FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سائنس اور ا سلام کے مباحثہ میں علی گڑھ اسکول کا نقطۂ نظر

 

 

 

                محمد ذکی کرمانی

 

 

 

                اختصاریہ

 

 

اسلام اور سائنس کے موضوع پر جدید بحث میں علی گڑھ اسکول ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ پیش نظر مضمون جہاں اس اسکول کے اہم نکات نقطہ نظر، دوسروں سے مماثلت اور اختلاف کی نشاندہی کرتا ہے وہیں اس فکری پس منظر کا بھی تعارف کراتا ہے جس میں اس اسکول کو سمجھنا چاہئے۔پس منظر کے اس تذکرہ میں دراصل دوسرے اہم اسکول آف تھاٹ کا تعارف بھی سامنے آتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ علی گڑھ اسکول آف تھاٹ اسلام اور سائنس میں ہم آہنگی کے مسئلہ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا کیونکہ سائنسی عمل اپنی فطرت کے اعتبار سے قرآنی فکر کا شاخسانہ ہے۔ یہ علم قرآنی کی ایک شاخ ہے اور فکر اسلامی کا ایک داخلی عمل ہے۔

 

 

 

 

 

 

۱Dr. Stefeno Bigliardiکی علی گڑھ آمد اور ان کے چند استفسارات نے بعض ایسے پہلوؤں کو شدت سے ابھار ا جن پر ہم بہت زیادہ غور کرنے کے روادار نہیں تھے۔ مثلاً یہ کہ کیا سائنس اور اسلام میں ہم آہنگی کا مسئلہ واقعی اہم ہے؟ یعنی ہم آہنگی کی تلاش میں کیا ذہنی صلاحیتوں کو کھپانا چاہئے بھی کہ نہیں۔ یہ سوال کہ علی گڑھ اسکول Darwin کے نظریۂ ارتقاء کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ اور اِسی طرح علی گڑھ اسکول کی دوسرے مفکّرین سے کہاں یکسانیت اور کہاں اختلاف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی سامنے آیا کہ علی گڑھ اسکول کی شناخت کیا ہے اور اس کی کیا نوعیت ہے۔ ذیل میں ہم چند وضاحتیں پیش کر رہے ہیں :۔

علی گڑھ اسکول کی اصطلاح پہلی بار معروف مفکّر ضیاء الدین سردار نے اپنے ایک مضمون میں استعمال کی 2 سید حسین نصر نے یہ اصطلاح تو نہیں لیکن اسکالرزکے اس گروپ کو حوالہ کے طور پر اپنے اکثر مضامین میں پیش کیا۔یہ گروپ چند افراد پر مشتمل تھا جن میں راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر محمد ریا ض کرمانی، ڈاکٹر رئیس احمد اور ڈاکٹر کلیم الرحمٰن وغیرہ شامل تھے۔ان کے مضامین معروف جرنل آف اسلامک سائنس (Journal of Islamic Science) میں شائع ہوتے رہے تھے۔مختلفApproaches   میں انفرادی شناخت تو فطری ہے ہی لیکن سائنس کے تئیں اجتماعی اپروچ میں یکسانیت نے بھی اسے ایک اسکول کی شکل عطا کی۔ اس کے علاوہ علی گڑھ اسکول کے نقطۂ نظر کے زبانی یا تحریری اظہار سے پہلے ایک ادارہ یعنی Centre for Studies on Science (CSOS) کی تشکیل اور ان افراد کی اس سے وابستگی نے بھی اسے ایک فکری اسکول کی حیثیت سے ابھارا تھا۔ دوسروں کی بہ نسبت جن کا فکری کام اصلاً انفرادی تھا اور ان کی شناخت کسی اسکول کی حیثیت سے نہیں بلکہ دانشور کی حیثیت سے تھی علی گڑھ اسکول نے پہلے ایک گروپ اور پھر ادارے کی شکل اختیار کی اور پھر تصنیفی کام شروع ہوا۔ چنانچہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ علی گڑھ اسکول میں مقاصد کسی حد تک پہلے سے واضح تھے لیکن علمی و تحقیقی کام بتدریج بڑھنا شروع ہوا تھا۔

1982میں جب یہ کام شروع ہوا تو اسلام اور سائنس کے موضوع پر عالمی سطح پر سید حسین نصر اور ضیاء الدین سرادار کا بول بالا تھا۔تقریباً اسی دوران اسماعیل راجی الفاروقی نے علم کی اسلامی تشکیل جدید کے اپنے عظیم منصوبہ کا آغاز کیا تھا۔ لیکن آگے بڑھنے سے قبل یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مورِس بوکائے کی شہرۂ آفاق کتابThe Bible, the Quran and Science شائع ہو کر عالم اسلام میں مقبول ہو ختصاریہککی تشکیل: اعجاز عبیدی

استعمل نہ کیا جائےچکی تھی۔ چنانچہ اسلام اور سائنس کے موضوع پر کام کے لئے مارس بوکائے کی اس کتاب نے ایک قسم کا پس منظر فراہم کیا اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ80 کے عشرے میں اِس کتاب نے کافی عرصہ تک ذہنوں کو نئی سمتوں میں چلنے سے مفلوج رکھا تھا۔

جب علی گڑھ اسکول کی اپنی پہچان ابھرنی شروع ہوئی تو اُس وقت یہی چار بڑے نقطہائے نظر پائے جاتے تھے اور اِن چاروں نے اِس اسکول کے وابستگان کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا تھا۔ہم اِن چاروں نقطہائے نظر کا ایک مختصراً تجزیاتی تعارف پیش کرتے ہیں تاکہ علی گڑھ اسکول کی شناخت کا بہتر طور پر ادراک ہوسکے۔

 

                مورِس بوکائے کی تصنیف اور اس کا پس منظر

 

مورِس بوکائے کی معروف تصنیف3 80 کی دہائی میں شائع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے عالم اسلام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی۔ نہ صرف مختلف زبانوں میں ترجمے شائع ہوئے بلکہ اس کے نتیجہ میں قرآن اور سائنس کے موضوعات پر تحقیق کوبڑی سطح پر تحریک ملی اور حکومتی سطح پر اِداروں کی تشکیل ہونے لگی اور کانفرنسوں اور سمیناروں کا سلسلہ چل نکلا۔اِس کتا ب کی شہرت اور عوامی مقبولیت کی تین خاص وجوہات تھیں۔پہلی یہ کہ عالم اسلام کی عمومی فکری و علمی پسماندگی کی فضا میں یہ ایک ایسا اعلان تھا جو قرآن جیسی اہم کتاب کے دعووں کی صحت کو سائنسی سطح پر صحیح ثابت کر رہا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ اعلان خاص علمی سطح سے بالکل علمی انداز میں ایک غیر مسلم مغربی سائنسی ماہر کی طرف سے ہوا تھاجومسلمانان عالم کے لئے اس زمانہ میں بڑے عظیم علمی انبساط کا ذریعہ بنا۔ گرچہ مورِس بوکائے معروف معنیٰ میں کوئی سائنسدان نہ تھا وہ محض ایک غور و فکر کرنے والا ماہر معالج تھا اور اس نے نہ تو قرآن کریم کے اعزاز کی خاطر اور نہ ہی بائبل سے کسی قسم کے اختلاف کی بنا پر محض ایک علمی اور معروضی کام کیا تھا۔تیسری اہم وجہ خالص نفسیاتی نوعیت کی تھی کہ ایک طرف عالمی غلبہ والی قوم یعنی عیسائیوں کی مذہبی کتاب کی علمی کمزوری کو سائنسی ثبوت مل رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں کی کتاب کو علمی اعتبار حاصل ہو رہا تھا۔ اس سے قبل بھی اس نوع کے کام ہوتے رہتے تھے۔ ترکی، ہندوستان اور مصر کے بعض علماء قرآن کریم کو جدید علوم کی بنیاد پر سمجھنے کی خاصی وقیع کوششیں کر چکے تھے اور اپنے اپنے ملکوں میں ان کو پذیرائی بھی ملی تھی۔ لیکن یہ کتاب کیونکہ ایک سائنسی طور پر ترقی یافتہ مغربی ملک یعنی فرانس کے ایک عیسائی عالم کا کارنامہ تھی اس لئے اِس کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ دوسرے یہ کہ علمی انداز بالکل جدید نوعیت کا تھا اور عصری سائنسی علوم کی روشنی میں اس تصنیف کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ قرآنی حقائق کو سائنس کی زبان میں سمجھنے یا سائنسی حقائق کو قرآنی آیات کی روشنی میں صحیح ثابت کرنے کا سلسلہ پہلے ہی شروع ہوچکا تھا اور اس سلسلہ میں علامہ طنطاوی کی مشہور تفیسر خاصی پہلے سامنے آ چکی تھی4۔ اسی طرح سر سید احمد خان5 نے اُس وقت کی سائنسی معلومات کی روشنی میں قرآنی تفسیرانیسویں صدی میں ہی کر چکے تھے اور متعدد قرآنی تصورات کو سائنسی زبان میں بیان کرکے خاصی تنقید و مخالفت مول لے چکے تھے۔مورِس بوکائے کے بعد بھی ایک بنگلہ دیشی سائنسداں 6 کے زیر نگرانی انگریزی زبان میں ایک وقیع کام ہواجس میں متعدد قرآنی آیات کو سائنس کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی اور اِس طرح ترکی کے نورباقیٔ7 نے بھی کتابی شکل میں ایساہی کام کیا تھا۔

چنانچہ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ مورِس بوکائے کی کتاب آنے سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی اس نوع کا کام جاری رہا اور اسے عوام میں کسی حد تک مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔لیکن اس Approachکی بڑی وقیع تنقید بھی ہوئی ہے۔ذیل میں ہم اس تنقید کا تجزیہ کرتے ہوئے بتانے کی کوشش کریں گے کہ اِس کام کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں ؟

(1)مسلمانوں کے نزدیک قرآن کی حیثیت انتہائی بنیادی ہے۔ اُن کی علمی، فکری، روحانی، اور عملی زندگی میں قرآن کی جو حیثیت ہے وہ دنیا کی کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔ اُس کی ہر ہدایت اور نقطۂ نظر یا حکم وقت کے علمی و فکری معیار پر اور تجربہ کی کسوٹی پر اصولاً کھرا اترنا چاہئے۔ یہ خواہش اُن کے عقیدہ کا نتیجہ ہے لیکن قرآن کیونکہ1400برس قبل نازل ہوا تھا اور اُس زبان میں نازل ہوا جو آج علمی یعنی سائنسی زباں نہیں رہی اور مزید یہ کہ نزول کے وقت کے اثرات بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اِس لئے بہت سے مقامات کو جدید ذہن اور جدید فکر کی روشنی میں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔لیکن اس سے اختلاف نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہر قاری کی ایک فطری ضرورت ہے۔ اِنسانی فہم کی اِس   نارسائی کے نتیجہ میں ایک طر ح کےTension کا موجود رہنا فطری ہے۔ بوکائے کی Approach نے مسلمانوں کی اس ضرورت کو کسی حد تک پورا کیا۔

(2)جدید علوم با الخصوص، سائنس کیونکہ ایک غالب علم ہے اور وقت کی تمام تر قوتوں اور ترقیوں کا انحصار اِسی پر ہے اور انکشافات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ہمہ وقت ہمارے مشاہدہ اور استعمال میں رہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کے ذریعہ سائنسی حقائق اور انکشافات کاConfirmation مسلمانوں کو ایک ایسی خود اعتمادی سے سرشار کر دیتا ہے جو قرآن کی حقانیت پر ان کے عقیدہ کو مضبوط تر کر دیتی ہے۔ اِسی طرح وہ قرآنی بیانات جو عموماً عقیدہ کا حصہ ہوتے ہیں اور عام انسانی عقل کے حصار میں نہیں آتے اگر اُن کو بھی عصری علوم کی روشنی میں سمجھایاجا سکے تو اِس اعتماد میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

(3)   لیکن مذکورہ دونوں اپروچ کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ عقیدہ اپنی کسوٹی کے لئے سائنس کا محتاج ہو جاتا ہے اور اس طرح عقیدہ عقیدہ نہیں رہتا۔ اِس اپروچ کو بوکائے اِزم کا نام پہلی بار معروف اسکالر ضیاء الدین8 سردارنے دیا اور یہ بتایا کہ اِس رویہ کا حامل فرد یا افراد در اصل دو مالکوں کی بیک وقت غلامی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ قرآن کی پیروی چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی سائنس کا انکار کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس کی پیروی کرنے میں اُنھیں قرآن کریم کے احکامات یا اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں سائنسی ترقی کے نتیجہ میں قرآن کے متعدد بیانات کی زیادہ بہتر تفہیم سامنے آ سکے۔ لیکن بوکائے ازم سے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے چنانچہ فی نفسٖہ یہ اپروچ صحیح نہیں۔ سائنس اصلاً تو مشاہد ہ اور تجربہ پر مبنی علم ہے جبکہ قرآن جس طر ح کا علم پیش کرتا ہے وہ بنیادی طور پر عقل کو اپیل کرنے والا ہے۔عقیدہ کی حقانیت دو اور دو برابر چار کی مانند اِنسان کے سامنے نہیں آتی۔ چنانچہ اِن دونوں کا مقابلہ کرنے کے دوران ہم مادّی معیار سے غیر مادّی عقیدہ کو جانچنے کی غلطی کرتے ہیں، غیر مادّی عقیدہ کے علم کے معیار پر ہم مادّی علوم پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اِس طرح ہر دو میں سے کسی ایک علم کی ترقی کا معیار فروتر ہوتا جاتا ہے۔

مورِس بوکائے اور اِس قبیل کے وہ دانشور جو ان سے پہلے یا ان کے بعد اس طرح کا کام کرتے رہے ہیں وہ نہ تو سائنسی افکار میں کسی طرح کی ترقی کا ذریعہ بنے ہیں اور نہ ہی قرآن کے فہم کے باب میں کوئی گرانقدر اضافہ کرسکے ہیں۔ ہمارے دور میں نور باقی ہو یا ہارون یحیٰ اِن حضرات نے مسلم معاشرہ میں سائنس یعنی آفاق وانفس میں وسعت پذیر مظاہرِ فطرت اور اشیاء پر غور و خوض اور فکر و تدبر کے لئے راہ ہموار نہیں کی۔ بلکہ ایک ایسی فضاء پیدا کی ہے جو بتدریج فکر و تدبر کے دروازے بند کر تی چلی جاتی ہے۔

 

                سائنس میں وجدان اور مکاشفات کا مقام

 

بیسویں صدی میں سائنس پر ا سلامی تنقید کے باب میں حسین نصر کا مقام بہت بلند ہے۔ سائنسی فکر اور طریقہ کار کے بعض پہلوؤں پر حسین نظر کی تنقید در اصل اُس نقصانِ عظیم کی بنا پر ہے جو انسانی فکر و نظر اور معاشرتی و اخلاقی اقدار کو سائنس کے اِرتقاء اور اُس کی فکر کے نتیجہ میں اٹھانا پڑا ہے۔سائنسی فکر نے جس طرح روایتی اقدار، نظریۂ علم اور ذرائع علم کی نفی کر کے خالص مادّیت پر مبنی نظریات اور اقدار کو پروان چڑھایا اُس کے نتیجہ میں اِنسان اپنے ماضی سے بتدریج دور ہوتا گیا اور اِس طرح معاشرہ اور انسانی ذات بڑ ے زبردست انتشار کا شکار ہو گئی۔حسین نصر کے یہاں سائنس کی بنیادوں پر تنقید ہے۔ اُن کے یہاں سائنس کے ذریعہ مذہبی حقائق کا یا مذہب کے ذریعہ سائنسی حقائق کا Authentication نہیں ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک ناقِد ہیں اور سائنسی قوانین اور نظریات کے جلو میں جو فکر پنپتی اور خود اِنسانی عمل اور نقطۂ نظر کو تبدیل کرتی ہے اُس کے تجزیہ نگار اور معاشرہ پر پڑنے والے اُس کے اثرات پر متوجہ کرنے والے کی حیثیت میں ان کی شخصیت اُبھرتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی فکریات و تاریخ سے بھی ایسے نظریات کی تلاش کرتے ہیں جن کی موجودہ سائنس کے نظریات کو ضرورت ہے9۔

یہ حقیقت واضح رہنا چاہئے کہ حسین نصر سائنس کی تنقید کے باب میں اُس انتہائی مضبوط روایت کے امین ہیں جس کا آغاز بیسیوں صدی کے اوائل میں Rene Guenon   نے کیا تھا۔جنھوں نے سائنس کی حد درجہ مادّہ پرستی اور معاشرہ و فرد پر اُس کے بڑھتے ہوئے اثرات کواُس وقت محسوس کیا تھا جب سائنس کی ترقی کا آغاز ہوا ہی تھا۔ رینے گینوں نے زندگی کے ہر پہلو اور تہذیب کے مختلف النوع اظہار پر اِس مادہ پرستی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے مختلف مذاہب میں ایک طرح کے یکساں رجحان کی شناخت کرتے ہوئے روایتی یاTraditional فکر کا تعارف کرایا اور کہا کہ سائنسی فکر اِس روایتی فکر کی حریف ہے اور اِس طرح مذہب پر مشتمل تہذیبوں اور معاشروں میں شدید نوعیت کی پریشان فکری کا باعث ہے۔ ریلے گینوں (Rene Guenon) اپنے گیتوں کی فکریات کا تذکرہ بڑی کثرت سے حسین نصر کے یہاں مل جاتا ہے۔حسین نصر بنیادی طور پر رینے گینوں کی فکر کے حامل ہیں۔اور اپنی تنقیدی کاوش میں انھوں نے جن نکات کو اہمیت دی ہے ان کا ناقدانہ جائزہ درج ذیل ہے۔

1۔    جدید سائنسی حقیقت (Reality) محض مادّی اِظہار سے ہی تعلق رکھتی اور عملاً اِس کوہی تسلیم کرتی ہے۔نتیجہ میں حقیقت کی دوسری سطحوں سے مکمل لاتعلّقی اوّلاً تو اِن کے اِنکار کی مترادف بن جاتی ہے۔ اور دوئم اگر انکار نہیں تو غیر اہم ہونے کا اعلان تو کرتی ہی ہے۔ حسین نصر کے یہاں جدید سائنس کی اس کمزوری کا احساس بہت واضح طور پر ملتا ہے اور اُس کی بنیادوں پر قائم معاشروں اور اِنفرادی شخصیات کی تعمیر میں اِس کمزوری کے اثرات پر مشتمل ایک معیاری تنقیدی رویہ کی تعمیر حسین نصر کا خاصّا ہے10۔

2۔    حقیقت کی مختلف سطحوں کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد ان کے مطالعہ کا طریقہ کار بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ مادّی سطح کے مطالعہ کے لئے Scientific Method کی اہمیت کے بعد وجود کی دوسری سطحوں کے مطالعہ کے لئے دوسرے طریقوں کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ حسین نصر کا اہم کام Plurality of Methods کا تصور ہے11۔یہاں اس کائنات میں وجود یعنی حقیقت کی مختلف سطحیں پائی جاتیں ہیں۔ یعنی مادی کے ساتھ غیر مادی حقائق بھی موجود ہیں جن کا مطالعہ مادّی وجود کے لئے تسلیم شدہScientific Method کی مددسے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے دوسرے طریقوں کی ضرورت ہے۔

3۔    مادّی وجود کے مطالعہ کے لئے جہاں حسّی ذرائع پر مشتمل طریقہ کار کی اہمیت ہے وہیں غیر مادّی وجود کے لئے وحی ایک ذریعہ ہے۔ جس میں وجدان اور کشف بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حسین نصر نے وجدان کو سائنسی طریقۂ کار کے ضمن بڑی اہمیت دی ہے۔ سائنسی تحقیق میں وجدان کے وجود سے انکار ممکن نہیں لیکن اسے ایک Methodکا مقام عطا کرنا خاصا محل نظر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وجدان ایک مستغرق ذہن کو ہی اشارہ کرتا ہے۔یہ اشارہ محض اشارہ ہی رہتا ہے جب تک کہ تجربوں کے ذریعہ ثابت نہ ہو جائے۔ چنانچہ سائنس میں اصل اہمیت تجربہ اور مشاہدہ ہی کو ہے نہ کہ وجدان کو۔

حسین نصر کی تنقید کے وہ پہلو جن سے حقیقت کی مختلف سطحوں کا وجود، انفرادی اور اجتماعی زندگی پر محض مادیت کو تسلیم کرنے کے اثرات اور تحقیق کے لئے متعدد طریقوں کو تسلیم کرنا اور ان کی ضرورت کا ادراک ہونا بڑے ہی اہم ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ سائنس پر اسلامی پس منظر میں اس سے بہتر تنقید نہیں ہوسکتی۔ لیکن وجدان(intution )   کی اہمیت پر ان کے یہاں جو زور اور شدت پائی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ان کے نقطۂ نظر پر خاصی تنقید ہوئی اور اسطر ح وہ ایک Controversial ناقد بن گئے ہیں 12۔اور وجدان و مکاشفہ کیونکہ اصلاً تصوف سے وابستہ اصطلاحیں ہیں اس لئے ان کی پوری تنقید ایک صوفیانہ تنقید کی شکل میں سامنے آتی ہے۔وجدان اور وجدا نہ کہ وجدا کا مقام:۔موا مکاشفہ تصوف میں علم کے ذرائع تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اس لئے انھیں سائنس میں ایک معتبر ذریعہ علم تسلیم کرنے کا مطلب سائنس میں صوفیانہ روایت کو متعارف کرانا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سائنس کا وہ پہلو جو مسائل کو حل کرنے سے عبارت ہے، غیر اہم ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ سائنس میں reproducibility کو جو مقام حاصل ہے وجدان پر مشتمل سائنسی روایت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اس نوع کی تنقید ایک خوبصورت اور دلوں کو چھو لینے والا مباحثہ تو بن سکتی ہے لیکن تہذیب کے ارتقاء کے باب میں یہ کسی وقعت کی مالک نہیں بن سکی۔ اس تنقید اور اس فکر کا ماحصل محض یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہم اسلامی سائنسی ثقافت (تہذیب نہیں 13) کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔

حسین نصر نے ماحولیات کے مسائل میں جو اسلامی نقد کی ہے وہ ایک معرکۃ الآرا کام ہے اور اس باب میں انسان و کائنات، انسان و انسان اور انسان و خدا کے درمیاں رشتوں کی نشاندہی کر کے ماحول کی وضاحت کے ساتھ ترقی و ارتقاء کے باب میں جو نئی نظریاتی بنیادیں فراہم کی ہیں وہ بڑی پائیدار اور ماحولیاتی پالیسیاں بنانے میں ممد و معاون ہو سکتی ہیں 14۔حسین نصر کے نقطۂ نظر کے حاملین میں ایک اہم نام ملیشیا کے عثمان بکر کا بھی ہے جو ان کے شاگرد ہیں اور سائنس کے سلسلہ میں حسین نصر کی ہی ترجمانی کرتے ہیں۔

 

                اسلامائزیشن آف نالج کی بحث

 

یہ بحث جس کا عالمی سطح پر آغاز بیسویں صدی کی اسّی کی دہائی میں اسماعیل راجی الفاروقی کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوا ایک انتہائی منظم کوشش تھی جس کا پس منظر دراصل احیاء اور قوت کا حصول تھا۔ یہاں یہ امر واضح تھا کہ ملت اسلامیہ کے احیاء اور مغرب کی فکری و تہذیبی غلامی سے نجات اور بالآخر غلبہ کے لئے علم سے آراستہ ہونا ضروری ہے۔ غلبہ کا حصول نصب العین تھا جس کے لئے طاقت کا حصول ضروری ہے جو علم کے حصول کے بغیر ممکن نہیں۔ Knowledge is power کا نظریہ جو فکریاتِ جدید سائنس میں بیکن Francis Becon سے منسوب ہے اسلامی مفکّرین نے اسے جوں کا توں لے لیا تھا۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز میں جو بھی تحریکیں آزادی کے لئے اٹھیں انھوں نے غلبہ کو اپنا مطمح نظر بنایا اور حصول علم کو اسی پس منظر میں دیکھا۔ ترکی کے سعید نورسی مصر کے عبدالقادر اور برِ صغیر کے جمال الدین افغانی اور بعد کے لوگوں میں ہندوستان سے اٹھنے والی تحریکِ اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ نے سائنس یا علوم جدید کو قوت کے حصول کا ذریعہ جانا اور اس مقصد نے ان علوم کے تئیں ان کے رویّوں کو تشکیل کی۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور با الخصوص اسّی کی دہائی میں اسلامائزیشن کی تحریک کا آغاز ہوا۔ ا سماعیل فاروقی سے ذرا قبل ملیشیا کے مفکر سید نقیب العطاس بھی اسی اصطلاح کی دریافت کر چکے تھے البتہ ان کی کوششیں ذاتی نوعیت کی تھیں جبکہ اسماعیل فاروقی نے اسے ایک عظیم اسلامی علمی جدوجہد کی شکل میں بر پا کیا۔ کیونکہ اسلاما ئزیشن آف نالج کی جدید بحث میں یہی دو حضرات یعنی العطّاس اور ا سماعیل فاروقی اہمیت کے حامل ہیں اس لئے یہاں ہم ان دو حضرات پر زیادہ بحث کریں گے۔ ابتداء میں جن مفکرین کے نام آئے ہیں وہ بنیادی طور پر قومی آزادی اور تحریکات اسلامی یعنی اپنے ملکوں میں اسلام کے غلبہ کے لئے قائم کرنے والی تنظیموں سے متعلق رہے ہیں اور ان کے یہاں علم اور اس کے اسلامیانے کی بحث ایک ضمیمہ کے طور پر ہی تھی۔ ان کی اصل معروضات در اصل معاشرہ، سیاست و معیشت وغیرہ پر اسلامی نظریات کے عملی و فکری انطباق پر مرکوز تھیں۔چنانچہ ان کے یہاں علمِ سائنس ایک ضمنی ضرورت بن کر ابھرا۔ اور کیونکہ سائنس میں با الخصوص اُس وقت کی سائنس میں تصور کائنات اور اقدار کی کارفرمائی واضح نہ ہوسکی تھی اس لئے اعلیٰ تر مقاصد کی بجا آوری کے لئے طاقت کا حصول ان کے پیش نظر تھا۔ البتہ اس سلسلہ میں العطاس کی بحث میں ـ’ ادب‘ کی اصطلاح علوم کے درمیان سائنس کی روز افزوں اہمیت اور بالآخر اس کا انسانی اور قومی نصب العین بن جانا ایک بڑی زبردست، سماجی خرابی کا پتہ دیتی ہے۔ العطّاس بتاتے ہیں کہ ادب کے معنی ہیں چیزوں اور رویوّں کا ان کی صحیح اور مناسب جگہ پر رکھنا۔ زباں کے پس منظر میں ادب کی اصطلاح الفاظ کا ان کی صحیح اور مناسب جگہوں پر استعمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس اور علوم کے پس منظر میں یہ اصطلاح اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسانی زندگی میں علم یا سائنس کی مناسب جگہ یعنی اہمیت کا تعین ہو۔ تعین اگر غلط ہو گا توسائنس تمام دوسرے علوم پر حاوی ہو جائے گی۔ اور اگر صحیح ہو گا تو اعلی نصب العین کا حصہ ہو گی۔چنانچہ انسانی زندگی کی جو جو ضروریات ہیں ان کے لئے جن جن علوم کی ضرورت ہے اپنی ضرورت اور اہمیت کے اعتبار سے انھیں جگہ ملنی چاہئے۔ جدید سائنسی کا ارتقاء جس پس منظر میں ہوا ہے نقیب العطاس کے مطابق وہ ہر سطح پر غالب ہو گئی ہے اور اس طرح اس نے انسانی زندگی میں بڑا زبردست ہیجان پیدا کر دیا ہے اور فطری توازن کو بھی بگاڑ دیا ہے۔اور یوں یہ بے ادبی کی مرتکب ہوتی ہے15۔

اسماعیل فاروقی اس میدان میں دوسرا لیکن بہت بڑا نام اس لئے ہے کہ انھیں اسلامائزیشن آف نالج کے سلسلہ میں بے تحاشا وسائل ملے جن کے نتیجہ میں انسانی وسائل کی بھی کوئی کمی نہ رہی۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ خود ایک انتہائی معروف امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق کی دنیا مین بڑا مقام رکھتے تھے۔اس کے ساتھ نہ صرف یہ کہ وہ خود بلکہ ان کے بہت سے رفقاء ایسی تحریکوں سے متعلق تھے جوا پنے اپنے ملکوں میں اسلام کو سماجی اور سیاسی اعتبار سے غالب دیکھنا چاہتی تھیں اور اس اعتبار سے علم کی بہت سی شاخوں کو مجموعی اسلامی فکر اور کلچر سے ہم آہنگ دیکھنا ان کی ضرورت تھی۔اسماعیل فاروقی کی بنیادی کتاب یعنی Islamization of Knowledge : Work Plan 16سے ان کے پورے گروپ کا یہ بنیادی مدّعا نکل کر سامنے آتا ہے کہ اسلامائزیشن آف نالج، اسلام کو غالب کرنے کی راہ کا ایک انتہائی اہم مرحلہ ہے۔

لیکن یہ یقین رکھنے کے باوجود کہ جدید سائنس قوت کا سرچشمہ ہے اُنھیں اسلامی فکر کے ساتھ سائنس کی ضروری ہم آہنگی کے بارے مین کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ چنانچہ یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہے کہ وہ سائنس اور اسلام کو ہم آہنگ ہی سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں تصور کائنات،اقدار اور سائنسی تحقیق کی ترجیحات اور انھیں منطبق کرنے کے باب میں مروجہ رویہّ اسلام سے متغائر نہ تھے۔اسی بنا پر ان کی پوری توجہ سوشل سائنس تک ہی محدود رہی۔ چنانچہ Work Plan جن بارہ اقدامات کی نشاندہی کرتا ہے وہ سب سوشل سائنسز ہی سے متعلق ہیں۔

اسماعیل فاروقی کی اس پوری کوشش میں یہ بات کہیں سامنے نہیں آتی کہ جس نالج کو وہ اسلامائزکرنا چاہتے ہیں اس میں غیر اسلامی کیا ہے17؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کے باب میں وہ بالکل خاموش ہیں۔ان کے مطابق علوم کے میدان میں ماضی کی اسلامی تہذیب میں کیا ہوا اس کی معلومات حاصل کرنا اور پوری طرح اس کا فہم حاصل کر لینا اور جدید علوم میں بھی مہارت حاصل کر لینا اسلامائزیشن کی بنیادی ضروریات ہیں۔ یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ ماضی کے علوم پر مہارت کی دور جدید میں کیا ضرورت ہے؟ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ موجودہ علوم کو چھانٹ پھٹک کر اسلامائز تو کرنا چاہتے ہیں۔لیکن اسلامائزہو کر وہ کیا شکل اختیار کریں گے کہ اس بارے میں کوئی خاص بات نہیں کہتے۔ اس سے ملتا جلتا دوسرا سوال کہ اس نوع کے نئے علوم پیدا کیونکر ہوں گے اور کس طرح ترقی کریں گے ؟ اسماعیل فاروقی اس باب میں بالکل خاموش ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی علم میں اگر ارتقاء نہ ہو اور وہ آگے نہ بڑھ سکے تو اس کو اسلامائز کرنے سے کیا فائدہ ہو گا۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے اور شاید ان جیسے سوالوں کا خاطر خواہ جواب نہ ہونے کی بنا پر پوری تحریک اس وقت بے جان نظر آتی ہے۔

 

                سائنس میں اقدار اور تصور کائنات کی اہمیت18

 

سائنسی عمل دراصل اس کائنات میں موجود ا شیاء اور مظاہر کے مطالعہ اور ماخوذ نتائج کے انطباق سے عبارت ہے چنانچہ اس عمل میں تصور کائنات اورانطباق کے با ب میں اقدار کی اہمیت واضح ہے۔ بالفاظ دیگر سائنس در اصل ایک تہذیبی عمل ہے اور جو نظریات و اقدارکسی تہذیب کی تشکیل کرتی ہیں وہی اس میں کارفرما سائنسی عمل کی تہذیب و تشکیل کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔ چنانچہ ہر تہذیب میں پائی جانے والی سائنس کی تاریخ کا مطالعہ اس میں موجزن نظریات و تصورات اور اقدار کی کار فرمائی کا پتہ دیتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر اصلاً ضیاء الدین سردار کا 19ہے اور اسی سلسلہ میں انھوں نے اسلامی تہذیب میں سائنس کے ارتقاء کے باب میں اُن تصورات اور اقدار کی نشاندہی کی ہے جو اسلامی معاشرہ میں سائنس کو ایک متحرک اور موثر سر گرمی کی حیثیت سے قائم کرنے کے ساتھ اس کے مسلسل ارتقاء کا باعث رہے ہیں۔ ضیا ء الدین سردار ان قدروں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جو سائنسی سرگرمی کو کسی مخصوص رخ کی طرف لے جاتی اور دوسرے رخ پر جانے سے روکتی ہیں۔ چنانچہ ضیاء الدین سردار دوسرے مفکّروں کے مقابلہ میں سائنس کو ایسا میدان نہیں سمجھتے جو بیرون سے آیا ہو اوراسلام میں اس کی جگہ متعین کی گئی ہو۔ وہ دراصل سائنس کو اسلامی اور قرآنی فکر کا ایک حصہ تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ اور اسی پس منظر میں وہ جدید مغربی سائنس کی تنقید کرتے ہیں اورسائنس میں مسلمانوں کی زبوں حالی کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں 20۔ یہ تصورات اور قدریں ایک طرف ان اشیاء اور اقدار کے کے تئیں انسانی رویّوں کو متاثر کرتی ہیں تودوسری طرف ان کے انطباق کے لئے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔لیکن ایک دوسرا اہم پہلو سوال کے articulation ہے۔ہم جانتے ہیں کہ سائنس سوالوں کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔

اگر سوال پیدا نہ ہو تو سائنس کا ارتقاء نہ ہوسکے گا اور جواب سوال کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔ البتہ سوال ہو یا جواب دونوں ہی تصورِ کائنات سے تشکیل پاتے ہیں اور شاید اسی لئے ضیا ء الدین سردار کے یہاں اصل اہمیت تصور کائنات کی ہے۔جو تہذیب کی تشکیل کرتا اور تصورات اور اقدار سے ترکیب پاتا ہے۔

اس حقیقت کا انکشاف1960 اور   1970 کے زمانہ اس وقت واضح ہوا جب تاریخ سائنس پر بعض بنیادی اور اہم تخلیقات سامنے آئیں البتہ 1927 میں شائع ہونے والی جارج سارٹن کی معروف کتاب Introduction to the History of Science می21 میں بھی یہ اشارے مل چکے تھے کہ مسلم تہذیب کے زیر سایہ سائنس میں زبردست کام ہوا تھا۔ لیکن بیسویں صد ی کے نصف آخر میں فوات سازگین22 نے جو تحقیقات پیش کیں ان کے نتیجہ میں دور اسلامی میں سائنس کی ترقی کے بارے میں بڑی مضبوط بنیادیں فراہم ہو گئیں۔ اور آج یہ خود ایک اہم مضمون کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ اسلامی تصوّر فطرت، علم اور اقدار کی یگانگت اور استصلاح کی بنیاد پر ایک جدید سائنس کس طرح پرورش پا سکتی ہے۔ 1984 میں ضیاء الدین سردار نے اپنی کتاب 23Touch of Midas   میں ایک جدید اسلامی سائنس کا ابتدائی خاکہ پیش کیا تھا جسے بعد میں Explorations in Islamic Science (1984) 24 واضح کیا۔ یہ تصورات قرآن کریم سے ماخوذ ہیں اور وہ بنیادی اقدار فراہم کرتی ہیں جو ایک جدید اسلامی سائنسی کلچر کی بنیاد رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ضیاء الدین سردار نے اس طرح کے کُل دس تصوّرات کی نشاندہی کی ہے جو توحید، خلافہ، عبادہ، علم، حلال، حرام، عدل،ظلم، استصلاح اور ذیاء پر مشتمل ہیں جو قدروں میں ڈھل کر ایک مکمل سائنسی ثقافت کے قیام کو جنم دیتے اور سائنسی تحقیق و جستجو کی تحریک برپا کرسکتے ہیں جہاں حقائق اور اقدار یکجا ہو کر ایسے ادارے تشکیل پاتے ہیں جن میں جوابدہی اور معاشرے کے تئیں ذمہ دارانہ رویہّ بالکل واضح اور ان کی شناخت بن کر ابھرتا ہے۔ یہ تصورات کسطرح سائنس اور ٹکنالوجی کو متاثر کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ توحید جو ایک اہم قدر ہے اس کا مذہبی تصور تو خدا کی وحدانیت ہے لیکن جب یہ معاشرہ کو متاثر کرتا ہے تو انسانیت، فرد اور فطرت کی وحدت یعنی ارتباط کے تصور کو ابھارتا اور علم و اقدار کو مربوط کرتا ہے۔خلافت کا تصوّ ر بھی توحید کا ہی شاخسانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ انسان مکمل طور پر آزاد وجود نہیں بلکہ خدا کو جوابدہ ہے اور اپنی سائنس و ٹکنالوجیکل سرگرمیوں میں اس کا رویہ ذمہ دارانہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح اس کے یہ معنی ہی نہیں کہ انسان اس سرزمین کی اشیاء پر مالکانہ استحقاق نہیں رکھتا بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اس عارضی گھر کی تمام ان خصوصیات کو برقرار رکھے بلکہ اس کی ترقی کی کوشش کرے جن پر اسے پیدا کیا گیا اور جن کی بنا پر یہاں ہر نوع کی زندگی کی نمو ہو رہی ہے۔ اس طرح جب سائنسی عمل یا سائنسی تفکّر ایک عبادت بن جاتا ہے توانسان فطرت یا مخلوق کے تئیں تشدد نہیں اختیار کر سکتا۔ مزید یہ کہ انسان یہ کہہ کر بری الذمّہ نہیں ہوسکتاکہ میرا کام تو محض تحقیق کرنا تھا اس کے غلط اور نقصان دہ استعمال کا میں ذمّہ دار نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایک سائنسداں اندھا بہرا نہیں ہوتا بلکہ اس کا تفکّر و تدبّر تو دراصل عبادت اور اس کے ذہنی ارتقاء کا ذریعہ بن جاتے ہیں اسی طرح یہ دباؤ اور ظلم سے بھی بے بہرہ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی ایسے مقاصد کو اپنا سکتا ہے جو نقصان دہ یعنی حرام ہوں۔ حلال یعنی سودمند سرگرمیاں اور تخلیقات انسانی فلاح کے لیے ہیں اور معاشرتی و معاشی اور ثقافتی سطح پر عدل کی جویا ہیں۔

سائنس کے بارے میں اس نقطۂ نظر کی وضاحت ضیاء الدین سردار کرتے رہے ہیں اور اس گروپ کو خود انھوں نے اجمالی یعنی Holistic   اپروچ کا حامل قرار دیا ہے

ْْْْْْْْْْْْْْْْ

                علی گڑھ اسکول

 

علی گڑھ اسکول کو سمجھنے کے لئے جہاں مذکورہ بالا فکری فضا کو سمجھنا ضروری تھا وہیں Centre for Studies on Science کے قیام اور اس کے پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے۔ابتداً یہ جان لینا چاہئے کہ اس ادارہ کا قیام ایک اجتماعی فیصلہ کا نتیجہ تھا جو 1981 میں Student Islamic Movement of India (SIMI) کی ایک شوریٰ کی میٹنگ منعقدہ لکھنؤ میں کیا گیا۔ یہ تنظیم انتہائی معروف جماعت اسلامی ہند کی نوجوان طلباء کا ایک غیر رسمی بازو تھی اور اسے اس جماعت کا ہر ممکن تعاون اور رہنمائی حاصل تھی۔کیونکہ جماعت اسلامی نے اپنے اہداف اور طریقۂ کار معروف اسکالر مولانا سید ابو الا علی ٰ مودودی کے تصورات اور ان کے تجزیہ کی روشنی میں طے کئے تھے اس لئے SIMI   بھی مولانا مودودی کو ہی اپنا مینٹر تسلیم کرتی تھی۔ اسلام کیونکہ پورے زندگی پر حاوی ایک دین کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا تھا اس لئے دانشوری کی روایت ہو یا سیاسی معاشرتی اور معاشی اہداف اسلام کا غلبہ ہر سطح پر پیش نظر تھا۔SIMI انھیں خیالات کو طلباء اور طلباء کے اداروں میں پھیلانے اور انھیں مقاصد کے حصول کے لئے طلباء کے ذہنوں کو تیار کرنے کا کام انجام دے رہی تھی۔ یہی مقاصد جماعت اسلامی کے بھی تھے لیکن SIMI   نے   1980کے اوائل ہی میں یہ طے کر لیا تھا کہ اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھے گی اور بعض تجربات کرے گی۔ چنانچہ یہ طے ہو ا کہ جماعت اسلامی کے پیش نظر عمومی اہ گڑھ اسکول :اداف کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص اہداف کو بھی نشانہ بنا یا جائے اور ان کے حصول کے لئے مخصوص اور منفرد کوششیں کی جائیں۔ چنانچہ علم و عمل کے ان میدانوں کی نشاندہی کی گئی جو اسلام کے غلبہ میں اہم رول ادا کرسکتے تھے۔ نشاندہی کے اس عمل میں سائنس جو اس وقت کے فہم کے مطابق انسانی فلاح اور حصول قوت کا ایک جز بھی تھی۔ اپنی پوری اہمیت کے ساتھ سامنے آئی اور یہ طے کیا گیا کہ ایسی علمی و فکری کوششیں کی جائیں تاکہ موجودہ سائنس جو محض مادّی اخلاقیات پر قائم تھی اور ترقی پا رہی تھی وہ اسلام کی اخلاقی اور فکری بنیادوں سے ہم آہنگ ہوسکے۔ SIMI کی شوریٰ کی مذکورہ بالا میٹنگ کے دوران ان کوششوں کو منظم کرنے کی ذمہ داری راقم کو دی گئی جو اسوقت SIMI کاکل ہند صدر تو تھا ہی محض ایک سال قبل   Indian Institute of Technology,(IIT) Delhi سے 1979 میں کیمسٹری میں Ph.D. بھی کر چکا تھا۔ ابتداء میں ادارہ کی شکل کو Science Cell کہا گیا لیکن 1982میں SIMI سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب فراغت ملی تو اسے بتدریج ایک ادارہ کی شکل دی گئی اورCentre For Studies on Science کے نام کے ساتھ اسے Society   کی حیثیت میں رجسٹر کرایا گیا۔

اس ابتدائی تعارف سے یہ اندازہ ہونا چنداں مشکل نہیں کہ CSOS کی تشکیل میں شامل افراد       اصلاً activists کا ایک منظم گروہ تھا جس کی فکری بنیادوں کا تذکرہ ہم اسلامایزییشن آف نالج کے تذکرہ میں مولانا مودودی کے حوالہ سے کر چکے ہیں۔ چنانچہ ابتدائی دور میں جو پروگرام تشکیل دیا گیا اس میں activism کا رنگ نمایاں ہے۔ مثلاً مختلف مقامات پر سیمیناروں اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد جن میں سائنس پر مختلف اسکالرز کے ذریعہ کی جانے والی معاشرتی تنقید اور اسلامی نقد کا تعارف کرایا جاتا تھا۔ یہ اصلاً ذہن سازی کا عمل تھا اور مقصد یہ تھا کہ سائنس کو neutral سمجھنے اور سمجھانے کی جو شعوری کوششیں ہوئی تھیں ان کا ناقدانہ جائزہ لیا جائے اور یہ بتا یا جائے کہ سائنسی ترقی اپنے ساتھ اپنی ایک خاص معاشرت بھی لاتی ہے۔اور کرنے اور سوچنے کا اس کا ایک اپنا ڈھنگ ہے جس کے سامنے دوسرے اور مقامی طریقے اپنی اہمیت بتدریج کھو دیتے ہیں۔

CSOS کے تحت کام کا آغاز ہوا تو تین نقطہ نظر متفق علیہ تھے جنھوں نے مستقبل کے کاموں کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا ہے۔

 

(۱) قرآن کریم عقل کو اپیل کرنے والی مذہبی کتاب ہے اور وہ سائنسی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

اھ(۲) سائنس انسانی فلاح کا ذریعہ توہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ و ہ طاقت، غلبہ اور تشدّد کا ذریعہ بھی بن گئی ہے ۔

(۳) جدید سائنس کا جس طرح سے ارتقاء ہوا ہے اس نے اسے اقدار سے خالی بلکہ قدروں کا مخالف بنا دیا ہے۔

 

1984میں ایک سیمینار Quest for New Science کے موضوع پر علی گڑھ میں منعقد   کیا گیا جس میں ضیاء الدین سردار اور سید حسین نصر کے ایک شاگرد عثمان بکر نے شرکت کی۔ اور یوں ان دونوں اسکول آف تھاٹ سے براہ راست ربط قائم ہوا۔ پہلا واضح Statementجو علی گڑھ اسکول کی طرف سے شائع ہوا وہ Khandala Declaration کے نام سے معروف ہے25۔ یہ 1996 میں کھنڈالا (مہاراشٹر)کے مقام پر منعقد ایکOrientation Programme   کے دوران ترتیب پایا تھا اور Journal of Islamic Science میں شامل اشاعت ہوا۔ یہ ڈکلییریشن بنیادی طور پراس اسلامک ورلڈ ویو کی ترجمانی کرتا ہے جس کے زیر اثرماضی کے مسلم معاشرہ میں سائنس کی نشو نما ہوئی تھی اور جو آج بھی اس کی ترقی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ چنانچہ علی گڑھ اسکول کے نزدیگ paradigm کی اہمیت با الکل ابتدائی دور سے ہی واضح تھی۔ اس اسکول سے وابستہ افراد مختلف امور میں مختلف آراء ضرور رکھتے ہیں لیکن جن امور میں باہم اتفاق پایا جاتا ہے اور جن کی بنیاد پر علی گڑھ اسکول کو ایک اسکول آف تھاٹ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے انھیں ہم   چند نکات میں بیان کرسکتے ہیں۔

(۱)     سائنس ایک معاشرتی سرگرمی ہے اور معاشرہ کی روایتوں اور اس پر غالب اقدار سے متاثر ہوتی ہے۔ معاشرہ جن بنیادوں پر قائم ہے اور جو قدریں اس کے اجتماعی اداروں اور انفرادی رویوں کی نقشہ گری کرتی ہیں وہ سائنس کو بھی متاثر کرتی ہیں۔چنانچہ سائنس اجتماعی مقاصد کے حصول کا ایک ادارہ بھی ہے اور انفرادی عزائم کی بجا آوری کا ایک ذریعہ بھی۔ اس طرح سائنس کو قدروں سے محفوظ سمجھنا صحیح نہیں ہے بلکہ ایک بڑی حقیقت کا انکار کرنا ہے۔

(۲)    مذکورہ بالا نکتہ کو تسلیم کر لینے کے بعد یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ مغربی جدید سائنس کی نقشہ گری میں مغرب کے ماحول اور مذہب کے تئیں اس کے رویئے نے اس پر گہرا تاثر چھوڑا ہے۔ مذہب سے اس کی مخاصمت،قدروں ( جن کا سرچشمہ مذہب ہی سمجھا جاتا ہے) کے تئیں اس کا رویّہ اور حصول علم کے باب میں   Scientific Method پر حد سے زیادہ اصرار کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے اور یقیناً

مغرب کی یہ سوچ کسی علم پر مبنی نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مذہب کی مخالفت پر مبنی روایت سائنس کی ایک مضبوط عمارت کھڑی کرسکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مذہبی روایت اتنی یا اس سے زیادہ و مضبوط اور توانا سائنس کو جنم نہ دے سکے یا اس کی حوصلہ افزائی اور پرورش نہ کرسکے۔ چنانچہ علی گڑھ اسکول اسلام کی مذہبی اور فکری روایات کو ایک آفاقی سائنس کے ارتقاء کے لئے انتہائی حوصلہ افزا پا تا ہے۔

(۳)   مسلم معاشرہ میں قرآن کریم کی بنیادی اہمیت کے با وصف یہ فرد کی فکری رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور معاشرہ کی ساخت اور فرد و معاشرہ میں کار فرماں اقدار حیات کا یہ سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔چنانچہ سائنس کرنے یا اس کے محاصل کو معاشرہ تک پہنچانے میں جو قدریں کار فرما ہو گی ان کی بنیاد قرآن کریم فراہم کرتا ہے۔مزید یہ کہ کائنات و فرد اور ان دونوں کے باہمی تعامل کے بارے میں قرآن کریم مخصوص نقطہائے نظر کا پابند بنا تا ہے۔ اسی طرح دوسری قرآنی تعلیمات بھی سائنس کو انفرادی اور معاشرتی سطح پر متاثر کریں گی۔ البتہ اس پورے Scenario میں سائنس کرنے والے فرد کے اپنے فہم اور Interpretationکو اہمیت حاصل ہو گی۔ ایسا کوئی ادارہ نہیں پایا جاتا جو قرآنی نقطۂ نظر کا آفیشیل فہم پیش کرنے کا مجاز ہو۔ البتہ فہم و ادراک کے لئے دوسروں کی آراء اور مشوروں سے استفادہ ممکن ہے۔

(۴)   قرآن کریم علم اور حسّی ذرائع برائے حصول علم کے بارے میں بڑی مثبت اور واضح نقط نظر رکھتا ہے۔ البتہ وہ یہ بھی تسلیم کراتا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بعض میدان ایسے ہیں جہاں اسے رہنمائی کی ضرورت ہے اور وہ حسّی ذرائع پر مشتمل طریقہ کار اور عقل کے ذریعہ اس میدان کو مکمل طور پر سر نہیں کرسکتا۔چنانچہ وحی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے۔لیکن وحی کے فہم میں بھی عقل اور حسّی ذرائع مددگار ہیں۔ قرآن کریم وحی کے ذریعہ حاصل شدہ عقائد کی بنیاد پر ایک World View کے ذریعہ معاشرتی یا فطرت کی تحقیق و جستجو میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔قرآن کریم متعدّد مقامات پر وضاحت کرتا ہے کہ کائنات اپنے وظائف میں قانون سے کبھی بغاوت نہیں کرتی۔ چنانچہ انسانوں کو بھی ایسی ہی روش اختیار کرنا چاہیے جو کائنات کے ساتھ ہم آہنگی پر قائم ہو تاکہ فساد سے محفوظ رہے۔ یہ ہم آہنگی در اصل World View کے تحت کام کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ بعض مفکرین نے Eco-functioning کائنات میں انسان کے Eco Action 26کی ضرورت کی طرف جو اشارہ کیا ہے وہ بھی اس ہم آہنگی کے پیش نظر ہے26۔قرآن کریم سے انسان کی شعوری و فکری وابستگی دراصل اس کے مہیّا کردہWorld View کے تحت کام کرنے   کو تسلیم کر لینا ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کے معاملات ہوں یا کائنات کے ساتھ انسانی تعمّل، نتائج مکمل ہم آہنگ اور فساد و فتنہ سے پاک ہوتے ہیں۔

(۵)   علی گڑھ اسکول کے نزدیک قرآن انسانی ذہن کو ایک نقطۂ نظر سے مزّین کرنے کے ساتھ ساتھ گاہے بگاہے کچھ ایسے اشارے بھی دیتا ہے جو بعض اوقات اشیاء، انسانی رویّوں اور مظاہر فطرت کے بارے میں علمی تحقیقات کی ابتداء کرنے کے سلسلہ میں رہنمائی کرتے اور اسے سمت عطا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علی گڑھ اسکول ایسے اشاروں کو Paradigm تسلیم کرتا ہے اور یہاں سے علمی تحقیق کا آغاز کرنے کو حق بجانب تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح کے اشارے محض سائنسی علوم میں نہیں بلکہ ٹکنالوجی کے ارتقاء کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں اور بشری و معاشرتی علوم میں بھی۔

(۶)    علی گڑھ اسکول سائنس اور دوسرے علوم میں آج تک کی جانے والی تحقیقات کو جو عقل انسانی اور حسّی ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے کی گئی ہیں بحیثیت مجموعی اور اصولی طور پر اسلامی معیار کے مطابق پاتا ہے اور اگر اس طرح کی کوئی سائنسی تحقیق قرآنی فکر سے متغائر محسوس ہوتی ہے تو وہ اسے قرآن کے منشاء کے فہم میں انسانی کمزوری کا شاخسانہ سمجھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ علی گڑھ اسکول کے وابستگان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آج کی یہ تحقیق کل انسانی ذرائع وسائل میں اضافہ ہونے کے بعد ممکن ہے کہ غلط ثابت ہو جائے اور معیاری نہ رہے۔ البتہ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا یہ تحقیق ہمارے نزدیک عملی پہلوؤں سے قابل قبول میں ر ہے گی۔ ہم پورے سائنسی حقائق کو دراصل Suspended facts کا درجہ دیتے ہیں جو زبان و مکان کی تبدیل کے ساتھ تبدیل ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب تک زمان و مکان تبدیل نہیں ہوتے یہ حقائق کارآمد ہی رہتے ہیں۔

(۷)   علی گڑھ اسکول عملی سائنس کے نتائج کے بارے میں ایسی ہی مثبت رائے رکھتا ہے جیسی دوسرے افراد البتہ سائنس کی پالیسیوں اور سائنسی Products کے استعمال کے بارے میں اسلامی اقدار حیات کو انتہائی اہم اور ضروری تصور کرتا ہے۔

(۸)   اسلام اور سائنس میں ہم آہنگی کی تلاش ہمارے یہاں ایک بالکل ہی غیر حقیقی سوال ہے ہم سائنس کو اسلام کا ایک تقاضہ، قرآن کریم کا منشاء، اور فرض کفایہ سمجھتے ہیں۔اور اس سلسلہ میں نا کردگی ناشکری کے مترادف ہے۔بعض بظاہر غیر اسلامی سائنسی نقطہائے نظر، suspended truth   ہونے کی بنا پر بہت زیادہ توجہ کے طالب نہیں ہوتے۔ Darwin کا نظریہ ارتقاء اور اسی طرح دوسرے ممکنہ نظریات کے بارے میں ہمارا خیال یہی ہے۔

(۹)    وجدانIntuition) ( جوحسین نصر کے نقطۂ نظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علی گڑھ اسکول اسے ایک ذریعہ علم اس وقت ہی تسلیم کرتا ہے جب اس کے ذریعہ بہم پہنچائی گئی معلومات یا اشارے تجربہ و مشاہدہ کے ذریعہ صحیح ثابت ہو جائیں۔

چنانچہ ہمارے نزدیک وجدان حسّی ذرائع پر منحصر ایک ذریعہ علم ہے۔

سائنس اور اسلام کا معاملہ ایک علمی مباحثہ وہ تحقیق وجستجو کا موضوع بھی ہونے کے ساتھ دراصل فکر پر مشتمل عملی سرگرمیوں کا موضوع ہے اور علی گڑھ اسکول کی شناخت کا یہ وہ پہلو ہے جو دوسرے اسکول آف تھاٹ سے اسے ممتاز کرتا ہے۔ یہ امتیاز اس کی ابتداء کے تعارف سے توواضح ہوتا ہی ہے آج بھی اس کے وابستگان کی سرگرمیاں اس کی غمّاز ہیں جو اپنی فکری اور علمی سرگرمیوں میں اسلام اور سائنس کے موضوع پر expert سے زیادہ polymath نظر آتے ہیں۔

مندرجہ بالا نکات دراصل علی گڑھ اسکول کے تشخص کی وضاحت کرتے اور دوسرے اسکولوں کے مقابلہ میں اس کے امتیازات پیش کرتے ہیں۔ علی گڑھ اسکول جیسا کہ واضح ہے موجودہ نقطہائے نظر سے متاثر ہوتے ہوئے اپنی ایک علیٰحدہ شناخت رکھتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                نوٹس اور حوالے

 

.1     Stefano Bigliardi   یورپی ملک اٹلیکے باشندے ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع پر انھوں نے Lund University, Sweden سے Ph.D. اور وہیں سے پوسٹ ڈاکٹریٹ بھی کیا ہے۔ مارچ 2013؁   میں وہ اپنے ایک مطالعاتی Project کے سلسلہ میں اسلام اور سائنس کے موضوع پر راقم الحروف کے خیالات جاننے کے لئے علی گڑھ تشریف لائے اور چند روز قیام کیا۔ ۲۵؍مارچ کو دارالفکر میں ان کے اعزاز میں ایک نشت رکھی گئی جہاں چند رفقاء کے ساتھ وقت گذارا اور مختصر گفتگو بھی کی۔ موصوف ایک روز قبل مسلم یونیورسٹی کے نیو گیسٹ ہاؤس میں راقم کے ساتھ ایک تفصیل انٹرویو لے چکے تھے۔ واپس جاکر موصوف نے اس ملاقات پر مشتمل ایک تفصیلی مضمون میں علی گڑھ اسکول کے نقط نظر کا تعارف کرایا۔

2۔دیکھیں ضیاء الدین سردارکا مضمون , ‘Where’s where? Mapping out the future of Islamic Science (part 1) Journal of Islamic Science Vol. 4 (2) 1988, p. 37-38, p.141 ، محمد ذکی کرمانی کی کتابThe Quran and Future of Science   جو گلوبل وزن دہلی نے   ۲۰۰۱؁ میں شائع کی۔

.3     M. Bucaille, The Bible the Quran and Science, Crescent Publishing Co. Aligarh. (India) 1980.

4۔    علامہ طنطاوی کی تفسیر الجواہر کی طرف اشارہ ہے۔

5۔    سر سید احمد خان کی تفسیر Principles of Exegesis جس کا تذکرہ عزیز احمد اور G.E. Von Grunebari           کی ایڈیٹ کی ہوئیMuslim Self Statement in India and Pakistan           جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس نے ۱۹۷۰؁ میں شائع کی۔

6۔    Scientific Indications in the Holy Quran (Dhaka; Islamic Foundation Bangladesh) 1995.

7۔    H.Noorbaki Verses from the Holy Quran and the Facts of Science (Karachi: Indus Publishing Corporation) 1992.

8۔    ضیاء الدین سردار کا حوالہ   "Between Two Masters: The Quran or Science” Inquiry Vol. 8. 1985, p.37

9۔    S.H. Nasr, Man and Nature, London, 1976

10۔  سائنس کی مادّی بنیادوں پر حسین نصر کی تنقید Islam and the Position of Modern   Science, Journal of Islamic Science p. 4 No.1, 1988,p.45-58.                                    .11 Plurality of Method     پر حسین نصر کا حوالہ

Reflections on Methodology in Islamic Science, Hamdard Islamicus,

Karachi, Vol. 3/3, 1980, pp.3-13         .

12۔  حسین نصر and the Facts of Science (Karanکے نقطہ نظر پر تنقید کے لئے دیکھیں ضیاء الدین سردار Where’s where? Mappping out the Future of Islamic Science, Journal of Islamic Science, 4(2), 1988

13۔  محمد ذکی کرمانی کا مضمون ــ”Reflections on Science at the Interface of . of Islamization of the Knowledge Debate” American Journal of Islamic Social Sciences, 28(3) 2011

14۔سید حسین نصر کا مضمون     "Islam and the Environmental Crisis” Journal of Islamic Science 6 (2) 1990, 31-52

15۔  سید نقیب العطّاس کی کتاب   Islam and Secularism   جو کوالالمپورسے ۱۹۷۸؁ میں شائع

ہوئی۔

6۱۔   اسماعیل فاروقی کی کتاب   Islamization of Knowledge:   جو ۱۹۸۲؁ء میں شائع ہوئی

17۔  محمد ذکی کرمانی، علوم کا اسلامائزیشن: جواز اور تناظر، آیات (۱) ۱۲،   ۲۰۱۴؁

18۔  محمد ذکی کرمانی، ــ’’سائنس اور اقدار کا مسئلہ‘ آیات (۲) ۱۲، ۲۰۱۴؁ زیر اشاعت۔

19۔ضیاء الدین سردار کا مضمون Argument for Islamic Science جو رئیس احمد و نسیم احمد کی ایڈیٹ کی ہوئی کتابThe Quest for New Science   میں شامل ہے یہ کتاب CSOS   علی گڑھ سے ۱۹۸۴؁ء میں شائع ہوئی۔

Ahmad, Aligarh: Centre for Studies on Science, 1984, p. 31-75.

20۔رائل سوسائٹی لندن ۲۰۰۶؁ میں ضیا ء الدین سردار کا ایک لیکچر”Islam and Science: Beyond the Troubled Relationship” Journal of Islamic Science, Vol. 22 No-1-2, 2006, 63-82.

21۔جارج سارٹن کی کتاب      An Introduction to the History of Science, 5 vols. William’s and Wilkins, Baltimore, 1927.

.22 فوات سازگین کی کتاب Natural Science in Islam     جو   ۲۰۰۲؁ء میں فرینک فرٹ سے شائع ہوئی

23۔  Ziauddin Sardar "The Touch of Midas” Manchester University, Press. U.K. U.S.A., 1984

24۔  Ziauddin Sardar, Exploration in Islamic Science, Centre for Studies on Science, August, 1996

25۔  Khandala Declaration Journal of Islamic Science, Vol.10/1

26۔  F. Capra, The Turning Point, Simon ed. Semester, New York, 1982

٭٭٭

ماخذ: آیات، علی گڑھ، شمارہ ۲، ۲۰۱۴

تشکر: مصنف اور عارف مصباحی جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید                     .11 Plurar