالح حی، شعبی، ابو بردہ، حضرت ابو  موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس کی باندی ہو وہ اسے اچھے انداز سے آداب سکھائے اور اچھے انداز سے اس کی تعلیم و تربیت کرے پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے اسے دوہرا اجر ملے گا۔ اور جو بھی کتابی مرد اپنے نبی پر ایمان لائے اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر ایمان لائے اسے دوہرا اجر ملے گا۔ اور جو بھی مملوک غلام اللہ کے فرائض ادا کرے اور اپنے آقاؤں کا حق ادا کرے اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اس حدیث کے راوی صالح کہتے ہیں کہ میرے استاذ امام شعبی نے فرمایا یہ حدیث میں نے تمہیں بلا معاوضہ مفت ہی دے دی حالانکہ اس سے کم بات معلوم کرنے کے لئے بھی مدینہ کا سفر کرنا پڑتا تھا .   ٭٭ احمد بن عبدہ، حماد بن زید، ثابت، عبد العزیز ، حضرت انس فرماتے ہیں کہ صفیہ (جب خیبر میں قید ہوئیں تو) دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں پھر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مل گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کر لی اور آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ حماد کہتے ہیں کہ عبد العزیز نے ثابت سے کہا آپ نے انس سے پوچھا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صفیہ کو کیا مہر دیا؟ فرمایا ان کی ذات (آزادی) مہر میں دی۔   ٭٭ جیش بن مبشر، یونس بن محمد بن زید، ایوب، عکرمہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت صفیہ کو آزاد کیا اور آزادی کو ہی ان کا مہر قرار دے کر ان سے شادی کر لی۔

آقا کی اجازت کے بغیر غلام کا شادی کرنا

ازہر بن مروان، عبد الوارث بن سعید، قاسم بن عبد الوحد، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کر لے تو وہ زانی ہو گا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، صالح بن محمد بن یحییٰ بن سعید، ابو غسان، مالک بن اسماعیل، مندل، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، حضرت ابن عمر بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو غلام بھی مالکوں کی اجازت کے بغیر شادی کر لے وہ زانی ہے۔

نکاح متعہ کی ممانعت

محمد بن یحییٰ، بشر بن عمر، مالک بن انس، ابن شہاب، عبد اللہ ، حسن، ابن محمد بن علی، حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ ابن سلیمان، عبد العزیز بن عمر، ربیع بن حضرت سبرہ فرماتے ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں گئے لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر سے دوری ہمارے لئے سخت گراں ہو رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر ان عورتوں سے نکاح کر کے فائدہ اٹھاؤ ہم ان عورتوں کے پاس گئے تو انہوں نے باہمی مدت مقرر کئے گئے نکاح سے انکار کر دیا۔ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر باہمی مدت مقرر کر لو تو میں اور میرا ایک چچازاد بھائی نکلے میرے پاس بھی ایک چادر تھی اور اس کے پاس بھی لیکن اس کی چادر میری چادر سے عمدہ تھی البتہ میں اس کی بہ نسبت زیادہ جوان تھا۔ اس عورت نے کہا چادر تو چادر کی طرح ہے سو میں نے اس سے شادی کر لی میں اس رات اس کے پاس ٹھہرا۔ صبح آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکن اور باب کے درمیان کھڑے ہوئے فرما رہے تھے اے لوگو! میں نے تمہیں متعہ کی اجازت دی تھی غور سے سنو اللہ نے قیامت تک کیلئے متعہ حرام فرما دیا اس لئے جس کے پاس کوئی متعہ والی عورت ہو اس کا راستہ چھوڑ دے اور جو تم نے انہیں دیا اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔   ٭٭ محمد بن عسقلانی، فریابی، ابان بن ابی حازم، ابو بکر بن حفص، حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب خلیفہ بنے تو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا! بلاشبہ رسول نے تین مرتبہ ہمیں متعہ کی اجازت دی پھر اسے حرام قرار دے دیا۔ اللہ کی قسم جس کے متعلق معلوم ہوا کہ متعہ کرتا ہے اور وہ محصن ہوا تو میں اس کو سنگسار کروں گا۔ الاّ یہ کہ میرے پاس چار گواہ لائے جو گواہی بھی دیں کہ اللہ کے رسول نے اسے حرام کرنے کے بعد پھر اسے حلال بتایا۔

محرم شادی کر سکتا ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن آدم، جرید بن حازم، ابو فزارۃ، یزید بن اصم، ام المومنین حضرت میمونہ بنت الحارث سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی اس حال میں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حلال (احرام باندھے ہوئے نہ) تھے۔ یزید کہتے ہیں حضرت میمونہ میری اور حضرت ابن عباس کی خالہ ہیں۔   ٭٭ ابو بکر بن خلاد، سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار، جابر بن زید، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بحالت احرام نکاح کیا۔   ٭٭ محمد بن صباح، عبد اللہ بن رجاء، مالک بن انس، نافع، نبیہ بن وہب، ابان بن حضرت عثمان بن عفان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا محرم نہ اپنا نکاح کرے نہ دوسرے کا نکاح کرے نہ ہی نکاح کا پیغام بھیجے۔

نکاح میں ہمسر اور برابر کے لوگ

محمد بن سابو ر، عبد الحمید بن سلیمان، فلیح، محمد بن عجلان، ابن وثیمہ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کے اخلاق اور دینی حالت تمہیں پسند ہو تو اس کا نکاح کر دو اور اگر نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا بگاڑ ہو گا۔   ٭٭ عبد اللہ بن سعید، حرث بن عمران، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے نطفوں کے لئے (اچھی عورتوں کا) انتخاب کرو اور کفو عورتوں سے نکاح کرو اور کفو مردوں کے نکاح میں دو۔

بیویوں کی باری مقرر کرنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہمام، قتادہ، ضر بن انس، بشیر بن نہیک، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس کی دو بیویاں ہوں وہ ان میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دیتا ہو وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک حصہ ڈھلکا ہوا ہو گا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن یمان، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سفر پر تشریف لے جانے لگتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ ڈال لیتے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن یحییٰ ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، ایوب، ابو قلابہ، عبد اللہ بن یزید، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر فرماتے اور اس میں عدل اور برابری سے کام لیتے پھر یہ دعا مانگتے اے اللہ! یہ میری کار کر دگی ہے اس چیز میں جس میں میرا اختیار ہے اب مجھے مورد ملامت نہ ٹھہرائیے اس چیز میں جو آپ کے اختیار میں ہے اور میرے اختیار میں نہیں۔

بیوی اپنی باری سوکن کو دے سکتی ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، عقبہ بن خالد، محمد بن صباح، عبد العزیز بن محمد، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت سودہ بن زمعہ عمر رسیدہ ہو گئیں تو انہوں نے اپنی باری مجھے دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت سودہ کا دن بھی مجھے دیتے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن یحییٰ، عفان، حماد بن سلمہ، ثابت، سمیۃ، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی بات کی وجہ سے حضرت صفیہ بن حیی سے ناراض ہوئے تو صفیہ نے عائشہ سے کہا اے عائشہ کیا تم چاہتی ہو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مجھ سے راضی کرا دو اور میری باری تمہیں مل جائے؟ عائشہ نے کہا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد عائشہ نے اپنا زعفران میں رنگا ہوا دوپٹہ لیا اور اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی مہک پھیلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پہلو میں جا بیٹھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عائشہ ! دور ہو جا آج تمہاری باری نہیں ہے۔ عائشہ نے کہا ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہیں عطا فرمائیں۔ اور ساری بات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت صفیہ سے راضی ہو گئے۔   ٭٭ حفص بن عمرو، عمر بن علی، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں آیت ( وَالصُّلْحُ خَیْرٌ) 4۔ النساء:128) اور صلح بھلی ہے۔ نازل ہوئی اس مرد کے بارے میں جس کی بیوی عرصہ دراز سے اس کے نکاح میں تھی اور اس خاوند سے اس کی کافی اولاد بھی ہوئی تھی پھر اس مرد نے اس بیوی کو بدلنا چاہا  (کہ اس کو طلاق دے کر کسی اور عورت سے شادی کر لے ) تو اس عورت نے خاوند کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اس خاوند کے ہاں رہے اور خاوند اس کی باری نہ دے۔

نکاح کرانے کے لئے سفارش کرنا

ہشام بن عمار، معاویہ بن یحییٰ، معاویہ بن یزید، یزید بن ابی حبیب، ابی خیر، حضرت ابو دہم رحمۃ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہترین سفارش یہ ہے کہ دو کے درمیان نکاح کی سفارش کرے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شریک ، عباس بن ذرح، بھی، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اسامہ دروازہ کی چوکھٹ پر گر پڑے ان کے چہرہ پر زخم آیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا زخم صاف کرو (غبار وغیرہ جھاڑو) مجھے کراہت ہوئی تو آپ خود ہی ان کا خون صاف کرنے لگے اور چہرہ سے پونچھنے لگے پھر فرمایا اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اس کو زیور پہناتا اور اچھے اچھے کپڑے پہناتا یہاں تک کہ اس کی شادی کر دیتا۔

بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا

ابو بشر بکر بن خلف، محمد بن یحییٰ، ابو عاصم، جعفر بن یحییٰ بن ثوبان، عمارہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہیں اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا برتا کرنے والا ہوں۔   ٭٭ ابو کریب، ابو خالد، اعمش، شفیق، مسروق، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سب سے بھلے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے بھلے ہیں۔   ٭٭ ہشام بن عمار ، سفیان بن عیینہ ، ہشام بن عروہ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آگے بڑھ گئی۔   ٭٭ ابو بدر عباد بن ولید، حبان بن ہلال، مبارک بن فضالہ ، علی بن زید ، ام محمد، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (خیبر سے واپسی پر) مدینہ تشریف لائے اور آپ صفیہ بنت حیی کے دولہا بن چکے تھے تو انصاری عورتیں آئیں اور صفیہ کے متعلق بتانے لگیں۔ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی ہیئت بدلی نقاب ڈالا اور چلی گئی (صفیہ کو دیکھنے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری آنکھیں دیکھ کر پہچان لیا۔ فرماتی ہیں کہ میں نے منہ موڑا اور تیزی سے چلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے پکڑ لیا اور گود میں لے لیا۔ پھر فرمایا تم نے کیسی دیکھی ہے؟ میں نے کہا بس چھوڑ دیجئے ایک یہودن ہے یہودنوں کے درمیان۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیہ ، محمد بن بشر، زکریا، خالد بن سلمہ ، بہی ، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوا کہ زینب میرے پاس بلا اجازت آ گئیں وہ غصہ میں تھیں۔ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول آپ کے لئے کافی ہے کہ ابو بکر کی بیٹی اپنی کرتی پلٹے (بازو وغیرہ کھولے ) پھر میری طرف متوجہ ہوئیں میں نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم بھی کہو اپنی مد د کرو (کیونکہ زینب نے سخت بات کی اور بلا اجازت گھر میں آئیں ) میں ان کی طرف متوجہ ہوئیں (اور جواب دیا) یہاں تک میں نے دیکھا کہ ان کا منہ میں تھوک خشک ہو گیا۔ کچھ جواب نہیں دے سکیں پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ جگمگا رہا ہے   ٭٭ حفص بن عمرو، عمر بن حبیب قاضی ، ہشام بن عروہ، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں گڑیوں سے کھیلتی تھی جبکہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھی آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لئے بھیج دیتے تھے۔

بیویوں کو مارنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن عروہ، عروہ ، حضرت عبد اللہ بن زمعہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اس دوران عورتوں کا ذکر کیا اور مردوں کو عورتوں کے متعلق نصیحت فرمائی پھر فرمایا کب تک تم میں ایک اپنی بیوی کو باندی کی طرح مارے گا ہو سکتا ہے اس دن آخر میں (یعنی رات کو وہ اس کو ساتھ لٹائے )   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ہشام بن عروہ ، عروہ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کسی بھی خادم یا اہلیہ کو نہ مارا بلکہ اپنے دست مبارک سے کسی چیز کو نہیں مارا۔   ٭٭ محمد بن صباح ، سفیان بن عیینہ ، زہری ، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر ، ایاس بن محمد بن صباح ، سفیان بن عیینہ ، زہری ، عبد اللہ بن عبد اللہ ، ایاس بن عبد اللہ بن ابی ذباب فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو ہرگز نہ مارا کرو تو حضرت عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! عورتیں غالب آ گئیں اپنے خاوندوں پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں مارنے کی اجازت دے دی تو ان کی پٹائی ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھرانے میں بہت سی عورتیں آئیں۔ صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: رات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھرانے میں ستر عورتیں آئیں ہر عورت اپنے خاوند کی شکایت کر رہی تھی تم ان مردوں کو بہتر نہ پاؤ گے۔   ٭٭ محمد بن یحیی ، حسن بن مدرک طحان ، یحیی بن حماد ، ابو عوانہ ، داؤد بن عبد اللہ اودی، عبد الرحمن، اشعث بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے دعوت کے روز جب رات ڈھلنے کی قریب ہوئی کھڑے ہو کر اپنی عورت کو مارا۔ میں ان دونوں کے درمیان میں گیا۔ جب وہ اپنے بستر پر جانے لگے تو مجھ سے کہا یاد رکھ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مرد سے اپنی بیوی کو مارنے کے متعلق سوال نہ کیا جائے گا اور مت سو بغیر وتر پڑھے اور ایک اور تیسری بات بھی کہی لیکن میں اس کو یاد نہ رکھ سکا۔ ایک اور سند سے دوسری روایت بھی ایسی ہی مروی ہے۔

بالوں میں جوڑا لگانا اور گودنا کیسا ہے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ ، عبید اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت بھیجی جوڑ لگانے والی اور جوڑ لگوانے والی پر (بالوں میں ) اور گوندھنے والی اور گندھوانے والی پر۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ ، عبدہ بن سلیمان ، ہشام بن عروہ ، فاطمہ ، حضرت اسماء سے مروی ہے کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں آئی اور کہا میری بیٹی کی (نئی نئی) شادی ہوئی، پھر اس کو چیچک کی بیماری لاحق ہو گئی جس سے وہ گنجی ہو گئی ، کیا میں اس کے بالوں میں جوڑا لگا لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لعنت کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جوڑا لگانے والی پر اور جس کے جوڑا لگایا جائے۔   ٭٭ ابو عمر حفص بن عمرو، عبد الرحمن بن عمر ، عبد الرحمن بن مہدی ، سفیان بن منصور، ابراہیم ، علقمہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت کی گوندھنے اور گندھوانے والیوں پر اور بال اکھاڑنے اور دانتوں کو بطور حسن کشادہ کرنے والیوں پر (یعنی) اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر۔ یہ حدیث بنی اسد کی ایک خاتون ام یعقوب نے سنی تو وہ عبد اللہ کے پاس آئی اور کہنے لگی میں نے سنا کہ تم نے ایسا (ایسا) کہا؟ انہوں نے کہا کیوں مجھے کیا ہوا کہ میں لعنت نہ کروں جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لعنت بھیجی اور یہ بات تو قرآن میں موجود ہے۔ وہ بولی میں نے تو سارا قرآن پڑھا لیکن یہ (لعنت) کہیں نہ پائی۔ عبد اللہ نے کہا اگر تو قرآن پڑھی ہوتی تو ضرور یہ آیت دیکھ لیتی یعنی جو حکم تم کو اللہ کا رسول دے تم اس پر عمل کرو اور جس سے روکے رک جاؤ جتنی باتیں حدیث سے ثابت ہیں گویا وہ قرآن سے (بھی) ثابت ہیں۔ وہ خاتون بولی ہاں ! یہ تو قرآن میں ہے۔ عبد اللہ نے کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع کیا ہو۔ وہ بولی میرا خیال ہے تمہاری بیوی بھی ایسا کرتی ہے۔ عبد اللہ نے کہا جا دیکھ لو۔ لیکن اس نے ایسی کوئی بات نہ پائی۔ عبد اللہ نے کہا اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی میرے ساتھ نہ رہ سکتی۔

کن دنوں میں اپنی ازواج سے صحبت کرنا مستحب ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، سفیان ، اسماعیل بن امیہ ، عبد اللہ بن عروہ ، عروہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح کیا اور صحبت بھی۔ پھر کیا کوئی بی بی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مجھ سے زیادہ محبوب تھی اور حضرت عائشہ کو پسند تھا کہ خاوندوں کے پاس ان کی نکاحی عورتیں شوال کے مہینے میں جائیں۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر، زہیر، محمد بن اسحاق ، عبد اللہ بن ابی بکر، عبد الملک بن حارث بن ہشام، حارث بن ہشام سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام المومنین سیدہ ام سلمہ سے شوال کے مہینے میں نکاح اور شوال کے مہینے میں ہی صحبت بھی کی۔

مرد اپنی بیوی سے کوئی چیز دینے سے قبل دخول کرے

محمد بن یحییٰ، ہثیم بن جمیل، شریک، منصور، طلحہ، خیثمہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عائشہ صدیقہ کو حکم دیا شوہر کے پاس اس کی بیوی کو بھیج دیں ، قبل اس سے کہ خاوند نے بیوی کو کوئی چیز (مہر) دیا ہو۔

کون سی چیز منحوس ہے اور کون سی مبارک ہوتی ہے؟

ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، سلیمان بن سلیم، یحییٰ بن جابر، حکیم بن معاویہ، مخمر بن معاویہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے۔ نحوست کچھ شئے نہیں اور کبھی تین چیزیں مبارک ہوتی ہیں۔ عورت گھوڑا گھر۔ (یعنی جب یہ منحوس نہیں تو باقی اشیاء بدرجہ اولیٰ مستثنیٰ ہو گئیں )۔   ٭٭ عبد السلام بن عاصم، عبد اللہ بن نافع، مالک بن انس، ابی حازم، حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر (بالفرض) نحوست کوئی چیز ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی۔) عورت) گھوڑے ) گھر میں۔   ٭٭ یحییٰ بن خلف، ابو اسامہ، بشر بن مفضل، عبد الرحمن بن اسحاق ، زہری، سالم، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نحوست تین چیزوں میں ہے۔ گھوڑے ، عورت اور گھر میں۔ زہری نے کہا مجھ سے ابو عبیدہ نے بیان کیا کہ ان کی راوی زینب نے ان سے یہ حدیث بیان کی ام سلمہ نے وہ ان تین چیزوں کا شمار کرتی تھیں اور ہر ایک تلوار کو بڑھاتی تھیں۔

غیرت کا بیان

محمد بن اسماعیل، وکیع، شیبان، ابی معاویہ، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سہم، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بعضی غیرت اللہ کو محبوب ہے بعضی ناپسند۔ جو پسند ہے وہ یہ ہے تہمت کے مقام پر غیرت کرے اور جو ناپسند ہے وہ یہ ہے کہ بغیر تہمت کے بے فائدہ غیرت کرے اور فقط گمان پر کوئی قدم اٹھانا جہالت ہے۔   ٭٭ ہارون بن اسحاق ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے کبھی کسی عورت پر غیرت نہیں کھائی ماسوا خدیجہ کے کیونکہ میں دیکھتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر ان کو یاد کرتے (اگرچہ اس وقت وہ وفات پاچکی تھیں ) اور اللہ عزوجل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ خدیجہ جو جنت میں ہے اسے سونے سے بنائے گئے مکان کی بشارت دے دیں۔   ٭٭ عیسی بن حماد، لیث بن سعد، عبد اللہ بن سعد، عبد اللہ بن ابی ملیکہ، مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کو فرماتے سنا ، جب آپ منبر پر تھے کہ بنی ہشام بن المغیرہ نے مجھ سے اجازت مانگی کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کر دیں؟ میں کبھی اجازت نہیں دیتا۔ کبھی اجازت نہیں دیتا۔ کبھی اجازت نہیں دیتا (تین بار ارشاد فرمایا) ہاں ! یہ ہو سکتا ہے کہ علی میری بیٹی (فاطمہ) کو طلاق دے اور ان کی بیٹی سے نکاح کر لے۔ اس لئے کہ فاطمہ میرا (جگر کا) ٹکڑا ہے اور جو اسے ناگوار لگے مجھے بھی لگتی ہے اور جس سے اسے صدمہ پہنچے مجھے بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو الیمان، شعیب، مسور بن مخرمہ، علی بن ابی طالب، مسور بن مخرمہ سے مروی ہے کہ حضرت علی نے ابو جہل کی بیٹی کو (نکاح کا) پیام دیا اور اسوقت ان کے نکاح میں فاطمہ تھیں۔ جب یہ خبر فاطمہ نے سنی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے متعلق غصہ نہیں آتا۔ اسی وجہ سے علی اب (دوسرا) نکاح کرنے والے ہیں ابو جہل کی بیٹی سے۔ مسور نے کہا یہ خبر سن کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور میں نے سنا آپ نے تشہد پڑھا پھر فرمایا اما بعد ! میں نے نکاح کیا اپنی بیٹی (زینب) کا ابو العاص بن الربیع سے اور انہوں نے جو کہا تھا سچ ثابت کیا اور بے شک فاطمہ محمد کی دختر میرا ایک ٹکڑا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ  اس کو گناہ میں گھسیٹنے کی کوشش کریں۔ اللہ کی قسم ! بے شک اللہ کے رسول اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس کبھی جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ سن کر حضرت علی کرم نے پیغام (ترک) کر دیا۔

جس نے اپنا نفس (جان) ہبہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، عائشہ، ام المومنین عائشہ سے مروی ہے فرماتی ہیں کیا عورت شرم نہیں کرتی جو اپنا آپ ہبہ کر دیتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی جس کو تو چاہے جدا کرے اور جس کو تو چاہے اپنے پاس رکھے۔ تب میں نے کہا آپ کا رب بھی آپ کی خواہش کے مطابق ہی حکم نازل کرتا ہے۔   ٭٭ ابو بشر بکر بن خلف، محمد بن بشار، مرحوم بن عبد العزیز، ثابت، حضرت ثابت سے روایت ہے کہ ہم انس بن مالک کے پاس بیٹھے تھے اور ان کی ایک بیٹی بھی پاس تھی۔ انس نے کہا ایک عورت نبی کے پاس آئی اور اپنے آپ کو آپ پر پیش کیا یعنی اگر آپ کو میری خواہش ہو تو قبول فرمائیں۔ یہ سن کر انس کی بیٹی بولی کیسی کم حیاء والی تھی وہ خاتون؟ انس نے کہا (بلاشبہ) وہ تجھ سے بہتر تھی۔ اس نے رغبت کی اللہ کے رسول میں اور اپنی جان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پیش کیا۔

کسی شخص کا اپنا لڑکے (نسب) میں شک کرنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ بنی فزارہ کا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میری بیوی نے کالا لڑکا جنا (یعنی نسب میں شک کیا) آپ نے فرمایا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ بولا ہیں۔ آپ نے فرمایا ان کا رنگ کیسا ہے؟ بولا سرخ۔ آپ نے فرمایا ان میں کوئی چت کبر ہے؟ بولا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کہاں سے آیا؟ بولا کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا۔ آپ نے فرمایا پھر (شک کیوں کرتا ہے ) تیرے یہاں بھی کسی رگ نے یہ رنگ نکالا ہو گا۔   ٭٭ ابو کریب، عبادہ بن کلیب، ابو غسان، جویریہ بن اسماء، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جنگل کا رہائشی نبی کے پاس آیا اور کہنے لگا میری بیوی نے ایک لڑکا جنا سیاہ رنگ والا اور ہمارے یہاں کوئی کالا نہیں۔ آپ نے فرمایا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ بولا ہیں۔ آپ نے فرمایا ان کا رنگ کیا ہے؟ بولا سرخ۔ آپ نے فرمایا ان میں کوئی چتکبرا ہے؟ بولا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ رنگ کہاں سے آیا؟ بولا شاید کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا پھر تیرے بچے میں بھی کسی رگ نے (کالا رنگ) کھینچ لیا ہو گا۔

بچہ ہمیشہ باپ کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے تو (فقط) پتھر ہی ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، عائشہ، ابن زمعہ، سعد، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد بن ابی وقاص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جھگڑا گیا زمعہ کی لونڈی کے بچہ میں۔ سعد نے کہا یا رسول اللہ ! میرے بھائی نے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچہ کو لے لوں اور عبد بن زمعہ نے کہا وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے محسوس کر کے فرمایا وہ بچہ تیرا ہے اے عبد بن زمعہ ! (گو مشابہت عتبہ سے ہے ) اور بچہ ہمیشہ خاوند کا ہوتا ہے اور زانی کیلئے فقط پتھر ہیں مگر سودہ تو (بہرحال) اس سے پردہ کرے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن ابی یزید، امیرالمومنین عمر فاروق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ بچہ تو (بہرحال) خاوند کے واسطے ہے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بچہ ماں کو ملے گا یا اس کے خاوند کو اور زانی کیلئے (تو فقط) پتھر ہیں۔   ٭٭ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل بن مسلم، ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے سنا کہ بچہ تو ماں کاہے اور زانی کیلئے تو (محض) پتھر ہیں۔

اگر زوجین میں سے کوئی پہلے اسلام قبول کر لے؟

احمد بن عبدہ، حفص بن جمیع، سماک، عکرمہ، ابن عباس، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک خاتون نبی کے پاس آئی اور اسلام قبول کر لیا اور نکاح بھی کر لیا پھر اس کا پہلا خاوند آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! میں اپنی بیوی کے ساتھ ہی مسلمان ہوا تھا اور یہ بات اس کے علم میں بھی تھی۔ یہ سن کر نبی نے اسے خاتون دوسرے خاوند سے لے کر (واپس) دلوا دی۔   ٭٭ ابو بکر بن خلاد، یحییٰ بن حکیم، یزید بن ہارون، محمد بن اسحاق ، داؤد بن حصین، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی صاحبزادی (زینب) کو ابو العاص بن ربیع کے پاس دو برس کے بعد اسی گزشتہ نکاح پر بھیج دیا۔   ٭٭ ابو کریب، معاویہ، حجاج، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی صاحبزادی زینب کو ابو العاص کے پاس لوٹا دیا نئے نکاح پر۔

دودھ پلانے کی حالت میں جماع کرنا؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن اسحاق ، یحییٰ بن ایوب، محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عروہ، عائشہ، جدامہ بنت وہب سے روایت ہے میں نے نبی سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے دودھ پلانے (غیل) کی حالت میں جماع کرنے سے منع کرنے کا ارادہ کیا۔ بوجہ اس کے کہ اس کا لڑکا ضعیف ہو جاتا ہے۔ پھر میں نے دیکھا تو فارس اور روم کے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو ضرر نہیں ہوتا اور میں نے آپ سے لوگوں کو عزل کی بابت دریافت کرتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا وہ تو خفیہ زندہ درگور کرنا ہے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، عمرو بن مہجر، ابی مسلم، اسماء بنت یزید بن سکن ، اسماء بنت یزید سے روایت ہے انہوں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے اپنی اولاد کو پوشیدہ قتل مت کرو۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان ہے غیل سوار کو اپنے گھوڑے سے گرا دیتا ہے اس وقت اثر کرتا ہے۔

جو خاتون اپنے شوہر کو تکلیف پہنچائے

محمد بن بشار، مومل، سفیان، اعمش، سالم بن ابی جعد، ابو امامہ سے روایت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے دو بچے تھے۔ ایک کو گود میں لئے ہوئے تھی دوسرے کو کھینچ رہی تھی۔ آپ نے فرمایا یہ عورتیں بچوں کو اٹھانے والی پیدا کرنے والی ا پنے بچوں پر رحم کرنے والیاں اگر اپنے شوہروں کو تکلیف نہ پہنچائیں تو جوان میں سے نمازی ہیں وہ جنت میں جائیں۔   ٭٭ عبد الوہاب بن ضحاک، اسماعیل بن عیاش، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، کثیر بن مرہ، معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا کوئی خاتون جو اپنے شوہر کو ایذاء پہنچائے تو جنت کی حوریں جو اس مرد کیلئے مختص ہیں کہتی ہیں اللہ تجھے برباد کرے اس کو مت ستا وہ تیرے پاس چند روز کیلئے اترا ہے اور قریب ہی ہے کہ تجھ کو چھوڑ کر (واپس) ہمارے پاس لوٹ آئے گا۔

حرام حلال کو حرام نہیں کرتا

یحییٰ بن معلی بن منصور، اسحاق بن محمد، عبد اللہ بن عمر، نافع، ابن عمر، حضرت عمر بن خطاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔

طلاق کا بیان

 

طلاق کا بیان

سوید بن سعید، عبد اللہ بن عامر بن زرارہ، مسروق بن مرزبان، یحییٰ بن زکریا، صالح بن حی، سلمہ بن کہیل، سعید بن جبیر، ابن عباس، امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام المومنین سیدہ حفصہ کو طلاق دی پھر ان سے (اللہ عزوجل کے فرمان وہ روزہ رکھنے والی عبادت کرنے والی اور جنت میں تیری بیوی ہے کہ وجہ سے ) رجعت کر لی۔   ٭٭ محمد بن بشار، مومل، سفیان، ابی اسحاق ، ابو بردہ، ابو موسی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اراشاد فرمایا ان لوگوں کی کیا حالت ہو گئی ہے جو اللہ عزوجل کے احکامات سے کھیل کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے میں نے تجھ کو طلاق دی نہیں رجوع کیا نہیں طلاق دی۔   ٭٭ کثیر بن عبید الحمصی، محمد بن خالد، عبید اللہ بن ولید، محارب بن دثار، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حلال کئے گئے کاموں میں سے اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ ناپسند (چیز) طلاق ہے۔

سنت طلاق کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، عبید اللہ ، نافع، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی۔ حضرت عمر نے نبی سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اسے کہو رجعت کر لے یہاں تک اس کی ]بیوی حیض سے پاک ہو جائے پھر حیض آئے اور اس سے پاک ہو اس کے بعد اگر خواہش ہو تو طلاق دے جماع سے قبل اور اگر چاہے تو نکاح میں رکھے اور یہی عدت ہے عورتوں کی جس کا اللہ عزوجل نے حکم فرمایا   ٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، سفیان، ابی اسحاق ، ابو احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا سنت طریقے سے طلاق دینا یہ ہے کہ عورت کو حیض سے فراغت پانے کے بعد طلاق دے اور اس طہر میں جماع نہ کرے۔   ٭٭ علی بن میمون، حفص بن غیاث، اعمش، ابی اسحاق ، ابو احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بیان کیا طلاق کا سنت طریقہ ہے کہ عورت کو طہر میں ایک طلاق دے جب تیسری بار پاک ہو تو آخری طلاق دے اور اس کے بعد عدت ایک حیض ہو گی۔   ٭٭ نصر بن علی، عبد الاعلی، ہشام ، محمد، یونس بن جبیر، ابو غلاب، ابن عمر، یونس بن جبیر سے مروی ہے کہ میں نے ابن عمر سے پوچھا ایک مرد نے عورت کو طلاق دی حالت حیض میں؟ انہوں نے کہا ابن عمر کو پہچانتا ہے۔ انہوں نے طلاق دی اپنی عورت کو حالت حیض میں تو عمر نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ رجوع کرے۔ میں نے کہا یہ طلاق شمار ہو گی یا نہیں؟ انہوں نے کہا تیرا کیا خیال ہے اگر وہ عاجز ہو یا حماقت کرے۔

حاملہ عورت کا طلاق دینے کا طریقہ

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، محمد بن عبد الرحمن، مولی، طلحہ، سالم، حضرت ابن عمر نے طلاق دی اپنی عورت کو حالت حیض میں۔ حضرت عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رجوع کرے پھر طلاق دے جب وہ حیض سے پاک ہو یا حاملہ ہو جائے۔

ایسا شخص جو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے

محمد بن رمح، لیث بن سعد، اسحاق بن ابی فروہ، ابو زناد، عامر، شعبی، عامر شعبی سے روایت ہے میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا تم اپنی طلاق کو حدیث بیان کرو۔ انہوں نے کہا کہ میرے خاوند نے مجھ کو تین طلاقیں دیں اور وہ یمن کو جانے والا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس (طلاق) کو برقرار رکھا۔

رجوع (بعد از طلاق) کا بیان

بشر بن ہلال، جعفر بن سلیمان، یزید ، مطرف بن عبد اللہ بن شخیر، عمر بن حصین، مطرف بن شخیر سے روایت ہے عمران بن حصین سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص طلاق دے اپنی بیوی کو پھر اس سے جماع کرے اور نہ طلاق پر اس نے کسی کو گواہ کیا اور نہ ہی رجوع پر؟ عمران نے کہا اس نے طلاق بھی سنت کے خلاف دی اور رجوع بھی خلاف سنت کیا۔ طلاق پر بھی لوگوں کو گواہ کرے اور رجوع پر بھی۔

بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی حاملہ خاتون بائنہ ہو جائے گی

محمد بن عمر بن ہیاج، قبیصہ بن عقبہ، سفیان، عمرو بن میمون، زبیر، عوام، ام کلثوم سے مروی ہے کہ ان کے نکاح میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں۔ انہوں نے زبیر سے کہا میرا دل خوش کر دو ایک طلاق دے کر۔ انہوں نے ایک طلاق  اس کو دے دی۔ پھر نماز پڑھ کر واپس لوٹے تو وہ بچہ جن چکی تھی۔ زبیر نے کہا ہوا اس کو اس نے مجھ سے مکر کیا اللہ تعالی اس سے مکر کرے (بدلہ دے ) پھر جناب نبی کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا اللہ کی کتاب کی میعاد گزر گئی۔

وفات پا جانے والے شخص کی حاملہ بیوی کی عدت بچہ جنتے ساتھ ہی پوری ہو جائے گی

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو احوص، منصور ، ابراہیم، اسود، ابی سنابل سے مروی ہے سبعیہ اسلمیہ جو حارث کی بیٹی تھی اپنے خاوند کی وفات کے بعد بیس دن بعد بچہ جنی۔ جب نفاس فارغ ہوئی تو اس نے بناؤ سنگار کیا۔ لوگوں کو اچنبھا ہوا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا بے شک وہ سنگار کرے۔ اس کی عدت مکمل ہو چکی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، داؤد بن ابی ہند، شعبی ، مسروق اور عمر بن عتبہ سے مروی ہے ان دونوں نے سبیعہ بنت حارث کو لکھا ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے جواب لکھا کہ انہوں نے اپنے خاوند کی وفات کے پچیس دن بعد بچہ جنا پھر انہوں نے تیاری کی نکاح کی تو ان سے ابو السنابل نے کہا تو نے عجلت کی عدت پوری کر یعنی چار مہینے دس دن۔ یہ سن کر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے لئے دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا ہوا؟ اپنا پورا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اگر نیک شخص مل جائے تو نکاح کر لے۔   ٭٭ نصر بن علی ، محمد بن بشار، عبد اللہ بن داؤد ، ہشام بن عروہ ، مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے سبیعہ اسلمیہ کو حکم فرمایا کہ نکاح کر سکتی ہے جب اپنے نفاس سے فراغت حاصل کرے یعنی پاک ہو جائے تو۔   ٭٭ محمد بن مثنی، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! جو کوئی چاہے ہم سے لعان کر لے کہ سورۃ نساء مختصر (سورۃ طلاق) اس آیت کے بعد اتری جس میں چار مہینے دس دن کی عدت کا حکم دیا گیا ہے۔

بیوہ عدت کہاں پوری کرے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد، سلیمان بن حیان، سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرۃ، زینب بنت زینب بن کعب بن عجرہ سے مروی ہے جو ابو سعید خدری کے نکاح میں تھیں کہ میری بہن فریعہ بنت مالک نے کہا میرا خاوند اپنے عجمی غلاموں کو ڈھونڈنے نکلا اور ان کو پایا (علاقہ) قدوم کے کنارہ پر لیکن غلاموں نے  اس کو مار ڈالا میرے خاوند کے مرنے کی خبر پہنچی جس وقت میں انصار کے گھر میں تھی جو میری رہائش سے دور تھا۔ میں نبی کے پاس آئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے خاوند کی موت کی اطلاع آئی ہے اور میں دوسرے گھر میں ہوں جو دور ہے میرے اور میرے بھائیوں کے گھر سے اور میرے خاوند نے کچھ ورثہ نہیں چھوڑا جس کو خرچ کروں یا وارث بنوں۔ نہ ہی میرا ذاتی گھر ہے۔ اب اگر آپ اجازت مرحمت فرمائیں تو میں اپنے رشتہ داروں اور بھائیوں کے گھر میں چلی جاؤں۔ یہ مجھے مناسب لگتا ہے کہ اس سے مجھے سہولت ہو جائے گی۔ آپ نے فرمایا اگر تو چاہتی ہے تو ایسے ہی کر لے۔ فریعہ نے کہا میں یہ سن کر (مارے خوشی کے ) نم آنکھوں سے نکلی کیونکہ اللہ نے اپنے رسول کی زبان مبارک پر میرے فائدہ کا حکم نازل کیا۔ میں مسجد میں ہی تھی یا کسی حجرے میں کہ پھر نبی نے مجھے بلایا اور فرمایا تو کیا کہتی ہے؟ میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اسی گھر میں رہ جہاں تیرے خاوند کے مرنے کی خبر آئی۔ یہاں تک کہ قرآن کی (بتائی گئی) مدت پوری ہو جائے۔

دوران عدت خاتون گھر سے باہر جا سکتی ہے یا نہیں؟

محمد بن یحییٰ، عبد العزیز بن عبد اللہ، ابن ابی زناد، ہشام بن عروہ، حضرت عروہ سے مروی ہے کہ میں مروان کے پاس گیا اور میں نے کہا تمہاری ہم قوم عورت کو طلاق دی گئی اور وہ باہر گھومتی پھرتی ہے۔ میں اس کے پاس گزرا تو اس نے کہا ہم کو فاطمہ بنت قیس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھر بدلنے کی اجازت دی۔ مروان نے کہا اللہ کی قسم !حضرت عائشہ نے عیب کیا فاطمہ کی اس حدیث پر اور کہا فاطمہ ایک خالی مکان میں تھی تو اسے خوف محسوس ہوا اس لئے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکان بدلنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ نے بیان کیا فاطمہ بنت قیس نے کہا یا رسول اللہ! کوئی (چور لٹیرا) میرے گھر میں نہ گھس آئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  اس کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہاں سے نکل لے۔   ٭٭ سفیان بن وکیع، ح، احمد بن منصور، حجاج بن محمد، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے۔ میری خالہ کو طلاق دی گئی پھر انہوں نے ارادہ کیا اپنی کھجوروں (کا باغ) کاٹنے کا تو ایک شخص نے انہیں گھر سے نکلنے پر تنبیہ کی۔ وہ نبی کے پاس آئیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا نہیں ! تو کاٹ اپنی کھجوروں کو اس لئے کہ تو صدقہ دے گی یا دیگر نیک کام سر انجام دے گی۔

جس عورت کو طلاق دی جائے تو عدت تک شوہر پر رہائش و نفقہ دینا واجب ہے یا نہیں؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو بکر بن ابی جہضم بن صخیر، حضرت فاطمہ بنت قیس سے روایت ہے وہ کہتی تھیں کہ ان کے خاوند نے ان کو تین طلاقیں دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ ان کیلئے سکنی دلائی اور نہ ہی نفقہ۔ (یعنی نہ ہی مکان دلوایا اور نہ ہی خرچہ)۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، جریر، مغیرہ ، شعبی، فاطمہ بنت قیس، حضرت فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے کہ مجھے میرے خاوند نے عہد نبوی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں تین طلاق دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (اے فاطمہ) تیرے لئے نہ مکان ہے یا نفقہ۔

بوقت طلاق بیوی کو کپڑے دینا

احمد بن مقدام، ابو اشعث، عبید بن قاسم، ہشام بن عروہ، عائشہ، عمرہ بنت جون، حضرت عائشہ سے مروی ہے عمرہ بنت جون نے اللہ کی پناہ مانگی آنحضرت سے۔ جب وہ آپ کے پاس لائی گئی تو اس نے تعوذ پڑھا۔ آپ نے فرمایا تو نے ایسے (اللہ عزوجل) کی پناہ طلب کی جس (کا ہی حق ہے ) سے کہ پناہ مانگنی چاہئے۔

اگر مرد طلاق سے انکاری ہو؟

محمد بن یحییٰ، عمرو بن ابی سلمہ، ابو حفص، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ جب عورت یہ دعویٰ کرے کہ اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہے اور طلاق پر ایک معتبر شخص کو گواہ بھی بنائے تو اس کے خاوند کو قسم دی جائے گی۔ اگر وہ قسم کھائے کہ میں نے طلاق نہیں دی تو اس گواہ کی گواہی باطل ہو جائے گی اور اگر وہ (شوہر) قسم نہ کھائے تو اس کا قسم سے انکار کرنا دوسرے گواہ کے مثل ہو گا اور طلاق موثر ہو جائے گی۔

ہنسی (مذاق) میں طلاق دینا نکاح کرنا یا رجوع کرنا

ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، عبد الرحمن بن حبیب بن اردک، عطاء بن ابی رباح، یوسف بن ماہک، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین باتوں میں مذاق بھی ایسے ہی ہے جیسے حقیقت۔ اور حقیقت میں کہنا (بہرحال) حقیقی طور پر ہی (متصور) ہوتا ہے۔ نکاح۔ طلاق۔ رجعت۔

زیر لب طلاق دینا اور زبان سے کچھ ادا نہ کرنا

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، عبدہ بن سلیمان، ح، حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، زرارہ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے میری امت سے دل میں پیدا ہونے (والے خیالات وباتوں ) سے درگزر کیا الا یہ کہ وہ (ان خیالات) پر عمل پیرا ہو یا زبان سے ادا کرے۔

دیوانے نابالغ اور سونے والے کی طلاق کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن خالد ابن خداش، محمد بن یحییٰ، عبد الرحمن بن مہدی، حماد بن سلمہ، حماد، ابراہیم، اسود، عائشہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین اشخاص سے قلم اٹھا لیا گیا۔) سونے والے سے الا یہ کہ وہ بیدار ہو۔) نابالغ سے حتی کہ بلوغت کو پہنچ جائے۔۔ دیوانے سے یہاں تک کہ وہ تندرست و توانا ہو جائے۔ ابو بکر کی روایت یوں ہے الا یہ کہ وہ تندرست ہو جائے۔   ٭٭ محمد بن بشار، روح بن عبادہ، ابن جریج، قاسم بن یزید، علی بن ابی طالب، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قلم اٹھا لیا نابالغ سے دیوانے سے اور سونے والے سے (الا یہ کہ وہ اس حالت سے نکل کر ہوش و حواس میں آ جائیں )۔

جبر سے یا بھول کر طلاق دینے کا بیان

ابراہیم بن محمد بن یوسف، ایوب بن سوید، ابو بکر، شہر بن حوشب، حضرت ابو ذر غفاری سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی (کروائے گئے کام) معاف کر دئیے۔   ٭٭ ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، مسعر، قتادہ، زرارہ بن اوفی، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے درگزر فرما دیا میری امت سے اس کام (وسوسوں ) کو جو ان کے دلوں میں آئے الا یہ کہ عمل پیرانہ ہو یا زبان سے ادا نہ کرے۔ اسی طرح درگزر کیا بوجہ اکراہ کئے گئے کاموں سے۔   ٭٭ محمد بن مصفی، ولید بن مسلم، اوزاعی، عطاء، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ عزوجل نے معاف کر دیا میری امت کو نسیان اور بامر مجبوری کئے گئے کام۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، ثور، عبید بن ابی صالح، صفیہ بنت شیبہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زبردستی (کرنے کی صورت میں ) طلاق اور عتاق نہیں ہے۔

نکاح سے پہلے طلاق لغو (بات) ہے

ابو کریب، ہشیم، عامر، ابو کریب، حاتم بن اسماعیل، عبد الرحمن بن حارث، عمرو بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس عورت کا آدمی مالک (خاوند) ہی نہیں تو  اس کو طلاق نہیں پڑتی۔   ٭٭ احمد بن سعید، علی بن حسین بن واقد، ہشام بن سعد، زہری، عروہ، مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نکاح سے قبل طلاق نہیں اور نہ ملک سے پہلے آزادی ہے۔ (یعنی جب کسی چیز کا ان چیزوں میں سے تو مالک نہیں یا وجود نہیں تو رد کیسا)۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، جویبر، ضحاک، نزال بن سبرہ، علی بن ابی طالب ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نکاح سے قبل طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔

کن کلمات سے طلاق ہو جاتی ہے؟

عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، اوزاعی سے روایت ہے میں نے زہری سے دریافت کیا کہ نبی کی کون سی بیوی نے آپ سے پناہ مانگی؟ انہوں نے کہا مجھ سے عروہ نے بیان کیا حضرت عائشہ سے کہ جون کی بیٹی جب نبی کے پاس لائی گئی اور آپ قریب ہوئے تو بولی میں اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آپ نے فرمایا تو نے پناہ مانگی بڑے کی اب اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔

طلاق بتہ (بائن) کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، جریر بن حازم، زبیر بن سعید، عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ سے روایت ہے انہوں نے اپنی عورت کو طلاق بتہ دی تو وہ نبی کے پاس آئی۔ آپ نے فرمایا بتہ سے تو نے کیا مراد لیا؟ انہوں نے کہا ایک طلاق۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم ! کیا تو نے ایک ہی مراد لی؟ رکانہ نے کہا اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی مراد لی۔ راوی نے کہا تب نبی نے رکانہ کی زوجہ واپس لوٹا دی۔ محمد بن ماجہ نے کہا میں نے ابو الحسن علی بن محمد طنافسی سے سنا وہ کہتے تھے یہ حدیث کتنی عمدہ ہے یعنی اس کی سند بہت صحیح ہے۔ ابن ماجہ نے کہا ابو عبید کو ناجیہ نے ترک کیا اور امام احمد اس سے روایت کرنا ناپسند کرتے تھے۔

آدمی اپنی عورت کو اختیار دے دے تو؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، مسلم ، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم (ازواج مطہرات) کو اختیار دیا لیکن ہم نے آپ ہی کو اختیار کیا۔ (تو) پھر آپ نے اس کو کچھ نہیں سمجھا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے جب آیت (وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ) 33۔ الاحزاب:29) اتری تو نبی میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے عائشہ ! میں تجھ سے ایک بات کہتا ہوں اور اس میں کوئی براء نہیں اس میں جلدی نہ کرنا جب تک اپنے والدین سے مشورہ نہ کر لے۔ حضرت عائشہ نے کہا اللہ کی قسم ! آپ خوب جانتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ کو چھوڑ دینے کیلئے نہیں کہیں گے۔ خیر آپ نے یہ آیت پڑھی (یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا) 33۔ الاحزاب:28) اے نبی ! اپنی ازواج سے کہہ دو اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش پسند کرتی ہو تو آؤ میں تم کو کچھ دوں اور اچھی طرح رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ کو اور اس کے رسول کو چاہتی ہو تو اللہ نے جو تم میں سے نیک ہیں ان کیلئے بڑا ثواب تیار کیا ہے۔ میں نے کہا کیا اس بات میں مَیں اپنے والدین سے مشورہ کروں۔ (مجھے اس معاملے میں مشورے کو کوئی ضرورت نہیں ) میرے دل نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اختیار کیا۔

عورت کیلئے خلع لینے کی کراہت

بکر بن خلف، ابو عاصم، جعفر بن یحییٰ بن ثوبان، عطاء، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عورت اپنے خاوند سے تب تک طلاق نہ مانگے جب تک بہت مجبور نہ ہو جائے جو کوئی عورت ایسا کرے گی وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گی اور (جان لو) جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت سے آ جاتی ہے۔   ٭٭ احمد بن ازہر، محمد بن فضل، حماد بن زید، ایوب، ابو قلابہ، ابی اسماء، حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس عورت نے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی بلا ضرورت (شرعی) کے تو ایسی عورت پر جنت کی خوشبو سونگھنا بھی حرام کر دیا جاتا ہے۔

خلع کے بدلے خاوند دیا گیا مال واپس لے سکتا ہے

ازہر بن مروان، عبد الاعلی بن عبد الاعلی، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، عکرمہ ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جمیلہ بنت سلول نبی کے پاس آئی اور کہا اللہ کی قسم ! میں ثابت پر کسی دین یا خلق کی براء سے غصہ نہیں ہوں لیکن میں سخت قباحت محسوس کرتی ہوں کہ مسلمان ہو کر شوہر کی ناشکری کروں میں کیا کروں؟ وہ مجھے ہر حال میں ناپسند ہیں۔ تب آپ نے فرمایا تو اس کا دیا ہوا باغ واپس کر دے گی؟ بولی جی ہاں پھیر دوں گی۔ آخر آپ نے ثابت کو حکم دیا کہ عورت سے (فقط) اپنا باغ لیں زائد ہرگز نہ لیں۔   ٭٭ ابو کریب، ابو خالد، حجاج، عمرو بن شعیب، عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے حبیبہ بنت سہل ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھی۔ وہ خوبصورت نہ تھے تو حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ! اگر اللہ عزوجل کا خوف نہ ہوتا تو جب ثابت (پہلی دفعہ) میرے سامنے آئے تو میں اس کے منہ پر تھوک دیتی۔ آپ نے فرمایا اچھا! تو اس کا باغ لوٹاتی ہے؟ وہ بولی ہاں ! پھر اس نے ثابت کا دیا گیا باغ لوٹا دیا اور نبی نے ان میں تفریق کروا دی۔

خلع والی عورت عدت کیسے گزارے؟

علی بن سلمہ نیسابو ری، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابی ، ابن اسحاق، عبادہ بن صامت، ربیع بنت معوذ بن عفراء، عبادہ بن ولید بن صامت سے روایت ہے کہ میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء سے کہا تم اپنی حدیث مجھے سناؤ۔ انہوں نے کہا میں نے اپنے شوہر سے خلع لی پھر میں حضرت عثمان کے پاس آئی اور ان سے پوچھا مجھ پر کتنی عدت ہے؟ انہوں نے کہا تجھ پر عدت نہیں مگر جب تیرے خاوند نے تجھ سے حال میں صحبت کی ہو۔ تو اس کے پاس رہ یہاں تک کہ تجھے ایک حیض آ جائے۔ ربیع نے کہا سلیمان نے اس میں پیروی کی نبی کے فیصلے کی۔ مریم مغالیہ کے باب میں۔ وہ ثابت بن قیس بن شماس کے نکاح میں تھیں اور ان سے خلع لیا تھی۔

ایلاء کا بیان

ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن ابی رجال، عمرہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی نے قسم کھائی کہ اپنی ازواج سے ایک ماہ تک صحبت نہ کریں گے پھر آپ انتیس دن تک رکے رہے جب تیسویں دن سہ پہر ہوئی تو آپ میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے کہا آپ نے تو ایک ماہ کیلئے قسم کھائی تھی کہ ہمارے قریب نہ آئیں گے؟ آپ نے فرمایا مہینہ اتنا ہوتا ہے اور تین بار سب انگلیوں کو کھلا رکھا اور اتنا ہوتا ہے اور سب انگلیوں کو کھلا رکھا (ماسوا ایک) آج دن پورے ہو گئے تو قسم بھی پوری ہو گئی۔   ٭٭ سوید بن سعید، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، حارثہ بن محمد، عمرہ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایلاء کیا اس لئے کہ حضرت زینب نے آپ کا بھیجا ہوا حصہ پھیر دیا تو حضرت عائشہ نے کہا زینب نے آپ کو شرمندہ کیا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ایلاء کیا ان (ازواج مطہرات) سے۔   ٭٭ احمد بن یوسف، ابو عاصم، ابن جریج، یحییٰ بن عبد اللہ بن محمد بن صیفی، عکرمہ بن عبد الرحمن، حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ نبی نے اپنی ازواج سے ایک ماہ تک ایلاء کیا جب انتیس دن مکمل ہوئے تو آپ طلوع آفتاب کے بعد تشریف لائے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ابھی تو انتیس دن ہوئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مہینہ (کبھی) انتیس دن کا بھی تو ہوتا ہے۔

ظہار کا بیان

ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، محمد بن اسحاق ، محمد بن عمرو بن عطاء، سلیمان بن یسار، سلمہ بن صخرہ بیاضی سے مروی ہے میں عورتوں کو بہت چاہتا تھا اور میں کسی مرد کو نہیں جانتا جو عورتوں سے اتنی صحبت کرتا ہو جیسے میں کرتا تھا۔ خیر رمضان آیا تو میں نے اپنی عورت سے ظہار کر لیا اخیر رمضان تک۔ ایک رات میری بیوی مجھ سے گفتگو کر رہی تھی کہ اس کی ران سے کپڑا اوپر ہو گیا۔ میں اس سے صحبت کر بیٹھا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا اور عرض کی کہ میرے لئے یہ مسئلہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو۔ انہوں نے کہا ہم تو نہیں پوچھیں گے ایسا نہ ہو کہ ہماری شان (براء) میں کتاب نازل ہو جو تا قیامت باقی رہے یا نبی کچھ (غصہ) فرما دیں اور اس کی شرمندگی تا عمر ہمیں باقی رہے لیکن اب تو خود ہی اپنی غلطی کی سزا بھگت اور خود ہی جا اور نبی سے اپنا حال بیان کر۔ سلمہ نے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا تو یہ کام کیا ہے؟ عرض کیا جی ہاں ! کیا ہے اور میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! اور میں اللہ عزوجل کے حکم پر صابر رہوں گا جو میرے بارے میں اترے۔ آپ نے فرمایا تو ایک بردہ آزاد کر میں نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا میں تو بس اپنے ہی نفس کا مالک ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا! دو ماہ لگاتار روزے رکھ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ جو بلا مجھ پر آئی یہ روزہ رکھنے ہی سے تو آئی۔ آپ نے فرمایا تو صدقہ دے اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا۔ میں نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہم تو اس رات بھی فاقے سے تھے ہمارے پاس رات کا کھانا نہ تھا۔ آپ نے فرمایا بنی زریق کے پاس جا اور اس سے کہہ وہ تجھے جو مال دے اس میں سے ساٹھ مساکین کو کھلا اور جو بچے اسے اپنے استعمال میں لا۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن ابی عبیدہ، اعمش، تمیم، ابن سلمہ، عروہ بن زبیر، عائشہ، عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عائشہ نے کہا وہ بڑی برکت والا ہے جو ہر چیز کو سنتا ہے۔ میں (ساتھ والے کمرے میں ہو کر) خولہ بنت ثعلبہ کی بات نہ سن پائی وہ شکایت کر رہی تھی اپنے خاوند سے متعلق کہ یا رسول اللہ ! میرا خاوند میری جوانی کھا گیا اور میرا پیٹ اس کے لے چیرا گیا۔ جب میں ضعیف ہوئی اور اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے مجھ سے ظہار کیا۔ یا اللہ ! میں اپنا شکوہ تجھ سے کرتی ہوں۔ پھر وہ یہی کہتی رہی یہاں تک کہ جبرائیل یہ آیات لے کر اترے (قَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللَّہِ) یعنی سن لی اللہ نے اس عورت کی بات جو جھگڑتی تھی تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں اور اللہ سے شکوہ کرتی تھی۔

کفارہ سے قبل ہی اگر ظہار کرنے والا جماع کر بیٹھے

عبد اللہ بن سعید، عبد اللہ بن ادریس، محمد بن اسحاق ، محمد بن عمرو بن عطاء، سلیمان بن یسار، حضرت سلمہ بنت صخرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ظہار کرنے والا اگر کفارے سے پہلے جماع کرے تو ایک ہی کفارہ لازم ہو گا۔ (یعنی دو دفعہ کفارہ نہیں دینا پڑے گا بلکہ ایک ہی کفارہ کفایت کرتا ہے )۔   ٭٭ عباس بن یزید، غندر، معمر، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور کفارہ سے قبل اس سے صحبت کی پھر وہ نبی کے پاس آیا اور آپ سے ذکر کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا تو نے (واقعی) ایسا کیا؟ وہ بولا یا رسول اللہ ! میں نے اس کی پنڈلی کی سفیدی دیکھی چاندنی میں اور میں بے اختیار ہو گیا اور جماع کر بیٹھا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرادئیے اور آپ نے  اس کو حکم دیا کہ کفارہ دینے سے قبل (اب دوبارہ) جماع نہ کرے۔

لعان کا بیان

ابو مروان، محمد بن عثمان، ابراہیم بن سعید، ابن شہاب، حضرت سہل بن ساعدی سے مروی ہے کہ عویمر بن عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا نبی سے میرے لئے یہ مسئلہ دریافت کرو اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے ساتھ کسی بیگانے شخص کو دیکھے (صحبت کرتے ہوئے ) پھر  اس کو مار ڈالے تو کیا خود اس کے بدلے مارا جائے یا پھر کیا کرے؟ خیر عاصم نے نبی سے یہ مسئلہ پوچھا۔ آپ نے ایسے سوالوں کو برا جانا۔ پھر عویمر عاصم سے ملا اور پوچھا تو نے میرے لئے کیا کیا؟ عاصم نے کہا میں پوچھا لیکن تجھ سے مجھے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۔ میں نے نبی سے پوچھا آپ نے برا محسوس کیا ان سوالوں کو۔ عویمر نے کہا اللہ کی قسم ! میں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کے پاس جاؤں گا اور آپ سے پوچھوں گا پھر وہ آیا نبی کے پاس تو دیکھا کہ آپ پر اسی بابت وحی نازل ہو رہی ہے۔ آخر آپ نے لعان کرایا۔ پھر عویمر نے کہا اللہ کی قسم ! اگر میں اب اس عورت کو اپنے ساتھ لے گیا تو گویا میں نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی۔ آخر عویمر نے  اس کو نبی کے بات کرنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا۔ پھر یہ سنت ہو گئی لعان کرنے والے میں۔ اس کے بعد نبی نے فرمایا دیکھو اگر عویمر کی عورت کالا بچہ کالی آنکھوں والا بڑے سرین والا جنے تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر نے سچی تہمت لگائی اور اگر سرخ رنگ کا چہ جیسے وحرہ (کیڑا) تو میں سمجھتا ہوں کہ عویمر جھوٹا ہے۔ راوی نے کہا پھر اس عورت کا بچہ بری شکل کا پیدا ہوا۔   ٭٭ محمد بن بشار، ابن ابی عدی، ہشام بن حسان، عکرمہ ، ابن عباس، ہلال بن امیہ، بشریک بن سحماء، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ہلال بن امیہ نے تہمت لگائی اپنی بیوی پر نبی کے سامنے شریک بن سحماء کے ساتھ۔ آپ نے فرمایا تو گواہ لا نہیں تو قبول کر (حد) اپنی پیٹھ پر۔ ہلال نے کہا قسم اس کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا میں سچا ہوں اور اللہ میرے بارے میں کوئی ایسا حکم ضرور اتارے گا جس سے میری پیٹھ بچ جائے۔ راوی نے کہا پھر یہ آیت اتری (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ شُہَدَاءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ ) 24۔ النور:6) یعنی جو لوگ تہمت لگاتے ہیں اپنی بیویوں کو زنا کی اور ان کے پاس کوئی گواہ نہیں مگر ماسوا ان کے اپنے نفس کے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوٹے اور ہلال اور اس کی بیوی کو بلوایا۔ وہ دونوں آئے۔ پہلے ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہی دی اور آپ یہی فرماتے جاتے بے شک اللہ بہتر جانتا ہے کہ تم میں سے ایک (ضرور) جھوٹا ہے۔ تو ہے کوئی توبہ کرنے والا۔ خیر! اس کے بعد عورت کھڑی ہوئی اور اس نے بھی گواہیاں دیں جب پانچویں گواہی کا وقت آیا یعنی یہ کہنے کا کہ اللہ تعالی کا غضب عورت پر اترے اگر مرد سچاہے تو لوگوں نے کہا یہ گواہی ضرور واجب کر دے گی رب ذوالجلال والاکرام کے غضب کو اور دوزخ کو اگر یہ جھوٹی ہوئی تو۔ یہ سن کر وہ خاتون جھجکی اور مڑی ہم نے خیال کیا شاید اب سنبھل جائے اور اپنی گواہی سے رجوع کر لے لیکن اس عورت نے کہا اللہ کی قسم ! میں اپنے قبیلہ کو رسوا کرنے والی نہیں۔ آخر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دیکھو! اگر اس عورت کا بچہ کالی آنکھوں والا بھری سرین والا موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کاہے۔ آخر اسی صورت کا لڑکا پیدا ہوا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر اللہ کی کتاب میں (لعان کی بابت) حکم نہ ہوتا تو میں اس عورت کے ساتھ (ضرور) کچھ (حد نافذ) کرتا۔   ٭٭ ابو بکر بن خلاد، اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، عبدہ بن سلیمان، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے ہم شب جمعہ کو مسجد میں تھے کہ ایک شخص کو دیکھے پھر  اس کو مار ڈالے تو کیا تم  اس کو مار ڈالو گے؟ اور اگر زبان سے کہے تو  اس کو کوڑے لگاؤ گے۔ اللہ کی قسم ! میں یہ تو نبی سے کہوں گا۔ تب اللہ تعالی نے آیات لعان نازل فرمائیں۔ پھر وہ شخص آیا اور اس نے اپنی عورت پر زنا کی تہمت لگائی۔ نبی نے دونوں میں لعان کرایا اور فرمایا مجھے گمان ہے شاید اس عورت کے ہاں کالا بچہ پیدا ہو۔ بعینہ ایسے ہی ہوا اس کے ہاں گھنگریالے بالوں والا بچہ پیدا ہوا۔   ٭٭ احمد بن سنان، عبد الرحمن بن مہدی، مالک بن انس، نافع، حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ایک شخص نے لعان کیا اپنی عورت سے اور اس سے پیدا ہوئے بچے کو اپنا بچہ ماننے سے انکاری ہوا تو نبی نے دونوں میں جدائی کروا دی اور بچہ ماں کے حوالے کر دیا۔   ٭٭ علی بن سلمہ، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابن اسحاق، طلحہ بن نافع، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک انصاری مرد نے (قبیلہ) عجلان کی خاتون سے نکاح کیا اور رات کو اس سے صحبت کی اسی کے پاس رہا۔ جب صبح ہوئی تو کہنے لگا میں نے اس کو باکرہ نہیں پایا۔ آخر دونوں کا مقدمہ نبی کے پاس پہنچا۔ اس نے کہا میں تو باکرہ تھی۔ آپ نے حکم دیا تو دونوں نے لعان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کو مہر دلوایا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، حیوۃ بن شریح، ضمرہ بن ربیعہ، ابن عطاء، عمرو بن شعیب ، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چار اقسام کی عورتوں میں لعان واجب نہیں ایک نصرانیہ جو مسلمان کے نکاح میں ہو دوسری یہودیہ جو مسلمان کے نکاح میں ہو تیسرے آزاد عورت جو غلام کے نکاح میں ہو چوتھی لونڈی جو آزاد کے نکاح میں ہو۔

عورت کو (اپنے پر) حرام کرنے کا بیان

حسن بن قزعہ، مسلمہ بن علقمہ، داؤد بن ابی ہند، عامر، مسروق، ام المومنین عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایلاء کیا اپنی عورتوں (ازواج مطہرات) سے اور حرام کیا (زواج کو اپنے اوپر) اور قسم میں کفارہ مقرر کیا۔   ٭٭ محمد بن یحییٰ، وہب بن جریر، ہشام، یحییٰ ابن ابی کثیر، یعلی بن حکیم، سعید بن جبیر، ابن عباس حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ ابن عباس نے کہا حرام میں قسم کا کفارہ ہے اور ابن عباس کہتے تھے تم پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرنا بہتر ہے۔

لونڈی جب آزاد ہو گئی تو اپنے نفس پہ مختار ہے

ابو بکر بن ابی شیبہ، حفص بن غیاث، اعمش، ابراہیم ، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ بریرہ (رضی اللہ عنہا) کو میں نے آزاد کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بریرہ کو اختیار دیا اور بریرہ کا خاوند آزاد تھا۔   ٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن خلاد، عبد الوہاب، خالد، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے مروی ہے بریرہ کا خاوند مغیث غلام تھا اور میں اسوقت بھی وہ لمحے یاد رکھتا ہوں جب وہ بہہ رہے تھے۔ تب نبی نے فرمایا اے عباس ! تم تعجب نہیں کرتے کہ مغیث بریرہ سے کس قدر محبت رکھتا ہے اور بریرہ کو مغیث سے کتنی نفرت ہے؟ آخر آپ نے بریرہ سے فرمایا کاش تو لوٹ جا مغیث کے پاس وہ تیرے بچہ کا باپ ہے۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! کیا آپ مجھے حکم دے رہے ہیں (لوٹنے کا)؟ آپ نے فرمایا نہیں ! بلکہ صرف سفارش کرتا ہوں۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسامہ بن زید، قاسم بن محمد، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے بریرہ (کے واسطے ) تین سنتیں قیام پذیر ہوئیں۔ اول وہ آزاد ہوئیں تو ان کو اختیار دیا گیا اور ان کا خاوند (ہنوز) غلام تھا۔ دوم لوگ بریرہ کو صدقہ دیتے وہ اسے نبی کی خدمت میں تحفہ بھیج دیتی۔ آپ فرماتے یہ صدقہ تو بریرہ کیلئے ہے ہمارے لئے تو ہدیہ ہے۔ سوم آپ نے بریرہ کو اختیار دیا اور فرمایا ولاء اسی کا حق ہے جو آزاد ہے۔   ٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، منصور، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ بریرہ کو حکم ہوا تین حیض کی مدت تک عدت کرنے کا۔   ٭٭ اسماعیل بن توبہ، عباد بن عوم، یحییٰ بن ابی اسحاق، عبد الرحمن بن اذینہ، حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بریرہ کو اختیار دیا (یعنی جب وہ آزاد ہوئیں تو نکاح برقرار رکھنے کا)۔

لونڈی کی طلاق اور عدت کا بیان

محمد بن طریف، ابراہیم بن سعید، عمر بن شبیب، عبد اللہ بن عیسی، عطیہ، حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لونڈی کی دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہیں۔ (یہ حدیث امام اعظم ابو حنیفہ کا مستدل ہے )۔   ٭٭ محمد بن بشار، ابو عاصم، ابن جریج، مظاہر بن اسلم، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لونڈی کی دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت (بھی) دو حیض ہیں۔ ابو عاصم نے کہا جو اس حدیث کا راوی ہے کہ میں نے یہ حدیث خود مظاہر بن اسلم سے بیان کی کہا مجھ سے یہ حدیث بیان کرو جیسے تم نے یہ حدیث ابن جریج کو بیان کی تھی۔ انہوں نے روایت کیا قاسم سے انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لونڈی کی دو طلاقیں اور اس کی عدت بھی دو حیض ہیں۔

غلام کے بارے میں طلاق کا بیان

محمد بن یحییٰ، یحییٰ بن عبد اللہ بن بکیر، ابن لہیعہ، موسیٰ بن ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میرے مالک نے اپنی لونڈی سے میرا نکاح کر دیا تھا۔ اب وہ کوشش کر رہا ہے کہ ہم دونوں میں جدائی کروادے۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (غصہ کی حالت میں ) منبر پر تشریف لائے اور کہا اے لوگو ! کیا حال ہے تم میں سے اس کا کہ وہ نکاح کر دیتا ہے اپنے غلام کا لونڈی سے پھر دونوں میں جدائی چاہتا ہے۔ (یاد رکھو!) طلاق کا اختیار اسی کو ہے جو پنڈلی تھامے۔

اس شخص کا بیان جو لونڈی کو دو طلاقیں دے کر پھر خرید لے

محمد بن عبد الملک بن زنجویہ ، ابو بکر، عبد الرزاق، معمر ، یحییٰ بن ابی کثیر، عمر بن معتب، ابی حسن مولی بنی نوفل حضرت ابو الحسن سے مروی ہے کہ ابن عباص سے ایسے غلام کی بابت سوال کیا گیا جو اپنی عورت کو دو طلاقیں دیں پھر دونوں آزاد ہو جائیں تو کیا وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے؟ ابن عباس نے کہا ہاں ! ان سے کہا گیا یہ فیصلہ کس نے کیا؟ انہوں نے کہا نبی نے۔ (راوی) عبد الرزاق نے عبد اللہ بن مبارک سے کہا ابو الحسن نے یہ حدیث بیان کر کے اپنے گردن پر بہت بھاری پتھر (بوجھ) اٹھا لیا۔

ام ولد کی عدت کا بیان

علی بن محمد، وکیع، سعید بن ابی عروبہ، مطر، قمیصہ بن ذویب، عمرو بن عاص سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا ہمارے اوپر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کو مشتبہ مت کرو۔ ام ولد کی عدت چار ماہ دس دن تک ہے

بیوہ عورت (دوران عدت ) زیب و زینت نہ کرے

ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، یحییٰ بن سعید، حمید بن نافع، ام سلمہ ، ام حبیبہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئی اور کہا اس کی بیٹی کا شوہر وفات پا گیا اور اس (بیٹی کی) آنکھیں (آشوب چشم سے ) دکھ رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہے کہ سرمہ (یا دوا) لگالے۔ آپ نے فرمایا پہلے تم (عورتیں ) ایک سال پورا ہونے پر اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھیں (وہ تو تمہیں گوارا تھا) اور اب تو عدت (فقط) چار ماہ دس دن کی مدت ہے۔

کیا عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے پہ سوگ کر سکتی ہے؟

ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی عورت کو زیبا نہیں کہ کسی میت پر سوگ کرے تین دن سے زیادہ ماسوا خاوند کے۔   ٭٭ ہناد بن سری، ابو احوص، یحییٰ بن سعید، نافع، صفیہ بنت ابی عبید، ام المومنین حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو عورت ایمان رکھتی ہو اللہ پر اور یوم آخرت پر  اس کو مناسب نہیں سوگ کرنا کسی میت پر تین روز سے زیادہ سوائے خاوند کے۔   ٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ہشام بن حسان، حفصہ، ام عطیہ ، ام عطیہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ کیا جائے مگر عورت اپنے خاوند پر چار ماہ دس تک سوگ کرے اور سرمہ مت لگائے خوشبو نہ لگائے مگر جب حیض سے پاکی حاصل ہو تو تھوڑی سی مقدار عود ہندی (قسط) اور اظفار (خوشبو کی ایک قسم) لگا لے۔

والد اپنے بیٹے کو حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو تو باپ کا حکم ماننا چاہئے

محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، عثمان بن عمر، ابن ابی ذئب، خالہ حارث بن عبد الرحمن، حمزہ بن عبد اللہ ، عبد اللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں میرے نکاح میں ایک عورت تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا اور میرے والد (سیدنا عمر) اس کو برا جانتے تھے۔ آخر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ذکر کیا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ طلاق دے دو اس عورت کو اور میں نے طلاق دے دی۔   ٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ ، عطاء بن سائب ، حضرت عبد الرحمن سے مروی ہے ایک شخص کو اس کے باپ یا اس کی ماں نے حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے۔ اس شخص نے نذر مانی کہ اس نے اگر طلاق دی تو سو غلام آزاد کرے گا۔ پھر وہ ابو الدرداء کے ہاں آیا وہ چاشت کی نماز پڑھتے تھے اور  اس کو طویل کرتے تھے اور انہوں نے نماز پڑھی ظہر اور عصر کے درمیان۔ آخر اس شخص نے ابو الدرداء سے پوچھا تو انہوں نے کہا اپنی نذر پوری کر اپنے والدین کی اطاعت کر۔ ابو الدرداء نے کہا میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرماتے تھے ماں باپ بہتر دروازے ہیں جنت جانے کا۔ اب تیری منشاء والدین کا خیال کر یا نہ کر۔ ٭٭٭ ماخذ: http://www.esnips.com/web/hadeesbooks ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید