FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سُر کی چھایا

ناصر کاظمی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں…….

تعارف

(۱)

بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگَنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

غالب کا یہ شعر عموماً غزل پر نظم کی برتری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ یہاں خیال اور ہیئت کے ناگزیر رشتے کی بات کی گئی ہے۔  ہر سچے فن کار کے ہاں خیال اپنی ہیئت کا تعین خود کرتا ہے۔  جو بات نظم میں کہی جا سکتی ہے وہ نظم ہی میں کہی جا سکتی ہے۔  اسی طرح اگر کسی موضوع کے لیے ناول درکار ہے تو کوئی بھی اور صنف اس کے اظہار سے قاصر ہو گی۔  ’’کچھ اور چاہیے وسعت‘‘ سے یہ واضح ہے کہ غزل کی یکسر نفی مقصود نہیں۔  شوق کا جو حصہ بیان ہونے سے رہ گیا ہے وہ غزل میں نہیں سمویا جا سکتا۔  اس کے لیے کوئی ’’ظرف‘‘ چاہیے۔  مختلف اصنافِ سخن وہ امکانی ظروف ہیں جن کے ذریعے خیالات اظہار پا سکتے ہیں۔

ناصر کاظمی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں لیکن انھوں نے نظمیں بھی لکھیں اور مضامین بھی اور ’’سر کی چھایا‘‘ کی صورت میں ایک ڈرامہ تخلیق کیا۔  در اصل ان کا تمام تر تخلیقی سفر نت نئے جہانوں کی جستجو سے عبارت تھا۔

 ’’سر کی چھایا‘‘ ہیئت کے اعتبار سے ڈرامہ ہے اور روح کے اعتبار سے شاعری۔

ہر منظر گویا کسی نظم کا بند ہے۔  ہر مکالمہ قافیہ ردیف سے آزاد لیکن کسی نہ کسی بحر کا پابند ہے۔  ہر کردار شروع سے آخر تک ایک مخصوص بحر میں گفتگو کرتا ہے۔  مثلاً مرکزی کردار عبدل کی ہر بات اس بحر میں ہے:  فعلاً فعلاً فعلاً فعلاً۔

منظوم ڈرامے پر اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کی زبان غیر فطری اور مصنوعی، اور امکانات محدود ہوتے ہیں۔  ٹی ایس ایلیٹ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہر زندہ اور بڑے نثری ڈرامے کے کردار جو زبان بولتے ہیں وہ عام زندگی میں بولی جانے والی زبان سے اتنی ہی مختلف ہوتی ہے جتنی کہ نظم۔  نظم کی طرح یہ بھی بار بار لکھی گئی ہوتی ہے۔  ادیب اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان میں سے بہت کچھ مسترد کرتا ہے اور جو کچھ چنتا ہے اسے بھی ایک خاص ترتیب دیتا ہے۔  اس سلسلے میں کئی نئے الفاظ تخلیق کرتا ہے۔  گویا ادب کی زبان بہت زیادہ نتھری اور منجھی ہوئی ہوتی ہے۔  سان اوکیسے (Sean O’ Casey) کہتا ہے کہ اگر گلی یا ڈرائنگ روم میں بولا جانے والا کوئی مکالمہ ہوبہو کسی ڈرامے میں شامل کر دیا جائے تو نتیجہ نہایت مضحکہ خیز اور بھونڈا ہو گا۔  ڈی ایچ لارنس ادبی کلام (Art Speech) اور روزمرہ بول چال (Contemporary Speech) میں تفریق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ صرف ادبی کلام ہی کلام کہلانے کا مستحق ہے (Art Speech Is The Only Speech)۔

دنیائے ادب کا مطالعہ لارنس کی اس بات کی تائید کرتا ہے۔  مثلاً اگر ہم شیکسپیئر کے کسی ہم عصر کو پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس کی زبان شیکسپیئر سے کتنی مختلف ہے۔  اس کے ہمعصر حقیقت نگاری کے شوق میں اپنی ہمعصر زبان لکھتے رہے۔  اسی لیے زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ ان کی تحریریں غیر مقبول اور غیر معروف ہوتی گئیں۔  زبان تو سدا ارتقائی منازل میں رہتی ہے۔  وقت کی کسوٹی پر وہی تحریر پوری اترتی ہے جو تخلیقی ہو اگر اس اعتبار سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ نثری ڈراموں کی نثر بھی ایسی ہی مصنوعی ہوتی ہے جیسی کہ نظم یا بصورتِ دیگر نظم بھی ایسی ہی فطری ہو سکتی ہے جیسی کہ نثر۔  البتہ شاعری کو ڈرامے کا ذریعہ بنانے کے ضمن میں ایلیٹ نے ایک تنبیہہ بھی کر رکھی ہے۔  وہ کہتا ہے کہ اگر شاعری سجاوٹ کے لیے ایک اضافی سامانِ آرائش کے طور پر استعمال ہو یا صرف اس لیے کہ ادبی ذوق کے لوگوں کو ڈرامہ دیکھتے وقت شاعری سننے کا لطف بھی فراہم کیا جائے، تو یہ بالکل بے جا ہو گی۔  اسے محض شاعری کی ڈرامائی تشکیل ہونے کی بجائے ڈرامائی حیثیت میں اپنا جواز پیش کرنا چاہیے۔  اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسا کوئی ڈرامہ منظوم نہیں ہونا چاہیے جس کے لیے نثر ڈرامائی طور پر موزوں ہو۔

منظوم ڈرامے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نثر بہت سے جذبات اور احساسات کے اظہار سے قاصر ہے۔  بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنھیں کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو جب ’’ہمارے ‘‘ الفاظ ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے مایوس کن حد تک ناکافی نظر آتے ہیں۔  ہر وہ شخص جسے کبھی اپنے کسی عزیز کو تعزیتی خط لکھنا پڑا ہو، اس بات سے بخوبی واقف ہو گا۔  ’’ہماری‘‘ زبان کی بے چارگی اس وقت بھی سدِ راہ بنتی ہے جب ہمارا سامنا عظیم الشان حسن، کراہت انگیز بدصورتی، شدید تکلیف، غیر معمولی اچھائی یا خوفناک عیاری سے ہوتا ہے۔  ہم میں سے بیشتر نے دیکھا ہو گا؛ اگر محسوس نہیں کیا کہ شدید غصے یا رنج کے عالم میں کچھ نہ کہہ سکنے کی بے بسی، دم گھٹنے کی سی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور خوشی اتنی بلندیوں کو چھو سکتی ہے کہ ہم الفاظ نہ ملنے کے باعث رو پڑتے ہیں۔  اس قسم کی صورتِ حال میں صرف شاعری ہی جذبے کا کچھ اظہار کر پاتی ہے کیونکہ شاعری روزمرہ زبان کی بہ نسبت ہماری داخلی سچائی کے قریب تر ہوتی ہے۔  پس شاعری انسانی روح کی ایک مستقل خواہش اور ضرورت ہے اور ڈرامے کا ایک فطری ذریعہ۔

(2)

پھر کئی لوگ نظر سے گذرے

پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا

ڈرامے کا ڈھانچہ کچھ اِس طرح سے ہے کہ زیادہ تر مناظر کرداروں کے ماضی سے متعلق ہیں۔  پہلا منظر گاڑی کے ایک ڈبے کا اندرونی منظر ہے۔  احمد، فیاض اور مولوی صاحب باتیں کر رہے ہیں۔  مرکزی کردار عبدل ایک طرف بیٹھا ہے۔  اس کا آبائی گاؤں سورج پور جو احمد اور فیاض کی منزل ہے، راستے میں پڑتا ہے۔  وہ عبدل کو نہیں پہچانتے مگر ان کی باتیں سن کر عبدل انھیں پہچان جاتا ہے۔  فیاض اس کے بچپن کا ساتھی ہے اور احمد اس کے دوست اکبر کا کاروبار میں حصہ دار ہے۔  اپنی محبوبہ نندی سے آخری ملاقات اس کی آنکھوں میں پھر جاتی ہے:

کہاں ہو نندی؟ یاد ہیں وہ دن؟

جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے !

————

میں اور حسنی کھیل رہے تھے !!

اگلے پانچ مناظر عبدل کی یادوں کا حصہ ہیں۔  دوسرا منظر 24 برس پہلے بچپن کا ہے اور باقی چار نوجوانی کے دَور کے۔  ساتواں منظر ہمیں پھر ریل کے اندر لے آتا ہے۔  عبدل کھڑکی کے پاس بیٹھا سوچ رہا ہے۔  احمد اور فیاض دوسری طرف بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔  پہلے فیاض اپنے حافظے سے کچھ باتیں بیان کرتا ہے اور پھر احمد:

میں نے وہ رات دیکھی ہے جب آسمان سرخ تھا

اگلے پانچ مناظر احمد کی یادوں پر مشتمل ہیں جو اس ترتیب سے پیش کی گئی ہیں کہ کہانی مکمل طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔  آخری منظر پھر ریل گاڑی کا ہے۔  رات گہری ہو چکی ہے۔  سورج پور بہت نزدیک آ چکا ہے۔  احمد اور فیاض بدستور باتیں کر رہے ہیں۔  عبدل گہری سوچ میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔  اسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں۔  اچانک گاڑی رُک جاتی ہے۔  فیاض پہلی بار عبدل سے مخاطب ہوتا ہے۔

کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟

آپ یہاں اتریں گے صاحب؟

احمد:  نہیں ! یہ تو جنگل ہے !

(3)

کہتے ہیں کشمکش ڈرامے کی جان ہے۔  ’’سُر کی چھایا‘‘ میں داخلی اور خارجی دونوں کی طرح کی کشمکش دکھائی دیتی ہے۔  خارجی کشمکش پھر دو طرح کی ہے:  فرد کے خلاف جیسے عبدل اور بلھے کی اور پھر حسنی اور بلھے کی کشمکش بلکہ چپقلش دوسری، فرد اور معاشرے کی باہمی کشمکش جس کا شکار عبدل، نندی اور حسنی ہوتے ہیں۔  لیکن ’سر کی چھایا‘ بنیادی طور پر داخلی کشمکش کا ڈرامہ ہے۔  عبدل اس کا شکار پہلی بار اس وقت ہوتا ہے جب لوگ جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں۔

نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن

————

بولو نندی کہاں چھپی ہو؟

باہر جاؤں !

لیکن نندی

نندی مر جائے گی عبدل

————

اگلے منظر میں جب عبدل چھپتا چھپاتا گھر آتا ہے اور اپنے ماں باپ کی گفتگو سنتا ہے تو ایک نئی کشمکش میں پھنس جاتا ہے۔  ’’کبھی وہ بوڑھے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے کبھی بدنامی کا ڈر اسے ستاتا ہے۔  نندی کے بعد وہ اب گاؤں میں ٹھہرنا نہیں چاہتا۔ ‘‘

آواز: وہ رستہ ہے !

راتوں رات نکل جا عبدل!

عبدل:  لیکن یہ میرا گھر!

یہ میرے ماں باپ!

کہاں جاؤں گا؟

نندی! میرے ارمانوں کا آخری سنگم

آواز: اب اس پیڑ سے اڑ جا

اس کی جڑیں اب سوکھ چکی ہیں

————

————

اس کے بعد عبدل ساتویں منظر میں نظر آتا ہے۔  وہی پہلا، گاڑی والا منظر۔  اب وہ ایک نئی کشمکش میں مبتلا ہے۔  سورج پور، اس کی مٹی، اس کا گاؤں، راستے میں پڑتا ہے:

ایک کرن پھر وقت کی سیڑھی سے اُتری ہے

لیکن میں تو —- اس دھرتی میں میرا کوئی نہیں ہے

سات برس کے بعد یہاں سے پھر گزرا ہوں

وہی پہاڑ اور وہی نظارے !

اس وادی میں کیسے اتروں !

اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔

اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے

آخری منظر میں عبدل کی کشمکش اور ذات کی تقسیم اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔  اُسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں اور وہ باری باری ان کا جواب بھی دیتا ہے۔  ’’آواز‘‘ کی ’’تجاویز‘‘ یا ’’آراء‘‘ کے حق میں یا خلاف فیصلے بھی کرتا ہے۔

آواز: ۔  سورج پور اُترو گے عبدل؟

وہاں نہ جانا!

وہاں ترا اب کوئی نہیں ہے !

عبدل: اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔

————

آواز: تو نے نندی کو مارا ہے !

تو نے اس کا خون پیا ہے !

تو نے حسنی کو مارا ہے !

تو اپنے ماں باپ کا قاتل

تو ہی بلھے کا قاتل ہے۔

اتنے تن داروں کا خون تری گردن پر!

تو خونی ہے !

تو قاتل ہے !

عبدل: تو جھوٹا ہے

نندی اپنی موت مری ہے

حسنی میرا جگری دوست تھا

آواز: تو بزدل ہے !

تو نے سورج پور کو اجاڑا

عبدل:  تو جھوٹا ہے !

تو بزدل ہے !

اس کے علاوہ ہمیں ایک اور کشمکش کا سراغ بھی ملتا ہے۔  وہ ہے طبقاتی کشمکش۔  چھٹے منظر میں عبدل کی ماں نصیبن، جب اپنے بیٹے کی جان کے بارے میں متفکر ہوتی ہے تو نہایت بے بسی اور غصّے کے عالم میں کہتی ہے:

نہ ہوا اس وقت میری ماں کا جایا

دیکھ لیتی ان زمینداروں کا مان

میرے بیٹے کو اگر کچھ ہو گیا تو شیرمے  پی لوں گی ان کے !

پھر آٹھویں منظر میں احمد چکی کی آواز سن کر کہتا ہے:

یہ آٹے کی چکی ابھی تک یونہی چل رہی ہے

یہ چکی میں کیا پس رہا ہے ؟

۔۔ ۔  مگر گاؤں بھر میں دہائی مچی ہے کہ آٹا نہیں

کال ہے، لوگ مر جائیں گے۔

لوگ بھوکوں مرے جا رہے ہیں

————

یہ سب نفع خوروں کی سازش ہے

غلّے کا توڑا نہیں !

اپنے کھیتوں کو دیکھو!

ذرا اپنی فصلوں کو دیکھو!

ہری ہیں، بھری ہیں !

مگر یہ زمیندار، یہ کالی منڈی کے تاجر!

(4)

سوائے عبدل کے سبھی کردار Types ہیں۔  نندی روایتی محبوبہ ہے جس کے ایک طرف عاشق کی محبت ہے اور دوسری طرف گھر والوں کی عزت۔  محبوب سے ملنے کی شدید خواہش بھی ہے اور ’’ظالم سماج‘‘ کا زبردست خوف بھی جس کی نمائندگی اس کا بھائی بلھا اور اس کے ساتھی کرتے ہیں۔  عبدل کے ماں باپ روایتی ماں باپ ہیں جنھیں اپنی اولاد کے دلوں سے زیادہ لوگوں کی زبانوں کا خیال ہوتا ہے۔  احمد، حسنی اور اکبر افسانوی دنیا کے جاں نثار ساتھی ہیں۔

ان سب کے برعکس عبدل دنیائے ادب کے بیشتر رومانوی مرکزی کرداروں سے مختلف نظر آتا ہے، مثلاً نندی کو کھو دینے پر نہ تو وہ فرہاد کی طرح سر پھوڑتا ہے نہ مجنوں کی طرح دیوانہ ہو جاتا ہے، نہ رومیو کی طرح زہر پیتا ہے نہ ورتھر کی طرح اپنی کنپٹی میں گولی اتارتا ہے۔  جب جنگل میں آگ لگتی ہے اور نندی بچھڑ جاتی ہے تو عبدل اسے ڈھونڈنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن جلد ہی اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ کامیابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔  اس کے اندر سے آواز آتی ہے۔

الٹے پاؤں ہٹ جا عبدل

نندی اب نہ ملے گی

اس کی قسمت میں جلنا ہے

الٹے پاؤں ہٹ جا!

اس کا پہلا رد عمل اس کے خلاف ہوتا ہے اور بڑا شدید:

لیکن نندی! اسے اکیلا چھوڑ کے جاؤں !

نہیں نہیں میں جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

لیکن پھر اس کے اندر کا حقیقت پسند انسان اسے سمجھاتا ہے:

آگ کسی کی میت نہیں ہے

اپنی جان بچا لے عبدل!

نندی اب نہ ملے گی

اندھی آگ کا رستہ چھوڑ کے راتوں رات نکل جا پیارے

وہ رستہ ہے !

————

اور بلآخر عبدل یہ مشورہ قبول کر لیتا ہے اور دل پر پتھر رکھ کے وہ ’’رستہ‘‘ اختیار کر لیتا ہے:

ناصر یہ وفا نہیں جنوں ہے

اپنا بھی نہ خیرخواہ رہنا

اس کے بعد جب ’’آواز‘‘ اسے قائل کر لیتی ہے کہ اب اس کے ’’پیڑ‘ ‘ کی جڑیں سوکھ چکی ہیں ! اس کے ’’پھل‘‘ کو اندر سے ’’کیڑوں ‘‘ نے چاٹ لیا ہے اور اب اس میں کبھی ’’رس‘‘ نہیں پڑے گا تو وہ گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور ’’کڑوے نیم کی ٹہنی‘ ‘ چن لیتا ہے۔

سات برس گزر جانے کے بعد بھی اگرچہ اسے ضمیر کی خلش کبھی کبھی تنگ کرتی ہے لیکن اسے یقین ہے کہ نہ تو اس نے بے وفائی کا مظاہرہ کیا تھا نہ بزدلی کا۔  آخری منظر میں جب ’’آواز‘‘ اسے ملامت کا نشانہ بناتی ہے تو وہ اپنا پورا پورا دفاع کرتا ہے۔

(5)

ریل کے منظر کے علاوہ ’’سر کی چھایا‘‘ کے تمام مناظر ’’سورج پور‘‘ یا اس کے گرد و نواح کے ہیں اور سورج پور ایک گاؤں ہے۔  چنانچہ ہمیں ہر وہ بات نظر آتی ہے جو دیہاتی زندگی اور ماحول میں پائی جاتی ہے۔  مثلاً، مویشی، کنواں، رہٹ، حقہ، ندی، مرچوں کے کھیت، سرسوں کی پھلچی، کیکر، املی، بڑھ، پیپل اور نیم کے درخت، دھوپ، چھاؤں، تنبورہ، اِک تارہ، ناچ کتھا، میلے ٹھیلے، لوگوں کی سادگی، قناعت، ضعیف الاعتقادی، قسمت پر یقین وغیرہ وغیرہ۔  لیکن سب سے زیادہ لائقِ توجہ جانور اور پرندے ہیں۔  مضافات میں پائے جانے والے تقریباً تمام چوپائے اور پرندے موجود ہیں اور بعض تو باقاعدہ کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔  دوسرے منظر کے آغاز میں کرداروں کی فہرست یوں ہے:

پپو۔  (عبدل) عمر 6 سال

گٹی۔  (حسنی)عمر 8 سال

کٹو۔ گلہری

—- بندر

بلھا۔  سورج پور کے نمبردار کا لڑکا عمر 9 سال

نندی۔  بلھے کی بہن عمر 6 سال

منظر کے دوران میں کٹو کیکر کے تنے پر سے بار بار اترتی ہے، سڑک کے درمیان تک آتی ہے، پھر بندروں کے ڈر سے یا کوئی آہٹ سن کر لوٹ جاتی ہے۔  اور اس منظر کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:  ’’بلھا نندی کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے گزر جاتا ہے اور کٹو پھر واپس کیکر کے تنے پر چڑھ جاتی ہے۔  بندر شور مچاتے ہیں۔

تیسرے منظر کے کرداروں میں گھوڑا اور بیل بھی شامل ہیں اور باقاعدہ مکالمہ بھی کرتے ہیں۔  ناچ کتھا میں ’’بندو ساز چھیڑتا ہے اور حسنی ناچنے لگتا ہے۔  ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ ‘‘

چوتھے منظر میں ’’عبدل سامنے ایک کیکر کے درخت پر گڑسل کو کنکر مارتا ہے ‘‘ پھر نندی اور عبدل کے مابین جو مکالمہ ہوتا ہے اس میں اُلّو، نیل کنٹھ، چوہے، کالے ناگ، بھیڑوں اور اونٹوں کا ذکر آتا ہے اور فاختہ تو خاصی دیر موضوعِ گفتگو بنی رہتی ہے۔

ساتویں منظر میں بھوکی گائیں اور ان کے دودھ سے خالی تھن عبدل کے خیال میں آتے ہیں۔  آٹھویں منظر میں حسنی کے گیتوں میں کونج، چیل، بل بتوریوں اور چڑیوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔  اکبر جنگلی کبوتروں کی ٹکڑیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بندو اُلّو کی آواز کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔

یہ پرندے، جانور اور درخت، محض پرندے، جانور اور درخت ہی نہیں ہیں۔  جاندار ہونے کی حد تک ان کا درجہ انسانوں سے کچھ کم نظر نہیں آتا۔  مثلاً، ساتویں منظر میں فیاض کا کہنا:

ہاں کچھ ایسا ہی قصہ ہے

گھوڑ سواری کھیل نہیں ہے

اپنے پاس بھی دو گھوڑے ہیں

میں نے انھیں بچوں کی طرح سے پالا ہے

یا جیسے آٹھویں منظر میں حسنی گاتا ہے:

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

پھر بعض کو تو عام سطح سے کچھ بلند تر مقام دیا گیا ہے۔  مثلاً چوتھے منظر میں فاختہ کے بارے میں نندی کہتی ہے:

امی کہتی تھیں یہ اک مقدس پرندہ ہے اس کونہیں مارتے !

اور آٹھویں منظر میں جب اکبر کبوتروں کو مارنے کی بات کرتا ہے تو بندو کہتا ہے:

بڑا ہی بھولا پنچھی ہے یہ سیّد اس کی ذات

بھرے سمے مت مارو اس کو مانو میری بات

یا ساتویں منظر کا یہ مکالمہ:

فیاض:  گھوڑا تو بس قسمت والے کو ملتا ہے

اس کے کانوں سے جنت کی ہوا آتی ہے

اس کی ٹاپ سے دھرتی کا دل کانپ اٹھتا ہے

احمد:  مگر کالے گھوڑے کی کیا بات ہے

تم نے دیکھا ہے شاید وہ گھوڑا

وہی کالا گھوڑا!

وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے !

اس کے علاوہ کچھ کو مبارک یا منحوس بھی گردانا گیا ہے۔  ساتویں منظر ہی میں احمد کہتا ہے:

مرے پاس بھی ایک چینا ہے

اس میں بڑا دم ہے بھائی!

بڑا ہی مبارک ہے یہ چینا گھوڑا

مرے پاس جس دِن سے ہے یوں سمجھ لو کہ بس لکشمی آ گئی

آٹھویں منظر میں حسنی گاتا ہے:

ایک کونج میں ایسی دیکھی اڑے چھوڑ کے ڈار

سانجھ بھئے جس دیس میں اترے وہاں نہ ہو اجیار

پھر الّو کی آواز سن کر بندو کہتا ہے:

یہ بولے جس گاؤں ماں پھر نہ بسے وہ گاؤں

یارو اب نئیں بولنا یہاں کسی کا ناؤں

اور گھوڑوں کی باتیں کرتے ہوئے احمد یہ بھی کہتا ہے:

بعض گھوڑا تو سچ مچ ہی منحوس ہوتا ہے

پرندوں اور جانوروں کے ساتھ ساتھ درخت بھی جاندار اور بعض انسانی خصوصیات کے حامل نظر آتے ہیں۔  مثلاً چوتھے منظر میں نندی کہتی ہے:

شام کی خامشی میں درختوں پہ کنکر نہیں مارتے

شام کو پیڑ آرام کرتے ہیں عبدل

اور عبدل کہتا ہے:  وہ املی کا درخت ابھی تک اسی طرح خاموش کھڑا ہے۔

یہ درخت ان کی یادوں کا محافظ اور محبت کا گواہ ہے۔  اس کے برعکس پیپل کا یہ درخت مخالف کی صورت میں نظر آتا ہے:

عبدل:  اس تالاب کے پیپل کے نزدیک نہ جانا!

یہ سب کچھ ایسا بے معنی اور بے سبب بھی نہیں۔  جغرافیائی حالات انسانی زندگی پر بے حد اثرانداز ہوتے ہیں۔  کسی خاص قسم کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کی بہت سی آسائشیں اور مشکلیں محض اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ وہ اُس خاص علاقے میں رہتے ہیں۔  یہ وہ حالات ہوتے ہیں جن کے ہونے یا نہ ہونے پر نہ صرف یہ کہ انسان کا اختیار بہت کم ہوتا ہے بلکہ یہ اس کی مرضی کے خلاف اس کی زندگی پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔  انسان بے پناہ محنت اور توجہ سے ایک کام کرتا ہے مگر کوئی معمولی سا واقعہ یا حادثہ سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے:

کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا

آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا

گویا فطرت میں انسان کی موافق اور مخالف دونوں طرح کی قوتیں کارفرما ہیں۔  منصوبہ بندی کرتے وقت ان کا خاص دھیان رکھنا چاہیے۔  پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ موافق قوتیں مخالف قوتوں میں بدل جائیں۔  ایسا یا تو انسان کی اپنی کوتاہی سے یا باہر کے حالات میں یکدم اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر تبدیلی آنے کے باعث ہوتا ہے۔  مثلاً، زندگی کرنے کے لیے ’’سورج پور‘‘ ایک مثالی گاؤں تھا۔  عمدہ فصلیں، صحت مند مویشی، گھنا جنگل، بھرپور ندی، غرض جو چاہیے سو تھا۔  مگر جیسا کہ آخری منظر میں فیاض کی زبانی پتا چلتا ہے:

سات برس میں اس دھرتی کی ایسی کایا پلٹی!

پہلے جنگل راکھ ہوا، پھر کال پڑا

سیلاب تو بس ایسا آیا کہ توبہ میری!

دیہاتی ماحول کے ضمن میں ایک اور قابلِ توجہ بات دیہاتی زبان ہے۔  مشرقی پنجاب کے شہروں، انبالہ اور پٹیالہ اور گرد و نواح میں بولی جانے والی زبان، ’’سر کی چھایا‘‘ میں کئی جگہ استعمال کی گئی ہے۔  مثلاً پہلے منظر میں ایک اسٹیشن پر ملی جلی آوازیں:

بیرا گڈی چلنے لاگی دوڑ کے آ جا

تیرا ٹکس کہاں ہے ؟

چھجو چاچا میرا بکسا کھڑکی ماں تے پھینک دے جلدی

اچھا اللہ بیلی بیرا!

ہو! چٹھی استابی پایئے !

تیسرے منظر میں کورس کی آواز:

اس بانکے رے ترچھے گھونگٹ ماں توں سارے جگ تے نیاری دیکھے

پھر ایک آواز:  متھے پر جھمر لشکاں مارے مانگ ماں چمکیں ٹوماں

دوسری آواز:  سارا گاؤں دہائیاں دیوے سہر ماں پڑ گئیں دھوماں

پھر عورت کا کہنا:  ہٹ دور پرے کل موئے

تو میرا جوبن چھوئے

تیری اکھیوں ماں ڈالوں سوئے

کل موئے

بیل اور گھوڑے کا تمام تر مکالمہ اسی زبان میں ہے۔  بندو از اول تا آخر یہی زبان بولتا ہے اور کہیں حسنی اور بلھا بھی۔  نویں منظر میں ’’ناری‘‘ سے اور دسویں منظر میں بلھے سے حسنی کے مکالمے زیادہ تر اسی زبان میں ہیں۔

(6)

اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور

اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

ہجرت ’’سر کی چھایا‘‘ کا ایک اہم موضوع ہے۔  ناموافق حالات میں انسان نقل مکانی کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔  جیسے آٹھویں منظر میں حسنی کہتا ہے:

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

لیکن ایسی صورتِ حال بھی پیدا ہو سکتی ہے جب عافیت اور بقا کا واحد راستہ ہجرت ہی ہوتا ہے۔  چھٹے منظر میں ’’آواز‘‘ کہتی ہے:

وہ رستہ ہے !

راتوں رات نکل جا عبدل!

لیکن برسوں کے رشتوں کو یکدم توڑ دینے کا تصور بھی جانکاہ ہے۔

عبدل:  لیکن یہ میرا گھر!

یہ میرے ماں باپ!

کہاں جاؤں گا؟

نندی میرے ارمانوں کا آخری سنگم!

اب ’’آواز‘ ‘ مدلّل طریقے سے عبدل کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے:

اب اس پیڑ سے اُڑ جا

اس کی جڑیں اب سوکھ چکی ہیں

اس کے پھل کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے

ہوا چلے یا پانی برسے

اب اس پھل میں رس نہ پڑے گا

چاند کی کرنیں دستک دے کر

الٹے پاؤں پلٹ جائیں گی

چھلکا پیلا پڑ جائے گا

اب اس پیڑ سے اڑ جا

دور کسی جنگل میں ڈال بسیرا

کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے

 ’’پیڑ‘‘ خاندان اور گھر کی علامت ہے جس کی جڑیں (گاؤں سے رشتہ) سوکھ چکی ہیں۔  اس کے پھل (مستقبل) کو کیڑوں نے ایسے کھوکھلا کر دیا ہے کہ اب کسی ’’ہوا‘ ‘یا ’’پانی‘‘ سے اس میں ’’رس‘‘ نہیں پڑسکتا ہے۔  ’’چاند کی کرنیں ‘‘ ہمدرد اور تعمیر میں ممد قوتیں ہیں جو آئیں گی ضرور لیکن مایوس ہو کر لوٹ جائیں گی جیسے کسی لاعلاج مریض کو دیکھ کر طبیب۔  چھلکا یعنی ظاہری روپ رفتہ رفتہ ماند پڑ جائے گا۔  چنانچہ اب اپنے گاؤں میں عبدل کے پنپنے کا کوئی امکاں باقی نہیں رہا۔  اب چاہے اسے دور کسی جنگل میں بسیرا ڈالنا پڑے، سورج پور سے بہرطور نکلنا ہو گا۔  پھل دار درخت کو چھوڑ نا ہو گا چاہے آشیانہ کڑوے نیم کی ٹہنی پر بنانا پڑے۔  حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا، اگر چہ بڑی تلخ ہے۔

ہجرت ہی کے ضمن میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بعض اوقات انفرادی اور اجتماعی ترقی اور تعمیر کے لیے ہجرت ضروری ہوتی ہے۔  مثلاً، پہلے منظر میں احمد اور فیاض کا یہ مکالمہ:

احمد:  (فیاض سے )

آپ بھی اب نویں شہر میں گھر بنا لیں

بڑی خوبصورت جگہ ہے

فیاض:  جی ہاں !اپنا ارادہ تو پکا ہے

پھول گلی میں پچھلے برس دو قطعۂ زمین لیے تھے۔

اب تو نیویں کھدنے لگی ہیں۔

اللہ کو منظور ہوا تو گھر بھی جلدی بن جائے گا!

احمد: اب تو چاروں طرف سے وہاں لوگ بسنے لگے ہیں

نئی طرز کی کوٹھیاں بن رہی ہیں

کھلی صاف شیشہ سی سڑکیں ہیں

سڑکوں کے دونوں طرف سنگتروں کے درختوں کا اِک سلسلہ ہے۔

یہی احمد سات برس پہلے (آٹھویں منظر میں ) نقل مکانی کی آرزو کرتا ہے مگر حالات اجازت نہیں دیتے:

چلو شہر میں چل کے ڈیرہ لگائیں

مگر بھائی ہم تو پنہ گیر ہیں

شہر میں کیا کریں گے ؟

وہاں ان دنوں کام ملنا بھی مشکل ہے

اپنا کوئی یار ڈپٹی کلکٹر ہی ہوتا

نہیں یار اب تو یہیں مر رہیں گے

اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے

اب تو یہی تھل بسائیں گے

اب یہی احمد ’’پرانی‘‘ جگہ کو چھوڑ کر ’’نویں ‘‘ شہر میں ایک بہت بڑی حویلی میں رہتا ہے۔  اس کے برعکس حشمت، نصیبن اور بلھے کے ماں باپ جنھوں نے تعصب آمیز محبت کی وجہ سے گاؤں چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، سیلاب میں بہہ گئے۔  آخری منظر میں فیاض اور احمد کا یہ مکالمہ ان کے رویے پر ’’تبصرہ‘‘ کرتا ہے:

فیاض:  بندو اور میں کشتی لے کر سب سے پہلے عبدل کے ڈیرے میں پہنچے

حشمت باوا اور نصیبن گھر سے نہ نکلے

احمد:  میں بھی اس رات اکبر کو لے کر گیا تھا مگر وہ نہ مانے !

اجی یہ پرانے زمانے کے بوڑھے کسی کی نہیں مانتے

خیر اچھے تھے وہ لوگ!

دنیا میں اب ایسی شکلیں کہاں ہیں ؟

(7)

پھر درد نے آگ راگ چھیڑا

لوٹ آئے وہی سمے پرانے

آگ ’’سر کی چھایا‘‘ کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔  کبھی یہ شدید گرمی کی شکل اختیار کرتی ہے، کبھی کڑی دھوپ کی، کہیں یہ نفرت کا شعلہ ہے، کہیں حسد کا دھواں، کبھی وصال کی آنچ اور کبھی فراق کی سوزش۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس گاؤں کی یہ کہانی ہے وہ ’’سورج پور‘‘ ہے۔  موسم گرمیوں کا ہے۔  پہلے منظر کے آغاز ہی میں احمد فیاض سے کہتا ہے:

دیکھیے نا اُدھر کس قدر دھوپ ہے !

آپ اِدھر میرے نزدیک آ جائیں

پھر تھوڑی ہی دیر بعد کہتا ہے:

چار دن کتنی جھڑیاں لگیں پھر بھی گرمی کی شدت وہی ہے !

باتوں باتوں میں سورج پور کا ذکر آتا ہے تو سات برس پرانی آگ اور گاؤں کی بربادی کا تذکرہ ہوتا ہے۔  عبدل سوچتا ہے:

سورج پور اب بھی نہ بسے گا

سورج پور!۔۔ ۔  وہ آگ کی نگری!

وہ اندھیاری رات۔۔ ۔  وہ جنگل!

چوتھے منظر میں زرینہ کا گانا سن کر یاسمینہ کہتی ہے:

اچھا جی اب میں سمجھی!

تو بھی جلی ہوئی ہے

پھر عبدل کہتا ہے:

ریت کے تارے آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں

پانچواں منظر تو ہے ہی ’’آگ کا منظر‘‘ —- سات برس پہلے والا۔

عبدل:  کیسے بھاگوں ؟

آگ —- آگ —- آگ

چاروں جانب آگ کا دریا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز:  آگ کسی کی میت نہیں ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

چھٹے منظر میں ’’جنگل کی آگ کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں۔۔۔‘‘

آٹھویں منظر میں:  ’’۔۔ ۔  الاؤ کی آگ بھڑک رہی ہے ‘‘ حسنی گاتا ہے:

رنگ برنگے گربڑے آگ کے پنکھ لگائے

گھپ اندھیری سانجھ ماں کس نے یہاں اڑائے

نویں منظر میں آگ اندر کی آگ بن جاتی ہے:

بھانبڑ جلے سریر ماں رنگ اچھالیں نین

من دیپے جس رین ماں یہی نہ ہو وہ رین

یا حسد کی آگ:

دھرتی اوپر نیلا گگن، گگن پہ ناچیں پھول

ان کی چھایا دیکھ کے جل میں جلیں بھنبھول

مگر کچھ ہی دیر بعد آگ اپنی اصل صورت میں سامنے آ جاتی ہے:

احمد:  ارے وہ اُدھر آگ!

اس آگ کے پاس۔۔ ۔  اک آدمی زاد!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

حسنی:  دھڑ دھڑ جلے سوکھی لکڑی جگر جگر انگار

آگ کی اٹھتی لاٹ سے نکلیں سرخ انار

یہ آگ ناری کا پردہ بھی ہو سکتی ہے اور دفاع بھی:

اگنی برن کی اوٹ ماں، اپنا بدن چھپا

او ناری او مورکھ ناری اپنا ناؤں بتا

پھر عذاب کی شکل بھی ہو سکتی ہے:

ناری:  ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بجلی پڑے ان محلوں پر، تم پر پڑو انگار

منظر جب ختم ہوتا ہے ’’تو آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے ہیں۔۔ ۔ ‘‘

دسویں منظر میں بھی ’’چاروں طرف سے جنگل دھڑ دھڑ جلتا ہے ‘‘۔  پھر جب احمد پوچھتا ہے:

آگ کس نے لگائی تھی بھائی!

ملا کچھ پتہ؟

تو ذہن میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ فساد کی جڑ کون ہے ؟ اصل قصور کس کا ہے ؟

گیارھویں منظر میں آگ تعمیری کام کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔  یہاں وہ انسان کی مطیع اور دوست ہے:

شیشہ گر: ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

یہ چمنی ہے ! چمنی میں ایندھن جلتا ہے۔

ایندھن کولے کا ہوتا ہے۔  لکڑی اور پتھر کا کولہ!

یہ بھٹی ہے ! بھٹی میں شیشہ پگھلتا ہے اور سانچوں میں گرتا رہتا ہے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بارھویں منظر میں گرمیوں کی دوپہر ہے اور ’’عورت ‘ کا گانا‘‘ آگ سے معمور ہے:

کنچن روپ دکھائے

سرگم سا (سارے گاما سا)

جل میں آگ لگائے

چھم چھم ناچے کھڑی دوپہری

دھوپ کی تانیں گہری گہری

سرگم سا

جل میں آگ لگائے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اور جب اکبر کہتا ہے:  ہمارے مفتی گذر گئے ہیں

یہ آخری شمع رہ گئی تھی

تو آگ ٹھنڈک اور روشنی کا تاثر لیے ہوئے ہے۔

(8)

چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان

ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن

یہ شعر ناصر کاظمی کی جس غزل کا ہے، انھیں اس قدر پسند تھی کہ جب ان کے آخری انٹرویو میں ان سے شعر سنانے کی فرمائش کی گئی تو انھوں نے اس کا انتخاب کیا۔  کہا کہ ’’بعض وجوہ کی بنا پر مجھے پسند ہے کہ طلوع و غروب کے مناظر ہیں۔  حیرت و عبرت کہ دنیا میں کیا ہوتا ہے۔  کس طرح چیزیں ڈوبتی ابھرتی ہیں۔  کس طرح صبح شامیں ہوتی ہیں۔۔ ۔ ‘‘

اِتفاق کی بات ہے کہ ’’سر کی چھایا‘‘ میں بھی یہ طلوع و غروب اور چیزوں کا ڈوبنا ابھرنا بہت واضح طور پر دکھائی دیتا ہے:

رواں دواں لیے جاتا ہے وقت کا دھارا

 ’’سر کی چھایا‘’ جس کی ابتدا ’’کس قدر دھوپ‘‘ اور لوگوں سے بھرپور، با رونق گاؤں میں ہوتی ہے، ایسے مقام پر آ کر ختم ہوتی ہے، جہاں بے اختیار یہ شعر یاد آتا ہے۔

جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو

بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

ڈرامے کا آغاز ہی اس جملے سے ہوتا ہے:

 ’’شام کا وقت ہے۔۔ ۔ ‘‘

 ’’وقت —- ڈھلتا سورج‘‘

جب فیاض پوچھتا ہے، ’’سورج پور اب تھوڑی دور ہی ہو گا؟‘‘ تو احمد کا جواب ہے، ’’نہیں گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں رات پڑ جائے گی۔ ‘‘ تھوڑی دیر بعد جب ’’گاڑی ایک ننھے سے اسٹیشن پر رک جاتی ہے، تو ’’سورج ڈوب رہا ہے۔ ‘‘ پھر مولوی صاحب باتوں باتوں میں کہتے ہیں:

بتوں کی چاہ گئی ہو برا ضعیفی کا

اِدھر تو پک گئے بال اور اُدھر سدھارے دانت

اپنا دن ڈوب چکا بابا!

یہاں دن ڈوبنے کے اور معنی ہیں۔

صرف دوسرا اور تیسرا منظر ’’دن چڑھے ‘‘ کا ہے۔  چوتھا منظر پھر شام کا۔

عبدل نندی سے پہلی بات یہی کرتا ہے:

آؤ میں تم کو گھر چھوڑ آؤں

دیکھو سورج کتنا نیچے اتر گیا ہے !

جب اکبر ملتا ہے تو اس کے جملے یہ ہیں:

بڑی اندھیری ہے آج کی شام

آندھی آئے گی

اب شام کے ساتھ ساتھ تاریکی اور آندھی بھی شریک ہو گئی۔  جب گھوڑ سواروں کے آنے پر گرد اڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے تو نندی کہتی ہے:

چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں

رات ہو گئی ہے !

پانچواں منظر ایسے شروع ہوتا ہے:  ’’اندھیرے جنگل میں عبدل نندی کو ڈھونڈتا ہے۔۔ ۔  خاصی رات ہو گئی ہے۔ ‘‘ چھٹے منظر کا آغاز یہ ہے:  ’’آدھی رات گذر چکی ہے۔ ‘‘ ساتواں منظر پھر ریل گاڑی کا ہے اور پہلا جملہ ہے، ’’سورج ڈوب رہا ہے۔ ‘‘ آٹھویں منظر میں بھی ’’شام ہو رہی ہے ‘‘۔  نواں منظر۔۔ ۔  ’’اندھیری رات ہے۔  سناٹا ایک حادثے کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔۔ ۔ ‘‘ دسویں منظر میں ’’رات ہو گئی ہے ‘‘ البتہ گیارھویں منظر میں صبح کا وقت ہے، اور بارھویں میں ’’گرمیوں کی دوپہر ہے ‘‘۔  آخری منظر کی ابتدا ’’رات ہو گئی ہے ‘‘ سے ہوتی ہے اور انتہا:

کوئی آواز بھی تو نہیں !

کوئی بتی نہیں !

یہ تو جنگل ہے سنسان جنگل!!

(9)

ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار

عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے

ناصر کاظمی سے ایک بار سوال کیا گیا کہ آپ نے شعر کیوں اور کیسے کہنا شروع کیا تو انھوں نے اس کا ایک سبب یہ بتایا کہ انھیں یوں لگتا تھا کہ جو خوبصورت چیزیں وہ فطرت میں دیکھتے ہیں، ان کے بس میں نہیں آتیں ؛ ان کی گرفت سے نکل جاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہیں۔  جو وقت مر جاتا ہے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا۔  شاعری میں زندہ ہو سکتا ہے۔

دیکھا جائے تو یہ جذبہ ہر تخلیق کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے، خواہ شاعری ہو یا نثر، مصوری اور سنگ تراشی ہو یا موسیقی۔  جو لمحہ جتنا خوبصورت اور قیمتی ہو گا، اسے پھیلانے اور محفوظ کرنے کی خواہش اتنی ہی شدید ہو گی۔  تخلیق کار کامیاب ہو یا ناکام، اس لمحے کی یاد نہ صرف باقی رہتی ہے بلکہ تڑپاتی رہتی ہے۔  اس لحاظ سے حسن پرستی پر ماضی پرستی کا گمان ہونا کچھ ایسا عجب نہیں۔

ہر ڈرامہ نگار یا ناول نویس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے اپنے خیالات، یادوں اور خوابوں کی تشہیر کرنا چاہتا ہے۔  یعنی مخلوق کے پردے میں خالق خود بول رہا ہوتا ہے۔  یہ بات ایک حد تک درست ہے۔  تخلیق کا تخلیق کار سے ایسا ہی تعلق ہوتا ہے جیسا پھل کا درخت سے یا خوشبو کا پھول سے۔  اگر ناصر کا ظمی کے ایک اچھے قاری کو مصنف کا نام بتائے بغیر ’’سر کی چھایا‘‘ پڑھنے کو دی جائے تو وہ جلد ہی جان جائے گا کہ یہ کس کی تخلیق ہے۔

رفتگاں کی یاد، ہجرت کا تجربہ، فراق، اداسی، فطرت سے لگاؤ، جانوروں اور پرندوں سے محبت، سیر و سیاحت، گھوڑ سواری اور موسیقی کا شوق وغیرہ، ناصر کاظمی کی زندگی اور شاعری کی چند نمایاں اور اہم ترین خصوصیات ہیں اور ’’سر کی چھایا‘‘ میں بھی انتہائی شدت کے ساتھ کارفرما نظر آتی ہیں۔

 ’’سر کی چھایا‘‘ محض ایک پڑھی جانے والی منظوم کہانی نہیں بلکہ باقاعدہ سٹیج پر پیش کیا جانے والا ڈرامہ ہے۔  یہ حقیقی سٹیج اور اس کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔

بقول ولسن نائٹ، ڈرامے کو کاغذ کے اوراق سے جیتے جاگتے سٹیج پر منتقل کرنا کسی نازک فرنیچر یا بھاری مشینری کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہچانے کا سا عمل ہے۔  اگر اسے جوں کا توں لے جایا جائے تو ٹوٹ پھوٹ لازمی ہے۔  اس کے مختلف حصوں یا پرزوں کو الگ الگ کر کے احتیاط سے لے جانا پڑے گا اور پھر انھیں جوڑ کر دوبارہ تشکیل کرنا ہو گا۔  چنانچہ ہدایت کار ڈرامے کو نئے سرے سے تخلیق کرنے کا اہل ہونا چاہیے۔  ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ ڈرامے کی مابعد الطبیعاتی اساس سے واقف ہو۔  وہ اسے محض ایک اچھی کہانی نہ سمجھے جس میں کہیں ڈرامائی صورت ہائے احوال ہوں۔  اسے چاہیے کہ سب سے پہلے انتہائی توجہ سے ڈرامے کی مدلل تعبیر اور تفسیر کرے۔  تفصیلات پر غور و فکر بے ثمر ثابت ہو گا جب تک ان میں رشتہ قائم کرنے والا وحدانی خیال بے نقاب نہ کیا جائے۔  محض سطح سے کام نہیں نکالا جا سکتا۔  باطنی معانی میں اترنا ضروری ہے۔  ہم کوئی ڈرامہ پیش نہیں کر سکتے جب تک اس کا مکمل احاطہ نہ کر لیں اور اسے ایک وحدت کے طور پر نہ دیکھنے لگیں۔  انفرادی لمحوں کی بجائے پورا ڈرامہ نظر میں ہونا چاہیے۔  ایک صورتِ حال دوسری صورتوں کی وضاحت یا عکاسی کرتی ہوئی دکھائی دے۔  فوری اور لمحاتی تاثر کافی نہیں ہوتا۔

 ’’سر کی چھایا‘‘ کی مابعد الطبیعاتی اساس کیا ہے ؟ اس کے باطنی معانی کیا ہیں اور وہ وحدانی خیال کیا ہے جو اس کے اجزاء میں ایک پائیدار رشتہ قائم کرتا ہے ؟

عبدل تمام حساس انسانوں کا نمائندہ ہے۔  اس کا کرب ہم سب کا کرب ہے۔  اس کی کہانی ہر انسان کی کہانی ہے۔  انسان —- جسے چننے اور مسترد کرنے پر اختیار ہے لیکن یہی اختیار اس کی سب سے بڑی مجبوری بھی ہے۔  ’’کچھ حاصل کرنے کا مطلب بہت کچھ کھو دینا بھی ہے۔  ایک طرف دیکھنے کے معنی ہیں باقی ہر طرف سے منہ موڑ لینا۔  ایک جگہ پاؤں رکھنے کا مطلب سینکڑوں جگہ پاؤں نہ رکھنا ہے۔  پھر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اسے بھی تو ثبات نہیں۔  زندگی ہر لحظہ دستبردار ہوتے رہنے کا نام ہے۔  اپنی آرزوؤں، صلاحیتوں اور قوتوں سے، اپنے خوابوں، ساتھیوں اور پیاروں سے ؛‘‘ *اور بالآخر کیفیت اس شعر کے مصداق ہو جاتی ہے:

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ

حافظہ انتہائی قیمتی نعمتوں میں سے ہے لیکن یہ اتنا بڑا عذاب بھی بن سکتا ہے کہ انسان اس کے چھن جانے کی دُعا مانگے۔  محبوب کی یاد دل دھڑکنے کا سبب بھی ہو سکتی ہے اور دم نکلنے کا باعث بھی۔  آگہی سکون بھی بخشتی ہے اور ایک دائمی آشوب بھی۔  دوربینی شکست کو فتح میں بھی بدل دیتی ہے مگر بعض اوقات جنگ سے پہلے ہی ہتھیار پھینکنے کا باعث بن جاتی ہے۔  دوراندیشی عمل کے لیے بھی محرک بنتی ہے اور بے عملی کو بھی جنم دیتی ہے۔  مستقبل کی فکر کبھی تو پیغامِ بیداری بن جاتی ہے اور کبھی ایسی مایوسی پیدا کرتی ہے کہ تمام جد و جہد لاحاصل اور بے ثمر نظر آتی ہے۔  خیالِ یار کڑی دھوپ کے سفر میں سر پر چادر کا کام دیتا ہے تو شب کی تنہائیوں میں کانٹوں کا بستر بھی بن جاتا ہے۔

تو کیا قنوطیت، یاسیت اور بے عملی ’’سر کی چھایا‘‘ کی اساس ہے ؟ ہر گز نہیں ؟ عبدل تمام مشکلات، مخالفتوں اور حادثوں کے باوجود زندگی کو ایک نعمت سمجھتا ہے وہ اگرچہ شدید محبت کرنے کا اہل ہے اور اپنی محبوبہ کے ساتھ جل مرنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے لیکن اس کے اندر کا حقیقت پسند انسان ہمیشہ غالب آ جاتا ہے۔  اس کے خواب بہت حسین اور شیریں ہیں مگر وہ دنیا کو ان پر قربان نہیں کرتا:

کچھ آدمی کی بھی مجبوریاں ہیں دنیا میں

ارے وہ دردِ محبت سہی تو کیا مر جائیں

نندی کو حاصل کرنے کے لیے وہ جان کی بازی لگا دیتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتا ہے کہ:

وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں

عبدل کی کہانی سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ زندگی سے فرار کی کوشش دُکھ اور پریشانی کا باعث بنتی ہے۔  ماضی میں پناہ لینا ممکن نہیں۔  عبدل، احمد اور فیاض بار بار یادوں کی دنیا میں جاتے ہیں لیکن جلد یا بدیر حقیقت کی دنیا (گاڑی) میں واپس آ جاتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ انھیں واپس آنا پڑتا ہے۔  آٹھویں منظر میں احمد نامساعد حالات کے باوجود شکست ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔  مایوسی کی باتیں کرتے ہوئے ایک نئے عزم اور امید کے ساتھ کہتا ہے:

اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے

اب تو یہی تھل بسائیں گے

پھر گیارھویں منظر میں جب اکبر اس سے کہتا ہے:

تو اِتنی جلدی ہی کیا ہے احمد؟

میرا تو دِل کانپتا ہے جب بھی خیال آتا ہے دوستوں کا

یہ حصے وِصے کی بات چھوڑو!

جو کام کرنا ہے کرتے جاؤ!

تو اس کا جواب ہے:

میں قانون کی رو سے کہتا ہوں

ورنہ مرا دل بھی دکھتا ہے

حسنی بھی اپنا بڑا یار تھا

اور عبدل تمھارا بڑا دوست تھا

بلکہ دونوں تمھارے ہی ساتھی —-

مگر خیر! چھوڑو یہ باتیں !

ذرا کنچ گھر تو دکھا دو!

آخری دو سطریں انتہائی اہم ہیں بلکہ زیر بحث موضوع کے بارے میں فیصلہ کن۔  بیتے ہوئے حسین لمحے کسے عزیز نہیں ہوتے ؟ مگر کنچ گھر (حال اور مستقبل) زیادہ اہم ہے۔  زندگی ماضی اور مستقبل میں توازن قائم کرنے کا نام ہے۔  ماضی سے سبق سیکھ کر، قوت حاصل کر کے مستقبل کو سنوارنا ہی عینِ حیات ہے:

ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا

ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے

اور دیکھا جائے تو ’’برگِ نے ‘ ‘ کا یہ شعر ’’سر کی چھایا‘‘ کا عنوان بن سکتا ہے۔  لطف کی بات یہ ہے کہ گاڑی کے سفر نے زندگی کے سفر کو مجسم اور متحرک شکل دے دی ہے۔  مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے بھی بیتاب ہیں اور یادوں میں بھی کھو کھو جاتے ہیں۔  لیکن جونہی ماضی غالب آنے لگتا ہے، گاڑی رک جاتی ہے اور وہ بھی تاریک اور سنسان جنگل میں۔  گاڑی ایک لحاظ سے تصور کی علامت بھی ہے جو ماضی میں زیادہ دور نکل جائے تو غیر فعال ہو کر رہ جاتا ہے۔

وجۂ تسکیں بھی ہے خیال اس کا

حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے

باصر سلطان کاظمی

اگست 1981

پہلا منظر

شام کا وقت ہے۔  ریل گاڑی ایک پہاڑی علاقے میں فراٹے بھرتی ہوئی جا رہی ہے۔  درمیانے درجے کے چھوٹے سے ڈبے میں چند مسافر بیٹھے ہیں۔  تین آدمی ایک طرف بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔

زمانہ:  ہجرت کے بعد

وقت:  ڈھلتا سورج

کردار

احمد: عمر 37 سال

فیاض:  عمر 41 سال

مولوی صاحب: عمر   75 سال

تصویر حسین، منجن بیچنے والا: عمر تقریباً 40 سال

عبدل:  عمر تقریباً 30 سال

(سفر کر رہا ہے۔  راستے میں اس کا گاؤں پڑتا ہے۔  احمد اور فیاض، عبدل کے گاؤں میں رہتے ہیں، لیکن وہ دونوں عبدل سے ناواقف ہیں۔ )

احمد: میاں یہ تو کہنے کی باتیں ہیں

کچھ بھی نہیں وہم ہے

فیاض:  بس جی آپ نے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے۔

آئے دِن کہیں جانا نکلنا ہی رہتا ہے

نیل کنٹھ کوئی ایسی چیز نہیں

یہ دائیں اُڑے یا بائیں

ہم نے تو کبھی دھیان دیا ہی نہیں۔۔ ۔

احمد: بھلا آج کل کے زمانے میں !

قبلہ! ذرا سوچیے تو سہی!!

مولوی صاحب: تم مری عمر کو پہنچو گے تو پھر پوچھوں گا

تم نے دیکھا ہی ابھی کیا ہے ؟

فیاض: آپ نے اِک دنیا دیکھی ہے

گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے

ٹھیک ہے ! لیکن آپ ہی سوچیں کیا یہ وہم نہیں ہے ؟

احمد:  دیکھیے نا! اُدھر کس قدر دھُوپ ہے !

آپ اِدھر میرے نزدیک آ جائیں

کافی جگہ ہے !

فیاض: مولوی صاحب آپ یہاں آ جائیں !

اس کھڑکی کے پاس ذرا آرام سے بیٹھیں !

مولوی صاحب: تم مرا غم نہ کرو

میں جہاں بھی ہوں وہیں اچھا ہوں !

فیاض: حضرت آپ تو سچ مچ رُوٹھ گئے ہیں

بحث میں ایسا ہو جاتا ہے

مولوی صاحب: ابھی لونڈے ہو میاں ! بات تو کرنا سیکھو!

میں نے تجھ سے کئی لونڈے دیکھے !

تیرے ابا کے بھی ابا کا زمانہ دیکھا

میں نے تو ایک صدی دیکھی ہے !

فیاض: دیکھیے حضرت! ابا وبا رہنے دیں بس

نہیں تو۔۔ ۔

مولوی صاحب: بس مرے منہ نہ لگو

ہنہہ بڑے آئے کہیں کے۔۔ ۔

فیاض: دیکھیے صاحب! آپ زبان سنبھال کے بولیں

چٹی داڑھی کی عزت کرتا ہوں ورنہ!

چپکے ہو کے بیٹھے رہیے !

مولوی صاحب: میں کہا چپ رہو بس۔۔ ۔

احمد: چار دِن کتنی جھڑیاں لگیں پھر بھی گرمی کی شدت وہی ہے !

فیاض: توبہ میری!

دن ہے یا شیطان کی آنت

احمد: بھلا کیا بجا ہے ؟

فیاض: پورے پانچ بجے ہیں

احمد: کہاں جائیں گے آپ؟

فیاض:  سورج پور! بس اگلے اسٹیشن سے آگے

عبدل ذرا دُور کونے میں کھڑکی کی طرف بیٹھا ہے۔  وہ سورج پور کا نام سنتے ہی چونک پڑتا ہے اور پھر کسی خیال میں کھو جاتا ہے۔

احمد: ارے پھر تو اک ساتھ اُتریں گے

میں تو نویں شہر جاؤں گا

فیاض: سورج پور اب تھوڑی دُور ہی ہو گا!

احمد: نہیں ! گھر پہنچتے پہنچتے ہمیں رات پڑ جائے گی

فیاض: آج تو ساتویں رات ہے خاصا چاندنا ہو گا

ٹھنڈے ٹھنڈے گھر پہنچیں گے

احمد: آپ کو میں نے پہلے بھی دیکھا ہے ؟

فیاض: دیکھا ہو گا! نویں شہر میں دیکھا ہو گا!

میں بھی آپ کی صورت تو پہچان رہا ہوں

کہاں ملے یہ دھیان نہیں

احمد: نویں شہر میں کچھ مہینے ہوئے میں نے بنگلہ لیا ہے

وہاں میرے بھائی کا لڑکا ہے

وہ ڈاکٹر ہے !

ارے ہیں ! یہ گاڑی کی رفتار کو کیا ہوا؟

ریل گاڑی ایک ننھے سے اسٹیشن پر رُک جاتی ہے۔  کچھ مسافر رنگ برنگے کپڑے پہنے ایک ڈبے کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں۔  سورج ڈُوب رہا ہے۔  پھیری والوں اور مسافروں کی ملی جلی آوازیں اور انجن کی شائیں شائیں فضا کو خاموش کر دیتی ہے۔

پہلی آواز:  پان بیڑی سگرٹ

فیاض: بیڑی والے ! او میاں بیڑی والے !

کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟

پہلی آواز: بابو جی! یہ سیّد پور ہے !

دوسری آواز: سو — ڈا —- بر–ف —- لے مَن سو — ڈا

فیاض: سگرٹ والے اِدھر تو آنا؟

جلدی! بھاگ کے ! گولڈ فلیک کی ڈبیا دینا

چار پان بھی! باقی پیسے واپس کر دو

یہ لو ایک روپیہ!

(احمد کی طرف دیکھ کر) چائے پئیں گے ؟

احمد: نہیں اب تو گھر ہی پہنچ کر پئیں گے !

میاں گاڑی چلنے لگی ہے

اب اندر چلے آؤ!!

آوازیں: بیرا گڈی چلنے لا گی دَوڑ کے آ جا

تیرا ٹکس کہاں ہے ؟

چھجو چاچا میرا بکسا کھڑکی ماں تے پھینک دے جلدی

اچھا اللہ بیلی بیرا!

ہو! چٹھی اَستابی پایئے !

گاڑی چھوٹتی ہے۔  فیاض، احمد کے پاس آ کر بیٹھ جاتا ہے۔  ایک منجن بیچنے والا دو چھوٹی چھوٹی شیشیاں ہاتھ میں لے کر آواز لگاتا ہے۔  عبدل کھڑکی کی طرف منہ کیے خاموش بیٹھا ہے۔

فیاض: یہ تصویر حسین یہاں بھی آ دھمکا ہے

اِس کی بات پہ دھیان نہ دینا

دھوکے باز کہیں کا۔۔ ۔

تصویر حسین: اے دوستو لایا ہوں بڑی دُور سے منجن

دندانِ مبارک پہ لگا لو مرا منجن

 ’’جس کے منہ سے آوے باس

اس کی دارُو میرے پاس‘‘

یہاں خریدو آٹھ آنے میں

ریل گاڑی سے باہر لوں گا ایک روپیہ!

ہے کوئی بھائی! آٹھ آنے میں

مولوی صاحب!! آٹھ آنے میں

منجن میرا سب سے نرالا

اس کو لے گا دانتوں والا

مولوی صاحب:  ’’بتوں کی چاہ گئی ہو برا ضعیفی کا

اِدھر تو پک گئے بال اور اُدھر سدھارے دانت‘‘

اپنا دِن ڈوب چُکا ہے بابا

جاؤ اب آگے سے رستہ چھوڑو!

اس طرف جاؤ ہوا آنے دو!

تصویر حسین: جاتا ہوں چلا جاتا ہوں بِگڑو نہیں بابا

اے دوستو لایا ہوں بڑی دُور سے منجن

دندانِ مبارک پہ لگا لو مرا منجن

فیاض: (آہستہ سے ) میں تو جانوں یہ پھڑ باز ہے !

مفت میں آٹھ آنے کیوں کھوئیں ؟

احمد: میاں آٹھ آنے کے سگرٹ پئیں گے !

تصویر حسین: چھِک بابا پیسہ لے جا

چھِک بابا پیسہ لے جا

 ’’وزن برابر سب کو تول

دارُو ہووے یوں انمول

زیرہ مہرچیں ستوا سونٹھ

کہتا اُجلا لے کر گھونٹھ

جوں جوں لگاوے پاوے سُکھ

تجھ دانتوں کا جاوے دُکھ‘‘

آٹھ آنے میں ! ہے کوئی لینے والا بھائی!

ایک آواز: یہ لو اٹھنی! ایک شیشی دے دینا بھائی!

دوسری آواز: ایک شیشی اِدھر کو بھی لانا

تصویر حسین: منجن میرا سب سے نرالا

اس کو لے گا دانتوں والا

آٹھ آنے میں ! دُنیا لٹ گئی

آٹھ آنے میں

آپ۔۔ ۔  جناب۔۔ ۔  آپ — اور آپ۔۔ ۔

فیاض:  لیجیے سگرٹ پیجیے !

احمد: شُکریہ میں ابھی پی چکا ہوں

(مختصر سا وقفہ)

نویں شہر میں آپ کا گھر کہاں ہے ؟

فیاض: وہاں تو اپنا کاروبار ہے

پچھلے دِنوں ہی بھائی نے ہوٹل کھولا ہے !

اب اچھا خاصا چلنے لگا ہے !

سورج پور میں اپنا گھر ہے۔

اُونچی مسجد سے کچھ آگے وہ جو عظمت منزل ہے نا!

وہی ہمارا گھر ہے۔

عبدل: (سوچتا ہے ) یہ فیاض ہے ! عظمت منزل والوں کا وہ منجھلا لڑکا!

یہ میرے بچپن کا ساتھی!

……………

یہ اب کتنا بدل گیا ہے ؟

……………

احمد: کچھ مہینے ہوئے میں نے بستی سے دو میل پر پانچ ایکڑ لیے تھے

وہ عبدل۔۔ ۔  وہی کنچ گھر پھر چلایا ہے ہم نے !

وہی شیشہ گر مل گیا ہے

بس اب کام چلنے لگا ہے

فیاض: اچھا اچھا اب میں سمجھا

آپ اکبر کے حصہ دار ہیں !

بڑا ہی نیک انسان ہے اکبر

احمد: تو کیا آپ اکبر سے واقف ہیں ؟

وہ میرا ساتھی ہے !

فیاض: کام تو اچھا خاصا ہے پر کاریگر ملنے مشکل ہیں

احمد: اجی اپنے قصبے میں بے کار لوگوں کا توڑا ہے !

ان کو سکھا لیں گے، بس دو مہینے کا قصہ ہے

چھ سال کے بعد اس کنچ گھر کو چلایا ہے

منت سے انجینئر کو منایا ہے

کیا آپ عبدل سے واقف ہیں ؟

فیاض: مدت گزری! برسوں گزرے !

میں تو اس کے بعد آیا تھا۔

بارہ برس کے بعد آیا تھا۔

پہلے سنگا پور رہتا تھا

ابا جی نے خط لکھا تھا ان کے بلا نے پر آیا ہوں

میں بھی اب تو بڑے سے کام کی سوچ رہا ہوں

عبدل: (سوچتا ہے )

یہ احمد ہے ! اکبر میرے دوست کا ساتھی!

کبھی کبھی یہ اکبر سے ملنے آتا تھا

اکبر میرا دوست مجھے کیا بھول گیا ہے ؟

اکبر، حسنی دونوں ساتھی سوچتے ہوں گے !

میں اور نندی دونوں جل کر۔۔ ۔

احمد: (فیاض سے )

آپ بھی اب نویں شہر میں گھر بنا لیں

بڑی خوب صورت جگہ ہے

فیاض: جی ہاں ! اپنا ارادہ تو پکا ہے

پھول گلی میں پچھلے برس دو قطعہ زمین لیے تھے

اب تو نیویں کھدنے لگی ہیں

اللہ کو منظور ہوا تو گھر بھی جلدی بن جائے گا!

احمد: اب تو چاروں طرف سے وہاں لوگ بسنے لگے ہیں

نئی طرز کی کوٹھیاں بن رہی ہیں

کھلی صاف شیشہ سی سڑکیں ہیں

سڑکوں کے دونوں طرف سنگتروں کے درختوں کا اک سلسلہ ہے

فیاض: سورج پور اب پھر نہ بسے گا

آج سے سات برس پہلے جب اس جنگل کو آگ لگی تھی

وہ دِن اپنے گاؤں کی بربادی کا دِن تھا

احمد: جہاں کمیوں کے مکاں تھے وہاں ڈاک خانہ بنا ہے

فیاض: ہاں جی! اپنے دیکھتے دیکھتے دُنیا کتنی بدل گئی ہے ؟

جہاں وہ اینٹوں کا بھٹہ تھا

جلے ہوئے جنگل کے ٹھُنٹھ پڑے تھے

وہاں یہ شہر بسا ہے !

احمد: جہاں وہ پرانا کنواں تھا وہاں بجلی گھر بن گیا ہے !

عبدل: (نندی سے اپنی آخری ملاقات اس کی آنکھوں میں پھر جاتی ہے )

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

وہ دِن یاد ہیں !

اسی کنویں پر سانجھ سویرے کھیلنے آتے

وہ میلہ!۔۔ ۔  وہ ناچ کتھا!

پھر چیت کا میلہ آیا۔۔ ۔  من بھایا۔  ہو آیا۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

سورج پور اب پھر نہ بسے گا!

سورج پور۔۔ ۔۔  وہ آگ کی نگری!

وہ اندھیاری رات۔  وہ جنگل!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

کہاں ہو نندی؟ یاد ہیں وہ دن؟

جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے !

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

میں اور حسنی کھیل رہے تھے

دوسرا منظر

سورج پور کے زمیندار حشمت کا لڑکا عبدل اور اس کا منہ بولا بھائی حسنی دونوں اپنے مکان کے صحن میں کھیل رہے ہیں۔

کردار

پپو: (عبدل) عمر 6 سال

گٹی:  (حسنی) عمر 8 سال

کٹو: گلہری

بندر

بلھا: سورج پور کے نمبردار کا لڑکا۔  عمر 9 سال

نندی:  بلھے کی بہن عمر 6 سال

پپو گھر کے صحن میں سے گاتا ہوا باہر ڈیرے میں آ جاتا ہے۔

پپو: تو چل قمری میں آتا ہوں

میں ہیرے پنے لاتا ہوں

میں ٹھُم ٹھُم کرتا آتا ہوں

تو چل قمری میں آتا ہوں

آتا ہوں !

آتا ہوں !

(پپو حسنی کو آواز دیتا ہے )

گٹی بھیا! دَوڑ کے آؤ!

یہ دیکھو یہ کیا ہے بھیا!

گُٹّی: ابے کیا ہے ؟ کیوں کان کھائے ہیں ؟

پ: (بند مٹھی کو دُور سے دکھا کر آواز دیتا ہے )

گٹی بھیا! ایک چیز ہے !

چھوٹی سی ہے !

گ: (دوڑا ہوا پپو کے پاس آ کر پوچھتا ہے )

بتا دے نا بھیا!

میرے اچھے بھیا نہیں ہو!

پ: نا بھیا جی تم ہی بوجھو!

گ: ۔۔ ۔۔ ادھنی ہے !

پ: ایسی ویسی چیز نہیں ہے !

گ: ابے کھول مٹھی!!

پ: پہلے ہار تو مانو

گ: بھلا تجھ سے میں ہار مانوں !

ذرا اپنی مٹھی کو سورج کے آگے تو لانا!

بتاتا ہوں بس میں ابھی بوجھتا ہوں !

یہ شیشے کی کرچی ہے !

پ: اتا پتا بھی اس کا سن لو

کھانے میں نہ پینے میں

چکھنے میں نہ سونگھنے میں

چھوٹی سی ہے !

بالکل ننھی منی سی ہے،

گوری چٹی بگلے جیسی!

گ: ابے او! یہ اِلّی ہے !

کم بخت تو نے چرائی ہے

پ: ہم نی بتاتے !

ہم نی دکھاتے !

تم ہی بوجھو!

گ: ابے تو دکھاتا ہے یا مار کھائے گا:

پ: پہلے میرا ہاتھ تو چھوڑو!

(پپو بھاگنے لگتا ہے )

گ: (دَوڑ کر اُسے پکڑ لیتا ہے )

ابے سل کھٹیے بتا دے نہیں تو!

پ: پہلے اپنی آنکھیں میچو!

کِن من کانی کون کنا

کِن من کانی کون کنا

ہت تیرے کی دیکھ رہا ہے !

آ جا! آ جا! آ جا

اچھا جی! اب آنکھیں کھولو

(پپو مٹھی کھول دیتا ہے )

گ: ارے بس یہی چیز تھی نا!

یہ کنکی کہاں سے ملی ہے ؟

ارے باپ رے باپ!

پپو! وہ بندر ادھر آ رہا ہے !

وہ بندر تجھے کاٹ کھائے گا۔

پ: کیوں کاٹے گا؟

یہ بندوق نہیں دیکھی کیا؟

تیری غلیل کہاں ہے ؟

گ: ارے تو نہیں باز آتا!

پ: وہ دیکھو وہ کٹو آئی

آؤ اس کو پکڑیں بھیا!

کٹو کیکر کے تنے پر سے بار بار اُترتی ہے۔  سڑک کے درمیان تک آتی ہے اور پھر بندروں کے ڈر سے یا کوئی آہٹ سن کر لَوٹ جاتی ہے۔

چری ٹیؤ، چری ٹیؤ۔

چری ٹیؤ، چری ٹیؤ

اُو اُو! خی خو، اُو اُوخی خو

اُواُو خی خو اُو اُو خی خو

گ: ارے او لٹونی کہاں جا رہا ہے !

پ: وہ کٹو نہیں آتی بھیا!

وہ ہم سے ڈرتی ہے !

گٹی سڑک کی طرف دیکھ کر زور زور سے آواز دیتا ہے۔  اس کا دوست بلھا اپنی بہن نندی کے ساتھ آ رہا ہے۔

گ: ارے ہم یہاں ہیں !

یہاں آؤ! نندی اِدھر! ہم یہاں ہیں !

پ: بلھا بھی تو ساتھ ہے بھیا!

میں اس سے نہیں بولوں گا جی!

گ: ابے چپ رہو وہ مرا دوست ہے۔

بُلّھا: ہم گھر چلے ہیں گٹی!

(بہن کو غصّے میں آواز دیتا ہے )

نندی! کہاں چلی ہو؟

ٹھہرو اُدھر نہ جاؤ!

پ: دیکھو نندی! یہ کیا چیز ہے ؟

کنکی لو گی؟

چٹی، کالی، نیلی، پیلی

رنگ رنگ کی کنکیاں ہیں یہ!

بُلّھا: بیٹھا رہ چپکا ہو کر

آیا بڑا کہیں کا!

نندی:  نا بھیا جی پپو جی کو کچھ نہ کہنا!

بُلّھا: بکواس مت کرو جی!

نندی: پپو جی ہم کل آئیں گے !

کل چھٹی کا دِن ہے پپو

کل آؤں گی!

پپّو: ٹھہرو! نندی وہ دیکھو وہ کٹو آئی!

بلھا، نندی کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے گزر جاتا ہے اور کٹو پھر واپس جا کر کیکر کے تنے پر چڑھ جاتی ہے۔  بندر شور مچاتے ہیں۔

تیسرا منظر

سورج پور اور پرانے جنگل کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔  اس میدان میں چیت کا میلہ لگا ہے۔  ٹھٹھ کے ٹھٹھ آس پاس کی بستیوں سے میلہ دیکھنے آئے ہیں۔  طرح طرح کی دُکانیں سجی ہیں۔  قسم قسم کے گھوڑے اور مویشی میلے میں نمائش کے لیے لائے گئے ہیں۔  ناچ رنگ سے ساری بستی گونج رہی ہے۔

زمانہ:  ہجرت سے پہلے

وقت:  دن چڑھے

کردار

کچھ مرد اور عورتیں، بندو، نندی

حسنی، عبدل، اُوشا، گھوڑا اور بیل

عورتوں اور مردوں کی ایک ٹولی ناچ کتھا میں ڈُوبی ہوئی ہے۔  عبدل، نندی اور حسنی بھی اس ہجوم میں موجود ہیں۔

کورس:  پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

بندو: چھب سندر گورے گال

جوبن پر چمکیں لال

کھرا ہے مال

زمانہ گوری کا

کورس: پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

عورت:  ہٹ دُور پرے کل مُوئے

تو میرا جوبن چھوئے

تری اکھیوں ماں ڈالوں سوئے

کل موئے

کورس: پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

بندو:  ’’ہم تو ترے عِسک ماں مر گئے تنے کھیل کٹاری دِیکھے۔ ‘‘

(کورس):  ’’اِس بانکے رے ترچھے گھونگٹ ماں توں سارے جگ سے نیاری دِیکھے۔ ‘‘

ایک آواز: متھے پر جھمر لشکاں مارے۔  مانگ ماں چمکیں ٹوماں

دوسری آواز: سارا گاؤں دہائیاں دیوے سہر ماں پڑ گئیں دھوماں

بندو:  جوں جوں گوری غصّے ہووے منے ہور بی پیاری دِیکھے

کورس: اس بانکے رے ترچھے گھونگھٹ ماں توں سارے جگ سے نیاری دِیکھے

(تھوڑی دُور سے ڈھول اور تماشائیوں کی آوازیں آ رہی ہیں )۔۔ ۔

دھَنا دھَن دھَن

دھَنا دھَن دھَن

نندی: (عبدل سے )

چلو بیل گھوڑے کی دیکھیں لڑائی

(عبدل ذرا پانی پینے چلا جاتا ہے )

حسنی:  کبھی ہم سے بھی کرو پیار

اب یوں نہ کرو انکار

کرو اقرار

پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

نندی: چلے جاؤ حسنی!

کئی بار تم سے کہا ہے کہ مجھ سے نہ بولو!

عبدل: کیا ہے نندی! کیا ہے ؟

حسنی بھیا اُدھر چلو گے !

ڈھول کی آواز: دھانا دھِن دھِن

دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا

دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا

زندہ دِل تماشائیوں کا ایک ہجوم گھوڑے اور بیل کی لڑائی دیکھ رہا ہے۔  نندی اور عبدل بھی اس ہجوم میں مل جاتے ہیں۔  حسنی ایک طرف ہجوم میں کھو جاتا ہے اور اپنا دو تارہ زمین پر دے مارتا ہے۔  ایک کالے گھوڑے کی پیٹھ پر سبز مخمل کا تارو ڈالا ہوا ہے۔  پاؤں میں جھانجریں ہیں۔  اُدھر ایک نیلا بیل ہے جو گاؤں کا سب سے جوان اور خوفناک نارا ہے۔  اس کے سینگوں پر لوہے کے خود چڑھے ہوئے ہیں۔  کمر پر سرخ رنگ کی قیمتی چادر ہے۔  گھوڑے پر ایک نوجوان اَسوار ہے۔  اس کے ہاتھ میں نیزہ ہے۔  گھوڑے اور بیل کے مالک ایک دوسرے کو للکارتے ہیں۔  لڑائی شروع ہوتی ہے۔

ڈھول کی آواز: دھانا دھِن دھِن

دھانا دھِن دھِن

دھا نا دھِن دھَِن

دھِنک دھِنک دھِنک دھا

دھِنک دھِنک دھِنک دھا

(گھوڑا اور بیل مقابلے میں آتے ہیں )

گھوڑا: (گھوڑا کہے بیل سے )

میں ہوں ایسا گھوڑا

مست ہو کے جب لہرماں آؤں

جھنجھل اُٹھا کے پیر اٹھاؤں

کئی کوس منٹوں ماں جاؤں

دے جواب او بیل تو میری بات کا!

بیل: سانچے بچن بیل کہے سن گھوڑے میری بات!

اونچی بولی بول کے کھول نہ اپنی ذات

میں ہوں اپنی ماں کا نارا مالک میرا کسان

صحرا کا لقمان

کھڑی دوپہر ہل ماں جوتے پانی دے نہ گھاس

کھنڈی آر سے پھوڑ کے کرے بدن کا ناس

ہاڑھی ہو کہ ساؤنی سب کے کشت اٹھاؤں

پھر بھی اپنے کام سے ! کبھی نہ آنکھ چراؤں

دے جواب تو گھوڑے میری بات کا

گھوڑا: او ہریا کے نارے اپنی ذات پچھان!

مری ٹاپ سے تھر تھر کانپیں بڑے بڑے بلوان

کیا پنکھرو کیا حیوان

ماں پر پوت پتا پر گھوڑا

بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا

میں ہوں بلوچی گھوڑا!

میرے سموں کی گھنی گرج سے پھٹ جاوے دھرتی کی کھال!

بیل: دانت چھپا کے بول رے ارجل!

میں ہوں نادیا بیل!!

میرے آگے سے ہٹ جا او بے پیروں کے پِیر

ایسی ٹکّر پلٹ کے ماروں جان رہے نہ سریر

سنگی ایسی گھما کے ماروں چھلنی ہو سورج کا تھال

او خچر کے لاڈے تو کیا جانے میری چال!

چندر بنسی سورج بنسی کا ہے مجھ میں خون

گھوڑا: ہٹ جا او ملعون!

بیل: میری ماں کل دھرتی کی ماں میں ناروں کا نارا

میں دھَرتی کا پیارا

گھوڑا: او بچھیا کے نارے اُونچا بول نہ بول

بیل: او سوری کے جو!

گھوڑا: ہو ترا ہو جا بیل کا منہ!

میں ہوں بلوچی گھوڑا

بیل: میں ہوں نادیا بیل!

(لڑائی شروع ہوتی ہے )

دھَانا دھِن دھِن

دھَانا دھِن دھِن

دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا

دھِنک دھِنک دھِن دھِن دھا

دھا تر کٹ دھا

دھا ترکٹ دھا

ترکٹ دھا

ترکٹ دھا

دھا ترکٹ دھا

عبدل: (نندی کے کان میں چپکے سے کہتا ہے )

ناچ کتھا دیکھو گی نندی!

سب اس شور میں کھوئے ہوئے ہیں

میں چلتا ہوں تم مرے پیچھے چلتی آؤ!

(ڈھول کی آواز تیز ہو جاتی ہے )

نندی: میرے بھیا یہاں آ گئے تو۔۔ ۔

عبدل: نہیں وہ ادھر کیا کرے گا!

عبدل اور نندی ناچ کتھا میں آ جاتے ہیں۔  ان کے پیچھے پیچھے حسنی بھی آتا ہے۔

کورس: پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

حسنی: (نندی کو کہتا ہے )

خلقت ناچے پی کے بھنگ

تم بھی ناچو میرے سنگ

نندی: نہیں میں نہ ناچوں گی!

عبدل: ناچو نندی! یہ میلہ ہر روز نہیں ہوتا ہے نندی!

نندی: نہیں میں نہ ناچوں گی عبدل!

نہیں میں نہ ناچوں گی!

بُندو: (حسنی کو کہتا ہے )

ناچ رے بھین ناچ

اوشا کے سنگ ناچ

خوب رہے گا اوشا اور حسنی کا جوڑا

اس میلن میں ناری کا کیا توڑا

(اوشا اور بندو حسنی کو مسکرا کر دیکھتے ہیں )

حسنی: رادھے بن کیا ناچے نچیا منڈل بھئیو اداس

سب نَر ناری میلن دیکھیں میں دیکھوں آکاس

اُوشا: میں تیری رادھا ہوں موہن میں ناچوں تو گا!

مدھر بانسری چھیڑ کے من کی جوت جگا

بندو ساز چھیڑتا ہے اور حسنی ناچنے لگتا ہے۔  ہرنوں کی ایک ڈار چوکڑیاں بھرتی ہوئی قریب سے گزر جاتی ہے۔

حسنی: بینا باجے تنا نوم تنانوم

جھانجھن بولے چھن

نادھِن دھِن نا ڈھولک بولے مدھُر مَدھُر بجے بِین

بہت بڑی سرکار ہے تیری سیّد قطب الدینؒ

بینا باجے تنانوم تنا نوم

جھانجھن بولے چھن

آئیوری سجنی چیتن میلن

سمے دکھاوے میٹھے سپنن

توڑ تاڑ کے چھوٹے دَرپن

دھُومن شاہ کا ناؤں رٹے من

للت، بھیرویں، شنکرا، ایمن

آئیوری سجنی چیتن میلن

بینا باجے تنانوم تنانوم

جھانجھن بولے چھن

کورس: پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

بندو: دیکھو جی جورا جوری

حسنی: اِک چودہ برس کی چھوری

ملے ہم سے چوری چوری

ہو گوری

کورسپھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

ایک نوجوان: مرا نام منوہر لال

مری چاندی کی سُکھ پال

کر دوں گا مالا مال

گو رُو گھنٹال

کورس: پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

اُوشا: بجے ڈھولک اور مردنگ

دو تارا اور منہ چنگ

تم گاؤ ہمارے سنگ

بہادر جنگ

کورس: پھر چیت کا میلہ آیا

من بھایا

ہو آیا

پھر چیت کا میلہ آیا

چوتھا منظر

عبدل گاؤں کی لڑکیوں کو بڑھ کے ایک گھنے درخت کے پیچھے چھپ کر دیکھ رہا ہے۔  اس کے خاکی گھوڑے کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے۔

مقام:  سورج پور کے باہر میدان میں

کردار

نندی، یاسمینہ، زرینہ، عبدل، اکبر

نندی: کنویں میں نہ جھانکو!

یہاں سانپ رہتے ہیں

یاسمینہ: تیرا تو سر پھرا ہے !

نندی: نہیں یاسمینہ یہ سب سے پرانا کنواں ہے

یہاں اب کے ساون میں بھیا نے دو سانپ مارے تھے

کم بخت پھنیئر تھے !

یاسمینہ: سانپ اور اس کنویں پر!

نندی: (جھنجھلا کر)

وہ کھیتوں میں کیا ہے ؟

وہ گھوڑے پہ کون آ رہا ہے ؟

یاسمینہ: ہو گا کوئی تمھیں کیا؟

نندی: چلو آؤ دیکھیں تو وہ کون ہے ؟

یاسمینہ: حسنی ہے میں تو جانوں !

نندی: اری چپ رہو! اس میں ہمت ہے اتنی!

زرینہ: (گنگنانے لگتی ہے )

بہتا ساگر چھوڑ کے کا ہے لیؤ بن باس

برھن بدری اُڑے اکیلی دُور بھیؤ آکاس

ساجن بن جی نہ لگے برھن گا وے جوگ

نگری نگری پھرے اکیلی پتھر ماریں لوگ

یاسمینہ: اچھا جی اب میں سمجھی!

تو بھی جلی ہوئی ہے !

نندی: بڑی پارسا ہے نا تو!

جانتی ہوں !

بتا کون تھا وہ جو میلے میں سُکھ پال لایا تھا؟

اب بولتی کیوں نہیں ؟

کیسی چپکی کھڑی ہے ؟

یاسمینہ، نندی اور زرینہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتی ہیں اور گانے لگتی ہیں۔

یاسمینہ: ماں ری ماں میں چودہ برس کی

(سب مِل کر ): سولہ برس کا تھا —- چھورا رانگڑ کا

سولہ برس کا تھا —- چھورا رانگڑ کا

مجھے بلا وے تھا —- چھورا رانگڑ کا

وقفہ

عبدل گھوڑے پر سوار ہو کر سامنے آتا ہے۔  زرینہ اور یاسمینہ ڈر کر ایک طرف ہو جاتی ہیں اور نندی اکیلی رہ جاتی ہے۔

عبدل: آؤ میں تم کو گھر چھوڑ آؤں

دیکھو! سورج کتنا نیچے اُتر گیا ہے ؟

نندی: (ذرا گھبرا کر )

نہیں جی! چلے جاؤ!

عبدل: ٹھہرو نندی!

نندی: امی کہتی تھیں غیر آدمی سے نہیں بات کرتے !

عبدل: وہ دِن یاد ہیں !

اسی کنویں پر سانجھ سویرے کھیلنے آتے !

وہ اِملی کا درخت ابھی تک اسی طرح خاموش کھڑا ہے !

آؤ گٹارے توڑیں !!

میں اِملی پہ چڑھ جاتا ہوں

تم پلا پھیلاؤ!

وہ دیکھو! وہ ریت پہ بڑھیاں دَوڑ رہی ہیں !

آؤ اُن کے پیچھے بھاگیں !

اُس نے پھر کشتی کے لنگر کھول دیے ہیں۔

کشتی چلنے لگی ہے !

پانی کی آواز سنی ہے تم نے ؟

(عبدل سامنے ایک کیکر کے درخت پہ گڑسل کو کنکر مارکر اُڑا دیتا ہے)

نندی: (انگلی میں انگوٹھی کو پھرانے لگتی ہے )

شام کی خامشی میں درختوں پہ کنکر نہیں مارتے

شام کو پیڑ آرام کرتے ہیں عبدل!

یہ رونے کی آواز کس کی ہے ؟

عبدل: چرواہی بھیڑوں کو ہانک رہی ہے !

نندی: (گھبرا کر) نہیں یہ تو اُلّو کی آواز ہے

جھاڑیوں میں کہیں کوئی چوہا چھپا ہے !

(زمین کی طرف دیکھ کر چونک پڑتی ہے )

ارے میں تو ڈر ہی گئی تھی!

یہ گھوڑے کا سم ہے !

یہ اتنا بڑا قافلہ کس طرف جا رہا ہے !

عبدل: بے چارے اوڈ ہیں، خانہ بدوش ہیں

نگری نگری آوارہ پھرتے رہتے ہیں

مینہ بندی ہو، آندھی ہو، چمکیلا دن ہو، کالی رات ہو

رستے ہی میں پڑے رہتے ہیں

آدمی دن بھر مزدوری کرتے رہتے ہیں

عورتیں اپنے بچوں کو گودی میں لے کر

گھاس پھوس اور ڈھیکر چنتی رہتی ہیں

اُونٹوں اور بھیڑوں کے دُودھ کو شہر میں جا کر بیچتی ہیں

نندی: میں کہتی ہوں کوئی یہاں آ گیا تو!!

عبدل: (خانہ بدوشوں کے قافلے کی طرف دیکھتے ہوئے )

یہ دھرتی اب سارے بندھن توڑ چُکی ہے

اب یہ قبیلہ جاگ رہا ہے

بھیڑوں کو للکار رہا ہے

یا یہ بھیڑیں دُودھ نہ دیں گی

یا پھر ان کے تھن پر تھیلی چڑھ نہ سکے گی

وہ دیکھو! وہ رنگ بر نگے ذرّے

بھورے بھورے نیلے نیلے پتھر

ریت کے تارے آگ کی ہولی کھیل رہے ہیں

پیلی کرنیں کیکر کی سیڑھی سے اُتر رہی ہیں

کالے ناگ سنہری جیب نکالے

گل کنجوں میں ناچ رہے ہیں

نندی: ہوا کتنی خاموش ہے !

فاختہ ریت کے نرم بستر پہ چپ چاپ بیٹھی ہے

ندی ہے ندی کا پانی ہے، پانی کی آواز ہے

فاختہ بہتے پانی کے شیشے میں اپنے ہی رُوپک کو تکتی ہے

لہریں اُچھلتی ہیں اور بیٹھ جاتی ہیں

عبدل: اس کے ننھے پنجے دیکھو

ریشم کے لچھوں کی طرح باریک ملائم

اُس کے پر اور اُس کی چونچ کو غور سے دیکھو

جب یہ اپنی چونچ کو ریت پہ گھستی ہے

تو سارا جنگل گاتا ہے۔۔ ۔

تم کیا سوچ رہی ہو؟

نندی: نہیں کچھ نہیں باؤلی ہو گئی ہوں !

عبدل: سوچ رہا ہوں ہم یوں کب تک

ہم یوں کب تک۔۔ ۔  تم ہی سوچو!۔۔ ۔  ہم یوں کب تک!

نندی: چلو اب یہاں سے چلیں !

عبدل: فاختہ اُڑ کر ڈال پہ جا بیٹھی ہے

وہ دیکھو پھر نیچے اُتر گئی ہے !

اس کی چونچ میں کیا ہے ؟

نندی: وہ سرسوں کی پھلچی ہے !

عبدل: نیل کنٹھ کا پر ہے شاید!

نندی: یہ اُڑتی نہیں —- آؤ اس کو اُڑائیں !

عبدل: وہ دِن یاد ہیں !

مکتب سے جب چھٹی ملتی

ہم سب لڑکے چھوٹے چھوٹے کنکر چنتے

فاختہ جونہی سامنے آتی

سب ہمجولی اپنی اپنی غلیل چلاتے

نندی: (گھبرا کر) امی کہتی تھیں یہ اِک مقدس پرندہ ہے

اس کو نہیں مارتے !

ایک دن میرے بھیا کو امی نے مارا تھا

وہ فاختہ مار لایا تھا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ارے ! وہ سنا تم نے !

عبدل: (حیرت سے ) کیا ہے نندی؟ کیا ہے ؟

نندی: ریل گاڑی ہے !

دیکھو وہ کیا شے جھلک مارتی ہے !

وہ گھوڑے پہ کون آ رہا ہے ؟

عبدل: اکبر! اکبر اپنا دوست ہے نندی!

(اکبر ان دونوں کے قریب آ کر گھوڑا روک لیتا ہے )

اکبر: سلام بھیا! مزے میں ہو، خوب کٹ رہی ہے !

ملو گے ڈیرے میں !

رات کو تم ضرور آنا!

(اکبر چلنے لگتا ہے )

عبدل: اکبر بھیا! ٹھہرو اکبر! بات تو سنتے جاؤ۔

حسنی کہیں ملے تو کہنا رات کو ڈیرے میں آ جائے !

اکبر: میں کنچ گھر جار ہا ہوں عبدل

تمھارا پیغام بھیج دُوں گا!

بڑی اندھیری ہے آج کی شام

آندھی آئے گی!

(اکبر گھوڑے کو ایڑ لگا کر ہوا ہو جاتا ہے )

عبدل: اکبر بھی کیا سوچتا ہو گا؟

حسنی نے بھی کئی دِنوں سے ملنا چھوڑ دیا ہے

نندی: اُدھر گرد سی اُڑ رہی ہے !

عبدل: ریت اُڑی ہے کچھ بھی نہیں ہے

نندی: نہیں وہ ادھر آ رہے ہیں !

چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں !

رات ہو گئی ہے !

عبدل: ڈرو نہیں میں ساتھ ہوں نندی!

اُس تالاب کے پیپل کے نزدیک نہ جانا!

ٹھہرو نندی میں بھی آیا!!

پانچواں منظر

اندھیرے جنگل میں عبدل، نندی کو ڈھونڈتا ہے لیکن نندی کا کوئی نشان نہیں ملتا۔  عبدل تھک ہار کر ایک گھنے درخت کے تنے کے سہارے حیران کھڑا ہو جاتا ہے۔  خاصی رات ہو گئی ہے۔  وہ نندی کے خیال میں کھو جاتا ہے۔

عبدل: ٹھہرو نندی!

ٹھہرو نندی کہاں چلی ہو؟

رستہ بھول نہ جانا!

نندی: کنویں میں نہ جھانکو!

عبدل: وہ دیکھو وہ ریت پہ بڑھیاں دَوڑ رہی ہیں !

اکبر: میں کنچ گھر جا رہا ہوں عبدل!

تمھارا پیغام بھیج دُوں گا

بڑی اندھیری ہے آج کی شام

آندھی آئے گی!

نندی: ادھر گرد سی اُڑ رہی ہے

چلو اس بنی کے درختوں میں چھپ جائیں

رات ہو گئی ہے

(اتنے میں لوگوں کا شور سنائی دیتا ہے اور وہ جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں)

عبدل: کم بختوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے

کیسے بھاگوں ؟

آگ —- آگ —- آگ

چاروں جانب آگ کا دریا

کہاں ہو نندی؟

بولو نندی کہاں چھپی ہو!

باہر جاؤں !

لیکن نندی!

نندی مر جائے گی عبدل!

ایک آواز: اُلٹے پاؤں پلٹ جا عبدل!

نندی اب نہ ملے گی

اس کی قسمت میں جلنا ہے

اُلٹے پاؤں پلٹ جا!

عبدل: لیکن نندی! اُسے اکیلا چھوڑ کے جاؤں !

نہیں نہیں ! میں جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

جل جاؤں گا!

آواز: آگ کسی کی میت نہیں ہے

اپنی جان بچا لے عبدل!

نندی اب نہ ملے گی

اندھی آگ کا رستہ چھوڑ کے راتوں رات نکل جا پیارے

وہ رستہ ہے !

اب آواز نہ دینا عبدل!

نندی اب آواز نہ دے گی!

وہ رستہ ہے !

اِس رَستے سے دریا کے اُس پار اُتر جا!

آگ کے منہ پہ آنکھیں نہیں ہیں

آگ ہے اندھی

آگ ہے بہری!

اپنی جان بچا لے عبدل

وہ رستہ ہے !!

چھٹا منظر

آدھی رات گزر چکی ہے۔  جنگل کی آگ کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں۔  گاؤں بھر میں شور برپا ہے۔  عبدل ویران رستوں میں گرتا پڑتا، چھپتا چھپاتا گھر آتا ہے اور طویلے میں سے اپنے باپ کے کمرے میں جھانکتا ہے۔  عبدل کے ماں باپ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔

کردار

نصیبن: عبدل کی ماں (عمر 60 سال)

حشمت:  عبدل کا باپ ( عمر 70 سال)

(عبدل کھڑکی میں سے سب ماجرا دیکھ رہا ہے )

حشمت: تو کیا یہ بے ہوئی ہے ؟

گاؤں والے باؤلے ہیں ؟

نصیبن: ان حویلی والوں کے کیڑے پڑیں

ہفت رنگن نے مرے لونڈے کو پاگل کر دیا

حشمت: غضب ہے، قہر ہے جی!

اس بڑھاپے میں یہ دن بھی دیکھنا تھا

میں تو اس جینے سے بھر پایا ہوں یا رب

تو اُٹھا لے اب مجھے جلدی اُٹھا لے

اِس بڑھاپے میں یہ صدمہ کوئی دشمن بھی نہ دیکھے

نصیبن: میرے اللہ لٹ گئی میں

پوت کا ہے کو جنا تھا سانپ تھا

تم کو اِس دن کے لیے پالا تھا عبدل!

واہ بیٹا! تم نے اپنے خانداں کا نام روشن کر دیا

باپ دادا کے زمانے کا یہ جنگل ایک دَم میں پھونک ڈالا

حشمت: کبھی ہم پر بھی آئی تھی جوانی؟

نصیبن: نہ ہوا اِس وقت میری ماں کا جایا

دیکھ لیتی اِن زمینداروں کا مان!

میرے بیٹے کو اگر کچھ ہو گیا تو شیرمے پی لوں گی اِن کے !

حشمت: اجی بس چپ رہو تم!

تم نہ بولو!

تمھارے پیار نے کھویا ہے اس کو

نصیبن: کوئی اس دِیدے پھٹی کو پوچھنے والا نہیں

کیوں گئی تھی وہ ہکارا؟

وہ کنویں پر کیوں گئی تھی؟

عبدل سب باتیں سن رہا ہے۔  کبھی وہ بوڑھے ماں باپ کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی بدنامی کا ڈر اسے ستاتا ہے۔  نندی کے بعد وہ اب گاؤں میں ٹھہرنا نہیں چاہتا۔

آواز: وہ رستہ ہے !

راتوں رات نکل جا عبدل!

عبدل: لیکن یہ میرا گھر!

یہ میرے ماں باپ!

کہاں جاؤں گا!

نندی! میرے ارمانوں کا آخری سنگم!

آواز: اب اس پیڑ سے اُڑ جا

اس کی جڑیں اب سوکھ چُکی ہیں

اس کے پھل کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے

ہوا چلے یا پانی برسے

اب اس پھل میں رس نہ پڑے گا

چاند کی کرنیں دستک دے کر

اُلٹے پاؤں پلٹ جائیں گی

چھلکا پیلا پڑ جائے گا

اب اس پیڑ سے اُڑ جا

دُور کسی جنگل میں ڈال بسیرا

کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے

ساتواں منظر

سورج ڈُوب رہا ہے۔  گاڑی پوری رفتار سے چل رہی ہے۔  عبدل کھڑکی کی طرف بیٹھا سوچ رہا ہے۔  گاڑی کبھی کبھی سُرنگ میں سے یا کسی پل پر سے گزرتی ہے تو وہ چونک پڑتا ہے۔  احمد اور فیاض دوسری طرف باتیں کر رہے ہیں۔

کردار

عبدل، احمد، فیاض

عبدل: (کھڑکی کے باہر چیزوں کو دیکھ کر سوچتا ہے )

رنگ برنگے ذرے بھورے بھورے پتھر

پیلی کرنیں کیکر کی سیڑھی سے اُتر رہی ہیں

کالے ناگ سنہری جیب نکالے !۔۔ ۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

خشک پہاڑوں کی چوٹی پر

آڑی ترچھی کالی زرد لکیریں !۔۔ ۔

پتھر کے سینے سے چشمے پھوٹ رہے ہیں

کہیں کہیں ہریالی بھی ہے

بھو کی گائیں —- ان کے تھنوں میں دُودھ نہیں ہے

وہ کیا چیز ہے !!

وہی درا ہے

سانجھ سے پہلے اس پر تالے پڑ جاتے ہیں

کون اب اس کی مہریں توڑے !

………………

یہ دھرتی اب سارے بندھن توڑ چکی ہے

ایک قبیلہ جاگ رہا ہے

بھیڑوں کو للکار رہا ہے

ایک کرن پھر وقت کی سیڑھی سے اُتری ہے

لیکن میں تو —- اس دھرتی میں میرا کوئی نہیں ہے

سات برس کے بعد یہاں سے پھر گزرا ہوں

وہی پہاڑ اور وہی نظارے

اس وادی میں کیسے اُتروں ؛

اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے

اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

احمد: (فیاض سے )

وہ کھڑکی کا شیشہ اُٹھا دو

مرے بھائی باہر ہوا چل رہی ہے

فیاض: ذرا گلاس تو بھرنا بھائی!

پیاس لگی ہے —- سارا دن میں کتنے گلاس انڈیل چکا ہوں

یہ شیشے کی صراحی تم نے کہاں سے لی ہے ؟

یہ مال تو باہر کا لگتا ہے مجھ کو

احمد: یہ سب اپنے ہی کنچ گھر میں بنی ہیں

کبھی آپ آئیں تو باہر کی صنعت گری بھول جائیں

فیاض: پانی تو خاصا ٹھنڈا ہے !

آپ پئیں گے ؟

احمد: بہت پی چکا ہوں !

میں گرمی میں پانی ذرا کم ہی پیتا ہوں

فیاض: وہ دیکھو کھڑکی سے باہر

نقرے پر اک لڑکا سرپٹ دَوڑ رہا ہے !

احمد: چال تو خوب چلتا ہے

لیکن سوار اس کا بالکل اناڑی ہی لگتا ہے

فیاض: ہاں کچھ ایسا ہی قصہ ہے

گھوڑ سواری کھیل نہیں ہے

اپنے پاس بھی دو گھوڑے ہیں

میں نے انھیں بچوں کی طرح سے پالا ہے۔۔ ۔

احمد: مرے پاس بھی ایک چِینا ہے

اس میں بڑا دَم ہے بھائی!

بڑا ہی مبارک ہے یہ چینا گھوڑا

مرے پاس جس دن سے ہے یوں سمجھ لو کہ بس لکشمی آ گئی

فیاض: یہ بھی وہم ہے

اگلے وقتوں کے لوگوں کی خوش فہمی ہے

احمد: پرانی حویلی کے گھوڑے —- مگر وہ تو اُجڑی پڑی ہے

فیاض: حشمت کا ڈیرہ بھی اب سنسان پڑا ہے

احمد: بعض گھوڑا تو سچ مچ ہی منحوس ہوتا ہے

فیاض: ہم نے اپنی ساری عمر میں رنگ رنگ کے گھوڑے پالے

چمبا، نقرا، خاکی، چینا، کالا اور کمیت

گھوڑا تو بس قسمت والے کو ملتا ہے

اس کے کانوں سے جنت کی ہوا آتی ہے

اس کی ٹاپ سے دھرتی کا دِل کانپ اُٹھتا ہے

احمد: مگر کالے گھوڑے کی کیا بات ہے !

تم نے دیکھا ہے شاید وہ گھوڑا

وہی کالا گھوڑا!

وہ گھوڑا نہیں آدمی ہے !

فیاض: اس خطے کا کون سا گھوڑا مجھ سے چھپا ہوا ہے

اس میں کوئی گُن ہوتا تو میں کب چھوڑ نے والا تھا

جی وہ تو فوج کا کنڈم مال ہے

دیکھنے میں تصویر ہے لیکن ناکارہ ہے

وہ گھوڑا تو بڑا خونخوار ہے !

احمد: تمھیں یاد ہو گا کہ گھوڑوں کے میلے میں پچھلے برس

گاؤں کے چودھری جی نے للکار کے شرط باندھی

کہ اس کالے گھوڑے پہ جو بھی سواری کرے گا

یہ گھوڑا اسی کو ملے گا

تمھیں یاد ہے نا! کہ اکبر سے پتلے چھریرے بدن

کا جواں اس کو اِک آن میں لے اُڑا تھا

ارے یہ پنہ گیر لڑکا تو آفت کا پتلا ہے

دیکھو تو بھولا سا معصوم سا ہے

مگر وہ گُنی ہے !

فیاض: گُنی وُنی تو کیا ہے بس قسمت کا دھَنی ہے

احمد: اب تو اکبر نے مونا سے شادی بھی کر لی ہے

اچھے گھرانے کی لڑکی ہے !

فیاض: لیکن اس میں ایک ہی کھوٹ ہے

نئے زمانے کی لڑکی ہے

کالج تک تو ٹھیک ہے لیکن

وہ تو کھلے بندوں بے پردہ پھرتی ہے

یہ سب باتیں اپنے کو تو کھلتی ہیں

میاں ہم تو پرانے لوگ ہیں

احمد: اجی اب تو نقشہ ہی کچھ اَور ہے

وہ زمانہ گیا یہ نئی روشنی ہے

وہ نندی بھی تھی! آگ میں جل بجھی

فیاض: وہ بے چاری زندہ رہ کر بھی کیا کرتی!

اس کی قسمت میں جل مرنا ہی لکھا تھا

احمد: تو وہ آگ کس نے لگائی تھی؟

عبدل نے ! —- نندی کے بھائی نے ! —- حسنی نے !

فیاض: میاں جتنے منہ اتنی ہی باتیں

سنا یہی ہے !

اللہ جانے تہہ میں کیا ہے ؟

احمد: یہ سارے زمیندار ایسے ہی ہیں

لوگ کہتے ہیں جنگل انھوں نے جلایا

مگر گاؤں والوں کو نندی کے بھائی پہ شک ہے

بھلا آپ اس دن کہاں تھے

فیاض: میں اس روز وہیں تھا

اپنے گاؤں میں تھا، بس کھانا کھانے ہی بیٹھا تھا

اتنے میں اک شور سا اُٹھا

میں سمجھا کہ ساتھ کے گاؤں نے ہلّہ بول دیا ہے

ننگے بدن گھوڑے پہ الانا چڑھ کے نکلا

اِس سے پوچھا اُس سے پوچھا

کالی رات اور تیز ہوا تھی

تین کوس سے آگ کی لاٹیں چمک رہی تھیں

ڈیرے والے بھرے طمنچے اور بندوقیں لے کر نکلے

گھوڑے سوار مشالیں لے کر بھاگ رہے تھے

احمد: تعجب ہے عبدل کہاں تھا؟

وہ نندی تو جل ہی گئی تھی!

تمھیں تو خبر ہے !

فیاض: آگ کے بہتے دریاؤں میں

اس کی چیخیں ہم نے سنی ہیں

ہم نے لاکھ پکارا

آوازیں دیں

لیکن کوئی نہ بولا!

احمد: میں نے وہ رات دیکھی ہے جب آسماں سرخ تھا!

آٹھواں منظر

مرچوں کے کھیت میں حسنی، بندو اور احمد رہٹ کے مڈھ پر بیٹھے حقہ پی رہے ہیں۔  شام ہو رہی ہے۔  رہٹ چل رہا ہے۔

کردار

حسنی، بندو، احمد، اکبر

کچھ دیہاتی، بلھا

رہٹ کی آواز:

چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت

چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت

بارہ ٹالی ہیٹھ

بارہ گئے پردیس ماں بارہ پھیر بھی آویں گے

چین مچینا، چین مچینا، چین مچینا کھیت

بارہ ٹالی ہیٹھ

بارہ ٹالی ہیٹھ

حسنی رہٹ کے مڈھ پر بیٹھا طنبورہ بجا رہا ہے۔  بندو اور احمد حقہ پی رہے ہیں۔  الاؤ کی آگ بھڑک رہی ہے۔

حسنی: سانجھ بھئے اک ڈھیر پہ اندھا سادھو روئے

ہم نے نگری چھوڑ دی، ہمیں نہ چھیڑے کوئے

بندو: سادھو جی اب اُٹھ بھی جاؤ تار طنبورہ چھوڑ

برس رہی اسمان سے کالک تابڑ توڑ

حسنی: پچھم دیس کے نیل ماں ڈوبن لاگا بھان

اس کی ریکھا دیکھ کے ڈول گئی مری جان

سانجھ اُڑا کے لے گئی سورج پور کا رُوپ

کیا جانے کس دیس میں اُترے گی یہ دھُوپ؟

بندو: دھُپ گئی پردیس ماں کلی رہ گئی چھاؤں

مرگھٹ دیکھے گاؤں لے تو رب کا ناؤں

حسنی: سدھ بدھ ہے مجھے دھُوپ کی نا میں جانوں چھاؤں

نا مرا ٹھور ٹھکانا کوئی نا مرا کوئی گاؤں

بندو: ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پہ جلنے لا گے پاؤں

کالی رَینا سر پہ کھڑی، چلو چلیں اب گاؤں

احمد: نہیں بندو بھیا طنبورہ تو سن لیں !

بھلا ساز سنگیت کو چھوڑ کر کون جائے !

کبھی نہ کبھی آج فرصت ملی ہے

ارے اور کچھ دیر بیٹھو

ذرا سر کی دیوی کے جی بھر کے درشن تو کر لیں !

یہ دُنیا کے دھندے تو چلتے رہیں گے

حسنی: رُت بدلی، آندھی چلی، سوکھن لاگے پات

رنگ برنگ ڈالیاں، روویں مَل مَل ہات

بندو: ہائے رے مار دیا، کھوئے دیا ہمنوں

تو پکا گُن کا رہے بھیا!

احمد: بھائی جادُو وہی ہے جو سر چڑھ کے بولے

ارے یہ کوی راج ہیں !

اِن کے گیتوں میں سنسار سنگیت ہے

پھر کہو نا! وہ کیا بول تھے ؟

دھیان کس اور پلٹا؟

وہ لوگ اور وہ نقشے جنھیں بھول بیٹھے تھے ہم

آج پھر سامنے آ گئے ہیں

وہ دیس اب جو پردیس ہے

آج پھر اس کی مٹی کی خوشبو لَویں دے اُٹھی ہے

وہ قصبے وہ گلیاں وہ رستے وہ گھر

جو کھلے چھوڑ آئے تھے ہم

آج پھر ذہن میں پھر رہے ہیں

سناتے رہو بھائی!

ہم آج ڈیرے نہ جائیں گے !

حسنی: ایک کونج میں ایسی دیکھی اڑے چھوڑ کے ڈار

سانجھ بھئے جس دیس میں اُترے وہاں نہ ہو اجیار

حسنی طنبورہ بجا رہا ہے کہ اکبر گھوڑے پر آتا دکھائی دیتا ہے۔  اکبر گھوڑے سے اُتر جاتا ہے۔

اکبر: سلام کرتا ہوں !

ہیں یہ کیا ہو گیا ہے تجھ کو؟

میں صبح سے تجھ کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں پیارے !

وہ کنچ گھر تیری جان کو رو رہا ہے حسنی!

اُدھر وہ عبدل ہے جانے کس روگ میں پھنسا ہے ؟

یہ کام کیسے چلے گا پیارے ؟

بندو: اکبر بھیا! عبدل کی کچھ کھیر کھبر ہے ؟

اکبر: بڑے مزے میں ہے شاہ زادہ!

ابھی ملا تھا

ارے وہ کیا ہے

وہ دیکھو! آکاش پروہ کیا ہے ؟

حسنی: آگے پیچھے بھاگتے تارے !

بندو: ایک دو تین، اور چار پانچ!

حسنی: وہ چھ! اور وہ سات!!

رنگ برنگ گربڑے آگ کے پنکھ لگائے

گھپ اندھیری سانجھ ماں کس نے یہاں اُڑائے ؟

اکبر: نہ جانے کس دیس سے اُڑے ہیں ؟

نہ جانے کس دیس میں گریں گے ؟

حسنی: جانے کس کا بیاہ رچا ہے اتنے چوکھے رنگ

برج چڑھے آکاش پر ارمانوں کے سنگ

ایسے رنگ گلال میں، کیا اپنا من کھوئے

جانے اس کی اوٹ میں کوئی جلتا ہوئے ؟

بندو: کیسے بول بچا رو حسنی دیکھ کے پیار کا جھمکا؟

کیا کہنا ہے تم کا؟

حسنی: ڈھور ہنکاتے پھیر ماں کیسی کرے بچار؟

بندو تو ہے جما گنوارو تو کیا جانے پیار؟

دُور سے کنچ گھر کے سائرن کی آواز سنائی دیتی ہے۔  سناٹا اَور پھیل جاتا ہے۔  کنچ گھر کے مزدور اور کاری گر دُور سے ایک رستے پر تیزی سے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اکبر: سناؤ کیا حال ہے مرے دوستو تمھارا؟

بندو: اتنے دنوں ماں سکل دکھائی

اچھے تو ہو میرے بھائی؟

اکبر: خدا کے فضل و کرم سے اچھی گزر رہی ہے !

سناؤ احمد تمھارا کیا حال ہے

کہو کیسی کٹ رہی ہے ؟

احمد: عنایت ہے بس آپ کی!

آؤ کچھ دیر بیٹھو! یہ حقہ ابھی بھر کے رکھا ہے

حقہ تو پیتے ہو تم بھی!

ارے آج حسنی نے وہ رنگ باندھا کہ بس!

یار اس کے گلے میں قیامت کی مرکی ہے

گھنگرو کا کھٹکا ہے !

ظالم نے کوئل کی آواز پائی ہے

اکبر: (کھیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے )

نہ جانے یہ جنگلی کبوتر کہاں سے اُترے ہیں اُجڑے بن میں ؟

کبوتروں کی یہ ٹکڑیاں ہیں کہ ٹڈی دَل ہے !

بڑا اندھیرا ہے بھائی احمد!

کہاں چلے ہو؟

احمد: ذرا دو کبوتر گرا لاؤں !

بس پل جھپکنے میں آ جاؤں گا!

اکبر: خدا کو مانو!!

یہ شام کے وقت ان پرندوں کو کیوں ستاتے ہو!

جانے دو! غیر وقت ہے !!

بندو: بڑا ہی بھولا پنچھی ہے یہ، سیّد اس کی ذات

بھرے سمے مت مارو اس کو مانو میری بات!

حسنی تم کو ئی گیت سناؤ!

بابو جی کا جی بہلاؤ!

اکبر: (حسنی کی طرف دیکھ کر طنز سے کہتا ہے )

بڑے مزے میں ہو آج حسنی!

بندو: کنچ گھر ماں چھٹی ہو گئی گھگو شور مچائے

اپنے اپنے ٹھار کو، خلقت دَوڑی جائے

گھراں کو بھاگے چودھری، ٹھاکر اور ججمان

ہری بھری نگّر پَیلیاں، چھوڑ گئے کرسان

مَمٹی سے جل جوگنی، اُڑ گئی چھوڑ کے ماس

پگلی بِل بتوریاں، بولیں مڑھی کے پاس

اکبر: ارے او بندو! ذرا اِدھر چھینٹیاں تو لانا!

الاؤ ٹھنڈا پڑا ہے بھائی!

یہ کیا خبر تھی کہ اس اندھیرے میں دوستوں کی سبھا جمے گی

نہیں تو کمبل ہی لیتے آتے

بندو: کمبل کو نہیں جانتے، گاؤں کے سیدھے لوگ

ہم تو نرے گنوار ہیں، تم ہو سہری لوگ

اکبر: بھلا کبھی تم نے شہر دیکھا ہے ؟

جانتے ہو کہ شہر کیا ہے ؟

کبھی جو سپنے میں دیکھ پاؤ تو گاؤں کی ناریوں کو بھولو!

احمد: میاں باؤلے ہو کے روتے پھرو گے !

ارے شہر کی ناریوں سے خدا ہی بچائے !!

ذرا آگ کے پاس آ جاؤ خنکی اُترنے لگی ہے !

سنا تم نے حسنی!! یہ آواز کس کی ہے ؟

(بندو سہم جاتا ہے )

بندو: یہ بولے جس گاؤں ماں پھر نہ بسے وہ گاؤں

یارو اب نئیں بولنا، یہاں کسی کا ناؤں

احمد: میاں تم تو وہمی ہو بندو!

بندو: تم نے پھر مرا ناؤں لیا!

میں کہتا ہوں ناؤں نہ بولو!

حسنی: چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھُول اُڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

آواز: بندو —- ہو —- بندو

بندو: ہوت —- چاچا —- ہوت —- کیا بات ہے ؟

چکّی کی آواز: ٹُک چھک ٹُک چھک ٹُک چھک

احمد: یہ آٹے کی چکی ابھی تک یونہی چل رہی ہے !

یہ چکی میں کیا پس رہا ہے ؟

—- مگر گاؤں بھر میں دہائی مچی ہے کہ آٹا نہیں

کال ہے، لوگ مر جائیں گے

لوگ بھوکوں مرے جا رہے ہیں !

بندو: ندیاں سوکھیں کال ماں، ٹڈی کھا گئی دھان

پیٹ پجاری شہر کو بھاگے، بھوکوں مریں کسان

احمد: چلو! شہر میں چل کے ڈیرہ لگائیں !

مگر بھائی! ہم تو پنہ گیر ہیں

شہر میں کیا کریں گے ؟

وہاں ان دنوں کام ملنا بھی مشکل ہے

اپنا کوئی یار ڈپٹی کلکٹر ہی ہوتا

نہیں یار! اب تو یہی مر رہیں گے

اسی گاؤں میں گھر بنائیں گے

اب تو یہی تھل بسائیں گے

بندو: سہر مرے کیا پھونکنا، دیکھے سہر کے لوگ

گیا تھا کنکو بیچنے، لے آیا کیا روگ؟

احمد: یہ سب نفع خوروں کی سازش ہے

غلے کا توڑا نہیں !

اپنے کھیتوں کو دیکھو!

ذرا اپنی فصلوں کو دیکھو!

ہری ہیں، بھری ہیں !

مگر یہ زمیندار، یہ کالی منڈی کے تاجر!

اکبر: یہ دُکھ بھری رات کیسی کالی ہے

آج تاروں کی سَمسَرن کس کو دھونڈتی ہے !

اداس تاروں کی سَمسَرن کو جگاؤ حسنی!

گئے سمے کو بلاؤ حسنی!

سناؤ حسنی!

حسنی طنبورہ چھیڑتا ہے، بندو حقے کے نیچے کو پکڑ کر اپنی چاندی کی انگوٹھی سے حقے کا پیوندا بجاتا ہے۔

حسنی: بینا باجے۔  تنانوم تنانوم

جھانجن بولے چھن

تو چپکے چپکے آ گوری!

اس گھور اندھیری رین ماں

جوں کجرا ناچے نین ماں

تو چپکے چپکے آگوری!

(بندو چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے )

بندو: دیکھ تو حسنی!

یو کیسی پگھّم پگھّی!

بارہ سوار سامنے سے گرد اُڑاتے ہوئے آتے ہیں۔  اندھیرے میں ان کی سفید پگڑیاں اور گھوڑیوں کی آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔  اگلے دو سواروں نے اپنے ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشالیں اُٹھائی ہوئی ہیں۔

بُلّھا: دوڑیو رے ! دوڑیو!

دوڑ یو رے !

(گھوڑے سوار الاؤ کے قریب آ جاتے ہیں )

دوسری آواز: کون ہے یو اس اندھیری رات ماں۔  ہو

یو الاؤ کن نے جالا؟

لائیو رے میرا بھالا؟

تیسری آواز: ہوت نچئیے ! کون ہے گا تو؟

چوتھی آواز: بلھے بیرا گھوڑا موڑ لے !

آندھی چلنے لاگی!

بندو: کون ہے بھائیا؟ کیا بات ہو گئی؟

چوتھی: ہو! وا عبدل تھا نا بندو!

بیر کاڈ کے لے گیا سالا!

ہوا کی مافک چل دو یارو

پھیروا ہتھ نہ آیا

گھوڑے سوار آن کی آن میں ہوا ہو جاتے ہیں۔  آندھی تیز ہو گئی ہے۔  اکبر، احمد، حسنی اور بندو کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔

بندو: حسنی بھیا یو ہے پریم کا سودا

مرے یار کی ساری جند گئی برباد

حسنی: تم ٹھہرو اسی باٹ پہ، ہم چلے پی کے دوار

احمد تو مرے ساتھ چل کہیں کھو نہ جاوے یار

احمد: مگر میں تو عبدل سے واقف نہیں

اس کی صورت بھی دیکھی نہیں آج تک!

خیر! تیری خوشی ہے تو چلتے ہیں

یارو یہیں راستہ دیکھنا ہم ابھی آئے !

(ٹاپوں کی آواز)

اکبر: بڑی حماقت ہے !

اس اندھیرے میں کس کو ڈھونڈو گے میرے بھائی!

مجھے تو ڈر ہے کہ آج عبدل پہ کوئی آفت نہ آن ٹوٹے

بڑی بری بات کی ہے اُس نے !

بڑی بری بات کی ہے اُس نے !

نواں منظر

حسنی اور احمد سورج پور سے دو میل کے فاصلے پر جنگل کے شمالی حصّے کے ساتھ ساتھ گھوڑوں پر بیٹھے عبدل اور نندی کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔  اندھیری رات ہے۔  سناٹا ایک حادثے کی طرح پھیلتا جا رہا ہے۔  احمد اور حسنی کے گھوڑے دوڑ دوڑ کر پسینہ پسینہ ہو گئے ہیں۔

کردار

احمد، حسنی، ناری

احمد: تمھارا تو سر پھر گیا ہے !

ارے میں بہت تھک گیا ہوں

میری انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھنے لگی ہیں

حسنی: بھانبڑ جلے سریر ماں رنگ اچھالیں نین

من دیپے جس رین ماں، وہی نہ ہو یہ رین!

احمد: بھلا اس اندھیری بَنی میں تمھیں کیا ملے گا؟

تمھیں جان پیاری نہیں ؟

حسنی: موت کھڑی جس باٹ پہ وہی ہے میری باٹ

گُرو جی میری دھیر بندھاؤ میں اُتروں کس گھاٹ؟

احمد: آؤ ندی کے اُس پار اُتریں !

اُدھر ایک رستہ ہے

حسنی: (احمد سے )

من کی اکھیاں کھول کے دونوں اکھیاں میچ

پھوٹے گا پھر چاندنا، ندی کے بیچوں بیچ

احمد: ارے یہ تو جادُو کی دھرتی ہے !

حسنی: دھرتی اُوپر نیلا گگن، گگن پہ ناچیں پھُول

ان کی چھایا دیکھ کے، جل میں جلیں بھنبول

حسنی اور احمد کے گھوڑے چلتے چلتے ایک دَم رُک جاتے ہیں۔  حسنی اور احمد بہت کوشش کر تے ہیں لیکن گھوڑے آگے نہیں چلتے۔  دونوں گھوڑے اگلے پاؤں اُٹھا کر ہنہناتے ہیں اور خر خر کرتے ہیں اور اپنی کنوٹیاں جلدی جلدی گھماتے ہیں۔  احمد بہت اصرار کرتا ہے لیکن حسنی واپس جانے سے انکار کر دیتا ہے۔

احمد: ارے وہ اُدھر آگ!۔۔ ۔

اُس آگ کے پاس۔۔ ۔  اک آدمی زاد!۔۔ ۔

حسنی: گگن سے اُڑ کے دھرت پہ آیا کیسے رنگ گلال!

کالی، پیلی، گیروی، مٹی ہو گئی لال

احمد: (خوف زدہ آواز میں )

خدا جانے یہ کون ہے ؟

یار آگے نہ جاؤ!

حسنی: دھَڑ دھَڑ جلے سوکھی لکڑی جگَر جگَر انگار

آگ کی اُٹھی لاٹ سے، نکلیں سرخ انار

بھُبھل ملے سریر پہ، ننگی بیٹھی نار

نس اندھیاری رین ماں یہ کیسا اجیار!

حسنی اور احمد جلدی سے الاؤ کے قریب آ جاتے ہیں۔  دونوں، گھوڑے پر سوار ہیں۔  حسنی آگے ہے۔  ایک ننگ دھڑنگی عورت بدن پہ راکھ ملے بالوں سے منہ چھپائے سر جھکائے سنسان بیٹھی ہے۔  وہ ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتی۔  پہلے تو حسنی اور احمد ڈر کے مارے سہم جاتے ہیں۔  حسنی، عورت سے مخاطب ہوتا ہے۔

حسنی: اگنی بَرن کی اوٹ ماں، اپنا بدن چھپا

او ناری! او مورکھ ناری اپنا ناؤں بتا!

ناری: (بڑی ڈراؤنی اور گہری آواز میں )

ناری نہیں، چڑیل ہوں، اپنی جان سنبھال

کھائے لُوں گی ترا کالجہ، جیوڑا لوں گی نکال

حسنی: تو مجھے نئیں پچھانتی، میں ہوں مَنش دلیر

ایسا بھالا ماروں گا بس کر دوں گا یہیں ڈھیر

ناری: تو مجھے نئیں پچھانتا، باپ مرا مہاراج

میں ہوں مہا رجپوتنی، گپت مرا سرتاج

حسنی: تو ہے کس مورکھ کی پتنی کون ترا سرتاج؟

کس کے کارن پھونک دی تو نے اپنی لاج؟

احمد: (حسنی کا شانہ پکڑ کر کہتا ہے )

مرے بھائی نرمی سے بولو!

ناری: ناری سے جب بولیے، کہیے میٹھی بات

جیب سنبھال کے بول رے مورکھ کھول نہ اپنی ذات!

 ’’کون دِسا سے آیا ہے تو کون دِسا کو جا!

بھالالے ریا ہاتھ ماں گھوڑا ریا نچا‘‘

حسنی: میں ہوں ایک ستاریا کھو گئی میری ستار

نگری نگری گاتا پھروں، لوگ کہیں گُن کار

ناری: گُنی ہے تو گُن کاری ہے تو کوئی گُن دکھلا

سُرتی رُوپ کو من میں بٹھا کے موہن گیت سنا!

حسنی: تار طنبورے بن او ناری کیسے گاؤں گیت؟

اُجڑے بن کی باس ہے، سنگت بن سنگیت

ناری: بین نہ باجے تار بن، من باجے بن تار

بین بنا جو گیت سناوے وہی بڑا گُن کار

چندر پانچ کی چھیڑ سے سُرتی رُوپ دکھا

سات سُروں کی راگنی اک تارے پر گا

احمد: مرے بھائی کچھ تو سناؤ!

حسنی: ایک نار میں ایسی دیکھی پہر پہر کرے بین

اس کی اکھیاں دیکھ کے بھوربھی دیکھے رین

گورا مکھڑا پیازی برن، چند سے چٹے پیر

پل پل اُس کے دھیان ماں نو اَنبر کی سیر

کس کے کارن جوگن بنی، کیوں چھوڑا گھر بار؟

اپنا محل بتاؤ دے، او دکھیاری نار!

ناری:  ’’محل تجھے بتاؤتی‘‘ کھڑی ہوں تن من ہار

 ’’بجلی پڑواِن محلوں پر، تم پر پڑو انگار‘‘

احمد: ارے آگ!

یہ آگ! —- یہ شور

گھوڑے کے ٹاپوں کی آوازوں اور لوگوں کے شور سے جنگل گونج اُٹھتا ہے۔  آگ کے شعلے آسمان تک بلند ہو رہے ہیں۔  عورت جنگل کی طرف بھاگ جاتی ہے اور حسنی اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔

دسواں منظر

رات ہو گئی ہے۔  چاروں طرف سے جنگل دھَڑ دھَڑ جلتا ہے۔  اک عجب بھگدڑ مچی ہے۔

کردار

کچھ لوگ، احمد، شیشہ گر:  (کنچ گھر کا انجینئر عمر تقریباً 50 سال)

بُلّھا، حسنی

آوازیں:

1وہ اُدھر بھاگا!

ارے پکڑو اُسے ! جانے نہ پائے

2بڑا اندھیر ہے میرے یارو

بستے گاؤں کی بیٹی کاڈ کے لے گیا حسنی!

3منے اپنی انکھ تے دیکھا، وا حسنی تھا

حسنی ہور نندی دونوں تھے

(احمد آگ کے شعلے دیکھ کر ہجوم میں شامل ہو جاتا ہے )

احمد: آگ کس نے لگائی تھی بھائی!

ملا کچھ پتہ؟

آوازیں: 1 یو قصہ تو بڑا ٹھاڑا ہے !

(کچھ لوگ حسنی کا گھوڑا گھیر کر اسے ہجوم میں لاتے ہیں۔ )

1 —- یارو! اس کی ہڈی پسلی توڑ کے رکھ دو۔

2 —- اِس کے سَر ماں مارو دوگاڑا!

احمد: خبردار! کیوں مارتے ہو؟

گرفتار کر لو، پولیس کے حوالے کرو

اپنے ہاتھوں میں قانون لینا حماقت ہے

1 —- بڑا حَمیتی آیا اس کا!

چپکرا ہو جا!!

احمد: مگر پہلے تحقیق کر لو

عدالت کھلی ہے، عدالت کا در کھٹکھٹاؤ!

1 —- پیچھے ہٹ جا! اپنی بوتھی پرےنوں کر لے !

شیشہ گر: بھلا یہ بھی کوئی شرافت ہے

اسے اپنے ہاتھ سے مت مارو!

یہ کام عدالت پر چھوڑو!

بُلّھا: یو میرا مجرم ہے یارو!

اِنّنوں میرے پاس لیاؤ!

(بُلّھا، حسنی کو خون بھری آنکھوں سے دیکھ کر بولتا ہے )

تو اگر اشراف ہے تو آ کر اُتر میدان ماں

سیّد ہے تو، رجپوت میں !

تو پہلے اپنا وار کر پھر روک میرے وار کو

میں یوں نہ چھوڑوں گا تجھے !

حسنی: میں نردوش ہوں بُلّھے بیرا میرے حال سے جانچ

سانچ کے آگے جھوٹ نہ ٹھہرے نئیں ہے سانچ کو آنچ

سیّد ایسا نئیں ہے بُلّھے تو کیا جانے اس کی ساکھ

جس کے سنگ جلی تری بھینا وہ بھی ہوئے گیا راکھ

تیرے میت ہیں سینکڑوں، پنج تن میرے ساتھ

تیرے پاس گنڈاسیاں میں ہوں خالی ہاتھ

دھُومن شاہ کی سوں ہے بُلّھے میرا نئیں قصور

میں لڑنا نہیں چاہوتا مجھے نہ کر مجبور

1بیر کاڈن لاگے تنے سرم نہ آئی!

راج کَوِی اِب آ جا بچ مدان ماں !

بلّھا: میں تجھے زندہ نہ جانے دُوں گا حسنی!

فیصلہ کر لے یہیں !

یا تو نہیں یا میں نہیں !

حسنی: میرا پیر علیؓ مولا ہے ہو رانگڑ کے چھور

آ جا بیچ مدان ماں دیکھوں تیرا جور

گیارھواں منظر

صبح کا وقت ہے۔  اکبر، احمد کنچ گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔  یہ کنچ گھر سورج پور سے 1-1/2 میل کے فاصلے پر ہے۔  پہلے اس کے حصّہ دار اور مالک عبدل اور حسنی تھے۔  پھر ہجرت کے بعد اکبر ان میں مل گیا۔  اب عبدل اور حسنی کے بعد اکبر اور احمد اس کے مالک بن گئے ہیں۔  کنچ گھر میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔  اس کے چاروں طرف نواں شہر آباد ہو گیا ہے۔  بہت سے کاریگر اور مزدور بدل گئے ہیں اور اس کا کام بھی ذرا پھیل گیا ہے۔  لیکن کنچ گھر کا انجینئر وہی ہے۔

زمانہ:  ہجرت کے بعد

کردار

احمد، اکبر، شیشہ گر

کنچ گھر کی آواز: کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

کھڑانک کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

کھڑانک کھڑانک ٹَڑک ٹَڑک چھک چھک

اکبر اور احمد، حسنی کے کمرے میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔  ایک شیشے کی الماری میں حسنی کی چتر بین خاموش پڑی ہے۔  حسنی کے بعد اس کسی نے نہیں چھیڑا۔  اکبر اور احمد، بینا کو دیکھتے ہیں اور کچھ دیر خاموش رہتے ہیں

(احمد کو حسنی کا خیال آتا ہے )

بینا با جے تنانوم تنانوم

جھانجن بولے چھن

بینا باجے تنانوم تنانوم

احمد: (میز پر رکھے ہوئے (PAPER WEIGHT) کو دیکھ کر اکبر سے مخاطب ہوتا ہے )

یہ شیشے کی بٹی!

یہ شیشے کی بٹی میں رنگوں کے آنسو!

یہ کیا بلبلے سے چمکتے ہیں دیکھو!

اکبر: ذرا سی بٹی میں ایک دُنیا بسی ہوئی ہے

نظامِ شمسی کے سارے رشتے سمٹ گئے ہیں

یہ ایک ننھا سا آسماں ہے

اُسی طرح صاف اور شفاف اُجلا اُجلا!

یہ کھڑکیاں اور یہ کھڑکیوں کے سفید شیشے

سفید شیشوں سے روشنی کی پھوار چھن چھن کے گر رہی ہے

یہ روشنی دائروں کے اندر!

یہ دائرے روشنی کے اندر!

یہ روشنی کے سفید نقطے !

چہار جہتی زماں کا دھارا

خموش چیزوں کو لے اُڑا ہے

یہ روشنی معجزے کی صورت اُتر رہی ہے

خموش چیزیں بھی چل رہی ہیں

احمد: چلو کنچ گھر مشینیں تو دیکھیں

شیشہ گر کمرے کے اندر آتا ہے اور احمد اور اکبر کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگتا ہے۔  مشینوں کی آواز دُور سے آ رہی ہے۔

کھڑنک کھڑنک چھک ٹڑک ٹڑک

کھڑنک کھڑنک چھک ٹڑک ٹڑک

شیشہ گر: کیوں بھائی سوچ لیا تم نے ؟

اکبر: مجھے تو منظور ہے سبھی کچھ

اب آپ احمد کوراضی کر لیں !

احمد: مجھے کوئی انکار ہے میرے بھائی!

جو یاروں کی مرضی وہی میری مرضی!

شیشہ گر: اب آپ ہی فیصلہ کر لیجیے کہ عبدل اور حسنی

کے حصّے کیسے بٹیں ؟

ان کا تو کوئی وارث بھی نہیں !

حق دار تو اس کے آپ ہی ہیں

لیکن ذرا سوچ سمجھ لینا!

احمد: مگر آپ کا بھی تو حصّہ ہے اس میں !

اکبر: بجا ہے بھائی! تمھاری محنت ہمارا پیسہ!

احمد: تو پھر تین حصّے ہوے۔

کچھ تو اللہ کے رستے میں دے دو!

جو باقی بچے اس کو تینوں میں تقسیم کر لو

اکبر: تو اتنی جلدی ہی کیا ہے احمد؟

مرا تو دِل کانپتا ہے جب بھی خیال آتا ہے دوستوں کا

یہ حصّے وِصّے کی بات چھوڑو!

جو کام کرنا ہے کرتے جاؤ!

احمد: میں قانون کی رُو سے کہتا ہوں

ورنہ میرا دِل بھی دُکھتا ہے

حسنی بھی اپنا بڑا یار تھا

اور عبدل تمھارا بڑا دوست تھا

بلکہ دونوں تمھارے ہی ساتھی۔۔ ۔

مگر خیر! چھوڑو یہ باتیں !

ذرا کنچ گھر تو دکھا دو!

اکبر: (شیشہ گر کی طرف اشارہ کر کے )

یہ شیشہ گر ہیں انھیں سے کہیے !

بڑی ہی منت سے میں نے ان کو منا لیا ہے

کہ کنچ گھر چھوڑ کر نہ جائیں

شیشہ گر: چلو پہلے مشین کو دیکھیں ہم!

احمد: تو یہ کنچ گھر کیسے چلتا ہے ؟

ٹَرک چھک چھک

ٹَرک چھک چھک

شیشہ گر: یہ موٹر ہے ! —- بجلی کے زور سے چلتی ہے

یہ دو بڑی چرخیاں سب سے پہلے گھومتی ہیں !

چرخی گھم گھیریاں کھاتی ہے اور باقی پہیے گھومتے ہیں

پھر ان کے ساتھ ہی چھوٹے بڑے سب پرزے چلنے لگتے ہیں

یہ چمنی ہے ! —- چمنی میں ایندھن جلتا ہے

ایندھن کولے کا ہوتا ہے —- لکڑی اور پتھر کا کولہ!

یہ بھٹی ہے ! —- بھٹی میں شیشہ پگھلتا ہے اور سانچوں میں گر تا رہتا ہے

یہ کئی قسم کے سانچے ہیں !

ان سانچوں میں ہر طرح کی چیزیں بنتی ہیں

یہ پرچ پیالے، یہ کوزے، یہ جھاڑ یہ قیف

یہ نلکیاں یہ گل دان یہ جگ، سوڈے کی بوتلیں

اَور گلاس، یہ سارے کانچ سے بنتے ہیں !

احمد: یہ شیشوں کے تختے !

یہ شیشہ بھلا کس طرح کاٹتے ہیں ؟

شیشہ گر: یہ ٹھوس حجم نازک شیشہ ہیرے کی قلم سے کٹتا ہے

شیشے کی نازک چادر کو نوکیلے کھردرے کنکر سے بھی کاٹتے ہیں

ہیرے کی قلم کبھی دیکھی ہے ؟

اس شیشے کو پیمانہ رکھ کر کاٹتے ہیں

ہیرے کی قلم سے تیز لکیر لگاتے ہیں

پھر دونوں طرف سے شیشے کو ہاتھوں سے دبا کر توڑتے ہیں

یہ کام بڑا ہی نازک ہے !

احمد: مگر یہ بتاؤ کہ شیشہ پگھلتا ہے کیسے ؟

شیشہ گر: پہلے تو کانچ کی کرچیوں کو یا کانچ کے چھوٹے ٹکڑوں کو

بھٹی کے اندر ڈالتے ہیں

پھر چاروں طرف سے بھٹی کو ڈھک دیتے ہیں

یہ بھٹی جوں جوں تپتی ہے شیشے میں لرزش ہوتی ہے

پہلے تو ایک ہی نقطے پر اک تھرتھری ہونے لگتی ہے

پھر تھرتھری بڑھنے لگتی ہے اور ذرّے ہلنے لگتے ہیں

ذرّوں میں کھلبلی مچتی ہے

پھر ذرّے آگے اور پیچھے کیڑوں کی طرح سے رینگتے ہیں

یوں شیشہ پگھلتا رہتا ہے

سانچوں میں ڈھلتا رہتا ہے

اور چیزیں بنتی رہتی ہیں

یہ ریشم سے اُلجھے اُلجھے لچھے سے جو تم دیکھتے ہو

یہ سانچوں میں سے اُچھل کر باہر گرتے ہیں

احمد: بڑا ہی ادق کھیل ہے شیشہ سازی!

میں کتنے دنوں میں اسے سیکھ لوں گا!

شیشہ: دُنیا جسے شیشہ کہتی ہے وہ ایک طرح کا پتھر ہے

یہ شیشہ جو تم دیکھتے ہو پتھر کے دِل کا جوہر ہے

جو رنگ نظر آتے ہیں تمھیں اس شیشہ سازی کے فن میں

کبھی آنکھیں موند کے دیکھو تم، یہی رنگ ہیں دِل کے درپن میں

مجھے شیشہ گر ہی نہ سمجھو تم مرا شیشہ پھوٹ نہیں سکتا

میں جوہری ہوں جس جوہر کا وہ جوہر ٹوٹ نہیں سکتا

آپ آتے رہیں تو چند دنوں میں سارا کھیل سکھا دُوں گا

اس شیشہ گری کی صنعت کے سب راز رموز بتا دُوں گا

بارھواں منظر

نویں شہر میں اکبر، مونا اور احمد دو پہیوں کی گاڑی میں پھول گلی سے کنچ گھر کی طرف جا رہے ہیں۔  گاڑی کو دو سفید گھوڑے کھینچ رہے ہیں۔  گرمیوں کی دوپہر ہے۔  ایک عورت بھیرویں گا رہی ہے۔  اس کی آواز دُور سے آ رہی ہے۔

کردار

ایک عورت، مونا ( عمر 22 سال)

اکبر، احمد

گاڑی کی آواز:

رِک شک رِک شک

رِک شک رِک شک

رِک شک رِک شک

عورت کے گانے کی آواز: کنچن رُوپ دکھائے

سرگم سا (سارے گاما سا)

جل میں آگ لگائے

چھم چھم ناچے کھڑی دوپہری

دھُوپ کی تانیں گہری گہری

سرگم سا

جل میں آگ لگائے

سر کی چھایا سر سے آگے

سر کے پیچھے سرتی بھاگے

سرگم سا

سر کی تھاہ نہ پائے

کنچن رُوپ دکھائے

سرگم سا

جل میں آگ لگائے

مُونا: گاڑی والے گاڑی روکو

احمد بھیا نیچے اُترو!

احمد: یہ کس کا جنازہ ہے اکبر؟

اکبر: ہمارے مفتی گزر گئے ہیں

یہ آخری شمع رہ گئی تھی!

تیرھواں منظر

گاڑی اُڑی جا رہی ہے۔  رات ہو گئی ہے۔  سورج پور اب تھوڑی دُور ہے۔ احمد اور فیاض بدستور باتیں کر رہے ہیں اور عبدل گہری سوچ میں سر جھکائے بیٹھا ہے۔

کردار

احمد، فیاض، عبدل

احمد: کئی بار تم سے کہا ہے کہ کھڑکی کا شیشہ اُٹھا دو

یہ شیشہ اُٹھا دو نا بھائی!

فیاض: کون ہے وہ پھر تم ہی بتاؤ!

احمد: ارے ہاں ! وہ اندھی بھکارن!

خدا جانے وہ کون ہے ؟

فیاض: سات برس میں اس دھرتی کی ایسی کا یا پلٹی!

پہلے جنگل راکھ ہوا، پھر کال پڑا

سیلاب تو بس ایسا آیا کہ تو بہ میری!

سورج پور میں کیا رکھا ہے ؟

احمد: پرانی حویلی بھی اُجڑی پڑی ہے

وہ ڈیرہ تو حشمت کے دَم سے ہی تھا بس!

تمھیں یاد ہے جب وہ سیلاب آیا تھا

اُس رات عبدل کے ماں باپ، بُلّھے کا کنبہ

خدا جانے کتنی ہی مخلوق اس راؤں میں بہہ گئی

فیاض: بندو اور میں کشتی لے کر سب سے پہلے عبدل کے ڈیرے میں پہنچے

حشمت باوا اور نصیبن گھر سے نہ نکلے

احمد: میں بھی اس رات اکبر کو لے کر گیا تھا مگر وہ نہ مانے !

اجی یہ پرانے زمانے کے بوڑھے کسی کی نہیں مانتے

خیر اچھے تھے وہ لوگ!

دُنیا میں اب ایسی شکلیں کہاں ہیں ؟

فیاض: حسنی آپ کے ساتھ تھا جس دِن آگ لگی تھی؟

احمد: میں بندو کے ہمراہ مرچوں کی پیلی میں بیٹھا ہوا تھا

کہ حسنی طنبورہ لیے آ گیا

ہم وہیں رہٹ کے مڈھ پہ سنگیت سننے لگے تھے

کہ اکبر بھی گھوڑے سے اُترا

وہ شام اب کبھی یاد آتی ہے تو کانپ جاتا ہوں بھائی!

فیاض: حسنی آپ کے ساتھ تھا لیکن

نندی کس کے ساتھ گئی تھی؟

عبدل پھر کیوں بھاگا؟۔۔ ۔

احمد: ہاں تو میں کہہ رہا تھا

اندھیرا اُترنے لگا تھا کہ اتنے میں ٹاپوں کی آواز آئی

وہ عبدل کے پیچھے لگے تھے !

اِسی وقت میں اور حسنی بھی گھوڑوں کو لے کر چلے

رات کے کوئی نو دس بجے تھے کہ ندی کے

اُس پار جنگل میں جلتا الاؤ دکھائی دیا

گھوڑے چلتے نہ تھے اور ہم جاں ہتھیلی پہ لے کر اُدھر چل پڑے

پاس پہنچے تو دیکھا الاؤ پہ اک نار بیٹھی تھی،

جلتے الاؤ کے نزدیک عریاں بدن ایک عورت

پریشان بالوں سے منہ کو چھپائے،

خدا جانے وہ کون تھی!

فیاض: اچھا اچھا! یہ عورت۔۔ ۔

وہ —- تم نے کچھ پُوچھا تھا اس سے

وہ کیا بولی؟

احمد: ہم نے پوچھا تو کھانے کو دوڑی

ڈرانے لگی اور کہنے لگی ’’ڈین ہوں

دُور ہو جاؤ ورنہ کلیجہ چبا لوں گی۔ ‘‘

پہلے تو ہم ڈر گئے پھر ذرا بڑھ کے حسنی نے نیزہ سنبھالا

وہ تھرا گئی زرد سی پڑ گئی

فیاض: پھر آگے کیا بات ہوئی یہ بھی تو بتاؤ؟

احمد: ہم نے اس سے بڑی دیر تک گفتگو کی

فیاض: میں جانوں وہ کوکھ جلی تھی

جادُو ٹونہ کرتی ہو گی!

آخر اس نے کوئی بات تو کی ہو گی نا؟

احمد: نہیں کچھ نہیں۔۔ ۔  رو رہی تھی

جب حسنی نے اس کو بتایا کہ وہ نغمہ گر ہے تو کہنے لگی کچھ سناؤ!

وہ حسنی بھی کیا منچلا تھا

سنانے لگا!

فیاض: اچھے وقت میں گانے کی سوجھی تھی اس کو!

احمد: یہ کوی اور راگی طبیعت کے بندے ہیں !

ہاں ! پھر وہ عورت —-

وہ اپنی کہانی سنانے لگی تھی کہ اتنے میں اک شور اُٹھا

گھڑی بھر میں جنگل چٹخنے لگا

آگ میلوں تلک بڑھ چکی تھی

وہ اس شور کو سن کے جنگل میں بھاگی

مرا گھوڑا آگے نہ چلتا تھا

میں رہ گیا اور حسنی ہوا ہو گیا

سارے جنگل میں ڈھونڈا

وہ دونوں نہ جانے کہاں کھو گئے تھے ؟

سواروں نے بھگدڑ مچائی تھی

پھر کیا ہوا یہ نہ پوچھو

وہ ناری خدا جانے غائب ہوئی، جل بجھی، بھاگ نکلی

خدا جانتا ہے۔

فیاض: وہ بزدل پھر گاؤں چھوڑ کے کیوں بھاگا تھا؟

احمد: کوئی کہتا ہے عبدل وہیں جل گیا!

کوئی کہتا ہے یہ جھوٹ ہے وہ کسی دوسرے گاؤں میں تھا

مگر یہ مجھے علم ہے یا خدا جانتا ہے

کہ حسنی مرے ساتھ تھا

وہ تو ناحق ہی مارا گیا!

میں نے لوگوں کو روکا بڑی منتیں کیں

وہاں کچھ بھلے لوگ بھی تھے

وہ کہتے رہے کہ عدالت کا دَر کھٹکھٹاؤ

مگر ایسے بلوے میں کب کوئی سنتا ہے

بُلّھا تو غصّے میں اندھا تھا

بس دونوں لڑنے لگے اور وہیں کٹ مرے !

(عبدل سوچتا ہے۔  اسے طرح طرح کے خیال آوازیں دیتے ہیں )

عبدل: سورج پور اب پھر نہ بسے گا!

سورج پور اب پھر نہ بسے گا

سورج پور تو اُس دن اُجڑ گیا تھا!

وہ دن اپنے گاؤں کی بربادی کا دن تھا!

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز: کنچ گھر میں چاند اُترا ہے

دروازے کیوں بند پڑے ہیں ؟

کس نے بند کیے ہیں ؟

نندی تم یہاں کیوں آئی ہو؟

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

نندی: مجھے خوف آتا ہے عبدل

وہ کھڑکی کے شیشے تڑخنے لگے ہیں !

لہو گر رہا ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اکبر: یہ کنچ گھر میں لہو کی بارش کہاں سے آئی!

سفید شیشوں پہ لال تحریر کس نے لکھی؟

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز: یہ آیا تجھے آج کس کا خیال؟

ہرے بن میں کلیاں کھلیں لال لال

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

حسنی: گگن سے اُڑ کے دھرت پہ آیا کیسے رنگ گلال

اُجلے چٹے چٹے شیشے سارے ہو گئے لال لال

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

بینا باجے تنانوم تنانوم

جھانجھن بولے چھن

بہت بڑی سرکار ہے تیری سیّد قطب الدینؒ

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آواز: اب اس پیڑ سے اُڑ جا!

اب اس پھل میں رَس نہ پڑے گا

اس کو اندر سے کیڑوں نے چاٹ لیا ہے

اب اس پیڑ سے اُڑ جا

کڑوے نیم کی ٹہنی چن لے !

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

فیاض: اب تو یہی تمنا ہے بس

نویں شہر میں جلدی جلدی گھر بن جائے

احمد: آٹھ بجنے لگیں تو بتانا

تمھیں کنچ گھر کا نظارہ دکھاؤں گا

گاڑی وہیں سے گزرتی ہے

فیاض: آٹھ بجنے میں چند منٹ ہیں !

آواز: سورج پور اترو گے عبدل!

وہاں نہ جانا!

عبدل: گاڑی آگے کو چلتی ہے

چیزیں پیچھے کو ہٹتی ہیں

ساری دھرتی گھوم رہی ہے

کھڑکی کے اُجلے شیشے میں چاند بھی جم کر ٹھہر گیا ہے

آواز: سورج پور اُترو گے عبدل!

وہاں نہ جانا!

وہاں ترا اب کوئی نہیں ہے !

عبدل: اس دھرتی سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا ہے !

اپنے وقت کا اِک اِک ساتھی چھوٹ چکا ہے !

آواز: میں نہ کہتا تھا کہ وہ گھوڑا بڑا منحوس ہے

وہ زمیں منحوس تھی وہ آسماں منحوس تھا

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

تجھ کو اِس دِن کے لیے پالا تھا عبدل!

پوت کا ہے کو جنا تھا سانپ تھا!

آواز: تو نے نندی کو مارا ہے !

تو  نے اس کا خون پیا ہے !

تو نے حسنی کو مارا ہے !

تو اپنے ماں باپ کا قاتل!

تو ہی بُلّھے کا قاتل ہے

اتنے تن داروں کا خون تری گردن پر!

تو خونی ہے !

تو قاتل ہے !

عبدل: تو جھوٹا ہے

نندی اپنی موت مری ہے

حسنی میرا جگری دوست تھا

آواز: تو بزدل ہے !

تو نے سورج پورکو اجاڑا!

عبدل: تو جھوٹا ہے !

تو بزدل ہے !

آواز: تو خونی ہے !

تو قاتل ہے !

تو بزدِل ہے !

عبدل: (لہجہ بدل کر )

دھُوپ کی گرمی سے پیلا پڑ گیا تھوہڑ کا کانس

چاند کی کبریت سے جلنے لگے جنگل کے بانس

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ارے کیا ہوا دیکھنا تو!!

یہ گاڑی کھڑی ہو گئی؟

فیاض: (عبدل کی طرف دیکھ کر) کون سا اسٹیشن ہے بھائی؟

آپ یہاں اُتریں گے صاحب؟

احمد: نہیں ! یہ تو جنگل ہے !

گاڑی یہاں کیوں رُکی!

کوئی آواز بھی تو نہیں !

کوئی بتی نہیں !

یہ تو جنگل ہے ! سنسان جنگل!!

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل