FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

دعوت القرآن

 

 

حصہ۷: اسراء، کہف، مریم، طٰہٰ

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

 (۱۷) سورۂ بنی اسرائیل یا اسریٰ

 

 (آیات ۱۱۱)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

ابتدائی آیتوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ایک اہم باب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے سورہ کا نام بنی اسرائیل قرار پایا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے یعنی ۱۲ نبوی میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل (مشرکین عرب) دونوں کو متنبہ کرنا ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کو اس نبی کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر تم اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے اور ہمارے رسول سے ٹکر لی تو یاد رکھو اللہ کا تازیانہ تم پر برس کر رہے گا۔ اگر سنبھلنا چاہتے ہو تو نبی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے بجائے ان تعلیمات کو قبول کر لو جو اس پر نازل کی گئی ہیں۔

 

نظم کلام

 

آغاز معراج کے واقعہ سے ہوا ہے جس میں یہ اشارہ مضمر ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں پر نبی اور اس کے پیروؤں کا غلبہ ہونے والا ہے۔

آیت ۲ تا ۸ میں مسجد اقصیٰ کے تعلق سے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے عبرت آموز واقعات سنا کر متنبہ کر دیا گیا ہے۔ آیت ۹ تا ۲۲ میں قرآن کی دعوت کو پیش کیا گیا ہے۔ آیت ۲۳ تا ۳۹ میں ربانی تعلیمات بیان ہوئی ہیں جو انسان کے کردار کو سنوارتی ہیں اور اس کے رب سے اس کا تعلق استوار کرتی ہیں۔ آیت ۴۰ تا ۶۰ میں منکرین کے شبہات و اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ آیت ۶۱ تا ۶۰ میں ابلیس کے اس واقعہ کو پیش کیا گیا ہے کہ اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر کے بنی نوع انسان کے ساتھ دشمنی کر لی ہے اور اسے گمراہ کرنے ٹھان لی ہے اور وہی آج لو گوں کو قرآن سے متنفر کر رہا ہے۔ ضروری ہے کہ لو گ اپنے دشمن سے چوکنا رہیں۔ آیت ۶۶ تا ۷۲ میں توحید اور آخرت کا یقین پیدا کرنے والی باتیں پیش کی گئی ہیں۔ آیت ۷۳ تا ۷۷ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تاکید کہ آپ مخالفتوں کے طوفان سے گزرتے ہوئے راہِ حق پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں۔ آیت ۷۸ تا ۸۲ میں نماز کی تاکید، ہجرت کی طرف اشارہ کہ عنقریب یہ واقعہ پیش آنے والا ہے، غلبۂ حق کی بشارت اور ظالموں کو تنبیہ۔ آیت۸۳ تا ۱۰۰ میں انسان کے غلط طرز عمل پر گرفت اور منکرین کے اعتراضات کے جوابات۔ آیت ۱۰۱ تا ۱۰۴ میں موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر اور یہ وضاحت کہ معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود فرعون ایمان نہیں لایا اور بالآخر اس پر عذاب ٹوٹ پڑا۔ آیت ۱۰۵ تا ۱۱۱ خاتمۂ کلام ہے جس میں خدا کو پکارنے کے آداب کو ملحوظ رکھنے اور اس کی عظمت و کبریائی بیان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ اللہ کیلئے پاکی ہے اور اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ وہ نہایت با عظمت ہستی ہے لہٰذا اس کی کبریائی بیان کرو۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے گرد و پیش ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلا شبہ وہی ہے سب کچھ سننے والا دیکھنے والا۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی ۲* اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا کہ میرے سوا کسی کو اپنا معتمد نہ بناؤ۔ ۳*

۳۔ ۔ ۔ ۔ تم ان لو گوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوحؑ کے ساتھ (کشتی میں) سوار کرایا تھا۔ ۴* وہ واقعی ایک شکر گزار بندہ تھا۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے۔ ۵*

۵۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب پہلے وعدہ کا وقت آ گیا تو ہم نے تم پر ایسے بندے مسلط کر دئے جو بڑے زور آور تھے وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کر رہا۔ ۶*

۶) پھر ہم نے ان کے مقابلہ میں تمہیں غلبہ دیا اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔ ۷*

۷۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم نے بھلائی کی تو اپنے ہی لیے کی اور اگر برائی کی تو وہ بھی اپنے ہی لیے کی۔ ۸* پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آیا تو ہم نے پھر زور آور بندے تمہارے خلاف اٹھائے تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور اسی طرح مسجد میں گھس پڑیں جس طرح پہلی مرتبہ گھس پڑے تھے اور جس چیز پر ان کا بس چلے تباہ کر کے رکھ دیں۔ ۹*

۸۔ ۔ ۔ ۔ عجب نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے لیکن اگر تم نے پھر وہی روش اختیار کی تو ہم پھر اسی طرح سزا دیں گے۔ ۱۰* اور ہم نے کافروں کے لیے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔ ۱۱*

۹۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے ۱۲* اور ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لو گ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ اور انسان شر کے لیے اس طرح دعا کرنے لگتا ہے جس طرح اسے خیر کے لیے دعا کرنا چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔ ۱۳*

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا۔ رات کی نشانی ہم نے دھیمی کر دی اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو۔ ۱۴* اور ہم نے ہر چیز کھول کھول کر بیان کر دی ہے۔ ۱۵*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں چپکا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ ۱۶*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ پڑھ اپنا نامۂ اعمال! آج تو خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ ۱۷*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ جو ہدایت کی راہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ کوئی بو جھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ۱۸* اور ہم (کسی قوم کو) عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اس میں ایک رسول نہ بھیج دیں۔ ۱۹*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوشحال لو گوں کو حکم دیتے ہیں مگر وہ اس میں نا فرمانی کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح عذاب کی بات اس پر لاگو ہو جاتی ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ۲۰*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ اور نوح کے بعد ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں اور تمہارا رب اس بات کے لیے کافی ہے کہ اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہو اور ان کو دیکھے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ جو (دنیائے) عاجلہ کا خواہشمند ہوتا ہے ہم اسے یہیں دے دیتے ہیں جس قدر دینا چاہیں اور جس کو دینا چاہیں پھر اس کے لیے ہم نے جہنم مہیا کر دی ہے جس میں وہ داخل ہو گا اس حال میں کہ ملامت زدہ ہو گا ٹھکرایا ہوا!۲۱*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ اور جو آخرت کا خواہشمند ہو گا اور اس کے لیے کوشش کرے گا جیسی کوشش کرنا چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہی لو گوں کی کوشش مقبول ہو گی۔ ۲۲*

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ہم ان کو بھی اور ان کو بھی ہر ایک کو (سامانِ زندگی) دئے جا رہے ہیں جو تمہارے رب کی بخشش ہے اور تمہارے رب کی بخشش کسی پر بند نہیں ہے۔ ۲۳*

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو ہم نے کس طرح ایک (گروہ) کو دوسرے (گروہ) پر فضیلت عطا کی ہے ۲۴* اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بھی بڑھ کر ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی۔ ۲۵*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے ساتھ دوسرا خدا نہ بناؤ ورنہ بیٹھ رہو گے ملامت زدہ اور بے یارو مددگار ہو کر۔ ۲۶*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۲۷* اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ ۲۸*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے لیے رحمت کے ساتھ خاکساری کے بازو جھکائے رکھو ۲۹* اور دعا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔ ۳۰*

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ ۳۱* اگر تم نیک بن جاؤ تو وہ رجوع کرنے والوں کے لیے بڑا بخشنے والا ہے۔ ۳۲*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ اور رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ۳۳* اور فضول خرچی نہ کرو۔ ۳۴*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ۳۵*

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تمہیں اپنے رب کی مہربانی کی تلاش میں جس کے تم امیدوار ہو ان سے پہلو تہی کرنا پڑے تو ان سے نرمی کی بات کہو۔ ۳۶*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز ہو کر بیٹھ رہو۔ ۳۷*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔ ۳۸* وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور ان کو دیکھنے والا ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ ۳۹* بلاشبہ ان کا قتل بہت بڑے گناہ کی بات ہے۔ ۴۰*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یہ کھلی بے حیائی ہے اور بہت بری راہ۔ ۴۱*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی نفس کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے قتل نہ کرو مگر حق کی بنا پر۔ ۴۲* اور جو کوئی مظلومی کی حالت میں مارا جائے تو اس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے لہٰذا وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ ۴۳* اس کی مدد کی گئی ہے۔ ۴۴*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ ۴۵* اور عہد کو پورا کرو۔ یقیناً عہد کے بارے میں باز پرس ہو گی۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ناپو تو پیمانہ بھر کر دو اور سیدھی ترازو سے تولو۔ ۴۶* یہ طریقہ اچھا ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر۔ ۴۷*

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ اور جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔ ۴۸*کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ ۴۹*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ ۵۰*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ان تمام چیزوں کی برائی تمہارے رب کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔ ۵۱*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکمت کی ان باتوں میں سے ہیں جو تمہارے رب نے تم پر وحی کی ہیں۔ ۵۲* اور اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہراؤ ۵۳* کہ جہنم میں ڈال دئے جاؤ ملامت زدہ، ٹھکرائے ہوئے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے تو بیٹے خاص کر دئے اور اپنے لیے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا؟۵۴* بڑی سخت بات ہے جو تم کہتے ہو۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بات واضح کر دی تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں ۵۵* مگراس سے ان کی دوری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ۵۶*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر اس کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے جیسا کہ یہ لو گ کہتے ہیں تو وہ صاحبِ عرش کی طرف (چڑھائی کرنے کے لیے) راہ ضرور نکال لیتے۔ ۵۷*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ پاک ہے وہ اور بہت بلند ہے ان باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی اُن میں ہے سب اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ ۵۸* بلا شبہ وہ بڑا بردبار اور بڑا بخشنے والا ہے۔ ۵۹*

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لو گوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک پوشیدہ پردہ حائل کر دیتی ہیں۔ ۶۰*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے دلوں پر غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانو ں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔ ۶۱* اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ۶۲*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ہم جانتے ہیں جب یہ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو کیا سنتے ہیں نیز جب یہ سرگوشیاں کرتے ہیں۔ جب یہ ظالم کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جو سحر زدہ ہے۔ ۶۳*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو، یہ کیسی باتیں ہیں جو تمہاری نسبت کہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھٹک گئے۔ اب راہ نہیں پا سکتے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے تو کیا ہمیں از سر نو پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ کہو تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ یا کوئی اور چیز جو تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ سخت ہو۔ ۶۴* وہ کہیں گے کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا؟ کہو وہی جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ پھر وہ سر ہلا کر پوچھیں گے کہ یہ کب ہو گا؟ کہو عجب نہیں کہ اس کا وقت قریب آ لگا ہو۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کا جواب دو گے اور یہ خیال کرو گے کہ بس تھوڑی ہی دیر (ٹھہرے) رہے۔ ۶۵*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے بندوں سے کہ دو کہ وہ ایسی بات کہیں جو بہتر ہو۔ شیطان لو گوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ ۶۶* یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب تم کو خوب جانتا ہے۔ وہ چاہے تو تم پر رحم فرمائے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے۔ ۶۷* اور (اے پیغمبر!) ہم نے تم کو ان پر ان کے عمل کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ ۶۸*

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔ ۶۹*

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ کہو پکار دیکھو ان کو جن کو تم نے اس کے سوا خدا سمجھ رکھا ہے۔ وہ نہ تمہاری کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں اور نہ تمہاری حالت بدل سکتے ہیں۔ ۷۰*

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ جن کو یہ لو گ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ کون سب سے زیادہ مقرب بنتا ہے۔ وہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ ۷۱* بے شک تمہارے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ اور کوئی آبادی ایسی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کر دیں یا سخت عذاب نہ دیں۔ یہ بات کتاب میں لکھی جاچکی ہے۔ ۷۲*

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ اور ہمارے لیے نشانیاں بھیجنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوئی مگر یہ بات کہ اگلے لو گوں نے ان کو جھٹلایا تھا۔ ۷۳* ثمود کو ہم نے اونٹنی دی کہ ایک کھلی نشانی تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا۔ ۷۴* اور نشانیاں تو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ (لو گوں کو ان کے ذریعہ) ڈرائیں۔ ۷۵*

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ تمہارے رب نے لو گوں کو گھر رکھا ہے۔ ۷۶* اور اس مشاہدہ (رؤیا) کو جو ہم نے تمہیں کرایا لو گوں کے لیے آزمائش بنا دیا ہے۔ ۷۷* نیز اس درخت کو بھی جس کو قرآن میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔ ۷۸* ہم انہیں ڈراتے ہیں لیکن اس سے ان کی سرکشی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا ۷۹* مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ ۸۰* اس نے کہا کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ۸۱*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ (نیز) اس نے کہا کیا تیرا یہی فیصلہ ہوا کہ تو نے اس کو مجھ پر فضیلت بخشی۔ ۸۲* اگر تو نے مجھے قیامت کے دن مہلت دی تو میں اس کی پوری نسل کو بیخ و بن سے اکھاڑ ڈالوں گا۔ صرف تھوڑے لو گ اس سے بچ سکیں گے۔ ۸۳*

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا جا۔ ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے چلیں گے تو جہنم ہی تم سب کے لیے پوری پوری سزا ہے۔ ۸۴*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ تو ان میں سے جس جس کو اپنی آواز سے بہکا سکتا ہے بہکا لے ۸۵* پھر اپنے سواروں اور پیادوں سے حملہ کر ۸۶*، مال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا، ۸۷* ان سے وعدہ کر اور شیطان جو وعدہ بھی کرتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سرتا سر دھوکا۔ ۸۸*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔ ۸۹* اور تیرا رب کارسازی کے لیے کافی ہے۔ ۹۰*

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا رب تو وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل ۹۱ * تلاش کرو۔ یقیناً وہ تم پر بہت مہربان ہے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ جب سمندر میں تمہیں مصیبت آ لیتی ہے تو اس ایک کے سوا جن جن کو تم پکارتے ہو سب غائب ہو جاتے ہیں۔ ۹۲* پھر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا تم اس بات سے بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ خشکی کے کسی حصہ میں تم کو دھنسا دے یا تم پر سنگ باری کرنے والی آندھی بھیج دے۔ پھر تم اپنے لیے کوئی کارساز نہ پاؤ۔ ۹۳*

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ یا اس بات سے تم بے خوف ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اس میں (سمندر میں) لے جائے اور تم پر ہوا کا سخت طوفان بھیج دے اور تمہاری ناشکری کی وجہ سے تم کو غرق کر دے۔ پھر تم کسی کو نہ پاؤ جو ہم سے پوچھ کچھ کر سکے۔ ۹۴*

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ۹۵* اور اس کو خشکی اور تری میں سواری عطا کی ۹۶* اور پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا ۹۷* اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اس کو فضیلت دی۔ پوری پوری فضیلت۔ ۹۸*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔ ۹۹* تو جن کو ان کا نامۂ عمل داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا ۱۰۰* وہ اپنا نامۂ عمل پڑھیں گے ۱۰۱* اور ان کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہیں ہو گی۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا ۱۰۲* اور راہ سے بالکل بھٹکا ہوا۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ یہ لو گ اس بات کے درپے تھے کہ تمہیں فتنہ میں ڈال کر اس (کلام) سے پھیر دیں جو ہم نے تم پر وحی کیا ہے تاکہ تم کوئی اور بات ہمارے نام سے گھڑ کر پیش کرو۔ اور اس صورت میں وہ تمہیں اپنا دوست بنا لیتے۔ ۱۰۳*

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم نے تمہارے قدم جمانے دئے ہوتے تو بعید نہ تھا کہ تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک پڑتے۔ ۱۰۴*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ اس صورت میں ہم تمہیں زندگی کا بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کا بھی دوہرا عذاب۔ پھر تم ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ ۱۰۵*

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اس بات کے درپے ہیں کہ تمہارے قدم اس سرزمین سے اکھاڑ دیں تاکہ پھر تمہیں یہاں سے نکال دیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کر بیٹھے تو تمہارے بعد بہت کم ٹھہر سکیں گے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے ان کے معاملہ میں ہمارا یہی قاعدہ رہا ہے اور ہمارے قاعدے میں تم کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ ۱۰۷*

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات کے اندھیرے تک اور فجر کی قرأت قرآن کا اہتمام کرو کہ فجر کی قرأتِ قرآن میں بڑی حضوری ہوتی ہے۔ ۱۰۸*

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ اور رات میں تہجد پڑھو۔ یہ تمہارے لیے مزید ہے۔ ۱۰۹* عجب نہیں کہ تمہارا رب تمہیں ایسے مقام پر اٹھائے جو نہایت محمود ہے۔ ۱۱۰*

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو کہ اے میرے رب! مجھے (جہاں کہیں) داخل کر تو سچائی کے ساتھ داخل کر اور مجھے نکال تو سچائی کے ساتھ نکال۔ ۱۱۱* اور اپنی طرف سے ایسا غلبہ عطا فرما جو میرا مددگار ہو۔ ۱۱۲*

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ اور اعلان کر دو حق آ گیا اور باطل نابود ہوا اور باطل ہے ہی نابود ہونے والا۔ ۱۱۳*

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم قرآن کی شکل میں وہ چیز نازل کر رہے ہیں جو ایمان لانے والوں کے لیے شفا ۱۱۴* بھی ہے اور رحمت بھی ۱۱۵ مگر ظالموں کے خسارہ میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ۱۱۶*

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ اور انسان کو جب ہم نعمت عطا کرتے ہیں تو منہ پھیر لیتا اور پہلو بچا کر چلتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے۔ ۱۱۷*

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ کہو ہر شخص اپنے طریقہ پر کام کرتا ہے اور تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون بالکل صحیح راہ پر ہے۔ ۱۱۸*

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ یہ لو گ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو روح میرے رب کا فرمان ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت تھوڑا ہے۔ ۱۱۹*

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی ہم نے تم پر کی ہے اس کو چھین لیں پھر تم ہمارے مقابلہ میں کوئی حمایتی نہ پاؤ۔ ۱۲۰*

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (جو تمہیں عطا ہوئی ہے) ۔ یقیناً اس کا فضل تم پر بہت بڑا ہے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر تمام انس و جن مل کر اس قرآن جیسی چیز لانا چاہیں تو اس جیسی چیز نہیں لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں۔ ۱۲۱*

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس قرآن میں لو گوں (کو سمجھانے) کے لیے بیان کے مختلف طریقے اختیار کئے مگر اکثر لو گوں نے اس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا اگر کیا تو کفر۔ ۱۲۲*

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہتے ہیں ہم تمہاری بات ماننے والے نہیں جب تک کہ تم زمین سے ہمارے لیے چشمہ جاری نہ کر دو۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ یا تمہارے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس میں نہریں جاری کر دو۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ یا آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آؤ۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ یا تمہارے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ۔ اور ہم تمہارے چڑھنے کا بھی یقین کرنے والے نہیں جب تک کہ تم ہم پر ایک (لکھی ہوئی) کتاب نہ اتار لاؤ جسے ہم پڑھ سکیں۔ کہو پاک ہے میرا رب!میں اس کے سوا کیا ہوں کہ ایک رسول (پیغام پہنچانے والا) بشر۔ ۱۲۳*

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ اور لو گوں کو ایمان لانے سے جبکہ ہدایت ان کے پاس آ گئی اسی چیز نے روکا کہ کہنے لگے کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟۱۲۴*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے پاس کسی فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجتے۔ ۱۲۵*

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ کہو اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں سے با خبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ جسکو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو ایسے لو گوں کے لیے تم اس کے سوا کوئی مددگار نہ پاؤ گے۔ اور ہم قیامت کے دن ان کو ان کے منہ کے بل اٹھائیں گے اندھے، گونگے اور بہرے۔ ۱۲۶* ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے کو ہو گی ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ ۱۲۷*

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ بدلہ ہو گا اس بات کا کہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے تو ہم کو نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟۱۲۸*

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے یہ نہ سوچا کہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ان جیسوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے۔ ۱۲۹* اس نے ان کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس میں کوئی شک نہیں مگر ظالموں کے لیے سوائے انکار کے کوئی بات بھی قابل قبول نہیں۔ ۱۳۰*

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو تم ضرور خرچ ہو جانے کے اندیشے سے انہیں روک رکھتے۔ انسان بڑا ہی تنگ دل واقع ہوا ہے۔ ۱۳۱*

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں۔ ۱۳۲* تم بنی اسرائیل سے پوچھ لو جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے کہا اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے۔ ۱۳۳*

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے (موسیٰ نے) جواب دیا تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ بصیرت کی نشانیاں اسی نے اتاری ہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ۱۳۴* اور میں سمجھتا ہوں کہ اے فرعون! تم نے اپنے کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ ۱۵۰*

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے چاہا کہ ان کے قدم زمین سے اکھاڑ دے تو ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو ایک ساتھ غرق کر دیا۔ ۱۳۵*

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا کہ تم زمین میں بسو۔ ۱۳۶* پھر جب آخرت کا وعدہ (وقوع میں) آئے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے لا حاضر کریں گے۔ ۱۳۷*

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق ہی کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ ۱۳۹* اور ہم نے تم کو اسی لیے بھیجا ہے کہ خوش خبری سناؤ اور خبردار کرو۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے قرآن کو الگ الگ حصوں کی شکل میں نازل کیا ہے تاکہ لو گوں کو تم ٹھہر ٹھہر کر سناؤ اور ہم نے اس کو بتدریج اتارا ہے۔ ۱۴۰*

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ کہو تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لو گوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ۱۴۱* انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ ۱۴۲*

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ اور پکار اٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب ہمارے رب کا وعدہ تو اسی لیے تھا کہ پورا ہو کر رہے۔ ۱۴۳*

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اس سے ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ ۱۴۴*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ کہو تم اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر۔ ۱۴۵* جس نام سے بھی پکارو اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔ ۱۴۶* اور تم اپنی نماز کو نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بالکل ہی پست آواز سے بلکہ ان کے درمیان کی صورت اختیار کرو۔ ۱۴۷*

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ اور کہو ساری ستائش اللہ ہی کے لیے ہے ۱۴۸* جس نے اپنے لیے نہ کوئی اولاد بنائی اور نہ بادشاہی میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ وہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا مددگار ہو۔ ۱۴۹* اور اس کی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنا چاہیے۔

 

                   تفسیر

 

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ اسراء اور معراج کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں مکہ سے بیت المقدس تک کا سفر ایک رات میں کر دینے کی صراحت کی گئی ہے جو معراج کا پہلا مرحلہ تھا۔ رہا دوسرا مرحلہ جس میں آپ ؐ کو ساتویں آسمان تک واقع سدرۃ المنتہیٰ تک کا مشاہدہ کرایا گیا تو اس کا ذکر سورۂ نجم میں ہوا ہے اس لیے ہم یہاں ان ہی باتوں کی تشریح پر اکتفاء کرتے ہیں جو پہلے مرحلہ یعنی اسراء (بیت المقدس تک کے سفر) سے تعلق رکھتی ہیں۔

آیت میں عبد (بندہ) سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور اللہ کا یہ ارشاد کہ وہ اپنے بندہ کو لے گیا اس کی عنایت خاص کا مظہر ہے جو اس بندہ پر ہوئی۔

مسجد حرام سے مراد مکہ کی وہ حرمت والی مسجد ہے جس کی درمیان خانۂ کعبہ واقع ہے اور جس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے (تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح) دور کی مسجد سے مراد مسجد اقصیٰ ہے جو بیت المقدس میں واقع ہے۔ اقصیٰ کے معنیٰ دور والی کے ہیں۔ اس سے قرآن کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بیت المقدس کی مسجد مکہ کی مسجد حرام سے کافی دوری پر ہے لیکن یہ طویل فاصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے لیے ایک رات کے کچھ حصہ میں طے کر وایا۔ قرآن کے ان الفاظ کی مناسبت سے بیت المقدس کی اس تاریخی مسجد کا نام مسجد اقصیٰ مشہور ہوا ورنہ نزول قرآن کے وقت اس کا یہ اصطلاحی نام نہ تھا۔ بیت المقدس کی یہ مسجد سلیمان علیہ السلام نے تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح میں (غالباً ۹۵۹ قبل مسیح میں) تعمیر کی تھی جو بنی اسرائیل کے لیے دعوت اسلامی اور دینی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کے علاوہ قبلہ قرار پائی تھی۔

اس کے گردو پیش برکتیں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ دینی اور دنیوی برکتوں سے مالا مال ہے۔ جہاں تک دینی برکتوں کا تعلق ہے یہ سرزمین حضرت ابراہیم کی ہجرت گاہ اور حضرت اسحاق کا مسکن قرار پائی نیز بنی اسرائیل کے متعدد انبیاء علیہم السلام کا ظہور یہاں ہوا اور انہوں نے اس سرزمین پر وہ نقوش چھوڑے جو دنیا والوں کی دین حق کی طرف رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ یہاں حضرت سلیمان کو ایک بے مثال سلطنت عطا ہوئی اور نبی اسرائیل کو وہ کچھ بخشا گیا جو دنیا کی کسی قوم کو نہیں بخشا گیا تھا۔ گویا اس زمین کا چپہ چپہ انبیاء علیہم السلام کی یادگار ہونے کی وجہ سے دینی دولت کے خزانے اگلتے رہا ہے۔ رہا دنیوی برکتوں سے اس کا مالا مال ہونا تو یہ علاقہ بڑا زر خیز اور سر سبز و شاداب ہے اور بائبل میں تو اس کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔

مکہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً ایک ہزار میل ہے۔ اس زمانہ میں یہ سفر چالیس دن میں طے ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ سفر معجزانہ طور پر ایک رات کے اندر ہی طے کرا دیا حدیث میں آتا ہے کہ آپ براق پر سوار ہو کر گئے تھے اور حضرت جبرائیل آپ کے ساتھ تھے یعنی یہ سفر ایک برق رفتار سواری پر ہوا تھا۔ یہ بات اس زمانہ میں تو بہت عجیب معلوم ہوتی تھی لیکن اس زمانہ میں جب کہ انسان تیز رفتار ہوائی جہاز اور راکٹ ایجاد کر چکا ہے عجیب نہیں رہی کیونکہ جب انسان مہینوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کر سکتا تھا تو کائنات کا رب کیا اس بات پر قادر نہیں کہ مکہ سے بیت المقدس کا سفر منٹوں میں طے کرا دے ؟

اسی لیے اس سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اللہ کی ذات پاک اور منزہ ہے۔ یعنی یہ معجزاتی سفر طے کرانا اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں۔ جو لو گ اس کو نا ممکن خیال کرتے ہیں وہ اللہ کی قدرت کا بالکل غلط اندازہ لگاتے ہیں۔

یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ سفر جسمانی تھا اور بیداری کی حالت میں تھا۔ اگر محض روحانی سفر ہوتا یا خواب کی حالت میں ہوتا تو نہ اس کو اس طرح تعبیر کیا جاتا کہ ہم اپنے بندے کو ایک رات لے گئے اور نہ ہی لو گوں کے لیے یہ بات وجہ آزمائش بن جاتی۔

جو شخص بھی صاف ذہن سے آیت کا مطالعہ کرے گا وہ یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس کے ذریعے ایک غیر معمولی واقعہ کی خبر دی جا رہی ہے اور بخاری کی اس حدیث سے مزید اس کی تائید ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ” جب قریش نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (خانہ کعبہ کے خارجی حصہ) میں کھڑا ہو گیا۔ اس وقت اللہ نے مجھ پر بیت المقدس کو آشکارا کر دیا۔ میں اس کو دیکھ کر اس کی علامتیں ان کو بتاتا جاتا تھا۔ ” (بخاری حدیث الاسراء) ۔

اس پر بھی اگر لو گ بحث میں الجھتے ہیں تو انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی سب باتیں سن رہا ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اسے دیکھ رہا ہے۔

رہا اس سفر کا مقصد تو آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو مسجد اقصیٰ میں پائی جاتی ہیں اور جو توحید، خدائے واحد کی عبادت، انبیاء علیہم السلام کی متفقہ دعوت اور دین حق کے لیے ان کی جد و جہد، بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی تاریخ اور اللہ کے قانون جزا و سزا پر دلالت کرتی ہیں۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی القبلتین بنایا جا رہا تھا اس لیے مسجد اقصیٰ کا یہ مشاہدہ کافی اہمیت رکھتا تھا۔ ان نشانیو کے علاوہ عجائبات قدرت کی نشانیاں بھی دکھانا مقصود تھا۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ کس مہینہ میں اور کس تاریخ کو پیش آیا اس کی صراحت نہ قرآن نے کی ہے اور نہ حدیث نبوی نے۔ رہ گئیں روایات تو وہ اس بارے میں مختلف ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس رات کو سال بہ سال منانا مقصود نہ تھا ورنہ اس کی صراحت قرآن یا حدیث میں کی جاتی۔ رہا مسلمانوں کا ستائیسویں رجب کو شب معراج منانا تو یہ مسلمانوں کی اپنی ایجاد ہے۔ دین میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ نہ اس رات کو عبادت کے لیے خاص کیا گیا ہے اور نہ معراج کا جشن منانے کا حکم دیا گیا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تورات۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں آج بھی توحید کا سبق مو جود ہے۔ مثال کے طور پر ” خروج” میں ہے :

” خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا میں ہوں۔ میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔ ” (خروج ۲۰:۲۔ ۳)

۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے انسانوں بنی اسرائیل سمیت تم سب ان لو گوں کی نسل سے ہو جن کو نوح کی کشتی میں سوار کرا کے طوفان سے بچا لیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان پوری انسانیت پر ہے اس لیے ہر شخص کو اس کا شکر گزار بننا چاہیے اور شکر گزار اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ وہ اللہ کو اپنا محسنِ حقیقی مان لے۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے مراد جیسا کہ اوپر گزرا موسیٰ کی کتا ب یعنی تورات ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق تورات میں یہ پیشگی خبر دی گئی تھی کہ بنی اسرائیل ملک میں دو مرتبہ فساد عظیم برپا کریں گے اور زبردست سرکشی کریں گے جس کے نتیجہ میں ان کو دونوں ہی مرتبہ تباہی سے دو چار ہونا ہو گا۔ یہ مضمون موجودہ تورات میں ان الفاظ میں تو باقی نہیں رہ سکا ہے البتہ اس خبر کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں۔

احبار میں ہے :

” لیکن اگر تم میری نہ سنو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ میرے عہد کو توڑو تو میں بھی تمہارے ساتھ اسی طرح پیش آؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم اپنے دشمنوں کے آگے شکست کھاؤ گے اور جن کو تم سے عداوت ہے وہی تم پر حکمرانی کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم ان سب باتوں پر بھی میری نہ سنو اور میرے خلاف ہی چلتے رہو تو میں اپنے غضب میں تمہارے بر خلاف چلوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں تمہاری پرستش کے بلند مقاموں کو ڈھا دونگا۔ ۔ ۔ ۔ اور میں تمہارے شہروں کو ویران کر ڈالوں گا اور تمہارے مقدسوں کو اجاڑ بنا دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں تم کو غیر قوموں میں پراگندہ کر دونگا اور تمہارے پیچھے تلوار کھینچے رہوں گا اور تمہارے ملک سونا ہو جائے گا اور تمہارے شہر ویران بن جائیں گے۔ ” (احبار ۲۶:۱۴:تا ۳۳)

اور استثنا باب ۲۸ میں ہے :

” اگر تو اس شریعت کی ان سب باتوں پر جو اس کتاب میں لکھی ہیں احتیاط رکھ کر اس طرح عمل نہ کرے کہ تجھ کو خداوند اپنے خدا کے جلالی اور مہیب نام کا خوف ہو تو خداوند تجھ پر عجیب آفتیں نازل کرے گا۔ ۔ ۔ اور تم اس ملک سے اکھاڑ دئے جاؤ گے جہاں تو اس پر قبضہ کرنے کو جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں پر پراگندہ کرے گا۔ ” (استثناء ۲۸:۵۸ تا ۶۴)

پھر جب بنی اسرائیل میں برے پیمانہ پر اخلاقی و عملی بگاڑ پیدا ہوا اور عام طور سے لو گ سرکشی میں مبتلا ہو گئے تو یرمیاہ نبی نے انہیں بر وقت متنبہ کیا اور شاہ بابل کے ہاتھوں ان کے تباہ کئے جانے کے خبر دی: ” اس لیے ربّ الافواج یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم نے میری بات نہ سنی۔ دیکھو میں تمام شمالی قبائل کو اور اپنے خدمت گزار شاہ بابل نبو کدنضر کو بلا بھیجو گا۔ خداوند فرماتا ہے اور میں ان کو اس ملک اور اس کے باشندوں پر اور ان سب قوموں پر جو آس پاس ہیں چڑھا لاؤں گا اور ان کو بالکل نیست و نابود کر دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ قومیں ستر برس تک شاہ بابل کی غلامی کریں گی۔ ” (یرمیا ۲۵:۸ تا ۱۱)

۶۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے شاہ بابل بخت نصر (نبوکدنضر) (Nebuchadnezzar) کے حملہ کی طرف جو اس نے ۵۸۸۔ ۵۸۶ء قبل مسیح میں سلطنت یہود پر کیا تھا۔ اس نے یہود کے مرکز یروشلم کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ یہاں تک کہ مقدس مسجد کو بھی ڈھا دیا۔ ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا اور بے شمار لو گوں کو لونڈی غلام بنا کر بابل لے گیا۔ بائبل کا شارح لکھتا ہے :

” آخر کار جب بابل کے لو گ شہر میں گھس پڑے تو انہوں نے دیواریں اور محل منہدم کر دئے اور معبد کو زمین کے برابر کر دیا۔ زیڈیکیا کے لڑکے کو اس کے سامنے قتل کر دیا گیا اور اس کو اندھا بنا کر اور زنجیر میں جکڑ کر بابل لے جایا گیا۔ یروشلم کی آبادی کے برے حصے کو جلا وطن کر کے وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ اس طرح سلطنتِ داؤد کا الم ناک طریقے پر خاتمہ ہو گیا۔ ”

)The Interpreter’s commentary On the Bible P.1025(

یہ تھی وہ زبردست سزا جو بنی اسرائیل کو اس کے پہلے اجتماعی بگاڑ کے موقع پر دی گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی قوم میں بگاڑ عام ہوتا جاتا ہے اور وہ سرکش بن جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی سرکوبی کے لیے اس کے دشمنوں اور ظالم حکمرانوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ عذاب الٰہی کی یہ بڑی دردناک شکل ہوتی ہے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کی بابل میں اسیری کے دوران اصلاح کی دعوتیں اٹھیں اور رفتہ رفتہ وہ خدا کی طرف رجوع ہونے لگے۔ آخر رحمت الٰہی ان پر لوٹ آئی اور ان کو بابل کی اسیری سے نجات مل گئی اس کی صورت یہ ہوئی کہ فارس کے بادشاہ سائرس نے ۵۳۹ء قبل مسیح میں بابل کو فتح کیا اور اس کے بعد یہود کو یروشلم جانے اور وہاں خدا کا گھر تعمیر کرنے کی اجازت دیدی۔ اس طرح یہود کو پھر اپنے مرکز لوٹ آنے اور بیت المقدس کو تعمیر کرنے کا موقع ملا۔ پھر عزیز علیہ السلام نے ان کے سامنے تورات کی اس طرح تشریح و توضیح کی کہ ان میں ایک حیاتِ تازہ پیدا ہو گئی اور خلاف شرع باتوں کو چھوڑ کر شریعت خداوندی کی پیروی کے لیے وہ آمادہ ہو گئے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ توبہ نوٹ ۵۸) یہ بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ تھی اور جب اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر لوٹ آئی تو ان کے لیے ہر طرح حالات سازگار ہوتے چلے گئے۔ مال کی فراوانی بھی ہوئی اور نسل کی افزائش کا سامان بھی ہوا۔

ضمناً اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ افزائش نسل اللہ کی نعمت اور اس کا فضل ہے اس لیے اہل ایمان اس کے قدر داں ہوتے ہیں۔ رہے تحدید نسل کے فارمولے تو وہ ان ہی لو گوں کو زیب دیتے ہیں جو خدا اور اس کی نعمتوں کے نا قدر شناس ہوتے ہیں۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ دراصل اس سنتِ الٰہی کا اعلان ہے کہ جو قوم بھی کتاب الٰہی کی حامل ہو اس کا اجتماعی کردار اگر اچھا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے نوازتا ہے اور دنیا میں اس کو عزت و سرفرازی حاصل ہوتی ہے لیکن اگر اس کا اجتماعی کردار بگڑ جاتا ہے تو اللہ اس کے دشمنوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے اور اسے ذلت کا مزہ چکھاتا ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ یہ بنی اسرائیل کے دوسرے بڑے بگاڑ اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والی دوسری بڑی تباہی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ بگاڑ پہلے سے بھی زیادہ شدید تھا اور دین محض ظاہر داری کا نام رہ گیا تھا۔ ان کو اصلاح کی جانب مائل کرنے اور ان میں دین کی اصل روح پھونکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا مگر اس وقت کے یہودی حکمراں نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحیٰ کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا (انجیل متی باب ۱۴) اور عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں یہود نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہاں تک کہ ان کے قتل کے درپے ہو گئے۔ یہ یہود کا دوسرا فساد عظیم تھا جس کے نتائج بد سے عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس طرح آگاہ کیا:

” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے گا۔ ” (متی ۲۴:۲)

” اے یروشلم کی بیٹیو! میرے لیے نہ رو بلکہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رو۔ کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جن میں کہیں گے مبارک ہیں بانجھیں اور وہ رحم جو بارور نہ ہوئے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپا لو۔ ” (لوقا ۲۳:۲۸۔ ۳۰)

اور اس دوسرے فساد عظیم کی سزا یہود کو اس طرح ملی کہ ۷۰ء میں ٹیٹس رومی (Titus) نے بیت المقدس پر زبردست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مسجد (ہیکل سلیمانی) کو تباہ کر دیا اور بے شمار لو گوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس حادثہ نے ان کے شیرازہ کو اس طرح بکھیر دیا کہ وہ مختلف ملکوں میں منتشر ہو کر رہ گئے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے یہ عبرت آموز واقعات سنانے کے بعد ان سے کہا جا رہا ہے کہ اس نبی کی بعثت نے تمہارے لیے رحمتِ الٰہی کا مستحق بننے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا ہے اگر اب بھی سنبھل جاؤ اور اس ہدایت کی پیروی کرو جو اس نبی پر نازل کی گئی ہے تو خدا کی رحمت کے دروازے تم پر کھل سکتے ہیں لیکن اگر تم نے اس نبی کی مخالف کی اور سرکشی کا رویہ اختیار کئے رہے تو یاد رکھو اللہ اپنے عذاب کا کورا پھر تم پر برسائے گا۔

قرآن کی اس تنبیہ کے باوجود جب مدینہ کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنی سرکشی کا تازہ ثبوت یہ فراہم کر دیا کہ وہ قرآن کے مخالف اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمن بن کر کھڑے ہو گئے اور آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے تو اللہ کے عذاب کا کوڑا ان پر پھر برسا چنانچہ پیغمبر اسلام کی موجودگی ہی میں اہل ایمان کے ہاتھوں ان کو سزا بھگتنا پڑی۔

بنی قینقاع اور بنی نضیر جلا وطن کر دئے گئے اور بنی قریظہ کا خاتمہ تلوار کے ذریعہ ہوا۔ رہے خیبر کے یہود تو انہیں مغلوب ہو کر رہنا پڑا اور حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ میں وہ بھی جلاوطن کر دئے گئے۔

طویل مدت تک منتشر رہنے کے بعد یہود اب پھر فلسطین میں مجتمع ہو رہے ہیں اور ان کے اس اجتماع نے دنیا کو امن کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ پھر انہیں کڑی سزا دینا چاہتا ہے۔ عجب نہیں کہ اس کی برق ان کے آشیانہ پر گرے اور اسے خاکستر کر کے رکھ دے۔ آثار ایسے ہی ہیں اور غیب کا علم اللہ ہی کو ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لو گ بھی حقیقت کے اعتبار سے کافر ہوں گے خواہ وہ بظاہر کتاب الٰہی کے ماننے والے ہی کیوں نہ ہوں آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم کا قید خانہ ہو گا۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ یہ اقوام عالم کو دعوت ہے کہ اس راہ کو اختیار کرو جس کی طرف قرآن بلاتا ہے اور اس لیے اختیار کرو کہ یہی راہ بالکل سیدھی ہے اور منزل مقصود___آخرت کی کامیابی___تک پہنچا دینے والی ہے۔

قرآن جس راہ پر چلنے کی دعوت دیتا ہے وہ ہر لحاظ سے بالکل سیدھی راہ ہے۔ عقل کو یہ اپیل کرتی ہے، فطرت اس کی صحت کی گواہی دیتی ہے، وجدان کی پکار یہ ہے کہ وہ حق ہے، یہی راہ تمام انبیاء علیہم السلام کی راہ رہی ہے۔ وہ عدل جس پر آسمان و زمین قائم ہیں اسی راہ میں پایا جاتا ہے، یہ رب العالمین تک سیدھی پہنچتی اور پہنچاتی ہے۔ اس راہ کا اصطلاحی نام دین اسلام ہے۔ رہ گئیں دوسری راہیں خواہ وہ مذہبی راہیں ہوں یا مذہب سے آزاد کسی لحاظ سے بھی سیدھی نہیں ہیں اور نہ خدا تک پہنچنے والی ہیں۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کا حال عجیب ہے۔ اسے خیر کے لیے اپنے رب سے دعا کرتے رہنا چاہیے لیکن نا موافق حالات میں وہ جلد بازی سے کام لیکر اپنے حق میں بد دعا بھی کرنے لگتا ہے یہ انسان کی عام کمزوری ہے جس میں مرد عورتیں سب شامل ہیں۔ آیت کے اس عام مفہوم کے علاوہ اس کا اشارہ خاص طور سے کفار مکہ کی طرف ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ جس عذاب کی دھمکی آپ ہمیں دے رہے ہیں وہ آ کیوں نہیں جاتا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ قرآن کی شکل میں تمہارے رب کی طرف سے خیر نازل ہوا ہے اس لیے ہونا یہ چاہیے تھا کہ تم اپنے رب سے دعا کرتے کہ یہ خیر تمہارے حصہ میں آئے لیکن تم اس سعادت کی طرف لپکنے کے بجائے عذاب کا مطالبہ کرتے ہو جو اگر آ گیا تو ظاہر ہے تمہارے حق میں شر ہی ہو گا۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ رات اور دن کی نشانیاں جن کا تم رات دن مشاہدہ کرتے ہو اگر غور کرو تو تمہارے زاویۂ نگاہ کو بدلنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر رات کو تاریک نہ بنایا جاتا تو اللہ کے فضل کو تلاش کرنے یعنی معاشی دوڑ دھوپ کا کام نہیں ہو سکتا تھا لیکن شب و روز کی آمد و شد نے یہ دونو ں فائدے تمہیں پہنچائے اور اس کا مزید فائدہ یہ کہ دنوں کی گنتی سے انسان سالوں کا شمار اور دوسرا حساب معلوم کر لیتا ہے مثلاً ماضی کے واقعات کے وہ کب وقوع میں آئے تھے یا یہ کہ دن کے کتنے گھنٹے گزر چکے ہیں اور رات کے کتنے۔ اس طرح انسان کے لیے نظام الاوقات مقرر کرنا آسان ہو گیا۔

اللہ کی ربوبیت کی یہ واضح نشانیاں انسان کو اس بات کی دعوت دیتی ہیں کہ وہ اپنے کو اپنے رب کی راہ پر ڈال دے۔ اور قرآن اسی کی دعوت دے رہا ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کی ہدایت کے لیے جو باتیں ضروری تھیں وہ سب قرآن میں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں۔ اب انسان کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں کہ راہ حق کی نشانیاں مجھ پر واضح نہیں ہوئی تھیں۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کی بدبختی یا نیک بختی اس کے اپنے عمل میں پوشیدہ ہے اور ہر شخص کے عمل کا ریکارڈ اس کے گلے کا ہار بنا ہوا ہے۔ قیامت کے دن یہ ریکارڈ ایک کھلی کتاب یا کھلے رجسٹر کی شکل میں اس کے سامنے آن والا ہے اس لیے انجام کی برائی باہر کے کسی شگون سے وابستہ نہیں بلکہ اس کے اپنے عمل سے ہی وابستہ ہے۔

انسان جو عمل کرتا ہے اس کا اچھا یا برا اثر وہ اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے اور اس کی یاد اس کے شعور یا تحت الشعور میں مو جود رہتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا کوئی عمل بے اثر اور بے نتیجہ نہیں ہے اور اس کا ریکارڈ محفوظ ہو رہا ہے۔

رہا یہ سوال کہ جب ہمارا نامۂ عمل ہماری گردنوں میں لٹک رہا ہے تو ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمیں ظاہری آنکھوں سے یہ دکھائی دیتا تو پھر آزمائش کہاں باقی رہتی جبکہ اللہ نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے اور ہمارا امتحان اس میں ہے کہ ہم وحی الٰہی کی روشنی میں عقل و فہم سے کام لیکر ان غیبی حقیقتوں کو تسلیم کرتے اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل متعین کرتے ہیں یا نہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ہر شخص بہ آسانی اپنا اعمال نامہ پڑھ لے گا خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ کوئی زبان جانتا ہو۔ اس وقت وہ یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہے گا کہ اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ اس کے اعمال کا بالکل صحیح حساب ہے۔

اس حقیقت کے پیش نظر ایک عقلمند آدمی اپنا احتساب دنیا ہی میں کرتا ہے تاکہ قیامت کے دن اسے پچھتانا پڑے۔ ۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خوب سمجھ لو کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔ اس روز تم یہ کہہ کر اپنے بار گناہ کو ہلکا نہیں کر سکتے کہ ہم کو فلاں پیشوا یا فلاں سردار یا فلاں لیڈر یا فلاں قائد نے گمراہ کیا تھا یا ہماری گمراہی کا اصل ذمہ دار تو شیطان ہے لہٰذا یہ گمراہ کرنے والے ان گناہوں کے بو جھ اٹھائیں۔ نہیں بلکہ وہ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور تمہیں اپنا بوجھ اٹھانا ہو گا۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ عذاب ہے جو قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے اور جو حق و باطل کے لیے فرمان (کسوٹی) ہوتا ہے۔ پچھلی قوموں عاد، ثمود، قوم لوط، قوم فرعون وغیرہ پر جو عذاب آئے وہ اللہ کے رسولوں کے ذریعہ ان پر اللہ کی حجت قائم ہو جانے کے بعد ہی آئے۔ اسی سنت الٰہی کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ جن لو گوں تک رسول کا پیغام نہیں پنچا وہ اپنے برے عمل کے لیے نہ خدا کے حضور جوابدہ ہیں اور نہ انہیں اس کی سزا بھگتنا ہو گی نہ صرف قرآن و سنت کی تصریحات کے خلاف ہے بلکہ ایک نا معقول بات بھی۔ قرآن کہتا ہے کتنی ہی برائیاں ہیں جن کی برائی کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے۔ اگر وہ اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور خدا کے حضور جوابدہ ہے۔ احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے جن لو گوں نے بت پرستی یا بے حیائی وغیرہ پھیلائی تھی وہ جہنم کے مستحق ٹھہرے مثلاً عمر و بن لحی، امراؤ القیس وغیرہ۔

اور جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ کھلی برائی کے کسی مرتکب کو مثلاً ظلم کرنے والے یا نا حق کسی کو قتل کرنے والے کو گنہگار اور مجرم ہی گردانتی ہے خواہ اس تک رسول کا پیغام پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو۔ البتہ یہ بات کہ رسول کا پیغام نہ پہنچنے کی صورت میں ان کی ذمہ داریوں کا دائرہ کیا تھا اور وہ کس حد تک درگزر کے مستحق ہیں اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور ان باتوں کے فیصلہ کے لیے قیامت کا دن مقرر ہے لہٰذا ہمارے لیے اصولی بات سمجھ لینا کافی ہے اور مزید بحث میں پڑے بغیر اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ جب اللہ کا پیغام اس کے رسول کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے تو ہم اپنی نجات کا کیا سامان کر رہے ہیں اور اس پیغام کو دوسرے بندگانِ خدا تک پہنچانے کے لیے کیا کر رہے ہیں ؟

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیت میں قوموں کے عذاب کے سلسلہ میں سنت الٰہی واضح کی گئی تھی اس آیت میں اس کا یہ پہلو واضح کیا جا رہا ہے کہ کسی بستی یا آبادی کی تباہی اسی وقت عمل میں آتی ہے جبکہ اس میں فسق عام ہو جاتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ آبادی کے خوشحال طبقہ کو جس میں حکمراں، سردار اور دولت مند لو گ شامل ہیں اللہ اپنی اطاعت کا حکم دے دیتا ہے چنانچہ اللہ کے رسول خاص طور سے اسی طبقہ کو خطاب کرتے ہیں تاکہ ان لو گوں پر اللہ کی حجت قائم ہو اور ان کے واسطہ سے عوام پر لیکن یہ لو گ دنیا پرستی میں ایسے غرق اور عیش کوشی میں ایسے مست ہوتے ہیں کہ اللہ کے احکام کی پروا نہیں کرتے۔ وہ خود بھی فسق (نا فرمانی اور گناہ کے کام) کرتے ہیں اور فلسفیانہ طریقے رائج کر کے پوری بستی کو بھی فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں۔ اس طرح پوری آبادی عذاب کی مستحق بن جاتی ہے اور اللہ کوئی نہ کوئی آفت نازل کر کے اس آبادی کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ بعد کی آیت میں ان قوموں کی طرف اشارہ بھی کر دیا ہے جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا۔

بعض مفسرین نے اَمرْنَا (ہم انہیں حکم دیتے ہیں) کے معنی میں بڑا تکلف کیا ہے۔ کسی نے حکم تکوینی مراد لیا ہے یعنی ہم تکوینی طور پر فسق کا حکم دے دیتے ہیں۔ اور کسی نے کچھ اور مگر لغوی طور پر بھی اور سیاق و سباق کے لحاظ سے بھی اس کا وہی مفہوم متعین ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ عربی میں جب مطلقاً اَمَرْنَا کہیں گے تو اس کے معنی امرِ اطاعت ہی کے ہوں گے۔ چنانچہ ابن جریر طبری نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے اور علامہ شوکانی لکھتے ہیں :

” جو شخص بھی عربی زبان سے واقف ہو گا وہ اس کا یہی مطلب سمجھے گا کہ جس چیز کا حکم دیا گیا تھا وہ معصیت سے مختلف چیز تھی کیوں کہ معصیت امر کے منافی اور اس کے متناقض ہے۔ لہٰذا اَمَرْتُہُ فَفَسَقَ (میں نے اسے حکم دیا تو اس نے فسق کیا) کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسے جس چیز کا حکم دیا گیا تھا وہ فسق سے مختلف چیز تھی کیونکہ فسق کا مطلب تو ایسی چیز کا ارتکاب ہے جو دئے گئے حکم کی بالکل ضد ہو۔ ” (فتح القدیر ج ۳ ص ۲۱۴)

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ عاجلہ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ” جلدی کرنے والی” مراد دنیا ہے جو اپنے فائدے جلد پہنچاتی ہے۔ اور اس کے طالب ہونے کا مطلب دنیا کے عارضی اور جلد ملنے والے فائدوں کا مطلب ہونا ہے۔ جو شخص بھی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو مقصود بناتا ہے ضروری نہیں کہ وہ دنیا کے بہت سے فائدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے بلکہ یہ اللہ ہی کی مشیت پر موقوف ہے کہ کس کو کتنا دے۔ یہ تو ہوا دنیا کے حصول کا معاملہ اس کے بعد ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں بلکہ اسے بہت بری حالت میں اور اللہ کی رحمت سے محروم ہو کر جہنم میں داخل ہونا ہو گا۔ یہ کڑی سزا اسے اس لیے دی جائے گی کہ اسے دنیا میں بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ آخرت کو سامنے رکھ کر دنیا میں وہ کام کرے جس کے نتائج آخرت میں مفید نکلنے والے ہوں لیکن اس نے آخرت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دنیا کے فوائد بٹورنے میں اپنی زندگی لگا دی۔ اس طرح وہ اپنے رب کا سرکش بنا رہا اور اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ انسان کو در حقیقت اس کے رب نے دنیا کے لیے نہیں بلکہ آخرت کے لیے پیدا کیا ہے۔ دنیا تو زندگی کا ایک امتحانی مرحلہ ہے جس سے گزرنے کے بعد جہاں اسے ہمیشہ کے لیے رہنا ہے وہ آخرت ہی ہے اس لیے آخرت کو اپنا مقصد حیات سمجھنا اور اپنی تمام کوششوں کے لیے اس کو مرکز و محور بنانا ٹھیک اس حقیقت کے مطابق ہے جو انسان کی نیز پوری کائنات کی پیدائش کار فرمایا ہے۔

یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ اللہ کے نزدیک ان ہی لو گوں کی کوشش قدر کی مستحق اور مقبول ہوں گی جنہوں نے آخرت کو مقصود یعنی کامیابی کے لیے نصب العین قرار دے کر اس طرح کوشش کی گئی جس طرح کہ کوشش کی جانی چاہیے یعنی ویسی کوشش جو آخرت پر یقین رکھنے والا شخص اس کے حصول کے لیے کر سکتا ہے اور جس کا طریقہ قرآن نے بتلا دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی ہے کہ وہ مومن ہو یعنی ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہو جس پر ایمان لانا قرآن نے ضروری قرا دیا ہے۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا کے طلب گار ہوں یا آخرت کے، کافر ہوں یا مومن سب کو اس دنیا میں تمہارا رب سامان زندگی دے رہا ہے اور اس کی بخشش کسی پر بھی بند نہیں ہے۔ یہ بخشش عام ٹھیک اس حکمت کے مطابق ہے جو دنیا میں انسان کے ظہور کا باعث ہوئی ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لو گوں نے آخرت کو اپنا مقصود بنایا ہے ان کو دنیا پرستوں پر جو برتری حاصل ہے اس کا مشاہدہ اس دنیا ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ ان کا اپنے رب سے لگاؤ اور خوف، بندوں کے حقوق کی ادائیگی، احساس ذمہ داری، امانت و دیانت، جائز کمائی، حرام چیزوں سے اجتناب خیر کی راہ میں خرچ، حق کے لیے ایثار، صبر و تحمل انصاف پسندی اور دوسری اخلاقی و عملی خوبیاں واضح طور سے ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں خواہ وہ مال و دولت کے لحاظ سے صفر ہی کیوں نہ ہوں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں تو اہل ایمان کو کافروں پر نمایاں برتری حاصل ہو گی چنانچہ کافر جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے جبکہ اہل ایمان بلند و بالا جنت میں۔ پھر اہل ایمان اپنے ایمان اور عمل کے درجہ کے لحاظ سے جنت میں مرتبہ بھی پائیں گے اور اسی مناسبت سے ان کو فضیلت بھی حاصل ہو گی۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کے قائل ہوئے تو تمہارا حال یہ ہو جائے گا کہ ہر طرف سے تم پر لعنت ملامت ہو گی اور تم بالکل بے یار و مددگار رہ جاؤ گے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کا یہ حتمی فیصلہ اور قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو۔ کسی اور کی نہیں۔ اوپر کی آیت میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو خدا بنا لینے کی ممانعت کی گئی تھی اور اس آیت میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ غیر اللہ کی عبادت اس کو خدا بنا لینے کے ہم معنی ہے خواہ وہ زبان سے اسے خدا کہتا ہو یا نہ کہتا ہو مثال کے طور پر اگر کوئی شخص زمین (بھومی) کی پو جا کرتا ہے تو یہ کھلا شرک ہے اور زمین کو خدا اور معبود ٹھہرانا ہے۔

واضح رہے کہ عبادت سے مراد پرستش ہے جس کو اللہ کے لیے خاص کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رہی اطاعت تو وہ اس کا لازمی تقاضا ہے اسی لیے اس کے بعد اطاعت کے احکام الگ سے بیان ہوئے ہیں۔ عبادت اور اطاعت کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ورنہ عبادت کی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی جو دین میں اس کو دی گئی ہے (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۵) ۔

اس موقع پر ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس آیت میں اور اس کے بعد کی آیات میں جو احکام دئے گئے ہیں ان کے بارے میں بعض حضرات کا یہ خیال کہ ان کی حیثیت مدینہ کی اسلامی ریاست کے منشور کی تھی صحیح نہیں۔ منشور ایک سیاسی اصطلاح ہے اور یہاں نہ سیاست زیر بحث ہے اور نہ ریاست بلکہ وہ اوصاف حمیدہ بیان کئے گئے ہیں جو انسان کو شرف انسانیت بخشنے والے اور اس کو آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرنے والے ہیں اور جب ان اوصاف حمیدہ سے متصّف کوئی گروہ ظہور میں آ جاتا ہے تو اس کی سیاست بھی اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے اور ریاست کا نظام بھی اسی کے مطابق تشکیل پانے لگتا ہے۔ اس لیے ان احکام کو سیاسی رنگ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ اس کا نقصان یہ ہو گا کہ ایک قاری کا ذہن بجائے اس کے کہ وہ اپنے کو مخاطب سمجھے اسلامی ریاست کو اس کا مخاطب سمجھے گا اور ان احکام کی روح بھی مجروح ہو گی۔ اس طرح کے تکلفات سے صحیح دینی ذہن نہیں بنتا۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ بندگان خدا میں سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے جو ایک فطری حق ہے اور اس بنا پر ہے کہ انہوں نے پرورش کی۔ ان کا حق یہ ہے کہ اولاد ان کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرے یعنی ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے، ان کی خدمت کرے، ان پر خرچ کرنے کی ضرورت ہو تو خرچ بھی کرے، نا فرمان اور ان کو دکھ دینے والی نہ بنے۔

بڑھاپے میں والدین خدمت کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں اور اس عمر میں مزاج بھی چڑ چڑا بن جاتا ہے اس لیے خاص طور سے تاکید فرمائی کہ کوئی ایسی بات نہ کہو جو ان کے لیے اذیت دہ ہو اور نہ کبھی جھڑکنے کی کوئی بات کرو بلکہ ان سے ادب و احترام کے ساتھ بات کرو۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آؤ اور نرمی اور تواضع کا طریقہ اختیار کو۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ تمہارے ماں باپ نے تمہاری پرورش کی زحمت اٹھائی تھی۔ ان کے اس احسان کو یاد کر کے تم ان کے حق میں رحم کی دعا کرو۔

رحم کی یہ دعا ان کی ظاہری حالت اور ان کے بڑھاپے کی تکلیف کے پیش نظر ہے اس لیے اگر وہ مسلمان نہ ہوں تب بھی یہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رہی دعائے مغفرت تو وہ مشرک والدین کے لیے نہیں کر سکتے جیسا کہ سورۂ توبہ آیت ۱۱۳ میں گزر چکا۔ (ملاحظہ ہو سورۂ توبہ نوٹ ۲۹۹)

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری نیتوں، تمہارے جذبات اور تمہارے دلوں کی کیفیتوں کو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے میں اگر تم سے قصور سر زد ہوئے ہوں تو اللہ کے حضور توبہ کرو اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لو کہ اللہ نیک بن جانے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کے قصوروں کو معاف کر دیتا ہے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ حق سے مراد مالی حق ہے جو ان کی ضرورتوں اور آدمی کے اپنے حالات کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے نیز یہ حق زکوٰۃ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ تبذیر (فضول خرچی) کا مطلب مال کا بے جا استعمال ہے اور مال کا بے جا استعمال آدمی کو حقوق کی ادائیگی کی طرف سے بے پرواہ کر دیتا ہے۔

جن لو گوں کو ماں ل فراوانی کے ساتھ ملتا ہے وہ اس کو اپنی ملک سمجھنے لگتے ہیں اور پھر ناجائز کاموں میں، یا اپنا شوق پورا کرنے میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں حالانکہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہے جس کو جائز راہوں میں خرچ کرنے کا وہ ذمہ دار ہے نیز اس میں دوسروں کے حقوق بھی ہیں جن کو ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔

مال و دولت کے بارے میں صحیح اسلامی تصور نہ ہونے اور اس سلسلہ میں ذمہ داری کے احساس کے فقدان کی وجہ سے آدمی مال کو اللّے تلے خرچ کرنے لگتا ہے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ مال اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور فضول خرچی اس نعمت کی سب سے بڑی نا قدری، اس لیے جو شخص فضول خرچی کرتا ہے وہ شیطان سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے جو اللہ کا سب سے بڑا ناشکرا ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تمہاری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ ان کی مدد کر سکو تو نرم انداز میں کوئی ایسی بات کہو جس سے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہوتا ہو۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حقوق کی ادائیگی کے لیے اللہ کے فضل کا امیدوار ہونا اور اس کے لیے مزید جدو جہد کرنا ایک پسندیدہ بات ہے۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ گردن سے باندھنا بخل کے لیے کنایہ ہے اور بالکل کھلا چھوڑ دینا اسراف کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے میں بخل سے کام لے اور نہ اسراف کرے بلکہ اعتدال پر قائم رہے۔ جو لو گ خرچ کرنے میں افراط و تفریط سے کام لیتی ہیں ان کے حصہ میں بد نامی بھی آتی ہے اور بے بسی بھی۔ بخلاف اس کے خرچ کرنے میں اعتدال آدمی کو پُر وقار بنا دیتا ہے اور اس کے لیے باعث خیر و برکت بھی ہوتا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ رعد نوٹ ۵۸ میں گزر چکی۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۲۷۶ میں گزر چکی۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنی اولاد کو مار ڈالنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے۔

عرب جاہلیت میں چونکہ بچوں کو مفلسی کے ڈر سے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا یا دوسرے طریقوں سے مار ڈالا جاتا تھا اس لیے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ ہوا ور نہ ان کو قتل کرنے کا محرک جو بھی ہو یہ سنگدلانہ کام زبردست گناہ کا کام ہے۔

مو جوہ تہذیب نے زنا کو اس قدر عام کر دیا ہے کہ ناجائز اولاد بہ کثرت پیدا ہونے لگی ہے اور لو گ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالنے جیسے اقدامات کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس طرح وہ اپنے سر ایک تو حرام کاری کا گناہ لیتے ہیں اور دوسرا قتل ناحق کا۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ اسلام میں زنا ہر حال میں حرام اور مستو جب سزا ہے خواہ مرد اور عورت باہمی رضا مندی ہی سے اس کا ارتکاب کریں اور خواہ اس کا مرتکب شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔

زنا کا کھلی بے حیائی ہونا عقل و فطرت کے نزدیک بالکل مسلم ہے۔ رہا اس کا بری راہ ہونا تو اس کوچہ میں قدم رکھنے کے بعد آدمی اپنا اخلاقی جوہر کھو دیتا ہے اور برائی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔

آیت میں زنا سے بچنے کی تاکید اس شدت سے کی گئی ہے کہ آدمی اس کے پاس بھی نہ پھٹکے یعنی جو چیزیں زنا کی طرف لے جانے والی ہیں ان سے بالکل اجتناب کرے (ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۷۷) ۔

حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مقدماتِ زنا کو (وہ باتیں جن سے زنا کا آغاز ہوتا ہے) اس طرح بیان فرمایا ہے :

کُتبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نصیبُہٗ مِنَ الزَّنٰی، مدرکٌ ذٰلِکَ لا محالۃ فالعینان زناہما النَّظرٌ وَالاُذُنانِ زنا ہما الاستماعٰ وَاللِّسانُ زناہ الکلامُ و الیدُزنا ہا البطشُ، و الرجلُ زناہالخُطَا، و القلبُ یہویٰ و یتمنّٰی، و یصَدِّق ذلک الفرج و او یکَذِّبُہٗ۔ (مسلم کتاب القدر) ” آدمی کا زنا میں جو حصہ ہوتا ہی وہ لکھ دیا جاتا ہے جسے (یعنی اس کی گناہ کو) وہ لازماً پائے گا چنانچہ آنکھوں کا زنا (شہوت کی) نظر ہے، کانوں کا زنا (شہوت انگیز باتیں) سننا ہے، زبان کا زنا (عشقیہ) باتیں کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (شہوت سے) پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا (وہ) قدم ہیں (جو اس غلط راہ میں اٹھیں) دل خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرم گاہ اس کو سچ یا جھوٹ کر دکھاتی ہے۔ ”

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۲۷۸۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ولی سے مراد وارث ہے جو ایک یا کئی ہو سکتے ہیں۔ وارث کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قاتل سے یا تو دیت (خون بہا) قبول کر لے یا پھر قصاص میں اس کو قتل کر دے۔ اس میں حد سے تجاوز نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل نہ کیا جائے۔ جاہلیت میں ایک خون کی جگہ کئی خون بہائے جاتے تھے یا پھر قاتل کو چھوڑ کر قبیلہ کے با اثر آدمی کو قتل کیا جاتا تھا۔ یہ صورتیں عدل و انصاف کے خلاف ہیں اس لیے ان کی ممانعت کر دی گئی۔

یہ تو تھی عربوں کی جاہلیت لیکن موجودہ زمانہ کی جاہلیت اس سے کچھ کم نہیں ہے جس کا مظاہرہ ہمارے اس ملک میں ہوتا رہتا ہے۔ جب فرقہ وارانہ حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں اور اگر ایک فرقہ کا کوئی آدمی مارا جاتا ہے تو اس فرقہ کے لو گ دوسرے فرقہ کے کسی بھی آدمی کو خواہ وہ راستہ چلنے والا ہی کیوں نہ ہو پکڑ کر قتل کر دیتے ہیں اور اس کو ظلم نہیں سمجھتے حالانکہ قاتل کے علاوہ کسی کو قتل کرنا صریح ظلم ہے۔

یہ سورہ مکی ہے جس میں مظلوم مقتول کے وارث کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ قاتل کو قتل کرے جبکہ اسلامی ریاست و جود میں نہیں آئی تھی۔ اس سے واضح ہوا کہ قاتل کو قتل کرنے کا اختیار شرعی طور پر ایک غیر اسلامی ریاست میں بھی مسلمانوں کو حاصل ہے البتہ اگر غیر اسلامی ریاست کے قوانین اس میں حائل ہو رہے ہوں تو بات دوسری ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ اس آیت میں قاتل کو قتل کرنے کا اختیار مقتول کے وارث کو دیا گیا ہے لیکن بعد میں جب مدینہ میں اسلامی ریاست و جود میں آئی تو وہ اس اختیار کو نافذ کرنے کی ذمہ دار قرار پائی۔ گویا اس قانون کی ارتقائی شکل یہ ہوئی کہ اس کا نفاذ اسلامی عدالت کے ذریعہ عمل میں آئے گا۔ چنانچہ اسلام کے مشہور داعی اور قانون داں عبدالقادر عودہ شہید اس قانونِ جنائی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” اصولی بات یہ ہے کہ قصاص کے جرائم کی سزاؤں کا نفاذ دوسری سزاؤں کی طرح اصحاب امر پر چھوڑ دیا گیا ہے لیکن استثنائی طور پر اس کی اجازت دیدی گئی ہے کہ مقتول کے ولی کی معرفت قصاص کی تکمیل ہو اور اس کی بنیاد یہ آیت ہیں وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیّہ سُلْطَاناً فَلاَیَسْرِفْ فِی القَتْلِ۔ اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ مقتول کے ولی کو قتل کا قصاص لینے کا حق ہے بشرطیکہ یہ کارروائی حکومت کی نگرانی میں انجام پائے کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی زیادتی کرنا حرام ہے۔ ” (التشریع الجنائی الاسلامی ج ۱ ص ۷۵۷) ۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شریعت اور اسلامی معاشرہ کی پشت پناہی اس کو (یعنی مقتول کے وارث کو) حاصل ہے لہٰذا وہ حدود کا پابند رہے۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۱۷ میں گزر چکی۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ناپ تول کے پیمانے بھی درست ہونے چاہئیں اور ان کا استعمال بھی دیانت داری کے ساتھ ہونا چاہیے۔ چور ناپ اور ڈنڈی مارنے کا طریقہ وہ لو گ اختیار کرتے ہیں جن کو آخرت کی باز پرس کا خیال نہیں ہوتا۔

یہ بات اس اصولی بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ آدمی تمام کاروباری معاملات میں دیانت داری کا رویہ اختیار کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ تطفیف نوٹ ۱۔)

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ یہ طریقہ اچھا ہے یعنی اس سے اعتماد بھی قائم ہوتا ہے، اخلاقی اثر بھی اچھا پڑتا ہے اور کاروباری میں بھی خیر و برکت ہوتی ہے۔

رہا انجام کے اعتبار سے بہتر ہونا تو اس سے مراد اخروی انجام کی بہتری ہے۔ یہ ان ہی لو گوں کے لیے ہے جو معاملات میں اپنا دیانتدار ہونا ثابت کر دکھائیں ان لو گوں کے لیے نہیں جو ہر قسم کی بد دیانتی کو محض اپنا بزنس چمکانے کے لیے روا رکھے ہوئے ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک جامع ہدایت ہے جس میں خدا کی طرف بلا دلیل باتیں منسوب کرنا، تو ہم پرستی، بے سر و پا روایتوں کو اہمیت دینا، دینی مسائل میں اٹکل بچو باتیں کرنا، غیبی حقیقتوں کے بارے میں فلسفے تراشنا اور کلامی بحثیں چھیڑنا، جنوں کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین کر لینا، کسی قرینہ کے بغیر بدگمانی کرنا، بلا تحقیق الزام لگانا جیسے امور شامل ہیں۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سماعت، بصارت اور سوجھ بوجھ کی قوتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں جو صحیح استعمال کے لیے دی گئی ہیں، قیامت کے دن ہر شخص کو اس بات کی جوابدہی کرنا ہو گی کہ اس نے ان قوتوں کا صحیح استعمال کیا تھا یا غلط۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گھمنڈی بن کر تکبر کی چال نہ چلو۔ تم اتنا بل بوتا بھی نہیں رکھتے کہ زمین پر پاؤں پٹخ کر اس کو پھاڑ سکو اور نہ اپنی گردن اونچی کر کے پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ پھر تکبر کی یہ چال کس بل پر ہے ؟ آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ کی قدرت اور اس کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اور اپنی بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے تواضع اور فروتنی کے ساتھ چلے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اوپر جن ممنوع باتوں کا ذکر ہوا ان میں سے ر چیز بری ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں۔ اگر تم غور کرو تو تمہاری عقل اور فطرت گواہی دے گی کہ یہ سب دانشمندی کی باتیں ہیں اور انسان کو خیر و فلاح کی راہ پر ڈال دینے والی ہیں۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ احکام کا آغاز توحید سے ہوا تھا اور خاتمہ بھی توحید ہی پر ہو رہا ہے۔ گویا توحید ہی شریعت کا منبع ہے اور یہ احکام اس کے عملی تقاضے ہیں۔ توحید کے ساتھ عبادت اور اطاعت دونوں ضروری ہیں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نحل نوٹ ۷۹ میں گزر چکی۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۱۰۹ میں گزر چکی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے لو گوں کو سمجھانے کے لیے قرآن میں مختلف اسلوب اور طریقے اختیار کئے ہیں دلائل بھی پیش کئے ہیں اور سبق آموز تاریخی واقعات بھی، نصیحتیں بھی اور تنبیہات بھی، حقیقتیں بھی اور مثالیں بھی مگر جو لو گ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہوتے ہیں ان پر کوئی نصیحت کارگر نہیں ہوتی وہ قرآن کی باتوں کو غلط معنیٰ پہنانے لگتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ حق سے ان کی دوری میں اضافہ ہی ہو جاتا ہے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ کہ اس کائنات میں بہت سے خدا ہیں اگر بالفرض صحیح ہوتا تو تمام چھوٹے چھوٹے خدا اس بڑے خدا کو مغلوب کرنے کے لیے آگے بڑھتے جو عرش کا مالک ہے اور جس کے ہاتھ پوری کائنات کا اقتدار ہے۔ اور جب خداؤں کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی ہوتی تو کائنات کا یہ نظام حسن و خوبی کے ساتھ کس طرح چلتا۔ ایسی صورت میں یہ کائنات لازماً درہم برہم ہو کر رہ جاتی۔ مگر تم دیکھتے ہو کہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ کائنات کے اس نظام میں کہیں کوئی خلل اور خرابی نظر نہیں آتی جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پوری کائنات پر ایک خدا کی حکومت ہے۔ نہ دسرا کوئی خدا ہے اور نہ خدائے واحد کی حکومت میں کسی کا کوئی حصہ ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک غیبی حقیقت ہے جس پر سے قرآن نے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ صراحت کرتا ہے کہ کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی پاکی اور اس کی حمد نہ بیان کرتی ہو۔

اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہر چیز زبانِ حال سے حمد و تسبیح کر رہی ہے یعنی توحید پر دلالت کرتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ زبان قال سے بھی حمد و تسبیح کر رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی حمد و تسبیح ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔

آج سائنس نے انسان کی معلومات میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ ذرہ (Atom) کے بارے میں جدید نظریہ یہ ہے کہ اس کے مرکزہ (Nucleus) کے گرد الکٹرون (Electron) گردش کرتا ہے۔ گویا ذرہ ذرہ حرکت میں ہے لیکن ہمیں یہ حرکت اور یہ گردش دکھائی نہیں دیتی اور دکھائی نہ دینے کی بنا پر سائنس کی اس تحقیق کا کوئی انکار نہیں کرتا۔ پھر اگر ہمیں جو وحی الٰہی جو علم کا یقینی ذریعہ ہے اس بات کی خبر دیتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح میں سرگرم اور اس کی حمد و ثنا میں زمزمہ سنج ہے تو اس پر یقین کیوں نہ کریں ؟ کیا محض اس بنا پر اس کا انکار کرنا صحیح ہو گا کہ اس خفیہ آواز کو ہمارے کان سن نہیں پاتے ؟ قرآن نے در حقیقت کائنات کے اسرار پر سے پردہ اٹھا کر انسان کے علم میں زبردست اضافہ کیا ہے تاکہ وہ اس سے روشنی حاصل کرے۔ لہٰذا اس سے انکار انسان کے لیے محرومی ہی کا باعث ہو گا۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ مخلوق کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کے گن گائے۔ اب اگر انسانو ں میں ایسے لو گ مو جود ہیں جو اپنے خالق کی طرف عیب اور نقص کی باتیں منسوب کرتے ہیں اور اس کے شریک ٹھہراتے ہیں تو ان کی یہ حرکتیں ایسی ہیں کہ ان پر قہر الٰہی فوراً ٹوٹ پڑے مگر اللہ بردبار ہے اس لیے ان کی ان حرکتوں کو برداشت کرتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا ہے اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ لو گ توبہ کر کے اس کی بخشش کے مستحق بن جائیں۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ جن لو گوں پر دنیا ایسی سوار ہوتی ہے کہ آخرت کا تصور ان کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہوتا، ایسے لو گ قرآن سن لیں یا خود پڑھ لیں تو اس کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا اور اس کی وجہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ جو قبول حق کے لیے آمادہ نہیں وہ اس کی توفیق سے محروم رہے گا۔ یہ قانون اپنا عمل کرتا ہے مگر اس طرح کہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اسی لیے اسے ” حجاب مستور” غیر مری پردہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ انعام نوٹ ۴۴ میں گزر چکی۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ یہ دیکھ کر کہ جو قرآن تم پیش کرتے ہو اس میں ایک ہی رب کا ذکر ہے اور ان کے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کہ ربوبیت کے معاملہ میں ان کا کوئی دخل ہے وہ اس قرآن کو سننا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتی ہیں۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے کفار مکہ کے سرداروں کی طرف جو کبھی قرآن سننے کی کوشش کرتے تو مخالفت کی غرض سے چنانچہ وہ آپس میں اس کے خلاف سرگوشیاں کرتے اور جب دیکھتے کہ ان کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت سے متاثر ہو رہا ہے تو کہتے کہ تم یک ایسے شخص کے پیچھے چل رہے ہو جس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور اس کے اثر سے وہ دیوانگی کی باتیں کر رہا ہے۔

یہ آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سحر زدہ ہونے کا الزام کافروں نے لگایا تھا جو سراسر غلط تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ آپ پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ منصب نبوت کو متاثر کرنے والی چیز ہے اس لیے جن روایتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر یہود نے جادو کر دیا تھا اور آپ پر اس کا کچھ اثر ہوا تھا وہ قرآن سے متصادم ہونے کی بنا پر قابل رد ہیں (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فلق نوٹ ۶) ۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مرنے کے بعد آدمی کا جسم تحلیل ہو کر مٹی بن جائے، لو ہا بن جائے یا اس سے زیادہ کوئی سخت دھات۔

اللہ کے لیے اس کو دوبارہ اس کے جسم کے ساتھ اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں جس ہستی نے انسان کو پہلی مرتبہ زندگی عطا کی اس کے لیے اس کا اعادہ آخر کیوں مشکل ہو گا؟

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ انسانوں کو پکارے گا کہ اٹھو اور میرے حضور حاضر ہو جاؤ تو تمام انسان دوبارہ زندہ ہو کر اس کی پکار پر لبیک کہیں گے۔ اس وقت ان کی زبان پر حمد کے کلمات جاری ہوں گے۔ یہ فطرت کی آواز ہو گی جو اپنے رب کے لیے حمد ہی سے آشنا ہے۔

خدا کے حضور ہونے والی اس حاضری کو حج کے مناسک میں تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے چنانچہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے بندہ لبیک یعنی میں تیرے حضور حاضر ہوں کہتا ہوا جاتا ہے اور اس کی زبان پر حمد کے کلمات ہوتے ہیں اِنّ الحَمْدَ والنِّعْمَۃَ لَکَ (حمد و نعت تیرے ہی لیے ہے) ۔

لو گ قیامت کو دور خیال کرتے ہیں لیکن جب وہ جی اٹھیں گے تو ایسا محسوس کریں گے کہ جو وقت دنیا اور قیامت کے درمیان گزرا وہ بہت ہی تھوڑا تھا۔ عالم برزخ میں وہ کچھ دیر ہی رہے تھے کہ قیامت کھڑی ہو گئی۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہل ایمان سے کہ دو کہ وہ منکرین سے الجھیں نہیں اور کوئی بات ایسی نہ کہیں جو اشتعال پیدا کرنے والی ہو بلکہ فہمائش کا طریقہ اختیار کریں اور دعوت خوبی کے ساتھ پیش کریں۔ یاد رکھو شیطان اشتعال اور عصبیت پیدا کر کے انسانی تعلقات کو خراب کرنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ لو گ حق کو قبول کریں۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ یہ عام انسانوں سے خطاب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دلوں کا حال خوب جانتا ہے اور رحمت و عذاب اس کی مشیت ہی پر موقوف ہے مگر اس کی مشیت کے فیصلے لو گوں کے باطنی حالات کو سامنے رکھ کر ہوتے ہیں جو شخص قبول حق کے لیے دل سے آمادہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرماتا ہے اور وہ حق کو پا کر اس کی رحمتوں کا مستحق بن جاتا ہے بخلاف اس کے جو قبول حق کے لیے دل سے آمادہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے محروم رکھتا ہے اور وہ کفر کی بنا پر عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کا کام اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے۔ وہ کسی کے عمل کا ذمہ دار نہیں ہے۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ مقصود اس بحث سے روکنا ہے جس میں لو گ انبیاء علیہم السلام کی فضیلت کے تعلق سے الجھتے ہیں۔ یہود موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کے قائل تھے تو نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام کو سب سے افضل قرار دے رہے تھے۔ اور مشرکین مکہ تو محض بحث کی خاطر ان سے سن کر بہت سی باتیں چھیڑ دیا کرتے تھے اس پس منظر میں یہاں یہ بات ارشاد ہوئی ہے کہ نبی ہو یا فرشتہ کسی کے مرتبہ کا تعین کرنا تمہارا کام نہیں بلکہ اللہ کا کام ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوق کو بخوبی جانتا ہے اور جہاں تک نبیوں کا تعلق ہے اس نے اگر ایک نبی کو ایک اعتبار سے فضیلت بخشی ہے تو دوسرے کو دوسرے اعتبار سے مثال کے طور پر داؤد کو یہ فضیلت بخشی کہ انہیں زبور جیسی کتاب عطا کی جو اپنی حلاوت اور تاثیر میں قرآن سے مماثلت رکھتی تھی۔ لہٰذا جس نبی کو جو فضیلت اللہ تعالیٰ نے بخشی تھی اس کا اعتراف کرو اور نہ تو کسی کی فضیلت میں غلو کرو اور نہ کسی کے درجہ کو گھٹاؤ۔

اسی قسم کی ایک غیر ضروری بحث وہ ہے جو خلفائے راشدین کے تعلق سے مسلمانوں میں چل پڑی کہ اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر ہیں یا حضرت علی۔ پھر بحث کے ہر فریق نے اس کو اپنے اپنے عقیدہ کا مسئلہ بنا لیا حالانکہ ان کے مرتبہ کا تعین کرنے کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی گئی ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون کس درجہ کا مستحق ہے اور اس کے نزدیک کس کا کیا مرتبہ ہو گا۔ پھر ہم ایسی باتوں کو موضوع بحث کیوں بنا لیں ؟

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اس خیال خام میں مبتلا ہو کہ اللہ کے علاوہ اور بھی حاجت روا ہیں۔ اگر تم عقل و ہوش سے کام لینا نہیں چاہتے اور خام خیالی ہی میں مبتلا رہنا چاہتے ہو تو ان کو پکارنے کا شوق بھی پورا کر لو مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ تمہاری کسی تکلیف کو دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ تمہاری بری حالت کو اچھی حالت سے تبدیل کرنے کا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ مراد فرشتے ہیں نہ کہ بت کیونکہ اللہ کا قرب تلاش کرنا، اس کی رحمت کا امیدوار ہونا اور اس کے عذاب سے ڈرنا بتوں کی نہیں بلکہ فرشتوں ہی کی صفات ہو سکتی ہیں۔ اوپر آیت ۴۰ میں بھی یہ مضمون گزر چکا کہ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں۔ فرشتوں سے متعلق ان کے ان غلط عقائد ہی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ تم فرشتوں کو خدائی کے کاموں میں دخل سمجھ کر حاجت روائی ار مشکل کشائی کے لیے پکارتے ہو لیکن ان کا اپنا حال یہ ہے کہ وہ خود اپنے رب کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ کون سب سے زیادہ مقرب بنتا ہے۔ وہ جہاں اس کی رحمت کے امیدوار ہیں وہاں اس کے عذاب سے ترساں بھی رہتے ہیں پھر خدا کی جگہ ان کو پکارنے کا کیا مطلب؟

یہ تو تھا مشرکین کا فرشتوں کے ساتھ معاملہ لیکن شرک ان ہی تک محدود نہیں موجودہ دور کے مسلمانوں کا بھی ایک بڑا گروہ اپنے انبیاء ” اولیا” اور ” پیروں ” کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جو خدا ہی کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے واسطوں اور وسیلوں کا ایک فلسفہ ایجاد کر لیا ہے اور اس کی بنا پر مدد کے لیے کبھی رسول کو پکارتے ہیں تو کبھی اپنے من گھڑت ” غوث” کو۔ کبھی اپنے خود ساختہ ” مشکل کشا” کی دہائی دیتے ہیں تو کبھی اپنے ہی دئیے ہوئے لقب سے ملقب ” غریب نواز” سے مرادیں مانگنے لگتے ہیں۔ ان کے ” علماء” اس آیت کی اور اس جیسی دوسری آیتوں کی اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ ان سب مشرکانہ طور طریقوں کے باوجود ان کے عقیدۂ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔ وہ اگر کھلے ذہن سے قرآن پڑھیں تو انہیں ہدایت نصیب ہو۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ مراد مشرکوں، کافروں اور سرکش لو گوں کی آبادیاں ہیں چنانچہ اوپر آیت ۱۶  میں بھی اس سے ملتی جلتی بات بیان ہوئی ہے۔ یہاں اس سنتِ الٰہی کو بیان فرمایا ہے کہ ایسی ہر آبادی کے لیے جو عقیدہ و عمل کے اس فساد میں مبتلا ہو اور اس سے باز آنے کے لیے تیار نہ ہو فیصلۂ الٰہی یہ ہے کہ اسے دنیا میں یا تو مکمل تباہی سے دو چار ہونا ہے کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دی جائے یا پھر کسی نہ کسی شکل میں سخت عذاب کا مزا چکھنا ہے۔ مہلت کتنی ہی دراز کیوں نہ ہو بہر حال قیامت سے پہلے دو میں سے ایک بات لازماً پیش آئے گی۔

تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے اور موجودہ دور میں تو ایسے واقعات بہ کثرت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر زلزلوں سے بڑی بڑی آبادیاں تباہ ہو رہی ہیں اور خدا کا عذاب انسان کی بمباری کی شکل میں بڑے برے شہروں پر نازل ہو کر انہیں اپنے کرتوتوں کا مزا چکھا تا ہے۔

واضح رہے کہ آبادیوں پر اللہ کا یہ عذاب اس کے فساد عام کی بنا پر نازل ہوتا ہے ایسے موقع پر جو اچھے لو گ اس بستی میں رہتے ہوں اگر عذاب کی زد میں آتے ہوں تو در حقیقت یہ عذاب ان کے حق میں عذاب نہیں ہوتا اور قیامت کے دن ان کے عمل کو دیکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔

یہ بھی واضح رہے کہ یہ عذاب اس عذاب سے کسی قدر مختلف ہوتے ہیں جو کسی رسول کے جھٹلانے پر اس کی قو م پر رسول کی صداقت کی دلیل بن کر نازل ہوتا ہے۔ اس میں کفر و ایمان کا دو ٹوک فیصلہ ہوتا ہے اس لیے رسول اور اہل ایمان کو اس بستی سے جس پر عذاب نازل ہوتا ہے پہلے ہی نکال لیا جاتا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ یہاں نشانیوں سے مراد حسی معجزے ہیں۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۱۱۹ میں گزر چکی۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی معجزے کے طور پر جو چیزیں بھیجی جاتی ہیں وہ محض عجائبات دکھانے کے لیے نہیں بھیجی جاتیں بلکہ ان کے بھیجنے سے مقصود عذاب الہی سے ڈرانا ہوتا ہے کہ اس صریح نشانی کو دیکھ کر بھی اگر تم ایمان نہیں لائے تو سمجھو کہ اللہ کا عذاب تمہارے سر پر منڈلا ہی رہا ہے۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ برو ج کی اس آیت کی طرف :۔ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوافِیْ تَکْذِیْبٍ واللّٰہُ مِنْ وَّرَآئہمْ مَّحِیْطٌ ” لیکن یہ کافر جھٹلانے ہی میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ ان کو آگے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے۔ ”

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ بات پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ لو گ پیغمبر اور قرآن کو جھٹلانے کے لیے ایک نہ ایک اعتراض کرتے رہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ پوری طرح ان کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے اس لیے وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہو نہیں سکیں گے اور قرآن اور پیغمبر کے تعلق سے اس کا جو منصوبہ ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ ” الرؤیا استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی نیند کی حالت میں دیکھنے کے بھی ہیں اور بیداری کی حالت میں آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بھی (ملاحظہ ہو لسان العرب ج۱۴ ص ۲۹۷) ۔

اور بخاری میں حضرت ابن عباسۚ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ : ہی رُؤیاعین اُرِیَھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم لیلۃَ اُسرِیَ بہٖ (بخاری کتاب التفسیر) ” یہ چشم سرکا مشاہدہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسراء کی شب کرایا گیا۔ ”

اس لیے اس سے مراد وہ عینی مشاہدہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اسراء (مسجد اقصیٰ کے سفر) کے موقع پر کرایا گیا اور اسے رؤیا سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ بیت المقدس کا یہ سفر نہایت سرعت اور غیر معمولی کیفیت کے ساتھ ہوا تھا جس کا تصور اگر آدمی کر سکتا ہے تو خواب ہی کی صورت میں کر سکتا ہے لیکن یہ خواب ہرگز نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو نہ اس اہتمام کے ساتھ اس کے ذکر کی ضرورت ہوتی اور نہ قریش آپ کو جھٹلاتے اور نہ ہی یہ لو گوں کے لیے وجہ آزمائش (فتنہ) بنتا آزمائش تو لو گوں کی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جبکہ اس سفر کو جسمانی سفر اور اس مشاہدہ کو بیداری کی حالت کا مشاہدہ قرار دیا جائے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ مراد زقوم کا درخت ہے جس کا ذکر قرآن میں سورۂ صافات (آیت ۶۲ تا ۶۶) میں ہوا ہے۔ یہ خبیث درخت جہنم میں ہو گا اور جہنمی اسی سے پیٹ بھریں گے گویا یہ درخت لعنت کا نشان ہو گا اس لیے اسے ملعون کہا گیا ہے۔ قرآن کی اس خبر کو منکرین نے مذاق بنا لیا اور کہنے لگے کہ آگ میں بھی درخت اگیں گے ! حالانکہ یہ عالم آخرت کی بات بیان ہوئی ہے جس کے زمان و مکان دنیا کے زمان و مکان سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے زقوم کے درخت کو فائر پروف (Fire Proof) بنایا ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷ میں گزر چکی۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۸ میں گزر چکی۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ابلیس کا یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ پر تھا جس کے مطابق آدم کو زمین کا خلیفہ بنایا گیا اور اسے یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے آگے فرشتے اور ابلیس سجدہ کریں۔ اس اعتراض کا ابلیس کو نہ حق تھا اور نہ یہ صحیح ہو سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے وہ اپنی جس مخلوق کو جو درجہ چاہے عطا فرمائے اس پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ پھر اللہ جو علیم و خبیر ہے اس لیے اس کے فیصلے علم و حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ اب اگر ابلیس پر یہ حکمت واضح نہیں ہوئی تھی یا اس کی سمجھ میں اس کی مصلحت نہیں آ سکتی تھی تو یہ بات کسی طرح صحیح ہو سکتی تھی کہ اللہ کے فیصلہ ہی کو غلط قرار دیا جائے ؟

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ابلیس کو اندازہ ہوا کہ جذبات اور خواہشات رکھنے والے انسان کو جب فائدوں اور لذتوں والی دنیا کے پر کشش ماحول میں امتحان کے لیے کھڑا کر دیا جائے گا تو اسے بہ آسانی بہکایا جا سکے گا اس لیے اس نے دعویٰ کے ساتھ کہا کہ اگر مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دی گئی تو میں آدم کی پوری نسل کواس کے اصل مقصد حیات سے غافل کر کے غلط راہ پر ڈال دوں گا۔ بس تھوڑے ہی لو گ ہوں گے جو میرے فریب میں نہیں آئیں گے۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۲۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ابلیس کی آواز اس کی پکار اور دعوت ہے گمراہی اور معصیت کی طرف جس کے لیے وہ وسوسہ اندازی کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی ترقی نے شیطان کو یہ سہولت بہم پہنچائی ہے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذرائع اس کی آواز دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچ رہی ہے اور روز بروز اس کا شور و غوغا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ مراد ابلیس کی اولاد اور اس کے چیلے ہیں۔ وہ انسان کو بہکانے کے لیے اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں جیسے لشکر۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۱۔)

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ مال میں شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ حرام طریقہ سے مال کمائے اور حرام طریقہ سے خرچ کرے۔ غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز، باطل مقاصد کے لیے مال لٹانا، برائیوں کو فروغ دینے کے لیے مالی وسائل لگانا شیطانی اغراض کو پورا کرنے اور اس کو مال میں شریک کرنے کی مثالیں ہیں۔

اولاد میں شیطان کی شرکت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شیطان کے اشارہ پر کسی دیوی دیوتا یا کسی بزرگ یا ولی کی بخشش قرار دے یا اس کو مشرک اور کافر بنائے یا اس کی غلط تربیت کر کے اس کو فسق کی راہ پر ڈال دے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ ابراہیم نوٹ ۲۹ میں گزر چکی۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ حجر نوٹ ۳۹ میں گزر چکی۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اللہ پر بھروسہ کریں گے اور اللہ ان کی کارسازی کے لیے کافی ہو گا۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ مراد رزق حلال ہے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی فطرت ایک خدا ہی سے آشنا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ طوفان کے زبردست خطرہ میں گھر جانے پر ایک خدا ہی یاد آنے لگتا ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سمندری طوفان کے خطرہ سے نکلنے کے بعد جب تم صحیح سلامت خشکی پر پہنچتے ہو تو پھر اپنی مشرکانہ روش پر لوٹ آتے ہو اور خشکی پر کوئی اندیشہ محسوس نہیں کرتے حالانکہ خطرہ وہاں بھی مو جود ہوتا ہے۔ کسی وقت زلزلہ آ سکتا ہے اور زمین کے دھنس جانے سے تم اس کے اندر دفن ہو سکتے ہو یا سنگ باری کرنے والی آندھی چل سکتی ہے اور تم اس کی زد میں آ سکتے ہو۔ اس قسم کی کوئی آفت بھی اللہ تعالیٰ بھیج دے تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچائے گا؟

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ ایسے اسباب کر دے کہ تم پھر سمندری سفر کے لیے مجبور ہو جاؤ اور وہاں وہ پھر باد تند چلا کر تم کو غرق کر دے اور تمہیں اپنی ناشکری کا مزا چکھائے۔ ایسی صورت میں کون ہے جو خدا کے مقابلہ میں تمہارا حمایتی بن کر کھڑا ہو اور اس سے پوچھ گچھ کر سکے کہ اس نے تم کو کیوں غرق کیا؟

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کو اللہ نے عزت و شرف بخشا ہے۔ وہ پیدائشی گنہگار یا کوئی ذلیل مخلوق نہیں ہے اور نہ اسے حیوان کی سطح پر رکھنا صحیح ہے اور نہ ہی اس کی کوئی صنف یا کوئی نسل یا کوئی طبقہ اپنی اصل کے اعتبار سے پست درجہ کا ہے بلکہ ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور کسی رنگ و نسل یا طبقہ سے تعلق رکھتا ہو نوع انسانی کا فرد ہونے کی حیثیت سے معزز اور محترم ہے۔

ذات پات، چھوت چھات، رنگ و نسل کے امتیازات اور عورتوں کے ذلیل ہونے کا تصور سب ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے پیدائشی مرتبہ کے خلاف ہیں اور اسلام ان کو مٹا دینا چاہتا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کا بخشا ہوا کیسا اعزاز ہے کہ اس کی خدمت کے لیے خشکی میں بھی سواری حاضر ہے اور سمندر میں بھی سواری مو جود اور اب ایک اور نعمت کا اضافہ ہو گیا ہے کہ ہوا میں اڑنے کے لیے بھی سواری مہیا۔ اگر اللہ انسان کو جانوروں پر سوار ہونے اور دوسری قسم کی سواریاں ایجاد کرنے کی صلاحیت نہ بخشتا تو کیا وہ یہ اونچا مقام حاصل کر سکتا تھا؟

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ حیوانات گھاس پھوس اور کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کا نہایت اعلیٰ ذوق بخشا اور اس ذوق کی تکمیل کے لیے زمین پر انواع و اقسام کی پاکیزہ چیزوں کا دستر خوان بچھا دیا۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ تفضیلاً (مفعول مطلق ہے جس) کا مطلب پوری پوری فضیلت ہے۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر پوری پوری فضیلت عطا کی ہے۔ جہاں تک زمین کی مخلوقات کا تعلق ہے یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ البتہ آسمان کی مخلوقات سے کوئی مخلوق ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بعض اعتبارات سے انسان پر فضیلت رکھتی ہو چنانچہ بعض اعتبار سے فرشتے انسان پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن کچھ دوسرے پہلوؤں کے پیش نظر انسان کو یہ فضیلت دی گئی کہ وہ مسجود ملائکہ قرار پایا۔

گویا انسان اور فرشتوں کے درمیان فضیلت کا معاملہ کلی یعنی پوری پوری فضیلت کا نہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے ہے۔ پھر یہ فضیلت تو انسان کی خلقت، اس کی قوتوں اور صلاحیتوں اور اس کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے لحاظ سے ہے اس کا حقیقی مقام و مرتبہ تو قیامت کے دن ہی ظاہر ہو گا جبکہ انسان کی سعی و عمل کے نتائج ظہور میں آئیں گے۔ لہٰذا اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ انسان افضل ہے یا فرشتے بلکہ فکر اس بات کی کرنی چاہیے کہ جو فضیلت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے اس کا اہل ہم اپنے کو کس طرح ثابت کر دکھائیں ورنہ نا اہلی اور نا شکری کے نتیجہ میں انسان اسفل السافلین” پرلے درجہ کی پستی” کو پہنچ سکتا ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عقیدہ و عمل کے معاملہ میں جس شخص نے جس کو اپنا پیشوا، قائد یا لیڈر بنایا تھا اس کو اس کے ساتھ حاضر ہونا پڑے گا۔ مخلص مؤمن رسول کی قیادت میں جمع ہوں گے کہ انہوں نے رسول کو اپنا امام مان کر اس کی مخلصانہ پیروی کی تھی بخلاف اس کے مشرک اور کافر اپنے گمراہ لیڈروں کے ساتھ اور باطل مذاہب کے پیرو ان مذاہب کے گمراہ بانیوں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انشقاق نوٹ ۷۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ خوشی خوشی اپنا نامۂ عمل پڑھیں گے کیونکہ دائیں ہاتھ میں دیا جانا کامیابی کی علامت ہو گا۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں وہ اللہ کی نشانیاں دیکھتا رہا مگر دل کا اندھا بنا رہا اس لیے اس کا بدلہ یہ ہو گا کہ وہ آخرت میں اندھا ہی رہے گا۔ آگے آیت ۹۷ میں اس سزا کی مزید وضاحت ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ قیامت کے دن مختلف مراحل سے گزرنا ہو گا۔ ایک مرحلہ وہ ہو گا جس میں کافروں کی نگاہیں خوب تیز ہوں گی جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے فَبَصَرُک الیوْمَ حَدِید (ق ۲۲) ” تو آج تیری نگاہیں خوب تیز ہیں۔ ” نگاہوں کی یہ تیزی عذاب کے مشاہدہ کے لیے ہو گی۔ دوسرا مرحلہ وہ ہو گا جس میں وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر بول اٹھیں گے کہ اے رب! یہ ہیں ہمارے ٹھہرائے ہوئے شریک۔ اور ایک مرحلہ وہ ہو گا جبکہ انہیں اندھا بہرا گونگا بنا کر الٹے منہ جہنم کی طرف ہنکایا جائے گا۔ (اللہ کی پناہ اس عذاب سے)

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرکین نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن میں تبدیلی کے لیے کتنا دباؤ ڈال رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اگر آپ قرآن کو بالکلیہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو کم از کم اس میں کچھ ایسی تبدیلیاں کر لیں کہ وہ بت پرستی کے بالکل خلاف نہ رہے اس شرط پر وہ اس کے ساتھ مصالحت اور دوستی کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے تھے۔

موجودہ دور کے مشرکوں اور کافروں میں اسی ذہنیت کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ آپ لو گ توحید کو اس طرح پیش کریں کہ شرک اور بت پرستی کی تردید ہو اور اسلام کو اس طرح پیش کریں کہ دوسرے مذاہب کی سچائی پر آنچ نہ آئے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین کا دباؤ اتنا شدید تھا کہ ایک نبی کے لیے بھی اپنے موقف پر جمے رہنا آسان نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی عصمت کے تحفظ کا جو سامان ہوتا ہے اور اس کی جو توفیق اس کے شامل حال ہوتی ہے اس کی بنا پر آپ اپنے موقف پر پوری طرح جمے رہے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تنبیہ ہے اور مشرکین پر یہ واضح کرنا ہے کہ تم ہمارے رسول سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری باتوں میں آ کر شرک کے معاملہ میں کچھ نرمی دکھائے گا۔ اگر بالفرض ایسا ہوا تو یہ منصبِ رسالت کے سراسر خلاف ہو گا اور اس کی بنا پر رسول دنیا و آخرت دونوں میں دوہری سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ اس جواب سے یہ بات خود بخود واضح ہے کہ شرک کے معاملہ میں رسول سے کسی سمجھوتہ کی توقع رکھنا فضول ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین مکہ نے ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں کہ اے پیغمبر تم اس سر زمین میں رہ نہ سکو اور ہجرت کرنے کے لیے مجبور ہو جاؤ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ لو گ یاد رکھیں کہ وہ پیغمبر کے ہجرت کر جانے کے بعد یہاں ٹک نہ سکیں گے۔ ان کا عذاب کی گرفت میں آ جانا بالکل یقینی ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ناقابل تغیر ہے کہ جب کوئی قوم اپنے رسول کو اپنی بستی سے نکال دیتی ہے تو رسول کے ہجرت کر جانے کے بعد اس کی مہلت عمل بہت جلد ختم ہو جاتی ہے اور وہ عذاب کی گرفت میں آ جاتی ہے۔

اس قاعدہ کا ظہور مشرکین مکہ کے بارے میں بھی ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مکہ سے ہجرت کر جانے کے بعد دوہی سال کے اندر بدر کا معرکہ پیش آیا جس میں مشرکین کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور اس کے بعد چند سال کے اندر اندر مکہ سے مشرکین کا مکمل صفایا ہو گیا۔ یہ تھی سزا جو اللہ کی سنت (قاعدہ) کے مطابق ان لو گوں کو مل کر رہی جنہوں نے رسول کو اس سرزمین سے نکالا اور اخیر وقت تک شرک اور کفر پر جمے رہے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ سورج کے ڈھلنے کے تین اوقات ہیں۔ ایک وہ جبکہ سورج نصف آسمان سے ڈھلنے لگتا ہے جسے زوال آفتاب کہتے ہیں۔ زوال کے بعد ظہر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرا وقت سورج ڈھلنے کا وہ ہوتا ہے جبکہ کسی بھی چیز کا سایہ اس کے مثل یعنی اس کے برابر ہو جاتا ہے یہ عصر کی نماز کا وقت ہے اور تیسرا وقت سورج کے ڈھلنے کا اس کا غروب ہو جانا ہے۔ یہ مغرب کی نماز کا وقت ہے۔

رات کے اندھیرے سے مراد وہ وقت ہے جو شفق کے غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عشاء کی نماز کا وقت ہے۔ اور فجر سے مراد پو پھٹنے کا وقت ہے۔ اس وقت نماز فجر ادا کی جاتی ہے اس طرح دن اور رات میں پانچ نمازیں ہوئیں جو ہر مسلمان پر فرض کر دی گئی ہیں۔ ان اوقات کی تفصیلات حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔

فجر کی قرأت قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے اور اسے قرأتِ قرآن سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر کی نماز کی یہ شان واضح ہو جائے کہ وہ نسبتاً طویل قرأت والی نماز ہے۔ پھر فجر کی نماز کو مشہود اس بنا پر کہا گیا کہ وہ وقت دل کی حضوری کا بھی ہوتا ہے اور فرشتوں کی حاضری کا بھی چنانچہ حدیث میں آتا ہے : تَشْہَدُ مَلاَئِکۃُ اللیل و ملائکۃُ النہارِ (ترمذی ابواب التفسیر) ” اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ ”

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ تہجد سے مراد رات کو سو کر اٹھنے کے بعد کی نماز ہے۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے البتہ اخیر شب کی بڑی فضیلت آئی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہوئی کہ یہ نماز تمہارے حق میں زائد ہے یعنی ان فرائض کے علاوہ ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ مقام محمود سے مراد مرتبہ کی وہ بلندی ہے جو زبانوں پر ستائش کے کلمات جاری کرے۔

جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی ہے منکرین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درپے آزار تھے۔ انہوں نے اس بات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی کہ آپ کو لو گوں کی نظروں سے گرا دیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس وقت یہ مژدۂ جانفزا سنایا کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں حوصلہ افزا ہونے کے علاوہ ایسی تھی کہ اس کی صداقت دنیا پر ظاہر ہو کر رہی۔ آپ کی شخصیت ہر انصاف پسند آدمی کی نظر میں قابل تعریف ہی قرار پائی اور آپ کی امت کو جو عقیدت آپ سے ہے وہ کسی انسان سے نہیں ہر مسلمان اپنی نمازوں میں روزانہ درود و سلام کا تحفہ آپ کو بھیجتا ہے۔ پھر دنیا میں جو مقام آپ کو حاصل ہوا اس سے کہیں بڑھ کر مقام آپ کو آخرت میں حاصل ہو گا۔ قیامت کے دن آپ کی شان محمودیت پوری طرح نمایاں ہو گی۔ حوضِ کوثر پر بھی اور دیگر مواقع پر بھی۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ہجرت کا وقت قریب آ لگا ہے چنانچہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ہجرت مدینہ کا واقعہ پیش آیا۔

اس دعا میں ہجرت کی اصل روح جھلکتی ہے اور وہ یہ کہ نکلنا بھی سچائی اور عزت کے ساتھ ہو اور داخل ہونا بھی سچائی اور عزت کے ساتھ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت مکہ سے فرار نہیں تھا بلکہ اللہ کی راہ میں با عزت طریقہ پر ترک وطن تھا اور مدینہ میں آپ کا داخل ہونا ایک پنا ہ گزیں کی حیثیت سے نہیں تھا بلکہ ایک عظیم شخصیت کا ایک عظیم مقصد کے لیے داخل ہونا تھا اسی لیے آپ کے ساتھیوں نے آپ کا استقبال اس طرح کیا کہ اپنی آنکھیں اور اپنے دل بچھا دئے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ غلبہ سے مراد قوت و اقتدار ہے اور مدد گار کی صفت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ایسا غلبہ مطلوب ہے جو دشمنانِ اسلام کو زیر کرنے میں معاون بنے اور حق کو غالب کر دے۔

یہ دعا مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے توسط سے اہل ایمان کو سکھائی گئی تھی جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ دین حق کے لیے قوت، غلبہ اور اقتدار کی طلب ایک پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے۔ موجودہ زمانہ میں جو مسلمان اس کی لب پر معترض ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کے ساتھ غلبہ و اقتدار کی بات سرے سے کی ہی نہ جائے وہ اپنا تصور دین قرآن سے اخذ کرنے کے بجائے کہیں اور سے اخذ کرتے ہیں۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ یہ قرآن کی پیش گوئی تھی کہ اگرچہ اس وقت مکہ میں حق مظلوم ہے لیکن بس سمجھو کہ حق غالب ہو ہی گیا اور باطل نابود ہوا۔ اس اعلان کو دس سال بھی گزرنے نہیں پائے تھے کہ ۰۸ھ میں اسلام مکہ میں فاتحانہ داخل ہوا۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کو اپنے نیزے سے گراتے جاتے تھے اور یہ آیت تلاوت فرماتے تھے جَاءَ الَحقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ اِنّ الّبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا (حق آ گیا اور باطل نابود ہوا اور باطل نابود ہونے ہی کے لیے تھا) اس طرح حق کے غالب ہونے اور باطل کے نابود ہونے کا منظر لو گوں نے دیکھ لیا اور قرآن کے بیان کی سچائی ثابت ہو کر رہی۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ یونس نوٹ ۸۸ میں گزر چکی۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ یونس نوٹ ۹۰ میں گزر چکی۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ظالم سے مراد وہ لو گ ہیں جو حق و انصاف کی بات سننا نہیں چاہتے ایسے لو گ قرآن کی دعوت حق پر کیونکر کان دھرنے لگیں۔ ایسے لو گوں پر قرآن کی حجت قائم ہو جاتی ہے اور ان کی بڑھتی ہوئی مخالفت ان کی تباہی کو اور بڑھا دیتی ہے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی کسی نعمت کو پا کر اپنے محسن کی طرف سے بے پروا ہو جاتا ہے اور کسی تکلیف کے پہنچنے پر مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے یعنی نہ وہ شکر کا ثبوت دیتا ہے اور نہ صبر کا۔ قرآن جیسی نعمت کو پا کر بھی وہ اسی ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہے حالانکہ اسے اس نعمت کے حاصل ہو جانے پر اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا اور آخرت کے تعلق سے ہر شخص نے اپنے لیے ایک راہ عمل متعین کر لی ہے اور ہر ایک کا ایک مذہب ہے جس سے وہ وابستہ ہے اور جس کے صحیح اور حق ہونے کا وہ مدعی ہے لیکن قطعی علم تو اللہ ہی کو ہو سکتا ہے کہ کون بر سر حق ہے چنانچہ اس نے رسول کا برسر حق ہونا اور راہ ہدایت پر ہونا وحی کے ذریعہ تم پر ظاہر کر دیا ہے۔ اب اگر تم نہ مانو تو اپنے عمل کے تم ذمہ دار ہو۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ یہاں روح سے مراد ” وحی” ہے اور قرآن میں یہ لفظ وحی کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے (ملاحظہ ہو سورۂ نحل نوٹ ۳) اور یہاں سلسلۂ کلام دلیل ہے سوال قرآن کی وحی سے متعلق تھا یعنی سوال کرنے والے اس خفیہ پیغام رسانی کی حقیقت کو جاننا چاہتے تھے۔ انہیں جواب دیا گیا ہے کہ تمہارے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ یہ اللہ کا فرمان ہے۔ رہی اس کی حقیقت کہ یہ عمل کس طرح انجام پاتا ہے تو یہ غیب کے ان اسرار میں سے ہے جس کا انسان کو علم نہیں اور انسان کو اتنا ہی علم بخشا گیا ہے جتنا کہ اس امتحانی زندگی سے گزرنے کے لیے ضروری تھا۔ پس جب ایک عظیم مصلحت کے پیش نظر ” وحی” کی کیفیت کے راز کو پوری طرح انسان پر نہیں کھولا گیا تو اس کی کیفیت کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے لیے اصرار صحیح نہیں اور نہ اس بنا پر اس کا انکار کرنا صحیح ہے کہ یہ چیز ہمارے علم کی گرفت میں نہیں آ سکی ہے۔ اگر ریڈیائی لہروں سے انسان اس سے پہلے آشنا نہیں تھا تو کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کا کوئی و جود نہیں ہے۔ پھر اگر وحی کا تجربہ ہمیں نہیں ہوتا اور صرف انبیاء علیہم السلام کو ہوتا ہے جن کی صداقت شبہ سے بالاتر ہوتی ہے اور ان کا لایا ہوا پیغام خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ وحی الٰہی ہے تو پھر اس پر یقین کیوں نہ کر لیا جائے ؟ کیا اس سے انکار حقیقت کا انکار نہیں ہو گا؟ اور حقیقت کا انکار کر کے ہم اپنی زندگیوں کو غلط راہوں پر نہیں ڈالیں گے ؟

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح اللہ نے اپنے رسول پر یہ وحی (قرآن) نازل کی ہے وہ چاہے تو اسے سلب بھی کر سکتا ہے یعنی وہ واپس بھی لے سکتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرے تو کوئی طاقت ایسی نہیں جو اسے واپس دلا سکے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ قرآن کا نزول اللہ کی طرف سے ہو رہا ہے اس میں پیغمبر کا اپنا کوئی دخل نہیں ہے اس لیے اس کو پیغمبر کی تصنیف سمجھنا خلاف واقعہ ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ یہ چیلنج ہے قرآن کا کوئی ایک فرد ہی نہیں پوری انسانیت اور پوری انسانیت ہی نہیں اس کے ساتھ تمام جنات بھی مل کر اس جیسی کتاب تصنیف کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اس چیلنج کو چودہ صدیاں گزر گئیں مگر کوئی اس کا جواب نہ دے سکا۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا زندہ معجزہ ہے رہتی دنیا تک کے لیے۔ اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت واقعہ ہے۔ اس کے معجزانہ پہلوؤں کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۰۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے قرآن میں دعوت کو مختلف پیرایوں میں پیش کیا اور تذکیر و تفہیم کے لیے مختلف اسلوب اختیار کئے تاکہ جو طبیعتیں جس طریقہ سے مانوس ہوں بات سمجھ لیں مگر اکثر لو گوں کا حال یہ ہے کہ وہ انکار پر جمے ہوئے ہیں اور کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

موجودہ دور میں منکرین کا قرآن پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں ایک ہی بات کو بار بار دہرایا گیا ہے یعنی (Repetition) بہت ہے حالانکہ قرآن اس کو ہدایت و فہمائش کے سلسلہ کی ایک ضرورت قرار دیا ہے۔ اصل میں لو گ قرآن کو عام کتابوں پر قیاس کرتے ہیں جو کسی علمی مقصد یا معلومات میں اضافہ کے لیے لکھی جاتی ہیں جبکہ قرآن کا موضوع ہدایت الٰہی ہے اور اس کے نزول کا مقصد لو گوں کی زندگیوں کو بدلنا اور ان کی صحیح فکری و عملی تربیت کرنا ہے۔ رہنمائی و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ہر موڑ پر نشانِ راہ واضح کیا جائے اور موقع کی مناسبت سے سبق کو دہرایا جائے تاکہ وہ ذہن میں پختہ ہو جائے نیز مدعا کو واضح کرنے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کئے جائیں۔ گویا جو قرآن کی خوبی تھی وہ ان نا قدروں کی نگاہ میں عیب قرار پائی !

واضح رہے کہ دوسری آسمانی کتابوں کا بھی یہی اسلوب رہا ہے چنانچہ تورات اور زبور میں ایک بات کو کئی بار دہرایا گیا ہے۔ گویا آسمانی کتابوں کی یہ مشترکہ خصوصیت ہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کے ان لمبے چوڑے مطالبات کا مختصر جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے خدائی کا دعویٰ کب کیا ہے جو تم مجھ سے یہ مطالبات کرتے ہو___اللہ ہر شرک سے پاک ہے۔ میں نے اپنے کو صرف رسو ل کی حیثیت سے پیش کیا ہے لہٰذا تم میرے پیغام کو جانچو اور پرکھو۔ معجزے اور چمتکار دکھانا رسول کے بس میں نہیں ہے بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم نوٹ ۲۰)

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لو گوں کا اپنا تصور یہ ہے کہ زمین پر چلنے پھرنے والا انسان پیغمبر کیسے ہو سکتا ہے اگر واقعی اللہ کو اپنا پیغمبر بھیجنا ہوتا تو وہ فرشتہ کو پیغمبر بنا کر بھیجتا۔ اس غلط تصور کی وجہ سے وہ ایک انسان کے پیغمبر ہونے کا انکار کرتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ خدا کی ہدایت سے جو پیغمبر پر نازل ہوئی محروم رہتے ہیں۔

اگرچہ زمین پر فرشتوں کی آمد و رفت رہتی ہے لیکن زمین پر اطمینان سے چلنے پھرنے والی مخلوق جسے امتحان گاہ میں کھڑا کیا گیا ہے انسان ہی ہے اس لیے انسانوں کی طرف کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجنا تقاضائے حکمت ہے کیونکہ رسول کی زندگی ایک نمونہ ہوتی ہے اور وہ لائق اتباع ہوتا ہے۔ اگر فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجا جائے تو اس کی زندگی کس طرح نمونہ ہو گی اور وہ کس طرح لائق اتباع ہو گا۔ ؟

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۱۰۲ میں گزر چکی۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم کی آگ کبھی بجھنے والی نہیں۔ ذرا دھیمی ہونے کو ہوئی تو اسے اور بھڑکا دیا گیا۔

سائنس داں کہتے ہیں کہ سورج میں ایٹمی دھماکے ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی حرارت برقرار رہتی ہے۔ یہ تو ہے اس مادی دنیا کا حال اور آخرت کو تو اس پر قیاس کر نہیں سکتے لہٰذا اگر جہنم کی آگ کے دائمی طور پر بھڑکتے رہنے کی خبر ہمیں قرآن دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ انسان اس بات کا ذمہ دار (مکلف) ہے کہ اللہ کی نشانیوں کو مانے اور آخرت پر ایمان لائے۔ اس سے انکار کے معنی اللہ سے کفر اور سرکشی کے ہیں اور جہنم کی یہ کڑی سزا اسی کفر و سرکشی کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ہے۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی موٹی بات ان منکرین کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جو ہستی آسمانوں اور زمین کی خالق ہو اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے وقوع شبہ سے بالاتر ہے اور نہایت مضبوط دلائل سے اسے واضح کیا جاچکا مگر جو لو گ غلط ہیں اور غلط کار ہیں وہ انکار پر اس طرح مصر ہیں کہ کوئی بات اور کوئی حجت بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ آخرت تقاضائے رحمت ہے۔ اس کی رحمت بے کراں ہے اور خرچ کرنے سے اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے مخلص بندوں کو اپنی رحمت سے دائمی طور پر اس طرح نوازے کہ وہ نہال ہو جائیں۔ جنت اس نے فیضانِ رحمت ہی کے لیے بنائی ہے لہٰذا انسان کا آخرت سے انکار اور جنت کو نا ممکن خیال کرنا اللہ کی صفتِ رحمت کا سراسر غلط تصور ہے۔ دراصل انسان بڑا تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے اس لیے اللہ کی رحمت کی یہ وسعت اس کے لیے ناقابل قبول بن جاتی ہے اور ان منکرین کا حال یہ ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمت کے خزانوں کا انہیں مالک بنا دیتا یعنی مال و دولت کے خزانے ان کے حوالے کر دیتا تو یہ اس اندیشہ سے کہ کہیں یہ ختم نہ ہو جائے خرچ کرنے اور لو گوں کو اس سے فیض پہنچانے سے ہاتھ روک لیتے تو کیا یہ خدا کو بھی اپنے ہی اوپر قیاس کر رہے ہیں ؟ کیا اس کی رحمت کے خزانوں میں کوئی کمی ہو گی اگر وہ اپنے مخلص بندوں کے لیے آخرت میں اس کے دروازے کھول دیتا ہے ؟ اگر ایسا خیال کرنا صحیح نہیں ہے تو پھر سمجھ لو کہ جنت عین تقاضائے رحمت ہے اور اس کے لیے دوسری زندگی ضروری۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ جن نو معجزوں کا ظہور موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہوا تھا ان کا بیان سورۂ اعراف میں گزر چکا یعنی (۱) عصا ا سانپ بن جانا (۲) ید بیضا (۳) قحط سالی (۴) پیداوار میں کمی (۵) طوفان (۶) ٹڈیاں (۷) جوئیں (۸) مینڈک (۹) خون۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۳، ۱۶۴، ۱۸۶، ۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹، ۱۹۰، ۱۹۱۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ موسیٰ کے نو نو معجزات کو دیکھ لینے کے بعد بھی فرعون ایمان نہیں لایا تھا بلکہ موسیٰ کو یہ کہ کر جھٹلایا تھا کہ ان پر کسی نے جادو کر دیا ہے اس لیے وہ نبوت کی باتیں کر رہے۔ فرعون کی اس ہٹ دھرمی کو مشرکین مکہ کے سامنے جو معجزات کا مطالبہ کر رہے تھے مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اس غیر ضروری مطالبہ سے باز آ جائیں۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نشانیاں انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ ربِ کائنات کی طرف سے ظہور میں آئی ہیں۔ بالفاظ دیگر ان کے معجزہ ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل ملک چھوڑ کر جانا چاہتے تھے لیکن فرعون انہیں اس کی اجازت نہیں دے رہا تھا البتہ بعد میں یہ دیکھ کر کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل کی وجہ سے ایک نہ ایک آفت سے اسے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے ملک سے بے دخل کرنا چاہا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ فرعون کو خود ہی اپنے ملک سے ہمیشہ کے لیے بے دخل ہونا پڑا۔ وہ اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق ہو کر رہ گئے۔

قریش بھی اس بات کے درپے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قدم مکہ سے اکھڑ جائیں اس لیے ان کو یہ واقعہ عبرت کے لیے سنایا گیا۔ مگر انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کے لیے مجبور کیا کہ آپ مکہ چھوڑ دیں نتیجہ یہ کہ ان کو خود ہی مکہ سے نکل جانا پڑا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ مراد شام و فلسطین کی سر زمین ہے کیونکہ مصر چھوڑنے کے بعد بنی اسرائیل وادیِ تیہ ہو کر اپنے آبائی وطن پہنچ گئے تھے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ دنیا میں انہیں ہمیشہ کے لیے رہنا ہے بلکہ یاد رکھو کہ اصل گھر آخرت کا ہے اور جب قیامت برپا ہو گی تو ہم تم سب کو اپنے حضور جمع کریں گے۔

مگر اس سبق کو بنی اسرائیل بھول گئے چنانچہ موجودہ تورات میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ انہوں نے یاد رکھا تو صرف اس بات کو کہ انہیں ایک ایسا ملک ملا ہے جس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ سلسلۂ بیان قرآن سے متعلق تھا درمیان میں معجزہ کے تعلق سے موسیٰ اور فرعون کا قصہ آیا اب پھر بیان کا رخ قرآن کی طرف مڑ گیا ہے۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن سر تا سر حق ہے اور ہر طرح کی آمیزش سے پاک۔ اس میں نہ شیطان دخل اندازی کر سکا ہے اور نہ کسی اور کی طرف سے اس میں کمی بیشی ہو سکی ہے بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نازل کرنا چاہا اسی طرح وہ پیغمبر پر نازل ہوا اور جس طرح پیغمبر پر نازل ہوا تھا اس نے تمہارے سامنے پوری امانتداری کے ساتھ پیش کر دیا۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ قرآن کو بیک وقت مکمل کتاب کی شکل میں کیوں نہیں اتارا گیا۔ فرمایا قرآن کو آیتوں اور سورتوں کی شکل میں بتدریج نازل کیا گیا تاکہ پیغمبر لو گوں کو ٹھہر ٹھہر کر سنائے۔

جو لو گ قرآن کے اولین مخاطب تھے ان کے لیے یہ رعایت ضروری تھی کہ پیغمبر کی دعوت کے نتیجہ میں جس طرح کے حالات پیدا ہوں ان کی مناسبت سے ہدایت کی راہ بھی روشن ہوتی چلی جائے۔ اس طرح لو گوں کے لیے دعوت کو سمجھنا بھی آسان ہو جائے اور راہ ہدایت پر چلنا بھی۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ اہل کتاب ہیں جو کتاب الٰہی کا علم بھی رکھتے تھے اور صالح بھی تھے۔ وہ قرآن کو سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے اور پھر ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو آگے بیان ہوئی ہے۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ٹھوروں کا لفظ مونہہ کے لیے کنایۃً استعمال ہوا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ مونہہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ تکبر کرنے والے تو اپنی ٹھوڑیاں اوپر اٹھاتے ہیں لیکن ان مؤمنین صالحین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ٹھوڑیاں اللہ کے حضور جھکاتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تورات و انجیل میں جن صفات والے رسول کے بھیجنے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے آنے سے پورا ہو گیا۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن سن کر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں۔ اس طرح قرآن کی سماعت ان کے خشوع میں اضافہ کا سبب بن جاتی ہے۔

ان کا پہلا سجدہ جس کا ذکر اوپر آیت ۱۰۷ میں ہوا نزولِ قرآن کی خوشی میں تھا اور یہ دوسرا سجدہ اس رقت کے نتیجہ میں ہے جو قرآن سن کر دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کر لینا چاہیے۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ لفظ رحمن کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ فاتحہ نوٹ ۵۔

قرآن میں رحمن کا لفظ اللہ کے لیے اسم صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے اور اسم علم کے طور پر بھی اس لیے یہ اللہ کے ساتھ خاص ہے کسی اور کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

منکرین قرآن نے ایک بلا وجہ کا اعتراض یہ اٹھایا تھا کہ تم خدا کے لیے اللہ اور رحمن دو لفظ استعمال کرتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو خدا ہیں جب کہ ہم اللہ سے ہی آشنا ہیں رحمن سے نہیں۔ ان کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ خدا ایک ہی اسے اللہ کہ کر پکارو یا رحمن کہ کر۔ اس سے توحید میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مطلب یہ ہے کہ تم لفظی بحث میں الجھ رہے ہو جبکہ معنیٰ اور حقیقت ایک ہی ہے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۷۸ اور ۲۷۹۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اللہ کو پکارنے کی بہترین شکل نماز ہے اس لیے یہاں ہدایت کی گئی کہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ پر وقار انداز میں ادا کیا جائے۔ نہ تو نماز میں اتنی آواز بلند کی جائے کہ ادب کے منافی ہو اور نہ اتنی پست کی مقتدیوں کو جو قرأت سنانا ہو وہ سن نہ سکیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی آواز کو اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے۔

واضح رہے کہ یہاں سری اور جہری نماز کی بحث نہیں ہے بلکہ واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جو نمازیں جہراً ادا کرنا ہیں ان میں دونوں ہی باتوں کا لحاظ کیا جائے۔ نہ تو آواز اتنی بلند کی جائے کہ نماز کا وقار مجروح ہو اور نہ اتنی پست کہ مقتدی سن نہ سکے۔ ان دونوں انتہاؤں سے بچتے ہوئے درمیانی اور معتدل لہجہ اختیار کیا جائے تاکہ نماز کا سکون بھی برقرار رہے اور پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سن سکیں۔

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ یہ خاتمۂ کلام ہے۔ سورہ کا آغاز اللہ کے لیے پاکی (سبحان) سے ہوا تھا اور خاتمہ اس کی تعریف (حمد) پر ہو رہا ہے۔

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں شرک کی تینوں صورتوں کی تردید کی گئی ہے جس میں عام طور سے اہل مذاہب مبتلا ہیں۔ ایک اس کے بیٹا یا اولاد ہونے کا عقیدہ۔ دوسرے اس کی حکومت اور خدائی میں کسی کے شریک ہونے کا تصور اور تیسرے اس کے مدد گار ہونے کا خیال۔

مدد گار کی ضرورت اس کو ہوتی ہے جو عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے اور وہ زبردست قدرت و اقتدار والا ہے پھر اس کو مدد گاروں کی کیا ضرورت۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی ایسی بڑائی بیان کرو کہ اس کی عظمت پوری طرح واضح ہو جائے اور مشرکین اس کی طرف جو عیوب اور کمزوریاں منسوب کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں اس کی کبریائی کی شان کا اظہار ہو۔

اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کا کلمہ جو اذان اور نماز میں دہرایا جاتا ہے، اللہ کی اسی عظمت اور شانِ کبریائی کا اعتراف و اظہار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

(۱۸) سورۂ الکہف

 

(۱۱۰ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۹ میں اصحابِ کہف کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "الکہف” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

واقعات کی روشنی میں دوسری زندگی کا یقین پیدا کرنا ہے۔ پچھلی سورہ میں خصوصیت کے ساتھ یہود کو تنبیہ تھی۔ اس سورہ میں خصوصیت کے ساتھ نصاریٰ کو تنبیہ ہے اور اس پہلو سے ہے کہ انہوں نے اللہ کا بیٹا ہونے کا عقیدہ گھڑ لیا جس کی وجہ سے وہ شرک کے بھی مرتکب ہوئے اور عقیدۂ آخرت بھی معطل ہو کر رہ گیا۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا۸ تمہیدی آیات ہیں جن میں نزول قرآن کا مقصد واضح کیا گیا ہے۔ آیت ۹ تا۲۶ میں اصحابِ کہف کا قصہ بیان ہوا ہے جو دوسری زندگی کے لیے ایک واقعاتی مثال بھی ہے اور جس میں راہِ خدا میں ہجرت کے تعلق سے رہنمائی کا سامان بھی۔ آیت ۲۷ تا ۳۱ میں اہل ایمان کی قدر افزائی کی گئی ہے اور ان لوگوں کو جو دنیا پرستی میں مگن ہیں ان کے حال پر چھوڑ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آیت۳۲ تا ۴۴ میں دو اشخاص کا قصہ بیان کیا گیا ہے جن میں سے ایک دنیا کی کامیابی ہی کو اصل کامیابی سمجھتا تھا اور دوسرا شخص یقین رکھتا تھا کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ پھر دنیا کی کامیابی کو اصل کامیابی سمجھنے والے کو کس طرح کف افسوس ملنا پڑ ا۔ آیت ۴۵ تا ۴۹ میں دنیا کی چند روزہ زندگی کی بہار کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کرتے ہوئے قیامت کے دن کی پیشی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور نیک اعمال کو نتیجہ خیز اور باعث اجر قرار دیا گیا ہے۔ آیت ۵۰ تا ۵۹ میں آدم و ابلیس کا قصہ مختصراً بیان کرتے ہوئے مشرکین کی ذہنیت اور قرآن کے تعلق سے ان کے رویہ پر گرفت کی گئی ہے۔ آیت ۶۰ تا ۸۲ میں حضرت موسیٰ کے سفر کے واقعات پیش کئے گئے ہیں جن میں حکمتِ الٰہی کے بعض اسرار بے نقاب کئے گئے جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ دنیا میں جو بے شمار واقعات پیش آتے ہیں ان کے صرف ظاہری پہلو کو دیکھ کر کوئی فیصلہ کن رائے قائم کرنا صحیح نہیں۔ ان واقعات کے پیچھے اللہ کی حکمتیں اور مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں جن کا علم انسان کو نہیں ہوتا اور وہ اپنے ناقص علم اور جلد بازی کی بنا پر ان کی غلط توجہ کر بیٹھتا ہے۔ واقعات کا یہ پہلو کہ اس میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں آخرت کے تعلق سے بڑ ا اہم ہے۔ آیت ۸۳ تا۱۰۱ میں ایک سوال کے جواب میں ذو القرنین کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قصہ میں اس کے کردار کا یہ پہلو خاص طور سے نمایاں کیا گیا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے اقتدار کو خدا سے ڈرتے ہوئے اور آخرت کی جوابدہی کے احساس کے تحت استعمال کیا آیت ۱۰۲ تا ۱۱۰ خاتمہ کی آیات ہیں جن میں شرک اور انکار آخرت پر تنبیہ ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندہ پر کتاب اتاری اور اس میں کوئی کجی (ٹیڑھ) نہیں رکھی۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راست کتاب۲* تاکہ وہ ( لوگوں کو) سخت عذاب سے آگاہ کر دے جو اس کی جانب سے پہنچے گا۔ اور ایمان لانے والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوش خبری دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے ۳*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان لوگوں کو خبردار کر دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد بنا لی ہے۔ ۴*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بارے میں نہ ان کو کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔ ۵* بڑ ی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ ۶* محض جھوٹ ہے جو وہ بک رہے ہیں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) شاید تم ان کے پیچھے اپنی جان مارے افسوس کے ہلاک کر دو اگر وہ اس کلام پر ایمان نہیں لائے۔ ۷*

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ در حقیقت روئے پر جو کچھ ہے اس کو ہم نے اس کی آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ ۸*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کچھ اس پر ہے اس کو ہم چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ ۹*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ کہف اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب چیز تھے ؟۱۰*

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کچھ نوجوانوں نے غار میں پناہ لی ۱۱* اور دعا کی اے ہمارے رب اپنے حضور سے ہم پر رحمت فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کا سامان کر دے۔ ۱۲*

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم نے غار میں ان کے کان کئی سال کے لیے تھپک دئے۔ ۱۳*

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” پھر ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کون ان کے قیام کی مدت کا صحیح شمار کرتا ہے۔ ۱۴*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم ان کا واقعہ تم کو ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں۔ ۱۵* وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں افزونی عطا کی تھی۔ ۱۶*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے دلوں کو ہم نے مضبوط کیا جبکہ وہ اٹھے اور کہا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی دوسرے معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو نہایت غلط بات کہیں گے۔ ۱۷*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہماری قوم ہے جو اس کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا بیٹھی ہے۔ ۱۸* یہ لوگ اس کی تائید میں کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔ ۱۹* پھر اس سے بڑ ھ کر ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ ۲۰*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبودوں سے جن کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں الگ ہو گئے ہو تو غار میں پناہ لو۔ ۲۱* تمہارا رب اپنی رحمت کا تم پر فیضان کرے گا اور تمہارے اس کام کے لیے سیر و سامان مہیا کرے گا۔ ۲۲*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم سورج کو دیکھتے ہو کہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان کے بائیں جانب کترا کر نکل جاتا ہے اور وہ اس کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پڑ ے ہیں۔ ۲۳* یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ ۲۴* جس کو اللہ ہدایت دے وہی راہ یاب ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو تم کسی کو اس کا مدد گار رہنمائی کرنے والا نہ پاؤ گے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم (ان کو دیکھ لیتے تو) خیال کرتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم ان کو دائیں بائیں کروٹیں دلواتے رہتے تھے اور ان کا کتّا (غار کے) دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم انہیں جھانک کر دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑ ے ہوتے اور تم پر ان (کے منظر) سے دہشت طاری ہوتی۔ ۲۵*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے انہیں اٹھایا۲۶* تاکہ وہ آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ۲۷* ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کتنی دیر رہے ؟انہوں نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کم رہے ہوں گے۔ پھر وہ بولے تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر رہے۔ ۲۸* اب ایک آدمی کو چاندی کا یہ سکہ دے کر شہر میں بھیجو۔ وہ دیکھے کہ کس کے ہاں پاکیزہ کھانا ملتا ہے۔ ۲۹* وہاں سے وہ تمہارے لیے کچھ کھانا لائے۔ اور چپکے سے یہ کام کرے۔ کسی کو ہماری خبر نہ ہونے دے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ان کو خبر ہوئی تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے یا اپنے مذہب میں واپس لے جائیں گے۔ ۳۰* اگر ایسا ہوا تو تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے لوگوں کو ان (کے حال) سے واقف کر دیا۳۱* تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچاہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ ۳۲* جب لوگ ان کے معاملہ میں جھگڑ رہے تھے ۳۳* انہوں نے کہا ان پر یک دیوار کھڑ ی کر دو۔ ان کا رب ہی ان کو بہتر جانتا ہے۔ ۳۴* جو لوگ ان کے معاملہ پر غالب تھے انہوں نے کہا ہم ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور یہ بھی کہیں گے کہ پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔ ۳۵* کچھ اور لوگ کہیں گے سات تھے اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ کہو میرا رب ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ کم ہی لوگ ان کی تعداد سے واقف ہیں۔ لہٰذا تم ان کے معاملہ میں لوگوں سے بحث نہ کرو بجز سرسری بحث کے اور نہ ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھو۔ ۳۶*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی چیز کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں کل اسے کروں گا۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ ۳۷* اگر تم بھول جاؤ تو اپنے رب کو یاد کرو۔ ۳۸* اور کہو امید ہے میرا رب اس سے بھی زیادہ رشد کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا۔ ۳۹*

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور مزید نو سال۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے۔ ۴۰* آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم اسی کو ہے۔ کس شان کا ہے وہ دیکھنے والا اور سننے والا! اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں اور وہ اپنے کم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ ۴۱*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب کی جو کتاب تم پر وحی کی گئی ہے اسے سناؤ۔ ۴۲* اس کے فرمانوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۴۳* اور اس کے سوا تم کو کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی رفاقت پر قناعت کولو جو اپنے رب کو اس کی رضا جوئی میں صبح و شام پکارتے ہیں۔ تمہاری نگاہیں دنیوی زندگی کی آرائش کی خاطر ان کی طرف سے پھرنے نہ پائیں۔ ۴۴* اور ایسے شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گیا ہے اور جس کا معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ ۴۵*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کہو یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تو جس کا جی چاہے کفر کرے۔ ۴۶* ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتوں نے انہیں گھیر لیا ہے۔ ۴۷* اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے تو انہیں ایسا پانی دیا جائے گا جو پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہو گا۔ اور ان کا منہ بھون ڈالے گا۔ کیا ہی بری ہے پینے کی چیز اور کیا ہی بری ہے آرام گاہ!

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے تو ہم نیک عمل کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے باغ ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہاں ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز کپڑے پہنیں گے ۴۸ * اور تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا صلہ ہے اور کیا ہی اچھی آرامگاہ!

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو دو شخصوں کا حال سناؤ۔ ۴۹* ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیئے اور ان کے گرد کھجور کے درخت لگائے اور ان کے درمیان میں کھیتی لگائی۔ ۵۰*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں باغ خوب پھلے اور اس میں کوئی کسر نہ چھوڑ ی۔ ہم نے ان کے اندر نہر بھی جاری کر دی تھی۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ( ان باغوں میں) اس کے لیے خوب پھل لگے تب اس نے اپنے ساتھی سے بات کرتے ہوئے کہا میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور میرا جتھا بھی زیادہ طاقتور ہے۔ ۵۱*

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ اپنے نفس پر ظلم کر رہا تھا۔ اس نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی تباہ ہو جائے گا۔ ۵۲*

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ میں یہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت قائم ہو گی۔ اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا ہی گیا تو میں اس سے بہتر جگہ پاؤں گا۔ ۵۳*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کیا تو کفر کرتا ہے اس سے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر تجھے ٹھیک ٹھیک آدمی بنا دیا۔ ۵۴*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں کہتا ہوں اللہ ہی میرا رب ہے۔ اور میں اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ ۵۵*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو کیوں نہ کہا ماشاء اللہ لاقوۃ  الا باللہ ( ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر کسی کا کوئی زور نہیں۔) ۵۶* اگر تو دیکھ رہا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کمتر ہوں۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا عجب کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرمائے ۵۷* اور تیرے باغ پر آسمان سے کوئی ایسی آفت نازل کرے کہ وہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے۔ ۵۸*

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے اور تو اسے اصل نہ کر سکے۔ ۵۹*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے پھل گھیرے میں آ گئے اور وہ اپنے اس مال پر جو اس نے خرچ کیا تھا ہاتھ ملتا رہ گیا جبکہ باغ ٹٹیوں پر گرا پڑ ا تھا۔ کہنے لگا کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا!۶۰*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (تو دیکھو) کوئی جتھا ایسا نہ ہوا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور نہ وہ خود (اس آفت کا) مقابلہ کر سکا۔ ۶۱*

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت یہ بات کھل گئی کہ سارا اختیار اللہ بر حق ہی کے لیے ہے۔ وہ جزا دینے کے لحاظ سے بھی بہتر ہے اور عاقبت کے لحاظ سے بھی بہتر۔ ۶۲*

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں دنیا کی زندگی کی مثال سناؤ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ پانی جو ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات خوب گھنی ہو گئیں۔ پھر وہ چورا چورا ہو کر رہ گئیں جس کو ہوائیں اڑائے لئے پھرتی۶۳* ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ۶۴*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ اور باقی رہنے والے نیک عمل تمہارے رب کے نزدیک اجر کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی۔ ۶۵*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم دیکھو گے کہ زمین بالکل بے نقاب ہو گئی ہے ۶۶* اور لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے۔ کسی ایک کو بھی چھوڑیں گے نہیں۔ ۶۷*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سب تمہارے رب کے حضور صف در صف پیش کئے جائیں گے۔ ۶۸* آ گئے تم ہمارے پاس اسی طرح جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ تم نے تو یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہاری پیشی کے لیے کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔ ۶۹*

۴۹َ۔ ۔ ۔ ۔ اور نامۂ عمل (سامنے) رکھ دیا جائے گا تو تم دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں درج ہو گا اس سے مجرم ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے ہماری شامت! یہ کیسا نوشتہ ہے کہ کوئی چھوٹی بڑ ی بات ایسی نہیں جو اس نے درج کر لی ہو۔ ۷۰* اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب حاضر پائیں گے۔ اور تمہارے رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ ۷۱*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ ۷۲* وہ جنوں میں سے تھا۔ ۷۳* تو اس نے اپنے رب کے حکم کی نا فرمانی کی۔ پھر کیا تم مجھے چھوڑ کر اس کو اور اس کی نس کو۷۴* اپنا کارساز بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں کیا ہی برا بدل ہے ظالموں کے لیے !۷۵*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان کو آسمان اور زمین کے پیدا کرتے وقت نہیں بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرتے وقت بلایا تھا۔ اور میرا یہ کام نہیں کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بناؤں۔ ۷۶*

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن وہ فرمائے گا کہ بلاؤ ان کو جن کو تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے تو وہ ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہلاکت کا گڑھا حائل کر دیں گے۔ ۷۷*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجرم آگ کو دیکھ لیں گے اور سمجھ جائیں گے کہ انہیں اس میں گرنا ہے۔ وہ اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کر دیں۔ ۷۸* مگر انسان بڑ ا جھگڑ الو واقع ہوا ہے۔ ۷۹*

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آ گئی تو اس پر ایمان لانے اور اپنے رب سے معافی چاہنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوئی۔ مگر یہ بات کہ گزری ہوئی قوموں کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا تھا وہ ان کے ساتھ بھی پیش آ جائے یا عذاب ان کے سامنے نمودار ہو۔ ۸۰*

۵۶َََ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم رسولوں کو صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور خبردار کریں۔ ۸۱* مگر کافر باطل کے سہارے جھگڑ نے لگتے ہیں تاکہ حق کو شکست دیں۔ ۸۲* انہوں نے میری آیتوں کو اور اس بات کو جس سے ان کو خبردار کیا گیا ہے ۸۳* مذاق بنا لیا ہے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو گا جس کو اس کے رب کی آیتوں کے ذریعہ یاد دہانی کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیر لے اور اپنے کرتوتوں کو بھول جائے ؟ ایسے لوگوں کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ کچھ نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے۔ ۸۴* تم انہیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بلاؤ وہ کبھی ہدایت پانے والے نہیں ہیں۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے رب بڑ ا بخشنے والا رحمت والا ہے۔ اگر وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑ تا تو فوراً عذاب نازل کرتا لیکن ان کے لیے ایک وقت مقرر ہے جس سے بچ کر پناہ لینے کی کوئی جگہ وہ نہ پائیں گے۔ ۸۵*

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بستیاں ہیں ۸۶* جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا جبکہ انہوں نے ظلم کیا۔ اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے وقت مقرر کر رکھا تھا۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ میں چلتا رہوں گا یہاں تک کہ دو سمندروں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں خواہ مجھے کتنا ہی عرصہ گزارنا پڑ ے۔ ۸۷*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب وہ دونوں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ گئے تو انہیں اپنی مچھلی کا خیال نہ رہا اور اس نے سمندر میں جانے کے لیے سرنگ کی طرح راہ بنا لی۔ ۸۸*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا لاؤ ہمارا کھانا۔ اس سفر سے تو ہمیں بڑ ی تکان ہو گئی۔ ۸۹*

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا آپ نے دیکھا نہیں جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے تو مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور یہ شیطان ہی ہے جس نے مجھے ایسا بھلاوے میں ڈال دیا کہ میں اس کا ذکر نہ کر سکا۔ اس نے سمندر میں جانے کی راہ عجیب طریقہ سے نکال لی۔ ۹۰*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے (موسیٰ نے) کہا یہی تو ہم چاہتے تھے۔ ۹۱* پھر وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے۔ ۹۲*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے خاص علم عطا کیا تھا۔ ۹۳*

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ رشد (معاملہ فہمی) کی جو تعلیم آپ کو دی گئی ہے اس میں سے آپ کچھ مجھے بھی سکھائیں۔ ۹۴*

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ ان باتوں پر کس طرح صبر کر سکیں گے جو آپ کے دائرہ علم سے باہر ہیں۔ ۹۵*

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے (موسیٰ نے) کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں بھی آپ کی نا فرمانی نہیں کروں گا۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر نہ کروں۔ ۹۶*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس نے اس میں شگاف کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے اس میں شگاف کر دیا تاکہ کشتی والوں کو غرق کر دیں۔ یہ تو آپ نے عجیب حرکت کی۔ ۹۷*

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے ؟

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا بھول چوک پر گرفت نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں سختی سے کام نہ لیجئے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ انہیں ایک لڑ کا ملا اس نے اسے قتل کر دیا۔ موسیٰ نے کہا آپ نے ایک بے گناہ کو قتل کر دیا حالانکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی۔ آپ نے یہ بڑ ی ہی ناروا حرکت کی۹۸*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا کیا میں نے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہ کر سکیں گے۔ ؟

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا اگر اس کے بعد میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھے میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے ان کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا۔ ۹۹* وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ اس نے اس دیوار کو کھڑ ا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کی اجرت لے لیتے۔ ۱۰۰*

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی کی بات ہوئی۔ ۱۰۱* اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کر دوں کیوں کہ آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ ۱۰۲*

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑ کے کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے والدین مؤمن تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں کہیں تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کی جگہ ان کو ایسی اولاد دے جو اس کے مقابلہ میں پاکیزگی کے لحاظ سے بھی بہتر ہو اور ہمدردی میں بھی بڑ ھ کر ہو۔ ۱۰۳*

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ آپ کے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ ۱۰۴* یہ آپ کے رب کی رحمت سے ہوا۔ میں نے جو کچھ کیا اپنے اختیار سے نہیں کیا۔ ۱۰۵* یہ ہے ان باتوں کی حقیقت جس پر آپ صبر نہ کر سکے۔ ۱۰۶*

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ تم سے ذو القرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ۱۰۷* کہو اس کا کچھ حال تمہیں سناتا ہوں۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو زمین میں اقتدار بخشا تھا اور ہر طرح کے اسباب و وسائل عطا کئے تھے۔ ۱۰۸*

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس نے ایک مہم کے لیے سرو سامان کیا۔

۸۶َََ1َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام تک پہنچ گیا۔ وہاں اس نے سورج کو سیاہ چشمہ میں ڈوبتے ہوئے دیکھا۱۰۹* اور اس کے پاس اس کو ایک قوم ملی۔ ۱۱۰* ہم نے کہا اے ذو القرنین!چاہو انہیں سزا دو چاہو ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ۱۱۱*

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا جو ان میں سے ظلم کرے گا اس کو ہم سزا دیں گے۔ ۱۱۲* پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت عذاب دے گا۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لیے اچھا بدلہ ہے اور ہم اس کو ایسی باتوں کا حکم دیں گے جو آسان ہوں۔ ۱۱۳*

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے ( ایک اور مہم کے لیے) سر و سامان کیا۔ ۱۱۴*

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام تک پہنچ گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہے جس کے بالمقابل ہم نے کوئی آڑ نہیں رکھی ہے۔ ۱۱۵*

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے (اس کو اس قوم پر بھی غلبہ عطا) کیا اور اس کے پاس جو کچھ تھا اس سے ہم پوری طرح با خبر تھے۔ ۱۱۶*

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے (تیسری مہم کا) سر و سامان کیا۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب وہ دو ( پہاڑوں کی) دیواروں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے اِس طرف ایک ایسی قوم ملی جو کوئی بات سمجھ نہیں پاتی تھی۔ ۱۱۷*

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے کہا اے ذو القرنین! یاجوج و ماجوج اس ملک میں فساد مچاتے ، میں تو کیا ہم آپ کے لیے خراج مقرر کر دیں تاکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں۔ ۱۱۸*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میرے رب نے جو کچھ میرے قبضہ میں دے رکھا ہے وہ بہتر ہے۔ تم قوت سے میری مدد کرو میں تمہارے اور ان کے درمیان دیوار بنا دیتا ہوں۔ ۱۱۹*

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس لوہے کے ٹکڑ ے لاؤ یہاں تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو بھر دیا تو حکم دیا کہ اس کو دھونکو یہاں تک کہ جب اس کو بالکل آگ ( کی طرح سرخ) کر دیا تو اس نے کہا لاؤ اب اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں۔ ۱۲۰*

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( اور جب دیوار بن گئی) تو یاجوج و ماجوج نہ اس پر چڑ ھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے۔ ۱۲۱*

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا یہ میرے رب کی مہربانی ہے۔ پھر جب میرے رب کا وعدہ ظہور میں آئے گا تو اسے خاک میں ملا دے گا اور میرے رب کا وعدہ بالکل سچاہے۔ ۱۲۲*

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس دن ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ وہ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرائیں ۱۲۳* اور صور پھونکا جائے گا اور ہم سب کو جمع کریں گے۔ ۱۲۴*

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن ہم کافروں کے سامنے جہنم پیش کریں گے ۱۲۵*

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جن کی آنکھوں پر پردہ پڑ ا رہا اور وہ کوئی بات سن نہیں سکتے تھے۔ ۱۲۶*

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا۱۲۷* ان کافروں نے یہ خیال کر رکھا کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنا لیں گے۔ ہم نے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ ۱۲۸*

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ تباہ حال لوگ کون ہیں ؟

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جن کی کوششیں اس دنیا کی زندگی میں کھوئی گئیں اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ بڑ ا اچھا کام کر رہے ہیں۔ ۱۲۹*

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس کی ملاقات کا انکار کیا۔ لہٰذا ان کے اعمال اکارت گئے اور قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ ۱۳۰*

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کی جزا ہو گی جہنم۔ اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا تھا اور میری آیتوں اور رسولوں کو مذاق بنا لیا تھا۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (البتہ) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کی ضیافت کے لیے فردوس کے باغ ہوں گے۔ ۱۳۱*

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں سے کبھی جانا نہ چاہیں گے۔ ۱۳۲*

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے گا قبل اس کے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم اس جیسے اور سمندر کا اضافہ کریں۔ ۱۳۳*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میں تو تم ہی جیسا ایک بشر ہوں۔ مجھ پر وحی آتی ہے ۱۳۴* کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے تو جو کوئی اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ ۱۳۵*

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کجی (ٹیڑھ) نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں کوئی بات بھی ایسی نہیں جو عقل و فطرت اور عدل و صداقت سے ہٹی ہوئی ہو۔ یہ فلسفیانہ ایچ پیچ، تضاد بیانی اور دور از کار باتوں سے بالکل پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم الطبع اور خیر پسند لوگوں کے دلوں میں قرآن بہ آسانی اتر جاتا ہے۔ اس شان کی کتاب اتارے جانے پر اس کا مصنف (خدا) تعریف و ستائش کا مستحق ہے۔ اس کتاب کا جمال اس کے مصنف کے جمال پر اور اس کا کمال اس کے مصنف کے کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اپنے ایک ایسے بندہ پر اس کا نزول جو رسمی تعلیم سے بالکل نا آشنا تھا اس کے کمالِ حکمت کی روشن نشانی ہے۔

قرآن کی اس امتیازی خصوصیت کا اندازہ آدمی کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں کو دیکھتا ہے اور یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ ان میں خدا اور مذہب کے تعلق سے کیسی الجھی ہوئی متضاد اور فلسفیانہ ایچ پیچ والی باتیں پیش کی گئی ہیں جب کہ قرآن کی تعلیمات نہایت سادہ اور دل میں اترنے والی ہیں۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سیدھی راہ دکھانے والی اور صحیح اور محکم تعلیمات پر مشتمل۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں قرآن کو نازل کرنے کے دو اہم ترین مقاصد بیان کئے  گئے ہیں۔ ایک یہ کہ غفلت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو عذابِ الہٰی سے آگاہ کرنا اور دوسرے ایمان اور نیک عملی کی زندگی اختیار کرنے والوں کو اچھے اجر کی خوشخبری سنانا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دو گونہ فرائض انجام دیئے۔ اب آپ کی نیابت میں اس امت پر بھی ان دونوں کاموں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ قرآن کی فہمائش جہاں مسلمانوں کو کرنا ہے وہاں پوری انسانیت کو قرآن کی تنبیہات سے آگاہ کرنا ہے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ متنبہ کر دے جو اللہ کے لیے اولاد ہونے کے قائل ہیں اشارہ خصوصیت کے ساتھ نصاریٰ کی طرف ہے جو حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ ویسے یہ تنبیہ عمومیت کے ساتھ ان سب کے لیے ہے جو کسی نہ کسی شکل میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے مثال کے طور پر مشرکین مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ خدا کے لیے بیٹا یا اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے پاس اس دعویٰ کے پیچھے کوئی علمی دلیل نہیں ہے۔ خدا کے بارے میں انسان کو علم یا تو اس شعور کی بنا پر ہوتا ہے جو انسان کی فطرت کے اندر ودیعت ہوا ہے۔ یا ان نشانیوں کے ذریعہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس میں رکھی ہیں یا پھر وحی کے ذریعہ جو وہ انبیاء علیہم السلام پر بھیجتا ہے اور جس کی نمایاں ترین شکل کتاب الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ کے بارے میں جاننے کا ذریعہ انسان کے پاس کوئی نہیں۔ ان تینوں ذریعوں میں سے کوئی ذریعہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہو کہ خدا اولاد رکھتا ہے بلکہ ہر ذریعہ اس کی نفی کرتا ہے۔ پھر کس بنیاد پر لوگ خدا کے لیے اولاد یا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ؟ رہی ان کی یہ بات کہ یہ عقیدہ باپ دادا سے چلا آ رہا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا کے اولاد ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے باپ دادا بھی ویسے ہی جہالت کی باتیں کرتے تھے جیسے یہ کرتے ہیں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کے بارے میں اولاد کی بات کہنا لوگ آسان خیال کرتے ہیں اور کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالانکہ کسی بھی عیب اور کمزوری کو اللہ کی طرف منسوب کرنا سنگین گناہ ہے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کے لیے بڑ ے خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان نہ لانے کا آپ کو کس قدر صدمہ تھا۔ آپ ایک درد مند انسان تھے اس لیے یہ کس طرح گوارہ کر سکتے تھے کہ آپؐ کی قوم عذاب سے دوچار ہو جائے مگر تنبیہ اور نصیحت کے بعد بھی لوگ اپنے کو نذر آتش کرنا چاہتے ہوں تو ان پر افسوس کرنے سے کیا حاصل۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے سلسلہ میں تم اپنا فرض ادا کر چکے ہو اب اگر یہ نہیں ماننے تو ان کے ایمان نہ لانے کے غم میں تم نہ گھلو۔ اس میں جہاں رسول کی اپنی قوم سے درد مندی کا اظہار ہے وہاں ایمان نہ لانے والوں پر عتاب بھی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہے کہ انہیں سمجھایا جائے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا ہے تو پُر بہار مگر وہ سدا بہار نہیں ہے۔ اور اس کو پُر کشش اس لیے بنا دیا گیا ہے کہ نوع انسانی کی آزمائش ہو کہ کون اس کی دلفریبیوں میں آ کر دنیا کا پرستار بنتا ہے اور کون عقل و فکر اور صبر و ضبط سے کام لیکر اور خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اپنے کو بہترین اوصاف کا انسان ثابت کر دکھاتا ہے۔ اور اس دوسری قسم کے انسانوں ہی کو سدا بہار جنت میں بسایا جائے گا۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن اس زمین کی ساری بہار ختم ہو کر رہ جائے گی۔ انسان جو کچھ اس پر تعمیر کرتا اور بناتا رہا ہے وہ سب مٹی میں مل جانے والا ہے۔ قیامت کا دھماکہ انسان کی ساری مادی اور تمدنی ترقیوں کو ملیامیٹ کر کے رکھ دے گا۔ پھر ایسی چیز کو مقصود بنانے سے کیا فائدہ؟

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحابِ کہف کا قصہ عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں سے تعلق رکھتا تھا لیکن یہ اس قدر مشہور ہو گیا تھا کہ اہل مکہ بھی جاننے لگے تھے اور اس کو ایک عجیب و غریب واقعہ خیال کرتے تھے۔ چونکہ یہ واقعہ انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کی ایک نمایاں مثال ہے اس لیے قرآن نے اس کے ضروری پہلو اجاگر کئے۔

اس ہی عربوں سے خطاب کر کے قرآن نے سوال قائم کیا کہ کیا تم اصحاب کہف کے واقعہ کو عجیب خیال کرتے ہو حالانکہ یہ واقعہ قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک نشانی کا ظہور تھا جو انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے پر دلالت کرتا ہے۔ تم واقعہ کے ظاہری پہلو کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے مگر اس کے اندر دوسری زندگی کے وقوع پر دلالت کرنے والی جو رہنمائی تھی اس سے تم نے آنکھیں بند کر لیں۔

کہف کے معنیٰ عربی میں وسیع غار کے ہیں اور رقیم کے معنیٰ تحریر کے ہیں اس مناسبت سے الرقیم سے مراد مفسرین کے ایک گروہ کے نزدیک کتبہ ہے جو ان کے بقول اصحاب کہف کی یادگار کے طور پر غار پر لگایا گیا تھا۔ اور جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام اِفِسس (Ephesus) بتلایا جاتا ہے جو رومیوں کا ایک بڑ ا شہر تھا اور موجودہ ٹرکی میں واقع تھا۔ جس ظالم حکمراں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اصحاب کہف نے پناہ لی تھی اس کا نام دقیانوس بتلایا جاتا ہے جس کا زمانہ تیسری صدی عیسوی تھا۔ موجودہ دور کے ایک مفسر نے الرقیم سے نبطیوں کا مشہور تاریخی شہر پٹیرا (بطرا) مراد لیا ہے لیکن یہ تمام تفصیلات عیسائیوں کی روایات سے ماخوذ ہیں جن میں قصہ گوئی اور قیاس آرائی کا بہت زیادہ دخل ہے۔ اسی لیے قرآن نے آیت۴۲ میں یہ واضح حکم دیا تھا کہ اصحابِ کہف کے بارے میں ان لوگوں سے (خواہ مشرک ہوں یا نصاریٰ) کچھ نہ پوچھا جائے۔ البتہ ایک جدید تحقیق جو استاد محمد تیسیر ظبیان نے اردن کے دائرۃ الآثار العامۃ کے تعاون سے پیش کی ہے وہ بڑ ی حد تک اس غار پر منطبق ہوتی ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔ فاضل محقق نے اپنی کتاب ” اہل الکہف” میں اس پر محققانہ بحث کی ہے اور یہ کتاب جو عربی میں ہے دارالاعتصام مصر سے شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق کی رو سے یہ غار (اردن کے دارالحکومت) سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر الرجیب میں واقع ہے اور یہ الرجیب ہی الرقیم کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ حکومت اردن کے دائر آثار عامہ نے کھدائی وغیرہ کا جو کام کیا اس کے بعد حقائق بالکل ابھر کر سامنے آ گئے ہیں جو مختصراً درج ذیل ہیں :

۱) یہ غار جنوب شمال جہت واقع ہے اور سورج مشرق اور مغرب کی سمت میں غار سے کترا کر نکل جاتا ہے۔

۲) غار اندر سے کشادہ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہم فی فجوۃ منہ۔

۳) غار کے اندر آٹھ قبریں ہیں۔

۴) غار کے اوپر مسجد کے کھنڈر ہیں مسجد کا ذکر آیت ۲۱ میں ہوا ہے۔ اس مسجد کے سات ستون ہیں جو غالباً اصحاب کہف کی تعداد کی مناسبت سے قائم کئے گئے تھے۔

۵) شمالی دیوار پر ایک جانور کی تصویر بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں ماہرین آثار کا کہنا ہے کہ یہ کتے کی تصویر ہے علاوہ ازیں دیوار پر فینقی اور قدیم یونانی خط میں کچھ باتیں کندہ ہیں۔

۶) اصحاب کہف کے غار میں پناہ لینے کا واقعہ دقیانوس کے زمانہ کا نہیں بلکہ تراجان کے زمانہ کا ہے جس نے ۹۸ء تا ۱۱۷ء میں حکومت کی اور ۱۰۹ء میں اس نے شرق اردن فتح کر لیا تھا۔ یہ حکمراں بڑ ا ظالم تھا اور جو شخص بھی بت پرستی سے اور بتوں کے آگے قربانیاں پیش کرنے سے انکار کرتا اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا اس کے زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت مظالم ڈھائے  گئے۔ اس کے عہد کے بیزنطینی سکے بھی اس غار میں ملے ہیں۔

۷) مسلم مورخین کے اقوال سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ غار عمان کے قریب واقع ہے چنانچہ مقدسی کی کتاب احسن التقاسیم میں ہے ” الرقیم شرقِ اردن میں عمان سے قریب ایک شہر ہے ” اور یاقوت حموی معجم البلدان میں لکھتے ہیں ” عمان شام کے اطراف میں ایک شہر ہے اور یہ سر زمین بلقاء کا بڑ ا شہر رہا ہے اس کے قریب ہی کہف اور الرقیم واقع ہیں۔ ” ( ان تمام تفصیلات کے لیے دیکھئے محمد تیسیرظبیان کی کتاب اہل الکہف) ۔

ہماری رائے میں یہ تحقیق نہایت وقیع اور مسیحی روایتوں اور کمزور اقوال کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہے۔ کہف اور الرقیم کے سلسلہ میں چونکہ یہ نیا انکشاف ہے اس لیے ہمیں اس کی تشریح میں کسی قدر طوالت سے کام لینا پڑ ا۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تعداد کی تفصیلات میں گئے بغیر یہ جان لینا کافی ہے کہ وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنے ایمان کے تحفظ کے لیے غار میں پناہ لی تھی۔ ایک ظالم بستی میں سے چند نوجوانوں کا پوری قوتِ ایمانی کے ساتھ اٹھ کھڑ ے ہونا ان کی حمیتِ حق اور بلند حوصلگی کی علامت ہے اور یہ چیز نوجوانوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے دین کے تحفظ اور اپنے دعوتی کام کے لیے اللہ سے مدد اور رہنمائی کے طالب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جس طرح مدد اور رہنمائی کی وہ بعد کے واقعات سے ظاہر ہے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو کئی سال تک غار میں سلائے رکھا۔ کانوں کو تھپکنا سلانے کے لیے استعارہ ہے چنانچہ بعد کی آیت میں ان کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر نیند طاری کر دی گئی تھی نیز آیت۱۸ میں بھی یہ صراحت ہے کہ وہ سو رہے تھے۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو گروہ سے مراد ایک تو اصحاب کہف کا گروہ ہے اور دوسرا ان لوگوں کا جن سے ان کو اٹھنے کے بعد واسطہ پڑ ا۔ جہاں تک اصحاب کہف کا تعلق ہے وہ اپنی مدت قیام کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے بلکہ جیسا کہ آیت۱۹ سے واضح ہے انہوں نے یہ محسوس کیا کہ ہم نے چند گھنٹے ہی سو کر گزارے ہیں۔ رہے شہر کے لوگ جن سے ان کو اٹھنے کے بعد واسطہ پڑ ا تو وہ سکہ وغیرہ دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ غار میں طویل مدت تک سوتے رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ طویل مدت تک ان کا پڑ ے رہنا ایک واقعہ تھا مگر اس کا احساس خود پڑ ے رہنے والوں کو نہ ہو سکا۔ گویا یہ برزخ کی زندگی کی مثال تھی جہاں انسان طویل عرصہ تک پڑ ا رہے گا لیکن قیامت کے دن جب اسے اٹھایا جائے گا تو ایسا محسوس ہو گا کہ اس نے چند گھنٹے ہی عالم برزخ میں گزارے ہیں۔ وقت کی طوالت کا احساس نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کی موت ہو گئی اس کی گویا قیامت قائم ہو گئی اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے واقعہ سے اسی حقیقت کو ظاہر کر دیا ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیتوں میں اس سر گزشت کا لب لباب پیش کیا گیا تھا اب اس کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔

اس سر گزشت کو ٹھیک ٹھیک سنانے کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے سلسلہ میں جو اٹل پچو باتیں کہی جا رہی ہیں ان کے مقابلہ میں قرآن کا بیان خالصۃً حقیقت واقعہ کا بیان ہے اور اس کا ایک ایک لفظ سچائی کا آئینہ دار ہے نیز اپنے پہلو میں مقصدیت لئے ہوئے ہے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ ہدایت میں افزونی اور ترقی بھی ہوتی ہے اور یہ افزونی اور ترقی اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحابِ کہف کا یہ اعلان توحید تھا اور چونکہ انہوں نے نہایت پُر خطر حالات میں اس کا اعلان کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط کر دیا اور ان کے حوصلے بلند کر دئے چنانچہ انہوں نے بت پرستی سے ڈر کر بت پرستی کے ساتھ کوئی مصالحت نہیں کی اور غیر اللہ کو معبود ماننے سے صاف صاف انکار کر دیا۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کی قوم مشرک تھی۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرک اور برت پرستی بالکل بے بنیاد ہے۔ اگر اس کی کوئی دلیل ہے تو پھر بتوں کے پرستار اسے پیش کیوں نہیں کرتے۔ اور اے بے دلیل بات وہ دوسروں سے کیوں منوانا چاہتے ہیں۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ عقیدہ کہ خدا نے اپنی خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھہرایا ہے یا خدائی کے اختیارات ان میں تقسیم کر دیئے ہیں یا ان کو لائق پرستش قرار دیا ہے سراسر جھوٹ اور اللہ پر بہتان ہے کیونکہ اللہ نے کبھی ایسی کوئی بات نہیں کہی پھر جو جھوٹ اللہ پر بولا جائے وہ کتنی سنگین نوعیت کا ہو گا اور اس کا مرتکب کتنا بڑ ا مجرم ہو گا۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غار میں پناہ لینے کا فیصلہ انہوں نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر کیا تھا جبکہ آیت ۲۰ سے واضح ہے۔ ان کی قوم بت پرست بھی اور عقیدہ و مذہب کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتی تھی اور حکومت ایسی ظالم تھی کہ ایک خدا کو ماننے اور بت پرستی سے انکار کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتارتی تھی۔ ان حالات میں اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو بچانے کے لیے غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اصل چیز اپنے ایمان اور دین کا تحفظ ہے اور اگر حالات اتنے سنگین ہوں کہ یہ متاع عزیز ہی خطرہ میں پڑ جائے تو ایک مؤمن اس کے تحفظ کے لیے ہجرت کی راہ اختیار کر سکتا ہے یا کسی غار وغیرہ میں بھی پناہ لے سکتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لیے حدیث میں آیا ہے : ” قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال اس کی بھیڑیں ہوں جن کو لیکر وہ پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی ایسے گوشہ میں جہاں خوب بارش ہوتی ہو چلا جائے تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا سکے۔ ” (بخاری کتاب الایمان)

واضح رہے کہ اس کا کوئی تعلق نہ رہبانیت سے ہے اور نہ صوفیوں کی عزلت نشینی سے بلکہ یہ ایسے پُر فتن حالات کے لیے ہے جبکہ اپنے ایمان اور دین کو بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عربی کا اسلوب یہ ہے کہ جب کسی گروہ کے افراد آپس میں ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہیں تو تم اور تمہارا کی ضمیریں استعمال کرتے ہیں جبکہ اردو میں ایسے موقع پر ہم اور ہمارا کی ضمیریں استعمال کی جاتی ہیں۔ عربی کے اس اسلوب کو اگر سامنے نہ رکھا جائے تو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ خطاب کرنے والا آپس کا آدمی نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

اصحاب کہف نے اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی کہ جب ہم نے خدائے واحد ہی کو معبود مانا ہے اور شرک اور مشرکین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے ضرور نوازے گا اور جس کام کو لیکر ہم اٹھے ہیں اس میں وہ ہماری ضرور مدد کرے گا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ جس غار میں پناہ گزیں ہوئے وہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ سورج کی روشنی اندر کی کشادہ جگہ میں جس میں وہ پڑ ے سو رہے تھے نہیں پہنچتی۔ مطلب یہ کہ غار جنوب شمال جہت کو ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی اس بات کی کہ جو اللہ پر توکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ اصحاب کہف کی ایک ایسے غار کی طرف رہنمائی جو ان نازک حالات میں ان کے تحفظ کے لیے ہر طرح موزوں تھا اور جس میں ان کو سکون میسر آیا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی نازک مواقع پر مدد کرتا اور رہنمائی فرماتا ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اس طرح سو رہے تھے اور ساتھ ہی کروٹیں بدلتے جاتے تھے کہ اگر اتفاق سے کوئی شخص انہیں دیکھ لیتا تو یہی خیال کرتا کہ یہ بس لیٹے ہوئے ہیں اور جاگ رہے ہیں اور ان کا کتا بھی غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر اس تاریک غار میں کوئی شخص جھانک کر دیکھ لیتا تو یہ منظر ایسا دہشتناک تھا کہ دیکھنے والا الٹے پاؤں بھاگ جاتا۔ وہ اندیشہ محسوس کرتا کہ معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اس تاریک غار میں چھپ گئے ہیں اور ان کے ارادے کیا ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ دہشتناک صورت اس لیے پیدا کر دی تھی کہ کوئی شخص ان کے قریب آنے کی جرأت نہ کرے اور وہ بالکل محفوظ رہیں۔ ان کی حفاظت کا یہ غیر معمولی سامان تھا جو کیا گیا۔

کتا انہوں نے اس ویرانے میں اپنی حفاظت کے لیے ساتھ رکھا تھا جو ایک جائز غرض تھی اس لیے شرعاً اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس غیر معمولی حالت میں سلانے کی بعد انہیں اٹھایا۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ ایک دوسرے سے یہ معلوم کریں کہ وہ کتنی دیر سوتے رہے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی آپس کی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ وہ اپنے نیند کی حالت میں پڑ ے رہنے کا صحیح اندازہ نہ کر سکے۔ ایک نے اندازہ لگایا تو ایک دن یا اس سے کم کا اور جب وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے تو انہوں نے اس معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دیا کہ وہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے عرصہ تک اس حال میں پڑ ے رہے۔

در حقیقت وہ ایک طویل عرصہ تک پڑ ے رہے مگر جب جاگ اٹھے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا ایک دن یا اس سے بھی کم وقت انہوں نے سونے میں گزارا ہے۔ ان کا یہ واقعہ عالم برزخ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک نشانی ہے۔ انسان مرنے کے بعد طویل عرصہ تک عالم برزخ میں پڑ ا رہے گا اور جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اسے ایسا محسوس ہو گا کہ ایک دن یا چند گھنٹے ہی وہ اس حالت میں پڑ ا رہا۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاگنے کے بعد انہیں کھانے کی اشتہاء ہوئی اس لیے انہوں نے اپنے ایک آدمی کو سکہ دے کر جو چاندی کا تھا شہر میں بھیجنا چاہا اور اسے یہ ہدایت کی کہ تحقیق کر کے پاکیزہ کھانا لے آئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ شہر کا ماحول وہی مشرکانہ ہے جس کو چھوڑ کر وہ آئے تھے اور ایک مشرکانہ سوسائٹی میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ بتوں کے نام کا ذبیحہ بھی ہو سکتا ہے اس لیے انہوں نے پاکیزہ یعنی حلال کھانے کی تاکید کی۔ اس سے ان کی پاکیزگی نفس کا اندازہ ہوتا ہے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جس قوم کو وہ چھوڑ آئے تھے وہ کیسی ظالم تھی۔ ان کے نزدیک ان کے مشرکانہ مذہب کو ترک کر دینے کی سزا موت تھی نیز یہ کہ وہ اپنے مذہب میں واپس لانے کے لیے جبر کرتے تھے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ شخص جب پرانے زمانہ کا سکہ لیکر کھانا خریدنے کے لیے گیا تو راز کھل گیا کہ یہ لوگ طویل مدت تک غار میں پڑ ے سوتے رہے ہیں اور اب جاگ اٹھے ہیں۔ یہ وہ اسباب تھے جو اللہ نے لوگوں کو ان کے حال سے واقف کرانے کے لیے کئے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بے نقاب کرنے کا سامان اس لیے کیا تاکہ قیامت کے بارے میں لوگوں کے شبہات دور ہوں اور انہیں یقین ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ اگر اللہ کے کرشمۂ قدرت سے انسان لمبی مدت تک سوتے رہنے کے بعد اٹھ سکتا ہے تو اس کے کرشمۂ قدرت سے وہ مرنے کے بعد کیوں نہیں اٹھ سکتا؟ اگر اس دنیا میں خلافِ معمول ( خارق عادت) واقعہ ظہور میں آ سکتا ہے تو اس دنیا کے خاتمہ پر دوبارہ اٹھائے جانے کا خلافِ معمول واقعہ کیوں نہیں پیش آ سکتا؟

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فحوائے کلام ( انداز بیان) سے واضح ہے کہ اس کے بعد اصحابِ کہف کا انتقال ہو گیا اور ان کے انتقال پر یہ غیر ضروری بحث چھڑ گئی کہ ان کو کس طرح دفن کیا جائے اور ان کی یادگار کس طرح قائم کی جائے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت حکومت بھی بدل چکی تھی اور عوام کا دین بھی۔ عوام اور حکومت دونوں نے نصرانیت قبول کر لی تھی اس لیے اصحاب کہف سے دونوں کو عقیدت ہو گئی تھی کہاں تو وہ ماحول کہ عوام اور حکومت دونوں ان کو سنگسار کرنے کے درپے تھے اور کہاں یہ ماحول کہ دونوں ان کے عقیدت مند ہو گئے۔ اور جب عقیدت مند ہو گئے تو اعتدال باقی نہ رہا۔ ان کو مرجع بنانے کے لیے ان کی قبروں کے اوپر مسجد ( عبادت گاہ) کی تعمیر ضروری سمجھی گئی۔

اگرچہ ان لوگوں میں ایک گروہ ایسا موجود تھا جس کا اندازِ فکر صحیح تھا اور اس نے یہ مناسب تجویز پیش کی تھی کہ ان کی لاشوں کو غار ہی میں رہنے دیا جائے اور غار کے دہانے پر دیوار کھڑ ی کر دی جائے تاکہ وہ اس میں مدفون ہوں اور ان کے معاملہ کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے جو ان کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ ہم فرطِ عقیدت میں کوئی ناروا کام نہ کر بیٹھیں مگر موحدین کی یہ تجویز ان لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوئی جن کے ہاتھ میں کلیسا کا اقتدار اور حکومت کی باگ ڈور تھی۔ انہوں نے اپنی بگڑ ی ہوئی ذہنیت اور بدعت پرستانہ طبیعت کے پیش نظر اس بات کا فیصلہ کیا کہ ان کی قبروں پر یعنی غار کے اوپر ایک عبادت گاہ تعمیر کی جائے تاکہ ان سے عقیدت کا اظہار ہو۔

قبروں سے یہی وہ عقیدت ہے جو قبر پرستی اور گمراہی کی طرف لے جاتی ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے اور مسجدیں بنانے کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔

لَعَنَ اللّٰہ الیہود و النصاریٰ اِتخذُوْاقُبُوْرَ اَنْبِیَاءِ ہِمْ مَسْجِداً۔ (بخاری کتاب الجنائز) ” اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ ” اُولٰئِکَ اِذَا مَاتَ مِنھُمْ الرَّجْلُ الصالِحُ بَنَوا عَلٰی قبرہٖ مسجدًا وصَوَّرُوْافیہ تِلْکَ الصُّوَرَاُوْلئِکَ شرارُ اَلْخَلْقِ عندَ اللّٰہِ۔ (بخاری کتابُ الجنائز) ” ان لوگوں میں جب کوئی نیک شخص مر جاتا تو اس کی قبر پر وہ عبادت گاہ ( مسجد) بناتے اور اس میں اس کی تصویریں بناتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔ ”

نَہٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم اَنْ یُّجصَّصَ الْقَبْرُ و انیٍّ قعَدَ عَلیْہِ وَ اَنْ یُبْنٰی عَلَیْہِ۔ (مسلم کتاب الجنائز) ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کو چونے سے پختہ کرنے ، اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے۔ ”

ان حدیثوں کے پیش نظر بزرگوں کی قبروں پر شاندار مقبروں اور درگاہوں کی تعمیر اسلامی تعلیمات کے صریح خلاف اور قبر پرستی اور گمراہی کا باعث ہے۔

بعض حضرات نے اس آیت کا غلط مفہوم لیا ہے اور وہ اس آیت کو بزرگوں کی قبروں پر مسجد تعمیر کرنے کے جواز میں پیش کرتے ہیں لیکن حدیث نبوی کی صراحت کے بعد ان کا یہ استدلال بالکل باطل ہے چنانچہ علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان پر سخت گرفت کی ہے اور ان کی الٹی منطق کا خوب جائزہ لیا ہے اور واضح طور پر صلحاء کی قبروں پر عمارت بنانے کے جواز کو باطل اور فاسد قول قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی ج۵ ص ۲۳۷) ۔

آیت کو اگر پوری طرح ملفوظ رکھا جائے تو اس کا یہ منشا واضح ہو گا کہ اصحابِ کہف کو طویل مدت کے بعد اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر ایک نشانی لوگوں کے لیے فراہم کر دی تھی اس لیے چاہیے تھا کہ وہ اپنی نگاہوں کو اس پر مرتکز کرتے اور اصحاب کہف کے تعلق سے جب گفتگو کرتے تو اسی نقطہ کو اصل موضوع کو چھوڑ کر ان کی یادگار قائم کرنے کو موضوع بنا لیا۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں کو اصل مقصد سے لگاؤ نہیں تھا اور جو اس واقعہ سے کوئی سبق حاصل کرنا نہیں چاہتے تھے انہوں نے اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے بارے میں غیر ضروری بحث چھیڑ دی تھیں۔ قرآن نے ان کی ان بحثوں کا جواب دیئے بغیر جچے تلے انداز میں سر گزشت سنائی اور سبق آموز پہلوؤں کو نمایاں کیا ساتھ ہی اہل ایمان کو ہدایت کی کہ ان بحثوں سے سرسری طور سے گزریں اور ان میں الجھیں نہیں۔

تعداد کے بارے میں قرآن نے تیسرے قول کو (کہ ان کی تعداد سات تھی) پہلے دو اقوال کی طرح رد نہیں کیا اور نہ اس کے صحیح ہونے کی صراحت کی بلکہ فرمایا کہو میرا رب ہی ان کی تعداد کو بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی کاوش کے بغیر اسی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔

معلوم ہوتا ہے اصحاب کہف کے قصہ نے اس زمانہ میں ہی افسانہ کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔ قرآن نے اس کی اصل حقیقت کو جو افسانوں میں دب گئی تھی منظر عام پر لانے کے بعد اہل ایمان کو ہدایت کی کہ اب اس قصہ کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی لہٰذا کسی سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔ مگر افسوس ہے کہ قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود تفسیروں میں عیسائیوں کی افسانوی باتوں کو جگہ مل گئی یہاں تک کہ اصحاب کہف کے نام نیز ان کے کُتّے کا نام بھی بیان کر دیا گیا۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وثوق کے ساتھ یہ بات نہ کہو کہ میں فلاں کام میں کر دوں گا۔ تمہیں کیا معلوم کہ کل کیا صورت پیش آئے گی اور تمہارے لیے اس کا م کو انجام دینا ممکن ہو گا یا نہیں اس لیے تمہیں ایسے موقع پر اِنْ شَاء اللّٰہ کہہ دینا چاہیے جس کے معنی ہیں اگر اللہ نے چاہا۔ یہ استثناء اس بات کا اظہار ہے کہ اصل چیز اللہ کی مشیت ہے نہ کہ میرا اپنا فیصلہ اگر اس کی مشیت ہوئی تو میں فلاں کام کر سکوں گا ورنہ نہیں اسی لیے ایک مومن کا شعار یہ ہے کہ جب وہ کوئی وعدہ کرتا ہے یا کسی کام کے آئندہ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے تو ان شاء اللہ ضرور کہتا ہے۔

یہ تو ہوا آیت کا عمومی پہلو رہا سلسلۂ بیان کے لحاظ سے خاص پہلو تو یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہے کہ اگر لوگ کوئی سوال کریں جس کا جواب وحی الٰہی پر موقوف ہو تو یہ نہ کہو کہ کل میں اس کا جواب دوں گا اِلاّ یہ کہ ساتھ ہی یہ کہو اللہ نے چاہا تو۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو جب تمہیں یہ بات یاد آ جائے اس وقت اپنے رب کو یاد کرو تاکہ جو بھول ہو گئی تھی اس کی تلافی ہو جائے۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اصحاب کہف پر جس طرح اس نے رشد کی راہیں کھولیں امید ہے کہ اس سے بھی زیادہ رشد کی راہیں وہ مجھ پر کھولے گا۔ یہ جواب ہے مشرکین مکہ کو کہ تم نے ظلم و جبر کا طریقہ اختیار کر کے وہی حالات پیدا کر دئے ہیں جو اصحاب کہف کے لیے ان کی قوم نے پیدا کر دئے تھے لیکن میرا رب اس مرحلہ میں میرے لیے ان سے بھی زیادہ کامیابی کی راہیں کھولے گا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ عنقریب ہجرت کا معاملہ پیش آنے والا ہے ، چنانچہ کچھ ہی دنوں بعد یہ مرحلہ سامنے آ گیا اور آپ غار ثور میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہو گئے مگر غار میں آپ کو صرف تین دن گزارنا پڑ ے۔ اس کے بعد جب آپ مدینہ پہنچتے ہیں تو کامیابی کی راہیں آپ پر کھلتی چلی گئیں۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فقرہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اوپر تین سو نو سال کی مدت کا جو ذکر ہوا وہ لوگوں کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہے۔ اوپر آیت ۲۲ میں تعداد کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال کا ذکر ہوا تھا درمیان میں جملہ معترضہ  آیا اب پھر اسی سلسلہ بیان میں اصحاب کہف کے غار میں پڑ ے رہنے کی مدت کے بارے میں لوگوں کا قول نقل کیا گیا کہ وہ تین سو نو سال بتاتے ہیں مگر اس بحث میں پڑ نے کی ضرورت نہیں ہے جتنی مدت بھی رہے اللہ بہتر جانتا ہے۔

اس قصہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ یہ واضح فرما چکا ہے کہ وہ غار میں سالہا سال تک رہے (آیت ۱۱) یعنی وہ ایک طویل مدت تک غار میں سوتے پڑ ے رہے اور اتنی بات سبق آموزی کے لیے کافی ہے۔

اصحاب کہف کے متعلق سے بعض مفسرین نے کرامت کی بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے ذریعہ کسی غیر معمولی (خارق عادت) واقعہ کو ظہور میں لاتا ہے ایک حقیقت ہے جس کی مثال اصحاب کہف کا واقعہ بھی ہے اور حضرت مریم کا واقعہ بھی۔ یہ واقعات اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کی دلیل ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ کائنات پر اسی کی حکومت ہے اور وہ جب چاہے قوانین طبعی میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ رہیں وہ شخصیتیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کسی غیر معمولی واقعہ کو ظہور میں لاتا ہے تو یہ واقعات ان کے نیک ہونے کی علامت ضرور ہیں جن کی بنا پر ان کو یہ کرامت یعنی اعزاز بخشا گیا لیکن ان واقعات کو ظہور میں لانے میں ان کا اپنا دخل نہیں ہے۔ یعنی وہ اس معاملہ میں بالکل بے اختیار ہیں۔ کوئی کرامت وہ دعوے کے ساتھ دکھا نہیں سکتے جبکہ ایک رسول اللہ کے اذن سے دعوے کے ساتھ معجزہ دکھاتا ہے اسی لیے معجزہ اللہ کی کھلی حجت ہے۔ غرضیکہ کرامت کے بارے میں لوگوں کا یہ تصور کہ اولیاء اور بزرگان دین کرامتیں دکھاتے ہیں سراسر غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی کسی خاص مصلحت سے کسی نیک شخص کے ذریعہ کسی غیر معمولی واقعہ کو ظہور میں لاتا ہے۔ اور ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس شخصیت کو اس بات کی حبر بھی نہیں ہوتی کہ اس کے ذریعہ کوئی کرامت ظاہر ہو رہی ہے چنانچہ اصحاب کہف ایک طویل مدت تک سوتے رہے مگر ان کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ ان کے ذریعہ کرامت ظہور میں آ رہی ہے اور جب وہ جاگے ہیں تو اپنے سونے کی مدت کا صحیح اندازہ بھی نہیں کر سکے۔ پھر انہوں نے کرامت کیا دکھائی؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانی تھی جو ان کے ذریعہ ظاہر ہوئی۔ یہی ان کے لیے شرف اور کرامت ہے۔

واضح رہے کہ مسلمانوں میں اولیاء اور پیروں کی جو کرامتیں مشہور ہیں وہ زیادہ تر ان شخصیتوں سے غیر معمولی عقیدت پیدا کرنے کے لیے غلو پسند طبیعتوں نے گھڑ ی ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ ان بے سر و پا  قصوں نے مسلمانوں میں اولیاء پرستی کا ذہن پیدا کر دیا ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تین میں لفظ ” حُکم” استعمال ہوا ہے جس کے معنی فیصلہ کے بھی ہیں اور ان اختیارات کے بھی جن کے تحت فیصلے اور احکام صادر کئے جاتے ہیں۔ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اختیارات میں اس نے کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہے۔ توحید کی حقیقت یہ ہے کہ خدائی کے اختیارات ایک اللہ ہی کے لیے ہیں جبکہ شرک کا فلسفہ یہ ہے کہ خدائی کے اختیارات میں دوسرے بھی شریک ہیں اور جو شرک مسلمانوں میں اولیاء پرستی کی راہ سے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے خود ہی اپنے کچھ اختیارات اولیاء کو عطا کئے ہیں۔ اس شرک پر چونکہ اولیاء کی عقیدت کا لیبل لگا ہوا ہے اس لیے مسلمان آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔

اس عقیدہ کے باطل ہونے کے لیے یہ ایک آیت ہی کافی ہے جس میں واضح طور پر بیان کیا گیا کہ اللہ اپنے اختیارات میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن سنانے کا یہ حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا ہے یعنی مقصود صرف مسلمانوں کو سنانا نہیں بلکہ عام انسانوں کو سنانا ہے جو بھی قرآن سننے کے لیے آمادہ ہو۔

عربوں کی زبان عربی تھی اور قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے ان کو قرآن سنانا اللہ کے پیغام کو ان کی زبان میں ان تک پہنچانے کے ہم معنی تھا۔ اب جبکہ امت مسلمہ کو غیر عربی داں قوموں سے واسطہ ہے قرآن کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ ان کی زبان میں پہنچانا ہو گا۔ اسی صورت میں ان پر قرآن کی حجت قائم ہو سکے گی اور اللہ نے چاہا تو کتنوں ہی کو ہدایت بھی نصیب ہو گی۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کوئی ایسی طاقت نہیں جو اللہ کے فرمانوں کو بدل سکتی ہو۔ اس کا ہر حکم اٹل” ہر فیصلہ نافذ العمل اور ہر وعدہ پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ لہٰذا تم لوگوں کی خیریت اسی میں ہے کہ اس کے کلام میں کسی تبدیلی کی خواہش کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل دو اور اس سانچہ میں ڈھال لو جس سانچے میں کہ وہ تمہیں ڈھالنا چاہتا ہے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے ایمان لا کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت اختیار کر لی تھی ان میں بیشتر ایسے تھے جو نہ مالی وسائل رکھتے تھے اور نہ اثر و رسوخ مگر نہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت ایمان سے نوازا تھا اس لیے ان کی زندگیاں رضائے  الٰہی کی طلب میں بسر ہو رہی تھیں۔ دنیا پرست لوگ ان کو حقیر خیال کرتے تھے مگر وہ تھے قیمتی ہیرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ ان کی پوری پوری قدردانی کی جائے اور ان کی رفاقت کو اپنے لیے کافی خیال کر لیا جائے۔ ایسا ہرگز نہ ہو کہ ان کی طرف سے توجہ ہٹا کر ان لوگوں کو اہمیت دینے لگو جو مال و دولت اور دنیوی شان و شوکت کے مالک ہیں مگر اپنے رب سے غافل ہیں۔

اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر مقصود منکرین پر یہ واضح کرنا ہے کہ تمہیں اپنی شان و شوکت پر فخر ہے اور تم مخلص اہل ایمان کو حقیر خیال کرتے ہو مگر اللہ کی نظر میں قدر کے حقیقی مستحق تم نہیں بلکہ اس کے یہ مخلص بندے ہیں۔

اسلام نے نماز با جماعت کا جو طریقہ رائج کیا ہے اس کی ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی رفاقت میسر آئے اور ان کا یہ اجتماع عبادت الٰہی کا اجتماع ہو اور ان کی یہ مجلس ذکر الٰہی کی مجلس ہو۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب آدمی خدا کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اس کی یاد سے غافل کر دیتا ہے اور جب خدا کی یاد سے آدمی غافل ہو جاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا غلام بنکر رہ جاتا ہے اور جب خواہشات اس پر مسلط ہو جاتی ہیں تو معاملات میں بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اس طرح وہ عقل و فطرت کی رہنمائی سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور شریعت کی رہنمائی سے بھی۔

ایسے لوگوں کی اطاعت نہ کرے ( ان کے کہنے پر نہ چلنے) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رہنمائی کے مقابلہ میں ان کی رہنمائی کو اور اس کے احکام کے مقابلہ میں ان کے کسی حکم کو قبول نہ کیا جائے۔

اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ذکر الٰہی کا تعلق اصلاً دل سے ہے اور دل کسی حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اور اس قسم کی دوسری آیتیں اس باب میں صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کے معاملہ میں انسان پر جبر نہیں کیا ہے بلکہ اسے اختیار دیکر اس کی فہمائش کا سامان کیا ہے۔ اب وہ جس راہ کو چاہے اختیار کرے اپنے بھلے برے کا وہ خود ذمہ دار ہے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظالم سے مراد وہی خدا سے غافل لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اور آگ کی قناتوں سے مراد جہنم کی لپیٹیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم کی زد میں آ چکے ہیں اور اس سے کسی طرح بچ نہیں سکتے۔

سورج زمین سے کروڑ ہا میل کے فاصلہ پر ہے مگر اس کی حرارت زمین پر برابر پہنچتی ہے اور اگر اس کی کشش زمین کو اپنی طرف کھینچ لے تو زمین آگ کا گولہ بن جائے۔ جب مادی دنیا کا یہ حال ہے تو جو دنیا ہماری نظروں سے اوجھل ہے اس کی آگ کا یہ حال ہرگز قابل تعجب نہیں ہے کہ اس کی تپش اس دنیا میں منکرین تک پہنچ رہی ہے اور یہی وہ تپش ہے جو ان کے اخلاق و کردار کو خاکستر بنا رہی ہے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنت کے ماحول کو دنیا پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کی زندگی شاہانہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی ہو گی اس لیے مردوں کو سونے کے کنگن بھی پہنائے جائیں گے اور ریشم کے کپڑے بھی۔

سبز رنگ خوشنما بھی ہوتا ہے اور آنکھوں کے لیے ٹھنڈک کا باعث بھی اس لیے اس رنگ کا انتخاب نہایت موزوں انتخاب ہے اور ان باتوں کے اسرار تو جنت ہی میں کھلیں گے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کوئی فرضی مثال نہیں بلکہ سچا واقعہ ہے جو عبرت کے لیے بیان کر دیا گیا ہے۔ آگے آیت ۳۴ اور ۳۷ میں صراحت ہے کہ دو اشخاص کے درمیان گفتگو ہوئی تھی جو اس مثال کے واقعاتی مثال ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی نوازش اس طرح ہوئی تھی کہ اس نے ایک چھوڑ دو باغ عطا کئے تھے اور یہ باغ اعلیٰ قسم کے تھے۔ عربوں کے ہاں اعلیٰ قسم کا باغ انگوروں کا ہوتا تھا جس کے گرد کھجور کے درخت ہوتے تاکہ تیز و تند ہوا سے انگور کی بیلیں محفوظ رہ سکیں۔ اور درمیانی حصہ میں کھیتی ہوتی جس سے غلہ حاصل ہوتا۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس کی فخریہ باتیں تھے جو غرور اس کے دل میں تھا وہ دوران گفتگو ظاہر ہو گیا۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وسائل کی فراوانی کسی کو حاصل ہوتی ہے تو وہ دولت کے نشہ میں یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ کم از کم میری زندگی میں اس پر زوال آنے والا نہیں ہے۔ مالداروں کی یہی نفسیات ہوتی ہے اور یہ اطمینان انہیں خدا سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اول تو قیامت قائم ہو گی نہیں اور اگر ہوئی تو جس طرح دنیا میں نوازا گیا ہوں اسی طرح آخرت میں بھی نوازا جاؤں گا۔ یہ دولت مندوں کی ذہنیت ہے وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان کو جو دولت ملی ہے وہ آزمائش کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے ملی کہ وہ اسی کے مستحق تھے اور جب وہ دنیا میں اس کے مستحق ہوئے تو آخرت میں کس طرح مستحق نہیں ہوں گے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھی نے جو مؤمن تھا اس کو فہمائش کی۔ اس کی فخریہ اور متکبرانہ باتوں کو صریح کفر قرار دیا اور اسے دعوت فکر دی کہ جس ہستی نے اپنی کرشمۂ قدرت سے مٹی سے انسان پیدا کیا پھر پانی کی حقیر بوند سے اس کی نسل کا سلسلہ چلایا اور پھر تجھے مکمل انسان بنا کر کھڑ ا کیا اس کا تو ناشکرا بنتا ہے ؟۔

اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ ایک مؤمن دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تذکیر کے معاملہ میں موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کی گفتگو اس سے خالی نہیں ہوتی۔ اسے اپنے ساتھی کی اصلاح کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور وہ بات بات میں بڑ ے پتہ کی بات کہہ جاتا ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توحید کا اعلان اور شرک کی نفی تھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی باغ کو دیکھ کر تجھے اپنی بڑائی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ اللہ کے فضل کا اعتراف کرنا چاہیے تھا نیز اس بات کا اقرار و اظہار کہ اس کی کسی نعمت سے فائدہ اٹھانا اسی کی مدد پر موقوف ہے۔ نہ میرا اپنا بل بوتا ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا سکوں اور نہ کوئی اور طاقت ایسی ہے جو مجھے فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

اس آیت میں یہ تعلیم مضمر ہے کہ آدمی جب اپنے باغ، کھیت، کارخانہ وغیرہ میں داخل ہو تو پیداوار کے پر کشش منظر کو دیکھ کر اپنے رب کا شکر ادا کرے اور اس پر توکل کا اظہار کرے۔ اس مقصد کے لیے ماشاء اللہ لا قوۃ  الا باللہ کے کلمات نہایت موزوں ہیں۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بہتر نعمت عطا فرمائے گا اس میں اشارہ ہے آخرت کی جنت کی طرف جس کے مقابلہ میں دنیوی باغ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنے باغ پر اتنا ناز نہ کر۔ خدا سے ڈر کر کہ وہ کوئی آسمانی آفت نازل کر کے تیرے باغ کو تہس نہس کر سکتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس بات کا بھی تو امکا ن ہے کہ نہر کا پانی زمین میں اندر چلا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی حادثہ ایسا پیش آ سکتا ہے جو باغ کی ویرانی کا سبب بن جائے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بندۂ مومن کا اندیشہ صحیح ثابت ہوا چنانچہ باغ پر ایسی آفت آئی کہ وہ ڈھیر ہو کر رہ گیا۔ جب اس کافر نے تباہی کے اس منظر کو دیکھا تو کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اس وقت اسے اپنی غلط ذہنیت کا احساس ہوا اور یہ بات اس پر کھل گئی کہ توحید کا عقیدہ ہی صحیح عقیدہ ہے اس لیے وہ اس شرک پر پچھتایا جس میں وہ مبتلا تھا۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ نے اس کے باغ کو تباہ کرنا چاہا تو نہ وہ جتھا اس کافر کے کام آیا جس پر وہ فخر کرتا تھا اور نہ اس کے ٹھہرائے ہوئے شریک اس کی مدد کو پہنچ سکے اور نہ ہی اس کے اندر یہ بل بوتا تھا کہ وہ خود اس آفت کا مقابلہ کرتا۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس واقعہ سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ سارے اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں جو حقیقی رب ہے اور اس کے اختیارات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ نفع و نقصان کا پہنچنا سب اسی کے چاہنے پر موقوف ہے۔ لہٰذا انعام اور اجر اسی سے طلب کیا جائے اور امیدیں بھی اسی سے وابستہ کی جائیں۔

اس رہنمائی کے علاوہ اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جو لوگ خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی دعوت دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ ہو سکتا ہے مادی وسائل کے لحاظ سے کوئی مقام نہ رکھتے ہوں لیکن انجام ان ہی کا بخیر ہونے والا ہے اور کفر کرنے اور اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے والوں کو بالآخر پچھتا نا ہی پڑ ے گا۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال میں حیات دنیا کی بہار کو زمین کی بہار سے تشبیہ دی گئی ہے بارش ہونے پر زمین کی روئیدگی ابھر آتی ہے اور وہ سر سبز ہو جاتی ہے مگر اس کی یہ رونق عارضی ہوتی ہے۔ چند دنوں کے بعد اس کا رنگ بھی بدل جاتا ہے۔

اور وہ چورا چورا ہو کر رہ جاتی ہے پھر ہوا کے جھونکے اس کو اڑ دیتے ہیں۔ اس طرح زمین کی یہ رونق خاک میں مل جاتی ہے۔ دنیوی زندگی کا بھی یہی حال ہے۔ اس کی بہار چند روزہ ہے اس کے بعد اس پر خزاں آنے والی ہے جو اس کی ساری دلفریبیوں کو ختم کر کے رکھ دے گی۔ لہٰذا جو لوگ دنیوی زندگی کو مقصود بناتے ہیں ان کے حصہ میں خزاں ہی آنے والی ہے۔

واضح رہے کہ دنیا کو مقصد بنا کر زندگی بسر کرنے اور آخرت کو مقصد بنا کر زندگی بسر کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں جس کو مذموم قرار دیا گیا ہے وہ پہلی چیز ہے۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ جس طرح بہار لانے پر قادر ہے اسی طرح خزاں لانے پر بھی قادر ہے اور وہ زمین پر ایسی خزاں لا سکتا ہے کہ اس کی موجودہ رونق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مال اور اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ہیں لیکن آدمی جب ان کی ظاہری کشش سے اتنا متاثر ہو جائے کہ ان ہی کا ہو کر رہ جائے اور آخرت کو پس پشت ڈال دے تو یہ مقصد زندگی ہی سے انحراف ہے اس لیے قرآن اس ذہنیت پر ضرب لگاتا ہے اور جب بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز مرنے کے بعد اور دنیا کے درہم برہم ہو جانے کے بعد بھی باقی رہنے والی ہے وہ نیک اعمال ہی ہیں۔ ان ہی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ہاں بندہ اجر کا مستحق قرار پائے گا اور اسی کی بنیاد پر وہ اپنے رب سے اس کے فضل و کرم کی امید وابستہ کر سکتا ہے لہٰذا آدمی کی سعی و جہد کا رخ یہ ہونا چاہیے کہ اس کی زندگی نیک عملی کی زندگی ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے۔  مال اور اولاد کے معاملہ میں انسان کو وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو اس کی نیکیوں میں اضافہ کا باعث ہو۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کی گھڑ ی جب آئے گی تو زمین کی ہیئت اور اس کے موجودہ نظام میں عظیم تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ کوئی پہاڑ خواہ وہ ہمالیہ ہی کیوں نہ ہو اپنی جگہ پر رہ نہیں سکے گا بلکہ سب پہاڑ ہوا میں اڑ نے لگیں گے اور پھر جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ صراحت ہے ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے۔ اور جب پہاڑوں کا یہ حال ہو گا تو انسانوں کے بنائے ہوئے مکان، اونچی عمارتیں اور محل کہاں باقی رہ سکیں گے۔ سب ختم ہو جائیں گے اور زمین ایک کھلے میدان کی شکل میں ظاہر ہو گی۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نوع انسانی کے تمام افراد جو آدم سے لیکر قیامت تک پیدا ہوتے اور مرتے رہیں گے ان سب کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کر کے میدان حشر میں اکٹھا کیا جائے گا۔ شاہ ہو یا گدا، امیر ہو یا غریب اور مؤمن ہو یا کافر کسی استثناء کے بغیر سب کو حاضر کر دیا جائے گا۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت خدا کے حضور ان کی پیشی ہو گی تاکہ وہ دنیا میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کی جوابدہی کریں۔ یہ پیشی نظم و انضباط کے ساتھ ہو گی چنانچہ انہیں صف در صف کھڑ ا کر دیا جائے گا کہ وہ فرمانروائے کائنات کی عدالت میں حاضر ہو رہے ہیں _____اور نماز کی صفیں اسی صف بندی کی مثال ہیں۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگ خدا کے حضور صف بہ صف پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ دوسری مرتبہ پیدا کرنے کی جو خبر ہم نے تمہیں دی تھی وہ آج حرف بہ حرف پوری ہو گئی۔ مگر تم لوگوں نے ___منکرین آخرت نے ____یہ خیال کر رکھا تھا کہ ہمارے حضور پیشی ہونا ہی نہیں ہے۔ ہم نے نہ اس کا وعدہ کیا ہے اور نہ اس کے لیے وقت مقرر کیا۔ آج تمہیں معلوم ہو گیا کہ تمہارا یہ خیال خام تھا اور حق وہی تھا جس کی خبر ہم نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے دی تھی۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر شخص کے عمل کا ایسا ریکارڈ پیش کیا جائے گا کہ کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی درج ہونے سے رہ نہیں گیا ہو گا۔ اپنی عملی زندگی کا اتنا صحیح اور مکمل ریکارڈ دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ جائے گا کیونکہ وہ آخرت کا انکار کرتا رہا ہے لہٰذا یہ ریکارڈ اس کے لیے غیر متوقع ہو گا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ کسی کی حق تلفی ہو گی اور نہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی۔ عدل و انصاف کے سارے تقاضے ہر ہر شخص کے حق میں پورے کئے جائیں گے۔

ان آیات میں عدالت خداوندی کا جو نقشہ پیش کیا گیا ہے اس کی مثال نہ بائبل میں موجود ہے اور نہ کہیں اور۔ یہ قرآن ہی کی خصوصیت ہے کہ وہ قیامت اور آخرت کے احوال اتنی تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ یقین و اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ ان آیتوں میں خدا کے حضور پیشی کا جو مضمون بیان ہوا ہے وہ ایک شہ پارہ ہے جو دل و دماغ کو بدلنے کے لیے بالکل کافی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ آخرت کا یہ عقیدہ مشرکین ہند کے آواگوان (Transmigration) کے نظریہ سے بالکل مختلف ہے۔ اس نظریہ کی رو سے نہ قیامت برپا ہونا ہے ، نہ خدا کے حضور حاضری کا کوئی سوال ہے اور نہ جوابدہی کا کوئی تصور۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷ ، ۴۸ میں گزر چکی۔ یہاں آدم و ابلیس کے قصہ کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ابلیس انسان کا ازلی دشمن ہے اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ انسان دنیا کے امتحان میں کامیاب ہو کر جنت کا مستحق بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انسان کو شرک میں مبتلا کرتا ہے تاکہ آخرت کو وہ کسی طرح مقصدِ حیات نہ بنائے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے وہ روایت قابل رد ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا۔ ابن کثیر نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ اس بارے میں اکثر روایتیں اسرائیلیات میں سے ہیں اور بعض روایتیں تو بالکل جھوٹی ہیں۔ (ملاحظہ تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۸۹)

قرآن نے فرشتوں کا وصف یہ بیان کیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی کبھی نافرمانی نہیں کرتے۔ ابلیس چونکہ جنوں میں سے تھا جو انسان کی طرح مکلف مخلوق ہیں اس لیے وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ ابلیس کی نسل بھی ہے اور اس کا پورا قبیلہ ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین حقیقی خدا کو خدا کی حیثیت سے ماننے کے بجائے شیطان کو خدا کا مقام دینے لگتے ہیں۔ اس طرح خدا کو چھوڑ کر وہ شیطان کو خدا بنا لیتے ہیں۔ خدا کا یہ کتنا برا بدل ہے جو ظالموں نے اپنے لیے تجویز کیا ہے۔

جہاں تک شیطان کے وجود کا تعلق ہے قرآن اس کو شخصی وجود رکھنے والے اور جان بوجھ کر گمراہ کرنے اور شر پھیلانے والے کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اس لیے اس کی یہ تاویل کرنا کہ یہ محض شر کا نام ہے۔ اس کا کوئی شخصی وجود نہیں قرآن کے بیان کے سراسر خلاف ہے۔ شیطان سے آدم اور حوا دونوں کو واسطہ پڑ ا تھا اس لیے نسلاً بعد نسل اس کا تصور انسانوں میں منتقل ہوتا رہا اور انبیاء علیہم السلام بھی شیطان کے شر سے بچنے کی تعلیم دیتے رہے ہیں اس لیے اس کا وجود لوگوں کے نزدیک مسلم رہا ہے اور مشرکین عرب کو بھی اس کے وجود سے انکار نہیں تھا اور اس کے وجود کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ انسانوں کی بہت بڑ ی اکثریت شر میں ہمیشہ مبتلا رہی ہے جیسا کہ تاریخ سے واضح ہے اور جس کا مشاہدہ آج بھی ہم کر رہے ہیں۔ اتنی بڑ ی تعداد کا ہر دور میں بگاڑ میں مبتلا ہونا اور شر پر آمادہ ہونا صاف ظاہر کرتا ہے کہ خارج سے انسان کو ورغلانے کا کام ہو رہا ہے اور یہ ورغلانے والی قوت انسان کی دشمن ہے اور یہ قوت کوئی اندھی قوت نہیں بلکہ مکر و فریب اور سازشوں کے ذریعہ انسان کو پھانسنے والی سرکش قوت ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین عرب شیاطین کو اپنا دوست اور کار ساز ایک تو اس معنی میں بناتے ہیں کہ اپنے نفس کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں اور دوسرے اس معنی میں کہ ان کو خدائی نظام میں دخیل سمجھ کر ان کے ضر ر سے بچنے کے لیے ان کی پرستش کرتے ہیں تاکہ وہ ان سے خوش رہیں اور بلائیں ٹلتی رہیں۔ اس طرح انہوں نے شیطانوں کو بھی خدا کا شریک ٹھہرایا تھا۔ اسی پر گرفت کرتے ہوئے یہاں فرمایا گیا ہے کہ خدائے کے حق اطاعت و پرستش میں شیطانوں کو شریک کرنے کا کیا سوال جبکہ ان کا خدائی نظام میں کوئی دخل نہیں ہے۔ ان کا نہ آسمان و زمین کی تخلیق میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان کی اپنی تخلیق میں۔ اللہ نے ان کو اپنی مدد کے لیے کبھی نہیں بلایا۔ اول تو یہ خیال ہی حماقت ہے کہ اللہ نے کسی کو اپنا مدد گار بنایا ہے اور مزید حماقت یہ سمجھنا کہ شیطانوں کو اس نے اپنا مددگار بنایا ہے۔ گویا خدا نے اپنے خدائی نظام کو چلانے کے لیے مدد گار منتخب بھی کئے تو گمراہ کرنے والے شیاطین! نعوذ باللہ من ذالک۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ان مشرکین سے کہا جائے گا کہ جن کو تم نے خدا کا شریک سمجھ کر اپنا دوست اور کارساز بنا لیا تھا ان کو اب اپنی مدد کے لیے بلا لو وہ ان کو بلائیں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہیں دیں گے اور دونوں کے درمیان تباہی کا گڑھا حائل کر دیا جائے گا کہ نہ یہ پرستار اپنے معبودوں کے پاس پہنچ سکیں گے اور نہ ان کے معبود اپنے پرستاروں کے پاس پہنچ سکیں گے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ بنی اسرائیل ۱۲۲۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بجائے اس کے کہ وہ نصیحت پر دھیان دیتا بحث و جدال پر اتر آتا ہے اور یہ انسان کی عام کمزوری ہے۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی واضح ہدایت کے آ جانے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس پر ایمان نہ لائیں اور جس شرک میں وہ مبتلا رہے اس سے وہ اللہ کے حضور معافی نہ مانگیں۔ اگر وہ اس کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ انہیں بھی ہلاکت کا وہی معاملہ پیش آ جائے جو سابقہ امتوں کو پیش آیا تھا یا پھر وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ عذاب کو ہم اپنے سامنے دیکھ لیں گے تو ایمان لائیں گے لیکن اس وقت ایمان لانا بے سود ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حجت ان پر قائم ہو گئی ہے اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو عذاب ہی ان کی آنکھیں کھول سکتا ہے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسولوں کا کام عذاب لانا نہیں بلکہ ایمان لانے والوں کو ابدی کامیابی سے خوش خبری سنانا اور کفر کرنے والوں کو ابدی ہلاکت سے خبردار کرنا ہے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لوگوں کو رسول کی بات ماننے سے انکار ہے وہ غلط اور نا معقول باتوں کا سہارا لیکر بحث کرنے لگتے ہیں اور منصوبہ یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح حق کی شکست ہو اور وہ دب جائے۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب کو جس سے انہیں خبردار کیا گیا ہے۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۴۴۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان منکرین کے کرتوت تو ایسے ہیں کہ اللہ کا عذاب ان پر فوراً نازل ہو جائے مگر اللہ بخشنے والا اور رحمت والا ہے اس لیے وہ انہیں سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے تاکہ وہ توبہ کر کے اس کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔ مگر یہ مہلت ایک مقررہ وقت تک ہی کے لیے ہے۔ جب عذاب آ جائے گا تو پھر انہیں کہیں پناہ نہیں مل سکے گی۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان بستیوں کی طرف جن کی ہلاکتوں کا ذکر قرآن میں بار بار ہوا ہے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فحوائے کلام ( آیت کے مضمون) سے ظاہر ہے کہ موسیٰ  علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے اشارہ پا کر ایک خاص مہم پر روانہ ہو رہے تھے۔ اور وہ مہم یہ تھی کہ ایک مخصوص مقام پر اللہ کے ایک خاص بندہ سے ملاقات کر کے اس علم سے استفادہ کریں جو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے اسرار و رموز سے متعلق اللہ نے اسے بخشا ہے۔ اس سفر میں انہوں نے اپنے خادم کو ساتھ لیا تھا اور چلتے وقت ان پر اپنے اس مصمم ارادہ کا اظہار کیا تھا کہ اس سفر میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگ جائے بہر حال مجھے جاری رکھنا ہے یہاں تک کہ میں مقررہ منزل تک پہنچ جاؤں اور وہ منزل مجمع البحرین دو سمندروں کے ملنے کی جگہ ہے۔

یہ کون سے دو سمندر ہیں اور وہ کہاں آ کر ملتے ہیں اس کی صراحت قرآن نے نہیں کی کیونکہ اس واقعہ کو بیان کرنے کا جو مقصد قرآن کے پیش نظر ہے اس کے لحاظ سے یہ تفصیلات غیر ضروری تھیں۔ جہاں تک قرائن کا تعلق ہے موسیٰ علیہ السلام نے یہ سفر اس وقت کیا ہو گا جبکہ وہ سینا میں قیام پذیر تھے اور بنی اسرائیل کو جہاد سے جی چرانے کے نتیجہ میں یہ سزا ملی تھی کہ وہ چالیس سال تک صحرائے سینا میں بادیہ پیمائی کرتے رہیں۔ اس سے پہلے ان کو چھوڑ کر ان کا ایک طویل سفر پر جانا قرینِ قیاس نہیں اور نہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ مصر میں قیام کے دوران انہوں نے یہ سفر کیا ہو گا کیونکہ اس وقت وہ فرعون کو دعوت حق دینے ، اس پر حج قائم کرنے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے آزاد کرانے جیسے اہم ترین فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے۔ لہٰذا قرائن اسی کی تائید میں ہیں کہ سفر کا یہ واقعہ سینا میں قیام کے دوران پیش آیا ہو گا۔ اور اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مجمع البحرین سے مراد وہ جگہ ہے جہاں بحر قلزم اور خلیج عقبہ ملتے ہیں۔ یہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے جنوب میں شرم الشیخ کے پاس ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے جزیرے بنے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے یعنی خلیج عقبہ کے دوسرے کنارے پر مدین کا علاقہ پڑ تا ہے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سفر کے سلسلہ میں موسیٰ علیہ السلام کو یہ ہدایت ہوئی تھی کہ وہ مچھلی ساتھ لے لیں اور جہاں مچھلی غائب ہو جائے وہی مقام ان کی اصل منزل ہو گا۔ یہ مچھلی ان کے خادم نے توشہ دان میں رکھ لی تھی اور چونکہ اس کے ذریعہ منزل کی نشاندہی ہونے والی تھی اس لیے اس معاملہ میں چوکنا رہنے کی ضرورت تھی مگر دونوں کو اس کا خیال نہیں رہا۔ موسیٰ علیہ السلام تو آرام کر رہے تھے اور ان کے خادم نے مچھلی کو نیچے سے راہ نکال کر سمندر میں جاتے ہوئے دیکھا لیکن بعد میں موسیٰ علیہ السلام سے اس کا ذکر کرنا بھول گئے اور خود موسیٰ علیہ السلام کو بھی بیدار ہو جانے پر مچھلی کے بارے میں کچھ پوچھنے کا خیال نہیں رہا۔ مچھلی زندہ ہو کر توشہ دان سے سمندر میں چلی گئی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرشمہ قدرت تھا اور اس لیے ظہور میں آیا تھا کہ اپنے رسول کو منزل کا پتہ بتا دیا جائے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اللہ کے لیے کسی بھی مردہ چیز کو زندہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب اس مقام کو چھوڑ کر وہ آگے بڑھے تو کچھ دور جانے کے بعد حضرت موسیٰ کو تکان کا احساس ہوا چونکہ وہ منزل سے آگے بڑ ھ چکے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر تکان کی کیفیت طاری کر دی۔ اس وقت انہوں نے اپنے خادم سے کھانا طلب کیا۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خادم نے اپنی بھول کا اعتراف کرتے ہوئے مچھلی کے عجیب طریقہ سے سمندر میں چلے جانے کا واقعہ موسیٰ علیہ السلام کو سنا دیا اور اس کا اصل محرک شیطان کو قرار دین جو انسان کو بھلاوے میں ڈال کر اس کی توجہ اہم کاموں کی طرف سے ہٹاتا رہتا ہے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہی تو وہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ مچھلی کا زندہ ہو کر عجیب طریقہ سے سمندر میں چلا جانا منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دونوں اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس ہوئے اور اس چٹان کے پاس پہنچ گئے جہاں وہ اپنی مچھلی بھول گئے تھے۔

قدموں کے نشانات صحرا میں نمایاں ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چٹان صحرا میں ساحل سے قریب تھی۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹان کے پاس ان کی ملاقات اللہ کے ایک خاص بندے سے ہوئی جس کا نام حدیث میں خضر آیا ہے۔ ” جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا” کا اشارہ نبوت کی طرف ہے کہ ہم نے اس بندۂ خاص کو نبوت سے سرفراز کیا تھا اور ” اپنے پاس سے خاص علم عطا کیا تھا” سے مراد تکوینی (غیر اختیاری) معاملات میں اللہ کے فیصلوں کے اسرار و رموز کا علم ہے۔ آگے آیت ۸۲ میں اس بندۂ خدا کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ” میں نے یہ کام اپنی رائے سے نہیں کیا” جو اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کا حکم بذریعہ وحی اس کو پہنچتا تھا اور وہ اس کی تعمیل کرتا تھا۔ وحی کا اس طرح نزول ایک نبی ہی پر ہوتا ہے اور اسی بنا پر اس کی بات لوگوں کے لیے حجت ہوتی ہے۔

جہاں تک جمہور مفسرین کا تعلق ہے وہ اس بندۂ خدا کے نبی ہونے ہی کے قائل ہیں البتہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ وہ فرشتہ تھا۔ ان کے اس خیال کی تائید آیت کے ان الفاظ سے نہیں ہوتی کہ "جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا” کیونکہ قرآن میں کسی مقام پر بھی کسی فرشتہ کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کہی گئی ہے کہ اسے رحمت سے نوازا گیا تھا۔ اور فرشتے تو تکوینی احکام کے نافذ کرنے پر مامور ہوتے ہیں اس لیے رحمت سے نوازے جانے کی بات فرشتہ کے بارے میں موزوں نہیں ہو سکتی بلکہ یہ بات نبی ہی کے لیے موزوں قرار پائی ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو الگ الگ امتیازات بخشے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہم کلامی کا شرف بخشا تھا تو عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا تھا۔ یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کا علم بخشا تھا تو سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی زبان سمجھنے کی صلاحیت بخشی تھی۔ اسی طرح خضر علیہ السلام کو ظاہری حالات و واقعات کے پیچھے جو اسرار پوشیدہ ہوئے ہیں ان کا علم بخشا گیا تھا جس نے ان کے اندر معاملہ فہمی کی غیر معمولی صلاحیت پیدا کر دی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر نبی اور رسول تھے جو خضر علیہ السلام کے اسی امتیازی علم سے استفادہ کرنا چاہتے تھے اور اسی غرض سے انہوں نے یہ سفر کیا تھا۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت خضر پر اللہ تعالیٰ جن تکوینی امور کے اسرار کھول دیتا تھا ان کے سلسلہ میں وہ مناسب عملی تدابیر اختیار کرتے تھے مگر چونکہ حضرت موسیٰ کے دائرہ علم میں یہ باتیں نہیں تھیں اس لیے وہ ان تدابیر کو غلط باور کرنے میں حق بہ جانب تھے اور انسان ظاہری حالات کو دیکھ کر ہی حکم لگاتا ہے اس لیے حضرت خضر کا اندازہ صحیح تھا کہ جو غیر معمولی کام وہ انجام دیں گے ان کو وہ برداشت نہ کر سکیں گے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ علم کی راہ میں موسیٰ علیہ السلام کے صبر کا امتحان تھا۔ سوال  کرنے کی کڑی شرط حضرت خضر نے اس لیے عائد کی تھی تاکہ حضرت موسیٰ کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے کہ ان کے علم اور ان کے کام کی نوعیت کیا ہے۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا یہ اعتراض ظاہر کے لحاظ سے تھا اور بجا تھا جبکہ حضرت خضر نے یہ کام ایک مصلحت سے کیا تھا جو اپنی جگہ صحیح تھی مگر مخفی تھی جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے

۰حضرت خضر کی رہنمائی میں جس سفر کا آغاز ہوا اس میں حضرت موسیٰ کے خادم کے ساتھ چلنے کا ذکر نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے ان کو چٹان کے پاس ہی چھوڑ دیا گیا تھا کہ واپسی میں حضرت موسیٰ ان کو اپنے ساتھ لے لیں گے۔ (واللہ اعلم)

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بظاہر لڑ کا کسی ایسے جرم کا یا کسی کے قتل کا مرتکب نہیں ہوا تھا کہ اسے قتل کر دیا جاتا اس لیے حضرت موسیٰ سے رہا نہ گیا اور انہوں نیاس فعل کو منکر قرار دیا جبکہ حضرت خضر نے ایک مخفی مصلحت سے یہ خدمت انجام دی تھی جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے۔

۹۹َََ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسافر کو کھانا کھلانا اخلاق کا تقاضا ہے اور اس زمانہ میں مسافروں کے لیے کھانے پینے کی وہ سہولتیں نہیں تھیں جو موجودہ دور میں پائی جاتی ہیں اس لیے معروف طریقہ یہی تھا کہ کوئی مسافر کسی بستی میں آ جائے تو اس کی مہمان نوازی کی جائے۔ مگر اس بستی والوں نے ان معزز مہمانوں کی ایسی نا قدری کی کہ ایک وقت کا کھانا فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

۱۰۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے یہ بات اس لیے کہی کہ بستی کے لوگ اس بات کے مستحق نہیں تھے کہ ان کی خدمت انجام دی جائے جبکہ انہوں نے بھوکے مسافروں کو ایک وقت کھانا کھلانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ مگر حضرت خضر کے پیش نظر دوسری مصلحت تھی جس پر ابھی پردہ پڑ ا ہوا تھا۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا یہ اعتراض تیسری مرتبہ تھا اس لیے مزید عذر کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی اور جدائی کی نوبت آ گئی۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان خواہ وہ ایک پیغمبر ہی کیوں نہ ہو ظاہر پر حکم لگاتا ہے اور جب تک باطنی مصلحتیں وحی کے ذریعہ اس پر واضح نہ کی جائیں وہ ظاہر پر حکم لگانے کے لیے مجبور ہے۔ شریعت کا مطالبہ بھی اس سے اس کے علم کی حد تک ہی ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کشتی کو عیب دار بنانا خالی از مصلحت نہ تھا۔ دراصل اس سے مقصود غریبوں کی کشتی کو ظالم بادشاہ کے غاصبانہ قبضہ سے بچانا تھا۔ یہ بادشاہ اپنے علاقہ سے گزرنے والی ہر اس کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا تھا جو درست حالت میں پائی جاتی۔ حضرت خضر نے یہ تدبیر کی کہ کشتی کا ایک تختہ نکال دیا تاکہ بادشاہ کے کارکنان اسے ٹوٹی ہوئی کشتی خیال کر کے نظر انداز کریں۔ انہوں نے یہ تدبیر اس مخصوص علم کی بنا پر کی تھی جو انہیں عطا ہوا تھا اور چونکہ وہ نبی تھے اس لیے ظاہر ہے انہیں بادشاہ کی ظالمانہ کار روائی سے بذریعہ وحی مطلع کر دیا گیا ہو گا۔

حضرت موسیٰ کا اعتراض ظاہر کے لحاظ سے تھا اور صحیح تھا اور حضرت خضر کی تدبیر اس مخصوص علم کی بنا پر تھی جو انہیں عطا ہوا تھا اور اس لحاظ سے یہ تدبیر بالکل صحیح اور مفید تھی اگرچہ اس کی مصلحت موسیٰ پر واضح نہیں تھی۔

رہا یہ سوال کہ دوسرے کی کشتی میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کس طرح کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ تصور اللہ کے حکم سے کیا گیا تھا اس لیے یہ تصرف بالکل جائز تھا۔ دوسرے یہ کہ بعض حا ات میں کسی کو نقصان سے بچانے کے لیے اس کی مِلک میں تصرف کرنا پڑ تا ہے مثلاً اگر ایک گھر کو آگ لگ گئی ہے اور اس کا دروازہ بند ہے اور اس کتو ڑ ے بغیر آگ کو بجھایا نہیں جا سکتا تو مالک کی اجازت کا انتظار کئے بغیر دروازہ کو توڑ دیا جائے گا۔ کسی فرد یا سوسائٹی کو ضر ر سے بچانے کے لیے اس قسم کے تصرف کی بہت سے مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ ” غلام” استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق نابالغ لڑ کے پر بھی ہوتا ہے اور بالغ لڑ کے پر بھی۔ سورۂ یوسف میں گزر چکا ہے کہ جب قافلہ والوں میں سے ایک شخص نے کنویں میں ڈول ڈالنے پر یوسف کو پایا تھا تو وہ پکار اٹھا تھا یا بشریٰ  ہٰذا غلام (خوشخبری ہو یہ تو لڑ کا ہے) حالانکہ اس وقت یوسف کی عمر ۱۷ سال تھی۔ اس لیے ہے لڑ کا جس کو حضرت خضر نے قتل کیا بالغ رہا ہو گا اور کافر بھی۔ اس کے والدین مؤمن تھے اس لیے لڑ کے کا کافر ہونا اس کے مرتد ہونے کے ہم معنیٰ تھا اور مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ پھر یہ لڑ کا سرکش بھی تھا۔ یہ صورت حال جب حضرت خضر پر وحی کے ذریعہ واضح ہوئی تو انہوں نے اندیشہ محسوس کیا کہ یہ لڑ کا اپنے والدین کو سخت تکلیف پہنچائے گا اس اندیشہ کے پیش نظر انہوں نے دعا کی کہ اللہ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے۔ ایسا بدل جو عقیدہ و اخلاق کے لحاظ سے بھی خوب پاکیزہ ہو اور بہت زیادہ رحم دل بھی تاکہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کرے۔ اس کے بعد حکم الٰہی سے انہوں نے اس لڑ کے کو قتل کر دیا۔ یہ قتل یا تو ایک مرتد کا قتل تھا جو شرعاً جائز ہے یا اگر لڑ کا نا بالغ تھا تو یہ ایک طرح سے اللہ کے تکوینی حکم کا نفاذ تھا جو غیر معمولی طور پر ایک نبی کے ہاتھوں انجام پایا ایسی صورت میں اس کو قتل کے عام احکام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک استثنائی صورت تھی جو حضرت خضر کے ساتھ مخصوص تھی اور جس کو صاحبِ شریعت موسیٰ علیہ السلام پر بھی واضح کر دیا گیا۔ یہ ایسا ہی استثنائی حکم تھا جیسا کہ حکم حضرت ابراہیم کو ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنے کا دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ حضرت ابراہیم کے نبی ہونے کی حیثیت میں ایک مخصوص حکم تھا اسی طرح حضرت خضر کو ایک کافر لڑکے کے قتل کرنے کا حکم ان کے نبی ہونے کی حیثیت میں مخصوص طور پر دیا گیا تھا اس لیے نہ اس پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے یہ وجہ جواز بن سکتا ہے۔

حضرت خضر نے اپنے لیے جمع کی جو ضمیر استعمال کی یعنی یہ جو فرمایا کہ ” ہم نے یہ اندیشہ محسوس کیا” اور ” ہم نے چاہا” تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قتل کا یہ کام اصلاً تکوینی نوعیت کا تھا جسے فرشتہ ہی انجام دے سکتے تھے اس لیے عجب نہیں کہ اس کام میں فرشتے حضرت خضر کے معاون رہے ہوں اور ان کی معاونت کے پیش نظر انہوں نے جمع کی ضمیر ” استعمال کی ہو۔ قتل کا یہ کام ساحلِ سمندر پر جس خاموشی کے ساتھ انجام پایا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے حکم کے اس نفاذ میں فرشتے حضرت خضر کے معاون رہے ہوں گے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بستی والوں کے نا روا سلوک کے باوجود دیوار بلا معاوضہ کھڑ ا کرنے کی خدمت حضرت خضر نے اس لیے انجام دی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ خبر دے دی تھی کہ اس دیوار کے نیچے یتیموں کا مال مدفون ہے۔ اگر دیوار گر جاتی تو کوئی شخص بھی مال نکال کر ہڑ پ کر سکتا تھا جبکہ بستی کے لوگ بد اخلاق تھے۔ حضرت خضر نے بستی والوں کے سلوک کو جو ان کے ساتھ کیا گیا تھا خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ہاتھ سے دیوار کی مرمت کر دی۔ یہ بڑ ے خیر کا کام تھا جو ان کے ہاتھوں انجام پایا۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ نبی تھے کیونکہ یہ کام انہوں نے اپنی رائے اور اپنے اختیار سے نہیں کئے تھے بلکہ حکم الٰہی سے کئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے حضرت خضر کو جو خاص علم بخشا گیا تھا اس کی بنا پر خاص طرح کی خدمت ان کے سپرد ہوئی تھی یعنی ایسی تدابیر اختیار کرنا جس کی مصلحت واضح نہ ہو لیکن نتیجہ کے اعتبار سے وہ کام خیر کا باعث اور لوگوں کی فلاح و بہبودی کا موجب ہو۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کے اس سفر کی سر گزشت جو ایک خاص علم کے حصول کے لیے تھا یہاں ختم ہو گئی۔ اس سر گزشت کو بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ تکوینی طور پر ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور ایسے حالات رونما ہوتے ہیں جن کے حقیقی مصالح پر پردہ پڑ ا رہتا ہے۔ ظاہر بیں نگاہیں ان کو دیکھ نہیں پاتیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت پس پردہ کام کر رہی ہوتی ہے۔ اس کی ایک جھلک ان واقعات میں دیکھی جا سکتی ہے جو حضرت موسیٰ کو خضر کے تعلق سے پیش آئے۔ لہٰذا کفر و اسلام کی کشمکش میں اہل ایمان کو جن ناسازگار حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے اس سے وہ کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ عجب نہیں کہ اس کے اندر سے بہت بڑ ا خیر ابھر آئے اور اس کی رحمتوں کا جو بادلوں میں چھپی ہوئی ہیں ان پر نزول ہو۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے صبر سے کام لیں۔

دوسرا سبق جو اس سر گزشت سے دینا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا حادثات اور واقعات کی دنیا ہے اور اس کے پیچھے جو عظیم مصالح ہیں ان پر پردہ پڑ ا ہوا ہے۔ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جب حقیقت کو بے نقاب کیا جائے تاکہ لوگوں پر ظاہر ہو جائے کہ دنیا اندھیر نگری نہیں تھی بلکہ ایک علیم و حکیم ہستی کا منصوبہ تھا جس کی پشت پر عظیم مصلحتیں کار فرما تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن اسی لیے مقرر کیا ہے تاکہ دنیا کے اسرار پر سے پردہ اٹھ جائے اور دنیا کے بارے میں صحیح اور غلط نقطہ نظر رکھنے والوں کو اپنے اپنے عمل کا بدلہ ملے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال مشرکین مکہ نے یہود کے اشارہ پر کیا تھا اور مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینا تھا کہ اگر واقعی آپ پر وحی آتی ہے تو ذو القرنین کا حال بیان کریں۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے نہ تاریخ کی معلومات کہیں سے حاصل کی ہے اور نہ مذہبی کتابیں پڑھی ہیں اس لیے آپ اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں گے لیکن وحی الٰہی نے ذو القرنین کے مسئلہ پر اس طرح روشنی ڈالی کہ آپ کی نبوت کا ایک اور ثبوت سامنے آ گیا۔

یہود کے اس سوال سے یہ بات آپ ہی واضح ہے کہ ان کے نزدیک ذو القرنین کی شخصیت معروف تھی اور اس کا یہ لقب پہلے سے چلا آ رہا تھا اس لیے قرآن نے اس عالمگیر فاتح کی عظیم الشان فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے اس کی سیرت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جن سے اس کی خدا خوفی، عدل پسندی اور خدا کے حضور جوابدہی کے شدید احساس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لقب سے اس کے مشہور ہونے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس کی سلطنت مغرب اور مشرق میں دور دور تک وسیع ہو گئی تھی اور غالباً یہ پہلا حکمران ہے جس کی حکومت انسانی آبادی کے بہت بڑ ے حصے پر قائم ہو گئی تھی۔

قرن کے معنی سینگ کے ہیں اور ذو القرنین کے معنی دو سینگوں والا۔ دو سینگوں سے مراد مشرق و مغرب کے وہ دو کنارے ہیں جہاں انسانی آبادی ختم ہوتی تھی۔ اس کے بعد جو انسانی آبادی تھی وہ یا تو دوسری جہتوں میں تھی یا سمندر اور پہاڑ کو عبور کرنے کے بعد تھی۔

ذو القرنین کی شخصیت نزولِ قرآن کے وقت معروف تھی لیکن بعد میں پردۂ خفا میں چلی گئی اور جب مفسرین نے اس کو متعین کرنے کی کوشش کی تو سکندر مقدونی کو جس کا دور۳۴۵ قبل مسیح تا ۳۲۳ قبل مسیح رہا ہے اور جو ارسطو کا شاگرد تھا مشہور عالمگیر فاتح ہونے کی بنا پر اس کا مصداق قرار دیا۔ حالانکہ سکند ر مقدونی کے بارے میں یقین کے ساتھ نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور نہ یہ کہ وہ عادل بادشاہ تھا اور نہ ہی اس کی مغرب میں کسی ایسی مہم کا تاریخی ثبوت ملتا ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے بلکہ اس کے بر خلاف تاریخ اس کو ایک بت پرست اور توسیع پسند حکمراں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اس لیے اس کو قرآن کا ذو القرنین نہیں قرار دیا جا سکتا۔

چونکہ ذو القرنین کی شخصیت یہود میں معروف تھی اس لیے اس کی تحقیق کے لیے قدیم صحیفوں ہی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔

موجودہ دور میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ان صحیفوں اور دوسرے تاریخی شواہد کے حوالوں سے اپنی تحقیق تفسیر ” ترجمان القرآن” میں پیش کی ہے۔ وہ اپنی تحقیق کی بنا پر خورس یعنی سائرس (Cyrus) کو جس کا دور ۵۵۹ قبل مسیح تا ۵۲۹ قبل مسیح تھا ذو القرنین قرار دیتے ہیں۔

خورس فارس ( ایران) کا حکمراں تھا اس نے فارس اور میڈیا ( شمالی ایران) کی متحدہ سلطنت بنانے کے بعد مغرب کا رخ کیا تھا اور اس کی فتوحات لیڈیا ( ٹرکی) تک پہنچ گئی تھیں اور مشرق میں بھی اس کا دائرہ سلطنت وسیع ہو گیا تھا۔ اس نے بابل کو فتح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو جب بخت نصر کے زمانہ سے غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے آزاد کر کے یروشلم جانے کی اجازت دیدی گویا بنی اسرائیل کے لیے خورس ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے ظاہر ہوا تھا اس لیے بائبل میں اس کا ذکر ایک اچھے حکمراں کی حیثیت سے ہوا ہے اور اس کو خدا کا چرواہا کہا گیا ہے (ایسعیاہ ۴۴:۴۸) اور عزرا کی کتاب سے اس کے خدا پرست ہونے کی شہادت ملتی ہے۔ (ملاحظہ ہو عزرا باب۔ ۱   اور باب۔ ۶) اس لیے اغلب ہے کہ خورس کی شخصیت ہی قرآن کا ذو القرنین ہو گی۔

قدیم مورخ ہیروڈوٹس (Herodotus) نے سائرس کو فارس کی مقبول ترین شخصیت بتلایا ہے اور اس کی مہموں کا ذکر کیا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار اس کا تعارف اس طرح کراتا ہے۔

” سارس اخمینین شہنشاہیت کا بانی تھا۔ یہ شہنشاہیت پہلی عالمی ریاست (Word State) ہے جس میں بحر ایجین سے لے کر دریائے سندھ تک کا علاقہ شامل تھاَ۔ ۔ وہ ایک روادار اور مثالی حکمراں تھا جسے قدیم اہل فارس نے بابائے قوم کے نام سے پکارا اور بائبل میس جسے بابل کے یہودی اسیروں کے تعلق سے نجات دہندہ کہا گیا۔ ”

)Ency. Britannica. Vol. VI .409(

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک بہت بڑ ی سلطنت کے لیے جن وسیع تر ذرائع و وسائل کی ضرورت تھی اللہ کے فضل سے اسے حاصل ہو گئے تھے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مغربی سمت خشکی کے آخری کنارے پہنچ گیا۔ اس کے بعد سمندر تھا جس نے سیاہ جھیل کی شکل اختیار کر لی تھی۔ وہاں اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج اس گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ سورج کا ڈوبنا عام محاورہ ہے اس کے لفظی معنی کوئی بھی مراد نہیں لیتا۔

مطلب یہ ہے کہ ذو القرنین مغربی مہم پر جب روانہ ہوا تو ملک پر ملک فتح کرتا ہوا ایک ایسے ملک میں پنچ گیا جو خشکی کی آخری حد تھی۔ اس کے آگے جھیل نما سمندر تھا اس لیے اس سے آگے بڑھنے کا سوال ہی نہیں تھا۔

سائرس کا دارالحکومت ہمدان ( ایران) تھا اور وہ جب مغربی مہم پر روانہ ہوا تو لیڈیا ( موجودہ ٹرکی) تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اس کے مغرب میں بحر ایجین پڑ تا ہے اور ساحل کے پاس خلیج از میر نے ایک چشمہ یا جھیل کی سی شکل اختیار کر لی ہے جس میں نہر غدیس کا سرخ مٹی سے ملا ہوا گدلا پانی گرتا ہے۔ غالباً سائر س نے اسی کے کنارے کھڑ ے ہو کر دیکھا ہو گا تو اسے اس گدلے پانی میں سورج ڈوبتا ہوا دکھائی دیا ہو گا۔ ( یہ تفصیل ڈاکٹر عبد العلیم عبدالرحمن خضر کی کتاب مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآنی قصہ ذی القرنین سے ماخوذ ہے جو عربی میں ہے اور دار الشروق جدہ سے شائع ہوئی ہے۔)

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترک قوم ہو گی جیسا کہ سائرس کے واقعات سے ظاہر ہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ذو القرنین کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ایک ایسی پوزیشن میں ہے کہ اگر وہ اس قوم کو سزا دینا چاہے تو پوری طرح اس پر قادر ہے اور اگر حسن سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی اس کے اختیار میں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مفتوح قوم پر چاہے ظلم کرے چاہے احسان کرے بلکہ مطلب اس کی اس پوزیشن کو واضح کرنا ہے جو عملاً اسے حاصل ہو گئی تھی۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم سزا صرف ان ہی کو دیں گے جو ظالمانہ حرکتیں کریں گے ورنہ زیادتی کسی پر بھی نہیں کی جائے گی۔ ذو القرنین کے اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ ایک مفتوح قوم کے ساتھ اس کا رویہ اور اس کی حکومت کی پالیسی عدل و انصاف کی ہو گی۔

واضح رہے کہ سائرس نے جس وقت اقتدار سنبھالا اس وقت اس کے اطراف میں ظالمانہ حکومتیں قائم تھیں اور انسانیت ظالم حکمرانوں سے تنگ آ گئی تھی۔ چنانچہ بابل کی حکومت ظلم و جور کا بدترین نمونہ تھی جس نے بنی اسرائیل کو قید و بند کی زندگی گزارنے کے لیے مجبور کیا تھا۔ ان ظالم حکمرانوں کے ظلم اور بربریت سے نجات دلانے کا کام اللہ تعالیٰ نے جس کے ہاتھ سے لیا وہ سائرس تھا۔

قرآن نے ذو القرنین کی جن فتوحات کا ذکر کیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نے انسانیت کو ظلم و فساد سے نجات دلانے کے لیے یہ اقدامات کئے تھے اور یہ انسانیت کی بہت بڑ ی خدمت ہے۔ اس کا مطلب گیری اور اپنی شان و شوکت بڑھانا ہرگز نہ تھا۔ دنیا میں جہاں ظلم کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں وہاں اللہ کے کرشمہ رحمت کا ظہور بھی ہوتا ہے اور انصاف کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ ذو القرنین کے پیش نظر صرف یہی مقصد نہیں تھا کہ مظلوم قوموں کو ظالم حکمرانوں کے پنجہ سے چھڑائیں بلکہ یہ اعلیٰ مقصد بھی پیش نظر تھا کہ لوگوں کو توحید کی راہ دکھا دی جائے اور آخرت کی جوابدہی کا شعور پیدا کر کے ایک صالح زندگی گزارنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔

ذو القرنین کے ان اقدامات سے جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے ایک بہت بڑ ی اصولی بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ اس پاکیزہ مقصد کے پیش نظر جنگی اقدامات کرنا جائز ہے۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسری مہم مشرق کی طرف تھی۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ مشرق میں آبادیوں کو عبور کرتا ہوا ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا جہاں لوگوں کے لیے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان نہیں تھا یعنی مکانات وغیرہ نہیں تھے بلکہ صحرا میں خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہے تھے۔

سائرس اپنی مشرقی مہم میں بلخ تک پنچا جو افغانستان میں ہے اور دوسری طرف مکران تک جو بلوچستان میں ہے اس کے آگے پہاڑ ی سلسلہ تھا۔ یہاں خانہ بدوش قبائل رہتے تھے جو تہذیب و تمدن سے بالکل نا آشنا تھے۔

(ملاحظہ ہو مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآنی ص ۲۶۲۔ ۲۶۳) یہ وحشی قبائل ایران کی سرحد پر لوٹ مار کرتے اور فساد مچاتے رہے ہوں گے اس لیے سائرس نے ان کے علاقہ کی آخری حد تک پہنچ کر ان کی سرکوبی کی۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح اللہ نے ان وحشی قبائل پر بھی ذو القرنین کو غلبہ عطا کیا اور اس کی ان تدابیر اور ان وسائل سے اللہ تعالیٰ پوری طرح باخبر تھا جو اس نے اس مہم کو سر کرنے کے لیے اختیار کئے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ذو القرنین کی تیسری مہم کا ذکر ہے قرینہ دلیل ہے کہ وہ شمال کی طرف تھی۔ وہ آگے بڑھا تو ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک درہ تھا اور اس کے پاس ایک غیر متمدن قوم رہتی تھی جو مشکل سے کوئی بات سمجھ پاتی تھی۔ ممکن ہے غیر متمدن ہونے کے علاوہ اس کی زبان بھی مختلف رہی ہو۔

سائرس نے مغربی اور مشرقی ممالک کو فتح کرنے کے علاوہ اس وقت کی مشہور اور سب سے زیادہ مضبوط مملکت بابل کو بھی فتح کر لیا تھا اور اس کی سلطنت کا دائرہ بحر کیسپین (Caspian Sea) تک وسیع ہو گیا تھا اس لیے اس کی تیسری مہم شمال کی جانب رہی ہو گی تاریخ میں اگرچہ صراحت کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے لیکن ” ہیروڈوٹس اور زینوفن دونوں یونانی مورخ تصریح کرتے ہیں کہ گورش نے فتح لیڈیا کے بعد ستھین قوم کے سرحدی حملوں کی روک تھام کے لیے خاص انتظامات کئے تھے (قصص القرآن مولانا حفظ الرحمن ج ۳ ص ۱۵۳) آذر بائیجان اور ارمینیہ کے درمیان ایک نہر بھی ” نہر کورا” کے نام سے مشہور ہے جو معلوم ہوتا ہے گورش یعنی سائرس کی طرف منسوب ہے۔ شمال میں بحرکیسپین (Caspian Sea) اور بحر اسود (Black Sea) کے درمیان فوقاز (Caucasus) کا پہاڑ ی سلسلہ ہے جسے کوہ قاف کہتے ہیں۔ اس پہاڑ ی سلسلہ کے درمیان ایک درہ تھا۔ وہاں سائرس کو ایک قوم ملی جس کی بولی مختلف تھی۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قوم نے ذو القرنین پر کسی طرح واضح کر دیا کہ اس درے سے یاجوج و ماجوج نکل آتے ہیں اور فساد برپا کرتے ہیں اس لیے آپ اس درہ کو دیوار سے پاٹ دیں تاکہ ان کی راہ مسدود ہو جائے۔ اس کام کے لیے ہم آپ کو ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں۔

یاجوج و ماجوج (Gog & Magog) سے مراد وہ قومیں ہیں جو کوہ قاف (Caucasus) کے شمال میں آباد تھیں اور روس سے منگولیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے بارے میں ان روایات کی کوئی اصل نہیں جن میں ان کو ایک عجیب و غریب مخلوق کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ ایسی ہی قومیں تھیں جیسی دوسری انسانی قومیں البتہ وہ وحشی تھیں اور قریبی ممالک پر حملہ آور ہو کر لوٹ مار کرتی تھیں۔ قرآن نے ان کا ذکر اس طور سے کیا ہے کہ وہ زمین میں فساد مچاتے تھے۔ بائبل میں ماجو کو نوح کی نسل سے بتایا گیا ہے یعنی یافث بن نوح کی اولاد۔ ( پیدائش ۱۰:۱) اور کتاب حزقیل میں ہے :

” پس اے آدم زاد تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ماجوج پر اور ان پر جو بحری ممالک میں امن و سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا اور وہ جانیں گے کہ میں خداوند ہوں۔ ” (حزقیل باب ۳۹)

غالباً روش سے مراد روس (رشیا) مسک سے مراد ما سکو اور توبل سے مراد تو بالسک ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اس زمانہ میں روس میں وحشی قومیں رہتی تھیں اور غارت گری کیا کرتی تھیں :

” اور مشرق کی جانب یاجوج کی آبادیاں ہیں اور ان کے درمیان کوہ قاف حد فاصل ہے۔ ” (مقدمہ ابن خلدون ص ۷۹)

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے مجھے اتنے وافر وسائل عطا کئے ہیں کہ اس دیوار کی تعمیر کے لیے جس کا مقصد مفسدوں کی راہ روکنا ہے تم سے ٹیکس وصول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خدمت میں انجام دوں گا البتہ تم اس کام میں محنت اور قوت سے شریک ہو جاؤ۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ دیوار مٹی اور پتھر سے نہیں بلکہ لوہے اور تانبے سے بنائی گئی تھی۔ لوہے کے تختوں کو کھڑ ا کر کے خوب دھونکا گیا اور جب وہ آگ کی طرح سرخ ہو گئی تو ان پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دیا گیا۔ اس طرح یہ آہنی دیوار تیار ہو گئی۔

جہاں تک لوہے اور تانبے کی فراہمی کا سوال ہے کوہ قاف کے قریبی علاقہ آذر بائیجان میں لوہے کی بہ کثرت کانیں پائی جاتی ہیں اور ارمینیہ میں لوہے کے علاوہ تانبے وغیرہ کی بھی۔

(ملاحظہ ہو مفاہیم جغرافیہ فی القصص القرآن ۳۰۷) دیوار دو پہاڑوں کے درمیان تعمیر کی گئی تھی یہ درۂ  داریال تھا جو مسدود ہو گیا۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دیوار کی تعمیر سے یاجوج و ماجوج کی غارت گری کا سلسلہ رک گیا۔ دیوار بلند تھی اس لیے وہ اس کے اوپر سے چڑ ھ کر نہیں آ سکتے تھے اور آہنی تھی اس لیے وہ اس میں شگاف بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس طرح یہ عظیم خدمت ذو القرنین کے ہاتھوں انجام پائی۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تاریخی دیوار کی تعمیر کو ذو القرنین نے اپنا کارنامہ نہیں قرار دیا بلکہ ایک بندۂ مومن کی طرح کہا کہ یہ اللہ کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور قیامت پر یقین رکھتے ہوئے کہا کہ یہ دیوار کتنی ہی مضبوط ہو لیکن لا زوال نہیں ہے۔ قیامت کے دن تو بہر حال اسے ریزہ ریزہ ہونا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی بلکہ مطلب یہ تھا کہ اگر یہ طویل مت تک قائم بھی رہی تو قیامت کے دن اسے فنا ہونا ہی ہے۔

یہ آہنی دیوار ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی چنانچہ عباسی خلیفہ واثق باللہ نے اپنے بعض عمال کو اس کی تحقیق کے لیے بھیجا تھا اور انہوں نے یہ رپورٹ پیش کی تھی کہ یہ دیوار لوہے کی اینٹوں سے بنائی گئی ہے جس میں پگھلا ہوا تانبا شامل کیا گیا ہے اور اس کا آہنی دروازہ مقفل ہے۔ ” (تفسیر کبیر ج ۲۱ ص ۱۷۰)

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ذو القرنین کا بیان اس بات پر ختم ہوا تھا کہ ” میرے رب کا وعدہ بر حق ہے ” اس وعدۂ بر حق کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔

قیامت کا جب آغاز ہو گا تو لوگ گھبراہٹ کی وجہ سے نکل پڑیں گے۔ انسانوں کا ایک سیلاب ہو گا جو امڈ پڑ ے گا۔ لوگ بے تحاشا بھاگ رہے ہوں گے اور اس بھاگ دوڑ میں ایک دوسرے سے بری طرح ٹکرائیں گے۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانوں کے باہم ٹکرا جانے کا واقعہ پہلے صور کے موقع پر پیش آئے گا۔ اس حادثہ کے نتیجہ میں سب انسان مر جائیں گے۔ اس کے بعد جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب انسان خواہ وہ کسی زمانہ میں اور کسی جگہ مرے ہوں دوبارہ زندہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے حضور پیشی کے لیے جمع کرے گا اس طرح پوری نوع انسانی حشر میں جمع ہو گی۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ جہنم کا انکار کرتے رہے ہیں اور اس کا مذاق اڑ تے رہے ہیں قیامت کے دن ان کے سامنے جہنم پیش کر دی جائے گی کہ لو اب اپنے سر کی آنکھوں سے جہنم کو دیکھ لو۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو ہوش میں لانے کے لیے جو نصیحت نازل کی گئی تھی اس سے انہوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور اس کو سننے کے لیے بھی وہ آمادہ نہ تھے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت کی قوتیں اس لیے عطا کی ہیں کہ وہ اس کی نشانیوں کو دیکھے اور اس کی نصیحت کو سنے مگر جب وہ اس مقصد کے لیے ان قوتوں کا استعمال نہیں کرتا تو وہ معطل ہو کر رہ جاتی ہیں پھر نہ اسے خدا پرستی کی کوئی شان دکھائی دیتی ہے اور نہ وہ نصیحت سننے کا روادار ہوتا ہے۔

کافروں کی اگر نفسیات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو گا کہ وہ کس طرح گمراہی پر اپنے کو مطمئن کر لیتے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جہاں قوتِ فیصلہ عطا کی ہے وہاں اس کے اندر خواہشات بھی رکھی ہیں تاکہ اس کا امتحان ہو۔ جب انسان خواہشات کو قابو میں رکھنے کے بجائے ان سے مغلوب ہو جاتا ہے تو وہ غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے اور کفر کی راہ دراصل خواہشات کے غلبہ ہی کے نتیجہ میں اختیار کرتا ہے اور جب وہ خواہشات سے مغلوب ہو جاتا ہے تو ان کے پردے اس کی عقل پر پڑ جاتے ہیں اور جب عقل پر خواہشات کے پردے پڑ جاتے ہیں تو سماعت و بصارت کی قوتیں جو عقل کو صحیح علم عطا کرنے کا ذریعہ ہیں تاکہ عقل علم کی روشنی میں انسان کی رہنمائی کرے معطل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اور خواہشات کے یہ پردے جو عقل پر پڑ جاتے ہیں در حقیقت جہالت کے پردے ہیں۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں شرک اور انکارِ آخرت کے تعلق سے تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تنبیہ ہے ان لوگوں کو جو اللہ کو اپنا واحد کارساز ماننے کے بجائے اس کے بندوں کو کارساز مانتے ہیں۔ ان کے بارے میں وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر قیامت برپا ہوہی گئی تو یہ فرشتے جن کو ہم ” واسطہ اور وسیلہ” بنائے ہوئے ہیں اللہ کے حضور ہماری نجات کے لیے سفارش کر دیں گے۔ ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ تمہاری محض خام خیالی ہے۔ فرشتے یا ہمارے دوسرے نیک بندے تمہیں کیا بچا سکیں گے جبکہ ہم نے کافروں کی میزبانی کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ آدمی اگر آخرت کا قائل بھی ہو تو اللہ کے نیک بندوں کو کارساز ماننے کا عقیدہ وہ گمراہی ہے جو خدا کے حضور جوابدہی کے احساس کو ختم کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ آدمی عمل کی جگہ فلاں اور فلاں کی کارسازی پر اعتماد کرنے لگتا ہے اس طرح آخرت کا عقیدہ بالکل معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا کار ساز بنا ا ہے چنانچہ ” کفارہ” کا عقیدہ اس کا واضح ثبوت ہے اور اس عقیدہ کے نتیجہ میں آخرت کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو کر رہ گیا ہے۔

مسلمانوں میں بھی بگڑ ے ہوئے عقیدہ کے لوگ موجود ہیں۔ کوئی حضرت علی اور حضرت حسین کو کار ساز بنائے ہوئے ہے تو کوئی "پیران پیر” کو اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ فکرِ آخرت سے وہ بے پروا ہو گئی ہیں۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنہوں نے آخرت کے بجائے دنیا کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے جن کی ساری دوڑ دھوپ اپنی دنیوی زندگی کو ” شاندار” بنانے کے لیے ہے۔ مقصد کا صحیح تعین نہ کر کے انہوں نے اپنی زندگیوں کو بالکل غلط رخ پر ڈال دیا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہیں کہ وہ بڑ ے اچھے کام کر رہے ہیں۔

آج بھی انسانی سوسائٹی کا بہت بڑ ا حصہ دنیا ہی کو مقصد حیات بنائے ہوئے ہے۔ وہ اپنی انفرادی زندگی میں مفاد دنیا ہی کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی اسی کو غایت بناتی ہیں۔ اگر وہ قوم کی خدمت کرتے ہیں تو اس لیے کہ ان کی دنیا بنے ” وہ تعلیمی سرگرمیاں دکھاتے ہیں تو اس لیے کہ قوم کو علوم دنیا سے مالا مال کر دیں ” وہ کوئی معاشی پروگرام بناتے ہیں تو اس لیے کہ لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کریں۔ غرضیکہ ان کے سارے کام دنیوی اور مادی ترقی کے لیے ہوتے ہیں۔ اس سے بلند کوئی مقصد ان کے سامنے نہیں ہوتا کہ وہ تعمیر انسانیت کا کام کریں۔ وہ اپنی ان خدمات کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا کو اپنا نصب العین بنانے والے نہ خدا کی آیتوں کو مانتے ہیں اور نہ اس کے حضور پیشی کا یقین رکھتے ہیں اس لیے ان کے تمام اعمال اور ان کے تمام کارنامے اکارت جانے والے ہیں۔ آخرت کی میزان میں وہ بالکل بے وزن ہوں گے۔ جب انہوں نے دنیا ہی کے لیے سب کچھ کیا تھا اور اس کا پھل بھی انہیں دنیا ہی میں مل گیا تھا تو آخرت میں اس کا اجر انہیں کیوں ملے۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فردوس جنت ہی کا دوسرا نام ہے اور باغوں کو اس کی طرف منسوب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فردوس کا لفظ یہاں اس وسیع جنت کے لیے استعمال ہوا ہے جس میں بہت سے باغ ہوں گے۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت میں رہ کر وہ اکتائیں گے نہیں کہ کسی اور جگہ منتقل ہونا چاہیں بلکہ وہ پورے سکون و اطمینان اور مسرت و شادمانی کے ساتھ جنت میں رہیں گے اور ہمیشہ وہیں رہنا چاہیں گے۔

قرآن و سنت کی تصریحات سے جنت کا جو تصور قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وسعت آسمانوں اور زمین کی وسعت کی طرح ہے اور ان میں درجوں کی بلندی ایسی ہے جیسے تارے جو نہایت بلندی پر نظر آتے ہیں۔ گویا جنت بجائے خود ایک وسیع عالم ہے اور اہل ایمان کی کوئی آرزو اور طلب ایسی نہ ہو گی جو وہاں پوری نہ ہو۔ اس لیے وہاں سے کہیں اور جانے یا منتقل ہونے کی وہ کبھی خواہش نہ کریں گے۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس سورہ میں اللہ کی قدرت کے جن عجائبات اور اس کی حکمت کے جن کرشموں کا ذکر ہوا ہے وہ کلمات الٰہی میں سے چند ایک باتیں ہیں جو غور و فکر اور سبق آموزی کے لیے پیش کر دی گئی ہیں ورنہ اس کی باتیں اتنی ہیں کہ ضبط تحریر میں لانے کے لیے سمندروں کے بقدر روشنائی بھی کفایت نہ کرے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔ اگر ایک ذرہ کی خصوصیات پر ایک مقالہ لکھا جا سکتا ہے تو اس کائنات پر لکھنے کے لیے کتنے دفتر درکار ہیں ؟ اس بات سے جو بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے وہ ہے اللہ کی عظمت، اس کے علم کی وسعت اور اس کی قدرت و حکمت کے کرشموں کا بے انتہا ہونا۔

اللہ کی عظمت کے اس تصور سے توحید کی راہ بھی روشن ہوتی ہے اور آخرت کا یقین بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری طرح انسان ہی ہوں ، البتہ جو امتیاز مجھے حاصل ہے وہ وحی کا ہے۔ وحی الٰہی مجھ پر آتی ہے تم پر نہیں آتی اور وحی الٰہی ہی کی وجہ سے میں منصب رسالت پر مامور ہو گیا ہوں۔

قرآن کی اس صراحت کے باوجود مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بشر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ تاویلات اور بے اصل روایتوں کا سہارا لے کر آپ کو فوق البشر (انسان سے بڑ ھ کر) ثابت کر دکھانا چاہتا ہے۔ وہ اس بات میں عار محسوس کرتا ہے کہ آپ کو بشر کہا جائے حالانکہ اسی سے آپ کی ا سکا اظہار ہوتا ہے کہ ایک بشر کو نبوت و رسالت کا وہ اشرف مقام حاصل ہو گیا جو دوسرے انسانوں سے اسے ممتاز کرتا ہے۔

نصاریٰ نے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت میں غلو کیا تو انہیں نعوذ  باللہ خدا کا بیٹا بنا دیا۔ معلوم ہوا کہ رسول کی شخصیت میں غلو کرنے سے گمراہی کی راہیں کھلتی ہیں۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے الٰہ واحد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی اقتدار رکھنے والی ہستی (خدا) اللہ ہی ہے اور معبود حقیقی ( مستحق عبادت) بھی وہی ہے اس لیے عبادت اسی کا حق ہے اور جس طرح اللہ کے ساتھ اور خداؤں کا قائل ہونا شرک ہے اسی طرح اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک کرنا بھی شرک ہے۔ پہلا شرک عقیدہ کا ہے اور وسرا شرک عمل کا۔ اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان اپنے عقیدہ کو بھی شرک سے پاک رکھے اور عمل کو بھی۔

عبادت میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں ان کی صراحت قرآن نے موقع موقع سے کر دی ہے مثلاً حاجت روائی کے لیے پکارنا، فریاد کرنا ، نام کی مالا جپنا، خشوع و خضوع کے ساتھ جھکنا، خائف و لرزاں ہونا، التجائیں کرنا، پناہ ڈھونڈنا، دعائیں کرنا، نذر ماننا، تقرب چاہنا، جانور کو ذبح کرتے وقت نام لینا، قربانی پیش کرنا، نعمتوں کے حاصل ہو جانے پر شکر گزار ہونا، عاجزی کرنا، امیدیں وابستہ کرنا، شدید محبت کرنا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، صدقہ و خیرات کرنا، طواف اور منا سک ادا کرنا غرضیکہ پرستش کی تمام شکلیں عبادت میں داخل ہیں اور عبادت اللہ کے لیے خاص ہے۔

واضح رہے کہ اللہ کی عبادت کے ساتھ اس کی اطاعت لازم و ملزوم ہے لیکن عبادت کو محض اطاعت قرار دینا عبادت کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ عبادت یا پرستش کا تعلق اس مخصوص جذبہ سے ہے جو فطرت کے اندر ودیعت ہوا ہے اور اپنے ظہور کے لیے اس کا رخ رب حقیقی ہی کی طرف ہے جبکہ اطاعت ایک ذہنی فیصلہ اور اعضاء و جوارح کا عمل ہے۔ اوپر جو مثالیں پیش کی گئیں ان پر عرف عام میں بھی اور دینی اصطلاح میں بھی پرستش یا عبادت کا اطلاق ہوتا ہے نہ کہ اطاعت کا۔

دوسرا بڑ ا فرق عبادت و اطاعت میں یہ ہے کہ عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں جبکہ اطاعت شریعت کے دائرہ میں رہ کر انسانوں کی بھی کی جا سکتی ہے اور رسول کی اطاعت کا تو اللہ تعالیٰ نے صریح حکم دیا ہے جبکہ رسول کی عبادت نہ صرف یہ کہ جائز نہیں بلکہ شرک ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 (۱۹) سورۂ مریم

 

 (۹۸آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ میں حضرت مریم اور ولادتِ مسیح کا قصہ بیان ہوا ہے اس مناسبت سے سورہ کا نام مریم قرار پایا ہے۔

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

واقعات کی روشنی میں نصاریٰ کے باطل عقائد کی تردید کرنا ہے اور ساتھ ہی مشرکین کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کرنا ہے۔ اس میں دعوت کے تینوں اجزاء توحید، رسالت اور آخرت ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ حروفِ مقطعات پر مشتمل ہے۔ آیت ۲ تا ۱۵ میں حضرت یحیٰ کی ولادت کا قصہ بیان ہوا ہے جو ولادتِ مسیح کے واقعہ کی تمہید ہے۔

آیت ۱۶ تا ۳۶ میں حضرت مریم اور ولادتِ مسیح کا قصہ بیان ہوا ہے۔

آیت ۳۷ تا ۴۰ میں نصاریٰ کو ان کے اختلافات پر متنبہ کیا گیا ہے۔

آیت ۴۱ تا۵۰ میں حضرت ابراہیم کی دعوتِ توحید اور اس کے نتیجہ میں پیش آنے والا ہجرت کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۵۱ تا۶۳ میں حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم اسلام کا ذ کر ہوا ہے جس سے ایک طرف سلسلۂ رسالت کو بیان کرنا مقصود ہے اور دوسری طرف ان کی تعلیمات سے انحراف کرنے والوں کو ہلاکت سے آگاہ کرنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں کو کامیابی کی خوشخبری دینا ہے۔

آیت ۶۴ تا ۶۶ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر و استقامت کی ہدایت ہے۔

آیت ۶۷ تا ۹۸ میں منکرینِ آخرت کے شبہات کو دور کرتے ہوئے ایمان و یقین پیدا کرنے والے احوال پیش کئے گئے ہیں۔

 

شاہِ حبش کے دربار میں سورہ مریم کا سنایا جانا

 

مکہ میں جب مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اگر تم حبش کی طرف نکل جاؤ تو اچھا ہے کیونکہ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کی حکومت میں کوئی ظلم نہیں کر سکتا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک قافلہ حبش پہنچ گیا۔ یہ نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے۔ قریش نے بھی اپنا ایک وفد شاہ حبش کے پاس بھیجا تاکہ ان مہاجرین کو وہ واپس کر دے۔ وفد نے بادشاہ کو ہدیئے اور نذرانے پیش کئے اور اس سے کہا کہ چند نوجوان ہمارے ملک سے بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنا دین بدل دیا ہے لہٰذا انہیں ہمارے حوالہ کر دیا جائے۔

بادشاہ نے جو نجاشی کہلاتا تھا اور عیسیٰ علیہ السلام کا پیرو تھا مہاجر مسلمانوں کو بلا بھیجا اور ان سے پوچھا کہ یہ تم نے کون سا دین اختیار کیا ہے ؟ اس وقت حضرت جعفر بن ابی طالب نے بڑی مؤثر تقریر کی جس میں انہوں نے زمانۂ جاہلیت کے حالات بتلاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اور اسلام کی ان خوبیوں کا ذ کر کیا جس نے ان کی زندگیوں کو بالکل بدل دیا اور ان کے اندر بہترین اوصاف پیدا کئے۔ نجاشی نے کہا مجھے اس کلام کا کچھ حصہ تو سناؤ جو تمہارے نبی پر نازل ہوا ہے۔ حضرت جعفر نے سورۂ مریم کا ابتدائی حصہ سنایا۔ نجاشی اس کلام کو سن کر رو پڑا اور دربار کے پادریوں پر بھی رقت طاری ہو گئی۔ نجاشی نے کہا بلا شبہ یہ کلام اور جو کچھ حضرت عیسیٰ لائے تھے ایک ہی نور کی کرنیں ہیں۔ پھر اس نے قریش کے قاصدوں سے کہا میں ان لوگوں کو ہرگز تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ اس نے ان کے ہدئے بھی یہ کہ کر واپس کر دئے کہ مجھے رشوت کی ضرورت نہیں ہے اور مسلمان مہاجرین سے کہا تم امن و چین سے رہ سکتے ہو۔

کلام الٰہی کی یہ وہ تاثیر تھی جس کے آگے شاہ و گدا سب بے بس تھے ! (ہجرت حبشہ کا واقعہ تفصیل سے سیرت ابن ہشام ج ا ص ۳۴۳ تا ۳۶۴ میں بیان ہوا ہے۔)

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ کاف۔ با۔ یا۔ عین۔ صاد ۱ *

۲۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہارے رب کی اس رحمت کا ذ کر ہے جو اس نے اپنے بندہ ز کریا پر کی تھی۔ ۲ *

۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے اپنے رب کو چپ کے چپ کے پکارا۔ ۳*

۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے دعا کی اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے سفید ہو گیا ہے اور اے رب ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے تجھے پکارا ہو اور محروم رہا ہوں۔ ۴*

۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے۔ ۵* اور میری بیوی بانجھ ہے ۶* تو تو خاص اپنی طرف سے مجھے وارث عطا کر۔ ۷*

۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو میرا وارث بھی ہو اور آل یعقوب کا بھی ۸* اور اے رب اسے پسندیدہ بنا۔ ۹*

۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ز کریا ہم تمہیں ایک لڑ کے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہو گا ۱۰* ہم نے اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔ ۱۱ *

۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے عرض کیا اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہاء کو پہنچ چکا ہوں !۱۲*

۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ایسا ہی ہو گا۔ ۱۳* تمہارا رب فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے۔ میں اس سے پہلے تمہیں پیدا کر چکا ہوں جب کہ تم کچھ بھی نہ تھے۔ ۱۴*

۱۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے عرض کیا اے میرے رب! میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے۔ ۱۵* فرمایا تمہارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شب و روز لوگوں سے بات نہ کر سکو گے۔ ۱۶*

۱۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ عبادت کے حجرہ سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور ان سے اشارہ سے کہا کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ ۱۷*

۱۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے یحیٰ کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو ۱۸*  اور ہم نے اس کو بچپن ہی سے حکمت عطا فرمائی۔ ۱۹*

۱۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خاص اپنے پاس سے نرم دلی ۲۰* اور پاکیزگی۔ *۲۱ اور وہ بڑا پرہیز گار تھا۔ ۲۲*

۱۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا۔ خود سر و نافرمان نہ تھا۔ ۲۳*

۱۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامتی ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۔ ۲۴*

۱۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر!) کتاب میں مریم کا ذ کر کرو ۲۵* جبکہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی۔ ۲۶*

۱۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے ان سے پردہ کر لیا۔ ۲۷* تو ہم نے اس کے پاس اپنی روح (فرشتہ) کو بھیجا اور وہ اس کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل میں ظاہر ہو گیا۔

۱۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بول اٹھی اگر تو خدا سے ڈرنے والا ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ ۲۸*

۱۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا میں تو تمہارے رب کا فرستادہ ہوں تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ ۲۹*

۲۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بولی میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور نہ میں بدکار ہوں۔ ۳۰*

۲۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا ایسا ہی ہو گا۔ ۳۱* تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے آسان ہے اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں۔ ۳۲* اور اپنی طرف سے رحمت ۳۳* اور یہ بات طے پاچکی یہ۔ ۳۴*

۲۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے حمل ٹھہر گیا اور وہ اس کو لئے ہوئے دور کے مقام کو چلی گئی۔ ۳۵ *

۲۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اسے درد زہ کھجور کے تنے کے پاس لے گیا۔ وہ کہنے لگی کاش! میں اس سے پہلے مر چکی ہوتی اور بھولی بسری بن گئی ہوتی۔ ۳۶*

۲۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت فرشتہ نے اسے نیچے سے پکارا غمگین نہ ہو۔ تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے۔ ۳۷*

۲۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کھجور کے تنے کو پکڑ کر اپنی طرف ہلالو۔ تر و تازہ کھجوریں تم پر جھڑ پڑیں گی۔ ۳۸*

۲۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس کھاؤ اور پیو اور (اپنی) آنکھیں ٹھنڈی کرو ۳۹* پھر اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہ دو میں نے رحمن کے لیے روزہ کی نذر مانی ہے اس لیے آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔ ۴۰*

۲۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کو لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی۔ لوگ کہنے لگے اے مریم ! تو نے یہ عجیب حرکت کی۔ ۴۱*

۲۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہارون کی بہن! ۴۲* نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بد کار عورت تھی۔ ۴۳*

۲۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اس (بچہ) کی طرف اشارہ کیا۔ ۴۴* لوگوں نے کہا ہم اس سے کیا بات کریں جو ابھی گہوارہ میں بچہ ہے۔ ۴۵*

۳۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچہ بول اٹھا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا۔ ۴۶*

۳۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے بابرکت کیا جہاں کہیں بھی رہوں۔ ۴۷* اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے جب تک میں زندہ رہوں۔ ۴۸*

۳۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس نے مجھے اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا۔ ۴۹* سرکش اور بد بخت نہیں بنایا۔

۳۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامتی ہے مجھ پر جس دن پیدا ہوا” جس دن میں مروں گا اور جس دن زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔ ۵۰*

۳۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے عیسیٰ بن مریم۔ (اور یہ ہے) حق بات جس کے بارے میں لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ ۵۱*

۳۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ ۵۲* وہ پاک ہے۔ جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس فرماتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ ۵۳*

۳۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (عیسیٰ نے صاف صاف کہا تھا) اللہ میر رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھی راہ ہے۔ ۵۴*

۳۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر مختلف فرقوں نے باہم اختلاف کیا۔ ۵۵* تو جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے ایک سخت دن کی حاضری تباہی کا سبب ہو گی۔ ۵۶*

۳۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن یہ ہمارے حضور حاضر ہوں گے اس دن وہ خوب سنیں گے اور خوب دیکھیں گے ۵۷*۔ مگر آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

۳۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انہیں حسرت (پچھتاوے) کے دن سے خبردار کرو جبکہ فیصلہ چکا دیا جائے گا ۵۸* اور ان کا حال یہ ہے کہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔

۴۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ ہم ہی زمین کے اور اس پر بسنے والوں کے وارث ہوں گے ۵۹* اور سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔

۴۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے نبی) کتاب میں ابراہیم کا ذ کر کرو۔ ۶۰* یقیناً وہ نہایت سچا تھا ۶۱* اور نبی تھا۔

۴۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے اپنے باپ سے کہا ابا جان!آپ کیوں ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام آ سکتی ہیں ؟ ۶۲*

۴۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ ۶۳* تو آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

۴۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا جان ! آپ شیطان کی پرستش نہ کیجئے۔ ۶۴* شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔

۴۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا جان! میں ڈرتا ہوں کہ رحمن کا عذاب آپ کو آ نہ پکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں۔

۴۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باپ نے کہا ابراہیم ! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے۔ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ ۶۵* تو مجھ سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جا ۶۶*۔

۴۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم نے کہا سلام ہو آپ پر۔ میں آپ کے لیے اپنے رب سے معافی کی دعا کروں گا۔ ۶۷* وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔

۴۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ لوگوں سے نیز ان سے جن کو آپ لوگ الہ کے سوا پکارتے ہیں الگ ہو جاتا ہوں اور اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں۔ امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے محروم نہیں رہوں گا۔

۴۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب وہ ان سے نیز ان ( کے معبودوں) سے جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے الگ ہو گیا تو ہم نے اس کو اسحق اور یعقوب عطا کئے ۶۸* اور ان میں سے ہر ایک کو نبی بنایا۔

۵۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کے لیے سچائی کی زبانیں بلند کر دیں۔ ۶۹*

۵۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتاب میں موسیٰ کا ذ کر کرو۔ وہ چنا ہوا بندہ) تھا ۷۰* اور رسول اور نبی تھا۔ ۷۱*

۵۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو طور کی داہنی جانب سے پکارا ۷۲* اور سرگوشی کے لیے قریب کیا۔ ۷۳*

۵۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اسے عطا کیا ۷۴*

۵۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتاب میں اسمٰعیل کا ذ کر کرو۔ وہ وعدے کا سچا ۷۵* اور رسول اور نبی تھا۔

۵۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا ۷۶* اور اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ تھا۔

۵۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتاب میں ادریس کا ذ کر کرو ۷۷*۔ وہ نہایت سچا تھا اور نبی تھا۔

۵۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اسے بلند مقام پر اٹھایا تھا۔ ۷۸*

۵۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں انبیاء میں سے وہ لوگ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ۷۹* آدم کی اولاد میں سے ۸۰* اور ان لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کرایا اور ابراہیم کی نسل سے اور اسرائیل کی نسل سے ۸۱* اور ان لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور منتخب کیا۔ ان کو جب رحمن کی آیتیں سنائی جاتیں تو وہ روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے۔ ۸۲*

۵۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان کے بعد ایسے نا خلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشات کے پیچھے پڑ گئے۔ ۸۳* تو قریب ہے کہ یہ گمراہی کے انجام سے دو چار ہوں۔ ۸۴*

۶۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جو لوگ توبہ کر لیں ، ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہ ہو گی۔ ۸۵*

۶۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشگی کے باغ جن کا رحمن نے اپنے بندوں سے غائبانہ وعدہ کر رکھا ہے یقیناً اس کا وعدہ پورا ہو کر رہنا ہے۔ ۸۶*

۶۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں وہ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے۔ ۸۷* جو کچھ سنیں گے سلامتی ہی کی بات ہو گی۔ اور انہیں صبح و شام اپنا رزق ملتا رہے گا۔ ۸۸*

۶۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے ان کو بنائیں گے جو اللہ سے ڈرتے رہے۔ ۸۹*

۶۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔ ۹۰* جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں۔ ۹۱*

۶۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کا۔ تو اسی کی عبادت کرو اور اسی کی عبادت پر قائم رہو۔ کیا تمہارے علم میں اس کا ہم نا (اس جیسا) کوئی ہے ؟ ۹۲*

۶۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا۔

۶۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم اس سے پہلے اسے پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔

۶۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے رب کی قسم” ہم ان سب کو نیز شیطانوں کو ضرور اکٹھا کریں گے۔ پھر ان سب کو جہنم کے گرد اس طرح حاضر کریں گے کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئی ہوں گے۔ ۹۳*

۶۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو الگ کریں گے جو رحمن کے خلاف بہت زیادہ سرکش بنے ہوئے تھے۔ ۹۴*

۷۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم ان لوگوں کو بخوبی جانتے ہیں جو جہنم میں جانے کے زیادہ سزاوار ہیں۔

۷۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جو اس پر وارد نہ ہو۔ یہ طے شدہ بات ہے جو تمہارے رب پر لازم ہے۔ ۹۵*

۷۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ۹۶* ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا تھا۔ ۹۷* اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ ۹۸*

۷۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہماری روشن آیتیں ان لوگوں کو سنائی جاتی ہیں تو کفر کرنے والے ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے کون ہے جو بہتر مقام رکھتا ہے اور بہتر مجلس۔

۷۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ ہم اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو کہیں زیادہ سازو سامان رکھتی تھیں اور شان و شوکت میں کہیں بڑھ کر تھیں۔ ۹۹*

۷۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ گمراہی میں پڑتے ہیں رحمن انہیں ڈھیل دیا کرتا ہے ۱۰۰* یہاں تک کہ جب وہ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے خواہ وہ عذاب ہو ۱۰۱* یا قیامت کی گھڑی اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ کس کی جگہ بدتر اور کس کا جتھا نہایت کمزور ہے۔

۷۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے۔ ۱۰۲* اور باقی رہنے والی نیکیاں تمہارے رب کے نزدیک اجر کے اعتبار سے بھی بہتر ہیں اور انجام کے اعتبار سے بھی۔ ۱۰۳*

۷۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے دیکھا اس شخص کو جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہتا ہے کہ میں ضرور مال اور اولاد سے نوازا جاؤں گا۔ ۱۰۴*

۷۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھا ہے یا رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے۔ ۱۰۵*

۷۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ وہ جو کچھ کہتا ہے ہم اسے لکھ لیں گے اور اس کے عذاب میں مزید اضافہ کریں گے۔

۸۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس چیز کا وہ دعویٰ کرتا ہے اس کے وارث ہم ہوں گے۔ اور وہ ہمارے سامنے تنہا حاضر ہو گا۔ ۱۰۶

۸۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے مدد گار ہوں۔

۸۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ وہ قیامت کے دن ان کی عبادت کا انکار کریں گے اور ان کے مخالف بن جائیں گے۔ ۱۰۷*

۸۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم نے کافروں پر شیطانوں کو چھوڑ رکھا ہے جو انہیں اکساتے رہتے ہیں۔ ۱۰۸*

۸۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کے خلاف (فیصلہ کے لیے) تم جلدی نہ کرو۔ ہم ان کے دن گن رہے ہیں۔ ۱۰۹*

۸۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ہم متقیوں کو رحمن کے حضور شاہی مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔ ۱۱۰*

۸۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح ہانک لے جائیں گے۔

۸۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اس دن) کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا وہی شفاعت کرس کے گا جس نے رحمن کے حضور فرمان حاصل کر لیا ہو۔ ۱۱۱*

۸۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں رحمن نے بیٹا بنا رکھا ہے ۱۱۲*

۸۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑی سخت بات ہے جو تم نے گھڑ لی۔

۹۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر پڑیں۔

۹۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بات پر کہ یہ رحمن کے لیے بیٹا ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ۱۱۳*

۹۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رحمن کی یہ شان نہیں کہ (کسی کو) بیٹا بنائے۔

۹۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندہ کی حیثیت سے حاضر ہونے والے ہیں۔ ۱۱۴*

۹۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب کا اس نے احاطہ کر رکھا ہے اور ایک ایک کو گن رکھا ہے۔ ۱۱۵*

۹۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سب قیامت کے دن اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔

۹۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے رحمن ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا۔ ۱۱۶*

۹۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس (کتاب) کو تمہاری زبان میں اس لیے آسان بنایا ہے تاکہ تم متقیوں کو خوشخبری دے دو اور جھگڑالو لوگوں کو خبردار کرو۔ ۱۱۷*

۹۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی کو موجد پاتے ہو یا تمہیں ان کی بھنک بھی سنائی دیتی ہے۔ ؟۱۱۸*

 

                   تفسیر

 

۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حروفِ مقطعات ہیں جن کے سلسلہ میں ضروری وضاحت سورۂ بقرہ نوٹ ۱ اور سورۂ یونس نوٹ ۱ میں کی جاچکی ہے۔ ان حروف کا اشارہ اس سورہ کے بعض اہم مضامین کی طرف ہے جس کی تفصیل یہ ہے :

"کاف” کا اشارہ کُن فیکُونْ (وہ حکم دیتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔ آیت ۳۵) کی طرف ہے اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جو خدا اپنے ایک حکم سے کسی بھی چیز کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اس نے اگر عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اس کو خدا کا بیٹا قرار دیا جائے یا خدائی میں شریک ٹھہرایا جائے۔ اس سلسلۂ مضامین میں ” ک” کُن (ہو جا) کے لیے ایک حرفِ علامت (Significant Letter) ہے جو ذہن کو مذکورہ حقیقت کی طرف موڑتا ہے۔

"ھا” کا اشارہ ھَیّنٌ (تمہارا رب فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے آسان ہے۔ آیت ۹) اور پھر حضرت یحیٰ کی پیدائش ہو یا حضرت عیسیٰ کی غیر معمولی طریقہ پر ان کو پیدا کرنا اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اس کی قدرت کے یہ ادنیٰ کرشمے ہیں۔ ” یا” کا اشارہ یحیٰ کی ط ہے جن کا ذ کر آیت ۷ تا ۱۰ میں ہوا ہے۔

"عین” کا اشارہ عیسیٰ کی طرف ہے جن کا نام آیت ۳۴ میں آیا ہے اور جن کی ولادت کا ذ کر اس سے پہلے کی آیات میں تفصیل سے ہوا ہے۔ ” صاد” کا اشارہ صَبِیّا کی طرف ہے جس کے معنیٰ بچے کے ہیں۔ آیت ۱۲ میں حضرت یحیٰ کے بارے میں یہ اہم بات ارشاد ہوئی ہے کہ وَآتَیْنَاہ الحکم صَبِیّاً (ہم نے اسے حکم یعنی حکمت عطا کی جب کہ وہ ابھی بچہ تھے) اسی طرح آیت ۱۹ میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں صبیّا (بچہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں ان کے گہوارہ سے بات کرنے کا ذ کر ہوا ہے یعنی اللہ کے اس معجزہ کا ذ کر ہے کہ عیسیٰ کو اس نے جبکہ وہ گہوارہ میں صبی یعنی بچہ تھے گویائی عطا فرمائی۔

(اور اللہ ہی اپنے کلام کے اسرار بہتر جانتا ہے) ۔

۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ز کریا انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں اور ان کا زمانہ حضرت مسیح کی ولادت سے پہلے کا ہے اور ولادت مسیح کے بعد بھی وہ ایک عرصہ تک زندہ رہے۔

۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ بندہ جب اپنے لیے دعا کرے تو چپ کے چپ کے کرے تاکہ وہ ریا اور نمائش سے پاک ہو اور اپنے رب کے سامنے اپنے دل کی با توں کو پیش کرس کے۔

۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ز کریا نے جس وقت اولاد کے لیے دعا کی اس وقت وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے۔ ان کی ہڈیاں تک کمزور ہو گئی تھیں اور سر کے بال سفید ہو گئے تھے۔ بڑھاپے کی اس عمر میں اولاد کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر انہوں نے اللہ سے پُر امید ہو کر دعا کی کہ وہ اپنی خاص عنایت سے انہیں نوازے۔ یہ دعا ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی اور ش کر کے ان جذبات کے ساتھ تھی کہ خدا یا جب کبھی میں نے تجھے پکارا ہے تیرے در سے نا مراد نہیں لوٹا ہوں۔ یہ دعائیہ کلمات اللہ کی رحمت کے جوش میں آنے کے لیے نہایت موزوں تھے۔

۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندیشہ اس بات کا کہ کوئی شخص دینی رہنمائی اور قیادت کے منصب کو سنبھالنے والا نہیں ہے۔

واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں دینی رہنمائی اور نبوت کا منصب ان کے ایک قبیلہ بنی لاوی میں چلا آ رہا تھا اور حضرت ز کریا کے زمانہ میں بنی اسرائیل جس انحطاط میں مبتلا تھے اس کے پیش نظر اس منصب کا اہل کوئی نظر نہ آتا تھا اس لیے حضرت ز کریا کو فکر ہوئی کہ ان کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی و قیادت کا کیا انتظام ہو گا۔

۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوقا کی انجیل میں ہے :

” یہودیہ کے بادشاہ ہیرو دیس کے زمانہ میں ابے ّاہ کے فریق میں سے ز کریا ہ نام ایک کاہن (ایک مذہبی عہدہ رکھنے والا تھا) اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع تھا اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ الیشبع بانجھ بھی تھی اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔ ” (لوقا ۱:۵ تا۷)

۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اولاد ہے چنانچہ سورۂ آل عمران آیت ۳۸ میں ذُرّیَّۃً طَیبَۃً (پاکیزہ اولاد) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وارث سے مراد سرمایۂ دین اور علمِ نبوت کا وارث ہے چنانچہ ” آلِ یعقوب کا وارث” کے الفاظ اس مفہوم کی صراحت کرتے ہیں۔

جہاں تک مالی وراثت کا تعلق ہے انبیاء علیہم السلام نہ اس مقصد کے لیے مال جمع کرتے ہیں اور نہ انہیں اس کی فکر ہوتی بلکہ جیسا کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا ہے انبیاء کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا:۔

لا نُورَثُ ماتَرَکنا صَدَقَۃٌ (بخاری کتاب الجہاد) ” ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ ”

البتہ انہیں اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ان کے بعد علم دین کی امانت کا کون اہل ہو گا اور قوم کی دینی رہنمائی و قیادت کے لیے کوئی موزوں فرد ہے یا نہیں۔

۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دین” اخلاق اور سیرت کے اعتبار سے اسے اپنا پسندیدہ بنا۔

۱۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے حضرت ز کریا کو دی اور جیسا کہ سورۂ آل عمران آیت ۳۹ میں بیان ہوا یہ خوشخبری اللہ کی طرف سے فرشتوں نے سنائی تھی جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

یحیٰ کے لفظی معنی ہیں ” وہ زندہ رہے گا” یہ نام اللہ نے رکھا تھا جو ظاہر ہے حکمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت یحیٰ کو حق گوئی کی بنا پر یہودیہ کے حکمراں ہیرودوس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر قتل کر دیا تھا۔ اس طرح وہ راہِ حق میں شہید ہو گئے اور شہید ہونے والے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے مرتے نہیں بلکہ زندہ رہتے ہیں (سورۂ بقرہ آیت ۱۵۴) اس لیے حضرت یحیٰ مر کر زندہ جاوید ہو گئے گویا ان کے نام ہی میں یہ بات مضمر تھی کہ یہ شخصیت زندہ جاوید ہونے والا ہے اس طرح واقعات نے نام کی معنویت ظاہر کر دی۔

۱۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ سَمِیّا استعمال ہوا ہے جس کے ایک معنی تو ” ہم نام” کے ہیں اور دوسرے معنی نظیر کے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یہ ایک انوکھا نام ہے اس سے پہلے کسی کا بھی یہ نام نہیں رکھا گیا تھا اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ یحیٰ کی شخصیت کچھ امتیازی اوصاف اور خصوصیات کی بنا پر ایک بے نظیر شخصیت ہو گی چنانچہ ان کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی ولادت غیر معمولی طریقہ پر ہوئی۔ ان کے والدین نہ صرف بوڑھے ہو گئے تھے بلکہ ان کی والدہ بانجھ بھی تھی اس کے باوجود ان کی ولادت ہوئی۔ دوسری یہ کہ ان کو بچپن ہی میں حکمت عطا ہوئی۔ تیسری یہ کہ ان میں کمال درجہ کا ضبطِ نفس تھا (حصوراً) چنانچہ وہ دنیا کی لذتوں سے زندگی بھر نا آشنا رہے۔ بائبل میں ان کا یہ حال بیان ہوا ہے کہ :

” یہ یُوحنا (یعنی یحیٰ) اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنے چمڑے کا ٹپکا اپنی کمر سے باندھے رہتا تھا اور اس کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا۔ ” (متی ۳:۴)

اور یہ سادہ زندگی انہوں نے مقصدِ حق کی لگن میں بسر کی۔ ان پر ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ قریہ قریہ جاتے اور بیابان کی خاک چھانتے۔

۱۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال بطور رشک کے نہیں تھا بلکہ مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے تھا کہ جس لڑ کے کی ان کو خوشخبری دی جا رہی ہے اس کی ولادت کی کیا صورت ہو گی۔

۱۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے بڑھاپے کے باوجود اور تمہاری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہو گا۔

۱۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس خدا نے تم کو عدم سے وجود میں لایا اس کے لیے یہ کیا مشکل ہے کہ تمہیں بڑھاپے میں اور تمہاری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود اولاد بخشے۔

حضرت یحیٰ کی غیر معمولی طریقہ پر پیدائش کا یہ واقعہ دراصل تمہید ہے حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے واقعہ کی جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اس سے اصلاً یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اگر غیر معمولی پیدائش کی بنا پر حضرت یحیٰ خدا یا خدا کا بیٹا قرار پا سکتے ہیں ؟ اللہ کی قدرت کے کرشموں کا ظہور تو مختلف شکلوں میں ہوتا ہی رہا ہے پھر جو کرشمۂ قدرت حضرت عیسیٰ کے بارے میں ظاہر ہوا اس کو ان کے ابن اللہ ہونے پر محمول کرنا کیا معنیٰ ؟

واضح رہے کہ لوقا کی انجیل میں بھی تمہید کے طور پر حضرت یحیٰ کی ولادت کا واقعہ بیان ہوا ہے۔

۱۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی انہوں نے اس لیے طلب کی تاکہ جس بات کی خوشخبری انہیں دی گئی ہے اس کے وجود میں آنے کا ٹھیک ٹھیک وقت انہیں معلوم ہو جائے اور وہ ذ کر الٰہی میں مشغول ہو جائیں۔

۱۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۶۱ میں گزر چکی۔ سَوِّیَا یعنی صحت مند ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ تین دن تک حضرت ز کریا کا بات نہ کر سکنا گونگے پن یا کسی مرض کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہ ایک غیر معمولی حالت تھی جس میں وہ تسبیح تو کر سکتے تھے لیکن بات نہیں کر سکتے تھے۔

۱۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ کی طرف سے ایک غیر معمولی واقعہ ظہور میں آنے والا ہے لہذا اس کی تسبیح میں سرگرم ہو جاؤ۔

واضح ہوا کہ تسبیح کرنا (اللہ کی پاکی بیان کرنا) عظیم عبادت ہے اور اس کا صبح و شام اہتمام کرنا اللہ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس عبادت کی قدر وہی لوگ گھٹاتے ہیں جو دین کی اقدار (Values) کے معاملہ میں بے بصیرت ہوتے ہیں۔

۱۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طرز کلام سے واضح ہے کہ جس طرح بشارت دی گئی تھی یحیٰ کی ولادت ہوئی اور بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے اور اس کو مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب اس پر پختہ ایمان رکھنا اور صحیح طور سے اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔

اس سے یہ بات آپ ہی واضح ہو رہی ہے کہ حضرت یحیٰ کے زمانہ میں تورات کا ایک حصہ اپنی اصل شکل میں محفوظ تھا اسی لیے اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم دیا گیا۔

۱۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حضرت یحیٰ پر اللہ کا فضل خاص ہوا کہ ان کو بچپن ہی میں سے اس نے حکمت سے نوازا یعنی انہیں سمجھ اور دانائی عطا کی۔

۲۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نرم دلی (رقتِ قلب) وہ اعلیٰ صفت ہے جو انسان کو نصیحت قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے نیز اس سے نفس میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے جس سے انسان دوسروں کے درد کی چوٹ اپنے جگر میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ چیز اسے ہمدرد انسانیت بناتی ہے اور وہ بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حضرت یحیٰ میں اللہ کے فضل سے یہ صفت بدرجۂ کمال موجود تھی۔

۲۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفس کی پوری طہارت۔ ہر قسم کے باطنی امراض سے پاک۔ بالکل قلب مصفا۔

۲۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح باطن میں پاک صاف تھا اسی طرح ظاہر میں بھی پرہیزگار تھا۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی شریعت کے مطابق زندگی گزارنے والا۔

۲۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بندگانِ خدا میں پہلا اور سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ جو شخص ان کے ساتھ بھلائی نہیں کرتا اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دنیا کے ساتھ بھلائی کرے گا اور جو شخص ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے وہ نیکی کی پرورش کا سامان کرتا ہے اس لیے اس سے بجا طور پر یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ بھی بھلائی کرے گا۔ بنی اسرائیل میں اس وقت جو بگاڑ پیدا ہوا تھا اس کی وجہ سے ان کے اندر سے یہ بنیادی صفت غائب ہو گئی تھی وہ لوگوں پر ظلم کرنے والے اور حکم الٰہی کی خلاف ور زی کرنے والے بن گئے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ کو مذکورہ اوصاف کے ساتھ مبعوث کر کے ان کے سامنے سیرت کا ایک نمونہ رکھ دیا تاکہ ان میں احساس ابھرے اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔

۲۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا نے اس کے ساتھ جو بھی سلوک کیا ہو مگر اللہ کی طرف سے اس پر سلامتی ہی سلامتی ہے۔ وہ سلامتی کے ساتھ دنیا میں آیا اور سلامتی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا اور قیامت کے دن بھی سلامتی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ ایسی عظیم شخصیت کی جنہوں نے ناقدری کی انہوں نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنی ہی تباہی کا سامان کیا۔

۲۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذ کر کی اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جبکہ آدمی موجودہ انجیلوں کا تقابلی مطالعہ کرتا ہے اور ان میں اس واقعہ کی اہم کڑیوں کو غائب پاتا ہے۔ قرآن نے حضرت مریم کی عفت اور حضرت مسیح کی دلالت کے تمام اہم پہلوؤں کو اس طرح محفوظ کر دیا ہے کہ واقعہ کی پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے اور بیان کی صداقت یقین کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔

لوقا کی انجیل میں قدرے تفصیل سے حضرت مریم کا ذ کر ہوا ہے لیکن دوسری انجیلوں میں بس سرسری طور سے ہی ہوا ہے۔

۲۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران آیت ۳۵ میں بیان ہوا حضرت مریم کو ان کی والدہ نے عبادت کے لیے وقف کر دیا تھا اس لیے وہ بیت المقدس میں ہیکل کے ایک مشرقی حصہ میں ایک حجرہ میں عزلت نشین ہو کر عبادت میں مشغول ہو گئیں۔

چونکہ ان کی عبادت کی جگہ ہیکل کے مشرقی حصہ میں تھی اس لیے نصاریٰ نے مشرقی جہت کو اپنا قبلہ قرار دیا اور یہ ان کی اپنی اختراع (بدعت) ہے۔

۲۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہیکل کے جس حصہ میں وہ گوشہ نشین ہو گئی تھیں وہاں انہوں نے پردہ ڈال دیا تھا تاکہ لوگ اسے دیکھنے نہ پائیں اور وہ یکسوئی کے ساتھ عبادت کرس کے۔

معلوم ہوتا ہے ہیکل میں حجرہ (محراب) اس طرح بنا ہوا تھا کہ اس کو دروازہ نہیں تھا اس لیے پردہ ڈال کر لوگوں کی نگاہوں سے اپنے کو محفوظ کر لیا تھا۔ دروازہ نہ ہونے اور صرف پردہ ڈالے رہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب بن گئی۔ ان کی پاک دامنی پر حرف رکھنے کے لیے کسی کو کوئی گنجائش نہ رہی۔

۲۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کا ایک اجنبی شخص کو اپنے حجرہ میں دیکھ کر گھبرا جانا ایک فطری بات تھی اور انہوں نے اس کو اللہ سے ڈراتے ہوئے رحمن کی پناہ جو طلب کی وہ ان کے پاک دامن ہونے کا بین ثبوت ہے۔

۲۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوقا کی انجیل میں ہے :

” اور اس کنواری کا نام مریم تھا۔ اور فرشتہ نے اس کے پاس اندر آ کر کہا سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے خداوند تیرے ساتھ ہے۔ وہ اس کلام سے بہت گھبرائی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا کلام ہے۔ فرشتہ نے اس سے کہا اے مریم! خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے۔ اور دیکھ تو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا اس کا نام یسوع رکھنا۔ ” (لوقا۱: ۲۷تا ۳۰)

۳۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انجیل میں ہے :

” مریم نے فرشتہ سے کہا یہ کیوں کر ہو گا جبکہ میں مرد کو نہیں جانتی۔ ” (لوقا ۱: ۳۴)

۳۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کنواری ہونے کے باوجود تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہو گا۔

قرآن کی یہ صراحت اس بارے میں ادنی شبہ کے لیے گنجائش نہیں چھوڑتی کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش بغیر باپ کے کنواری ماں سے ہوئی تھی۔ اور یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا معجزہ تھا۔

رہا بائبل کا یہ بیان کہ حضرت مریم کی منگنی یوسف نام کے ایک شخص سے ہوئی تھی تو یہ محض جھوٹ ہے جو انجیل میں داخل کر دیا گیا ہے۔ حضرت مریم کو تو ان کی والدہ نے عبادت کے لیے وقف کیا تھا مریم اسی لیے وہ ہیکل کے ایک حصہ میں گوشہ نشین ہو گئی تھیں لہٰذا ان کے نکاح کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ پھر بائبل میں ایک جگہ کچھ کہا گیا ہے اور دوسری جگہ کچھ۔ متی کی انجیل میں یوسف کو مریم کا شوہر کہا گیا ہے (متی باب۱: ۱۶) جبکہ لوقا کی انجیل یوسف کو مریم کا منگیتر بتلاتی ہے۔ (لوقا ۲: ۵) اور دوسری جگہ حضرت عیسیٰ کو یوسف کا بیٹا بھی کہا گیا ہے (لوقا ۳:۲۳) اب اگر یوسف مریم کا منگیتر تھا تو محض منگنی کی بنا پر حضرت عیسیٰ اس کے بیٹے کیوں کر ہوئے ؟ اور اگر نکاح ہو چکا تھا تو یوسف کو منگیتر کہنے کے کیا معنی؟ اور کیا یہ بات ایک کنواری کے حاملہ ہونے کو مشکوک نہیں بناتی؟ بائبل کی اس تضاد بیانی کو اس کے شارح نے بھی محسوس کیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے :

"Furthermore, the genealogy here is not in agreement with that in Luke 3:23-38. Actually the genealogy in Matt is that of Joseph, who is represented ad Mary’s husband rather than as the actual father of Jesus )V 5.16)

)The Interpreter’s Commentary on the Bible P.610(

یہ ہے بائبل کی تضاد بیانی جو حضرت مریم کے کنواری ہونے کی حالت میں حاملہ ہونے کو مشکوک بنا دیتی ہے بخلاف اس کے قرآن کا بیان صاف ہے کہ حضرت مریم عبادت کے لیے وقف تھیں ، وہ اپنے لوگوں سے بھی الگ ہو کر عبادت کے لیے گوشہ نشین ہو گئی تھیں۔ کنواری تھیں کہ کسی مرد نے انہیں چھوا تک نہیں تھا اور اللہ کا یہ معجزہ تھا کہ اس حالت میں وہ حاملہ ہو گئیں۔

۳۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عیسیٰ کی ولادت معجزانہ طریقہ پر ہو اور اس بنا پر وہ اس کی قدرت کی نشانی قرار پائیں۔

۳۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عیسیٰ کا وجود اللہ کی رحمت کا فیضان ہو گا۔ کتنے ہی لوگ ان سے ہدایت پا کر رحمت الٰہی کے مستحق بنیں گے۔

۳۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا یہ بات ہو کر رہے گی۔

۳۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد بیت لحم ہے جو یروشلم سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر ہے۔ بائبل میں اس مقام کو حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بتلایا گیا ہے۔

۳۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم نے کسی سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کی اور نہ بے صبری کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس خیال سے پریشان تھیں کہ لوگ چونکہ حقیقتِ حال سے واقف نہیں ہیں اس لیے اس پر تہمت لگائیں گے۔ ایک عفت مآب خاتون کے لیے اس کا تصور ہی ایسا تھا کہ اس کے ہوش و حواس کو متاثر کر کے رکھ دے۔ اس اندیشہ کے پیش نظر ان کی زبان سے یہ کلمات نکل گئے کہ کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور میری یاد بھی لوگوں کے ذہنوں سے فراموش ہو چکی ہوتی۔ ان کے یہ معصومانہ جذبات تھے جن کا اظہار انہوں نے اپنے رب ہی کے حضور کیا تھا۔

۳۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ایک چشمہ نیچے کی جانب جاری کر دیا تھا اس لیے فرشتے نے وہاں سے آواز دی کہ دیکھو جب تم پر اللہ کی عنایات کا یہ حال ہے کہ تمہارے لیے پانی کا چشمہ جاری کر دیا تو تمہیں فکر کس بات کی ہے ؟ جب خدا ہی تمہارے ساتھ ہے تو دنیا تمہارا کیا بگاڑ سکتی ہے تسلی کا یہ سامان تھا جو حضرت مریم کے غم کو غلط کرنے کے لیے کیا گیا۔

۳۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کھجور کے تنے کو ذرا سا ہلانا اس بات کے لیے کافی ہے کہ وہ تمہاری تواضع کے لیے تازہ اور پکی کھجوریں ٹپکائے۔

اس طرح حضرت مریم کے لیے ایک ایسی جگہ جہاں اس کی مد د کے لیے کوئی نہیں تھا کھانے پینے کا غیر معمولی انتظام کیا گیا۔ ایک طرف مریم کا توکل تھا اور دوسری طرف اللہ کی شانِ رحمت!

۳۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچہ کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو کہ ایک نہایت پاکیزہ اور جلیل القدر شخصیت نے جنم لیا ہے۔

۴۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں چُپ کا روزہ رکھا جاتا تھا اور نذر کے طور پر اس قسم کا روزہ رکھنا ان کے لیے روا تھا۔ حضرت مریم کو جس صورت حال سے واسطہ تھا اس کے پیش نظر انہیں یہ ہدایت کہ وہ بطور نذر کے خاموشی کا روزہ رکھ لیں بڑی حکیمانہ بات تھی کیونکہ معترضین کو مطمئن کرنا آسان نہ تھا ان پر حقیقت حال واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بچہ کو گویائی عطا فرمائی جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

واضح رہے کہ نذر کے معنیٰ کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کر لینے کے ہیں (لسان العرب ج ۵ ص ۲۰۰) ۔

رہا یہ سوال کہ حضرت مریم اس وقت نفاس سے ہوں گی اور روزہ ایک عبادت ہے تو اس حالت میں انہوں نے روزہ کس طرح رکھا ہو گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفاس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ایک مہینہ یا چالیس دن تک جاری رہے۔ کسی کے نفاس کی مدت بہت تھوڑی ہوتی ہے چنانچہ فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے مغنی میں ہے :

ولیس لا قلہ حد ای وقت رأت الطہر اغتسلت (مغنی ج ۱ ص ۳۴۷) ” نفاس کے خون کی کم سے کم مدت کے لیے کوئی حد نہیں ہے۔ عورت جس وقت بھی طہر کی حالت دیکھ لے غسل کر لے۔ ”

مطلب یہ ہے کہ نفاس کا خون ایک آدھ روز میں بھی بند ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ولادت میں نفاس کا خون سرے سے جاری ہی نہ ہو۔

۴۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم جب بچہ کو گود میں لیے ہوئے اپنی قوم کے پاس پہنچتی ہیں تو لوگوں نے اعتراضات کی بوچھار کر دی۔ وہ تہمت لگا رہے تھے کہ مریم گناہ کی مرتکب ہوئی ہے۔

۴۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم حضرت ہارون کے خاندان سے تھیں جو پیغمبر تھے اس لیے لوگوں نے انہیں ہارون کی بہن کہہ کر پکارا ورنہ حضرت مریم کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ عربی زبان میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً قبیلۂ ہمدان کے شخص کو وہ یا اخا ھمدان (اے ہمدان کے بھائی) کہ کر پکارتے ہیں۔ حضرت مریم کو حضرت ہارون کی بہن کہ کر لوگوں نے انہیں یہ احساس دلانا چاہا کہ تم ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتی ہو جو ایک مشہور پیغمبر کا گھرانہ ہے اس لیے تم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایسی حرکت کرو گی۔ عام طور سے مفسرین نے ہارون سے پیغمبر ہارون نہیں بلکہ حضرت مریم کا کوئی بھائی مراد لیا ہے۔ ان کا استدلال مغیرہ بن شعبہ کی ایک روایت سے ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہ حضرت ہارون تو حضرت مریم سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے پھر حضرت مریم کو ہارون کی بہن کس طرح کہا گیا، ارشاد فرمایا کہ نبی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صالحین کے نام پر رکھتے تھے۔ یہ حدیث مسلم” ترمذی وغیرہ میں بیان ہوئی ہے لیکن یہ حدیث اس بارے میں صریح نہیں ہے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی تھا” دوسرے یہ کہ اس حدیث کا ایک راوی سماک بن حَرْب ہے جس کے بارے میں محدثین کی رائیں مختلف ہیں۔ کوئی ان کو ثقہ قرار دیتا ہے اور کوئی ضعیف۔ سفیان اور شعبہ انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں اور امام احمد کہتے ہیں وہ مضطرب الحدیث ہیں یعنی ان کی حدیثوں میں اضطراب (الجھاؤ) پایا جاتا ہے۔ (میزان الاعتدال ج ۲ ص ۲۳۲۔ ۲۳۳) اور ابن حبان کہتے ہیں وہ ثقہ ہیں لیکن بہ کثرت غلطیاں کرتے ہیں (تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۳۴) ۔

۴۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کا اعتراف تھا کہ حضرت مریم نہایت شریف گھرانے کی خاتون ہیں۔

۴۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم نے اللہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خاموشی کا روزہ رکھا تھا اس لیے لوگوں کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ بچہ کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے بات کرو۔

۴۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہو اس سے ہم کس طرح بات کر سکتے ہیں ؟

۴۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوزائیدہ بچے کا بول اٹھنا اللہ کی طرف سے معجزہ تھا اور یہ معجزہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے دکھایا تاکہ یہ حضرت مریم کے پاکدامن ہونے کی دلیل ہو اور انہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا نہ پڑے نیز حضرت عیسیٰ کی نبوت کی نشانی قرار پائے۔

گہوارہ میں سے ان کا یہ اعلان کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس حقیقت کا اظہار تھا کہ ان کا مقام عبدیت کا مقام تھا نہ کہ اس سے مختلف کچھ اور یہ ان کو اللہ کا بیٹا قرار دئے جانے کی پیشگی تردید تھی۔

کتاب سے مراد انجیل ہے۔ ” کتاب دی اور نبی بنایا” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گہوارہ میں حضرت عیسیٰ کو کتاب دی گئی تھی اور نبوت کا منصب عطا کیا گیا تھا۔ یہ چیزیں تو ان کو اس وقت عطا ہوئیں جبکہ وہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہوئے لیکن چونکہ یہ اللہ کا فیصلہ تھا اس لیے اس کو لا محالہ وقوع میں آنا تھا۔ اس بنا پر بچہ کی زبان سے اس طرح اعلان کرا دیا گیا کہ گویا یہ چیزیں عطا ہوہی گئی ہیں۔ یہ اسلوبِ بیان وقوع میں آنے والی کسی چیز کی قطعیت کو ظاہر کرتا ہے۔

اس معجزہ کا ذ کر موجودہ انجیلوں میں نہیں ہے اس کی وجہ وہ حالات ہیں جن میں یہ انجیلیں مرتب ہوئی ہیں۔ یہود جو اس واقعہ کے اصل شاہد تھے حضرت مسیح کے منصب نبوت سے سر فراز ہونے کے بعد ان کے دشمن بن گئے اور جو لوگ ان کے پیرو بن گئے ان کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا اس لیے ان پُر فتن حالات میں حضرت مسیح کے حالاتِ زندگی اور ان کی تعلیمات کا بڑا حصہ محفوظ نہ رہ سکا۔ لیکن قرآن کے بیان کی صداقت اور معقولیت بالکل واضح ہے کیونکہ یہودیوں کا حضرت مریم پر تہمت لگانا اور پھر انہیں سزادئے بغیر چھوڑ دینا جبکہ بنی اسرائیل کی شریعت میں زنا کی سزا بڑی سخت تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی غیر معمولی واقعہ ضرور ظہور میں آیا تھا جس سے حضرت مریم کا پاکدامن ہونا ثابت ہو گیا تھا۔ قرآن کہتا ہے یہ بچہ کی شہادت تھی جس نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ (معجزہ) ہے اس کے بعد کسی کو کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔

۴۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے خیر مجسم بنایا ہے۔ جہاں بھی میرا رہنا ہو گا خیر و برکت کا باعث ہو گا۔ یہ نفی تھی اس بات کی کہ نہ میری ولادت باعثِ شر ہوئی ہے اور نہ مستقبل میں مجھ سے کسی شر کا صدور ہونے والا ہے۔ یہ ان الزامات کی پیشگی تردید ہے جو یہود آگے چل کر ان پر عائد کرنے والے تھے۔

۴۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز اور زکوٰۃ کا ذ کر خصوصیت سے کیا کہ یہ دین کے بنیادی ستون ہیں جن کو ضائع کرنا دین کو ضائع کرنا ہے۔ یہود نے ان کو ضائع کر دیا تھا اس لیے حضرت عیسیٰ نے زبان کھولتے ہی ان کا ذ کر کیا۔

۴۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیک سلوک کرنے کے تعلق سے صرف ماں کا ذ کر کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عیسیٰ بغیر باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا۔ قرآن کے اس بیان سے بائبل کی ان روایات کی تردید ہوتی ہے جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی ماں سے بے پروا ہو گئے تھے۔ (یوحنا۲:۴)

۵۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی طرف سے میرے لیے زندگی بھر سلامتی ہے اور دوسری زندگی میں بھی سلامتی ہی سلامتی۔ ” جس دن میں مروں گا ” کے الفاظ صراحت کر تے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کو بھی ایک نہ ایک دن مرنا ضرور ہے۔

۵۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کو یہود سرے سے نبی ہی نہیں مانتے اور نصاریٰ نے ان کی شخصیت میں غلو کر کے انہیں اللہ کا بیٹا بنا دیا پھر اس بحث میں اس طرح الجھ گئے کہ اصل حقیقت دب کر رہ گئی مگر قرآن نے تمام حجابات اٹھائے اور اصل حقیقت کو نمایاں کیا۔

۵۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کے لیے یہ نہایت فر و تر بات ہے کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ یہ عیب ہے نہ کہ خوبی اور ایسی بات اللہ کی طرف منسوب کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ عیب اور نقص سے پاک نہیں ہے۔

۵۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس ہستی کے قدرت کی یہ شان ہو کہ کوئی بھی چیز محض اس کے کُن کہہ دینے یعنی ہو جانے کا حکم دینے سے وجود میں آتی ہو وہ اس بات کا کہاں محتاج ہو سکتا ہے کہ کسی کو بیٹا بنا لے۔

۵۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا وہ بیان اوپر گزر چکا جو انہوں نے گہوارہ میں سے دیا تھا۔ یہاں ان کی اس دعوت کو پیش کیا گیا ہے جو انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے سامنے پیش کی تھی۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۷۶۔

۵۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اللہ کے دین میں کوئی نیا عقیدہ شامل کر لیا جاتا ہے تو لازماً اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں جن کے نتیجہ میں فرقے وجود میں آتے ہیں۔ نصاریٰ نے جب حضرت عیسیٰ کی تعلیم سے اختلاف کیا اور ان کی شخصیت کے بارے میں غلو آمیز عقیدے گڑھ لئے تو فرقہ بندی نے جنم لیا۔ یعقوبہ اور نسطوریہ جیسے فرقے ان میں پیدا ہو گئے اور بعد کے دور میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ۔ اس طرح وہ اپنے مرکزی نقطہ توحید سے بھی ہٹ گئے اور ان کی ملت بھی پارہ پارہ ہو گئی۔

۵۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کے دن کی تباہی ہے۔

۵۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن اچھی طرح جان لیں گے کہ حقیقت کیا تھی۔ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے یا بندہ ؟

۵۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن سے خبردار کرو جو کافروں کے لیے پچھتاوے کا دن ہو گا۔ بعض مفسرین نے وہ دن مراد لیا ہے جبکہ مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا اور نصاریٰ کے لیے حسرت کا سبب بن گیا (ترجمان القرآن ج ۲ ص ۴۳۶) مگر آیت کے الفاظ اس تفسیر کا ساتھ نہیں دیتے۔ فیصلہ چکانے کی بات تو قرآن میں قیامت ہی کے بارے میں کہی گئی ہے۔ اور بعد کی آیت میں یہ جو فرمایا کہ ” سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائیں گے۔ ” تو ظاہر ہے یہ قیامت کے دن ہی سے متعلق ہے۔

۵۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ حجر نوٹ ۲۱۔

۶۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب میں ذ کر کرو کا مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر! اللہ کی جو کتاب تم لوگوں کو سنا رہے ہو اس میں ان کو ابراہیم کا قصہ بھی سناؤ کہ یہ قصہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور اس کتاب (قرآن) میں شامل ہے۔

۶۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام کی صفت میں ” صدیق” بیان ہوئی ہے جس کے معنی ہیں نہایت سچا اور راست باز۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو مختلف با توں میں آزمایا اور وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ بت پرستی کے خلاف انہوں نے زبردست جہاد کیا اور اس سلسلہ میں حکومت وقت کے چیلنج کو قبول کرنے میں پس و پیش نہیں کیا اور اپنے والد کو بھی بت پرستی کے بارے میں کھری کھری باتیں سنا دیں ” شرک کے خلاف ان کی بے باکی ” اللہ کی خاطر گھر بار چھوڑنا” توحید کے پرچار کے لیے سخت مشقت کے سفر کرنا اور اپنے بیٹے کو اللہ کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جانا ان کی صداقت شعاری کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔

قرآن کے اس بیان سے کہ ابراہیم ” صدیق” تھے بائبل کے اس بیان کی آپ سے آپ تردید ہوتی ہے جس میں ابراہیم کی طرف یہ جھوٹ منسوب کیا گیا ہے کہ وہ مصر گئے تو اس اندیشہ کے پیش نظر کہ وہاں کا بادشاہ ان کی بیوی (سارہ) کو ان کی خوبصورتی کی بنا پر رکھ نہ لے اور ابراہیم کو قتل نہ کر دے ابراہیم نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہ کہ دینا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں (پیدائش ۱۲: ۱۱ تا ۲۰) بائبل کا یہ قصہ بالکل بے اصل ہے اگر بادشاہ کی نیت خراب تھی تو محض بہن کہ دینے سے وہ اپنے مذموم ارادہ سے کیوں باز رہتا؟ بائبل میں مختلف مقامات پر حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی جو عمریں بیان ہوئی ہیں ان کے پیش نظر مصر کے سفر کے موقع پر حضرت سارہ کوئی کمسن خاتون نہیں تھیں کہ انہیں بادشاہ سے خطرہ لاحق ہوتا۔ پھر بائبل میں اسی قسم کا جھوٹ حضرت اسحٰق کی طرف بھی منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے بھی اس قسم کے اندیشہ کے پیش نظر اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ وہ میری بہن ہے (پیدائش باب ۲۶) ۔

بائبل کی یہ باتیں اتنی الجھی ہوئی اور غیر معقول ہیں کہ ان پر ہرگز یقین نہیں کیا جا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ بائبل کے مرتبین نے اپنے انبیاء کی سیرت کو داغدار بنایا ہے لیکن قرآن ان کی سیرت کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ بالکل بے داغ نظر آتی ہیں اور یہ اس کی صداقت کی دلیل ہے۔

۶۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام نوٹ ۱۲۷ ، ۱۲۸ اور۱۲۹۔

۶۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم سے مراد علم وحی اور علم نبوت ہے۔

۶۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بتوں کی پرستش در حقیقت شیطان کی پرستش ہے کیونکہ یہ شیطان کے اشارہ پر کی جا رہی ہے اور شیطان کی ایسی اطاعت کہ وہ خدا کی اطاعت کی جگہ لے لے اس کو معبود بنانا اور شریک ٹھہرانا ہے۔

۶۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانہ میں اولاد پر باپ کا زبردست دباؤ رہتا تھا اور مذہبی تعصب کی بنا پر وہ اپنی اولاد پر ظلم کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ اور یہ مذہبی تعصب ہی تھا جس کی بنا پر حضرت ابراہیم کے والد نے انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔

۶۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ تم گھر چھوڑ کر چلے جاؤ اور مجھے صورت نہ دکھاؤ۔

۶۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی ابراہیم کے کردار کی بلندی کہ باپ انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور گھر سے نکل جانے کا حکم دیتا ہے لیکن ان کی پیشانی پر شکن نہیں آتی بلکہ وہ سلامتی کی دعا دیتے ہوئے اور اپنے رب سے ان کے لیے مغفرت کی درخواست کا وعدہ کرتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں۔

ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وعدہ کو نبھایا لیکن جب ان پر یہ بات واضح ہوئی کہ ان کا باپ شرک سے باز آنے والا نہیں اور خدا کا دشمن ہے تو وہ دعا سے رک گئے جیسا کہ سورۂ توبہ آیت ۱۱۴ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ توبہ نوٹ ۲۰۹ اور ۲۱۰

۶۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ابراہیم اپنے وطن کو چھوڑ کر شام اور فلسطین پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی اولاد عطا فرمائی کہ ان کی نسل میں بڑی برکت ہوئی اور فیض کے چشمے جاری ہو گئے۔

یعقوب ابراہیم کے پوتے ہیں جن کا دوسرا نام اسرائیل ہے ان ہی سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا۔

۶۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سچے لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف و توصیف کے کلمات جاری کر دئے۔ اہل ایمان کے دلوں میں ان کی سچی قدر ہے ” وہ احترام سے ان کا نام لیتے ہیں اور ان پر سلام اور درود بھیجتے ہیں۔

اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ دنیا میں سچی عزت اور خدا کے نیک بندوں میں مقبولیت اور ان کی زبانوں پر ذ کر جمیل اللہ کا بہت بڑا انعام ہے جو کسی بندہ کو حاصل ہو۔ لوگ جھوٹی شہرت اور ناموری کے پیچھے دوڑتے ہیں مگر اللہ کے نیک بندے اس سے بالکل بے نیاز ہوتے ہیں۔

۷۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اپنے تقرب کے لیے موسیٰ کو چن لیا تھا۔

۷۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول کے معنی ہیں بھیجا ہوا ” پیغامبر اور نبی کے معنی ہیں خبر دینے والا یعنی جو اللہ کی طرف سے لوگوں کو خبریں سنائے۔ قرآن میں یہ دونوں لفظ اللہ کے ان مخصوص بندوں کے لیے جن پر اس کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوئے ہیں البتہ رسول کا لفظ فرستادہ (بھیجے ہوئے) کے معنی میں کہیں کہیں مخصوص فرشتوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔

رسول اور نبی کا مفہوم ایک ہی لیکن دونوں اصطلاحات ایک ساتھ استعمال کرنے سے مقصود ان کی امت کے تعلق سے ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو واضح کرنا ہے چنانچہ آیت ۴۱ تا ۵۷ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذ کر ہوا ہے لیکن حضرت موسیٰ اور حضرت اسمعٰیل کا ذ کر اس انداز سے ہوا ہے کہ وہ رسول اور نبی تھے۔ چونکہ حضرت ابراہیم کی نسل کی دو شاخیں ہوئیں ایک نبی اسرائیل اور دوسری بنی اسمعٰیل اور بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی امت قرار پائے اور بنی اسمٰعیل حضرت اسمٰعیل کی اس لیے ان کی رسالت کی حیثیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت اسمٰعیل اس شان کے نبی تھے کہ آج جو دو بڑی امتیں تم دیکھ رہے ہو وہ ان ہی سے وابستہ ہیں۔

۷۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمن (داہنا) کا لفظ عربی میں مبارک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہاں طور کی داہنی جانب سے مراد طور کی وہ مبارک سر زمین ہے جہاں حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے پکارا تھا اور انہیں نبوت عطا کی تھی۔ قرآن میں دوسری جگہ اس سر زمین کو طویٰ کی مقدس وادی فرمایا گیا ہے۔ اِذْ نَادَاہُ رَبُّہُ بِالَوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی۔ ” جبکہ اس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا۔ ”

داہنی جانب کے اگر لفظی معنیٰ مراد لئے جائیں تو مطلب ہو گا کہ حضرت موسیٰ جب مدین سے مصر کی طرف چلے ہیں تو طور کے اس حصہ سے جو ان کی داہنی جانب تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آواز دی۔

۷۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی موسیٰ سے تنہائی میں اللہ تعالیٰ نے باتیں کیں اور دو بدو باتیں کرنے کا اعزاز بخشنے کے لیے انہیں اپنے سے قریب کیا۔

۷۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہارون کو نبی بنا کر موسیٰ کا معاون بنایا۔

۷۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے قربانی کے واقعہ کی طرف کہ انہوں نے اپنے والد سے یہ جو کہا تھا کہ : سَتجِدُنِیْ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ مِنَ الصَّابِریْنَ (صافات ۱۰۲) ” آپ مجھے انشاء اللہ صابر پائیں گے۔ ”

تو یہ وعدہ انہوں نے پورا کیا اور خدا کی خاطر قربان ہونے کے لیے پیشانی کے بل لیٹ گئے۔ وعدہ وفائی کی اس سے زیادہ اونچی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

۷۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت اسمٰعیلؑ  کا یہ وصف کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تاکید کرتے تھے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ عرب جو ان کی نسل سے ہیں غور کریں کہ ان کے کرنے کا کام کیا تھا اور وہ کر کیا رہے ہیں نیز اہل ایمان کے لیے بھی یہ اسوہ ہو۔ وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کی فکر کریں اور خاص طور سے نماز کا اہتمام کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید کریں۔

۷۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ادریس کا ذ کر قرآن میں مختصراً ہوا ہے۔ ایک یہاں اور دوسرے سورۂ انبیاء آیت ۸۵ میں۔ ان کے حالات کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوئے ہیں بجز معراج والی حدیث کے جس میں ان کے چوتھے آسمان پر ہونے کا ذ کر ہے۔ بائبل میں بھی اس نام کی کسی شخصیت کا ذ کر نہیں ہے۔ مفسرین نے ان کے بارے میں جو روایتیں بیان کی ہیں وہ اسرائیلیات میں سے ہیں اس لیے ہمیں قرآن کے بیان ہی پر اکتفا ء کرنا چاہیے۔

حضرت ادریس کی شخصیت جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے صدق و وفا کے لحاظ سے عظیم شخصیت تھی۔ تاریخ نے انہیں بھلا دیا تھا لیکن قرآن نے ان کے ذ کر کو دوام بخشا۔

۷۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا مرتبہ بلند کر دیا تھا۔

۷۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات سے واضح ہے کہ ان انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح کے انعام (فضل) سے نوازا تھا۔ یہی وہ انعام ہے جس کا ذ کر سورۂ فاتحہ میں اس طرح ہوا ہے الذین انعمت علیہم (جن پر تیرا انعام ہوا) ۔

۸۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ سب انبیاء آدم کی اولاد میں سے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ خدا تھا” نہ خدا کا بیٹا اور نہ خدا کا اوتار۔

۸۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسی” ہارون” ز کریا” یحیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اسرائیل یعنی یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔

۸۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں انبیاء علیہم السلام کا یہ اسوہ بیان ہوا ہے کہ جب آیات الٰہی انہیں سنائی جاتیں تو ان پر رقت طاری ہوتی اور وہ بے اختیار سجدے میں گر جاتے۔

کلام الٰہی کی تاثیر ” سوزو گداز اور خشوع و خضوع ہے مگر موجودہ زمانہ کے قاری عام طور سے خوش الحانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی قرأت سوز و گداز سے خالی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ سننے والے کلام الٰہی کا اثر قبول کرنے کے بجائے قاری کی خوش الحانی کی داد دینے لگتے ہیں۔

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت کرنے یا سننے پر سجدہ کرنا چاہیے۔

۸۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے یہود و نصاریٰ کی طرف جنہوں نے انبیاء کے اسوہ کو چھوڑا اور ان کے صرف عقیدت مند ہو کر رہ گئے۔ نماز کے اہتمام کی جو تاکید انہوں نے کی تھی اس کو انہوں نے بھلا دیا نتیجہ یہ کہ وہ خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے۔

بنی اسمٰعیل (عربوں) کا حال بھی یہی تھا۔ حضرت اسمعیلؑ نے اپنی اولاد کو نماز قائم کرنے کا تاکیدی حکم دیا تھا مگر ان کی نسل نے نماز کی جگہ بت پرستی اختیار کی۔

نماز کو ضائع کرنے اور خواہشات کے پیچھے چلنے کا جو ایک ساتھ ذ کر ہوا ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نماز کو ترک کرنے کے بعد شریعت کی پابندی کرنا اور نیک عملی کی زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ ایسا شخص لازماً اپنے نفس کی خواہشات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کی زندگی غلط رخ اختیار کر جاتی ہے۔

اس آیت میں مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ سابقہ امتوں کے نماز کو ضائع کرنے کے عبرتناک انجام کے سامنے آ جانے کے بعد ان کو سختی کے ساتھ نماز کے حکم پر کار بند ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد نماز کو ترک کئے ہوئے ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی اخلاقی اور عملی حالت گر گئی ہے اور ان کی زندگیاں خواہشات کے تابع ہو کر رہ گئی ہیں۔

۸۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ نماز ترک کرنا گمراہی ہے۔

۸۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنہوں نے نماز کو ضائع کر کے خواہشات کی پیروی کی ان کے لیے اصلاح کا موقع ہے۔ اگر وہ اپنی غلط روی سے باز آ جائیں ” اپنے گنا ہوں کی اللہ سے معافی مانگیں ” قرآن اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو وہ جنت کے مستحق ہوں گے اور ان کی کوئی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔

۸۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگرچہ جنت کے باغ ان بندوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں مگر ان کا ان میں داخل ہونا یقینی ہے کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جسے لازماً پورا ہونا ہے۔

۸۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ غاشیہ نوٹ ۱۳۔

۸۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت میں رزق کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کرنا پڑے گی بلکہ دائمی طور پر انہیں رزق مہیا ہوتا رہے گا۔

۸۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت کے مالک وہ لوگ بنیں گے جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی تھی۔ اوپر کے سلسلہ بیان سے تقویٰ کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ جو شخص ان اوصاف حمیدہ کو اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہی در حقیقت متقی ہے۔

۹۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جملہ معترضہ ہے جو وحی لانے والے فرشتوں کی زبان سے ادا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔

وحی کا سلسلہ جب کچھ دنوں کے لیے رک جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم بے چینی محسوس کرنے لگتے۔ کیونکہ جن صبر آزما حالات سے آپ گزر رہے تھے ان میں وحی کا نزول آپؐ کے لیے باعث تسلی ہوتا نیز مزید رہنمائی کے لیے بھی آپؐ وحی الٰہی کے شدت سے منتظر رہتے آپ کے اسی انتظار کے پیش نظر جبرئیل اور ان کے ساتھی فرشتوں نے اپنی یہ حیثیت واضح کر دی کہ ہمارے اختیار میں یہ بات نہیں ہے کہ جب چاہیں نازل ہوں بلکہ جب اللہ ہمیں حکم دیتا ہے ہم اس کے حکم کی تعمیل میں اترتے ہیں۔

اگرچہ یہ جملۂ معترضہ ہے لیکن اوپر کے سلسلۂ بیان سے بھی اس کا ربط ہے۔ اوپر انبیاء علیہم السلام کی حیثیت واضح کی گئی ہے یہاں فرشتوں کی حیثیت واضح کی گئی ہے کہ سب اس کے مطیع فرمان ہیں۔

۹۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ سارے زمان و مکاں کا مالک ہے۔ مستقبل ماضی اور حال سب سے وہ اچھی طرح باخبر ہے اس سے کسی بھول کا امکان نہیں لہٰذا اے پیغمبر جو حالات ہمیں پیش آ رہے ہیں وہ اس سے مخفی نہیں اور اس کی حکمت جب متقاضی ہوتی ہے وہ وحی نازل کرتا ہے جسے لی کر ہم (یعنی فرشتے) اترتے ہیں۔ یہاں فرشتوں کا بیان ختم ہوا۔

۹۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی کوئی نظیر نہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی یکتا ہے اور صفات میں بھی نیز اس کا نام ” اللہ” اسی کے لیے خاص ہے۔ کوئی اس کا ہم نام نہیں۔ پھر عبادت کا مستحق اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ؟

۹۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہایت ذلت کی حالت میں۔

۹۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کے پیشوا” سردار اور لیڈ ر ہوں گے جو دنیا میں بہت سرکش بنے ہوئے تھے اور اپنی قوم کو گمراہ کرتے رہے۔

۹۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات میں ان لوگوں کا ذ کر ہوا ہے جو انسان کے دوبارہ پیدا کئے جانے کے من کر تھے۔ ان کے بارے میں آیت ۶۸ میں فرمایا گیا ہے کہ ان سب کو ہم جہنم کے گرد اس حال میں جمع کریں گے کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔ یہاں ان منکرین سے براہ راست خطاب کر کے فرمایا ہے کہ یاد رکھو تم میں سے کوئی بھی چھوٹنے والا نہیں ہر کافر کو جہنم پر لازماً پہنچنا ہو گا۔

پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے رب کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ کافر جہنم کی سزا بھگتیں لہٰذا یہ فیصلہ قیامت کے دن نافذ ہو کر رہے گا یہاں چند با توں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے تاکہ اس آیت کا صحیح مفہوم واضح ہو۔

۱۔ آیت کے پہلے فقرہ ” تم میں سے کوئی نہیں جو اس پر وارد نہ ہو” میں خطاب کافروں سے ہے اور دوسرے فقرہ ” یہ ایک طے شدہ بات ہے جو تمہارے رب پر لازم ہے۔ ” میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ ایک ہی آیت میں خطاب کی یہ تبدیلی بلاغت کے تقاضوں کے تحت ہے۔ قرآن میں یہی اسلوب دوسری جگہ بھی اختیار کیا گیا ہے چنانچہ سورۂ انعام آیت ۱۲۸ میں ہے۔

قَالَ النَّارُ مَثْولٰکُمْ خَالِ دِیْنَ فِیْہَا اٍلّا مَا شَآءَ اللّٰہُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ ” ارشاد ہو گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں تم ہمیشہ رہو گے مگر جو اللہ چاہے (اے پیغمبر) بے شک تمہارا رب حکمت والا اور علم والا ہے۔ ”

اس آیت میں بھی پہلے فقرہ میں خطاب منکرین سے ہے اور دوسرے فقرے ” اِنَّ رَبّکََ "۔ ” تمہارا رب”  میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

۲۔ متن میں لفظ ” وارد” استعمال ہوا ہے جو ” ورود” سے ہے۔ عربی میں یہ لفظ پہنچنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور داخل ہونے کے معنی میں بھی۔ صحاح جوہری میں ہے : ورد فلان وروداً حضر ” فلاں وارد ہوا یعنی حاضر ہوا۔ ” (الصحاح للجوہری ج۲ص ۵۴۹) ۔

لسان العرب میں ہے :

ورد علیہ: اشرف علیہ،دخلہ اولم یدخلہُ "اس پر وارد ہوا یعنی اس پر پہنچ گیا خواہ وہ اس میں داخل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ ” (لسان العرب ج۳ ص ۴۵۷) اور قرآن میں بھی یہ لفظ ان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے۔ پہلے معنی کی مثال سورۂ قصص کی آیت ۲۳ ہے : وَلَمَّا وَرَدَمَآء مَدْیَنَ ” جب وہ مدین کے پانی پر پہنچا وارد ہوا۔ ”

ظاہر ہے یہاں وَرَدَ کے معنی پانی پر پہنچنے کے ہیں نہ کہ پانی میں داخل ہونے کے۔ اور دوسرے معنی کی مثال سورہ انبیاء کی آیت ۹۹ ہے : لَوکَانَ ھٰٓؤُلآَءِ آلِہَۃٌ مَاوَرَدُوْہَا۔ ” اگر یہ (بت) خدا ہوتے تو جہنم میں وارد (داخل) نہ ہوتے۔ ”

اس آیت میں وَرَدَ کا لفظ جہنم میں داخل ہونے کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ اس بنا پر مفسرین کے ایک گروہ نے آیت کی تاویل یہ کی ہے کہ اس میں خطاب عام انسانوں سے ہے اور فرمایا یہ گیا ہے کہ ہر شخص کہ خواہ وہ کافر ہو یا مومن متقی جہنم پر حاضر ہونا ضرور ہو گا۔ کافروں کی حاضری تو اس میں داخل ہونے کے لیے ہو گی لیکن متقیوں کی حاضری محض گزرنے کے طور پر ہو گی اور اللہ تعالیٰ انہیں اس سے نجات دے گا۔ مگر یہ تاویل قرآن کی دوسری آیتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ فرمایا گیا ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمُ مِنَّا الحُسْنیٰ اُولٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ۔ لاَ یَسْمَعُونَ حَسِیْسَہَاوَہُمْ فیِ مَا اْشتَہَتْ اَنْفُسُہُمْ خَالِدُوْنَ۔ (سورۂ انبیاء: ۱۰۱) ” جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔ وہ اس کی بھنک بھی نہیں سنیں گے اور اپنی دل پسند چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ”

انہیں قیامت کے دن کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی:

لَایَحْزُنُہُمُ الْفَرَعُ الْاَکْبَرُوتَتَلَقِّ یہُمرُالمَلآَءِ کۃُ ہٰذَا یومُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُم تُوعَدوْنَ (انبیاء:۱۰۳) ” (اس روز کی) بڑی گھبراہٹ انہیں پریشان نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔ ”

اور اسی سورہ کی آیت ۸۵ میں فرمایا گیا ہے :

یَوْمَ نَحْشُرُالْمُتَّقِیْنَ اِلی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا (مریم:۸۵) ” جس دن ہم متقیوں کو رحمٰن کے حضور مہمانوں کی طرح جمع کریں گے۔ ”

۳۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ بات ارشاد ہوئی ہے کہ شیطان کی پیروی کرنے والے انسانوں اور جنوں سے جہنم کو بھر دوں گا۔ اس لیے یہاں جو فرمایا گیا کہ ” یہ ایک طے شدہ بات ہے جس کو پورا کرنا تمہارے رب پر لازم ہے۔ ” تو اس سے مراد وہی فیصلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے کافروں سے جہنم کو بھر دینے کے سلسلہ میں کیا ہے۔

۹۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثُمَّ (پھر) عربی میں ” بعد” (تراخی) کے معنی ہی میں نہیں آتا بلکہ” اور” (ترتیب اِخباری) کے معنی میں بھی آتا ہے۔ (ملاحظہ ہو النحوالوافی ج۳ ص ۵۷۸) مثال کے طور پر اوپر آیت ۷۰ میں فرمایا گیا ہے :

ثُمّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بالَذِّیْنَ ہُمْ اَوْلٰی بِہَا صَلِیَّا۔ پھر ہم ان لوگوں کو بخوبی جانتے ہیں جو جہنم میں جانے کے زیادہ سزا وار ہیں۔ ”

ظاہر ہے اس آیت میں ثم (پھر) کا مطلب ہے ” اور” یا ” یہ بھی” اسی طرح زیر تفسیر آیت میں ثم ترتیب زمانی کو نہیں بلکہ ترتیب اِخباری کو ظاہر کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں ہم کافروں کو جہنم پر وارد کریں گے وہاں متقیوں کو بچا لیں گے۔

۹۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نُنَجّی ” نجات دیں گے ” کا مطلب یہ نہیں ہے کہ متقیوں کو پہلے تو جہنم پر وارد کریں گے اور پھر اس مصیبت سے انہیں نجات دیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انہیں اس طرح بچا لیں گے کہ جہنم کے عذاب اور اس کی تکلیف سے وہ بالکل محفوظ رہیں گے۔ نجات کا یہ مفہوم سورۂ ہود کی آیت ۵۸ سے بھی واضح ہے جس میں فرمایا گیا ہے۔

ونَجَّینَاہُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ۔ ” ہم نے ان کو سخت عذاب سے نجات دی۔ ”

ظاہر ہے یہاں نجات دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو عذاب قومِ ہود پر آیا تھا اس میں اہل ایمان بھی گھر گئے تھے اور پھر اس سے انہیں نجات دی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس عذاب کے آنے سے پہلے ہی اہل ایمان کو وہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کرا دیا گیا اور عذاب سے بچا لیا گیا۔

۹۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ظالموں (مشرکوں اور کافروں) کے لیے نجات کی کوئی صورت نہیں ہو گی۔ انہیں جس طرح گھٹنوں کے بل ذلت کی حالت میں جہنم میں جھونک دیا گیا تھا اسی حالت میں انہیں دائمی عذاب بھگتنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔

۹۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غریب مسلمانوں کے مقابلہ میں منکرین حق کو جو دنیوی شان و شوکت حاصل تھی اور ان کی مجلسوں میں جو جمگھٹ ہوتا تھا اس پر ان کو نہ صرف فخر تھا بلکہ وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہیں ورنہ انہیں یہ شان و شوکت حاصل نہ ہوتی۔

ان کے اس خیال کو غلط قرار دیتے ہوئے یہاں فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے کہیں زیادہ ساز و سامان اور شان و شوکت رکھتی تھیں ان کی تباہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی قوم کو دنیوی شان و شوکت کا حاصل ہو جانا اس کے خدا کی نظر میں پسندیدہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ کفر کی راہ اختیار کرتی ہے تو وہ اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتی۔

۱۰۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی رحمت کا تقاضا ہے کہ بگڑے ہوئے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دے اس لیے وہ گمراہی میں مبتلا ہونے والوں کو فوراً نہیں پکڑتا بلکہ ڈھیل دے دیتا ہے۔

۱۰۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دنیا کا عذاب ہے۔

۱۰۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی راہ ہدایت اختیار کرنے والوں پر مزید ہدایت کے دروازے کھلتے ہیں۔ انہیں نیک کاموں کی مزید توفیق ملتی ہے اور و ہ راہ ہدایت پر آگے بڑھے چلے جاتے ہیں۔

۱۰۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ کہف نوٹ ۶۵۔

۱۰۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کوئی متعین شخص نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو آخرت کا من کر ہو اور ساتھ ہی اس بات کا دعویٰ کرتا ہو کہ اگر آخرت برپا ہوئی تو وہاں بھی اس کو اسی طرح مال اور اولاد کی نعمتیں ملیں گی جس طرح دنیا میں ملی ہیں۔ دنیا کے پرستار ہمیشہ شاندار مستقبل کے خواب ہی دیکھا کرتے ہیں۔

۱۰۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کا یہ خیال اور یہ دعویٰ کس بنیاد پر ہے ؟ آیا اس نے غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے کہ آخرت میں اس کے لیے خیریت ہی خیریت ہے یا خدا نے اس بات کا عہد لے رکھا ہے کہ وہ اسے ہمیشہ مال و اولاد سے نوازتا رہے گا؟ اگر دونوں با توں میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے تو پھر روشن مستقبل کی کیا ضمانت؟

۱۰۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مال و اولاد کی جو نعمتیں اسے اس عارضی زندگی میں دی گئی ہیں اور جن کے بارے میں وہ دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ چیزیں آئندہ بھی اسے ملیں گی وہ بالآخر اللہ ہی کی مِلک ہونے والی ہیں اور قیامت کے دن اسے تنہا خدا کے حضور حاضر ہونا ہو گا۔

۱۰۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود اس لیے بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی عبادت سے خوش ہو کر ان کی مد د کریں ” بلاؤں کو ٹال دیں اور ہرقسم کی آفتوں سے انہیں نجات دلائیں مگر یہ سب ان کے غلط خیالات اور باطل عقائد ہیں۔ وہ آج اپنے ان عقائد کے خلاف کچھ سننے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن قیامت کے دن وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے معبود ان کے مخالف بن گئے ہیں وہ کہیں گے ہمیں نہیں معلوم کہ تم ہماری عبادت کرتے تھے اور ہم نے تم سے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔ اس طرح میدان حشر میں وہ ان کی مد د کرنے سے رہے الٹے ان کے مخالف بن جائیں گے۔

۱۰۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ کفر کرتے ہیں ان پر شیطانوں کو مسلط کر دیا جاتا ہے جو انہیں اہل ایمان کے خلاف خوب اکساتے ہیں اس طرح یہ کافر دعوت حق کے مخالف اہل ایمان کے دشمن بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر یہ زمین حق و باطل کی رزم گاہ بن جاتی ہے۔

۱۰۹َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم صبر کے ساتھ ہمارے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ان کے لیے جو مہلت ہم نے مقرر کی ہے وہ بہر حال پوری ہونا ہے ہم اس کا ایک ایک لمحہ گن رہے ہیں۔ عذاب ان پر نہ ایک لمحہ پہلے آ سکتا ہے اور نہ ایک لمحہ بعد۔

۱۱۰َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” رحمن کے حضور” کہنے میں اللہ کی شان رحمت کا اظہار ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم متقیوں کو اپنے حضور اس اعزاز و ا کرام کے ساتھ جمع کریں گے کہ یہ نہایت معز ز وفد ہے جو فرمانروائے کائنات سے ملنے کے لیے آیا ہے اور پھر ہم انہیں اپنی رحمت اور نوازشوں سے مالا مال کر دیں گے۔

۱۱۱َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے وہ قیامت کے دن خدا کے حضور ان کے حق میں کوئی سفارش نہ کر سکیں گے۔ سورۂ زخرف میں یہ بات زیادہ صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔

وَلَاَیمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْغُونَ مِنْ دُوْنِہٖ الشَّفَاعَہَ اِلاّ مَنْ شَہِدَ بِالحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْن (سورۂ زخرف:۸۶) ” اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ پکارتے ہیں وہ شفاعت کا کوئی اختیار نہیں رکھتے مگر جو حق کی شہادت دیں گے اور وہ جانتے ہوں گے۔ ”

شفاعت کرنا صرف ان ہی کے لیے ممکن ہو گا جنہوں نے رحمن سے فرمان حاصل کر لیا ہو اور یہ اعزاز ان ہی کو بخشا جائے گا جو حق کی گواہی دینے والے ہوں گے اور جانتے ہوں گے کہ کون اس بات کے اہل ہیں کہ ان کے حق میں شفاعت کی جائے۔ ان میں انبیاء علیہم السلام پیش پیش ہوں گے۔

شفاعت کے ان کڑی شرائط کے پیش نظر مشرکوں اور کافروں کے لیے کوئی بھی شفاعت نہیں کرے گا۔ رہے وہ گنہگار جو اہل ایمان میں سے ہوں گے تو ان میں سے جن کے حق میں اللہ تعالیٰ اجازت دے گا ان ہی کے لیے شفاعت کی جاس کے گی۔

قرآن کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ شفاعت ایک استثنائی صورت ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت ہی کی ایک شکل ہے ورنہ نجات کے لیے اصل اصول وہ صالحانہ زندگی ہے جو ایمان کی بنیاد پر بسر کی گئی ہو۔

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد شفاعت پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی زندگیاں بالکل فاسقانہ ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں پیدا ہوئے ہیں اس لیے ہمارا بیڑا پار ہے۔ وہ اس خوش فہمی میں اس لیے مبتلا ہیں کہ انہوں نے قرآن کی ان آیتوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں جن میں جزا و سزا کا بے لاگ قانون بیان ہوا ہے مثلاً:

بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیّئَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خطَیٓئَتُہ” فَاُولٰٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَاخَالِدُوْنَ (سورۂ بقرہ: ۸۱) ” کیوں نہیں ؟ جس نے بھی برائی کمائی اور اس کے گنا ہوں نے اس کو گھیرے میں لے لیا تو ایسے ہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ” اور یہود کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ آخرت کے بجائے دنیا کے فائدے بٹورنے لگے تھے اور کہتے تھے سَیُغْفَرُلَنَا (ہمیں بخش دیا جائے گا)

۱۱۲َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سورت کی اختتامی آیات ہیں اس لیے بیان کا رخ پھر اسی گمراہی کی تردید کی طرف ہے جس میں نصاریٰ مبتلا تھے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہیں ایک ایسی گمراہی تھی جس نے ان کو توحید کی راہ سے ہٹا کر شرک کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا اور انجیل میں تحریف کی بنا پر اس نے ایک پختہ عقیدہ کی شکل اختیار کی تھی۔ مثال کے طور پر مرقس کی انجیل کا آغاز ہی اس طرح ہوتا ہے :

” یسوع مسیح ابن خدا کی خوشخبری کا شروع” (مرقس ۱:۱) ۔

اس میں بڑی جسارت کے ساتھ حضرت مسیح کو ابن خدا کہا گیا ہے حالانکہ یہ بات اس انجیل میں موجود نہیں تھی جو عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ ” "ابن خدا” کا اضافہ بعد کی چیز ہے اور اس بات کا اعتراف تو بائبل کا شارح کرتا ہے کہ انجیل کے بعض قدیم نسخوں میں ” ابن خدا” کے الفاظ نہیں تھے۔

"Some ancient manuscript have the descriptive phase the Son of God at the end and others do not have it”.

) Interpreter’s one volume Commentary on The Bible__U.S.A. P. (645)

سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ انجیلیں خدا کا کلام ہیں تو اس کے بعض قدیم نسخوں سے ” ابن خدا” کے الفاظ غائب کیسے ہوئے ؟ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اصل انجیل میں حضرت مسیح کو ” ابن اللہ "کہا ہی نہیں کیا گیا تھا۔ پھر مرقس کے انجیل کے تمہیدی فقرہ میں حضرت مسیح کا نسب خدا سے جوڑ دیا گیا ہے گویا خدا نے ان کو جنم دیا تھا (نعوذ باللہ من ذالک) لیکن لوقا کی انجیل میں ہے کہ جب حضرت مسیح نے بپتسمہ (ایک خاص قسم کا غسل) لیا اس وقت انہیں بیٹا ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔

” جب سب لوگوں نے بپتسمہ لیا اور یسوع بھی بپتسمہ پا کر دعا کر رہا تھا تو ایسا ہوا کہ آسمان کھل گیا اور روح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اس پر نازل ہوا اور آسمان سے آواز آئی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے تجھ سے میں خوش ہوں۔ ” (لوقا ۳:۲۱۔ ۲۲)

لوقا کے اس بیان سے واضح ہے کہ حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا ہونے کا لقب عطا کیا گیا تھا بالفاظ دیگر وہ متبنّٰی تھے جبکہ مرقس کی انجیل ان کو حقیقی بیٹے کی حیثیت سے پیش کرتی ہے۔ انجیلوں کی یہ تضاد بیانی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ” ابنیّت” کی بات ایک گھڑی ہوئی بات ہے جو انجیل میں داخل کر کے خدا پر زبردست جھوٹ بولا گیا ہے اور سچی بات وہی ہے جو قرآن کہتا ہے کہ حضرت مسیح نہ حقیقی معنی میں خدا کے بیٹے تھے اور نہ مجازی معنی میں یعنی نہ خدا نے ان کو جنم دیا تھا اور نہ وہ متبنّی تھے بلکہ خدا کے عبد یعنی بندے تھے۔

۱۱۳َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی طرف بیٹے کی نسبت کو تم معمولی خیال کرتے ہو حالانکہ یہ ایسی سنگین بات ہے کہ اس پر اللہ کا غضب ٹوٹ پڑے تو عجب نہیں۔ یہ اللہ کی طرف عیب کو منسوب کرنے کے علاوہ اس کی توہین بھی ہے اور اس کی غیرت کو چیلنج بھی۔ اس چیلنج کے نتیجہ میں اللہ کا غضب بھڑک سکتا ہے اور اس کے غضب سے آسمان و زمین کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے لیکن وہ رحمن ہے اس لیے وہ اپنے بندوں کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ انہیں اپنے طرز عمل کو درست کرنے کا موقع دیتا ہے۔

۱۱۴َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب سب پیدائشی بندے ہیں اور بندے ہی کی حیثیت سے خدا کے حضور حاضر ہونے والے ہیں تو حضرت عیسیٰ اس سے مستثنیٰ کیسے ہوئے ؟ وہ بھی دوسرے بندوں کی طرح بندہ ہی ہیں اور بندہ ہی کی حیثیت سے خدا کے حضور حاضر ہوں گے۔

۱۱۵َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سب اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں اور ہر نفس کی اس نے گنتی کر رکھی ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے شمار میں نہ ہو اس لیے اس کے حضور حاضر سب کو ہونا ہو گا۔

۱۱۶َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خوشخبری ہے جو اہل ایمان کو اس وقت دی گئی جبکہ پوری سوسائٹی ان کے مخالفت میں سرگرم ہو گئی تھی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا کر دے گا۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی محبوبِ خلائق بن گئے اور آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام کے لیے جو محبت ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ سچے مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں یہ صلہ دیتا ہے کہ اس کے مخلص بندوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔

اس سورہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رحمن کا نام بار بار آیا ہے جو رحمن کی صحیح معرفت عطا کرتا ہے۔ اس سے اس کی رحمت کے تقاضے سامنے آتے ہیں اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے جن میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مذہبی دنیا اپنے مہربان خدا کو پہچان نہیں سکی ہے۔

۱۱۷َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جھگڑالو لوگوں سے مراد عرب ہیں جنہوں نے توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ کے بارے میں بڑی بحثیں کھڑی کر دی تھیں اور حق کو آسانی سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔

قرآن کے نزول کا اولین مقصد یہ ہے کہ خدا سے غافل لوگوں کو برے انجام سے ہوشیار اور خبردار کر دیا جائے اور اس سے ڈرنے والوں کو اچھے انجام کی خوشخبری دی جائے۔ قرآن میں یہ باتیں عام فہم اور نہایت سہل انداز میں بیان ہوئی ہیں لہٰذا جن کی زبان عربی ہیں یا جنہوں نے عربی زبان سیکھ لی ہے ان کے لیے قرآن کی دعوت کو براہ راست قرآن سے سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ رہے وہ لوگ جو عربی نہیں جانتے تو وہ بھی ترجمہ کی مد د سے قرآن کی دعوت کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ تعبیر و استنباط کا مسئلہ اس سے مختلف ہے اور اس کے لیے یقیناً عربی زبان میں مہارت ضروری ہے۔

۱۱۸َ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تباہ شدہ قوموں کا کوئی وجود نہیں رہا اور ان کا غلغلہ اور ان کی ہنگامہ آرائیاں اس طرح ختم ہو گئیں کہ اب ان کی آہٹ بھی سنائی نہیں دیتی۔ پھر کیا تم بھی اپنی مادی خوشحالیوں میں مگن ان ہی قوموں کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہو؟

٭٭٭

 

 

 

 (۲۰) سورۂ طٰہٰ

 

 (۱۳۵ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آغاز میں  یہ حروف آئے ہیں۔ اس مناسبت سے سورہ کا نام طٰہٰ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور حضرت عمر کے ایمان لانے سے پہلے  (غالباً نبوت کے چھٹے سال) نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ حضرت عمر کے ایمان لانے کا جو واقعہ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے اس میں  اس بات کا ذکر ہے کہ ان کی بہن نے ان کو جو صحیفہ دیا تھا اس میں  سورۂ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی اور جب حضرت عمر نے اس کی ابتدائی آیتیں  پڑھیں  تو بول اٹھے کتنا بہترین اور کیسا شرف والا کلام ہے یہ!  (سیرت ابن ہشام ج ا ص ۳۶۷)

 

مرکزی مضمون

 

وحی و رسالت کی غرض و غایت بیان کرنا اور اس کا انکار کرنے والوں  کو متنبہ کرنا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  تا ۸ میں  نزول قرآن کا مقصد اور اس ہستی کی معرفت جس کے فرمان کی حیثیت سے یہ نازل ہو رہا ہے۔ آیت۹  تا ۹۸  میں  حضرت موسیٰ کو رسالت سے سرفراز کئے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ نیز ان کی دعوت کو پیش کرتے ہوئے ان کی مخالفت کرنے والوں  کے برے انجام کو پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۹۹  تا ۱۱۲  میں  حضرت موسیٰ کی سرگزشت سے جو سبق ملتا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قیامت کے احوال بیان کئے گئے ہیں  تاکہ رسالت کا انکار کرنے والے متنبہ ہوں۔

آیت ۱۱۳  اور ۱۱۴  میں  بیان کا رخ پھر نزولِ قرآن کے مقصد کی طرف مڑ گیا ہے۔

آیت ۱۱۵  تا ۱۲۳  میں  آدم کی سرگزشت بیان ہوئی ہے اور اس کا یہ پہلو نمایاں  کیا گیا ہے کہ نوع انسان کا جب اس سرزمین پر آغاز ہوا تو اس پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح کر دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ہدایت کے لیے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری کرے گا تو جو لوگ ہدایت الٰہی کی اتباع کریں  گے وہی شیطان کی گمراہی اور اس کے انجام سے محفوظ رہیں  گے۔

آیت ۱۲۴  تا ۱۲۹  میں  اللہ کی آیتوں  سے بے نیاز ہونے کا انجام بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۱۳۰  تا ۱۳۲  میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطہ سے اہل ایمان کو صبر و استقامت کی ہدایت کی گئی ہے اور تسلی دی گئی ہے کہ انجام خیر ان ہی کے لیے ہے۔

آیت ۱۳۳  تا ۱۳۵  میں  منکرین کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طا۔ ھا۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تم پر قرآن اس لیے نازل نہیں  کیا کہ تم مصیبت میں  پڑو۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے ان کے لیے جو ڈریں۔ ۲*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا اتارا ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمان پیدا کئے۔ ۳*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رحمن عرش پر بلند ہے۔ ۴*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں  میں  ہے، جو کچھ زمین میں  ہے، جو کچھ ان دونوں  کے درمیان ہے اور جو کچھ مٹی کے نیچے ہے۔ ۵*

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم پکار کر بات کہو تو (اس کی شان تو یہ ہے کہ) وہ چپکے سے کہی ہوئی بات اور نہایت مخفی بات تک کو جانتا ہے۔ ۶*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کہ سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کے لیے ہیں  سب حسن و خوبی کے نام۔ ۷*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کیا تمہیں  موسیٰ کے واقعہ کی خبر پہنچی؟۸۔ *

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں  سے کہا ذرا ٹھہرو مجھے آگ دکھائی دی ہے  (میں  جاتا ہوں) تاکہ تمہارے لیے انگارا لے آؤں  یا ممکن ہے آگ کے پاس کوئی رہنمائی مل جائے۔ ۹*

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو ندا آئی اے موسیٰ !

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں  ہوں  تمہارا رب  ۱۰* اپنی جوتیاں  اتار دو تم طُویٰ کی مقدس وادی میں  ہو۔ ۱۱*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں  نے تمہیں  چن لیا ہے ۱۲* تو جو وحی کی جا رہی ہے اسے توجہ سے سنو۔ ۱۳*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں  ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی خدا نہیں  ۱۴ * تو میری ہی عبادت کرو ۱۵* اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ ۱۶*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے۔ ۱۷* میں  اسے پوشیدہ رکھنے کو ہوں  ۱۸* تاکہ ہر شخص اپنی کوشش کے مطابق بدلہ پائے۔ ۱۹*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اس پر ایمان نہیں  رکھتے اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے ہیں  وہ تمہیں  کہیں  اس سے روک نہ دیں  کہ تم ہلاکت میں  پڑو۔ ۲۰*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے موسیٰ! یہ تمہارے دہنے ہاتھ میں  کیا ہے؟

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں  ٹیک لگاتا ہوں ، اپنی بکریوں  کے لیے پتے جھاڑتا ہوں  اور اس میں  میرے لیے دوسرے فائدے بھی ہیں۔ ۲۱*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ڈال دو اس کو اے موسیٰ!

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اس کو ڈال دیا تو یکایک وہ ایک سانپ بن گیا جو دوڑ رہا تھا۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا پکڑ لو اس کو اور ڈرو مت۔ ہم اسے پھر اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں  گے۔ ۲۲*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنا ہاتھ اپنے بازو میں  دباؤ۔ روشن ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے۔ ۲۳* یہ دوسری نشانی ہے۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ ہم تمہیں  اپنی بڑی نشانیاں  دکھائیں۔ ۲۴*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم فرعون کے پاس جاؤ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ ۲۵*

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا: اے رب! میرا سینہ کھول دے۔ ۲۶*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے۔ ۲۷*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ ۲۸*

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے خاندان سے میرے لیے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ۲۹*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہارون کو جو میرا بھائی ہے۔ ۳۰*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ذریعہ میری کمر مضبوط کر۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کو میرے کام میں  شریک کر دے

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ ہم بہ کثرت تیری پاکی بیان کریں۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیرا خوب ذکر کریں۔ ۳۱*

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ تو ہمارا نگرانِ حال ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا تمہاری درخواست منظور کر لی گئی اے موسیٰ ! ۳۲*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم تم پر ایک بار اور احسان کر چکے ہیں۔ ۳۳*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ ہم نے تمہاری ماں  کی طرف وحی کی ۳۴* وہ جو وحی کی جا رہی ہے۔ ۳۵*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اس کو صندوق میں  رکھ دو پھر اس  (صندوق) کو دریا میں  چھوڑ دو۔ دریا کو چاہیے کہ اس کو کنارہ پر ڈال دے اور اسے وہ شخص اٹھالے جو میرا بھی دشمن ہے اور اس (بچہ) کا بھی۔ ۳۶* اور میں  نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تھی ۳۷* اور یہ اس لیے کیا تھا کہ تمہاری پرورش میری نگرانی میں  ہو۔ ۳۸*

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تمہاری بہن (پیچھے پیچھے) جا رہی تھی۔ ۳۹* کہنے لگی میں  تمہیں   (ایسی عورت) بتاؤں  جو اس کی پرورش کرے۔ ۴۰* اس طرح ہم نے تمہیں  تمہاری ماں  کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں  ٹھنڈی ہوں  اور وہ غم نہ کرے۔ ۴۱* اور تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تو ہم نے تم کو غم سے نجات دی اور تمہیں  طرح طرح سے آزمایا اور تم کئی سال مدین والوں  میں  رہے۔ ۴۴* پھر تم ٹھیک وقت پر آ گئے اے موسی ! ۴۵*

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں  نے تمہیں  اپنے  (خاص کام) کے لیے منتخب کیا ہے۔ ۴۶*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اور تمہارا بھائی میری نشانیوں  کے ساتھ جاؤ اور میرے ذکر میں  کوتاہی نہ کرو۔ ۴۷*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاؤ فرعون کے پاس و ہ سرکش ہو گیا ہے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے نرمی سے بات کرو ۴۸* ممکن ہے وہ یاد دہانی حاصل کرے یا ڈر جائے۔ ۴۹*

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں  نے عرض کیا ۵۰* اے ہمارے رب! ہمیں  اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا سرکشی کرے۔ ۵۱*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ڈرو مت میں  تمہارے ساتھ ہوں۔ سب کچھ سن رہا ہوں  اور دیکھ رہا ہوں۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں  تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے ۵۲* اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ۵۳* ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لیکر آئے ہیں  اور سلامتی ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ ۵۴*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ عذاب ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ ۵۵*

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا تم دونوں  کا رب کون ہے اے موسیٰ؟ ۵۶*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا پھر اس پر راہ کھول دی۔ ۵۷*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے سوال کیا پھر گزری ہوئی قوموں  کا کیا حال ہے؟

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے جواب دیا اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتہ میں  ہے۔ میرا رب ایسا نہیں  ہے کہ اس سے غلطی یا بھول ہو جائے۔ ۵۸*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ۵۹* جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا، اس میں  تمہارے لیے راہیں  نکالیں  اور آسمان سے  (اوپر سے) پانی برسایا پھر اس نے مختلف قسم کی نباتات پیدا کر دیں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھاؤ اور چراؤ اپنے چوپایوں  کو۔ اس میں  نشانیاں  ہیں  عقل رکھنے والوں  کے لیے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں  پیدا کیا، اسی میں  تمہیں  لوٹائیں  گے اور اسی سے دوبارہ تم کو نکالیں  گے۔ ۶۰*

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو اپنی ساری نشانیاں  دکھائیں ۶۱*  مگر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اے موسیٰ کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں  ہمارے ملک سے نکال باہر کرو؟ ۶۲*

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں  ایسا ہی جادو لائیں  گے۔ تم ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کر لو۔ ۶۳* نہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں  اور نہ تم۔ ایک ہموار میدان میں۔ ۶۴*

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا تمہارے لیے جشن کا دن مقرر ہے۔ اور لوگوں  کو دن چڑھے جمع کیا جائے۔ ۶۵*

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر فرعون پلٹا، اپنے تمام داؤ اکٹھا کئے اور مقابلہ میں  آ گیا۔ ۶۶*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا تمہاری شامت! اللہ پر جھوٹ نہ باندھو کہ عذاب سے تمہیں  تباہ کر دے۔ اور جس نے جھوٹ گھڑا وہ نامراد ہوا۔ ۶۷*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سن کر ان کے درمیان رد و کد ہونے لگی اور وہ چپکے چپکے سرگوشیاں  کرنے لگے۔ ۶۸*

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے لگے ۶۹* یہ دونوں  جادو گر ہیں۔ یہ چاہتے ہیں  کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال باہر کریں  اور تمہارے بہترین مذہب کو ختم کر کے رکھ دیں۔ ۷۰*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا اپنے سارے داؤ اکٹھا کر لو اور ایک صف بنا کر آؤ۔ ۷۱* آج اسی کی جیت ہو گی جو غالب آ گیا۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں  نے کہا موسیٰ یا تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالتے ہیں۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا نہیں  تم ہی ڈالو۔ ۷۲* اچانک ان کی رسیاں  اور لاٹھیاں  ان کے جادو کی وجہ سے اس کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ ۷۳*

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موسیٰ نے اپنے دل میں  خوف محسوس کیا۔ ۷۴*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے کہا ڈرو مت۔ تم ہی غالب رہو گے۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے دہنے ہاتھ میں  جو  (لاٹھی) ہے اسے ڈال دو۔ انہوں  نے جو کچھ بنایا ہے وہ اسے نگل جائے گا۔ ۷۵* جو کچھ انہوں نے بنایا ہے، جادوگر کا فریب ہے۔ ۷۶* اور جادو گر کامیاب نہیں  ہو سکتا خواہ کسی راہ سے آئے۔ ۷۷*

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالآخر جادو گر بے اختیار سجدے میں  گر پڑے۔ ۷۸* وہ پکار اٹھے ہم ایمان لائے موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔ ۷۹*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔  (فرعون نے) کہا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں  تمہیں  اجازت دیتا؟ ۸۰* ضرور یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں  جادو سکھایا ہے۔ ۸۱* تو میں  تمہارے ہاتھ اور پاؤں  مخالف سمتوں  سے کٹواؤں  گا اور تمہیں  کھجور کے تنوں  پر سولی دو ں  گا پھر تمہیں  پتہ چلے گا کہ ہم میں  سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ ۸۲*

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں  نے جواب دیا ہم ان روشن نشانیوں  پر جو ہمارے سامنے آئی ہیں  اور اس ذات پر جس نے ہمیں  پیدا کیا ہے تجھے ہرگز ترجیح نہیں  دیں  گے۔ تو جو چاہے کر گزر۔ تو جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اس دنیوی زندگی کی حد تک ہی کر سکتا ہے۔ ۸۳*

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطاؤں  کو بخش دے نیز جادو کے اس عمل کو بھی جس پر تو نے ہمیں  مجبور کیا تھا۔ ۸۴* اللہ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ ۸۵*

(۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً جو شخص اپنے رب کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضر ہو گا  ۸۶* اس کے لیے جہنم ہے جس میں  نہ مرے گا اور نہ جئے گا۔ ۸۷*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص مؤمن کی حیثیت سے حاضر ہو گا اور نیک عمل بھی کئے ہوں  گے تو ایسے لوگوں  کے لیے بلند درجے ہوں  گے۔ ۸۸*

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشگی کے باغ جن کے نیچے نہریں  بہہ رہی ہوں  گی ان میں  وہ ہمیشہ رہیں  گے۔ یہ جزا ہے اس کی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ ۸۹*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں  کو راتوں  رات لیکر چل پڑ۔ ۹۰* اور ان کے لیے سمندر میں  خشک راہ نکال ۹۱* نہ تمہیں  پیچھا کرنے والوں  کا کوئی خوف ہو گا اور نہ  (غرق ہونے کا) ڈر۔ ۹۲*

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو سمندر نے ان کو ڈھانک لیا جس طرح ڈھانک لیا۔ ۹۳*

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا۔ صحیح راہ نہ دکھائی۔ ۹۴*

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے بنی اسرائیل! ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی اور طور کی دہنی جانب تم سے وعدہ کیا ۹۵* اور تم پر من و سلوا اتارا۔ ۹۶*

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھاؤ ہماری بخشی ہوئی پاک چیزیں  اور اس معاملہ میں  سرکشی نہ کرو ورنہ میرا غضب تم پر نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا وہ ہلاکت میں  گرا۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں  بڑا بخشنے والا ہوں  اس کے لیے جو توبہ کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے اور راہِ ہدایت پر چلتا رہے۔ ۹۷*

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے موسیٰ! اپنی قوم کو چھوڑ کر جلد حاضر ہونے پر تمہیں  کس چیز نے ابھارا؟ ۹۸*

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا وہ میرے نقش قدم پر ہی ہیں  اور میں  نے تیرے حضور آنے میں  جلدی کی تاکہ تو راضی ہو۔ ۹۹*

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں  ڈال دیا اور سامری نے اسے گمراہ کر دیا۔ ۱۰۰*

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ سخت غصہ میں  افسوس کرتا ہوا اپنی قوم کی طرف لوٹا۔ ۱۰۱* اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں  کیا تھا۔ ۱۰۲* کیا تم پر بڑی مدت گزر گئی ۱۰۳* یا تم یہی چاہتے تھے کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہو اس لیے تم نے مجھ سے عہد شکنی کی۔ ۱۰۴*

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں  نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیار سے آپ سے کئے ہوئے عہد کے خلاف نہیں  کیا بلکہ قوم کے زیورات کے بوجھ سے ہم گرانبار ہو گئے تھے اس لیے ہم نے ان کو پھینک دیا۔ ۱۰۵* اس طرح سامری نے  (ان کو آگ میں) ڈالا۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے لیے ایک بچھڑا نکال لایا۔ ایک ڈھڑ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔ ۱۰۶* لوگ دیکھ کر کہنے لگے یہ ہے ہمارا خدا اور موسیٰ کا بھی خدا مگر وہ بھول گیا۔ ۱۰۷*

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ دیکھ نہیں  رہے تھے کہ نہ وہاں کی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ۱۰۸*

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو تم اس کے ذریعہ فتنہ میں  ڈال دیئے گئے ہو۔ تمہارا رب تو رحمن ہے۔ تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔ ۱۰۹*

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں  نے جواب دیا ہم اس کی پرستش پر جمے رہیں  گے جب تک کہ موسیٰ واپس نہیں  آ جائیں۔ ۱۱۰*

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے پوچھا ہارون! تم نے جو دیکھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں  تو تمہیں  کس چیز نے روکا۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ تم میری ہدایت پر عمل نہ کرو۔ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟ ۱۱۱*

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اے میری ماں  کے بیٹے ! میری ڈاڑھی نہ پکڑئے اور نہ میرا سر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ کہیں  گے تم نے بنی اسرائیل میں  پھوٹ ڈال دی اور میرے حکم کا انتظار نہ کیا۔ ۱۱۲*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے پوچھا سامری! تیرا کیا معاملہ ہے؟ ۱۱۳* اس نے جواب دیا مجھے وہ بات سجھائی دی جو دوسروں  کو سجھائی نہیں  دی۔ پس میں  نے رسول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی لے لی پھر اس کو چھوڑ دیا۔ میری نفس نے مجھے ایسا ہی سمجھایا۔ ۱۱۴*

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا جا۔ اب زندگی بھر تجھے یہ کہتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا۔ ۱۱۵ اور تیرے لیے ایک اور وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا ۱۱۶* اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس کی پرستش پر تو جما رہا ہم اسے جلا ڈالیں  گے پھر اس کو ریزہ ریزہ کر کے دریا میں  بہا دیں  گے۔ ۱۱۷*

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا خدا صرف اللہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔ ۱۱۸*

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم تمہیں  گزرے ہوئے واقعات سناتے ہیں  کہ ہم نے تمہیں  خاص اپنے پاس سے ذکر (قرآن) عطا کیا ہے۔ ۱۱۹*

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اس سے رخ پھیریں  گے وہ قیامت کے دن بھاری بوجھ اٹھائیں  گے۔ ۱۲۰*

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسی حالت میں  ہمیشہ رہیں  گے۔ ۱۲۱* اور یہ بہت برا بوجھ ہو گا جس کو قیامت کے دن وہ اپنے اوپر لادے ہوں  گے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن کہ صور پھونکا جائے گا ۱۲۲* اور ہم مجرموں  کو اس دن اس حال میں  جمع کریں  گے کہ ان کی آنکھیں  نیلی پڑی ہوں  گی۔ ۱۲۳*

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آپس میں  ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہتے ہوں  گے کہ تم تو صرف دس دن رہے ہو گے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم خوب جانتے ہیں  وہ جو کچھ کہیں  گے۔ اس وقت ان میں  جو سب سے بہتر اندازہ لگانے والا ہو گا کہے گا کہ تم بس ایک دن رہے ہو۔ ۱۲۴*

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ لوگ تم سے پہاڑوں  کے بارے میں  پوچھتے ہیں  کہو میرا رب ان کو گرد بنا کر اڑا دے گا۔ ۱۲۵*

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین کو اس حال میں  چھوڑے گا کہ وہ صاف اور ہموار میدان ہو گا۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں  نہ تم کجی دیکھو گے اور نہ بلندی۔ ۱۲۶*

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن لوگ ایک پکارنے والے کے پیچھے چلیں  گے۔ اس سے ذرا انحراف نہ کر سکیں  گے۔ ۱۲۷* اور ساری آوازیں  رحمن کے آگے پست ہو جائیں  گی۔ ایک آہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ ۱۲۸*

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس روز شفاعت کام نہ دے گی مگر اس کی جس کو رحمن اجازت دے اور اس کی بات پسند فرمائے۔ ۱۲۹*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور ان کا علم اس کا احاطہ نہیں  کر سکتا۔ ۱۳۰*

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمام چہرے اس حی و قیوم کے آگے جھکے ہوں  گے اور نامراد ہو گا وہ جو ظلم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گا۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس نے نیک کام کئے ہوں  گے اور وہ مومن بھی ہو گا تو اس کے لیے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہو گا اور نہ حق تلفی کا۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے اس کو عربی قرآن کی شکل میں  اتارا ۱۳۲* اور اس میں  ہم نے مختلف طریقوں  سے تنبیہیں  پیش کیں  ۱۳۳* تا کہ لوگ اللہ سے ڈریں  یا یہ ان کے لیے یاد دہانی کا باعث ہو۔ ۱۳۴*

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس برتر ہے اللہ بادشاہ حقیقی۔ ۱۳۵* اور قرآن پڑھنے میں  جلدی نہ کرو قبل اس کے کہ اس کی وحی تم پر پوری کر دی جائے۔ ۱۳۶* اور دعا کرو کہ اے میرے رب! میرا علم اور زیادہ کر۔ ۱۳۷*

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ۱۳۸* اس سے پہلے آدم کو تاکیدی حکم دیا تھا ۱۳۹* مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں  عزم نہ پایا۔ ۱۴۰*

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے فرشتوں  سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں  نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں  کیا۔ اس نے انکار کیا۔ ۱۴۱*

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر ہم نے کہا اے آدم یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں  جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں  پڑ جاؤ۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں  تمہارے لیے یہ (سہولت) ہے کہ نہ بھوکے رہو اور نہ برہنہ۔

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ پیاس لگے اور نہ دھوپ ۱۴۲*

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیطان نے اس کو ورغلایا۔ ۱۴۲* کہا اے آدم! میں  تمہیں  بتاؤں  ہمیشگی کا درخت اور ایسی بادشاہت جس پر کبھی زوال نہ آئے؟ ۱۴۴*

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ دونوں  نے  (آدم اور حوا نے) اس درخت کا پھل کھا لیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں  کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ جنت کے پتوں  سے اپنے کو ڈھانکنے لگے۔ ۱۴۵* آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ۱۴۶* اور وہ بے راہ ہو گیا۔ ۱۴۷*

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے رب نے اسے قبولیت سے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اسے ہدایت بخشی۔ ۱۴۸*

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا تم سب یہاں  سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ ۱۴۹* پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت ۱۵۰* آئے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت میں  پڑے گا۔ ۱۵۱*

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو میرے ذکر سے رخ پھیرے گا اس کے لیے تنگ زندگی ہو گی ۱۵۲* اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں  گے۔ ۱۵۳*

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں  اٹھایا میں  تو بینا (آنکھوں  والا) تھا؟

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری آیتیں  تیرے پاس پہنچی تھیں  تو تو نے ان کو بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھی بھلایا جا رہا ہے۔ ۱۵۴*

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم بدلہ دیں  گے اس کو جو حد سے گزر گیا تھا ۱۵۵* اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہیں  لایا تھا اور آخرت کا عذاب بہت زیادہ سخت اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان لوگوں  کے لیے یہ بات باعث ہدایت نہ ہوئی کہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں  کو ہلاک کر چکے ہیں  جن کی  (اجڑی ہوئی) بستیوں  میں  یہ چلتے پھرتے ہیں  ۱۵۶* اس میں  ان لوگوں  کے لیے نشانیاں  ۱۵۷* ہیں  جو دانشمند ہیں۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات ۱۵۸* پہلے ہی طے نہ پا چکی ہوتی اور ایک مدت ۱۵۹* مقرر نہ کی گئی ہوتی تو عذاب ان کو گرفت میں  لے لیتا۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس ان کی باتوں  پر صبر کرو ۱۶۰* اور اپنے رب کی حمد کے ساتء تسبیح کرو ۱۶۱* سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے۔ اور رات کی کچھ گھڑیوں  میں  بھی تسبیح کرو اور دن کے حصوں  میں  بھی ۱۶۲* تاکہ تم خوش ہو جاؤ۔ ۱۶۳*

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس زیبائش کو جو ہم نے ان کے مختلف گروہوں  کو دے رکھی ہیں  تاکہ ہم انہیں  آزمائش میں  ڈالیں۔ اور تمہارے رب کا رزق ہی بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے۔ ۱۶۴*

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے گھر والوں  کو نماز کا حکم دو اور اس پر قائم رہو۔ ۱۶۵* ہم تم سے رزق نہیں  مانگتے۔ ۱۶۶* رزق ہم تمہیں  دیتے ہیں  اور انجام کار تقویٰ کے لیے ہے۔ ۱۶۷*

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ کہتے ہیں  یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں  نہیں  لاتا۔ کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں  میں  جو کچھ (بیان ہوا) ہے اس کی شہادت نہیں  پہنچی؟ ۱۶۸*

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم اس سے پہلے ہی انہیں  عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ کہتے اسے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں  نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ۱۶۹* ہونے سے پہلے تیرے احکام پر چلتے۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ہر ایک انتظار میں  ہے ۱۷۰* تو تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں  معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ پر ہے نیز کس نے ہدایت پائی ہے ۱۷۱*

 

                   تفسیر

 

۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "طا” کا اشارہ "طوی” کی طرف ہے جس کا ذکر آیت ۱۲ میں  ہوا ہے۔ یہ کوہ سینا کی اس وادی کا نام ہے جہاں  اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔

"ھا” کا اشارہ ہارون کی طرف ہے جن کا ذکر اس سورہ میں  متعدد مقامات پر ہوا ہے۔

حروفِ مقطعات کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱ اور سورۂ یونس ۱۔

۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن حالات میں  اس سورہ کا نزول ہوا ہے وہ اہل ایمان کے لیے نہایت سخت تھے۔ منکرین قرآن نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا جس سے مجبور ہو کر ایک گروہ ہجرت کر کے حبشہ چلا گیا تھا۔ ان حالات میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں  کو ان آیات کے ذریعہ اطمینان دلایا گیا کہ وہ کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ قرآن کا نزول اس لیے نہیں  ہوا ہے کہ تم مصیبت میں  پڑو بلکہ اس لیے ہوا ہے کہ جو سبق انسان کی لوحِ فطرت پر لکھا ہوا ہے اور غفلت میں  پڑے رہنے کی وجہ سے اس نے فراموش کر دیا ہے اس کی یاد دہانی ہو۔ ظاہر ہے یہ یاد دہانی انسان کے لیے خیر اور سعادت ہی کا باعث ہے کیونکہ انسان کے لیے سعادت فطرت سے ہم آہنگ ہو کر چلنے میں  ہے نہ کہ فطرت سے بغاوت کرنے میں  اب اگر بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ قرآن پر ایمان لانے والوں  کی راہ میں  کانٹے بچھاتے ہیں  تو اس پر صبر کرنا چاہیے کیونکہ قرآن نے سعادت کی جو راہ تم پر کھولی ہے اسے یہ لوگ کسی صورت میں  تم پر بند نہیں  کر سکتے اور وہ انسان کو جو بھولا ہوا سبق یاد دلا رہا ہے اس سے ہر وہ شخص فائدہ اٹھائے گا جس میں  کچھ بھی خدا خوفی ہے۔

۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیات میں  قرآن کے نازل کرنے والے کی صحیح معرفت بخشی گئی ہے تاکہ لوگوں  پر اچھی طرح واضح ہو جائے کہ یہ نہایت عظمت والا کلام ہے جو ایک عظیم ہستی کی طرف سے فرمان کی حیثیت سے نازل ہوا ہے۔

۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۸۳۔

یہاں  اللہ کی یہ صفت کہ وہ رحمن ہے اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ وہ کائنات پر کمال رحمت کے ساتھ فرمانروائی کر رہا ہے۔

۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس پوری کائنات کا مالک اللہ ہی ہے کوئی چیز ایسی نہیں  جس کا مالک اس کے سوا کوئی اور ہو۔ وہ مالک ہے اور سب مملوک۔ پھر اس کے سوا کسی کے خدا ہونے کا سوال ہی کہاں  پیدا ہوتا ہے؟

۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کے علم کی شان یہ ہے کہ تم کوئی بات علانیہ کہو یا چپکے سے اس پر ہر بات روشن ہے یہاں  تک کہ نہایت مخفی باتیں  بھی جو دل ہی دل میں  رہتی ہیں۔

۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف نوٹ ۲۷۸۔

۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا واقعہ بعد کی آیات میں  اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے۔ یہاں  یہ سوال کہ کیا موسیٰ کے واقعہ کی خبر تمہارے پاس پہنچی شوق سماعت پیدا کرنے کے لیے ہے۔

۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ مدین میں  کئی سال گزارنے کے بعد اپنے بیوی بچوں  کے ساتھ مصر لوٹ رہے تھے۔

واضح رہے کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ سے مصر ہی میں  آباد تھے اور حضرت موسیٰ بھی وہیں  پیدا ہوئے تھے مگر جوان ہونے کے بعد ایک خاص موقع پر مدین چلے گئے تھے جہاں  انہوں  نے ایک عرصہ تک قیام کیا۔

مدین سے واپس ہوتے ہوئے وہ صحرائے سینا میں  کوہ طور کے پاس سے گزر رہے تھے۔ رات سرد تھی اور راستہ کا کچھ پتہ نہیں  چل رہا تھا کہ یکایک انہیں  ایک آگ دکھائی دی انہوں  نے گھر والوں  سے کہا کہ تم یہاں  ٹھہرے رہو میں  جا کر آگ کا شعلہ لے آتا ہوں  تاکہ تم اپنے کو تاپ سکو اور ممکن ہے وہاں  راستہ کا کچھ پتہ چل جائے۔

۱۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حضرت موسیٰ آگ کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں  آواز دی” میں  ہوں  تمہارا رب” وحی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے براہ راست خطاب فرمائے اور موسیٰ علیہ السلام کا یہ امتیاز ہے کہ انہیں  اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کا شرف عطاء فرمایا اور ان کی رسالت کا آغاز ہی فرشتہ کے واسطہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کے براہ راست خطاب سے ہوا۔

واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ وہ کسی مادی چیز میں  جو مخلوق ہے حلول کر جائے۔ اس لیے جو آگ موسیٰ علیہ السلام کو دکھائی دی تھی وہ نہ خدا تھی اور نہ خدا نے اس میں  حلول کر لیا تھا بلکہ وہ ایک خاص قسم کی روشنی تھی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ انہوں  نے اللہ کی نداء اور اس کا کلام ضرور سنا لیکن انہوں  نے اللہ کو دیکھا نہیں  اور قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ بعد میں  جب کوہ طور پر موسیٰ کو شریعت عطاء کرنے کے لیے بلایا گیا تھا تو انہوں  نے اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنا جلوہ اسے دکھائے۔ ان کی اس درخواست پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لَن تَرَانِیْ ” تم مجھے ہرگز دیکھ نہ سکو گے۔ ” (سورۂ اعراف: ۱۴۳)

۱۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طُویٰ کوہ طور کی ایک وادی کا نام ہے جو مقدس بن گئی تھی لیکن اب یہ اس نام سے معروف نہیں  رہی۔ معلوم ہوتا ہے یہ پوری وادی اس آگ کی روشنی سے جو خاص قسم کی تھی بقعۂ نور بن گئی تھی اور اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو شرف ہم کلامی بخش رہا تھا اس لیے خاص اہتمام کے ساتھ آدابِ حضوری بجا لانے کا حکم ہوا چنانچہ ارشاد ہوا اپنی جوتیاں  اتار دو اور اس کی علت بھی واضح فرما دی کہ اس وقت تم طُویٰ کی مقدس وادی میں  ہو۔ اس کا مقدس ہونا ظاہری اور باطنی پہلوؤں  سے تھا۔ چونکہ اس سرزمین میں  اللہ تعالیٰ کی یہ شان ظاہر ہو رہی تھی کہ وہ حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہو اس لیے اسے شیطان اور اس کے شر سے پوری طرح محفوظ کر دیا گیا تھا اور اس کے ماحول کو بابرکت بنیا دیا گیا تھا اس غیر معمولی تقدس کا تقاضا یہ تھا کہ ادب و تعظیم کا معیار بلند رہے اور تواضع کا بھی پوری طرح اظہار ہو۔ جوتیاں  اتارنا اس نفسیاتی کیفیت کا مظہر تھا اس لیے اس کا خاص طور سے حکم دیا گیا۔ رہا یہ اشکال کہ پھر جوتے پہن کر__اگر وہ صاف ہوں  یا مٹی سے رگڑ دئے گئے ہوں  __نماز پڑھنا حدیث میں  کس طرح جائز قرار دیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سہولت ہے جو اسلام نے عام ضرورت کے پیش نظر دی ہے جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو جو حکم دیا گیا تھا وہ ادب و تعظیم کے خصوصی اہتمام کا تھا کیونکہ رب العالمین ان سے خود خطاب فرما رہا تھا جسے وہ سن رہے تھے جبکہ نماز میں  یہ صورت نہیں  ہوتی بلکہ بندہ کی طرف سے مناجات ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کہ ” تم طوی کی مقدس وادی میں  ہو۔ ” فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت موسیٰ جو راستہ تلاش کر رہے تھے انہیں  معلوم ہو گیا کہ وہ طُویٰ کے مقام پر ہیں۔ ظاہر ہے اس سے آگے کے راستے کا پتہ چلانا ان کے لیے آسان ہوا ہو گا۔

۱۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منصبِ رسالت کے لیے۔

۱۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ سفر میں  تھے کہ یکایک انہیں  اللہ نے پکارا اور منصب رسالت سے سرفراز فرمایا اس سے واضح ہوا کہ نبوت اور رسالت ایک عطیہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں  کو نوازتا رہا اس منصب کو کوئی شخص بھی سعی و جہد سے حاصل نہیں  کر سکتا۔

موسیٰ علیہ السلام کو منصب رسالت عطا کئے جانے اور ان پر وحی کے نزول کے واقعہ کو بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و رسالت سے سرفراز کئے جانے کا واقعہ انوکھا نہیں  ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں  کو اس منصب پر مامور فرماتا رہا ہے جس کی واضح مثال موسیٰ کا واقعہ ہے۔

۱۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کر کے جو پہلی تعلیم دی وہ توحید کی تھی۔ یہ وہ اساس ہے جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے اور یہ وہ نور ہے جس سے ہدایت کی تمام کرنیں  پھوٹ پڑی ہیں۔

۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبادت کی حقیقت انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی تعظیم کرنا اور اپنی فروتنی کا اظہار کرنا ہے۔ اس کی مستحق خدا ہی کی ذات ہو سکتی ہے اور جب اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں  تو عبادت کا مستحق بھی اس کے سوا کوئی نہیں  اور ایک بندہ کا اس کے بندہ ہونے کی حیثیت سے فرض ہے کہ اس کی عبادت کرے اور یہ شریعت الٰہی کا انسان سے اولین مطالبہ ہے۔

۱۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نماز عبادت کی بہترین شکل ہے لہٰذا اس کا پورا پورا اہتمام کرو اور نماز کا یہ اہتمام اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ واضح ہوا کہ نماز کا اصل مقصد اللہ کو یاد کرنا اور اس سے وابستہ ہونا ہے۔ بندہ جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو بندگی کا تعلق اس سے استوار ہو جاتا ہے اور انسان کی ساری کامیابی اور اس کے حقیقی ارتقاء کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے رب سے صحیح تعلق قائم کرے اور اس کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں  رہے۔

” ذکر” کے معنی دل سے یاد کرنے کے بھی ہیں  اور زبان سے کلمات ادا کرنے کے بھی۔ ” نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو” کا مطلب محض زبان سے مخصوص کلمات ادا کرنا نہیں  بلکہ دل سے یاد کرتے ہوئے ان کلمات کو ادا کرنا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بندہ نماز میں  اپنے رب کی طرف متوجہ رہے اور حضور قلب کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرے۔

۱۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز کرتے ہوئے جو بنیادی تعلیم دی گئی تھی اس میں  قیامت کا وقوع اور جزائے عمل کا قانون بھی بیان ہوا تھا لیکن موجودہ تورات میں  جہاں  موسیٰ کے نبوت سے سرفراز کئے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے وہاں  اس تعلیم کا کوئی ذکر نہیں  ہے  (ملاحظہ ہو خروج باب ۳ اور ۴) اور اتنا ہی نہیں  بلکہ پوری تورات میں  آخرت کی جز ا و سزا کا ذکر مشکل ہی سے کہیں  ملے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل کتاب جزائے عمل کے قانون کو کس طرح فراموش کر چکے تھے اور قرآن نے اس کو کس طرح نمایاں  کیا۔

۱۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” میں  اسے پوشیدہ رکھنے کو ہوں  ” کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ قیامت کی گھڑی کو مخفی رکھا گیا ہے اس لیے کوئی شخص اس کو اس کے آنے سے پہلے نہ اپنے چشم سر سے دیکھ سکتا ہے اور نہ اس کے وقوع کی تاریخ معلوم کر سکتا ہے لیکن اسے ایسا مخفی بھی نہیں  رکھا گیا ہے کہ اس کے آثار ظاہر نہ ہوں  اور اس کے دلائل واضح نہ ہوں  پس قیامت کا معاملہ پوشیدہ ضرور ہے مگر اس کے باوجود اس کے آثار ظاہر ہوتے رہیں  گے۔

۱۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت اس لیے برپا کی جائے گی تاکہ ہر شخص اپنے عمل کے مطابق بدلہ پائے اور پوشیدہ بھی اسی لیے رکھا گیا ہے تاکہ انسان کو امتحان سے گزارا جائے اور اس امتحانی زندگی میں  اس کی کوشش جیسی کچھ رہی ہو گی اس کے مطابق اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے۔

۲۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان ماحول سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے اور دنیا کا ماحول انکار آخرت اور خواہش پرستی کا ماحول ہے۔ ہر زمانہ میں  دنیوی ترقی کا راز اسی میں  سمجھا گیا ہے کہ انسان خدا کے حضور جوابدہی کی فکر سے آزاد ہو کر زندگی بسر کرے۔ پھر اس سلسلہ میں  ماحول کا دباؤ بڑا شدید ہوتا ہے۔ اگر آدمی ان غلط اور باطل افکار کی طرف سے چوکنا نہ رہے تو ماحول کا سیلاب اسے بہا لے جاتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اور ان کے واسطہ سے ان کی پیروؤں  کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ ان لوگوں  کی طرف سے چوکنا رہیں  جو آخرت کو نہیں  مانتے اور خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔

۲۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال تحقیق کے لیے نہیں  تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔ اسے معلوم تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ میں  کیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے یہ سوال اس لیے کیا تاکہ موسیٰ اپنی لاٹھی کو اس کے سانپ بن جانے سے پہلے اچھی طرح شناخت کر لیں  اور سانپ بن جانے کے بعد انہیں  یقین ہو جائے کہ یہ ان ہی کی لاٹھی ہے جو سانپ بن گئی ہے۔

یہ خیال کرنا درست نہیں  کہ موسیٰ نے خدا کے سوال کا طویل جواب دیا جو مناسب نہ تھا۔ سوال جس انداز میں  ہوا اس سے حضرت موسیٰ سمجھ گئے کہ لاٹھی کے بارے میں  وضاحت مطلوب ہے کہ وہ کس غرض سے رکھی گئی ہے۔ یہ وضاحت حضرت موسیٰ میں  یقین راسخ پیدا کرنے کی غرض سے تھی کہ جس لاٹھی سے کبھی کوئی غیر معمولی بات وقوع میں  نہیں  آئی وہی لاٹھی آج تمہارے سامنے سانپ بنکر دوڑ رہی ہے یہ ایک صریح معجزہ ہے۔

۲۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس معجزہ کا ذکر تورات میں  بھی ہوا ہے : ” اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں  کیا ہے؟ اس نے کہا لاٹھی۔ پھر اس نے کہا کہ اسے زمین پر ڈال دے۔ اس نے اسے زمین پر ڈالا اور وہ سانپ بن گئی اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا تب خداوند نے موسیٰ سے کہا ہاتھ بڑھا کر اس کی دم پکڑ لے۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اسے پکڑ لیا۔ وہ اس کے ہاتھ میں  لاٹھی بن گیا۔ ” (خروج ۴: ۲تا ۴)

۲۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسرا معجزہ تھا جو موسیٰ کو عطا کیا گیا۔ اپنا ہاتھ اپنے بازو میں  دبا کر وہ نکالتے تو بالکل سفید بن جاتا تھا یہ سفیدی برص وغیرہ کی وجہ سے نہیں  تھی اور نہ اس میں  کوئی عیب پایا جاتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہاتھ دوبارہ اپنی اصلی حالت پر لوٹ نہ آتا۔ یہ اس کے معجزہ ہونے کا صریح ثبوت تھا۔

بائبل میں  اس معجزہ کا ذکر تو ہوا ہے مگر اس کو کوڑھ سے مماثلت دی گئی ہے  (ملاحظہ ہو خروج ۴:۶) اسی لیے قرآن نے واضح کر دیا کہ ہاتھ بغیر عیب کے سفید ہو جاتا تھا اس سے بائبل کے مذکورہ بیان کی تردید ہوتی ہے اور قرآن کے بیان کی حقانیت واضح ہوتی ہے کیونکہ معجزہ لوگوں  پر حجت قائم کرنے کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس میں  غیب کا پہلو نہیں  ہو سکتا۔

۲۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دو نشانیاں  ہی نہیں  آگے جا کر تم دوسری بڑی بڑی نشانیاں  بھی دیکھو گے چنانچہ بعد میں  اس لاٹھی کے ذریعہ کتنی ہی نشانیوں  کا ظہور ہوا اور یہی لاٹھی تھی جس کو مارنے سے بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں  راستہ بن گیا۔

۲۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نازعات نوٹ ۱۳۔

۲۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ رسالت کی ذمہ داری ایک عظیم ذمہ داری ہے اور خاص طور سے فرعون جیسے جابر بادشاہ کو دعوت حق دینا بہت بڑے حوصلے کی بات ہے اس لیے انہوں  نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں  اس کام کے لیے حوصلہ عطا کرے۔ شرح صدر (سینہ کا کھل جانا) کنایہ ہے حوصلہ کی فراخی جرأت و ہمت اور طمانیت قلب کے لیے۔

۲۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو کام تو نے میرے سپرد کیا ہے اس کی انجام دہی میرے لیے آسان کر دے۔

۲۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زبان کی گرہ سے مراد بولنے میں  روانی کی کمی ہے نہ کہ لکنت۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں  ہے کہ حضرت موسیٰ کی زبان میں  لکنت تھی اور یہ جو قصہ تفسیروں  میں  بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ نے بچپن میں  جبکہ وہ فرعون کے زیر پرورش تھے منہ میں  انگارا ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں  لکنت پیدا ہو گئی تھی تو یہ اسرائیلیات میں  سے ہے اور قابل رد ہے۔ دراصل دعوت کو موثر انداز میں  پیش کرنے کے لیے خطابات کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ اپنے اندر طاقتِ لِسانی کی کمی محسوس کر رہے تھے اس لیے انہوں  نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ زبان کی اس رکاوٹ کو کہ وہ روانی کے ساتھ بات نہیں  کر سکتے دور کر دے۔

۲۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزیر یعنی ایسا معاون جو ذمہ داریوں  کی ادائیگی میں  ہاتھ بٹا سکے اور نیابت کر سکے۔

۳۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بڑے بھائی تھے وہ چونکہ نیک بھی تھے اور خطابت و فصاحت میں  ممتاز ہونے کی بنا پر دعوتی ذمہ داریوں  کو ادا کرنے کے زیادہ اہل تھے اس لیے حضرت موسیٰ نے ان کو نبی بنانے کی درخواست کی۔

۳۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کو جب نبوت عطاء ہوئی تو ان پر گہرے حقائق و معانی کا بھی انکشاف ہوا۔ وہ سمجھ گئے کہ کار نبوت میں  جو چیز اہمیت رکھتی ہے اور جس کو ایک اعلیٰ مقصد کی حیثیت سے تمام کاموں  میں  پیش نظر رکھنا چاہیے وہ ہے اللہ کی پاکی بیان کرنا اور اس کا خوب ذکر اور چرچا کرنا مسئلہ سیرت سازی کا ہو یا دعوت و بلیغ یا رہنمائی اور قیامت کا تمام امور و مسائل میں  اس عبادت کو اس کے شایان شان طریقہ پر ادا کرنا ضروری ہے۔

۳۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کو جب اللہ تعالیٰ نے منصب رسالت سے سرفراز فرمایا تو وہ اس کی ذمہ داریوں  کے احساس سے گرانبار ہو رہے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں  سے نکلی ہوئی یہ دعا بارگاہ الٰہی میں  شرف قبولیت حاصل کر گئی اور جو کچھ انہوں  نے مانگا سب دیا گیا۔

۳۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قبولیت دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نوازشوں  کا ذکر فرمایا جو اس نے موسیٰ پر نبوت سے پہلے فرمائی تھیں  تاکہ واضح ہو جائے کہ موسیٰ پر ان کی پیدائش کے وقت ہی سے اللہ کی خاص نظر عنایت رہی ہے اور وہ قدم قدم پر ان کی دستگیری کرتا رہا ہے پھر نبوت کے بعد وہ ان کی مدد کیسے نہیں  کرے گا؟ اور ان کی ڈھارس بندھ جائے کہ جب ان کی پرورش کے لیے اللہ کی طرف سے کرشمۂ قدرت کا ظہور ہوا تھا تو جس کٹھن مہم پر ان کو بھیجا جا رہا ہے اس کے لیے اس کے کرشموں  کا ظہور کیوں  نہیں  ہو گا؟

۳۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وحی القاء  (دل میں  کوئی بات ڈالنا) کے معنی میں  نہیں  ہو سکتی کیونکہ سورۂ قصص میں  بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس بچہ کو ہم تمہارے پاس لوٹا دیں  گے اور اسے ہم رسول بنانے والے ہیں۔ ظاہر ہے صراحت کے ساتھ یہ بات اسی صور ت میں  انہیں  معلوم ہو گئی ہو گی جبکہ الفاظ کے پیرایہ میں  انہوں  نے سنی ہو گی اس لیے ان کے پاس وحی غیبی آواز کی صورت میں  آئی ہو گی۔ واللہ اعلم باسرار  کلامہ۔

یہاں  یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ وحی کا کسی غیر نبی کی طرف بھیجا جانا ایک شاذ اور استثنائی صورت ہے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ اور حضرت مریم کے ساتھ وحی کا معاملہ وقتی اور محدود تھا اور یہ ایک استثنائی صورت تھی نیز اس وحی کا تعلق در حقیقت حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ جیسے نبیوں  کی ولادت سے تھا اور بعد میں  ان نبیوں  کے ذریعہ اس وحی کی تصدیق بھی ہوئی۔ اس لیے وحی کے ان واقعات میں  جھوٹے مدعیانِ نبوت کے لیے کوئی دلیل نہیں  ہے۔

۳۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے موسیٰ تمہاری ماں  کی طرف جو باتیں  وحی کی گئی تھیں  وہ تمہیں  وحی کے ذریعہ بتائی جا رہی ہیں۔ آگے اس کا ذکر ہے۔

۳۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قصہ سورۂ قصص میں  تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں  ہم اس واقعہ کا پس منظر مختصراً بیان کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ میں  فلسطین سے مصر منتقل ہو گئے تھے۔ چند صدیوں  میں  ان کی آبادی وہاں  خوب بڑھی اور جب فرعون برسر اقتدار آیا تو اس نے ان کی آبادی کے بڑھ جانے کا خطرہ محسوس کیا۔ چونکہ بنی اسرائیل اسلام کے پیرو تھے اور مصری مشرکانہ مذہب کے اس لیے فرعون اور حکمراں  طبقہ بنی اسرائیل کے بارے میں  بڑے تعصب میں  مبتلا تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا تھا یہاں  تک کہ فرعون نے ان کی تعداد کو گھٹانے کے لیے ان کے بچوں  یعنی لڑکوں  کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔

موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے انہیں  چھپایا لیکن یہ معاملہ کب تک ڈھکا چھپا رہتا۔ فرعونیوں  کو خبر ہوئی تو وہ اس بچہ کو بھی قتل کر دیتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ان کی حفاظت اور ان کی پرورش کا غیر معمولی سامان کیا۔ موسی کی والدہ کو بصورت وحی یہ ہدایت ہوئی کہ ایک صندوق میں  بچہ کو رکھ کر دریا میں  چھوڑ دے اور دریا کو یہ حکم ہوا کہ وہ صندوق کو کنارے پر ڈال دے چنانچہ موسیٰ کی والدہ نے اس ہدایت پر عمل کیا اور وہ صندوق ایسی جگہ کنارے پر لگا جہاں  فرعون اپنی بیوی کے ساتھ موجود تھا اس نے اپنے آدمی کے ذریعہ صندوق کو حاصل کر لیا اس طرح موسیٰ اس شخص کے پاس پہنچ گئے جو خدا کا بھی دشمن تھا اور ان کا بھی۔ یہ اللہ کا کرشمۂ قدرت تھا اس کے بعد دوسرے جن کرشموں  کا ظہور ہوا ان کا ذکر آگے آ رہا ہے۔

۳۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچہ کو نہایت پیاری اور موہنی صورت والا بنایا گیا تھا تاکہ دیکھ کر کسی کو بھی رحم آئے۔ اللہ کی یہ تدبیر ایسی تھی کہ فرعون اپنی سنگدلی کے باوجود اس کو قتل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو سکا اور جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے بائبل میں  بھی بچہ کے خوبصورت ہونے کا ذکر ہے :

” وہ عورت حاملہ ہوئی اور اس کے بیٹا ہوا اور اس نے یہ دیکھ کر کہ بچہ خوبصورت ہے تین مہینے تک اسے چھپا کر رکھا۔ ” (خروج: ۲۰۲۰)

۳۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان نازک حالات میں  اللہ نے موسیٰ کی پرورش کا خصوصی انتظام کیا۔

۳۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب موسیٰ کو صندوق میں  رکھ کر دریا کے سپرد کر دیا گیا تو ان کی بہن خاموشی کے ساتھ اس صندوق کے پیچھے پیچھے جا رہی تھی تاکہ دیکھے اس صندوق کے ساتھ کیا معاملہ پیش آتا ہے۔

۴۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صندوق کو فرعون کے گھر والوں  میں  سے کسی نے اٹھا لیا اور فرعون اور اس کی بیوی کے پاس لے گیا۔ فرعون کا محل غالباً دریائے نیل کے کنارے تھا اس لیے کنارے کے پاس گھر کا کوئی نہ کوئی فرد موجود رہا ہو گا۔ بائبل کا بیان ہے کہ فرعون کی بیٹی وہاں  موجود تھی اور اس نے صندوق لے لیا تھا۔  (خروج ۲:۵)

بچہ جب فرعون کے گھر پہنچ گیا تو فرعون کی بیوی اسے دیکھ کر خوش ہو گئی اور فرعون کو اس بات کے لیے آمادہ کیا کہ اس کی پرورش کی جائے مگر بچہ کسی عورت کا دودھ پینے کے لیے تیار نہ ہوا اس لیے اس کو بڑی تشویش ہوئی۔ موسیٰ کی بہن جو دور سے دیکھ رہی تھی قریب آئی اور جب اسے معلوم ہوا کہ بچہ کے لیے دودھ پلانے والیوں  کو طلب کیا جا رہا ہے تو اس نے انہیں  بتلایا کہ فلاں  گھر میں  اس کی پرورش کا انتظام ہو سکتا ہے یہ گھر ان کی اپنی والدہ کا تھا مگر راز کو فاش کئے بغیر اس نے یہ مشورہ دیا۔

۴۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ کی بہن کے مشورہ کو فرعون کے گھر والوں  نے قبول کر لیا اور اس کو اس انّا کے حوالے کر دیا جس کا مشورہ موسیٰ کی بہن نے دیا تھا یعنی موسیٰ کی والدہ نے اس طرح بچہ پرورش کے لیے دوبارہ موسیٰ کی والدہ کی گود میں  پہنچ گیا اور اللہ کا یہ وعدہ کہ ہم اسے تمہارے پاس لوٹائیں  گے ایک کرشمہ کی صورت میں  پورا ہوا۔

۴۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قصہ بھی سورۂ قصص میں  بیان ہوا ہے۔ موسیٰ جب بڑے ہوئے تو ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ دو آدمیوں  کو لڑتے ہوئے دیکھ کر وہ مظلوم کی مدد کے لیے گئے۔ مظلوم اسرائیلی تھا اور زیادتی کرنے والا قبطی انہوں  نے قبطی کو جوں  ہی گھونسا مارا اس کی موت واقع ہو گئی۔ موسیٰ کا ارادہ اس کو جان سے مارنے کا نہیں  تھا لیکن یہ غلطی ان سے سرزد ہو گئی جس کا انہیں  ملال رہا۔ اس کی اطلاع جب فرعون کو ہوئی تو اس نے موسیٰ کو قتل کرنے کی غرض سے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے۔ موسیٰ کو جب یہ اطلاع ہوئی تو وہ مصر چھوڑ کر مدین چلے گئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی نجات کا سامان کر دیا۔

۴۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی پوری زندگی آزمائشوں  کی زندگی رہی ہے۔ اور ان آزمائشوں  میں  جب وہ پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں  نہایت بلند مقام عطا فرمایا۔ معلوم ہوا کہ انسان کی آزمائشوں  میں  خوب تربیت ہوتی ہے اور وہ ان سے گزر کر اہم خدمات انجام دینے کے لائق بنتا ہے۔

۴۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ مصر سے نکل کر قریبی ملک مدین پہنچ گئے تھے جہاں  انہوں  نے کئی سال گزارے۔ تفصیل سورۂ قصص میں  آ رہی ہے۔

۴۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبوت عطا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو وقت مقرر کیا تھا ٹھیک اس وقت پر پہنچ گئے۔

۴۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کار نبوت ہے۔

۴۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دل سے مجھے خوب یاد رکھو، زبان سے بہ کثرت میرا ذکر کرو اور لوگوں  میں  میرا خوب چرچا کرو۔ اس فریضہ کی ادائیگی میں  کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔

۴۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون بڑا سرکش اور مغرور تھا مگر اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنے کی ہدایت دی گئی تاکہ دعوت اس کے سامنے اپیلنگ انداز میں  آ جائے اور وہ غور و فکر کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ داعی کو اپنے لب و لہجہ میں  مخاطب کی نفسیات کا لحاظ کرنا چاہیے۔

۴۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ فرعون دعوت قبول نہیں  کرے گا اس کے باوجود موسیٰ کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں  قبول دعوت کے امکان کو نظر انداز نہ کریں۔ یعنی داعی کی حیثیت سے تو انہیں  اپنی ذمہ داریاں  اسی طرح انجام دینی چاہئیں  کہ جس کے سامنے وہ دعوت پیش کر رہے ہیں  وہ کیا عجب کہ قبول کر لے۔ اگر اس بات کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو نہ داعی اپنی ذمہ داریاں  کما حق ادا کر سکتا ہے اور نہ ان لوگوں  پر حجت قائم ہو سکتی ہے جن کے سامنے دعوت پیش کی جا رہی ہے۔

یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ اللہ کی عظمت کے تصور سے اس کا ڈر اور خوف (خشیت کا) پیدا ہو جانا اولین اور بنیادی بات ہے اور جب یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے تو دل یاد دہانی (تذکیہ) حاصل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے اور پھر ہر وہ بات جو حق ہے اس کے دل میں  اترنے لگتی ہے چنانچہ سورۂ اعلیٰ میں  ارشاد ہوا ہے ” سَیَذّکَّرُمَنْ یَخْشیٰ ” یاددہانی حاصل کرے گا وہ جو  (اپنے رب سے) ڈرتا ہے۔ ”

لہٰذا فرعون کے بارے میں  یہ جو فرمایا کہ ” ممکن ہے وہ یاد دہانی حاصل کرے یا ڈر جائے۔ ” تو یہ اس معنی میں  حضرت موسیٰ کو ہدایت تھی کہ یہ توقع رکھتے ہوئے اس سے نرمی سے بات کرو کہ وہ یاد دہانی حاصل کرے گا لیکن اگر یہ مقصد ابھی پوری طرح حاصل نہیں  ہوتا اور اس میں  کچھ خدا خوفی ہی پیدا ہو جاتی ہے تو گویا بنیادی طور پر زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے اس کے بعد دل و دماغ کے بدل جانے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔

۵۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھرموسیٰ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا گیا ادھر ہارون کی طرف وحی کر کے انہیں  بھی یہی حکم دیا گیا۔ اس موقع پر دونوں  نے فرعون کے بارے میں  اندیشہ کا اظہار کیا اس لیے یہاں  دونوں  کی بات کو سمیٹ کر پیش کیا گیا ہے۔

۵۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بظاہر حالات تو اس بات کا اندیشہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ توحید کی بات سنتے ہی ظلم و زیادتی پر اثر آئے گا یا اپنی سرکشی کا مظاہرہ کرے گا۔

۵۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت اس باب میں  صریح ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب فرعون کے پاس بھیجا گیا تو انہیں  دعوت کے ساتھ یہ مطالبہ بھی پیش کرنے کی ہدایت دی گئی کہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیا جائے۔ یہ مطالبہ چونکہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر تھا اس لیے آغاز ہی میں  اس کو پیش کرنے کی ہدایت ہوئی۔ اس مسئلہ پر ہم تفصیلی گفتگو سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۱ میں  کر آئے ہیں۔ اس کو اس موقع پر پیشِ نظر رکھا جائے۔

۵۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی طاغوتی حکومت مسلمانوں  پر ظلم ڈھاتی ہو تو اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ان پر ظلم و زیادتی نہ کرے دین کا تقاضا ہے اور اسے دعوتی مصالح کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں۔ داعی کو مظلوم کی حمایت بہر حال کرنا ہو گی خواہ اس کے بارے میں  کوئی اچھی رائے قائم کرے یا بری۔

۵۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہدایت الٰہی کی پیروی کی دعوت بھی تھی اور اس بات سے آگا ہی تھی کہ اسی کا انجام بخیر ہے جو ہدایت کو قبول کرے اور اس کی روشنی میں  چلے۔

۵۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات تو اس طرح بھی کہی جا سکتی تھی کہ اے فرعون اگر تو نے جھٹلایا تو تجھے عذاب بھگتنا ہو گا مگر حضرت موسیٰ کو ہدایت ہوئی کہ اس سے کہیں  ” ہم پر وحی کی گئی ہے کہ عذاب ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ ” یہ نہایت حکیمانہ اسلوب تھا جس میں  عمومیت کے ساتھ ہر جھٹلانے والے کا انجام بیان کر دیا گیا تھا تاکہ فرعون اسے اپنی ذات پر حملہ خیال نہ کرے بلکہ ایک اصولی بات کے پیش نظر غور و فکر کے لیے آمادہ ہو جائے۔ ساتھ ہی اس پر یہ بھی واضح ہو جائے کہ عذاب کی یہ تنبیہ وحی الٰہی کی ہدایت کے تحت ہے۔

۵۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب فرعون کے پاس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پہنچے اور اس کے سامنے دعوت پیش کی تو اس نے موسیٰ سے سوا ل کیا۔

۵۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اس بات کا مدعی تھا کہ وہ خود ہی رب اعلیٰ ہے مگر حضرت موسیٰ نے صاف طور سے اس سے کہا کہ وہ تو اپنا رب خالق کائنات کو مانتے ہیں۔ ان کے اس ثواب میں  یہ دلیل مضمر تھی کہ جو خالق ہے وہی درحقیقت رب ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس نے ہر چیز کو وجود بخشنے کے بعد اس پر اس کے مناسب حال راہ عمل بھی کھول دی ہے۔ جانور گھاس کھاتا ہے پتھر نہیں  کھاتا یہ کس کی رہنمائی ہے؟  شہد کی مکھی دور دور سے پھولوں  کا رس چوس کر لاتی اور چھتے میں  جمع کرتی ہے یہ کام وہ کس کی ہدایت پر انجام دیتی ہے ظاہر ہے یہ جبلی ہدایت ہے جو ان کے خالق نے ان کے اندر ودیعت کی ہے۔ اسی طرح نباتات اور جمادات بھی اپنے اپنے فرائض ایک خاص طریقہ پر انجام دیتے رہتے ہیں۔ درخت زمین سے غذا حاصل کر کے پھل دینے لگتا ہے اور دریا ڈھلوان کی طرف بہتا ہے۔ یہ سب کچھ کس کے اشارہ سے ہوتا ہے؟ جب واقعہ یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق سے اشارہ پا کر راہ عمل طے کر رہی ہے تو انسان کا ہادی و رہنما بھی در حقیقت وہی ہے اور اسی کی ہدایت انسانی زندگی کے لیے فی الواقع ہدایت ہے۔

۵۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون کا یہ سوال کہ پھر گزری ہوئی قوموں  کے بارے میں  تم کیا کہتے ہو؟ وہ کیا سب گمراہ تھیں ؟ محض الجھا دینے کے لیے تھا مگر حضرت موسیٰ نے ایک اصولی بات بیان کر کے فرعون کے ذہن کو اصل نقطۂ دعوت یعنی توحید پر مرکوز کرنے کا سامان کیا۔ انہوں  نے فرمایا کہ گذشتہ قوموں  کا جو حال بھی رہا ہو میرے رب کو اس کا علم ہے اور اس نے ہر ایک کے اعمال لکھ رکھے ہیں۔ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں  ہوتی کہ ایک کا عمل دوسرے کے کھاتہ میں  جمع ہو جائے اور نہ وہ بھولتا ہے کہ کسی کے واقعی اعمال اسے یاد نہ رہیں۔

۵۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کے بیان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اضافہ ہے تاکہ قارئین قرآن کے سامنے توحید کا پہلو اور زیادہ روشن ہو۔

۶۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے وہ مر کر مٹی ہی میں  مل جاتا ہے اور قیامت کے دن اسے اسی زمین سے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ انسان خواہ سمندر میں  مرے یا ہوا میں  یا خلا میں  اس کا حشر بہر حال اسی زمین پر ہو گا۔

۶۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ تمام نشانیاں  جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی رسالت کو ثابت کرنے اور حق کو واضح کرنے کے لیے ضروری تھیں۔

۶۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک جھوٹا الزام تھا جو فرعون نے حضرت موسیٰ پر لگایا ورنہ حضرت موسیٰ نے فرعون والوں  کو مبصر سے نکال باہر کرنے کا کوئی سیاسی پروگرام نہیں  بنایا تھا بلکہ وہ خود بنی اسرائیل کو لیکر ملک مصر سے چلے جانا چاہتے تھے اور اس مہم میں  رکاوٹ نہ ڈالنے کا انہوں  نے فرعون سے مطالبہ کیا تھا اس لیے فرعون کا حضرت موسیٰ پر یہ الزام کہ تم ہمیں  اپنے ملک سے نکالنا چاہتے ہو ایسا ہی تھا جیسا کہ ان پر جادو کا الزام۔

۶۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ فرعون کو دکھایا لیکن اس نے اسے جادو قرار دیا اور چیلنج کیا کہ ہم بھی ایسا جادو بنا کر لا سکتے ہیں  تم مقابلہ کے لیے تیار ہو جاؤ اور دن مقرر کر لو۔

۶۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مقابلہ کھلے میدان میں  ہوتا کہ سب دیکھ سکیں۔

۶۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” یوم الزینۃ ” جشن کے دن کا انتخاب حضرت موسیٰ نے اس لیے کیا تاکہ لوگ آسانی سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں  جمع ہو سکیں  اور معجزۂ الٰہی کا مشاہدہ کر سکیں۔ یہ دن قومی تہوار کا رہا ہو گا۔

دن چڑھنے کا وقت حضرت موسیٰ نے اس لیے مقرر کیا تاکہ لوگ خوب روشنی میں  ان کے معجزہ کو دیکھ لیں  اور ان کی لاٹھی کے سانپ بن جانے میں  ان کو کوئی شبہ نہ رہے۔

۶۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس مجلس کے برخواست ہو جانے کے بعد فرعون سازش کی تیاری میں  لگ گیا اور منصوبہ بنایا کہ ملک کے گوشہ گوشہ سے ماہر جادو گروں  کو بلایا جائے تاکہ وہ سب اکٹھے ہو کر اپنا کرتب دکھائیں  اور اس معجزہ سے لوگوں  پر یہ بات واضح ہو جائے کہ موسیٰ کی لاٹھی کا سانپ بن جانا خدا کا معجزہ نہیں  بلکہ یہ موسیٰ کی محض جادو گری ہے چنانچہ وہ اپنے ان ہتھکنڈوں  کے ساتھ ماہر جادوگروں  کو لئے ہوئے جشن کے دن کے مقابلہ کے لیے میدان میں  آ گیا۔

۶۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا یہ خطاب فرعونیوں  اور جادوگروں  سے تھا جس میں  انہوں  نے خبردار کیا کہ اللہ کے معجزہ کو جادو اور اس کے رسول کو جادوگر قرار دینا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور جو شخص بھی اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے۔ ایسے لوگوں  کے حصہ میں  نامرادی کے سوا کچھ نہیں  آ سکتا۔

۶۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی اس بروقت تنبیہ کو سن کر جادو گر شش و پنچ میں  پڑ گئے اور چپکے چپکے آپس میں  سرگوشیاں  کرنے لگے کہ مقابلہ کیا بھی جائے یا نہیں۔

۶۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے والے فرعون کے درباری رہے ہوں  گے۔

۷۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ان درباریوں  نے اشتعال اور تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ جادوگر جوش و خروش کے ساتھ مقابلہ کے لیے سامنے آئیں۔

۷۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے درمیان کوئی اختلاف نہیں  ہونا چاہیے بلکہ موسیٰ اور ہارون کے مقابلہ میں  تم سب جادوگروں  کا ایک متحدہ محاذ ہونا چاہیے۔

۷۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے اس بات کو ترجیح دی کہ پہلے جادوگر اپنا کرتب دکھائیں  پھر وہ اپنا معجزہ پیش کریں۔ باطل کی تاریکی کے بعد حق کی روشنی ظاہر ہو۔

۷۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جادو کسی چیز کی ماہیت کو نہیں  بدلتا بلکہ محض فریبِ نظر اور فریبِ خیال ہے جادو گروں  کی رسیاں  اور لاٹھیاں  واقعی سانپ نہیں  بن گئی تھیں  بلکہ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ وہ سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں  سورۂ اعراف میں  ہے :

فَلَمَّا اَلْقَوْا سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاس۔ (اعراف۔ ۱۱۶) ” پھر جب انہوں  نے  (اپنی رسیاں  اور لاٹھیاں) ڈال دیں  تو لوگوں  کی نگاہیں  جادو سے مار دیں۔ ”

اور جہاں  تک حضرت موسیٰ کا تعلق ہے قرآن کہتا ہے یُخَیَّلُ اِلیْہِ ان کو ایسا خیال ہوا کہ جادوگروں  کی رسیاں  اور لاٹھیاں  دوڑ رہی ہیں۔ اور وہ بھی اس صورت میں  کہ وہ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ جو کچھ جادو گر پیش کرنے والے ہیں  وہ محض جادو ہے نہ کہ حقیقۃً اشیاء کی قلب ماہیت۔ پھر یہ چیز بھی تھوڑی دیر کے لیے تھی اس کے بعد ان کا طلسم ٹوٹ گیا اور جادو کی یہ نظر بندی تھوڑی دیر ہی کے لیے ہوتی ہے اس کے بعد وہ غائب ہو جاتا ہے اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہیں  کہ حضرت موسیٰ پر نبی ہونے کے باوجود جادو کا اثر ہوا تھا۔ ” جادو کا اثر ہونا” اور بات ہے اور ” جادو کو دیکھ لینا” اور بات۔ حضرت موسیٰ نے جادو کو دیکھ لیا تھا ان پر جادو کا کوئی اثر نہیں  ہوا تھا۔ ان کے ذہنی قویٰ صحیح سلامت تھے۔ انہوں  نے لاٹھیوں  اور رسیوں  کو سانپ کی شکل میں  جو دیکھا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی سراب کو دیکھ کر پانی خیال کرے۔ ظاہر ہے یہ فریب نظر وقتی ہوتا ہے اور اس کو کوئی شخص بھی ذہنی قویٰ کے متاثر ہو جانے پر محمول نہیں  کرتا۔

۷۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوف اس بات کا کہ یہ جادو لوگوں  کو ایسا متاثر نہ کر دے کہ وہ جادو اور معجزہ میں  تمیز نہ کر سکیں۔

۷۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے طلسم کو نگل جائے گا چنانچہ موسیٰ کا سانپ جہاں  گیا جادو کے اثر کو زائل کرتا چلا گیا۔

۷۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ جادو گروں  کا کرتب اور فریب نظر ہے ورنہ ان کی لاٹھیاں  اور رسیاں  واقعی سانپ نہیں  بن گئی ہیں۔

۷۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جادو گر جو کرتب بھی دکھائے اور فریب دہی کا جو طریقہ بھی وہ اختیار کرے نہ معجزۂ خداوندی کے مقابلہ میں  اس کی جیت ہو سکتی ہے اور نہ حقیقی کامیابی اس کو حاصل ہو سکتی ہے۔ جادو اور معجزہ کے فرق کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۹۔

۷۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مقابلہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جادوگروں  کا سارا طلسم غائب ہو گیا اور حضرت موسیٰ کی لاٹھی سانپ بن کر معجزہ دکھاتی رہی۔ اس طرح واضح ہوا کہ حضرت موسیٰ جو کچھ پیش کر رہے ہیں  وہ جادو نہیں  ہے بلکہ خدائی معجزہ ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اس طرح حقیقت جب بے نقاب ہو کر جادوگروں  کے سامنے آ گئی تو وہ بے اختیار سجدے میں  گر پڑے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۷۱

۷۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۱۷۲ اور ۱۷۳ میں  گزر چکی۔

۸۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرعون کا دعوائے ربوبیت محض سیاسی حاکمیت کا نہ تھا بلکہ مطلق حاکمیت کا تھا چنانچہ وہ خالص دینی امور میں  بھی مداخلت کرتا تھا۔ اس کی حکومت میں  نہ دین حق کا پرچار کرنے کی آزادی تھی اور نہ کسی دینی قیادت کے لیے ابھرنے کا کوئی موقع اور نہ ہی اس کی قوم کا کوئی فرد اپنے ضمیر کی آواز پر اللہ کے دین کو قبول کر سکتا تھا۔

۸۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون نے جب شکست کھائی تو اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ ان جادو گروں  کے استاذ ہیں  اور سب نے مل کر یہ سازش کی تھی۔

۸۲  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس دردناک سزا کے ملنے پر تمہیں  پتہ چلے گا کہ خدا کا عذاب بڑا ہے یا میرا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرعون کیسا متکبر، ظالم اور سرکش بادشاہ تھا۔

۸۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی ایمان کی طاقت جس سے سرشار ہو کر جادوگر فرعون کے آگے سپر آرا ہوئے کہ تو تیر آزما ہم جگر آزماتے ہیں۔ ایمان جب دل میں  اثر کر جاتا ہے تو دل و دماغ بدل جاتے ہیں  اور بہت بڑا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جادوگر کیا تھے اور آناً فاناً کیا ہو گئے۔ !

۸۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جادوگر حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں  آنے کے لیے دل سے آمادہ نہیں  ہوئے تھے مگر فرعون کا دباؤ ایسا رہا کہ وہ مقابلہ کے لیے آ گئے۔

۸۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرعون تو آج ہے اور کل مرا لیکن اللہ کی ذات تو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے لہٰذا وہی اس لائق ہے کہ اس پر توکل کیا جائے اور وہی اس کا اہل ہے کہ اس سے امیدیں  وابستہ کی جائیں۔

۸۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا بیان ہے جو جادوگروں  کے بیان پر اضافہ ہے۔

۸۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ تو اسے موت آئے گی کہ مصیبت کا خاتمہ کر دے اور نہ جئے گا کہ زندگی کا لطف اٹھائے۔ دونوں  کے درمیان ایک جان لیوا مصیبت میں  پھنسا رہے گا۔

۸۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح کی قید اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جنت کا یہ وعدہ ان ہی لوگوں  سے ہے جو ایما ن لا کر اپنے کو عمل صالح سے آراستہ کریں  گے۔ افسوس کہ مسلمانوں  نے قرآن کے اس صریح بیان کو جس کو قرآن نے بار بار دہرایا ہے نظر انداز کر کے ان حدیثوں  کا سہارا لیا ہے جن میں  اجمالی طور پر ایمان لانے والوں  کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے مثلاً حدیث میں  ارشاد ہوا ہے۔ من قال لا الہ اللّٰہ دخل الجنۃ ” جس نے کہا اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں  وہ جنت میں  داخل ہوا۔ ” ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نہیں  کہ آدمی زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہے اور اس کے بعد جو چاہے کرے جنت میں  اس کے لیے جگہ ریزرو (Reserve) ہوہی گئی۔ اگر حدیث کو قرآن کی روشنی میں  سمجھنے کی کوشش کی جاتی تو یہ غلط مطلب کبھی نہ لیا جاتا مگر حدیث کو قرآن سے الگ کر کے اس کے لفظی معنی کا سہار ا لیا گیا تاکہ دنیا کے فائدے بھی خوب بٹوریں  اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔

۸۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکیزگی سے مراد شرک، کفر اور گناہوں  سے پاکیزگی ہے۔ متن میں  لفظ تَزَکّی استعمال ہوا ہے جس کے معنی پاکیزہ ہونے ہی کے نہیں  بلکہ اپنے کو سنوارنے کے بھی ہیں  اس لیے اس کے مفہوم میں  اپنی صحیح تربیت کرنا اور نیکیوں  سے اپنے کو سنوارنا بھی شامل ہے۔

۹۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی طویل دعوتی جدوجہد اور طرح طرح کے معجزے دکھانے کا ذکر قرآن میں  دوسرے مقامات میں  ہوا ہے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف آیت ۱۳۰ تا ۱۳۴۔

یہاں  آخری مرحلہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۱۳۷ اور ۱۳۸۔

۹۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنا عصا سمندر پر مارو تو وہ پھٹ جائے گا اور تمہارے گزرنے کے لیے بالکل خشک راہ نکل آئے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ تھا جو عصائے موسیٰ کے ذریعہ ظہور میں  آیا۔ اگر بالفرض اتفاقی طور پر سمندر کا پانی ایک طرف ہوا ہوتا یا دو حصوں  میں  بٹ گیا ہوتا تو جو راستہ نکل آتا وہ خشک نہیں  ہو سکتا تھا۔ خشک راستہ کا سمندر کے بیچ سے یکایک نکل آنا معجزانہ طور پر ہی ممکن ہے اس لیے سیدھی بات یہی ہے کہ اسے اللہ کا معجزہ تسلیم کیا جائے اور آیت کی الٹی سیدھی تاویل نہ کی جائے۔

سورۂ شعراء آیت ۶۳ میں  یہ واقعہ مزید صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

۹۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرعون تمہارا پیچھا تو کرے گا لیکن تم کو پکڑ نہ سکے گا۔ اس لیے تم بلا خوف چلے جاؤ۔ تمہارے سمندر میں  غرق ہونے کا بھی کوئی خطرہ نہیں  ہے کیونکہ سمندر سے تمہارے لیے معجزانہ طور پر راہ نکالی جائے گی۔

۹۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتا ہوا جب سمندر کے پاس پہنچا تو راستہ کھلا پا کر وہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس پر چل پڑا۔ جب بیچ سمندر کے پہنچ گیا تو دونوں  طرف سے پانی آ کر مل گیا۔ اب وہ پوری طرح سمندر کی زبردست موجوں  کی لپیٹ میں  تھا۔

اللہ کی یہ بہت بڑی نشانی تھی جو ظاہر ہوئی۔ بنی اسرائیل کو تو سمندر نے صحیح سلامت گزار دیا لیکن فرعونیوں  کو بری طرح اپنی لپیٹ میں  لے لیا۔

۹۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرعون کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ وہ لوگوں  کو صحیح راہ بتا رہا ہے۔ اگر وہ صحیح راہ بتاتا تو اس کا اپنی قوم سمیت یہ حشر نہ ہوتا۔ اس واقعہ میں  ان لوگوں  کے لیے عبرت ہے جو اللہ کی ہدایت کو جس کو وہ اپنے رسول کے ذریعہ بھیجتا ہے قبول نہیں  کرتے۔ بادشاہ اور لیڈر خود گمراہ ہوتے ہیں  اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ انجام یہ کہ خود بھی ڈوبتے ہیں  اور عوام کو لیکر ڈوبتے ہیں۔

۹۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی طور سینا کے مبارک دامن میں  تمہیں  شریعت کی نعمت عطا کرنے کا وعدہ کیا۔

اَیْمَن (دہنی) کی تشریح سورۂ مریم نوٹ ۷۲ میں  گزر چکی۔

۹۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ من و سلویٰ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۷۶۔

۹۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان لوگوں  سے کیا ہے جو شرک و کفر اور معصیت سے باز آئیں، ان باتوں  پر ایمان لائیں  جس کی دعوت اللہ کا رسول دیتا ہے، نیک عمل کریں  اور راہِ ہدایت یعنی اللہ کے دین و شریعت پر مرتے دم تک قائم رہیں۔

۹۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی طور پر حاضری کے لیے جو وقت مقرر کیا گیا تھا اس سے پہلے ہی وہ حاضر ہو گئے اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ ان سے پوچھی۔ اللہ تعالیٰ کو حقیقتِ حال کا اچھی طرح علم تھا لیکن سوال اس لیے کیا تاکہ موسیٰ پر یہ واضح ہو کہ ایک طرف ان کا ذوق و شوق ہے جو شریعت کے حصول کے لیے ان کو وقت سے پہلے ہی طور پر لے آیا ہے اور دوسری طرف ان کی قوم ہے۔ جو احکام خداوندی سے بے پروا ہو کر شرک کی راہ پر چل پڑی ہے۔ تفصیل آگے آ رہی ہے۔

یہ سوال غالباً میعاد کے اختتام پر کیا گیا تھا جبکہ حضرت موسیٰ کو الواح عطاء ہوئیں  جیسا کہ بعد کی آیات سے واضح ہے جن میں  بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے بچھڑے کی پرستش میں  مبتلا ہونے کی خبر پا کر غصہ کی حالت میں  قوم کی طرف لوٹے تھے۔

۹۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل میری پیروی کر رہے ہیں  اور میں  تیرے حضور وقت سے پہلے حاضر ہوا تاکہ تیری خوشنودی حاصل ہو۔

حضرت موسیٰ کو اطمینان تھا کہ ان کی قوم ان کے نقشِ قدم پر چلے گی اس لیے انہوں  نے اللہ کے حضور حاضری کے لیے وقت سے پہلے طور پر جانے میں  کوئی حرج محسوس نہیں  کیا لیکن بعد کے حالات نے بتا دیا کہ ان کی قوم پر ان کی غیر حاضری گراں  گزری۔ طور پر ان کی حاضری کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں  ایک ماہ کی میعاد مقرر کی تھی بعد میں  دس دن کا اضافہ کر کے اسے چالیس دن کر دیا گیا۔ ادھر حضرت موسیٰ مقررہ وقت سے کچھ دن پہلے ہی طور پر پہنچ گئے تھے اس لیے جب ایک ماہ گزر گیا اور حضرت موسیٰ لوٹے نہیں  تو مفسدوں  کو قوم میں  غلط فہمیاں  پیدا کرنے اور فتنہ کھڑا کرنے کا موقع مل گیا۔

۱۰۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سامری ایک فتنہ پرداز منافق تھا جو بنی اسرائیل میں  گھس آیا تھا اور جس نے حضرت موسیٰ کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر بنی اسرائیل کو بہکایا اور بچھڑے کی پوجا پر آمادہ کیا۔ رہی اس نام کی تحقیق تو اس سلسلہ میں  وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں  ہے۔ ہو سکتا ہے سامری کوئی خاص قبیلہ یا کوئی گاؤ پرست قوم رہی ہو اور یہ شخص اس کا ایک فرد ہو اور اس بنا پر قرآن نے اسے "السامری” (The Samiri) کہا ہو قرآن نے اس کے نام کی صراحت اس لیے کی تاکہ واضح ہو جائے کہ اصل مجرم جس نے بچھڑے کو معبود بنا کر پیش کیا تھا وہ سامری تھا اور بائبل میں  حضرت ہارون کو جو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے وہ سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ قرآن نے جس سامری کا ذکر کیا ہے اس کا سلطنت سامریہ سے کوئی تعلق نہیں  ہے کیونکہ سلطنت سامریہ یہود کی سلطنت تھی جو بہت بعد میں  حضرت سلیمان کے بعد وجود میں  آئی۔

۱۰۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غصہ اس بات پر کہ قوم شرک میں  مبتلا ہو گئی اور افسوس اس بات کا کہ دین توحید کی جو قیمتی متاع اس نے حاصل کی تھی اور جس کی حفاظت و اقامت کے لیے وہ قربانیاں  دیتے ہوئے مصر سے طور کے دامن میں  پہنچے اس کو انہوں  نے کھو دیا۔

۱۰۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھے وعدے سے مراد شریعت عطا کرنے کا وعدہ ہے جس کے لیے حضرت موسیٰ طور پر گئے تھے۔

۱۰۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میری غیر حاضری کسی طویل مدت کے لیے نہیں  ہوئی تھی۔ اگر ایک ماہ کی مقررہ مدت پر کچھ مزید اضافہ ہو گیا تھا تو بہر حال یہ مدت ایسی نہیں  تھی کہ تم اسے طویل غیر حاضری محسوس کرتے اور کسی فتنہ کا شکار ہو جاتے۔

۱۰۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میری اتباع کا جو عہد تم نے کیا تھا اس سے پھر گئے۔

۱۰۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بنی اسرائیل کے ان سرداروں  کا بیان ہے جن کو انہوں  نے اپنے زیورات امانتہً سپرد کئے تھے۔ یہ زیورات بنی اسرائیل ہی کے تھے جن کو وہ اپنے ساتھ مصر سے لائے تھے مگر صحرا کی زندگی میں  ان کی عورتوں  کے لیے استعمال کا نہ کوئی موقع تھا اور نہ ان کی حفاظت آسان تھی اس لیے انہوں  نے اپنے زیورات چند معتمد اشخاص کے حوالہ کئے تھے تاکہ وہ اس کو حفاظت سے رکھیں  مگر یہ ذمہ داری ایسی تھی کہ وہ اس کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے کیونکہ ان کے لیے بھی صحرا میں  اس کی حفاظت کرنا آسان نہ تھا۔ ادھر سامری نے قوم کو گوسالہ پرستی میں  مبتلا کرنے کے لیے ایک چال چلی۔ اس نے کچھ اس انداز میں  لوگوں  کو ورغلایا کہ موسیٰ نے تم کو لا کر صحرا میں  چھوڑ دیا اور خود غائب ہو گئے۔ اب اگر تم کو اپنے سچے رب کی تلاش ہے تو اپنے زیورات چندے میں  دے دو میں  تمہیں  عجیب و غریب کرامت دکھاتا ہوں۔ لوگ اس کے ورغلانے میں  آ گئے اور اپنے ان سرداروں  سے جن کو انہوں  نے اپنے زیورات کا امین بنایا تھا یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کے زیورات سامری کو چندہ میں  دیدیں۔ سردار چونکہ ان زیورات کی حفاظت کی ذمہ داری کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے اس لیے انہوں  نے اس بوجھ کو اتار پھینک دیا سامری نے ان تمام زیورات کو جمع کر کے آگ میں  ڈالا اور بچھڑا ڈھال کر نکال لیا۔

واضح رہے کہ بائبل کا یہ بیان صحیح نہیں  کہ نبی اسرائیل جب مصر سے چلے ہیں  تو انہوں  نے مصریوں  سے زیور عاریتہ (عارضی استعمال کے لیے مانگ) لیے تھی اور ان کو لیکر مصر سے روانہ ہو گئے اس طرح انہوں  نے مصریوں  کو لوٹ لیا تھا۔  (ملاحظہ ہو خروج ۱۲:۳۵، ۳۶)

بائبل کے اس بیان پر اعتماد کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہی زیور تھے جن کو بنی اسرائیل نے پھینک دیا تھا اور سامری نے ان کو لیکر بچھڑا بنا لیا تھا مگر قرآن سے اس کی تائید نہیں  ہوتی کیونکہ سورۂ اعراف میں  زیورات کی نسبت موسیٰ کی قوم کی طرف کی گئی ہے :

وَاتَخَذَ قَوْمُ مُوسیٰ مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیٓہِمْ عِجْلاً۔  (اعراف۔ ۱۴۸) ” اور موسیٰ کے  (طور پر) چلے جانے کے بعد اس کی قوم نے اپنے زیوروں  سے ایک بچھڑا ڈھال لیا۔ ” اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ موسیٰ کی قوم کے اپنے زیور تھے اور مصریوں  کو لوٹنے کی بات تو اخلاقی پہلو سے بھی صحیح نہیں  معلوم ہوتی پھر حضرت موسیٰ نے کس طرح اس کی اجازت دی ہو گی اور مصری اتنے بھولے نہیں  تھے کہ اپنے زیور نکال نکال کر بنی اسرائیل کو جن کو انہوں  نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا پیش کر دیتے۔

۱۰۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سامری نے زیورات کو جو سونے کے رہے ہوں  گے پگھلا کر بچھڑے کی شکل میں  ڈھال لیا اور اپنی فنی مہارت کا ایسا ثبوت دیا کہ ہوا کے داخل ہونے سے گائے کی سی آواز نکلنے لگی۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ ایک جسد یعنی دھڑ ہی دھڑ تھا۔ زندگی اس میں  نہیں  تھی بلکہ محض بھاں  بھاں  کی آواز اس میں  سے نکلتی تھی۔

۱۰۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ اس سنہرے بچھڑے پر ایسے ریجھ گئے کہ اس کو معبود بنا بیٹھے اور یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ موسیٰ کا خدا یہی ہے مگر وہ بھول کر کسی اور خدا کی تلاش میں  طور پر گئے ہیں۔

۱۰۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عقل کے ان اندھوں  کو یہ بات بھی دکھائی نہیں  دی کہ یہ بچھڑا ایک ہی طرح کی آواز نکالتا ہے اس سے آگے وہ ان کی کسی بات کا بھی جواب نہیں  دیتا اور نہ اس میں  یہ قدرت ہے کہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچائے۔ پھر اس میں  خدائی کی صفت کہاں  سے آ گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ گوسالہ پرستوں  کا خدا محض بھاں  بھاں  کرتا ہے مگر توحید پر ایمان رکھنے والوں  کا خدا سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے، دعائیں  قبول کرتا اور حاجتیں  پوری کرتا ہے اور ا ن کی صحیح رہنمائی بھی کرتا ہے۔

۱۰۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہارون نبی تھے وہ اس فتنہ کو دیکھ کر کس طرح خاموش رہ سکتے تھے۔ انہوں  نے قوم کو متنبہ کیا کہ دیکھو اس بچھڑے کا وجود سراسر فتنہ ہے اور تم اس آزمائش میں  ڈال دئے گئے ہو کہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہتے ہو یا کفر و شرک کی روش اختیار کرتے ہو۔ تمہارے لیے بچھڑے کی پوجا کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ تمہارا رب کائنات کی وہ عظیم ہستی ہے جس کو تم رحمن (مہربان خدا) کے نام سے جانتے ہو میں  اس کا رسول ہوں  لہٰذا میری پیروی کرو اور جو حکم میں  دے رہا ہوں  اس کو مانو۔

۱۱۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی بنی اسرائیل کی جسارت کہ ایک نبی کی بروقت تنبیہ کو بھی خاطر میں  نہیں  لایا اور انہیں  ایسا جواب دیا جس کے ایک ایک لفظ سے سرکشی کا اظہار ہوتا ہے۔

۱۱۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون سے بھی سخت باز پرس کی کہ جب لوگ گمراہ ہو رہے تھے تو کیا وجہ تھی کہ تم نے فتنہ کو مٹانے کے لیے میری ہدایت پر عمل نہیں  کیا یعنی ایسے لوگوں  کے خلاف اقدام نہیں  کیا۔ حضرت موسیٰ جب طور پر جا رہے تھے تو انہوں  نے حضرت ہارون کو یہ ہدایت کی تھی کہ وَاَصْلِحْ  (اعراف:۱۴۲) "اصلاح کے کام کرنا” جس میں  برائی کو دور کرنا بھی شامل تھا۔

۱۱۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہارون نے بڑے تحمل سے کام لیا اور حضرت موسیٰ پر حقیقت حال واضح کر دی۔ انہوں  نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کا ایک اچھی خاصی تعداد پر سامری کا جادو چل گیا ہے اور بچھڑے کی محبت کا نشہ ان پر کچھ ایسا چڑھ گیا ہے کہ اس کی پرستش سے ان کو روکنا قوت کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں  اور قوت کے استعمال کے لیے بنی اسرائیل کے جو لوگ آگے بڑھیں  گے ان پر بچھڑے کے یہ پرستار تلوار اٹھائیں  گے اس طرح بنی اسرائیل کی جمعیت پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور وہ ایک نبی (حضرت ہارون) کو قتل کرنے میں  بھی دریغ نہیں  کریں  گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو بنی اسرائیل ایک زبردست حادثہ سے دو چار ہو جائیں  گے اور جب حضرت موسیٰ کی واپسی چند دنوں  ہی میں  متوقع ہے تو مناسب یہی ہے کہ ان کے آنے کا انتظار کیا جائے۔ یہ حضرت ہارون کی دور اندیشی تھی جس کی بنا پر انہوں  نے معاملہ کو چند روز کے لیے ملتوی کر دیا۔ اس میں  مداہنت یا پست حوصلگی کی کوئی بات نہ تھی اور نہ ایک نبی کے بارے میں  اس قسم کی بدگمانی کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود حضرت موسیٰ کا سختی کے ساتھ باز پرست کرنا بر محل ہی تھا کیونکہ ان کا جو ش غضب غیرتِ ایمانی کی بنا پر تھا ایسے موقع پر ظاہری آداب کو ملحوظ رکھنے میں  جو کوتاہی ہوتی ہے وہ قابل درگزر ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی نہ اس بات پر گرفت فرمائی کہ انہوں  نے ہارون کی ڈاڑھی کیوں  پکڑی اور نہ اس بات پر فرمائی کہ تختیاں  جن پر تورات لکھی ہوئی تھی کیوں  نیچے ڈال دیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے جوشِ غضب نے پوری قوم کو مرعوب کر دیا۔ شر پسندوں  نے جب دیکھا کہ وہ ایک نبی کے ساتھ بھی سخت گیری کر رہے ہیں  تو ان کی ہمت نہیں  ہوئی کہ سامری کی حمایت میں  اٹھ کھڑے ہوں۔ اس طرح حضرت موسیٰ کے جلال نے قوم کو اپنے قابو میں  کر لیا اور بچھڑے کے پرستاروں  پر یہ برق بن کر گرا چنانچہ اس روز جیسا کہ بائبل کا بیان ہے تین ہزار آدمی قتل کر دیئے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں  نے بچھڑے کی پوجا کی تھی اور یہ ان کے مرتد ہونے  (دین توحید سے پھر جانے) کی سزا تھی۔ اس موقع پر سورۂ بقرہ نوٹ ۷۳ اور سورۂ اعراف نوٹ ۲۲۰ تا ۲۲۶ بھی پیش نظر رہیں۔

۱۱۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوم کو اپنے قابو میں  کرنے کے بعد حضرت موسیٰ نے فتنہ کے اصل سرغنہ سامری کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ تو نے یہ کیا کیا؟

۱۱۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سامری نے جو حرکت کی تھی اس کو جائز (Justify) قرار دینے کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں  تھی اور چونکہ وہ منافق تھا اس لیے کھل کر اپنے گناہ کا اعتراف بھی نہ کر سکا البتہ دبے لفظوں  میں  اس نے اپنی شکست خوردہ ذہنیت کا اظہار کیا۔ اس نے تین باتیں  کہیں  ایک یہ کہ مجھے وہ بات سجھائی جو دوسروں  کو سجھائی نہیں  دی یعنی زیورات کو جمع کر کے سنہرا بچھڑا ڈھالنے کی تجویز میرے ذہن میں  آئی کسی اور کے ذہن میں  نہیں  آئی۔ ایسا کیوں  ہوا اس کی کوئی توجہ میں  نہیں  کر سکتا۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ یہ تجویز چونکہ میرے ذہن میں  گھوم رہی تھی اس لیے میں  نے رسول کی پیروی میں  بہت تھوڑا حصہ لیا اور جس قدر حصہ لیا اسے بھی بعد میں  ترک کر دیا اور تیسری بات اس نے یہ کہی کہ اس طرح میرے نفس نے میری نظر میں  اس کام کو خوشنما بنا دیا غرضیکہ سامری نے سیدھے طریقے سے نہ اپنے جرم کا اعتراف کیا اور نہ توبہ کی بلکہ یہ دیکھ کر وہ حضرت موسیٰ کی گرفت میں  بری طرح آ چکا ہے گول مول الفاظ میں  اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ میری ذہنی اپج تھی اور کیا کروں  میرے نفس نے مجھے ایسا ہی سمجھایا۔

واضح رہے کہ مفسرین کے ایک گروہ نے اس آیت کے کچھ اور ہی معنٰی بیان کئے ہیں  ان کے نزدیک فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِنْ اَثرالرَّسُولِ فَنَبَذْتُھَا کے معنی ہیں  : ” میں  نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور بچھڑے کے اندر ڈال دی۔ ” اور اس کا مفہوم وہ یہ بیان کرتے ہیں  کہ سامری نے جبرئیل کے گھوڑے کو دیکھا تھا اور اس کے پاؤں  کے نیچے سے مٹھی بھر خاک اٹھائی تھی۔ اس خاک میں  زندگی پیدا کرنے کی خصوصیت تھی اس لیے جب اس نے بچھڑے کو ڈھالتے ہوئے یہ خاک اندر ڈالی تو اس بچھڑے میں  زندگی پیدا ہو گئی۔ مگر آیت کی یہ تفسیر نہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ حدیث ہی سے یہ ثابت ہے پھر مفسرین کو کس طرح معلوم ہوا کہ سامری نے جبریل کو دیکھ لیا تھا اور یہ کہ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اس کے ٹاپ کی مٹی حیات بخش تھی اور یہ اس مٹی ہی کی کرامت تھی کہ اس نے بچھڑے میں  جان ڈال دی؟ یہ سراسر ایک من گھڑت قصہ ہے جس کو غلطی سے مفسرین نے قبول کر لیا۔ آیت کی یہ تاویل متعدد وجوہ سے غلط ہے :  (۱) بَصُرتُ کا تعلق یہاں  آنکھ سے نہیں  بلکہ ذہن سے ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ "مجھے سجھائی دیا سے کیا ہے۔ عربی کی مشہور اور مستند لغت صحاح جوہری میں  ہے : وَبَصُرْت بِالشَیءِعَلْمِتُہٗ "بَصُرْت بِالشَیءِ کے معنی ہیں  میں  نے اس کو جان لیا۔ ” (ج ۲ص ۵۹۱)

اگر جبرئیل کو دیکھنا مراد ہوتا تو اس کے لیے رَأَیتُ، نَظَرْتُ، اَبْصَرْتُ جیسا کوئی لفظ استعمال ہوا نہ کہ بَصُرْتُ جو کم ہی اس معنی میں  استعمال ہوتا ہے۔ یہ تو تھی لغت کے لحاظ سے صحیح معنی کی تعیین۔ اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجئے کہ حضرت جبرئیل کو دیکھنے کی سعادت سامری جیسے منافق اور مفسد کو کیوں  حاصل ہونے لگی؟ جبرئیل کے گھوڑے پر سوار ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اور سامری کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ ان کے گھوڑے کے پاؤں  کے نشان کی مٹی ایسی بابرکت ہے کہ کسی چیز میں  ڈالتے ہی اس میں  جان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ اسے حیات بخش سمجھتا تھا تو پھر وہ کسی مردہ انسان کو اس کے ذریعہ زندہ بھی کر سکتا تھا یا خود مٹی کھا کر ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکتا تھا پھر اس نے ایسا کیوں  نہیں  کیا! قرآن میں  تو جبریل کے خاکِ پاکی یہ تاثیر کہیں  بھی بیان نہیں  ہوئی ہے اور نہ بچھڑے کے بارے میں  یہ کہا گیا ہے کہ اس میں  جان پڑ گئی تھی بلکہ قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ محض ایک دھڑ (جسد) تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ بالکل بیہودہ ہے امام رازی نے تفسیر کبیر میں  اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن میں  قوی دلائل سے اس کی تردید کی ہے۔ لیکن جو لوگ بدعتوں  کی تائید میں  اوٹ پٹانگ باتیں  کرتے رہتے ہیں  انہیں  یہ مصرع لگانے کا موقع مل گیا کہ :

” جب حضرت جبرئیل کی گھوڑی کی خاک بے جان سونے میں  جان پیدا کر سکتی ہے تو بزرگوں  کے قدموں  کی خاک مردہ دلوں  کو ضرور زندہ کر دیتی ہے۔ ”  (تفسیر نورالعرفان ص ۵۰۸) ۔

۲) آیت میں  الرسول کا لفظ استعمال ہوا ہے اور موقع کلام کے لحاظ سے اس سے مراد حضرت موسیٰ ہی ہو سکتے ہیں  کیونکہ مسئلہ ان ہی کی پیروی کا تھا۔ جبرئیل کا ذکر اس سلسلہ کی آیات میں  کہیں  بھی نہیں  ہوا ہے پھر ان کو کس طرح مراد لیا جا سکتا ہے؟ رہا یہ سوال کہ پھر سامری نے حضرت موسیٰ کو جواب دیتے ہوئے ” آپ کی پیروی کے بجائے رسول کی پیروی” کے الفاظ کیوں  استعمال کئے تو اس کی وجہ دراصل اس کا گول مول انداز بیان تھا۔

۳) رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی لینے کے معنیٰ مٹھی بھر مٹی لینے کے نہیں  ہیں  بلکہ موقع کلام دلیل ہے کہ اس کے معنی رسول کی قدرے اتباع کرنے یا اس کی پیروی میں  تھوڑا سا حصہ لینے کے ہیں  اسی طرح نَبَذْتُھَا کے معنی یہ نہیں  ہیں  کہ میں  نے اس مشت خاک کو بچھڑے کے اندر ڈال دیا کیونکہ نَبَذَ کے معنی عربی میں  پھینک دینے یا بے وقعتی کے ساتھ کسی چیز کو ڈال دینے کے آتے ہیں  : اَلنَّبَذ الْقَاءُ الشَّیْ وَطَرْحُہُ ا لِقِلَّۃِ الْاَعْتَدَادِبِہٖ وَلِذٰلِکَ یُقَالُ نَبَذْتُہُ نَبْذَ النَّعَلِ الخَلْقِ  (المفردات۔ راغب ص ۴۹۸) "نَبَذَ کے معنیٰ کسی چیز کو اس کے بے وقعت ہونے کی بنا پر ڈال دینے اور پھینک دینے کے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے میں  نے اس کو اس طرح پھینکا جس طرح پرانی جوتیوں  کو پھینکا جاتا ہے۔ ”

اگر سامری نقش پائے رسول کی خاک کو بابرکت اور حیات بخش سمجھتا تھا تو بچھڑے کے اندر ڈالنے کے لیے وہ ایک ایسا لفظ کیسے استعمال کرتا جس سے اس مٹی کا بے وقعت ہونا ظاہر ہوتا ہے وہ اس کے لیے اِلقاء  (ڈالنے) کا لفظ استعمال کرتا یعنی کہتا فَاَلْقَیْتُہَا (میں  نے اس مشتِ خاک کو ڈال دیا) لہٰذا لغوی طور پر نَبَذَ کا لفظ رسول کی پیروی ترک کرنے اور اس کی اتباع کو بے وقعت خیال کر کے چھوڑ دینے کے معنی میں  موزوں  ہو رہا ہے قرآن کریم میں  بھی یہ لفظ اسی معنی میں  استعمال ہوا ہے : نَبَذَ فَرِیْقٌ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُو الکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَاءَ ظُہورِہِمْ کَاَنَّہُم لَایَعْلَمُوْنَ  (بقرہ۔ ۱۰۱) ” اہلِ کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ گویا وہ جانتے ہی نہیں۔ ”

ظاہر ہے یہاں  نَبَذَ  (ڈال دیا) کے معنی کتاب اللہ کو بے التفاتی کے ساتھ پیٹھ پیچھے ڈال دینے کے ہیں۔

۱۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفاظ سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا عذاب تھا جو اس کے لیے مقدر ہوا اور جس کا اعلان حضرت موسیٰ نے کیا۔ اسے معاشرہ سے کاٹ دیا گیا اور ایسی حالت میں  اسے تنہا چھوڑ دیا گیا کہ کوئی شخص اس کے پاس پھٹکنے نہ پائے۔ وہ شرک کی نجاست سے آلودہ ہو گیا تھا اس لیے سزا کے طور پر اس کو ہمہ تن نجس قرار دیا گیا کہ کوئی شخص اس کو چھونے نہ پائے اور ذلت کی انتہا یہ کہ وہ خود اپنی زبانی اپنے اچھوت ہونے کا اعلان کرتا رہے۔ اغلب یہ ہے کہ وہ کسی موذی اور خطرناک مرض میں  مبتلا کر دیا گیا ہو گا۔

جن لوگوں  نے بچھڑے کو پوجا تھا ان کو قتل کر دیا گیا (سورۂ بقرہ آیت ۵۴ اور نوٹ ۷۳) لیکن سامری کو عذاب بھگتنے کے لیے زندہ چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ نشان عبرت بنا رہے۔

۱۱۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ سزا ہے جو قیامت کے دن ملے گی۔

۱۱۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچھڑا زیورات سے بنایا گیا تھا جو سونے چاندی کے رہے ہوں  گے۔ حضرت موسیٰ نے اسے جلا کر ریزہ ریزہ کر دیا یعنی اس کا سفوف بنا ڈالا اور اس سفوف کو دریا میں  بہا دیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ نے بت شکنی کی ابراہیمی سنت کو زندہ کر دیا اور دیکھنے والوں  نے دیکھ لیا کہ اگر بچھڑا خدا ہوتا تو وہ راکھ کا ڈھیر نہ بن جاتا اور اس کا پجاری مردود ہو کر نہ رہ جاتا۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بچھڑا ایک بے جان دھڑ تھا۔ اگر اس میں  جان ہوتی اور وہ گوشت پوست کا بچھڑا ہوتا تو اسے ذبح کر دیا جاتا اور پھر نذر آتش کیا جاتا۔

ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ منکر کو مٹانے اور اس سے شدید نفرت پیدا کرنے کے لیے سونے چاندی کی قیمتی چیزوں  کو بھی ضائع کیا جا سکتا ہے کیونکہ غیرتِ ایمانی کے مقابلہ میں  ضیاعِ مال ایک بے معنی بات ہے۔

۱۱۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توحید کی ایک اور دلیل ہے۔ خدا وہی ہو سکتا ہے جس کا علم کلی اور ہمہ گیر ہو۔ یہ صفت صرف اللہ ہی کی ہے اس لیے خدا صرف وہی ہے۔ مگر جو لوگ شرک اور بت پرستی میں  مبتلا ہوتے ہیں  ان کے نزدیک ایک بیل بھی خدا ہو سکتا ہے اور ایک بدھو بھی !

۱۱۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذکر سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ذکر سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ خدا کو یاد دلانے والی کتاب ہے۔ بندہ اسے جہاں  سے بھی پڑھے خدا کی یاد میں  ڈوب جاتا ہے۔ وہ ان باتوں  کی بھی یاد دہانی کرتا ہے جن سے انسانی فطرت پہلے ہی سے آشنا ہے نیز اس لیے بھی کہ وہ سرتاسر نصیحت ہے۔

۱۲۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کو ” ایک مذہبی کتاب” سمجھ کر نظر انداز کرنا وہ زبردست غلطی ہے جس میں  دنیا کی قومیں  مبتلا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن فرمان الٰہی ہے کسی قوم، ملک اور زمانہ کی تخصیص کے بغیر پوری انسانیت کے لیے اور ہر دور کے لیے نازل ہوا ہے جس کا مخاطب ہر فرد ہے لہٰذا جس شخص تک بھی قرآن یا اس کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس سے منہ موڑے وہ اپنے کو معصیت کی راہ پر ڈال دیتا ہے کیونکہ فرمان الٰہی کو رد کرنے کا مطلب باغیانہ طرز عمل اختیار کرنا ہے اور باغیانہ طرز عمل اختیار کر کے آدمی بہت بڑے گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیتا ہے مگر اس کا احساس اسے قیامت کے دن ہو گا کہ وہ کتنا بڑا بوجھ اپنے سر لادے ہوئے ہے۔

۱۲۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہمیشہ گناہوں  کے بوجھ تلے دبے رہیں  گے اور اس کی سزا بھگتیں  گے کیونکہ کفر اور شرک کا گناہ ایسا ہے جو چپک کر رہ جاتا ہے اور کبھی جدا نہیں  ہوتا۔

۱۲۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قیامت کا سائرن (Siren) ہو گا جس کی آواز زمین کے گوشہ گوشہ تک پہنچ جائے گی۔ جب پہلا سائرن ہو گا تو زمین کی ساری مخلوق مر جائے گی اور نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا اور جب دوسرا سائرن ہو گا تو تمام انسان جو آدم سے لیکر قیامت تک پیدا ہوتے رہے ہیں  جسم سمیت دوبارہ زندہ ہو کر زمین سے نکل پڑیں  گے۔

۱۲۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دہشت کی وجہ سے مجرموں  کی آنکھوں  کا رنگ نیلا پڑا ہو گا بالفاظ دیگر ان کی آنکھیں  بے رونق ہو گئی ہوں  گی۔

۱۲۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرنے کے بعد انسان کی روح قیامت تک عالم برزخ میں  رہتی ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان کا عالم ہے۔ اس عالم میں  انسان نے خواہ کتنی ہی لمبی مدت گزاری ہو قیامت کے دن اسے ایسا محسوس ہو گا کہ یہ واقعہ بس چند دن کا تھا اور منکرین میں  سے جو شخص سب سے بہتر اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ نہیں  وقفہ صرف ایک دن کا رہا ہے۔

وقت کی طوالت کو محسوس نہ کرنے کا تجربہ ہمیں  دنیا کی زندگی میں  بھی ہوتا رہتا ہے۔ کئی گھنٹے سوتے رہنے کے بعد جب ہم بیدار ہوتے ہیں  تو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ہم سوئے تھے اور ابھی اٹھ گئے۔ جب وقت کے بارے میں  ہمارے احساسات کا حال یہ ہے تو قیامت کو دور خیال کر کے دنیا کے عیش میں  مست رہنا نادانی اور فریب نفس نہیں  تو اور کیا ہے؟

۱۲۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۶۶ اور سورۂ قارعہ نوٹ ۵۔

۱۲۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین کی ہیئت بالکل بدل جائے گی۔ نہ کہیں  ٹیڑھ میڑھ ہو گا اور نہ کہیں  نشیب و فراز۔ انسان کی بنائی ہوئی عمارتیں  تو پہلے ہی مسمار ہو چکی ہوں  گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں  اڑا دئے گئے ہوں  گے۔ درخت، جھاڑ جھنکار اور جنگلوں  کا صفایا کر دیا گیا ہو گا۔ جغرافیائی تبدیلی ایسی عمل میں  آئے گی کہ کسی بھی ملک کا نشان باقی نہیں  رہے گا۔ اس طرح زمین ایک ہموار اور چٹیل میدان کی شکل اختیار کرے گی تاکہ لا تعداد انسان اپنے رب کے حضور حاضری کیلئے جمع ہو سکیں۔

۱۲۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے والے سے مراد فرشتہ ہے۔ میدانِ حشر میں  جس کے کھڑے ہونے کی جو جگہ مقرر ہو گی اس کی طرف فرشتہ اسے لے جائے گا اور وہ اس فرشتہ کو پیچھے پیچھے چلا جائے گا۔ کسی کی مجال نہیں  ہو گی کہ اس سے انحراف کر کے کہیں  اور نکل جائے۔

۱۲۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کا یہ اجتماع کیا ہو گا انسانوں  کا ٹھاٹھیں  مارتا ہوا سمندر مگر نہ ہنگامہ آرائی ہو گی اور نہ شور و غل۔ مجال نہیں  کہ کوئی آواز بلند کر سکے۔ سب کی آوازیں  خدائے رحمن کے حضور دب گئی ہوں  گی۔ اس وقت صرف قدموں  کی آہٹ سنائی دے گی۔

۱۲۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۲ اور سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱۔

۱۳۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ کون اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے حق میں  عذاب اخروی سے نجات کی سفارش کی جائے اور کون اس کا مستحق نہیں  ہے اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے کیونکہ وہ ماضی، حال، مستقبل، حاضر، غائب سب کا جاننے والا ہے اور وہ ہر ہر شخص کی نیت اور اس کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے لہٰذا سفارش کی عام اجازت کسی کو بھی نہیں  دی جائے گی کہ وہ جس کے لیے چاہے سفارش کرے بلکہ یہ اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہو گی کہ ان ہی کے حق میں  سفارش کی جائے جن کے بارے میں  سفارش سننا اللہ پسند فرمائے گا۔

۱۳۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں  ظلم سے مراد جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح وہ رویہ ہے جو ایمان اور عمل صالح کے خلاف ہو۔ شرک، کفر اور معصیت کیش ہونا  (گناہ کی زندگی گزارنا) اس میں  شامل ہے۔

۱۳۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ یوسف نوٹ ۳ میں  گزر چکی۔

۱۳۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنبیہ اللہ کی جلالی صفات کو پیش کر کے، تنبیہ گزری ہوئی سرکش قوموں  کے واقعات کو یاد دلا کر، تنبیہ عذاب کے اس کوڑے کے ذریعہ جو مفسد افراد اور قوموں  پر دنیا میں  برستا رہتا ہے، تنبیہ موت کی سختیوں  کا ذکر کر کے، تنبیہ قیامت کی ہولناکیاں  بیان کر کے اور تنبیہ جہنم کی وعید سنا کر۔

۱۳۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تقویٰ  (خدا خوفی اور پرہیزگاری) کی زندگی گزاریں  لیکن اگر لوگ اس کو قبول نہیں  کرتے تو قرآن ان کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے تاکہ اللہ کی حجت ان پر قائم ہو جائے۔

۱۳۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے بادشاہِ حقیقی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا فرمانروا اللہ اور صرف اللہ ہے۔ رہے دنیوی بادشاہ تو ان کے اختیارات اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں  اس لیے وہ محض مجازی معنی میں  بادشاہ ہیں  اور وہ حق کی بنا پر  (Dejure) اس بات کے مجاز نہیں  ہیں  کہ اللہ کے حکم کی جگہ اپنا حکم چلائیں۔

۱۳۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہے کہ جب قرآن نازل ہو رہا ہو تو اس کو پڑھنے میں  جلدی نہ کرو جب تک کہ وحی پوری نہ ہو جائے تو اسے پڑھو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس شوق و انہماک سے وحی کو اخذ (حاصل) کرتے تھے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قرآن مکمل طور سے وحی الٰہی ہے اور اس کی تصنیف میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دخل نہیں  ہے۔

۱۳۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں  علم سے مراد وہ علم ہے جو وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے یہ علم کائنات کے اسرار و رموز اور غیبی حقیقتوں  کو جاننے اور خدا کی پسند اور نا پسند کو معلوم کرنے کا صحیح ذریعہ ہے اس لیے دنیا کے تمام علوم پر اس کی فوقیت ظاہر ہے۔ اس علم کی طلب طلبِ صادق ہے اور اس میں  فراوانی  (ترقی) کے لیے دعا قدر شناسی کی علامت ہے۔

یہ علم قرآن کی شکل میں  ہمارے سامنے موجود ہے اور اس پر غور کرنے سے علوم و معارف کے دروازے کھلتے ہیں  مگر اس ٹھوس علم سے کم ہی لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں  دنیا اس سے بالکل نا آشنا ہے۔

۱۳۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب حضرت آدم کی سرگزشت کے کچھ پہلو پیش کئے جا رہے ہیں۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ انسان کی اصل کمزوری کیا ہے اور وہ کس طرح شیطان کے فریب میں  آ جاتا ہے۔

۱۳۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکیدی حکم اس بات کا کہ فلاں  درخت کے پاس نہ جانا۔  (سورۂ بقرہ آیت ۳۵)۔

۱۴۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم میں  ارادہ کی پختگی نہیں  تھی اس لیے اس سے یہ لغزش ہوئی کہ شیطان کے فریب میں  آ گیا اور چونکہ خدا کے تاکیدی حکم کو وہ بھول گیا اس لیے اس نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس سے منع کیا گیا تھا۔

معلوم ہوا کہ انسان کی بنیادی کمزوری بھول اور ارادہ کا مضبوط نہ ہونا ہے۔

۱۴۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷، ۴۸ میں  گزر چکی۔

۱۴۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آدم علیہ السلام کو جس جنت میں  رکھا گیا تھا اس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں  بھوک اور پیاس کی کوئی تکلیف محسوس نہیں  ہوتی تھی اس کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء وافر پیمانے پر مہیا کر دی گئی تھیں  تاکہ وہ بہ فراغت کھا سکیں  اسی طرح لباس ایسا پہنا دیا گیا تھا کہ جسم پر قائم رہنے والا تھا اس لیے انہیں  برہنگی کا کبھی احساس نہیں  ہوا سورج کی دھوپ اور گرمی سے بھی انہیں  محفوظ رکھا گیا تھا یہ ایک عارضی جنت تھی جس میں  اس اہتمام کے ساتھ حضرت آدم اور حضرت حوا کو رکھا تھا۔ رہا یہ سوال کہ یہ جنت کہاں  تھی تو قرآن نے اس کا ذکر نہیں  کیا کیونکہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ تفصیلات غیر ضروری تھیں۔

۱۴۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۲۵ میں  گزر چکی۔

۱۴۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان نے آدم کو ورغلانے کے لیے مختلف باتیں  کہی تھیں۔ کبھی تو یہ کہا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے تمہیں  اس لیے روکا ہے کہ کہیں  تم فرشتے نہ بن جاؤ (سورۂ اعراف آیت ۲۰ اور کبھی یہ کہا کہ اگر تم نے اسے کھا لیا تو تمہیں  ہمیشگی کی زندگی اور لازوال بادشاہی حاصل ہو گی۔

۱۴۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۶، ۲۹ اور ۳۰۔

۱۴۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت آدم نے نافرمانی تو کی لیکن یہ نافرمانی قصد و ارادہ کے ساتھ نہیں  تھی اور نہ اس میں  سرکشی کا کوئی دخل تھا بلکہ یہ محض بھول کا نتیجہ تھی جس کی صراحت خود قرآن نے کی ہے اور اس بھول پر گرفت اس لیے ہوئی کہ انہوں  نے اللہ کے اس تاکیدی حکم کو یاد رکھنے کی پوری پوری کوشش نہیں  کی کہ مخصوص درخت ان کے لیے ممنوع ہے۔

رہا یہ اشکال کہ آدم نبی تھے اور نبی گناہ سے محفوظ ہوتا ہے تو اولاً یہ بات ا ن کو نبوت عطا کئے جانے سے قبل کی ہے۔ ثانیاً یہ واقعہ عارضی جنت میں  پیش آیا تھا جو بنائی ہی گئی تھی مخصوص قسم کی آزمائش کے لیے ثالثاً گناہ اور گناہ میں  فرق ہے۔ یہ گناہ ایک لغزش تھی جو شیطان کے فریب میں  آنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

۱۴۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں  لفظ غَویَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گمراہی کے بھی ہیں  اور جہالت یا خواہشات کے غلبہ کے تحت بے راہ ہو جانے کے بھی۔ چنانچہ سورۂ قصص آیت ۱۸ میں  ایک جھگڑالو شخص کے بارے میں  حضرت موسیٰ کا یہ بیان نقل ہوا ہے کہ اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مبینٌ ” تو صریح غوی (نا معقول آدمی) ہے۔ ”

حضرت آدم کسی اعتقادی گمراہی میں  مبتلا نہیں  ہوئے تھے اور نہ انہوں  نے سرکشی کی راہ اختیار کی تھی بلکہ شیطان کے فریب میں  آنے کی وجہ سے ان کا قدم غلط رخ پر جا پڑا تھا۔ ان کی اسی حالت کو غَویَ بے راہ ہو جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۱۴۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حضرت آدم کے جسم سے جنت کا لباس اتر گیا تو انہیں  احساس ہوا کہ انہوں  نے ٹھوکر کھائی ہے اور اس پر نادم ہوئے۔ ان کی ندامت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھایا کہ وہ گرتوں  کو اٹھاتا ہے اور ایسا اٹھایا کہ وہ مقبول بارگاہ ٹھہرے۔ ان کے گناہ کے داغ کو دھونے کے لیے ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائی یہاں  تک کہ توبہ کے الفاظ بھی تلقین فرمائے اور ہدایت سے نوازا۔

اس واقعہ میں  انسان کے لیے یہ سبق موجود ہے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور وہ اس پر نادم ہو کر اپنے رب کے حضور توبہ کرتا ہے تو وہ اس کو معاف کر دیتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اٹھاتا ہے۔

اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت آدم نبی تھے کیونکہ ان کی توبہ قبول کرنے کے بعد ان کو ہدایت دینے کا ذکر ہوا ہے۔ اس ہدایت سے مراد ایمان  (عقیدہ) و عمل کی راہ ہے جس پر چل کر اللہ کی خوشنودی اور اس کے نتیجہ میں  ابدی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح پہلا انسان جو زمین پر آیا ہدایت یافتہ انسان تھا اور چونکہ یہ ہدایت اسے اللہ تعالیٰ سے براہ راست ملی تھی اس لیے وہ نبی تھا۔

۱۴۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۳۳ میں  گزر چکی۔

۱۵۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۵۶۔

۱۵۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں  مصیبت میں  نہ پڑنے سے مراد آخرت کے عذاب میں  مبتلا نہ ہونا ہے۔ سورۂ بقرہ میں  یہ بات اس طرح ارشاد ہوئی ہے۔ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ ” ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں  گے۔ ”

۱۵۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مَعِیْشۃً ضَنْکاً ”  (تنگ زندگی) سے مراد قلب و روح کی وہ تنگی ہے جو گھٹن کا باعث بنتی ہے۔ مال و دولت اور سامانِ عیش کی کتنی ہی فراوانی کیوں  نہ ہو اللہ کی یاد اور اس کی تذکیر  (ارشاد و ہدایت) سے منہ موڑنے کے نتیجہ میں  نہ کبھی قلب کو طمانیت حاصل ہوتی ہے اور نہ روح کو سکون میسر آتا ہے۔ ایسا شخص ہمیشہ ایک نفسیاتی مرض میں  مبتلا رہتا ہے اور وہ ہے پریشانی اور بے چینی۔

آج جبکہ دنیا اس کے پرستاروں  پر بہت وسیع ہو گئی ہے اکثر لوگوں  کا حال یہی ہے کہ بہت کچھ کمانے کھانے کے باوجود انہیں  سکونِ قلب میسر نہیں  ہے۔ اضطراب کی کیفیت ان کے چہروں  سے ظاہر ہو رہی ہے اور کتنے ہیں  جو زندگی سے تنگ آ کر موت کو دعوت دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کو خوشی و انبساط اور سکون و طمانیت کی زندگی اسی صورت میں  میسر آتی ہے جبکہ وہ اپنے رب سے بندگی کا تعلق قائم کر کے اسے یاد کرتا ہے اور اس کی یاد دہانی  (قرآن) سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

۱۵۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۰۲۔

۱۵۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تجھے بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے تیری طرف نظر عنایت نہیں  کی جائے گی۔

۱۵۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس نے حد بندگی سے تجاوز کیا تھا اور جو اپنے کو خود مختار سمجھ کر من مانی کرتا رہا۔

۱۵۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ثمود اور مدین وغیرہ کی تباہ شدہ بستیاں  ہیں  جو شاہراہ عام پر واقع تھیں  اور جن پر سے عربوں  کا گزر ہوتا تھا۔  (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۷۸۔

۱۵۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانیاں  اس بات کی کہ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں  ہے بلکہ ایک مدبر ہستی عدل و انصاف کے ساتھ اس پر حکومت کر رہی ہے اور اس کی قوت قاہرہ کے آگے سب بے بس ہیں۔ وہ انسانوں  کی ہدایت کے لیے رسول بھیجتا ہے اور ان کی دعوت برحق ہے جو قوم رسول کی مخالفت کرتی ہے اس پر اس دنیا میں  بھی عذاب کا کوڑا برستا ہے۔

۱۵۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مہلت عمل ہے۔

۱۵۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مہلت کی مدت۔

۱۶۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے الٹے سیدھے اعتراضات کو خاطر میں  نہ لاؤ اور ان کی اذیت دہ باتوں  پر صبر و تحمل سے کام لو۔

۱۶۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تسبیح کرو یعنی پاکی بیان کرو اور بِحَمْدِرَبِّکَ یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی پاکی اس کے گن گاتے ہوئے بیان کرو۔ اس ایمانی کیفیت کے ساتھ کہ اللہ ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے اور اس کے لیے خوبیاں  ہی خوبیاں  ہیں  تسبیح اور حمد کے کلمات زبان سے ادا کرو کہ یہ ذکر خالص عبادت ہے۔

تسبیح کے کلمات کی مثال ہے سَبْحَانَ اللّٰہ  (اللہ کے لیے پاکی ہے) اور لاَ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ  (اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں) اور حمد کے کلمات کے مثال ہے الحمدُ لِلّٰہ  (تعریف اللہ کے لیے ہے) اور اللّٰہُ اَکبر  (اللہ سب سے بڑا ہے) اور جن کلمات میں  دونوں  پہلو سموئے ہوئے ہیں  ان کی مثالیں  یہ ہیں  : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیم  (پاک ہے میرا رب جو بلند شان والا ہے) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ (میں  اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں  اس کی حمد کے ساتھ)

صحیح بخاری میں  آخری حدیث جو امام بخاری نے نقل کی ہے وہ یہ ہے : عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قالَ قالَ النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلمتانِ حَبیبتانِ اِلٰی الرَّحْمٰنِ خفِیفَتانِ عَلَی الِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فی الْمِیزَانِ سُبْحانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔  (بخاری کتاب التوحید) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں  جو رحمن کو نہایت ہی محبوب ہیں ، زبان پر ہلکے مگر میزان میں  بھاری ہیں۔ وہ ہیں  سبحان اللہ و بحمدہٖ (اللہ کی میں  پاکی بیان کرتا ہوں  اس کی حمد کے ساتھ) سبحان اللہ العظیم  (اللہ کے لیے پاکی ہے جو عظمت والا ہے) ۔ ”

اس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ ایک مخلص مؤمن کی زبان سے ان کلمات کا شعوری طور پر ادا ہونا اللہ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے روزانہ ان کو بار بار دہرانا عین مطلوب ہے۔

یہاں  اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی بے محل نہ ہو گا کہ ذکر الٰہی کے معاملہ مسلمانوں  کے مختلف گروہوں  کا اندازِ فکر اور طرز عمل مختلف ہے۔ ایک گروہ اللہ کے معاملہ میں  صحیح دینی شعور پیدا کئے بغیر ورد پر زور دیتا ہے۔ اس کے نزدیک کیفیت سے زیادہ کمِیّت (مقدار) کی اہمیت ہے۔ دوسرے گروہ نے ذکر الٰہی کے لیے خاص ہیئتوں  کا اہتمام کرنے اور ضربیں  لگانے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے اور تیسرا گروہ جس کا انداز فکر جدید ہے ذکر الٰہی کی اہمیت کے معاملہ میں  کوتاہ نظر واقع ہوا ہے اس لیے وہ اس کا کچھ زیادہ اہتمام نہیں  کرتا۔ اس افراط و تفریط کے مقابلہ میں  وہی طریقہ صحیح ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اختیار کیا تھا اور قرآن کے منشا کو آپ سے بہترین کون سمجھ سکتا ہے؟

۱۶۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تسبیح کے لیے دو واقعات کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا اور وہ ہیں  آفتاب کے طلوع اور غروب سے پہلے کے اوقات یعنی فجر اور عصر کے اوقات کہ عبادت کے لیے یہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پھر رات کے کچھ اوقات اور دن کے حصوں  میں  بھی تسبیح کرنے کی ہدایت فرمائی۔ دن کا ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جب سورج کچھ اوپر چڑھ گیا ہوتا ہے اسے ضحی اور اشراق کہتے ہیں۔ دوسرا حصہ ظہر کا ہوتا ہے اور تیسرا عصر کا۔

تسبیح کی یہ ہدایت پنج وقتہ نماز کی فرضیت سے پہلے دی گئی تھی۔ پنج وقتہ نماز کا حکم سورۂ بنی اسرائیل آیت ۷۸ میں  دیا گیا جو سورۂ طٰہٰ کے چند سال بعد نازل ہوئی۔ تسبیح کا یہ حکم اسی طرح عام ہے جس طرح انفاق کا عام حکم مکہ میں  دیا گیا تھا اور جب زکوٰۃ فرض ہوئی تو انفاق کا عام حکم منسوخ نہیں  ہوا بلکہ اس کی دو قسمیں  قرار پائیں۔ ایک فرض انفاق جس کے لیے زکوٰۃ کی اصطلاح استعمال ہوئی اور دسرا نفل انفاق جس کی ترغیب بر قرار رہی۔ اسی طرح تسبیح کا جو حکم آغاز میں  دیا گیا تھا اس کی تعمیل دو طرح سے مطلوب ہوئی۔ ایک پنج وقتہ نمازوں  کی صورت میں  اور دوسرے نفل نمازوں  اور نفل اذکار کی صورت میں  چنانچہ حدیث میں  بھی نماز کے بعد اذکار کی ترغیب دی گئی ہے۔

۱۶۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس عبادت کا ثمرہ یہ ہے کہ تم خوش اور شاد کام ہو جاؤ گے۔

معلوم ہوا کہ جس شخص کا دل اللہ کی تسبیح اور حمد و ثنا میں  لگتا ہے اس کو قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں  تو وہ نہال ہو جائے گا۔

۱۶۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا پرستوں  کی شان و شوکت اور مال و دولت کو حریص نگاہوں  سے نہ دیکھو کہ یہ ان کے لیے آزمائش کا سامان ہے۔ اس کے مقابلہ میں  وہ رزق کہیں  بہتر اور پائیدار ہے جس کا وعدہ اللہ نے تم سے کیا ہے اور وہ ہے جنت کا رزق۔

۱۶۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں  کو بھی اس کی تاکید کرے اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ اپنے گھر سے اصلاح کا آغاز کرے۔ نماز کے معاملہ میں  اپنے بیوی بچوں  کی طرف سے غفلت کسی فرض شناس شخص کا کام نہیں  ہو سکتا۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کا حکم پنج وقتہ نماز کی فرضیت سے بہت پہلے آ گیا تھا۔

۱۶۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات سورۂ زمر میں  اس طرح بیان ہوئی ہے : مَا اُرِیدُمِنْہُمْ مِنْ رِّزْقٍ وَمَا اُرِیدُ اَن یطْعِمُوْن (ذاریات ۵۷) ” میں  نہ ان سے رزق چاہتا ہوں  اور نہ یہ چاہتا ہوں  کہ وہ مجھے کھلائیں۔ ”

مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور نماز کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں  ہے کہ اس کا کوئی فائدہ اسے پہنچے گا بلکہ یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ بندوں  میں  تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔

۱۶۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نماز سے تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی کامیابی ان ہی کے لیے ہے جو اپنے اندر یہ صفت پیدا کریں۔

واضح رہے کہ تقویٰ کا مفہوم برائیوں  سے بچنا ہی نہیں  بلکہ احکام کی تعمیل بھی ہے یعنی منفی اور مثبت دونوں  پہلو اس میں  شامل ہیں  چنانچہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں  :

” ” کون کہتا ہے کہ تقویٰ محض برائیوں  کو ترک کرنے کا نام ہے تقویٰ تو ___جیسا کہ اگلے پچھلے اس کی تفسیر کرتے چلے آئیں  ___اوامر (احکام) کی تعمیل بھی ہے اور نواہی (ممنوعات) کو ترک کرنا بھی۔ ” (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۲۰ ص ۱۳۲)

۱۶۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ کا کہنا تھا کہ یہ شخص اگر واقعی رسول ہے تو کوئی حسی معجزہ کیوں  نہیں  دکھاتا۔ اس کے جواب میں  فرمایا گیا کہ کیا جو کچھ اگلے صحیفوں  میں  مذکور ہے اس کی شہادت ان تک نہیں  پہنچتی، مطلب یہ ہے کہ تورات اور انجیل میں  جو پیشین گوئیاں  آنے والے رسول کے سلسلہ میں  مذکور ہیں  ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق اس رسول کی بعثت ہوئی ہے اور یہ شہادت اس کے رسول ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس دلیل کے بعد حسی معجزہ کی ضرورت باقی نہیں  رہتی۔

واضح رہے کہ نزولِ قرآن کے وقت تورات و انجیل کے جو نسخے موجود تھے ان میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں  واضح طور پر متعدد پیشین گوئیاں  موجود تھیں  لیکن بعد میں  یہود و نصاریٰ نے کتنی ہی عبارتیں  ان کتابوں  میں  سے غائب کر دیں  تاکہ قرآن کی حجت کے مقابلہ میں  ان کے موقف کی کمزوری ظاہر نہ ہو جائے اور کچھ عبارتوں  کا ترجمہ ایسا کیا گیا کہ کسی کے پلے کچھ نہ پڑے۔ تاہم تورات و انجیل کے موجودہ ترجموں  میں  کچھ پیشین گوئیاں  موجود ہیں  جن کا حوالہ ہم اس سے پہلے دیتے آئے ہیں۔

مثال کے طور پر تورات میں  یہ پیشین گوئی موجود ہے : ” میں  ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں  میں  سے تیری  (موسیٰ کی) مانند ایک نبی برپا کروں  گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں  ڈالوں  گا اور جو کچھ میں  اسے حکم دوں  گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ ”  (استثناء ۱۸:۱۸)

اس پیشین گوئی میں  ایک بات تو یہ کہی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں  میں  سے نبی برپا کروں  گا۔ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسمعٰیل ہیں  اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بنی اسمٰعیل ہی میں  سے تھے اور آپ کے علاوہ کوئی رسول نبی اسمٰعیل میں  نہیں  ہوا۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ وہ شانِ نبوت میں  موسیٰ کی مانند ہو گا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی شان کے نبی تھے چنانچہ قرآن کہتا ہے : ” ہم نے اسی طرح رسول کو تم پر شاہد بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ ” (مزمل ۱۵) اور تیسری بات یہ کہ ” میں  اپنا کلام اس کے منہ میں  ڈالوں  گا اور جو کچھ بھی اسے حکم دوں  گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ ”

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا امتیازی وصف تھا چنانچہ اللہ کا کلام آپ کی زبان سے ادا ہوا اور قرآن آپ کا معجزہ قرار پایا۔ گویا یہ معجزہ ٹھیک اس پیشین گوئی کے مطابق ہے جو تورات میں  بیان ہوا ہے اور یہ دلیل ہے آپ کے رسولِ برحق ہونے کی۔

واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اہل کتاب ان پیشین گوئیوں  کی بنا پر آنے والے رسول کے منتظر تھے اور اس کا چرچا کرتے تھے  (دیکھئے سورۂ بقرہ آیت ۸۹ اس لیے عرب اس سے ناواقف نہیں  ہو سکتے تھے۔

۱۶۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذلیل اپنی نگاہوں  میں  اور رسوا لوگوں  کی نگاہوں  میں۔

۱۷۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر شخص اس انتظار میں  ہے کہ رسول کی دعوت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

۱۷۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عنقریب تم دیکھ لو گے کہ نبی کی دعوت خیر اور فلاح کا باعث تھی یا نہیں  اور اللہ کی نصرت نبی کے ساتھ رہی یا تمہارے ساتھ؟ اور قیامت کے دن تو دو اور دو چار کی طرح تم پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ رسول اور اس کے پیرو ہی راہ راست پر تھے اور وہی کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے۔

٭٭٭

ای بک: اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید