FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

زعفران زار

مرتبہ

محمد اسد اللہ

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

کتاب کا اقتباس پڑھیں …..

زعفران زار

ودربھ کی منتخب نگارشات

مرتبہ

محمد اسد اللہ

وجودِ زن

باب اول

اس باب میں ودربھ کی خواتین قلم کاروں کی طنزیہ و مزاحیہ نگارشات پیش کی جا رہی ہیں۔

شفیقہ فرحت

اردو کی مشہور مزاح نگار شفیقہ فرحت کی پیدائش ۲۶؍ اگست ۱۹۳۱ کو ناگپور میں ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ بھوپال میں گزارا جہاں وہ حمیدیہ کالج میں لکچرر تھیں اسی لیے اس شہر کے ساتھ ان کا نام جڑا رہا۔ شہر ناگپور میں ان کی ادبی خدمات میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وہ ناگپور سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ’’ماہنامہ چاند‘‘ سے وابستہ تھیں۔ یہ رسالہ جنوری ۱۹۵۲ میں جاری ہوا تھا۔ فیض انصاری اور شفیقہ فرحت اس کے مدیر تھے بعد میں شفیقہ فرحت نے اس رسالے سے علاحدگی اختیار کر کے اپنا ذاتی رسالہ ’’کرنیں‘‘ ۱۹۵۴ میں ناگپور ہی سے جاری کیا تھا جو ڈیڑھ برس تک نکلتا رہا۔

اردو کے قلم کاروں میں بہت کم خواتین نے طنز و مزاح کو اپنے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ شفیقہ فرحت ان میں ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب اور حسِ مزاح سے اس شعبے میں اپنی شناخت قائم کی۔ ان کے مزاحیہ مضامین کے مجموعے ’’گول مال‘‘، ’’رانگ نمبر‘‘ ’’ٹیڑھا قلم‘‘ اور ’’لو آج ہم بھی‘‘، اردو کے ظریفانہ ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ ۲؍ فروری ۲۰۰۸ کو ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

بعد سبک دوشی

شفیقہ فرحت

لوگ جب ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہیں یعنی ریٹائر ہو جاتے ہیں تو خواہ صدر جمہوریہ کے عہدے سے ہوں یا چپراسی کے تو انھیں فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ پنشن اور مختلف فنڈس کے ساتھ ایک ’’چین‘‘ کی بنسی ملتی ہے، جسے وہ بجاتے رہتے ہیں۔ اب اس ’’چین‘‘ کی بنسی والی کہاوت سے یہ راز نہیں کھلتا کہ بنسی ملک چین سے برآمد کی جاتی ہے یا بذات خود چین نامی کسی دھات یا لکڑی کی ہوتی ہے یا سیدھی سادی عام قسم کی بانسری کو چین سے بیٹھ کر چین اور اطمینان کے تال کے سروں میں بجایا جاتا ہے۔ اس کے بجانے کی ٹریننگ لی جاتی ہے یا رٹائر ہونے کے ساتھ ہی الہامی طور پر اس فن پر عبور حاصل ہوتا ہے۔

خیر بانسری کی تفصیلات پر پھر کبھی غور کر لیں گے اور بات بن گئی تو ایک نیشنل سطح کی کانفرنس منعقد کر لیں گے اور بقیہ عمر دوسرے قسم کی چین کی بنسی اور اونچے سروں میں بجائیں گے۔

فی الحال تو صرف چین اطمینان سے واسطہ اور تعلق رکھیں۔

ہاں تو رٹائر منٹ کے بعد ساری مصروفیات ایک دم ختم کرنے کو کچھ ہوتا ہی نہیں تو جلد باز قسم کے لوگ کوئی نہ کوئی ملازمت تلاش کر کے اپنے گلے میں اپنے ہی ہاتھوں پھندا ڈال لیتے ہیں (بعضوں کو ہم نے اس پھندے کو کھینچتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔۔ ۔۔!)صاحبِ علم و ادب کاغذ قلم سنبھال کر یاد داشتیں لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ملازمت کے تجربات بیان کرتے ہیں جو ساری دنیا میں تہلکہ اور ہنگامہ مچا دیتے ہیں۔

ملازمت ہماری نہایت غیر اہم تھی، لہٰذا تجربات بھی بے رنگ، بے روح، لیکن رٹائر منٹ کے بعد جو نئے پہلو سامنے آرہے ہیں اور جو نئے نئے گوشے کھل رہے ہیں اور جس شدت سے مصروفیات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ پڑھنے والوں کو بھی ہم اپنی رٹائر منٹ والی دنیا میں شامل کر لیں، کہ ایک نہ ایک دن تو آپ کو بھی رٹائر ہونا ہی ہے۔ ویسے اگر آپ اس لکھے کو پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ رٹائر ہو چکے ہیں۔ آج تک دنیا میں کام دھندے سے لگے آدمی کے پاس اخبار کی سرخی تک دیکھنے کا وقت نہیں اپنی اس ضرورت کو چلتے پھرتے دیگر مصروفیات و مشغولیات کے ساتھ ٹی وی یا ریڈیو کے ذریعے پوری کر لیتا ہے۔

ہمارے ایک ہمدرد نے ذرا جھجھکتے جھجھکتے ہم سے پوچھا۔۔ ۔۔ ’ آج کل آپ کیا کر رہی ہیں؟‘ ہم نے جواب دیا۔۔ ۔۔ ’’کوئی خاص کام نہیں۔۔ ۔۔ ‘

انھوں نے لہجے میں کچھ اور ہمدردی گھول کے کہا۔۔ ۔ ’’پھر تو وقت مشکل سے کٹتا ہو گا۔‘‘

’’ارے نہیں۔۔ ۔ ہم تو پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہو گئے ہیں۔ کاٹنے کے لیے وقت ڈھونڈے ڈھونڈے نہیں ملتا۔‘‘

اس کو وہ ہماری ادا اور عادت سمجھ کے خاموش ہو گئے۔ لیکن خود اپنی عادت سے مجبور ہو کر دوسرا سوال داغ دیا۔

’’گذر بسر بھی ذرا تنگی سے ہوتی ہو گی۔‘‘

’’تو بہ کیجئے۔ تنخواہ سے زیادہ ٹھاٹھ ہیں۔۔ ۔‘‘

ہم نے ان کی ساری مایوسی پر پانی پھیر دیا۔

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ جی۔ پی۔ ایف وغیرہ انٹریسٹ اچھا خاصہ مل جاتا ہو گا۔۔ ۔‘‘ انھوں نے اپنے حسابوں سے ہماری آمدنی کا حساب لگانا شروع کیا۔

’’حضور کیسا جی۔ پی۔ ایف اور کہاں کا سود۔ وہ تو ابھی ملا ہی نہیں‘‘

’’پھر۔۔؟‘‘ ان کی حیرت بے حساب اور بے اندازہ بڑھنے لگی۔

ہم نے سوچا انھیں زیادہ پریشان کرنا مناسب نہیں ہے۔ ویسے ہی دل کے مریض ہیں۔ (محاورتاً نہیں حقیقتاً) اوپن ہارٹ سر جری ہونے والی ہے۔ کچھ ہو ہوا گیا تو دیگر لا تعداد الزامات کی طرح یہ الزام بھی ہمارے سر آئے گا۔ لہٰذا معمے کا حل معمے کے ساتھ منسلک کر دینا چاہئے۔

چہک کے ہم نے کہا۔۔ ۔۔ تنگی ونگی کیسی۔ سلامت رہیں یہ کانفرنس اور ورک شاپس۔۔‘‘ سیدھے سادے آدمی ہیں سمجھنے کے بجائے اور الجھ گئے۔

’ کیا کوئی آل انڈیا کانفرنس اینڈ ورک شاپ ڈپارٹمنٹ کھل گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔؟‘‘

’’کس منسٹری کے تحت۔۔؟‘‘

یہاں صاحب جب کھیل کود گلی ڈنڈا، کشتی، دنگا ناچ رنگ، یاترا پد یاترا ہر چیز کے شعبے قائم کیے جا چکے ہیں تو پھر کانفرنس کا شعبہ کیوں نہیں۔ خیر ابھی نہ سہی پھر کبھی۔ بیسویں صدی میں نہ سہی اکیسویں صدی میں یہ شعبہ ضرور قائم ہو گا۔ وزیر کابینہ کے درجے کے ساتھ۔

ہم نے ان ہمدرد صحت صاحب کو اطمینان دلا دیا کہ فی الحال ایسا کوئی شعبہ قائم نہیں ہوا ہے۔

آپ اس میں کسی پوسٹ کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ بھاگ نہ کیجئے۔

تو حضور آپ سب کی اطلاع کے بھی عرض ہے کہ موسمِ بہار تو سال میں ایک بار آتا ہے اور اب تو اس کے لیے بھی حالات سازگار نہیں۔ مگر کانفرنس اور ورک شاپ موسمِ خزاں کی طرح سال بھر چلتی رہتی ہیں۔ آج تعلیمی کانفرنس ہے تو کل کتابیں پڑھاؤ اور بستہ بڑھاؤ ورک شاپ تو پر سوں بستہ اتارو اور کتابیں پھینک سیمینار۔ کسی دن درخت اگاؤ پر بات چیت ہے تو کسی دن جنگل بچاؤ۔ شیر پالو۔ گیدڑ بڑھاؤ کی مہم کے تحت جنگل میں منگل منایا جا رہا ہے۔ کہیں بیگم بھاؤ بتا رہی ہیں تو کہیں سدبھاؤ کے لاڈ دلار ہو رہے ہیں۔ کہیں اہلِ نظر کی فکر و نظر پر فلسفیانہ گفتگو ہو رہی ہے۔ تو کہیں نا بیناؤں کے مسائل پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ (علمی و ادبی کانفرنسوں کا تو فی الحال ذکر ہی نہیں۔ )

غرض یہ کہ ہزار جلوے ہیں اور منوں ٹنوں حلوے مع منڈوں کے۔ بس نظر اٹھائیے، ہاتھ بڑھائیے اور عقل چلائیے۔ پھر تو راوی کو چین کے علاوہ اور قسمت میں لکھنے کے لیے کوئی اور لفظ ملے گا ہی نہیں، کہ بھارت ورش میں سونے کی چڑیاں اب بھی ہیں اور سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں بھی۔ یہ اور بات ہے کہ یہ چڑیا ہر کسی کے پنجرے میں اور مرغیاں ہر ڈربے میں قید نہیں ہو سکتیں۔ مگر گنگا تو ہر ایک کے لیے بہتی ہے۔ ہم تو ہاتھ دھو ہی رہے ہیں۔ آپ بھی دھوئیے جب تک اس کا پانی اس قابل رہے۔۔ ۔۔!

اتنا کہنا بھی ہمارے ہمدرد کے لیے کافی نہیں تھا، کہ اشاروں کنایوں کی عمر سے وہ آگے نکل گئے تھے لہٰذا ہم نے پرچۂ امتحان کی طرح مزید تشریح کی۔

’’’جناب اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہر شعبے میں بڑی بڑی کانفرنسیں اور لمبی لمبی ورک شاپس ہوتی ہیں۔ رقم خطیر بھی اس خانہ حقیر میں رقم کی جاتی ہے۔ جس میں سے کچھ خرچ بھی کی جاتی ہے، اور کانفرنس ہال میں رونق، ہنگامے، شور و غل، آوازوں اور کبھی ختم نہ ہونے والی اور کسی نتیجے پر نہ پہنچنے والی بحث مباحثوں کے لیے چاہئے آبادی کہ ایسے موقعوں پر ’ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔۔

(افسوس کہ کسی زمانے میں سر اٹھتے، جھکتے اور گنے جاتے تھے، قلم کرنے کے لیے)

تو ایسی لا تعداد کانفرنسوں کے بے گنتی دعوت نامے موصول ہوتے ہیں۔ سروس والوں کو چھٹی نہیں ملتی اور سیاست والوں کو فرصت۔ تو خط بھیج کر زبانی اقرار کروا لیا جاتا اور نیم چڑھے ہوئے یا قسمت کے ستاروں کی بلندی کا ایک سبب اور بھی ہے۔ حالات جدیدہ کے تحت عورتیں رونقِ محفل نہیں بلکہ ضرورتِ مجلس بن گئی ہیں۔ ہم ادیب بھی کہلاتے ہیں، دانشور بھی سمجھے جاتے ہیں، اور الپ سنکھیک بھی تھری ان ون۔ مت سہل ہمیں جانو، والا معاملہ ہے۔ اکثر سواری کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ کنوینشن الاؤنس ملتا ہے۔ پھر چائے ناشتہ، کھانا۔

اب تو دنوں دن ہمارے ہاں کھانا نہیں پکتا۔ چولہا جلتا ہے تو صرف صبح اور رات کی ہنڈی کے لیے (رات کی مڈ ٹی کی تشریح پھر کبھی) یا کبھی کبھار ہونے والی دعوتوں کے لیے یہ ہمارا بے حد پرانا یعنی کرانک مرض ہے۔ ویسے ایک آدھ بے تکلف اور

بے ضرورت کو تو ہم وہیں کانفرنس میں مدعو کر لیتے ہیں کہ

’’بھئی آج لنچ ہمارے ساتھ فلاں فلاں بلڈنگ یا فلاں فلاں ہوٹل میں لینا۔ ہم بھی خوش۔

اکثر ہم ذوق ساتھیوں سے انھیں انواع و اقسام کی کانفرنسوں میں ملاقات ہو جاتی ہے اور گفتگو بھی۔ کانفرنس کے اصل موضوع کی خبر تو سوائے کانفرنس کرنے والوں کے کسی کو نہیں پھر بتائیے پیسے ہمارے خرچ ہوں تو کس مد میں۔ پہلے اگلی تنخواہ کا انتظار تیسری چوتھی تاریخ سے شروع ہو جاتا تھا۔ اب مہینوں پنشن نکالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

ہم نے ان کی بصیرت اور بصارت کے لیے کچھ نئے باب اور کھولے۔ ’ دیکھئے جس کاغذ پر ہم مضمون لکھ رہے ہیں وہ بھی کسی کانفرنس کے تفصیلی پروگرام کا اتنا اچھا۔ اتنا دبیز، اتنا چکنا ریشم کہ قلم خود بخود دوڑنے لگے۔ (دماغ کی بات ہم نہیں کر رہے کہ وہ تو کم یاب و نایاب ہے۔۔ ۔‘‘

اسی ایک کے سہارے کتنوں کو تیرتے پار لگتے ہم نے دیکھا ہے۔

اگر آپ اپنے آپ پر ایک ظلم اور کر لیں تو دو ایک کانفرنسوں کی جھلکیاں پیش کی جائیں۔ جس کانفرنس میں ہم بنیادی طور پر مدعو تھے وہ اس دن شہر کی سب سے اہم کانفرنس تھی جس کا افتتاح ہمارے وزیرِ اعلیٰ کے نازک ہاتھوں سے ہونے والا تھا۔ وزیر اعلیٰ کو گاہے گاہے اپنے رخِ تاریک کا دیدار کر وا دینا، ان کا سلام لینا، ان سے ہمکلام ہونا، یہ نئی صدی کے باب ہیں۔ سو ہم بھی پہنچے۔ وہاں سے قیمتی قلم فائل وغیرہ وغیرہ چائے اور وائے سے فارغ ہو کر ہم ان صاحبہ کی تلاش میں نکلے جو ہماری گلی سے گزر نے والی تھی۔ ابھی ان تک پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ پھر گرفتار کر لیے گئے۔ پیچھے سے آواز۔

’’ارے آپ۔۔ آئیے۔ آئیے۔۔ ۔۔‘‘

’’ہم تو جانے کے لیے آرہے ہیں۔‘‘

’’جانے کے لیے تو سبھی آتے ہیں۔ لیکن ابھی آپ کیسے جا سکتی ہیں چلئے ہال نمبر دو میں بنیادی تعلیم والی کانفرنس ہے، اس میں شرکت کیجئے۔‘‘

پھر وہی نمبر دو۔۔ ۔۔

بڑی بے تعلقی سے ہم نے ان کی پیشکش ٹھکرانی چاہی۔۔ ۔۔

’’دیکھئے اول تو تعلیم۔ پھر بنیادی۔ اس سے ہمارا کیا تعلق؟‘‘

’’ہم سے تو ہے۔‘‘ انھوں نے گھسا پٹا ٹوٹا ٹاٹا رشتہ جوڑا۔ وہ ہماری کسی شاگرد کی دوست تھیں۔ اور پکڑ دھکڑ کر ہمیں ہال میں لے گئیں۔ اور حکم دیا۔ ’’دیکھئے آپ بولئے گا ضرور۔ یعنی بحث میں حصہ لیجئے۔‘‘

’’بھئی کیسی بحث، ہم بھڑبھڑائے۔‘‘

’’وہ تو آپ کو خود ہی سمجھ میں آ جائے گا۔‘‘ اور غائب۔ غالباً گرفتاری مہم کے سلسلے میں۔

خیر پانچ سات منٹ میں اس شاک سے Recover ہو کر ہم بحث میں جوش خروش سے حصہ لینے اور اسے آگے بڑھانے بلکہ اسے الجھانے کے قابل ہو گئے۔ ہماری آواز ہال میں دبکے بیٹھے دوسرے گروپ تک پہنچی۔ ایک صاحب نے وہیں سے ہاتھ ہلا کر ہمیں دل بدلنے اور فلور کراس کرنے کا مشورہ دیا جسے ہم نے اپنی نا سمجھی کی بنا پر رد کر دیا۔ تب وہ اٹھ کر آئے۔

’’آپ ہمارے گروپ میں آ جایئے۔‘‘

’’دیکھئے ہمیں ان لوگوں نے پکڑا ہے۔‘‘ وفاداری کا کچھ تھوڑا سا جذبہ اب بھی کبھی کبھی کہیں کہیں نظر آ  جاتا ہے۔

’’تو اب ہم پکڑ رہے ہیں۔‘‘

قصہ مختصر ہم نے اس میں بھی زبانی شرکت کی۔ دونوں طرف سے بستے کاغذ قلم اور ’’زاد راہ‘‘ کے لفافے بٹورے اور انھیں کی گاڑی میں شان سے واپس آ گئے۔ اب ہمارے پاس اتنے بیگ، پورٹ فولیو۔ فائل کور وغیرہ اکٹھے ہو چکے ہیں کہ ہم ان کا Clearance Sale کرنے والے ہیں۔ یا پھر ’’بھوپال میں کانفرنس اور سیمینار‘‘ کے عنوان سے آرٹ گیلری لگائیں گے۔ اور دولت کے ساتھ شہرت بھی بٹوریں گے۔

ہمارے ہمدرد کہ جن کے اب ہم ہمدرد بن چکے تھے ہمارے طول طویل داستان پہ کان دھر نے کے بجائے بھاگے۔ ہم سمجھے ہمارا حشر سیاسی نیتاؤں کا سو ہو رہا ہے۔ ہم نے پوچھا ’’آپ کہاں اور کیوں بھاگ رہے ہیں۔‘‘ کہنے لگے۔۔ ۔ استعفیٰ دینے۔۔ ۔۔! کہ ہم بھی کانفرنسوں کے سہارے عیش کریں گے۔۔ ۔‘‘

(ٹیڑھا قلم۔ ۲۰۰۳)

ڈاکٹر بانو سرتاج

ڈاکٹر بانو سرتاج بحیثیت افسانہ نگار اور ادب اطفال کے شعبے میں اپنی خدمات کے لیے مشہور ہیں۔ انھیں ادبِ اطفال کے سلسلے میں ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

۱۷؍ جولائی ۱۹۴۵ کو پانڈھر کوڑا، ضلع ایوت محل میں پیدا ہوئیں۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد جنتا کالج آف ایجوکیشن کی پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور چند برس پہلے سبک دوش ہوئیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ان کی چند تحریروں کے ہندی تراجم بھی شایع ہوئے ہیں۔

بانو سرتاج کے مزاحیہ مضامین میں روزمرہ زندگی کے واقعات ظریفانہ رنگ میں اپنا الگ تاثر پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال بانو سرتاج کے بارے میں لکھتے ہیں: ان کی مزاحیہ تحریروں میں بھی ایک علمی شان ہے۔ ان تحریروں میں تفکر و تبسم شیر و شکر کا رول ادا کرتے ہیں۔ ’’

خطرے کا الارم‘‘ اور ’’تیرا ممنون ہوں‘‘ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ ان کے کئی مزاحیہ مضامین ماہنامہ شگوفہ، حیدر آباد میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔

تیرا ممنون ہوں

ڈاکٹر بانو سرتاج

گزشتہ دنوں ہمارے پاس پی۔ ایچ۔ ڈی کا ایک مقالہ جانچ کے لیے آیا۔ مختلف جامعات سے مقالات ہمارے پاس آتے ہی رہتے ہیں لیکن ان پر فوری طور پر اظہار رائے کر کے رپورٹ روانہ کرنا ہمارے معمولات میں داخل نہیں۔ اس لیے کہ ہم ایسا کریں تو مصروف ممتحن اور اہم شخصیت کیوں کر کہلائیں۔؟

چنانچہ ہم خاصہ وقت رپورٹ بھیجنے میں گزار دیتے ہیں۔ یہاں ہمارے ضبط کا اور ارباب جامعہ کے صبر کا امتحان بھی مقصود ہوتا ہے۔ رپورٹ کی فوری روانگی اس ممتحن کے ذریعے عمل میں آتی ہے جنھیں یہ زرین موقع پہلی مرتبہ ملا ہوتا ہے یا جنھیں اس نوع کی ذمہ داریاں ہمیشہ نہیں، کبھی کبھار غلطی سے میسّر آ جاتی ہیں۔

قابل ممتحن وہ ہوتا ہے جو نہایت مصروف رہتا ہے۔ مصروف نہ بھی ہو تو تاثر یہی دیتا ہے۔ اس طرح وہ اعلیٰ درجہ کا ادا کار یا منافق ہوتا ہے۔ یہ دکھاوا، یا تاثر اور عرف عام میں یہ ناٹک اس کی فطرت ثانیہ کا جزو اول ہوتا ہے۔

وائے ناکامی کہ احساس زیاں جاتا رہا

ہم بھی کچھ ایسے ہی مصروف ممتحنوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرانے کے خواہاں تھے۔ اس لیے مقالہ کی وصول یابی کے فوراً بعد ہی ادھر رجوع ہونے اور پڑھ کر رائے قائم کرنے کی غلطی کا ارتکاب کم از کم ہماری ذات سے متوقع و ممکن نہ تھا۔ پہلے مہینے میں ہم مقالہ کا کوَر کھولتے۔ دوسرے مہینے میں مقالہ کی جلد کی خوبصورتی، مضبوطی اور پائداری کا جائزہ لیتے۔ تیسرے ماہ میں نفس مضمون پر نگاہ غلط انداز ڈالتے۔ چوتھے ماہ میں مقالے کی جانچ کرتے۔ پانچویں ماہ میں رپورٹ تیار کرتے۔ تب تک یونیورسٹی سے یاد دہانی کے دو چار خطوط آ جاتے مگر وہ ممتحن ہی کیا جو خطوط پر دھیان دے کہ یہ بھی پروفیسرانہ شان کے منافی ہے۔ تار وار آئے تو کوئی بات بھی ہے۔ تار کا انتظار کرتے۔ تار ملنے پر ہی رپورٹ روانہ کرتے۔ مگر ان دنوں ہم بے اداس تھے۔ بیگم میکے سے لوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ اس لیے مقالہ کے آتے ہی ہم نے اسے کھول لیا کہ کچھ تو ہو جس سے دل بہلا یا جائے۔ تو نہیں ہے۔ کوئی تدبیر تو ہے۔ دوسرے ممتحن سب سے پہلے مقالے کا خلاصہ پڑھتے ہیں بلکہ صرف خلاصہ ہی پڑھتے ہیں۔ ہم اظہار تشکر و ممنونیت کے اظہار کے لیے مختص صفحے کا مطالعہ کرنا اپنا اولین فرض گردانتے ہیں کہ ہم ایسے اہلِ نظر ان ہی صفحات سے مقالہ کے وزن و وقعت کا اندازہ کیا کرتے ہیں۔

در اصل ہم چاہتے ہیں کہ خوشگوار موڈ میں مقالے کی جانچ کریں کہ مبادا ہمارے مزاج کا کسی پر برا اثر پڑ جائے۔ اکثر مقالات کے مخصوص صفحات اتنے دلچسپ ہوتے ہیں کہ ان کی شگفتگی، مقالہ نگار کا بیڑا پار لگانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مقالہ نگار اپنے سرپرست و رہنما(تحقیق کی نا پسندیدہ لیکن مرغوب اصطلاح میں اس نوع کی مخلوق کے لیے گائیڈ کا لفظ مقبول ہے۔)سے شروع کر کے، اپنے خاندان کے جملہ افراد کو لے کر ہر اس شخص کے تئیں اظہار ممنونیت کرتا چلتا ہے جس سے تحقیق کے دوران اس کا رائی برابر بھلا ہوا ہو۔ گائیڈ کی نگاہ کرم(دستخط)کے بغیر مقالہ یونیورسٹی میں قابلِ قبول نہیں ہوتا اس لیے اس کے نام نامی سے ممنونیت کا اظہار ضرور ہی ہوتا ہے۔ چیلنج اور اختلافِ رائے کا خدشہ نہیں ہوتا کہ کہ تحقیقی مقالے پڑھنے کی چیز نہیں ہوتے۔ چنانچہ پڑھے بھی نہیں جاتے اس لیے گائیڈ کو بلا تامل جید عالم، باصلاحیت رہنما اور فراخ دل شخصیت کے خطابات عطا کیے جاتے ہیں۔ بعد ازاں روئے سخن گائیڈ کی شریک حیات کی طرف ہوتا ہے۔ کئی تعریفی کلمات ان کے نذر کرنے کے بعد کالج کے پرنسپل اور اگر نجی ادارہ ہے تو ادارہ کے صدر معتمد اراکین وغیرہ ہم کو مکھن لگایا جاتا ہے۔ ادب کی جس فیکلٹی میں تحقیق کی ہے۔ اس کے دو چار ڈاکٹروں اور پروفیسروں کا ذکر مقالہ کا وزن بڑھاتا ہے۔ خود کی شریک حیات کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ گھر میں چاہے جوتیوں میں دال بٹتی ہو مگر اظہارِ تشکر پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہر دو کی قربانیوں کی وجہ ہی سے تحقیق کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ خواتین زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ حسد کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں محبّت کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ سب کا حساب صاف رکھتی ہیں۔ خاتون مقالہ نگار مجازی خدا کے ساتھ اپنے جگر گو شوں کا بھی شکریہ ادا کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں حال کے ساتھ مستقبل پر بھی نظر رکھتی ہے۔ ایک مثالی اظہارِ تشکر Acknowledgement  کے ذریعے ہمیں اس خاتون مقالہ نگار کے حال اور مستقبل کے ساتھ ماضی کی شاندار تاریخ کا بھی تعارف حاصل ہوا تھا۔ اس نے کچھ یوں لکھا تھا۔ میں شکر گزار ہوں اپنے خلد نشین نانا جان (سابق ایم۔ ایل۔ اے) کی، جن کے حوصلہ دلانے پر میں نے تحقیق کا کام ہاتھ میں لیا۔ ہائی کورٹ جج چچا اور ایڈوکیٹ ماموں جان کی جنھوں نے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی۔ پرنسپل خالہ کی جنھوں نے لائبریری کی سہولیات بہم پہنچائیں۔۔ ۔۔ ڈاکٹر بھائی جان کی جنھوں نے تحقیق کے دوران میری صحت کا خیال رکھا۔ اکاؤنٹس آفیسر شوہر اور انجینئرنگ میں پڑھ رہے دونوں بیٹوں کی جنھوں نے حساب میں میری مدد کی۔ اظہارِ تشکر سات صفحات پر محیط تھا جس میں آگے چل کر بھائی بھتیجوں، نند، بھاوجوں اور پڑوسنوں کے ساتھ ہو سٹل کی میٹرن کا بھی شکریہ ادا کیا گیا تھا۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ عادت کے مطابق اس مقالہ کا بھی وہ صفحہ ہم نے سب سے پہلے پڑھا جسے ابھی ہم اپنا من بھاتا کہہ چکے ہیں اور فریفتہ ہو گئے انداز تحریر اور جدت بیانی پر، آپ بھی پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔ لکھا تھا۔

اظہارِ ممنونیت نہایت فرسودہ فضول لیکن نا گزیر رسم ہے۔ اس سے عہد بر آ ہونا مقالہ نگار کے لیے تقریباً لازم ہے۔ تحقیقی کام مکمل کر کے کسی بھی مشکور نہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے دنیا کے پیدا ہونے کو خالص اپنا کارنامہ گرداننا۔ یا خدا کے وجود سے انکار کرنا۔ ہر چند دنیا ایسے ملحدوں سے خالی نہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم از خود پیدا ہوئی مخلوق ہیں۔ سمجھتے رہیں میری بلا سے۔ مگر تحقیق کے میدان میں اس طرح کا خیال بھی گناہ ہے۔ تحقیق کی کتابوں میں لکھا ہے کہ (کسی عالم کا فرمودہ ہے؟ کون سی قابلِ ذکر تصنیف سے مرقوم ماخوذ ہے اس وقت ہمیں یاد نہیں۔ ویسے اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟ محض اظہار تشکر ہے اور برحق ہے کہ اظہارِ تشکر اور ممنونیت کے الفاظ میں تحقیق کا عنصر اور رد و توثیق کا خوف شامل نہیں ہوتا۔) اگر گائیڈ سے تمھارے تعلقات خوشگوار ہیں تو اظہارِ ممنونیت کرو اور اگر تعلقات خوشگوار نہیں ہیں تو ضرور بالضرور اظہار ممنونیت کرو یعنی مکھن لگا نے کا زرین موقع ہاتھ سے نہ جانے دو۔ مگر ایسا کیوں کروں؟ میں نے مکمل ساڑھے پانچ برس تک اپنے گائیڈ کی خوشامد کی ہے۔ جب بھی ان کے گھر گیا۔ آنند بھنڈار کے رس گُلّے ضرور لیتا گیا۔ ان کے بیٹے کی شادی میں صدر دروازے پر کھڑا ہو کر بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ کی تابندہ تصویر بن مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ان کے منجھلے بیٹے کے یہاں بیٹی کی پیدائش پر چاندی کی پازیب تحفتاً پیش کیں۔ ان کی شریک حیات کو بلڈ پریشر کی جانچ کروانے تین مرتبہ اسپتال لے گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ میں اپنے کالج کے لکچرر اور اسٹاف ممبران کا جھوٹ موٹ بھی شکریہ ادا کرنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ لوگ میرے منہ پر بھلے ہی میری حوصلہ افزائی کرتے ہو۔ پشت پر مبینہ طور پر بیان بازی میں مشغول پائے گئے کہ دیکھتے ہیں۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کیسے کرتا ہے؟ یا۔ دیکھ لی پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے والوں کی صورت!

جن افراد نے میرے تحقیقی کام میں کسی بھی طرح میری مدد کی، ان سب کی کوئی نہ کوئی غرض میرے اس کام سے وابستہ تھی۔ بے غرض خدمت کا اب زمانہ کہاں؟ کلجگ نہیں کر جگ ہے یہ۔ یاں دن کو لے اور رات کودے۔

کرجگ نہیں کل جگ ہے یہ۔ ست یگ نہیں کل یگ ہے یہ اس لیے ان سب کا شکریہ ادا کرنے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔ مثال کے طور پر، میری نصف بہتر نے ساڑھے پانچ برس تک جو ذہنی سکون مجھے بہم پہنچایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی دونوں چھوٹی بہنوں کو ڈاکٹر شوہر ملے تھے۔ وہ شدید احساسِ کمتری میں مبتلا ہو گئی تھی۔ میں اسے احساسِ کمتری سے چھٹکارا دلانے جا رہا ہوں، اس کے لیے اسے میرا ممنون ہونا چاہیے نہ کہ مجھے اس کا۔

مختلف جامعات کی جن لائبریریوں میں جا کر میں نے مطالعہ کیا وہاں کے لائبریرین حضرات کا شکریہ ادا کرنے میں کوئی شک نہیں۔ لائبریرین کا تقرر اسی لیے ہوتا ہے کہ وہ مطالعہ کے لیے کتب فراہم کرے۔ کتب فراہم کرتا ہے تو کوئی احسان نہیں کرتا۔

ٹائپسٹ نے مانا کہ مقالہ بہت اچھا ٹائپ کیا ہے مگر ایسا کرنا اس کے پیشے کے لیے ضروری ہے۔ خراب ٹائپ کرے گا تو اس کے پاس جائے گا کون؟ پھر اس نے تمام رقم پیشگی وصول کی تھی۔ دوم مقالہ کی ٹائپنگ شروع ہونے سے پہلے ہم میں ایک معاہدہ ہوا تھا کہ اگر کسی صفحہ کی ٹائپنگ سے میں مطمئن نہ ہوا تو اسے وہ دو بارہ ٹائپ کرنا ہو گا اور اگر میں خوش ہوا تو فی صفحہ پچیس پیسہ اسے انعام دوں گا۔ اس ہوشیار شخص نے مجھے کسی بھی صفحہ کی ٹائپنگ سے غیر مطمئن نہ ہونے دے کر اپنی محنت تو بچائی ہی پچھتّر روپیے انعام کے بھی وصول کر لیے۔ تحقیق کے میرے موضوع کے ان ماہرین اور اساتذہ حضرات کا میں قطعی شکریہ ادا کرنا نہیں چاہتا جنھوں نے میرے سوالنامے کا رسپانس تو دیا مگر اس وقت جب میرا مقالہ ٹائپنگ کے لیے جا چکا تھا۔

البتہ میں ممنون ہوں۔

سوالنامہ کو رسپانس نہ دینے والوں کا جنھوں نے سوالنامے کو ردّی میں فروخت کیا ہو، بچّوں کو ناؤ بنا کر دی ہو چولہے میں جلایا ہویا چاہے جو کیا ہو مگر بذاتِ خود یا بچوں سے اُلٹے سیدھے نشان لگوا کر مجھے نہیں بھیجا۔ (واپسی کے لیے رکھے گئے لفافے کو دو روپے دس پیسے کے ڈاک ٹکٹوں کے ساتھ اپنے پاس رکھ کر وہ زندگی بھر کے لیے میرے مقروض ہیں۔)اپنے گائیڈ کے گھر پر نہ ملنے کے اسباب کا جنھوں نے مجھ میں قوت برداشت کو فروغ دیا۔ غصّہ ضبط کرنے اور ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرنے کی صلاحیت بڑھائی۔ میری خود داری کی جو ہر جگہ میرے آڑ آتی تھی، نفی کرنے میں میری مدد کی۔

اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا جس نے میرے شہر سے گائیڈ کے شہر تک جانے کے لئے پانچ سو پچاس چکّروں میں سے پانچ سو مرتبہ اپنی ڈائریکٹ خدمات سے مجھے مستفیض کیا۔

ریلوے کے محکمے کا، جس نے پانچ سو پچاس چکّروں میں سے پچاس مرتبہ چھوٹ جانے پر اپنی ریلوں میں سفر کرنے کا موقع مجھے عطا کیا۔

اس سبزی والے کا جس کی دوکان پر کھڑا ہو کر میں گائیڈ کے گھر لوٹنے کا انتظام کیا کرتا تھا۔ جہاں مجھے سبزیوں اور ان کے داموں کی اتنی پہچان ہو گئی تھی کہ برا وقت پڑنے پر میں اس علم سے مکمل فیض اُٹھا سکتا ہوں یعنی سبزی بیچ کر بھی گزارا کر سکتا ہوں۔

اس بھورے کتّے کا، جس نے گائیڈ کے گھر سے ناکام لوٹتے دیکھ کر کبھی میرا مذاق نہیں اُڑایا بلکہ دف دف کر کے مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

اس رکشہ والے کا، جو مجھے اسٹینڈ پر بس سے اترتے دیکھ دوڑا دوڑا آتا تھا نہ صرف گائیڈ کے کوچے میں پہنچاتا تھا بلکہ (منجدھار میں نہ چھوڑ کر) میرا انتظار کرتا تھا کیونکہ جانتا تھا کہ گائیڈ گھر پر ملیں گے نہیں اور مجھے فوری اپنے شہر واپس جانا ہو گا۔

اس مجذوب کا، جو مجھے گائیڈ کے گھر کے قریب چوک میں دیکھتے ہی ہاتھوں سے چڑیا اُڑ جانے کا اشارہ کیا کرتا تھا۔ جدید علامتی نظموں کے مفہوم کی طرح اس کا ما فی الضمیر بھی مجھے بہت دنوں بعد سمجھا اور جب سمجھا تو چوک ہی سے واپس لوٹ جانے لگا۔

قریبی شہر کی اس آرگنائزیشن کا، جس نے عین ان ہی دنوں اپنی گولڈن جوبلی منائی اور میرے گائیڈ کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا۔ جب میرے گائیڈ نے ایمرجنسی کال کر کے مجھے طلب کیا تھا۔ میرے پہنچنے پر ساری کہہ کر مہمان خصوصی بن کر چلے گئے تھے۔ میں نے لوٹ کر کالج جوائن کر لیا تھا اور میری ایک ہفتہ کی رخصت ایل۔ بی۔ ڈبلیو ہونے سے بچ گئی تھی۔

گائیڈ کی دھرم پتنی کا، جو نہایت شفقت سے پیش آتی تھیں۔ اپنے پتی دیو کی گھر میں عدم موجودگی کی اطلاع دے کر ایک ہاتھ سے پانی کا گلاس ضرور پیش کر دیتی تھیں۔ گھر کی بڑی تھیں، مگر کبھی نہ بتاتی تھیں کہ ان کے پتی دیو کا محل وقوع کیا ہو سکتا ہے؟

ڈاک تار کے محکمے کا، جنھوں نے حسابیات والا حصّہ گیارہ مرتبہ کرنے کی مشق کے نتیجے میں پیدا شدہ آدھے سر کے درد سے مجھے نجات دلائی۔

ڈاکٹر جنھوں نے تحقیق کے لیے بھاگ دوڑ کے دوران میرا بلڈ پریشر نارمل رکھا۔

ڈاکٹر ج کا جنھوں نے میرا نروس بریک ڈاؤن ہونے سے بچایا۔ (میں نے گائیڈ کے انتقال پر ملال کی جھوٹی خبر کہیں سے سن لی تھی۔)

ڈاکٹر ’’د‘‘ کا جنھوں نے میڈیکل سرٹیفیکیٹ دے دے کر مجھے چھٹی دلائی۔

نیز سرٹیفیکیٹ میں نئی نئی بیماریوں کے حوالے دے کر اپنے سرٹیفکیٹ کو اعتبار بخشا اور میرے علم میں اضافہ کیا۔

اس اظہار تشکر کو پڑھ کر تین باتیں ہم پر واضح ہوئیں۔ اوّل تو یہ کہ مقالہ نگار اور اس کے گائیڈ ریاست کے دو مختلف اور دور دراز مقامات کے رہنے والے ہیں۔ دوّم یہ کہ تمام دوسرے گائیڈوں کی طرح اس گائیڈ نے بھی اسکالر کو ناکوں چنے چبوائے اور سوّم یہ کہ مقالہ نگار تحقیق سے کم، چکّروں سے زیادہ عاجز آیا۔ (ذیلی نتائج چاہے آپ جتنے اخذ کر لیں۔)

ہم نے مقالہ کی جانچ کر کے رپورٹ تیار کی اور مقالہ نگار کو زبانی امتحان کے لیے طلب کر لیا۔ وہ فوراً پہنچا۔ تیس بتیس برس کا خو برو جوان تھا۔ ہم نے کہا۔ ہم تم سے صرف دو سوال پوچھ رہے ہیں۔ اگر تشفی بخش جواب دے سکے تو ابھی رزلٹ دے دیں گے۔ پہلا سوال اس معیار اور انداز کے اظہار تشکر کے ساتھ تم نے گائیڈ سے دستخط حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کیسے کی؟ دوسرے کیا تم ادب میں دلچسپی رکھتے ہو؟

اس نے چونک کر ہمیں دیکھا۔ سر جھکا لیا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔ سر! میں بے حد عاجز آ گیا تھا۔ میرا پرموشن کا چانس چلا گیا۔

ہم نے اسے روک کر کہا۔ وہ سب ہم سمجھ گئے ہیں تم ہمارے سوالات کے جواب دو ہم نے رپورٹ تیار کر رکھی ہے۔ تم اگر اطمینان بخش جواب دیتے ہو تو ہم ابھی اسی وقت رپورٹ روانہ کر دیں گے۔ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر کہا۔ گائیڈ کو میں نے جو کاپی دی اس میں روایتی ڈھنگ سے لکھا ہوا اظہارِ تشکر تھا۔ بقیہ چار کاپیوں پر دستخط کر دیے۔ دوسرے سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ میں فلاں فلاں کے نام سے طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھتا ہوں۔

گُڈ! ہم نے خوش ہو کر کہا۔ ہمارا اندازہ صحیح نکلا۔ یہ لو۔ دیکھو۔ او۔ کے رپورٹ۔ اسے ہم ابھی روانہ کر رہے ہیں۔ وہ خوشی خوشی چلا گیا۔

اب ہم نے طے کر لیا ہے کہ کبھی کسی طنز و مزاح نگار کو اپنی سر پر ستی میں تحقیق کی اجازت نہیں دیں گے۔ جو طلباء فی الحال ہماری سر پر ستی میں کام کر رہے ہیں وہ دستخط کے لیے مقالے ہمارے پاس لائیں گے تو خواہ اصل مقالہ اور نفس مضمون نہ پڑھ سکیں لیکن مقالہ کاپی کا اظہار تشکر ضرور بالضرور اور غور سے پڑھیں گے اور پھر دستخط کریں گے۔ تجربے سے آدمی کو کچھ تو سیکھنا چاہیے۔

٭٭٭

مردِ میداں

طنزیہ و مزاحیہ مضامین

اور

خاکے

ڈاکٹر صفدر

صفدر یکم جولائی ۱۹۴۶ کو اچلپور (ضلع امراؤتی)میں پیدا ہوئے۔ ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی اسناد حاصل کیں۔ اردو ہائی اس کو ل، وروڈ (ضلع امراؤتی) میں تدریسی خدمات انجام دیں اور اسی ادارے کے پرنسپل کی حیثیت سے سبک دوش ہوئے اور امراؤتی میں سکونت پذیر رہے۔

ڈاکٹر صفدر بنیادی طور پر جدید شاعر اور تنقید نگار ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا اسلوب سلیم احمد اور وارث علوی کی یاد دلاتا ہے۔ اسی شگفتہ انداز میں انھوں نے مضامین کے علاوہ ’’روزنامہ صدائے ودربھ‘‘ امراؤتی میں ’’نیم کا رس‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھے۔ ان نگارشات پر مشتمل ان کی کتاب ’’آئینۂ خنداں‘‘ منظرِ عام پر آ چکی ہے۔ ان کی تحریر میں طنز کی زبردست کاٹ اور شگفتگی ہے۔ اسی منفرد انداز کے سبب وہ اس علاقے کے اہم مزاح نگاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ۲۶؍مارچ  ۲۰۲۳ء کو ان کا امراؤتی میں انتقال ہو گیا۔

قطب الدّین ایبک اور ہمارے کتب الدین

ڈاکٹر صفدرؔ

ہمارے ایک دوست ہیں۔ ان کے کان پر ہر وقت قلم رکھا ہوتا ہے اور میز پر کورا کاغذ۔ چنانچہ وہ لکھتے رہتے ہیں۔ لگاتار، بے تکان، بے حساب۔ جیسے گھوڑا گاڑی میں جتا چلتا رہتا ہے۔ چلتا رہتا ہے۔ مشین کپڑا سیے جاتی ہے۔ سیے جاتی ہے۔ ایسے ہی ہمارے دوست لکھے جاتے ہیں۔ لکھے جاتے ہیں۔

کاغذ سازی کے کارخانے میں ایک طرف سے لکڑی، بانس داخل کئے جاتے ہیں، دوسری طرف سے کاغذ نکلا چلا آتا ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ وہ کھاتے ہیں۔۔ ہضم کرتے ہیں۔ پھر کھاتے جاتے ہیں، بعینہ ہمارے دوست لکھے جاتے ہیں۔ کسی کتاب کا پڑھنا اُن کے لئے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ لکھنے کا مشغلہ پڑھنے، غور و فکر کرنے اور سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ چنانچہ بقول خود وہ صبح سے شام تک قلم گھسیٹتے رہتے ہیں۔

لکھنا اور لکھے جانا اُن کا مرض ہے۔ یہ کوئی مرض ہے تو اس کا کچھ علاج بھی ہونا چاہے۔ اُن کے معالج نے ’’ھو الشافی‘‘ لکھ کر لکھا۔۔

وہ لکھیں اور پڑھا کرے کوئی

پڑھنے کے لیے قاری چاہئے۔ ان کے احباب ہی اُن کے قاری ہیں۔ مگر وہ بھی یہ پڑھتے پائے جاتے ہیں کہ۔۔ ۔۔ ۔، اس مرض کی دوا کرے کوئی۔

ہماری رائے میں ہمارے یہ دوست تاریخ ساز شخصیت ہیں۔ موصوف اپنے ہر ممدوح کو عہد ساز شخصیت لکھتے ہیں۔ چونکہ اس ترکیب کے معنی ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ اس لئے ہم نے انہیں تاریخ ساز شخصیت لکھا ہے۔ تاریخ میں ان کا نام قطب الدین ایبک کے نام کے ساتھ لکھا جائے گا۔ قطب الدین ایبک نے قطب مینار بنایا تھا۔ ہمارے دوست ’’کتب مینار‘‘ بنا رہے ہیں۔ ہر سال چھ مہینے میں ان کی دو ایک کتابیں چھپ جاتی ہیں۔ یہ کام موصوف پورے ہوش و حواس، توجہ، انہماک اور ایمانداری سے انجام دیے جا رہے ہیں۔

ہم اگرچہ تاریخ کے ماہر نہیں ہیں، مگر تاریخ پر رائے دینے کا جمہوری حق تو رکھتے ہی ہیں۔ اسی لئے ہم نے اپنے دوست کا نام کتب الدین رکھ دیا ہے۔ ہم اپنے کتب الدین کو ’’قطب الدین‘‘ ایبک پر ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ قطب مینار کی چند منزلیں ہیں۔ زیادہ تھیں بھی تو اب چند رہ گئی ہیں۔ گذرتے وقت کے ساتھ شاید اور کم ہو جائیں۔ مگر کتب الدین کا کتب مینار ہر سال ایک دو منزل بلند ہو جاتا ہے۔ قطب مینار کی بلندی گھٹ رہی ہے۔ مگر کتب مینار کی بلندی میں مسلسل اضافہ ہوا جاتا ہے۔

آپ کو شاید حیرت ہو رہی کہ کیا کتاب لکھنا اتنا آسان کام ہے؟ آپ کی حیرت بجا۔ اردو کے آسمان پر مہر منور بن کر جگمگانے والے حضرت غالبؔ کا ایک دیوان ہے۔ اور بس میرؔ کے پانچ سات دیوان ہوں گے۔ میرؔ، غالبؔ، مومنؔ، پطرس مشہور ضرور ہیں مگر قلم کے سامنے عاجز ہیں۔ کتب الدین کے لئے کتاب دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بلکہ یہ ان کے دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کا کھیل ہے۔ وہ کسی کتاب یا ادیب پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک نئی کتاب بر آمد ہو جاتی ہے۔ بقول شخصے۔۔ ع۔۔ ۔ نگاہ مرد مومن سے نکل آتی ہیں تحریریں۔

سنا ہے عالم اَرواح میں ہمارے بزرگ شعراء اور ادیب منھ چھپائے پھرتے ہیں۔ لوگ پوچھ لیں کہ حضرت کتب الدین کے کارناموں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو کیا جواب دیں گے۔

یہ بھی سنا ہے کہ تمام آنجہانی شعراء اور ادبا دعا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ کتب الدین کی عمر دراز فرما۔ وہ مر کر یہاں آئیں اور ہمارا آمنا سامنا ہو، اس شرمندگی سے ہماری حفاظت فرما۔ وہ اس خوف سے لرزتے رہے ہیں کہ نہ جانے کس لمحے کتب الدین عالم ارواح میں وارد ہو جائے۔

کتب الدین کی سو کے قریب کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔۔ موصوف فرماتے ہیں کہ زیر طبع کتابوں کی تعداد شائع شدہ کتابوں سے دگنے سے بھی زیادہ ہے دُگنے سے کتنی زیادہ ہے، اس کا اندازہ لگانا دشوار ہی نہیں، بے حد دشوار ہے۔ وہ کس کتاب پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی کتاب بر آمد ہو جاتی ہے۔ لوگ ہنستے ہیں۔ مگر یہ ایک فطری امر ہے۔ آخر آدمی کے بطن سے آدمی، جانور کے بطن سے جانور نکلے چلے آرہے ہیں پھر کتاب سے کتاب نکلنے پر حیرت کی کیا بات ہے؟

ہماری باتوں سے آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے۔ نہ ہوئے ہوں تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ بھلا موصوف اتنا سارا کیسے لکھ لیتے ہیں۔ آپ نے وہ کہانی ضرور سنی ہو گی۔ ایک مرغا بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے چلا۔ راستے میں شیر ملا۔ پوچھا مرغ میاں کدھر؟ کہا ’’بادشاہ کی بیٹی سے شادی کرنے چلا ہوں‘‘ پوچھا ’’میں بھی چلوں؟‘‘ کہا ’’بیٹھ میرے کان میں۔ ہاتھی ملا۔ کہا بیٹھ میرے کان میں۔ دریا ملا۔ کہا بیٹھ میرے کان میں۔ سپاہی ملا۔ کہا بیٹھ میرے کان میں۔ بعینہ کتب الدین ہر کسی سے فرماتے ہیں‘‘ بیٹھ میری غزل میں، بیٹھ میرے مضمون میں۔ چنانچہ وہ کسی کی دال روٹی، کسی کی تکا بوٹی۔ کسی کی دراز کسی کی کوتاہ چوٹی سب پر لکھے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جس کا دائرہ کار اتنا وسیع ہو وہ کتنی کتابیں دے گا۔ پس وہ کتابیں دئے جا رہے ہیں۔ وہ کسی فون پر بات کرتے ہوئے مژدہ سناتے ہیں ’’ایک گڈ نیوز۔ میری کتاب آ رہی ہے۔‘‘ ہمیں کہنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ اچھا ہے۔ آپ فارغ ہولیں۔ مبارکباد!‘‘

ہمارے کتب الدین کسی کے شاگرد نہیں ہیں۔ اس لئے اُن کی تحریروں میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ موصوف نے کسی شاعر، کسی ادیب سے استفادہ کیا ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کسی کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ کس کی بات سنیں نہ سنیں۔ ندا فاضلی کی ایک بات گرہ میں باندھ لی ہے کہ

اوروں کے کندھوں پر چڑھ کے اپنے کندھے جھٹکو،

اِدھر اُدھر مت بھٹکو۔

چنانچہ وہ باغ اُردو میں کبھی ’ل‘ کے کندھوں پر چڑھ کر کندھے جھٹکتے ہیں، کبھی ’م‘ کے کندھوں پر اچکتے ہیں۔ کبھی ’ن‘ کی دستار پر بیٹھ کر مٹکتے ہیں۔

ہم نے اپنے ادیب دوستوں کی بے دماغی دیکھی ہے۔ ان کا حال محمد علوی نے یوں لکھا ہے۔۔ ۔ ع سنا ہے سیّد سے خاں ہوئے ہیں۔

مگر ہمارے کتب الدین جی ہاں جی ہاں ہوئے ہیں۔ اس لئے ارباب اقتدار کے کندھوں پر پائے جاتے ہیں۔ اور ہم ایسے بے دماغوں سے پوچھتے ہیں۔ میں کہاں ہوں؟

ہم بس یہ کہتے ہیں ’’جی!  آپ ’م‘ کے کندھے سے اچھل کر ’ن‘ کے کندھے پر جا بیٹھے ہیں۔ آپ کی اچھل کود یوں ہی جاری رہی تو ابجد ختم ہو جائے گی۔ تب آپ غریب غالبؔ کا یہ مصرع پڑھیں گے۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب!

ہم زندہ ہیں تو یہ دیکھنے کے لئے کہ۔۔ ۔۔

دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہوتی آئی ہے کہ دنیا اچھے اچھوں سے خوش نہیں ہوتی چنانچہ ایک ایسے ہی ناخوش آدمی کا تبصرہ یہ ہے کہ برق رفتار سفر کے باوجود کتب الدین وہیں کھڑے ہیں۔ جہاں روز اوّل پائے جاتے تھے۔ ہم نے کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ فرمایا ایک شخص کی کار سر شام بگڑ کر ایک جگہ کھڑی ہو گئی۔ اُس شخص نے گاڑی جیک پر چڑھائی۔ کار درست کی۔ پھر کار دوڑانی شروع کی۔ رات بھر کار فر اٹے بھرتی رہی۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ موصوف رات بھر سفر کرنے کے بعد بھی وہیں ہیں جہاں سر شام پائے جاتے تھے۔ در اصل کار جیک پر چڑھی ہوئی تھی۔

یہی حال کتب الدین کا ہے۔

ہماری دعا ہے کہ کتب الدین اندھیرے کے فریب سے نکل آئیں۔ روشنی میں سفر کریں اور واقعی نئی نئی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ آمین

(آئینۂ خنداں۔ ۲۰۱۹)

شکیل اعجاز

شکیل اعجاز ۲؍ جولائی ۵۴ ۱۹ کو اکولہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد غنی اعجاز کہنہ مشق شاعر تھے۔ شکیل اعجاز طنز و مزاح نگار اور مصور کے طور پر مشہور ہوئے۔ ’’در اصل‘‘(۱۹۸۳) اور ’’چھٹی حس‘‘ (۱۹۹۴) ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے ہیں۔ اسی رنگ میں ایک ناول ’’تیری قربت کے لمحے‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کی کتابیں ’’اوراق مصور‘‘ اور ’’سورج کی تلاش میں‘‘ علاقائی فنکاروں کے تعارف پر مبنی ہیں۔ بارسی ٹاکلی میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد سبک دوش ہوئے۔ ان کی تحریریں معیاری ظرافت کا نمونہ ہیں۔ ان کا بے تکلف اسلوب اور واقعاتی مزاح قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

ماہنامہ شگوفہ حیدر آباد نے ان کے متعلق ایک خصوصی گوشہ شائع کیا تھا۔ شکیل اعجاز کا ایک مزاحیہ مضمون ’’لیٹر پیڈ‘‘ مہاراشٹر کی بارہویں جماعت کی درسی کتاب میں شامل ہے۔

لیٹر پیڈ

شکیل اعجاز

آپ جس جگہ تشریف رکھتے ہیں وہاں سے سامنے کی برتھ پر سیدھی طرف دیکھیے، وہ جو، کھڑکی کے پاس نوجوان بیٹھا ہے۔ کیسا معصوم صورت دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے دل میں بھی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے گنجے کے سر پر چپت رسید کرے اور واپس اسی بے نیازی سے بیٹھا رہے لیکن وہ گنجے کے صحت مند جسم کے آس پاس بیٹھے پہلوانوں سے ڈرتا ہے۔ جہاں دونوں نہیں ہوں گے وہ اپنی خواہش پوری کرے گا۔ شیطانی خواہشیں ہم میں موجود ہوتی ہیں۔ ہم انہیں رسیوں سے باندھ کر اندھیری کوٹھری میں ڈال دیتے ہیں تاہم جب کبھی موقع ملتا ہے رسیاں تڑانے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ کئی نامور ادیب و شعراء کے بارے میں پڑھا ہے کہ وہ مختلف شیطانی خواہشات دلوں میں پالتے تھے۔ چوری کرنے کے شوقین کوئی صاحب اگر جبراً تعلیم یافتہ بنا دیے گئے ہو تو کتابیں چرا کر تسکین پا لیتے ہیں کہ کسی نے پکڑ بھی لیا تو سزا دینے کی بجائے اور مزید کتابیں ہی دے دے گا۔ ذوق مطالعہ سے متاثر ہو کر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ شریف النفس نظر آنے والوں میں بیشتر کے دلوں میں مجرمانہ خیالات کبھی نہ نکلنے والے کرایہ داروں کی طرح مقیم ہوتے ہیں۔

اگر آپ کے دماغ میں بھی یہ خیال سانپ کی طرح سرسرانے لگا ہو کہ کسی کے ساتھ دغا فریب کریں اور قانون سے بچے بھی رہیں تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لیٹر پیڈ چھپوا لیجیے۔ فی الحال اس سے زیادہ دھوکہ باز چیز کوئی اور نہیں، یقین نہ ہو تو ایک خوبصورت لیٹر پیڈ والا خط نکالیے۔ اور صاحب لیٹر پیڈ سے ملنے جائیے۔ واپس لوٹیں گے تو جھنجھلاہٹ کے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ آپ کے تصورات کا شیش محل حقیقت کے ایک ہی پتھر سے پاش پاش ہو چکا ہو گا۔ اس لئے کہ لیٹر پیڈ جتنا چکنا تھا وہ اتنے ہی کھردرے نکلے۔ یہ جتنا نفیس، وہ اتنے ہیں گندے، یہ جتنا کشادہ، وہ اتنے ہی کوتاہ دل، پھر آپ نے ہمت کر کے سوال کا ایک چابک ان کے کانوں پر رسید بھی کر دیا کہ۔۔ ۔۔ ۔۔

آپ اسی طرح رہتے بستے ہیں تو ایسا دھو کے باز لیٹر پیڈ کیوں چھپوایا؟

دو ٹوک جواب کے مضبوط ہاتھ آپ کو پوری طاقت سے شرمندگی کے کیچڑ میں اوندھے منہ گرا دیں گے۔

ہم میں جو نفاست اور دلکشی تھی اس پر صرف کر دی۔ آپ ہی بد ذوق اور نا سمجھ ہیں کہ لیٹر پیڈ دیکھ کر ملاقات کرنے چلے آئے۔ کل آپ یہ بھی کریں گے کہ اسٹیج پر کسی کو اکبر اعظم کا رول کرتے دیکھ کر فوراً جاگیر مانگنے چلے جائیں گے۔

آپ بے بس ہیں نہ پولیس میں رپورٹ لکھوا سکتے ہیں نہ ان کو پکڑ کر پیٹ سکتے ہیں۔ کہاں لکھا ہے اچھا لیٹر پیڈ چھپوانا جرم ہے۔

حالات زمانے کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی یہ دستور تھا کہ گھوڑا رکھنا شان سمجھا جاتا تھا۔ گھر میں چوری کرنے جیسا کچھ نہ ہو تب بھی دربان بِٹھانا وضع داری میں داخل تھا۔ اور لیٹر پیڈ چھپوانا باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔

دل کی سرزمین غلط فہمیوں کے درختوں کے لیے بڑی زرخیز ہوتی ہے اب یہ غلط فہمی بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے کہ لباس اور مکان کی طرح لیٹر پیڈ سے بھی شخصیت ابھرتی ہے۔ بعض لوگ اس مردم شناسی میں طاق ہوتے ہیں۔ لیٹر پیڈ سے شخصیت کے اظہار والی بات مشہور ہونے سے یہ نقصان ہوا کہ لوگ شخصیت کی بجائے صرف لیٹر پیڈ سنوارنے پر صلاحیتیں صرف کرنے لگے۔ ایک سے ایک خوش رنگ، خوش بو اور خوش قیمت لیٹر پیڈ چھپنے لگے اس سے سب کا تاثر ختم ہو گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے الفاظ کے مسلسل استعمال سے ہوتا ہے۔ سب واقف کہ السلام علیکم! کا مفہوم تم پر سلامتی ہوتا ہے تاہم دل میں صد فیصد نفرت رکھ کر سلام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ خود آپ نے کئی دفعہ کسی ناپسندیدہ شخص سے ہاتھ ملاتے ہوئے بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر کہا ہو گا اور مقابل نے بھی یقین کر لیا ہو گا کہ آپ کو قطعی خوشی نہیں ہوئی۔

گیارہویں جماعت میں ٹیچر نے ایک دن کہا کہ کل سے گیدرنگ شروع ہو رہی ہے یونیفارم کے بجائے عام لباس میں آ سکتے ہیں۔ دوسرے دن سے ہم میں قیمتی کپڑوں کے مقابلے شروع ہو گئے۔ ہر ایک کی یہی خواہش کہ سب سے منفرد دکھائی دے۔ ہمارے ایک دوست نے سوتی کپڑے کا پاجامہ کرتا اور مرزا غالبؔ ٹائپ ٹوپی سلوائی، شوز کے زمانے میں کہیں سے کھڑاوں لے آئے اور نہ صرف کلاس میں بلکہ پورے اسکول میں سب سے منفرد ٹھیرے۔ ایک سیدھے سادھے لباس نے قیمتی لباسوں کی چمک دمک ماند کر دی تھی۔ لیٹر پیڈ کا بھی یہی معاملہ ہوا۔ جب ساری شان و شوکت پیڈ پر سمٹ آنے لگی تو کسی نے سادے کاغذ پر مختصر سا نام پتہ لکھوا لیا اور ہزاروں کی بھیڑ سے الگ نظر آیا۔ آج کل پیڈ پہیلیوں کی شکل میں بھی آنے لگے ہیں۔ کسی پر صرف ایک چڑیا بنی ہے۔ آپ پہچانیے کہ یہ فلاں شاعر کا ہے۔ کسی پر چھری ہے آپ سوچیے کہ یہ تنقید نگار کا ہے۔ بعض پیشوں سے مناسبت رکھتے ہیں، چنانچہ کسی پر قینچی اور استرا بنا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ لیٹر پیڈ چھپوا کر مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور بادل ناخواستہ خطوط لکھتے رہتے ہیں۔ عموماً اس قسم کے لوگ اخبارات میں مراسلے اور ریڈیو فرمائشیں بھیجتے ہیں۔ ایک روپیہ بچانے کے لئے دس روپے خرچ کرنے والی بات آپ نے سنی ہو گی۔ اس کا عملی تجربہ کرنا ہو تو کسی کو لیٹر پیڈ چھپا کر دے دیجئے وہ اپنا سارا پیسہ بہت احتیاط سے ڈاک ٹکٹوں پر خرچ کرے گا۔ خطوط کے لیے موضوع کی تلاش کریں گے۔ کہیں بھیڑ دکھائی دی اور یہ اس امید پر وہاں لپکے کہ کسی کا قتل ہو گیا ہو گا پھر یہ دیکھ کر اداس ہو گئے کہ یہ تو ناقابل تحریر معمولی خراش والا معاملہ ہے۔ تھک ہار کر پڑوسیوں کو آپس میں لڑوا دیا اور فریقین کے رشتے داروں کو لیٹر پیڈ سے مطلع کر کے اطمینان کی سانس لی۔ یہ ساری بھاگ دوڑ صرف اس لئے کہ لیٹر پیڈ پڑے پڑے خراب نہ ہو جائے۔ یہ بھی کنجوسی کی ایک قسم ہے۔ ہم نے اپنے ایک کنجوس دوست کو سر درد کی دس ٹکیاں یہ کہہ کر دے دیں کہ ایک ماہ بعد بے کار ہو جائیں گی۔ دوسرے دن وہ دکانوں پر پوچھتے پھر رہے تھے کہ صاحب سر میں درد اٹھنے کی گولیاں ہوں تو دیجیے۔ مہینہ بھر تک سر میں درد اٹھنے کی دعا صدق دل سے کرتے رہے۔ کنجوس لوگ یوں بھی دلچسپ ہوتے ہیں۔ ایک صاحب ٹیلی گراف ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرڈ ہوئے تو اور معاملوں کے علاوہ بات کرنے میں بھی کنجوس ہو گئے تھے۔ دس سوالوں کا ایک جواب دیتے، جیسے زیادہ بولیں گے تو چارج بڑھ جائے گا۔ بکواس کرنے والوں کو فضول خرچ کہا کرتے تھے۔

کوئی شخص رشتے داروں کی کوششوں سے میٹرک پاس ہو جائے تو سرٹیفکیٹ فریم کروا کر دیوار پر لگایا جاتا ہے۔ کسی کی ایک آدھ تصویر فوٹو گرافر کی لغزش سے اچھی نکل آئے تو اسے ڈرائنگ روم میں بارہ سینگھوں کے سینگ یا شیر کی کھال کی طرح سجاتا ہے۔ ایک کہنہ مشق لیکن بے تکے شاعر کے گھر میں ایک فریم اہتمام سے لگی دیکھ کر پوچھا تو پتہ چلا کہ کسی ایسے نقاد نے، جو اچھے اچھوں کو شاعر نہیں مانتا، ان پر ترس کھا کر دو تین تعریفی جملے لکھ دیے تھے۔ اسی طرح جو لوگ کافی تگ و دو اور منت سماجت سے دو ایک انجمنوں کی صدارت۔۔ ۔ یا سکریٹریٹ سے جھولی بھرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ لیٹر پیڈ میں اس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ بلکہ ذکر کے لئے ہی پیڈ چھپاتے ہیں۔ برسوں بعد ایک دوست کا خط ملا تو ہم بہت حیران ہوئے۔ پیڈ پر ان کے نام کے نیچے جلی حروف میں یہ لکھا تھا۔

صدر اور سکریٹری انجمن نصیب ماراں اسکول لائف میں وہ بڑے مظلوم سے تھے۔ اچانک اتنے سرگرم کیسے ہو گئے کہ صدر اور سکریٹری بننے لگے۔ چھان بین پر پتہ چلا کہ یہ جس انجمن کے صدر ہیں اس میں دو ہی ممبر ہیں۔ ایک تو یہ خود ہیں اور دوسرے بھی یہی خود ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ لیٹر پیڈ پر جن کمیٹیوں اور انجمنوں کا ذکر ہوتا ہے ان میں سے بیشتر ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ایسے پیڈ عہدوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ خط لکھنے کے لیے ذرا سی جگہ بچ رہتی ہے۔ اور اگر عدم خود اعتمادی یا احساس کمتری کا آتش فشاں پھٹ نہ پڑا تو سابق عہدوں کا بھی تذکرہ ہوتا ہے جیسے

سابق اسکول کیپٹن پرائمری اسکول نمبر 3

ان میں سابق بہت چھوٹے قلم سے لکھا ہوتا ہے

ممکن ہے مستقبل میں ایسے پیڈ بھی چھپیں جن میں آئندہ عہدوں کا تذکرہ ہو۔

گورنر آف دی اسٹیٹ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ (مستقبل)

نوبل پرائز یافتہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ (مستقبل)

دنیا کا سب سے اچھا اور عقلمند آدمی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ (مستقبل)

تیسرے درجے کا عشق پیڈ کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ نامہ بر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔

عشق جتنا سطحی ہو گا پیڈ اتنا قیمتی ہو گا۔ بیروزگار عاشق دکانوں پر پیڈ تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ کامیاب تاجر وہی ہو گا جو گاہک کی دکھتی رگ پکڑ سکتا ہو۔ چنانچہ کمپنیاں خصوصی پیڈ تیار کرتی ہیں۔ جن میں عمر خیام، بیل باٹم پہنے، ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں خالی گلاس لئے (جو عمر خیام نے بے خودی میں الٹا پکڑ رکھا ہے۔) لڑکی کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہاتھ میں ایک صراحی ہے جس کے ٹوٹی اور پیندا نہیں ہے۔ وہ فرط مسرت سے ایسی دیوانی ہو چکی ہے کہ الٹے گلاس کی بجائے سگریٹ میں انڈیل رہی ہے۔ سچا عشق وہی جو بس بھروسہ کر لیتا ہے۔ دلائل نہیں مانگتا۔ اس لئے عاشق و معشوق پر لازم ہے کہ وہ اس طرف توجہ نہ دے کہ عدم پیندگی کے باوجود صراحی سے گڑ کی چائے کیوں نکل رہی ہے۔ محبت سچی ہو تو صراحی کو پیندے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جنگل کے سارے پھول اڑ اڑ کر دونوں کے پاس آ گئے ہیں۔ پس منظر میں سورج کی روشنی پھیلی ہوتی ہے اور بادلوں سے چاند نکل رہا ہے۔ بارش زوروں سے ہو رہی ہے۔ کمپنیوں کے مالک بھلے ہی جاہل ہوں مگر اس راز سے واقف ہیں کہ اشعار میں جادو ہوتا ہے۔ وہ پڑھے لکھے کو بلا کر کسی بڑے شاعر کے شعر کی نمائش کرتے ہیں۔ پڑھا لکھا غور سے دیکھتا ہے کہ عمر خیام زمین پر بے چینی کے عالم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ لڑکی کے گلے میں زنجیر لٹک رہی ہے۔ اور یہ شعر لکھ دیتا ہے

اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالان

طوق زریں ہمہ در گردن خر می بینم

دونوں شعر پڑھتے اور سر دھنتے ہیں۔ (شعر سمجھ میں نہ آئے تو سر دھننے میں زیادہ لطف آتا ہے۔)

کوئی صاحب غلط فہمی کے مسحورکن بازوؤں میں سمٹے نہ رہیں کہ لیٹر پیڈ ترقی یافتہ دور کی دین ہے۔ یہ تو اسی وقت وجود میں آ گیا تھا جب انسان نے لکھنا شروع کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ آج کا لیٹر پیڈ کاغذ سے بنتا ہے، پرانے وقتوں میں چٹانوں اور پہاڑوں سے بنتا تھا۔ وہ زیادہ پائیدار ہوتا تھا۔ نہ پھٹنے جلنے کا خدشہ، نہ تحریریں مٹ جانے کا ڈر، ہزاروں سال پرانے یہ لیٹر پیڈ چٹانوں اور پہاڑوں کی صورت میں آج بھی محفوظ ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔

تاریخ نویسوں نے قدیم شہنشاہوں کے بارے میں یہ افواہ پھیلا رکھی ہے کہ انہیں عمارتیں بنوانے کا شوق تھا۔ در اصل انہیں لیٹرپیڈ بنوانے کا شوق تھا۔ یقین نہ آئے تو لال قلعہ، اشوک کی لاٹ، تاج محل، قطب مینار اور دوسری عمارتیں دیکھ آئیے۔ وہاں جا بجا آپ کو تحریریں دکھائی دیں گی۔ تاج محل کو بھلے آپ مقبرہ کہیں ہم تو لیٹر پیڈ کہیں گے۔ دیکھیے کیسا خوبصورت خوب رنگت اور خوب قیمت لیٹر پیڈ ہے۔

(چھٹی حس۔ ۱۹۹۴)

یارانِ بے پیالہ

اس باب میں ودربھ کے ان قلم کاروں کے مضامین شامل ہیں جن کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا کوئی مجموعہ تا حال منظرِ عام پر نہیں آیا لیکن ان کی ظریفانہ تخلیقات رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

ڈاکٹر سمیع بن سعد

ڈاکٹر سمیع اللہ نے سمیع بن سعد کے قلمی نام سے چند مزاحیہ مضامین تحریر کئے تھے جو ماہنامہ شگوفہ اور دیگر اخبارات و رسائل میں شایع ہوئے تھے۔ ان کے والد ڈاکٹر سعد اللہ معروف ادیب اور محقق ہیں۔

ڈاکٹر سمیع اللہ ۱۹۵۳ میں جلگاؤں جامود میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جعفر زٹلی کی شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ گورنمنٹ کالج امراؤتی میں پروفیسر مقرر ہوئے اور امراؤتی یونیورسٹی کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ان کے مضامین میں ظرافت اور انشا پردازی کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے مضامین اعتراض اور تزکِ چغدی ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہو چکے ہیں۔

تزک چغدی

سمیع بن سعد

بات بہت پرانی ہے آدم علیہ السلام کی تخلیق ہو رہی تھی اِس پر و ٹو ٹائپ کو فرشتے اسی حیرت سے دیکھ رہے تھے جیسے کسی کارخانے میں کسی نئی مشین کا پروٹوٹائپ تیار ہوتا ہے تو کاریگر متعجب ہو کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟ اس کا مصرف کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ آب و گل کے اس پروٹوٹائپ کے اندر کیا ہے، فرشتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے رو بوٹ یا کمپیوٹر کی ایک آدھ خصوصیت دکھانی منظور ہوئی تو فرشتوں کے سامنے آٹومیٹک ٹی۔ وی پر کائنات کی تمام اشیاء کو پیش کر کے فرمایا ان کے نام تو بتاؤ۔ فرشتے حیران رہ گئے وہ تو صرف وہی جانتے تھے جس کا علم خدا نے ان کو دیا تھا۔ اس امتحان میں تو وہ صفر لے کر رہ گئے۔ اب آدم کے سامنے انھیں اشیاء کو پیش کیا گیا تو آں جناب نے اِن تمام کے نام و خواص فٹافٹ بتا کر فرشتوں کو اس طرح حیران کر دیا جس طرح شہر کا پڑھا لکھا، دنیا دیکھا، ماڈرن آدمی دور دراز کے دیہاتوں میں رہنے والوں کو اپنی باتوں سے حیران کر دیتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ ان حضرت میں ایک صفت یہ بھی موجود ہے کہ نہ صرف اشیاء کے نام رکھ دیتے ہیں بلکہ ان کی خصوصیات بھی اسی شدومد کے ساتھ ظاہر کر دیتے ہیں جس طرح ایک بازاری دوا فروش جڑی بوٹیوں کو بیچتے وقت بتاتا ہے۔ (صداقت سے ہمیں بحث نہیں)

ہمارے جد امجد کی یہی عادت یا خصوصیت ہماری گھٹی میں پڑ گئی اور نتیجۃً ’’نام رکھنا‘‘(اچھا یا برا) ہماری سب سے ’’بڑی عادت‘‘ بن گئی، جہاں کسی چیز کو دیکھا نہیں کہ اس کا نام معلوم کرنے کی جستجو ہوئی اور معلوم ہوا تو ٹھیک ورنہ رکھ دیا۔ نہ صرف نام بلکہ تجربہ یا تجربہ کاری کی بناء پر اس کی صفت بھی مقرر کر دی۔

مثالوں کی کثرت موضوع کو کتاب الامثال بنا دے گی۔ ایک دو سطروں کی مثالیں دیتا چلوں۔ کسی ارسطو زماں کا قول ہے کہ اگر دنیا میں محنت کی قدر ہوتی تو گدھے کا پہلا نمبر لگتا۔ عالم الحیوانات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گدھے سے بڑھ کر کوئی مضبوط، جفا کش، صابر شاکر اور عقلمند شاید ہی کوئی جانور ہو۔ مذہبی رہنماؤں کے نزدیک بھی یہ مقدس ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اسے سواری کے لیے پسند فرمایا تھا۔ فلسطین، شام، مصر، ایران کے عام لوگ اس کو زندگی کا جزو لازم سمجھتے ہیں۔ لیکن اس صابر، شاکر، عاقل، بالغ، محنتی جاندار کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا ذرا دیکھئے تو ہمارا ادب اس کا آئینہ دار ہے۔ ہمارے خیالات، گفتگو، ہمارا برتاؤ سب اس بات کا غماز ہے۔ ہمارے پاس گدھے سے زیادہ احمق، جاہل، نالائق قابل نفرت کوئی جاندار شاید ہی نکلے۔

اب دوسری مثال ملاحظہ فرمائیے: – شہباز شب، چغدِ دوراں، حضرتِ الّو عرف گھگھو وغیرہ۔ وہ بے چارہ، عابدِ شب زندہ دار، صوفیِ وقت شب، قانع زمانہ، تنہائی پسند جاندار ہمارے یہاں مفت مارا گیا ہے۔

اس کا قصور صرف یہی ہے کہ وہ کوّے چڑیوں کی طرح دن بھر ہماری نظروں کے سامنے نہیں رہتا اور نہ ہمارے بچوں کے ہاتھوں سے روٹی بوٹی چھین کر لے جاتا ہے۔ رات کی تنہائی میں جب سارا عالم محو خواب ہوتا ہے یہ عابدِ شب زندہ دار کسی ویرانے میں تنہا مقام پر گپھاؤں میں رشی منیوں کی طرح ہو حق کر لیتا ہے۔ اسے سوائے قوت لایموت کی تسکین کے کبھی بیجا ہوس نہیں ہوتی۔ چند گھونسیں، چند چوہے باقی اللہ خیر صلہ ملے تو ملے نہیں تو ہوائی کیڑوں سے ہی شکم دوزخ کو پُر کر لیا اور ہو حق میں مصروف۔ وہ وقفے وقفے سے آوازیں نکال کر غافلوں کو جگاتا رہتا ہے کہ…… سوتا ہے کیا۔

ایسے پرندے کو ہم نے کس نظر سے دیکھا۔ جہاں کسی نامعقول کو دیکھا، احمق کو دیکھا کہہ دیا۔۔ ابے اُلّو۔ دنیا بھر کی نحوست بے چارے کے سر لادی گئی، طرح طرح کی روایات گھڑی گئیں۔ بچوں سے لے کر بوڑھے تک اس سے ڈرنے لگے، نفرت کرنے لگے۔ جہاں بھولے سے اس نے کسی چھت پر قیام کر کے آواز لگائی۔ اہلیانِ خانہ ہش ہش کہہ کر اڑانے لگے اور پڑوسیوں کے گھروں پر پتھر برسانے لگے۔ کیونکہ تو ہم یہ ہے کہ اگر الّو پر پتھر مارا جائے تو وہ جھیل کر پنجے میں پکڑ کر اڑ جاتا ہے اور پھر پتھر کو گھولتا رہتا ہے اور پتھر پھینکنے والا گھل گھل کر مر جاتا ہے۔

مشرقیوں نے اس پرندے کو اس قدر منحوس سمجھا لیکن مغربیوں کا معاملہ ذرا الٹا ہے۔ جناب شیکسپیئر نے اس کی تعریف کی ہے اور اس کی ہو حق کو سُر مسرت (A merry note) قرار دیا ہے مغرب کی کئی کمپنیوں کا نشانِ تجارت الّو ہے۔ Henry Holts مشہور کتب فروش ہے ان کا نشان بھی الّو ہی ہے۔

الّو کو برا کہنا ہماری زبانی جمع خرچ ہے۔ ورنہ ہمارے مشرقی ادب میں کہیں کہیں یہ تاریخ ساز ہستی نظر آتی ہے۔ مثلاً اس مشہور الّو کا ذکر ہم صدیوں سے پڑھ رہے ہیں جس نے نوشیروانِ عادل کی تشکیل کی تھی۔ قصہ مشہور ہے کہ ابتداء میں یہ بادشاہ اشوک اعظم کی طرح بڑا جنگجو تھا اور اس کے ظلم و ستم سے ملک تباہ و برباد ہو رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنے وزیر بزرجمہر کے ساتھ شکار کے لیے جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ ایک درخت پر دو عابدوں کو ایک دوسرے پر آوازیں کستے دیکھ لیا۔ بزرجمہر سے کہا تم تو جانوروں کے بہت اچھے ٹرانسلیٹر اور ماہر لسانیات ہو۔ بتاؤ تو یہ دونوں بزرگ کیا  فرما رہے ہیں۔ وزیر نے جو کہ موقع شناس و مردم شناس تھا، گرم لوہے کو دیکھ کر چوٹ کی کہ دونوں حضرات الّو شادی کی نسبت باتیں کر رہے ہیں (مشرقی جو ہیں ورنہ ان کی لڑکی لڑکا خود ہی کو رٹ شپ کے ذریعے ایک دوسرے کو پسند نہ فرما لیتے) ایک صاحب کہ پدر دختر نیک اختر اور دوسرے کہ پدرِ فرزند نیک فال ہیں۔ پدر نوشہ کا کہنا ہے کہ جانِ عزیز اگر میرے بیٹے سے شادی کرنا چاہتے ہو تو دس ویرا نے ڈاوری میں دے دیجئے تاکہ ہمارا پورا خاندان اس جاگیر سے مستفید ہو سکے۔ پدرِ دختر نیک اختر فرما رہے ہیں کہ بھائی فی الحال تو میرے پاس ایک ہی ویرانہ ہے جہاں ہو حق کر لیتا ہوں لیکن ہمارا بادشاہ اپنے کاروبارِ سلطنت کو اسی طرح جاری رکھے تو جلد ہی دس کیا سو ویرانے مہیا ہو جائیں گے اور وہ سب بخوشی سو ویرانے نذر کروں گا حضور کی۔ اور پھر اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ میں لکھا ہوا ہی ہے۔ نوشیروان عادل بن گئے اور تاریخ میں اپنے ساتھ اس عقلمند الّو کا بھی نام ثبت کر گئے۔

آج کا زمانہ ہوتا تو اس کے سونے کے بت جگہ جگہ چوک، چوراہوں پر نصب ہو جاتے تاکہ بنانے والوں، کاریگروں اور اسکیم نکالنے والوں کا بھلا ہو جاتا اور بچوں پر کھیلنے کودنے، ان کے سروں پر پھاندنے، گھوڑا بنانے کا موقع ہاتھ آ جاتا اور اشتہار والوں کو اس پر اشتہار لگانے کی جگہ میسر ہو جاتی۔

الّو ایک قسم کا نہیں ہوتا، انسانوں کی طرح کئی قسم کا ہوتا ہے۔ اس میں بزرگی اور بڑائی جسامت کے لحاظ سے نہیں بلکہ نام کی وجہ سے آتی ہے۔ مثلاً ایک بازار میں جب چڑی مارنے بڑے جسم الّو کے مقابلے میں چھوٹے الّو کی قیمت زیادہ بتائی تو وجہ دریافت کی گئی۔ فرمایا کہ یہ فارن کا مال ہے (حالانکہ اصلی ملکی تھا) اور بڑا تو صرف الو ہے، یہ چھوٹا الو کا پٹّھا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب قیس کا انتقال ہو گیا تو لیلیٰ اس کی قبر پر آئی اور قیس کا ہی ایک شعر پڑھا کہ لیلیٰ میری قبر پر آ کر آواز دے گی تو میری روح قبر سے نکل کر آواز دے گی۔ اور زور سے آواز دی…….. افسوس کے دورِ حاضر کے عاشقانِ نامدار کی طرح قیس بھی اپنا وعدہ وفا نہ کر سکا۔ اس کی قبر سے ایک الّو جسے صدی کہتے ہیں نکل کر بدحواسی میں جھپٹا۔ لبنیٰ کی اونٹنی کے منہ پر لگا۔ جس سے وہ بدک گئی اور بیچاری لبنیٰ اپنے عاشق سے جا ملی۔

الّو کی کی ادبی خدمات میں سے قابلِ ذکر یہ ہے کہ اس نے اردو کو کئی محاورے دیے ہیں۔ الّو کا پٹھا، الّو کی دم، بے دال کا بودم، الّو بننا، الّو بنانا، الّو کا گوشت کھلانا، الّو سیدھا کرنا، وغیرہ وغیرہ۔

عرصہ ہوا ہماری نظر سے پرانی بوسیدہ چھوٹی سی کتاب ’’ادویات الّو‘‘ گزری تھی۔ ہم حیران ہوئے الّو کب سے حکیم بن گیا۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ نسخہ علم طب کی کم اور ٹونا ٹوٹکا کے نسخوں سے زیادہ مزین ہے۔ افسوس کہ اس وقت ہم نے اس میٹریا میڈیکا آف الّو کی قدر نہ جانی اور پچھتا رہے ہیں۔ اس کے اندر الّو کی ہر شئے سے دواؤں اور ان کے طلسماتی اثرات کا ذکر تھا۔ بطور نمونہ۔ ھو الشافی

۱۔ الّو کے پروں کا کاجل لگا کر پیشِ معشوق جائیں تو چشم زدن میں بیقرار و گرفتار عشق ہو جائے۔ (اس نسخہ میں راز داری برتیں۔ کیونکہ آج کل جب کہ انگشتریاں، کاجل اور سرمے دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں اور نوجوان ان کے دیوانے ہو رہے ہیں۔ ورنہ یہ لوگ الّو کا وجود ہی ختم نہ کر دیں)۔

۲۔ الّو کے خون سے رنگا کپڑا جلا کر راکھ حاصل کریں۔ جن دو شخصوں کے سر پر چھڑکیں گے ان میں جنم جنم کی دشمنی پیدا ہو جائے گی۔ (آج کی سیاسی پارٹیوں پر کسی ستم ظریف نے شاید یہی نسخہ آزمایا ہے)۔

۳۔ ایک اہم اور قیمتی نسخہ برائے امتحان دہندگان۔ (ہوشیار کہ ہماری باری آئی)….. الّو کا دماغ سکھا لیا جائے۔ چالیس رات تاروں کی چھاؤں میں چھت پر رکھا جائے۔ روغن زیتون میں ڈال دیا جائے۔ اماوس کی رات اس تیل کو نتھار لیا جائے۔ نسخہ تیار ہے اس کو سر پر لگائیں چودہ طبق روشن۔ اس کا کاجل بنا کر آنکھ میں لگا کر جائیں۔ نقل کریں نقل پکڑی نہ جائے گی۔ آپ بھلے ہی پکڑ لیے جائیں۔

اس کتاب میں یہ نسخے بھی تھے: –

بے موسم پھل کھائیں۔ محبت کے کئی نسخے اور فارمولے، ڈاکو گرفتار کرنے کے نسخے، عقل حاصل کرنے کے نسخے، روزگار کے نسخے، نیند لگانے و اڑانے کے نسخے، دودھ پر سے جانور اڑانے کے نسخے، اپنا بھلا، دوسروں کا نقصان کرنے کے نسخے، وغیرہ وغیرہ۔

اگر آج اس کتاب کو کوئی ہمیں لادے تو ہم نہ جانے اسے کیا کیا دے دیں۔ کیونکہ ہم تو اس کی بدولت ہزار پتی ہو جائیں گے لانے والے کا بھی بھلا ہو گا یہ کتاب ہماری غیر حاضری میں حکیم شیخ غیب نے غائب کر دی۔ وہ عرصے سے ٹونے ٹوٹکے، علاج معالجے وغیرہ میں لگے ہوئے تھے۔ کسی ستم ظریف نے پتہ دے دیا کہ ہمارے پاس دیہاتی معالج، رہنمائے صحت، ہمدرد صحت، مستانہ جو گی وغیرہ کے پرچے ہیں اور افسوس کہ انھیں کا معائنہ کرتے ہوئے وہ کب اس کتاب کو اپنی تھیلی میں رکھ کر رفو چکر ہو گئے پتہ نہ چلا۔ بعد میں ان کا بھی پتہ نہ چل سکا۔ اللہ عالم الغیب ہے۔

اب الّو خوانی آخری مراحل کی طرف قدم زن ہوتی ہے۔ ادب میں اس کے کئی نام ہیں۔ الّو، چغد، بوم، صدی، گھگھو، شہباز شب (یہ نام علامہ اقبال نے دیا ہے)

تعارف و تعریفات الّو کے خاتمہ پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ ؎

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

(ماہنامہ شگوفہ دسمبر ۱۹۸۱)

محمد خورشید نادرؔ

محمد خورشید نادرؔ کا تعلق کامٹی سے تھا۔ انھوں نے ماہنامہ شگوفہ میں کئی مضامین تحریر کئے جن میں مردم گزیدہ۔ معیارِ انتخاب اور والدین قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی تحریروں میں حسِ مزاح کے علاوہ ان کے مطالعے، مشاہدے اور غور و فکر کے شواہد ملتے ہیں۔

خورشید نادر نے فنِ ظرافت سے متعلق بھی ایک طویل مضمون تحریر کیا تھا جو ماہنامہ شگوفہ میں بالاقساط شائع ہوا تھا۔ ان کا ایک اور دلچسپ مضمون معیارِ انتخاب شگوفہ میں شائع ہو چکا ہے۔

والدین

محمد خورشید نادرؔ

اللہ تبارک و تعالیٰ کا کرم و احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو والدین جیسی نعمت عطا فرمائی۔ یہ نعمت عظمیٰ مفت اور عام ہے۔ زاہد و عابد اور خاطی و عاصی کی کوئی تخصیص نہیں، حتیٰ کہ منکر و ملحد اور زندیق و مرتد کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔ لطف یہ کہ یہ نعمت بلا طلب ملی ہے اور جو غالبؔ نے کہا ہے ؎

بے طلب دیں تو مزہ اس میں سِوا ملتا ہے

تو اس کا اطلاق والدین پر بھی ہوتا ہے کیونکہ بچوں کو والدین بے طلب ہی ملتے ہیں۔ نہ بچوں کا مزاج گدایانہ ہوتا ہے نہ ان میں خوئے سوال ہوتی ہے۔

یہ والدین بچوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے ایام طفلی کا سہارا، پرورش، نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار اُن کے جملہ اخراجات کے کفیل اور شرارتوں کے معاملے میں ان کے وکیل ہوتے ہیں۔ والدین یہ فرائض اعزازی طور پر انجام دینے کے لیے مامور مِن اللہ ہیں۔ انھیں نہ ستائش کی تمنا ہوتی ہے اور نہ صلہ کی پرواہ۔ وہ اس بات کے لیے مجبور ہیں کہ حتی المقدور اپنے فرائضِ منصبی انجام دے کر عِند اللہ ماجور ہوں۔

بعض والدین عجیب الوضع ہوتے ہیں۔ بعض غریب القطع، بعض شاخِ بے ثمر کی طرح ہوتے، بعض کثیر العیال اور قلیل الغذا۔ کچھ قِران السعدین کے نمونے ہوتے ہیں، کچھ اجتماع ضدّین کے، بعض میں موزونیت پائی جاتی ہے بعض میں شتر گربگی۔ بسا اوقات ماں ٹینی ہوتی ہے باپ کلنگ اور بچے رنگ رنگ۔ بعض عجیب الخلقت مجموعوں کو دیکھ کر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ان کی جلد سازی میں یقیناً دستِ قدرت کا دخل ہے۔ لیکن قدرت ایسے ماڈل تفریح طبع کے لیے نہیں، دیدۂ عبرت نگاہ کے معائنہ کے لیے فراہم کرتی ہے، بقیہ معاملات میں خود حضرتِ انسان کی کاوش و انتخاب کا دخل ہوتا ہے۔ بعض مضحکہ خیز جوڑے شرارت یا دانستہ چشم پوشی کے باعث بھی وجود میں آتے ہیں۔ ایک درد مند بیوی نے اپنے شوہر سے کہا،

’’آپ کا دوست جس لڑکی سے شادی کرنے والا ہے وہ انتہائی بد سلیقہ، زبان دراز اور مردافگن قسم کی ہے۔ آپ اسے اس شادی سے بعض رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟‘‘ شوہر نے گردن جھٹک کر کہا، ’’میں اسے ہرگز منع نہیں کروں گا، میں جب تم سے شادی کرنے والا تھا تو کیا اس نے مجھے حقائق سے آگاہ کیا تھا؟‘‘

مگر بعض معاملات میں فریقین جملہ معاملات بالا بالا ہی طے کر لیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ ایک صاحب اپنے خانگی حالات سے سخت نالاں، بیزار اور دلبرداشتہ تھے کسی نے سبب دریافت کیا تو کہا،

’’اپنی ناعاقبت اندیشی اور جلد بازی کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ شادی اپنی پسند سے کی تھی۔ ہوا یہ کہ جب اس سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو میں بولتا رہا اور وہ سر جھکائے خاموشی سے سنتی رہی۔ بعد میں ملاقات ہوئی تو وہ مسلسل بولتی رہی اور مجھے بولنے اور مزید دریافت حال کا موقع ہی نہ ملا۔ وقتِ نکاح قاضی صاحب بولتے رہے اور ہم دونوں سنتے رہے، لیکن اب یہ حال ہے کہ ہم دونوں بولتے ہیں، بچے روتے ہیں، محلے والے سنتے ہیں اور رشتے دار ہنستے ہیں۔‘‘

ایک اور صاحب سے شادی کے بعد کے حالات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے پوری روداد حیات صرف ایک مصرع میں ادا کر دی یعنی فرمایا؎

خام بدُم، پختہ شدم، سوختم

ایک نوگرفتار نے جو ابھی تک زیر دام پھڑک رہے تھے، اپنے قلبی تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا،

’’مجھے اس بات کا کوئی غم نہیں کہ بیوی بد صورت ملی اور دو بچے ساتھ لائی، قلق اس بات کا ہے کہ جہیز برائے نام ملا۔‘‘

پھر ایک دلدوز آہ کے بعد کہا۔

مجھے غرقاب ہونے کا نہیں اس بات کا غم ہے

جہاں کشتی میری ڈوبی وہاں پانی بہت کم تھا

ہمارے ایک واقف کا رکی ازدواجی زندگی بڑی پُر سکون اور قابلِ رشک ہے۔ ہمہ وقت مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے اس کامیابی کا راز دریافت کیا گیا تو مسکراتے ہوئے کہا،

’’ابتداءً میں بھی بڑا افسردہ، ملول اور پریشان خاطر رہا کرتا تھا۔ دن تو کسی صورت گزر جاتا مگر شام ہی سے چراغ مفلس کی طرح بجھا بجھا سا رہتا کیونکہ گھر کے تصور ہی سے روح فنا ہوتی تھی۔ آخر اپنے پیر و مرشد سے رجوع کیا ان کی نگاہ التفات نے گویا گھر کے در و دیوا رہی بدل دیئے۔ یہ آں جناب کے ملفوظات سے ہے کہ اپنی منکوحہ کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے یہ بات جتاتے رہنا چاہیے کہ بیک وقت چار بیویاں رکھنا شرعاً جائز ہے۔ مَیں نے اس نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہوں، چنانچہ اب اللہ کا بڑا کرم ہے۔‘‘

ایسے والدین اب خال خال نظر آتے ہیں جو ہم پلہ اور ہر لحاظ سے متوازن ہوں، ورنہ مشاہدہ شاہد ہے کہ عموماً ایک فریق دوسرے پر حاوی و غالب ہوتا ہے، اپنی کارکردگی کے باعث نہیں بلکہ قوت گویائی کے بل بوتے پر۔ یہ شریکِ حیات شریکِ غالب کا درجہ رکھتا ہے، اور قدرت نے اس کی تخلیق میں نہ جانے کیا ترکیب رکھی ہے کہ اگرچہ وہ قینچی کی طرح چلتی ہے مگر تمام عمر اس کی دھار کُند نہیں ہوتی بلکہ یوماً فیوماً تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ غالبؔ نے غالباً ذاتی تجربے کی بنا پر کہا ہے ؎

بات پر واں زبان کٹتی ہے

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

غالبِ خستہ پر ہی منحصر نہیں، علّامہ اقبال جیسے شمشیر بکف مَرد مومن نے بھی دہائی دی ہے ؎

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

علّامہ موصوف ’’ذوالقرنین‘‘ تھے نہ جانے کیا گزرتی ہو گی۔ گمان غالب ہے کہ انھوں نے اپنے مرشد روحانی مولانا رومؒ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ’’سِرّ بیگماں‘‘ کو ’’حدیثِ دیگراں‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔

ایسے خانگی ماحول میں جہاں ایک فریق کو اتنی بالا دستی اور تفوّق حاصل ہو کہ فریقِ ثانی ہمیشہ سکڑا، سہما اور دم بخودر ہے، اسے نہ اذن لب کشائی ہو نہ مجال دم زدن تو ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے باعث بڑے پیچیدہ نفسیاتی اثرات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ شادی کے بعد ایک شوہر مرضِ خود کلامی میں مبتلا ہو کر بوقت شب بحالتِ خواب بآواز بلند بڑبڑانے لگے۔ شادی سے قبل یہ عارضہ نہ تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ نے انھیں ایک نفسیاتی معالج کو دکھایا تو اس نے پوری رام کہانی سننے کے بعد ان کی بیگم کو تخلیہ میں طلب کر کے کہا،

’’آپ کے شوہر کو کوئی بیماری نہیں ہے آپ صرف اتنا کیجیے کہ انھیں بھی دن میں بولنے کا موقع دیجیے۔‘‘

جن گھروں میں ایسا ماحول ہو کہ ایک فریق نان اسٹاپ لیکچر دیئے جائے اور دوسرا کان دبائے سنتا رہے تو اس گھر کے بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ایک ماں نے اپنی بچی کو ڈانٹتے ہوئے کہا تم کتنی فضول بکواس کرتی ہو اور مسلسل شور مچا رہی ہو، اپنے بھائی کو دیکھو وہ کتنی خاموشی سے کھیل رہا ہے۔‘‘

بچی نے کہا، ’’اس کی خاموشی کا سبب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہی ہیں۔ ہم پاپا۔ ممی۔ گیم کھیل رہے ہیں۔ مَیں ممی کا رول ادا کر رہی ہوں اور یہ پاپا کا۔ پاپا رات گئے گھر آئے ہیں اور میں انھیں آپ کے لہجے میں ڈانٹ رہی ہوں، اس لیے اسے تو خاموش رہنا ہی ہے۔‘‘

حالات کے مارے ہوئے بعض شوہر خود اپنے گھروں میں بے بسی اور بے چارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان مجبوروں پر ناحق خود مختاری کی تہمت لگائی جاتی ہے، کیونکہ ویٹو پاور(حقِ تنسیخ)ان کی بیگمات کو حاصل ہوتا ہے وہ جو چاہتی ہیں کرتی ہیں اور یہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم پر عمل کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک وکیل صاحب ہی بے حد ذہین و طباع اور بے حد شریف و سنجیدہ۔ عدالت میں اپنی قانونی موشگافیوں کے باعث فریقِ مخالف کا ناطقہ بند کرنے اور منصف کو اپنے قانونی استدلال اور زور خطابت سے ہمنوا بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے مگر جب گھر پہنچتے ہیں تو ان کے طُرّہ پر پیچ و خم کا سارا پیچ و خم نکل جاتا ہے کیونکہ بیوی سخت جاہل، مغرور، منہ زور اور بے لگام ہے۔ تو انھیں نبض کائنات ڈوبتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وکیل صاحب صلح پسند اور عافیت جُو انسان ہیں، جانتے ہیں کہ ایک خاموشی سو بلا کو ٹالتی ہے۔ اس لیے وہ بیوی کی کسی بات کی تردید کرنے سے عمداً گریز کرتے ہیں۔ ایک دن ان کے صاحبزادے نے کسی معاملے میں ان سے مداخلت کی اپیل کی تو بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا،

’’میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا، یہ میرے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ ہائی کورٹ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کر کے خود اپنا فیصلہ صادر کرے، بلکہ اس پر رائے زنی اور تبصرہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں کہ یہ توہینِ عدالت کے مترادف ہو گا۔‘‘

شوہر عموماً بیویوں کی بے التفاتی اور بے رخی کے شاکی ہوتے ہیں مگر یہ محض غلط فہمی ہے بیوی کے لیے اس کا شوہر مجازی خدا ہوتا ہے مگر اسے شوہر کی خوشنودی کے علاوہ اور چیزوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ وہ خیر خواہی کے علاوہ کفایت شعاری پر بھی نظر رکھتی ہے۔ ایک محترمہ اپنے شوہر کے ہمراہ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس پہنچیں اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! دانت میں سخت تکلیف ہے، مگر ہمیں ایک جگہ جلد از جلد پہنچنا ہے۔ یونہی کافی تاخیر ہو چکی ہے۔ اس لیے سوئی وغیرہ کی ضرورت نہیں آپ یونہی دانت نکال دیجئے۔‘‘

ڈاکٹر نے انھیں کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو انھوں نے شوہر کو کرسی کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا، ’’ڈاکٹر صاحب! دانت میرا نہیں ان کا نکلوانا ہے۔‘‘

بیوی خواہ کسی کی ہو، اِسرافِ بیجا کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ہاں! اس کے زیورات اور ملبوسات کی خریداری پر خرچ ہونے والی رقم کی بات دوسری ہے۔ بقیہ معاملات میں وہ فضول خرچی برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر بفرض محال فضول خرچی ناگزیر ہو تب بھی وہ اس میں سے کچھ نہ کچھ پس انداز کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک صاحب چین اسموکر(Chain Smoker) تھے یعنی مسلسل سگریٹ پیتے تھے۔ بیوی نے لاکھ جتن کئے کہ یہ عادتِ بد چھوٹ جائے اور یہ غیر ضروری خرچ کم ہو جائے مگر شوہر عادت سے مجبور تھے۔ لیکن وہ بنت حوّا ہی نہیں جو کھلّی سے تیل نکالنے کا ہنر نہ جانتی ہو۔ چنانچہ اس نیک بخت کو وہ تدبیر سوجھی جو کسی مرد کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتی۔ اس نے شوہر کے ہاتھ میں چھوٹا سا ڈبہ تھما دیا اور کہا،

’’آپ سگریٹ کی راکھ اس میں جمع کیجیے اور اس میں نمک خوردنی ملا کر منجن کی طرح استعمال کیجیے اور بازار سے منجن کی خریداری بند کر دیجئے۔‘‘

مرد فطرتاً لا ابالی اور لا پرواہ ہے۔ وہ معمولی اور غیر اہم چیزوں کو نظرانداز کر دیتا ہے مگر بیوی جزئیات پر بھی گہری نظر رکھتی ہے۔ ایک ماں نے اپنے بچے سے کہا،

’’دیکھو! آج سامنے کی دوکان سے کوئی سودا سلف خرید کر مت لانا۔‘‘

بچے نے حیرانی سے پوچھا ’’کیوں‘‘؟

ماں نے کہا، ’’وہ دوکاندار آج ہمارے گھر سے تمہارے دادا کا ترازو اور بانٹ لے کر گیا ہے۔‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد ہر معاملے میں غبی ہوتا ہے۔ بعض خاص معاملات میں تو اتنا زیرک اور دانا ہوتا ہے کہ عورت بھی عش عش کرتے غش کھا جاتی ہے۔ دو سہیلیاں عرصے کے بعد دوبارہ ملیں۔ وہ عورت جو خود کو ہوشیار سمجھتی تھی اپنی سہیلی کے شانہ پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ دوسری سہیلی نے جو اس کی شادی کے پس منظر سے بخوبی واقف تھی، حیرانی سے اس گریہ و زاری کا سبب دریافت کیا تو اس نے سسکیوں کے درمیان کہا،

’’میں دھوکہ کھا گئی اور خود اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئی۔ میرا شوہر مجھ سے زیادہ شاطر نکلا۔‘‘

سہیلی نے دریافت کیا، ’’کیوں! کیا وہ دولت مند نہیں ہے؟ اس کی دولت حاصل کرنے کے لیے ہی تو تم نے اس سے شادی کی تھی۔‘‘

پہلی سہیلی نے کہا، ’’دولت مند تو ہے، مگر شادی کے وقت اس نے جو عمر بتائی تھی اس سے بیس سال کم عمر کا نکلا۔‘‘

تجربہ شاہد ہے کہ عموماً دھوکہ وہی کھاتے ہیں جو خود کو ہوشیار اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ ایک محترمہ نے شادی کے بعد اپنے شوہر سے شکایت کی،

’’آپ مجھے شادی سے پہلے بہت تحائف دیا کرتے تھے طلب کرنے پر بھی اور بے طلب بھی۔ مگر آج شادی کو تین سال ہو گئے۔ دو بچوں کی پیدائش کے بعد ہم میاں بیوی کی سرحد عبور کر کے والدین بن گئے مگر آپ نے پھُوٹی کوڑی کا بھی تحفہ نہ دیا یا۔‘‘

شوہر نے کہا، ’’کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ جال میں مچھلی پھنس جانے کے بعد کوئی شکاری اسے چارہ کھلاتا ہے؟ تم خود کو بہت ہوشیار اور مجھے عقل کا اندھا اور گانٹھ کا پورا سمجھتی تھیں مگر اب کیا خیال ہے‘‘!

شوہر سے فرمائش کرنا بیوی کا حق سہی مگر اپنی تن پوشی کے لیے شوہر کی کھال کھینچنا بھی دانش مندی نہیں۔ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو تحفے کے طور پر ایک کوٹ پیش کیا جس میں کسی برفانی جانور کی نرم و نازک بالوں سے بھری کھال کی پیوند کاری کی گئی تھی۔ بیوی پہلے تو بہت خوش ہوئی مگر پھر دفعتہً اداس ہو گئی۔ شوہر نے ڈوبتے دل سے پوچھا:

’’کیوں! کوٹ پسند نہیں آیا؟‘‘

بیوی نے کہا، ’’کوٹ تو بہت خوبصورت اور قیمتی ہے مگر میں اس کے بارے میں سوچ رہی ہوں جس کی کھال اس کوٹ کے لیے کھینچی گئی ہے۔‘‘

شوہر نے گلو گیر آواز میں کہا، ’’ہمدردی کے لیے شکریہ‘‘!

بعض بیویوں کو شکایت ہوتی ہے کہ انھیں موزوں شوہر نہ مل سکے بالکل یہی شکایت ان کے شوہروں کو بھی ہوتی ہے۔ والدین کا درجہ حاصل کرنے کے بعد یہ احساس اور شدید ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد گلو خلاصی نا ممکن تو نہیں مگر دشوار ضرور ہو جاتی ہے۔ ایک خاتون کو اپنی خوش فہمی پر سخت ندامت اور پشیمانی ہوئی۔ شادی کے کئی سال بعد جب ان کی خوش فہمی دور ہوئی اور انھیں اپنے شوہر کے ناکارہ اور نا اہل ہونے کا یقین ہو گیا تو انھوں نے اپنے شوہر سے بڑے تاسف سے کہا،

’’شادی سے قبل آپ کہا کرتے تھے کہ میں کسی لائق نہیں۔ مگر میں نے اسے آپ کی خاکساری پر محمول کیا مگر اب معلوم ہوا کہ آپ سچ کہہ رہے تھے۔‘‘ شوہر نے کہا، ’’تم مجھ پر فریب دہی کا الزام عائد نہیں کر سکتیں۔ میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ میں کسی لائق نہیں۔‘‘

لیکن اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ غلطی صرف ایک فریق سے ہوتی ہے۔ دوسرا فریق اس سے بھی بڑی غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ ایک شخص نے اپنے نئے پڑوسی سے کہا،

’’وہ کالی کلوٹی، بھدی، موٹی اور بدصورت عورت جو ابھی آپ کے گھر میں داخل ہوئی کون ہے‘‘؟

’’وہ میری بیوی ہے‘‘ ۔

’’آپ کی بیوی ہے! معاف کیجئے، مجھ سے بڑی غلطی ہوئی، میں سمجھا……‘‘

اس شخص نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا، ’’نہیں بھائی! غلطی تو در اصل مجھ سے ہوئی ہے‘‘ ۔

اسی لیے شریکِ حیات کے انتخاب میں تعجیل مناسب نہیں۔ ’’پہلے تولو پھر بولو۔‘‘ اسی موقع کے لیے کہا گیا ہے۔ یعنی کامل غور و فکر اور تفتیش و تفخص کے بعد ہی کہنا چاہیے کہ ’’جی ہاں! قبول کیا میں نے‘‘ ورنہ تیر از کمان جستہ باز نیا ید۔ اس ضمن میں کسی فریب خوردہ کا قول ہے کہ شادی بوقت صبح کرنا اولیٰ ہے کیونکہ اتنا وقت بہر حال باقی رہتا ہے کہ انتخاب پر نظر ثانی کر کے غلطی کا کیا ازالہ کیا جا سکے یا اس کا کفارہ ادا کرنے کی کوئی صورت نکالی جا سکے۔ اس کے برعکس شام میں شادی کرنے میں یہ یہ قباحت ہے کہ اس کے بعد غور و فکر تو درکنار پچھتانے کا بھی وقت نہیں رہتا۔

اسی لیے کہا گیا ہے جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ بے شک! بعض بزرگان سابقہ نے یہ بھی کہا ہے کہ نیک کام میں دیر نہ کرنی چاہیے مگر یہ مشورہ انھوں نے غالباً صاحبِ اولاد ہونے کے سلسلے میں دیا ہے شادی کے معاملے میں صبر و تحمل ہی مناسب ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سجدۂ شکر کے بعد سجدۂ سہو ادا کرنا پڑے۔

انگریز بھی اس معاملے میں محتاط تھے۔ ایک انگریز بزرگ کا قول ہے کہ ’’Look before you leap‘‘یعنی کودنے سے پیشتر یہ دیکھ لو کہ زمین ہموار ہے یا نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جلد بازی میں کسی کنوئیں یا کھائی میں جا پڑو۔

بہرحال غور و فکر اور احتیاط لازمی و مقدم ہے۔ شادی سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی بالخصوص خانگی معاملات میں ورنہ عجلت ندامت و پشیمانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ایک صاحب رات گئے گھر پہنچے۔ بھوک کی شدت سے آنتیں قل ہو اللہ کا ورد کر رہی تھیں، دیکھا کہ بیگم خورد و کلاں کے نرغے میں اس طرح بیٹھی ہیں جیسے مرغی اپنے چوزوں کے درمیان۔ معلوم ہوا کہ کھانا تیار نہیں۔ جل بھُن کر خود کباب ہو گئے۔ بیگم سے استفسار کیا تو وہ بولیں،

’’کھانا کون تیار کرتا، آپ نے ملازمہ کو فون پر گالیاں دیں وہ اسی وقت ملازمت چھوڑ کر چلی گئی،‘‘

’’ارے! فون پر ملازمہ تھی، میں سمجھا تم ہو‘‘۔

خانگی معاملات میں اس نوعیت کے واقعات کا ظہور پذیر ہونا معمولات میں سے ہے لیکن اگر محترمہ امور خانہ داری سے واقف ہوتیں تو ایسی ناگوار صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔ اسی لیے ماہرین فرائض نسواں کا کہنا ہے کہ امور خانہ داری سے مکمل واقفیت زیورات اور ملبوسات سے زیادہ اہم ہے ورنہ تعلقات میں کشیدگی اور پیچیدگی پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ ایک شوہر اپنی کاروباری مصروفیات سے خستہ اور بھوک سے نڈھال، افتاں و خیزاں گھر پہنچے۔ مگر پہلا لقمہ منہ میں رکھتے ہیں ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ قہر آلود نظروں سے بیوی کو گھورا اور لقمہ کو بمشکل نگلنے کے بعد پوچھا: —- ’’یہ کھانا تم نے تیار کیا ہے؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘ بیوی نے لہک کر کہا۔ ’’اس کی ترکیب میری ایک سہیلی نے بتائی تھی، کیوں؟ کیسا لگا؟‘‘

’’وہ میں بعد میں بتاؤں گا، پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ شادی کے بعد تمہاری اس سہیلی کا کیا حشر ہوا؟‘‘

بیوی نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا، ’’اس کے شوہر نے اس کی قدر نہ کی، آج کل میکے میں ہے۔‘‘

شوہر نے اس طرح سر ہلایا گویا سہیلی کا انجام اس کی توقع کے عین مطابق ہوا ہو۔ یوں بھی ایسی بیوی کا میکے ہی میں رہنا اچھا ہے جو اتنا خراب کھانا تیار کرے کہ شوہر تو کجا گھر کا کتا بھی پڑوس میں جا کر کھائے۔

مرد فطرتاً برد بار واقع ہوا ہے، طیش میں اسی وقت آتا ہے جب پیمانۂ صبر لبریز ہو جائے۔ اس میں خدانخواستہ وقوف و شعور کی کمی نہیں مگر تحمل اور درگزر اس کی فطرت ہے، مگر بدقسمتی سے اس کے اس طرز عمل کو عورت کی چشم ظاہر بین حماقت سے تعبیر کرتی ہے، خود کو اس سے زیادہ چالاک سمجھتی ہے اور پھر اسے اس چالاکی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک فیشن ایبل، روشن خیال اور آزاد رو محترمہ اچانک بیمار ہوئیں، بسترِ علالت بسترِ مرگ بن گیا۔ جب دم واپسیں برسرِ راہ ہوا تو آخری دو ہچکیوں کے درمیان کہا،

’’میں نے آپ سے بارہا بے وفائی کی ہے، مگر آپ کو اس کا علم نہ ہوا، مجھے معاف………‘‘

’’مجھے اس کا علم ہو گیا تھا‘‘ شوہر نے بڑے سکون سے کہا۔ ’’لیکن تمہیں اس کا علم نہ ہو سکا کہ تمہیں زہر کس نے دیا ہے۔‘‘

یہ سن کر ان محترمہ کی آنکھیں خوف و حیرت سے پھیل گئیں اور تدفین تک اسی حالت میں رہیں۔ جو بیوی خود کو چالاک اور شوہر کو احمق سمجھے گی وہ اسی طرح غچہ کھائے گی۔

دوسروں کو بیوقوف سمجھنا غالباً عورتوں کی فطرت ہے۔ حتیٰ کہ وہ اپنی ہم جنسوں کو بھی بے وقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایک تقریب میں چند مستورات یکجا تھیں۔ ان میں سے ایک محترمہ زیادہ تیز و طرار تھیں۔ انھوں نے لوازماتِ حسن استعمال کرنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا تھا اور اپنے بدن کو دلّی شہر کا مینا بازار بنا رکھا تھا۔ وہ محترمہ اپنی عمر اتنی کم بتا رہی تھی کہ آخر وہ عورتیں بھی چڑھ گئیں جنھوں نے خود اپنی عمریں دس دس سال کم بتائی تھیں۔ ان محترمہ کی بغل میں ان کی بیٹی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس سے برداشت نہ ہو سکا تو اس نے کہا:

’’امی اب اتنی ننھی بھی نہ بنیں۔ اپنی اور میری عمر میں کم از کم نو مہینے کا تو فرق رکھیئے۔‘‘

اپنی عمر کم بتلانا غالباً مستورات کا نفسیاتی مرض ہے اور شاید ان میں وراثتاً پایا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر سے کہا،

’’یہ اپنی نئی پڑوسن مجھ سے بہت جلتی ہے۔ خود تو نوخیز بنتی ہے مگر میری عمر تیس سال بتاتی ہے۔‘‘

’’وہ بے وقوف ہے۔‘‘ شوہر نے کہا ’’اس نے تمہاری عمر کا اندازہ غلط لگایا ہے۔‘‘

بیوی نے خوش ہو کر کہا، ’’اچھا میری عمر کے متعلق آپ کا کیا انداز ہے؟‘‘

’’کم از کم چالیس سال‘‘ شوہر نے پورے یقین سے کہا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ وبا صرف عورتوں میں پھیلی ہوئی ہے مردوں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے دروغ بر گردن راوی۔۔ ۔۔ جوشؔ، فراقؔ اور مجازؔ ایک رات کہیں ہم پیالہ تھے جب کئی دَور چل چکے تو جوشؔ نے کہا:

’’ماشاء اللہ، ابھی جوان ہیں، ہماری عمر پچیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔‘‘

فراقؔ نے پوپلے منہ سے کہا، ’’ظاہری شباہت سے قطع نظر میں بھی اٹھارہ بیس سال سے زیادہ عمر کا نہیں ہوں۔‘‘

مجازؔ نے معصومیت سے کہا، ’’اس حساب سے مَیں تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔‘‘

بچے والدین کو مربوط رکھنے کے لیے سنہری زنجیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو ان کے درمیان ایک تکلیف دہ خلاء محسوس ہوتا ہے۔ یہ خلاء اگرچہ مصنوعی طور پر پُر بھی کیا جا سکتا ہے، مگر اوریجنل اولاد کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ مضبوط، پائیدار اور قابلِ اعتماد ثابت ہوتے ہیں۔ فریقین میں سے کوئی رسیاں تڑانے کی کوشش کرے تو یہ زنجیر پا ثابت ہوتے ہیں۔ بعض بچے فطرتاً شوخ و شنگ اور شریر ہوتے ہیں، اتنے شریر، چالاک اور ایسے بہانہ ساز کہ والدین دانتوں تلے انگلی دبا کر رہ جاتے ہیں۔ ایک شریر بچہ اسکول سے کافی تاخیر سے گھر واپس ہوا۔ ماں نے تاخیر کا سبب دریافت کیا تو کہا،

’’راستے میں اتنی کیچڑ اور پھسلن تھی کہ میں ایک قدم آگے رکھتا تو دو قدم پیچھے سرک جاتا تھا۔‘‘

ماں نے بڑی حیرت سے کہا، ’’اس صورت میں تو تمھیں گھر پہنچنے کے بجائے اسکول سے بھی آگے نکل جانا چاہیے تھا۔‘‘

’’میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں۔‘‘ بچے نے مسکرا کر کہا ’’میں نے اپنا رخ بدل لیا تھا۔ اپنا منہ اسکول کی طرف کر لیا تھا اور پشت گھر کی طرف۔‘‘

یہ نئی نئی شرارتوں کے موجد ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شریر بچہ خلافِ معمول خاموش اور سنجیدہ نظر آئے تو اس کا مطلب خدانخواستہ یہ نہیں کہ وہ شرارت سے تائب ہو چکا ہے۔ بلکہ یہ در اصل اس بات کی علامت ہے کہ وہ کوئی خطرناک شرارت کر چکا ہے اور اب سنجیدگی سے والدین کے رد عمل کا منتظر ہے۔

بعض بچے اتنے نڈر اور بے باک ہوتے ہیں کہ والدین تو کجا دوسروں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ایک بچہ اپنے گدھے کی رسی تھامے چل رہا تھا۔ جب وہ ایک کیمپ کے قریب سے گزرا تو اپنے گدھے کی گردن کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور جلد جلد چلنے لگا۔ ایک فوجی یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے خوش دلی سے مسکرا کر کہا:

’’تم نے اپنے گدھے کو اتنی مضبوطی سے کیوں تھام رکھا ہے؟ کیا اس سے برادرانہ محبت ہے؟‘‘

’’نہیں! مَیں نے اسے اس لیے تھام رکھا ہے کہ کہیں یہ گدھا بھی فوج میں نہ بھرتی ہو جائے۔‘‘

فوجی نے بگڑ کر کہا، ’’ہمیں تمہارے مریل گدھے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے کیمپ میں ایک سے بڑھ کر ایک گدھے موجود ہیں۔‘‘

عورتوں کے متعلق یہ غلط فہمی عام ہو گئی ہے کہ وہ ناقص العقل ہوتی ہیں، یہ ہوائی نہ جانے کس دشمنِ زن نے اڑائی ہے۔ ہم نے ایک واقفِ اسرارِ نسواں سے اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کی استدعا کی تو اس نے بعض ٹھوس دلائل پیش کرنے کے بعد اِتمامِ حجت کے لیے ذیل کا واقعہ سنایا،

’’ایک شخص کو محسوس ہوا کہ اس کا دماغ کثرت کار اور ہجومِ افکار کے باعث ناکارہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ ایک اسٹور میں داخل ہوا جہاں انسانی اعضاء فروخت کیے جاتے تھے۔ سیلز مین نے اسے دو بھیجے پیش کیے ایک مرد کا تھا اور دوسرا عورت کا۔ اس شخص کو یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ مرد کے بھیجے کی قیمت ناقابلِ یقین حد تک کم تھی اور عورت کے بھیجے کی قیمت حدِ قیاس سے سِوا۔ اس نے سیلز مین سے پوچھا،

’’عورت کے دماغ کی قیمت اتنی زیادہ کیوں ہے؟ کیا عورت مرد سے زیادہ عقلمند ہوتی ہے؟‘‘

’’جی نہیں‘‘ سیلز  مین نے مسکرا کر کہا۔ ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ آدمی کا دماغ استعمال شدہ ہے جبکہ عورت کا دماغ سرے سے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ اس لیے ابھی تک اصلی حالت میں موجود ہے۔‘‘

مگر ہمارے مطالعے میں جو واقعہ آیا، وہ اس سے مختلف ہے۔

ایک والد صاحب اپنے بچے کی انگلی تھا مے برٹش میوزیم میں داخل ہوئے۔ ایک شوکیس میں دو کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں، ایک چھوٹی دوسری بڑی۔ بچے نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو والد بزرگوار نے تختی پر درج شدہ عبارت کو پڑھنے کی کوشش کی مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ بچے نے وضاحت کے لیے اصرار کیا تو اپنی صوابدید کے مطابق فرمایا، ’’یہ دونوں کھوپڑیاں شیکسپیئر کی ہیں چھوٹی کھوپڑی اس وقت حاصل کی گئی تھی جب وہ بچہ تھا اور بڑی اس وقت جب اس کا انتقال ہوا۔‘‘

یہ وضاحت اس طبقے کے فرد کی ہے جو کامل العقل ہونے کا مدعی ہے خواتین و حضرات سے متعلق ایک اور متنازعہ فیہ مسئلہ یادداشت سے متعلق ہے۔ ماہرینِ امراضِ نسواں کی تحقیق کے مطابق مرض نسیان طبقۂ نسواں میں شاذ ہی پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مردوں میں عام ہے اور شادی کے بعد مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے۔ خواتین اپنے ذاتی تجربے کی بنا پراس تحقیق کی نہایت شدّ و مد سے تائید و تصدیق کرتی ہیں اور اس معاملے میں وہ حق بجانب ہیں۔

ایک میاں بیوی شاپنگ کے بعد گھر لوٹے تو شوہر نے کہا،

’’تم مجھے بھلکڑ کہتی ہو مگر دیکھو! تم اپنی چھتری دوکان پر چھوڑ آئی تھیں، اور مَیں نہ صرف یہ کہ اپنی چھتری لے آیا ہوں بلکہ تمھاری چھوڑی ہوئی چھتری بھی ساتھ لیتا آیا ہوں۔‘‘

بیوی نے پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، ’’آپ نے یہ کیا غضب کیا! ہم تو خالی ہاتھ شاپنگ کے لیے نکلے تھے۔ وہ دیکھئے ہماری چھتریاں تو گھر پر ہی موجود ہیں۔‘‘

ہمیں افسوس ہے کہ بہت سے سخن ہائے گفتنی بخوف طوالت نا گفتہ رہ گئے۔

(ماہنامہ شگوفہ ۱۹۸۶)

فردوسِ گوش

ودربھ میں مزاحیہ شاعری

نام دار خاں پنّی

ہجو

جب مچھّو میاں گھر سے کھا پان نکلتے ہیں

اور جورو کے ہاتھوں سے حیران نکلتے ہیں

مونچھوں کے تئیں اپنے یوں تان نکلتے ہیں

گویا کہ دلوں کے سب ارمان نکلتے ہیں

جیسے میں بھی شاعر ہوں یوں آن نکلتے ہیں

جیوں گنبد بے در سے شیطان نکلتے ہیں

استاد جو ہیں ان کے یوں دھج سے نکلتے ہیں

کسبی کی طرح گھر سے یوں سج کے نکلتے ہیں

جس طرح ستی حاجی خوش حج سے نکلتے ہیں

تعلیم دی نوچی کو کیا کج کے نکلتے ہیں

جیسے میں بھی شاعر ہوں یوں آن نکلتے ہیں

جیوں گنبد بے در سے شیطان نکلتے ہیں

احسن حسین شیخ شاہ محمد

جو دیکھوں تو سیں تیرے آنے کا ڈھب

نہ دیکھوں کبھو تیرے جانے کا ڈھب

جِنے تم کو دیکھا سو تیرا ہوا

نہ تجھ سا کسی کا ہے آنے کا ڈھب

شکر ہے زباں میں، زہر دل کے بیچ

پڑا اب کے ایسا زمانے کا ڈھب

لٹک میں ڈھلک تیری ہے خوش نما

نہ ایسا ہے موتی کے دانے کا ڈھب

نہ کر ترش روئی کسو سے کبھی

یہی شیرنی کے ہے کھانے کا ڈھب

طلسمِ جہاں کو اگر سوچئے

تو ہے پتلیوں کے نچانے کا ڈھب

کہاں تک تو احسنؔ کرے گا رقم

فقط یہ جہاں ہے فسانے کا ڈھب

طرفہ محمد پناہؔ

ہار موتی کا جو اس کے گلے سے ٹوٹ جائے

قطرۂ شبنم زمیں پر گر کے گل چھوٹ جائے

اپنی لیلیٰ کو نہ دیکھے ایک لحظہ گر کوئی

بن کے مجنوں واسطے لیلیٰ کے وہ چوکھوٹ جائے

مار کر فرہاد تیشہ غم میں شیریں کے موا

سر ہوا ٹکڑے گویا پتھر سے کوئی کوٹ جائے

گل سے بلبل گر جدا ہو جائے تو یہ جان لو

پارہ پارہ ہو جگر گل سے اگر وہ چھوٹ جائے

گر کوئی بولے مرے کو یاد جاناں نے کیا

دوڑ سر سے جائے طرفہؔ بول کر کوئی جھوٹ جائے

دل شکستہ نہ جڑے کرتے رہو تم توڑ توڑ

جوڑ دیکھا تو بھلا لعلِ بدخشاں پھوڑ کر

حامد۔سید غلام رسول عرف جیا میاں پیر زادہ

دستِ بلوریں پہ جب رنگ رچائی مہندی

خونِ عاشق کے تئیں جوش میں لائی مہندی

ایک زمانہ ہوا پر نور یدِ بیضا سا

مٹّھیاں کھول کر جس وقت توڑائی مہندی

آپ کو پیسنا اور غیر کو کرنا رنگیں

سب سے الفت میں زیادہ نظر آئی مہندی

چشم امدادؔ سے کیوں کر نہ ہو خوں جاری

ہاتھ سے غیر کے جب اوس نے لگائی مہندی

عرفان۔ سید میاں عرف چھجو میاں

ہو کے تیار چلے تیز قدم ٹپ ٹپ ٹپ

حاجیاں حج کے لیے سوئے حرم ٹپ ٹپ ٹپ

صید کیا ایسا گرفتار ہوں مرغانِ چمن

دیدے کرتے ہیں سب دام میں دم ٹپ ٹپ ٹپ

واقعہ سن کے یہ سب ان کی زباں سے اپنے

اشک خونبار ہوئے دیدۂ نم ٹپ ٹپ ٹپ

پوچھا کیا تجھ پہ گزرتا ہے دِوانے سچ کہہ

حالِ دل کہہ نہ سکے رو دئے ہم ٹپ ٹپ ٹپ

محزوں۔ میر حیدر

یوں گرے جنبش مژگاں سے گہر ٹپ ٹپ ٹپ

جھڑے جیوں نخل ہلالی سے ثمر ٹپ ٹپ ٹپ

کیونکر آرام ہو اوس شخص کے تئیں اے یارو

ٹپکے برسات میں جس کا گھر ٹپ ٹپ ٹپ

جال کاکل کا تیری دیکھ کے دام و دانہ

مرغ دل گر پڑے سب باندھ کے پر ٹپ ٹپ ٹپ

جی بچانے کے لیے ہاتھ سے اس کافر کے

شیخ کعبہ کو چلا ہانک کے خر ٹپ ٹپ ٹپ

٭٭٭

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل