FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

دعوت القرآن

 

 

حصہ ۸: انبیاء، حج، مومنون، نور

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

 

 

 

(۲۱) سورۂ الانبیاء

 

 (آیات۔ ۱۱۲)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس کا نام "الانبیاء” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔ خصوصاً آخری آیات سے جن میں پیغمبر نے فیصلہ کے لیے دعا کی ہے۔

مرکزی مضمون

 

لوگوں میں خدا کے حضور جوابدہی کا احساس پیدا کرنا ہے تاکہ ان کی نظر کے زاویے اور عمل کا رُخ بدل جائے ، انبیاء علیہم السلام غفلت میں پڑی ہوئی قوموں کو یہ سبق برابر یاد دلاتے رہے ہیں لیکن لوگ سنبھلنے کے بجائے الٹ ان کی مخالفت کرتے رہیں ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ نصرت الٰہی ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رہی اور وہ خصوصی فضل و عنایت سے نوازے جاتے رہے ہیں۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۱۵ میں لوگوں کو ان کی غفلت پر جھنجھوڑا گیا ہے اور رسولوں کی مخالفت کرنے والوں کا جو انجام اس سے پہلے ہو چکا ہے اس سے خبردار کر دیا گیا ہے۔ آیت ۱۶  تا ۱۸  میں واضح کیا گیا ہے کہ اس دنیا کو اس کے خالق نے تفریح گاہ نہیں بنایا ہے بلکہ حق و باطل کی رزم گاہ بنایا ہے۔

آیت ۱۹  تا ۳۳  میں توحید کا بیان ہے۔

آیت ۳۴  تا ۴۷  میں رسالت سے متعلق شبہات کا جواب دیا گیا ہے اور رسول کا مذاق اڑانے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔

آیت ۴۸  تا ۹۱  میں انبیاء علیہم السلام کے احوال پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے ایک طرف ان کی تعلیم کو پیش کرنا مقصود ہے اور دوسری طرف یہ واضح کرنا ہے کہ ان کے حق میں اللہ کی قدرت و رحمت کے کیسے کیسے کرشمے ظہور میں آتے رہے ہیں۔

آیت ۹۵  تا ۱۱۲  سورہ کا آخری حصہ ہے جس میں منکرین کو عذاب سے آگاہ کیا گیا ہے اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ رسول کی بعثت دنیا والوں کے حق میں سراسر رحمت ہے اگر وہ اس کی ناقدری کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریب آ لگا ہے لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں رُخ پھیرے چلے جا رہے ہیں۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی طرف سے جو تازہ یاد دہانی بھی آتی ہے اس کو وہ اس طرح سنتے ہیں کہ کھیل میں لگے رہتے ہیں ۲*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کے دل غافل ہیں ۳* اور یہ ظالم چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں کہ یہ تم جیسا ہی تو ایک بشر ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھے جادو کے پاس جاؤ گے ؟۴*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے ( رسول نے) کہا میرا رب جانتا ہے جو بات بھی آسمان و زمین میں کی جائے وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ ۵*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے یہاں تک کہا کہ یہ تو خواب پریشاں ہیں بلکہ یہ اس کا من گھڑت (کلام) ہے بلکہ یہ شاعر ہے۔ ۶* ورنہ یہ ہمارے پاس کوئی ایسی نشانی لائے جس طرح اگلے وقتوں کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کے پہلے کوئی بستی بھی جس کو ہم نے ہلاک کیا ایمان نہیں لائی ۷* پھر کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ ۸* ؟

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور تم سے پہلے ہم نے آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر ( اہل کتاب) سے پوچھ لو۔ ۹*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کو ہم نے ایسے جسم کا نہیں بنایا تھا کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔ ۱۰*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پھر ہم نے ان سے وعدہ پورا کیا اور انہیں اور جن کو ہم نے چاہا بچا

–لیا اور حد سے گزرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارے لتے یاد دہانی ہے۔ کیا تم سمجھتے ہیں ؟

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کو اٹھا کھڑا کیا۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب انہوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا ۱ ۱* تو لگے وہاں سے بھاگنے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بھاگو نہیں۔ لوٹو اپنے سامان عیش اور اپنے گھروں کی طرف تاکہ تم سے پوچھا جائے۔ ۱۲*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ پکار اٹھے افسوس ہم پر۔ ہم ہی ظالم تھے۔ ۱۳*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ یہی واویلا کرتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو کٹے ہوئے کھیت کی طرح کر دیا۔ ۱۴* وہ بالکل بجھ کر رہ گئے۔ ۱۵*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ۱۶*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر ہم کھیل بنانا چاہتے تو خاص اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہمیں ایسا کرنا ہی ہوتا۔ ۱۷*

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مگر ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تو وہ اس کا سر کچل دیتا ہے اور وہ ( باطل) نابود ہو جاتا ہے ۱۸*۔ اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بیان کرتے ہو۔ ۱۹*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آسمانوں اور زمین میں جو کوئی ہے سب اسی کے ہیں ۲۰* اور جو اس کے پاس ۲۱* ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  رات دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دم نہیں لیتے۔ ۲۲*

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا انہوں نے زمین کے ایسے خدا بنائے ہیں جو ( مردوں کو) زندہ کھڑا کرتے ہوں۔ ۲۳*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر ان ( آسمان و زمین) میں اللہ کے سوا اور خدا بھی ہوئے تو یہ درہم برہم ہو کے رہ جاتے ۲۴*۔ پس پاک ہے اللہ عرش کا رب ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ جو کچھ بھی کرتا ہے ( کسی کے آگے) جوابدہ نہیں ۲۵* اور سب جوابدہ ہیں۔ ۲۶*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا انہوں نے اس کو چھوڑ کر اور معبود بنا لئے ہیں ؟ ان سے کہو پیش کرو اپنی دلیل، یہ تعلیم میرے ساتھیوں کے لیے اور یہی تعلیم مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے بھی تھی۔ ۲۷* مگر اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے رُخ پھیرے ہوئے ہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم نے تم سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس پر یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔ ۲۸*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں رحمن نے ( اپنے لیے) اولاد بنا لی ہے پاک ہے وہ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ( اس کے) معزز بندے ہیں۔ ۲۹*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے ۳۰* اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے سب سے وہ باخبر ہے۔ وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر اس کی جس کے لیے اللہ پسند فرمائے ۳۱* اور وہ اس کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ ۳۲*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ان میں سے اگر کوئی کہ دے کہ اس کے سوا میں خدا ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیں گے۔ ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ ۳۳*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا منکرین نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں الگ کر دیا۔ ۳۴* اور پانی سے تمام زندہ چیزیں پیدا کر دیں۔ ۳۵* کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟ ۳۶*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے کہ ان کو لیکر لڑھک نہ جائے۔ ۳۷* اور ان ( پہاڑوں) میں درّے بنائے جو راستہ کا کام دیتے ہیں ۳۸* تاکہ لوگ راہ پائیں۔ ۳۹*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ ۴۰* مگر یہ لوگ اس کی نشانیوں سے رُح پھیرے ہوئے ہیں۔ ۴۱*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے سب ( اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں۔ ۴۲*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کو ہمیشگی نہیں بخشی۔ ۴۳* اگر تم مر گئے تو کیا ہے لوگ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔ ۴۴*

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ۴۵* اور ہم اچھی اور بری حالت میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کرتے ہیں۔ ۴۶* اور ہماری ہی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ ۴۷*

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ( اے پیغمبر!) یہ کافر جب تمہیں دیکھتے ہیں تو مذاق بنا لیتے ہیں۔ ( کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا (برائے کے ساتھ) ذکر کرتا ہے ؟ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمن کے ذکر سے منکر ہیں۔ ۴۸*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انسان کی سرشت ( طبیعت) میں جلد بازی ہے۔ ۴۹* میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا۔ ۵۰* جلدی نہ مچاؤ۔ ۵۱*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہتے ہیں یہ وعدہ پورا کب ہو گا اگر تم سچے ہو۔ ۵۲*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کاش! یہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب یہ آگ کو نہ اپنے منہ سے ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھ سے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ (گھڑی) تو اچانک آئے گی اور ان کو بدحواس کر دے گی۔ پھر نہ تو اس کو رفع کر سکیں گے اور نہ انہیں مہلت ملے گی۔ ۵۳*

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ مگر جو لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے ان کو اسی چیز نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ ۵۴*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان سے پوچھو کون ہے جو رات کو اور دن کو رحمن (کی پکڑ) سے تمہاری حفاظت کرتا ہے ؟۵۵* مگر ے اپنے رب کے ذکر سے رُخ پھیرے ہوئے ہیں۔ ۵۶*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا ہمارے سوا اُن کے ایسے معبود ہیں جو ان کو بچا سکتے ہیں ؟ وہ خود اپنی مدد نہیں کر سکتے اور نہ ہماری تائید ان کو حاصل ہے۔ ۵۷*

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو آسودہ کیا یہاں تک کہ ان پر ایک طویل مدت گزر گئی۔ ۵۸* مگر کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین کی طرف اس کی سرحدوں کو گھٹاتے ہوئے بڑھ رہے ہیں۔ ۵۹* پھر کیا یہ غالب رہیں گے ؟

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہو میں تمہیں وحی کے ذریعہ خبردار کر رہا ہوں۔ مگر بہرے پکار کو نہیں سنتے جب کہ انہیں خبردار کیا جائے۔ ۶۰*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اگر تمہارے رب کے عذاب کی ایک آنچ انہیں لگ جائے تو پکار اٹھیں گے ہائے افسوس! ہم ہی خطا کار تھے۔ ۶۱*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور قیامت کے دن ہم انصاف کے ترازو قائم کریں گے۔ ۶۲* پھر کسی شخص کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہ ہو گی۔ اگر کسی کا کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گا تو ہم اُسے لا حاضر کریں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔ ۶۳*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم ۶۴* نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان ۶۵* اور روشنی ۶۶* اور یاد دہانی عطاء کی تھی متقیوں کے لیے۔ ۶۷*

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جو بے دیکھے رب سے ڈرتے ہیں ۶۸* اور قیامت کی گھڑی سے لرزاں رہتے ہیں۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور یہ ایک بابرکت ذکر ہے ۶۹* جو ہم نے اتارا ہے۔ تو کیا تم اس کے منکر بنو گے۔ ؟

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کے شایانِ شان ہدایت عطاء کی تھی اور ہم اس کو خوب جانتے تھے۔ ۷۰*

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ کیسی مورتیاں ہیں جن کی پرستش میں تم لگے ہوئے ہو! ۷۱*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے کہا تم بھی کھلی گمراہی میں پڑے ہو اور تمہارے باپ دادا بھی پڑے تھے۔ ۷۲*

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے کہا تم واقعی حق لیکر آئے ہو یا مذاق کر رہے ہو؟

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے کہا نہیں بلکہ واقعی تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اسی نے ان کو پیدا کیا ہے ۷۳* اور اس پر میں تمہارے سامنے گواہ ہوں۔ ۷۴*

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اللہ کی قسم میں ضرور تمہارے بتوں کے ساتھ ایک تدبیر کروں گا جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ ۷۵*

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا بجز ایک (بت) کے جو ان کے نزدیک بڑا تھا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ ۷۶*

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ؟ (جس نے بھی یہ حرکت کی ہے) وہ بڑا ظالم ہے ! ۷۷*

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بعض لوگوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو ان کے بارے میں کچھ کہتے سنا تھا جس کو ابراہیم کہتے ہیں۔ ۷۸*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے کہا اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھ لیں۔ ۷۹*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جب ابراہیم آئے تو) انہوں نے پوچھا ابراہیم ! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے جواب دیا بلکہ ان کے اس بڑے نے کی ہے۔ ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔ ۸۰*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ سن کر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم ہی لوگ غلط کار ہو۔ ۸۱*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے۔ ۸۲* بولے تمہیں معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے کہا پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تم کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان ؟ ۸۳*

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو! ۸۴* کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ؟ ۸۵*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے کہا اس کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ ۸۶*

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہمارا حکم ہوا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے۔ ۸۷*

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے چاہا کہ ابراہیم کے ساتھ ایک چال چلیں مگر ہم نے ان کو ناکام کر دیا۔ ۸۸*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم اس کو اور لوطؑ ۸۹* نجات دے کر اس سر زمین کی طرف لے گئے  جس میں ہم نے دنیا والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں ۹۰*

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے اس کو اسحٰق عطا کیا اور مزید یعقوب ۹۱* اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا ۹۲*

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے ان کو امام۔ ۹۳* اور وہ ہمارے ہی عبادت گزار تھے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا فرمایا۔ ۹۵* اور اس بستی سے اسے نجات دی جو گندے کام کیا کرتی تھی۔ ۹۶* وہ بہت ہی برے اور فاسق لوگ تھے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ ۹۷* یقیناً وہ صالحین میں سے تھا۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس سے پہلے نوح کو بھی ( ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) ۔ جب اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔ ۱۰۰* اور اس کے ساتھیوں کو سخت تکلیف سے نجات دی۔ ۱۰۱*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے اس کی مدد کی ان لوگوں کے مقابلہ میں جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا۔ ۱۰۲* وہ بہت برے لوگ تھے لہٰذا ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور داؤد ۱۰۳* اور سلیمان ۱۰۴* کو بھی (ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) جب وہ ایک کھیت کے مقدمہ میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں ایک گروہ کی بکریاں رات کو گھس پڑی تھیں اور ہم ان کے قضیہ کو دیکھ رہے تھے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس وقت ہم نے سلیمان کو اس (مقدمہ) کی سمجھ عطا ء کی اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم عطاء کیا تھا۔ ۱۰۵* اور داؤد کی ہمنوائی کے لیے ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا نیز پرندوں کو بھی۔ وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ ۱۰۶* یہ ہماری ہی کارفرمائی تھی۔ ۱۰۷*

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے اس کو تمہارے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی کہ تمہارے لیے جنگ کے موقع پر تحفظ کا سامان ہو۔ پھر کیا تم شکر گزار ہو ؟ ۱۰۸*

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے سلیمان کے لیے تیز ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اس سر زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے بڑی برکتیں رکھی ہیں ۱۰۹* ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور شیطانوں میں سے ایسے جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے۔ ۱۱۰* ان کے نگراں ہم ہی تھے۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ایوب ۱۱۱* کو (بھی ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں بیماری میں مبتلا ہو گیا ہوں اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ ۱۱۲*

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کی تکلیف کو دور کر دیا اور اس کو اس کے اہل و عیال بھی دیئے نیز ان کے ساتھ ان جیسے اور بھی دئے۔ ۱۱۳* اپنی طرف سے رحمت کے طور پر اور تاکہ یاددہانی ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ ۱۱۴*

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اسمٰعیل اور ادریس ۱۱۵* اور ذوالکفل ۱۱۶* کو بھی ( اپنے فضل سے نوازا) یہ سب صبر کرنے والے تھے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا یقیناً وہ نیکو کاروں میں سے تھے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ذوالنون ۱۱۷* ( مچھلی والے) کو بھی ( ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) جب وہ برہم ہو کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ ۱۱۸* پھر تاریکیوں میں سے اس نے پکارا ۱۱۹* کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں ، تو پاک ہے بلا شبہ میں ہی قصوروار ہوں۔ ۱۲۰*

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس وقت ہم نے اس کی دعا قبول کی ۱۲۱* اور گھٹن سے اس کو نجات دی ۱۲۲* اس طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔ ۱۲۳*

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور زکریا ( کو بھی ہم نے اپنے فضل سے نوازا) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۱۲۴* اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ ۱۲۵*

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیٰ عطا فرمایا۔ اور اس کی بیوی کو اس کے لیے سازگار بنا دیا۔ ۱۲۶* یہ لوگ نیکی کے کاموں میں سرگرم رہتے ۱۲۷* اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے ۱۲۸* اور ہمارے آگے عاجزی کرنے والے تھے۔ ۱۲۹*

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور وہ جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ۱۳۰* ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی ۱۳۱* اور اس کو اور اس کے بیٹے کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔ ۱۳۲*

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے ۱۳۳* اور میں ہی تمہارا رب ہوں لہٰذا میری عبادت کرو۔ ۱۳۴*

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مگر لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ۱۳۵* سب کو بالآخر ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ ۱۳۶*

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو جو نیک عمل کرے گا اور وہ مومن بھی ہو گا تو اس کی کوشش کی نا قدری نہ ہو گی۔ ۱۳۷* اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔ ۱۳۸*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس کے لیے حرام ہے کہ اس کے رہنے والے پلٹ آئیں۔ ۱۳۹*

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے امنڈ پڑیں گے۔ ۱۴۰*

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور وعدۂ حق قریب آ لگے گا تو ۱۴۱* تو اچانک ان لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی جنہوں نے کفر کیا تھا۔ ۱۴۲* وہ پکار اٹھیں گے افسوس ہم پر! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم خطا کار تھے۔ ۱۴۳*

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں۔ ۱۴۴* تمہیں لازماً وہاں پہنچنا ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر واقعی یہ خدا ہوتے تو وہاں نہ پہنچتے اور سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ ۱۴۵*

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہاں وہ چیختے چلاتے رہیں گے اور کچھ نہ سنیں گے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  البتہ جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے اچھے انجام کا وعدہ پہلے ہی ہو چکا ہے ۱۴۶* وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ اس کی بھنک بھی نہ سنیں گے اور اپنی من بھاتی نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کو ( اس دن کی) بڑی گھبراہٹ پریشان نہ کرے گی اور فرشتے ان کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح اوراق کو طومار میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ۱۴۸* جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی طرح ہم اسے دہرائیں گے۔ یہ وعدہ ہے ہمارے ذمہ ہم اس کام کو کر کے رہیں گے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور زبور میں ہم نے نصیحت کے بعد لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ۱۴۹*

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس میں بڑی خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو عبادت گزار ہیں۔ ۱۵۰*

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ( اے پیغمبر) ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے سر تا سر رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ۱۵۱*

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہو میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ۱۵۲* تو کیا تم مسلم ہوتے ہو ( اس کے فرمانبردار بنتے ہو) ؟

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر وہ رُخ پھیرتے ہیں تو کہ دو میں نے تمہیں علی الاعلان خبردار کر دیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور ۱۵۳*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بے شک وہ جانتا ہے اس بات کو بھی جو کھل کر کہی جاتی ہے اور اس بات کو بھی جو تم چھپاتے ہو۔ ۱۵۴*

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور مجھے نہیں معلوم۔ ہو سکتا ہے یہ تمہارے لئے آزمائش اور ایک وقت تک کے لیے دنیوی فائدہ کا سامان ہو۔ ۱۵۵*

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پیغمبر نے) دعا کی اے میرے رب حق کے ساتھ فیصلہ کر دے ۱۵۶* اور ہمارا رب رحمن ہے جس سے مدد مانگی گئی ہے ان باتوں کے مقابلہ میں جو تم لوگ بناتے ہو۔ ۱۵۷*

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حساب کے وقت سے مراد قیامت کی گھڑی ہے جب ہر شخص کو خدا کے حضور اپنے عقیدہ و عمل کے بارے میں جوابدہی کرنا ہو گی۔

جوابدہی کا یہی تصور ہے جو انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے اور اسے اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے۔ مگر ہر زمانہ میں لوگ اس اہم ترین حقیقت کی طرف سے بے پرواہ رہے ہیں اور آج بھی اربوں انسان اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ مستقبل قریب میں انہیں باز پرس کے مرحلے میں داخل ہونا ہے۔ قرآن کا یہ بیان مدہو انسانیت کو ہوش میں لانے والا ہے اگر وہ اس پر غور کرے مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قیامت اور حساب کی باتیں سننا ہی نہیں چاہتے۔ وہ صرف ایسی باتیں سننا چاہتے ہیں جن سے ان کی خر مستیوں میں اضافہ ہوتا ہو۔

حساب کی گھڑی کے قریب آ لگنے کا مطلب یہ ہے کہ اب نوع انسانی اپنے دور کے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بُعِثتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ  (مسلم کتاب الفتن)” میں اور قیامت کی گھڑی ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔

نیز حساب کی گھڑی اس اعتبار سے بھی قریب ہے کہ آدمی کے اور موت کے درمیان بہت تھوڑا فاصلہ ہے اور جب موت آ جاتی ہے تو وہ حساب ہی کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے اور اسی وقت سے جزا و سزا کا آغاز ہو جاتا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کی جو سورہ نازل ہوتی ہے ایک نئی شان تذکیر کے ساتھ نازل ہوتی ہے مگر یہ لوگ اتنے غیر سنجیدہ واقع ہوئے ہیں کہ اس سے یاد دہانی حاصل کرنا تو درکنار الٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

یہ حال جاہل عربوں ہی کا نہیں تھا آج کے "دانشوروں” کا بھی یہی حال ہے۔ وہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں اتنے غیر سنجیدہ واقع ہوئے ہیں کہ جہاں جنت اور دوزخ کی بات آئی انہوں نے پھبتی چست کر دی۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اصل وجہ ہے ان کی غیر سنجیدہ حرکتوں کی کہ ان کے دل خدا کی طرف سے غافل اور دنیا کی طرف راغب ہیں۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ شخص جو کلام پیش کرتا ہے اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں محض الفاظ کی جادوگری ہے جس سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ پھر کی تم جانتے بوجھتے جادو کے پھندے میں پھنسو گے۔ ؟

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پیغمبر کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور یہ مشرکین کی سرگوشیوں کا جواب ہے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین پیغمبر اور قرآن کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں کبھی کہتے یہ جادوگری ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ الجھے ہوئے خوابوں کا مجموعہ ہے۔ کبھی کہتے یہ من گھڑت باتیں ہیں اور کبھی کہتے یہ شخص شاعر ہے اور قرآن اس کے شاعرانہ تخیل کی پرواز ہے۔ اس سے خود منکرین کے الجھی ہوئی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کبھی وہ ایک بات کہتے اور جب وہ چسپاں نہ ہوتی تو دوسری بات کہتے اور جب وہ موزوں قرار نہ پاتی تو تیسری بات کہتے اور جب وہ بھی فٹ نہ ہوتی تو چوتھی بات کہتے۔ اس طرح ایک نہ ایک الزام لگا کر حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حسی معجزہ دیکھ کر کوئی بستی بھی ایمان نہیں لائی تھی۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اس پیغمبر کے ہاتھوں کوئی حسی معجزہ ان لوگوں کو ان کے مطالبہ پر دکھا دیا جائے تو یہ لوگ اس کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ہٹ دھرم لوگوں کا طریقہ یہی ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نحل نوٹ ۶۴   اور ۶۵  میں گزر چکی۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو پیغمبر بھی بھیجے گئے وہ سب کھانا کھانے والے انسان تھے۔ فوق البشر (Super-Human) کوئی بھی نہیں تھا اور نہ کوئی ہمیشہ کے لیے دنیا میں زندہ رہا۔ جو چیز پیغمبر کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی رہی ہے وہ اس پر وحی الٰہی کا نزول ہے۔ اس آیت سے اس خیال کی بھی تردید ہوتی ہے کہ حضرت خضر دنیا میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب عذاب کے آثار دیکھ لئے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ طنزیہ کلام ہے مطلب یہ ہے کہ اب بھاگتے کیوں ہو۔ تم تو عذاب قبر کا مذاق اڑاتے رہے لہٰذا اگر تمہارے بس میں ہے تو اپنے سامان تعیش اور اپنے عشرت کدوں کی طرف لوٹو تاکہ تمہارے ساتھی تمہارا حال ( خیریت۔  معلوم کر سکیں کہ کیا حادثہ پیش آیا جو تم اپنے گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے ؟

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت انہوں نے اپنے خطا کار ہونے کا اعتراف کیا اور اپنے کئے پر پچھتائے۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا حال اس کھیت کا ساہو گیا جس کی فصل کٹ چکی ہو اور وہ خس و خاشاک ہو گیا ہو۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زندگی کی حرارت غائب ہو گئی اور وہ بالکل بے حس و حرکت ہو کر رہ گئے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخرت کا انکار کرنے کے بعد آدمی اس کائنات کے پیدا کئے جانے کی کوئی صحیح توجہ نہیں کر پاتا۔ ایسے لوگوں کے نزدیک اس کائنات کا وجود خدا کے سنجیدہ فیصلہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض بہلاوے کا سامان ہے جو اس نے اپنے لیے کر لیا ہے۔ ہندو فلسفی اسے لِیلا سے تعبیر کرتے ہیں۔

"In the beginning God was alone, and He desired to become many. As a Consequence, He created the world out of mere pleasure, as a Sport (Lila) .” (Outlines of Hinduism by T.M.P. Mahadevan P.163)

"یعنی آغاز میں خدا اکیلا تھا اس نے کثرت میں تبدیل ہونا چاہا جس کے نتیجے میں اس نے دنیا کی تخلیق محض بہلاوے کے لیے کھیل "لیلا” کے طور پر کی۔”

واقعہ یہ ہے کہ خدا کو وہی لوگ غیر سنجیدہ سمجھتے ہیں جو خود غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کھیل بنانا ہماری شان کے خلاف ہے لیکن بالفرض ہمیں کھیل بنانا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے اس کا سامان کر لیتے۔ اس کے لیے اس عظیم الشان کائنات کو وجود میں لانے اور انسان جیسی با شعور اور مکلف مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کارخانہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مقصد اور اس کی ایک غایت ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ دنیا تماش گاہ ہے اور ہم تماش بین بلکہ ہم نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے اور انسان کا ہم امتحان لے رہے ہیں اس لئے یہ دنیا حق و باطل کی رزم گاہ بن گئی ہے گو نتائج کا ظہور آخرت میں ہو گا جہاں حق ہی حق ہو گا اور باطل بالکل نابود ہو چکا ہو گا تاہم اس دنیا میں بھی ہم حق کے ذریعہ باطل پر ضرب کاری لگانے کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ انسانی تاریخ میں بار بار ایسا ہوا ہے کہ جب باطل نے سر اٹھایا تو ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اس کی سر کوبی کی۔ حق غالب ہو کر رہا اور باطل کو نابود ہو جانا پڑا۔ اس پیغمبر کے ذریعہ بھی حق کو باطل پر غالب آنا ہے اور یہ قرآن تو اللہ کی وہ حجت ہے جس کے سامنے باطل ہرگز ٹک نہیں سکتا۔ اس کے بعد وہی لوگ اس دنیا کو تماش گاہ قرار دے سکتے ہیں جنہوں نے حقیقت کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے تم اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہو۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ سب کا مالک ہے سب اس کے مملوک اور غلام۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مقرب فرشتے ہیں۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح انسان سانس لینے سے نہیں تھکتا اسی طرح فرشتے تسبیح کرنے سے نہیں تھکتے۔ وہ ہمیشہ اللہ کی حمد و ثنا کرنے میں زمزمہ سنج رہتے ہیں۔

ان آیات میں ملاء  اعلیٰ کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دربار کس شان کا ہو گا۔ اس سے اللہ کی عظمت کا صحیح تصور بھی قائم ہو جاتا ہے اور تسبیح و عبادت سے گہرا لگاؤ بھی۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین سمجھتے ہیں کہ جو آسمان کا خدا ہے وہ زمین کا تنہا خدا نہیں ہے بلکہ بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا ( دیوتا) ہیں جو زمین کا سارا نظام سنبھالے ہوئے ہیں اور وہی ہیں جو انسان کو نفع اور نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اسی کی تردید میں ان سیہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا تمہارے نزدیک زمین کے خدا اور ہیں ؟ اور کیا یہ خدا تم کو مرنے کے بعد زمین سے دوبارہ کھڑا کر دینے والے ہیں کہ تم ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے اس کے بدلہ میں وہ تم کو انعام سے نوازیں گے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور تم خود یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ یہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھا کھڑا کر دینے والے ہیں تو پھر ان کو پوجنے کا فائدہ؟ مر کر اگر دوبارہ تم کو اٹھنا ہی نہیں ہے تو تمہارے یہ خدا آخر تمہارے کب کام آنے والے ہیں۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر زمین و آسمان میں متعدد خدا ہوتے تو کائنات کا یہ نظام چل نہیں سکتا تھا۔ ہر خدا اپنے اختیارات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا۔ اس صورت میں وہ نظم باقی نہیں رہ سکتا تھا جو اس کائنات میں قائم ہے اور نہ اس کے مختلف اجزاء ایک دوسرے سے موافقت پیدا کر سکتے تھے اور نہ کسی منصوبہ اور ا سکیم کے ساتھ اس کائنات میں کوئی کام انجام پاتا۔ مثال کے طور پر بارش کے لیے زمین سمندر سورج اور ہوائیں سب کی موافقت ضروری ہے ورنہ انسان کو زمین کے گوشہ میں پانی پہنچانے کی یہ ا سکیم رو ہ عمل نہیں آ سکتی۔ اگر یہ چیزیں الگ الگ خداؤں کے تصرف میں ہوتیں تو بارش کا یہ انتظام کس طرح ممکن تھا؟

یہ توحید کی زبردست دلیل ہے اس سے شرک اور الحاد دونوں کی تردید ہوتی ہے۔ اگر یہ کائنات بے خدا ہوتی تو یہ کارخانہ اس باقاعدگی کے ساتھ کس طرح چل سکتا تھا؟

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ مختار کل اور مقتدر اعلیٰ ہے اس لیے اس کے کسی کے آگے جوابدہ ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کے فیصلوں اور اس کے کاموں پر اعتراض کرے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ سب اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اس لیے ہر ہر شخص اس کے حضور جوابدہ ہے جو شخص اپنے کو اس کے حضور جوابدہ نہیں سمجھتا ہو اپنا مقام غلط تجویز کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کے معبود ہونے کا ثبوت ربانی تعلیم میں موجود نہیں ہے آج میرے ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے) ساتھیوں کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ سراسر توحید ہی کی تعلیم ہے اور جو تعلیم اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیروؤں کو دی گئی تھی وہ بھی توحید ہی کی تعلیم تھی۔

واضح رہے کہ مشرکوں کی مختلف مذہبی کتابوں میں متعدد خداؤں اور دیوتاؤں کا جو تصور ملتا ہے تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا فرمان ہے یا کسی رسول کی تعلیم ہے کیونکہ یہ کتابیں اللہ کی نازل کردہ نہیں ہیں بلکہ اہل مذاہب کی مرتب کردہ ہیں۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا مختلف مذاہب میں توحید کے خلاف جو تعلیم بھی پائی جاتی ہے وہ کسی بھی نبی کی تعلیم نہیں ہے ایسی تعلیم اگر کسی نبی کی طرف منسوب کی گئی ہے تو وہ غلط ہے اور اس نبی پر بہتان ہے۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے تھے یہ اس کی تردید ہے فرمایا فرشتے اللہ کی اولاد نہیں بلکہ اس کے معزز بندے ہیں۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کی یہ مجال نہیں کہ اللہ کے آگے بات کرنے میں سبقت کریں مگر تم اس خام خیالی میں مبتلا ہو کہ وہ اللہ کے لاڈلے ہیں جو چاہیں اس سے منوائیں۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتے ان ہی کے حق میں شفاعت کریں گے جن کے حق میں شفاعت کرنا اللہ تعالیٰ منظور فرمائے ، مقصود مشرکین کے اس خیال کی تردید کرنا ہے کہ اگر قیامت برپا ہو ہی گئی تو فرشتے جن کی ہم پرستش کرتے رہے ہیں اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر کے ہمیں عذاب سے بچا لیں گے۔

شفاعت کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۲  اور سورہ مریم نوٹ ۱۱۱۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتے اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے اس کے باوجود اس کی خشیت سے وہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ انسان کے شایان شان بھی یہی ہے کہ وہ یہ ملکوتی صفت اپنے اندر پیدا کرے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کو تم نے خدا بنا دیا ہے ورنہ وہ خدائی کے مدعی نہیں ہیں۔ وہ تو اللہ کی بندگی میں سرگرم رہتے ہیں لیکن بالفرض ان میں سے کوئی خدائی کا دعویٰ کرے تو اس کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا کہ اس جرم کی سزا یہی ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کائنات کی ابتدائی حالت کو بیان کر کے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ کائنات کے بارے میں یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ اس کو جس شکل میں ہم دیکھتے ہیں اسی طرح وہ ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔ اس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ انجام بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات ایک خالق کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہے اور اس کا آغاز یوں ہوا کہ اس نے پہلے ایک مادہ ( دخان) تخلیق کیا ( سورۂ فصلت آیت ۱۱) جو ایک تودے (Mass) کی شکل میں تھا۔ پھر اس مادہ سے زمین اور آسمان ( تمام اجرام فلکی) بنائے۔ گویا زمین و آسمان آغاز میں ملے ہوئے تھے۔ بعد میں الگ الگ ہو گئے۔

جو شخص بھی غور و فکر کرے گا اس پر قرآن کے اس بیان کی صحت واضح ہو گئی کیونکہ اگر کائنات کا مادہ ایک نہ ہوتا تو اس کے مختلف اجزاء کے اندر ہم آہنگی نہیں پائی جا سکتی تھی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتا ہے اور زمین اس کی تپش اور روشنی قبول کر لیتی ہے اور اب تو انسان نے چاند پر پہنچ کر دیکھ لیا کہ وہاں کی زمین بھی ہماری زمین ہی کی طرح مٹی اور پتھر سے بنی ہوئی ہے۔ اور جب حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ایک صناع کی کاریگری ہے تو پھر اس کے تقاضوں سے منہ موڑنا کیا معنی؟

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پانی اصل حیات ہے زندگی جس چیز کو بھی ملی ہے پانی ہی کے ذریعہ ملی ہے اور اس کا وجود پانی ہی کی بدولت قائم ہے عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ پانی کے ایک قطرہ میں جرثومہ حیات موجود ہوتا ہے اور اسی سے انسان اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے۔ حیاتیات (Biology) کی رو سے بھی ایک مائی خلیہ پروٹو پلازم (Proto Plasm) مادۂ حیات ہے جو ہر جاندار مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ کیا زندگی کی یہ حقیقت ایک خدا کی خلاقیت اور اس کی عظیم قدرت کا پتہ نہیں دیتی؟

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان حقیقتوں پر اگر انسان غور کرے تو اس میں ایمان و یقین کی کیفیت پیدا ہو مگر لوگ اس پہلو سے غور کرتے ہی نہیں۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نحل نوٹ ۲۶  میں گزر چکی۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پہاڑوں میں درے بنائے۔ یہ قدرتی راستے ہیں جن کے ذریعہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جانا انسان کے لیے ممکن ہوا۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راہ پانے سے مراد وہ راہ بھی ہے جس پر چل کر انسان اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے اور وہ راہ بھی جس پر چل کر وہ اللہ کو پا لیتا ہے۔ قرآن انسان کے ذہن کو ظاہر سے باطن کی طرف اور مجاز سے حقیقت کی طرف موڑتا ہے یہ اس کی نہایت لطیف اور موثر رہنمائی ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان کے محفوظ چھت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اس خوبی کے ساتھ بنایا گیا ہے کہ اس میں کہیں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ سالہا سال گزرنے کے باوجود وہ اپنی اصل حالت پر قائم ہے اس میں بوسیدہ ہونے کے آثار کبھی پیدا نہیں ہوئے کہ زمین والوں کے لیے اس کے گر جانے کا خطرہ لاحق ہو۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ دور کے ماہرین فلکیات (Astronomers) نے کائناتی شعاعوں (Cosmic) تک کا پتہ چلایا ہے مگر ان کو کائنات کے خالق کا پتہ نہ چل سکا!یہ اس لیے کہ ان کو خدا کی تلاش نہیں ہے۔ در حقیقت خدا کو وہی لوگ پاتے ہیں جن کو اس کی تلاش ہوتی ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ فَلَک استعمال ہوا ہے جس کے معنی عربی میں مدار کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے۔ الفلک: مدارالنجوم” فلک یعنی ستاروں کا مدار” ( لسان العرب ج ۱۰ ص ۴۷۸) آسمان کے معنی میں یہ لفظ نہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اور نہ قدیم عربی میں یہ اس معنی کے لیے معروف تھا۔ بعد میں علم ہیئت کی اصطلاح کے طور پر یہ لفظ آسمان کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے پھر آیت میں یہ لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے اپنے اپنے مدار کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے اور یَسْبَحونَ (تیرتے ہیں) جمع کا صیغہ ہے جو عربی میں دو سے زائد چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے اس لفظ کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ سورج اور چاند ہی نہیں بلکہ تمام اجرام سماوی اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ اجرام سماوی کو جب آدمی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو وہ فضائے بسیط میں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں اس لیے قرآن نے صورتِ واقعہ کو عام فہم انداز میں بیان کر دیا اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سورج چاند ستارے سب حرکت میں ہیں اور وہ اپنا سفر اپنے اپنے دائرہ میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مقررہ دائرہ سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ اس باقاعدگی کے ساتھ ان کا یہ عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمام اجرام فلکی کی باگ ڈور ایک قادر مطلق اور اعلیٰ اقتدار رکھنے والی ہستی کے ہاتھ میں ہے۔

جہاں تک علم ہیئت کا تعلق ہے چاند اور سیاروں کی اپنے اپنے مدار پر گردش ایک معلوم حقیقت ہے۔ رہی سورج اور ستاروں کی گردش تو ان کی محوری گردش سے تو اسے انکار نہیں ہے البتہ ان کی مداری گردش (Orbital Rotation) کے بارے میں موجودہ سائنس ابھی قیاس سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے اس لیے قرآن کی بیان کردہ حقیقتوں کو موجودہ سائنس کے محدود دائرہ میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۸ ) ۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ دنیا میں ہمیشگی کی زندگی کسی کو بھی نہیں بخشی گئی یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس سے عوام کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ حضرت خضر کو دنیا میں دائمی زندگی عطا ہوئی ہے نیز شیعوں کے اس عقیدے کی بھی تردید ہوتی ہے جو وہ اپنے بارہویں امام کے غائب ہو جانے اور ان کے زندہ رہنے کے بارے میں رکھتے ہیں۔

رہا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ تو وہ دنیا میں دائمی زندگی نہیں گزار رہے ہیں بلکہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں اور قربِ قیامت میں جب ان کا نزول ہو گا تو ان کی بھی طبعی موت واقع ہو گی۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مخالفین چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہو جائے تاکہ اس کشمکش سے انہیں نجات مل جائے جو آپ کے اور ان کے درمیان برپا ہو گئی تھی۔ فرمایا اگر پیغمبر کا انتقال ہو جاتا ہے تو یہ کہاں باقی رہنے والے ہیں۔ ایک نہ ایک دن ان کو بھی مرنا ہے اس لیے مرنے کے بعد جس چیز سے سابقہ پیش آنے والا ہے اس کی فکر انہیں ہونی چاہیے اس سے بے پرواہ ہو کر پیغمبر کی موت کے انتظار میں رہنا کسی دانشمندی کا کام نہیں ہو سکتا۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۲۱۵  میں گزر چکی۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا کی زندگی ایک امتحانی زندگی ہے اس لیے موت ہر شخص کے لیے مقدر ہے اسی طرح کسی کا خوش حال یا بدحال ہونا آزمائش ہی کے پہلو سے ہے اور ایک نبی کو بھی بشر ہونے کی حیثیت سے ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کی طرف پلٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اسی نے تم کو دنیا میں بھیجا ہے اور اسی کی طرف تمہیں واپس جانا ہے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے اس کے بر خلاف مشرکین ہند کا مشرکانہ فلسفہ یہ ہے کہ انسان کی روح اس کے مرنے کے بعد خدا میں ضم ہو جاتی ہے۔ فتعالیٰ اللہ عما یُشرِکون۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں ذکر کا لفظ دو الگ معنی میں استعمال ہوا ہے جسے علم بلاغت کی اصطلاح میں تجنیس لفظی کہتے ہیں۔ "کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا ذکر کرتا ہے۔” کا مطلب خداؤں کا برائی کے ساتھ ذکر کرنا ہے اور "ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمن کے ذکر سے منکر ہیں۔” کا مطلب یہ ہے کہ وہ رحمن کا ذکر اچھائی کے ساتھ کرنا پسند نہیں کرتے۔

یہ مشرکین کی نا معقولیت پر تعریض ( طنز) ہے کہ وہ اپنے من گھڑت خداؤں کو اتنا محبوب رکھتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے خواہ وہ کتنی ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو لیکن خدائے رحمن سے جس کی ان پر بے انتہا مہربانیاں ہیں ایسے متنفر ہیں کہ اس کے فضل و کمال کا ذکر ان کے لیے نا پسندیدہ بن گیا ہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلد بازی انسان کی جبلت میں رکھ دی گئی ہے تاکہ اس میں جوش عمل پیدا ہو اور وہ خیر کی طرف تیزی سے بڑھے مگر انسان اس داعیہ (Motive) کا غلط استعمال کر کے شر کی طرف دوڑتا ہے۔ انسان کے غلط فیصلے اور اس کی غیر سنجیدہ باتیں اس کی جلد بازی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں جب کہ انسان چاہے تو اس داعیہ کو قابو میں رکھ سکتا ہے اور اس کا صحیح استعمال کر سکتا ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد عذاب کی نشانیاں ہیں قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی چنانچہ کفار کے لیے عذاب کی نشانیوں کا ظہور ان جنگوں میں ہوا جو انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف لڑیں۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب کی جلدی نہ کرو۔

معلوم ہوا کہ جلد بازی اگر انسان کی جبلت میں داخل ہے مگر اس کے ساتھ اسے یہ صلاحیت بھی بخشی گئی ہے کہ وہ اس پر کنٹرول کرے اور شر کے لیے جلدی نہ مچائے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا وعدہ ہے۔

کافروں کا یہ سوال کہ قیامت کا وعدہ کب پورا ہو گا ان کی جلد بازی کی دوسری مثال ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس وقت تو یہ کافر قیامت کے لیے جلدی مچا رہے ہیں لیکن جب وہ آئے گی تو ان کافروں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیگی۔ اس وقت انہیں توبہ کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہ مل سکے گا۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب کی وعید سنانے پر وہ رسول کا مذاق اڑاتے تھے مگر بالآخر ان پر عذاب مسلط ہو کر رہا۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دن ہو یا رات انسان کی زندگی ہر آن خطرات اور آفات سے گھری رہتی ہے اور وہ خدائے رحمن ہی ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر وہ تمہاری حفاظت کرنے کے بجائے تمہیں گرفت میں لینا چاہے تو کون ہے جو تم پر مہربان ہو گا اور اس کے مقابلہ میں تمہاری حفاظت کرے گا؟

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں خدا کی مہربانیوں کا کوئی احساس نہیں اور وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اس کے فضل و رحمت کا ذکر ہو۔

شرک انسان کو اپنے رب حقیقی کے بارے میں کس قدر غیر حقیقت پسند بنا دیتا ہے !

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر خدا کا عذاب آ گیا تو کیا ان کے یہ معبود ان کو بچا سکیں گے ؟ وہ بچا کیا سکیں گے جب کہ وہ خود اپنے کو بچانے پر قادر نہیں ہیں اور نہ خدا کی تائید ان کو حاصل ہے۔ یہاں اشارہ مشرکین کے ان معبودوں کی طرف ہے جن کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ وہ آفتوں سے انہیں بچا سکتے ہیں۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریش خوشحال بھی تھے اور ان کو سرداری کا اہم مقام بھی حاصل تھا۔ یہ سب کچھ انہیں اللہ ہی کے فضل سے حاصل ہوا تھا لیکن چونکہ ایک زمانہ سے وہ خوشحال اور با اقتدار چلے آ رہے تھے اس لیے وہ خدا سے بے پرواہ ہو گئے تھے۔ مال اور اقتدار کا نشہ انسان کو خدا سے غافل کر دیتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مکہ کے اطراف و جوانب میں اسلام کے اثرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس کے غلبہ کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔

آیت کا اشارہ خاص طور سے مدینہ کی طرف ہے جہاں کے لوگ اسلام قبول کرتے جا رہے تھے۔ گویا مشرکین مکہ کے لیے زمین روز بروز تنگ ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ اس سورہ کے نزول کے چند سال بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینہ میں اقتدار حاصل ہوا اور یہ اقتدار فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ گویا فتح مکہ اس آیت کی ٹھیک ٹھیک تعبیر تھی۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ پیغمبر اور وحی کی آواز کو ہی لوگ سنتے ہیں جو اپنے کان کھلے رکھتے ہیں۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب تو وہ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اگر عذاب کا ایک حصہ ہی انہیں چھولے گا تو وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے اور اپنے خطا کار ہونے کا اعتراف کریں گے۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ قارعہ نوٹ ۶۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن جب کہ انسانوں کا اجتماع ایک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح ہو گا تو فرداً فرداً ہر ایک کا حساب لینا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہ ہو گا اور اس کا حساب بالکل صحیح (Perfect) ہو گا۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا بار بار ذکر ہوا ہے تاکہ ان کی تعلیم اور ان کی سیرت کے مختلف پہلو نمایاں ہوں۔ انبیائی تاریخ کے سنہرے اوراق ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں اور پڑھنے والے اس سے بصیرت حاصل کریں ، منکرین کے شبہات دور ہوں اور وہ یہ محسوس کریں کہ انبیاء علیہم السلام کا وجود ایک تاریخی حقیقت ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ مختلف زمانوں اور ملکوں میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجتا رہا ہے اور خاص بات یہ کہ اہل ایمان ان کا ذکر قرآن میں پڑھ کر ان کی صحبت کا فیض حاصل کریں۔ گویا قرآن جہاں کہیں کسی بنی کا ذکر کرتا ہے قاری کو تھوڑی دیر کے لیے ان مثالی شخصیتوں کی مجلس میں لے جاتا ہے تاکہ ان کی صحبت ان کے لیے روح پرور ثابت ہو۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "فرقان” سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو حق کو باطل سے ممتاز کر کے ان کا فرق نمایاں کرتی تھیں چنانچہ سورۂ مومنون میں ارشاد ہوا ہے : ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسیٰ وَاَخَاہُ ہٰرُوْنَ بایَاتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُبِیْنٍ۔ (المؤمنین۔ ۴۵) "پھر ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ بھیجا”

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "ضیاء” ( روشنی) سے مراد ہدایت کی روشنی ہے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "ذکر” ( یاد دہانی) سے مراد تورات ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت ہارون چونکہ حضرت موسیٰ کی درخواست پر نبی اور ان کے وزیر بنائے گئے تھے اس لیے اس عنایت میں ان کو بھی شریک کر لیا گیا۔

یہ یاد دہانی عملاً متقیوں ( خدا سے ڈرنے والوں) ہی کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ جو لوگ خدا سے ڈرنا نہیں چاہتے تھے وہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا سے بے دیکھے ڈرنا متقیوں کا بہت بڑا وصف ہے جو لوگ خدا سے ڈرنے کے لتے یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ پہلے دکھائی دے انہوں نے نہ خدا کی شان کو سمجھا ہے اور نہ اپنی اس حیثیت کو کہ وہ امتحان گاہ میں کھڑے کر دئیے گئے ہیں اور آزمائش اس بات کی ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لیکر اور داخلی اور خارجی ( انفس و آفاق کی) نشانیوں کی مدد سے نیز وحی الٰہی کی رہنمائی اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کو پہچانتے ہیں یا نہیں ؟

اس سیہ بات بھی واضح ہوئی کہ خدا کو ریاضتوں کے ذریعہ دیکھنے کی کوشش بالکل بے سود ہے اور اس طریقہ سے انحراف ہے جو اس آزمائشی زندگی میں انسان کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "رُشدَہ” ( اس کا رشد) استعمال ہوا ہے رشد کے معنی سمجھ بوجھ کے بھی ہیں اور دینی ہدایات کے بھی۔ حضرت ابراہیم کو ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے اٹھانا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے مقام کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی سنجیدگی، ہوش مندی اور فہم و فراست عطا ء کی تھی اور ان صلاحیتوں کی بنا پر انہوں نے نبوت سے بہت پہلے توحید کی راہ کو پا لیا تھا اور وہ ایک راست رو انسان تھے۔ پھر جب انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا تو وہ توحید کے علم بردار اور ہدایت کے مینار بن گئے۔

اللہ تعالیٰ کا ابراہیم پر جو فضل و کرم ہوا وہ علم کی بنیاد پر ہوا اس کی نگاہِ انتخاب بالکل صحیح تھی اور ابراہیم ان عنایتوں کے پوری طرح اہل قرار پائے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبوت سے سرفراز ہو جانے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو بت پرستی کی گمراہی سے نکالنا چاہا اس سے پیش نظر انہوں نے بت پرستی کی کھلی مذمت کی۔

موجودہ دور کا سیکولر ذہن تو بت پرستی کے معاملہ میں بھی رواداری کا قائل ہے اور کسی تنقید کو پسند نہیں کرتا مگر انبیاء علیہم السلام کا مقصدِ بعثت ہی لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا اور انہیں عذاب جہنم سے بچانا ہوتا ہے اس لیے وہ شرک پر جو ناقابل معافی گناہ ہے ضرب کاری لگاتے ہیں۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی ایک دو ٹوک بات تھی جو ابراہیم علیہ السلام نے سنائی۔ مورتی پوجا اگر باپ دادا کرتے رہے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان کا طرز عمل صحیح تھا۔ اگر باپ دادا نے جہالت برتی ہو تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اولاد بھی جہالت برتے۔

مگر آج کے سائنسی دور میں بھی کتنی ہی قومیں اسی جہالت میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنے مشرکانہ کلچر سے اس لیے وابستہ ہیں کہ یہ ان کو قومی ورثہ میں ملا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بت خدا نہیں ہیں بلکہ خدا وہ ہے جو کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اس میں یہ دلیل مضمر ہے کہ یہ بت اور یہ دیوی دیوتا جب کائنات کے نہ خالق ہیں اور نہ مالک تو وہ خدا کس طرح ہوئے ؟

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں گواہی اعلان کے معنی میں ہے۔ یعنی میں اپنے اس عقیدۂ توحید کا تمہارے سامنے اظہار و اعلان کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے اس کی شہادت دینے پر مامور ہوں۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام بتوں کے خلاف جو اقدام کرنا چاہتے تھے اس کی طرف انہوں نے پیشگی اشارہ کر دیا تھا کہ لوگ آگاہ رہیں اور یہ ان کی کمالِ جرأت تھی۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم نے ایک دن موقع پا کر جب کہ لوگ کسی تہوار کے سلسلہ میں باہر گئے ہوئے تھے مندر میں داخل ہو کر تمام بتوں کو توڑ دیا۔ صرف بڑے بت کو رہنے دیا۔ تاکہ لوگ اس "لال بجھکڑ” سے پوچھیں کہ یہ کاروائی کس نے کی ہے ؟ اور جب یہ کوئی جواب نہ دے سکے تو لوگوں پر ظاہر ہو جائے کہ یہ بت بے جان پتھر ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔

یہ ایک عظیم دعوتی مصلحت تھی جس کے لیے انہوں نے بت شکنی کی یہ کارروائی کی تھی۔ اور یہ کارروائی بھی انہوں نے اس وقت کی جب کہ وہ توحید کی دعوت کو بدلائل پیش کر چکے تھے جس کی تفصیل سورۂ انعام آیت ۷۴  تا ۸۱  میں گزر چکی۔ اگر ان کے پیش نظر محض توڑ پھوڑ ہوتی تو وہ کسی بت کو باقی نہ رکھتے بلکہ بڑے بت کو سب سے پہلے ختم کر دیتے۔

ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ دوسروں کے بتوں کو توڑنے کا ان کو کیا حق تھا؟ تو یہ سوال ایک نبی کی حیثیت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ ہی میں پیدا ہو سکتا ہے۔ نبی اللہ کا بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ اور اس کو وحی کے ذریعہ براہ راست احکام ملتے ہیں اور اس کی براہِ راست رہنمائی کی جاتی ہے اس لیے اس کو خدا کے حکم کی تعمیل کرنا ہوتی ہے خواہ وہ کسی قوم یا سماج کے مروجہ طور طریقہ یا قانون کے خلاف ہی کیوں نہ ہو وہ انسانی حقوق پر خدا کے حق کو مقدم سمجھتا ہے اور ہر ایک منکر کو مٹانے کے لیے اگر رواجی قانون کو توڑنا پڑتا ہے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ تو شرک جیسے عظیم منکر کو مٹانے کے لیے کیا تھا اس لیے ان کا یہ کام قابل تعریف ہے نہ کہ قابل اعتراض چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اقدام کو رشد و ہدایت کا نتیجہ قرار دیا۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگ میلے سے لوٹے تو مندر میں اپنے بتوں کی بری گت دیکھ کر ان کو تعجب ہوا اور سخت غصہ کا اظہار کرنے لگے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ حضرت ابراہیم جوان تھے اور جوانی ہی میں ان کو نبوت عطا ہوئی تھی۔

حضرت ابراہیم بت پرستی کے خلاف کہتے تھے اس لیے بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھ کر لوگ سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو یہ ابراہیم ہی کا کام ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ابراہیم کو عوام و خواص کے سامنے آنے اور اپنی دعوت کو پیش کرنے کا موقع ملا۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان بتوں میں جو سب سے بڑا ہے اس نے یہ حرکت کی ہے۔ اگر بت بولتے ہیں تو ان ہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟

یہ بتوں کی بے بسی پر بھر پور طنز تھا۔ جب وہ خود اپنا بچاؤ نہیں کر سکے تو اپنے پرستاروں کا کیا بچاؤ کر سکتے ہیں ؟ اگر ان میں گویائی کی قوت ہے تو ان سے پوچھ لو کہ یہ حرکت کس نے کی ہے اور اگر وہ قوت گویائی نہیں رکھتے تو ثابت ہوا کہ وہ بے جان پتھر ہیں پھر وہ خدا کیسے ہوئے ؟

بتوں کے بے حقیقت ہونے ہی کو محسوس کرانے کی غرض سے ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑنے کا اقدام کیا تھا اور اسی مقصد کے پیش نظر انہوں نے اس کاروائی کی نسبت بڑے بت کی طرف کر دی تھی۔ یہ طرز کلام علمِ معانی کی اصطلاح میں تعریض یعنی طنز کہلاتا ہے جو کسی گمراہی پر ضرب لگانے اور غافل انسان کو چونکا دینے کا نہایت موثر ذریعہ ہے۔ مگر جن لوگوں میں سخن فہمی نہیں ہوتی وہ الفاظ کو پکڑ لیتے ہیں اور اعتراض کرنے لگتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے اس لا جواب کر دینے والے جواب کو بھی جھوٹ پر محمول کیا گیا۔ گویا حضرت ابراہیم نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ انہوں نے بتوں کو توڑا ہے۔ اگر ان کا منشاء انکار کرنا ہی ہوتا تو وہ صاف صاف کہہ دیتے کہ میں نے بتوں کو نہیں توڑا ہے اور مجھ پر یہ الزام غلط ہے مگر انہوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی اور جو کچھ کہا اس کو بھی مخالفین نے جھوٹ پر محمول نہیں کیا بلکہ وہ سمجھ گئے کہ حضرت ابراہیم منطقی بات کر رہے ہیں اس لیے انہوں نے جواب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ بت بولتے نہیں اور جب انہوں نے یہ اعتراف کیا تو حضرت ابراہیم کو بتوں کی بے بسی واضح کرنے اور بت پرستی کے خلاف حجت قائم کرنے کا موقع مل گیا۔

رہی وہ حدیث جس میں ابراہیم کی طرف تین جھوٹ منسوب کئے گئے ہیں جن میں سے ایک جھوٹ ان کے اس بیان کو قرار دیا گیا ہے بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُہُمْ ہٰذاً بلکہ ان کے اس بڑے بت نے ان کو توڑا ہے” تو یہ حدیث بخاری مسلم اور ترمذی وغیرہ میں بیان ہوئی ہے اور علماء نے اس کی مختلف تاویلیں کی ہیں مگر امام رازی نے بڑے پتے کی بات کہی ہے : "رہی پہلی روایت کردہ حدیث تو جھوٹ کو اس کے راویوں کی طرف منسوب کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اُسے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کیا جائے۔”اور مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی بالکل صحیح لکھا ہے۔

"عام طور پر مفسروں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین موقعوں پر ایسی بات کہی جس پر بظاہر جھوٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس میں سے ایک موقع یہ ہے جب ان سے پوچھا گیا وَأ اَنْتَ فَعَلتَ ہذا کیا تو نے بتوں کو توڑا ہے ؟ تو انہوں نے کہا بَلْ فَعَلَہٗ کبیر ہم ہٰذا بلکہ اس بڑے بت نے ایسا کیا ہے حالانکہ فی الحقیقت فعل خود انہی کا تھا۔

اس بارے میں استدلال صحاح کی ایک روایت سے کیا جاتا ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں اس مقام پر تدبر کرنا چاہیے کہ کیا فی الحقیقت یہاں کوئی ایسا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا ثابت ہوتا ہے ؟ خواہ وہ جھوٹ کسی درجہ اور کسی نوعیت کا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کی تاریخ کی بوالعجبیوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ناقابل توجہ بوالعجبی نہیں قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے اصدق الصادقین کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو۔ لیکن بہ تکلف ایک آیت کو توڑ مروڑ کر ایسا بنایا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ بولنے کی بات بن جائے اور اثبات کذب کی یہ نا مبارک کوشش کیوں کی جا رہی ہے ؟ صرف اس لیے کہ ایک مزعومہ حدیث موجود ہے۔ پس کہیں یہ قیامت نہ ٹوٹ پڑے کہ اس کے غیر معصوم راویوں کی روایت کمزور مان لینی پڑے۔ گویا اصل اس باب میں غیر معصوم راویوں کا تحفظ ہے نہ کہ معصوم رسولوں کا اور اگر قرآن میں اور کسی روایت میں اختلاف واقع ہو جائے تو قرآن کو روایت کے مطابق بننا پڑے گا۔ راوی کی شہادت اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہل سکتی”(ترجمان القرآن ج ۲ ص ۴۹۵) روایت پرستی پر مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ طنز بالکل بر محل ہے : آگے چل کر لکھتے ہیں :

"بلا شبہ روایت صحیحین کی ہے لیکن اس تیرہ سو برس کے اندر کسی مسلمان نے بھی راویان حدیث کی عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے نہ امام بخاری و مسلم کو معصوم تسلیم کیا ہے۔ پس انبیاء کرام کی سچائی اور عصمت یقینیات دینیہ و تقلید میں سے ہے۔

روایات کی قسموں میں سے کتنی ہی بہتر قسم کی کوئی روایت ہو بہر حال ایک غیر معصوم روایت کی شہادت سے زیادہ نہیں اور غیر معصوم کی شہادت ایک لمحہ کے لیے بھی یقینیات دینییہ کے معاملہ میں تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں مان لینا پڑے گا کہ یہ اللہ کے رسول کا قول نہیں ہو سکتا۔ یقیناً یہاں راویوں سے غلطی ہوئی ہے۔” ( ایضاً ص ۴۹۹)

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا جواب الزامی حجت کا تھا اس لیے اس پر جھوٹ کا اطلاق کسی طرح بھی صحیح نہیں اور جب حدیث خواہ وہ بخاری اور مسلم ہی کی کیوں نہ ہو قرآن کے بیان کے خلاف ہے اور اس سے ایک نبی کی عصمت پر حرف بھی آتا ہے تو وہ حدیث رسول ہو ہی نہیں سکتی اس لتے یہ روایت اپنے متن کے اعتبار سے قابل رد ہے۔ رہی اس کی اسناد تو اس میں بھی کلام کی گنجائش ہے امام بخاری نے اس حدیث کو موقوفاً اور مرفوعاً بیان کیا ہے۔ موقوفاً کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے اس کو ارشاد رسول کے طور پر پیش نہیں کیا اور مرفوعاً کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد بتلایا۔ (ملاحظہ ہو بخاری کتاب احادیث الانبیاء)

پھر جو روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے طور پر بیان ہوئی ہے اس کا ایک راوی جریر بن حازم ہے اور جریر بن حازم کے ثقہ ہونے کے بارے میں محدثین کے درمیان اختلاف ہے۔ علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں جو اسماء الرجال کی مشہور اور مستند کتاب ہے دونوں طرح کے اقوال نقل کئے ہیں۔ مثال کے طور پر ابن سعد کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں مگر آخری عمر میں انہیں دماغی عارضہ ہو گیا تھا۔ نسائی کہتے ہیں ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں امام احمد کہتے ہیں جریر بہت غلطیاں کر جاتے ہیں۔ مصر میں تو ان کا حافظہ ٹھیک نہیں رہا تھا اور وہم کی بنا پر بیان کرنے لگے تھے۔ (ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ج ۲ ص ۶۹ تا۷۲) اور امام ذہبی نے امام بخاری کا اپنا یہ قول نقل کیا ہے کہ جریر بن حازم کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں (ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ج ۱ص۳۹۳)

واضح ہوا کہ اس حدیث کی اسناد میں علت ہے اور اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف صحیح نہیں۔ مگر جن لوگوں کو اس کی صحت پر اصرار ہے وہ اس کی تائید میں بخاری ہی کی شفاعت والی حدیث پیش کرتے ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ پریشان ہو کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے شفاعت کے درخواست کریں گے تو وہ اپنا یہ عذر پیش کریں گے کہ مجھ سے تین جھوٹ صادر ہو گئے تھے۔ بخاری کتاب التوحید) اور جھوٹ کی توجیہ یہ حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ یہ تعریض ( طنز) تھی۔ مگر یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ تعریض تھی تو حضرت ابراہیم نے ایک خوبی کی بات کی تھی اس میں ان کا قصور کیا تھا جس کا حوالہ دیکر وہ قیامت کے دن شفاعت سے معذرت کریں گے ؟ایک طرف حضرت ابراہیم کے قول کو بلاغت و معانی پر محمول کرنا اور دوسری طرف ان کو قصور وار قرار دینا بالکل متضاد باتیں ہیں اس لیے حضرت ابراہیم کی طرف جھوٹ کی نسبت کسی طرح صحیح نہیں۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تھوڑی دیر کے لیے ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اور یہ بات وہ ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہنے لگے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر ان میں عصبیت لوٹ آئی اور ان کی عقل اوندھی ہو گئی۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی بت پرستی کے خلاف سب سے بڑی حجت جس کو پیش کرنے کا موقع ابراہیم علیہ السلام کو ملا۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی جب کہ لوگوں پر بت پرستی کے خلاف حجت قائم ہو گئی تھی اور یہ بات بھی ان کے مشاہدہ میں آ گئی تھی کہ بت نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں کیونکہ اگر ان میں نقصان پہنچانے کی کوئی قدرت ہوتی تو وہ حضرت ابراہیم کو بت شکنی پر نقصان پہنچاتے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ بت پرستی سراسر بے عقلی ہے۔ عقل سے کام لینے والا کبھی بت پرستی ہو ہی نہیں سکتا۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے والے مذہبی پیشوا اور مندر کے پروہت رہے ہوں گے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر بتوں کے ان پرستاروں نے ابراہیم کو آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے حق میں ٹھنڈی ہو جائے اور سلامتی کا باعث بن جائے۔ یہ ایک معجزہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے حق میں ظاہر فرمایا۔ اس میں کوئی بات خلاف عقل نہیں ہے۔ آگ میں جلانے کی خصوصیت اس کے خالق ہی کی پیدا کردہ ہے اگر وہ اس کی یہ خصوصیت سلب کرنا چاہے اور کوئی دوسری خصوصیت اس میں پیدا کرنا چاہے تو کیا ایسا کرنے پر وہ قادر نہیں ؟ اشیاء کے طبعی خواص ان کے ذاتی خواص نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیدا کردہ ہیں اور جب اس کے پیدا کردہ ہیں تو وہ جس چیز کی خاصیت جب چاہے تبدیل کر سکتا ہے تعجب ان لوگوں کو ہوتا ہے جو یا تو خدا کو مانتے نہیں ہیں یا مانتے ہیں تو اس کے قادر مطلق ہونے پر ان کو یقین نہیں ہوتا۔

ویسے موجودہ زمانہ میں تو آگ سے محفوظ رکھنے والی (Fire Proof) چیزیں بھی ایجاد ہو گئی ہیں۔ اب اگر انسان یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ خدا نے اپنے ایک خاص بندہ کے حق میں آگ کو بے اثر بنا دیا تھا؟ یہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی نصرت تھی جو حضرت ابراہیم کے حق میں ظاہر ہوئی جب کہ وہ توحید کے علمبردار بن کر کافروں کی سلگائی ہوئی آگ میں بے خطر کود پڑے تھے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ابراہیم کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ اس کے خلاف سازش کرنے والے ہی ناکام و نا مراد ہوئے۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے حضرت ابراہیم پر ان کی قوم میں سے ایمان لانے والے صرف حضرت لوط تھے اس لیے مذکورہ واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ہجرت کا حکم دیا چنانچہ وہ ہجرت کر کے فلسطین پہنچے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد فلسطین کی سرزمین ہے جو دینی اور دنیوی دونوں برکتوں سے مالا مال ہے۔ دینی برکتوں سے اس طرح کہ حضرت ابراہیم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہ کثرت انبیاء علیہم السلام کا وہ مسکن قرار پائی اور دنیوی برکتوں سے اس طرح کہ یہ خطہ بڑا زر خیز اور شاداب ہے۔

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ صرف اسحاق جیسا بیٹا عطا کیا بلکہ یعقوب جیسا پوتا بھی۔ یہ خاندان ابراہیمی کے چشم و چراغ تھے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ شخصیتیں اپنے کردار کے لحاظ سے نہایت پاکیزہ تھیں۔ اس سے بائبل کی ان باتوں کی تردید ہوتی ہیں جو ان کے کردار کو داغدار بناتی ہیں۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ انسانوں کے سچے قائد تھے کیونکہ وہ ان کو خدا کی راہ دکھاتے اور اس کے حکم کے مطابق رہنمائی کر تے تھے۔ جن لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی راہ یاب ہو گئے۔

ان کی قیادت کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ وہ نہ خود لیڈر بنے تھے اور نہ انہیں لیڈری کا شوق تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قائد اور امام بنایا تھا اور ان کی زیر قیادت امتیں برپا ہوئیں۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر کے کامو ں کا جامع حکم دینے کے ساتھ اقامت الصلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا حکم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں خیر کے سر چشمے ہیں۔ ان کے اہتمام سے بھلائیاں پرورش پاتی ہیں۔

اس آیت سیہ بھی واضح ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ انبیاء علیہم السلام کی شریعت کے اہم ارکان رہے ہیں۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "حکم” ( حکمت) سے مراد دانش مندی ہے اور علم سے مراد وہ علم ہے جو وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ہم جنسی جیسے گھناؤنے کام ہیں قوم لوط کا قصہ سورہ اعراف (آیت ۸۰ تا ۸۴) سورۂ ہود آیت ( ۷۷ تا ۸۳) اور سورۂ حجر آیت ( ۶۱ تا۷۷) میں گزر چکا۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات ہے جو یہاں خاص طور سے واضح کرنا مقصود ہے یعنی اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے پیغمبروں کی مدد فرماتا رہا ہے۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انبیاء علیہم السلام کا اولین وصف ان کا صالح ہونا ہے مگر موجودہ تورات اور بائبل میں ناروا باتیں ان کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں جن سے ان کی سیرت داغ دار نظر آتی ہے۔ قرآن ان کی صالحیت کا اعلان کرتا ہے جس سے ان الزامات کی آپ سے آپ تردید ہوتی ہے۔

حضرت لو ط پر ایک بہت ہی شرمناک الزام بائبل کی کتاب پیدائش (۱۹:۳۲ تا ۳۸) میں لگایا گیا ہے اور یہ اتنا لغو ہے کہ اس کو نقل کرنا طبیعت پر سخت گراں ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی سرگزشت سورۂ اعراف ( آیت ۵۹ تا ۶۴) سورۂ یونس ( آیت ۷۱ تا ۷۳) سورۂ ہود ( آیت ۱۵ تا ۴۹) میں گزر چکی۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی دعا سورۂ قمر آیت ۱۰  اور سورۂ نوح آیت ۲۶  تا ۲۸  میں مذکور ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سخت تکلیف ( کرب عظیم) سے مراد کافرانہ اور مخالفانہ ماحول کی گھٹن بھی ہے اور وہ عذاب بھی جو اس قوم پر آیا۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہاں یہی واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد حضرت یعقوب کی نسل سے تھے ان کا زمانہ دسویں صدی قبل مسیح کا ہے وہ نبی بھی تھے اور خلیفہ بھی ان پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا نام زبور تھا۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان حضرت داؤد کے فرزند تھے۔ نبوت کے ساتھ انہیں عظیم الشان اور بے نظیر حکومت عطا ہوئی تھی۔ دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۲۰

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مقدمہ کی کوئی تفصیل قرآن نے بیان نہیں کی بلکہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر دیا جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کافی تھا۔

آیت سے جو بات مجملاً معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد اور ان کے فرزند حضرت سلیمان علم و حکمت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے ایک مرتبہ ان کی عدالت میں جس میں دونوں جج کی حیثیت سے موجود تھے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ رات کے وقت ایک فریق کی بکریوں نے دوسرے فریق کے کھیت میں گھس کر پیداوار کو نقصان پہنچایا تھا اس لیے اس نے پہلے فریق کے خلاف نقصان کی تلافی کا دعویٰ کیا حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے کمال درجہ کی فہم و فراست عطا کی تھی اس لیے انہوں نے بہترین فیصلہ سنایا۔ اس سلسلے میں قرآن نے نہ تو یہ وضاحت کی ہے کہ وہ فیصلہ کیا تھا اور نہ یہ کہا کہ داؤد کا فیصلہ غلط تھا اور نہ ہی کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں کچھ منقول ہے۔ پھر اٹل پچو باتیں ان نبیوں کی طرف کیوں منسوب کی جائیں۔

قرآن نے اس قضیہ کا جو حوالہ دیا تو اس سے مقصود دراصل یہ واضح کرنا ہے کہ ان نبیوں پر اللہ کا یہ فضل ہوا کہ اس نے انہیں اقتدار بخشا اور کرسیٔ عدالت پر بٹھا کر ان کے فصل مقدمات کی کاروائی کی نگرانی اللہ تعالیٰ فرماتا رہا یہاں تک کہ جب ایک مقدمہ میں داؤد کو اشکال پیش آیا تو سلیمان کو اس کی سمجھ عطا کی گئی۔ واضح ہوا کہ معاملہ فہمی اور اصابت رائے اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے۔

داؤد اور سلیمان دونوں باپ بیٹے تھے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور علم سے نوازا تھا لیکن بیٹا اللہ کی توفیق سے معاملہ فہمی میں ایک قدم آگے ہی تھا اور اپنے باپ کا معاون بن گیا تھا۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ بخشا تھا کہ جب وہ تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ہم نوا بن جاتے اور عجیب سما بندھ جاتا۔

حضرت داؤد کو زبور کے ساتھ ایک خاص لحن بھی عطا ہوا تھا۔

پہاڑ جمادات میں سے ہیں اور ان کا تسبیح کرنا بظاہر عجیب سا معلوم ہوتا ہے مگر جو خدا عجائبات کا خالق ہے اس نے اگر پیغمبر کے ہاتھ سیہ معجزہ صادر کر دیا ہو کہ اس کی پاکی کی صدائیں پہاڑ بھی بلند کرنے لگیں اور اس کی حمد و ثنا کی گیت پرندے بھی گانے لگیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ یہ واقعہ تو معجزہ کی بناء پر محسوس شکل میں پیش آیا ورنہ قرآن تو بار بار یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی تسبیح و تحمید میں لگا ہوا ہے مگر انسان اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ ( سورۂ بنی اسرائیل: ۴۴)

کسی نے خوب کہا ہے

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرہ کا دل چیریں

مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ذرے کا دل چیریں تو اس میں سے تسبیح ہی کی صدا بلند ہو گی۔ اس حقیقت کے پیش نظر پہاڑوں اور پرندوں کا تسبیح خداوندی میں حضرت داؤد کا ہمنوا بن جانا ایمان و یقین میں اضافہ کا موجب ہے۔ اس کی تاویل وہی لوگ کرتے ہیں جو ایک معجزہ کی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس معجزہ کا صدور تو حضرت داؤد کے ہاتھ سے ہوتا تھا لیکن در حقیقت اس کو وقوع میں لانے والا اللہ ہی تھا۔ اسی کے حکم سے پہاڑ اور پرند تسبیح پڑھنے لگ جاتے تھے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہنی لباس یعنی زرہ بنانے کا فن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو سکھایا نیز ان کو یہ معجزہ بھی عطا کیا تھا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں نرم ہو جاتا تھا (سورہ سبا آیت ۱۰ ) اس زمانہ میں زرہ کی بڑی جنگی اہمیت تھی۔ اور یہ چیز جہاد میں ان کے لیے بڑی کار آمد ثابت ہوئی گویا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے نصرت الٰہی تھی۔

بعد میں ذرہ کا یہ فن عام ہوا اور تحفظ کے لیے اسے جنگوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ گویا حضرت داؤد کے واسطے سے انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے۔ اس لئے یہاں یہ سوال قائم کیا گیا ہے کہ کیا تم اس پر اللہ کے شکر گزار ہو۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برکتوں والی سرزمین سے مراد فلسطین اور شام کا علاقہ ہے۔ حضرت سلیمان پر اللہ کا ایک خاص فضل یہ ہوا کہ تیز ہوا ان کی خدمت میں لگا دی گئی تاکہ ان کا سفر بڑی سرعت کے ساتھ طے ہو۔ اس کی شکل کیا تھی ہمیں نہیں معلوم، ہو سکتا ہے وہ اپنی کرسی کے ساتھ ہوا میں اڑتے ہوں جیسا کہ مفسرین کا خیال ہے۔ بہر صورت یہ ایک غیر معمولی بات تھی اور اللہ کی طرف سے معجزہ تھا جو اس نے اپنے نبی کے لیے ظاہر فرمایا اس میں خلاف عقل کوئی بات نہیں تھی۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو راتوں رات مکہ سے بیت المقدس کا سفر کرایا گیا تو حضرت سلیمان کا ہوا کے دو ش پر سوار ہو کر اڑنا کیوں خلاف عقل قرار پائے ؟اور موجودہ زمانے کا انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ہزار ہا میل کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر سکتا ہے تو اللہ کا ایک نبی اس کے کرشمۂ قدرت سے فضائی سفر کیوں نہیں کر سکتا؟

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیاطین سے مراد سرکش جن ہیں اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی سرکش جنوں کو حضرت سلیمان کا تابع کر دیا تھا تاکہ وہ ان سے اپنے کام لیں جو محنت شاقہ کے بغیر انجام نہیں دیئے جا سکتے تھے مثلاً سمندروں سے جواہرات نکالنا، کرین کے بغیر بڑے بڑے پتھر منتقل کرنا اور شاندار عمارتیں تعمیر کرنا وغیرہ۔

واضح رہے کہ ان غیر معمولی وسائل کو حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر جنگی ضروریات کی تکمیل اور اسلامی ریاست کے استحکام کیلئے استعمال کیا تھا۔

یہ بھی واضح رہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کا زمانہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا۔ حضرت داؤد کے زمانہ میں خوب فتوحات ہوئیں اور حضرت سلیمان کے زمانہ میں ایک وسیع اور شاندار اسلامی سلطنت قائم ہوئی جو اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے بالکل بے مثال تھی اس طرح یہ اس فضیلت کا اتمام تھا جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقوام عالم پر عطا کی تھی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو یہ شرف بخشا کہ اس کے ایک فرد کی حکومت جنوں پر بھی قائم ہوئی۔ اور اللہ کی حکمتوں اور مصلحتوں کو وہی بہتر جانتا ہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایوب علیہ السلام نبی تھے اور ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ ان کی طرف ایک صحیفہ بائبل میں منسوب ہے مگر اس میں اصلی واقعہ کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور ایسی باتیں حضرت ایوب کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو منصب نبوت کے شایان شان نہ ہونے کی بنا پر لائق اعتبار نہیں ہیں نیز اس میں بیان کا تضاد پایا جاتا ہے البتہ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کا زمانہ حضرت موسیٰ سے پہلے رہا ہو گا وہ عوض کے رہنے والے تھے جو فلسطین کے مشرقی جانب ادوم (Edom) کے شمال مشرق میں واقع تھا۔ (ملاحظہ ہو ایوب ۱:۱ اور نوحہ۴:۲۱)

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ایوب سخت بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔ انہوں نے شدید تکلیف کے باوجود شکایت کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالا بلکہ پیکر صبر بن گئے اور اللہ سے رحم کی درخواست کی تو وہ بھی اس لطیف پیرایہ میں کہ تو ارحم الراحمن ہے جو سر تا سر حمد تھی۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مختلف آزمائشوں سے گزارا ہے کسی کو شان و شوکت عطا کر کے جیسا کہ حضرت سلیمان کے ساتھ معاملہ ہوا اور کسی سے وسائل چھین کر اور اسے بیماری میں مبتلا کر کے جیسا کہ حضرت ایوب کے ساتھ ہوا۔ تاکہ انبیاء کی مثال زندگی کے مختلف نمونے لوگوں کے سامنے رہیں اور وہ نرم و گرم ہر طرح کے حالات میں ان کے اسوہ کی پیروی کریں۔

اس سیہ بھی واضح ہوا کہ انبیاء علیہم السلام اگرچہ اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی تکلیف دور کرنے پر قادر نہیں ہوتے بلکہ اللہ ہی سے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اور وہی ان کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور جب کوئی نبی اپنی تکلیف کو دور نہیں کر سکتا تو وہ دوسروں کی تکلیف کو کیا دور کر سکتا ہے پھر خدا کو چھوڑ کر کسی نبی کو فریاد کے لیے پکارنے میں کیا تُک ہے۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی صورت پیش آئی تھی کہ حضرت ایوب کے اہل و عیال بچھڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان کی دعا قبول کی اور انہیں صحت یاب کیا تو ایسے اسباب کر دیئے کہ ان کے اہل و عیال بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہوا کہ ان کے اہل و عیال میں مزید اتنی ہی تعداد کا اضافہ ہوا یعنی مزید بیوی بچے ملے۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اللہ ہی کی عبادت کرتے اور اس کے بندے بن کر رہتے ہیں وہ حضرت ایوب کے اس واقعہ سیہ سبق حاصل کریں کہ نیک لوگ بعض مرتبہ ایسی آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں کہ انہیں اپنی صحت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور ان کے بال بچے بھی بچھڑ جاتے ہیں ایسے حالات میں صبرِ ایوب ان کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۷۷۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذوالکفل کا ذکر قرآن نے صبر کرنے والے انبیاء علیہم السلام میں کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا تھا۔ ان کے بارے میں کوئی تفصیل نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ حدیث میں رہی بائبل تو اس میں اس نام سے کسی نبی کا ذکر نہیں ملتا البتہ حزقیل نبی کے نام سے ایک صحیفہ موجود ہیں جنہیں بخت نصر کے زمانہ میں ابتلاء سے گزرنا پڑا تھا اس لیے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ذوالکفل حزقیل ہی کا لقب رہا ہو گا۔ عراق میں الحلیہ سے قریب الکفل کے نام سے ایک مقام ہے جہاں حضرت حزقیل کی قبر بتائی جاتی ہے مگر اس سلسلہ میں ہمیں کوئی علمی شہادت نہیں ملی اس لیے توقف ہی بہتر ہے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذوالنون کے معنی ہیں مچھلی والے۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کا لقب ہے۔ اور اس امتیازی لقب سے وہ اس لیے نوازے گئے کہ انہیں مچھلی نے نگل لیا تھا اور بعد میں انہیں زندہ اگل دیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۱۴۷)

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضر ت یونس کو نینوا کی قوم کی طرف بھیجا گیا تھا۔ وہاں وہ ایک عرصہ تک دعوت پیش کرتے رہے لیکن جب لوگ ایمان لانے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تو وہ برہم ہو کر وہاں سے چل دیئے کہ ایسی جاہل قوم کو کب تک سمجھاتے رہیں گے۔ انہوں نے سمجھا کہ جو قدم انہوں نے اٹھایا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہیں ہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر گرفت کی کیونکہ ایک نبی کے لتے یہ روانہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر اس قوم کو چھوڑ کر چلا جائے جس کو پیغام پہنچانے پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ حضرت یونس کی نظر سیہ پہلو اوجھل رہ گیا اور ان سے لغزش ہو گئی مگر چونکہ یہ لغزش ایک نبی سے اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملہ میں ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت آزمائش میں ڈال دیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب وہ نینوی سے ساحل سمندر پہنچے اور یافا جانے کے لیے کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس زمانہ میں یروشلم کے لیے قریبی بندرگاہ یافا تھی جو بحر روم کے ساحل پر تھی۔ تو کشتی طوفان کی زد میں آ گئی اور حضرت یونس کو ایک بڑی مچھلی نے اللہ کے حکم سے نگل لیا۔ ( تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہوا ہے۔)

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مچھلی کے پیٹ سے پکارا جہاں تاریکیاں ہی تاریکیاں تھیں ایک تو مچھلی کے پیٹ کی تاریکی مزید سمندر کی تہوں کی تاریکیاں۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس پر جو کچھ بیتی ہو گی اس کا تصور بھی مشکل ہے اس کے باوجود کوئی حرف شکایت ان کی زبان پر نہیں آیا۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ سے جو فریاد کی وہ سر تا سر اللہ کی حمد و ثنا اور اپنے قصور کے اعتراف پر مشتمل ہے۔ مچھلی کے پیٹ میں بھی انہوں نے توحید ہی کی صدا بلند کی اور اس کی پاکی بیان کرتے ہوئے اپنے قصور کا سخت سے سخت الفاظ میں اعتراف کیا۔ ان کا یہ اخلاص اور ان کی یہ انابت ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعا دل سے نکلی تھی اور عجز و نیاز میں ڈوبی ہوئی تھی اس لیے تاریکیوں کو چیرتی ہوئی عرش تک پہنچ گئی اور بارگاہ خداوندی میں قبولیت اختیار کر گئی۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ مچھلی نے انہیں ساحل پر زندہ اگل دیا۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ مثال ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ اگرچہ اہل ایمان کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی آزمائش ہی کی زندگی ہے لیکن جب اہل ایمان ان آزمائشوں میں پورے اترے ہیں تو وہ ان کی نجات کا سامان کر دیتا ہے۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا کی دعا اولاد کے لیے تھی ایسی اولاد جو علم نبوت کی وارث ہو۔ (تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۸)

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر ہر چیز کا مالک تو ہی ہے اور تو بہترین مالک ہے۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا کی بیوی بانجھ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بانجھ پن کو دور کر کے یحیٰ جیسا فرزند عطا کیا۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورہ مریم نوٹ ۱۱  تا ۱۴)

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن انبیاء علیہم السلام کا حال اوپر بیان ہوا وہ سب نیکی کے معاملہ میں سبقت کرنے والے اور پوری مستعدی کے ساتھ اس راہ میں آگے بڑھنے والے تھے۔ واضح ہو ا کہ نیکی کے کاموں میں سرگرمی دکھانا انبیائی اوصاف میں سے ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے بندہ کے اپنے رب سے تعلق کے سلسلے میں معیار مطلوب کہ یہ تعلق محض خون کی بنا پر نہ ہو بلکہ پورے قلبی میلان اور رغبت کے ساتھ ہو وہ اپنے رب کو پکارے اور اس کی عبادت کرے تو محبت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ شخصیتیں جن کا ذکر اوپر ہوا نہایت بلند مرتبہ شخصیتیں تھیں لیکن ان میں تکبر کا شائبہ نہیں تھا۔ وہ اللہ کے حضور سر تا پا عجز و نیاز میں ڈوبے رہتے اور خشوع کے ساتھ زندگی بسر کرتے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد حضرت مریم ہیں جو ایک پاکدامن خاتون تھیں۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روح کی نسبت اللہ کی طرف ایسی ہی ہے جیسے خانہ کعبہ کی نسبت اللہ کی طرف۔ یعنی یہ نسبت روح کے شرف کو واضح کرتی ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۲۷۹) ۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی اللہ تعالیٰ کے کرشمۂ قدرت کی اصل چیز اس کا حکم ہے۔ اس کا حکم ہوا اس لیے ایک با کرہ نے بچہ کو جنم دیا اور اس کا حکم ہوا اس لیے بغیر باپ کے ایک بچہ پیدا ہوا۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خطاب تمام انبیاء علیہم السلام سے ہے اور امت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی راہ اختیار کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کے پیرو خواہ وہ مختلف گروہوں کی شکل میں رہے ہوں در حقیقت امت واحدہ ہیں کیونکہ سب کا دین ایک ہی دین (اسلام) رہا ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام انبیاء کو اور ان کے واسطہ سے ان کے پیروؤں کو توحید ہی کی تعلیم دی گئی تھی۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو جو دین اسلام انبیاء علیہم السلام کے واسطہ سے ملا تھا وہ صرف ایک دین یعنی اسلام ہی تھا لیکن لوگوں نے اس دین میں اپنی طرف سے کمی بیشی کی بدعتیں نکالیں، حاشئے چڑھائے حلال کو حرام سے اور حرا م کو حلال سے بدل دیا اس طرح مذہبی رسوم کے جب الگ الگ مجموعے تیار ہو گئے تو ان کے نام بھی الگ الگ رکھے اور اس کی بنیاد پر گروہ بندیاں بھی ہو گئیں۔

اس حقیقت کے پیش نظر مختلف اور متعدد مذاہب کو دیکھ کر یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ ہر مذہب خدا کا بھیجا ہوا مذہب ہے بلکہ یہ لوگوں کے اپنے تراشیدہ مذہب ہیں۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذہب کے یہ اختلافات تابہ کے سب کو ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اس دن پتہ چلے گا کہ فی الواقع اللہ کا دین کیا تھا اور لوگ کس طرح لیپا پوتی کرتے رہے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذاہب کی اس کشمکش میں اللہ کے ہاں جو چیز انسان کے عمل کے لیے قبولیت کا معیار قرار پائے گی وہ نیک اعمال ہوں گے جو اس نے ایمان رکھتے ہوئے انجام دیئے ہوں گے نہ کہ کسی مذہب کی چھاپ۔

واضح رہے کہ نیک عمل شریعتِ الٰہی سے آزاد ہو کر نہیں کئے جا سکتے مثال کے طور پر نماز وہی معتبر ہو گی جو شریعت کے مطابق ادا کی گئی ہو گی۔ اس کے علاوہ نماز جس شکل میں پڑھی جائے گی حقیقت میں نماز نہ ہو گی۔ اور نہ اس کا شمار نیک اعمال میں ہو گا بلکہ خلاف شرع طریقہ اختیار کرنے کی بنا پر ایسا شخص گنہگار ہو گا۔ پھر قبولیت اعمال کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ وہ شخص مومن ہو۔ اور مومن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو دل سے مانتا ہو اور ان کا اقرار کرتا ہو جن پر ایمان لانے کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کے اعمال کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی ہلاک شدہ بستی کے لوگ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے کہ پھر انہیں اصلاح کا موقع ملے۔ ان کا لوٹنا قیامت تک ممکن نہیں اور جب حقیقت واقعہ یہ ہے تو لوگوں کو متنبہ ہونا چاہیے اور اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے جو انہیں اپنی اصلاح کے لیے مل رہا ہے۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاجوج و ماجوج کی تشریح سورۂ کہف نوٹ ۱۱۸  میں گزر چکی وہاں ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ قوقاز (کوہ قاف) (Caucasus) کے شمال جانب وحشی قبائل تھے جو درۂ داریاں کو عبور کر کے آتے اور غارتگری کرتے تھے۔ ان کے حملوں کو روکنے کیلئے قریب میں بسنے والی ایک قوم کی درخواست پر ذوالقرنین نے آہنی دیوار تعمیر کی تھی جس سے یاجوج ماجوج کی راہ بند ہو گئی تھی۔

انقلاب زمانہ کے نتیجے میں یہ دیوار رکاوٹ نہیں رہی کیونکہ دوسری راہیں کھل چکی ہیں اور نہ ہی یاجوج ماجوج کے نام سے کوئی قوم پہچانی جاتی ہے اس لیے قرآن کی پیشین گوئی کہ یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں گے جب وقوع میں آئے گی تو اس کی تاویل ( اصل حقیقت) واضح ہو جائے گی۔ محض قیاس کی بنیاد پر کچھ کہنا صحیح نہ ہو گا۔ اور نہ ان روایات پر اعتماد کرنا صحیح ہو گا جو نہ اسناد کے اعتبار سے صحت کے معیار پر پوری اترتی ہیں اور نہ ان کا متن ( مضمون) نکارت اور دوسرے نقائص سے پاک ہے مثال کے طور پر ترمذی کی یہ حدیث کو یاجوج ماجوج روزانہ دیوار ( سد) کو کھودتے رہتے ہیں اور جب اس میں شگاف ڈالنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان کا سردار کہتا ہے کہ واپس چلو کل اس میں شگاف ڈال دیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس کو درست فرما دیتا ہے۔ اس طرح وہ روزانہ کھودتے رہتے ہیں یہاں تک جب وقت مقررہ آ جائے گا تو ان کا سردار کہے گا واپس چلو انشاء اللہ کل اس میں شگاف ڈال دیں گے دوسرے روز وہ دیوار کو اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں وہ چھوڑ کر گئے تھے چنانچہ وہ اس میں شگاف ڈال کر نکل آئیں گے۔

امام ترمذی نے اس روایت کو ابواب التفسیر میں سورۂ کہف کے ذیل میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسی طریقۂ اسناد سے ایسی باتیں جانا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حدیث نہ اسناد کے اعتبار سے صحیح ہے اور نہ متن کے اعتبار سے چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : "اس حدیث کے متن کو آپ کا ارشاد قرار دینے میں نکادت ہے کیونکہ آیت کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ نہ تو اس دیوار پر اس کے مستحکم ہونے کی وجہ سے چڑھ سکتے ہیں اور نہ اس میں نقب لگا سکتے ہیں لیکن کعب احبار سیاسی طرح کی روایت منقول ہے اور معلوم ہوتا ہے ابوہریرہ ؓ نے ان سیہ (اسرائیلی) روایت لے لی کیونکہ وہ ان کے ساتھ زیادہ بیٹھا کرتے تھے اور ( اسرائیلی قصے) بیان کیا کرتے تھے تو ابو ہریرہؓ نے یہ قصہ بیان کیا ہو گا اور بعض راویوں کو یہ وہم ہوا ہو گا کہ یہ روایت مرفوع ہے ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے) واللہ اعلم۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۱۰۵)

ترمذی کی اس حدیث کے ایک راوی ابو عوانہ ہیں جن کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہے کہ جب وہ اپنے حافظہ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج ۱۱ص ۱۱۶ تا ۱۲۰)

تعجب ہے کہ ایک ایسی روایت کو جو قرآن کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے اور جس کی نکادت ( نا معقولیت) بالکل واضح ہے ترمذی میں جگہ مل گئی۔ کاش کہ حدیث کی یہ مستند کتابیں اس قسم کی بے سر و پا روایتوں سے پاک ہوتیں !

قرآن کی اس آیت پر اس کے سیاق و سباق پر نیز سورۂ کہف کی ان آیات پر جن میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہوا ہے غور کرنے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ قوموں کی ہلاکت کا سلسلہ ان کے کفر اور ظلم کی بنا پر دنیا میں جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ دنیا اپنی ہلاکت کے آخری مرحلہ میں پہنچ جائے گی۔ اس وقت دنیا میں دو زبردست مفسد طاقتیں ابھریں گی جو اپنی اصل کے اعتبار سے یاجوج ماجوج ہوں گی۔ ( خواہ وہ دنیا میں کسی نام سے پکاری جاتی ہوں) یہ زمین کے بلند حصوں ( شمال) کی طرف سے نکل پڑیں گی اور پوری دنیا میں ( نہ کہ خاص مسلمانوں میں) فساد برپا کریں گی معلوم ہوتا ہے ان کی یہ یلغار عالمگیر جنگ کی صورت اختیار کرے گی اور ان کے پاس دنیا کو تباہ کرنے کا بھر پور سامان ہو گا (غالباً جدید نیوکلیر میزائل کیونکہ بعض حدیثوں میں ان کے آسمانوں پر تیر چلانے کا ذکر آتا ہے) اس لیے وہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں کو تباہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی۔ اس طرح ان کے ہاتھوں دنیا کی کافر قوموں کی آخری ہلاکت ہو گی اور اس کے بعد بس قیامت ہی قائم ہو گی۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا وعدہ ہے یعنی یاجوج ماجوج کے امنڈ پڑنے کے بعد قیامت بہت جلد برپا ہو جائے گی۔ گویا اس وقت انسانیت موت کے دہانے پر ہو گی۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر جب قیامت قائم ہو گی اور سب کو زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو کافروں کے لئے یہ حادثہ غیر متوقع ہو گا اس لیے ان کی آنکھیں حیرت اور دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کافر نہ صرف اپنے غفلت میں پڑے رہنے کا اعتراف کریں گے بلکہ اپنے خطا کار ہونے کا بھی۔

معلوم ہوا کہ آخرت پر ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی غفلت ہے اور غفلت بھی ایسی جو مجرمانہ نوعیت کی ہے یعنی آخرت کے دلائل واضح ہو جانے کے باوجود انسان اس کو قبول کرنے سے اس لیے پہلو تہی کرتا ہے کہ اس کو ماننے کی صورت میں وہ اپنی من مانی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس طرح اس کی خواہشات اس کی توجہ آخرت کی طرف سے ہٹا کر اس کو دنیوی زندگی میں الجھائے رکھتی ہے۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب مشرکین سے ہے کہ تم اور تمہارے یہ بت جن کی تم پوجا کرتے ہو جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ بت جہنم میں اس لیے پہنچا دئے جائیں گے تاکہ ان کے پرستاروں کو محسوس ہو کہ جن کی وہ خدا سمجھ کر پرستش کرتے رہے ہیں وہ ان کے کچھ کام آنے سے رہے بلکہ ان کے عذاب میں اضافہ کا سبب بنے ہیں کتنا درد ناک ہو گا وہ منظر جہاں جھوٹے خداؤں کے پرستار اپنے خداؤں سمیت آگ میں جل رہے ہوں گے۔

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے

بت پرست اگر جہنم کے اس منظر کو تصور ہی کر لیں تو شرک سے توبہ کر لیں۔

یہاں یہ سوال بے معنی ہے کہ اگر معبود بھی جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں تو انبیاء علیہم السلام کو بھی لوگوں نے معبود بنا لیا تھا پھر ان کا کیا ہو گا؟ کیونکہ اول تو قرآن نے وما تعبدون ( اور جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جن میں لفظ ما بالعموم غیر جاندار چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے اور یہاں بت اور جمادات کے قسم کی چیزیں ہی مراد ہیں جن کی مشرکین پرستش کرتے رہے۔ دوسرے قرآن نے آگے آیت ۱۰۱  میں یہ صراحت کر دی ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنٰی اُولَئِکَ عَنْہَا مَبْعَدُوْنَ ( جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے اچھے انجام کا وعدہ پہلے ہی ہو چکا وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔) اور قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی انبیاء علیہم السلام اور اہل ایمان کے بارے میں ان کے آگ سے محفوظ رکھے جانے اور جنت میں داخل کئے جانے کی بات اس کثرت سے بیان ہوئی ہے کہ کسی غلط فہمی کے لیے ادنیٰ گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بت بھی اور ان کے پرستار بھی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قرآن بت پرستی کا وہ انجام جو آخرت میں ہونے والا ہے بت پرستوں کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتا ہے لہٰذا اسلام کے ایک داعی کو بھی شرک و بدعت کے خلاف دو ٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے اور بے لاگ طریقہ پر اس کا اخروی انجام بیان کرنا چاہیے خواہ بتوں کے پرستاروں کو یہ بات کتنی ہی کڑوی کیوں نہ لگے۔ ڈاکٹر کا کام صحیح طور سے علاج کرنا ہے اگرچہ اسے کڑوی دوا دینی پڑیا انجکشن لگانا پڑے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مخلص مومنوں اور متقیوں کے لیے جن کی زندگیاں صالحیت کی آئینہ دار تھیں۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیتیں اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے کئے گئے جنت کے وعدہ کے مستحق قرار پائیں گے۔ ان کو قیامت کے دن کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی اور وہ جہنم سے اتنی دور رکھے جائیں گے کہ اس کی دھیمی آواز تک نہ سن سکیں گے۔ اس سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ مخلص مومنوں کو بھی جہنم کے پاس سے گزرنا ہو گا۔ قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے : فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہُ بِیَمیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْرَاً (سورۂ انشقاق ۷۔ ۸) "تو جس کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا گیا اس سے آسان لیا جائے گا۔

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۹۵

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن آسمان کی بساط لپیٹ دی جائے گی تاکہ اس دنیا کی جگہ ایک نئی دنیا نئے نظام کے ساتھ وجود میں لائی جائے۔ مادہ پرست لوگ کائنات کو ازلی خیال کرتے ہیں لیکن قرآن اس کے آغاز کا بھی پتہ دیتا ہے اور انجام کا بھی۔

اگر دنیا میں کسی چیز کی تعمیر کا آغاز شکست و ریخت سے ہوتا ہے تو جہان نو کی تعمیر کے لیے موجودہ دنیا کی شکست و ریخت ہرگز قابل تعجب نہیں ہے اور نہ یہ بات قابل تعجب ہے کہ ایک ترقی یافتہ کائنات اس کائنات کی جگہ لے لے۔ ( مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ابراہیم نوٹ ۷۱)

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین سے مراد جنت کی زمین ہے جیسا کہ سورۂ زمر کی آیت ۷۴  سے واضح ہے۔

وَاَوْرَثنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ۔ "اور ہمیں زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں رہیں۔”

اور اس کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمین جو دائمی ہو گی اور اپنی بہترین خصوصیات کی بنا پر بالکل بے مثال ہو گی اللہ کی نیک بندوں کے حصہ میں آئے گی ان ہی کو اس پر بسایا جائے گا اور ان ہی کو اس پر اقتدار حاصل ہو گا۔

آیت میں زبور کا حوالہ دیا گیا ہے جو حضرت داؤد پر نازل ہوئی تھی۔ اس سیہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جہاں تک موجودہ زمین کے اقتدار کا تعلق ہے وہ ایک آزمائشی چیز ہے اور یہ خدا سے غافل لوگوں کو بھی حاصل ہوتا ہے اور اس کے نیک بندوں کو بھی چنانچہ حضرت داؤد کو جو پیغمبر تھے خلیفہ بنایا گیا تھا رہی ابدی کامیابی تو جو کتاب انہیں عطا ہوئی تھی اس میں خدا اور آخرت کے بارے میں یاد دہانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ بالآخر زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ موجودہ زبور میں جو بائبل کے مجموعہ میں شامل ہے اس مضمون کی ایک جھلک ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں تک ذکر یعنی یاد دہانی کا تعلق ہے زبور کے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں :

"خداوند پر توکل کر۔ ملک میں آباد رہ اور اس کی وفا داری سے پرورش پا، خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پورے کرے گا۔” ( زبور ۳۷:۳،۴)

"بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آباد رہ کیونکہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔” ( زبور ۳۷۔ ۲۷،۲۶)

رہا زمین کی وراثت کا فرمان تو زبور کے اسی بات میں ہے : "صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ (زبور ۳۷۔ ۲۹)

"خداوند کی آس رکھ اور اسی کی راہ پر چلتا رہ۔ اور وہ تجھے سرفراز کر کے زمین کا وارث بنائے گا۔” (زبور ۳۷۔ ۳۴)

"ہمیشہ سے رہیں گے” کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ زمین سے مراد جنت ہی کی زمین ہے اور آیت زیر تفسیر سے پہلے ( آیت ۱۰۴  میں) جو مضمون بیان ہوا ہے وہ آخرت ہی سے متعلق ہے اس لیے محل کلام دلیل ہے کہ یہاں مراد جنت کی زمین ہے۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبادت گزار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کے پرستار اور اس کے وفا دار بندے بن کر رہیں گے۔ اوپر صالحین سے وعدہ تھا یہاں عابدین ( عبادت گزار لوگوں) کو خوش خبری دی گئی۔ گویا ایک صفت دوسری صفت کی تشریح ہے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت دنیا والوں کے لیے باعث رحمت ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ لوگ اپنے رب کی صحیح معرفت حاصل کر لیں گے اور آپ کی رہنمائی میں زندگی بسر کر کے اس کی رحمت کے مستحق بن جائیں گے۔

للعالمین ( دنیا والوں کے لیے) کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بعثت کسی ایک قوم یا ملک یا زمانہ کے لیے نہیں ہوئی ہے بلکہ اقوام عالم کے لیے اور رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے ہوئی ہے اس لیے آپ کی رحمت عام ہے اور سب کے لیے آپ نبیِ رحمت ہیں۔ اگر لوگ اس فیضان رحمت سے محروم رہنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ ہوا پانی اور روشنی کسی قوم کے لیے خاص نہیں بلکہ بلا تفریق سب کے لیے عام ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے رب کی ان نعمتوں سے تعصب برتنے لگے اور اپنی ناک بند کر لے تو اس کا گھٹ کر مر جانا لازمی ہے اسی طرح جو شخص پانی سے دور بھاگے گا وہ پیاسا مر جائے گا اور روشنی سے آنکھیں بند کرنے والا اندھیرے میں بھٹکتا ہی رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت کی بعثت کے باوجود دنیا کی اکثریت اس رحمت کے فیض سے محروم ہے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میری طرف جو وحی نازل ہو رہی ہے وہ توحید اور صرف توحید کی تعلیم دیتی ہے۔ ایسی توحید جس سے ہر قسم کے شرک کی نفی ہوتی ہے۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پیغمبر کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ اگر تمہاری قوم توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو اس پر یہ واضح کر دو کہ انکار کی صورت میں اللہ کے عذاب کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ جلد پورا ہو گا یا کچھ عرصہ بعد۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کفار پر عذاب کب آئے گا۔ اس قسم کی صریح آیتوں کی موجودگی میں علم غیب کی ان بحثوں میں کیا تک ہے جن میں مسلمانوں کا ایک گروہ الجھ رہا ہے۔ !

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے ظاہر و باطن کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ فرمائے گا۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات پیغمبر کی زبان سے سنائی جا رہی ہے کہ مجھے نہیں معلوم اللہ تعالیٰ کس مصلحت کی بنا پر عذاب کو مؤخر کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے آزمائش ہو اور تمہاری ہلاکت سے پہلے تم کو کچھ دن اور دنیا میں مزے اڑانے کا موقع مل رہا ہو۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب یہ سورہ نازل ہوئی ہے دعوت اپنے آخری مرحلہ میں پہنچ گئی تھی چنانچہ پیغمبر کی زبان سیہ کلمات قوم پر حجب قائم ہو جانے کے بعد ہی نکلے ہیں کہ حق ان پر پوری طرح واضح ہو گیا ہے مگر یہ انکار پر جمے ہوئے ہیں۔ اب خدایا تو ہی فیصلہ فرما دے کہ حق غالب ہو۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو حق تمہارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس کے خلاف تم طرح طرح کی باتیں کر رہے ہو تو جو باتیں تم بناتے ہو اس کے سلسلے میں ہم خدائے رحمن ہی سے فریاد کر رہے ہیں۔ وہ ہماری مدد کرے اور راہ حق میں ہمارے قدم جما دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 (۲۲) سورۂ الحج

 

 (آیات  ۷۸)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۲۷ میں حج کے اعلان عام کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الحج ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۱ھ میں حج کے قریبی ایام میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

خانۂ کعبہ کی تعمیر اور حج کی مشروعیت جس مقصد کے لیے ہوئی تھی اس کی تجدید کرنا اور اس مرکزِ توحید کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کر کے امتِ مسلمہ کے حوالہ کرنا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ تمہیدی آیات ہیں جن میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے قیامت کے شدید جھٹکے سے خبر دار کیا گیا ہے اور اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ شیطان کے اشارے پر کتنے ہی لوگ خدا کے بارے میں بے بنیاد باتوں اور گمراہ کن بحثوں میں الجھتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ قیامت کے دن بھڑکتی آگ میں جا گریں گے۔

آیت ۵ تا ۱۰ میں دوسری زندگی پر استدلال اور خدا کے بارے میں لوگ گمراہی کی جو باتیں کرتے ہیں اس کا انجام۔

آیت ۱۱ تا ۲۴ میں خدا کی غیر مخلصانہ عبادت کو بے معنی قرار دیتے ہوئے شرک کی تردید کی گئی ہے اور انکار کرنے والوں کے درد ناک انجام کو اور مخلص مؤمنین کے مسرت بخش انجام کو نہایت مؤثر طریقہ پر پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۲۵ تا ۳۷ میں اس بات کے پیش نظر کہ مشرکین نے اہل ایمان کے لیے مسجد حرام اور حج بیت اللہ کی راہ بند کر دی ہے اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ معمار حرم نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے اس کی تعمیر کی تھی اور اسی مقصد کے لیے حج کی عام منادی کی تھی۔ ساتھ ہی حج کے منا سک اور ان کی روح کو اجاگر کیا گیا ہے۔

آیت ۳۸ تا ۴۱ میں مدینہ کے مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مسجد حرام کو مشرکین کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے ان سے جنگ (جہاد) کریں اور یہ کہ اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کو اقتدار بخشے گا۔ آیت ۴۲ تا ۴۸ میں عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کی توجہ ظالم قوموں کی ہلاکت کے واقعات کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔

آیت ۴۹ تا ۵۷ میں واضح کیا گیا ہے کہ رسول کا کام خبردار کرنا ہے مگر اس کی دعوتی جدوجہد کے خلاف شیطان اسی طرح سرگرم عمل ہو گیا ہے جس طرح وہ ہر رسول کی دعوت کے خلاف پروپگنڈے کی مہم چلاتا رہا ہے۔ اس کے اس پروپگنڈے سے وہی لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے۔ اللہ کے وفادار بندوں کے تو علم و یقین میں اس جھوٹے پروپگنڈے کو دیکھ کر اضافہ ہو جاتا ہے۔

آیت ۵۸ تا ۶۲ میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تھی۔

آیت ۶۳ تا ۶۶ میں اللہ کی ربوبیت اور اس کے احسانات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

آیت ۶۷ تا ٍٍ۷۶ میں معترضین کے شبہات کو دور کتے ہوئے شرک کا بے حقیقت ہونا واضح کیا گیا ہے اور اللہ کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے سلسلۂ رسالت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

آیت ٍ۷۷ اور۷۸ اختتامی آیات ہیں جن میں اہل ایمان کو ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جو ان کی ذات اور ان کے کردار سے متعلق ہیں اور ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بھی جو اللہ کی راہ میں جدوجہد اور لوگوں کے سامنے اس کے دین کی شہادت پیش کرنے سے متعلق ہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو ! ۱* اپنے رب سے ڈرو۔ ۲* قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ ۳*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن تم اسے دیکھو گے اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہ مدہوش ہیں حالانکہ وہ مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہو گا۔ ۴*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر بحث کرتے ہیں ۵* اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے لیے یہ بات مقدر ہے کہ جو کوئی اُسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے رہے گا اور دہکتی جہنم کے عذاب کی طرف لے جائے گا۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) اٹھائے جانے کے بارے میں شک ہے تو (غور کرو) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ٍٍ۷* پھر نطفہ سے ۸* پھر جمے ہوئے خون سے ۹* پھر گوشت کے ٹکڑے سے ۱۰* جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بغیر شکل کے بھی۔ ۱۱* (یہ اس لیے ہوتا ہے) تاکہ تم پر (اپنی قدرت کی کرشمہ سازیاں) واضح کریں۔ ۱۲* اور ہم جس کو چاہتے ہیں رحم میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ پھر تم کو بچہ کی شکل میں باہر لاتے ہیں۔ ۱۳* پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جاؤ۔ اور تم میں سے کسی کا وقت تو پہلے ہی پورا ہو جاتا ہے اور کوئی عمر کے بدترین حصہ کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ ۱۴* اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک پڑی ہے۔ پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرنے اور پھولنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے۔ ۵*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے ۱۶* اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ۱۷* اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ۱۸*

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں اور اللہ ان کو اٹھا کھڑا کرے گا جو قبروں میں ہیں۔ ۱۹*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کسی علم، کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ ۲۰*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکڑتے ہوئے تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے گمراہ کریں۔ ۲۱* ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے ۲۲* اور قیامت کے دن ہم اس کو جلنے کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے وہ جو تیرے ہاتھو ں نے پہلے سے تیار کیا تھا ۲۳* اور اللہ اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کی عبادت ایک کنارہ پر رہ کر کرتے ہیں۔ اگر فائدہ پہنچا تو اس سے مطمئن ہو گئے اور اگر آزمائش آ گئی تو الٹے پھر گئے۔ دنیا بھی کھو دی اور آخرت بھی۔ یہی ہے کھلا خسارہ۔ ۲۴*

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ۔ یہ ہے پرلے درجہ کی گمراہی۔ ۲۵*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ان کو پکارتے ہیں جن کا نقصان ان کے فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ ۲۶* بہت برا ہے کارساز اور بہت برا ہے ساتھی۔ ۲۷*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ۲۸* ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ بلا شبہ الہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ دنیا و آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہیے کہ آسمان تک ایک رسی تان لے پھر اسے کاٹ ڈالے اور دیکھ لے کہ آیا اس کی اس تدبیر نے اس کے غم و غصہ کو دور کر دیا؟ ۲۹*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے اس (قرآن کو روشن دلیلوں کی شکل میں اتارا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ۳۰*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصاریٰ اور مجوسی اور وہ جو مشرک ہوئے ، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا۔ ۳۱* اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں نیز سورج ، چاند، ستارے ، پہاڑ، درخت، جانور اور بہ کثرت انسان۔ اور بہت سے انسان ایسے ہیں جن پر عذاب لازم ہو چکا ہے۔ ۳۲* اور جسے اللہ ذلیل کر دے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دو فریق ہیں ۳۳* جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تو جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹ دئے گئے ہیں۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جائے گا۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور ان کی کھالیں گل جائیں گی۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان (کو سزا دینے) کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کبھی وہ اس گھٹن سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کے عذاب کا مزا۔ ۳۴*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی کے زیور پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ ۳۵*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی ۳۶* اور انہیں اس ہستی کی راہ دکھائی گئی جس کے لیے حمد ہی حمد ہے۔ ۳۷*

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کی راہ سے روک رہے ہیں۔ ۳۸* نیز مسجد حرام ۳۹* سے جسے ہم نے لوگوں کے لے اس طرح بنایا ہے کہ اس کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے سب وہاں برابر ہیں۔ ۴۰* اور جو کوئی وہاں ظلم کے ساتھ انحراف کی راہ اختیار کرنا چا ہے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ ۴۱*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ مقرر کر دی تھی ۴۲* کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو پاک رکھو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔ ۴۳*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۴۴* وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے اور لاغر اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز راہوں سے آئیں گی۔ ۴۵*

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ وہ اپنی منفعتوں کو دیکھ لیں ۴۶* اور مقررہ دنوں میں ۴۷* مویشی چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۴۸* پس اس میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔ ۴۹*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں ۵۰* اپنی نذریں پوری کریں ۵۱* اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ ۵۲*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ (ہیں حج کے منا سک) اور جو اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے۔ ۵۳* اور تمہارے لیے مویشی حلال ٹھہرائے گئے ہیں بجز ان کے جن کا حکم تمہیں سنا دیا گیا ہے ۵۴* لہٰذا بتوں کی گندگی سے بچو ۵۵* اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ ۵۶*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے وفادار بنکر رہو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ۵۷* اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ گویا آسمان سے گر گیا پھر پرندے اسے اچک لیں یا ہوا اسے لے جا کر کسی دور دراز جگہ پھینک دے۔ ۵۸*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے (اصل حقیقت) اور جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ بات دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔ ۵۹*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے لیے ان (قربانی کے جانوروں) میں ایک مقررہ وقت تک فائدے ہیں پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اس قدیم گھر کے پاس ہے۔ ۶۰*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ مویشی چار پایوں پر اللہ کے نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ ۶۱* تو تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے لہٰذا اپنے کو اسی کے حوالہ کر دو۔ اور (اے نبی!) عاجزی اختیار کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ ۶۲*

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ ۶۳* جو مصیبت میں صبر کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں سے ٹھہرایا ۶۴* ہے تمہارے لیے ان میں بہتری ہے تو انہیں قطار میں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو۔ ۶۵* پھر جب وہ اپنے پہلوؤں پر گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ ۶۶* اور کھلاؤ قناعت کرنے والوں اور مانگنے والوں کو۔ ۶۷* اس طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ۶۸* اس طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اللہ کے ہدایت بخشنے پر اس کی کبریائی (بڑائی) بیان کرو ۶۹* اور (اے نبی!) نیکو کاروں کو خوشخبری دے دو۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ٍٍ۷۰* اللہ ان لوگوں کی مدافعت کرے گا جو ایمان لائے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کرنے والا اور ناشکرا ہو۔ ۷۱*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو (جنگ کی) اجازت دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ٍٍ۷۲* اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قادر ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے محض اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ ۷۳* اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں ، گرجے ، کنیسے اور مسجدیں جن بہ کثرت اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ڈھا دی گئی ہوتیں۔ ۷۴* اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ ۷۵* بلا شبہ اللہ قوت والا اور غالب ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، بھلی بات کا حکم دیں گے اور برائیوں سے روکیں گے۷۶* اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ۷۷*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے نبی!) اگر ے تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے قومِ نوح، عاد اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا۔ ۷۸*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط بھی جھٹلا چکی ہے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز مدین والوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ ۷۹* اور موسیٰ بھی جھٹلائے گئے تھے۔ ۸۰* تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی پھر ان کو پکڑ لیا۔ تو دیکھو کیسی رہی میری سزا!

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا تو وہ اپنی چھتوں پر گر گئیں اور کتنے ہی کنویں بیکار ہو گئے اور کتنے ہی پختہ محل (ویران ہو گئے) ! ۸۱*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے۔ ۸۲* حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ۸۳*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں حالانکہ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں۔ اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ۸۴*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی اور وہ ظالم تھیں۔ پھر ان کو پکڑ لیا اور میری ہی طرف سب کی واپسی ہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے نبی!) کہو اے لوگو! میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہیں کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔ ۸۵*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ ۸۶*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں کی سرگرمیاں ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہوں گی وہ دوزخ والے ہیں۔ ۸۷*

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر!) تم سے پہلے ہم نے جو رسول اور نبی بھی بھیجا ہے۔ ۸۸* (ضرور ایسا ہوا ہے کہ) جب اس نے تمنا کی شیطان نے اس کی امنگ میں خلل ڈال دیا۔ ۸۹* مگر اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو مٹاتا ہے پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ۹۰* اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ ۹۱*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ صورت اس لیے پیش آتی ہے) تاکہ وہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو ان لوگوں کے لیے فتنہ (ذریعہ آزمائش) بنا دے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جن کے دل سخت ہیں۔ ۹۲* بلا شبہ یہ ظالم مخالفت میں بہت دور نکل گئے ہیں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تاکہ وہ لوگ جن کو علم عطاء ہوا ہے جان لیں کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے اور وہ اس پر ایمان رکھیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں۔ ۹۳* یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کفر کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے یا محرومی کے دن کا عذاب آ جائے۔ ۹۴*

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن ۹۵* بادشاہی اللہ ہی کی ہو گی۔ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ تو جو لوگ ایمان رکھتے ہوں گے اور اچھے عمل کئے ہوں گے وہ نعمت بھرے باغوں میں ہوں گے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہو گا ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہو گا۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ۹۶* پھر قتل کر دئے گئے یا مر گئے اللہ ان کو ضرور اچھا رزق دے گا ۹۷* اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ انہیں ایسی جگہ داخل کرے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ ۹۸* بلا شبہ اللہ علم والا اور بردبار ہے۔ ۹۹*

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے (ان لوگوں کا اجر) اور جو کوئی بدلہ لے ویسا ہی جیسا کہ اس کے ساتھ کیا گیا پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ ۱۰۰* اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ ۱۰۱*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اور اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۱۰۲*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز اس لیے بھی کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ چیزیں باطل ہیں جن کو یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں۔ ۱۰۳* اور اللہ ہی بلند مرتبہ اور بڑا ہے۔ ۱۰۴*

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے تو زمین سر سبز ہو جاتی ہے۔ یقیناً اللہ بڑا باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے۔ ۱۰۵*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بلا شبہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے تعریف کا مستحق۔ ۱۰۶*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں۔ ۱۰۷* اور کشتی کو کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہے۔ وہ آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر گر نہ پڑے مگر اس کے حکم سے۔ یقیناً اللہ لوگوں کے لیے بڑی شفقت رکھنے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔ ۱۰۸*

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو زندگی بخشی پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی تم کو پھر زندہ کرے گا۔ در حقیقت انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ۱۰۹*

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا جس پر وہ چل رہی ہیں۔ ۱۱۰* لہٰذا اس معاملہ میں وہ تم سے نہ جھگڑیں۔ ۱۱۱* تم اپنے رب کی طرف دعوت دو۔ ۱۱۲* یقیناً تم سیدھی راہ پر ہو۔ ۱۱۳*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہ دو اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ سب ایک کتاب میں درج ہے۔ ۱۱۴* بلاشبہ یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور نہ ان کے بارے میں ان کو کوئی علم ہی ہے۔ ۱۱۵* ان ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ان کو ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ ان کے چہروں سے ناگواری ظاہر ہو رہی ہے ۱۱۶* گویا وہ ان لوگوں پر حملہ کر بیٹھیں گے جو ہماری آیتیں ان کو سناتے ہیں۔ کہو میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی بدتر چیز کیا ہے ؟ آگ جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ۱۱۷* اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے غور سے سنو اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے خواہ وہ سب اس کے لیے اکٹھا ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ۱۱۸* اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ ۱۱۹* طالب بھی کمزور اور مطلوب بھی کمزور۔ ۱۲۰*

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ بلا شبہ وہ قوت والا اور غالب ہے۔ ۱۲۱*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ فرشتوں میں سے بھی پیغامبر منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ ۱۲۲* وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۱۲۳*

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ ۱۲۴*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! ۱۲۵* رکوع کرو ، سجدہ کرو ۱۲۶* اپنے رب کی عبادت کرو ۱۲۷* اور بھلائی کے کام کرو ۱۲۸* تاکہ تم کامیاب ہو۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ ۱۲۹* اس نے تمہیں چن لیا ہے ۱۳۰* اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۱۳۱ تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ ۱۳۲* اس نے (اللہ نے) تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا اور اس (قرآن) میں بھی۔ ۱۳۳* تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ ۱۳۴* پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو مضبوط پکڑ لو۔ ۱۳۵* وہی تمہارا مولیٰ ہے۔ تو کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار!

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب عام انسانوں سے ہے اور خطاب کی یہ عمومیت دلیل ہے کہ یہ سورۂ مدنی ہے نیز یہ کہ قیامت تک کے لوگ اس کے مخاطب ہیں۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ کا پہلا سبق یہی ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک سے ڈرے۔ خدائے واحد کا وجود کھلی حقیقت ہے اور اس کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کے سامنے سرکشی کی جرأت نہ کرے، عبادت کا تعلق اپنے خالق سے جوڑنے کے بجائے مخلوق سے نہ جوڑے اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرے کہ اس کی سزا اس کے ہاں بڑی سخت ہے اور قیامت کے ہر عمل کی جوابدہی اس کے حضور کرنا ہو گی۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا زلزلہ ایسا زبردست ہو گا کہ پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اور انسان کو کہیں عافیت نہیں مل سکے گی۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اس زلزلہ کی ہولناکی کی تصویر کہ زمین ایسی تھرتھرانے لگے گی کہ روئے زمین پر اس وقت جو لوگ بھی موجود ہوں گے وہ ہکا بکا رہ جائیں گے کہ یہ کیا معاملہ ہے ہر شخص کو جان کے لالے پڑے ہوں گے یہاں تک کہ جن ماؤں کی گود میں دودھ پیتے بچے ہوں گے وہ اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور جو عورتیں حاملہ ہوں گی ان کے حمل گر جائیں گے اور دہشت کی وجہ سے لوگوں کا یہ حال ہو گا کہ گویا وہ نشے میں مدہوش ہیں یعنی ان کے ہوش و حواس برقرار نہیں رہیں گے۔ یہ گویا روئے زمین پر اللہ کا آخری عذاب ہو گا جو قیامت کی شکل میں نمودار ہو گا۔ یہ اس موقع کی بات ہے جبکہ پہلا صور پھونکا جائے گا اور اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت روئے زمین پر برے لوگ ہی بس رہے ہوں گے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ قیامت اشرار ہی پر قائم ہو گی: لاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلاّ عَلٰی شِرَارِ النَّاسِ۔”قیامت بدترین لوگوں ہی پر قائم ہو گی۔” (مسلم کتاب الفتن)

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض قیاس و گمان اور مفروضات و نظریات کی بنیاد پر خدا کے بارے میں رائے قائم کرنے اور بحثیں کھڑی کرنے لگتے ہیں جب کہ یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ اس پر علم کے بغیر زبان کھولنا غیر ذمہ دارانہ پن کا ثبوت دینا ہے۔ اور علم کے معنی کسی چیز کو فی الواقع وہ جیسی ہے جان لینا ہے۔ خدا کے بارے میں صحیح معرفت کا ابتدائی ذریعہ تو انسانی فطرت ہے پھر وہ نشانیاں ہیں جو آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کے بعد بہت واضح اور مکمل شکل میں وہ علم ہے جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتا ہے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اوپر کی آیت میں”ہر سرکش شیطان” سے مراد ابلیس اور اس کی فوج ہے۔

شیاطین اگرچہ انسانو ں میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کا گُرو ابلیس ہی ہے اس لیے جو گمراہی کا امام ہے اس کے شر سے متنبہ کر دیا گیا۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی جو خبر قرآن دے رہا ہے اس میں لوگ اس لیے شک کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم فنا ہو جاتا ہے اسے دوبارہ جسم سمیت اٹھا کھڑا کرنا ایک ایسے پیش آنے والے واقعہ کی خبر ہے جو کبھی مشاہدہ میں نہیں آیا۔ اسی شک کو رفع کرنے کے لیے یہاں چند ایسی باتوں پر غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے جو امر واقعہ ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ آدم کی تخلیق مٹی ہی سے ہوئی تھی۔ قرآن کے اس بیان کی تائید عام مشاہدہ سے بھی ہوتی ہے کہ مٹی سے غذا بنتی ہے اور غذا سے پرورش پا کر انسان زندہ رہتا ہے نیز یہ کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اور انسان مر کر مٹی ہی میں مل جاتا ہے۔ لہٰذا جس ہستی کے لیے مٹی جیسے بے جان مادہ میں جان ڈالنا پہلی بار ممکن ہوا اس کے لیے مٹی میں ملے ہوئے انسان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا کیا مشکل ہے ؟ اب اگر ہمیں یقینی ذریعہ سے یہ خبر مل رہی ہے کہ انسان کے خالق نے ا سکو مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھا کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم اسے کیوں صحیح تسلیم نہ کر لیں ؟

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ جس طریقہ سے چلایا اس کو ایک اہم دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات کہ انسان کی پیدائش مادۂ منویہ کے اس قلیل جزو سے ہوتی ہے جسے نطفہ (پانی کی بوند) کہتے ہیں ایک معلوم حقیقت ہے اور قرآن کا استدلال اس عام اور معلوم حقیقت ہی سے ہے البتہ موجودہ دور میں علم الجنین (Embryology) نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ قدرت الٰہی کی کرشمہ سازیوں کو نمایاں کر کے اس کو دعوتِ فکر دینے والی ہیں۔ چنانچہ ایک وقت میں جو مادۂ منویہ خارج ہوتا ہے اس میں دوسو ملین جراثیم حیات (Spermatozoa) ہوتے ہیں جبکہ ایک جرثومۂ حیات بیضۂ انثیٰ کو باردار (Fertilize) کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ بیضۂ انثیٰ عورت کے بیضہ دان (Ovary) سے ہر ماہ صرف ایک عدد خارج ہوتا ہے اور رحم سے متصل نلی (Fallopian Tube) میں آہستہ آہستہ سفر کرتا ہے۔ اگر جرثومۂ حیات کا ملاپ اس بیضہ سے ہوتا ہے تو بیضہ بار آور (Fertilize) ہو جاتا ہے یہ گویا حمل کا آغاز ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیضہ بار آور ہونے کے بعد چند دنوں میں جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر خون کا تھکا کچھ دنوں میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ یہ عمل قرار حمل کے چوتھے ہفتہ میں ہوتا ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گوشت کا یہ ٹکڑا جو بغیر شکل و صورت کے تھا ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ ایک خاص شکل (Shape) اختیار کرنے لگتا ہے او ر کبھی اس سے پہلے ہی اسقاط ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد علی البار نے علم الجنین (Embryology) کی تحقیقات کے پیش نظر قرآن و حدیث کے پیش کردہ حقائق کو اپنی کتاب "خلق الانسان بین الطب و القرآن” میں جو عربی میں ہے وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے قرآن کے علمی اعجاز کو نمایاں کیا ہے۔ اسقاط کے مسئلہ پر موصوف لکھتے ہیں :

"اب ہم یہ جاننے لگے ہیں کہ اسقاط اکثر شکل بننے سے پہلے ہوتا ہے اور یہ مرحلہ علم الجنین کی اصطلاح میں تکوین الاعضاء (Organo Genesis) کہلاتا ہے اور اس کا آغاز حمل کے چوتھے ہفتہ سے ہوتا ہے اور آٹھویں ہفتہ تک رہتا ہے۔ (خلق الانسان ص ۴۰۷)

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا رحم مادر (Womb) ایک قدرتی کارخانہ (Natural/Factory) ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے اور اس طرح ڈھلتا ہے کہ ڈھالنے والے کا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا مگر ایک قطرہ یا جرثومہ جن ارتقائی مرحلوں سے گزرکر انسان کا روپ اختیار کرنے کے مرحلہ میں پہنچتا ہے وہ نہایت ہی عجیب و غریب عمل (Process) ہے جو دعوت فکر دیتا ہے اور سوچنے والوں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک علیم و قدیر ہستی کا ہاتھ ہے اور انسان کی تخلیق اس کی قدرت کی کرشمہ سازیوں کا بین ثبوت ہے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنین (Embryo) حمل کے دن پورے ہو جانے کے بعد اس دنیا میں جنم لیتا ہے اور یہ اس کی طفولیت (بچپن) کا آغاز ہے۔ اس میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ جنین کی دنیا رحم کی تنگ اور تاریک جگہ تھی جس کے بعد اس نے ایک وسیع دنیا میں جنم لیا۔ اب اگر اس کا خالق اس کو یہ خبر دے رہا ہے کہ اس دنیا سے گزر کر اسے اس سے وسیع دنیا (آخرت) میں داخل ہونا ہے تو اس میں شک کی کیا وجہ ہے ؟ کیا انسان اپنے کو اس دنیا ہی کے خول میں بند رکھنا چاہتا ہے ؟

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں آنے کے بعد بھی انسان عمر کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے۔ بچپن سے جوانی کی طرف اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف یعنی کمال سے زوال کی طرف اور علم سے لا علمی (نسیان) کی طرف۔ پھر اگر موت کے بعد کے مراحل کی خبر دی جا رہی ہے تو یہ اس کے لیے کیوں ناقابل قبول ہے ؟

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شک کو رفع کرنے کے لیے دوسری دلیل ہے۔ اس دنیا میں ہر وقت تغیرات ہوتے رہتے ہیں۔ زمین ابھی خشک تھی مگر جوں ہی پانی برسا سر سبز و شاداب ہو گئی اور اپنے خزانے اگلنے لگی۔ گویا مردہ زمین میں حیات تازہ پیدا ہو گئی کیا یہ مشاہدہ انسان کے اندر ایک قادر مطلق ہستی کا یقین پیدا نہیں کرتا اور اگر وحی الٰہی قیامت کے دن انسان کو اٹھائے جانے کی خبر دے رہی ہے تو اس پر ایمان لانے میں کیا چیز مانع ہے ؟ اگر زمین تغیرات کا منظر پیش کرتی رہتی ہے تو اس میں ایک زبردست تغیر کیوں ممکن نہیں اور اگر زمین اپنے خزانے اگلتی رہتی ہے تو قیامت کے دن اس کا مردوں کو اُگلنا کیوں بعید ہے ؟

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مٹی سے انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کی پیدائش اور اس کے بعد پانی کی ایک بوند سے اس کا سلسلۂ تناسل پھر طفولیت سے شباب کو پہنچنا اور اس کمال کے بعد ضعیف کا طاری ہو جانا اسی طرح خشک زمین کا سرسبز و شاداب ہو کر پُر رونق بن جانا ایک خالق کی خلاقی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ دنیا اتفاقی حادثہ ہوتی تو انسان کی تخلیق میں یہ تدریج ، حالات کا یہ تغیر اور ایک نقشہ اور پلاننگ کے ساتھ انسان کا وجود اس زمین پر ممکن نہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ کا وجود ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور اس کے وجود یا اس کی وحدانیت سے انکار محض کٹ حجتی ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی مثالوں سے یہ بات بھی واضح ہے کہ اللہ بے جان مادوں میں جان ڈالتا رہتا ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات دن مشاہدہ میں آنے والے یہ واقعات جن کا ذکر اوپر ہوااس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اللہ کی ہستی ایک عظیم قدرت والی ہستی ہے اور اس کے لیے کوئی چیز بھی نا ممکن نہیں۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے اس تخلیقی عمل سے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ قیامت کا وقوع اور مردوں کا اٹھایا جانا برحق ہے۔

"قبر میں جو ہیں” سے مراد مردے ہیں خواہ ان کی قبر بنی ہو یا نہ بنی ہو۔

دراصل انسانی زندگی کا عقیدہ قیامت اور دوسری زندگی کو ایک حقیقت مان لینے کی صورت ہی میں حل ہوتا ہے ورنہ کسی مفکر اور کسی فلسفی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس عقیدہ کو حل کر سکے۔ چنانچہ اس کے بغیر زندگی کا نہ کوئی سنجیدہ مقصد متعین کیا جا سکا ہے اور نہ اس پلاننگ کا کوئی نقشہ پیش کیا جا سکا ہے جو انسان کی پیدائش کے پیچھے کارفرما ہے۔ مثال کے طور پر آواگون (تناسخ) کا نظریہ ان بنیادی سوالات کا جواب دینے سے بالکل قاصر ہے اور اس سے زندگی کی کوئی گرہ کھلنے سے تو رہی البتہ مزید گرہیں پڑ جاتی ہیں اور ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی تشریح نوٹ ۵ میں گزر چکی ہے۔ ہدایت سے یہاں مراد وہ دلیل ہے جسے عقل سلیم پیش کرے اور روشن کتاب سے مراد آسمانی کتاب ہے۔ علم میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں مگر ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کا ذکر یہاں خصوصیت سے کیا گیا۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لیڈروں کا حال بیان ہوا ہے جو خدا کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا رویہ بڑا متکبرانہ ہوتا ہے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ خدا کے بارے میں تکبر کا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کو اس دنیا ہی میں ذلت کا مزا چکھنا پڑتا ہے۔ مراد وہ رسوائی ہے جو اخلاق کی سطح پر ہوتی ہے اور جس کو وہی لوگ محسوس کرتے ہیں جن کی اخلاقی حِس تیز ہوتی ہے اگرچہ ذلیل ہونے والا شخص دنیا کی نظروں میں کتنا ہی معزز ہو۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کا ہر عمل مستقبل میں ایک نتیجہ پیدا کرنے والا ہے اور انسان کے یہ کرتوت ہی ہوں گے جس کی بنا پر وہ جہنم کا مستحق قرار پائے گا۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تصویر ہے ان لوگوں کی جو اللہ کو نہ صرف ماننے کا دعویٰ کرتی ہیں بلکہ اس کی عبادت بھی کرتے رہتے ہیں لیکن یکسو ہو کر نہیں بلکہ ذہنی تحفظات (Reservations) کے ساتھ۔ اگر خوشحالی میسر آئی تو خدا کے گن بھی گائیں گے اور اس کی پرستش بھی کریں گے لیکن اگر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو گئے تو اس سے بے تعلق ہو کر اس کے خلاف شکایت کرنے لگیں گے۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ان سعادتوں سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچی خدا پرستی کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہو جاتی ہیں اور آخرت میں بھی وہ بالکل نامراد ہوں گے۔

واضح ہوا کہ خدا پرستی وہی معتبر ہے جس کی تہ میں وفا داری کا جذبہ ہو اور جس پر انسان نرم گرم ہر طرح کے حالات میں قائم ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا پرستی کی جگہ بت پرستی سراسر خلافِ حق اور یکسر باطل ہے۔ اب اگر کوئی شخص حقیقت (Reality) کے خلاف کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس پر راہ راست کا گم ہو جانا بالکل یقینی ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتوں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ اینٹ پتھر ہیں جو ہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان لیکن ان کو پوجنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنا خدائی وجود بھی رکھتے ہیں۔ ان کے اسی خیال کی نا معقولیت یہاں واضح کی جا رہی ہے کہ ان سے کسی فائدہ کی توقع تو دور کی بات ہے البتہ ان کی پرستش سے جو فوری اور لازمی نقصان پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ کسی اور کو حاجت روا ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا شخص اللہ کو واحد حاجت روا (الٰہ) نہیں مانتا۔ بالفاظ دیگر بتوں سے وفاداری اللہ سے بے وفائی کی قیمت پر ہوتی ہے اور یہ کھلا اور زبردست نقصان ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بتوں سے عقیدت پیدا کر کے انہوں نے اپنے لیے بہت برے کارساز اور ساتھی پیدا کر لئے ہیں جو ان کے لیے تباہی کا باعث ہیں۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محلِ کلام دلیل ہے کہ یہاں ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ ایسے لوگ اللہ ہی کو حاجت روا مان کر اس کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرتے ہیں اور اچھے برے ہر حال میں اس سے جڑے رہتے ہیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس شخص کے لیے تہدید (تنبیہ) ہے جو ناخوشگوار حالات میں اللہ کی مدد سے مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب اللہ دنیا میں میری مدد نہیں کر رہا ہے تو آخرت میں بھی نہیں کرے گا۔ اس طرح خدا سے مایوسی اس میں باغیانہ ذہنیت پیدا کر دیتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں تو ایسے لوگ بہ کثرت دیکھے جا سکتے ہیں جو حوادث زمانہ کا شکار ہونے کی بنا پر خدا کو رحیم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیتے ہیں۔ یہ خدا کے رحم اور اس کی مدد سے مایوسی ہی ہے جس نے خدا کے بارے میں ان کے اندر جھنجھلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ خدائی منصوبہ کے خلاف کوئی تدبیر کر سکتے ہیں تو کر دیکھیں۔ اگر وہ رسی تان کر آسمان پر چڑھ سکتے ہیں تو چڑھیں اس کے بعد اس رسی کو بھی کاٹ دیں تاکہ دنیا سے ان کا تعلق بالکل منقطع ہو جائے۔ ایسا کر کے وہ دیکھ لیں کہ ان کا غم و غصہ دور ہوتا ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مدد میں تاخیر کو دیکھ کر انسان اگر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے تو اس سے کیا فائدہ ؟ وہ کوئی ایسی تدبیر تو کر نہیں سکتا کہ خدائی منصوبہ سے آزاد ہو جائے یا اس آزمائشی دنیا سے نکل کر کسی اور دنیا میں چلا جائے۔ اس لیے صحیح راہِ عمل یہی ہے کہ وہ اللہ سے امیدیں وابستہ رکھے اس کو اپنا حقیقی سہارا سمجھے اور ناسازگار حالات میں بھی اس پر بھروسہ کرے کہ وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔

واضح رہے کہ اس آیت میں جس طرح آسمان تک رسی تان دینے کی بات کہی گئی ہے اسی طرح سورۂ ص میں آسمان پر چڑھ جانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اَمْ لَہُمْ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَلی رْتَقُوْانِی الْاَسْبَابِ” کیا یہ آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی موجود ات کے اقتدار کے مالک ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو یہ آسمانوں میں چڑھ جائیں۔” (سورۂ ص : ۱۰)

ظاہر ہے اس آیت میں جو فرمایا گیا کہ آسمانوں میں چڑھ جائیں تو اس سے مقصود کافروں کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے اسی طرح آیت زیر تفسیر میں یہ جو فرمایا گیا کہ ایسا شخص آسمان تک رسی تان لے تو اس سے بھی مقصود اس کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں قرآن کی رہنمائی بالکل واضح اور مدلّل ہے لیکن اس سے روشنی اسی کو ملتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ بینائی عطا کرے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان چھ مذہبی گروہوں کا ذکر ہوا ہے جو اس وقت عرب اور اس کے اطراف میں موجود تھے یعنی مسلمان یہودی، صابی، نصاریٰ، مجوس اور مشرک۔

صبائی کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۸۶ میں گزر چکی۔

مجوس سے مراد آتش پرست لوگ ہیں جو اپنے کو زرتشت کا پیرو قرار دیتے ہیں۔ اس وقت ایران کا یہی مذہب تھا۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۳

مشرک سے مراد متعدد خداؤں کو ماننے والے ، غیر اللہ کی پرستش کرنے والے اور بت پرست ہیں۔ عرب سے باہر کے دسرے مشرکانہ مذاہب خواہ وہ کسی نام سے پکارے جاتے ہوں اسی کے تحت آتے ہیں۔

ان میں سے ہر گروہ اس بات کا مدعی ہے کہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں صحیح راہ وہی ہے جس کو وہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اہل مذاہب کے ان دعوؤں اور الجھی ہوئی باتوں کو باطل قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ سچائی کی راہ اہل ایمان کی راہ ہے یعنی ان لوگوں کی جو قرآن کی دعوت کو قبول کرتے ہیں بالفاظ دیگر مخلص مسلمان جن کا دین اسلام ہے۔ اس کے باوجود اگر لوگ اپنے اپنے مذہب ہی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں تو قیامت کے دن وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ اس نزاع کا فیصلہ فرمائے گا۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۳۸ اور سورۂ نحل نوٹ ٍٍ۔ ۷۱

اس آیت میں اس بات پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات کی تمام مخلوقات خواہ وہ جان دار ہوں ، نباتات ہوں یا جمادات اپنے خالق کے آگے جھکی ہوئی ہیں اور اپنے اپنے طریقہ پر اسی کو سجدہ کر رہی ہیں۔ مختلف علامتوں سے ان کی سجدہ ریزی کا اظہار ہوتا ہے اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے بکثرت لوگ اللہ کے آگے جھکتے ہیں لیکن بہ کثرت لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی مرضی سے اس کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں پر عذاب کا کوڑا لازماً برسنے والا ہے۔ ان کے اس غلط رویہ کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ یہ کائنات اللہ ہی کے آگے سربسجود ہے اور جب یہ حقیقت ہے تو تم اپنا رویہ اس کے مطابق کیوں نہیں بنا لیتے ؟

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا ضروری ہے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک مومنوں کا گروہ ہے جو قرآن پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا کافروں کا گروہ ہے جو قرآن پر ایمان نہیں لاتا خواہ وہ کتنی ہی مذہبی فرقہ بندیوں میں بٹا ہوا ہو۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دردناک عذاب کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر جن کا احساس مردہ ہو گیا ہو وہ اس کا کیا اثر قبول کر سکتے ہیں۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات سے واضح ہے کہ یہاں ایمان لانے کے مفہوم میں دو باتیں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔ ایک توحید اور دوسرے قیامت کے دن اٹھایا جانا۔ جو لوگ اس طرح ایمان لائیں اور ان کی زندگیاں بھی نیکی کی آئینہ دار ہوں ان کو قیامت کے دن جس اعزاز و ا کرام سینوازا جائے گا اس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے۔ یہ تقابل بھی لائق غور ہے کہ کافروں کے لیے جہاں آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے وہاں اہل ایمان کو ریشم کا لباس پہنایا جائے گا۔ دنیا کی زندگی ایک امتحانی اور عبوری دور ہے اس لیے یہاں نعمتوں کے استعمال کے سلسلہ میں کچھ شرعی پابندیاں بھی ہیں لیکن جنت کی زندگی انعام کے طور پر ہو گی اس لیے وہاں نہ صرف یہ کہ نعمتوں کے استعمال میں کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی بلکہ شاہانہ زندگی بسر کرنے کا سارا سامان مہیا کر دیا جائے گا اور اہل جنت کو زیورات اور لباس سے اس طرح آراستہ کیا جائے گا گویا ہر مؤمن ایک دولہا ہے اور ہر مؤمنہ ایک دلہن۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کلمۂ توحید ہے۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ جس کے لیے تمام خوبیاں ہیں اور جو اس کا مستحق ہے کہ اس کے گن گائے جائیں۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو روکتے ہیں کہ وہ اللہ کا دین (اسلام) قبول نہ کریں۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف کہ جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے ان پر مشرکین مکہ نے حرم کے دروازے بند کر دیئے تھے وہ نہ حج کر سکتے تھے اور نہ عمرہ۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسجد حرام پر کسی کی اجارہ داری صحیح نہیں کہ جس کو چاہیں زیارت کرنے دیں اور جس کو چاہیں روکیں۔ یہ مرکز توحید ہے اور اہل توحید کو خواہ وہ زمین کے کسی خطہ یا گوشہ میں رہتے ہوں یہ حق ہے کہ وہ یہاں آ کر خدائے واحد کی بندگی کریں۔ اس مسجد کے دروازے کسی پر بھی بند نہیں ہیں اور اس معاملہ میں اہل مکہ اور غیر اہل مکہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے لہٰذا اہلِ توحید میں سے کسی کو حج یا عمرہ کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

مسجد حرام کی اس حیثیت کے پیش نظر دنیا کی کسی حکومت کو خواہ وہ مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلموں کی یہ حق نہیں پہنچتا کہ حج اور عمرہ کے سلسلہ میں ناروا قانونی پابندیاں عائد کرے اور نہ اس سرزمین پر حکومت کرنے والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ویزا وغیرہ کی ایسی پابندیاں عائد کرے کہ عازمین کے لیے بلا وجہ کی دشواریاں پیدا ہوں۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حرم میں قیام و طعام کے سلسلہ میں ایسے طور طریقے اختیار ہ کئے جائیں جن سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو اور ناجائز انتفاع (لوٹ کھسوٹ Exploitation) تو یہاں شدید جرم ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو شخص مکہ میں رہتے ہوئے ظلم و زیادتی کے ساتھ ان مقاصد سے انحراف کرے گا جن کے لیے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ اللہ کی طرف سے درد ناک سزا کا مستحق ہو گا۔

ظلم سے مراد کھلی معصیت کے کام ہیں جن میں شرک بدرجۂ اولیٰ شامل ہے اور اِلحاد (انحراف) سے مراد مسجد حرام کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی ہے اور بے دینی پھیلانا بھی۔ اس آیت کا واضح اشارہ مشرکین مکہ کی طرف ہے جو بیت اللہ کے اصل مقصد (توحید) سے ہٹ گئے تھے اور بت پرستی کو وہاں رائج کیا تھا لیکن بات عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے اس لیے اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو وہاں شرک و بدعت کو رائج کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو نام نہاد مسلمان کسی شر کے ارادہ سے یا تخریبی کارروائی کی غرض سے مکہ آنا چاہتے ہوں ان کے داخلہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خانۂ کعبہ کی تعمیر کے لیے سرزمین مکہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا تھا اور اس کے لیے جگہ کا ٹھیک ٹھیک تعین بھی اسی نے کیا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا وہ اللہ کے حکم کی تعمیل تھی۔

واضح رہے کہ قرآن کریم خانۂ کعبہ کا معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرار دیتا ہے اور اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا کہ اس کی تعمیر تو حضرت آدم نے کی تھی پھر یہ طوفان نوح کی زد میں آ گیا تھا اور حضرت ابراہیم نے اس کی صرف تجدید کی۔ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے اس لیے جن روایتوں کو بنیاد بنا کر مفسرین اس طرح کی باتیں کہتے ہیں وہ قرآن کے صریح بیان سے مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ کسی تفسیر میں جگہ پائیں۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۱۱۷)

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہدایت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے دی گئی تھی تاکہ اول روز ہی سے بیت اللہ کی تعمیر کا مقصد واضح ہو جائے اور ان کے پیرو اس ہدایت کو حرزِ جان بنا لیں۔ گھر کو پاک رکھنے کا مطلب خاص طور سے بتوں سے پاک رکھنا ہے نیز ہر قسم کی آلائشوں سے بھی۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب خانۂ کعبہ کی تعمیر ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حج کی عام منادی کر دیں۔ اس منادی کا مطلب یہ تھا کہ

اولاً یہ گھر کسی مخصوص قبیلہ ، قوم یا علاقہ کے رہنے والوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے عبادت گاہ ہے۔ لوگ یہاں آئیں اور اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ثانیاً اس گھر کی خصوصیت یہ ہے کہ حج کی عبادت اسی سے وابستہ ہے۔ حج کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ وہ مخصوص شکل میں اللہ کے حضور حاضری ہے اور توحید کا نقش دل میں بٹھا کر اس سے گہری محبت و ابستگی اور اس کے لیے قربانی کے جذبات پیدا کرنے والی عبادت ہے۔ ثالثاً حج کی عام دعوت در حقیقت توحید کو قبول کرنے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے کی عام دعوت تھی۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ لوگ اپنے رب کی طرف لپکیں اور اس کی عبادت کے لیے اس گھر کو مرجع بنائیں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی دور سے آئیں گے کہ سفر کی وجہ سے اونٹ دبلے ہو گئے ہوں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں صحرائی سفر طے کرنے کا ذریعہ اونٹ ہی تھے اس لیے اس کا ذکر ہوا اور آج تو کاروں ، بسوں ، اسٹیمروں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ لوگ دور دور کے علاقوں سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے حج کے لیے آتے ہیں اور ہر سال مسجد حرام میں دو ملین (بیس لاکھ) سے زائد توحید کے پروانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے معاشی اور مادی فائدے دیکھ لیں کیونکہ حج کا حکم اس طرح کے فائدوں کے لیے نہیں دیا گیا ہے بلکہ مراد دینی فائدے ہیں کیونکہ حج نہایت افضل عبادت ہے۔ مشہور مفسر علامہ حصاس لکھتے ہیں : "منافع (منفعتوں) سے بالخصوص دنیا کی منفعتیں ہرگز مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں حج کی دعوت کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیا کی منفعتیں حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے حالانکہ حج کا مطلب طواف، سعی، وقوف عرفہ و مزدلفہ، قربانی اور دیگر منا سک کی ادائیگی ہے۔ دنیوی منفعتیں اس میں طبعاً داخل ہیں اور صرف رخصت کے درجہ میں ہیں حج کا مقصد نہیں ہیں۔” (احکام القرآن ج۳ ص ۲۳۷)

حج کے دینی فائدوں میں سب سے بڑا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا تصور ہے چنانچہ حج کے دوران لبیک (خدا حاضر ہوں) کی صدا بلند کی جاتی ہے۔ پھر بیت اللہ اور شعائر اللہ کا مشاہدہ ایمان کی تقویت، اللہ کی محبت اور اس سے گہری وابستگی کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے صبر کرنے اور اس کی راہ میں مجاہدہ کرنے نیز اطاعت و تسلیم اور قربانی کے اعلیٰ جذبات کی پرورش کا سامان ہوتا ہے۔ اسلام کی تاریخ کے نقوش ابھر کر سامنے آتے ہیں حضرت ابراہیم و حضرت اسمعیلؑ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے جن کے کارہائے نمایاں سے خانۂ کعبہ کی تاریخ کے ابواب روشن ہیں عقیدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بیت اللہ کے زیر سایہ مسلمانوں کا عالمگیر اور روح پرور اجتماع امت مسلمہ کے مقصد وجود کو محسوس شکل میں پیش کرتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کے حضور تواضع اور بندی اور اس سے ملاقات کا احساس ایک ایسی روح (Spirit) پیدا کرتا ہے جو دنیا میں مومنانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے ایک زبردست قوت اور متاعِ عزیز ہے۔ رہیں مادی اور دنیوی برکتیں تو وہ حج کے ضمنی فوائد ہیں۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یوم النحر اور ایام تشریق ہیں۔ یعنی ذی الحجہ کی دسویں گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں تاریخ۔ حدیث میں آتا ہے : کُلُّ اَیَّامِ الْتِّشرِیْقِ ذِبْحٌ” سب ایام تشریق ذبح کے دن ہیں۔ ”

یہ مسند احمد کی حدیث ہے اور اسے علامہ ناصر الدین البانی نے منا سک الحج و العمرہ میں نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث میرے نزدیک اسناد کے تمام طریقوں سے صحیح ہے۔ (کتاب مذکور صفحہ ۳۴)

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ قربانی (ہدی) ہے جو حج کے منا سک میں سے ہے یہ قربانی ان جانوروں کی جائز ہے جو مویشی (انعام) یعنی پالتو ہوں۔ یہ چار ہیں اونٹ ، گائے ، دنبہ اور بکری خواہ نر ہوں یا مادہ۔ (یہ بات سورۂ انعام آیت ۱۴۴۷۔ ۱۴۳ سے بھی واضح ہے اور حدیث سے بھی۔ اور فقہ السنۃ کے مؤلف سید سابق نے لکھا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔ کتاب مذکور ج ۱ ص ٍٍ۷۳۷)

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی صراحت ہے کہ قربانی (ہدی) کا گوشت کھانے اور کھلانے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے یعنی اس کا حکم سوختی (جس کا گوشت آگ کھا لے) کا سا نہیں ہے جو یہود کے لیے تھی جیسا کہ بائبل سے واضح ہے بلکہ یہ سادہ اور آسان شریعت ہے جو طریقۂ ابراہیم کے ٹھیک مطابق ہے۔

قربانی کا گوشت محتاجوں کو کھلانے کی خاص طور سے ترغیب دی گئی ہے لیکن اس کو قربانی کا اصل مقصد نہیں قرار دیا گیا بلکہ اصل مقصد جیسا کہ اوپر کے فرقہ سے واضح ہے مویشی چوپایوں کو الہ کے نام پر قربان کرنا ہے یعنی یہ ایک عبادت کی نوعیت کی چیز ہے اور اس سے حاصل ہونے والے دوسرے فوائد ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

مشرکین جانوروں کی قربانی بتوں اور دیوی دیوتاؤں کے نام پر کرتے رہتے ہیں لیکن اسلام نے اس طریقہ عبادت کو الہ کے لیے خاص کر دیا ہے جس کو اختیار کر کے آدمی توحید پر قائم ہو جاتا ہے اس لیے اگر حالات کی مجبوری سے گوشت کو کسی مصرف میں نہ لایا جا سکتا ہو تب بھی قربانی کرنا ضروری ہو گا اللہ کے نام پر جانور کی قربانی پیش کرنے سے قربانی کا اصل مقصد تو حاصل ہوہی جاتا ہے اور گوشت کا کسی مصرف میں آنا اس کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ حدیث میں بھی اہراق دم (جانور کا خون بہانے) کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کی اصل قدر و قیمت اسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جبکہ آدمی توحید کی اہمیت کو سمجھتا ہو اور عبادت الٰہی کی قدرت و قیمت جانتا ہو۔

اگر قربانی کی اصل اہمیت گوشت کی ہوتی تو سابقہ شریعت میں قربانی کے گوشت کو جلانے کا حکم نہ ہوتا لیکن جن لوگوں کی نگاہ قربانی کی حقیقت پر نہیں بلکہ اس کے گوشت پر ہوتی ہے وہ بعض ایسے حالات میں جبکہ قربانی کے گوشت کا انتظامی دشواریوں کی بنا پر کوئی مصرف نہیں ہوتا قربانی کو عبث سمجھ کر اس کا دل صدقہ کی شکل میں تجویز کرنے لگتے ہیں حالانکہ کسی ایسی چیز کا جو تعبدی نوعیت کی ہو بدل تجویز کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں اور اگر عبادت کے معاملہ میں ہم نے عقلی گھوڑے دوڑانا شروع کئے تو دین کا پورا نظام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی احرام کی پابندیوں کی وجہ سے جو میل کچیل ہو جاتا ہے اسے دور کریں۔ احرام کی حالت ایک مخصوص حالت ہوتی ہے جس میں بال کٹوانا، ناخن ترشوانا اور خوشبو لگانا ممنوع ہے اس لیے جسم کی صفائی کا وہ اہتمام نہیں ہو پاتا جو عام حالت میں ہوتا ہے مگر قربانی کے بعد سر کے بال منڈائے یا  ترشوائے جاتے ہیں اور احرام اتارا جاتا ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "نذر” کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۵۰۔ یہاں نذر کا ذکر خاص طور سے اس لیے ہوا کہ کسی نے قربانی کی نذر مانی ہے تو وہ اس موقع پر اسے پورا کر دے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے مخاطبین کے پیش نظر خانۂ کعبہ کو قدیم گھر سے تعبیر کیا گیا کیونکہ نزول قرآن سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل حضر ت ابراہیم و حضرت اسمعٰیل علیہم السلام کے ہاتھوں اس کی تعمیر ہوئی تھی اس کا قدیم ہونا اس کی تاریخی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔

سرمنڈانے یا بال کتروانے کے بعد منیٰ سے مکہ پہنچنا اور بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اسے طواف افاضہ یا طوافِ زیارہ کہا جاتا ہے اور یہ حج کارکن ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرمتوں میں شعائر بھی شامل ہیں اور منا سک بھی۔ شعائر میں کعبہ، مسجد حرام، صفا و مروہ اور قربانی کے جانور جیسی خدا پرستی کی نشانیاں شامل ہیں اور ان کی تعظیم اسی طور سے مطلوب ہے جس طور سے کہ اسے مشروع قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صفا و مروہ کی تعظیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے درمیان سعی کی جائے۔ اس سعی کے دوران آدمی صفا اور مروہ پر پاؤں رکھتا ہے لیکن اس پر پاؤں رکھنا تعظیم کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح مسجد حرام سے نکلتے ہوئے آدمی کی پیٹھ خانۂ کعبہ کی طرف ہوتی ہے مگر یہ اس کی تعظیم کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس کو تعظیم کے خلاف سمجھ کر الٹے پاؤں چلتا ہے تو یہ تعظیم نہیں بلکہ بدعت ہو گی۔ اسی طرح جو غلاف خانۂ کعبہ پر چڑھایا جانے والا ہو اس کے لیے کوئی جلوس وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے تو اس کا شمار بھی بدعت ہی میں ہو گا کیونکہ تعظیم کا یہ طریقہ دین میں ایک نئے طریقہ کا اضافہ ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ نحل کی آیت۱۱۵ کی طرف جس میں مرد وغیرہ کی حرمت بیان ہوئی ہے۔

مویشیوں کے حلال ہونے کا ذکر یہاں اوپر کے بیان کی مناسبت سے ہوا ہے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ نے اپنی قائم کردہ حرمتوں کی تعظیم کا حکم ضرور دیا ہے لیکن شرک اور وہم پرستی کی بنیاد پر لوگوں نے جو حرمتیں قائم کی ہیں ان کی تعظیم کا حکم اس نے ہرگز نہیں دیا ہے۔ مشرکین مکہ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کے نام سے جن مویشیوں کو حرام ٹھہرایا تھا اس کے باطل ہونے کی طرف یہ اشارہ ہے۔ گائے کی تقدیس بھی اسی حکم میں ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتوں کی گندگی سے مراد عقیدہ و عمل کی وہ گندگی ہے جو بت پرستی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اوہام و خرافات اور ذہنی خباثت میں مبتلا رہتے ہیں۔

انسان کے نفس کا تزکیہ کرنے والی چیز عقیدۂ  توحید اور ایمان ہی ہے شرک تو انسان کے باطن کو نجاست سے بھر دیتا ہے۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بت پرستی اور شرک کی وجہ سے انسان خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہنے لگتا ہے جو بالکل جھوٹ اور باطل ہوتی ہیں ایسے لوگ خود ساختہ مذہبی رسومات کو ادا کرتے ہیں اور مخصوص جانوروں کی تقدیس کا حکم لگاتے ہیں اور جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آ جاتا ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو حرام اور اس کے ٹھہرائے ہوئے حرام کو حلال قرار دیتے ہیں۔

حدیث میں شہادتِ زور (باطل کی گواہی) کوسنگن گناہ قرار دیا گیا ہے۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الا اُنَبِّئُکمْ باَکبر الکبائرِ؟ قلنا بَلٰی یارسول اللّٰہ؟ قال: الاشراک باللّٰہ، وُعقُوق الوالدین، وکانَ مُتّکئِاً فجلس فقالَ: اَلاَ وقول والزُّور و شہادۃ الزور۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بڑے بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ کون سے ہیں ! ہم نے عرض کیا ضرور اے اللہ کے رسول۔ فرمایا: "اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین سے قطع تعلق” آپ آرام فرما تھے کہ اٹھ بیٹھے اور فرمایا: "سنو جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ ”

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید کی راہ اختیار کرو اور اس پر قائم رہو کسی قسم کے شرک کی آمیزش کے بغیر۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرک کے انجام کی مثال ہے۔ انسان جب شرک کرتا ہے تو فطرت کی بلندی سے گرتا ہے۔ بلندی سے گرتے ہی اسے شیاطین پرندوں کی طرح اچک لے جاتے ہیں اور اس کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب وہ بلندی سے گرا تو ہواؤں نے اسے دور لے جا کر کسی گڑھے میں پھینک دیا اور واقعہ یہ ہے کہ شرک کے نتیجہ میں انسان خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے اور خواہشات اسے پستی کی طرف لے جا کر تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ چنانچہ ایک مشرک میں کبھی فکری بلندی پیدا نہیں ہو پاتی بلکہ وہ ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے پستی ہی کی طرف مائل رہتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شعائر کی تعظیم محض رسمی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق دل کے تقویٰ سے ہے۔ شعائر کو دیکھ کر اللہ کی عظمت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور اللہ کی عظمت کا تصور خوف اور پرہیزگاری پیدا کرتا ہے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ھَدْی (حج کی قربانی) کے جانوروں کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور ان سے سواری کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ پھر ان کو قربان کرنے کی جگہ بیت اللہ کے پاس ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ قربانی منٰی میں بھی کی جا سکتی ہے اور مکہ میں بھی۔ وَکُلُّ مِنٰی وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ مَنْحَر۔ "منیٰ پورا قربان گاہ ہے اور مکہ کے تمام راستے قربان گاہ ہیں۔” (ابوداؤد کتاب الصیام)

گویا قربان گاہ بیت اللہ کے جوار سے منی تک وسیع ہے لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے موقع پر منیٰ میں قربانی کی تھی اس لیے منیٰ میں قربانی کرنا مسنون ہے اور مسجد حرام کے ماحول کی نظافت کے پیش نظر یہی مناسب ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے پہلے دوسری شریعتوں میں قربانی کے طریقے مختلف رہے ہیں مثلاً اہل کتاب میں سوختی (آتشیں) قربانی کا طریقہ رائج تھا (احبار ۲۲:۱۷تا ۳۳) لیکن قربانی کا اصل اصول تمام شریعتوں میں یہی تھا کہ صرف اللہ کے لیے قربانی کی جائے۔ اس کے بخشے ہوئے جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یا قربان کرنا کسی شریعت میں بھی روا نہیں رہا۔ اس لیے جن مذاہب میں اللہ کے سوا کسی اور کے لیے قربانی کا طریقہ رائج ہے وہ ایک مشرکانہ بدعت ہے۔ اللہ کے دین اور اس کی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قربانی کی اصل اسپرٹ کہ آدمی توحید کا اقرار کرے ، اپنے کو مکمل طور پر اس کے حوالہ کرے اور اپنے اندر عجز و نیاز کی صفت پیدا کرے۔ جانور کو زمین پر گرا دینے کا مطلب در حقیقت اپنے کو اللہ کے آگے گرا دینا ہے۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل ایمان کی اہم ترین خصوصیت ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر ہوا دل کانپ اٹھے۔ اللہ کے معاملہ میں وہ بڑے حساس ہوتے ہیں۔ اور اس کے ذکر سے ان کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اونٹ کے ذبیحہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور مشرکین غیر اللہ کے لیے اونٹ کو نامزد کرتے تھے۔ قرآن نے اس کے برعکس اللہ کے نام پر اونٹ کو ذبح کرنا جائز ٹھہرایا اور اس کی قربانی کو شعائر اللہ میں سے قرار دیا۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا کر کے اس کے حلق میں برچھی چبھو دی جائے۔ یہ طریقہ "نَحر” کہلاتا ہے۔ اس طرح خون بہنے لگتا ہے اور اونٹ خود بخود اپنے پہلو پر گر جاتا ہے۔ اگر اونٹ جیسے جانور کو لٹا کر ذبح کرنے کا حکم ہوتا تو اس میں دشواری ہوتی۔ ان کو صف بستہ کھڑا کرنے میں عبادت الٰہی کی شان کا بھی اظہار ہے۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ذبح کرنے کے بعد جب ان کی جان نکل جائے تو ان کا گوشت کھانے کے کام میں لاؤ۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہَدْی (حج کی قربانی) کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہیں۔ ضرورت مندوں کو خواہ وہ قناعت پسند ہوں یا سائل، کھلانے کی خاص طور سے ہدایت کی گئی ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قربانی کی اصل روح اور اس کی غایت کہ اللہ کو اس کا خون اور گوشت مطلوب نہیں بلکہ تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیزگاری) مطلوب ہے۔ اور قربانی کی عبادت اسی لیے مشروع ہوئی ہے تاکہ تقویٰ کے جذبات پرورش پائیں۔

قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی پشت پر تقویٰ کا جذبہ کار فرما نہ تھا (سورۂ مائدہ آیت ۲۷) ۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی حکم کی تعمیل میں قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر (اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے) کہا جاتا ہے۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حج کا بیان اوپر ختم ہوا۔ اب کلام کا رخ جہاد کی طرف پھر رہا ہے جو ظلم کو دفع کرنے کے لیے بھی ضروری تھا اور مسجد حرام کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے بھی۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کا حکم بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل ایمان کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ ان کی طرف سے مدافعت کرے گا یعنی کفر و اسلام کی جنگ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل ایمان کو حاصل ہو گی اور وہ کافروں کی چالوں کو ناکام کر دے گا۔ ایسا اس لیے کرے گا کہ وہ خیانت کرنے والوں اور نا شکری کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ قریش اور ان کے ساتھی خائن ہیں کیونکہ خانۂ کعبہ کی جو امانت ان کے سپرد ہوئی تھی اس میں وہ اس خیانت اور بد عہدی کے مرتکب ہوئے کہ اس میں بت لا کر بٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے شرک اور ناشکری کی راہ اختیار کی۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں جہاد (اللہ کی راہ میں جنگ) کرنے کی اجازت دی گئی یہ ۰۱ھ کے اواخر کی بات ہے۔ اس آیت میں جنگ کی اجازت کے دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکین مکہ نے اہل ایمان کے خلاف خود جنگ چھیڑ دی ہے چنانچہ صورتحال یہ تھی کہ جہاں وہ موقع پاتے مسلمانوں کے ایک نہ ایک گروہ پر حملہ کر دیتے یعنی مدینہ میں بھی ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا بلکہ ان کے خلاف جارحانہ حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔ (اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے) دوسری وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ اہل ایمان مظلوم ہیں ان کا مظلوم ہونا بالکل ظاہر ہے کیونکہ ان کو ناحق اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اب اگر وہ اپنی مدافعت میں تلوار اٹھاتے ہیں تو ایسا کرنے میں وہ بالکل حق بجانب ہیں۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین مکہ نے اہل ایمان کو جو گھر سے بے گھر کیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ توحید کے قائل تھے اور شرک اور بت پرستی سے انہیں انتہائی نفرت تھی۔ ان کی یہ خوبی مشرکین کی نظر میں نہ صرف عیب بلکہ جرم تھی گویا اللہ کے وفادار بندوں کو اللہ کی زمین پر جینے کا حق نہیں ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت (قاعدہ) کا اعلان ہے جس کے مطابق وہ ظالم اور مفسد قوم کا سر کچلنے کے لیے کسی نہ کسی قوم کو اٹھاتا رہتا ہے اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم یا گروہ ظلم پر اتر آیا ہے تو اس کو ہٹانے کا سامان کسی دوسری قوم یا گروہ کے ذریعہ ہوتا رہا ہے۔ اس کی مصلحت یہاں واضح فرما دی کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ عبادت گاہیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے خواہ وہ نصاریٰ کی ہوں یہود کی ہوں یا مسلمانوں کی ظالموں کے ہاتھوں کبھی مسمار ہو چکی ہوتیں۔

اس سنت الٰہی کو بیان کرنے سے مقصود یہاں یہ واضح کرنا ہے کہ قریش نے مسجد حرام کے تقدس کو باقی نہیں رکھا اور مدینہ کے مسلمانوں پر اس کے دروازے بند کر دئے ہیں۔ ان کے اس ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے گروہ کو میدان میں لا رہا ہے۔

واضح رہے کہ آیت میں جن عبادت گاہوں کا ذکر ہوا ہے وہ یا تو اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہیں یا مسلمانوں سے کیونکہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس لحاظ سے وہ قابل احترام ہیں۔ رہے بت پرستوں کے مندر تو ان میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ بتوں کو پوجا جاتا ہے اس لیے ان کی نوعیت مذکورہ عبادت گاہوں سے بالکل مختلف ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مدد کرنے کا مطلب اس کے دین کی مدد کرنا اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے جہاد کرنا ہے ورنہ اللہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے بلکہ بندے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ کی دو صفتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ وہ قوت والا ہے اور دوسری یہ کہ وہ غالب ہے۔ اس کے بعد کسی غلط فہمی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ ایک گروہ ایسا تیار ہو گیا ہے جس کو اگر اللہ تعالیٰ اقتدار بخشے تو وہ نماز اور زکوٰۃ جیسے دین کے بنیادی ارکان کو قائم کرنے والا ہو گا۔ وہ فساد کی جگہ زمین میں اصلاح کا کام کرے گا بھلائیوں کو پھیلائے گا اور برائیوں کو مٹائے گا۔

معلوم ہوا کہ جو لوگ ان خصوصیات کے حامل ہوں وہی اقتدار کے مستحق اور حکومت کرنے کے اہل ہیں۔

یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ برپا ہو گیا تھا جو خلافت و حکومت کا اہل تھا چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب پر اقتدار حاصل ہوا تو آپ کے اصحاب اس کا مصداق ثابت ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت قائم ہوئی تو وہ اس کا عملی نمونہ تھے۔ مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کر کے صحابہ کرام کی پوری جماعت کو بجز چند اصحاب کے مطعون کرتا ہے اور تینوں خلفاء کو غاصب ٹھہراتا ہے۔ ان کا یہ اعتقاد اس بات سے صریح انحراف ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اور ان کی گمراہی کے لیے یہ ایک دلیل ہی کافی ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی بھی معاملہ کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اس لیے حالات کیسے ہی ہوں ہو جو کچھ چاہتا ہے ظہور میں آ کر رہے گا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ اہل ایمان کو بالآخر اقتدار حاصل ہو گا۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر یہ آپ کو جھٹلاا رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی کتنی قومیں اپنے اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلا چکی ہیں۔ مثال کے طور پر نوح کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا اسی طرح عاد نے اپنے پیغمبر ہود کو اور ثمود نے اپنے پیغمبر صالح کی تکذیب کی تھی۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدین والوں نے اپنے پیغمبر شعیب کو جھٹلایا تھا۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ کو ان کی قوم بنی اسرائیل نے نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون والوں نے جھٹلایا تھا۔

اس لیے مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا کہ "موسیٰ جھٹلائے گئے تھے۔”

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانے میں جب کہ قرآن نازل ہو رہا تھا تباہ شدہ قوموں کے آثار عرب کے مختلف علاقوں میں موجود تھے اور یہ اس بات کا تاریخی ثبوت تھا کہ انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے کے نتیجہ میں یہ قومیں اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔

کنویں صحرا میں بڑی اہمیت رکھتے تھے مگر جب بستیاں تباہ ہو گئیں تو یہ بیکار ہو کر رہ گئے۔ اسی طرح شاندار محل ویران ہو گئے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ سفر کرتے رہتے ہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ان کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی ان کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔

یہی حال موجودہ زمانہ کی اثری تحقیقات کرنے والوں اور آثار قدیمہ کی زیارت کرنے والوں کا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ ان گزری ہوئی قوموں نے آرٹ کے کیسے نمونے پیش کئے اور ان کی تہذیب کیا تھی؟ رہی یہ بات کہ انہوں نے زمین میں بناؤ کا کام کیا یا بگاڑ کا؟ اپنے رب کے ساتھ شکر گزاری کا رویہ اختیار کیا تھا یا نا شکری کا؟ انہوں نے جو نمونے پیش کئے ہیں وہ آرٹ کے ہیں یا اسراف کے ؟ ان کی تہذیب دنیا پرستانہ تھی یا آخرت کو نصب العین قرار دینے والی؟ تو ان باتوں سے وہ تعرض ہی نہیں کرتے کیوں کہ ان کو ان باتوں سے دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ کہ حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل کے اندھا ہونے کا مطلب بصیرت سے محروم ہونا ہے آدمی سر کی آنکھوں سے ظاہری حالات کو دیکھتا ہے مگر ان کے اندر حقیقت تک رسائی کا جو سامان ہے اس کو دیکھنے کے لیے دل کی آنکھیں درکار ہوتی ہیں یعنی بصارت کے ساتھ بصیرت کی بھی ضرورت ہے۔ ورنہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود آدمی کچھ بھی نہیں دیکھتا۔ یہی دل کا اندھا پن ہے۔ آیت میں جس اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ انسان کے تمام باطنی قویٰ کا مرکز قلب (دل) ہے جو سینہ کے اندر ہوتا ہے یعنی اس کا باطن حدیث نبوی میں بھی اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے :

اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الجَسَدُ کُلُّہٗ وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَہِیَ الْقًلْبُ (بخاری کتاب الایمان) "اچھی طرح سمجھ لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے آگاہ ہو جاؤ کہ وہ قلب ہے۔ ”

اور واقعہ یہ ہے کہ انسان کے تمام احساسات و جذبات کا مرکز دل ہی ہے جبکہ دماغ کی حیثیت ایک سوچنے والے آلہ اور ایک معاون کی ہے۔ محبت و نفرت ،دوستی اور دشمنی، خلوص اور بدنیتی، ہمدردی اور شقاوت، سبق آموزی اور بے حسی جیسی باتیں دل ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے اگر قرآن نے عقیدہ و عمل کے لیے اصل محرک قلب کو قرار دیا ہے تو اس نے درحقیقت ایک بہت بڑی حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہو کہ وقت کے جو پیمانے تم نے قائم کئے ہیں اور جس کی بنا پر تم عجلت اور تاخیر کا حکم لگاتے ہو وہی پیمانے اللہ کے ہاں بھی ہیں۔ نہیں بلکہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس کے نزدیک وقت کا پیمانہ تمہارے پیمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نزدیک ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ گویا کسی قوم کے لیے چند سالوں کی مہلت کائناتی گھڑی کے حساب سے محض چند منٹوں کی مہلت ہے۔

اب تو یہ بات انسان کے علم میں آ چکی ہے کہ مختلف سیاروں میں دن کی مقدار زمین کے دن کی مقدار سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا اگر قرآن یہ خبر دیتا ہے کہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے وقت کا جو پیمانہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کی رو سے ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میرا کام تو اللہ کی نافرمانی کے نتائج بد سے آگاہ کر دینا ہے اس کے بعد ماننا یہ نہ ماننا تمہارا کام۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں اہل ایمان کو جو رزق ملے گا وہ نہ صرف عمدہ اور نفیس ہو گا بلکہ اعزاز کے ساتھ ملے گا۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اصلاً کافروں کے تعلق سے کہی گئی تھی مگر موجودہ زمانہ میں ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جو اپنے سیاسی اور دنیوی مفادات کے پیش نظر قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات کو نیچا دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ قرآن میں جو باتیں کافروں کے تعلق سے کہی گئی ہیں وہ کافروں کے لیے مخصوص ہیں بلکہ وہ اصولی باتیں ہیں اور ایک مسلمان کا کسی کافرانہ طرز عمل کو اختیار کرنا اتنا ہی قابل مذمت ہے جتنا کہ ایک غیر مسلم کا اس کو اختیار کرنا۔

۸۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اور نبی میں منصب کی حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر اس کی ذمہ داریاں ایک نبی سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ٍٍ۷۱۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی بھی رسول اور نبی کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ جس حق کو لیکر وہ آیا ہے اس کو لوگ قبول کر لیں مگر جب وہ اپنی یہ دعوت پیش کرتا ہے تو شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے پیغمبر اور اس کی دعوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے اور لوگوں کو اس کی مخالفت پر اکساتا ہے اس طرح شیطان پیغمبر کی امنگ میں خلل ڈالتا ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک طرف آپ کی یہ دلی تمنا تھی کہ آپؐ کی قوم آپ پر ایمان لائے اور دعوتِ حق کو قبول کر کے اللہ کی رحمتوں کی مستحق بن جائے اور دوسری طرف قوم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ کی دعوت کو برداشت کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں تھی یہاں تک کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس موقع پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آ رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ یہی معاملہ پیش آتا رہا ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسے مٹ جاتے ہیں اور حق اس طرح نکھر کر سامنے آ جاتا ہے جیسے بادلوں کے چھٹ جانے سے چاند روشن ہو کر سامنے آ گیا ہو۔

قرآن کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ شیطان کی وسوسہ اندازی کے نتیجہ میں جو شبہات پیدا ہو گئے تھے ان کا ازالہ ہو گیا اور دین حق اس طرح جلوہ گر ہو گیا کہ اس پر کوئی غبار نہ تھا۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی ان دو صفتوں کو یہاں بیان کرنے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ جو کچھ نبی کے ساتھ پیش آتا ہے وہ مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ساتھ جو معاملہ کرتا ہے وہ علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا یقین رکھو کہ شیطان نے جو شر پیدا کیا ہے اس کے مقابلہ میں اللہ خیر ابھارے گا۔

آیت کا جو مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا وہ نہ صرف سیاق و سباق کے مطابق ہے بلکہ اس سے ملتی جلتی جو باتیں قرآن میں دیگر مقامات پر ارشاد ہوئیں ہیں اس سے بھی مطابقت رکھتا ہے لیکن بعض مفسرین نے ایک موضوع حدیث کا سہارا لیکر اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کو سورۂ والنجم سنا رہے تھے جس میں بت پرستی کی مذمت کی گئی ہے تو شیطان نے آپ کی زبان پر بتوں کے لیے تعریفی کلمات (تلک الغرانیق) جاری کر دئے یہی شیطان کا القاء تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں منسوخ کر دیا جیسا کہ بعد کی آیت میں بیان ہوا ہے۔

یہ روایت ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر جامع البیان میں جو عربی کی مشہور اور قدیم ترین تفسیر ہے بلا تحقیق بیان کر دی۔ اس کے بعد کچھ دوسرے مفسرین نے مکھی پر مکھی چپکانے کا کام کیا لیکن اکثر مفسرین ، محدثین اور علماء نے اس کا سخت نوٹس لیا اور اس روایت کو موضوع اور باطل قرار دیا چنانچہ امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قصہ موضوع ہے۔ (تفسیر کبیر ج ج۲۳ص۵۱)

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :

"اس قصہ کی تمام روایتیں مرسل (منقطع) ہیں اور میرے دیکھنے میں نہیں آیا کہ کہیں صحیح اسناد کے ساتھ متصلاً بیان ہوا ہے۔” (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۲۲۹)

اور علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں :

بہت سے محققین نے اس قصہ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بیہقی کہتے ہیں یہ قصہ عقل کی رو سے ثابت نہیں ہوتا اور قاضی عیاض الشفاء میں فرماتے ہیں اس حدیث کو بے وقعت قرار دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس کو اہل صحت (اصحاب صحاح ستہ) میں سے کسی نے بیان نہیں کیا اور نہ کسی ثقہ راوی نے اسے صحیح سلیم اور متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے بلکہ اس سے صرف ایسے مفسرین اور مورخین کو دلچسپی رہی ہے جنہیں ہر غریب (غیر معروف) روایت سے دلچسپی ہوتی ہے اور جو کتابوں سے ہر صحیح و  سقیم روایت کو اخذ کرتے ہیں اور "بحر” میں ہے اس قصہ کے بارے میں امام محمد بن اسحاق السیرۃ النبویہ کے مؤلف سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ زندیقوں کا گھڑا ہوا ہے۔” (روح المعانی ج ۶ ص ۱۷۷)

علامہ آلوسی نے اس قصہ کی تردید میں مبسوط بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا آسان ہے کہ شیطان نے بعض راویوں کی زبان پر یہ بات القاء کر دی تھی بہ نسبت اس کے کہ رسولؐ اللہ کی زبان پر شیطان نے غرانیق (بتوں کی تعریف) کی بات القاء کی تھی۔ ملاحظہ ہو روح المعانی ج ۲ ص ۱۸۲) اردو میں علامی شبلی اپنی محققانہ تصنیف "سیرۃ النبیؐ” میں اس قصہ کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ قصبہ اگرچہ سرتاپا بیہودہ اور ناقابل ذکر ہے اور اکثر کبار محدثین مثلاً بیہقی، قاضی عیاض ، علامہ عینی، حافظ منذری، علامہ نووی نے اس کو باطل اور موضوع لکھا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت سے محدثین نے اس روایت کو بہ سند نقل کیا ہے” (سیرت النبی ج ۱ ص ۲۲۴)

اور مولانا مودودی نے اپنی وقیع تفسیر”تفہیم القرآن” میں اس پر مبسوط اور مدلل بحث کرتے ہوئے اس روایت کے پرخچے اڑا دئے ہیں اور اخیر میں لکھا ہے :

"خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔” (تفہیم القرآن ج ۳ ص ۲۴۴)

دراصل یہ روایت اس قدر بیہودہ ہے کہ اس کو بیان کرنا بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اسی لیے ہم نے اس کو پوری طرح نقل بھی نہیں کیا بلکہ اس کا خلاصہ بیان کرنے پر اکتفاء کیا۔ یہ روایت قرآن کی تصریحات کے بالکل خلاف اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صریح بہتان ہے اس لیے اس کو رد کرنے کے لیے یہ ایک بات ہی کافی ہے مگر جو لوگ روایت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی تاویل کے ذریعہ ایک ایسی بات کو بھی قبول کر لیتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ راویوں پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہتے اگرچہ پیغمبر کی شخصیت مجروح ہو رہی ہو۔ قبولِ حدیث کا یہ معیار سراسر غلط ہے خواہ فن حدیث کا کوئی ماہر ہی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کیوں نہ لگائے قرآن فرقان یعنی کسوٹی ہے اس لیے جو روایت اس کسوٹی پر کھوٹی ثابت ہو وہ رد اور باطل ہے۔ ایسی روایت کو فن حدیث کی بحثوں میں الجھا کر صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

اور جہاں تک آیت زیر تفسیر کا تعلق ہے اس میں تو یہ بات عمومیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ شیطان کس طرح ایک نبی کی امنگ میں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی سورۂ انعام آیت ۱۱۳، ۱۱۴ میں بیان ہوئی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص قرار دیا جائے اور نہ اس تکلف کی ضرورت ہے کہ تَمنّٰی کے معنی معروف معنی سے ہٹ کر پڑھنے اور تلاوت کرنے کے لیے جائیں جیسا کہ متعدد مفسرین نے لیے ہیں۔ مزید برآں جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ مکی دور سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا زمانہ ہجرت حبشہ کے کچھ عرصہ بعد کا بتایا جاتا ہے۔

جب کہ سورۂ حج مدنی تنزیل ہے جیسا کہ اس کے مضامین (ہجرت جہاد وغیرہ کے احکام اور حج سے مسلمانوں کو روک دینے کے بیان) سے ظاہر ہے اس لیے اس سورہ کی زیر تفسیر آیت کا اس شانِ نزول سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اس قصہ میں بیان ہوا ہے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان حالات سے نبی کو اس لیے گزارتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات ان لوگوں کے لیے وجہ آزمائش بن جائیں جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہو گئے ہیں۔ روگ سے مراد متعصبانہ اور مجرمانہ ذہنیت ہے اور دلوں کے سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ نتیجہ ہے اسی گنہگارانہ ذہنیت کا۔ ایسے لوگ جب شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کے ذریعہ آزمائش میں پڑتے ہیں تو وہ اس کے فتنہ کا شکارہو جاتی ہیں اور ان کے دلوں کا کھوٹ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے اور ان کی مخالفت میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ جہالت کی تاریکی میں نہیں رہتے بلکہ علم کی روشنی میں چلتے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ فضا شکوک و شبہات سے مکدر ہو گئی ہے تو سمجھتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی فتنہ پردازی ہے اور نبی کی دعوت برحق ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش ان کے لیے غیر متوقع نہیں ہوتی اور اس کشمکش کو دیکھ کر ان کے ایمان اور زیادہ پختہ ہو جاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں کہ اس آزمائش کے پیچھے اس کی عظیم حکمت کارفرما ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں وہ پیغمبر کی بات کسی دلیل سے ماننے والے نہیں۔ وہ اپنے انکار پر جمے رہیں گے اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب وہ قیامت کو دیکھ لیں گے یا اس عذاب کو جو کفر کی پاداش میں ان پر آئے گا۔

محرومی کے دن سے مراد خیر سے محرومی کا دن ہے۔ یعنی ہلاکت کا دن۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا دن ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہجرت اسلام میں وہی معتبر ہے جو اللہ کی راہ میں ہو یعنی جو خالصۃً اللہ کے لیے اور اس کے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کی غرض سے کی گئی ہو حدیث میں آتا ہے :

اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیِ وانمالِامْرِیٔ مَّانَویَ فَمَنْ کَانَتْ ہَجرتُہُ اِلٰی اللّٰہِ ورسُولِہِ وَمَنْ کاَنَتْ ہِجرتُہُ اِلٰی دُنیا یُصیْبُہَا اَوْ اِمْراۃٍ یتزوجہا فہجرتُہُ الی مَاہَاجَرَ اِلیْہِ۔ (بخاری کتاب الایمان والنذر) "اعمال نیتوں پر موقوف ہیں۔ آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے و تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ ”

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۱۷۷

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد آخرت کا رزق ہے۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد جنت ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ جانتا ہے کون لوگ اس انعام کے مستحق ہیں اور وہ ان کے ساتھ نہایت عالی ظرفی کے ساتھ معاملہ کرے گا۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ان کے لیے آخرت میں یہ انعام ہے۔ رہی ان کی مظلومانہ زندگی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ان مظلوموں کی مدد فرمائے گا۔

ہجرت کے بعد مشرکین مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کر دی تھی جیسا کہ آیت ۳۹ سے واضح ہے۔ مدینہ کے باہر سفر کرنے والے مسلمان پر ان کے حملوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں کو اس آیت کے ذریعہ ہدایت دی گئی کہ زیادتی کے جواب میں وہ ویسی ہی زیادتی کر سکتے ہیں اور اگر اس کے بعد زیادتی کا سلسلہ نہیں رکا تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کی تائید اپنی نصرت خاص سے کرے گا چنانچہ جب مشرکین مکہ کی جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ نہیں رکا تو انہوں نے مظلوم اہل ایمان کے خلاف جنگی اقدام کیا تو بدر کے معرکہ میں اہل ایمان کے لیے نصرتِ الٰہی نازل ہوئی۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مظلوم اہل ایمان کے لیے تسلی ہے کہ اللہ ان کے قصوروں کو معاف کر دے گا اور انہیں بخش دے گا۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو ہستی رات اور دن کے ہیر پھیر پر قادر ہے وہ یقیناً اس بات پر بھی قادر ہے کہ ظلم کے گھٹاؤں کو ختم کر کے انصاف کی ہوائیں چلائے۔ پھر وہ اپنے مظلوم اور وفادار بندوں کی مدد کیو ں نہیں کرے گا جبکہ وہ سب کچھ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین جب معبودوں کو پکارتے ہیں وہ باطل ہیں کسی کی مدد کرنے پر ہرگز قادر نہیں لیکن اللہ حقیقی معبود ہے اور وہ مدد کرنے پر یقیناً قادر ہے پھر وہ کفر و اسلام کی اس کشمکش میں اہلِ ایمان کی مدد کیوں نہیں کرے گا۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ کی دو صفتیں علی اور کبیر بیان ہوئی ہیں۔ علی کی صفت اس کے مرتبہ کو ظاہر کرتی ہے اور کبیر کی صفت اس کی قدرت اور اقتدار کی عظمت کو۔

شرک کرنے والے اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کی شان کے بھی خلاف ہوتی ہیں اوراس کے اقتدار کے بھی منافی۔ بالفاظ دیگر وہ اللہ کو مانتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اس کے علی اور کبیر ہونے کی نفی کرتے ہیں جبکہ اللہ کو ماننا وہی معتبر ہے جس سے ان صفات کی نفی نہ ہوتی ہو جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگ بارش اور زمین کے سر سبز ہونے کے منظر کو دیکھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے اگر غور کرتے تو خدا کی صحیح معرفت (پہچان) انہیں حاصل ہو جاتی۔ خشک زمین کا بارش کے چھینٹے گرتے ہی سرسبز ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب ایک ایسی ہستی کی کار فرمائی ہے جو نہایت لطیف تدبیر کرنے والی اور حالات سے باخبر رہنے والی ہے۔ لہٰذا خدا کے بارے میں اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اس نے دنیا کے بارے میں اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اس نے دنیا کو پیدا تو کیا لیکن اب اس کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کی نہ اسے خبر ہے اور نہ اس سے اسے کوئی سروکار۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ہستی پوری کائنات کی مالک ہو وہ کب کسی چیز کی محتاج ہو سکتی ہے۔ اس لیے اللہ کی یہ صفت کہ وہ ہر قسم کی ضرورتوں سے بے نیاز ہے ایک واضح حقیقت ہے اور یہ حقیقت بالکل آشکار ہے کہ کمالات اور خوبیوں سے متصف اور تعریف کا مستحق ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری خدمت میں لگا دی ہیں۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجرام سماوی کا فضائے بسیط میں معلق رہنا اور آسمان کا چھت کی صورت میں قائم رہنا اس طور سے کہ کبھی اس کا کوئی ٹکڑا زمین پر نہ گرے کیا یہ یقین انسان میں پیدا نہیں کرتا کہ کائنات کا رب انسان کے حق میں بڑا شفیق اور مہربان ہے !

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہے اور دوسری زندی اصلاً مکمل نعمت ہے بشرطیکہ انسان اس نعمت کا قدر شناس ہو اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے۔ رہی موت تو وہ عارضی زندگی اور ابدی زندگی کے درمیان ایک عبوری مرحلہ ہے۔ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر کے انسان زندگی کی نعمت کو ضائع کر دیتا ہے اور اپنے رب کا ناشکرا بنتا ہے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورۂ میں حج کے جو منا سک بیان کئے گئے اس پر بعض گوشوں سے اور خاص طور سے مدینہ کے یہود کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہو گا کہ اگر ے طریقۂ عبادت اللہ کی طرف سے مقرر ہے تو دوسرے نبیوں کی امتوں میں اللہ کی عبادت کے دوسرے طریقے کس طرح رائج ہو گئے۔ مثلاً یہود کی شریعت میں قربانی کا طریقہ تو ہے لیکن اونٹ کی قربانی کو شعائر اللہ میں سے نہیں قرار دیا گیا اسی طرح قربانی کے لیے حج کے ایام مخصوص نہیں کئے گئے ہیں یا یہ کہ یہود کے ہاں سبت منانے کا حکم ہے لیکن قرآن کی شریعت میں یہ حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے ہر امت کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا جس پر وہ چلتی رہی۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کے طور طریقے مقرر کرنے میں حالات کو لحاظ سے فرق رہا ہے۔ اب اگر اللہ کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ آخری نبی کی امت کے لیے ایک مخصوص طریقہ عبادت مقرر کر دیا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے ؟ کیا اللہ کی عبادت کا طریقہ مقرر کرنے میں لوگوں کی مرضی کا دخل ہونا چاہیے یا اللہ کو یہ حق ہے کہ وہ جو طریقہ چا ہے مقر ر کر دے ؟

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اصول حقیقت ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا کافی ہے۔ اس مسئلہ پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی عبادت کے طور طریقوں میں اختلاف کے مسئلہ پر بحث کو طول دینے کے بجائے اصل دعوت کو پیش کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے پیغمبر جس طریقہ عبادت کو تم اختیار کئے ہوئے ہو وہ اس وحی کے مطابق ہے جو تم پر کی گئی ہے اس لیے تم ہدایت پر ہو اور ہدایت کی یہی راہ ہے جو سیدھی اللہ تک پہنچتی ہے۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرک کی تردید کے لیے جو آگے کی جا رہی ہے تمہید ہے کہ اللہ جس کو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم ہے اور جس نے کائنات کی تمام موجودات اور واقعات کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کا سامان کیا ہے اس کے علم میں تو یہ بات نہیں ہے کہ کہیں کسی اور خدا کا وجود ہے۔ اگر کوئی اور خدا یا دیوی دیوتا ہوتے تو اس کو اس کی خبر کیسے نہیں ہوتی؟

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کے مستحق عبادت ہونے کے بارے میں نہ وحی الٰہی کی کوئی حجت موجود ہے اور نہ کوئی عقلی و فطری دلیل جس کو علم سے تعبیر کیا جا سکے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اللہ کی آیتوں میں خالصتہً توحید کا ذکر ہوتا ہے اور ان کے معبودوں کو باطل قرار دیا جاتا ہے اس لیے آیتوں کو سن کر ان کے چہروں پر ناگواری کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس ناگواری سے بھی بدتر چیز۔ مطلب یہ ہے کہ ناگواری کی بدترین کیفیت وہ ہو گی جو تم دوزخ میں محسوس کرو گے۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکھی نہایت حقیر جاندار ہے اور جب مشرکین کے خدا سب مل کر بھی اتنی حقیر چیز پیدا نہیں کر سکتے تو کیا پیدا کر سکتے ہیں ؟ اور جب کچھ نہیں پیدا کر سکتے تو خدا کیونکر ہوئے ؟

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ اپنے بتوں پر شہد اور زعفران لیپ دیتے تھے اور مشرکین ہند ان کے سامنے مٹھائی پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے خداؤں کے سامنے کھانا پیش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ان خداؤں کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ اگر مکھی ان کے کھانوں میں سے کچھ اڑا لے جاتی ہے تو وہ اس کو واپس نہیں لے سکتے۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پرستار بھی کمزور اور معبود بھی کمزور۔ ایسے معبودوں کی پرستش سے ان کے پرستاروں کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے ؟

اس عام فہم مثال کے ذریعہ شرک اور بت پرستی کی تردید اتنے موثر انداز میں کی گئی ہے کہ اس کے باطل ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اندھی عقیدت میں مبتلاہو جاتا ہے پھر وہ ہوش و حواس سے کام لینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی جبکہ "عقل” کی پرواز آسمانو ں میں ہے انسان اپنے رب حقیقی کو پا نہیں سکا ہے اور کتنی ہی قومیں ہیں جنہوں نے اینٹ پتھر کو خدا بنا لیا ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ زبردست طاقت والا اور سب پر غالب ہے۔ جس شخص کے ذہن میں اللہ کی عظمت کا یہ تصور ہو وہ کسی اور کے خدا ہونے کا قائل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ کے سوا نہ کوئی طاقتور ہے اور نہ غالب۔ شرک کرنے والے اس لیے متعدد خداؤں کے قائل ہوتے ہیں کہ ان کا تصور خدا صحیح نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اسے فروتر خیال کرتے ہیں۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین رسالت کے قائل نہیں ہوتے البتہ خدا کے لیے بیٹے بیٹیوں یا اوتار کے قائل ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کو جو اونچے سے اونچا مقام عطا کرتا ہے وہ کیا ہے۔ فرمایا وہ مقام رسول (پیغامبر) ہونے کا ہے جو اللہ کا بندہ ہی ہوتا ہے نہ کہ خدا۔

اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے ان ہی میں سے ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اس کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کی گراں بار ذمہ داری کو اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں اور ان رسولوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وہ فرشتوں میں سے پیغامبر منتخب کرتا ہے جو اللہ کا پیغام اس کے رسولوں پر وحی کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طریقہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا رسالت کے لیے انتخاب ہوا ہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ پیغامبر اپنی ذمہ داریوں کو جس طرح ادا کرتے ہیں اس سے وہ بے خبر نہیں رہتا بلکہ وہ ان کی ہر بات سنتا اور ان کے ہر کام کو دیکھتا ہے۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول ہونے کی بنا پر کسی کو بھی خدا کی پوزیشن حاصل نہیں ہوتی کہ لوگ اس کو مرجع قرار دیکر حاجت روائی کے لیے اس کو پکارنے لگیں۔ مرجع تو صرف اللہ ہے اسی کے حضور سارے معاملات پیش ہوتے ہیں اور وہی فیصلے صادر کرتا ہے۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اختتامی آیتیں ہیں جن میں خطاب کا رخ اہل ایمان کی طرف ہو گیا ہے۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکوع اور سجدہ تعبیر ہے نماز سے۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عبادت خواہ نماز کی شکل میں ہو، حج اور قربانی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں اللہ ہی کے لیے جو تمہارا حقیقی رب ہے مخصوص ہونی چاہیے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلائی (خیر) کے کاموں میں وہ تمام کام شامل ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مبنی ہوں اور جن کا فیض بندگانِ خدا کو پہنچتا ہو۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جہاد سے مراد وہ جہاد ہے جس میں قوت استعمال کی جائے اور مخالف طاقت کا زور توڑا جائے۔ "اللہ کی راہ میں” کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقصد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہو اور ان لوگوں سے جہاد کیا جائے جنہوں نے اپنے شرک اور کفر کی بنا پر للہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہوں تاکہ لوگ اس کے دین کو قبول نہ کریں یا اس کے اہم ترین تقاضوں کو پورا نہ کریں۔ اس سورۂ میں گزر چکا کہ مشرکین مکہ نے اسلام کی راہ میں کیسی کیسی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف کس طرح طاقت کا استعمال کر رہے تھے۔ اسی پس منظر میں اہل ایمان کو نہ صرف جہاد کرنے بلکہ حق جہاد ادا کرنے یعنی پوری طرح تن من دھن کی بازی لگانے کا حکم دیا گیا۔ اور جہاد کی یہ اصولی ہدایت اپنے شرائط کے ساتھ قیامت تک کے لیے ہے۔ حدیث میں آتا ہے : لاتَزَالُ طائفۃٌ مِنْ اُمَّتِی یُقاتِلُون عَلٰی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ الی یوم القیامۃ (مسلم کتاب الایمان) "میری امت کا ایک گروہ حق پر ہو کر قیامت تک لڑتا رہے گا اور غالب ہو گا۔ ”

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں یہ سعادت بخشی کہ اس کے دین کے علمبردار بن جاؤ اور لوگوں کے لیے مینارۂ ہدایت بنو۔

واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کا گروہ جو ان آیات کا مخاطب اول تھا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ گروہ تھا اس لیے مسلمانوں کو جو فرقے چند صحابہ کو مستثنیٰ کر کے اس پورے گروہ کو مطعون کرتے ہیں وہ ناقابل اعتبار روایتوں اور مسخ شدہ واقعات کی بنا پر جو تاریخ کی کتابو ں میں درج ہو گئے ہیں قرآن کی تصریحات سے انحراف کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگر صاف ذہن سے قرآن کا مطالعہ کریں اور روایتوں کے مقابلہ میں قرآن کو مقدم رکھیں تو اس گروہ کے سچے قدر داں بن جائیں جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا تھا۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شریعت میں وہ سخت احکام نہیں ہیں جو اس سے پہلے کی شریعتوں میں رہے ہیں مثلاً سبت منانے کا حکم جو یہود کو دیا گیا تھا بڑا ہی سخت تھا اور یہ سخت احکام انہیں ان کی سرکشی کی بنا پر دئے گئے تھے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو شریعت دی گئی ہے وہ کسی مخصوص قوم یا دور کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ہے جو اپنی ترکیب میں آفاقی ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اس لیے اس کو آسان بنا دیا گیا ہے اور اس میں زیادہ رخصتیں رکھی گئی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ایسا حکم دیا ہی نہیں گیا ہے جس کی بجا آوری اہل ایمان کے لیے مشکل ہو۔ اوپر جہاد کا حکم گزرچکا جو جان اور مال کی قربانی کا مطالبہ ہے اس لیے آیت کا صحیح مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو قرآن کی دوسری تصریحات کے مطابق ہو۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ وہی دینِ توحید ہے جو ابراہیم کا دین تھا نیز یہ شریعت بھی بنیادی طور سے وہی ہے جو ابراہیم کو دی گئی تھی۔ یعنی سادہ شریعت الحنیفیۃ السمحۃ  اور جس میں حج اور اس کے منا سک بھی شامل ہیں۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے تمہارا___ایمان لانے والوں کا____نام سابقہ امتوں میں بھی "مسلم، ہی رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی تمہارا یہی نام ہے یہ خیال صحیح نہیں کہ یہ نام حضرت ابراہیم کا رکھا ہوا ہے اور ان سے پہلے یہ نام نہیں رکھا گیا تھا۔ حضرت نوح نے جو حضرت ابراہیم سے بہت پلے گزرے ہیں اپنے مسلم ہونے کا اعلان کیا تھا۔ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُونَ مِنَ المسلمین "اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بنکر رہوں” (سورۂ یونس ٍٍ۷۲)

یہ نام ان صفات کو ظاہر کرتا ہے جو اس کے معنی میں مضمر ہیں یعنی وہ جس نے اسلام کو قبول کر کے اپنے کو اللہ کے حوالہ کیا ہو اور اس کا فرمانبردار ہو۔

اس کے بعد مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے رکھے ہوئے نام کی جگہ اپنا کوئی اور نام رکھیں یا اس پر کسی اور نام کا اضافہ کریں مگر مسلمانوں میں جب فرقہ بندیاں ہو گئیں تو ہر فرقہ نے اپنا ایک الگ نام رکھا اور آج تو مسلمان عام طور سے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی دم چھلا لگا دیتے ہیں جو ان کے مسلک وغیرہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے اصلاح بہت ضروری ہے۔ اپنے کو صرف مسلم کہنے پر اکتفا کرنا چاہیے جو اللہ کا رکھا ہوا نام ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان خصوصیات کی حامل امت بنا کر تمہیں اس لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ تم اس دین کی لوگوں کے سامنے گواہی دو جس کی گواہی تمہارے سامنے دینے کے لیے رسولوں کو بھیجا گیا ہے۔

یہ حکم امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرے اور اس کے لیے اپنے تمام ممکنہ وسائل کو رو بہ کار لائے۔ دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین وہ اہم ترین فریضہ ہے جس کی انجام دہی کے لیے یہ امت برپا کی گئی ہے مگر آج مسلمانوں میں اس کا احساس بہت کم پایا جاتا ہے اسلیے وہ محض ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے افراد بہت کم ہیں جن کو شہادتِ دین کی فکر ہو اور جو غیر مسلموں کے سامنے دین کی دعوت پیش کرتے ہوں۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو مضبوط پکڑنے کا مطلب اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے اور تعلق باللہ اس کی صفات کے شعور، اس کی عبادت اور اطاعت ، اس سے محبت اور اس پر توکل کرنے سے مضبوط ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 (۲۳) سورۂ المؤمنون

 

 (۱۱۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ مؤمنوں نے فلاح پائی۔ اس مناسبت سیاس کا نام "المؤمنون” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیاب ہونے والے کون لوگ ہیں اور ناکام ہونے والے کون پھر جن عقائد کے قبول کرنے پر کامیابی کا دارومدار ہے ان کا برحق ہونا بدلائل ثابت کیا گیا ہے اور ان شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جو اس سلسلہ میں پیش کئے جا رہے تھے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  تا ۱۱  میں اہل ایمان کو کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور اس کامیابی کے لیے جو اوصاف ضروری ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۱۲  تا ۲۲  میں اللہ کی ربوبیت پر استدلال کرتے ہوئے دوسری زندگی اور جزا و سزا کو لازم قرار دیا گیا ہے۔

آیت ۲۳  تا ۵۰  میں رسولوں کی دعوت کو جھٹلانے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۵۱  تا ۵۶  میں اس حقیقت کا اعلان کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا لیکن ان کے پیروؤں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے۔ اب وہ اپنی اس غلط مذہبیت کے باوجود محض اس بنا پر کہ اللہ نے ان کو دنیا کی دولت دے رکھی ہے اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اللہ ان سے خوش ہے اسی لیے ان پر دولت کی بارش کر رہا ہے۔

آیت ۵۷  تا ۶۱  میں دنیا پرستوں کے مقابلہ میں بھلائی کی طرف لپکنے والوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

آیت ۶۲ تا ۶۷  میں لوگوں کو تنبیہ ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔

آیت ۶۸  تا ۹۲  میں منکرین کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔

آیت ۹۳  تا ۹۸  میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دعا کی تلقین کہ اے رب ! ان کافروں پر اگر میری موجودگی میں عذاب ا گیا تو اس سے مجھے محفوظ رکھ۔

آیت ۹۹  تا ۱۱۷  میں منکرین کا موت کے وقت اور پھر قیامت کے دن جو حال ہو گا اس کی تصویر اور اس بات پر اختتام کہ کافر کبھی فلاح پانے والے نہیں ہیں۔

آیت ۱۱۸  اختتامی آیت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطہ سے ہر اس شخص کو جو ایمان لائے یہ ہدایت ہے کہ وہ اللہ سے مغفرت اور رحمت کی دعا کرے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً کامیاب ہوئے ایمان لانے والے۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی نماز میں خشوع (عاجزی) اختیار کرتے ہیں۔ ۲*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لغو باتوں سے رُخ پھیرتے ہیں۔ ۳*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ۴*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کی ۵*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملکیت میں آ گئی ہوں تو ان کے بارے میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ۶*

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ یقیناً ۷*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی امانتوں ۸* اور اپنے عہد۹* کا پاس رکھتے ہیں۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ۱۰*

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ ۱۱* اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (نچوڑ) سے پیدا کیا۔ ۱۲*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اسے نطفہ بنا کر ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ۱۳*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر نطفہ کو جمے ہوئے خون کی شکل دی پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کا ٹکرا بنایا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں کی شکل دی پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۱۴* پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ ۱۵* تو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا ۱۶*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد تم کو لازماً مرنا ہے۔ یقیناً ۱۷*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر یقیناً تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ ۱۸*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہ بر تہ آسمان بنائے ۱۹* اور ہم مخلوق کی طرف سے غافل نہیں ہیں۔ ۲۰*

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس پر قادر ہیں کہ اسے غائب کر دیں۔ ۲۱*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے۔ تمہارے لیے ان میں بہت سے پھل ہیں جن کو تم کھاتے ہو۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ درخت بھی جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ تیل لیے ہوئے اگتا ہے۔ اور کھانے والوں کے لیے سالن۔ ۲۲*

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی بڑا سبق ہے۔ ہم ان چیزوں کے اندر سے جو ان کے شکم میں ہے تمہیں (دودھ) پلاتے ہیں۔ ۲۳* تمہارے لیے ان میں بہت سے فائدہ ہیں اور ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ ۲۴*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کئے جاتے ہو۔ ۲۵*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۲۶* اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ کیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں ! ۲۷*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا کہنے لگے یہ شخص تو بس تمہارے ہی جیسا بشر ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ اگر اللہ (رسول بھیجنا) چاہتا تو فرشتوں کو اتار دیتا۔ ایسی بات تو ہم نے اپنے اگلے باپ دادا سے سنی ہی نہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں اس شخص کو جنون ہو گیا ہے لہٰذا کچھ دن اس کے بارے میں انتظار کرو۔ ۲۸*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح نے دعا کی اے میرے رب ! میری مدد کر اس بات پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ ۲۹*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ ۳۰* پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے ۳۱* تو ہر قسم کے نر و مادہ کا جوڑا اس میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ لے لو سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔ ۳۲* اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا وہ غرق ہو کر رہیں گے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب تم اپنے ساتھیوں کو لیکر کشتی میں سوار ہو جاؤ تو کہو شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔ ۳۳*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو اے رب! مجھے برکت کے ساتھ اتار ۳۴* اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔ ۳۵*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعہ میں بڑی نشانیاں ہیں ۳۶* اور ایسا ضرور ہے کہ ہم (لوگوں کو) آزمائش میں ڈالیں۔ ۳۷*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان کے بعد ہم نے دوسرے دور کے لوگ پیدا کر دئے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان ہی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا ۳۸* (اس دعوت کے ساتھ) کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں !

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا تھا اور جنہیں ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے یہ تو تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے۔ وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم نے اپنے ہی جیسے آدمی کی اطاعت کر لی تو تم گھاٹے میں رہو گے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو تمہیں آگاہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کی شکل میں رہ جاؤ گے تو تمہیں نکالا جائے گا۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعید ہے بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ۳۹*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی تو بس اس دنیا ہی کی زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں۔ ۴۰* اور ہمیں ہرگز اٹھایا نہ جائے گا۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑا ہے اور ہم اس کی بات ہرگز ماننے والے نہیں ہیں۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے دعا کی ۴۱* اے رب! انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو تو میری مدد فرما۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا قریب ہے وہ وقت جب وہ نادم ہوں گے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ ایک ہولناک آواز نے جو حق کے ساتھ نمودار ہوئی تھی انہیں پکڑ لیا۔ ۴۲* اور ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا۔ پھٹکار ہے ظالم قوم کے لیے !

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں اٹھائیں۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ٹھہرسکتی ہے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے۔ ۴۳* جب بھی کسی قوم کے پاس اس کا روسل آیا اس نے اسے جھٹلایا۔ تو ہم ایک کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کرتے رہے اور ان کو افسانہ بنا کر چھوڑا۔ پھٹکار ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے !

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی حجت کے ساتھ بھیجا۔ ۴۴*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اور اس کی حکومت کے سربراہوں کی طرف مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے۔ ۴۵*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور بالآخر ہلاک ہو کر رہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موسیٰ کو ہم نے کتاب عطاء کی تاکہ لوگ ہدایت پائیں۔ ۴۶*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ابن مریم ۴۷* اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا ۴۸* اور انہیں ایک اونچے ٹیلے پر جگہ دی جو پرسکون اور چشمہ والی تھی۔ ۴۹*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ۵۰* تم جو کچھ کرتے ہو میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے ۵۱* اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ ہی سے ڈرو۔ ۵۲*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر لوگوں نے پنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۵۳* ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اسی میں مگن ہے۔ ۵۴*

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو چھوڑ دو انہیں اپنی غفلت میں ڈوبے رہیں ایک وقت خاص تک۔ ۵۵*

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد دئے جا رہے ہیں۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا ان کے لیے خیر میں اضافہ کر رہے ہے۔ نہیں بلکہ ان کو (اصل حقیقت کا) شعور نہیں۔ ۵۶*

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے رب کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ ۵۷*

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو پنے رب کا شریک نہیں ٹھہراتے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ ۵۸*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں بھلائیوں میں سرگرم رہنے والے اور سبقت کر کے ان کو پا لینے والے۔ ۵۹*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کسی شخص پر اس کی مقدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے۔ ۶۰* اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دیتی ہے۔ ۶۱* اور ان کے ساتھ نا انصافی نہ ہو گی۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان کے دل اس کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ دوسرے کام ہیں جن میں وہ مشغول ہیں۔ ۶۲*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ یہی کرتے رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو یہ چیخنے لگیں گے۔ ۶۳*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آہ و زاری نہ کرو ہماری طرف سے تمہیں کوئی مدد ملنے والی نہیں۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب میری آیتیں تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھمنڈ کرتے ہوئے اس کو قصہ گوئی کے لیے مشغلہ بنا کر بکواس کرتے۔ ۶۴*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا۔ ۶۵* یا ان کے پاس ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے اگلے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟ ۶۶*

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ اپنے رسول کو پہچان نہ سکے اس لیے اس کے منکر ہو گئے ! ۶۷*

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہو گیا ہے۔ ۶۸* نہیں بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو حق ہی ناگوار ہے۔ ۶۹*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو آسمان و زمین اور جو ان میں ہیں سب (کا نظام) درہم برہم ہو جاتا۔ ۷۰* حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کو یاددہانی کرانے والی چیز لائے ہیں اور وہ اپنی اس یاد دہانی سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ ۷۱*

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ان سے مال طلب کر رہے ہو؟ ۷۲* تمہارے لیے تو تمہارے رب کا دیا مال ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے شک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہو۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ۷۳*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف دور کریں تو یہ اپنی سرکشی میں ڈھیٹ ہو کر بھٹکتے رہیں گے۔ ۷۴*

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا مگر نہ وہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ انہوں نے عاجزی کی ۷۵*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب ہم سخت عذاب کا دروازہ ان پر کھول دیں گے تو اس (حالت) میں وہ بالکل مایوس ہو کر رہ جائیں گے۔ ۷۶*

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھ اور دل بنائے مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔ ۷۷*

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم اکٹھا کئے جاؤ گے۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ رات اور دن کا الٹ پھیر اسی کے اختیار میں ہے۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ ۷۸*

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر انہوں نے بھی وہی بات ہی جو اگلے لوگ کہہ چکے ہیں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو ہم کو پھر اٹھایا جائے گا؟

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وعدہ ہم سے کیا جا رہا ہے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا تھا۔ ۷۹* یہ محض اگلوں کے افسانے ہیں۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ زمین اور اس میں بسنے والے کس کی مِلک ہیں ؟

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اللہ کی۔ کہو پھر کیا تم یاددہانی حاصل نہیں کرتے !

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اللہ۔ ۸۰* کہو پھر تم (اس سے) ڈرتے نہیں ؟

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے یہ باتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ کہو پھر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے !

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے حق لائے ہیں اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ ۸۱*

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔ ۸۲* اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لیکر الگ ہو جاتا اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ ۸۳* پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیب اور حاضر کا جاننے والا۔ بالاتر ہے وہ ان کی مشرکانہ باتوں سے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کرو اے میرے رب! اگر تو مجھے عذاب دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اے میرے رب! مجھے اس ظالم گروہ میں شامل نہ کر۔ ۸۴*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے شک ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ تمہیں دکھا دیں۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برائی کو اس طریقہ سے دور کرو جو بہتر ہو۔ وہ جو باتیں بناتے ہیں ان کو ہم خوب جانتے ہیں۔ ۸۵*

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو اے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ۸۶*

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے میرے رب! اس بات سے بھی میں پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔ ۸۷*

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ان کا یہی حال رہے گا) یہاں تک کہ جب کسی کی موت آ کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دیجئے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ جو کچھ میں نے چھوڑا ہے اس میں نیک کام کروں۔ ہرگز نہیں یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے۔ ۸۸* اور ان کے آگے ایک برزخ ہو گی۔ ۸۹* اس دن تک کے لیے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان نہ رشتہ داریاں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ ۹۰*

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جن کی میزانیں بھاری ہوں گی وہی کامیاب ہوں گے۔ ۹۱*

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن کی میزانیں ہلکی ہوں گی وہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈالا۔ ۹۲* جہنم میں ہمیشہ رہنے والے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی اور ان کے منہ بگڑے ہوئے ہوں گے۔ ۹۳*

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں اور تم ان کو جھٹلاتے نہ تھے ؟

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر غالب آ گئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ ۹۴*

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال دے۔ اگر ہم پھر ایسا کریں تو ظالم ہوں گے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمائے گا پڑے رہو اسی میں دھتکارے ہوئے اور مجھ سے بات نہ کرو۔ ۹۵*

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ہیں ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو بہترین رحم فرمانے والا ہے۔ ۹۶*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تم نے ان کو مذاق بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ اس مشغلہ نے میری یاد سے بھی تمہیں غافل کر دیا اور تم ان کی ہنسی اڑاتے رہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ان کے صبر ۹۷* کا بدلہ میں نے یہ دیا کہ وہی کامیاب ہو گئے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ پوچھے گا ۹۸* تم زمین میں کتنے سال رہے ؟ ۹۹*

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ حصہ۔ شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ۱۰۰*

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمائے گا تم تھوڑی ہی مدت ٹھہرے رہے۔ کاش تم نے یہ بات جان لی ہوتی! ۱۰۱*

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے ؟ ۱۰۲*

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (ایسی بات سے) بہت بلند ہے اللہ بادشاہ حقیقی۔ ۱۰۳* اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ عرشِ کریم کا مالک! ۱۰۴*

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ یقیناً کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ۱۰۵*

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کرو میرے رب بخش دے رحم فرما اور تو بہترین رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۰۶*

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے جیسا کہ آیت ۱۱  سے واضح ہے اور قرآن کی نظر میں اصل کامیابی آخرت ہی کامیابی ہے کیونکہ وہ انعام کے طور پر ہو گی اور ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

اس کامیابی کے لیے شرط اول ایمان ہے پھر وہ اوصاف جو آگے بیان ہوئے ہیں۔ واضح ہوا کہ آخرت کی کامیابی اوصاف (Merit) کی بنیاد پر ہو گی نہ کہ اسلام سے رسمی تعلق کی بنیاد پر۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خشوع کے معنی صاحب جلال ہستی کے تصور سے لرزنے ، اس کے آگے پست ہونے اور عاجزی اختیار کرنے کے ہیں۔ نماز کی روح یہی ہے کہ بندہ پر اللہ کا خوف طاری ہو، وہ دبی آواز میں اس سے مناجات کرے اور عاجزی و بندگی کا اظہار کرے۔ کامیابی کی ضمانت ان ہی ایمان والوں کو دی گئی ہے جو خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔

خشوع کا تعلق اصلاً دل سے ہے : اَلَمْیَأنِ لِلذِئیْنَ آمَنُوْا اَنْ تخشع قُلُوْبُہُمْ لِذِکْراللّٰہ (حدید۔ ۱۶) "کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے آگے جھک جائیں۔”

اور جب دل میں خشوع ہو تو یہ کیفیت جسم پر بھی طاری ہو گی یعنی نگاہیں پست ہوں گی، آواز دبی ہوئی ہو گی، توجہ اللہ ہی کی طرف رہے گی اور سکون و اطمینان کے ساتھ پُر وقار طریقہ پر نماز ادا کی جائے گی۔ قرآن میں نماز کے جو اثرات و ثمرات بیان کئے گئے ہیں وہ ایسی ہی نماز کے اثرات و ثمرات ہیں۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لغو باتوں سے بچنا نماز کا فیضان ہے اس لیے اس کا ذکر نماز کے متصلاً بعد ہوا۔ لغو کے معنی بے مقصد اور فضول کے ہیں۔ اس کا اطلاق حرام اور منکر کاموں ہی پر نہیں ہوتا بلکہ ان کاموں پر بھی ہوتا ہے جن کا کوئی حقیقی فائدہ یا مصلحت نہ ہو، موجودہ دور میں لغو کی ترقی یافتہ شکلوں میں بیہودہ گانے ، خیال آرائی کے مشاعرے ، قہقہوں کے پروگرام، فالتو قصے اور افسانے ، شطرنج اور کیرم کے کھیل اور میچ اور فٹ بال وغیرہ کے وہ بڑے بڑے مظاہرے شامل ہیں جو وقت اور روپے کی بربادی کا کھلا سامان ہیں اور جو ایسی ذہنیت پیدا کرتے ہیں کہ آدمی کھیل کود ہی میں لگا رہے اور آج کل ٹی وی پر ایک سے ایک بیہودہ مناظر پیش کئے جاتے ہیں مگر مخلص مومن بڑے شریف النفس ہوتے ہیں وہ ایسی چیزوں سے دلچسپی لینا تو درکنا ان پر ایک نگاہ غلط ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکی دور میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری تھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۵۸۔

بعض مفسرین نے لذکوٰہ فاعلون کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ تزکیہ کا کام کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سراسر تکلف ہے۔ زکوٰۃ اپنے مخصوص معنی میں قرآن کا اصطلاحی لفظ ہے اس لیے اس کو تزکیہ کے معنی میں لینا صحیح نہیں اور اگر زکوٰۃ کے ساتھ فَاعِلُوْن کا لفظ استعمال ہوا ہے تو دوسری جگہ فِعْلَ الْخَیرْاتِ (بھلائی کے کام۔ سورۂ انبیاء ۷۳) کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ زکوٰۃ کو یہاں مصدری معنی (تزکیہ کے معنی) میں لیا جائے۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قضائے شہوت کے حرام طریقوں سے بچتے ہیں اور ستر (پوشیدہ اعضاء کو چھپانا) کے حدود کا لحاظ کرتے ہیں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں جنسی تعلق کے جواز کی دو صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرے دوسرے یہ کہ وہ ان لونڈیوں سے جنسی تعلق قائم کرے جو اس کی ملکیت میں ہوں۔

آدمی کی بیوی وہ ہے جو اس کے عقد نکاح میں ہو۔ رہی لونڈی تو اس کے لیے مالک ہونا شرط ہے یعنی ایک شخص اسی لونڈی سے جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے جس کا وہ واقعی مالک ہے۔ غلامی کا مسئلہ اس زمانہ میں نہ صرف یہ کہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا بلکہ خود غلاموں اور لونڈیوں کی بہبود کا مسئلہ بھی متضاد تقاضے رکھتا تھا۔ جو غلام اور لونڈیاں پہلے سے چلی آ رہی تھیں ان کو اگر غلام اور لونڈیاں تسلیم (Recognize)  ہی نہیں کیا جاتا یا قانون کے ذریعہ سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو اس سے غلاموں اور لونڈیوں کو بظاہر راحت ہو سکتی تھی لیکن اس وقت کے حالات میں ان کے لیے معاش کا مسئلہ اور لونڈیوں کے لیے خاص طور سے رہائش اور کفالت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر سکتا تھا جس کے نتیجہ میں وہ بدکاری کا شکار ہو سکتی تھیں۔ اس لیے اسلام نے مکی دور میں ان کی واقعی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے لونڈیوں کے مالکوں کے لیے ان سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز قرار دیا البتہ غلامی سے ان کی گردنیں چھڑانے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا نیز اس کے لیے مناسب تدبیریں بھی عمل میں لائیں۔

لونڈیوں سے جنسی تعلق کے مسئلہ کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ بہر کیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاف صاف اعلان ہے کہ اہل ایمان اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے جنسی تعلق قائم کرنے کے معاملہ میں قابل ملامت نہیں ہیں۔ پھر کسی کو کیا حق ہے کہ وہ انہیں ملامت کرے ؟

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنی بیوی یا لونڈی ہی سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہے گا تو ایسا شخص فطری اور شرعی حدود سے تجاوز کرنے والا ہو گا۔ جنسی تعلق بیوی یا اپنی ملکیت کی باندی کے علاوہ جس عورت سے بھی قائم کیا جائے گا زنا ہو گا اور اگر مرد مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو یہ لواطت ہو گی اور یہ سب صورتیں حرام ہیں جن کی حرمت شدید ہے۔

اس آیت سے متعہ (مقررہ وقت تک کے لیے کسی عور ت سے اس کی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنے) کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جس سے متعہ کیا جاتا ہے وہ نہ بیوی ہوتی ہے اور نہ لونڈی۔ بیوی اس لیے نہیں کہ وہ متعہ کرنے والے شخص کے نہ عقد نکاح میں ہوتی ہے اور نہ اس پر نفقہ ،طلاق اور عدت وغیرہ کے احکام چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اس شخص کی میرات میں سے حصہ پا سکتی ہے۔ اور لونڈی اس لیے نہیں کہ وہ اس کا مالک نہیں ہے غرضیکہ قرآن میں متعہ کے جواز کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ جو احکام ازدواجی زندگی سے متعلق دئے گئے ہیں ان سے اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ سورۂ مومنون مکی ہے جس کی مذکورہ آیت میں دو صورتیں کے علاوہ جنسی تعلق کی ہر صورت کو حرام قرار دیا گیا ہے گویا متعہ کی حرمت کا حکم مکی دور ہی سے چلا آ رہا ہے۔

متعہ کی ممانعت حدیث سے بھی ثابت ہے :

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نَہیَ عَنْ مُتْعَۃِ النِّآء یَوْمَ خَیْبَرَ۔ (بخاری کتاب المغازی) "حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن متعہ سے منع فرمایا۔”

اور علماء و فقہاء کا اس کی حرمت پر اجماع ہے : "خطابی کہتے ہیں متعہ کے حرام ہونے پر گویا اجماع ہے بجز بعض شیعہ کے۔” (فتح الباری ج ۹ ص ۱۴۲)

"اس نکاح کے حرام ہونے پر ائمہ مذاہب کے درمیان اتفاق ہے۔” (فقہ السنۃ۔ السید سابق ج ۲ ص ۱۴۲)

رہیں وہ حدیثیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ ؐ نے بعض غزوات کے موقع پر متعہ کی اجازت دی تھی اور بعد میں اس کو منسوخ کر دیا تو ان حدیثوں میں متضاد باتیں بیان ہوئی ہیں۔

جب غزوہ خبیر (۰۶ھ) کے موقع پر اس کی ممانعت کر دی گئی تھی تو فتح مکہ (۰۸ھ) کے موقع پر اس کی اجازت دینے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟ اور فتح مکہ کے زمانہ میں تو دین اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور مسلمان ایک طاقت بن چکے تھے اس لیے یہ موقع متعہ کی رعایت کا ہرگز نہیں تھا پھر ایک روایت کی رو سے یہ اجازت تین دن کے لیے دی گئی تھی اس کے بعد اس کی ممانعت کر دی گئی اور دوسری روایت کے مطابق ایک دن اس کی اجازت دی گئی اور دوسرے دن ہی اسے حرام قرار دیا گیا۔ مسلم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر اعلان فرمایا کہ "میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام ٹھہرایا ہے”

اور مسلم ہی کی روایت ہے کہ غزوۂ اوطاس کے موقع پر جو فتح مکہ کے بعد (شوال ۰۸ ھ میں) ہوا آپؐ نے اس کی اجازت دی پھر ممانعت فرما دی (دیکھئے صحیح مسلم کتاب النکاح) ۔

غزوۂ اوطاس کا واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے لہٰذا لا محالہ دو میں سے ایک روایت ہی صحیح ہو سکتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ اعلان فرمائیں کہ متعہ قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا اور پھر جب اوطاس میں جنگ ہو تو آپ اس کی اجازت بھی دیدیں۔ ایسی روایتیں ہرگز حدیث رسول نہیں ہو سکتیں جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہوں۔ ان روایتوں کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مکہ اور اوطاس میں وہ کون سی عورتیں تھیں جو تین دن کے لیے اور محض ایک چادر کے عوض نکاح کرنا پسند کرتی تھیں ؟ اور ان سے ربط پیدا کر نے کا کیا ذریعہ تھا۔ کیا کوئی مسلمان کسی اجنبی مسلمان خاتون سے جا کر پوچھتا تھا کہ تو تین دن کے لیے مجھ سے نکاح کرنے کے لیے آمادہ ہے ؟ پھر اگر وہ آمادہ ہو جاتی تو اس سے بغیر استبراء کے کس طرح فوراً تعلق قائم کیا جا سکتا تھا جبکہ لونڈیوں سے مباشرت کے لیے استبراء یعنی ایک ماہواری کے گزر جانے کی قید ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ متعہ کے لیے استبراء کی قید نہیں تو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں یہ کیسے پتہ چلتا کہ یہ کس کا حمل ہے ؟ اور حمل کی صورت میں بچہ کی کفالت کی ذمہ داری اپنی ماں کے عارضی شوہر پر عائد ہوتی تھی یا نہیں ؟ اگر ہوتی تھی تو عارضی نکاح کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوالات متعہ کی نا معقولیت واضح کرنے کے لیے کافی ہیں مگر مسلمانوں کا شیعہ فرقہ متعہ کے حلال ہونے کا قائل ہے۔ وہ قرآن کو چھوڑ کر روایتوں کا سہارا لیتا ہے۔ وہ روایتوں کو قرآن کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے قرآن کو روایتوں کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ یہی وہ ہمالیائی غلطی ہے جو قرآن کی غلط تاویل کرنے اور نا معقول باتیں ماننے پر آمادہ کرتی ہے۔

جہاں تک ان احادیث کی اسناد کا تعلق ہے بیشتر احادیث ایسی ہیں جن کی اسناد میں کلام کی کافی گنجائش ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم صرف چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔

متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں ایک حدیث صحیح مسلم میں عبدالملک بن الربیع بن سَبرہ سے مروی ہے مگر مشہور محدث یحییٰ بن معین نے اسے ضعیف کہا ہے اور ابوالحسن بن القطان کہتے ہیں ان کا عادل ہونا ثابت نہیں ہے۔ اگرچہ مسلم نے ان کی حدیث بیان کی ہے لیکن وہ قابل حجت نہیں ہے (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ج ۶ ص ۳۹۳) بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوات کے موقع پر انہیں متعہ کی اجازت دی تھی۔ یہ روایت قیس بن ابی حازم سے ہے اور قیس بن ابی حازم کے بارے میں ابن المدینی کہتے ہیں کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۳۸۸)

بخاری کی ایک حدیث حسن بن محمد نے جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع کے واسطہ سے بیان کی ہے کہ "ان دونوں نے کہا کہ ہم ایک لشکر میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاصد ہمارے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں استمتاع (عورتوں سے فائدہ حاصل کرنے) کی اجازت دی گئی ہے لہٰذا استمتاع کرو۔ ” (بخاری کتاب النکاح) جبکہ بخاری نے حسن بن محمد ہی کے واسطہ سے حضرت علی کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے موقع پر متعہ کی ممانعت فرما دی تھی۔ (بخاری کتاب المغازی)

ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا (مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبر دی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے (اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام ماک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل (رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں (تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶) ۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں جب صحیحین کی روایتوں کا یہ حال ہے تو شیعوں کی بیان کردہ روایات کا کیا حال ہو گا!

واقعہ یہ ہے کہ ان متضاد اور الجھی ہوئی روایتوں سے جن میں سے بیشتر روایتیں اسناد کے اعتبار سے علت سے خالی نہیں ہیں یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی رخصت دی تھی البتہ جاہلیت میں چونکہ متعہ کا طریقہ رائج تھا اس لیے آپ نے بڑی تاکید کے سا تھ اس کی ممانعت فرمائی۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی روایت کا صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ہونا اسے ہرگز تقدس عطا نہیں کرتا جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہو۔

ان دلائل کے بعد بھی اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہو کہ متعہ کی رخصت اور زنا میں کیا فرق ہے نیز وہ یہ بھی واضح کرے کہ متعہ قرآن کے ازدواجی احکام کے خلاف نہیں ہے اس کے بعد ہم اپنی اس تحریر پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

۸) امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تفویض کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو لوگ ایک دوسرے کے سپرد کرتے ہیں۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو اللہ سے باندھا گیا ہو اور وہ عہد بھی جو لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہو۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کی حفاظت میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا، وقت پر ادا کرنا، اس طریقہ پر ادا کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا ہے اور اس کے تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھنا شامل ہے۔ آیت ۲  میں نماز کی اسپرٹ واضح کی گئی تھی اور یہاں نماز کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔

ان آیات میں اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر نماز ہی سے شروع ہوا اور نماز ہی پر ختم ہو رہا ہے۔ یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اوصاف اس نماز کے ثمرات ہیں جو حسن و بخوبی کے ساتھ ادا کی جائے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فردوس کا وارث ہونا ہی وہ اصل کامیابی ہے جو اہل ایمان کے حصہ میں آئے گی۔ حدیث میں فردوس کو اعلیٰ درجہ کی جنت سے تعبیر کیا گیا ہے : صحیحین میں ہے :

"جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ اعلیٰ اور بہترین درجہ کی جنت ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔” (ابن کثیر ج ۳ ص ۱۰۸)

اور فردوس کے بھی بہت سے باغ ہوں گے جیسا کہ سورۂ کہف آیت ۱۰۷ سے واضح ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا یہ مٹی کا جوہر تھا جس سے پہلے انسان کی تخلیق ہوئی اسی لیے انسان کی طبیعت میں وہ تمام خصوصیات جمع ہو گئی ہیں جو مختلف خطوں میں پائی جاتی ہیں مگر کوئی زمین نرم ہوتی ہے تو کوئی سخت اسی طرح کسی شخص کا مزاج نرم ہوتا ہے تو کسی کا سخت، مٹی کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور انسانوں کے رنگ بھی مختلف، مٹی میں مختلف چیزیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے انسان بھی مختلف صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۲۴) ۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پہلے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ نطفہ کے ذریعہ چلایا جو پانی کی ایک بوند ہوتا ہے اس کو رحم جیسی محفوظ جگہ میں ٹھہرانے کا اس نے سامان کیا۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نطفہ جن مراحل سے گزر کر جنین (Embryo) کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس کی تشریح سورۂ حج نوٹ ۸ تا ۱۱ میں گزر چکی۔

واضح رہے کہ علقہ (خون کا تھکا) وغیرہ عام مشاہدہ میں آنے والی چیزیں تھیں یعنی اسقاط کی صورت میں لوگ دیکھ لیتے تھے کہ ایک جنین ابتداء میں کیا ہوتا ہے اور بعد میں اس میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ قرآن کا استدلال اسی عام مشاہدہ میں آنے والی چیزوں سے ہے۔ رہا موجودہ علم الجنین (Embryology) جس نے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں تو یہ گو یا قرآن کے اشارات کی تفصیل ہے اور اس سے قرآن کی یہ دلیل اور زیادہ روشن ہو گئی ہے کہ یہ مشاہدہ قرآن کی اس خبر کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے کہ انسان کو اس کا رب دوبارہ اٹھائے گا۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر وہ مرحلہ آتا ہے کہ جنین میں روح پھونک دی جاتی ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا انسان بن جاتا ہے۔ کہاں تو ایک لوتھڑا تھا اور کہاں ایک مکمل انسان بن گیا۔

لوتھڑے کو دیکھ کر اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ایسا وجود اختیار کرنے والا ہے جو زمین کی خلافت سے سر فراز ہو گا مگر چند ماہ کے اندر اندر اس میں ایسی زبردست تبدیلی رونما ہو جاتی ہے کہ وہ ایک نئی مخلوق بنکر ابھرتا ہے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کا ان مختلف حالات اور مدارج سے گزر کر انسان بننا ایک خالق کی خلاقی کا بین ثبوت ہے نیز اس سے اس کی اس شان کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ بڑے کمالات والا ہے اور اس کے فیضان کرم کی کوئی انتہا نہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت کے بعد عالم برزخ میں روحوں کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا کیونکہ یہاں قیامت کے دن اٹھائے جانے پر استدلال کرنا مقصود ہے جو جسم کے ساتھ ہو گا اور اسی روز وہ اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر انسان کا پہلی مرتبہ وجود ہوا تو دوسری مرتبہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر انسان کی موجودہ زندگی مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد عطاء ہوئی ہے اور اس کے بعد بھی وہ مختلف مرحلوں سے گزرتا رہتا ہے تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ موت کے بعد کوئی مرحلہ نہیں ہے ؟ زندگی تو ایک جاری رہنے والی چیز ہے مگر لوگ اس مغالطہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ موت زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیتی ہے حالانکہ موت محض ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہونے کا نام ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ طرائق استعمال ہوا ہے جو طریقہ کی جمع ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور تہ بر تہ ہونے کی بھی۔ عربی میں بولتے ہیں : ریشٌ طرائقٌ وہ پَر جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہوں۔

ریش طرائق اذاکان بعضہ فوق بعض (الصحاح للجوہری ج۴ ص ۱۵۱۶) اور قرآن کریم میں دوسری جگہ سَبْع سمٰوٰت طباقاً (تہ بر تہ سات آسمان سورۂ ملک آیت ۳ّ) اس لیے یہاں بھی تہ بر تہ کے معنی لینا ہی مناسب ہے۔

بعض مفسرین نے سات سیاروں کے مدار مراد لیے ہیں مگر اس کی تائید قرآن کی کسی آیت سے نہیں ہوتی۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سات آسمانوں سمیت پوری کائنات میں جو مخلوق بھی ہے اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعہ پانی کے خزانے انڈیلتا رہتا ہے جو زمین میں جمع ہو کر انسان کے کام آتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو وہ پانی کو غائب کر سکتا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے ڈرے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زیتون کا درخت ہے جو عرب سے قریبی ملک سیناء میں کوہ طور کے پاس پیدا ہوتا ہے۔ اس کا پھل زیتون کے تیل کے لیے مشہور ہے۔ یہ تیل نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور اس کو سالن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے شکم کی آلائشوں کے درمیان دودھ جیسی خالص چیز تیار کر کے ہم تمہیں پلاتے ہیں۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان مویشیوں کا گوشت تمہارے کھانے کے کام آتا ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ہیں اور ان کے ذکر سے مقصود اللہ کے رب ہونے کا احساس پیدا کرنا اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر استدلال کرنا ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی سرگزشت سورۂ اعراف اور سورۂ یونس کے علاوہ سورۂ ہود میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۹۴ تا ۱۰۴، سورہ یونس نوٹ ۱۰۸ تا ۱۱۳ اور سورۂ ہود نوٹ ۳۸ تا ۷۳۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کیا تم اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اگر تم نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کی تو وہ تمہیں سخت سزا دے کیونکہ عبادت اللہ ہی کا حق ہے اور لائق عبادت صرف اللہ کی ذات ہے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم دنیا کی پہلی قوم ہے جس کی طرف پہلا رسول بھیجا گیا تھا اس نے اس جس طرح رسول کا انکار کیا اور اس انکار کے لیے جن غلط باتوں کا سہارا لیا اسی طرح بعد کی قومیں بھی وہی راگ الاپتی رہی ہیں۔ رسالت کا انکار کرنے والوں نے نہ پہلے کوئی معقول بات کہی اور نہ اب کہہ رہے ہیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ان پر میری دعوت واضح ہو گئی اور حجت قائم ہو گئی اور وہ اپنے انکار کی روش سے باز آنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اب تو میری اس طرح مدد فرما کہ حق نافذ ہو جائے اور باطل مٹ جائے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی دعا قبول ہوئی اور قوم نوح کی ہلاکت کا فیصلہ ہو گیا۔ حضرت نوح کو مطلع کر دیا گیا کہ ان کی قوم پر عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا اور تمہاری اور اہل ایمان کی نجات ایک کشتی کے ذریعہ ہو گی لہٰذا تم کشتی تیار کرو۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۵۶۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی ایسے شخص کو نہیں جو کافر ہو اور اس بنا پر اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہو خواہ وہ تمہارے گھر والوں ہی میں سے کیوں نہ ہو۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم مشرک، کافر اور مفسد قوم تھی۔ اسی مفہوم میں اسے ظالم قوم کہا گیا ہے ایسی سوسائٹی اور ایسے ماحول سے نجات اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل تھا کیونکہ اب وہ ایک پاکیزہ ماحول میں اور صاف ستھری ہوا میں زندگی بسر کر سکتے تھے اس لیے اس فضل پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا حکم ہوا۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین پر میرا قدم رکھنا باعث خیر ہو۔ جو کام بھی میری رہنمائی میں انجام پائے وہ خیر کا کام ہو اور میرے وجود سے زمین میں خیر ہی خیر پھیلے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس توقع کا اظہار ہے کہ جب تو اتارے گا تو اپنی عنایتوں اور نوازشوں کے ساتھ اتارے گا۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوموں اور ملتوں کی تاریخ کا یہ اولین باب اپنے اندر بڑے سبق رکھتا ہے مثلاً یہ کہ توحید حق ہے اور شرک باطل ، خدا کی طرف سے ہدایت انسان کو رسول کے واسطہ سے ملتی ہے جو انسان ہی ہوتا ہے ، رسول کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں سخت سزا دیتا ہے اور اپنے رسول اور اہل ایمان کی نجات کا سامان کرتا ہے۔ جب خدا کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے تو حق باقی رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دنیا آزمائش ہی کے لیے بنائی گئی ہے اس لیے یہاں کی زندگی آزمائش ہی کی زندگی ہو گی۔ وحی اور رسالت کا سلسلہ بھی آزمائش ہی کے سلسلہ کی کڑی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے کہ کون اپنی عقل سے کام لیکر اور اپنی بصیرت سے اس کے رسول کو پہچانتا ہے اور اس کے ذریعہ دی جانے والی ہدایت کو قبول کرتا ہے اور کون ہے جو اندھا بنا رہتا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ یہ کون سی قوم تھی۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسی قوم ہو جس کے نام سے لوگ آشنا نہ ہوں مگر تذکیر کے لیے اس کا قصہ بیان کیا ہو۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کو بعید از عقل خیال کرتے تھے اور موجودہ دور کا انسان بھی اسے ایک انہونی بات خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کوئی سنجیدہ بات ہی نہیں ہے کہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہو حالانکہ بہت سی باتیں جو پہلے بعید از عقل تھیں اب قرینِ عقل بن گئی ہیں مگر دوسری زندگی کے منکرین کی ذہنیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کی مادہ پرست دنیا بھی ان گمراہ قوموں ہی کے نقش قدم پر ہے۔ انہوں نے دنیا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ہے ، اسی کے مسائل میں وہ گم ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ نقد فائدے انہیں حاصل ہو رہے ہیں اس میں کوئی کمی ہو۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول نے بالآخر دعا کی۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر وہ عذاب کی گرفت میں آ گئے۔ یہ عذاب جس شکل میں بھی تھا ایک ہولناک آواز کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑا تھا اور ساتھ ہی وہ حق بھی نمودار ہوا تھا جس کا وعدہ رسول نے کیا تھا۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب دنیا میں قوموں کی کثرت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے بھی پے درپے اپنے رسول بھیجے۔ اس وقت دنیا بین الاقوامی نہیں تھی اور نہ ایسے وسائل موجود تھے کہ ایک قوم میں رسول کی بعثت دوسری قوموں تک پیغام رسانی کا ذریعہ بن سکے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے۔ ان سب رسولوں کے اور ان کی قوموں کے نام قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جن رسولوں کے ناموں کا قرآن میں ذکر ہوا ہے ان کے علاوہ بھی بہ کثرت رسول مختلف قوموں کی طرف مختلف زمانوں میں بھیجے گئے تھے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا قصہ تفصیل کے ساتھ سورۂ طٰہٰ میں گزر چکا۔

نشانیوں سے مراد معجزے ہیں جن میں عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ سب سے بڑا معجزہ تھا۔

کھلی حجت سے مراد وہ حجت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی دعوت نیز ان کے گفتار و کردار میں بالکل نمایاں تھی اور ان کی شخصیتیں اس بات کا مظہر تھیں کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہیں اور انہیں اس کی تائید حاصل ہے۔ ایک نبی کی شخصیت حجت ہی ہوتی ہے خواہ وہ کوئی معجزہ دکھائے یا نہ دکھائے۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں قَومَہُمَا لَنا عابُدوْنَ (ان کی قوم ہماری عابد ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہاں عابدون کے معنی عبادت کرنے والے کے نہیں بلکہ غلامی کرنے والے کے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ نے ایک موقع پر فرعون سے کہا تھا: وَ تِلْکَ نِعْمَۃٌ تُمُنُّہَا عَلَیِّ اَنْ عَبَّدتَّ بَنِیْ اِسْرَائِیلَ (شعراء:۲۲) "یہی تیرا وہ احسان ہے جو تو جتا رہا ہے اس بات پر کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔”

اس آیت میں عَبَّدتَّ کا لفظ غلام بنا لینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا تھا۔ ان کی اس کمتر حیثیت کا ذکر کر کے فرعون اور اس کی حکومت کے ذمہ داروں نے لوگوں کو شہ دی کہ موسیٰ اور ہارون کو اللہ کا رسول تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو ہم پر برتری حاصل ہو جائے جبکہ وہ جس قوم کے قائد ہیں وہ ہماری غلامی کر رہی ہے۔ تو کیا اب ہم اپنے غلاموں کے دین کو قبول کر لیں اور ان کے قائدوں کو اپنا قائد مان لیں ! یہی وہ تکبر تھا اور یہی وہ جاہلی عصبیت تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو قبول حق سے روکا۔

موجودہ دور کے ایک مشہور مفسر نے لَنَا عَابدُوْنَ کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو شخص کسی کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے لیکن یہ بات اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جبکہ آدمی یہ سمجھتے ہوئے کسی کی اطاعت کر ے کہ اس کو علی الاطلاق حکم دینے کا اختیار ہے یا اس کی اطاعت کا خدا کی اطاعت کے ماتحت ہونا ضروری نہیں اسی لیے شیطان کی اندھی تقلید کو اس کی عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مگر بنی اسرائیل فرعون کی اطاعت مجبوراً کر رہے تھے اس لیے بھی کہ اس کا اقتدار ان پر قائم تھا اور اس لیے بھی کہ فرعون نے ان کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ایسی صورت میں بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ فرعون کی عبادت کر رہے تھے اور فرعون نے اسی معنی میں کہا کہ یہ قوم ہماری عابد ہے اور اگر بالفرض فرعون نے یہ بات اسی مفہوم میں کہی تھی تو اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ اس کا یہ قول صحیح تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ کو دیوانہ بھی کہا تھا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی یہ بات صحیح تھی۔ اگر نہیں تو پھر فرعون کے اس قول کو کہ یہ قوم ہماری "عابد” ہے عبادت کی شرعی اصطلاح کا مفہوم متعین کرنے کے لیے کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد تورات ہے جو حضرت موسیٰؑ کے بعد بھی طویل عرصے تک لوگوں کے لئے اللہ کی ہدایت معلوم کرنے کا ذریعہ بنی رہی۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا ذکر ان کا نام لیے بغیر ان کی ابنیت سے کیا گیا جس سے ایک تو اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ بغیر باپ کے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور دوسرے یہ کہ وہ خدا کے نہیں بلکہ مریم کے بیٹے تھے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم دونوں مل کر اللہ کی ایک نشانی تھے کیونکہ حضرت مریم بغیر شوہر کے حاملہ ہوئی تھیں اور حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کو جب درد زہ اٹھا تو انہوں نے بیت المقدس سے دور کھجور کے تنہ کے پاس پناہ لی تھی تاکہ وہ پوشیدہ رہیں اور لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچیں۔ یہ جگہ بڑی پرسکون تھی اور یہ ایک ٹیلہ تھا جس کے نیچے اللہ نے چشمہ جاری کر دیا تھا (دیکھئے سورۂ مریم آیت ۲۴) اس آیت کا اشارہ اسی مقام کی طرف ہے جو ان پریشان کن حالات میں اللہ کے فضل خاص سے ان کے لیے سکون و راحت کا ذریعہ بنا۔ بائبل میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا مقام بیت لحم بتلایا گیا ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکم ہر رسول کو دیا گیا تھا اس لیے اس کو اس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے کہ گویا تمام رسول مجتمع ہیں اور ان سے بیک وقت خطاب کر کے یہ ہدایت دی جا رہی ہے۔ یہ بلاغت کا اسلوب ہے۔

پاک چیزیں کھانے کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں ایک یہ کہ وہی چیزیں کھائی جائیں جو شرعاً پاک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔

یہ حکم جب رسولوں کو دیا گیا تو ان کے پیروؤں پر آپ سے آپ لازم آتا ہے کہ اس کی اتباع کریں۔ حدیث میں اس آیت کی بہترین تشریح بیان ہوئی ہے :

اَیُّہا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّطَیِّباً وَاَنَّ اللّٰہ اَمَرَالمُومنینَ بِمَا اَمَرَبِہِ المرسلین فَقَالَ یَا ایَّہَاالرُّسُلَ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبات وَاعْمَلُوْاصالحًا اِنّی بمَا تعمَلونَ علیمٌ وقالَ یَااَیُّہا الذِّینَ آمَنُوْاکلوا مِنْ طَیّبات مَارَرَتْنَاکمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرجُلَ یطیل السَّفَرَ اشعَث اَغْبَرَ یَمُد یَدَیْہ الی السَّمَاءِ یاربِّ یاربِّ ومطعمہٌ حرام و مشربہ "حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے۔ اس نے مؤمنوں کو اس بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے رسولوں کو دیا ہے اس کا ارشاد ہے یٰا اَیُہَا الرُّسُلُ کلوا مِنَ الطیّباتِ وَاعْمَلُوْاصالحاً اِنّی بمَاتَعمَلُونَ علیمٌ (المومنون۵) اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اس کو میں جانتا ہوں۔ "نیز فرمایا یٰایُّہَالَّذِیْنَ آمَنُوا کُلُوْامِنْ طَیِّبَاتِ مَاَرزقناکم (بقرہ۔ ۲۱)” اے ایمان والو کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔” راوی کہتا ہے پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (حج کے لیے) طویل سفر کرتا ہے ، جس کے بال (سفر کی وجہ سے) پراگندہ اور غبار آلود ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھنا، اس کا پینا اور اس کا لباس سب حرام کا ہے اور حرام کھا کر وہ پلا ہے پھر اس کی دعا کس طرح قبول ہو گی؟” (مسلم کتاب الزکوٰۃ)

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ پاک چیزیں کھانے میں اور نیک عمل کرنے میں گہرا ربط ہے چنانچہ صالح غذا صالح اعمال کی پرورش کرتی ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۳۳۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات سورۂ انبیاء آیت ۹۲ میں بھی بیان ہوئی ہے البتہ وہاں فَا تَّقُوْنِ (تو مجھ سے ڈرو) کی جگہ فَاعْبدُوْنِ (تو میری عبادت کرو) ارشاد ہوا ہے۔ ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کا خوف اور اس کی عبادت لازم و ملزوم ہیں۔ جو خدا سے ڈرتا ہو گا وہ لازماً اس کی اور صرف اس کی عبادت کرے گا۔ خدائے واحد کی عبادت نہ کرنا اس سے بے خوف ہو جانا ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۳۵۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر گروہ اپنے اپنے مذہب کو لے کر بیٹھا ہے اور اپنی مذہب پرستی میں ایسا گم ہے کہ ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر فرقہ اپنے مذہب کے بارے میں ایسی عصبیت کا شکار ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتا۔ بڑے بڑے "دانشوروں”  کا حال یہ ہے کہ جب مذہب کا معاملہ آتا ہے تو ان کی عقل ماری جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی رسوم کے طور پر صریح بے ہودہ کام کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ان کو جتنی محبت اپنے مذہب سے ہوتی ہے اتنی محبت اپنے خدا سے نہیں ہوتی حالانکہ مذاہب کی ساری ہماہمی خدا ہی کے نام پر ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنی غفلت ہی میں ڈوبے رہنا چاہتے ہیں اور داعی کی بات سننا نہیں چاہتے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کو وہ ناؤ سمجھ بیٹھے تھے وہ کاغذ کی تھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم کسی باطل مذہب کے پیرو ہوتے تو مال و اولاد کی جو فراوانی ہمیں حاصل ہے وہ نہ ہوتی حالانکہ ان چیزوں کا کسی کو عطا ء ہونا اس کے بر سر حق ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ آزمائش مقصود ہوتی ہے مگر یہ لوگ اس کا الٹا مطلب لے لیتے ہیں۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے خدا خوفی کا معیار مطلوب کہ آدمی نہ صرف اس سے ڈرے بلکہ اس کا خوف اس پر اس طرح چھا جائے کہ اس کی ہیبت و جلال سے وہ کانپ اٹھے اور اس کے عذاب کے تصور سے اس پر لرزہ طاری ہو۔ یہ ایک مؤمن کی اہم ترین صفت ہے اور یہ کوئی منفی چیز نہیں بلکہ زبردست طاقت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ ایسی طاقت کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی اور فرعون کو بھی منہ کی کھانا پڑتی ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو صدقہ و خیرات بھی وہ کرتے ہیں اس پر اطمینان کا سانس نہیں لیتے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے بری ہو گئے بلکہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے رب کے حضور جوابدہی کے تصور سے ڈرتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں یہ عمل اللہ کے ہاں خالص ثابت ہو گا یا نہیں اور وہ اپنے قصوروں پر گرفت سے بچ سکیں گے یا نہیں اور وہ اپنے قصوروں پر گرفت سے بچ سکیں گے یا نہیں۔ ان کے دل کی یہ کیفیت صدقہ و خیرات ہی کے معاملہ میں نہیں ہوتی بلکہ نیکی کے دوسرے کاموں میں بھی ہوتی ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : حضرت عائشہ کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لَا یَا بنتَ الصِدّیقِ وَ الکنّہُم الَّذِینَ یَصُومُونَ ویُصَلّونَ ویَتصَدَّقُونَ وَہُم یَخَافُوْنَ اَنْ لاَ تُقْبَلَ مِنہُمْ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) "نہیں اے بنت صدیق!اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ قبول نہ کیا جائے۔”

آیت میں خاص طور سے صدقہ کے معاملہ میں اس قلبی کیفیت کا ذکر ہوا ہے کیونکہ صدقہ کرنے والا ریا، نمائش اور فخر کے فتنہ کا بآسانی شکار ہو جاتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان اوصاف کے لوگ نہ صرف خیر کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں تیز دوڑ کر ان کو پا لینے کی کوشش کرتے ہیں گویا بازی جیتنے کے لیے اصل میدان نیکی کا ہے نہ کہ ما دی ترقی اور کھیل گود وغیرہ کا۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۴۸۲۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے مراد انسان کا نامۂ اعمال ہے اور ینطقُ (وہ بولتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ وہ بولتا ریکارڈ ہو گا۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو ان کاموں سے دلچسپی نہیں جو اخلاقی لحاظ سے قابل قدر، خدا کے ہاں مقبول اور فلاحِ آخرت کے ضامن ہیں بلکہ ان کو کچھ دوسرے کاموں ہی سے دلچسپی ہے۔ یہ تو کافروں کا حال بیان ہوا ہے مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا حال بھی عام طور سے عجیب ہے۔ کتنے ہی لوگوں کو میچ دیکھنے سے دلچسپی ہے لیکن نماز سے نہیں جبکہ انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ میچ دیکھنے کا۔ واہیات فلمیں دیکھنے میں وہ پوری رات گزار دیتے ہیں یہاں تک کہ عین تہجد کے وقت جو دعا اور عبادت کی مقبولیت کا وقت ہے ویڈیو دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کا دل درگاہوں میں اٹکا رہتا ہے جبکہ مؤمن کا دل مسجد میں۔ یہ بدعات کا شاندار طریقہ پر اہتمام کریں گے مثلاً محرم کا شربت، کھچڑا ، نیاز ، گیارہویں ، مولود اور میلاد النبی کا جلوس وغیرہ لیکن سنتِ نبوی سے کوسوں دور رہیں گے۔ وہ فضول خرچی کریں گے اور نمائشی کاموں میں اپنی دولت لٹائیں گے لیکن بندوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چرائیں گے۔ دنیا بھر کی کتابوں کو وہ پڑھیں گے مگر کتابِ الٰہی کے مطالعہ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہو گا۔ ان کرتوتوں کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ آخرت کی فلاح ان ہی کے لیے ہے !

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کافر قوم پر جو عذاب آئے گا اس میں خوشحال لوگ نشانہ پر ہوں گے کیونکہ سوسائٹی میں فساد کو پھیلانے والے یہی لوگ تھے وہ داد عیش دیتے رہے اور اپنی دولت کو حق کی راہ سے روکنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۶ نوٹ ۲۰) ۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے مشرکین مکہ کی اس حرکت کی طرف کہ وہ رات میں قصہ گوئی کی مجلسیں جما کر غرورِ نفس کے ساتھ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے خلاف خوب بکواس کرتے ہیں۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ اس کلام پر غور کرتے تو ان پر یہ حقیقت کھل جاتی کہ یہ کلام الٰہی ہے اور پھر وہ اس کی قدر کرتے مگر انہوں نے غور و فکر کے بغیر ایک متعصبانہ رائے اس کے بارے میں قائم کی ہے۔

یہ آیت بھی قرآن پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے اور یہ دعوت منکرین کو دی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن عوام و خواص سب کے سمجھنے کے لیے نازل ہوا ہے اور وہ سب کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ کتاب صرف علماء کے سمجھنے کے لیے ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترجموں کی مدد سے قرآن کو سمجھنے کی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آدمی اس کا مطالعہ نہ کرے۔ جو لوگ یہ کہ کر کہ قرآن کو سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں عام مسلمانوں نیز غیر مسلموں کو اس سے دور رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ قرآن سے ان کا راست تعلق قائم ہو جائے۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی طرف رسول کی بعثت کوئی ایسا واقعہ نہیں جو تاریخ میں پہلی مرتبہ پیش آیا ہو اور ان سے پہلے کے لوگ اس سے نا آشنا رہے ہوں۔ ابراہیم و اسمٰعیل رسول ہی تھے جو ان (عربوں) کے جد اعلیٰ ہیں اور وحی الٰہی کی ہدایت ہی پر انہوں خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور حج کے منا سک مقرر کئے تھے۔ پھر وحی اور رسالت کو انوکھی بات سمجھنے کی وجہ؟

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بات بھی نہیں ہے کہ ان کو اپنے رسول کے پہچاننے میں دشواری ہو رہی ہے کیونکہ رسول کی شخصیت کا ان کو اچھی طرح تجربہ ہو چکا ہے اور اس کی صداقت ان پر اچھی طرح عیاں ہے اور اس کی شخصیت میں رسالت کی نشانیاں اس طرح نمایاں ہیں کہ کسی طرح شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۸۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے انکار کی اصل وجہ یہی ہے کہ حق ان کو پسند نہیں کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے اگر وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر چلنے لگے تو درہم برہم ہو کر رہ جائے کیونکہ لوگوں کی خواہشات غلط بھی ہوتی ہیں تناقض (متضاد) بھی اور خلاف عدل بھی۔ اس دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ جو برسر اقتدار آتا ہے کامیابی کے ساتھ حکومت نہیں چلا پاتا کیونکہ مختلف خواہشات اور متضاد آراء حق و عدل کی جگہ لے لیتی ہیں نتیجہ یہ کہ سوسائٹی اور نظام حکومت میں بگاڑ ہی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے انسان کو حقیقت پسند بننا چاہیے اور حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو حق کا تابع بنائے نہ کہ اس بات کا طالب ہو کہ حق اس کی خواہشات سے مطابقت پیدا کرے۔ مشرکین حق کو شرک کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ شرک باطل خواہشات کے سوا کچھ بھی نہیں اور توحید بالکل حق اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن ان کے لیے سر تا سر یاددہانی اور نصیحت ہے جو ان ہی کی خیر خواہی کے لیے ہے مگر جو چیز ان کی اپنی خیر خواہی کے لیے نازل ہوئی ہے اسی سے وہ منہ موڑ رہے ہیں۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی (اے پیغمبرّ تم ان سے کوئی مال تو طلب کر نہیں رہے ہو کہ وہ یہ شبہ کرنے لگیں کہ یہ شخص کاہنوں (نجومیوںّ کی طرح مال بٹورنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص بھی آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ گمراہ ہے۔ آدمی کے راہِ ہدایت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخرت پر ایمان لائے اور آخرت پر ایمان لانے میں قیامت کے دن اٹھایا جانا، اللہ کے حضور پیشی اور اعمال کی جزا و سزا سب پر ایمان لانا شامل ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی تکلیف کو اگر ہم دور کریں تو بجائے اس کے کہ وہ ہمارے شکر گزار ہوں سرکشی میں اور زیادہ بڑھتے چلے جائیں گے۔

اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس وقت کفار مکہ کسی تکلیف میں مبتلا کر دئے گئے تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تکلیف بھوک مری کی تھی۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ مصیبت او ر تکلیف ہے جس میں ایک نبی کی بعثت کے بعد اس کی کافر قوم کو اس لیے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ ہوش میں آ جائے۔ قرآن میں یہ سنت متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے مثلاً: وَمَا ارْسَلْنَا فِی قَرْیَۃ مِنْ نَبیُ اِلاّ اَخَذْنَا اَہْلَہَا باً لبَا سَآءُ الضَرَّئِ لَعَلّہُمْ یَضَّرْعُوْنَ (اعراف:۹۴) "ور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی نبی بھیجا اس کے باشندوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کریں۔”

اور ایک جگہ یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ انہیں برے عذاب سے پہلے دنیوی عذاب کی گرفت میں لے لیں گے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔ حم السجدہ کی آیت ہے۔ وَلَنُذیقنہُمْ من الْعَذَابالْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاکْبَرِلَعَلَّہُمْ یَرجعُوْنَ "ہم انہیں عذابِ اکبر سے پہلے عذاب ادنیٰ کا مزا چکھائیں گے تاکہ وہ رجوع کریں۔”

کفار مکہ بھی اس سنت الٰہی کی زد میں آ گئے تھے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قحط اور بھوک کی شدید تکلیف سے گزرنا پڑا۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "عذاب ادنی”  تو ان کے سنبھلنے کے لیے ہے لیکن اگر انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا تو وہ پھر تباہ کن عذاب کی گرفت میں آ جائیں گے جو ان کے لیے دائمی محرومی اور مایوسی کا باعث ہو گا۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نحل نوٹ ۱۱۵۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم اپنی عقل کا صحیح استعمال کرو تو توحید اور آخرت پر ایمان لے آؤ جس کی دعوت قرآن پیش کر رہا ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں یہ اعتراف موجود ہے کہ دوبارہ اٹھائے جانے کی بات ایسی نہیں جس سے ہم آشنا نہ ہوں اور اب پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئی ہوئی ہو بلکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بات پہلے سے چلی آ رہی ہے اور یہ وعدہ ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ وعدہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعٰیل سے نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ کے اس جواب سے واضح ہوتا ہے کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کے وجود کے نہ صرف وہ قائل تھے بلکہ ان کا رب اللہ ہی کو مانتے تھے اور یہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل ہی کی تعلیم کا اثر ہو سکتا ہے۔ اس بنیا دی حقیقت کو ماننے کے باوجود وہ شرک کے قائل تھے۔ یہ ان کے عقیدہ کا صریح تضاد تھا مگر وہ اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں انسان متضاد باتوں کا قائل ہو جاتا ہے حالانکہ عقل سلیم متضاد باتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقتیں جن کا یہ انکار نہیں کر سکتے توحید کا واضح ثبوت ہیں نیز انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کے لیے دلیل بھی۔ واضح ہوا کہ قرآن کی دعوت بالکل حق ہے اور اس سے انکار کرنے والے بالکل جھوٹے ہیں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے مشرکین کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ خدا نے جب کسی کو بیٹا نہیں بنایا تو بیٹیاں بنانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ نیز اس سے عیسائیوں کے بھی عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۷۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دعا اس لیے سکھائی گئی تاکہ آپ اللہ کے عذاب سے خائف رہیں کہ یہی شانِ بندگی ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ تمہارا جو مذاق اڑاتے ہیں اس کا کوئی اثر قبول نہ کرو۔ ان کے شر کو زیر کرنے کا بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کرو۔ ظاہر ہے یہ طریقہ اصلاحی اور تعمیری ہی ہو سکتا ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حق کی مخالفت کا یہ طوفان جو اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ شیطان کی شر انگیزیوں کا نتیجہ ہے۔ وہ دشمن حق بھی ہے اور دشمن انسان بھی اس لیے وہ انسان کو حق کے خلاف اکستا ہے اور جو لوگ اس کا اثر قبول کرتے ہیں وہ (His Master’s Voice) بن جاتے ہیں یعنی اپنے اس سرپرست کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ ان کے وہ اعتراضات جو قرآن ، پیغمبر اور دوسری زندگی کے بارے میں نقل ہوئے شیطان ہی کے اشاروں پر کئے گئے ہیں جب کہ وحی الٰہی نے انسان کو اس بات سے خبردار کر دیا ہے کہ شیطان اس کا ازلی دشمن ہے لہٰذا جو شخص شیطان کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس سے چوکنا رہے نیز اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دعا ہے کہ شیاطین میرے قریب بھی نہ پھٹکیں۔ شیطانوں سے شدید نفرت ہی ان کے شر اور ان کے وسوسوں سے بچنے کا سبب بنتی ہے۔

رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ہَمَزَاَتِ الشّیَاطِیْنِ وَاَعُوْذُبِکَ رَبّ اَنْ یّحْضُرُوْنِ۔ "اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب میں اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔

اگر ایک مؤمن پورے شعور کے ساتھ یہ کلمات ادا کرتا ہے تو گویا وہ اپنے کو اللہ کی حفاظت میں دے دیتا ہے اور جو شخص اپنے کو اللہ کی حفاظت میں دیدے کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اس کو اپنی حفاظت میں نہ لے۔

اس ہدایت سے وہ لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو شیطان کے وجود ہی کے قائل نہیں ہیں۔ ان مادہ پرستوں پر شیطان کا جادو ایسا چل گیا ہے کہ ان کا اپنا وجود ہی سب کچھ ہے اب ان کو کیا ضرورت کہ شیطان کے وجود کو تسلیم کر لیں !

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ایک خالی خولی بات ہے ورنہ اگر اس کو دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو وہاں پھر وہ وہی کام کرے گا جو پہلے کرتا رہا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۴۸۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برزخ کے معنی روک اور آڑ کے ہیں۔ موت کے بعد روحیں جہاں منتقل ہوتی ہیں وہ دنیا اور آخرت کے درمیان کا عالم ہے جو ایک روک اور پردہ ہے اس لیے اسے برزخ کہتے ہیں اور حدیث میں ان احوال کو جو موت کے بعد روح پر گزرتے ہیں قبر کے احوال سے تعبیر کیا گیا ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے ایک موثر تعبیر ہے ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو قبر میں دفن ہوا اس پر تو یہ احوال گزرے ہیں اور جو قبر میں دفن ہی نہیں ہوا بلکہ جس کی لاش جلائی گئی یا کسی اور طریقہ سے ضائع کر دی گئی یا ممی بنا کر دنیا میں محفوظ کر دی گئی اس پر یہ احوال نہیں گزرتے۔

مرنے کے بعد انسان کو قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہنا ہے۔ قیامت کے دن اسے جسم سمیت پھر اٹھایا جائے گا اور یہ عالم آخرت ہو گا جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے۔

عالمِ برزخ میں روحوں کی منتقلی اس بات کی واضح تردید ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی نہ کسی روپ میں دنیا ہی میں چکر کاٹتا رہتا ہے یعنی آواگوان کا نظریہ جو ایک بے بنیاد نا معقول اور متناقض نظریہ ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن رشتہ داری کام نہیں آئے گی کہ باپ بیٹے کے کام آئے یا بیٹا باپ کے اور نہ کوئی کسی کا حال پوچھنے والا ہو گا کہ ہمدردی اور غمگساری کرے اور نہ ہی کوئی کسی سے مدد طلب کر سکے گا۔ ہر شخص کو اپنی نجات کی فکر لاحق ہو گی اور کسی کے لیے بھی یہ موقع نہیں ہو گا کہ وہ دوسرے کے لیے کچھ کر سکے۔ گویا قیامت کے دن نسل و نسب کے تمام رشتے بیکار ہو گئے ہوں گے۔

نجات کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہی ہوں گے جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۶۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۷۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا المناک اور کیسا ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا ! انسان سوچے تو اللہ کے عذاب سے پناہ مانگے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم میں پہنچ کر یہ کافر اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے اور اپنی قسمت کو روئیں گے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب تمہاری کوئی شنوائی ہونے والی نہیں۔ جو موقع عمل کا تھا وہ تم نے کھو دیا اب تو اپنے کئے کی سزا تم کو بھگتنا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بڑی درد بھری دعا ہے جو اہل ایمان کی زبان سے اس وقت ادا ہوئی ہے جبکہ کافر انہیں اذیت پہنچا رہے تھے۔ انہوں نے ان مذاق اڑانے والوں سے کچھ نہیں کہا بلکہ اپنے رب ہی سے رحم کی درخواست کی۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں صبر کے مفہوم میں حق پر استقامت، تکلیفیں برداشت کرنا اور اذیت دہ باتوں پر تحمل سے کام لینا شامل ہے۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے پوچھے گا جیسا کہ سیاقِ کلام (Context) سے ظاہر ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں تم نے کتنی مدت گزاری۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن وہ جس دنیا میں قدم رکھیں گے اس کے احوال و ظروف اس دنیا سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت انہیں محسوس ہو گا کہ جو مدت انہوں نے دنیا میں گزاری وہ بہت مختصر تھی۔ زیادہ سے زیادہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا ان کے لیے مشکل ہو گا اس لیے وہ کہیں گے کہ اس کا صحیح جواب تو وہی دے سکتے ہیں جو اعداد و شمار کا علم رکھنے والے ہیں۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر دنیا میں تم نے یہ بات جان لی ہوتی کہ دنیا میں جو مدت عمر تم گزارو گے وہ آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی مختصر ہے تو تمہاری دنیا بدل گئی ہوتی اور اپنا قیمتی وقت برباد نہ کرتے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کا یہ سوال رہتی دنیا تک ان تمام لوگوں سے ہے جو آخرت کے قائل نہیں۔ وہ بتائیں کہ آخرت اور جزا و سزا مستقبل کی حقیقتیں نہیں تو ایک اخلاقی حس رکھنے والی اور ذمہ داریوں کی حامل مخلوق کو پیدا کرنے کا کیا مقصد؟ اگر انسان کی تخلیق کی کوئی غایت نہیں ہے تو اس کی ساری ہماہمی بے کار ہے۔ اگر مر کر ہمیشہ کے لیے مٹی ہونا ہے تو جینے کا فائدہ ؟ دنیا میں انسان طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتا ہے۔ اگر صبر کا کوئی پھل ملنے والا نہیں ہے تو تکلیف کی زندگی گزارنے کا کیا حاصل؟ کیونکہ نہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دے ؟ آج دنیا کے بڑے بڑے مفکر اور "دانشور” مسائل زندگی کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں لیکن زندگی کا جو سب سے زیادہ بنیا دی مسئلہ ہے یعنی اس کا اصل مقصد معلوم کرنا تو اس سے وہ بالکل بے پروا ہیں اور دانش و بینش سے کام نہیں لیتے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی بے مقصد کام کرے۔ یہ خیال کرنا کہ انسان جیسی اعلیٰ اور اشرف مخلوق کو اس نے بے مقصد اور بے غایت پیدا کیا ہے اس کے مرتبہ سے اس کو فروتر خیال کرنا ہے۔

اللہ تو بادشاہ حقیقی ہے پھر وہ اپنی اس مخلوق سے جس پر ذمہ داریوں کا بار ڈالا گیا ہے جوابدہی کے لیے اپنے حضور کیسے نہیں طلب کرے گا؟

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کا عرش بڑی شان والا ہے اور وہ اپنی پوری خدائی شان کے ساتھ کائنات پر حکومت کر رہا ہے لہٰذا اس کی حکومت میں اندھیر نگری ہرگز نہیں ہو سکتی۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ مؤمنوں نے فلاح پائی اور اختتام اس بات پر ہو رہا ہے کہ کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ اس سے اس سورہ کا مرکزی مضمون خود متعین ہو جاتا ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اخیر میں دعائیہ کلمات کی تلقین اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ دعا (رَبِّ اغْفِرْوَارحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْن) فلاح و سعادت کی راہ کھولنے والا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۲۴۔  سورۂ النور

 

 

 (۶۴ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۳۵  میں بیان ہوا ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام ،النور، ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۶ھ  میں نازل ہوئی ہو گی۔  سورۂ احزاب میں جو غزوۂ خندق (شوال ۰۵ھ) کے بعد نازل ہوئی تھی گھر کے باہر کے پردہ کے سلسلہ میں احکام بیان ہوئے ہیں اور اس میں گھر کے اندر غیر محرموں پر زینت کے اظہار سے منع کیا گیا ہے۔  یہ تدریجی حکم ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ اس سے پہلے گھر کے باہر پردہ کا حکم آ چکا تھا یعنی سورہ احزاب نازل ہو چکی تھی۔

اس سورہ میں جو حدود (تعزیری قوانین) بیان ہوئے ہیں وہ بھی ایسے موقع پرہی دئے جا سکتے ہیں جبکہ قوت نافذہ حاصل ہو گئی ہو۔

مدینہ میں مسلمانوں کو یہ قوت غزوۂ بنی قریظہ کے بعد ہی حاصل ہو گئی تھی جو غزوۂ خندق کے متصلاً بعد پیش آیا تھا اور جس کے بعد یہود نواز منافق کمزور پڑ گئے تھے اور بوکھلاہٹ کی وجہ سے اوچھی باتوں پر اتر آئے تھے یعنی شریف عورتوں پر تہمت لگانا وغیرہ۔

 

مرکزی مضمون

 

عفت و پاک دامانی اور شرم و حیاء کے تحفظ کے لیے جن باتوں کا اہتمام ضروری ہے ان کی ہدایت،  بدکاری کرنے والوں اور جھوٹی تہمتیں لگا کر بے حیائی پھیلانے والوں کے خلاف کڑی سزاؤں کا اعلان اور اس حقیقت کا اظہار کہ ایمان سے مؤمن کی پوری زندگی منور ہو جاتی ہے۔ عفت و پاک دامانی اس کی درخشندہ کرنیں ہیں۔  پھر اس سورہ کا دائرہ اخلاقی نصیحت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں سماج پر اس کی ذمہ داریاں بھی واضح کر دی گئی ہیں اور اسلامی حکومت پر اس کے فرائض بھی۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  میں بطور تمہید اس سورہ کی یہ اہمیت واضح کی گئی ہے کہ اس میں جو احکام دئے جا رہے ہیں ان کی تعمیل فرض ہے۔  آیت ۲  تا ۱۰  میں زنا اور زنا کی تہمت کی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔

آیت ۱۱  تا ۲۶  میں منافقوں کو تنبیہ جو شریف مؤمن مردوں اور شریف مؤمن عورتوں کی عزت و ناموس پر دھبہ لگانے کے لیے جھوٹے قصے گڑھ کر سوسائٹی میں پھیلاتے تھے اور ان کے اس فتنہ کا شکار کمزور اور سادہ لوح مسلمان بھی ہو جاتے تھے۔

آیت ۲۷  تا ۳۴ میں ان باتوں کا اہتمام کرنے کی ہدایت جو عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

آیت ۳۵  تا۴۰  میں اس حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی روشنی میں چلتے ہیں ان کی زندگیاں اللہ کے نور سے منور ہو جاتی ہیں اور جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں وہ گہری تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

آیت ۴۱  تا ۵۴  میں ان دلائل کو بیان کرتے ہوئے جن سے خالص ایمان پیدا ہوتا ہے منافقوں کو دعوت کہ وہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کریں۔

آیت ۵۵  تا ۵۷  میں اہل ایمان کو بشارت کہ وہ ان کو اس طرح خلافت (اقتدار) سے نوازے گا کہ موجودہ خوف و خطر کا ماحول اطمینان و سکون کے ماحول میں تبدیل ہو جائے گا۔

آیت ۵۸  تا ۶۱  میں ان احکام کا تتمہ جو آیت ۲۷  تا ۳۴  میں گھر کے آداب کے تعلق سے دی گئی ہیں۔

آیت ۶۲  تا ۶۴  اختتامی آیات ہیں جن میں رسول کی پکار کو غیر معمولی اہمیت دینے اور اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک سورہ ہے جو ہم نے نازل کی ہے ۱ * اور اسے ہم نے فرض کیا ہے ۲* اور اس میں ہم نے واضح احکام نازل کئے ہیں ۳* تاکہ تم سبق لو ۴*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔  ۵* اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر ترس نہ آئے۔  ۶* اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔  اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ ۷*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔  ۸*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کریں ان کو اسّی کوڑے مارو ۹* اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔  ۱۰* وہ فاسق ہیں۔  ۱۱*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  ۱۲*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں بجز ان کی اپنی ذات کے تو (اس صورت میں) ان میں سے ایک کی (یعنی شوہر کی) گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص (اس کا شوہر) جھوٹا ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے۔  ۱۳*

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔  پس جان لو کہ اللہ فضل والا رحمت والا ہے) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے۔  ۱۴*

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک گروہ ہیں۔  ۱۵* تم اس چیز کو اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے اچھا ہے۔  ۱۶* ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اتنا ہی وبال اس پر ہے۔  اور جس شخص نے اس میں بڑا حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔  ۱۷*

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ ۱۸*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ اس (الزام) کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اور جب وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔  ۱۹*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم لوگوں پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوئی تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے اس کی وجہ سے بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔  ۲۰*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تماس (جھوٹ) کو اپنی زبانوں پر لا رہے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہ تھا۔  تم اسے معمولی بات خیال کر رہ تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات تھی۔  ۲۱*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نے یہ بات سنی تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتا۔  سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔  ۲۲*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے وہ علم والا حکمت والا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا ہے۔  ۲۳* اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔  ۲۴*

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی (تو تم کو برے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا مگر اس نے تمہیں بچایا) اور یہ کہ اللہ شفیق و رحیم ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔  اور جو کوئی شیطان کے نقش ِ قدم پر چلے گا تو وہ اسے بے حیائی اور برائی ہی کا حکم دے گا۔  اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی پاک نہ ہو سکتا۔  ۲۵* مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے۔  ۲۶*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ حیثیت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی اعانت نہیں کریں گے۔  انہیں چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں۔  کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۲۷*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ پاکدامن،  بے خبر ۲۸* مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا ایسا بدلہ جو حق ہے۔  اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی ہے حق۔  حقیقت کو آشکارا کرنے والا۔  ۲۹*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔  اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔  ۳۰* یہ لوگ بری ہیں ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ ۳۱* ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت کی روزی۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو ا کرو جب تک کہ مانوس ہو کر اجازت نہ حاصل نہ کر لو اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔  ۳۲* یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔  ۳۳*

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے۔  اور اگر تم سے واپس ہونے کے لیے کہا جائے تو واپس ہو جاؤ۔  ۳۴* یہ طریقہ تمہارے لیے خوب پاکیزہ ہے۔  ۳۵* اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ان غیر رہائشی مکانوں میں داخل ہو جاؤ جن میں تمہارے فائدہ کا سامان ہے۔  ۳۵* تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو اللہ سب جانتا ہے۔  ۳۷*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۳۸* اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  ۳۹* یہ طریقہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔  جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ با خبر ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مؤمن عورتوں سے کہو وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۴۰* اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  ۴۱* اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے ۴۲* اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالیں۔  ۴۲* اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ یا اپنے شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنی عورتوں یا اپنے مملوکوں یا ان مردوں کے سامنے جو تابع ہوں اور (عورتوں سے) غرض نہ رکھتے ہوں یا ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی آشنا نہ ہوئے ہوں۔ ۴۴* اور اپنے پاؤں (زمین پر) مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے ۴۵* اور اے مؤمنو! تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو ۴۶*  تاکہ فلاح پاؤ۔   ۴۷*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے جو لوگ مجرد (بغیر شوہر یا بیوی کے) ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیو میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔  ۴۸* اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔  ۴۹* اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔  ۵۰*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہ رکھتے ہوں وہ پاک دامانی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔  ۵۱* اور تمہارے مملوکوں میں سے جو (اپنے آزاد ہونے کے لیے) تحریری معاہدہ کر لو اگر تم جانتے ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے۔  ۵۲* اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے۔  ۵۳* اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں محض اس لیے کہ تمہیں دنیوی زندگی کے فائدے حاصل ہو جائیں۔  ۵۴* اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان کے مجبور کئے جانے کے بعد اللہ (ان کے لیے) معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  ۵۵*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری طرف واضح احکام نازل کئے ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔  ۵۶* اور متقیوں کے لیے نصیحت بھی۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  ۵۷* اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہو۔  ۵۸* چراغ شیشہ (قندیل) کے اندر ہو۔  شیشہ ایسا ہو جیسے چمکتا ہوا تارہ۔  اس چراغ کو زیتون کے ایسے مبارک درخت سے جو نہ شرقی ہو نہ غربی روشن کیا جاتا ہو۔  اس کا تیل بھڑک اٹھنے کو ہو گو آگ نے اس کو چھوا نہ ہو۔  نور پر نور۔ ۵۹* اللہ اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔  ۶۰* اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے۔  اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔  ۶۱*

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ چراغ روشن ہے) ایسے گھروں میں جن کو اللہ نے بلند کرنے اور جن میں اس کے نام کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔  ۶۲* ان میں اس کی تسبیح کرتے ہیں صبح و شام۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے ، نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی۔ ۶۳* وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔  ۶۴*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے مزید نوازے۔  ۶۵* اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔  ۶۶*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۶۷* ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے صحرا میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو کچھ نہ پایا البتہ اللہ کو وہاں موجود پایا اور اس نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا۔  ۶۸* اور اللہ حساب چکانے میں بڑا تیز ہے۔  ۶۹*

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے گہرے سمندر میں تاریکیاں جس کو موج پر موج ڈھانک رہی ہو اور اس کے اوپر بادل۔  تاریکیوں پر تاریکیاں ہوں۔  اگر اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ سکے۔  ۷۰* جس کو اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں۔  ۷۱*

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ۷۲* دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے بھی پر پھیلائے ہوئے۔  ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے۔  ۷۳* اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے اللہ با خبر ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ۷۴* اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادلوں کو ہنکاتے ہوئے لے جاتا ہے پھر ان کو باہم ملا دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ ان کے درمیان سے بارش کے قطرے نکلتے ہیں۔  ۷۵* اور وہ آسمان سے اولے برساتا ہے ان پہاڑوں سے جو اس کے اندر ہیں۔ ۷۶* پھر جس پر چاہتا ہے آفت نازل کرتا ہے ۷۷* اور جس کو چاہتا ہے اس سے بچاتا ہے۔  اس کی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ نگاہوں کو اچک لے۔  ۷۸*

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی رات اور دن کا الٹ پھیر کرتا ہے۔  ۷۹* اس میں سبق ہے ان لوگوں کے لیے جو دیدہ بینا رکھتے ہیں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور الہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔  ۸۰* ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے۔  ۸۱* تو کوئی دو پاؤں پر ۸۲* اور کوئی چار پاؤں پر۔  ۸۳* اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔  ۸۴* یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے واضح کر دینے والی آیتیں نازل کی ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔  ۸۵*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت اختیار کی۔  اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے۔  یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔  ۸۶*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک گروہ گریز کرتا ہے۔  ۸۷*

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے فرمانبردار بنکر آتے ہیں۔  ۸۸*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے دلوں میں روگ ہے یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ نا انصافی کریں گے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں۔  ۸۹*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل ایمان کو تو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر ے تو کہتے ہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی۔  ۹۰* یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے اور اللہ سے ڈریں گے اور پرہیزگاری اختیار کریں گے وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔ ۹۱*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کے نام سے کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم دو تو نکل کھڑے ہوں گے۔  ۹۲* ان سے کہو قسمیں نہ کھاؤ۔  معروف طریقہ پر اطاعت کرنا چاہیے۔  ۹۳* تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔  ۹۴* لیکن اگر تم روگردانی کرتے ہو تو (یاد رکھو) رسول پر وہ ذمہ داری ہے جس کا بار اس پر ڈالا گیا ہے اور تم پر وہ ذمہ داری ہے جس کا بار تم پر ڈالا گیا ہے اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔  اور رسول پر اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں کہ صاف صاف (احکام) پہنچا دے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت (اقتدار) بخشے گا جس طرح ان لوگوں کو بخشی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے۔  اور ان کے لیے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے مضبوطی عطا کر ے گا اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔  وہ میری ہی عبادت کریں گے ، کسی کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔  اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔  ۹۵*

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز قائم کرو ،زکوٰۃ دو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے۔  ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! تمہارے مملوک اور تم لوگوں کے وہ بچے جو ابھی بلوغ کو نہیں پہنچے تین اوقات میں تم سے اجازت لیا کریں۔  نماز فجر سے پہلے ، دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین اوقات تمہارے لیے پردہ کے ہیں۔  ان کے علاوہ دیگر اوقات میں (اجازت لیے بغیر ان کے آنے میں) نہ تم پر کوئی گرفت ہے اور نہ ان پر۔  تمہارا ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا جانا ہوتا ہے۔  اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں واضح فرماتا ہے۔  ۹۶* اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔  ۹۷*

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم لوگوں کے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جس طرح ان سے پہلے (بلوغ کو پہنچنے) والے اجازت لیتے ہیں۔  ۹۸* اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح فرماتا ہے اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں اگر اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گرفت نہیں ۹۹* بشرطیکہ اپنی زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔  ۱۰۰* مگر ان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ اس سے بچیں۔  اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ نابینا پر کوئی حرج ہے ، نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے ، نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپ داد کے گھروں یا اپنے ماؤں کے گھروں یا اپنے بھائیوں کے گھروں یا اپنی بہنوں کے گھروں یا اپنے چچاؤں کے گھروں یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھاؤ۔  ۱۰۱ اس بات میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔  ۱۰۲* البتہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو ۱۰۳* البتہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو ۱۰۳* یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ دعائیہ کلمہ ہے۔  ۱۰۴* اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم پر واضح فرماتا ہے۔  تاکہ تم عقل سے کام لو۔  ۱۰۵*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمن تو در حقیقت وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ۱۰۶* اور جب کسی اجتماعی کام کے لیے رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس وقت تک چلے نہیں جاتے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لیں۔ ۱۰۷* جو لوگ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی ہیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والے۔  لہٰذا جب وہ اپنی کسی ضرورت سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو۔  اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔  ۱۰۸* یقیناً اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول کے بلانے کو تم آپس میں ایک دوسرے کا بلانا نہ سمجھو۔  ۱۰۹* اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لیکر کھسک جاتے ہیں۔  ۱۱۰* تو جو لوگ رسول کے حکم کو ماننے سے گریز کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں یا درد ناک عذاب ان کو پکڑ نہ لے۔  ۱۱۱*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔  تم جس حال پر ہو اللہ اسے جانتا ہے۔  اور جس دن یہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔  وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔  اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

 

                   تفسیر

 

ا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ قرآن کی آیتیں جن سورتوں (Chapters) کی شکل میں موجود ہیں ان کی تشکیل اللہ ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔  یہاں "ایک سورہ” کہنے کا مطلب اس سورہ کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اس سورہ میں زنا اور تہمتِ زنا کی سخت سزائیں بیان ہوئی ہیں جن کا نفاذ طبیعتوں پر سخت گراں گزرتا ہے نیز جنسی بے راہ روی کے سدباب کے لیے بھی سخت احکام دئے گئے ہیں اس لیے آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا کہ جو احکام اس میں دئے گئے ہیں وہ فرض ہیں لہٰذا لازماً ان کی تعمیل کی جانی چاہیے۔

تعزیرات (عقوبات) کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ضروری ہے اور اس کا تعلق نظم اجتماعی اور حکومت سے ہے۔  اس سے اسلام کی یہ حیثیت بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ وہ وسیع تر معنی میں دین ہے جو اجتماعی زندگی سے متعلق بھی ہدایات دیتا ہے اور اس کا اپنا ایک تعزیری قانون بھی ہے جس کو نافذ نہ کرنا جبکہ قوتِ نافذہ موجود ہو فرض کی ادائیگی سے گریز ہے اور ان کی جگہ وضعی (انسان کے بنائے ہوئے) قوانین کو نافذ کرنا احکام الٰہی کی صریح خلاف ورزی بلکہ خدا سے سرکشی ہے لیکن افسوس کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بیشتر حکومتیں بڑی بے شرمی کے ساتھ اسلام کے تعزیری قوانین کی جگہ خود ساختہ تعزیری قوانین نافذ کر رہی ہیں اور جہاں مسلمان کسی سیکولر اسٹیٹ کے تحت رہتے ہیں وہاں انہیں اسلام کے تعزیری قوانین کی صحت اور برتری ظاہر کرنے میں بھی تا مل ہوتا ہے تاکہ ان کا سیکولر ازم چکنا چور نہ ہو جائے !

ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قرآن کا علم حاصل کرنا فرض ہے کیونکہ عمل کے لیے علم شرط ہے اور تذکیر و تربیت کے پہلو سے بھی قرآن کا مطالعہ ضروری ہے۔  احکامِ الٰہی کے جو اثرات قلب و ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ کسی اور کتاب سے نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح احکام کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مفہوم بالکل واضح ہے۔  قرآن کی اس صراحت کے بعد اس کے کسی حکم کا کوئی مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو واضح مفہوم کے خلاف ہو۔  اس سے ان تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو قرآن کے کسی واضح حکم کو مبہم سمجھ کر کی جاتی ہیں۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو تعزیری احکام دئے جا رہے ہیں وہ عبرت پذیری کے لیے ہیں یعنی اس لیے ہیں کہ کوئی شخص جرم کرنے کا حوصلہ نہ کرے نیز اس بات کی یاد دہانی ہو کہ اللہ کا قانون عدل جب مجرموں کے لیے دنیا میں سزا تجویز کرتا ہے تو اس نے جو دن انصاف کے لیے مقرر کیا ہے اس دن وہ مجرموں کو کیفر کردار کو کیوں نہیں پہنچائے گا؟

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت کے ذیل میں چند باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے :

۱) زنا ایک سنگین گناہ اور قابلِ سزا جرم ہے۔  مرد اور عورت کا اپنی مرضی سے زنا کا ارتکاب نہ ان کو بے گناہ قرار دیتا ہے اور نہ جرم سے بری۔  اس معاملہ میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں اور یکساں سزا کے مستحق البتہ اگر مرد نے عورت پر جبر کر کے زنا کیا ہے تو عورت بے قصور ہے اور اسے زانیہ نہیں کہا جا سکتا ایسی صورت میں صرف مرد سزا کا مستحق ہو گا۔

۲) متن میں لفظ ، جَلْدَہْ، استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی ایسی چیز سے مارنے کے ہیں جس کا اثر جلد پر ہو اور اس سے متجاوز نہ ہو۔  یہ مقصد کوڑے یا بید کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ضرب اس شدت سے نہ لگائی جائے کہ چمڑی ادھیڑ جائے اور جسم لہو لہان ہو جائے۔  مارتے وقت جسم پر جو معمول کپڑے ہوں وہ رہنے دئے جائیں گے اور منہ اور نازک اعضاء پر ضرب نہیں لگائی جائے گی۔  مرد کو کھڑا کر کے اور عورت کو بٹھا کر ضربیں لگائی جائیں گی۔

۳) عام جرائم کے لیے دو گواہ کافی ہوتے ہیں لیکن زنا کے ثبوت کے لیے قرآن نے چار گواہوں کا نصاب مقرر کیا ہے۔  یہ کڑی شرط اس لیے عائد کی گئی ہے تاکہ کسی کی عزت و ناموس کو آسانی سے بٹہ نہ لگایا جا سکے۔

۴) آیت کے الفاظ حکم کی عمومیت پر دلالت کرتے ہیں یعنی زانی اور زانیہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ دونوں کو سو کوڑے مارے جائیں لیکن بہ کثرت احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے زنا کے مختلف مقدمات میں شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کو زنا کا مرتکب ہونے کی بنا پر رجم یعنی سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا جس کی صحابۂ کرام نے تعمیل کی۔  یہ حدیثیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور مؤطا وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔  پھر خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی اس پر عمل درآمد ہوتا رہا اور امت کے علماء و فقہا اس پر متفق ہیں۔  علاوہ ازیں ایک حدیث میں جو سند کے اعتبار سے صحیح ہے یہ اصولی بات بھی بیان ہوئی ہے کہ:

لاَ یَحلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مسلم یَشْہَدُ اَنْ الاّاِلٰہَ اِلاّ بَاحْدیٰ ثلاثٍ: اَلنَّفسُ بِالنَّفسْ وَالثیبُ الزَّانی وَالمارق و مِنَ الدّینِ اَلتّارک الجماعۃ (بخاری کتاب الدیات) "کسی مسلمان کا جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں خون جائز نہیں الا یہ کہ ان تین صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے : اس نے کسی کا خون کیا ہو یا شادی شدہ ہو کر زنا کا مرتکب ہوا ہو یا دین سے نکل گیا ہو اور ملت کو چھوڑ دیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو) ۔”

اس لیے شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے رجم کی سزا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے البتہ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ قرآن عمومیت کے ساتھ کوڑوں کی سزا بیان کرتا ہے جبکہ حدیث شادی شدہ زانی و زانیہ کے لیے سنگسار کرنے کی سزا تجویز کرتی ہے تو دونوں میں مطابقت کی کیا صورت ہے ؟ اس کا جواب قدرے تفصیلی ہے :

زنا زمانۂ جاہلیت میں عام تھا اور اگر باہم رضامندی سے کیا گیا ہو تو اس کے لیے کسی سزا کا کوئی تصور نہیں تھا جیسا کہ موجودہ "مہذب جاہلیت” میں نہیں ہے اپنے معاشرہ میں زنا کی انتہائی سزا کے لیے تدریج ضروری تھی بالکل اسی طرح جس طرح کہ شراب کے متوالوں کو پہلے شراب سے نفرت دلائی گئی پھر صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا اور پھر شراب پینے والوں کے لیے سزا متعین ہوئی اور اس سزا میں بھی کسی قدر تدریج رہی یعنی پہلے صرف ہاتھ سے مارنے کی سزا تھی بعد میں کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی جس کی تفصیل احادیث میں ملتی ہے۔  اس حکمت تشریع کے پیش نظر مدینہ میں پہلے مرحلہ میں زانیہ عورتوں کو خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ گھروں میں نظر بند کرنے کا حکم ہوا اور زانی مرد اور عورت دونوں کو خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ تادیبی سزا دینے کا مجمل حکم دیا گیا۔  یہ حکم سورۂ نساء آیت ۱۵  اور ۱۶ میں بیان ہوا ہے۔  اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں سورۂ نور کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں ہر قسم کے زانی کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ سو کوڑوں کی سزا کا حکم سنایا گیا۔  اس حکم سے نظر بند عورتوں کی رہائی کی سبیل پیدا ہو گئی جس کا وعدہ سورۂ نسا ء میں ان الفاظ میں کیا گیا تھا:

اَوْیَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِلاً (نساء ۱۵) "(انہیں گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے) یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔”

"سبیل” قید و بند سے رہائی کے معنی میں ہے اور کوڑوں کی سزا کا نفاذ ان کو قید و بند سے رہائی دلانے والا تھا۔  رجم کا حکم اس وقت نہیں دیا گیا تھا اور نہ رجم کو سبیل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔  اس مرحلہ میں کوڑوں کی سزا کا حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا جو بالکل بر محل تھا کیونکہ اس وقت تک شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا حکم دیا ہی نہیں گیا تھا۔

بعد میں یعنی سورۂ نور کی تنزیل کے کم از کم ایک سال بعد غالباً ۰۷ ھ  میں جو زنا کی سزا کے لیے تیسرے مرحلہ کی حیثیت رکھتا ہے انتہائی سزا تجویز کی گئی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں زنا کے جو مقدمات پیش ہوئے ان میں آپ نے شادی شدہ زانی مرد اور شادی شدہ زانی عورت کو رجم کی سزا دی یہاں تک کہ یہود کے زنا کے مقدمہ میں بھی آپ نے یہی فیصلہ سنایا اور تورات میں رجم کا جو حکم موجود ہے اس سے ان پر حجت قائم کی۔

"اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔  یوں تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔ اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔” (استثنا۲۲:۲۲،۲۳)

ان واقعات کے لیے دیکھئے بخاری،مسلم، ترمذی، ابو داؤد اور دیگر کتب حدیث کی کتاب الجدود) اس طرح تدریج کے آخری مرحلہ میں سنت نبوی نے جو وحی الٰہی ہی کی روشنی میں متعین ہوتی ہے شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا مقرر کی۔  اس سے کوڑوں کی سزا کا حکم جو سورۂ نور کی زیرتفسیر آیت میں دیا گیا ہے کنوارے مرد و عورت کے لیے مخصوص ہو گیا اور اب اس میں وہ عموم باقی نہیں رہا جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔  سنت یا احادیث صحیحہ کے ذریعہ قرآن کے احکام کی تخصیص کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً سورۂ جمعہ میں یہ حکم کہ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، بظاہر عام ہے یعنی مرد عورت سب کے لیے ہے لیکن سنت نے عورتوں کو اس سے مستثنیٰ کر کے مردوں کے لیے اس کو خاص کر دیا۔  قرآن نے وصیت کی تعمیل کا حکم دیا اور کوئی تحدید نہیں کی لیکن سنت نے ۳/۱ حصہ کے لیے اس کی تحدید کر دی۔  لہٰذا اگر سنت نے قرآن کی بیان کردہ کوڑوں کی سزا کو کنوارے زانی مرد و عورت کے لیے خاص کر دیا اور شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے اس سے زیادہ سنگین سزا تجویز کی تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ کنوارے شخص کے مقابلہ میں شادی شدہ شخص سے زنا کا ارتکاب جرم کو سنگین بناتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مقابلتہً سخت ہونی چاہیے لہٰذا سنت نے جو حد (سزا) مقرر کی وہ مبنی بر انصاف ہے۔

رجم کی سزا اگرچہ قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے لیکن سورۂ نور ہی کی آیت وَالَّذِین یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیْعَ الفَاحِشَۃُ فِی الَّذیْنَ آمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدنیا وَالْآخِرۃِ  (جو لوگ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔  آیت ۱۹) اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ زنا کاروں کو درد ناک سزا دی جائے۔  سنت نے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا کا قاعدہ جاری کر کے اس آیت کے منشاء کو پورا کیا ہے۔  لہٰذا یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ رجم کی سزا کے لیے قرآن میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے۔  البتہ رجم کی تائید میں اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے جس میں حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن میں رجم کی آیت موجود تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت اٹھا لی گئی اور حکم برقرار رہا۔  یہ ایک بیہودہ بات ہے جو روایتوں میں آ گئی ہے اور اس کی نسبت حضرت عمر کی طرف ہرگز صحیح نہیں۔  قرآن تو ایک قطعی چیز ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔  وہ کسی راوی کے روایت کرنے سے نہیں بلکہ امت کے تواتر سے ثابت ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے پھر اگر کوئی روایت قرآن میں کسی آیت کے اضافہ کی مدعی ہو تو اس کا دعویٰ سراسر غلط بلکہ باطل قرار پائے گا اس لیے یہ روایت اس لائق نہیں کہ اس کو کوئی اہمیت دی جائے پھر اس روایت میں آیت (الشیخ والشیخۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) جن الفاظ اور جن اسلوب میں بیان ہوئی ہے وہ اس قدر لچر ہیں کہ اس کو قرآن سے جوڑنا ایسا ہی جیسے تاج محل میں مٹی کی دیوار کا جوڑ لگانا۔  اور اگر یہ آیت تھی تو اس کی تلاوت کا منسوخ ہونا اور حکم کا باقی رہنا بھی ایک ایسی بات ہے جو روایت پرستوں ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔  افسوس کہ لوگوں نے حدیثیں گھڑنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آیتیں گھڑنے کی بھی جسارت کی اور روایت پرست خلافِ قرآن اور بے ہودہ روایتوں کو بھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

۵) آیت میں خطاب اہل ایمان سے ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں اس بات کا مکلف (ذمہ دار) ہے کہ اس تعزیری قانون (حد) کو جاری کرے اور اس کے نفاذ کی عملی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں جو ان کی نمائندگی کرتی ہیں اس کو (اور اسی طرح اسلام کے دوسرے تعزیری قوانین کو) جاری و نافذ کریں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا دین جہاں سختی کا مطالبہ کرتا ہے وہاں نرمی نہ برتو۔

علامہ رازی لکھتے ہیں :

"فِی دِینِ اللہ فرما کر اس بات پر متنبہ فرمایا ہے کہ دین نے جب ایک کام کو واجب قرار دیا تو اس کے بر خلاف نرمی کا استعمال صحیح نہیں۔” (تفسیر کبیر ج ۲۳ ص ۱۴۸)

نرمی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً ایک صورت یہ کہ شریعت کے تعزیری قانون کو کسی نرم قانون سے بدل دیا جائے جو کفر ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ عملاً اس کے نفاذ میں رعایت برتی جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ مار اتنی ہلکی ہو کہ سزا کا مقصد ہی فوت ہو جائے۔  نرمی کی ان تمام صورتوں سے احتراز ضروری ہے۔

شریعت کے تعزیری قوانین یقیناً سخت ہیں لیکن جرائم کو روکنے اور مجرموں کو سبق دینے کے لیے یہ ضروری ہیں چنانچہ آج مکہ و مدینہ کی سرزمین میں جرائم کی جو حیرت انگیز حد تک کمی ہے وہ ان قوانین ہی کے اجراء کی برکتیں ہیں۔

موجودہ دور میں تو مجرموں کے لیے بہت ہلکی پھلکی سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔  لوگوں کو ظالموں پر رحم آتا ہے مگر ان مظلوموں پر رحم نہیں آتا جو اغوا اور عصمت دری اور قتل و غارت گری کا شکار ہو جاتے ہیں۔  انہیں وہ سختی بھی دکھائی نہیں دیتی جو کسی جرم کا اعتراف کرانے کے لیے پولیس برتتی ہے۔  اور ایسی ایسی اذیتیں (Torture) دیتی ہے کہ دورِ وحشت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور کبھی بھی تو ملزم دم توڑ دیتا ہے حالانکہ اس کا جرم ابھی ثابت نہیں ہوا۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمانوں کی ایک تعداد سزا کے وقت موجود رہے تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور کسی شخص کو جرم کرنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ ہو۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں زنا کاروں کا عام طرز عمل بیان ہوا ہے۔  ایک زانی مرد زانی عورت یا مشرکہ سے نکاح کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور نہ ایک زانیہ زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرنے میں عار محسوس کرتی ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ایسے رشتہ حرام ہیں۔  مومن عورت کے لیے کسی زانی یا مشرک سے نکاح ہرگز جائز نہیں اور نہ مومن مرد کے لیے زانیہ یا مشرکہ سے نکاح جائز ہے۔  بدکاری اور بد عقیدگی کی بنا پر ایسے رشتے اہل ایمان کے لیے موزوں نہیں ہیں اس لیے لازماً اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

جہاں تک زنا بالجبر کا تعلق ہے وہ تو ایک زانی کسی پاکدامن خاتون کے ساتھ بھی کرتا ہے لیکن اس کو زانیہ نہیں کہا جا سکتا۔  اسی طرح ایک مسلمان خاتون لا علمی کی بنا پر ایک ایسے مسلمان کے نکاح میں آ جاتی ہے جو زانی ہے۔  اس بنا پر وہ زانیہ نہیں ہو جاتی اس لیے آیت کا مفہوم وہی صحیح معلوم ہوتا ہے جو اوپر بیان ہوا۔  واللہ اعلم۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تہمت سے مراد زنا کی تہمت ہے اور پاکدامن عورتوں پر خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ زنا کی تہمت لگانا ان کی عزت و ناموس کو بٹہ لگانا ہے جو ان کے لیے عار اور بدنامی کا باعث ہے اس لیے شریعت نے اس الزام کو ثابت نہ کرنے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی یعنی اسّی کورے لگانا۔

یہ سزا ہر قسم کے الزام کے لیے نہیں ہے بلکہ زنا کی تہمت کے لیے خاص ہے جس کو فقہی اصطلاح میں قذف کہا جاتا ہے۔  سزا دینا اسلامی عدالت کا کام ہے جس کے سامنے یہ مقدمہ پیش کیا گیا ہو اور تہمت لگانے والا چار گواہ پیش نہ کر سکے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تہمت لگانے والوں کی شہادت ہمیشہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہوں نے بہت بڑا جھوٹ بولا اور پاکدامن عورتوں کی عزت و ناموس کو داغ دار بنانا چاہا اس لیے وہ بہت بڑے گناہ (فسق) کے مرتکب ہوئے۔

اس سے ضمناً یہ اصولی بات بھی واضح ہوئی کہ ایک مسلمان فاسق بھی ہو سکتا ہے اگر وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے اور جب وہ دنیا میں سخت سزا کا مستحق ہو جاتا ہے تو آخرت میں فاسق مسلمانوں کو سزا سے کیوں نہ دوچار ہونا پڑے گا مگر آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد فسق و فجور کی زندگی گزارتے ہوئے اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ کلمہ گو ہونے کی بنا پر قیامت کے دن ان کو کسی سزا سے واسطہ پڑنے والا ہی نہیں ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر ایسا شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو پھر وہ فاسق نہیں رہے گا۔  اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اور اس پر رحم فرمائے گا۔  مسلمانوں کی سوسائٹی میں بھی اسے پھر فاسق نہیں کہا جا سکے گا۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیتوں میں لعان کا حکم بیان ہوا ہے۔  لعان کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی یہ حلفیہ بیان دیں کہ اگر وہ اپنے بیان میں جھوٹے ہیں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔  اس کی صورت یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے لیکن اس کے پاس ذاتی شہادت کے علاوہ پیش کرنے کے لیے گواہ نہیں ہیں جبکہ زنا کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ ضروری ہے تو وہ اسلامی عدالت کے سامنے چار مرتبہ حلفیہ بیان دے کہ وہ اپنے بیان میں بالکل سچا ہے اور پانچویں مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔  اس کے بعد عورت کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اگر شوہر کے الزام کو جھوٹا سمجھتی ہے تو اس کی تردید کرے اور اس تردید کے لیے اسے چار مرتبہ حلفیہ بیان دینا ہو گا کہ شوہر اس پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہنا ہو گا کہ اللہ کا غضب ہو اس پر (یعنی عورت پر) اگر شوہر اپنے بیان میں سچا ہے۔  اس کے بعد عدالت ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے گی اور کسی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔  لیکن اگر شوہر کے حلفیہ بیان کے بعد بیوی زنا کے الزام کی تردید اپنے حلفیہ بیان کے ذریعہ نہیں کرتی تو وہ سزا کی مستحق ہے۔  یہ سزا وہی ہو گی جو اوپر آیت ۲  میں بیان ہوئی یعنی سو کوڑوں کی سزا کیونکہ یَدْرَ أعُنْہا العَذَابُ (اس سے سزا اس صورت میں ٹل جائے گی جبکہ۔ ۔ ۔) میں العذاب سے مراد وہی سزا لی جا سکتی ہے جو اس سیاق (Context) میں بیان ہوئی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ شادی شدہ زانیہ کی سزا سنت نے رجم مقرر کی ہے مگر وہ اس صورت میں ہے جبکہ چار گواہوں کے ذریعہ جرم ثابت ہو گیا ہو یا ملزم نے خود اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہو۔  یہاں دونوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں ہے اس لیے شوہر کے حلفیہ بیان کی تردید نہ کرنے پر عورت کو زنا کی انتہائی سزا دینے کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔  لہٰذا عورت کو زنا کی کم سے کم سزا ہی دی جا سکتی ہے یعنی سو کوڑے۔

حنفی مسلک ایسی صورت میں عورت کے لیے حَبسْ (قید) کی سزا تجویز کرتا ہے یعنی جب تک عورت شوہر کے بیان کی حلفیہ تردید نہیں کرتی اسے قید میں رکھا جائے گا مگر یَدْرَاُء عَنْہَاالْعَذَابُ (سزا عورت پر سے ٹل جائیگی۔ ۔ ۔) میں سزا سے مراد حَبس (قید) لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔  قریب ہی میں (آیت۲  میں) زنا کی سزا بیان ہوئی ہے اور زنا ہی سے متعلق سلسلۂ بیان میں یَدْرَأُ عنہَا العَذَابُ (عورت سے سزا اسی صورت میں ٹل سکتی ہے جبکہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) فرمایا گیا ہے اس لیے یہاں سزا سے ذہن اسی سزا کی طرف منتقل ہوتا ہے جو آیت ۲  میں بیان ہوئی ہے یعنی سو کوڑوں کی سزا۔

لعان کی صورت میں نکاح فسخ (Dissolve) ہو جاتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :”نبی صلی اللہ علیہ سلم نے انصار کے ایک مرد اور عورت کے درمیان لعان کرایا اور ان دونوں کو جدا کر دیا (بخاری کتاب الطلاق) ۔

لعان کا حکم تورات میں بھی موجود ہے مگر اس تفصیل کے ساتھ نہیں جو قرآن نے بیان کی ہے۔ (ملاحظہ ہو گنتی ۵:۱۱ تا ۳۱)

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے پر پیچ عائلی مسائل میں تمہاری رہنمائی کی اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لی مشکلات سے نکلنے کی صورت پیدا کر دی اگر ایسا نہ ہوتا تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔  وہ توبہ قبول کرنے والا ہے اس لیے اس نے گنہگاروں کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔  وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کی رحمت کے مستحق بن سکتے ہیں۔  وہ حکمت والا ہے اس لیے اس کے یہ احکام و قوانین حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔  ان کو غیر حکیمانہ اور غیر معقول وہی لوگ خیال کرتے ہیں جو اللہ کے صاحب حکمت ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔

واضح رہے کہ آیت میں لو لا (اگر ایسا نہ ہوتا) کا جواب عربی کے بلاغت کے اصول پر محذوف ہے یعنی الفاظ میں بیان نہیں ہوا ہے۔  مگر فحوائے کلام سے جو مفہوم واضح ہوتا ہے اسے ہم نے قوسین میں بیان کیا ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے جھوٹ کے اس طوفان کی طرف جو منافقین نے کسی پاکدامن مؤمنہ کے خلاف اٹھایا تھا۔  یہ گروہ شامل تو تھا مسلمانوں میں لیکن نہ صرف یہ کہ اس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ اس کا مخالف اور مسلمانوں کے درپے آزار تھا۔  وہ محض اپنے قبیلہ کے مسلمان ہو جانے یا اس قسم کی دوسری مصلحتوں کی بنا پر اسلام لایا تھا۔  حقیقتہً اسے اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس سے بغض رکھتا تھا اور اپنے اس بغض کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتا رہتا تھا۔  غزوہ احزاب (۰۵ھ) کے بعد اس نے مسلم سماج کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے شریف مسلمان خواتین کو بدنام کرنے ، بے حیائی کا چرچا کرنے اور جھوٹی افواہیں پھیلانے کا کام شروع کیا۔  اس موقع پر وہ ایک عفت مآب مومن خاتون کے خلاف ایک گھناؤنا قصہ گھڑ لائے اور اس بہتان کو اس طرح پھیلانا شروع کیا کہ بعض غیر محتاط مسلمان بھی اس کا چرچا کرنے میں شریک ہو گئے۔  منافقوں کے اسی نئے فتنہ کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اور ان مسلمانوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے جنہوں نے جھوٹی افواہوں سے متاثر ہو کر برائی کا چرچا کرنے میں حصہ لیا تھا۔

قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ وہ کون خاتون تھیں جن کے خلاف طوفان کھڑا کیا گیا تھا اس لیے اس کا تعین ضروری نہیں اور چونکہ اس کا چرچا کرنے سے روکا گیا ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہے اس لیے صحابۂ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں طوفان کا وہ واقعہ نقل نہیں کیا جو اس وقت پیش آیا تھا۔  اس لیے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش بالکل غیر ضروری اور نا مناسب ہے کہ یہ تہمت کس خاتون پر لگائی گئی تھی اور کیا افسانہ تراشا گیا تھا۔  بے حیائی کے جھوٹے قصے بیان کرنے سے خواہ وہ تردید ہی کے ساتھ کیوں نہ ہوں برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے ان کو نقل نہ کرنا ہی مناسب ہے اور سلامتی کی راہ یہی ہے کہ قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاء کر  کے متعلقہ احکام پر نگاہوں کو مرکوز کیا جائے۔

رہیں وہ روایتیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا قصہ بیان ہوا ہے تو قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ قرآن کا بیان عام مومن عفیفہ عورتوں سے متعلق ہے جیسا کہ آیت ۱۲  اور ۲۳ سے واضح ہے۔  اس میں کوئی اشارہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی زوجۂ مطہرہ کی طرف نہیں ہے۔  اگر واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگانے کا ہوتا تو تہمت لگانے والوں کا جرم اور سنگین ہو جاتا کہ یہ لوگ مومنوں کی ماں (ام المومنین) کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں نیز انہوں نے اپنی اس حرکت سے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اذیت پہنچائی ہے اور خاندان نبوت کی بدنامی کا باعث ہوئے ہیں لیکن اس قسم کی کوئی بات ان آیات میں اشارۃً بھی مذکور نہیں ہے۔  پھر ان روایتوں پر اسناد کے لحاظ سے بھی کلام کی گنجائش ہے اور متن (مضمون) کے اعتبار سے تو بہت سی باتیں ناقابل تسلیم ہیں ان روایتوں میں سب سے زیادہ مشہور اور مبسوط روایت زہری کی ہے جو مشہور تابعی تھے۔  یہ روایت بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں نیز سیرت ابن ہشام میں بھی یہ ابن اسحق سے نقل ہوئی ہے۔  اس روایت کو یہاں نقل کرنا باعث طوالت ہو گا۔  نیز یہ بات مناسب بھی نہیں معلوم ہوتی کہ ایک ایسی روایت کو قرآن کی تفسیر میں جگہ دی جائے جس کو بیان کرنے میں انقباض محسوس ہوتا ہے۔  اس لیے ہم مختصراً یہ بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے کہ کن وجوہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے :

۱) سب سے پہلی بات جو اس روایت میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک اس بہتان کی اطلاع پہنچ گئی تو آپ کی نظر التفات حضرت عائشہ کی طرف نہیں رہی در آنحالیکہ حضرت عائشہ ان دنوں بیمار رہیں۔  آپ صرف خیریت معلوم کر کے چلے جاتے اس لیے حضرت عائشہ نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی بات ہے پھر جب ام مِسطح نے حضرت عائشہ کو مطلع کیا کہ ان پر تہمت لگائی گئی ہے تو ان کو سخت صدمہ ہوا اور وہ روتی رہیں۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس افواہ کو سن کر اس کی فوراً تردید نہیں کی اور حضرت عائشہ سے کچھ پوچھے بغیر اور معاملہ کی تحقیق کئے بغیر ان سے بدگمان ہو گئے۔  حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان سے یہ بعید ہے کہ آپ ایسا طرز عمل اختیار کریں اپنی زوجۂ مطہرہ کے ساتھ جس کی عفت اور پاک دامانی شک سے بالاتر ہو۔  قرآن تو اہل ایمان سے کہتا ہے کہ تم نے جب بہتان کا قصہ سنا تو ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح بہتان ہے (آیت ۱۲) ۔  قرآن کے اس عتاب کا رخ ان مسلمانوں کی طرف ہے جنہوں نے ایک پاکدامن خاتون پر لگائے گئے بہتان کی فوراً تردید نہیں کی۔  مگر مذکورہ روایت کو قبول کرنے کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طرزِ عمل کی توجہ کرنا مشکل ہے اور کوئی ایسی روایت جس سے منصب نبوت پر حرف آتا ہو قابل رد ہے۔

۲)  اس روایت میں دوسری بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ منسوب کی گئی ہے کہ جب آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رو رہی ہیں تو حضرت علی اور اسامہ کو بلایا اور ان سے اپنی اہلیہ کو چھوڑ دینے کے بارے میں مشورہ چاہا۔  اسامہ نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کے گھر والوں کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے اور حضرت علی نے کہا اللہ نے آپ پر تنگی نہیں فرمائی ہے۔  عائشہ کے علاوہ بہ کثرت عورتیں موجود ہیں (یعنی) آپ دوسری عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں) آپ باندی سے پوچھ لیجئے وہ آپ کو سچ سچ بتائیں گی۔  آپ نے بُریرَہ کو بلا کر پوچھا تو بریرہ نے کہا میں نے ان میں کوئی بات ایسی نہیں دیکھی جو شک پیدا کرنے والی ہو۔

یہ بات بھی باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک ایسے مسئلہ میں جو ازدواجی زندگی سے متعلق تھا اسامہ جیسے کم عمر لڑکے سے مشورہ کیا ہو گا اور پھر یہ بات کتنی عجیب ہے کہ آپ ایک لونڈی سے تو پوچھیں لیکن اپنی دوسری ازواج سے نہ پوچھیں سوائے زینب کے حضرت علی سے تو آپ مشورہ کریں لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کو بالکل نظر انداز کر دیں۔  حضرت ابوبکر سے روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ آپ نے حضرت ابوبکر کو اس طرف توجہ دلائی ہو کہ ان کی بیٹی کے بارے میں لوگوں میں کیا چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔  پھر حضر ت علی کا جواب بھی کچھ واجبی تھا۔  بجائے اس کے کہ ان کی زبان سے وہ کلمات نکلتے جن کی توقع ایک مومن سے کی جا سکتی ہے یعنی قرآن کے ارشاد کے مطابق سُبْحانَکَ ہٰذَا بُھْتَانٌ عظیمٌ (خدایا تو پاک ہے۔  یہ تو بڑا بہتان ہے) انہوں نے کہا کہ عائشہ کے علاوہ آپ کو بہت سی دوسری عورتیں مل سکتی ہیں۔  ایک زیر تحقیق مسئلہ میں یہ کیا جواب ہوا؟ حضرت علی کے بارے میں ہمیں یہ بدگمانی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا جواب دیا ہو گا بلکہ یہ راوی کی اپنی ذہنی اپج ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ حضرت علی پہلے ہی سے حضرت عائشہ کو وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔  اس سے راوی (زہری) کے بارے میں شیعی ذہنیت کا شبہ ضرور ہوتا ہے۔

۳)  مذکورہ روایت میں ہے کہ حضرت علی سے مشورہ کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں سے خطاب کر کے فرمایا کہ کون میری مدافعت کرے گا اس شخص سے جس نے میر ے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت پہنچائی ہے اور اللہ کی قسم میں نے اپنے گھر والوں میں اچھائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص پر یہ الزام لگا رہے ہیں اس میں بھی اچھائی ہی دیکھی ہے۔  اس پر سعد بن معاذ نے کہا اگر وہ الزام لگانے والا شخص قبیلۂ اوس سے ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر قبیلۂ خزرج سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔  یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ کھڑے ہو گئے اور سعد بن معاذ سے کہا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔  آپ ہرگز اسے قتل نہیں کر سکتے۔  سعد بن معاذ نے کہا ہم اسے ضرورت قتل کریں گے۔  تم تو منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے بول رہے ہو۔  قریب تھا کہ اوس اور خزرج لڑ پڑیں مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کر دیا۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں انصار کے دو قبیلوں کا اس طرح جھگڑنا ناقابل یقین ہے۔  سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں ان کے بارے میں ہرگز یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کئے ہوں گے۔  یہ روایت ان کے کردار کو مجروح کرتی ہے اور یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تھا تو حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کس طرح خاموش رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت میں کیوں نہ اٹھ کھرے ہوئے۔  یہ باتیں اس روایت کو بالکل مشکوک بناتی ہیں۔

۴)  روایت میں آگے بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اے عائشہ مجھے تمہارے بارے میں یہ خبریں پہنچی ہیں۔  اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تمہاری برأت ظاہر کر دے گا اور اگر واقعی تم سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو کہ جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو وہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔  حضرت عائشہ فرماتی ہیں یہ سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اے عائشہ اللہ نے تمہاری برأت نازل فرمائی۔

اس روایت سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ سے بدگمان ہو گئے تھے جو آیت ۱۲  کی روشنی میں جس میں اہل ایمان کو آپس میں نیک گمان رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔  پھر آپ کا حضرت عائشہ سے یہ کہنا کہ اگر تم سے گناہ سرزد ہوا ہے تو توبہ کرو کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حضرت عائشہ سے اتنا بڑا گناہ سرزد ہوا تھا تو اس کے لیے ان کا توبہ کرنا کافی تھا حالانکہ اس صورت میں ان پر اسلام کا تعزیری قانون نافذ ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں اپنی زوجیت میں کبھی نہ رکھتے کیونکہ یہ بات ناموس نبی کو مجروح کرنے والی ہوتی ہے۔  معلوم ہوا کہ یہ قصہ محض افسانہ ہے۔

۵)  سورۂ نور سے پہلے سورۂ احزاب نازل ہو چکی تھی جس میں نبی کی ازواج کو امہات المؤمنین (مومنوں کی مائیں) قرار دیا گیا تھا نیز رسول کو اذیت دینے والوں کو لعنت کا مستحق ٹھہرایا گیا تھا۔  اس کے بعد کون ایسا مسلمان ہو سکتا تھا جو اپنے ایمان میں مخلص بھی ہوتا اور امہات المومنین میں سے کسی پر تہمت لگانے کی جسارت کرتا؟

۶)  اس فتنہ کا اصل ذمہ دار منافقوں کا سردار عبداللہ بن اُبیَ تھا لیکن اس روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت عائشہ کی برأت والی آیات نازل ہونے کے بعد اس پر حدِ قذف جاری کی گئی البتہ دوسری روایتوں میں حضرت مسطح پر جو ایک بدری صحابی ہیں ، حضرت حسان بن ثابت پر جو دربار نبوی کے شاعر ہیں اور حضرت حمنہ بنت حجش پر حدِ قذف جاری کرنے کا ذکر ملتا ہے۔  یہ عجیب معاملہ ہے کہ جس نے اس طوفان کو اٹھایا تھا اس کو تو کوئی سزا دی ہی نہیں گئی البتہ جو لوگ اس سے متاثر ہو گئے تھے انہیں سزا دیدی گئی جبکہ قرآن کہتا ہے جس شخص نے اس بہتان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

حضرت مسِطح بدری صحابی ہیں اس لیے اتنے غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتے کہ ام المومنین پر تہمت لگائیں حضرت حسان اپنی شاعری کے ذریعہ کافروں کو منہ توڑ جواب دیا کرتے تھے اور وہ اس میدان کے مجاہد تھے۔  کیا ایسی شخصیت کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں حصہ لیں گے ؟ اگر بالفرض انہیں کوئی شبہ ہو گیا تھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں لا سکتے تھے۔  آپ کے علم لائے بغیر آپ کے گھر والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کسی مؤمن کا کام نہیں ہو سکتا کجا کہ کسی صحابیٔ رسول کے بارے میں یہ رائے قائم کی جائے۔  پھر حضرت حسان کو توسیرت ابن ہشام کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انعامات سے نوازا کیونکہ حضرت صفوان نے برہم ہو کر ان پر تلوار سے حملہ کر دیا تھا اگر وہ قذف کے مرتکب ہو کر مردود الشہادۃ ہو گئے تھے تو آپ ان کو انعامات سے کیسے نوازتے ! حمنہ حضرت زینب کی بہن تھیں اور اس روایت کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دریافت کرنے پر حضرت زینب نے حضرت عائشہ کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا تھا اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ حضرت حمنہ نے ان تمام حقائق کو نظر انداز کر کے حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں حصہ لیا ہو۔  واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت متعدد صحابہ کے کردار کو مجروح کرتی ہے۔

۷)  اسناد کے لحاظ سے بھی افک کی روایتوں میں کلام کی کافی گنجائش ہے۔  یہ طویل روایت تو ابن شہاب زہری سے مروی (منقول) ہے اور زہری کا شمار تو ثقہ راویوں میں ہوتا ہے مگر جیسا کہ حافظ ذہبی نے اسماء الرجال کی کتاب میزان الاعتدال میں صراحت کی ہے وہ کبھی تدلیس (گھپلا) بھی کیا کرتے ہیں۔

کان یدلس فی النادر "وہ نادر (روایتوں) میں تدلیس کیا کرتے تھے۔” (میزان الاعتدلال ج ۴ص۴۰)

تدلیس کا مطلب یہ ہے کہ روایت اصلاً جس راوی سے مروی ہے اس کی طرف اس کو منسوب نہ کرتے ہوئے کسی اور راوی کی طرف منسوب کی جائے تاکہ اسناد کی اصل حقیقت پر پردہ پڑا رہے اور لوگوں کے لیے روایت قابل قبول بن جائے۔

اور ابن حجر لکھتے ہیں : لا یثبت لہ السماع من عروۃ  "عروہ سے ان کا سننا ثابت نہیں۔” (تہذیب التہذیب ج۹ ص ۴۵۰)

زہری کے بارے میں ایک بات یہ بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایسی روایتوں کے راوی ہیں جو حضرت عائشہ اور خلفائے راشدین کو معرض بحث میں لاتے ہیں جس سے ان کے بارے میں شیعی ذہنیت کا شبہ ہوتا ہے مگر چونکہ ان کا تعلق خلیفہ عبدالملک کے دربار سے تھا اس لیے انہوں نے درمیانی طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔

غرض زہری کی روایت کسی پہلو سے بھی اطمینان بخش نہیں ہے کہ اس کو اس آیت کی جس میں افک کے کسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تفسیر قرار دیا جائے۔

رہیں دوسری روایتیں جس میں حضرت عائشہ پر تہمت کا مجملاً ذکر ہوا ہے تو ان پر بھی کلام کی کافی گنجائش موجود ہے (اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے دیکھئے حکیم نیاز احمد صاحب کی کتاب "روایت افک” مطبوعہ مشکور اکیڈیمی ۲/F/۸۹ خالد بن ولید روڈ کراچی ۲۹)

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو سوسائٹی میں جو منافق شامل ہو گئے ہیں ان کی اصلیت نمایاں ہو جائے گی۔  اسی طرح سادہ لوح مسلمانوں کو جو ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے تھے سبق ملے گا اور محتاط رہنے والے مخلص مسلمانوں کی شان میں اضافہ ہو گا اور وہ اپنے محتاط اور متقیانہ رویہ کی بنا پر اجر کے مستحق ہوں گے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شرمناک جھوٹ کو پھیلانے میں جس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی سزا کا مستحق ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اگرچہ ایک مخصوص واقعہ کے تعلق سے کہی گئی ہے مگر اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی پاکدامن مسلمان خاتون پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو مسلمان مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں اور نہ صرف یہ کہ حسن ظن سے کام لیں بلکہ اس الزام کی تردید بھی کریں اور اس تردید کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ کھلا بہتان ہے۔  آیت میں بات اگرچہ عورتوں کے تعلق سے کہی گئی ہے کیونکہ کسی شریف خاتون پر تہمت کا معاملہ بڑے سنگین نتائج کا حامل ہوتا ہے لیکن فحوائے کلام (انداز بیان) سے یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکباز مسلمان مرد پر تہمت لگانا بھی بہت بڑا گنا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زنا کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے قرآن نے چار گواہوں کی قید لگائی ہے۔  اگر کوئی شخص الزام عائد کرنے کے بعد چار گواہ پیش نہیں کرتا تو اللہ کے قانون میں وہ جھوٹا ہے اگر بالفرض اس نے گواہوں کی عدم موجودگی میں زنا کے کسی واقعہ کو دیکھا تھا تو اسے چاہیے کہ اس کا چرچا نہ کرے کیونکہ ناکافی ثبوت کی بنا پر ملزم کو سزا تو نہیں دی جا سکتی اور چرچا کرنے کا نقصان یہ ہو گا کہ سوسائٹی میں بے حیائی کی باتیں پھیلنے لگیں گی۔  گواہوں کا عادل ہونا ضروری ہے کیونکہ قرآن نے دوسری جگہ صراحت کی ہے کہ:

وَ اَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنکُمْ۔ (طلاق:۲) "اپنے میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو۔”

فاسقوں کی گواہی پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔  رہا یہ سوال کہ کیا عورتوں کی گواہی اس معاملہ میں قابل قبول ہے تو جمہور فقہا حدود و قصاص کے معاملہ میں عورت کی گواہی کو قابل قبول نہیں قرار دیتے لیکن قرآن نے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔  اور نہ کسی صحیح حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔  قرآن کے احکام مردوں اور عورتوں سب کے لیے یکساں ہیں الا یہ کہ کوئی دلیل کسی حکم کو مردوں کے لیے خاص کر رہی ہو۔  سورۂ بقرہ میں قرض کے معاملہ میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا گیا ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ زنا اور قتل جیسے عینی مشاہدہ کے معاملوں میں عورتوں کی گواہی کو ساقط الاعتبار مانا جائے چنانچہ عطاء اور حماد نے زنا کے ایک مقدمہ میں مردوں اور دو عورتوں کی شہادت قبول کی تھی۔  اور ابن حزم کے نزدیک ایک مرد کی جگہ دو عادل مسلمان عورتوں کی گواہی قبول کرنا جائز ہے۔ (التشریع الجنائی ج ۲ ص ۴۱۱)

زنا بالجبر کے مقدمات میں عورتوں کی گواہی ایک ضرورت بنکر سامنے آ سکتی ہے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں کے اٹھائے ہوئے فتنہ میں کچھ کم فہم مسلمان بھی شریک ہو گئے تھے۔  اسی پر یہاں گرفت کی گئی ہے کہ اس قسم کے فتنہ کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔  وہ تو اللہ کا فضل ہوا کہ اس نے بر وقت تمہیں اس پر متنبہ کر کے ایک بڑے عذاب سے بچا لیا لہٰذا تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور آئندہ کے لیے محتاط ہونا چاہیے۔  اس آیت میں تنبیہ کا جو پہلو ہے وہ اگرچہ زنا کے بہتان کے تعلق سے ہے لیکن اس میں تنبیہ کا یہ عام پہلو بھی مضمر ہیں کہ اگر مسلمان منافقوں کے فتنوں کا شکار ہو گئے تو انہیں بدترین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب سبائی فتنہ کا شکار ہو گئے تو ان کے اندر تلوار چلی اور خلافتِ راشدہ سے وہ محروم ہو گئے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ان کو معمولی سمجھ کر زبان پر لاتے ہیں اور ان کو نقل کرنے لگتے ہیں لیکن وہ اخلاقاً غیر ذمہ دارانہ، شرعاً بہت بڑے گناہ کا موجب اور نتائج کے اعتبار سے نہایت خطرناک ہوتی ہیں اس لیے آدمی کسی کے خلاف محض سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرے اور غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنے سے احتراز کرے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے یہ اصولی رہنمائی ہوتی ہے کہ آدمی کو سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔

حدیث میں آتا ہے :

کَفَی بالمَرْء کَذِباً اَنْ یُّحَدِّث بِکُلّ مَاسَمِعَ "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے۔” (مسلم)

اسی طرح روایات کے بارے میں بھی اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جو روایتیں اللہ، اس کے رسول نیز رسول کے مخلص ساتھیوں پر کھلے بہتان کی حیثیت رکھتی ہوں ان کو فوراً رد کر دینا چاہیے۔  اس کاوش میں پڑے بغیر کہ اس کی اسناد کیسی ہے اور اس کے راوی کون ہیں کیونکہ جو بات بالبداہۃ غلط ہو وہ بہر صورت قابلِ رد ہے۔  اس کی واضح مثال تلک الغرانیق (بتوں کی تعریف) والی وہ روایت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی گئی ہے اور جس کی تردید ہم سورۂ حج نوٹ ۹۱  میں کر چکے ہیں۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے حیائی (فحش) کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا، تہمت زنا، بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں۔  موجودہ زمانہ میں اشاعتِ فحش کے موڈرن طور طریقے ایجاد ہو گئے ہیں مثلاً نائٹ کلب، مخلوط تیراکی کے مظاہرے ، عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں ، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے ، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے والے اشتہارات، حسن کے مقابلے ، ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے ، ہیجان انگیز ناولیں اور افسانے ، اخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور ڈانس کے پروگرام وغیرہ۔

چونکہ بے حیائی انسان کے وقار کو کھو دیتی ہے ، اس کی عزت کو خاک میں ملاتی اور اس کے اخلاق کو تباہ کرتی ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں بے حیائی پھیلانے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے لیے نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی دردناک سزا ہے اور یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اسلامی حکومت ایسے لوگوں کے لیے کڑی سزائیں تجویز کرے۔  جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سزائیں تجویز کرنا اور ان کو نافذ کرنا اس آیت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم نہیں جانتے کہ بے حیائی کی اشاعت کے نتائج کتنے دور رس اور سنگین ہوتے ہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ صفت لوگوں کو شیطان کے زیر اثر غرور نفس میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو پاکیزگی انہیں حاصل ہوئی ہے وہ اللہ کی توفیق سے ہوئی ہے۔ اخلاقی پاکیزگی اللہ کا فضل بھی ہے اور اس کی رحمت کا مستحق بنانے والی چیز بھی۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کو سنوارنے کا کام اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے وہ جسے چاہتا ہے زر خالص بنا دیتا ہے مگر اس کے فضل کی یہ بانٹ غلط نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ بندوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔  وہ جانتا ہے کہ کون پاکیزگی کا طالب ہے اور اپنی اس طلب میں کتنا مخلص ہے۔  اس موقع پر وہ دعا بھی پیش نظر رہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھائی ہے :

اللّہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَاوَ زَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلٰہَا۔  "اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا فرما اور اس کا تزکیہ کر دے۔  تو بہتر تزکیہ کرنے والا ہے۔  تو اس کا رفیق اور مددگار ہے۔” (مشکوٰۃ کتاب الدعوات بحوالہ مسلم)

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ اپنی کم فہمی کی بنا پر منافقوں کے اس پروپگنڈے کا شکار ہو گئے تھے جو انہوں نے بعض پاکدامن مومن عورتوں کے خلاف شروع کیا تھا خاص طور سے وہ عورتیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں سخت تنبیہات نازل فرمائیں تو بعض حضرات نے جو ان قصور وار مسلمانوں کی مدد کرتے تھے قسم کھا بیٹھے کہ وہ اب ان کی مدد نہیں کریں گے اس آیت میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسی قسمیں نہ کھائیں اور ضرورت مندوں کی مدد سے ہاتھ نہ روکیں۔  انہیں چاہیے کہ درگزر سے کام لیں۔  اگر وہ اللہ سے اپنے لیے معافی کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے قصور بھی معاف کر دینے چاہئیں۔

قرآن نے یہ بات کسی خاص شخص کے بارے میں نہیں کہی ہے بلکہ عام قرابتداروں مسکینوں اور مہاجرین کے بارے میں کہی ہے یعنی ان میں سے جن لوگوں سے بھی قصور سرزد ہوا ہے ان کی مالی اعانت سے وہ ہاتھ کھینچ نہ لیں۔

آیت سے یہ شرعی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھے تو اسے ایسی قسم توڑ دینی چاہیے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خبر (غافلات) سے مراد وہ سیدھی سادی عورتیں ہیں جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ کبھی بدکاری کی مرتکب ہو سکتی ہیں۔  یا ان پر تہمت لگائی جا سکتی ہے ان کو نہ بے حیائی کی باتوں سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ان کے رنگ ڈھنگ برے ہوتے ہیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں تو بہت سی باتوں پر پردہ پڑا رہتا ہے لیکن قیامت کے دن ہر بات کی حقیقت بالکل کھل کر سامنے آئے گی۔  جو جھوٹ دنیا میں بولے گئے تھے ان کی قلعی کھل جائے گی اور بے گناہوں پر جو الزام تراشیاں کی گئی تھیں ان کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔  اس روز لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہو گا کہ اللہ حق ہے اس لیے وہ عدل کرتا ہے اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان پردوں کو اُٹھاتا ہے جن میں سچائیاں مستور ہو کر رہ گئی تھیں۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں خبیث سے مراد بدکار ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ خبیث عورتوں کے لیے خبیث مرد ہی موزوں ہیں اور خبیث مردوں کے لیے خبیث عورتیں۔  اسی طرح طیب یعنی پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ہی موزوں ہیں اور پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں۔

اس موزونیت کا تقاضا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کا رشتہ پاکیزہ مردوں ہی سے کیا جائے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں ہی سے بیاہ کریں۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ عورتوں اور پاکیزہ مردوں کے خلاف تہمت کا جو فتنہ کھڑا کیا گیا ہے اس کا جھوٹ ہونا بالکل کھلی بات ہے۔  با اخلاق عورتوں اور با اخلاق مردوں پر بدکاری کی تہمت لگانے سے ان کا دامن داغدار نہیں ہوتا۔  وہ ان جھوٹے الزامات سے بالکل بری ہیں۔

الزامات سے بری ہونے کی بات یہاں عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے یعنی تمام پاکیزہ عورتوں اور مردوں کے بارے میں یہ ایک اصولی بات ہے۔  کسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ احکام دئے جا رہے ہیں جو گھریلو زندگی کو شائستہ بنانے اور بہت سے فتنوں کی راہ بند کرواتے ہیں۔  اس سلسلہ کا پہلا حکم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہو۔  متن میں لفظ تَسْتَأنِسُوْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انس کے ساتھ اجازت حاصل کرنے کے ہیں اور یہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے کو صاحب خانہ سے متعارف کرا کے اس کی رضامندی کے ساتھ گھر میں داخل ہونے کی اجازت حاصل کر لی جائے۔  مطلب یہ ہے کہ وہی شخص گھر میں داخل ہو جس کا داخل ہونا صاحب خانہ پسند کرے اور اجازت دیدے۔

جب اجازت دیدے تو اندر داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ یہ گھر میں داخل ہونے کے آداب میں سے ہے اور اس بات کا اظہار بھی کہ وہ گھر والوں کے لیے سلامتی کی دعائیں لئے ہوئے داخل ہو رہا ہے اس لیے اس سے امن ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

اجازت طلب کرنے کا جو معروف طریقہ ہو وہ اختیار کرنا چاہیے۔  دروازہ پر دستک دینا یا گھنٹی بجانا موجودہ زمانہ کا معروف طریقہ ہے۔  اس کے بعد اگر صاحب خانہ باہر آئے تو پہلے اسے سلام کرنا چاہیے اور جب وہ اندر آنے کے لیے کہے تو داخل ہوتے ہوئے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اخلاقی اور دینی پہلو سے یہ نہایت شائستہ طریقہ ہے اور اس شائستگی کی تعلیم تمہیں اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔  بالفاظ دیگر اس تعلیم کے زیر اثر تمہیں تمام گھریلو معاملات و مسائل میں ہوش مندی کا ثبوت دینا چاہیے۔  اس حکم سے اس اصولی بات کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ حق خلوت (Right of Privacy) ہر شخص کا اپنا حق ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رہائشی مکانوں میں بلا اجازت کسی حال میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔  گھر میں کسی کے موجود نہ ہونے کی صورت میں بھی اور اس صورت میں بھی جبکہ صاحب خانہ کسی وجہ سے اندر نہ بلائے۔  ایسی صورت میں آدمی کو خاموشی کے ساتھ واپس جانا چاہیے اور اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اس نے کیوں اجازت نہ دی۔  ہو سکتا ہے کوئی مصلحت یا مجبوری مانع ہوئی ہو۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اخلاقی لحاظ سے یہ طریقہ پاکیزہ ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ مکانات ہیں جو عام فائدے کے ہوتے ہیں اس لیے اس میں داخلہ کی عام اجازت ہوتی ہے مثلاً مسافر خانے ، سایہ کے لیے بنی ہوئی جگہیں ،دکانیں ،ہوٹلیں ، کھلے دفاتر وغیرہ۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم کس نیت سے کہاں داخل ہوتے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے اس لیے اس سے ڈرو اور اپنی نیتیں درست رکھو۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غضِّ بصر (نگاہیں نیچی رکھنے) کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا دیکھنا جائز نہیں ہے اس سے نگاہوں کو بچا لیا جائے۔  اگر اچانک نگاہ پڑے تو اس کو پھیر لیا جائے۔  یہاں خاص طور سے جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے عورتوں کو دیکھنے سے (بجز اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے) نگاہوں کو بچانا ہے۔  نگاہیں چونکہ شہوت کی محرک ہیں اور شہوت بے حیائی پر آمادہ کرتی ہے اس لیے قرآن نے نگاہوں پر پہرے بٹھانے کا حکم دیا ہے۔  نیچی نگاہیں شرم و حیاء کی علامت ہیں اور نفس اور اخلاق کی پاکیزگی کا ذریعہ۔  اسلام شرم و حیاء کے معاملہ میں اہل ایمان کو اتنا حساس دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ عورتوں پر نگاہ غلط بھی نہ ڈالیں۔  تانک جھانک کرنا، نظریں جمانا اور گھور کر دیکھنا بڑی بد اخلاقی کی بات ہے اور شر کا باعث۔  قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے :

یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ  (المومن:۱۹) "وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔”

یہ گویا تانک جھانک کرنے والوں کے لیے تنبیہ ہے۔  غضِّ بصر کا حکم گھر اور باہر دونوں سے متعلق ہے۔ ایک مسلمان جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھے اور تانک جھانک نہ کرے اور جب راہ چل رہا ہو تو اجنبی عورتوں کو دیکھنے سے احتراز کرے۔  اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر جنت کی راہ مشکلات سے ہو کر ہی گزرتی ہے۔  پھر یہ مشکل ایسی نہیں ہے کہ آدمی کے اختیار سے باہر ہو کیونکہ قرآن نے نگاہیں پست کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ آنکھیں بند کر لینے کا۔  جس طرح وَاغفُضْ مِنْ صَوْتِکَ (لقمان۔ ۱۹) میں غضِّ صوت کا مطلب آواز کو بند کرنا نہیں بلکہ پست کرنا ہے۔  اسی طرح غضِّ بصر کا مطلب آنکھوں کو بند کرنا نہیں بلکہ نگاہوں کو پست کرنا ہے۔  لہٰذا بلا ضرورت عورت کے محاسن پر نظر ڈالنا ناجائز ہے اور شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

زِنَاالْعَیْنِ النَّظَرُ "آنکھ کا زنا نظر ہے۔” (بخاری کتاب الاستیذان)

انجیل میں بھی اس کو زنا سے تعبیر کیا گیا ہے :

"تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔” (متی ۵:۲۷۔ ۲۸)

اگر اچانک نظر پڑے تو اس کو پھیر لینا چاہیے۔  حدیث میں آتا ہے کہ جریر بن عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نگاہ کے اچانک پڑ جانے کے بارے میں پوچھا:

فَاَمَرَنِیْ اَنْ اَصْرِفَ بَصَرِیْ "تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی نگاہیں پھیر لو۔” (مسلم کتاب الآداب)

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم گاہوں کی حفاظت کے مفہوم میں ان کو پوشیدہ رکھنا بھی شامل ہے اور حرام کاری سے بچنا بھی۔

جسم کا وہ حصہ جس کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں انسان فطرۃً شرم محسوس کرتا ہے سَتر (اور عربی میں عورہ) کہلاتا ہے۔  مرد کا ستر جمہور فقہاء کے نزدیک ناف سے گھٹنہ تک کا حصہ ہے مگر قرآن کا انداز فقہی ناپ تول کا نہیں ہے بلکہ وہ انسانی فطرت کو جگا کر اور اخلاقی حس کو بیدار کر کے کہتا ہے : ولباسُ التقویٰ ذٰلکَ خَیْرٌ (اعراف۔ ۲۶) "اور تقویٰ کا لباس بہترین لباس ہے۔”

ظاہر ہے جو شخص بھی تقویٰ کا لباس اختیار کرے گا وہ زیادہ سے زیادہ ساتر لباس استعمال کرے گا۔  قرآن نے برہنگی کو شیطان کا فتنہ قرار دیا ہے۔

"اے اولاد آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو (بہکا کر) جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس اتروا دئے تھے تاکہ ان کے ستر انہیں دکھا دے۔” (اعراف۔ ۲۷)

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظریں نیچی رکھنے کا حکم جس طرح مردوں کو دیا گیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی دیا گیا ہے جب کوئی شخص اجازت لیکر گھر میں داخل ہو تو گھر کی عورتوں کو چاہیے کہ وہ اس شخص پر نگاہیں نہ جمائے اسی طرح جب عورتیں باہر نکلیں تو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔  بلا ضرورت اجنبی مردوں کو دیکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

اس حکم کے منشاء کو سمجھ کر اگر نیک نیتی کے ساتھ اس کی تعمیل کی جاتی ہے تو جو واقعی ضرورتیں روز مرہ کی زندگی میں عورت کے مرد کو دیکھنے اور مرد کے عورت کو دیکھنے کے تعلق سے پیش آتی ہیں ان کو پورا کرنے سے اسلام نہیں روکتا کیونکہ مقصود حرج پیدا کرنا نہیں ہے مثلاً شناخت یا گواہی کی غرض سے عورت کا مرد کو دیکھنا مجمعِ عام پر نگاہ ڈالنا وغیرہ۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم گاہوں کی حفاظت میں ستر پوشی بھی شامل ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زینت سے مراد لباس بھی ہے اور آرائش کی چیزیں بھی۔  لباس کو قرآن میں زینت سے تعبیر کیا گیا ہے :

خُذُوْا زِینَتَکُمْ عِنْدَکُلِّ مَسْجِدٍ (اعراف۔ ۳۱) "ہر مسجد کے پاس (عبادت کے موقع و محل میں) اپنی زینت لیے رہو۔”

قَدْ اَنْزَلنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشاً۔ (اعراف۔ ۲۶) "ہم نے تم پر لباس اتارا ہے کہ تمہاری ستر پوشی بھی کرے اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔”

اور لسان العرب میں ہے :

وَ الزِّیْنَۃ مَایَتَزیّنُ بہ "زینت یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ آرائش کی جائے۔” (لسان العرب ج ۱۳ ص ۲۰۲) آرائش کی مثال سرمہ، مہندی، انگوٹھی وغیرہ ہیں۔

آیت میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں بجز اس زینت کے جو ظاہر ہو جائے۔  اس استثناء کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو زینت کام کاج اور چلنے پھرنے کے تعلق سے کھلی رہتی ہے اس کے کھلے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس کی غرض زینت کو دوسروں پر ظاہر کرنا نہیں بلکہ ضرورۃً زینت کو کھلا رہنے دینا ہے۔  یہ استثناء اگرچہ زینت کے اظہار سے متعلق ہے لیکن طبعاً اس میں وہ اعضاء شامل ہو جاتے ہیں جو اس زینت کا محل ہیں یعنی ہاتھ اور چہرہ کیونکہ ظاہر ہونے والی زینت مہندی اور انگوٹھی ہے جس کا محل ہاتھ ہیں اور سرمہ اور کاجل ہے جس کا محل آنکھیں ہیں جو چہرہ کا جزو ہیں۔  اس لیے اگر ہاتھ اور چہرہ اپنی زینت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو عورت کو اس کی رخصت ہے۔  اور اس رخصت نے پردہ کے احکام میں اعتدال کی صورت پیدا کر دی ہے اور عورت کے لیے کام کاج میں جو حرج پیدا ہو سکتا تھا اس کو رفع کر دیا ہے۔  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتیں چہرہ کا پردہ کرتی تھیں اور نہیں بھی کرتی تھیں۔  مثال کے طور پر صحیح مسلم کی حدیث :

"عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ فضل (بن عباس) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے سوار تھے۔  بنی خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔  اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے اور میرے والد پر فرض ہے لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں اس لیے سواری پر بیٹھ نہیں سکتے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟آپ نے فرمایا جی ہاں۔  یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا ہے۔” (مسلم کتاب المناسک)

معلوم ہوا عورت کا چہرہ کھلا تھا اس لیے اس پر نظر پڑ گئی صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ہے :

"جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ عید کے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا۔  آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی بغیر اذان اور اقامت کے پھر بلال رضی اللہ عنہ کے سہارے کھڑے ہو گئے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کی اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی۔  لوگوں کو نصیحت کی اور سمجھایا۔  آپ نے فرمایا صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن بننے والی ہیں۔  یہ سنکر عورتوں کے درمیان سے ایک عورت جو پچکے ہوئے سیاہ رخساروں والی تھی، کھڑی ہو گئی اور اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہو گا؟ فرمایا اس لیے کہ تم شکایت بہت کرتی ہو اور اپنے ساتھی کی ناشکری کرتی ہو۔  راوی کہتے ہیں یہ سن کر عورتیں اپنے زیور صدقہ کرنے لگیں۔  وہ اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالتے جاتی تھیں۔” (مسلم کتاب صلاۃ العیدین)

ظاہر ہے سوال کرنے والی عورت کا چہرہ کھلا تھا اس لیے راوی کو اس کے رخسار پچکے ہوئے دکھائی دئیے۔

حدیث سے یہ ثابت ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں داخل نہیں ہیں چنانچہ احرام کی حالت میں عورت کو نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا ہے :

بخاری کی حدیث ہے :

"عورت احرام کی حالت میں نقاب نہ ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔” (بخاری۔  کتاب المناسک)

اور نماز کے بارے میں حدیث میں آتا ہے :

لاتُقْبَلُ صَلاَۃُ الْحَائِضِ اِلاّ بَخِمارٍ (ترمذی ابواب الصلوٰۃ) "بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں ہوتی۔”

اور اوڑھنی سے سر ، کان، گردن اور سینہ ڈھانک لیا جاتا ہے۔  منہ نہیں ڈھانکا جاتا۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا ضروری نہیں چنانچہ فقہائے نے اس کی صراحت کی ہے۔  مغنی میں ہے :

"اس مسلک (حنبلی) میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے نماز میں اپنا چہرہ کھولنا جائز ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ کھولنا جائز نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس بات پر بھی اہل علم متفق ہیں کہ آزاد عورت کو نماز میں اپنا سر ڈھانکنا چاہیے۔” (مغنی ج۱ ص۶۰۱)

ہدایہ میں ہے :

"آزاد عورت کا پورا جسم ستر ہے سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے۔” (ہدایہ ج ۱ص ۳۹)

ابن رشد لکھتے ہیں :

"اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا پورا جسم ستر ہے بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے۔” (بدایۃ المجتہد ج۱ ص ۱۱۱)

رہا قدموں کا سوال تو ام سلمہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس اگر اتنا لمبا ہو کہ قدموں کے ظاہری حصہ کو ایک حد تک ڈھانک دے تو کافی ہے (قالت اذا تنکشف اقدامہن قال فیر خین ذراعًالایزدن علیہ۔ مشکوٰۃ کتاب اللباس بحوالہ ترمذی)

ان دلائل سے واضح ہوا کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں سے نہیں ہیں کہ ان کا چھپانا واجب ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر محرم مردوں کے لیے بلا ضرورت ان کو دیکھنا جائز ہے۔  نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم بلا ضرورت عورتوں کو دیکھنے کے لیے کوئی وجہ جواز فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ عورتیں لازماً اپنا چہرہ ہر وقت کھلا رکھیں۔  ازواج مطہرات چہرہ کا پردہ کیا کرتی تھیں اور بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے عورتیں نقاب ڈالی رہیں۔ ہم نے قرآن کی دی ہوئی رخصت کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس لیے پیش کر دیا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اسلام عورتوں کے لیے پردہ کی ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو موجودہ دور میں قابل عمل نہیں ہیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر عورتیں پردہ ہی کو ترک کر دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ رخصت کا پہلو بھی سامنے لایا جائے تاکہ اسلام نے پردہ کے جو کم سے کم حدود قائم کئے ہیں ان پر عورتیں کاربند رہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کے پیش نظر عورت اپنا چہرہ کھلا رکھنے پر مجبور ہے ،بس ریل وغیرہ کا گھنٹوں اور دنوں کا سفر نقاب کی صورت میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے اس لیے نقاب اٹھائے بغیر چارہ کار نہیں ، خرید و فروخت اور لین دین کے موقع پر بھی ہتھیلیوں کا کھل جانا ایک معروف بات ہے۔  اس لیے پردہ کے احکام میں ایسی شدت پیدا کرنا کہ شریعت کی دی ہوئی رخصتیں ختم ہو جائیں نہ صحیح ہے اور نہ مفید۔

ہم یہاں مزید چند علماء کی رائیں پیش کرتے ہیں علامہ مقدسی مغنی میں لکھتے ہیں :

"ضرورت داعی ہے کہ عورت خرید و فروخت کے لیے اپنا چہرہ کھولے اور لین دین کے لیے اپنی ہتھیلیاں کھولے۔” (مغنی ج۱ص۶۰۱)

علامہ ناصر الدین البان نے پردہ کے مسئلہ پر ایک محققانہ کتاب "حجاب المرأۃ المسلمہ” لکھی ہے جو المکتب الاسلامی بیروت سے شائع ہوئی ہے علامہ فرماتے ہیں :

"حدیث عائشہ جو ابوداؤد میں ہے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھنا جائز ہے اگر اس حدیث کی اسناد میں وہ بات نہ ہوتی جو ہم نے اپنے نوٹ میں بیان کی ہے (اشارہ ہے حدیث کے مرسل ہونے کی طرف۔  اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ ارشاد منسوب ہے کہ آپ نے حضرت اسماء کو ایسے کپڑوں میں دیکھ کر جس سے ان کا بدن جھلکتا تھا فرمایا عورت جب بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے ظاہر ہو جائے۔) الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہونے کی بنا پر قوی ہے اور بیہقی نے اسے قوی قرار دیا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مذکورہ بات کے جواز کی دلیل بن سکتی ہے خاص طور سے اس لیے بھی کہ اس پر عہد نبوت میں عورتیں عمل کرتی رہی ہیں چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھتی تھیں اور آپ منع نہیں فرماتے تھے اور یہ بات متعدد احادیث سے ثابت ہے۔” (حجاب المرأۃ المسلمہ ص ۲۴)

آگے چل کر لکھتے ہیں :

"ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت کا اپنے چہرہ کو برقع وغیرہ سے جو موجودہ زمانہ میں معروف ہے ڈھانکنا پاکدامن عورتوں کے نزدیک ایک مشروع اور محمود بات ہے اگرچہ ایسا کرنا اس پر واجب نہیں ہے بلکہ جس نے اچھا کیا اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج بھی نہیں۔” (حجاب المرأۃ المسلمہ ص ۵۳)

شیخ علی طنطاوی لکھتے ہیں :

"خلاصہ یہ کہ عورت کا چہرہ اصلاً ستر نہیں ہے اور اکثر فقہاء (اصحاب مذاہب اربعہ) اس کے ستر نہ ہونے کے قائل ہیں لیکن چہرہ نہ کھولنا اکمل اور افضل ہے۔” (فتاویٰ علی الطنطاوی ص۱۵۵)

سید قطب لکھتے ہیں :

"رہی چہرہ اور ہاتھوں کے ظاہر ہونے والی زینت تو اس کا کھولنا جائز ہے کیونکہ چہرہ اور ہاتھ کھولنا مباح ہے۔ ” (فی ظلال القرآن ج۴ ص۲۵۱۲)

ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں :

"چہرہ اور ہتھیلیوں کے بارے میں یہ رعایت اس لیے کر دی گئی ہے کہ ان کو چھپانا عورت کے لیے باعث حرج ہے،  خاص طور سے ایسی صورت میں جبکہ اسے جائز ضرورت سے باہر نکلنا پڑے مثلاً بیواؤں کو اپنی اولاد کی ضروریات کے لیے اور غریب عورتوں کو اپنے شوہروں کی معاونت کے لیے باہر نکلنا پڑے ایسی صورت میں نقاب ڈالنے اور ہتھیلیاں چھپانے کی پابندی ان کے لیے مشکلات اور دشواریوں کا باعث ہو گی۔” (اسلام میں حلال و حرام ص ۲۰۸)

اور مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں :

"حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کَفَّین (ہتھیلیاں) اِلاّ مَاظَہَرَمنہا میں داخل ہیں کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔  اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی۔  آگے فقہاء نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضاء مستثنیٰ ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی یا مہندی۔  کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔” (تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی ص۴۵۸)

بعض علماء نے اِلاّ مَاظَہَرَمِنْہَا (مگر جو زینت ظاہر ہو جائے) سے مراد وہ چادر لی ہے جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے اور جس کا چھپانا ممکن نہیں یا ہوا کے جھونکے سے چادر کا اڑ جانا مراد لیا ہے مگر یہ سراسر تکلف ہے اور جیسا کہ علامہ جصاص نے لکھا ہے یہ ایک بے معنی بات ہے کیونکہ اگر یہی مراد ہوتا تو اس کو قرآن اس اہتمام کے ساتھ بیان نہ کرتا۔ (احکام القرآن ج۳ص۳۸۹۔ ۳۹۰)

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوڑھنی (خمار) اس کپڑے کو کہتے ہیں جو سر کو ڈھانک دے اور گریبانوں (جیوب) سے مراد لباس کا وہ حصہ ہے جو گردن اور سینہ کے پاس قطع ہوتا ہے۔  اوڑھنیوں کے آنچل گریبانوں پر ڈالے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عورت سر پر اوڑھنی ڈال کر اس کے آنچل اپنے گریبانوں پر اس طرح ڈالے کہ سر، کان ، گردن اور سینہ پوری طرح ڈھک جائے۔  نہ سر کی زینت ظاہر ہو نہ کان کی اور نہ گردن کی اور نہ ہی سینہ کا ابھار نمایاں ہو۔

اوڑھنی کا یہ حکم گھر کے لیے بھی ہے اور باہر کے لیے بھی اور باہر کے لیے ایک مزید حکم جلباب (چادر) کا بھی ہے مگر چونکہ چادر کھل جایا کرتی ہے جس سے گردن اور سینہ کے ظاہر ہونے کا احتمال ہوتا ہے  اس لیے اوڑھنی بھی ضروری ہے۔  موجودہ دور میں برقع کا رواج ہے۔  اگر برقع اوڑھنی کے مقصد کو بھی پورا کرتا ہو یعنی گردن وغیرہ کے کھل جانے اور متعلقہ زینت کے ظاہر ہونے کا احتمال نہ ہو تو صرف برقع بھی کافی ہو سکتا ہے واللہ اعلم۔

گھر میں صاحبِ خانہ کی اجازت سے جب کوئی غیر محرم داخل ہو جائے تو اس سے پردہ کے کم سے کم حدود یہ ہیں کہ عورت ساتر لباس میں ہو اور دوپٹہ سے اپنا سر، کان، گردن اور سینہ چھپا لے اور چہرہ اور ہاتھ اور ان کی زینت کے علاوہ کوئی اور زینت یا جسم کا حصہ ظاہر نہ ہونے دے۔  لیکن اگر درمیان میں پردہ لٹکا دیا جاتا ہے یا مردوں کے لیے الگ کمرہ کا انتظام ہے تو یہ بہتر صورت ہو گی۔  ازواج مطہرات کے لیے کچھ مخصوص پابندیاں تھیں جن میں سے ایک پابندی یہ تھی کہ ان کے اور غیر محرموں کے درمیان پردہ حائل ہو۔  اگر کوئی چیز مانگی جائے تو پردہ کی آڑ سے مانگی جائے۔ (سورۂ احزاب آیت ۵۳) لیکن عام مسلمان خواتین کے لیے گھر کے پردہ کے معاملہ میں کسی حد تک نرمی برتی گئی ہے۔

اس نرمی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ غیر محرم رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ داری کے تعلق کو نبھانا آسان ہو جاتا ہے۔  ان کی آمد پر اگر درمیان میں پردہ حائل کر دیا جاتا ہے تو بہتر ہے لیکن اگر اس سے حرج ہوتا ہو تو پردہ کے جن کم سے کم حدود کا ابھی ذکر ہوا،  ان کی پابندی کرنا کافی ہے۔  مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر محرم کے لیے خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو خلو ت کی اجازت ہے بلکہ شوہر یا کسی محرم کی موجودگی میں عورت غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے مذکورہ پابندیوں کے ساتھ آ سکتی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ دوپٹہ اتنا باریک نہیں ہونا چاہیے کہ بدن جھلکے کیونکہ دوپٹہ تو اعضاء کو چھپانے کے لیے ہے نہ کہ گلے میں ڈالنے یا فیشن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہے لہٰذا دوپٹہ کے لیے ایسا کپڑا استعمال کرنا چاہیے جس سے اس کا مقصد پورا ہوتا ہو۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس فقرہ میں زینت کو ظاہر کرنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس سے مراد عورت کا بناؤ سنگھار کے ساتھ سامنے آنا ہے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ عورت جن کے سامنے آ سکتی ہے ان کی تفصیل یہ ہے :

۱) شوہر۔

۲) باب ، خسر، بیٹے ، شوہر کے بیٹے یعنی سوتیلے بیٹے ، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔  یہ سب عورت کے لیے محرم ہیں (یعنی ان سے نکاح حرام ہے) اس لیے ان کے سامنے ، عورت زینت (لباس اور زیورات وغیرہ) کے ساتھ بے تکلف آ سکتی ہے ان کے علاوہ دیگر محرم بھی ہیں مثلاً چچا، ماموں ، داماد، رضائی بھائی وغیرہ جن کا ذکر یہاں نہیں ہوا۔  ان کا ذکر نہ کرنے سے قرآن کا اشارہ اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے تو آ سکتی ہے مگر زینت کا اظہار ان کے سامنے ضروری حد تک ہی ہونا چاہیے۔

۳) نِساہنَّ (اپنی عورتوں) سے مراد اپنے میل جول کی اور خدمت کرنے والی عورتیں۔  پوری زینت کے ساتھ ایسی ہی عورتوں کے سامنے آنے کی اجازت دی گئی ہے۔  رہیں دوسری عورتیں تو قرآن کا اشارہ اس بات کا طرف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اسی حد تک زینت کو ظاہر کیا جائے جس حد تک ظاہر ہونے میں فتنہ کی کوئی بات نہ ہو۔

۴) مملوک میں لونڈی غلام دونوں شامل ہیں۔  غلام کو اسلام نے گھر کے ایک فرد کی حیثیت دی ہے اور اس کو جو خدمت انجام دینا پڑتی ہے اس کے پیش نظر ضرورت داعی ہے کہ گھر کی عورتوں پر غلام کے معاملہ میں پردہ کی پابندی نہ رہے۔  اب غلامی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے اس لیے غلاموں کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔

۵) ان مردوں کے سامنے جو تابع ہوں اور غرض نہ رکھتے ہوں۔  سے مراد وہ خادم یا ملازم ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے یا بے عقل ہونے کے سبب اپنی کوئی شہوانی غرض نہ رکھتے ہوں۔  جو ان ملازمین کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔

۶) "وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوئے ہوں۔” یعنی وہ نابالغ بچے جن پر نہ نسوانی راز کھل گئے ہوں اور نہ ان میں شہوانی احساسات بیدار ہوئے ہوں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عورتوں کو اس طرح پاؤں مارتے ہوئے نہیں چلنا چاہیے کہ زیور کی جھنکار سنائی دے۔  یہ اشارہ ہے خاص طور سے پازیب کی طرف کہ ان میں گھنگرو یا بجنے والی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے اور نہ چلنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ پازیب سے کوئی چیز ٹکرا کر آواز پیدا کرے۔

آیت کے الفاظ مَایُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ۔  "جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے۔” اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پازیب پاؤں میں چھپے ہوئے ہونے چاہیے۔  اجنبی مردوں پر ان کو ظاہر نہیں ہونے دینا چاہیے۔

پاؤں مارتے ہوئے نہ چلنے کی یہ ہدایت گھر کے لیے بھی ہے اور باہر کے لیے بھی۔  گھر میں جب کوئی غیر محرم اجازت لیکر داخل ہو تو عورتوں کو چاہیے کہ گھر میں چلتے ہوئے اس احتیاط کو ملحوظ رکھیں اور جب باہر نکلنا ہو تو اس کا پورا پورا خیال رکھیں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو دین زیوروں کی جھنکار کے معاملہ میں محتاط رہنے کی تعلیم دیتا ہو اور پاؤں زمین پر مارتے ہوئے چلنے کی ممانعت کرتا ہو وہ عورتوں کی نازو ادا کی چال کو اور ان کے رقص و سرور کو کب گوارا کر سکتا ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توبہ کے معنی رجوع کرنے کے بھی ہیں اور گناہ سے تائب ہونے کے بھی۔  اس موقع پر تمام اہل ایمان کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  مطلب یہ ہے کہ گھریلو زندگی کے سلسلہ میں جو ہدایت دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو اور اخلاقی پاکیزگی کے تعلق سے جو قصور اس سے پہلے تم سے سرزد ہو چکے ہوں ان کے بارے میں اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لو۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ فلاح ان قرآنی ہدایت پر عمل پیرا ہونے میں ہے نہ کہ ان کو پس پشت ڈال کر "موڈرن” اور "فیشن پرست” بننے میں۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض بیواؤں کے نہیں ہیں بلکہ ان مردوں اور عورتوں کے ہیں جو مجرد ہوں یعنی وہ مرد جن کی بیویاں نہ ہوں اور وہ عورتیں جن کے شوہر نہ ہوں۔  ان کے نکاح کرا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلقین انہیں نکاح کی ترغیب دیں اور اس معاملہ میں ان کی مدد کریں۔  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بیواؤں کے نکاح کو برا خیال کرنا صحیح نہیں اسلام بیواؤں کے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتا ہے۔

غلاموں اور لونڈیوں کے سلسلہ میں بھی اسلام نے اصلاحی قدم اٹھایا اور اس بات کی ہدایت کی کہ ان میں سے جو صالح زندگی گزار رہے ہیں ان کے نکاح کر دئے جائیں یہ ذمہ داری خاص طور سے ان کے مالکوں کی قرار پائی۔

یہ اس سلسلۂ ہدایت کی ایک کڑی ہے جو زنا کے سد باب کے لیے دی جا رہی ہیں۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نکاح کے معاملہ میں تنگ دستی مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس مبارک کام کو انجام دینا چاہیے۔  جو شخص اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اللہ اسے ضرور اپنے فضل سے نوازے گا۔  اور یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد کتنے ہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور کتنے ہی لوگ خوشحال ہو گئے ہیں۔

مگر موجودہ دور کے نوجوانوں کا حال بھی عجیب ہے جو جدید تہذیب کے زیر اثر ازدواج کی ذمہ داریوں سے کتراتے رہتے ہیں۔  پچیس سال کی عمر تک تو وہ حصول تعلیم میں مشغول رہتی ہیں اس کے بعد پانچ سال معاشی جدوجہد میں اس طرح صرف کرتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی قائم ہو جائے اور اتنا پس انداز ہو کہ وہ ٹھاٹ باٹ سے شادی کر سکیں۔  اس طرح ان کی جوانی تجرد میں گزرتی ہے اور آدھی عمر کے بعد وہ رشتہ تلاش کرتے ہیں۔  تہذیب جدید نے ایک طرف نا بالغوں کو بالغ بنا دینے والا ہیجان انگیز ماحول بنایا ہے اور دوسری طرف شادی کی ذمہ داریوں سے کترانے کا رجحان پیدا کر دیا ہے۔  نتیجہ یہ کہ بیشتر نوجوان بری طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کو رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شادی کی عمریں ضائع ہو رہی ہیں۔  یہ صورتِ حال اصلاح طلب ہے اور قرآن کی ہدایت پر عمل کی متقاضی۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ بڑی وسعت والا ہے اس لیے اس سے امید رکھو کہ وہ رزق میں کشائش اور فراخی پیدا کرے گا۔  وہ علم والا ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون عفت کی زندگی چاہتا ہے اور تنگ دست ہونے کے باوجود ازدواج کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ واقعی مجبوریوں کی وجہ سے نکاح نہ کر سکتے ہوں مثلاً موزوں رشتہ نہ ملنے یا رہائش کا انتظام نہ ہونے کی بنا پر نکاح کو مؤخر کرنا پڑ رہا ہو انہیں چاہیے کہ عفت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور جب اللہ ان کی مشکلات کو دور کر دے تو وہ ازدواجی زندگی اختیار کریں۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مکاتبت” سے مراد وہ تحریری معاہدہ ہے جو ایک غلام اپنے آقا کے ساتھ اپنی آزادی کے لیے کرتا ہے جس میں مدت کے ساتھ رقم کا تعین ہوتا ہے اور غلام کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسری جگہ محنت و مشقت کر کے رقم لائے اور قسط وار مالک کو ادا کر کے غلامی سے رہائی حاصل کرے۔

رہی یہ بات کہ "اگر تم جانتے ہو کہ ان میں بھلائی ہے” تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جن غلاموں کو آزاد کرنے سے سماج کے لیے کسی شر کا اندیشہ نہ ہو بلکہ خیر کی توقع ہو ان کے ساتھ مکاتبت کر لی جائے۔  اس احتیاط کی ضرورت خاص طور سے اس لیے بھی تھی کہ اس وقت غلاموں کی بڑی تعداد جنگی اسیروں پر مشتمل تھی۔

غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے اسلام نے جو طریقے رائج کئے ان میں مکاتبت (تحریری معاہدہ) بھی ایک اہم ذریعہ تھا۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترغیب ہے غلاموں کی مدد کے لیے تاکہ وہ معاہدہ کے مطابق معاوضہ ادا کر  کے آزادی حاصل کر سکیں۔  جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کی ہے ان کو چاہیے کہ گردنیں چھڑانے میں مال خرچ کریں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقرہ "جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں” صورت حال کو واضح کر رہا ہے یعنی یہ بڑی ہی ظالمانہ حرکت ہے کہ لونڈیوں کو ان کی مرضی کے خلاف پیشہ کے لیے مجبور کیا جائے۔  اس وقت لونڈیوں کو ان کے مالک پیشہ کے لیے مجبور کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعہ کو کمائی ہو وہ انہیں حاصل ہو جائے۔  یہاں اسی منکر سے روکا گیا ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر لونڈیوں کو زنا کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تو اللہ ان کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کرے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔  اس سے یہ اصولی بات معلوم ہوئی کہ جس پاکدامن عورت زنا کے لیے جبر کیا جائے خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اس کو نہ زانیہ کہا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی سزا کی مستحق ہے۔  اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ ہے بشرطیکہ اس نے بدکاری سے بچنے کی پوری کوشش کی ہو۔

رہے زنا کاری پر مجبور کرنے والے لوگ تو قرآن ان کو آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی دردناک سزا کا مستحق قرار دیتا ہے جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۱۹ سے واضح ہے نیز سورہ مائدہ آیت ۳۳ میں جو سزائیں سوسائٹی میں فساد پھیلانے والوں کے لیے تجویز کی گئی ہیں ان کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے ہ وہ عورتوں کو اغوا کرنے والوں۔  ان کو زنا کے لیے مجبور کرنے والوں اور قحبہ گری کے اڈے قائم کرنے والوں کو کڑی اور عبرتناک سزا دے جو موت تک کی ہو سکتی ہے۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان مفسد قوموں کے انجام کی طرف جنہوں نے اللہ کے احکام کی پروا نہیں کی اور اپنی خواہشات کے غلام بن کر برائیاں سمیٹتے رہے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور ایک نہایت لطیف، جمیل اور پاکیزہ چیز ہے۔  وہ خود بھی ظاہر ہوتا ہے اور اپنی روشنی سے دوسری چیزوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔  اللہ کے آسمانوں اور زمین کا نور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔  وہ نہایت لطیف ہے،  صاحب جمال ہے،  پاک اور منزہ ہے اور اس کا وجود اپنے آپ ظاہر ہے۔  ورنہ اللہ نہ مادی معنی میں نور ہے اور نہ اس مادی نور پر اسے قیاس کرنا صحیح ہے کیونکہ لیسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ (شوری ۱۱) "اس جیسی کوئی چیز نہیں۔” لہٰذا کسی فلسفیانہ بحث میں یا تاویلات کے چکر میں پڑے بغیر اللہ کے آسمانوں اور زمین کا نور ہونے کا جو سیدھا سادھا مفہوم ذہن میں آتا ہے اس پر اکتفاء کرنا چاہیے۔  اللہ کی صفات کے بارے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ تھا اور یہی سلامتی کی راہ ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جو مثال بیان ہوئی ہے اس سے مقصود اللہ کی صفت نور کی ہیئت بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی ماہیت انسانی عقل کے ادراک سے باہر ہے بلکہ مقصود اس کے اس نور کی طرف رہنمائی کرنا ہے جو اس کائنات میں جلوہ گر ہے اور جس سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔  اس نور معرفت کے کمال اور اس کی جلوہ آفرینیوں کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو چراغ طاق میں رکھا ہوا ہو وہ زیادہ روشن ہوتا ہے پھر اگر وہ شیشہ کے اندر یعنی قندیل میں ہو تو اس کی روشنی صاف ہو گی اور شیشہ اگر چمکتے ہوئے تارہ کی طرح شفاف ہو تو اس کی روشنی نہایت درخشاں ہو گی۔  پھر اگر اس چراغ کو زیتون کے تیل سے جلایا گیا ہو، خاص طور سے زیتون کے اس درخت کے تیل سے جو کھلی جگہ میں ہونے کی وجہ سے صبح و شام اس پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہوں کہ ایسے درخت کا تیل نہایت چمکیلا ہوتا ہے تو اس صورت میں اس چراغ کی روشنی نہایت تابناک ہو گی اور وہ روشنی پر روشنی دے رہا ہو گا۔  اس مثال سے مقصود نور کی انتہائی تابناکی کو واضح کرنا ہے۔

یہ تابناک نور معرفت الٰہی کا نور ہے جو اس کائنات میں جلوہ گر ہے مگر اس کو دیکھنے کے لیے بصیرت کی آنکھیں درکار ہیں۔

تمثیل میں زیتون کے درخت کو مبارک اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے فوائد بہت ہیں اور اس کا تیل بڑا ہی منفعت بخش ہوتا ہے۔  یہ درخت اگر پہاڑ پر یا میدان میں اس طرح کھڑا ہو کہ اس کے مشرقی یا مغربی جانب کوئی آر نہ ہو تو سورج کی شعاعیں اس پر صبح و شام پڑیں گی۔  زیتون کے ایسے درخت کا تیل بڑا صاف اور ایسا چمکیلا ہوتا ہے کہ گویا بھڑک اٹھنے کو ہے۔

زیتون کی مثال یہاں مغفرتِ الٰہی کے نور کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے لیکن ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے تو یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے کہ اسلام ایک مبارک دین ہے اور وہ شرقی ہے نہ عربی بلکہ آفاقی دین ہے۔  اسی طرح زیتون کے تیل کی مثال سلیم الفطرت انسان پر صادق آتی ہے جس کا دل توحید کا ساز چھیڑنے کو ہوتا ہے اور جب وحی الٰہی اسے توحید کا پیغام سناتی ہے تو وہ اس سے بالکل ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔  فطرت کی رہنمائی کے ساتھ وحی (قرآن) کی رہنمائی روشنی پر روشنی (نور علی نور) کا مصداق بن جاتی ہے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اوپر جس نور کی مثال پیش کی گئی ہے اس کا تعلق ہدایت سے ہے اس لیے اس سے مراد معرفتِ الٰہی کا نور ہی ہے۔  اور معرفت الٰہی کا نور ہی ایسا ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہونے کے باوجود ان ہی لوگوں کو دکھائی دیتا ہے جو بصیرت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔  اللہ ایسے ہی لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کو اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

آیتِ نور کااس سورہ میں بلکہ پورے قرآن میں جو مقام ہے وہ ایسا ہے جیسے ایک عالیشان محل میں لعلِ درخشاں جڑا ہوا ہو۔ معرفتِ الٰہی کے نور سے جب دل میں ایمان کا نور پیدا ہو جاتا ہے تو مؤمن کی پوری زندگی منور ہو جاتی ہے۔  گھریلو اور عائلی زندگی ہو یا خارجی اور اجتماعی، ایمان کے نور سے زندگی کا ہر گوشہ روشن ہو جاتا ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے جو مثال بیان فرمائی ہے وہ علم کی بنیاد پر ہے اس لیے وہ بالکل موزوں ہے اور جو بات اس مثال کے ذریعہ واضح کی گئی ہے وہ سر تا سر حقیقت ہے۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مسجدیں ہیں اور ان کو بلند کرنے کا مطلب تعمیر کرنا بھی ہے اور ان کی تعظیم کرنا بھی،  نیز مسجد کی عمارت کو مناسب حد تک اونچا اٹھانا بھی تاکہ مسجدوں کی عظمت کا تصور قائم ہو۔  مساجد کی تعمیر کو حدیث میں جنت کا مستحق بنانے والا عمل قرار دیا گیا ہے :

مَن بَنیَ لِلّٰہ مَسْجدٍابَنیَ اللّٰہُ لَہ، بَیْتًا فِی اَلْجَنَّۃِ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ بحوالہ صحیحین) "جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔”

اور مسجد کی تعظیم کرنے میں جہاں اس کو پاک صاف رکھنا، اس میں پاکیزہ حالت میں داخل ہونا،  وہاں خرید و فروخت نہ کرنا اور کوئی ایسی بات نہ کرنا جو آدابِ مسجد کے خلاف ہو شامل ہے وہاں یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ مسجد کے اندر کسی کی قبر بنائی جائے اور نہ کسی قبر کے اوپر کوئی مسجد تعمیر کی جائے کیونکہ یہ بات مسجد کے تقدس کے سراسر خلاف ہے۔  حدیث میں آتا ہے :

لَعَنَ اللّٰہُ الیَہُوْدَ وَالنِّصَاریٰ اِتَّخَذُوْاقَبُوْرَ اَنْبیَائہمْ مَسَاجِدَ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ بحوالہ صحیحین) "اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے۔  انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا”

اور مسجدوں کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کہ ان میں اللہ کے نام کا ذکر ہو یعنی وہاں اللہ ہی کے نام کا غلغلہ بلند ہو کہ مسجدیں اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں۔  بعض جاہل مسلمان اپنے پیر دستگیر کو بھی مسجد میں پکارنے سے نہیں چوکتے۔  ان کی یہ مشرکانہ دعائیں مسجد کے تقدس کو بری طرح پامال کرتی ہیں۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیتوں میں گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور گھریلو زندگی سے متعلق احکام بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں اللہ کے گھروں کے آداب بیان ہوئے ہیں۔  یعنی جب ذکر گھروں کا ہوا تو رخ اللہ کے گھروں کی طرف پھیر دیا گیا اور قرآن کا طریقِ تربیت یہی ہے کہ وہ ذہنوں کو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف اور فرع (شاخ) سے اصول (جڑ) کی طرف موڑ دیتا ہے چنانچہ جب لباس کا ذکر ہوا تو ذہنوں کو تقویٰ کے لباس کی طرف موڑ دیا گیا۔ (سورۂ اعراف آیت ۲۶)

اوپر کی آیت میں اللہ کی عبادت گاہوں کا ذکر ہوا جہاں سے اس کے نور کی ضیاء پاشی ہو رہی ہے اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اس نور سے کسبِ فیض کرتے رہتے ہیں۔  ان کا بنیادی وصف یہ ہے کہ ان کو معاشی دوڑ دھوپ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔  وہ اپنی کاروباری مصروفیتوں اور خرید و فروخت کے معاملات طے کرتے ہوئے بھی اللہ کو یاد رکھتے ہیں ، نماز وقت پر ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں برتتے۔

یہاں یہ بات آپ سے آپ واضح ہو رہی ہے کہ جو شخص کاروباری مصروفیتوں کے دوران اللہ کو یاد رکھے گا وہ کسب حلال ہی کے لیے جدوجہد کرے گا۔

آج مسلمانوں کا حال بڑا افسوسناک ہے۔  کتنے ہی لوگ کاروباری مصروفیتوں کے دوران نماز کو وقت پر ادا نہیں کرتے اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کو نماز پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔  گویا نماز بھی فرصت کا کوئی کام ہے اور کاروبار اس پر مقدم ہے۔  سوچنے کا یہ انداز ہی سراسر دنیا پرستانہ ہے۔  ایسے فاسقوں کو اقامتِ صلوٰۃ کی سعادت کس طرح نصیب ہو گی۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کی ہولناکی سے نہ دل ٹھکانے پر رہیں گے اور نہ آنکھیں۔

اہلِ ایمان اس دن کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں اور یہ چیز ان کو سنجیدہ بناتی ہے اور ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے اور جب بندہ میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے تو وہ اللہ کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے یہ بندے اپنے اندر یہ اوصاف جو پیدا کرتے ہیں تو اس کا ثمرہ انہیں یہ ملے گا کہ ان کے جو بہترین اعمال ہوں گے ان کو معیار قرار دیکر جزاء عطاء کی جائے گی مزید براں اللہ اپنے فضل خاص سے انہیں نوازے گا۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنا دیتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔  وہ دینے میں نہایت فیاض ہے اور جن انعامات سے وہ اپنے ان مخلص بندوں کو نوازے گا اس کا تصور وہ اس دنیا میں نہیں کر سکتے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی اصطلاح میں کفر صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی خدا کے وجود کا انکار کر دے بلکہ خدا کو مانتے ہوئے اس کی صفات کا انکار کرنا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا یا اس کی بلا شرکتِ غیرے عبادت کرنے سے انکار کرنا،  اس کے رسولوں اور کتابوں میں سے کسی کو نہ ماننا، اس کی ہدایت کو قبول نہ کرنا ، اس کی اطاعت اور اس کے احکام کو ماننے سے انکار کرنا اور آخرت پر یقین نہ رکھنا بھی کفر ہے۔  اس لیے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جو شخص اللہ کے وجود کا منکر ہو وہی کافر ہے بلکہ وہ شخص بھی کافر ہے جو خدا کا اقرار کرتے ہوئے اس طرح خدا کو نہیں مانتا جس طرح ماننے کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے اعمال میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جو خدا اور مذہب کی بنیاد پر وہ کرتے ہیں مثلاً مشرکین کا دان کرنا، خیراتی ادارے قائم کرنا، رفاہِ عامہ کے کام وغیرہ اور مشرکین عرب تو حج بھی کرتے تھے اور جہاں تک یہود و نصاریٰ کا تعلق ہے وہ اپنے طریقہ پر اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں اور آسمانی شریعت کی کچھ باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔  اسی طرح جو مسلمان منافق ہیں وہ کبھی کبھی نماز بھی پڑھ لیتے ہیں اور دوسرے دینی کاموں میں بھی شریک ہو جاتے ہیں یہ سب کا نیکی کے ہونے کے باوجود چونکہ وہ کفر کی نجاست سے ملوث ہوتے ہیں اس لیے ان کے یہ سب کام بے حقیقت ہیں اور ان کا کوئی ثمرہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والا نہیں اور نہ ان کے ان کارناموں کا کوئی صلہ انہیں ملے گا جو قوم اور وطن کی خاطر انہوں نے انجام دئے ہوں گے۔

ان کے اعمال کے بے نتیجہ ہونے کو یہاں سراب کی مثال سے واضح کیا گیا ہے۔  جس طرح ایک پیاسا، صحرا میں سراب کو دیکھ کر اسے پانی گمان کر لے اور اس امید پر وہاں جائے کہ وہ اپنی پیاس کو بجھا سکے گا مگر وہاں پہنچ کر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس نے دھوکہ کھایا اسی طرح یہ کافر اگر یہ سمجھتی ہیں کہ مرنے کے بعد اگر جزا و سزا کا معاملہ پیش آ ہی گیا تو ان کے ان اعمال کا اجر ان کو اللہ کے ہاں ملے گا محض خوش فہمی ہے قیامت کے دن انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے اعمال کے بارے میں جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔  وہ جزا و سزا کے دن اللہ کو موجود پائیں گے اور وہ ان کے اعمال کا حساب پورے عدل کے ساتھ چکا دے گا۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اربوں اور کھربوں انسانوں کا حساب چکانے میں اللہ کو کچھ دیر نہ لگے گی۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسری مثال کافروں کے جہل مرکب کی ہے کہ وہ جہالت کی تہ در تہ تاریکیوں میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ جس کو اللہ کی طرف سے روشنی نہیں ملتی اس کو پھر کہیں سے روشنی نہیں مل سکتی۔  اس کے لیے یہ بات مقدر ہے کہ وہ تاریکیوں میں بھٹکتا رہے۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں جن پر غور کرنے سے اللہ کی معرفت (پہچان) حاصل ہوتی ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "دیکھتے نہیں” یہاں "غور کرتے نہیں” کے معنی میں ہے۔  دعوت اس حقیقت پر غور کرنے کی دی جا رہی ہے کہ آسمانوں کی مخلوق ہو یا زمین کی سب اللہ ہی کی پاکی اور اس کے گن گاتے ہیں۔  فرشتے ہوں یا کوئی اور جاندار مخلوق سب اپنے اپنے طریقہ پر نماز بھی پڑھتے ہیں اور تسبیح بھی کرتے ہیں۔  یہاں تک کہ پرندے جو فضا میں پر پھیلاتے ہیں وہ اللہ کے آگے بجھ جانے ہی کی علامت ہے۔  کوئل کی کوک ، بلبل کی نغمہ سرائی،مرغ کی اذان اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں تسبیح کی گونج سنائی دیتی ہے بشرطیکہ آدمی گوش حقیقت نیوش سے سنے۔  علی الصبح جب چڑیاں درخت پر جمع ہو کر چہچہانے لگتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے رب کی تسبیح میں زمزمہ سنج ہیں اور صبح کی نماز میں مشغول ہیں۔  مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۸  اور سورۂ حج نوٹ ۳۲)۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات کہ اللہ بلا شرکت غیرے پوری کائنات کا بادشاہ ہے ایک کھلی حقیقت ہے مگر مشرکین اس کے اختیارات میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مسلمان جن کی گھٹی میں بدعتیں پڑی ہیں اللہ کو اگر بادشاہ قرار دیتے ہیں تو رسول کو وزیر اعظم۔ (مختصر تفسیر نعیمی ص۵۲۷) میں ہے "حضور صلی اللہ علیہ و سلم سلطنت الٰہیہ کے گویا وزیر اعظم ہیں”۔  اللہ کی پناہ ایسی بدعتی تفسیر سے !

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بارش کے بادلوں کا یہ نظام عام مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے لیکن اگر آدمی ہوائی جہاز میں سفر کر رہا ہو تو وہ اس کا بخوبی مشاہدہ کر لیتا ہے۔  اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بادلوں کا ایک سمندر ہے جو زمین پر چھا گیا ہے۔  وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ بادل ادھر ادھر سے آ کر بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں پھر ان کے تہ بہ تہ ہونے کا سلسلہ تو کئی میل کی بلندی تک رہتا ہے۔  اور عجیب بات تو یہ ہے کہ بادل نیچے پانی برسا رہے ہوتے ہیں اور ہوائی جہاز ان کے اوپر سے گزرتا ہے۔  یہ مشاہدہ دعوتِ فکر دیتا ہے اور آدمی اگر غور کرے تو یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ یہ سارے کام ایک منصوبہ کے تحت ہو رہے ہیں اور یہ اسی ہستی کی کارفرمائی ہے جس کا تصرف پوری کائنات پر ہے۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آسمان سے مراد بلندی ہے۔  بلندی پر سرد ہوا کی شدت سے بادل برف (Snow) سے بھر جاتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے تودے ایسے ہوتے ہیں جیسے پہاڑ پھر ان پہاڑ جیسے تودوں سے برف باری ہونے لگتی ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض مرتبہ برف باری طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے زبردست نقصان پہنچتا ہے۔  راقم سطور کو چندسال قبل دبئی میں ژالہ باری کے طوفان کو دیکھنے کا موقع ملا۔  برف کے گولے اوپر سے اس طرح برس رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا مشین گن سے گولیاں چلائی جا رہی ہیں اور گولوں کو دیکھ کر شبہ ہوتا تھا کہ کسی کارخانہ میں ڈھلے ہوئے ہیں۔  راقم نے تو راہ چلتے ہوئے ایک دکان میں پناہ لی تھی وہیں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اللہ سے سلامتی کے لیے دعا کر رہا تھا۔  بعد میں معلوم ہوا کہ اس ژالہ باری سے زبردست تباہی ہوئی اور کتنے ہی راہ چلتے لوگ اس کی زد میں آ گئے۔  ایسے واقعات انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ہوتی ہیں۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلکیات کی رو سے رات اور دن کا الٹ پھیر زمین کی محوری گردش کا نتیجہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جو زمین کو اس طرح گردش میں لا رہا ہے کہ طویل زمانہ گزرنے کے باوجود نہ اس کی رفتار میں کوئی فرق آیا اور نہ رات اور دن کے اوقات میں کوئی باقاعدگی ہوئی؟

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۳۵۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ کے بل چلنے والے جانداروں کی مثال سانپ ہے اور پانی میں تیرنے والی مچھلی بھی۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو پاؤں والے جانداروں میں انسان اور پرندے شامل ہیں۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چار پاؤں والے جانوروں میں چرنے والے مویشی بھی ہیں اور وحشی جانور بھی۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تخلیق کی اس گوناگونی میں اللہ ہی کا ارادہ کارفرما ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ آیتیں توحید کو بالکل واضح کر دینے والی ہیں مگر ان سے ہدایت وہی لوگ پائیں گے جو اللہ کی مشیت کے تحت ہدایت کے مستحق قرار پائیں گے اور اللہ کی مشیت حکیمانہ فیصلے ہی کرتی ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرتے تھے۔ یہ بات ایمان کے تقاضے کے بالکل خلاف تھی اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ درحقیقت مؤمن نہیں ہیں۔  بالفاظ دیگر ایسے لوگ منافق ہیں۔

معلوم ہوا کہ ایمان اور اطاعت سے انکار دو متضاد باتیں ہیں۔  جس دل میں ایمان ہو گا اس کا اثر عمل سے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔  وقتی طور پر کسی گناہ کا سرزد ہونا اور بات ہے اور سرے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی کو ضروری نہ سمجھنا اور بات۔  پہلی چیز معصیت ہے اور دوسری چیز کفر۔

آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ایک طرف اسلام سے عقیدت کا اظہار کرتی ہے اور دوسری طرف کتاب و سنت کی پیروی سے بالکل آزاد ہے۔  جہالت کی وجہ سے یہ لوگ خوش فہمی میں مبتلا ہیں اگر وہ ان آیتوں کو غور سے پڑھ لیں جن میں منافقوں کا حال بیان ہوا ہے تو وہ ایمان کی حقیقت کو سمجھ لیں اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی توفیق نصیب ہو۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا مقدمہ رسول کے پاس لے جانے سے انکار کرنا یا باہم نزاعی امور کو قرآن و سنت کے سامنے پیش کرنے کے لیے آمادہ نہ ہونا ایک منافقانہ حرکت ہے جس کی وضاحت سورۂ نسا نوٹ ۱۲۹  اور ۱۳۴  میں کی جا چکی ہے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہو گا تو سر تسلیم خم کرتے ہوئے رسول کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں۔

یہی حال موجودہ دور کے منافقوں کا ہے۔  وہ شریعت کے صرف ان احکام کو لے لیتے ہیں جن سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔  یہ مفاد پرستی ہے نہ کہ شریعت کی اتباع۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا یہ منافقانہ طرزِ عمل یا تو اس وجہ سے ہے کہ ان کے دلوں میں نفاق (منافقت) کی بیماری ہے اس لیے ان کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ آیا یہ احکام اللہ کے ہیں بھی؟ یا پھر وہ اللہ اور اس کے رسول سے اپنے لیے انصاف کی امید ہی نہیں رکھتے اس لیے اس اندیشہ میں مبتلا ہیں کہ ان کی حق تلفی ہو گی۔  ان میں سے جو بات بھی ہو ایمان کے منافی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے ہی حق میں ظالم بن گئے ہیں یعنی خواہش پرستی نے انہیں غلط کار اور اپنے ہی اوپر ظلم ڈھانے والا بنا دیا ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ہے مخلص مؤمنوں کا طرز عمل لیکن موجودہ مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ نہ وہ اللہ و رسول کی بات سننے کے لیے تیار ہیں اور نہ اطاعت کرنے کے لیے۔  بہت کم لوگ ہیں جو صحیح طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جو فیصلے احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں وہ ہم سب کے لیے متعلقہ امور میں واجب الاطاعت ہیں اور اصولی رہنمائی کا سامان بھی۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی با مراد ہونے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اس طور سے ضروری ہے کہ دل میں اللہ کا ڈر اور اس کی معصیت سے بچنے کا جذبہ ہو۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ منافق قسمیں کھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اے پیغمبر اگر تم انہیں جہاد کا حکم دو تو وہ ضرور نکلیں گے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قسمیں وہی لوگ زیادہ کھاتے ہیں جن کا کردار قابل اعتبار نہیں ہوتا۔  یہاں منافقین سے کہا جا رہا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اطاعت کا یقین دلانے کے بجائے اطاعت کا جو معروف اور معلوم طریقہ ہے وہ اختیار کرو کہ سچے مومنوں کا یہی طریقہ ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیتوں میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کی بھی بڑی تاکید کی گئی ہے اور اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔  اللہ کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کتاب یعنی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے اور رسول کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سنت کو جس کو اس نے اس امت میں رائج کیا اور جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری ہے اور منافقوں کے لیے تنبیہ۔  منافق اس انتظار میں تھے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔  انہیں متنبہ کیا گیا کہ وہ کسی خام حیالی میں نہ رہیں۔  خوف اور جنگ کی یہ حالت جس سے اس وقت اہل ایمان گزر رہے ہیں باقی رہنے والی نہیں۔  عنقریب ان کو اقتدار بخشا جانے والا ہے اور اس سرزمین پر اسلام کا مکمل غلبہ ہونے والا ہے۔

استخلاف کے معنی خلیفہ بنانے کے ہیں اور خلیفہ کے معنیٰ با اختیار اور با اقتدار کے ہیں۔

لسان العرب میں ہے :

وَ الْخِلَافَۃُ الْاِمَارَۃُ "خلافت کے معنی اِمارت کے ہیں۔” (لسان العرب ج۹ ص۸۳)

اور قرآن کی اصطلاح میں خلیفہ بنانے کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقتدار عطا کئے جانے کے ہیں اور اس اقدار سے مطلوب اختیارات کو اس کی شریعت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔  بالفاظ دیگر خلیفہ مطلق العنان حاکم (Absolute Monarch) نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کرنے والے کی ہوتی ہے۔  اس معنی میں ایک نبی بھی اقتدار پانے کے بعد خلیفہ ہوتا ہے چنانچہ قرآن میں حضرت داؤد کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ (سورۂ ص آیت ۲۶)

اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ وہ مومنین صالحین کو اقتدار اور حکومت سے سرفراز فرمائے گا بہت جلد پورا ہوا۔  فتح مکہ (رمضان ۰۸ ھ  ۶۳۰ء) اس اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی میں پورے عرب پر اسلام کا اقتدار قائم ہو گیا،  پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں وقت کی دو عظیم الشان سلطنتیں فارس اور روم اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں اور خلافت کے حدود ایران، عراق، شام اور مصر تک وسیع ہو گئے۔  مدینہ پر مشرکوں اور کافروں کے حملہ کا جو خطرہ لگا رہتا تھا وہ اس طرح ختم ہو گیا کہ اب کوئی طاقت بھی اس کی جرأت نہیں کر سکتی تھی اور دین کو ایسی قوت فراہم ہو گئی تھی کہ ریاست کے نظام کو اسلام کے مطابق چلانے اور اس کے قوانین کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی تھی۔  پورے عرب میں توحید کا غلغلہ ہوا اور شرک سے عرب کی زمین یکسر پاک ہو گئی۔  اس طرح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا دور قرآن کے اس وعدہ کا مصداق قرار پایا مگر تعجب ہے کہ اس واضح حقیقت کے باوجود مسلمانوں کا ایک فرقہ تینوں خلفاء (حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم) کو غاصب قرار دیکر ان کو مطعون کرتا ہے۔  اگر اس فرقہ کے لوگ اس آیت کی روشنی میں خلافت کے مسئلہ پر غور کریں تو جس فرقہ بندی میں وہ مبتلا ہیں اس کی حقیقت ان پر واضح ہو جائے۔

آیت میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ "جس طرح ان کو بخشا گیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے” تو یہ اشارہ ہے اللہ کی اس سنت کی طرف کہ جب کسی رسول کو اس کی قوم نے جھٹلایا ہے تو اس کو تباہ کر دیا گیا اور رسول اور اس کے اہلِ ایمان ساتھیوں کو با اقتدار بنایا گیا۔  اس کی مثالیں حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح اور ان کے ساتھی اہل ایمان ہیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل کو ارض مقدس عطاء کی گئی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے ذریعہ حکومت کو وسیع اور مستحکم کیا گیا۔

"اس کے بعد جو کفر کریں گے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں” کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو خلافت سے جو سرفراز کیا جائے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی تکمیل اور اس کا غیر معمولی فضل ہو گا۔  یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد بھی جو لوگ اس نعمت کی نا قدری کریں گے اور فتنے کھڑے کر کے امن کو بد امنی سے بدلنے کی کوشش کریں گے وہ کھلے فاسق ہوں گے یہ گویا اشارہ تھا سبائی فتنہ کی طرف جو حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اٹھا اور جس نے حضرت علی کی خلافت کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیا۔

"رہا یہ سوال کہ اقتدار کا یہ وعدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کے لیے تھا یا یہ بعد کے مسلمانوں کے لیے بھی ہے تو اس کا جواب علامہ ابن تیمیہ نے یہ دیا کہ : "یہ وعدہ ان سب کے لیے ہے جو یہ وصف رکھتے ہوں۔  جب اگلوں نے یہ وصف اپنے اندر پیدا کر لیا تو اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں خلافت سے سرفراز کیا اور ان کے بعد ایک گروہ اپنے ایمان اور عمل صالح کے اعتبار سے اس وصف کا حامل ہوا۔  تو جو اپنے ایمان میں کامل اور نیک عمل تھے ان کو مذکورہ خلافت بدرجۂ اتم عطاء ہوئی اور جن کے اندر اس اعتبار سے نقص اور خرابی رہی ان کے اقتدار میں بھی خلل اور نقص تھا۔  یہ اس عمل کی جزاء ہے تو جو لوگ یہ عمل کریں گے وہ اس جزا کے مستحق ہوں گے۔” (مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۱۸ ص ۳۰۲)

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ آیت توضیحی ہے۔  آیت ۲۷  میں گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کے سلسلہ میں یہاں یہ وضاحت کر دی گئی کہ جہاں تک تمہارے لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کا تعلق ہے ان کا چونکہ بار بار تمہارے پاس آنا جانا ہوتا ہے۔  اس لیے ہر وقت اجازت لینا ان کے لیے ضروری نہیں لیکن تین اوقات ایسے ہیں جن میں اجازت لینے کی پابندی ان کو بھی کرنا چاہیے اور وہ اوقات تمہارے پردہ کے ہیں۔  ایک تو عشا کے بعد کا وقت جب آدمی بستر پر جاتا ہے دوسرا نماز فجر سے پہلے کا وقت اور تیسرادوپہر کا وقت جو قیلولے کا وقت ہے خاص طور سے گرم ممالک کے لیے۔  ان اوقات میں آدمی چونکہ اپنی بیوی کے پاس خلوت میں ہوتا ہے یا جسم پر ناکافی کپڑے ہوتے ہیں اس لیے نابالغ بچوں کو بھی اس بات کا پابند بنانا ضروری ہے کہ اگر وہ ان اوقات میں اندر آنا چاہیں تو اجازت لے کر ہی آئیں۔  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بچوں کی صحیح تربیت کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جس کا اثر ان کے اخلاق پر بر ا پڑتا ہو۔

موجودہ دور میں آبادی کی کثرت نے بڑے بڑے شہروں میں رہائش کے مسئلہ کو بڑا مشکل بنا دیا ہے۔  لوگ تنگ کمروں میں اپنے بال چوں کے ساتھ رہتے ہیں۔  ایک طرف رہنے کی یہ مجبوری ہے اور دوسری طرف حیا داری کے تقاضے ہیں جن کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  ایسی صورت میں جو محتاط طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہو وہ لازماً اختیار کرنا چاہیے ے اور دوسری تمدنی ضرورتوں پر رہائش کے مسئلہ کو مقدم رکھنا چاہیے۔  یعنی رہائش کا ایسا انتظام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خلوت بھی میسر آئے اور رہنے سہنے کے تعلق سے شرعی حدود کی پابندی بھی کی جا سکے۔ جو لوگ اخلاقی حس رکھتے ہیں اور اسلامی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کے لیے ازبس ضروری ہے کہ وہ رہائش کے مسئلہ کو مناسب طریقہ پر حل کرنے کے لیے نسبتاً زیادہ مالی بار برداشت کریں۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس کے یہ احکام علم و حکمت پر مبنی ہیں۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچے جب بالغ ہو جائیں تو ان کو دیگر اوقات میں بھی اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے۔  یہ پابندی ان کے لیے اسی طرح ہے جس طرح پہلے سے ان سے بڑوں کے لیے ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت ۳۱  میں عورتوں کو دوپٹہ کا حکم دیا گیا تھا کہ اگر کوئی غیر محرم گھر میں آئے تو اپنے گریبانوں پر اس کے آنچل ڈالی رہیں۔  اس آیت میں ان بوڑھی عورتوں کو جو نکاح کی امید نہ رکھتی ہوں یہ رخصت دیدی گئی کہ وہ اگر اپنے دوپٹے اتار دیں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ زینت کی نمائش مقصود نہ ہو اور بہتر یہی ہے کہ وہ دوپٹے نہ اتاریں کہ اس میں زیادہ حیا داری ہے۔

اکثر مفسرین نے کپڑوں سے چادریں مراد لی ہیں یعنی ان کے نزدیک بوڑھی عورتیں اگر باہر نکلتے وقت اپنے اوپر چادریں نہ ڈالیں تو کوئی حرج نہیں لیکن چادر (جلباب) کا حکم سورۂ احزاب میں بیان ہوا ہے۔  اس سورہ (نور) میں تو گھر کے تعلق سے احکام بیان ہوئے ہیں جن میں اوڑھنی کا حکم بھی دیا گیا ہے اور آیت زیر تفسیر ایک توضیحی آیت ہے اس لیے اس کا تعلق اوڑھنی کے حکم سے بدرجۂ اولیٰ ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زینت کے اظہار کی تین صورتیں اس سورہ میں بیان ہوئی ہیں۔  ایک یہ کہ جو زینت ضرورۃً ظاہر ہوتی رہتی ہے اس کے غیر محرم کے سامنے ظاہر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اس کا حکم آیت ۳۱  میں اِلاّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ عورت زینت کے ساتھ اپنے شوہر کے علاوہ اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے بھی آ سکتی ہے اس کا حکم آیت ۳۱  میں بیان ہوا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ عورت غیر محرم مردوں کے سامنے زینت کی نمائش کرے یعنی جس زینت کو چھپانا غیر محرموں کے تعلق سے ضروری ہے اس کو وہ دکھاتی پھرے۔  زینت کی یہ نمائش حرام ہے اور قرآن کی اصطلاح میں اس کا نام "تبرج” ہے اس آیت میں اسی تبرّج کی ممانعت کی گئی ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ میں گھر کے تعلق سے جو احکام دئے گئے ہیں ان کی توضیح کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔  مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ مذکورہ پابندیوں کے پیش نظر نہ معذوروں کے لیے یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ وہ بدستور ان گھروں میں جا کر کھاتے رہیں جہاں ان کے لیے اہل خیر نے انتظام کر رکھا تھا اور نہ قریبی رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔  اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ معذور اشخاص کے کھانے کا انتظام جن لوگوں نے اپنے گھروں میں کیا ہو وہ وہاں جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔  گھروں میں داخل ہونے کی اجازت اور پردہ کے حدود کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معذوروں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک ختم کر دیا جائے۔  رہے قریبی رشتہ دار مثلاً باپ، ماں ، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ تو اگر تمہارے کھانے کا انتظام ان رشتہ داروں میں سے کسی کے گھر میں ہے تو وہاں جا کر تمہارے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اسی طرح ان گھروں سے بھی جو تمہاری تحویل میں ہوں مثلاً کوئی شخص سفر پر چلا گیا اور اپنا بند گھر تم پر چھوڑ دیاتو اس کے گھر میں جو کھانے پینے کا سامان ہے اس سے تمہارے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے نیز اپنے دوستوں کے گھروں میں بھی جا سکتے ہیں اور بے تکلف کھا سکتے ہو۔  باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا ممد ثابت ہوتا ہے اس لیے گھر سے متعلق جو احکام دئے گئے ہیں ان کی پابندی کرتے ہوئے ان گھروں میں جانے اور کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رہی یہ بات کہ "نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ۔” تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاً تمہارے اپنے گھر ہی میں جہاں تم کسی روک ٹوک کے بغیر کھانا کھا سکتے ہو لیکن اگر کسی وجہ سے تمہارے کھانے کا انتظام تمہارے قریبی رشتہ داروں کے ہاں ہے یا تمہارے کسی دوست کے گھر پر ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

آیت میں بیٹوں کے گھر سے کھانے کا ذکر نہیں ہوا کیونکہ جہاں تک کھانے کا تعلق ہے والدین کے لیے اپنے بیٹے کا گھر اپنے ہی گھر کے حکم میں ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا الگ الگ کھائیں یا مل کر کھائیں یہ حالات، ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے طے کرنے کی بات ہے۔  شرعاً اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں ہے اور سہولت کے پیش نظر دونوں طریقوں کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ بھولو کہ تمہارا اپنا گھر ہو یا تمہارے رشتہ داروں وغیرہ کا،  داخل ہوتے وقت تمہیں لازماً سلام کرنا چاہیے۔  آدمی کے اپنے اہل و عیال ہوں یا گھر کے دوسرے افراد اپنی ملت کے افراد ہونے کی حیثیت سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو آدمی سلامتی کی دعا کا تحفہ پیش کرے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دعائیہ کلمہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے اور جو نہایت ہی خیر و برکت والا پاکیزہ کلمہ ہے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان احکام پر جو کافی وضاحت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ سوجھ بوجھ سے کام لو۔  احکام کی تعمیل محض خانہ پوری کی حد تک کرنے سے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہوتے اور نہ فقہی موشگافیاں کرنے سے شریعت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔  عمل کی صحیح صورت یہ ہے کہ جو حکم دیا گیا ہے اس کے مدعا کو آدمی اچھی طرح سمجھ لے اور اس پر عمل درآمد کے سلسلہ میں ہوش مندی کا ثبوت دے۔  اگر مسائل پیدا ہو رہے ہوں تو انہیں اپنے ناخن تدبیر سے حل کرنے کی کوشش کرے۔  اللہ تعالیٰ نے عقل اس لیے نہیں عطا کی ہے کہ اسے معطل کر کے رکھا جائے بلکہ اس لیے عطا کی ہے کہ اسے صحیح طور سے استعمال کیا جائے اور شرعی احکام کو رو بہ عمل لانے میں عقلِ سلیم سے مدد لی جائے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایمان سے مراد سچا ایمان ہے جو شعوری ہوتا ہے۔  منافقوں کا سا ایمان نہیں جو نہ شعوری ہوتا ہے اور نہ اس میں وہ مخلص ہوتے ہیں بلکہ محض عقیدہ کا اظہار ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی کام سے مراد مشاورتی مجلس بھی ہو سکتی ہے اور وہ نشست بھی جو جہاد وغیرہ کے بارے میں ہدایات دینے کے لیے بلائی گئی ہو۔  ایسی نشستیں بجائے خود اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ان میں حاضری بھی ضروری ہے لیکن جب ایسی نشست اللہ کے رسول کی موجودگی میں منعقد ہو رہی ہو تو اس کی اہمیت بدرجہا بڑھ جاتی ہے اور اس سے بلا عذر غیر حاضری یا رسول کی اجازت کے بغیر اس نشست کو چھوڑ کر چلا جانا ایک ایسی سنگین بات ہے جو ایمان سے میل نہیں کھاتی۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار دیا گیا کہ جو لوگ اپنی کسی ضرورت سے اجازت مانگیں ان میں سے جن کو آپ مناسب سمجھیں اجازت دیدیں۔  ساتھ ہی ان کے حق میں استغفار کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے اگر ان کا عذر قوی نہیں تھا اور انہوں نے اجازت طلب کی تھی تو اللہ ان کے قصور کو معاف کر دے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول جب تمہیں کسی کام کے لیے بلائے تو تم پر فرض ہو جاتا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر اس کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔  اس کے بلاوے کو اس سطح پر نہیں رکھا جا سکتا جس سطح پر تم آپس میں ایک دوسرے کے بلاوے کو رکھتے ہو۔  رسول کا بلاوا، اس کی پکار اور اس کی دعوت ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ رسول کا جو مقام ہے وہ تم میں سے کسی کا بھی نہیں ہے۔

واضح ہوا کہ ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ رسول کے ساتھ خاص ہیں ان کو عام امراء پر منطبق کرنا صحیح نہیں۔  ان کی اطاعت کے معروف حدود ہیں جبکہ رسول کی اطاعت اور اس کے آداب کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی طرف جو رسول کی مجلس سے اپنی عدم دلچسپی کے باعث کسی کی آڑ لیکر کھسک جاتے تاکہ ان کے جانے کا کسی کو پتہ نہ چلے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو رسول کے حکم کو ماننے کے بجائے اس سے گریز کرنے لگتے ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسے لوگوں کے حق میں نہایت خطرناک ہو سکتا ہے یا تو وہ کسی فتنہ کا شکار ہو کر رہ جائیں یا دردناک عذاب کی گرفت میں آ جائیں۔

آج مسلمان طرح طرح کے فتنے میں گھرے ہوئے ہیں اور نئے نئے فتنوں کا اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔  یہ صورتِ حال نتیجہ ہے اسی ہدایت کو نظر انداز کر دینے کا یعنی رسول کی اطاعت سے گریز کرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کا۔  کاش وہ ان آیات کی روشنی میں اپنا احتساب کرتے !

٭٭٭

ای بک: اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید

 

دعوت القرآن

 

 

حصہ ۸: انبیاء، حج، مومنون، نور

 

 

                   شمس پیر زادہ

 

 

 

 

 

 

 

(۲۱) سورۂ الانبیاء

 

 (آیات۔ ۱۱۲)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

اس سورہ میں متعدد انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس کا نام "الانبیاء” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔ خصوصاً آخری آیات سے جن میں پیغمبر نے فیصلہ کے لیے دعا کی ہے۔

مرکزی مضمون

 

لوگوں میں خدا کے حضور جوابدہی کا احساس پیدا کرنا ہے تاکہ ان کی نظر کے زاویے اور عمل کا رُخ بدل جائے ، انبیاء علیہم السلام غفلت میں پڑی ہوئی قوموں کو یہ سبق برابر یاد دلاتے رہے ہیں لیکن لوگ سنبھلنے کے بجائے الٹ ان کی مخالفت کرتے رہیں ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ نصرت الٰہی ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رہی اور وہ خصوصی فضل و عنایت سے نوازے جاتے رہے ہیں۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۱۵ میں لوگوں کو ان کی غفلت پر جھنجھوڑا گیا ہے اور رسولوں کی مخالفت کرنے والوں کا جو انجام اس سے پہلے ہو چکا ہے اس سے خبردار کر دیا گیا ہے۔ آیت ۱۶  تا ۱۸  میں واضح کیا گیا ہے کہ اس دنیا کو اس کے خالق نے تفریح گاہ نہیں بنایا ہے بلکہ حق و باطل کی رزم گاہ بنایا ہے۔

آیت ۱۹  تا ۳۳  میں توحید کا بیان ہے۔

آیت ۳۴  تا ۴۷  میں رسالت سے متعلق شبہات کا جواب دیا گیا ہے اور رسول کا مذاق اڑانے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔

آیت ۴۸  تا ۹۱  میں انبیاء علیہم السلام کے احوال پیش کئے گئے ہیں۔ جن سے ایک طرف ان کی تعلیم کو پیش کرنا مقصود ہے اور دوسری طرف یہ واضح کرنا ہے کہ ان کے حق میں اللہ کی قدرت و رحمت کے کیسے کیسے کرشمے ظہور میں آتے رہے ہیں۔

آیت ۹۵  تا ۱۱۲  سورہ کا آخری حصہ ہے جس میں منکرین کو عذاب سے آگاہ کیا گیا ہے اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ رسول کی بعثت دنیا والوں کے حق میں سراسر رحمت ہے اگر وہ اس کی ناقدری کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریب آ لگا ہے لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں رُخ پھیرے چلے جا رہے ہیں۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی طرف سے جو تازہ یاد دہانی بھی آتی ہے اس کو وہ اس طرح سنتے ہیں کہ کھیل میں لگے رہتے ہیں ۲*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کے دل غافل ہیں ۳* اور یہ ظالم چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں کہ یہ تم جیسا ہی تو ایک بشر ہے ، پھر کیا تم آنکھوں دیکھے جادو کے پاس جاؤ گے ؟۴*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے ( رسول نے) کہا میرا رب جانتا ہے جو بات بھی آسمان و زمین میں کی جائے وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ ۵*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے یہاں تک کہا کہ یہ تو خواب پریشاں ہیں بلکہ یہ اس کا من گھڑت (کلام) ہے بلکہ یہ شاعر ہے۔ ۶* ورنہ یہ ہمارے پاس کوئی ایسی نشانی لائے جس طرح اگلے وقتوں کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کے پہلے کوئی بستی بھی جس کو ہم نے ہلاک کیا ایمان نہیں لائی ۷* پھر کیا یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ ۸* ؟

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور تم سے پہلے ہم نے آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر ( اہل کتاب) سے پوچھ لو۔ ۹*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کو ہم نے ایسے جسم کا نہیں بنایا تھا کہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔ ۱۰*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پھر ہم نے ان سے وعدہ پورا کیا اور انہیں اور جن کو ہم نے چاہا بچا

–لیا اور حد سے گزرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارے لتے یاد دہانی ہے۔ کیا تم سمجھتے ہیں ؟

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا اور ان کے بعد دوسرے لوگوں کو اٹھا کھڑا کیا۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب انہوں نے ہمارا عذاب محسوس کیا ۱ ۱* تو لگے وہاں سے بھاگنے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بھاگو نہیں۔ لوٹو اپنے سامان عیش اور اپنے گھروں کی طرف تاکہ تم سے پوچھا جائے۔ ۱۲*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ پکار اٹھے افسوس ہم پر۔ ہم ہی ظالم تھے۔ ۱۳*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ یہی واویلا کرتے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو کٹے ہوئے کھیت کی طرح کر دیا۔ ۱۴* وہ بالکل بجھ کر رہ گئے۔ ۱۵*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ۱۶*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر ہم کھیل بنانا چاہتے تو خاص اپنے پاس سے بنا لیتے اگر ہمیں ایسا کرنا ہی ہوتا۔ ۱۷*

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مگر ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں تو وہ اس کا سر کچل دیتا ہے اور وہ ( باطل) نابود ہو جاتا ہے ۱۸*۔ اور تمہارے لیے تباہی ہے ان باتوں کی وجہ سے جو تم بیان کرتے ہو۔ ۱۹*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  آسمانوں اور زمین میں جو کوئی ہے سب اسی کے ہیں ۲۰* اور جو اس کے پاس ۲۱* ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  رات دن اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ دم نہیں لیتے۔ ۲۲*

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا انہوں نے زمین کے ایسے خدا بنائے ہیں جو ( مردوں کو) زندہ کھڑا کرتے ہوں۔ ۲۳*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر ان ( آسمان و زمین) میں اللہ کے سوا اور خدا بھی ہوئے تو یہ درہم برہم ہو کے رہ جاتے ۲۴*۔ پس پاک ہے اللہ عرش کا رب ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ جو کچھ بھی کرتا ہے ( کسی کے آگے) جوابدہ نہیں ۲۵* اور سب جوابدہ ہیں۔ ۲۶*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا انہوں نے اس کو چھوڑ کر اور معبود بنا لئے ہیں ؟ ان سے کہو پیش کرو اپنی دلیل، یہ تعلیم میرے ساتھیوں کے لیے اور یہی تعلیم مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے بھی تھی۔ ۲۷* مگر اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے رُخ پھیرے ہوئے ہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم نے تم سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس پر یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔ ۲۸*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں رحمن نے ( اپنے لیے) اولاد بنا لی ہے پاک ہے وہ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ( اس کے) معزز بندے ہیں۔ ۲۹*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے ۳۰* اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے سب سے وہ باخبر ہے۔ وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر اس کی جس کے لیے اللہ پسند فرمائے ۳۱* اور وہ اس کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ ۳۲*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ان میں سے اگر کوئی کہ دے کہ اس کے سوا میں خدا ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیں گے۔ ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔ ۳۳*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا منکرین نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں الگ کر دیا۔ ۳۴* اور پانی سے تمام زندہ چیزیں پیدا کر دیں۔ ۳۵* کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟ ۳۶*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیئے کہ ان کو لیکر لڑھک نہ جائے۔ ۳۷* اور ان ( پہاڑوں) میں درّے بنائے جو راستہ کا کام دیتے ہیں ۳۸* تاکہ لوگ راہ پائیں۔ ۳۹*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ ۴۰* مگر یہ لوگ اس کی نشانیوں سے رُح پھیرے ہوئے ہیں۔ ۴۱*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے سب ( اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں۔ ۴۲*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کو ہمیشگی نہیں بخشی۔ ۴۳* اگر تم مر گئے تو کیا ہے لوگ ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں۔ ۴۴*

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ۴۵* اور ہم اچھی اور بری حالت میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کرتے ہیں۔ ۴۶* اور ہماری ہی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ ۴۷*

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ( اے پیغمبر!) یہ کافر جب تمہیں دیکھتے ہیں تو مذاق بنا لیتے ہیں۔ ( کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا (برائے کے ساتھ) ذکر کرتا ہے ؟ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمن کے ذکر سے منکر ہیں۔ ۴۸*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انسان کی سرشت ( طبیعت) میں جلد بازی ہے۔ ۴۹* میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا۔ ۵۰* جلدی نہ مچاؤ۔ ۵۱*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہتے ہیں یہ وعدہ پورا کب ہو گا اگر تم سچے ہو۔ ۵۲*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کاش! یہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب یہ آگ کو نہ اپنے منہ سے ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھ سے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کی جائے گی۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ (گھڑی) تو اچانک آئے گی اور ان کو بدحواس کر دے گی۔ پھر نہ تو اس کو رفع کر سکیں گے اور نہ انہیں مہلت ملے گی۔ ۵۳*

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ مگر جو لوگ ان کا مذاق اڑاتے رہے ان کو اسی چیز نے اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ ۵۴*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان سے پوچھو کون ہے جو رات کو اور دن کو رحمن (کی پکڑ) سے تمہاری حفاظت کرتا ہے ؟۵۵* مگر ے اپنے رب کے ذکر سے رُخ پھیرے ہوئے ہیں۔ ۵۶*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کیا ہمارے سوا اُن کے ایسے معبود ہیں جو ان کو بچا سکتے ہیں ؟ وہ خود اپنی مدد نہیں کر سکتے اور نہ ہماری تائید ان کو حاصل ہے۔ ۵۷*

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو آسودہ کیا یہاں تک کہ ان پر ایک طویل مدت گزر گئی۔ ۵۸* مگر کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اس سرزمین کی طرف اس کی سرحدوں کو گھٹاتے ہوئے بڑھ رہے ہیں۔ ۵۹* پھر کیا یہ غالب رہیں گے ؟

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہو میں تمہیں وحی کے ذریعہ خبردار کر رہا ہوں۔ مگر بہرے پکار کو نہیں سنتے جب کہ انہیں خبردار کیا جائے۔ ۶۰*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اگر تمہارے رب کے عذاب کی ایک آنچ انہیں لگ جائے تو پکار اٹھیں گے ہائے افسوس! ہم ہی خطا کار تھے۔ ۶۱*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور قیامت کے دن ہم انصاف کے ترازو قائم کریں گے۔ ۶۲* پھر کسی شخص کے ساتھ ذرا بھی نا انصافی نہ ہو گی۔ اگر کسی کا کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گا تو ہم اُسے لا حاضر کریں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔ ۶۳*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم ۶۴* نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان ۶۵* اور روشنی ۶۶* اور یاد دہانی عطاء کی تھی متقیوں کے لیے۔ ۶۷*

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جو بے دیکھے رب سے ڈرتے ہیں ۶۸* اور قیامت کی گھڑی سے لرزاں رہتے ہیں۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور یہ ایک بابرکت ذکر ہے ۶۹* جو ہم نے اتارا ہے۔ تو کیا تم اس کے منکر بنو گے۔ ؟

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کے شایانِ شان ہدایت عطاء کی تھی اور ہم اس کو خوب جانتے تھے۔ ۷۰*

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ کیسی مورتیاں ہیں جن کی پرستش میں تم لگے ہوئے ہو! ۷۱*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایا ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے کہا تم بھی کھلی گمراہی میں پڑے ہو اور تمہارے باپ دادا بھی پڑے تھے۔ ۷۲*

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے کہا تم واقعی حق لیکر آئے ہو یا مذاق کر رہے ہو؟

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے کہا نہیں بلکہ واقعی تمہارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اسی نے ان کو پیدا کیا ہے ۷۳* اور اس پر میں تمہارے سامنے گواہ ہوں۔ ۷۴*

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اللہ کی قسم میں ضرور تمہارے بتوں کے ساتھ ایک تدبیر کروں گا جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ ۷۵*

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  چنانچہ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا بجز ایک (بت) کے جو ان کے نزدیک بڑا تھا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ ۷۶*

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ؟ (جس نے بھی یہ حرکت کی ہے) وہ بڑا ظالم ہے ! ۷۷*

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بعض لوگوں نے کہا ہم نے ایک نوجوان کو ان کے بارے میں کچھ کہتے سنا تھا جس کو ابراہیم کہتے ہیں۔ ۷۸*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے کہا اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھ لیں۔ ۷۹*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جب ابراہیم آئے تو) انہوں نے پوچھا ابراہیم ! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے ؟

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے جواب دیا بلکہ ان کے اس بڑے نے کی ہے۔ ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔ ۸۰*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ سن کر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم ہی لوگ غلط کار ہو۔ ۸۱*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے۔ ۸۲* بولے تمہیں معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے کہا پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تم کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور نہ نقصان ؟ ۸۳*

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو! ۸۴* کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ؟ ۸۵*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے کہا اس کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ ۸۶*

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہمارا حکم ہوا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے۔ ۸۷*

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  انہوں نے چاہا کہ ابراہیم کے ساتھ ایک چال چلیں مگر ہم نے ان کو ناکام کر دیا۔ ۸۸*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم اس کو اور لوطؑ ۸۹* نجات دے کر اس سر زمین کی طرف لے گئے  جس میں ہم نے دنیا والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں ۹۰*

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے اس کو اسحٰق عطا کیا اور مزید یعقوب ۹۱* اور ہر ایک کو ہم نے صالح بنایا ۹۲*

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے ان کو امام۔ ۹۳* اور وہ ہمارے ہی عبادت گزار تھے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور لوط کو ہم نے حکمت اور علم عطا فرمایا۔ ۹۵* اور اس بستی سے اسے نجات دی جو گندے کام کیا کرتی تھی۔ ۹۶* وہ بہت ہی برے اور فاسق لوگ تھے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ ۹۷* یقیناً وہ صالحین میں سے تھا۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس سے پہلے نوح کو بھی ( ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) ۔ جب اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی۔ ۱۰۰* اور اس کے ساتھیوں کو سخت تکلیف سے نجات دی۔ ۱۰۱*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے اس کی مدد کی ان لوگوں کے مقابلہ میں جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا۔ ۱۰۲* وہ بہت برے لوگ تھے لہٰذا ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور داؤد ۱۰۳* اور سلیمان ۱۰۴* کو بھی (ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) جب وہ ایک کھیت کے مقدمہ میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں ایک گروہ کی بکریاں رات کو گھس پڑی تھیں اور ہم ان کے قضیہ کو دیکھ رہے تھے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس وقت ہم نے سلیمان کو اس (مقدمہ) کی سمجھ عطا ء کی اور ان میں سے ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم عطاء کیا تھا۔ ۱۰۵* اور داؤد کی ہمنوائی کے لیے ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا نیز پرندوں کو بھی۔ وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ ۱۰۶* یہ ہماری ہی کارفرمائی تھی۔ ۱۰۷*

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے اس کو تمہارے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی کہ تمہارے لیے جنگ کے موقع پر تحفظ کا سامان ہو۔ پھر کیا تم شکر گزار ہو ؟ ۱۰۸*

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ہم نے سلیمان کے لیے تیز ہوا کو مسخر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اس سر زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے بڑی برکتیں رکھی ہیں ۱۰۹* ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے ہیں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور شیطانوں میں سے ایسے جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے علاوہ دوسرے کام بھی کرتے۔ ۱۱۰* ان کے نگراں ہم ہی تھے۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ایوب ۱۱۱* کو (بھی ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں بیماری میں مبتلا ہو گیا ہوں اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ ۱۱۲*

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کی تکلیف کو دور کر دیا اور اس کو اس کے اہل و عیال بھی دیئے نیز ان کے ساتھ ان جیسے اور بھی دئے۔ ۱۱۳* اپنی طرف سے رحمت کے طور پر اور تاکہ یاددہانی ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ ۱۱۴*

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اسمٰعیل اور ادریس ۱۱۵* اور ذوالکفل ۱۱۶* کو بھی ( اپنے فضل سے نوازا) یہ سب صبر کرنے والے تھے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا یقیناً وہ نیکو کاروں میں سے تھے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ذوالنون ۱۱۷* ( مچھلی والے) کو بھی ( ہم نے اپنے فضل سے نوازا تھا) جب وہ برہم ہو کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ ۱۱۸* پھر تاریکیوں میں سے اس نے پکارا ۱۱۹* کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں ، تو پاک ہے بلا شبہ میں ہی قصوروار ہوں۔ ۱۲۰*

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس وقت ہم نے اس کی دعا قبول کی ۱۲۱* اور گھٹن سے اس کو نجات دی ۱۲۲* اس طرح ہم مومنوں کو نجات دیتے ہیں۔ ۱۲۳*

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور زکریا ( کو بھی ہم نے اپنے فضل سے نوازا) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۱۲۴* اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ ۱۲۵*

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیٰ عطا فرمایا۔ اور اس کی بیوی کو اس کے لیے سازگار بنا دیا۔ ۱۲۶* یہ لوگ نیکی کے کاموں میں سرگرم رہتے ۱۲۷* اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے ۱۲۸* اور ہمارے آگے عاجزی کرنے والے تھے۔ ۱۲۹*

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور وہ جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ۱۳۰* ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی ۱۳۱* اور اس کو اور اس کے بیٹے کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔ ۱۳۲*

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے ۱۳۳* اور میں ہی تمہارا رب ہوں لہٰذا میری عبادت کرو۔ ۱۳۴*

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  مگر لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ۱۳۵* سب کو بالآخر ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ ۱۳۶*

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تو جو نیک عمل کرے گا اور وہ مومن بھی ہو گا تو اس کی کوشش کی نا قدری نہ ہو گی۔ ۱۳۷* اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔ ۱۳۸*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا اس کے لیے حرام ہے کہ اس کے رہنے والے پلٹ آئیں۔ ۱۳۹*

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے امنڈ پڑیں گے۔ ۱۴۰*

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور وعدۂ حق قریب آ لگے گا تو ۱۴۱* تو اچانک ان لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی جنہوں نے کفر کیا تھا۔ ۱۴۲* وہ پکار اٹھیں گے افسوس ہم پر! ہم اس سے غفلت میں رہے بلکہ ہم خطا کار تھے۔ ۱۴۳*

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں۔ ۱۴۴* تمہیں لازماً وہاں پہنچنا ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر واقعی یہ خدا ہوتے تو وہاں نہ پہنچتے اور سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ ۱۴۵*

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہاں وہ چیختے چلاتے رہیں گے اور کچھ نہ سنیں گے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  البتہ جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے اچھے انجام کا وعدہ پہلے ہی ہو چکا ہے ۱۴۶* وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ اس کی بھنک بھی نہ سنیں گے اور اپنی من بھاتی نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ان کو ( اس دن کی) بڑی گھبراہٹ پریشان نہ کرے گی اور فرشتے ان کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح اوراق کو طومار میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ۱۴۸* جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کا آغاز کیا تھا اسی طرح ہم اسے دہرائیں گے۔ یہ وعدہ ہے ہمارے ذمہ ہم اس کام کو کر کے رہیں گے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور زبور میں ہم نے نصیحت کے بعد لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ۱۴۹*

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اس میں بڑی خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو عبادت گزار ہیں۔ ۱۵۰*

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور ( اے پیغمبر) ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے سر تا سر رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ۱۵۱*

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کہو میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ۱۵۲* تو کیا تم مسلم ہوتے ہو ( اس کے فرمانبردار بنتے ہو) ؟

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اگر وہ رُخ پھیرتے ہیں تو کہ دو میں نے تمہیں علی الاعلان خبردار کر دیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا دور ۱۵۳*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بے شک وہ جانتا ہے اس بات کو بھی جو کھل کر کہی جاتی ہے اور اس بات کو بھی جو تم چھپاتے ہو۔ ۱۵۴*

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور مجھے نہیں معلوم۔ ہو سکتا ہے یہ تمہارے لئے آزمائش اور ایک وقت تک کے لیے دنیوی فائدہ کا سامان ہو۔ ۱۵۵*

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پیغمبر نے) دعا کی اے میرے رب حق کے ساتھ فیصلہ کر دے ۱۵۶* اور ہمارا رب رحمن ہے جس سے مدد مانگی گئی ہے ان باتوں کے مقابلہ میں جو تم لوگ بناتے ہو۔ ۱۵۷*

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حساب کے وقت سے مراد قیامت کی گھڑی ہے جب ہر شخص کو خدا کے حضور اپنے عقیدہ و عمل کے بارے میں جوابدہی کرنا ہو گی۔

جوابدہی کا یہی تصور ہے جو انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے اور اسے اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرتا ہے۔ مگر ہر زمانہ میں لوگ اس اہم ترین حقیقت کی طرف سے بے پرواہ رہے ہیں اور آج بھی اربوں انسان اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ مستقبل قریب میں انہیں باز پرس کے مرحلے میں داخل ہونا ہے۔ قرآن کا یہ بیان مدہو انسانیت کو ہوش میں لانے والا ہے اگر وہ اس پر غور کرے مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قیامت اور حساب کی باتیں سننا ہی نہیں چاہتے۔ وہ صرف ایسی باتیں سننا چاہتے ہیں جن سے ان کی خر مستیوں میں اضافہ ہوتا ہو۔

حساب کی گھڑی کے قریب آ لگنے کا مطلب یہ ہے کہ اب نوع انسانی اپنے دور کے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بُعِثتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ  (مسلم کتاب الفتن)” میں اور قیامت کی گھڑی ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔

نیز حساب کی گھڑی اس اعتبار سے بھی قریب ہے کہ آدمی کے اور موت کے درمیان بہت تھوڑا فاصلہ ہے اور جب موت آ جاتی ہے تو وہ حساب ہی کے مرحلہ میں داخل ہو جاتا ہے اور اسی وقت سے جزا و سزا کا آغاز ہو جاتا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کی جو سورہ نازل ہوتی ہے ایک نئی شان تذکیر کے ساتھ نازل ہوتی ہے مگر یہ لوگ اتنے غیر سنجیدہ واقع ہوئے ہیں کہ اس سے یاد دہانی حاصل کرنا تو درکنار الٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔

یہ حال جاہل عربوں ہی کا نہیں تھا آج کے "دانشوروں” کا بھی یہی حال ہے۔ وہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں اتنے غیر سنجیدہ واقع ہوئے ہیں کہ جہاں جنت اور دوزخ کی بات آئی انہوں نے پھبتی چست کر دی۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اصل وجہ ہے ان کی غیر سنجیدہ حرکتوں کی کہ ان کے دل خدا کی طرف سے غافل اور دنیا کی طرف راغب ہیں۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ شخص جو کلام پیش کرتا ہے اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں محض الفاظ کی جادوگری ہے جس سے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ پھر کی تم جانتے بوجھتے جادو کے پھندے میں پھنسو گے۔ ؟

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پیغمبر کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اور یہ مشرکین کی سرگوشیوں کا جواب ہے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین پیغمبر اور قرآن کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کرتے ہیں کبھی کہتے یہ جادوگری ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ الجھے ہوئے خوابوں کا مجموعہ ہے۔ کبھی کہتے یہ من گھڑت باتیں ہیں اور کبھی کہتے یہ شخص شاعر ہے اور قرآن اس کے شاعرانہ تخیل کی پرواز ہے۔ اس سے خود منکرین کے الجھی ہوئی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کبھی وہ ایک بات کہتے اور جب وہ چسپاں نہ ہوتی تو دوسری بات کہتے اور جب وہ موزوں قرار نہ پاتی تو تیسری بات کہتے اور جب وہ بھی فٹ نہ ہوتی تو چوتھی بات کہتے۔ اس طرح ایک نہ ایک الزام لگا کر حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حسی معجزہ دیکھ کر کوئی بستی بھی ایمان نہیں لائی تھی۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اس پیغمبر کے ہاتھوں کوئی حسی معجزہ ان لوگوں کو ان کے مطالبہ پر دکھا دیا جائے تو یہ لوگ اس کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ہٹ دھرم لوگوں کا طریقہ یہی ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نحل نوٹ ۶۴   اور ۶۵  میں گزر چکی۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو پیغمبر بھی بھیجے گئے وہ سب کھانا کھانے والے انسان تھے۔ فوق البشر (Super-Human) کوئی بھی نہیں تھا اور نہ کوئی ہمیشہ کے لیے دنیا میں زندہ رہا۔ جو چیز پیغمبر کو دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی رہی ہے وہ اس پر وحی الٰہی کا نزول ہے۔ اس آیت سے اس خیال کی بھی تردید ہوتی ہے کہ حضرت خضر دنیا میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہیں۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب عذاب کے آثار دیکھ لئے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ طنزیہ کلام ہے مطلب یہ ہے کہ اب بھاگتے کیوں ہو۔ تم تو عذاب قبر کا مذاق اڑاتے رہے لہٰذا اگر تمہارے بس میں ہے تو اپنے سامان تعیش اور اپنے عشرت کدوں کی طرف لوٹو تاکہ تمہارے ساتھی تمہارا حال ( خیریت۔  معلوم کر سکیں کہ کیا حادثہ پیش آیا جو تم اپنے گھر بار چھوڑ کر چلے گئے تھے ؟

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت انہوں نے اپنے خطا کار ہونے کا اعتراف کیا اور اپنے کئے پر پچھتائے۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا حال اس کھیت کا ساہو گیا جس کی فصل کٹ چکی ہو اور وہ خس و خاشاک ہو گیا ہو۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زندگی کی حرارت غائب ہو گئی اور وہ بالکل بے حس و حرکت ہو کر رہ گئے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخرت کا انکار کرنے کے بعد آدمی اس کائنات کے پیدا کئے جانے کی کوئی صحیح توجہ نہیں کر پاتا۔ ایسے لوگوں کے نزدیک اس کائنات کا وجود خدا کے سنجیدہ فیصلہ کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض بہلاوے کا سامان ہے جو اس نے اپنے لیے کر لیا ہے۔ ہندو فلسفی اسے لِیلا سے تعبیر کرتے ہیں۔

"In the beginning God was alone, and He desired to become many. As a Consequence, He created the world out of mere pleasure, as a Sport (Lila) .” (Outlines of Hinduism by T.M.P. Mahadevan P.163)

"یعنی آغاز میں خدا اکیلا تھا اس نے کثرت میں تبدیل ہونا چاہا جس کے نتیجے میں اس نے دنیا کی تخلیق محض بہلاوے کے لیے کھیل "لیلا” کے طور پر کی۔”

واقعہ یہ ہے کہ خدا کو وہی لوگ غیر سنجیدہ سمجھتے ہیں جو خود غیر سنجیدہ ہوتے ہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کھیل بنانا ہماری شان کے خلاف ہے لیکن بالفرض ہمیں کھیل بنانا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے اس کا سامان کر لیتے۔ اس کے لیے اس عظیم الشان کائنات کو وجود میں لانے اور انسان جیسی با شعور اور مکلف مخلوق پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کارخانہ کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مقصد اور اس کی ایک غایت ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ دنیا تماش گاہ ہے اور ہم تماش بین بلکہ ہم نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے اور انسان کا ہم امتحان لے رہے ہیں اس لئے یہ دنیا حق و باطل کی رزم گاہ بن گئی ہے گو نتائج کا ظہور آخرت میں ہو گا جہاں حق ہی حق ہو گا اور باطل بالکل نابود ہو چکا ہو گا تاہم اس دنیا میں بھی ہم حق کے ذریعہ باطل پر ضرب کاری لگانے کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ انسانی تاریخ میں بار بار ایسا ہوا ہے کہ جب باطل نے سر اٹھایا تو ہم نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اس کی سر کوبی کی۔ حق غالب ہو کر رہا اور باطل کو نابود ہو جانا پڑا۔ اس پیغمبر کے ذریعہ بھی حق کو باطل پر غالب آنا ہے اور یہ قرآن تو اللہ کی وہ حجت ہے جس کے سامنے باطل ہرگز ٹک نہیں سکتا۔ اس کے بعد وہی لوگ اس دنیا کو تماش گاہ قرار دے سکتے ہیں جنہوں نے حقیقت کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے تم اپنی ہی تباہی کا سامان کر رہے ہو۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ سب کا مالک ہے سب اس کے مملوک اور غلام۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مقرب فرشتے ہیں۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح انسان سانس لینے سے نہیں تھکتا اسی طرح فرشتے تسبیح کرنے سے نہیں تھکتے۔ وہ ہمیشہ اللہ کی حمد و ثنا کرنے میں زمزمہ سنج رہتے ہیں۔

ان آیات میں ملاء  اعلیٰ کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دربار کس شان کا ہو گا۔ اس سے اللہ کی عظمت کا صحیح تصور بھی قائم ہو جاتا ہے اور تسبیح و عبادت سے گہرا لگاؤ بھی۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین سمجھتے ہیں کہ جو آسمان کا خدا ہے وہ زمین کا تنہا خدا نہیں ہے بلکہ بہت سے چھوٹے چھوٹے خدا ( دیوتا) ہیں جو زمین کا سارا نظام سنبھالے ہوئے ہیں اور وہی ہیں جو انسان کو نفع اور نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اسی کی تردید میں ان سیہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا تمہارے نزدیک زمین کے خدا اور ہیں ؟ اور کیا یہ خدا تم کو مرنے کے بعد زمین سے دوبارہ کھڑا کر دینے والے ہیں کہ تم ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے اس کے بدلہ میں وہ تم کو انعام سے نوازیں گے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور تم خود یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ یہ ہمیں مرنے کے بعد اٹھا کھڑا کر دینے والے ہیں تو پھر ان کو پوجنے کا فائدہ؟ مر کر اگر دوبارہ تم کو اٹھنا ہی نہیں ہے تو تمہارے یہ خدا آخر تمہارے کب کام آنے والے ہیں۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر زمین و آسمان میں متعدد خدا ہوتے تو کائنات کا یہ نظام چل نہیں سکتا تھا۔ ہر خدا اپنے اختیارات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا۔ اس صورت میں وہ نظم باقی نہیں رہ سکتا تھا جو اس کائنات میں قائم ہے اور نہ اس کے مختلف اجزاء ایک دوسرے سے موافقت پیدا کر سکتے تھے اور نہ کسی منصوبہ اور ا سکیم کے ساتھ اس کائنات میں کوئی کام انجام پاتا۔ مثال کے طور پر بارش کے لیے زمین سمندر سورج اور ہوائیں سب کی موافقت ضروری ہے ورنہ انسان کو زمین کے گوشہ میں پانی پہنچانے کی یہ ا سکیم رو ہ عمل نہیں آ سکتی۔ اگر یہ چیزیں الگ الگ خداؤں کے تصرف میں ہوتیں تو بارش کا یہ انتظام کس طرح ممکن تھا؟

یہ توحید کی زبردست دلیل ہے اس سے شرک اور الحاد دونوں کی تردید ہوتی ہے۔ اگر یہ کائنات بے خدا ہوتی تو یہ کارخانہ اس باقاعدگی کے ساتھ کس طرح چل سکتا تھا؟

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ مختار کل اور مقتدر اعلیٰ ہے اس لیے اس کے کسی کے آگے جوابدہ ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کے فیصلوں اور اس کے کاموں پر اعتراض کرے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ سب اللہ کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اس لیے ہر ہر شخص اس کے حضور جوابدہ ہے جو شخص اپنے کو اس کے حضور جوابدہ نہیں سمجھتا ہو اپنا مقام غلط تجویز کرتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کے معبود ہونے کا ثبوت ربانی تعلیم میں موجود نہیں ہے آج میرے ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے) ساتھیوں کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ سراسر توحید ہی کی تعلیم ہے اور جو تعلیم اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیروؤں کو دی گئی تھی وہ بھی توحید ہی کی تعلیم تھی۔

واضح رہے کہ مشرکوں کی مختلف مذہبی کتابوں میں متعدد خداؤں اور دیوتاؤں کا جو تصور ملتا ہے تو یہ اس بات کی ہرگز دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا فرمان ہے یا کسی رسول کی تعلیم ہے کیونکہ یہ کتابیں اللہ کی نازل کردہ نہیں ہیں بلکہ اہل مذاہب کی مرتب کردہ ہیں۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا مختلف مذاہب میں توحید کے خلاف جو تعلیم بھی پائی جاتی ہے وہ کسی بھی نبی کی تعلیم نہیں ہے ایسی تعلیم اگر کسی نبی کی طرف منسوب کی گئی ہے تو وہ غلط ہے اور اس نبی پر بہتان ہے۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے تھے یہ اس کی تردید ہے فرمایا فرشتے اللہ کی اولاد نہیں بلکہ اس کے معزز بندے ہیں۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کی یہ مجال نہیں کہ اللہ کے آگے بات کرنے میں سبقت کریں مگر تم اس خام خیالی میں مبتلا ہو کہ وہ اللہ کے لاڈلے ہیں جو چاہیں اس سے منوائیں۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتے ان ہی کے حق میں شفاعت کریں گے جن کے حق میں شفاعت کرنا اللہ تعالیٰ منظور فرمائے ، مقصود مشرکین کے اس خیال کی تردید کرنا ہے کہ اگر قیامت برپا ہو ہی گئی تو فرشتے جن کی ہم پرستش کرتے رہے ہیں اللہ کے حضور ہماری شفاعت کر کے ہمیں عذاب سے بچا لیں گے۔

شفاعت کی مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورہ بقرہ نوٹ ۴۱۲  اور سورہ مریم نوٹ ۱۱۱۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرشتے اللہ کی نا فرمانی نہیں کرتے اس کے باوجود اس کی خشیت سے وہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ انسان کے شایان شان بھی یہی ہے کہ وہ یہ ملکوتی صفت اپنے اندر پیدا کرے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کو تم نے خدا بنا دیا ہے ورنہ وہ خدائی کے مدعی نہیں ہیں۔ وہ تو اللہ کی بندگی میں سرگرم رہتے ہیں لیکن بالفرض ان میں سے کوئی خدائی کا دعویٰ کرے تو اس کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا کہ اس جرم کی سزا یہی ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کائنات کی ابتدائی حالت کو بیان کر کے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ کائنات کے بارے میں یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ اس کو جس شکل میں ہم دیکھتے ہیں اسی طرح وہ ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔ اس کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ انجام بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات ایک خالق کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہے اور اس کا آغاز یوں ہوا کہ اس نے پہلے ایک مادہ ( دخان) تخلیق کیا ( سورۂ فصلت آیت ۱۱) جو ایک تودے (Mass) کی شکل میں تھا۔ پھر اس مادہ سے زمین اور آسمان ( تمام اجرام فلکی) بنائے۔ گویا زمین و آسمان آغاز میں ملے ہوئے تھے۔ بعد میں الگ الگ ہو گئے۔

جو شخص بھی غور و فکر کرے گا اس پر قرآن کے اس بیان کی صحت واضح ہو گئی کیونکہ اگر کائنات کا مادہ ایک نہ ہوتا تو اس کے مختلف اجزاء کے اندر ہم آہنگی نہیں پائی جا سکتی تھی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتا ہے اور زمین اس کی تپش اور روشنی قبول کر لیتی ہے اور اب تو انسان نے چاند پر پہنچ کر دیکھ لیا کہ وہاں کی زمین بھی ہماری زمین ہی کی طرح مٹی اور پتھر سے بنی ہوئی ہے۔ اور جب حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ایک صناع کی کاریگری ہے تو پھر اس کے تقاضوں سے منہ موڑنا کیا معنی؟

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پانی اصل حیات ہے زندگی جس چیز کو بھی ملی ہے پانی ہی کے ذریعہ ملی ہے اور اس کا وجود پانی ہی کی بدولت قائم ہے عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ پانی کے ایک قطرہ میں جرثومہ حیات موجود ہوتا ہے اور اسی سے انسان اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے۔ حیاتیات (Biology) کی رو سے بھی ایک مائی خلیہ پروٹو پلازم (Proto Plasm) مادۂ حیات ہے جو ہر جاندار مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ کیا زندگی کی یہ حقیقت ایک خدا کی خلاقیت اور اس کی عظیم قدرت کا پتہ نہیں دیتی؟

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان حقیقتوں پر اگر انسان غور کرے تو اس میں ایمان و یقین کی کیفیت پیدا ہو مگر لوگ اس پہلو سے غور کرتے ہی نہیں۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نحل نوٹ ۲۶  میں گزر چکی۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔  پہاڑوں میں درے بنائے۔ یہ قدرتی راستے ہیں جن کے ذریعہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں جانا انسان کے لیے ممکن ہوا۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راہ پانے سے مراد وہ راہ بھی ہے جس پر چل کر انسان اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے اور وہ راہ بھی جس پر چل کر وہ اللہ کو پا لیتا ہے۔ قرآن انسان کے ذہن کو ظاہر سے باطن کی طرف اور مجاز سے حقیقت کی طرف موڑتا ہے یہ اس کی نہایت لطیف اور موثر رہنمائی ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان کے محفوظ چھت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اس خوبی کے ساتھ بنایا گیا ہے کہ اس میں کہیں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ سالہا سال گزرنے کے باوجود وہ اپنی اصل حالت پر قائم ہے اس میں بوسیدہ ہونے کے آثار کبھی پیدا نہیں ہوئے کہ زمین والوں کے لیے اس کے گر جانے کا خطرہ لاحق ہو۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ دور کے ماہرین فلکیات (Astronomers) نے کائناتی شعاعوں (Cosmic) تک کا پتہ چلایا ہے مگر ان کو کائنات کے خالق کا پتہ نہ چل سکا!یہ اس لیے کہ ان کو خدا کی تلاش نہیں ہے۔ در حقیقت خدا کو وہی لوگ پاتے ہیں جن کو اس کی تلاش ہوتی ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ فَلَک استعمال ہوا ہے جس کے معنی عربی میں مدار کے ہیں۔ لسان العرب میں ہے۔ الفلک: مدارالنجوم” فلک یعنی ستاروں کا مدار” ( لسان العرب ج ۱۰ ص ۴۷۸) آسمان کے معنی میں یہ لفظ نہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اور نہ قدیم عربی میں یہ اس معنی کے لیے معروف تھا۔ بعد میں علم ہیئت کی اصطلاح کے طور پر یہ لفظ آسمان کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے پھر آیت میں یہ لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے اپنے اپنے مدار کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے اور یَسْبَحونَ (تیرتے ہیں) جمع کا صیغہ ہے جو عربی میں دو سے زائد چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس لیے اس لفظ کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ سورج اور چاند ہی نہیں بلکہ تمام اجرام سماوی اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔ اجرام سماوی کو جب آدمی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو وہ فضائے بسیط میں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں اس لیے قرآن نے صورتِ واقعہ کو عام فہم انداز میں بیان کر دیا اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سورج چاند ستارے سب حرکت میں ہیں اور وہ اپنا سفر اپنے اپنے دائرہ میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مقررہ دائرہ سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ اس باقاعدگی کے ساتھ ان کا یہ عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمام اجرام فلکی کی باگ ڈور ایک قادر مطلق اور اعلیٰ اقتدار رکھنے والی ہستی کے ہاتھ میں ہے۔

جہاں تک علم ہیئت کا تعلق ہے چاند اور سیاروں کی اپنے اپنے مدار پر گردش ایک معلوم حقیقت ہے۔ رہی سورج اور ستاروں کی گردش تو ان کی محوری گردش سے تو اسے انکار نہیں ہے البتہ ان کی مداری گردش (Orbital Rotation) کے بارے میں موجودہ سائنس ابھی قیاس سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے اس لیے قرآن کی بیان کردہ حقیقتوں کو موجودہ سائنس کے محدود دائرہ میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۸ ) ۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ دنیا میں ہمیشگی کی زندگی کسی کو بھی نہیں بخشی گئی یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس سے عوام کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ حضرت خضر کو دنیا میں دائمی زندگی عطا ہوئی ہے نیز شیعوں کے اس عقیدے کی بھی تردید ہوتی ہے جو وہ اپنے بارہویں امام کے غائب ہو جانے اور ان کے زندہ رہنے کے بارے میں رکھتے ہیں۔

رہا عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ تو وہ دنیا میں دائمی زندگی نہیں گزار رہے ہیں بلکہ آسمان پر اٹھا لئے گئے ہیں اور قربِ قیامت میں جب ان کا نزول ہو گا تو ان کی بھی طبعی موت واقع ہو گی۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مخالفین چاہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہو جائے تاکہ اس کشمکش سے انہیں نجات مل جائے جو آپ کے اور ان کے درمیان برپا ہو گئی تھی۔ فرمایا اگر پیغمبر کا انتقال ہو جاتا ہے تو یہ کہاں باقی رہنے والے ہیں۔ ایک نہ ایک دن ان کو بھی مرنا ہے اس لیے مرنے کے بعد جس چیز سے سابقہ پیش آنے والا ہے اس کی فکر انہیں ہونی چاہیے اس سے بے پرواہ ہو کر پیغمبر کی موت کے انتظار میں رہنا کسی دانشمندی کا کام نہیں ہو سکتا۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۲۱۵  میں گزر چکی۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا کی زندگی ایک امتحانی زندگی ہے اس لیے موت ہر شخص کے لیے مقدر ہے اسی طرح کسی کا خوش حال یا بدحال ہونا آزمائش ہی کے پہلو سے ہے اور ایک نبی کو بھی بشر ہونے کی حیثیت سے ان حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا کی طرف پلٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اسی نے تم کو دنیا میں بھیجا ہے اور اسی کی طرف تمہیں واپس جانا ہے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے جو آیت میں بیان ہوئی ہے اس کے بر خلاف مشرکین ہند کا مشرکانہ فلسفہ یہ ہے کہ انسان کی روح اس کے مرنے کے بعد خدا میں ضم ہو جاتی ہے۔ فتعالیٰ اللہ عما یُشرِکون۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں ذکر کا لفظ دو الگ معنی میں استعمال ہوا ہے جسے علم بلاغت کی اصطلاح میں تجنیس لفظی کہتے ہیں۔ "کیا یہی وہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا ذکر کرتا ہے۔” کا مطلب خداؤں کا برائی کے ساتھ ذکر کرنا ہے اور "ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمن کے ذکر سے منکر ہیں۔” کا مطلب یہ ہے کہ وہ رحمن کا ذکر اچھائی کے ساتھ کرنا پسند نہیں کرتے۔

یہ مشرکین کی نا معقولیت پر تعریض ( طنز) ہے کہ وہ اپنے من گھڑت خداؤں کو اتنا محبوب رکھتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے خواہ وہ کتنی ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو لیکن خدائے رحمن سے جس کی ان پر بے انتہا مہربانیاں ہیں ایسے متنفر ہیں کہ اس کے فضل و کمال کا ذکر ان کے لیے نا پسندیدہ بن گیا ہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلد بازی انسان کی جبلت میں رکھ دی گئی ہے تاکہ اس میں جوش عمل پیدا ہو اور وہ خیر کی طرف تیزی سے بڑھے مگر انسان اس داعیہ (Motive) کا غلط استعمال کر کے شر کی طرف دوڑتا ہے۔ انسان کے غلط فیصلے اور اس کی غیر سنجیدہ باتیں اس کی جلد بازی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں جب کہ انسان چاہے تو اس داعیہ کو قابو میں رکھ سکتا ہے اور اس کا صحیح استعمال کر سکتا ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد عذاب کی نشانیاں ہیں قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی چنانچہ کفار کے لیے عذاب کی نشانیوں کا ظہور ان جنگوں میں ہوا جو انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف لڑیں۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب کی جلدی نہ کرو۔

معلوم ہوا کہ جلد بازی اگر انسان کی جبلت میں داخل ہے مگر اس کے ساتھ اسے یہ صلاحیت بھی بخشی گئی ہے کہ وہ اس پر کنٹرول کرے اور شر کے لیے جلدی نہ مچائے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا وعدہ ہے۔

کافروں کا یہ سوال کہ قیامت کا وعدہ کب پورا ہو گا ان کی جلد بازی کی دوسری مثال ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس وقت تو یہ کافر قیامت کے لیے جلدی مچا رہے ہیں لیکن جب وہ آئے گی تو ان کافروں کو عذاب کی لپیٹ میں لے لیگی۔ اس وقت انہیں توبہ کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کا کوئی موقع نہ مل سکے گا۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عذاب کی وعید سنانے پر وہ رسول کا مذاق اڑاتے تھے مگر بالآخر ان پر عذاب مسلط ہو کر رہا۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دن ہو یا رات انسان کی زندگی ہر آن خطرات اور آفات سے گھری رہتی ہے اور وہ خدائے رحمن ہی ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر وہ تمہاری حفاظت کرنے کے بجائے تمہیں گرفت میں لینا چاہے تو کون ہے جو تم پر مہربان ہو گا اور اس کے مقابلہ میں تمہاری حفاظت کرے گا؟

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں خدا کی مہربانیوں کا کوئی احساس نہیں اور وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اس کے فضل و رحمت کا ذکر ہو۔

شرک انسان کو اپنے رب حقیقی کے بارے میں کس قدر غیر حقیقت پسند بنا دیتا ہے !

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر خدا کا عذاب آ گیا تو کیا ان کے یہ معبود ان کو بچا سکیں گے ؟ وہ بچا کیا سکیں گے جب کہ وہ خود اپنے کو بچانے پر قادر نہیں ہیں اور نہ خدا کی تائید ان کو حاصل ہے۔ یہاں اشارہ مشرکین کے ان معبودوں کی طرف ہے جن کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ وہ آفتوں سے انہیں بچا سکتے ہیں۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریش خوشحال بھی تھے اور ان کو سرداری کا اہم مقام بھی حاصل تھا۔ یہ سب کچھ انہیں اللہ ہی کے فضل سے حاصل ہوا تھا لیکن چونکہ ایک زمانہ سے وہ خوشحال اور با اقتدار چلے آ رہے تھے اس لیے وہ خدا سے بے پرواہ ہو گئے تھے۔ مال اور اقتدار کا نشہ انسان کو خدا سے غافل کر دیتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مکہ کے اطراف و جوانب میں اسلام کے اثرات بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اس کے غلبہ کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔

آیت کا اشارہ خاص طور سے مدینہ کی طرف ہے جہاں کے لوگ اسلام قبول کرتے جا رہے تھے۔ گویا مشرکین مکہ کے لیے زمین روز بروز تنگ ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ اس سورہ کے نزول کے چند سال بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینہ میں اقتدار حاصل ہوا اور یہ اقتدار فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ گویا فتح مکہ اس آیت کی ٹھیک ٹھیک تعبیر تھی۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ پیغمبر اور وحی کی آواز کو ہی لوگ سنتے ہیں جو اپنے کان کھلے رکھتے ہیں۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب تو وہ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اگر عذاب کا ایک حصہ ہی انہیں چھولے گا تو وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے اور اپنے خطا کار ہونے کا اعتراف کریں گے۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ قارعہ نوٹ ۶۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن جب کہ انسانوں کا اجتماع ایک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح ہو گا تو فرداً فرداً ہر ایک کا حساب لینا اللہ کے لیے کچھ مشکل نہ ہو گا اور اس کا حساب بالکل صحیح (Perfect) ہو گا۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں سے چند جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا بار بار ذکر ہوا ہے تاکہ ان کی تعلیم اور ان کی سیرت کے مختلف پہلو نمایاں ہوں۔ انبیائی تاریخ کے سنہرے اوراق ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں اور پڑھنے والے اس سے بصیرت حاصل کریں ، منکرین کے شبہات دور ہوں اور وہ یہ محسوس کریں کہ انبیاء علیہم السلام کا وجود ایک تاریخی حقیقت ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ مختلف زمانوں اور ملکوں میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجتا رہا ہے اور خاص بات یہ کہ اہل ایمان ان کا ذکر قرآن میں پڑھ کر ان کی صحبت کا فیض حاصل کریں۔ گویا قرآن جہاں کہیں کسی بنی کا ذکر کرتا ہے قاری کو تھوڑی دیر کے لیے ان مثالی شخصیتوں کی مجلس میں لے جاتا ہے تاکہ ان کی صحبت ان کے لیے روح پرور ثابت ہو۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "فرقان” سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو حق کو باطل سے ممتاز کر کے ان کا فرق نمایاں کرتی تھیں چنانچہ سورۂ مومنون میں ارشاد ہوا ہے : ثُمَّ اَرْسَلْنَا مُوْسیٰ وَاَخَاہُ ہٰرُوْنَ بایَاتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُبِیْنٍ۔ (المؤمنین۔ ۴۵) "پھر ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ بھیجا”

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "ضیاء” ( روشنی) سے مراد ہدایت کی روشنی ہے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "ذکر” ( یاد دہانی) سے مراد تورات ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی تھی اور حضرت ہارون چونکہ حضرت موسیٰ کی درخواست پر نبی اور ان کے وزیر بنائے گئے تھے اس لیے اس عنایت میں ان کو بھی شریک کر لیا گیا۔

یہ یاد دہانی عملاً متقیوں ( خدا سے ڈرنے والوں) ہی کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ جو لوگ خدا سے ڈرنا نہیں چاہتے تھے وہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا سے بے دیکھے ڈرنا متقیوں کا بہت بڑا وصف ہے جو لوگ خدا سے ڈرنے کے لتے یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ پہلے دکھائی دے انہوں نے نہ خدا کی شان کو سمجھا ہے اور نہ اپنی اس حیثیت کو کہ وہ امتحان گاہ میں کھڑے کر دئیے گئے ہیں اور آزمائش اس بات کی ہے کہ وہ عقل و شعور سے کام لیکر اور داخلی اور خارجی ( انفس و آفاق کی) نشانیوں کی مدد سے نیز وحی الٰہی کی رہنمائی اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے رب کو پہچانتے ہیں یا نہیں ؟

اس سیہ بات بھی واضح ہوئی کہ خدا کو ریاضتوں کے ذریعہ دیکھنے کی کوشش بالکل بے سود ہے اور اس طریقہ سے انحراف ہے جو اس آزمائشی زندگی میں انسان کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "رُشدَہ” ( اس کا رشد) استعمال ہوا ہے رشد کے معنی سمجھ بوجھ کے بھی ہیں اور دینی ہدایات کے بھی۔ حضرت ابراہیم کو ایک عظیم شخصیت کی حیثیت سے اٹھانا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے مقام کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی سنجیدگی، ہوش مندی اور فہم و فراست عطا ء کی تھی اور ان صلاحیتوں کی بنا پر انہوں نے نبوت سے بہت پہلے توحید کی راہ کو پا لیا تھا اور وہ ایک راست رو انسان تھے۔ پھر جب انہیں نبوت سے سرفراز کیا گیا تو وہ توحید کے علم بردار اور ہدایت کے مینار بن گئے۔

اللہ تعالیٰ کا ابراہیم پر جو فضل و کرم ہوا وہ علم کی بنیاد پر ہوا اس کی نگاہِ انتخاب بالکل صحیح تھی اور ابراہیم ان عنایتوں کے پوری طرح اہل قرار پائے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبوت سے سرفراز ہو جانے کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو بت پرستی کی گمراہی سے نکالنا چاہا اس سے پیش نظر انہوں نے بت پرستی کی کھلی مذمت کی۔

موجودہ دور کا سیکولر ذہن تو بت پرستی کے معاملہ میں بھی رواداری کا قائل ہے اور کسی تنقید کو پسند نہیں کرتا مگر انبیاء علیہم السلام کا مقصدِ بعثت ہی لوگوں کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا اور انہیں عذاب جہنم سے بچانا ہوتا ہے اس لیے وہ شرک پر جو ناقابل معافی گناہ ہے ضرب کاری لگاتے ہیں۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بھی ایک دو ٹوک بات تھی جو ابراہیم علیہ السلام نے سنائی۔ مورتی پوجا اگر باپ دادا کرتے رہے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان کا طرز عمل صحیح تھا۔ اگر باپ دادا نے جہالت برتی ہو تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اولاد بھی جہالت برتے۔

مگر آج کے سائنسی دور میں بھی کتنی ہی قومیں اسی جہالت میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنے مشرکانہ کلچر سے اس لیے وابستہ ہیں کہ یہ ان کو قومی ورثہ میں ملا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بت خدا نہیں ہیں بلکہ خدا وہ ہے جو کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اس میں یہ دلیل مضمر ہے کہ یہ بت اور یہ دیوی دیوتا جب کائنات کے نہ خالق ہیں اور نہ مالک تو وہ خدا کس طرح ہوئے ؟

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں گواہی اعلان کے معنی میں ہے۔ یعنی میں اپنے اس عقیدۂ توحید کا تمہارے سامنے اظہار و اعلان کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے اس کی شہادت دینے پر مامور ہوں۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابراہیم علیہ السلام بتوں کے خلاف جو اقدام کرنا چاہتے تھے اس کی طرف انہوں نے پیشگی اشارہ کر دیا تھا کہ لوگ آگاہ رہیں اور یہ ان کی کمالِ جرأت تھی۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ابراہیم نے ایک دن موقع پا کر جب کہ لوگ کسی تہوار کے سلسلہ میں باہر گئے ہوئے تھے مندر میں داخل ہو کر تمام بتوں کو توڑ دیا۔ صرف بڑے بت کو رہنے دیا۔ تاکہ لوگ اس "لال بجھکڑ” سے پوچھیں کہ یہ کاروائی کس نے کی ہے ؟ اور جب یہ کوئی جواب نہ دے سکے تو لوگوں پر ظاہر ہو جائے کہ یہ بت بے جان پتھر ہیں جو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۔

یہ ایک عظیم دعوتی مصلحت تھی جس کے لیے انہوں نے بت شکنی کی یہ کارروائی کی تھی۔ اور یہ کارروائی بھی انہوں نے اس وقت کی جب کہ وہ توحید کی دعوت کو بدلائل پیش کر چکے تھے جس کی تفصیل سورۂ انعام آیت ۷۴  تا ۸۱  میں گزر چکی۔ اگر ان کے پیش نظر محض توڑ پھوڑ ہوتی تو وہ کسی بت کو باقی نہ رکھتے بلکہ بڑے بت کو سب سے پہلے ختم کر دیتے۔

ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ دوسروں کے بتوں کو توڑنے کا ان کو کیا حق تھا؟ تو یہ سوال ایک نبی کی حیثیت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ ہی میں پیدا ہو سکتا ہے۔ نبی اللہ کا بھیجا ہوا ہوتا ہے۔ اور اس کو وحی کے ذریعہ براہ راست احکام ملتے ہیں اور اس کی براہِ راست رہنمائی کی جاتی ہے اس لیے اس کو خدا کے حکم کی تعمیل کرنا ہوتی ہے خواہ وہ کسی قوم یا سماج کے مروجہ طور طریقہ یا قانون کے خلاف ہی کیوں نہ ہو وہ انسانی حقوق پر خدا کے حق کو مقدم سمجھتا ہے اور ہر ایک منکر کو مٹانے کے لیے اگر رواجی قانون کو توڑنا پڑتا ہے تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کیا وہ تو شرک جیسے عظیم منکر کو مٹانے کے لیے کیا تھا اس لیے ان کا یہ کام قابل تعریف ہے نہ کہ قابل اعتراض چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اقدام کو رشد و ہدایت کا نتیجہ قرار دیا۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب لوگ میلے سے لوٹے تو مندر میں اپنے بتوں کی بری گت دیکھ کر ان کو تعجب ہوا اور سخت غصہ کا اظہار کرنے لگے۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ حضرت ابراہیم جوان تھے اور جوانی ہی میں ان کو نبوت عطا ہوئی تھی۔

حضرت ابراہیم بت پرستی کے خلاف کہتے تھے اس لیے بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھ کر لوگ سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو یہ ابراہیم ہی کا کام ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ابراہیم کو عوام و خواص کے سامنے آنے اور اپنی دعوت کو پیش کرنے کا موقع ملا۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان بتوں میں جو سب سے بڑا ہے اس نے یہ حرکت کی ہے۔ اگر بت بولتے ہیں تو ان ہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟

یہ بتوں کی بے بسی پر بھر پور طنز تھا۔ جب وہ خود اپنا بچاؤ نہیں کر سکے تو اپنے پرستاروں کا کیا بچاؤ کر سکتے ہیں ؟ اگر ان میں گویائی کی قوت ہے تو ان سے پوچھ لو کہ یہ حرکت کس نے کی ہے اور اگر وہ قوت گویائی نہیں رکھتے تو ثابت ہوا کہ وہ بے جان پتھر ہیں پھر وہ خدا کیسے ہوئے ؟

بتوں کے بے حقیقت ہونے ہی کو محسوس کرانے کی غرض سے ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑنے کا اقدام کیا تھا اور اسی مقصد کے پیش نظر انہوں نے اس کاروائی کی نسبت بڑے بت کی طرف کر دی تھی۔ یہ طرز کلام علمِ معانی کی اصطلاح میں تعریض یعنی طنز کہلاتا ہے جو کسی گمراہی پر ضرب لگانے اور غافل انسان کو چونکا دینے کا نہایت موثر ذریعہ ہے۔ مگر جن لوگوں میں سخن فہمی نہیں ہوتی وہ الفاظ کو پکڑ لیتے ہیں اور اعتراض کرنے لگتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے اس لا جواب کر دینے والے جواب کو بھی جھوٹ پر محمول کیا گیا۔ گویا حضرت ابراہیم نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ انہوں نے بتوں کو توڑا ہے۔ اگر ان کا منشاء انکار کرنا ہی ہوتا تو وہ صاف صاف کہہ دیتے کہ میں نے بتوں کو نہیں توڑا ہے اور مجھ پر یہ الزام غلط ہے مگر انہوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کہی اور جو کچھ کہا اس کو بھی مخالفین نے جھوٹ پر محمول نہیں کیا بلکہ وہ سمجھ گئے کہ حضرت ابراہیم منطقی بات کر رہے ہیں اس لیے انہوں نے جواب میں اس بات کا اعتراف کیا کہ بت بولتے نہیں اور جب انہوں نے یہ اعتراف کیا تو حضرت ابراہیم کو بتوں کی بے بسی واضح کرنے اور بت پرستی کے خلاف حجت قائم کرنے کا موقع مل گیا۔

رہی وہ حدیث جس میں ابراہیم کی طرف تین جھوٹ منسوب کئے گئے ہیں جن میں سے ایک جھوٹ ان کے اس بیان کو قرار دیا گیا ہے بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُہُمْ ہٰذاً بلکہ ان کے اس بڑے بت نے ان کو توڑا ہے” تو یہ حدیث بخاری مسلم اور ترمذی وغیرہ میں بیان ہوئی ہے اور علماء نے اس کی مختلف تاویلیں کی ہیں مگر امام رازی نے بڑے پتے کی بات کہی ہے : "رہی پہلی روایت کردہ حدیث تو جھوٹ کو اس کے راویوں کی طرف منسوب کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ اُسے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کیا جائے۔”اور مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی بالکل صحیح لکھا ہے۔

"عام طور پر مفسروں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین موقعوں پر ایسی بات کہی جس پر بظاہر جھوٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس میں سے ایک موقع یہ ہے جب ان سے پوچھا گیا وَأ اَنْتَ فَعَلتَ ہذا کیا تو نے بتوں کو توڑا ہے ؟ تو انہوں نے کہا بَلْ فَعَلَہٗ کبیر ہم ہٰذا بلکہ اس بڑے بت نے ایسا کیا ہے حالانکہ فی الحقیقت فعل خود انہی کا تھا۔

اس بارے میں استدلال صحاح کی ایک روایت سے کیا جاتا ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں اس مقام پر تدبر کرنا چاہیے کہ کیا فی الحقیقت یہاں کوئی ایسا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا ثابت ہوتا ہے ؟ خواہ وہ جھوٹ کسی درجہ اور کسی نوعیت کا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کی تاریخ کی بوالعجبیوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ناقابل توجہ بوالعجبی نہیں قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے اصدق الصادقین کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو۔ لیکن بہ تکلف ایک آیت کو توڑ مروڑ کر ایسا بنایا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ بولنے کی بات بن جائے اور اثبات کذب کی یہ نا مبارک کوشش کیوں کی جا رہی ہے ؟ صرف اس لیے کہ ایک مزعومہ حدیث موجود ہے۔ پس کہیں یہ قیامت نہ ٹوٹ پڑے کہ اس کے غیر معصوم راویوں کی روایت کمزور مان لینی پڑے۔ گویا اصل اس باب میں غیر معصوم راویوں کا تحفظ ہے نہ کہ معصوم رسولوں کا اور اگر قرآن میں اور کسی روایت میں اختلاف واقع ہو جائے تو قرآن کو روایت کے مطابق بننا پڑے گا۔ راوی کی شہادت اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہل سکتی”(ترجمان القرآن ج ۲ ص ۴۹۵) روایت پرستی پر مولانا ابوالکلام آزاد کا یہ طنز بالکل بر محل ہے : آگے چل کر لکھتے ہیں :

"بلا شبہ روایت صحیحین کی ہے لیکن اس تیرہ سو برس کے اندر کسی مسلمان نے بھی راویان حدیث کی عصمت کا دعویٰ نہیں کیا ہے نہ امام بخاری و مسلم کو معصوم تسلیم کیا ہے۔ پس انبیاء کرام کی سچائی اور عصمت یقینیات دینیہ و تقلید میں سے ہے۔

روایات کی قسموں میں سے کتنی ہی بہتر قسم کی کوئی روایت ہو بہر حال ایک غیر معصوم روایت کی شہادت سے زیادہ نہیں اور غیر معصوم کی شہادت ایک لمحہ کے لیے بھی یقینیات دینییہ کے معاملہ میں تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں مان لینا پڑے گا کہ یہ اللہ کے رسول کا قول نہیں ہو سکتا۔ یقیناً یہاں راویوں سے غلطی ہوئی ہے۔” ( ایضاً ص ۴۹۹)

حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا جواب الزامی حجت کا تھا اس لیے اس پر جھوٹ کا اطلاق کسی طرح بھی صحیح نہیں اور جب حدیث خواہ وہ بخاری اور مسلم ہی کی کیوں نہ ہو قرآن کے بیان کے خلاف ہے اور اس سے ایک نبی کی عصمت پر حرف بھی آتا ہے تو وہ حدیث رسول ہو ہی نہیں سکتی اس لتے یہ روایت اپنے متن کے اعتبار سے قابل رد ہے۔ رہی اس کی اسناد تو اس میں بھی کلام کی گنجائش ہے امام بخاری نے اس حدیث کو موقوفاً اور مرفوعاً بیان کیا ہے۔ موقوفاً کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے اس کو ارشاد رسول کے طور پر پیش نہیں کیا اور مرفوعاً کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد بتلایا۔ (ملاحظہ ہو بخاری کتاب احادیث الانبیاء)

پھر جو روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے طور پر بیان ہوئی ہے اس کا ایک راوی جریر بن حازم ہے اور جریر بن حازم کے ثقہ ہونے کے بارے میں محدثین کے درمیان اختلاف ہے۔ علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں جو اسماء الرجال کی مشہور اور مستند کتاب ہے دونوں طرح کے اقوال نقل کئے ہیں۔ مثال کے طور پر ابن سعد کہتے ہیں کہ وہ ثقہ ہیں مگر آخری عمر میں انہیں دماغی عارضہ ہو گیا تھا۔ نسائی کہتے ہیں ان سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں امام احمد کہتے ہیں جریر بہت غلطیاں کر جاتے ہیں۔ مصر میں تو ان کا حافظہ ٹھیک نہیں رہا تھا اور وہم کی بنا پر بیان کرنے لگے تھے۔ (ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب ج ۲ ص ۶۹ تا۷۲) اور امام ذہبی نے امام بخاری کا اپنا یہ قول نقل کیا ہے کہ جریر بن حازم کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں (ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ج ۱ص۳۹۳)

واضح ہوا کہ اس حدیث کی اسناد میں علت ہے اور اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف صحیح نہیں۔ مگر جن لوگوں کو اس کی صحت پر اصرار ہے وہ اس کی تائید میں بخاری ہی کی شفاعت والی حدیث پیش کرتے ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ پریشان ہو کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے شفاعت کے درخواست کریں گے تو وہ اپنا یہ عذر پیش کریں گے کہ مجھ سے تین جھوٹ صادر ہو گئے تھے۔ بخاری کتاب التوحید) اور جھوٹ کی توجیہ یہ حضرات اس طرح کرتے ہیں کہ یہ تعریض ( طنز) تھی۔ مگر یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر یہ تعریض تھی تو حضرت ابراہیم نے ایک خوبی کی بات کی تھی اس میں ان کا قصور کیا تھا جس کا حوالہ دیکر وہ قیامت کے دن شفاعت سے معذرت کریں گے ؟ایک طرف حضرت ابراہیم کے قول کو بلاغت و معانی پر محمول کرنا اور دوسری طرف ان کو قصور وار قرار دینا بالکل متضاد باتیں ہیں اس لیے حضرت ابراہیم کی طرف جھوٹ کی نسبت کسی طرح صحیح نہیں۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تھوڑی دیر کے لیے ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ہم ہی غلطی پر ہیں۔ اور یہ بات وہ ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہنے لگے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر ان میں عصبیت لوٹ آئی اور ان کی عقل اوندھی ہو گئی۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی بت پرستی کے خلاف سب سے بڑی حجت جس کو پیش کرنے کا موقع ابراہیم علیہ السلام کو ملا۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی جب کہ لوگوں پر بت پرستی کے خلاف حجت قائم ہو گئی تھی اور یہ بات بھی ان کے مشاہدہ میں آ گئی تھی کہ بت نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں کیونکہ اگر ان میں نقصان پہنچانے کی کوئی قدرت ہوتی تو وہ حضرت ابراہیم کو بت شکنی پر نقصان پہنچاتے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ بت پرستی سراسر بے عقلی ہے۔ عقل سے کام لینے والا کبھی بت پرستی ہو ہی نہیں سکتا۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے والے مذہبی پیشوا اور مندر کے پروہت رہے ہوں گے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر بتوں کے ان پرستاروں نے ابراہیم کو آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے حق میں ٹھنڈی ہو جائے اور سلامتی کا باعث بن جائے۔ یہ ایک معجزہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے حق میں ظاہر فرمایا۔ اس میں کوئی بات خلاف عقل نہیں ہے۔ آگ میں جلانے کی خصوصیت اس کے خالق ہی کی پیدا کردہ ہے اگر وہ اس کی یہ خصوصیت سلب کرنا چاہے اور کوئی دوسری خصوصیت اس میں پیدا کرنا چاہے تو کیا ایسا کرنے پر وہ قادر نہیں ؟ اشیاء کے طبعی خواص ان کے ذاتی خواص نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیدا کردہ ہیں اور جب اس کے پیدا کردہ ہیں تو وہ جس چیز کی خاصیت جب چاہے تبدیل کر سکتا ہے تعجب ان لوگوں کو ہوتا ہے جو یا تو خدا کو مانتے نہیں ہیں یا مانتے ہیں تو اس کے قادر مطلق ہونے پر ان کو یقین نہیں ہوتا۔

ویسے موجودہ زمانہ میں تو آگ سے محفوظ رکھنے والی (Fire Proof) چیزیں بھی ایجاد ہو گئی ہیں۔ اب اگر انسان یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ خدا نے اپنے ایک خاص بندہ کے حق میں آگ کو بے اثر بنا دیا تھا؟ یہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی نصرت تھی جو حضرت ابراہیم کے حق میں ظاہر ہوئی جب کہ وہ توحید کے علمبردار بن کر کافروں کی سلگائی ہوئی آگ میں بے خطر کود پڑے تھے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ابراہیم کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ اس کے خلاف سازش کرنے والے ہی ناکام و نا مراد ہوئے۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے حضرت ابراہیم پر ان کی قوم میں سے ایمان لانے والے صرف حضرت لوط تھے اس لیے مذکورہ واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو ہجرت کا حکم دیا چنانچہ وہ ہجرت کر کے فلسطین پہنچے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد فلسطین کی سرزمین ہے جو دینی اور دنیوی دونوں برکتوں سے مالا مال ہے۔ دینی برکتوں سے اس طرح کہ حضرت ابراہیم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہ کثرت انبیاء علیہم السلام کا وہ مسکن قرار پائی اور دنیوی برکتوں سے اس طرح کہ یہ خطہ بڑا زر خیز اور شاداب ہے۔

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ صرف اسحاق جیسا بیٹا عطا کیا بلکہ یعقوب جیسا پوتا بھی۔ یہ خاندان ابراہیمی کے چشم و چراغ تھے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ شخصیتیں اپنے کردار کے لحاظ سے نہایت پاکیزہ تھیں۔ اس سے بائبل کی ان باتوں کی تردید ہوتی ہیں جو ان کے کردار کو داغدار بناتی ہیں۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ انسانوں کے سچے قائد تھے کیونکہ وہ ان کو خدا کی راہ دکھاتے اور اس کے حکم کے مطابق رہنمائی کر تے تھے۔ جن لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی راہ یاب ہو گئے۔

ان کی قیادت کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ وہ نہ خود لیڈر بنے تھے اور نہ انہیں لیڈری کا شوق تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قائد اور امام بنایا تھا اور ان کی زیر قیادت امتیں برپا ہوئیں۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر کے کامو ں کا جامع حکم دینے کے ساتھ اقامت الصلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا حکم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں خیر کے سر چشمے ہیں۔ ان کے اہتمام سے بھلائیاں پرورش پاتی ہیں۔

اس آیت سیہ بھی واضح ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ انبیاء علیہم السلام کی شریعت کے اہم ارکان رہے ہیں۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "حکم” ( حکمت) سے مراد دانش مندی ہے اور علم سے مراد وہ علم ہے جو وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ہم جنسی جیسے گھناؤنے کام ہیں قوم لوط کا قصہ سورہ اعراف (آیت ۸۰ تا ۸۴) سورۂ ہود آیت ( ۷۷ تا ۸۳) اور سورۂ حجر آیت ( ۶۱ تا۷۷) میں گزر چکا۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات ہے جو یہاں خاص طور سے واضح کرنا مقصود ہے یعنی اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے پیغمبروں کی مدد فرماتا رہا ہے۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انبیاء علیہم السلام کا اولین وصف ان کا صالح ہونا ہے مگر موجودہ تورات اور بائبل میں ناروا باتیں ان کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں جن سے ان کی سیرت داغ دار نظر آتی ہے۔ قرآن ان کی صالحیت کا اعلان کرتا ہے جس سے ان الزامات کی آپ سے آپ تردید ہوتی ہے۔

حضرت لو ط پر ایک بہت ہی شرمناک الزام بائبل کی کتاب پیدائش (۱۹:۳۲ تا ۳۸) میں لگایا گیا ہے اور یہ اتنا لغو ہے کہ اس کو نقل کرنا طبیعت پر سخت گراں ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی سرگزشت سورۂ اعراف ( آیت ۵۹ تا ۶۴) سورۂ یونس ( آیت ۷۱ تا ۷۳) سورۂ ہود ( آیت ۱۵ تا ۴۹) میں گزر چکی۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی دعا سورۂ قمر آیت ۱۰  اور سورۂ نوح آیت ۲۶  تا ۲۸  میں مذکور ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سخت تکلیف ( کرب عظیم) سے مراد کافرانہ اور مخالفانہ ماحول کی گھٹن بھی ہے اور وہ عذاب بھی جو اس قوم پر آیا۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہاں یہی واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نبیوں کی مدد کرتا رہا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد حضرت یعقوب کی نسل سے تھے ان کا زمانہ دسویں صدی قبل مسیح کا ہے وہ نبی بھی تھے اور خلیفہ بھی ان پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا نام زبور تھا۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت سلیمان حضرت داؤد کے فرزند تھے۔ نبوت کے ساتھ انہیں عظیم الشان اور بے نظیر حکومت عطا ہوئی تھی۔ دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۲۰

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مقدمہ کی کوئی تفصیل قرآن نے بیان نہیں کی بلکہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر دیا جو پیشِ نظر مقصد کے لیے کافی تھا۔

آیت سے جو بات مجملاً معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد اور ان کے فرزند حضرت سلیمان علم و حکمت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے ایک مرتبہ ان کی عدالت میں جس میں دونوں جج کی حیثیت سے موجود تھے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ رات کے وقت ایک فریق کی بکریوں نے دوسرے فریق کے کھیت میں گھس کر پیداوار کو نقصان پہنچایا تھا اس لیے اس نے پہلے فریق کے خلاف نقصان کی تلافی کا دعویٰ کیا حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے کمال درجہ کی فہم و فراست عطا کی تھی اس لیے انہوں نے بہترین فیصلہ سنایا۔ اس سلسلے میں قرآن نے نہ تو یہ وضاحت کی ہے کہ وہ فیصلہ کیا تھا اور نہ یہ کہا کہ داؤد کا فیصلہ غلط تھا اور نہ ہی کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں کچھ منقول ہے۔ پھر اٹل پچو باتیں ان نبیوں کی طرف کیوں منسوب کی جائیں۔

قرآن نے اس قضیہ کا جو حوالہ دیا تو اس سے مقصود دراصل یہ واضح کرنا ہے کہ ان نبیوں پر اللہ کا یہ فضل ہوا کہ اس نے انہیں اقتدار بخشا اور کرسیٔ عدالت پر بٹھا کر ان کے فصل مقدمات کی کاروائی کی نگرانی اللہ تعالیٰ فرماتا رہا یہاں تک کہ جب ایک مقدمہ میں داؤد کو اشکال پیش آیا تو سلیمان کو اس کی سمجھ عطا کی گئی۔ واضح ہوا کہ معاملہ فہمی اور اصابت رائے اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے۔

داؤد اور سلیمان دونوں باپ بیٹے تھے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور علم سے نوازا تھا لیکن بیٹا اللہ کی توفیق سے معاملہ فہمی میں ایک قدم آگے ہی تھا اور اپنے باپ کا معاون بن گیا تھا۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت داؤد کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ بخشا تھا کہ جب وہ تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ہم نوا بن جاتے اور عجیب سما بندھ جاتا۔

حضرت داؤد کو زبور کے ساتھ ایک خاص لحن بھی عطا ہوا تھا۔

پہاڑ جمادات میں سے ہیں اور ان کا تسبیح کرنا بظاہر عجیب سا معلوم ہوتا ہے مگر جو خدا عجائبات کا خالق ہے اس نے اگر پیغمبر کے ہاتھ سیہ معجزہ صادر کر دیا ہو کہ اس کی پاکی کی صدائیں پہاڑ بھی بلند کرنے لگیں اور اس کی حمد و ثنا کی گیت پرندے بھی گانے لگیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ یہ واقعہ تو معجزہ کی بناء پر محسوس شکل میں پیش آیا ورنہ قرآن تو بار بار یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا ذرہ ذرہ اس کی تسبیح و تحمید میں لگا ہوا ہے مگر انسان اس کو سمجھ نہیں پاتا۔ ( سورۂ بنی اسرائیل: ۴۴)

کسی نے خوب کہا ہے

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرہ کا دل چیریں

مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ذرے کا دل چیریں تو اس میں سے تسبیح ہی کی صدا بلند ہو گی۔ اس حقیقت کے پیش نظر پہاڑوں اور پرندوں کا تسبیح خداوندی میں حضرت داؤد کا ہمنوا بن جانا ایمان و یقین میں اضافہ کا موجب ہے۔ اس کی تاویل وہی لوگ کرتے ہیں جو ایک معجزہ کی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس معجزہ کا صدور تو حضرت داؤد کے ہاتھ سے ہوتا تھا لیکن در حقیقت اس کو وقوع میں لانے والا اللہ ہی تھا۔ اسی کے حکم سے پہاڑ اور پرند تسبیح پڑھنے لگ جاتے تھے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہنی لباس یعنی زرہ بنانے کا فن اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو سکھایا نیز ان کو یہ معجزہ بھی عطا کیا تھا کہ لوہا ان کے ہاتھ میں نرم ہو جاتا تھا (سورہ سبا آیت ۱۰ ) اس زمانہ میں زرہ کی بڑی جنگی اہمیت تھی۔ اور یہ چیز جہاد میں ان کے لیے بڑی کار آمد ثابت ہوئی گویا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے نصرت الٰہی تھی۔

بعد میں ذرہ کا یہ فن عام ہوا اور تحفظ کے لیے اسے جنگوں میں استعمال کیا جانے لگا۔ گویا حضرت داؤد کے واسطے سے انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے۔ اس لئے یہاں یہ سوال قائم کیا گیا ہے کہ کیا تم اس پر اللہ کے شکر گزار ہو۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برکتوں والی سرزمین سے مراد فلسطین اور شام کا علاقہ ہے۔ حضرت سلیمان پر اللہ کا ایک خاص فضل یہ ہوا کہ تیز ہوا ان کی خدمت میں لگا دی گئی تاکہ ان کا سفر بڑی سرعت کے ساتھ طے ہو۔ اس کی شکل کیا تھی ہمیں نہیں معلوم، ہو سکتا ہے وہ اپنی کرسی کے ساتھ ہوا میں اڑتے ہوں جیسا کہ مفسرین کا خیال ہے۔ بہر صورت یہ ایک غیر معمولی بات تھی اور اللہ کی طرف سے معجزہ تھا جو اس نے اپنے نبی کے لیے ظاہر فرمایا اس میں خلاف عقل کوئی بات نہیں تھی۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو راتوں رات مکہ سے بیت المقدس کا سفر کرایا گیا تو حضرت سلیمان کا ہوا کے دو ش پر سوار ہو کر اڑنا کیوں خلاف عقل قرار پائے ؟اور موجودہ زمانے کا انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے بل پر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ہزار ہا میل کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر سکتا ہے تو اللہ کا ایک نبی اس کے کرشمۂ قدرت سے فضائی سفر کیوں نہیں کر سکتا؟

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیاطین سے مراد سرکش جن ہیں اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی سرکش جنوں کو حضرت سلیمان کا تابع کر دیا تھا تاکہ وہ ان سے اپنے کام لیں جو محنت شاقہ کے بغیر انجام نہیں دیئے جا سکتے تھے مثلاً سمندروں سے جواہرات نکالنا، کرین کے بغیر بڑے بڑے پتھر منتقل کرنا اور شاندار عمارتیں تعمیر کرنا وغیرہ۔

واضح رہے کہ ان غیر معمولی وسائل کو حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر جنگی ضروریات کی تکمیل اور اسلامی ریاست کے استحکام کیلئے استعمال کیا تھا۔

یہ بھی واضح رہے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کا زمانہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا۔ حضرت داؤد کے زمانہ میں خوب فتوحات ہوئیں اور حضرت سلیمان کے زمانہ میں ایک وسیع اور شاندار اسلامی سلطنت قائم ہوئی جو اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے بالکل بے مثال تھی اس طرح یہ اس فضیلت کا اتمام تھا جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقوام عالم پر عطا کی تھی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو یہ شرف بخشا کہ اس کے ایک فرد کی حکومت جنوں پر بھی قائم ہوئی۔ اور اللہ کی حکمتوں اور مصلحتوں کو وہی بہتر جانتا ہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایوب علیہ السلام نبی تھے اور ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ ان کی طرف ایک صحیفہ بائبل میں منسوب ہے مگر اس میں اصلی واقعہ کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور ایسی باتیں حضرت ایوب کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو منصب نبوت کے شایان شان نہ ہونے کی بنا پر لائق اعتبار نہیں ہیں نیز اس میں بیان کا تضاد پایا جاتا ہے البتہ اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کا زمانہ حضرت موسیٰ سے پہلے رہا ہو گا وہ عوض کے رہنے والے تھے جو فلسطین کے مشرقی جانب ادوم (Edom) کے شمال مشرق میں واقع تھا۔ (ملاحظہ ہو ایوب ۱:۱ اور نوحہ۴:۲۱)

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ایوب سخت بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔ انہوں نے شدید تکلیف کے باوجود شکایت کا کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالا بلکہ پیکر صبر بن گئے اور اللہ سے رحم کی درخواست کی تو وہ بھی اس لطیف پیرایہ میں کہ تو ارحم الراحمن ہے جو سر تا سر حمد تھی۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مختلف آزمائشوں سے گزارا ہے کسی کو شان و شوکت عطا کر کے جیسا کہ حضرت سلیمان کے ساتھ معاملہ ہوا اور کسی سے وسائل چھین کر اور اسے بیماری میں مبتلا کر کے جیسا کہ حضرت ایوب کے ساتھ ہوا۔ تاکہ انبیاء کی مثال زندگی کے مختلف نمونے لوگوں کے سامنے رہیں اور وہ نرم و گرم ہر طرح کے حالات میں ان کے اسوہ کی پیروی کریں۔

اس سیہ بھی واضح ہوا کہ انبیاء علیہم السلام اگرچہ اللہ کے مقرب بندے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی تکلیف دور کرنے پر قادر نہیں ہوتے بلکہ اللہ ہی سے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اور وہی ان کی تکلیف کو دور کرتا ہے اور جب کوئی نبی اپنی تکلیف کو دور نہیں کر سکتا تو وہ دوسروں کی تکلیف کو کیا دور کر سکتا ہے پھر خدا کو چھوڑ کر کسی نبی کو فریاد کے لیے پکارنے میں کیا تُک ہے۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی صورت پیش آئی تھی کہ حضرت ایوب کے اہل و عیال بچھڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان کی دعا قبول کی اور انہیں صحت یاب کیا تو ایسے اسباب کر دیئے کہ ان کے اہل و عیال بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہوا کہ ان کے اہل و عیال میں مزید اتنی ہی تعداد کا اضافہ ہوا یعنی مزید بیوی بچے ملے۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اللہ ہی کی عبادت کرتے اور اس کے بندے بن کر رہتے ہیں وہ حضرت ایوب کے اس واقعہ سیہ سبق حاصل کریں کہ نیک لوگ بعض مرتبہ ایسی آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں کہ انہیں اپنی صحت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور ان کے بال بچے بھی بچھڑ جاتے ہیں ایسے حالات میں صبرِ ایوب ان کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۷۷۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذوالکفل کا ذکر قرآن نے صبر کرنے والے انبیاء علیہم السلام میں کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا تھا۔ ان کے بارے میں کوئی تفصیل نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ حدیث میں رہی بائبل تو اس میں اس نام سے کسی نبی کا ذکر نہیں ملتا البتہ حزقیل نبی کے نام سے ایک صحیفہ موجود ہیں جنہیں بخت نصر کے زمانہ میں ابتلاء سے گزرنا پڑا تھا اس لیے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ذوالکفل حزقیل ہی کا لقب رہا ہو گا۔ عراق میں الحلیہ سے قریب الکفل کے نام سے ایک مقام ہے جہاں حضرت حزقیل کی قبر بتائی جاتی ہے مگر اس سلسلہ میں ہمیں کوئی علمی شہادت نہیں ملی اس لیے توقف ہی بہتر ہے۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذوالنون کے معنی ہیں مچھلی والے۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کا لقب ہے۔ اور اس امتیازی لقب سے وہ اس لیے نوازے گئے کہ انہیں مچھلی نے نگل لیا تھا اور بعد میں انہیں زندہ اگل دیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۱۴۷)

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضر ت یونس کو نینوا کی قوم کی طرف بھیجا گیا تھا۔ وہاں وہ ایک عرصہ تک دعوت پیش کرتے رہے لیکن جب لوگ ایمان لانے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تو وہ برہم ہو کر وہاں سے چل دیئے کہ ایسی جاہل قوم کو کب تک سمجھاتے رہیں گے۔ انہوں نے سمجھا کہ جو قدم انہوں نے اٹھایا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت نہیں ہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر گرفت کی کیونکہ ایک نبی کے لتے یہ روانہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر اس قوم کو چھوڑ کر چلا جائے جس کو پیغام پہنچانے پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ حضرت یونس کی نظر سیہ پہلو اوجھل رہ گیا اور ان سے لغزش ہو گئی مگر چونکہ یہ لغزش ایک نبی سے اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملہ میں ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت آزمائش میں ڈال دیا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب وہ نینوی سے ساحل سمندر پہنچے اور یافا جانے کے لیے کشتی میں سوار ہو گئے۔ اس زمانہ میں یروشلم کے لیے قریبی بندرگاہ یافا تھی جو بحر روم کے ساحل پر تھی۔ تو کشتی طوفان کی زد میں آ گئی اور حضرت یونس کو ایک بڑی مچھلی نے اللہ کے حکم سے نگل لیا۔ ( تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہوا ہے۔)

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مچھلی کے پیٹ سے پکارا جہاں تاریکیاں ہی تاریکیاں تھیں ایک تو مچھلی کے پیٹ کی تاریکی مزید سمندر کی تہوں کی تاریکیاں۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس پر جو کچھ بیتی ہو گی اس کا تصور بھی مشکل ہے اس کے باوجود کوئی حرف شکایت ان کی زبان پر نہیں آیا۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ سے جو فریاد کی وہ سر تا سر اللہ کی حمد و ثنا اور اپنے قصور کے اعتراف پر مشتمل ہے۔ مچھلی کے پیٹ میں بھی انہوں نے توحید ہی کی صدا بلند کی اور اس کی پاکی بیان کرتے ہوئے اپنے قصور کا سخت سے سخت الفاظ میں اعتراف کیا۔ ان کا یہ اخلاص اور ان کی یہ انابت ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعا دل سے نکلی تھی اور عجز و نیاز میں ڈوبی ہوئی تھی اس لیے تاریکیوں کو چیرتی ہوئی عرش تک پہنچ گئی اور بارگاہ خداوندی میں قبولیت اختیار کر گئی۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ مچھلی نے انہیں ساحل پر زندہ اگل دیا۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ مثال ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ اگرچہ اہل ایمان کو طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈالتا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی آزمائش ہی کی زندگی ہے لیکن جب اہل ایمان ان آزمائشوں میں پورے اترے ہیں تو وہ ان کی نجات کا سامان کر دیتا ہے۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا کی دعا اولاد کے لیے تھی ایسی اولاد جو علم نبوت کی وارث ہو۔ (تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۸)

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر ہر چیز کا مالک تو ہی ہے اور تو بہترین مالک ہے۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت زکریا کی بیوی بانجھ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بانجھ پن کو دور کر کے یحیٰ جیسا فرزند عطا کیا۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورہ مریم نوٹ ۱۱  تا ۱۴)

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن انبیاء علیہم السلام کا حال اوپر بیان ہوا وہ سب نیکی کے معاملہ میں سبقت کرنے والے اور پوری مستعدی کے ساتھ اس راہ میں آگے بڑھنے والے تھے۔ واضح ہو ا کہ نیکی کے کاموں میں سرگرمی دکھانا انبیائی اوصاف میں سے ہے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے بندہ کے اپنے رب سے تعلق کے سلسلے میں معیار مطلوب کہ یہ تعلق محض خون کی بنا پر نہ ہو بلکہ پورے قلبی میلان اور رغبت کے ساتھ ہو وہ اپنے رب کو پکارے اور اس کی عبادت کرے تو محبت اور خوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ شخصیتیں جن کا ذکر اوپر ہوا نہایت بلند مرتبہ شخصیتیں تھیں لیکن ان میں تکبر کا شائبہ نہیں تھا۔ وہ اللہ کے حضور سر تا پا عجز و نیاز میں ڈوبے رہتے اور خشوع کے ساتھ زندگی بسر کرتے۔

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد حضرت مریم ہیں جو ایک پاکدامن خاتون تھیں۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روح کی نسبت اللہ کی طرف ایسی ہی ہے جیسے خانہ کعبہ کی نسبت اللہ کی طرف۔ یعنی یہ نسبت روح کے شرف کو واضح کرتی ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۲۷۹) ۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانی اللہ تعالیٰ کے کرشمۂ قدرت کی اصل چیز اس کا حکم ہے۔ اس کا حکم ہوا اس لیے ایک با کرہ نے بچہ کو جنم دیا اور اس کا حکم ہوا اس لیے بغیر باپ کے ایک بچہ پیدا ہوا۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خطاب تمام انبیاء علیہم السلام سے ہے اور امت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی راہ اختیار کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کے پیرو خواہ وہ مختلف گروہوں کی شکل میں رہے ہوں در حقیقت امت واحدہ ہیں کیونکہ سب کا دین ایک ہی دین (اسلام) رہا ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمام انبیاء کو اور ان کے واسطہ سے ان کے پیروؤں کو توحید ہی کی تعلیم دی گئی تھی۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو جو دین اسلام انبیاء علیہم السلام کے واسطہ سے ملا تھا وہ صرف ایک دین یعنی اسلام ہی تھا لیکن لوگوں نے اس دین میں اپنی طرف سے کمی بیشی کی بدعتیں نکالیں، حاشئے چڑھائے حلال کو حرام سے اور حرا م کو حلال سے بدل دیا اس طرح مذہبی رسوم کے جب الگ الگ مجموعے تیار ہو گئے تو ان کے نام بھی الگ الگ رکھے اور اس کی بنیاد پر گروہ بندیاں بھی ہو گئیں۔

اس حقیقت کے پیش نظر مختلف اور متعدد مذاہب کو دیکھ کر یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ ہر مذہب خدا کا بھیجا ہوا مذہب ہے بلکہ یہ لوگوں کے اپنے تراشیدہ مذہب ہیں۔

۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذہب کے یہ اختلافات تابہ کے سب کو ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اس دن پتہ چلے گا کہ فی الواقع اللہ کا دین کیا تھا اور لوگ کس طرح لیپا پوتی کرتے رہے۔

۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مذاہب کی اس کشمکش میں اللہ کے ہاں جو چیز انسان کے عمل کے لیے قبولیت کا معیار قرار پائے گی وہ نیک اعمال ہوں گے جو اس نے ایمان رکھتے ہوئے انجام دیئے ہوں گے نہ کہ کسی مذہب کی چھاپ۔

واضح رہے کہ نیک عمل شریعتِ الٰہی سے آزاد ہو کر نہیں کئے جا سکتے مثال کے طور پر نماز وہی معتبر ہو گی جو شریعت کے مطابق ادا کی گئی ہو گی۔ اس کے علاوہ نماز جس شکل میں پڑھی جائے گی حقیقت میں نماز نہ ہو گی۔ اور نہ اس کا شمار نیک اعمال میں ہو گا بلکہ خلاف شرع طریقہ اختیار کرنے کی بنا پر ایسا شخص گنہگار ہو گا۔ پھر قبولیت اعمال کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ وہ شخص مومن ہو۔ اور مومن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو دل سے مانتا ہو اور ان کا اقرار کرتا ہو جن پر ایمان لانے کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔

۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کے اعمال کا ریکارڈ تیار کر رہے ہیں۔

۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی ہلاک شدہ بستی کے لوگ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے کہ پھر انہیں اصلاح کا موقع ملے۔ ان کا لوٹنا قیامت تک ممکن نہیں اور جب حقیقت واقعہ یہ ہے تو لوگوں کو متنبہ ہونا چاہیے اور اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے جو انہیں اپنی اصلاح کے لیے مل رہا ہے۔

۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاجوج و ماجوج کی تشریح سورۂ کہف نوٹ ۱۱۸  میں گزر چکی وہاں ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ قوقاز (کوہ قاف) (Caucasus) کے شمال جانب وحشی قبائل تھے جو درۂ داریاں کو عبور کر کے آتے اور غارتگری کرتے تھے۔ ان کے حملوں کو روکنے کیلئے قریب میں بسنے والی ایک قوم کی درخواست پر ذوالقرنین نے آہنی دیوار تعمیر کی تھی جس سے یاجوج ماجوج کی راہ بند ہو گئی تھی۔

انقلاب زمانہ کے نتیجے میں یہ دیوار رکاوٹ نہیں رہی کیونکہ دوسری راہیں کھل چکی ہیں اور نہ ہی یاجوج ماجوج کے نام سے کوئی قوم پہچانی جاتی ہے اس لیے قرآن کی پیشین گوئی کہ یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں گے جب وقوع میں آئے گی تو اس کی تاویل ( اصل حقیقت) واضح ہو جائے گی۔ محض قیاس کی بنیاد پر کچھ کہنا صحیح نہ ہو گا۔ اور نہ ان روایات پر اعتماد کرنا صحیح ہو گا جو نہ اسناد کے اعتبار سے صحت کے معیار پر پوری اترتی ہیں اور نہ ان کا متن ( مضمون) نکارت اور دوسرے نقائص سے پاک ہے مثال کے طور پر ترمذی کی یہ حدیث کو یاجوج ماجوج روزانہ دیوار ( سد) کو کھودتے رہتے ہیں اور جب اس میں شگاف ڈالنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان کا سردار کہتا ہے کہ واپس چلو کل اس میں شگاف ڈال دیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس کو درست فرما دیتا ہے۔ اس طرح وہ روزانہ کھودتے رہتے ہیں یہاں تک جب وقت مقررہ آ جائے گا تو ان کا سردار کہے گا واپس چلو انشاء اللہ کل اس میں شگاف ڈال دیں گے دوسرے روز وہ دیوار کو اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں وہ چھوڑ کر گئے تھے چنانچہ وہ اس میں شگاف ڈال کر نکل آئیں گے۔

امام ترمذی نے اس روایت کو ابواب التفسیر میں سورۂ کہف کے ذیل میں نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسی طریقۂ اسناد سے ایسی باتیں جانا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ حدیث نہ اسناد کے اعتبار سے صحیح ہے اور نہ متن کے اعتبار سے چنانچہ مشہور مفسر علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : "اس حدیث کے متن کو آپ کا ارشاد قرار دینے میں نکادت ہے کیونکہ آیت کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ نہ تو اس دیوار پر اس کے مستحکم ہونے کی وجہ سے چڑھ سکتے ہیں اور نہ اس میں نقب لگا سکتے ہیں لیکن کعب احبار سیاسی طرح کی روایت منقول ہے اور معلوم ہوتا ہے ابوہریرہ ؓ نے ان سیہ (اسرائیلی) روایت لے لی کیونکہ وہ ان کے ساتھ زیادہ بیٹھا کرتے تھے اور ( اسرائیلی قصے) بیان کیا کرتے تھے تو ابو ہریرہؓ نے یہ قصہ بیان کیا ہو گا اور بعض راویوں کو یہ وہم ہوا ہو گا کہ یہ روایت مرفوع ہے ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے) واللہ اعلم۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۱۰۵)

ترمذی کی اس حدیث کے ایک راوی ابو عوانہ ہیں جن کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہے کہ جب وہ اپنے حافظہ سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج ۱۱ص ۱۱۶ تا ۱۲۰)

تعجب ہے کہ ایک ایسی روایت کو جو قرآن کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے اور جس کی نکادت ( نا معقولیت) بالکل واضح ہے ترمذی میں جگہ مل گئی۔ کاش کہ حدیث کی یہ مستند کتابیں اس قسم کی بے سر و پا روایتوں سے پاک ہوتیں !

قرآن کی اس آیت پر اس کے سیاق و سباق پر نیز سورۂ کہف کی ان آیات پر جن میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہوا ہے غور کرنے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ قوموں کی ہلاکت کا سلسلہ ان کے کفر اور ظلم کی بنا پر دنیا میں جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ دنیا اپنی ہلاکت کے آخری مرحلہ میں پہنچ جائے گی۔ اس وقت دنیا میں دو زبردست مفسد طاقتیں ابھریں گی جو اپنی اصل کے اعتبار سے یاجوج ماجوج ہوں گی۔ ( خواہ وہ دنیا میں کسی نام سے پکاری جاتی ہوں) یہ زمین کے بلند حصوں ( شمال) کی طرف سے نکل پڑیں گی اور پوری دنیا میں ( نہ کہ خاص مسلمانوں میں) فساد برپا کریں گی معلوم ہوتا ہے ان کی یہ یلغار عالمگیر جنگ کی صورت اختیار کرے گی اور ان کے پاس دنیا کو تباہ کرنے کا بھر پور سامان ہو گا (غالباً جدید نیوکلیر میزائل کیونکہ بعض حدیثوں میں ان کے آسمانوں پر تیر چلانے کا ذکر آتا ہے) اس لیے وہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں کو تباہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی۔ اس طرح ان کے ہاتھوں دنیا کی کافر قوموں کی آخری ہلاکت ہو گی اور اس کے بعد بس قیامت ہی قائم ہو گی۔

۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا وعدہ ہے یعنی یاجوج ماجوج کے امنڈ پڑنے کے بعد قیامت بہت جلد برپا ہو جائے گی۔ گویا اس وقت انسانیت موت کے دہانے پر ہو گی۔

۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر جب قیامت قائم ہو گی اور سب کو زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو کافروں کے لئے یہ حادثہ غیر متوقع ہو گا اس لیے ان کی آنکھیں حیرت اور دہشت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کافر نہ صرف اپنے غفلت میں پڑے رہنے کا اعتراف کریں گے بلکہ اپنے خطا کار ہونے کا بھی۔

معلوم ہوا کہ آخرت پر ایمان لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی غفلت ہے اور غفلت بھی ایسی جو مجرمانہ نوعیت کی ہے یعنی آخرت کے دلائل واضح ہو جانے کے باوجود انسان اس کو قبول کرنے سے اس لیے پہلو تہی کرتا ہے کہ اس کو ماننے کی صورت میں وہ اپنی من مانی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس طرح اس کی خواہشات اس کی توجہ آخرت کی طرف سے ہٹا کر اس کو دنیوی زندگی میں الجھائے رکھتی ہے۔

۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب مشرکین سے ہے کہ تم اور تمہارے یہ بت جن کی تم پوجا کرتے ہو جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ بت جہنم میں اس لیے پہنچا دئے جائیں گے تاکہ ان کے پرستاروں کو محسوس ہو کہ جن کی وہ خدا سمجھ کر پرستش کرتے رہے ہیں وہ ان کے کچھ کام آنے سے رہے بلکہ ان کے عذاب میں اضافہ کا سبب بنے ہیں کتنا درد ناک ہو گا وہ منظر جہاں جھوٹے خداؤں کے پرستار اپنے خداؤں سمیت آگ میں جل رہے ہوں گے۔

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے

بت پرست اگر جہنم کے اس منظر کو تصور ہی کر لیں تو شرک سے توبہ کر لیں۔

یہاں یہ سوال بے معنی ہے کہ اگر معبود بھی جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں تو انبیاء علیہم السلام کو بھی لوگوں نے معبود بنا لیا تھا پھر ان کا کیا ہو گا؟ کیونکہ اول تو قرآن نے وما تعبدون ( اور جن چیزوں کی تم پرستش کرتے ہو) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جن میں لفظ ما بالعموم غیر جاندار چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے اور یہاں بت اور جمادات کے قسم کی چیزیں ہی مراد ہیں جن کی مشرکین پرستش کرتے رہے۔ دوسرے قرآن نے آگے آیت ۱۰۱  میں یہ صراحت کر دی ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنٰی اُولَئِکَ عَنْہَا مَبْعَدُوْنَ ( جن لوگوں کے لیے ہماری طرف سے اچھے انجام کا وعدہ پہلے ہی ہو چکا وہ اس سے دور رکھے جائیں گے۔) اور قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی انبیاء علیہم السلام اور اہل ایمان کے بارے میں ان کے آگ سے محفوظ رکھے جانے اور جنت میں داخل کئے جانے کی بات اس کثرت سے بیان ہوئی ہے کہ کسی غلط فہمی کے لیے ادنیٰ گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔

۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بت بھی اور ان کے پرستار بھی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ قرآن بت پرستی کا وہ انجام جو آخرت میں ہونے والا ہے بت پرستوں کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتا ہے لہٰذا اسلام کے ایک داعی کو بھی شرک و بدعت کے خلاف دو ٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے اور بے لاگ طریقہ پر اس کا اخروی انجام بیان کرنا چاہیے خواہ بتوں کے پرستاروں کو یہ بات کتنی ہی کڑوی کیوں نہ لگے۔ ڈاکٹر کا کام صحیح طور سے علاج کرنا ہے اگرچہ اسے کڑوی دوا دینی پڑیا انجکشن لگانا پڑے۔

۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مخلص مومنوں اور متقیوں کے لیے جن کی زندگیاں صالحیت کی آئینہ دار تھیں۔

۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیتیں اس بات کی صراحت کرتی ہیں کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے کئے گئے جنت کے وعدہ کے مستحق قرار پائیں گے۔ ان کو قیامت کے دن کوئی پریشانی لاحق نہ ہو گی اور وہ جہنم سے اتنی دور رکھے جائیں گے کہ اس کی دھیمی آواز تک نہ سن سکیں گے۔ اس سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ مخلص مومنوں کو بھی جہنم کے پاس سے گزرنا ہو گا۔ قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے : فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہُ بِیَمیْنِہٖ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْرَاً (سورۂ انشقاق ۷۔ ۸) "تو جس کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا گیا اس سے آسان لیا جائے گا۔

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ۹۵

۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن آسمان کی بساط لپیٹ دی جائے گی تاکہ اس دنیا کی جگہ ایک نئی دنیا نئے نظام کے ساتھ وجود میں لائی جائے۔ مادہ پرست لوگ کائنات کو ازلی خیال کرتے ہیں لیکن قرآن اس کے آغاز کا بھی پتہ دیتا ہے اور انجام کا بھی۔

اگر دنیا میں کسی چیز کی تعمیر کا آغاز شکست و ریخت سے ہوتا ہے تو جہان نو کی تعمیر کے لیے موجودہ دنیا کی شکست و ریخت ہرگز قابل تعجب نہیں ہے اور نہ یہ بات قابل تعجب ہے کہ ایک ترقی یافتہ کائنات اس کائنات کی جگہ لے لے۔ ( مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ابراہیم نوٹ ۷۱)

۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین سے مراد جنت کی زمین ہے جیسا کہ سورۂ زمر کی آیت ۷۴  سے واضح ہے۔

وَاَوْرَثنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ۔ "اور ہمیں زمین کا وارث بنا دیا کہ جنت میں جہاں چاہیں رہیں۔”

اور اس کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمین جو دائمی ہو گی اور اپنی بہترین خصوصیات کی بنا پر بالکل بے مثال ہو گی اللہ کی نیک بندوں کے حصہ میں آئے گی ان ہی کو اس پر بسایا جائے گا اور ان ہی کو اس پر اقتدار حاصل ہو گا۔

آیت میں زبور کا حوالہ دیا گیا ہے جو حضرت داؤد پر نازل ہوئی تھی۔ اس سیہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جہاں تک موجودہ زمین کے اقتدار کا تعلق ہے وہ ایک آزمائشی چیز ہے اور یہ خدا سے غافل لوگوں کو بھی حاصل ہوتا ہے اور اس کے نیک بندوں کو بھی چنانچہ حضرت داؤد کو جو پیغمبر تھے خلیفہ بنایا گیا تھا رہی ابدی کامیابی تو جو کتاب انہیں عطا ہوئی تھی اس میں خدا اور آخرت کے بارے میں یاد دہانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ بالآخر زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ موجودہ زبور میں جو بائبل کے مجموعہ میں شامل ہے اس مضمون کی ایک جھلک ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں تک ذکر یعنی یاد دہانی کا تعلق ہے زبور کے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں :

"خداوند پر توکل کر۔ ملک میں آباد رہ اور اس کی وفا داری سے پرورش پا، خداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دل کی مرادیں پورے کرے گا۔” ( زبور ۳۷:۳،۴)

"بدی کو چھوڑ دے اور نیکی کر اور ہمیشہ تک آباد رہ کیونکہ خداوند انصاف کو پسند کرتا ہے اور اپنے مقدسوں کو ترک نہیں کرتا وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں۔” ( زبور ۳۷۔ ۲۷،۲۶)

رہا زمین کی وراثت کا فرمان تو زبور کے اسی بات میں ہے : "صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ (زبور ۳۷۔ ۲۹)

"خداوند کی آس رکھ اور اسی کی راہ پر چلتا رہ۔ اور وہ تجھے سرفراز کر کے زمین کا وارث بنائے گا۔” (زبور ۳۷۔ ۳۴)

"ہمیشہ سے رہیں گے” کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ زمین سے مراد جنت ہی کی زمین ہے اور آیت زیر تفسیر سے پہلے ( آیت ۱۰۴  میں) جو مضمون بیان ہوا ہے وہ آخرت ہی سے متعلق ہے اس لیے محل کلام دلیل ہے کہ یہاں مراد جنت کی زمین ہے۔

۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبادت گزار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی کے پرستار اور اس کے وفا دار بندے بن کر رہیں گے۔ اوپر صالحین سے وعدہ تھا یہاں عابدین ( عبادت گزار لوگوں) کو خوش خبری دی گئی۔ گویا ایک صفت دوسری صفت کی تشریح ہے۔

۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت دنیا والوں کے لیے باعث رحمت ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ لوگ اپنے رب کی صحیح معرفت حاصل کر لیں گے اور آپ کی رہنمائی میں زندگی بسر کر کے اس کی رحمت کے مستحق بن جائیں گے۔

للعالمین ( دنیا والوں کے لیے) کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بعثت کسی ایک قوم یا ملک یا زمانہ کے لیے نہیں ہوئی ہے بلکہ اقوام عالم کے لیے اور رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے ہوئی ہے اس لیے آپ کی رحمت عام ہے اور سب کے لیے آپ نبیِ رحمت ہیں۔ اگر لوگ اس فیضان رحمت سے محروم رہنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ ہوا پانی اور روشنی کسی قوم کے لیے خاص نہیں بلکہ بلا تفریق سب کے لیے عام ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے رب کی ان نعمتوں سے تعصب برتنے لگے اور اپنی ناک بند کر لے تو اس کا گھٹ کر مر جانا لازمی ہے اسی طرح جو شخص پانی سے دور بھاگے گا وہ پیاسا مر جائے گا اور روشنی سے آنکھیں بند کرنے والا اندھیرے میں بھٹکتا ہی رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت کی بعثت کے باوجود دنیا کی اکثریت اس رحمت کے فیض سے محروم ہے۔

۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میری طرف جو وحی نازل ہو رہی ہے وہ توحید اور صرف توحید کی تعلیم دیتی ہے۔ ایسی توحید جس سے ہر قسم کے شرک کی نفی ہوتی ہے۔

۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پیغمبر کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ اگر تمہاری قوم توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتی ہے تو اس پر یہ واضح کر دو کہ انکار کی صورت میں اللہ کے عذاب کا وعدہ لازماً پورا ہو گا۔ البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ جلد پورا ہو گا یا کچھ عرصہ بعد۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کفار پر عذاب کب آئے گا۔ اس قسم کی صریح آیتوں کی موجودگی میں علم غیب کی ان بحثوں میں کیا تک ہے جن میں مسلمانوں کا ایک گروہ الجھ رہا ہے۔ !

۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے ظاہر و باطن کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور وہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ فرمائے گا۔

۱۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات پیغمبر کی زبان سے سنائی جا رہی ہے کہ مجھے نہیں معلوم اللہ تعالیٰ کس مصلحت کی بنا پر عذاب کو مؤخر کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے آزمائش ہو اور تمہاری ہلاکت سے پہلے تم کو کچھ دن اور دنیا میں مزے اڑانے کا موقع مل رہا ہو۔

۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب یہ سورہ نازل ہوئی ہے دعوت اپنے آخری مرحلہ میں پہنچ گئی تھی چنانچہ پیغمبر کی زبان سیہ کلمات قوم پر حجب قائم ہو جانے کے بعد ہی نکلے ہیں کہ حق ان پر پوری طرح واضح ہو گیا ہے مگر یہ انکار پر جمے ہوئے ہیں۔ اب خدایا تو ہی فیصلہ فرما دے کہ حق غالب ہو۔

۱۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو حق تمہارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس کے خلاف تم طرح طرح کی باتیں کر رہے ہو تو جو باتیں تم بناتے ہو اس کے سلسلے میں ہم خدائے رحمن ہی سے فریاد کر رہے ہیں۔ وہ ہماری مدد کرے اور راہ حق میں ہمارے قدم جما دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 (۲۲) سورۂ الحج

 

 (آیات  ۷۸)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۲۷ میں حج کے اعلان عام کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الحج ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۱ھ میں حج کے قریبی ایام میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

خانۂ کعبہ کی تعمیر اور حج کی مشروعیت جس مقصد کے لیے ہوئی تھی اس کی تجدید کرنا اور اس مرکزِ توحید کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کر کے امتِ مسلمہ کے حوالہ کرنا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ تمہیدی آیات ہیں جن میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے قیامت کے شدید جھٹکے سے خبر دار کیا گیا ہے اور اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ شیطان کے اشارے پر کتنے ہی لوگ خدا کے بارے میں بے بنیاد باتوں اور گمراہ کن بحثوں میں الجھتے رہتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ قیامت کے دن بھڑکتی آگ میں جا گریں گے۔

آیت ۵ تا ۱۰ میں دوسری زندگی پر استدلال اور خدا کے بارے میں لوگ گمراہی کی جو باتیں کرتے ہیں اس کا انجام۔

آیت ۱۱ تا ۲۴ میں خدا کی غیر مخلصانہ عبادت کو بے معنی قرار دیتے ہوئے شرک کی تردید کی گئی ہے اور انکار کرنے والوں کے درد ناک انجام کو اور مخلص مؤمنین کے مسرت بخش انجام کو نہایت مؤثر طریقہ پر پیش کیا گیا ہے۔

آیت ۲۵ تا ۳۷ میں اس بات کے پیش نظر کہ مشرکین نے اہل ایمان کے لیے مسجد حرام اور حج بیت اللہ کی راہ بند کر دی ہے اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ معمار حرم نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے اس کی تعمیر کی تھی اور اسی مقصد کے لیے حج کی عام منادی کی تھی۔ ساتھ ہی حج کے منا سک اور ان کی روح کو اجاگر کیا گیا ہے۔

آیت ۳۸ تا ۴۱ میں مدینہ کے مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ مسجد حرام کو مشرکین کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے ان سے جنگ (جہاد) کریں اور یہ کہ اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کو اقتدار بخشے گا۔ آیت ۴۲ تا ۴۸ میں عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کی توجہ ظالم قوموں کی ہلاکت کے واقعات کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔

آیت ۴۹ تا ۵۷ میں واضح کیا گیا ہے کہ رسول کا کام خبردار کرنا ہے مگر اس کی دعوتی جدوجہد کے خلاف شیطان اسی طرح سرگرم عمل ہو گیا ہے جس طرح وہ ہر رسول کی دعوت کے خلاف پروپگنڈے کی مہم چلاتا رہا ہے۔ اس کے اس پروپگنڈے سے وہی لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کے دلوں میں روگ ہوتا ہے۔ اللہ کے وفادار بندوں کے تو علم و یقین میں اس جھوٹے پروپگنڈے کو دیکھ کر اضافہ ہو جاتا ہے۔

آیت ۵۸ تا ۶۲ میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تھی۔

آیت ۶۳ تا ۶۶ میں اللہ کی ربوبیت اور اس کے احسانات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

آیت ۶۷ تا ٍٍ۷۶ میں معترضین کے شبہات کو دور کتے ہوئے شرک کا بے حقیقت ہونا واضح کیا گیا ہے اور اللہ کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے سلسلۂ رسالت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

آیت ٍ۷۷ اور۷۸ اختتامی آیات ہیں جن میں اہل ایمان کو ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے جو ان کی ذات اور ان کے کردار سے متعلق ہیں اور ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی بھی جو اللہ کی راہ میں جدوجہد اور لوگوں کے سامنے اس کے دین کی شہادت پیش کرنے سے متعلق ہیں۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو ! ۱* اپنے رب سے ڈرو۔ ۲* قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے۔ ۳*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن تم اسے دیکھو گے اس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہ مدہوش ہیں حالانکہ وہ مدہوش نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہو گا۔ ۴*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے بارے میں علم کے بغیر بحث کرتے ہیں ۵* اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے لیے یہ بات مقدر ہے کہ جو کوئی اُسے دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے رہے گا اور دہکتی جہنم کے عذاب کی طرف لے جائے گا۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) اٹھائے جانے کے بارے میں شک ہے تو (غور کرو) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ٍٍ۷* پھر نطفہ سے ۸* پھر جمے ہوئے خون سے ۹* پھر گوشت کے ٹکڑے سے ۱۰* جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بغیر شکل کے بھی۔ ۱۱* (یہ اس لیے ہوتا ہے) تاکہ تم پر (اپنی قدرت کی کرشمہ سازیاں) واضح کریں۔ ۱۲* اور ہم جس کو چاہتے ہیں رحم میں ایک مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ پھر تم کو بچہ کی شکل میں باہر لاتے ہیں۔ ۱۳* پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جاؤ۔ اور تم میں سے کسی کا وقت تو پہلے ہی پورا ہو جاتا ہے اور کوئی عمر کے بدترین حصہ کو پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ ۱۴* اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک پڑی ہے۔ پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرنے اور پھولنے لگتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے۔ ۵*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے ۱۶* اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے ۱۷* اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ۱۸*

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں اور اللہ ان کو اٹھا کھڑا کرے گا جو قبروں میں ہیں۔ ۱۹*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کسی علم، کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ ۲۰*

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکڑتے ہوئے تاکہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے گمراہ کریں۔ ۲۱* ایسے شخص کے لیے دنیا میں رسوائی ہے ۲۲* اور قیامت کے دن ہم اس کو جلنے کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے وہ جو تیرے ہاتھو ں نے پہلے سے تیار کیا تھا ۲۳* اور اللہ اپنے بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کی عبادت ایک کنارہ پر رہ کر کرتے ہیں۔ اگر فائدہ پہنچا تو اس سے مطمئن ہو گئے اور اگر آزمائش آ گئی تو الٹے پھر گئے۔ دنیا بھی کھو دی اور آخرت بھی۔ یہی ہے کھلا خسارہ۔ ۲۴*

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ۔ یہ ہے پرلے درجہ کی گمراہی۔ ۲۵*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ان کو پکارتے ہیں جن کا نقصان ان کے فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ ۲۶* بہت برا ہے کارساز اور بہت برا ہے ساتھی۔ ۲۷*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ۲۸* ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ بلا شبہ الہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہو کہ اللہ دنیا و آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہیے کہ آسمان تک ایک رسی تان لے پھر اسے کاٹ ڈالے اور دیکھ لے کہ آیا اس کی اس تدبیر نے اس کے غم و غصہ کو دور کر دیا؟ ۲۹*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم نے اس (قرآن کو روشن دلیلوں کی شکل میں اتارا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ۳۰*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور صابی اور نصاریٰ اور مجوسی اور وہ جو مشرک ہوئے ، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے دن فیصلہ کر دے گا۔ ۳۱* اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں نیز سورج ، چاند، ستارے ، پہاڑ، درخت، جانور اور بہ کثرت انسان۔ اور بہت سے انسان ایسے ہیں جن پر عذاب لازم ہو چکا ہے۔ ۳۲* اور جسے اللہ ذلیل کر دے اسے عزت دینے والا کوئی نہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دو فریق ہیں ۳۳* جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا تو جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹ دئے گئے ہیں۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا جائے گا۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے ان کے پیٹ کے اندر کی چیزیں اور ان کی کھالیں گل جائیں گی۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ان (کو سزا دینے) کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کبھی وہ اس گھٹن سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کے عذاب کا مزا۔ ۳۴*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ ان کو وہاں سونے کے کنگن اور موتی کے زیور پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔ ۳۵*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں پاکیزہ بات کی ہدایت کی گئی ۳۶* اور انہیں اس ہستی کی راہ دکھائی گئی جس کے لیے حمد ہی حمد ہے۔ ۳۷*

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کی راہ سے روک رہے ہیں۔ ۳۸* نیز مسجد حرام ۳۹* سے جسے ہم نے لوگوں کے لے اس طرح بنایا ہے کہ اس کے رہنے والے اور باہر سے آنے والے سب وہاں برابر ہیں۔ ۴۰* اور جو کوئی وہاں ظلم کے ساتھ انحراف کی راہ اختیار کرنا چا ہے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ ۴۱*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ مقرر کر دی تھی ۴۲* کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور میرے گھر کو پاک رکھو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے۔ ۴۳*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو۴۴* وہ تمہارے پاس پیدل آئیں گے اور لاغر اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز راہوں سے آئیں گی۔ ۴۵*

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ وہ اپنی منفعتوں کو دیکھ لیں ۴۶* اور مقررہ دنوں میں ۴۷* مویشی چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۴۸* پس اس میں سے کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلاؤ۔ ۴۹*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اپنا میل کچیل دور کریں ۵۰* اپنی نذریں پوری کریں ۵۱* اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ ۵۲*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ (ہیں حج کے منا سک) اور جو اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے رب کے ہاں اس کے لیے بہتر ہے۔ ۵۳* اور تمہارے لیے مویشی حلال ٹھہرائے گئے ہیں بجز ان کے جن کا حکم تمہیں سنا دیا گیا ہے ۵۴* لہٰذا بتوں کی گندگی سے بچو ۵۵* اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ ۵۶*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے وفادار بنکر رہو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ۵۷* اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ گویا آسمان سے گر گیا پھر پرندے اسے اچک لیں یا ہوا اسے لے جا کر کسی دور دراز جگہ پھینک دے۔ ۵۸*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے (اصل حقیقت) اور جو اللہ کے مقرر کئے ہوئے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ بات دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔ ۵۹*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے لیے ان (قربانی کے جانوروں) میں ایک مقررہ وقت تک فائدے ہیں پھر ان کے قربان کرنے کی جگہ اس قدیم گھر کے پاس ہے۔ ۶۰*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تاکہ وہ مویشی چار پایوں پر اللہ کے نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ ۶۱* تو تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے لہٰذا اپنے کو اسی کے حوالہ کر دو۔ اور (اے نبی!) عاجزی اختیار کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ ۶۲*

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ ۶۳* جو مصیبت میں صبر کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے رہتے ہیں۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کے شعائر میں سے ٹھہرایا ۶۴* ہے تمہارے لیے ان میں بہتری ہے تو انہیں قطار میں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو۔ ۶۵* پھر جب وہ اپنے پہلوؤں پر گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ ۶۶* اور کھلاؤ قناعت کرنے والوں اور مانگنے والوں کو۔ ۶۷* اس طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ۶۸* اس طرح ہم نے ان کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اللہ کے ہدایت بخشنے پر اس کی کبریائی (بڑائی) بیان کرو ۶۹* اور (اے نبی!) نیکو کاروں کو خوشخبری دے دو۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ٍٍ۷۰* اللہ ان لوگوں کی مدافعت کرے گا جو ایمان لائے ہیں۔ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کرنے والا اور ناشکرا ہو۔ ۷۱*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو (جنگ کی) اجازت دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ مظلوم ہیں ٍٍ۷۲* اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قادر ہے۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے محض اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ ۷۳* اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں ، گرجے ، کنیسے اور مسجدیں جن بہ کثرت اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ڈھا دی گئی ہوتیں۔ ۷۴* اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ ۷۵* بلا شبہ اللہ قوت والا اور غالب ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، بھلی بات کا حکم دیں گے اور برائیوں سے روکیں گے۷۶* اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ۷۷*

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے نبی!) اگر ے تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے قومِ نوح، عاد اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا۔ ۷۸*

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قوم ابراہیم اور قوم لوط بھی جھٹلا چکی ہے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز مدین والوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ ۷۹* اور موسیٰ بھی جھٹلائے گئے تھے۔ ۸۰* تو میں نے ان کافروں کو مہلت دی پھر ان کو پکڑ لیا۔ تو دیکھو کیسی رہی میری سزا!

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا تو وہ اپنی چھتوں پر گر گئیں اور کتنے ہی کنویں بیکار ہو گئے اور کتنے ہی پختہ محل (ویران ہو گئے) ! ۸۱*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے۔ ۸۲* حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ۸۳*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے پیغمبر!) یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں حالانکہ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں۔ اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ۸۴*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی اور وہ ظالم تھیں۔ پھر ان کو پکڑ لیا اور میری ہی طرف سب کی واپسی ہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اے نبی!) کہو اے لوگو! میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہیں کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔ ۸۵*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ ۸۶*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں کی سرگرمیاں ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کے لیے ہوں گی وہ دوزخ والے ہیں۔ ۸۷*

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر!) تم سے پہلے ہم نے جو رسول اور نبی بھی بھیجا ہے۔ ۸۸* (ضرور ایسا ہوا ہے کہ) جب اس نے تمنا کی شیطان نے اس کی امنگ میں خلل ڈال دیا۔ ۸۹* مگر اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو مٹاتا ہے پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ۹۰* اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ ۹۱*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ صورت اس لیے پیش آتی ہے) تاکہ وہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسوں کو ان لوگوں کے لیے فتنہ (ذریعہ آزمائش) بنا دے جن کے دلوں میں روگ ہے اور جن کے دل سخت ہیں۔ ۹۲* بلا شبہ یہ ظالم مخالفت میں بہت دور نکل گئے ہیں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تاکہ وہ لوگ جن کو علم عطاء ہوا ہے جان لیں کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے اور وہ اس پر ایمان رکھیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں۔ ۹۳* یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کفر کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے یا محرومی کے دن کا عذاب آ جائے۔ ۹۴*

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن ۹۵* بادشاہی اللہ ہی کی ہو گی۔ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ تو جو لوگ ایمان رکھتے ہوں گے اور اچھے عمل کئے ہوں گے وہ نعمت بھرے باغوں میں ہوں گے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جنہوں نے کفر کیا ہو گا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہو گا ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہو گا۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ۹۶* پھر قتل کر دئے گئے یا مر گئے اللہ ان کو ضرور اچھا رزق دے گا ۹۷* اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ انہیں ایسی جگہ داخل کرے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ ۹۸* بلا شبہ اللہ علم والا اور بردبار ہے۔ ۹۹*

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے (ان لوگوں کا اجر) اور جو کوئی بدلہ لے ویسا ہی جیسا کہ اس کے ساتھ کیا گیا پھر اس پر زیادتی کی جائے تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا۔ ۱۰۰* اللہ معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔ ۱۰۱*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں اور اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۱۰۲*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیز اس لیے بھی کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ چیزیں باطل ہیں جن کو یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں۔ ۱۰۳* اور اللہ ہی بلند مرتبہ اور بڑا ہے۔ ۱۰۴*

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے تو زمین سر سبز ہو جاتی ہے۔ یقیناً اللہ بڑا باریک بیں اور خبر رکھنے والا ہے۔ ۱۰۵*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بلا شبہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے تعریف کا مستحق۔ ۱۰۶*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں۔ ۱۰۷* اور کشتی کو کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلتی ہے۔ وہ آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر گر نہ پڑے مگر اس کے حکم سے۔ یقیناً اللہ لوگوں کے لیے بڑی شفقت رکھنے والا اور بڑی رحمت والا ہے۔ ۱۰۸*

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تم کو زندگی بخشی پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی تم کو پھر زندہ کرے گا۔ در حقیقت انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ ۱۰۹*

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر امت کے لیے ہم نے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا جس پر وہ چل رہی ہیں۔ ۱۱۰* لہٰذا اس معاملہ میں وہ تم سے نہ جھگڑیں۔ ۱۱۱* تم اپنے رب کی طرف دعوت دو۔ ۱۱۲* یقیناً تم سیدھی راہ پر ہو۔ ۱۱۳*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہ دو اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ سب ایک کتاب میں درج ہے۔ ۱۱۴* بلاشبہ یہ اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور نہ ان کے بارے میں ان کو کوئی علم ہی ہے۔ ۱۱۵* ان ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ان کو ہماری روشن آیتیں سنائی جاتی ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ ان کے چہروں سے ناگواری ظاہر ہو رہی ہے ۱۱۶* گویا وہ ان لوگوں پر حملہ کر بیٹھیں گے جو ہماری آیتیں ان کو سناتے ہیں۔ کہو میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی بدتر چیز کیا ہے ؟ آگ جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ۱۱۷* اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے غور سے سنو اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے خواہ وہ سب اس کے لیے اکٹھا ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ۱۱۸* اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ ۱۱۹* طالب بھی کمزور اور مطلوب بھی کمزور۔ ۱۲۰*

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ بلا شبہ وہ قوت والا اور غالب ہے۔ ۱۲۱*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ فرشتوں میں سے بھی پیغامبر منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔ ۱۲۲* وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ ۱۲۳*

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ ۱۲۴*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! ۱۲۵* رکوع کرو ، سجدہ کرو ۱۲۶* اپنے رب کی عبادت کرو ۱۲۷* اور بھلائی کے کام کرو ۱۲۸* تاکہ تم کامیاب ہو۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ ۱۲۹* اس نے تمہیں چن لیا ہے ۱۳۰* اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۱۳۱ تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔ ۱۳۲* اس نے (اللہ نے) تمہارا نام پہلے بھی مسلم رکھا اور اس (قرآن) میں بھی۔ ۱۳۳* تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ ۱۳۴* پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو مضبوط پکڑ لو۔ ۱۳۵* وہی تمہارا مولیٰ ہے۔ تو کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار!

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خطاب عام انسانوں سے ہے اور خطاب کی یہ عمومیت دلیل ہے کہ یہ سورۂ مدنی ہے نیز یہ کہ قیامت تک کے لوگ اس کے مخاطب ہیں۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ کا پہلا سبق یہی ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک سے ڈرے۔ خدائے واحد کا وجود کھلی حقیقت ہے اور اس کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس کے سامنے سرکشی کی جرأت نہ کرے، عبادت کا تعلق اپنے خالق سے جوڑنے کے بجائے مخلوق سے نہ جوڑے اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرے کہ اس کی سزا اس کے ہاں بڑی سخت ہے اور قیامت کے ہر عمل کی جوابدہی اس کے حضور کرنا ہو گی۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کا زلزلہ ایسا زبردست ہو گا کہ پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اور انسان کو کہیں عافیت نہیں مل سکے گی۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے اس زلزلہ کی ہولناکی کی تصویر کہ زمین ایسی تھرتھرانے لگے گی کہ روئے زمین پر اس وقت جو لوگ بھی موجود ہوں گے وہ ہکا بکا رہ جائیں گے کہ یہ کیا معاملہ ہے ہر شخص کو جان کے لالے پڑے ہوں گے یہاں تک کہ جن ماؤں کی گود میں دودھ پیتے بچے ہوں گے وہ اپنے بچوں کو بھول جائیں گی اور جو عورتیں حاملہ ہوں گی ان کے حمل گر جائیں گے اور دہشت کی وجہ سے لوگوں کا یہ حال ہو گا کہ گویا وہ نشے میں مدہوش ہیں یعنی ان کے ہوش و حواس برقرار نہیں رہیں گے۔ یہ گویا روئے زمین پر اللہ کا آخری عذاب ہو گا جو قیامت کی شکل میں نمودار ہو گا۔ یہ اس موقع کی بات ہے جبکہ پہلا صور پھونکا جائے گا اور اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت روئے زمین پر برے لوگ ہی بس رہے ہوں گے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ قیامت اشرار ہی پر قائم ہو گی: لاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلاّ عَلٰی شِرَارِ النَّاسِ۔”قیامت بدترین لوگوں ہی پر قائم ہو گی۔” (مسلم کتاب الفتن)

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی محض قیاس و گمان اور مفروضات و نظریات کی بنیاد پر خدا کے بارے میں رائے قائم کرنے اور بحثیں کھڑی کرنے لگتے ہیں جب کہ یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ اس پر علم کے بغیر زبان کھولنا غیر ذمہ دارانہ پن کا ثبوت دینا ہے۔ اور علم کے معنی کسی چیز کو فی الواقع وہ جیسی ہے جان لینا ہے۔ خدا کے بارے میں صحیح معرفت کا ابتدائی ذریعہ تو انسانی فطرت ہے پھر وہ نشانیاں ہیں جو آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کے بعد بہت واضح اور مکمل شکل میں وہ علم ہے جو انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوتا ہے۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اوپر کی آیت میں”ہر سرکش شیطان” سے مراد ابلیس اور اس کی فوج ہے۔

شیاطین اگرچہ انسانو ں میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کا گُرو ابلیس ہی ہے اس لیے جو گمراہی کا امام ہے اس کے شر سے متنبہ کر دیا گیا۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی جو خبر قرآن دے رہا ہے اس میں لوگ اس لیے شک کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد جسم فنا ہو جاتا ہے اسے دوبارہ جسم سمیت اٹھا کھڑا کرنا ایک ایسے پیش آنے والے واقعہ کی خبر ہے جو کبھی مشاہدہ میں نہیں آیا۔ اسی شک کو رفع کرنے کے لیے یہاں چند ایسی باتوں پر غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے جو امر واقعہ ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ آدم کی تخلیق مٹی ہی سے ہوئی تھی۔ قرآن کے اس بیان کی تائید عام مشاہدہ سے بھی ہوتی ہے کہ مٹی سے غذا بنتی ہے اور غذا سے پرورش پا کر انسان زندہ رہتا ہے نیز یہ کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے اور انسان مر کر مٹی ہی میں مل جاتا ہے۔ لہٰذا جس ہستی کے لیے مٹی جیسے بے جان مادہ میں جان ڈالنا پہلی بار ممکن ہوا اس کے لیے مٹی میں ملے ہوئے انسان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا کیا مشکل ہے ؟ اب اگر ہمیں یقینی ذریعہ سے یہ خبر مل رہی ہے کہ انسان کے خالق نے ا سکو مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھا کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم اسے کیوں صحیح تسلیم نہ کر لیں ؟

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ جس طریقہ سے چلایا اس کو ایک اہم دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات کہ انسان کی پیدائش مادۂ منویہ کے اس قلیل جزو سے ہوتی ہے جسے نطفہ (پانی کی بوند) کہتے ہیں ایک معلوم حقیقت ہے اور قرآن کا استدلال اس عام اور معلوم حقیقت ہی سے ہے البتہ موجودہ دور میں علم الجنین (Embryology) نے جن حقائق کا انکشاف کیا ہے وہ قدرت الٰہی کی کرشمہ سازیوں کو نمایاں کر کے اس کو دعوتِ فکر دینے والی ہیں۔ چنانچہ ایک وقت میں جو مادۂ منویہ خارج ہوتا ہے اس میں دوسو ملین جراثیم حیات (Spermatozoa) ہوتے ہیں جبکہ ایک جرثومۂ حیات بیضۂ انثیٰ کو باردار (Fertilize) کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ بیضۂ انثیٰ عورت کے بیضہ دان (Ovary) سے ہر ماہ صرف ایک عدد خارج ہوتا ہے اور رحم سے متصل نلی (Fallopian Tube) میں آہستہ آہستہ سفر کرتا ہے۔ اگر جرثومۂ حیات کا ملاپ اس بیضہ سے ہوتا ہے تو بیضہ بار آور (Fertilize) ہو جاتا ہے یہ گویا حمل کا آغاز ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیضہ بار آور ہونے کے بعد چند دنوں میں جمے ہوئے خون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر خون کا تھکا کچھ دنوں میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے۔ یہ عمل قرار حمل کے چوتھے ہفتہ میں ہوتا ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گوشت کا یہ ٹکڑا جو بغیر شکل و صورت کے تھا ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ ایک خاص شکل (Shape) اختیار کرنے لگتا ہے او ر کبھی اس سے پہلے ہی اسقاط ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر محمد علی البار نے علم الجنین (Embryology) کی تحقیقات کے پیش نظر قرآن و حدیث کے پیش کردہ حقائق کو اپنی کتاب "خلق الانسان بین الطب و القرآن” میں جو عربی میں ہے وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے قرآن کے علمی اعجاز کو نمایاں کیا ہے۔ اسقاط کے مسئلہ پر موصوف لکھتے ہیں :

"اب ہم یہ جاننے لگے ہیں کہ اسقاط اکثر شکل بننے سے پہلے ہوتا ہے اور یہ مرحلہ علم الجنین کی اصطلاح میں تکوین الاعضاء (Organo Genesis) کہلاتا ہے اور اس کا آغاز حمل کے چوتھے ہفتہ سے ہوتا ہے اور آٹھویں ہفتہ تک رہتا ہے۔ (خلق الانسان ص ۴۰۷)

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا رحم مادر (Womb) ایک قدرتی کارخانہ (Natural/Factory) ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے اور اس طرح ڈھلتا ہے کہ ڈھالنے والے کا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا مگر ایک قطرہ یا جرثومہ جن ارتقائی مرحلوں سے گزرکر انسان کا روپ اختیار کرنے کے مرحلہ میں پہنچتا ہے وہ نہایت ہی عجیب و غریب عمل (Process) ہے جو دعوت فکر دیتا ہے اور سوچنے والوں میں یقین پیدا کرتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک علیم و قدیر ہستی کا ہاتھ ہے اور انسان کی تخلیق اس کی قدرت کی کرشمہ سازیوں کا بین ثبوت ہے۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنین (Embryo) حمل کے دن پورے ہو جانے کے بعد اس دنیا میں جنم لیتا ہے اور یہ اس کی طفولیت (بچپن) کا آغاز ہے۔ اس میں اس بات کی طرف واضح اشارہ موجود ہے کہ جنین کی دنیا رحم کی تنگ اور تاریک جگہ تھی جس کے بعد اس نے ایک وسیع دنیا میں جنم لیا۔ اب اگر اس کا خالق اس کو یہ خبر دے رہا ہے کہ اس دنیا سے گزر کر اسے اس سے وسیع دنیا (آخرت) میں داخل ہونا ہے تو اس میں شک کی کیا وجہ ہے ؟ کیا انسان اپنے کو اس دنیا ہی کے خول میں بند رکھنا چاہتا ہے ؟

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں آنے کے بعد بھی انسان عمر کے مختلف مرحلوں سے گزرتا ہے۔ بچپن سے جوانی کی طرف اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف یعنی کمال سے زوال کی طرف اور علم سے لا علمی (نسیان) کی طرف۔ پھر اگر موت کے بعد کے مراحل کی خبر دی جا رہی ہے تو یہ اس کے لیے کیوں ناقابل قبول ہے ؟

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شک کو رفع کرنے کے لیے دوسری دلیل ہے۔ اس دنیا میں ہر وقت تغیرات ہوتے رہتے ہیں۔ زمین ابھی خشک تھی مگر جوں ہی پانی برسا سر سبز و شاداب ہو گئی اور اپنے خزانے اگلنے لگی۔ گویا مردہ زمین میں حیات تازہ پیدا ہو گئی کیا یہ مشاہدہ انسان کے اندر ایک قادر مطلق ہستی کا یقین پیدا نہیں کرتا اور اگر وحی الٰہی قیامت کے دن انسان کو اٹھائے جانے کی خبر دے رہی ہے تو اس پر ایمان لانے میں کیا چیز مانع ہے ؟ اگر زمین تغیرات کا منظر پیش کرتی رہتی ہے تو اس میں ایک زبردست تغیر کیوں ممکن نہیں اور اگر زمین اپنے خزانے اگلتی رہتی ہے تو قیامت کے دن اس کا مردوں کو اُگلنا کیوں بعید ہے ؟

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مٹی سے انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کی پیدائش اور اس کے بعد پانی کی ایک بوند سے اس کا سلسلۂ تناسل پھر طفولیت سے شباب کو پہنچنا اور اس کمال کے بعد ضعیف کا طاری ہو جانا اسی طرح خشک زمین کا سرسبز و شاداب ہو کر پُر رونق بن جانا ایک خالق کی خلاقی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ دنیا اتفاقی حادثہ ہوتی تو انسان کی تخلیق میں یہ تدریج ، حالات کا یہ تغیر اور ایک نقشہ اور پلاننگ کے ساتھ انسان کا وجود اس زمین پر ممکن نہ ہوتا۔ لہٰذا اللہ کا وجود ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے اور اس کے وجود یا اس کی وحدانیت سے انکار محض کٹ حجتی ہے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی مثالوں سے یہ بات بھی واضح ہے کہ اللہ بے جان مادوں میں جان ڈالتا رہتا ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات دن مشاہدہ میں آنے والے یہ واقعات جن کا ذکر اوپر ہوااس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اللہ کی ہستی ایک عظیم قدرت والی ہستی ہے اور اس کے لیے کوئی چیز بھی نا ممکن نہیں۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے اس تخلیقی عمل سے جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہوا اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ قیامت کا وقوع اور مردوں کا اٹھایا جانا برحق ہے۔

"قبر میں جو ہیں” سے مراد مردے ہیں خواہ ان کی قبر بنی ہو یا نہ بنی ہو۔

دراصل انسانی زندگی کا عقیدہ قیامت اور دوسری زندگی کو ایک حقیقت مان لینے کی صورت ہی میں حل ہوتا ہے ورنہ کسی مفکر اور کسی فلسفی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس عقیدہ کو حل کر سکے۔ چنانچہ اس کے بغیر زندگی کا نہ کوئی سنجیدہ مقصد متعین کیا جا سکا ہے اور نہ اس پلاننگ کا کوئی نقشہ پیش کیا جا سکا ہے جو انسان کی پیدائش کے پیچھے کارفرما ہے۔ مثال کے طور پر آواگون (تناسخ) کا نظریہ ان بنیادی سوالات کا جواب دینے سے بالکل قاصر ہے اور اس سے زندگی کی کوئی گرہ کھلنے سے تو رہی البتہ مزید گرہیں پڑ جاتی ہیں اور ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی تشریح نوٹ ۵ میں گزر چکی ہے۔ ہدایت سے یہاں مراد وہ دلیل ہے جسے عقل سلیم پیش کرے اور روشن کتاب سے مراد آسمانی کتاب ہے۔ علم میں یہ دونوں چیزیں شامل ہیں مگر ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کا ذکر یہاں خصوصیت سے کیا گیا۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لیڈروں کا حال بیان ہوا ہے جو خدا کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کا رویہ بڑا متکبرانہ ہوتا ہے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ خدا کے بارے میں تکبر کا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کو اس دنیا ہی میں ذلت کا مزا چکھنا پڑتا ہے۔ مراد وہ رسوائی ہے جو اخلاق کی سطح پر ہوتی ہے اور جس کو وہی لوگ محسوس کرتے ہیں جن کی اخلاقی حِس تیز ہوتی ہے اگرچہ ذلیل ہونے والا شخص دنیا کی نظروں میں کتنا ہی معزز ہو۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کا ہر عمل مستقبل میں ایک نتیجہ پیدا کرنے والا ہے اور انسان کے یہ کرتوت ہی ہوں گے جس کی بنا پر وہ جہنم کا مستحق قرار پائے گا۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تصویر ہے ان لوگوں کی جو اللہ کو نہ صرف ماننے کا دعویٰ کرتی ہیں بلکہ اس کی عبادت بھی کرتے رہتے ہیں لیکن یکسو ہو کر نہیں بلکہ ذہنی تحفظات (Reservations) کے ساتھ۔ اگر خوشحالی میسر آئی تو خدا کے گن بھی گائیں گے اور اس کی پرستش بھی کریں گے لیکن اگر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو گئے تو اس سے بے تعلق ہو کر اس کے خلاف شکایت کرنے لگیں گے۔ ایسے لوگ دنیا میں بھی ان سعادتوں سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچی خدا پرستی کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہو جاتی ہیں اور آخرت میں بھی وہ بالکل نامراد ہوں گے۔

واضح ہوا کہ خدا پرستی وہی معتبر ہے جس کی تہ میں وفا داری کا جذبہ ہو اور جس پر انسان نرم گرم ہر طرح کے حالات میں قائم ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا پرستی کی جگہ بت پرستی سراسر خلافِ حق اور یکسر باطل ہے۔ اب اگر کوئی شخص حقیقت (Reality) کے خلاف کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس پر راہ راست کا گم ہو جانا بالکل یقینی ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتوں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ اینٹ پتھر ہیں جو ہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان لیکن ان کو پوجنے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنا خدائی وجود بھی رکھتے ہیں۔ ان کے اسی خیال کی نا معقولیت یہاں واضح کی جا رہی ہے کہ ان سے کسی فائدہ کی توقع تو دور کی بات ہے البتہ ان کی پرستش سے جو فوری اور لازمی نقصان پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ کا رشتہ اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ کسی اور کو حاجت روا ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا شخص اللہ کو واحد حاجت روا (الٰہ) نہیں مانتا۔ بالفاظ دیگر بتوں سے وفاداری اللہ سے بے وفائی کی قیمت پر ہوتی ہے اور یہ کھلا اور زبردست نقصان ہے۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بتوں سے عقیدت پیدا کر کے انہوں نے اپنے لیے بہت برے کارساز اور ساتھی پیدا کر لئے ہیں جو ان کے لیے تباہی کا باعث ہیں۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محلِ کلام دلیل ہے کہ یہاں ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ ایسے لوگ اللہ ہی کو حاجت روا مان کر اس کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرتے ہیں اور اچھے برے ہر حال میں اس سے جڑے رہتے ہیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس شخص کے لیے تہدید (تنبیہ) ہے جو ناخوشگوار حالات میں اللہ کی مدد سے مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ جب اللہ دنیا میں میری مدد نہیں کر رہا ہے تو آخرت میں بھی نہیں کرے گا۔ اس طرح خدا سے مایوسی اس میں باغیانہ ذہنیت پیدا کر دیتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں تو ایسے لوگ بہ کثرت دیکھے جا سکتے ہیں جو حوادث زمانہ کا شکار ہونے کی بنا پر خدا کو رحیم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیتے ہیں۔ یہ خدا کے رحم اور اس کی مدد سے مایوسی ہی ہے جس نے خدا کے بارے میں ان کے اندر جھنجھلاہٹ پیدا کر دی ہے۔ ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ خدائی منصوبہ کے خلاف کوئی تدبیر کر سکتے ہیں تو کر دیکھیں۔ اگر وہ رسی تان کر آسمان پر چڑھ سکتے ہیں تو چڑھیں اس کے بعد اس رسی کو بھی کاٹ دیں تاکہ دنیا سے ان کا تعلق بالکل منقطع ہو جائے۔ ایسا کر کے وہ دیکھ لیں کہ ان کا غم و غصہ دور ہوتا ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مدد میں تاخیر کو دیکھ کر انسان اگر اس سے مایوس ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے تو اس سے کیا فائدہ ؟ وہ کوئی ایسی تدبیر تو کر نہیں سکتا کہ خدائی منصوبہ سے آزاد ہو جائے یا اس آزمائشی دنیا سے نکل کر کسی اور دنیا میں چلا جائے۔ اس لیے صحیح راہِ عمل یہی ہے کہ وہ اللہ سے امیدیں وابستہ رکھے اس کو اپنا حقیقی سہارا سمجھے اور ناسازگار حالات میں بھی اس پر بھروسہ کرے کہ وہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔

واضح رہے کہ اس آیت میں جس طرح آسمان تک رسی تان دینے کی بات کہی گئی ہے اسی طرح سورۂ ص میں آسمان پر چڑھ جانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ اَمْ لَہُمْ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَلی رْتَقُوْانِی الْاَسْبَابِ” کیا یہ آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی موجود ات کے اقتدار کے مالک ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو یہ آسمانوں میں چڑھ جائیں۔” (سورۂ ص : ۱۰)

ظاہر ہے اس آیت میں جو فرمایا گیا کہ آسمانوں میں چڑھ جائیں تو اس سے مقصود کافروں کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے اسی طرح آیت زیر تفسیر میں یہ جو فرمایا گیا کہ ایسا شخص آسمان تک رسی تان لے تو اس سے بھی مقصود اس کی بے بسی کو ظاہر کرنا ہے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں قرآن کی رہنمائی بالکل واضح اور مدلّل ہے لیکن اس سے روشنی اسی کو ملتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ بینائی عطا کرے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ان چھ مذہبی گروہوں کا ذکر ہوا ہے جو اس وقت عرب اور اس کے اطراف میں موجود تھے یعنی مسلمان یہودی، صابی، نصاریٰ، مجوس اور مشرک۔

صبائی کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۸۶ میں گزر چکی۔

مجوس سے مراد آتش پرست لوگ ہیں جو اپنے کو زرتشت کا پیرو قرار دیتے ہیں۔ اس وقت ایران کا یہی مذہب تھا۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۳

مشرک سے مراد متعدد خداؤں کو ماننے والے ، غیر اللہ کی پرستش کرنے والے اور بت پرست ہیں۔ عرب سے باہر کے دسرے مشرکانہ مذاہب خواہ وہ کسی نام سے پکارے جاتے ہوں اسی کے تحت آتے ہیں۔

ان میں سے ہر گروہ اس بات کا مدعی ہے کہ خدا اور مذہب کے معاملہ میں صحیح راہ وہی ہے جس کو وہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اہل مذاہب کے ان دعوؤں اور الجھی ہوئی باتوں کو باطل قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ سچائی کی راہ اہل ایمان کی راہ ہے یعنی ان لوگوں کی جو قرآن کی دعوت کو قبول کرتے ہیں بالفاظ دیگر مخلص مسلمان جن کا دین اسلام ہے۔ اس کے باوجود اگر لوگ اپنے اپنے مذہب ہی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں تو قیامت کے دن وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ اس نزاع کا فیصلہ فرمائے گا۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ رعد نوٹ ۳۸ اور سورۂ نحل نوٹ ٍٍ۔ ۷۱

اس آیت میں اس بات پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات کی تمام مخلوقات خواہ وہ جان دار ہوں ، نباتات ہوں یا جمادات اپنے خالق کے آگے جھکی ہوئی ہیں اور اپنے اپنے طریقہ پر اسی کو سجدہ کر رہی ہیں۔ مختلف علامتوں سے ان کی سجدہ ریزی کا اظہار ہوتا ہے اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے بکثرت لوگ اللہ کے آگے جھکتے ہیں لیکن بہ کثرت لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی مرضی سے اس کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں پر عذاب کا کوڑا لازماً برسنے والا ہے۔ ان کے اس غلط رویہ کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ یہ کائنات اللہ ہی کے آگے سربسجود ہے اور جب یہ حقیقت ہے تو تم اپنا رویہ اس کے مطابق کیوں نہیں بنا لیتے ؟

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا ضروری ہے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک مومنوں کا گروہ ہے جو قرآن پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا کافروں کا گروہ ہے جو قرآن پر ایمان نہیں لاتا خواہ وہ کتنی ہی مذہبی فرقہ بندیوں میں بٹا ہوا ہو۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دردناک عذاب کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر جن کا احساس مردہ ہو گیا ہو وہ اس کا کیا اثر قبول کر سکتے ہیں۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیات سے واضح ہے کہ یہاں ایمان لانے کے مفہوم میں دو باتیں بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔ ایک توحید اور دوسرے قیامت کے دن اٹھایا جانا۔ جو لوگ اس طرح ایمان لائیں اور ان کی زندگیاں بھی نیکی کی آئینہ دار ہوں ان کو قیامت کے دن جس اعزاز و ا کرام سینوازا جائے گا اس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے۔ یہ تقابل بھی لائق غور ہے کہ کافروں کے لیے جہاں آگ کے کپڑے قطع کئے جائیں گے وہاں اہل ایمان کو ریشم کا لباس پہنایا جائے گا۔ دنیا کی زندگی ایک امتحانی اور عبوری دور ہے اس لیے یہاں نعمتوں کے استعمال کے سلسلہ میں کچھ شرعی پابندیاں بھی ہیں لیکن جنت کی زندگی انعام کے طور پر ہو گی اس لیے وہاں نہ صرف یہ کہ نعمتوں کے استعمال میں کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی بلکہ شاہانہ زندگی بسر کرنے کا سارا سامان مہیا کر دیا جائے گا اور اہل جنت کو زیورات اور لباس سے اس طرح آراستہ کیا جائے گا گویا ہر مؤمن ایک دولہا ہے اور ہر مؤمنہ ایک دلہن۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کلمۂ توحید ہے۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی راہ جس کے لیے تمام خوبیاں ہیں اور جو اس کا مستحق ہے کہ اس کے گن گائے جائیں۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں کو روکتے ہیں کہ وہ اللہ کا دین (اسلام) قبول نہ کریں۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف کہ جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے ان پر مشرکین مکہ نے حرم کے دروازے بند کر دیئے تھے وہ نہ حج کر سکتے تھے اور نہ عمرہ۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسجد حرام پر کسی کی اجارہ داری صحیح نہیں کہ جس کو چاہیں زیارت کرنے دیں اور جس کو چاہیں روکیں۔ یہ مرکز توحید ہے اور اہل توحید کو خواہ وہ زمین کے کسی خطہ یا گوشہ میں رہتے ہوں یہ حق ہے کہ وہ یہاں آ کر خدائے واحد کی بندگی کریں۔ اس مسجد کے دروازے کسی پر بھی بند نہیں ہیں اور اس معاملہ میں اہل مکہ اور غیر اہل مکہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے لہٰذا اہلِ توحید میں سے کسی کو حج یا عمرہ کرنے سے روکا نہیں جا سکتا۔

مسجد حرام کی اس حیثیت کے پیش نظر دنیا کی کسی حکومت کو خواہ وہ مسلمانوں کی ہو یا غیر مسلموں کی یہ حق نہیں پہنچتا کہ حج اور عمرہ کے سلسلہ میں ناروا قانونی پابندیاں عائد کرے اور نہ اس سرزمین پر حکومت کرنے والوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ویزا وغیرہ کی ایسی پابندیاں عائد کرے کہ عازمین کے لیے بلا وجہ کی دشواریاں پیدا ہوں۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ حرم میں قیام و طعام کے سلسلہ میں ایسے طور طریقے اختیار ہ کئے جائیں جن سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو اور ناجائز انتفاع (لوٹ کھسوٹ Exploitation) تو یہاں شدید جرم ہے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو شخص مکہ میں رہتے ہوئے ظلم و زیادتی کے ساتھ ان مقاصد سے انحراف کرے گا جن کے لیے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ اللہ کی طرف سے درد ناک سزا کا مستحق ہو گا۔

ظلم سے مراد کھلی معصیت کے کام ہیں جن میں شرک بدرجۂ اولیٰ شامل ہے اور اِلحاد (انحراف) سے مراد مسجد حرام کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرنا بھی ہے اور بے دینی پھیلانا بھی۔ اس آیت کا واضح اشارہ مشرکین مکہ کی طرف ہے جو بیت اللہ کے اصل مقصد (توحید) سے ہٹ گئے تھے اور بت پرستی کو وہاں رائج کیا تھا لیکن بات عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے اس لیے اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو وہاں شرک و بدعت کو رائج کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ جو نام نہاد مسلمان کسی شر کے ارادہ سے یا تخریبی کارروائی کی غرض سے مکہ آنا چاہتے ہوں ان کے داخلہ پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خانۂ کعبہ کی تعمیر کے لیے سرزمین مکہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا تھا اور اس کے لیے جگہ کا ٹھیک ٹھیک تعین بھی اسی نے کیا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو کچھ کیا وہ اللہ کے حکم کی تعمیل تھی۔

واضح رہے کہ قرآن کریم خانۂ کعبہ کا معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قرار دیتا ہے اور اس بات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتا کہ اس کی تعمیر تو حضرت آدم نے کی تھی پھر یہ طوفان نوح کی زد میں آ گیا تھا اور حضرت ابراہیم نے اس کی صرف تجدید کی۔ کسی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے اس لیے جن روایتوں کو بنیاد بنا کر مفسرین اس طرح کی باتیں کہتے ہیں وہ قرآن کے صریح بیان سے مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ کسی تفسیر میں جگہ پائیں۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۱۱۷)

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہدایت ابراہیم علیہ السلام کو اس لیے دی گئی تھی تاکہ اول روز ہی سے بیت اللہ کی تعمیر کا مقصد واضح ہو جائے اور ان کے پیرو اس ہدایت کو حرزِ جان بنا لیں۔ گھر کو پاک رکھنے کا مطلب خاص طور سے بتوں سے پاک رکھنا ہے نیز ہر قسم کی آلائشوں سے بھی۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب خانۂ کعبہ کی تعمیر ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حج کی عام منادی کر دیں۔ اس منادی کا مطلب یہ تھا کہ

اولاً یہ گھر کسی مخصوص قبیلہ ، قوم یا علاقہ کے رہنے والوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے عبادت گاہ ہے۔ لوگ یہاں آئیں اور اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ثانیاً اس گھر کی خصوصیت یہ ہے کہ حج کی عبادت اسی سے وابستہ ہے۔ حج کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ وہ مخصوص شکل میں اللہ کے حضور حاضری ہے اور توحید کا نقش دل میں بٹھا کر اس سے گہری محبت و ابستگی اور اس کے لیے قربانی کے جذبات پیدا کرنے والی عبادت ہے۔ ثالثاً حج کی عام دعوت در حقیقت توحید کو قبول کرنے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے کی عام دعوت تھی۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ لوگ اپنے رب کی طرف لپکیں اور اس کی عبادت کے لیے اس گھر کو مرجع بنائیں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی دور سے آئیں گے کہ سفر کی وجہ سے اونٹ دبلے ہو گئے ہوں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں صحرائی سفر طے کرنے کا ذریعہ اونٹ ہی تھے اس لیے اس کا ذکر ہوا اور آج تو کاروں ، بسوں ، اسٹیمروں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ لوگ دور دور کے علاقوں سے ہزاروں میل کا سفر طے کر کے حج کے لیے آتے ہیں اور ہر سال مسجد حرام میں دو ملین (بیس لاکھ) سے زائد توحید کے پروانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے معاشی اور مادی فائدے دیکھ لیں کیونکہ حج کا حکم اس طرح کے فائدوں کے لیے نہیں دیا گیا ہے بلکہ مراد دینی فائدے ہیں کیونکہ حج نہایت افضل عبادت ہے۔ مشہور مفسر علامہ حصاس لکھتے ہیں : "منافع (منفعتوں) سے بالخصوص دنیا کی منفعتیں ہرگز مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں حج کی دعوت کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیا کی منفعتیں حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے حالانکہ حج کا مطلب طواف، سعی، وقوف عرفہ و مزدلفہ، قربانی اور دیگر منا سک کی ادائیگی ہے۔ دنیوی منفعتیں اس میں طبعاً داخل ہیں اور صرف رخصت کے درجہ میں ہیں حج کا مقصد نہیں ہیں۔” (احکام القرآن ج۳ ص ۲۳۷)

حج کے دینی فائدوں میں سب سے بڑا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا تصور ہے چنانچہ حج کے دوران لبیک (خدا حاضر ہوں) کی صدا بلند کی جاتی ہے۔ پھر بیت اللہ اور شعائر اللہ کا مشاہدہ ایمان کی تقویت، اللہ کی محبت اور اس سے گہری وابستگی کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے صبر کرنے اور اس کی راہ میں مجاہدہ کرنے نیز اطاعت و تسلیم اور قربانی کے اعلیٰ جذبات کی پرورش کا سامان ہوتا ہے۔ اسلام کی تاریخ کے نقوش ابھر کر سامنے آتے ہیں حضرت ابراہیم و حضرت اسمعیلؑ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے جن کے کارہائے نمایاں سے خانۂ کعبہ کی تاریخ کے ابواب روشن ہیں عقیدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بیت اللہ کے زیر سایہ مسلمانوں کا عالمگیر اور روح پرور اجتماع امت مسلمہ کے مقصد وجود کو محسوس شکل میں پیش کرتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کے حضور تواضع اور بندی اور اس سے ملاقات کا احساس ایک ایسی روح (Spirit) پیدا کرتا ہے جو دنیا میں مومنانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے کے لیے ایک زبردست قوت اور متاعِ عزیز ہے۔ رہیں مادی اور دنیوی برکتیں تو وہ حج کے ضمنی فوائد ہیں۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یوم النحر اور ایام تشریق ہیں۔ یعنی ذی الحجہ کی دسویں گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں تاریخ۔ حدیث میں آتا ہے : کُلُّ اَیَّامِ الْتِّشرِیْقِ ذِبْحٌ” سب ایام تشریق ذبح کے دن ہیں۔ ”

یہ مسند احمد کی حدیث ہے اور اسے علامہ ناصر الدین البانی نے منا سک الحج و العمرہ میں نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث میرے نزدیک اسناد کے تمام طریقوں سے صحیح ہے۔ (کتاب مذکور صفحہ ۳۴)

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ قربانی (ہدی) ہے جو حج کے منا سک میں سے ہے یہ قربانی ان جانوروں کی جائز ہے جو مویشی (انعام) یعنی پالتو ہوں۔ یہ چار ہیں اونٹ ، گائے ، دنبہ اور بکری خواہ نر ہوں یا مادہ۔ (یہ بات سورۂ انعام آیت ۱۴۴۷۔ ۱۴۳ سے بھی واضح ہے اور حدیث سے بھی۔ اور فقہ السنۃ کے مؤلف سید سابق نے لکھا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔ کتاب مذکور ج ۱ ص ٍٍ۷۳۷)

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی صراحت ہے کہ قربانی (ہدی) کا گوشت کھانے اور کھلانے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے یعنی اس کا حکم سوختی (جس کا گوشت آگ کھا لے) کا سا نہیں ہے جو یہود کے لیے تھی جیسا کہ بائبل سے واضح ہے بلکہ یہ سادہ اور آسان شریعت ہے جو طریقۂ ابراہیم کے ٹھیک مطابق ہے۔

قربانی کا گوشت محتاجوں کو کھلانے کی خاص طور سے ترغیب دی گئی ہے لیکن اس کو قربانی کا اصل مقصد نہیں قرار دیا گیا بلکہ اصل مقصد جیسا کہ اوپر کے فرقہ سے واضح ہے مویشی چوپایوں کو الہ کے نام پر قربان کرنا ہے یعنی یہ ایک عبادت کی نوعیت کی چیز ہے اور اس سے حاصل ہونے والے دوسرے فوائد ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

مشرکین جانوروں کی قربانی بتوں اور دیوی دیوتاؤں کے نام پر کرتے رہتے ہیں لیکن اسلام نے اس طریقہ عبادت کو الہ کے لیے خاص کر دیا ہے جس کو اختیار کر کے آدمی توحید پر قائم ہو جاتا ہے اس لیے اگر حالات کی مجبوری سے گوشت کو کسی مصرف میں نہ لایا جا سکتا ہو تب بھی قربانی کرنا ضروری ہو گا اللہ کے نام پر جانور کی قربانی پیش کرنے سے قربانی کا اصل مقصد تو حاصل ہوہی جاتا ہے اور گوشت کا کسی مصرف میں آنا اس کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ حدیث میں بھی اہراق دم (جانور کا خون بہانے) کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کی اصل قدر و قیمت اسی وقت سمجھ میں آ سکتی ہے جبکہ آدمی توحید کی اہمیت کو سمجھتا ہو اور عبادت الٰہی کی قدرت و قیمت جانتا ہو۔

اگر قربانی کی اصل اہمیت گوشت کی ہوتی تو سابقہ شریعت میں قربانی کے گوشت کو جلانے کا حکم نہ ہوتا لیکن جن لوگوں کی نگاہ قربانی کی حقیقت پر نہیں بلکہ اس کے گوشت پر ہوتی ہے وہ بعض ایسے حالات میں جبکہ قربانی کے گوشت کا انتظامی دشواریوں کی بنا پر کوئی مصرف نہیں ہوتا قربانی کو عبث سمجھ کر اس کا دل صدقہ کی شکل میں تجویز کرنے لگتے ہیں حالانکہ کسی ایسی چیز کا جو تعبدی نوعیت کی ہو بدل تجویز کرنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں اور اگر عبادت کے معاملہ میں ہم نے عقلی گھوڑے دوڑانا شروع کئے تو دین کا پورا نظام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی احرام کی پابندیوں کی وجہ سے جو میل کچیل ہو جاتا ہے اسے دور کریں۔ احرام کی حالت ایک مخصوص حالت ہوتی ہے جس میں بال کٹوانا، ناخن ترشوانا اور خوشبو لگانا ممنوع ہے اس لیے جسم کی صفائی کا وہ اہتمام نہیں ہو پاتا جو عام حالت میں ہوتا ہے مگر قربانی کے بعد سر کے بال منڈائے یا  ترشوائے جاتے ہیں اور احرام اتارا جاتا ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "نذر” کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۴۵۰۔ یہاں نذر کا ذکر خاص طور سے اس لیے ہوا کہ کسی نے قربانی کی نذر مانی ہے تو وہ اس موقع پر اسے پورا کر دے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے مخاطبین کے پیش نظر خانۂ کعبہ کو قدیم گھر سے تعبیر کیا گیا کیونکہ نزول قرآن سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل حضر ت ابراہیم و حضرت اسمعٰیل علیہم السلام کے ہاتھوں اس کی تعمیر ہوئی تھی اس کا قدیم ہونا اس کی تاریخی حیثیت کو واضح کرتا ہے۔

سرمنڈانے یا بال کتروانے کے بعد منیٰ سے مکہ پہنچنا اور بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے اسے طواف افاضہ یا طوافِ زیارہ کہا جاتا ہے اور یہ حج کارکن ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرمتوں میں شعائر بھی شامل ہیں اور منا سک بھی۔ شعائر میں کعبہ، مسجد حرام، صفا و مروہ اور قربانی کے جانور جیسی خدا پرستی کی نشانیاں شامل ہیں اور ان کی تعظیم اسی طور سے مطلوب ہے جس طور سے کہ اسے مشروع قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صفا و مروہ کی تعظیم کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے درمیان سعی کی جائے۔ اس سعی کے دوران آدمی صفا اور مروہ پر پاؤں رکھتا ہے لیکن اس پر پاؤں رکھنا تعظیم کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح مسجد حرام سے نکلتے ہوئے آدمی کی پیٹھ خانۂ کعبہ کی طرف ہوتی ہے مگر یہ اس کی تعظیم کے خلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اس کو تعظیم کے خلاف سمجھ کر الٹے پاؤں چلتا ہے تو یہ تعظیم نہیں بلکہ بدعت ہو گی۔ اسی طرح جو غلاف خانۂ کعبہ پر چڑھایا جانے والا ہو اس کے لیے کوئی جلوس وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے تو اس کا شمار بھی بدعت ہی میں ہو گا کیونکہ تعظیم کا یہ طریقہ دین میں ایک نئے طریقہ کا اضافہ ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے سورۂ نحل کی آیت۱۱۵ کی طرف جس میں مرد وغیرہ کی حرمت بیان ہوئی ہے۔

مویشیوں کے حلال ہونے کا ذکر یہاں اوپر کے بیان کی مناسبت سے ہوا ہے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ نے اپنی قائم کردہ حرمتوں کی تعظیم کا حکم ضرور دیا ہے لیکن شرک اور وہم پرستی کی بنیاد پر لوگوں نے جو حرمتیں قائم کی ہیں ان کی تعظیم کا حکم اس نے ہرگز نہیں دیا ہے۔ مشرکین مکہ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کے نام سے جن مویشیوں کو حرام ٹھہرایا تھا اس کے باطل ہونے کی طرف یہ اشارہ ہے۔ گائے کی تقدیس بھی اسی حکم میں ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بتوں کی گندگی سے مراد عقیدہ و عمل کی وہ گندگی ہے جو بت پرستی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اوہام و خرافات اور ذہنی خباثت میں مبتلا رہتے ہیں۔

انسان کے نفس کا تزکیہ کرنے والی چیز عقیدۂ  توحید اور ایمان ہی ہے شرک تو انسان کے باطن کو نجاست سے بھر دیتا ہے۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بت پرستی اور شرک کی وجہ سے انسان خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہنے لگتا ہے جو بالکل جھوٹ اور باطل ہوتی ہیں ایسے لوگ خود ساختہ مذہبی رسومات کو ادا کرتے ہیں اور مخصوص جانوروں کی تقدیس کا حکم لگاتے ہیں اور جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار آ جاتا ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حلال کو حرام اور اس کے ٹھہرائے ہوئے حرام کو حلال قرار دیتے ہیں۔

حدیث میں شہادتِ زور (باطل کی گواہی) کوسنگن گناہ قرار دیا گیا ہے۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الا اُنَبِّئُکمْ باَکبر الکبائرِ؟ قلنا بَلٰی یارسول اللّٰہ؟ قال: الاشراک باللّٰہ، وُعقُوق الوالدین، وکانَ مُتّکئِاً فجلس فقالَ: اَلاَ وقول والزُّور و شہادۃ الزور۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ بڑے بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ کون سے ہیں ! ہم نے عرض کیا ضرور اے اللہ کے رسول۔ فرمایا: "اللہ کا شریک ٹھہرانا اور والدین سے قطع تعلق” آپ آرام فرما تھے کہ اٹھ بیٹھے اور فرمایا: "سنو جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ ”

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توحید کی راہ اختیار کرو اور اس پر قائم رہو کسی قسم کے شرک کی آمیزش کے بغیر۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرک کے انجام کی مثال ہے۔ انسان جب شرک کرتا ہے تو فطرت کی بلندی سے گرتا ہے۔ بلندی سے گرتے ہی اسے شیاطین پرندوں کی طرح اچک لے جاتے ہیں اور اس کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جب وہ بلندی سے گرا تو ہواؤں نے اسے دور لے جا کر کسی گڑھے میں پھینک دیا اور واقعہ یہ ہے کہ شرک کے نتیجہ میں انسان خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے اور خواہشات اسے پستی کی طرف لے جا کر تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ چنانچہ ایک مشرک میں کبھی فکری بلندی پیدا نہیں ہو پاتی بلکہ وہ ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے پستی ہی کی طرف مائل رہتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شعائر کی تعظیم محض رسمی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق دل کے تقویٰ سے ہے۔ شعائر کو دیکھ کر اللہ کی عظمت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور اللہ کی عظمت کا تصور خوف اور پرہیزگاری پیدا کرتا ہے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ھَدْی (حج کی قربانی) کے جانوروں کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور ان سے سواری کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ پھر ان کو قربان کرنے کی جگہ بیت اللہ کے پاس ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ قربانی منٰی میں بھی کی جا سکتی ہے اور مکہ میں بھی۔ وَکُلُّ مِنٰی وَکُلُّ فِجَاجِ مَکَّۃَ مَنْحَر۔ "منیٰ پورا قربان گاہ ہے اور مکہ کے تمام راستے قربان گاہ ہیں۔” (ابوداؤد کتاب الصیام)

گویا قربان گاہ بیت اللہ کے جوار سے منی تک وسیع ہے لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے موقع پر منیٰ میں قربانی کی تھی اس لیے منیٰ میں قربانی کرنا مسنون ہے اور مسجد حرام کے ماحول کی نظافت کے پیش نظر یہی مناسب ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس سے پہلے دوسری شریعتوں میں قربانی کے طریقے مختلف رہے ہیں مثلاً اہل کتاب میں سوختی (آتشیں) قربانی کا طریقہ رائج تھا (احبار ۲۲:۱۷تا ۳۳) لیکن قربانی کا اصل اصول تمام شریعتوں میں یہی تھا کہ صرف اللہ کے لیے قربانی کی جائے۔ اس کے بخشے ہوئے جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یا قربان کرنا کسی شریعت میں بھی روا نہیں رہا۔ اس لیے جن مذاہب میں اللہ کے سوا کسی اور کے لیے قربانی کا طریقہ رائج ہے وہ ایک مشرکانہ بدعت ہے۔ اللہ کے دین اور اس کی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قربانی کی اصل اسپرٹ کہ آدمی توحید کا اقرار کرے ، اپنے کو مکمل طور پر اس کے حوالہ کرے اور اپنے اندر عجز و نیاز کی صفت پیدا کرے۔ جانور کو زمین پر گرا دینے کا مطلب در حقیقت اپنے کو اللہ کے آگے گرا دینا ہے۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہل ایمان کی اہم ترین خصوصیت ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر ہوا دل کانپ اٹھے۔ اللہ کے معاملہ میں وہ بڑے حساس ہوتے ہیں۔ اور اس کے ذکر سے ان کے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اونٹ کے ذبیحہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور مشرکین غیر اللہ کے لیے اونٹ کو نامزد کرتے تھے۔ قرآن نے اس کے برعکس اللہ کے نام پر اونٹ کو ذبح کرنا جائز ٹھہرایا اور اس کی قربانی کو شعائر اللہ میں سے قرار دیا۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو کھڑا کر کے اس کے حلق میں برچھی چبھو دی جائے۔ یہ طریقہ "نَحر” کہلاتا ہے۔ اس طرح خون بہنے لگتا ہے اور اونٹ خود بخود اپنے پہلو پر گر جاتا ہے۔ اگر اونٹ جیسے جانور کو لٹا کر ذبح کرنے کا حکم ہوتا تو اس میں دشواری ہوتی۔ ان کو صف بستہ کھڑا کرنے میں عبادت الٰہی کی شان کا بھی اظہار ہے۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ذبح کرنے کے بعد جب ان کی جان نکل جائے تو ان کا گوشت کھانے کے کام میں لاؤ۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہَدْی (حج کی قربانی) کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہیں۔ ضرورت مندوں کو خواہ وہ قناعت پسند ہوں یا سائل، کھلانے کی خاص طور سے ہدایت کی گئی ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے قربانی کی اصل روح اور اس کی غایت کہ اللہ کو اس کا خون اور گوشت مطلوب نہیں بلکہ تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیزگاری) مطلوب ہے۔ اور قربانی کی عبادت اسی لیے مشروع ہوئی ہے تاکہ تقویٰ کے جذبات پرورش پائیں۔

قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی پشت پر تقویٰ کا جذبہ کار فرما نہ تھا (سورۂ مائدہ آیت ۲۷) ۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی حکم کی تعمیل میں قربانی کے جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر (اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے) کہا جاتا ہے۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حج کا بیان اوپر ختم ہوا۔ اب کلام کا رخ جہاد کی طرف پھر رہا ہے جو ظلم کو دفع کرنے کے لیے بھی ضروری تھا اور مسجد حرام کو مشرکوں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے بھی۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کا حکم بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل ایمان کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ ان کی طرف سے مدافعت کرے گا یعنی کفر و اسلام کی جنگ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل ایمان کو حاصل ہو گی اور وہ کافروں کی چالوں کو ناکام کر دے گا۔ ایسا اس لیے کرے گا کہ وہ خیانت کرنے والوں اور نا شکری کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ قریش اور ان کے ساتھی خائن ہیں کیونکہ خانۂ کعبہ کی جو امانت ان کے سپرد ہوئی تھی اس میں وہ اس خیانت اور بد عہدی کے مرتکب ہوئے کہ اس میں بت لا کر بٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے کے بجائے شرک اور ناشکری کی راہ اختیار کی۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ پہلی آیت ہے جس میں جہاد (اللہ کی راہ میں جنگ) کرنے کی اجازت دی گئی یہ ۰۱ھ کے اواخر کی بات ہے۔ اس آیت میں جنگ کی اجازت کے دو وجوہ بیان کئے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مشرکین مکہ نے اہل ایمان کے خلاف خود جنگ چھیڑ دی ہے چنانچہ صورتحال یہ تھی کہ جہاں وہ موقع پاتے مسلمانوں کے ایک نہ ایک گروہ پر حملہ کر دیتے یعنی مدینہ میں بھی ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا بلکہ ان کے خلاف جارحانہ حملوں کا آغاز کر دیا گیا۔ (اس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے) دوسری وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ اہل ایمان مظلوم ہیں ان کا مظلوم ہونا بالکل ظاہر ہے کیونکہ ان کو ناحق اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اب اگر وہ اپنی مدافعت میں تلوار اٹھاتے ہیں تو ایسا کرنے میں وہ بالکل حق بجانب ہیں۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین مکہ نے اہل ایمان کو جو گھر سے بے گھر کیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ توحید کے قائل تھے اور شرک اور بت پرستی سے انہیں انتہائی نفرت تھی۔ ان کی یہ خوبی مشرکین کی نظر میں نہ صرف عیب بلکہ جرم تھی گویا اللہ کے وفادار بندوں کو اللہ کی زمین پر جینے کا حق نہیں ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت (قاعدہ) کا اعلان ہے جس کے مطابق وہ ظالم اور مفسد قوم کا سر کچلنے کے لیے کسی نہ کسی قوم کو اٹھاتا رہتا ہے اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کوئی قوم یا گروہ ظلم پر اتر آیا ہے تو اس کو ہٹانے کا سامان کسی دوسری قوم یا گروہ کے ذریعہ ہوتا رہا ہے۔ اس کی مصلحت یہاں واضح فرما دی کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ عبادت گاہیں جن میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے خواہ وہ نصاریٰ کی ہوں یہود کی ہوں یا مسلمانوں کی ظالموں کے ہاتھوں کبھی مسمار ہو چکی ہوتیں۔

اس سنت الٰہی کو بیان کرنے سے مقصود یہاں یہ واضح کرنا ہے کہ قریش نے مسجد حرام کے تقدس کو باقی نہیں رکھا اور مدینہ کے مسلمانوں پر اس کے دروازے بند کر دئے ہیں۔ ان کے اس ظلم کو دفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے گروہ کو میدان میں لا رہا ہے۔

واضح رہے کہ آیت میں جن عبادت گاہوں کا ذکر ہوا ہے وہ یا تو اہل کتاب سے تعلق رکھتی ہیں یا مسلمانوں سے کیونکہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس لحاظ سے وہ قابل احترام ہیں۔ رہے بت پرستوں کے مندر تو ان میں اللہ کا ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ بتوں کو پوجا جاتا ہے اس لیے ان کی نوعیت مذکورہ عبادت گاہوں سے بالکل مختلف ہے۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی مدد کرنے کا مطلب اس کے دین کی مدد کرنا اور اس کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے جہاد کرنا ہے ورنہ اللہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے بلکہ بندے اس کی مدد کے محتاج ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ کی دو صفتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ وہ قوت والا ہے اور دوسری یہ کہ وہ غالب ہے۔ اس کے بعد کسی غلط فہمی کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ ایک گروہ ایسا تیار ہو گیا ہے جس کو اگر اللہ تعالیٰ اقتدار بخشے تو وہ نماز اور زکوٰۃ جیسے دین کے بنیادی ارکان کو قائم کرنے والا ہو گا۔ وہ فساد کی جگہ زمین میں اصلاح کا کام کرے گا بھلائیوں کو پھیلائے گا اور برائیوں کو مٹائے گا۔

معلوم ہوا کہ جو لوگ ان خصوصیات کے حامل ہوں وہی اقتدار کے مستحق اور حکومت کرنے کے اہل ہیں۔

یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ایک ایسا گروہ برپا ہو گیا تھا جو خلافت و حکومت کا اہل تھا چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب پر اقتدار حاصل ہوا تو آپ کے اصحاب اس کا مصداق ثابت ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت قائم ہوئی تو وہ اس کا عملی نمونہ تھے۔ مگر مسلمانوں کا ایک فرقہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلو کر کے صحابہ کرام کی پوری جماعت کو بجز چند اصحاب کے مطعون کرتا ہے اور تینوں خلفاء کو غاصب ٹھہراتا ہے۔ ان کا یہ اعتقاد اس بات سے صریح انحراف ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے اور ان کی گمراہی کے لیے یہ ایک دلیل ہی کافی ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی بھی معاملہ کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے اس لیے حالات کیسے ہی ہوں ہو جو کچھ چاہتا ہے ظہور میں آ کر رہے گا۔ یہ اشارہ تھا اس بات کی طرف کہ اہل ایمان کو بالآخر اقتدار حاصل ہو گا۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر یہ آپ کو جھٹلاا رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی کتنی قومیں اپنے اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلا چکی ہیں۔ مثال کے طور پر نوح کو ان کی قوم نے جھٹلایا تھا اسی طرح عاد نے اپنے پیغمبر ہود کو اور ثمود نے اپنے پیغمبر صالح کی تکذیب کی تھی۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مدین والوں نے اپنے پیغمبر شعیب کو جھٹلایا تھا۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ کو ان کی قوم بنی اسرائیل نے نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون والوں نے جھٹلایا تھا۔

اس لیے مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا کہ "موسیٰ جھٹلائے گئے تھے۔”

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس زمانے میں جب کہ قرآن نازل ہو رہا تھا تباہ شدہ قوموں کے آثار عرب کے مختلف علاقوں میں موجود تھے اور یہ اس بات کا تاریخی ثبوت تھا کہ انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے کے نتیجہ میں یہ قومیں اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔

کنویں صحرا میں بڑی اہمیت رکھتے تھے مگر جب بستیاں تباہ ہو گئیں تو یہ بیکار ہو کر رہ گئے۔ اسی طرح شاندار محل ویران ہو گئے۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ سفر کرتے رہتے ہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ان کے مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں مگر وہ کبھی ان کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔

یہی حال موجودہ زمانہ کی اثری تحقیقات کرنے والوں اور آثار قدیمہ کی زیارت کرنے والوں کا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ ان گزری ہوئی قوموں نے آرٹ کے کیسے نمونے پیش کئے اور ان کی تہذیب کیا تھی؟ رہی یہ بات کہ انہوں نے زمین میں بناؤ کا کام کیا یا بگاڑ کا؟ اپنے رب کے ساتھ شکر گزاری کا رویہ اختیار کیا تھا یا نا شکری کا؟ انہوں نے جو نمونے پیش کئے ہیں وہ آرٹ کے ہیں یا اسراف کے ؟ ان کی تہذیب دنیا پرستانہ تھی یا آخرت کو نصب العین قرار دینے والی؟ تو ان باتوں سے وہ تعرض ہی نہیں کرتے کیوں کہ ان کو ان باتوں سے دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔ نتیجہ یہ کہ حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل کے اندھا ہونے کا مطلب بصیرت سے محروم ہونا ہے آدمی سر کی آنکھوں سے ظاہری حالات کو دیکھتا ہے مگر ان کے اندر حقیقت تک رسائی کا جو سامان ہے اس کو دیکھنے کے لیے دل کی آنکھیں درکار ہوتی ہیں یعنی بصارت کے ساتھ بصیرت کی بھی ضرورت ہے۔ ورنہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود آدمی کچھ بھی نہیں دیکھتا۔ یہی دل کا اندھا پن ہے۔ آیت میں جس اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ انسان کے تمام باطنی قویٰ کا مرکز قلب (دل) ہے جو سینہ کے اندر ہوتا ہے یعنی اس کا باطن حدیث نبوی میں بھی اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا ہے :

اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الجَسَدُ کُلُّہٗ وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلاَ وَہِیَ الْقًلْبُ (بخاری کتاب الایمان) "اچھی طرح سمجھ لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے آگاہ ہو جاؤ کہ وہ قلب ہے۔ ”

اور واقعہ یہ ہے کہ انسان کے تمام احساسات و جذبات کا مرکز دل ہی ہے جبکہ دماغ کی حیثیت ایک سوچنے والے آلہ اور ایک معاون کی ہے۔ محبت و نفرت ،دوستی اور دشمنی، خلوص اور بدنیتی، ہمدردی اور شقاوت، سبق آموزی اور بے حسی جیسی باتیں دل ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے اگر قرآن نے عقیدہ و عمل کے لیے اصل محرک قلب کو قرار دیا ہے تو اس نے درحقیقت ایک بہت بڑی حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہو کہ وقت کے جو پیمانے تم نے قائم کئے ہیں اور جس کی بنا پر تم عجلت اور تاخیر کا حکم لگاتے ہو وہی پیمانے اللہ کے ہاں بھی ہیں۔ نہیں بلکہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس کے نزدیک وقت کا پیمانہ تمہارے پیمانوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے نزدیک ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ گویا کسی قوم کے لیے چند سالوں کی مہلت کائناتی گھڑی کے حساب سے محض چند منٹوں کی مہلت ہے۔

اب تو یہ بات انسان کے علم میں آ چکی ہے کہ مختلف سیاروں میں دن کی مقدار زمین کے دن کی مقدار سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا اگر قرآن یہ خبر دیتا ہے کہ قوموں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے وقت کا جو پیمانہ اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس کی رو سے ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میرا کام تو اللہ کی نافرمانی کے نتائج بد سے آگاہ کر دینا ہے اس کے بعد ماننا یہ نہ ماننا تمہارا کام۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں اہل ایمان کو جو رزق ملے گا وہ نہ صرف عمدہ اور نفیس ہو گا بلکہ اعزاز کے ساتھ ملے گا۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اصلاً کافروں کے تعلق سے کہی گئی تھی مگر موجودہ زمانہ میں ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جو اپنے سیاسی اور دنیوی مفادات کے پیش نظر قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات کو نیچا دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ یہ سمجھنا صحیح نہیں کہ قرآن میں جو باتیں کافروں کے تعلق سے کہی گئی ہیں وہ کافروں کے لیے مخصوص ہیں بلکہ وہ اصولی باتیں ہیں اور ایک مسلمان کا کسی کافرانہ طرز عمل کو اختیار کرنا اتنا ہی قابل مذمت ہے جتنا کہ ایک غیر مسلم کا اس کو اختیار کرنا۔

۸۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول اور نبی میں منصب کی حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر اس کی ذمہ داریاں ایک نبی سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبی بھی تھے اور رسول بھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مریم نوٹ ٍٍ۷۱۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی بھی رسول اور نبی کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ جس حق کو لیکر وہ آیا ہے اس کو لوگ قبول کر لیں مگر جب وہ اپنی یہ دعوت پیش کرتا ہے تو شیطان لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کر کے پیغمبر اور اس کی دعوت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتا ہے اور لوگوں کو اس کی مخالفت پر اکساتا ہے اس طرح شیطان پیغمبر کی امنگ میں خلل ڈالتا ہے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے۔ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ ایک طرف آپ کی یہ دلی تمنا تھی کہ آپؐ کی قوم آپ پر ایمان لائے اور دعوتِ حق کو قبول کر کے اللہ کی رحمتوں کی مستحق بن جائے اور دوسری طرف قوم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ کی دعوت کو برداشت کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہیں تھی یہاں تک کہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس موقع پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آ رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ یہی معاملہ پیش آتا رہا ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسے مٹ جاتے ہیں اور حق اس طرح نکھر کر سامنے آ جاتا ہے جیسے بادلوں کے چھٹ جانے سے چاند روشن ہو کر سامنے آ گیا ہو۔

قرآن کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ شیطان کی وسوسہ اندازی کے نتیجہ میں جو شبہات پیدا ہو گئے تھے ان کا ازالہ ہو گیا اور دین حق اس طرح جلوہ گر ہو گیا کہ اس پر کوئی غبار نہ تھا۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی ان دو صفتوں کو یہاں بیان کرنے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ جو کچھ نبی کے ساتھ پیش آتا ہے وہ مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے ساتھ جو معاملہ کرتا ہے وہ علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے لہٰذا یقین رکھو کہ شیطان نے جو شر پیدا کیا ہے اس کے مقابلہ میں اللہ خیر ابھارے گا۔

آیت کا جو مفہوم ہم نے اوپر بیان کیا وہ نہ صرف سیاق و سباق کے مطابق ہے بلکہ اس سے ملتی جلتی جو باتیں قرآن میں دیگر مقامات پر ارشاد ہوئیں ہیں اس سے بھی مطابقت رکھتا ہے لیکن بعض مفسرین نے ایک موضوع حدیث کا سہارا لیکر اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کو سورۂ والنجم سنا رہے تھے جس میں بت پرستی کی مذمت کی گئی ہے تو شیطان نے آپ کی زبان پر بتوں کے لیے تعریفی کلمات (تلک الغرانیق) جاری کر دئے یہی شیطان کا القاء تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے بعد میں منسوخ کر دیا جیسا کہ بعد کی آیت میں بیان ہوا ہے۔

یہ روایت ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر جامع البیان میں جو عربی کی مشہور اور قدیم ترین تفسیر ہے بلا تحقیق بیان کر دی۔ اس کے بعد کچھ دوسرے مفسرین نے مکھی پر مکھی چپکانے کا کام کیا لیکن اکثر مفسرین ، محدثین اور علماء نے اس کا سخت نوٹس لیا اور اس روایت کو موضوع اور باطل قرار دیا چنانچہ امام رازی نے اپنی تفسیر میں اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ قصہ موضوع ہے۔ (تفسیر کبیر ج ج۲۳ص۵۱)

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں :

"اس قصہ کی تمام روایتیں مرسل (منقطع) ہیں اور میرے دیکھنے میں نہیں آیا کہ کہیں صحیح اسناد کے ساتھ متصلاً بیان ہوا ہے۔” (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۲۲۹)

اور علامہ آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں :

بہت سے محققین نے اس قصہ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بیہقی کہتے ہیں یہ قصہ عقل کی رو سے ثابت نہیں ہوتا اور قاضی عیاض الشفاء میں فرماتے ہیں اس حدیث کو بے وقعت قرار دینے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس کو اہل صحت (اصحاب صحاح ستہ) میں سے کسی نے بیان نہیں کیا اور نہ کسی ثقہ راوی نے اسے صحیح سلیم اور متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے بلکہ اس سے صرف ایسے مفسرین اور مورخین کو دلچسپی رہی ہے جنہیں ہر غریب (غیر معروف) روایت سے دلچسپی ہوتی ہے اور جو کتابوں سے ہر صحیح و  سقیم روایت کو اخذ کرتے ہیں اور "بحر” میں ہے اس قصہ کے بارے میں امام محمد بن اسحاق السیرۃ النبویہ کے مؤلف سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ زندیقوں کا گھڑا ہوا ہے۔” (روح المعانی ج ۶ ص ۱۷۷)

علامہ آلوسی نے اس قصہ کی تردید میں مبسوط بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا آسان ہے کہ شیطان نے بعض راویوں کی زبان پر یہ بات القاء کر دی تھی بہ نسبت اس کے کہ رسولؐ اللہ کی زبان پر شیطان نے غرانیق (بتوں کی تعریف) کی بات القاء کی تھی۔ ملاحظہ ہو روح المعانی ج ۲ ص ۱۸۲) اردو میں علامی شبلی اپنی محققانہ تصنیف "سیرۃ النبیؐ” میں اس قصہ کو بے ہودہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ قصبہ اگرچہ سرتاپا بیہودہ اور ناقابل ذکر ہے اور اکثر کبار محدثین مثلاً بیہقی، قاضی عیاض ، علامہ عینی، حافظ منذری، علامہ نووی نے اس کو باطل اور موضوع لکھا ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ بہت سے محدثین نے اس روایت کو بہ سند نقل کیا ہے” (سیرت النبی ج ۱ ص ۲۲۴)

اور مولانا مودودی نے اپنی وقیع تفسیر”تفہیم القرآن” میں اس پر مبسوط اور مدلل بحث کرتے ہوئے اس روایت کے پرخچے اڑا دئے ہیں اور اخیر میں لکھا ہے :

"خدا کی پناہ اس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال یا راویوں کی ثقاہت یا طرق روایت کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔” (تفہیم القرآن ج ۳ ص ۲۴۴)

دراصل یہ روایت اس قدر بیہودہ ہے کہ اس کو بیان کرنا بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اسی لیے ہم نے اس کو پوری طرح نقل بھی نہیں کیا بلکہ اس کا خلاصہ بیان کرنے پر اکتفاء کیا۔ یہ روایت قرآن کی تصریحات کے بالکل خلاف اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صریح بہتان ہے اس لیے اس کو رد کرنے کے لیے یہ ایک بات ہی کافی ہے مگر جو لوگ روایت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی تاویل کے ذریعہ ایک ایسی بات کو بھی قبول کر لیتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ راویوں پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہتے اگرچہ پیغمبر کی شخصیت مجروح ہو رہی ہو۔ قبولِ حدیث کا یہ معیار سراسر غلط ہے خواہ فن حدیث کا کوئی ماہر ہی اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور کیوں نہ لگائے قرآن فرقان یعنی کسوٹی ہے اس لیے جو روایت اس کسوٹی پر کھوٹی ثابت ہو وہ رد اور باطل ہے۔ ایسی روایت کو فن حدیث کی بحثوں میں الجھا کر صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

اور جہاں تک آیت زیر تفسیر کا تعلق ہے اس میں تو یہ بات عمومیت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ شیطان کس طرح ایک نبی کی امنگ میں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی سورۂ انعام آیت ۱۱۳، ۱۱۴ میں بیان ہوئی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص قرار دیا جائے اور نہ اس تکلف کی ضرورت ہے کہ تَمنّٰی کے معنی معروف معنی سے ہٹ کر پڑھنے اور تلاوت کرنے کے لیے جائیں جیسا کہ متعدد مفسرین نے لیے ہیں۔ مزید برآں جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ مکی دور سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا زمانہ ہجرت حبشہ کے کچھ عرصہ بعد کا بتایا جاتا ہے۔

جب کہ سورۂ حج مدنی تنزیل ہے جیسا کہ اس کے مضامین (ہجرت جہاد وغیرہ کے احکام اور حج سے مسلمانوں کو روک دینے کے بیان) سے ظاہر ہے اس لیے اس سورہ کی زیر تفسیر آیت کا اس شانِ نزول سے کوئی تعلق نہیں ہے جو اس قصہ میں بیان ہوا ہے۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان حالات سے نبی کو اس لیے گزارتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات ان لوگوں کے لیے وجہ آزمائش بن جائیں جن کے دلوں میں بیماری ہے اور جن کے دل سخت ہو گئے ہیں۔ روگ سے مراد متعصبانہ اور مجرمانہ ذہنیت ہے اور دلوں کے سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ نتیجہ ہے اسی گنہگارانہ ذہنیت کا۔ ایسے لوگ جب شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کے ذریعہ آزمائش میں پڑتے ہیں تو وہ اس کے فتنہ کا شکارہو جاتی ہیں اور ان کے دلوں کا کھوٹ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے اور ان کی مخالفت میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ جہالت کی تاریکی میں نہیں رہتے بلکہ علم کی روشنی میں چلتے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ فضا شکوک و شبہات سے مکدر ہو گئی ہے تو سمجھتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی فتنہ پردازی ہے اور نبی کی دعوت برحق ہے۔ حق و باطل کی یہ کشمکش ان کے لیے غیر متوقع نہیں ہوتی اور اس کشمکش کو دیکھ کر ان کے ایمان اور زیادہ پختہ ہو جاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں کہ اس آزمائش کے پیچھے اس کی عظیم حکمت کارفرما ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں وہ پیغمبر کی بات کسی دلیل سے ماننے والے نہیں۔ وہ اپنے انکار پر جمے رہیں گے اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں گی جب وہ قیامت کو دیکھ لیں گے یا اس عذاب کو جو کفر کی پاداش میں ان پر آئے گا۔

محرومی کے دن سے مراد خیر سے محرومی کا دن ہے۔ یعنی ہلاکت کا دن۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قیامت کا دن ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہجرت اسلام میں وہی معتبر ہے جو اللہ کی راہ میں ہو یعنی جو خالصۃً اللہ کے لیے اور اس کے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کی غرض سے کی گئی ہو حدیث میں آتا ہے :

اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیِ وانمالِامْرِیٔ مَّانَویَ فَمَنْ کَانَتْ ہَجرتُہُ اِلٰی اللّٰہِ ورسُولِہِ وَمَنْ کاَنَتْ ہِجرتُہُ اِلٰی دُنیا یُصیْبُہَا اَوْ اِمْراۃٍ یتزوجہا فہجرتُہُ الی مَاہَاجَرَ اِلیْہِ۔ (بخاری کتاب الایمان والنذر) "اعمال نیتوں پر موقوف ہیں۔ آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔ تو جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے اور جس کی ہجرت دنیا کے حصول یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے و تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ ”

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نساء نوٹ ۱۷۷

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد آخرت کا رزق ہے۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد جنت ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ جانتا ہے کون لوگ اس انعام کے مستحق ہیں اور وہ ان کے ساتھ نہایت عالی ظرفی کے ساتھ معاملہ کرے گا۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ان کے لیے آخرت میں یہ انعام ہے۔ رہی ان کی مظلومانہ زندگی تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ان مظلوموں کی مدد فرمائے گا۔

ہجرت کے بعد مشرکین مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کر دی تھی جیسا کہ آیت ۳۹ سے واضح ہے۔ مدینہ کے باہر سفر کرنے والے مسلمان پر ان کے حملوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس موقع پر مسلمانوں کو اس آیت کے ذریعہ ہدایت دی گئی کہ زیادتی کے جواب میں وہ ویسی ہی زیادتی کر سکتے ہیں اور اگر اس کے بعد زیادتی کا سلسلہ نہیں رکا تو اللہ تعالیٰ مظلوموں کی تائید اپنی نصرت خاص سے کرے گا چنانچہ جب مشرکین مکہ کی جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ نہیں رکا تو انہوں نے مظلوم اہل ایمان کے خلاف جنگی اقدام کیا تو بدر کے معرکہ میں اہل ایمان کے لیے نصرتِ الٰہی نازل ہوئی۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مظلوم اہل ایمان کے لیے تسلی ہے کہ اللہ ان کے قصوروں کو معاف کر دے گا اور انہیں بخش دے گا۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو ہستی رات اور دن کے ہیر پھیر پر قادر ہے وہ یقیناً اس بات پر بھی قادر ہے کہ ظلم کے گھٹاؤں کو ختم کر کے انصاف کی ہوائیں چلائے۔ پھر وہ اپنے مظلوم اور وفادار بندوں کی مدد کیو ں نہیں کرے گا جبکہ وہ سب کچھ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مشرکین جب معبودوں کو پکارتے ہیں وہ باطل ہیں کسی کی مدد کرنے پر ہرگز قادر نہیں لیکن اللہ حقیقی معبود ہے اور وہ مدد کرنے پر یقیناً قادر ہے پھر وہ کفر و اسلام کی اس کشمکش میں اہلِ ایمان کی مدد کیوں نہیں کرے گا۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں اللہ کی دو صفتیں علی اور کبیر بیان ہوئی ہیں۔ علی کی صفت اس کے مرتبہ کو ظاہر کرتی ہے اور کبیر کی صفت اس کی قدرت اور اقتدار کی عظمت کو۔

شرک کرنے والے اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کی شان کے بھی خلاف ہوتی ہیں اوراس کے اقتدار کے بھی منافی۔ بالفاظ دیگر وہ اللہ کو مانتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اس کے علی اور کبیر ہونے کی نفی کرتے ہیں جبکہ اللہ کو ماننا وہی معتبر ہے جس سے ان صفات کی نفی نہ ہوتی ہو جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگ بارش اور زمین کے سر سبز ہونے کے منظر کو دیکھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے اگر غور کرتے تو خدا کی صحیح معرفت (پہچان) انہیں حاصل ہو جاتی۔ خشک زمین کا بارش کے چھینٹے گرتے ہی سرسبز ہو جانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب ایک ایسی ہستی کی کار فرمائی ہے جو نہایت لطیف تدبیر کرنے والی اور حالات سے باخبر رہنے والی ہے۔ لہٰذا خدا کے بارے میں اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اس نے دنیا کے بارے میں اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ اس نے دنیا کو پیدا تو کیا لیکن اب اس کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کی نہ اسے خبر ہے اور نہ اس سے اسے کوئی سروکار۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ہستی پوری کائنات کی مالک ہو وہ کب کسی چیز کی محتاج ہو سکتی ہے۔ اس لیے اللہ کی یہ صفت کہ وہ ہر قسم کی ضرورتوں سے بے نیاز ہے ایک واضح حقیقت ہے اور یہ حقیقت بالکل آشکار ہے کہ کمالات اور خوبیوں سے متصف اور تعریف کا مستحق ہے۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری خدمت میں لگا دی ہیں۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجرام سماوی کا فضائے بسیط میں معلق رہنا اور آسمان کا چھت کی صورت میں قائم رہنا اس طور سے کہ کبھی اس کا کوئی ٹکڑا زمین پر نہ گرے کیا یہ یقین انسان میں پیدا نہیں کرتا کہ کائنات کا رب انسان کے حق میں بڑا شفیق اور مہربان ہے !

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہے اور دوسری زندی اصلاً مکمل نعمت ہے بشرطیکہ انسان اس نعمت کا قدر شناس ہو اور اپنی ذمہ داری کو ادا کرے۔ رہی موت تو وہ عارضی زندگی اور ابدی زندگی کے درمیان ایک عبوری مرحلہ ہے۔ مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر کے انسان زندگی کی نعمت کو ضائع کر دیتا ہے اور اپنے رب کا ناشکرا بنتا ہے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورۂ میں حج کے جو منا سک بیان کئے گئے اس پر بعض گوشوں سے اور خاص طور سے مدینہ کے یہود کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہو گا کہ اگر ے طریقۂ عبادت اللہ کی طرف سے مقرر ہے تو دوسرے نبیوں کی امتوں میں اللہ کی عبادت کے دوسرے طریقے کس طرح رائج ہو گئے۔ مثلاً یہود کی شریعت میں قربانی کا طریقہ تو ہے لیکن اونٹ کی قربانی کو شعائر اللہ میں سے نہیں قرار دیا گیا اسی طرح قربانی کے لیے حج کے ایام مخصوص نہیں کئے گئے ہیں یا یہ کہ یہود کے ہاں سبت منانے کا حکم ہے لیکن قرآن کی شریعت میں یہ حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہاں فرمایا گیا کہ ہم نے ہر امت کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا تھا جس پر وہ چلتی رہی۔

مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کے طور طریقے مقرر کرنے میں حالات کو لحاظ سے فرق رہا ہے۔ اب اگر اللہ کی حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ آخری نبی کی امت کے لیے ایک مخصوص طریقہ عبادت مقرر کر دیا جائے تو اس پر کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے ؟ کیا اللہ کی عبادت کا طریقہ مقرر کرنے میں لوگوں کی مرضی کا دخل ہونا چاہیے یا اللہ کو یہ حق ہے کہ وہ جو طریقہ چا ہے مقر ر کر دے ؟

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اصول حقیقت ان لوگوں کے سامنے پیش کرنا کافی ہے۔ اس مسئلہ پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی عبادت کے طور طریقوں میں اختلاف کے مسئلہ پر بحث کو طول دینے کے بجائے اصل دعوت کو پیش کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے پیغمبر جس طریقہ عبادت کو تم اختیار کئے ہوئے ہو وہ اس وحی کے مطابق ہے جو تم پر کی گئی ہے اس لیے تم ہدایت پر ہو اور ہدایت کی یہی راہ ہے جو سیدھی اللہ تک پہنچتی ہے۔

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شرک کی تردید کے لیے جو آگے کی جا رہی ہے تمہید ہے کہ اللہ جس کو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم ہے اور جس نے کائنات کی تمام موجودات اور واقعات کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کا سامان کیا ہے اس کے علم میں تو یہ بات نہیں ہے کہ کہیں کسی اور خدا کا وجود ہے۔ اگر کوئی اور خدا یا دیوی دیوتا ہوتے تو اس کو اس کی خبر کیسے نہیں ہوتی؟

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کے مستحق عبادت ہونے کے بارے میں نہ وحی الٰہی کی کوئی حجت موجود ہے اور نہ کوئی عقلی و فطری دلیل جس کو علم سے تعبیر کیا جا سکے۔

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اللہ کی آیتوں میں خالصتہً توحید کا ذکر ہوتا ہے اور ان کے معبودوں کو باطل قرار دیا جاتا ہے اس لیے آیتوں کو سن کر ان کے چہروں پر ناگواری کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس ناگواری سے بھی بدتر چیز۔ مطلب یہ ہے کہ ناگواری کی بدترین کیفیت وہ ہو گی جو تم دوزخ میں محسوس کرو گے۔

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکھی نہایت حقیر جاندار ہے اور جب مشرکین کے خدا سب مل کر بھی اتنی حقیر چیز پیدا نہیں کر سکتے تو کیا پیدا کر سکتے ہیں ؟ اور جب کچھ نہیں پیدا کر سکتے تو خدا کیونکر ہوئے ؟

۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ اپنے بتوں پر شہد اور زعفران لیپ دیتے تھے اور مشرکین ہند ان کے سامنے مٹھائی پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے خداؤں کے سامنے کھانا پیش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ان خداؤں کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ اگر مکھی ان کے کھانوں میں سے کچھ اڑا لے جاتی ہے تو وہ اس کو واپس نہیں لے سکتے۔

۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پرستار بھی کمزور اور معبود بھی کمزور۔ ایسے معبودوں کی پرستش سے ان کے پرستاروں کو کیا فائدہ پہنچنے والا ہے ؟

اس عام فہم مثال کے ذریعہ شرک اور بت پرستی کی تردید اتنے موثر انداز میں کی گئی ہے کہ اس کے باطل ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن انسان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اندھی عقیدت میں مبتلاہو جاتا ہے پھر وہ ہوش و حواس سے کام لینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی جبکہ "عقل” کی پرواز آسمانو ں میں ہے انسان اپنے رب حقیقی کو پا نہیں سکا ہے اور کتنی ہی قومیں ہیں جنہوں نے اینٹ پتھر کو خدا بنا لیا ہے۔

۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ زبردست طاقت والا اور سب پر غالب ہے۔ جس شخص کے ذہن میں اللہ کی عظمت کا یہ تصور ہو وہ کسی اور کے خدا ہونے کا قائل ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ کے سوا نہ کوئی طاقتور ہے اور نہ غالب۔ شرک کرنے والے اس لیے متعدد خداؤں کے قائل ہوتے ہیں کہ ان کا تصور خدا صحیح نہیں ہوتا۔ وہ اللہ کی عظمت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اسے فروتر خیال کرتے ہیں۔

۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین رسالت کے قائل نہیں ہوتے البتہ خدا کے لیے بیٹے بیٹیوں یا اوتار کے قائل ہوتے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ اپنے خاص بندوں کو جو اونچے سے اونچا مقام عطا کرتا ہے وہ کیا ہے۔ فرمایا وہ مقام رسول (پیغامبر) ہونے کا ہے جو اللہ کا بندہ ہی ہوتا ہے نہ کہ خدا۔

اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے ان ہی میں سے ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اس کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کی گراں بار ذمہ داری کو اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں اور ان رسولوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وہ فرشتوں میں سے پیغامبر منتخب کرتا ہے جو اللہ کا پیغام اس کے رسولوں پر وحی کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طریقہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا رسالت کے لیے انتخاب ہوا ہے۔

۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ پیغامبر اپنی ذمہ داریوں کو جس طرح ادا کرتے ہیں اس سے وہ بے خبر نہیں رہتا بلکہ وہ ان کی ہر بات سنتا اور ان کے ہر کام کو دیکھتا ہے۔

۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول ہونے کی بنا پر کسی کو بھی خدا کی پوزیشن حاصل نہیں ہوتی کہ لوگ اس کو مرجع قرار دیکر حاجت روائی کے لیے اس کو پکارنے لگیں۔ مرجع تو صرف اللہ ہے اسی کے حضور سارے معاملات پیش ہوتے ہیں اور وہی فیصلے صادر کرتا ہے۔

۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اختتامی آیتیں ہیں جن میں خطاب کا رخ اہل ایمان کی طرف ہو گیا ہے۔

۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکوع اور سجدہ تعبیر ہے نماز سے۔

۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عبادت خواہ نماز کی شکل میں ہو، حج اور قربانی کی شکل میں یا کسی اور شکل میں اللہ ہی کے لیے جو تمہارا حقیقی رب ہے مخصوص ہونی چاہیے۔

۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلائی (خیر) کے کاموں میں وہ تمام کام شامل ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مبنی ہوں اور جن کا فیض بندگانِ خدا کو پہنچتا ہو۔

۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جہاد سے مراد وہ جہاد ہے جس میں قوت استعمال کی جائے اور مخالف طاقت کا زور توڑا جائے۔ "اللہ کی راہ میں” کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقصد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہو اور ان لوگوں سے جہاد کیا جائے جنہوں نے اپنے شرک اور کفر کی بنا پر للہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہوں تاکہ لوگ اس کے دین کو قبول نہ کریں یا اس کے اہم ترین تقاضوں کو پورا نہ کریں۔ اس سورۂ میں گزر چکا کہ مشرکین مکہ نے اسلام کی راہ میں کیسی کیسی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں اور مسلمانوں کے خلاف کس طرح طاقت کا استعمال کر رہے تھے۔ اسی پس منظر میں اہل ایمان کو نہ صرف جہاد کرنے بلکہ حق جہاد ادا کرنے یعنی پوری طرح تن من دھن کی بازی لگانے کا حکم دیا گیا۔ اور جہاد کی یہ اصولی ہدایت اپنے شرائط کے ساتھ قیامت تک کے لیے ہے۔ حدیث میں آتا ہے : لاتَزَالُ طائفۃٌ مِنْ اُمَّتِی یُقاتِلُون عَلٰی الْحَقِّ ظَاہِرِیْنَ الی یوم القیامۃ (مسلم کتاب الایمان) "میری امت کا ایک گروہ حق پر ہو کر قیامت تک لڑتا رہے گا اور غالب ہو گا۔ ”

۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہیں یہ سعادت بخشی کہ اس کے دین کے علمبردار بن جاؤ اور لوگوں کے لیے مینارۂ ہدایت بنو۔

واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کا گروہ جو ان آیات کا مخاطب اول تھا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ گروہ تھا اس لیے مسلمانوں کو جو فرقے چند صحابہ کو مستثنیٰ کر کے اس پورے گروہ کو مطعون کرتے ہیں وہ ناقابل اعتبار روایتوں اور مسخ شدہ واقعات کی بنا پر جو تاریخ کی کتابو ں میں درج ہو گئے ہیں قرآن کی تصریحات سے انحراف کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگر صاف ذہن سے قرآن کا مطالعہ کریں اور روایتوں کے مقابلہ میں قرآن کو مقدم رکھیں تو اس گروہ کے سچے قدر داں بن جائیں جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا تھا۔

۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شریعت میں وہ سخت احکام نہیں ہیں جو اس سے پہلے کی شریعتوں میں رہے ہیں مثلاً سبت منانے کا حکم جو یہود کو دیا گیا تھا بڑا ہی سخت تھا اور یہ سخت احکام انہیں ان کی سرکشی کی بنا پر دئے گئے تھے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جو شریعت دی گئی ہے وہ کسی مخصوص قوم یا دور کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ہے جو اپنی ترکیب میں آفاقی ہے اور قیامت تک کے لیے ہے اس لیے اس کو آسان بنا دیا گیا ہے اور اس میں زیادہ رخصتیں رکھی گئی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ایسا حکم دیا ہی نہیں گیا ہے جس کی بجا آوری اہل ایمان کے لیے مشکل ہو۔ اوپر جہاد کا حکم گزرچکا جو جان اور مال کی قربانی کا مطالبہ ہے اس لیے آیت کا صحیح مفہوم وہی ہو سکتا ہے جو قرآن کی دوسری تصریحات کے مطابق ہو۔

۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ وہی دینِ توحید ہے جو ابراہیم کا دین تھا نیز یہ شریعت بھی بنیادی طور سے وہی ہے جو ابراہیم کو دی گئی تھی۔ یعنی سادہ شریعت الحنیفیۃ السمحۃ  اور جس میں حج اور اس کے منا سک بھی شامل ہیں۔

۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے تمہارا___ایمان لانے والوں کا____نام سابقہ امتوں میں بھی "مسلم، ہی رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی تمہارا یہی نام ہے یہ خیال صحیح نہیں کہ یہ نام حضرت ابراہیم کا رکھا ہوا ہے اور ان سے پہلے یہ نام نہیں رکھا گیا تھا۔ حضرت نوح نے جو حضرت ابراہیم سے بہت پلے گزرے ہیں اپنے مسلم ہونے کا اعلان کیا تھا۔ وَ اُمِرْتُ اَنْ اَکُونَ مِنَ المسلمین "اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بنکر رہوں” (سورۂ یونس ٍٍ۷۲)

یہ نام ان صفات کو ظاہر کرتا ہے جو اس کے معنی میں مضمر ہیں یعنی وہ جس نے اسلام کو قبول کر کے اپنے کو اللہ کے حوالہ کیا ہو اور اس کا فرمانبردار ہو۔

اس کے بعد مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے رکھے ہوئے نام کی جگہ اپنا کوئی اور نام رکھیں یا اس پر کسی اور نام کا اضافہ کریں مگر مسلمانوں میں جب فرقہ بندیاں ہو گئیں تو ہر فرقہ نے اپنا ایک الگ نام رکھا اور آج تو مسلمان عام طور سے اپنے نام کے ساتھ کوئی نہ کوئی دم چھلا لگا دیتے ہیں جو ان کے مسلک وغیرہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے اصلاح بہت ضروری ہے۔ اپنے کو صرف مسلم کہنے پر اکتفا کرنا چاہیے جو اللہ کا رکھا ہوا نام ہے۔

۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان خصوصیات کی حامل امت بنا کر تمہیں اس لیے کھڑا کیا گیا ہے تاکہ تم اس دین کی لوگوں کے سامنے گواہی دو جس کی گواہی تمہارے سامنے دینے کے لیے رسولوں کو بھیجا گیا ہے۔

یہ حکم امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرے اور اس کے لیے اپنے تمام ممکنہ وسائل کو رو بہ کار لائے۔ دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین وہ اہم ترین فریضہ ہے جس کی انجام دہی کے لیے یہ امت برپا کی گئی ہے مگر آج مسلمانوں میں اس کا احساس بہت کم پایا جاتا ہے اسلیے وہ محض ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسے افراد بہت کم ہیں جن کو شہادتِ دین کی فکر ہو اور جو غیر مسلموں کے سامنے دین کی دعوت پیش کرتے ہوں۔

۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کو مضبوط پکڑنے کا مطلب اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے اور تعلق باللہ اس کی صفات کے شعور، اس کی عبادت اور اطاعت ، اس سے محبت اور اس پر توکل کرنے سے مضبوط ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 (۲۳) سورۂ المؤمنون

 

 (۱۱۸ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ مؤمنوں نے فلاح پائی۔ اس مناسبت سیاس کا نام "المؤمنون” ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیاب ہونے والے کون لوگ ہیں اور ناکام ہونے والے کون پھر جن عقائد کے قبول کرنے پر کامیابی کا دارومدار ہے ان کا برحق ہونا بدلائل ثابت کیا گیا ہے اور ان شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جو اس سلسلہ میں پیش کئے جا رہے تھے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  تا ۱۱  میں اہل ایمان کو کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور اس کامیابی کے لیے جو اوصاف ضروری ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۱۲  تا ۲۲  میں اللہ کی ربوبیت پر استدلال کرتے ہوئے دوسری زندگی اور جزا و سزا کو لازم قرار دیا گیا ہے۔

آیت ۲۳  تا ۵۰  میں رسولوں کی دعوت کو جھٹلانے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۵۱  تا ۵۶  میں اس حقیقت کا اعلان کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا لیکن ان کے پیروؤں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے۔ اب وہ اپنی اس غلط مذہبیت کے باوجود محض اس بنا پر کہ اللہ نے ان کو دنیا کی دولت دے رکھی ہے اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اللہ ان سے خوش ہے اسی لیے ان پر دولت کی بارش کر رہا ہے۔

آیت ۵۷  تا ۶۱  میں دنیا پرستوں کے مقابلہ میں بھلائی کی طرف لپکنے والوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

آیت ۶۲ تا ۶۷  میں لوگوں کو تنبیہ ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔

آیت ۶۸  تا ۹۲  میں منکرین کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔

آیت ۹۳  تا ۹۸  میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دعا کی تلقین کہ اے رب ! ان کافروں پر اگر میری موجودگی میں عذاب ا گیا تو اس سے مجھے محفوظ رکھ۔

آیت ۹۹  تا ۱۱۷  میں منکرین کا موت کے وقت اور پھر قیامت کے دن جو حال ہو گا اس کی تصویر اور اس بات پر اختتام کہ کافر کبھی فلاح پانے والے نہیں ہیں۔

آیت ۱۱۸  اختتامی آیت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطہ سے ہر اس شخص کو جو ایمان لائے یہ ہدایت ہے کہ وہ اللہ سے مغفرت اور رحمت کی دعا کرے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً کامیاب ہوئے ایمان لانے والے۔ ۱*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی نماز میں خشوع (عاجزی) اختیار کرتے ہیں۔ ۲*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لغو باتوں سے رُخ پھیرتے ہیں۔ ۳*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ۴*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کی ۵*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملکیت میں آ گئی ہوں تو ان کے بارے میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ۶*

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ یقیناً ۷*

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی امانتوں ۸* اور اپنے عہد۹* کا پاس رکھتے ہیں۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ۱۰*

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ ۱۱* اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (نچوڑ) سے پیدا کیا۔ ۱۲*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اسے نطفہ بنا کر ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ۱۳*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر نطفہ کو جمے ہوئے خون کی شکل دی پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کا ٹکرا بنایا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں کی شکل دی پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۱۴* پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ ۱۵* تو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا ۱۶*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد تم کو لازماً مرنا ہے۔ یقیناً ۱۷*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر یقیناً تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ ۱۸*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہ بر تہ آسمان بنائے ۱۹* اور ہم مخلوق کی طرف سے غافل نہیں ہیں۔ ۲۰*

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس پر قادر ہیں کہ اسے غائب کر دیں۔ ۲۱*

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے۔ تمہارے لیے ان میں بہت سے پھل ہیں جن کو تم کھاتے ہو۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ درخت بھی جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ تیل لیے ہوئے اگتا ہے۔ اور کھانے والوں کے لیے سالن۔ ۲۲*

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی بڑا سبق ہے۔ ہم ان چیزوں کے اندر سے جو ان کے شکم میں ہے تمہیں (دودھ) پلاتے ہیں۔ ۲۳* تمہارے لیے ان میں بہت سے فائدہ ہیں اور ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ ۲۴*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کئے جاتے ہو۔ ۲۵*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۲۶* اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ کیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں ! ۲۷*

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا کہنے لگے یہ شخص تو بس تمہارے ہی جیسا بشر ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ اگر اللہ (رسول بھیجنا) چاہتا تو فرشتوں کو اتار دیتا۔ ایسی بات تو ہم نے اپنے اگلے باپ دادا سے سنی ہی نہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں اس شخص کو جنون ہو گیا ہے لہٰذا کچھ دن اس کے بارے میں انتظار کرو۔ ۲۸*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح نے دعا کی اے میرے رب ! میری مدد کر اس بات پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ ۲۹*

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ ۳۰* پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے ۳۱* تو ہر قسم کے نر و مادہ کا جوڑا اس میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ لے لو سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔ ۳۲* اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا وہ غرق ہو کر رہیں گے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب تم اپنے ساتھیوں کو لیکر کشتی میں سوار ہو جاؤ تو کہو شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔ ۳۳*

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو اے رب! مجھے برکت کے ساتھ اتار ۳۴* اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔ ۳۵*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعہ میں بڑی نشانیاں ہیں ۳۶* اور ایسا ضرور ہے کہ ہم (لوگوں کو) آزمائش میں ڈالیں۔ ۳۷*

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان کے بعد ہم نے دوسرے دور کے لوگ پیدا کر دئے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان ہی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا ۳۸* (اس دعوت کے ساتھ) کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں !

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا تھا اور جنہیں ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے یہ تو تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے۔ وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم نے اپنے ہی جیسے آدمی کی اطاعت کر لی تو تم گھاٹے میں رہو گے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو تمہیں آگاہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کی شکل میں رہ جاؤ گے تو تمہیں نکالا جائے گا۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعید ہے بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ۳۹*

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی تو بس اس دنیا ہی کی زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں۔ ۴۰* اور ہمیں ہرگز اٹھایا نہ جائے گا۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑا ہے اور ہم اس کی بات ہرگز ماننے والے نہیں ہیں۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے دعا کی ۴۱* اے رب! انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو تو میری مدد فرما۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا قریب ہے وہ وقت جب وہ نادم ہوں گے۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ ایک ہولناک آواز نے جو حق کے ساتھ نمودار ہوئی تھی انہیں پکڑ لیا۔ ۴۲* اور ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا۔ پھٹکار ہے ظالم قوم کے لیے !

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں اٹھائیں۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ٹھہرسکتی ہے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے۔ ۴۳* جب بھی کسی قوم کے پاس اس کا روسل آیا اس نے اسے جھٹلایا۔ تو ہم ایک کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کرتے رہے اور ان کو افسانہ بنا کر چھوڑا۔ پھٹکار ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے !

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی حجت کے ساتھ بھیجا۔ ۴۴*

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اور اس کی حکومت کے سربراہوں کی طرف مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے۔ ۴۵*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور بالآخر ہلاک ہو کر رہے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موسیٰ کو ہم نے کتاب عطاء کی تاکہ لوگ ہدایت پائیں۔ ۴۶*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ابن مریم ۴۷* اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا ۴۸* اور انہیں ایک اونچے ٹیلے پر جگہ دی جو پرسکون اور چشمہ والی تھی۔ ۴۹*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ۵۰* تم جو کچھ کرتے ہو میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے ۵۱* اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ ہی سے ڈرو۔ ۵۲*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر لوگوں نے پنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۵۳* ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اسی میں مگن ہے۔ ۵۴*

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو چھوڑ دو انہیں اپنی غفلت میں ڈوبے رہیں ایک وقت خاص تک۔ ۵۵*

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد دئے جا رہے ہیں۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا ان کے لیے خیر میں اضافہ کر رہے ہے۔ نہیں بلکہ ان کو (اصل حقیقت کا) شعور نہیں۔ ۵۶*

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے رب کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ ۵۷*

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو پنے رب کا شریک نہیں ٹھہراتے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ ۵۸*

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں بھلائیوں میں سرگرم رہنے والے اور سبقت کر کے ان کو پا لینے والے۔ ۵۹*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کسی شخص پر اس کی مقدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے۔ ۶۰* اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دیتی ہے۔ ۶۱* اور ان کے ساتھ نا انصافی نہ ہو گی۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان کے دل اس کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ دوسرے کام ہیں جن میں وہ مشغول ہیں۔ ۶۲*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ یہی کرتے رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو یہ چیخنے لگیں گے۔ ۶۳*

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آہ و زاری نہ کرو ہماری طرف سے تمہیں کوئی مدد ملنے والی نہیں۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب میری آیتیں تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھمنڈ کرتے ہوئے اس کو قصہ گوئی کے لیے مشغلہ بنا کر بکواس کرتے۔ ۶۴*

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا۔ ۶۵* یا ان کے پاس ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے اگلے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟ ۶۶*

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ اپنے رسول کو پہچان نہ سکے اس لیے اس کے منکر ہو گئے ! ۶۷*

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہو گیا ہے۔ ۶۸* نہیں بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو حق ہی ناگوار ہے۔ ۶۹*

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو آسمان و زمین اور جو ان میں ہیں سب (کا نظام) درہم برہم ہو جاتا۔ ۷۰* حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کو یاددہانی کرانے والی چیز لائے ہیں اور وہ اپنی اس یاد دہانی سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ ۷۱*

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ان سے مال طلب کر رہے ہو؟ ۷۲* تمہارے لیے تو تمہارے رب کا دیا مال ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے شک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہو۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ۷۳*

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف دور کریں تو یہ اپنی سرکشی میں ڈھیٹ ہو کر بھٹکتے رہیں گے۔ ۷۴*

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا مگر نہ وہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ انہوں نے عاجزی کی ۷۵*

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب ہم سخت عذاب کا دروازہ ان پر کھول دیں گے تو اس (حالت) میں وہ بالکل مایوس ہو کر رہ جائیں گے۔ ۷۶*

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھ اور دل بنائے مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔ ۷۷*

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم اکٹھا کئے جاؤ گے۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ رات اور دن کا الٹ پھیر اسی کے اختیار میں ہے۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ ۷۸*

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر انہوں نے بھی وہی بات ہی جو اگلے لوگ کہہ چکے ہیں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو ہم کو پھر اٹھایا جائے گا؟

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وعدہ ہم سے کیا جا رہا ہے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا تھا۔ ۷۹* یہ محض اگلوں کے افسانے ہیں۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ زمین اور اس میں بسنے والے کس کی مِلک ہیں ؟

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اللہ کی۔ کہو پھر کیا تم یاددہانی حاصل نہیں کرتے !

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اللہ۔ ۸۰* کہو پھر تم (اس سے) ڈرتے نہیں ؟

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے یہ باتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ کہو پھر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے !

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے حق لائے ہیں اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ ۸۱*

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔ ۸۲* اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لیکر الگ ہو جاتا اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ ۸۳* پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیب اور حاضر کا جاننے والا۔ بالاتر ہے وہ ان کی مشرکانہ باتوں سے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کرو اے میرے رب! اگر تو مجھے عذاب دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اے میرے رب! مجھے اس ظالم گروہ میں شامل نہ کر۔ ۸۴*

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے شک ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ تمہیں دکھا دیں۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برائی کو اس طریقہ سے دور کرو جو بہتر ہو۔ وہ جو باتیں بناتے ہیں ان کو ہم خوب جانتے ہیں۔ ۸۵*

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو اے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ۸۶*

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے میرے رب! اس بات سے بھی میں پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔ ۸۷*

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ان کا یہی حال رہے گا) یہاں تک کہ جب کسی کی موت آ کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دیجئے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ جو کچھ میں نے چھوڑا ہے اس میں نیک کام کروں۔ ہرگز نہیں یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے۔ ۸۸* اور ان کے آگے ایک برزخ ہو گی۔ ۸۹* اس دن تک کے لیے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان نہ رشتہ داریاں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ ۹۰*

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جن کی میزانیں بھاری ہوں گی وہی کامیاب ہوں گے۔ ۹۱*

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن کی میزانیں ہلکی ہوں گی وہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈالا۔ ۹۲* جہنم میں ہمیشہ رہنے والے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی اور ان کے منہ بگڑے ہوئے ہوں گے۔ ۹۳*

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں اور تم ان کو جھٹلاتے نہ تھے ؟

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر غالب آ گئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ ۹۴*

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال دے۔ اگر ہم پھر ایسا کریں تو ظالم ہوں گے۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمائے گا پڑے رہو اسی میں دھتکارے ہوئے اور مجھ سے بات نہ کرو۔ ۹۵*

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ہیں ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو بہترین رحم فرمانے والا ہے۔ ۹۶*

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تم نے ان کو مذاق بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ اس مشغلہ نے میری یاد سے بھی تمہیں غافل کر دیا اور تم ان کی ہنسی اڑاتے رہے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ان کے صبر ۹۷* کا بدلہ میں نے یہ دیا کہ وہی کامیاب ہو گئے۔

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ پوچھے گا ۹۸* تم زمین میں کتنے سال رہے ؟ ۹۹*

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ حصہ۔ شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ۱۰۰*

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمائے گا تم تھوڑی ہی مدت ٹھہرے رہے۔ کاش تم نے یہ بات جان لی ہوتی! ۱۰۱*

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے ؟ ۱۰۲*

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (ایسی بات سے) بہت بلند ہے اللہ بادشاہ حقیقی۔ ۱۰۳* اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ عرشِ کریم کا مالک! ۱۰۴*

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ یقیناً کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ۱۰۵*

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کرو میرے رب بخش دے رحم فرما اور تو بہترین رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۰۶*

 

                   تفسیر

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے جیسا کہ آیت ۱۱  سے واضح ہے اور قرآن کی نظر میں اصل کامیابی آخرت ہی کامیابی ہے کیونکہ وہ انعام کے طور پر ہو گی اور ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

اس کامیابی کے لیے شرط اول ایمان ہے پھر وہ اوصاف جو آگے بیان ہوئے ہیں۔ واضح ہوا کہ آخرت کی کامیابی اوصاف (Merit) کی بنیاد پر ہو گی نہ کہ اسلام سے رسمی تعلق کی بنیاد پر۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خشوع کے معنی صاحب جلال ہستی کے تصور سے لرزنے ، اس کے آگے پست ہونے اور عاجزی اختیار کرنے کے ہیں۔ نماز کی روح یہی ہے کہ بندہ پر اللہ کا خوف طاری ہو، وہ دبی آواز میں اس سے مناجات کرے اور عاجزی و بندگی کا اظہار کرے۔ کامیابی کی ضمانت ان ہی ایمان والوں کو دی گئی ہے جو خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔

خشوع کا تعلق اصلاً دل سے ہے : اَلَمْیَأنِ لِلذِئیْنَ آمَنُوْا اَنْ تخشع قُلُوْبُہُمْ لِذِکْراللّٰہ (حدید۔ ۱۶) "کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے آگے جھک جائیں۔”

اور جب دل میں خشوع ہو تو یہ کیفیت جسم پر بھی طاری ہو گی یعنی نگاہیں پست ہوں گی، آواز دبی ہوئی ہو گی، توجہ اللہ ہی کی طرف رہے گی اور سکون و اطمینان کے ساتھ پُر وقار طریقہ پر نماز ادا کی جائے گی۔ قرآن میں نماز کے جو اثرات و ثمرات بیان کئے گئے ہیں وہ ایسی ہی نماز کے اثرات و ثمرات ہیں۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لغو باتوں سے بچنا نماز کا فیضان ہے اس لیے اس کا ذکر نماز کے متصلاً بعد ہوا۔ لغو کے معنی بے مقصد اور فضول کے ہیں۔ اس کا اطلاق حرام اور منکر کاموں ہی پر نہیں ہوتا بلکہ ان کاموں پر بھی ہوتا ہے جن کا کوئی حقیقی فائدہ یا مصلحت نہ ہو، موجودہ دور میں لغو کی ترقی یافتہ شکلوں میں بیہودہ گانے ، خیال آرائی کے مشاعرے ، قہقہوں کے پروگرام، فالتو قصے اور افسانے ، شطرنج اور کیرم کے کھیل اور میچ اور فٹ بال وغیرہ کے وہ بڑے بڑے مظاہرے شامل ہیں جو وقت اور روپے کی بربادی کا کھلا سامان ہیں اور جو ایسی ذہنیت پیدا کرتے ہیں کہ آدمی کھیل کود ہی میں لگا رہے اور آج کل ٹی وی پر ایک سے ایک بیہودہ مناظر پیش کئے جاتے ہیں مگر مخلص مومن بڑے شریف النفس ہوتے ہیں وہ ایسی چیزوں سے دلچسپی لینا تو درکنا ان پر ایک نگاہ غلط ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکی دور میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری تھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۵۸۔

بعض مفسرین نے لذکوٰہ فاعلون کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ تزکیہ کا کام کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سراسر تکلف ہے۔ زکوٰۃ اپنے مخصوص معنی میں قرآن کا اصطلاحی لفظ ہے اس لیے اس کو تزکیہ کے معنی میں لینا صحیح نہیں اور اگر زکوٰۃ کے ساتھ فَاعِلُوْن کا لفظ استعمال ہوا ہے تو دوسری جگہ فِعْلَ الْخَیرْاتِ (بھلائی کے کام۔ سورۂ انبیاء ۷۳) کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ زکوٰۃ کو یہاں مصدری معنی (تزکیہ کے معنی) میں لیا جائے۔

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قضائے شہوت کے حرام طریقوں سے بچتے ہیں اور ستر (پوشیدہ اعضاء کو چھپانا) کے حدود کا لحاظ کرتے ہیں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں جنسی تعلق کے جواز کی دو صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرے دوسرے یہ کہ وہ ان لونڈیوں سے جنسی تعلق قائم کرے جو اس کی ملکیت میں ہوں۔

آدمی کی بیوی وہ ہے جو اس کے عقد نکاح میں ہو۔ رہی لونڈی تو اس کے لیے مالک ہونا شرط ہے یعنی ایک شخص اسی لونڈی سے جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے جس کا وہ واقعی مالک ہے۔ غلامی کا مسئلہ اس زمانہ میں نہ صرف یہ کہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا بلکہ خود غلاموں اور لونڈیوں کی بہبود کا مسئلہ بھی متضاد تقاضے رکھتا تھا۔ جو غلام اور لونڈیاں پہلے سے چلی آ رہی تھیں ان کو اگر غلام اور لونڈیاں تسلیم (Recognize)  ہی نہیں کیا جاتا یا قانون کے ذریعہ سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو اس سے غلاموں اور لونڈیوں کو بظاہر راحت ہو سکتی تھی لیکن اس وقت کے حالات میں ان کے لیے معاش کا مسئلہ اور لونڈیوں کے لیے خاص طور سے رہائش اور کفالت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر سکتا تھا جس کے نتیجہ میں وہ بدکاری کا شکار ہو سکتی تھیں۔ اس لیے اسلام نے مکی دور میں ان کی واقعی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے لونڈیوں کے مالکوں کے لیے ان سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز قرار دیا البتہ غلامی سے ان کی گردنیں چھڑانے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا نیز اس کے لیے مناسب تدبیریں بھی عمل میں لائیں۔

لونڈیوں سے جنسی تعلق کے مسئلہ کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ بہر کیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاف صاف اعلان ہے کہ اہل ایمان اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے جنسی تعلق قائم کرنے کے معاملہ میں قابل ملامت نہیں ہیں۔ پھر کسی کو کیا حق ہے کہ وہ انہیں ملامت کرے ؟

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنی بیوی یا لونڈی ہی سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہے گا تو ایسا شخص فطری اور شرعی حدود سے تجاوز کرنے والا ہو گا۔ جنسی تعلق بیوی یا اپنی ملکیت کی باندی کے علاوہ جس عورت سے بھی قائم کیا جائے گا زنا ہو گا اور اگر مرد مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو یہ لواطت ہو گی اور یہ سب صورتیں حرام ہیں جن کی حرمت شدید ہے۔

اس آیت سے متعہ (مقررہ وقت تک کے لیے کسی عور ت سے اس کی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنے) کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جس سے متعہ کیا جاتا ہے وہ نہ بیوی ہوتی ہے اور نہ لونڈی۔ بیوی اس لیے نہیں کہ وہ متعہ کرنے والے شخص کے نہ عقد نکاح میں ہوتی ہے اور نہ اس پر نفقہ ،طلاق اور عدت وغیرہ کے احکام چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اس شخص کی میرات میں سے حصہ پا سکتی ہے۔ اور لونڈی اس لیے نہیں کہ وہ اس کا مالک نہیں ہے غرضیکہ قرآن میں متعہ کے جواز کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ جو احکام ازدواجی زندگی سے متعلق دئے گئے ہیں ان سے اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ سورۂ مومنون مکی ہے جس کی مذکورہ آیت میں دو صورتیں کے علاوہ جنسی تعلق کی ہر صورت کو حرام قرار دیا گیا ہے گویا متعہ کی حرمت کا حکم مکی دور ہی سے چلا آ رہا ہے۔

متعہ کی ممانعت حدیث سے بھی ثابت ہے :

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نَہیَ عَنْ مُتْعَۃِ النِّآء یَوْمَ خَیْبَرَ۔ (بخاری کتاب المغازی) "حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن متعہ سے منع فرمایا۔”

اور علماء و فقہاء کا اس کی حرمت پر اجماع ہے : "خطابی کہتے ہیں متعہ کے حرام ہونے پر گویا اجماع ہے بجز بعض شیعہ کے۔” (فتح الباری ج ۹ ص ۱۴۲)

"اس نکاح کے حرام ہونے پر ائمہ مذاہب کے درمیان اتفاق ہے۔” (فقہ السنۃ۔ السید سابق ج ۲ ص ۱۴۲)

رہیں وہ حدیثیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ ؐ نے بعض غزوات کے موقع پر متعہ کی اجازت دی تھی اور بعد میں اس کو منسوخ کر دیا تو ان حدیثوں میں متضاد باتیں بیان ہوئی ہیں۔

جب غزوہ خبیر (۰۶ھ) کے موقع پر اس کی ممانعت کر دی گئی تھی تو فتح مکہ (۰۸ھ) کے موقع پر اس کی اجازت دینے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟ اور فتح مکہ کے زمانہ میں تو دین اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور مسلمان ایک طاقت بن چکے تھے اس لیے یہ موقع متعہ کی رعایت کا ہرگز نہیں تھا پھر ایک روایت کی رو سے یہ اجازت تین دن کے لیے دی گئی تھی اس کے بعد اس کی ممانعت کر دی گئی اور دوسری روایت کے مطابق ایک دن اس کی اجازت دی گئی اور دوسرے دن ہی اسے حرام قرار دیا گیا۔ مسلم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر اعلان فرمایا کہ "میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام ٹھہرایا ہے”

اور مسلم ہی کی روایت ہے کہ غزوۂ اوطاس کے موقع پر جو فتح مکہ کے بعد (شوال ۰۸ ھ میں) ہوا آپؐ نے اس کی اجازت دی پھر ممانعت فرما دی (دیکھئے صحیح مسلم کتاب النکاح) ۔

غزوۂ اوطاس کا واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے لہٰذا لا محالہ دو میں سے ایک روایت ہی صحیح ہو سکتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ اعلان فرمائیں کہ متعہ قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا اور پھر جب اوطاس میں جنگ ہو تو آپ اس کی اجازت بھی دیدیں۔ ایسی روایتیں ہرگز حدیث رسول نہیں ہو سکتیں جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہوں۔ ان روایتوں کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مکہ اور اوطاس میں وہ کون سی عورتیں تھیں جو تین دن کے لیے اور محض ایک چادر کے عوض نکاح کرنا پسند کرتی تھیں ؟ اور ان سے ربط پیدا کر نے کا کیا ذریعہ تھا۔ کیا کوئی مسلمان کسی اجنبی مسلمان خاتون سے جا کر پوچھتا تھا کہ تو تین دن کے لیے مجھ سے نکاح کرنے کے لیے آمادہ ہے ؟ پھر اگر وہ آمادہ ہو جاتی تو اس سے بغیر استبراء کے کس طرح فوراً تعلق قائم کیا جا سکتا تھا جبکہ لونڈیوں سے مباشرت کے لیے استبراء یعنی ایک ماہواری کے گزر جانے کی قید ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ متعہ کے لیے استبراء کی قید نہیں تو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں یہ کیسے پتہ چلتا کہ یہ کس کا حمل ہے ؟ اور حمل کی صورت میں بچہ کی کفالت کی ذمہ داری اپنی ماں کے عارضی شوہر پر عائد ہوتی تھی یا نہیں ؟ اگر ہوتی تھی تو عارضی نکاح کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوالات متعہ کی نا معقولیت واضح کرنے کے لیے کافی ہیں مگر مسلمانوں کا شیعہ فرقہ متعہ کے حلال ہونے کا قائل ہے۔ وہ قرآن کو چھوڑ کر روایتوں کا سہارا لیتا ہے۔ وہ روایتوں کو قرآن کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے قرآن کو روایتوں کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ یہی وہ ہمالیائی غلطی ہے جو قرآن کی غلط تاویل کرنے اور نا معقول باتیں ماننے پر آمادہ کرتی ہے۔

جہاں تک ان احادیث کی اسناد کا تعلق ہے بیشتر احادیث ایسی ہیں جن کی اسناد میں کلام کی کافی گنجائش ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم صرف چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔

متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں ایک حدیث صحیح مسلم میں عبدالملک بن الربیع بن سَبرہ سے مروی ہے مگر مشہور محدث یحییٰ بن معین نے اسے ضعیف کہا ہے اور ابوالحسن بن القطان کہتے ہیں ان کا عادل ہونا ثابت نہیں ہے۔ اگرچہ مسلم نے ان کی حدیث بیان کی ہے لیکن وہ قابل حجت نہیں ہے (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ج ۶ ص ۳۹۳) بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوات کے موقع پر انہیں متعہ کی اجازت دی تھی۔ یہ روایت قیس بن ابی حازم سے ہے اور قیس بن ابی حازم کے بارے میں ابن المدینی کہتے ہیں کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۳۸۸)

بخاری کی ایک حدیث حسن بن محمد نے جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع کے واسطہ سے بیان کی ہے کہ "ان دونوں نے کہا کہ ہم ایک لشکر میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاصد ہمارے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں استمتاع (عورتوں سے فائدہ حاصل کرنے) کی اجازت دی گئی ہے لہٰذا استمتاع کرو۔ ” (بخاری کتاب النکاح) جبکہ بخاری نے حسن بن محمد ہی کے واسطہ سے حضرت علی کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے موقع پر متعہ کی ممانعت فرما دی تھی۔ (بخاری کتاب المغازی)

ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا (مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبر دی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے (اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام ماک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل (رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں (تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶) ۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں جب صحیحین کی روایتوں کا یہ حال ہے تو شیعوں کی بیان کردہ روایات کا کیا حال ہو گا!

واقعہ یہ ہے کہ ان متضاد اور الجھی ہوئی روایتوں سے جن میں سے بیشتر روایتیں اسناد کے اعتبار سے علت سے خالی نہیں ہیں یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی رخصت دی تھی البتہ جاہلیت میں چونکہ متعہ کا طریقہ رائج تھا اس لیے آپ نے بڑی تاکید کے سا تھ اس کی ممانعت فرمائی۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی روایت کا صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ہونا اسے ہرگز تقدس عطا نہیں کرتا جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہو۔

ان دلائل کے بعد بھی اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہو کہ متعہ کی رخصت اور زنا میں کیا فرق ہے نیز وہ یہ بھی واضح کرے کہ متعہ قرآن کے ازدواجی احکام کے خلاف نہیں ہے اس کے بعد ہم اپنی اس تحریر پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

۸) امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تفویض کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو لوگ ایک دوسرے کے سپرد کرتے ہیں۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو اللہ سے باندھا گیا ہو اور وہ عہد بھی جو لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہو۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کی حفاظت میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا، وقت پر ادا کرنا، اس طریقہ پر ادا کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا ہے اور اس کے تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھنا شامل ہے۔ آیت ۲  میں نماز کی اسپرٹ واضح کی گئی تھی اور یہاں نماز کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔

ان آیات میں اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر نماز ہی سے شروع ہوا اور نماز ہی پر ختم ہو رہا ہے۔ یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اوصاف اس نماز کے ثمرات ہیں جو حسن و بخوبی کے ساتھ ادا کی جائے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فردوس کا وارث ہونا ہی وہ اصل کامیابی ہے جو اہل ایمان کے حصہ میں آئے گی۔ حدیث میں فردوس کو اعلیٰ درجہ کی جنت سے تعبیر کیا گیا ہے : صحیحین میں ہے :

"جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ اعلیٰ اور بہترین درجہ کی جنت ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔” (ابن کثیر ج ۳ ص ۱۰۸)

اور فردوس کے بھی بہت سے باغ ہوں گے جیسا کہ سورۂ کہف آیت ۱۰۷ سے واضح ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا یہ مٹی کا جوہر تھا جس سے پہلے انسان کی تخلیق ہوئی اسی لیے انسان کی طبیعت میں وہ تمام خصوصیات جمع ہو گئی ہیں جو مختلف خطوں میں پائی جاتی ہیں مگر کوئی زمین نرم ہوتی ہے تو کوئی سخت اسی طرح کسی شخص کا مزاج نرم ہوتا ہے تو کسی کا سخت، مٹی کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور انسانوں کے رنگ بھی مختلف، مٹی میں مختلف چیزیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے انسان بھی مختلف صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۲۴) ۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پہلے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ نطفہ کے ذریعہ چلایا جو پانی کی ایک بوند ہوتا ہے اس کو رحم جیسی محفوظ جگہ میں ٹھہرانے کا اس نے سامان کیا۔

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نطفہ جن مراحل سے گزر کر جنین (Embryo) کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس کی تشریح سورۂ حج نوٹ ۸ تا ۱۱ میں گزر چکی۔

واضح رہے کہ علقہ (خون کا تھکا) وغیرہ عام مشاہدہ میں آنے والی چیزیں تھیں یعنی اسقاط کی صورت میں لوگ دیکھ لیتے تھے کہ ایک جنین ابتداء میں کیا ہوتا ہے اور بعد میں اس میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ قرآن کا استدلال اسی عام مشاہدہ میں آنے والی چیزوں سے ہے۔ رہا موجودہ علم الجنین (Embryology) جس نے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں تو یہ گو یا قرآن کے اشارات کی تفصیل ہے اور اس سے قرآن کی یہ دلیل اور زیادہ روشن ہو گئی ہے کہ یہ مشاہدہ قرآن کی اس خبر کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے کہ انسان کو اس کا رب دوبارہ اٹھائے گا۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر وہ مرحلہ آتا ہے کہ جنین میں روح پھونک دی جاتی ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا انسان بن جاتا ہے۔ کہاں تو ایک لوتھڑا تھا اور کہاں ایک مکمل انسان بن گیا۔

لوتھڑے کو دیکھ کر اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ایسا وجود اختیار کرنے والا ہے جو زمین کی خلافت سے سر فراز ہو گا مگر چند ماہ کے اندر اندر اس میں ایسی زبردست تبدیلی رونما ہو جاتی ہے کہ وہ ایک نئی مخلوق بنکر ابھرتا ہے۔

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کا ان مختلف حالات اور مدارج سے گزر کر انسان بننا ایک خالق کی خلاقی کا بین ثبوت ہے نیز اس سے اس کی اس شان کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ بڑے کمالات والا ہے اور اس کے فیضان کرم کی کوئی انتہا نہیں۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت کے بعد عالم برزخ میں روحوں کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا کیونکہ یہاں قیامت کے دن اٹھائے جانے پر استدلال کرنا مقصود ہے جو جسم کے ساتھ ہو گا اور اسی روز وہ اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر انسان کا پہلی مرتبہ وجود ہوا تو دوسری مرتبہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر انسان کی موجودہ زندگی مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد عطاء ہوئی ہے اور اس کے بعد بھی وہ مختلف مرحلوں سے گزرتا رہتا ہے تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ موت کے بعد کوئی مرحلہ نہیں ہے ؟ زندگی تو ایک جاری رہنے والی چیز ہے مگر لوگ اس مغالطہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ موت زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیتی ہے حالانکہ موت محض ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہونے کا نام ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ طرائق استعمال ہوا ہے جو طریقہ کی جمع ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور تہ بر تہ ہونے کی بھی۔ عربی میں بولتے ہیں : ریشٌ طرائقٌ وہ پَر جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہوں۔

ریش طرائق اذاکان بعضہ فوق بعض (الصحاح للجوہری ج۴ ص ۱۵۱۶) اور قرآن کریم میں دوسری جگہ سَبْع سمٰوٰت طباقاً (تہ بر تہ سات آسمان سورۂ ملک آیت ۳ّ) اس لیے یہاں بھی تہ بر تہ کے معنی لینا ہی مناسب ہے۔

بعض مفسرین نے سات سیاروں کے مدار مراد لیے ہیں مگر اس کی تائید قرآن کی کسی آیت سے نہیں ہوتی۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سات آسمانوں سمیت پوری کائنات میں جو مخلوق بھی ہے اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعہ پانی کے خزانے انڈیلتا رہتا ہے جو زمین میں جمع ہو کر انسان کے کام آتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو وہ پانی کو غائب کر سکتا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے ڈرے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زیتون کا درخت ہے جو عرب سے قریبی ملک سیناء میں کوہ طور کے پاس پیدا ہوتا ہے۔ اس کا پھل زیتون کے تیل کے لیے مشہور ہے۔ یہ تیل نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور اس کو سالن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے شکم کی آلائشوں کے درمیان دودھ جیسی خالص چیز تیار کر کے ہم تمہیں پلاتے ہیں۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان مویشیوں کا گوشت تمہارے کھانے کے کام آتا ہے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ہیں اور ان کے ذکر سے مقصود اللہ کے رب ہونے کا احساس پیدا کرنا اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر استدلال کرنا ہے۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی سرگزشت سورۂ اعراف اور سورۂ یونس کے علاوہ سورۂ ہود میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۹۴ تا ۱۰۴، سورہ یونس نوٹ ۱۰۸ تا ۱۱۳ اور سورۂ ہود نوٹ ۳۸ تا ۷۳۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کیا تم اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اگر تم نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کی تو وہ تمہیں سخت سزا دے کیونکہ عبادت اللہ ہی کا حق ہے اور لائق عبادت صرف اللہ کی ذات ہے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم دنیا کی پہلی قوم ہے جس کی طرف پہلا رسول بھیجا گیا تھا اس نے اس جس طرح رسول کا انکار کیا اور اس انکار کے لیے جن غلط باتوں کا سہارا لیا اسی طرح بعد کی قومیں بھی وہی راگ الاپتی رہی ہیں۔ رسالت کا انکار کرنے والوں نے نہ پہلے کوئی معقول بات کہی اور نہ اب کہہ رہے ہیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ان پر میری دعوت واضح ہو گئی اور حجت قائم ہو گئی اور وہ اپنے انکار کی روش سے باز آنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اب تو میری اس طرح مدد فرما کہ حق نافذ ہو جائے اور باطل مٹ جائے۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی دعا قبول ہوئی اور قوم نوح کی ہلاکت کا فیصلہ ہو گیا۔ حضرت نوح کو مطلع کر دیا گیا کہ ان کی قوم پر عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا اور تمہاری اور اہل ایمان کی نجات ایک کشتی کے ذریعہ ہو گی لہٰذا تم کشتی تیار کرو۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۵۶۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی ایسے شخص کو نہیں جو کافر ہو اور اس بنا پر اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہو خواہ وہ تمہارے گھر والوں ہی میں سے کیوں نہ ہو۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم مشرک، کافر اور مفسد قوم تھی۔ اسی مفہوم میں اسے ظالم قوم کہا گیا ہے ایسی سوسائٹی اور ایسے ماحول سے نجات اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل تھا کیونکہ اب وہ ایک پاکیزہ ماحول میں اور صاف ستھری ہوا میں زندگی بسر کر سکتے تھے اس لیے اس فضل پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا حکم ہوا۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین پر میرا قدم رکھنا باعث خیر ہو۔ جو کام بھی میری رہنمائی میں انجام پائے وہ خیر کا کام ہو اور میرے وجود سے زمین میں خیر ہی خیر پھیلے۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس توقع کا اظہار ہے کہ جب تو اتارے گا تو اپنی عنایتوں اور نوازشوں کے ساتھ اتارے گا۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوموں اور ملتوں کی تاریخ کا یہ اولین باب اپنے اندر بڑے سبق رکھتا ہے مثلاً یہ کہ توحید حق ہے اور شرک باطل ، خدا کی طرف سے ہدایت انسان کو رسول کے واسطہ سے ملتی ہے جو انسان ہی ہوتا ہے ، رسول کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں سخت سزا دیتا ہے اور اپنے رسول اور اہل ایمان کی نجات کا سامان کرتا ہے۔ جب خدا کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے تو حق باقی رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دنیا آزمائش ہی کے لیے بنائی گئی ہے اس لیے یہاں کی زندگی آزمائش ہی کی زندگی ہو گی۔ وحی اور رسالت کا سلسلہ بھی آزمائش ہی کے سلسلہ کی کڑی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے کہ کون اپنی عقل سے کام لیکر اور اپنی بصیرت سے اس کے رسول کو پہچانتا ہے اور اس کے ذریعہ دی جانے والی ہدایت کو قبول کرتا ہے اور کون ہے جو اندھا بنا رہتا ہے۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ یہ کون سی قوم تھی۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسی قوم ہو جس کے نام سے لوگ آشنا نہ ہوں مگر تذکیر کے لیے اس کا قصہ بیان کیا ہو۔

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کو بعید از عقل خیال کرتے تھے اور موجودہ دور کا انسان بھی اسے ایک انہونی بات خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کوئی سنجیدہ بات ہی نہیں ہے کہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہو حالانکہ بہت سی باتیں جو پہلے بعید از عقل تھیں اب قرینِ عقل بن گئی ہیں مگر دوسری زندگی کے منکرین کی ذہنیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کی مادہ پرست دنیا بھی ان گمراہ قوموں ہی کے نقش قدم پر ہے۔ انہوں نے دنیا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ہے ، اسی کے مسائل میں وہ گم ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ نقد فائدے انہیں حاصل ہو رہے ہیں اس میں کوئی کمی ہو۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول نے بالآخر دعا کی۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر وہ عذاب کی گرفت میں آ گئے۔ یہ عذاب جس شکل میں بھی تھا ایک ہولناک آواز کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑا تھا اور ساتھ ہی وہ حق بھی نمودار ہوا تھا جس کا وعدہ رسول نے کیا تھا۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب دنیا میں قوموں کی کثرت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے بھی پے درپے اپنے رسول بھیجے۔ اس وقت دنیا بین الاقوامی نہیں تھی اور نہ ایسے وسائل موجود تھے کہ ایک قوم میں رسول کی بعثت دوسری قوموں تک پیغام رسانی کا ذریعہ بن سکے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے۔ ان سب رسولوں کے اور ان کی قوموں کے نام قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جن رسولوں کے ناموں کا قرآن میں ذکر ہوا ہے ان کے علاوہ بھی بہ کثرت رسول مختلف قوموں کی طرف مختلف زمانوں میں بھیجے گئے تھے۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا قصہ تفصیل کے ساتھ سورۂ طٰہٰ میں گزر چکا۔

نشانیوں سے مراد معجزے ہیں جن میں عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ سب سے بڑا معجزہ تھا۔

کھلی حجت سے مراد وہ حجت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی دعوت نیز ان کے گفتار و کردار میں بالکل نمایاں تھی اور ان کی شخصیتیں اس بات کا مظہر تھیں کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہیں اور انہیں اس کی تائید حاصل ہے۔ ایک نبی کی شخصیت حجت ہی ہوتی ہے خواہ وہ کوئی معجزہ دکھائے یا نہ دکھائے۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں قَومَہُمَا لَنا عابُدوْنَ (ان کی قوم ہماری عابد ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہاں عابدون کے معنی عبادت کرنے والے کے نہیں بلکہ غلامی کرنے والے کے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ نے ایک موقع پر فرعون سے کہا تھا: وَ تِلْکَ نِعْمَۃٌ تُمُنُّہَا عَلَیِّ اَنْ عَبَّدتَّ بَنِیْ اِسْرَائِیلَ (شعراء:۲۲) "یہی تیرا وہ احسان ہے جو تو جتا رہا ہے اس بات پر کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔”

اس آیت میں عَبَّدتَّ کا لفظ غلام بنا لینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا تھا۔ ان کی اس کمتر حیثیت کا ذکر کر کے فرعون اور اس کی حکومت کے ذمہ داروں نے لوگوں کو شہ دی کہ موسیٰ اور ہارون کو اللہ کا رسول تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو ہم پر برتری حاصل ہو جائے جبکہ وہ جس قوم کے قائد ہیں وہ ہماری غلامی کر رہی ہے۔ تو کیا اب ہم اپنے غلاموں کے دین کو قبول کر لیں اور ان کے قائدوں کو اپنا قائد مان لیں ! یہی وہ تکبر تھا اور یہی وہ جاہلی عصبیت تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو قبول حق سے روکا۔

موجودہ دور کے ایک مشہور مفسر نے لَنَا عَابدُوْنَ کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو شخص کسی کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے لیکن یہ بات اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جبکہ آدمی یہ سمجھتے ہوئے کسی کی اطاعت کر ے کہ اس کو علی الاطلاق حکم دینے کا اختیار ہے یا اس کی اطاعت کا خدا کی اطاعت کے ماتحت ہونا ضروری نہیں اسی لیے شیطان کی اندھی تقلید کو اس کی عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مگر بنی اسرائیل فرعون کی اطاعت مجبوراً کر رہے تھے اس لیے بھی کہ اس کا اقتدار ان پر قائم تھا اور اس لیے بھی کہ فرعون نے ان کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ایسی صورت میں بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ فرعون کی عبادت کر رہے تھے اور فرعون نے اسی معنی میں کہا کہ یہ قوم ہماری عابد ہے اور اگر بالفرض فرعون نے یہ بات اسی مفہوم میں کہی تھی تو اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ اس کا یہ قول صحیح تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ کو دیوانہ بھی کہا تھا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی یہ بات صحیح تھی۔ اگر نہیں تو پھر فرعون کے اس قول کو کہ یہ قوم ہماری "عابد” ہے عبادت کی شرعی اصطلاح کا مفہوم متعین کرنے کے لیے کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد تورات ہے جو حضرت موسیٰؑ کے بعد بھی طویل عرصے تک لوگوں کے لئے اللہ کی ہدایت معلوم کرنے کا ذریعہ بنی رہی۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا ذکر ان کا نام لیے بغیر ان کی ابنیت سے کیا گیا جس سے ایک تو اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ بغیر باپ کے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور دوسرے یہ کہ وہ خدا کے نہیں بلکہ مریم کے بیٹے تھے۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم دونوں مل کر اللہ کی ایک نشانی تھے کیونکہ حضرت مریم بغیر شوہر کے حاملہ ہوئی تھیں اور حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کو جب درد زہ اٹھا تو انہوں نے بیت المقدس سے دور کھجور کے تنہ کے پاس پناہ لی تھی تاکہ وہ پوشیدہ رہیں اور لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچیں۔ یہ جگہ بڑی پرسکون تھی اور یہ ایک ٹیلہ تھا جس کے نیچے اللہ نے چشمہ جاری کر دیا تھا (دیکھئے سورۂ مریم آیت ۲۴) اس آیت کا اشارہ اسی مقام کی طرف ہے جو ان پریشان کن حالات میں اللہ کے فضل خاص سے ان کے لیے سکون و راحت کا ذریعہ بنا۔ بائبل میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا مقام بیت لحم بتلایا گیا ہے۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکم ہر رسول کو دیا گیا تھا اس لیے اس کو اس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے کہ گویا تمام رسول مجتمع ہیں اور ان سے بیک وقت خطاب کر کے یہ ہدایت دی جا رہی ہے۔ یہ بلاغت کا اسلوب ہے۔

پاک چیزیں کھانے کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں ایک یہ کہ وہی چیزیں کھائی جائیں جو شرعاً پاک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔

یہ حکم جب رسولوں کو دیا گیا تو ان کے پیروؤں پر آپ سے آپ لازم آتا ہے کہ اس کی اتباع کریں۔ حدیث میں اس آیت کی بہترین تشریح بیان ہوئی ہے :

اَیُّہا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّطَیِّباً وَاَنَّ اللّٰہ اَمَرَالمُومنینَ بِمَا اَمَرَبِہِ المرسلین فَقَالَ یَا ایَّہَاالرُّسُلَ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبات وَاعْمَلُوْاصالحًا اِنّی بمَا تعمَلونَ علیمٌ وقالَ یَااَیُّہا الذِّینَ آمَنُوْاکلوا مِنْ طَیّبات مَارَرَتْنَاکمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرجُلَ یطیل السَّفَرَ اشعَث اَغْبَرَ یَمُد یَدَیْہ الی السَّمَاءِ یاربِّ یاربِّ ومطعمہٌ حرام و مشربہ "حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے۔ اس نے مؤمنوں کو اس بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے رسولوں کو دیا ہے اس کا ارشاد ہے یٰا اَیُہَا الرُّسُلُ کلوا مِنَ الطیّباتِ وَاعْمَلُوْاصالحاً اِنّی بمَاتَعمَلُونَ علیمٌ (المومنون۵) اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اس کو میں جانتا ہوں۔ "نیز فرمایا یٰایُّہَالَّذِیْنَ آمَنُوا کُلُوْامِنْ طَیِّبَاتِ مَاَرزقناکم (بقرہ۔ ۲۱)” اے ایمان والو کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔” راوی کہتا ہے پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (حج کے لیے) طویل سفر کرتا ہے ، جس کے بال (سفر کی وجہ سے) پراگندہ اور غبار آلود ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھنا، اس کا پینا اور اس کا لباس سب حرام کا ہے اور حرام کھا کر وہ پلا ہے پھر اس کی دعا کس طرح قبول ہو گی؟” (مسلم کتاب الزکوٰۃ)

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ پاک چیزیں کھانے میں اور نیک عمل کرنے میں گہرا ربط ہے چنانچہ صالح غذا صالح اعمال کی پرورش کرتی ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۳۳۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات سورۂ انبیاء آیت ۹۲ میں بھی بیان ہوئی ہے البتہ وہاں فَا تَّقُوْنِ (تو مجھ سے ڈرو) کی جگہ فَاعْبدُوْنِ (تو میری عبادت کرو) ارشاد ہوا ہے۔ ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کا خوف اور اس کی عبادت لازم و ملزوم ہیں۔ جو خدا سے ڈرتا ہو گا وہ لازماً اس کی اور صرف اس کی عبادت کرے گا۔ خدائے واحد کی عبادت نہ کرنا اس سے بے خوف ہو جانا ہے۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۳۵۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر گروہ اپنے اپنے مذہب کو لے کر بیٹھا ہے اور اپنی مذہب پرستی میں ایسا گم ہے کہ ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر فرقہ اپنے مذہب کے بارے میں ایسی عصبیت کا شکار ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتا۔ بڑے بڑے "دانشوروں”  کا حال یہ ہے کہ جب مذہب کا معاملہ آتا ہے تو ان کی عقل ماری جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی رسوم کے طور پر صریح بے ہودہ کام کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ان کو جتنی محبت اپنے مذہب سے ہوتی ہے اتنی محبت اپنے خدا سے نہیں ہوتی حالانکہ مذاہب کی ساری ہماہمی خدا ہی کے نام پر ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنی غفلت ہی میں ڈوبے رہنا چاہتے ہیں اور داعی کی بات سننا نہیں چاہتے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کو وہ ناؤ سمجھ بیٹھے تھے وہ کاغذ کی تھی۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم کسی باطل مذہب کے پیرو ہوتے تو مال و اولاد کی جو فراوانی ہمیں حاصل ہے وہ نہ ہوتی حالانکہ ان چیزوں کا کسی کو عطا ء ہونا اس کے بر سر حق ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ آزمائش مقصود ہوتی ہے مگر یہ لوگ اس کا الٹا مطلب لے لیتے ہیں۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے خدا خوفی کا معیار مطلوب کہ آدمی نہ صرف اس سے ڈرے بلکہ اس کا خوف اس پر اس طرح چھا جائے کہ اس کی ہیبت و جلال سے وہ کانپ اٹھے اور اس کے عذاب کے تصور سے اس پر لرزہ طاری ہو۔ یہ ایک مؤمن کی اہم ترین صفت ہے اور یہ کوئی منفی چیز نہیں بلکہ زبردست طاقت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ ایسی طاقت کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی اور فرعون کو بھی منہ کی کھانا پڑتی ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو صدقہ و خیرات بھی وہ کرتے ہیں اس پر اطمینان کا سانس نہیں لیتے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے بری ہو گئے بلکہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے رب کے حضور جوابدہی کے تصور سے ڈرتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں یہ عمل اللہ کے ہاں خالص ثابت ہو گا یا نہیں اور وہ اپنے قصوروں پر گرفت سے بچ سکیں گے یا نہیں اور وہ اپنے قصوروں پر گرفت سے بچ سکیں گے یا نہیں۔ ان کے دل کی یہ کیفیت صدقہ و خیرات ہی کے معاملہ میں نہیں ہوتی بلکہ نیکی کے دوسرے کاموں میں بھی ہوتی ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : حضرت عائشہ کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لَا یَا بنتَ الصِدّیقِ وَ الکنّہُم الَّذِینَ یَصُومُونَ ویُصَلّونَ ویَتصَدَّقُونَ وَہُم یَخَافُوْنَ اَنْ لاَ تُقْبَلَ مِنہُمْ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) "نہیں اے بنت صدیق!اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ قبول نہ کیا جائے۔”

آیت میں خاص طور سے صدقہ کے معاملہ میں اس قلبی کیفیت کا ذکر ہوا ہے کیونکہ صدقہ کرنے والا ریا، نمائش اور فخر کے فتنہ کا بآسانی شکار ہو جاتا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان اوصاف کے لوگ نہ صرف خیر کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں تیز دوڑ کر ان کو پا لینے کی کوشش کرتے ہیں گویا بازی جیتنے کے لیے اصل میدان نیکی کا ہے نہ کہ ما دی ترقی اور کھیل گود وغیرہ کا۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۴۸۲۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے مراد انسان کا نامۂ اعمال ہے اور ینطقُ (وہ بولتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ وہ بولتا ریکارڈ ہو گا۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو ان کاموں سے دلچسپی نہیں جو اخلاقی لحاظ سے قابل قدر، خدا کے ہاں مقبول اور فلاحِ آخرت کے ضامن ہیں بلکہ ان کو کچھ دوسرے کاموں ہی سے دلچسپی ہے۔ یہ تو کافروں کا حال بیان ہوا ہے مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا حال بھی عام طور سے عجیب ہے۔ کتنے ہی لوگوں کو میچ دیکھنے سے دلچسپی ہے لیکن نماز سے نہیں جبکہ انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ میچ دیکھنے کا۔ واہیات فلمیں دیکھنے میں وہ پوری رات گزار دیتے ہیں یہاں تک کہ عین تہجد کے وقت جو دعا اور عبادت کی مقبولیت کا وقت ہے ویڈیو دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کا دل درگاہوں میں اٹکا رہتا ہے جبکہ مؤمن کا دل مسجد میں۔ یہ بدعات کا شاندار طریقہ پر اہتمام کریں گے مثلاً محرم کا شربت، کھچڑا ، نیاز ، گیارہویں ، مولود اور میلاد النبی کا جلوس وغیرہ لیکن سنتِ نبوی سے کوسوں دور رہیں گے۔ وہ فضول خرچی کریں گے اور نمائشی کاموں میں اپنی دولت لٹائیں گے لیکن بندوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چرائیں گے۔ دنیا بھر کی کتابوں کو وہ پڑھیں گے مگر کتابِ الٰہی کے مطالعہ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہو گا۔ ان کرتوتوں کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ آخرت کی فلاح ان ہی کے لیے ہے !

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کافر قوم پر جو عذاب آئے گا اس میں خوشحال لوگ نشانہ پر ہوں گے کیونکہ سوسائٹی میں فساد کو پھیلانے والے یہی لوگ تھے وہ داد عیش دیتے رہے اور اپنی دولت کو حق کی راہ سے روکنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۶ نوٹ ۲۰) ۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے مشرکین مکہ کی اس حرکت کی طرف کہ وہ رات میں قصہ گوئی کی مجلسیں جما کر غرورِ نفس کے ساتھ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے خلاف خوب بکواس کرتے ہیں۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ اس کلام پر غور کرتے تو ان پر یہ حقیقت کھل جاتی کہ یہ کلام الٰہی ہے اور پھر وہ اس کی قدر کرتے مگر انہوں نے غور و فکر کے بغیر ایک متعصبانہ رائے اس کے بارے میں قائم کی ہے۔

یہ آیت بھی قرآن پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے اور یہ دعوت منکرین کو دی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن عوام و خواص سب کے سمجھنے کے لیے نازل ہوا ہے اور وہ سب کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ کتاب صرف علماء کے سمجھنے کے لیے ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترجموں کی مدد سے قرآن کو سمجھنے کی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آدمی اس کا مطالعہ نہ کرے۔ جو لوگ یہ کہ کر کہ قرآن کو سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں عام مسلمانوں نیز غیر مسلموں کو اس سے دور رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ قرآن سے ان کا راست تعلق قائم ہو جائے۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی طرف رسول کی بعثت کوئی ایسا واقعہ نہیں جو تاریخ میں پہلی مرتبہ پیش آیا ہو اور ان سے پہلے کے لوگ اس سے نا آشنا رہے ہوں۔ ابراہیم و اسمٰعیل رسول ہی تھے جو ان (عربوں) کے جد اعلیٰ ہیں اور وحی الٰہی کی ہدایت ہی پر انہوں خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور حج کے منا سک مقرر کئے تھے۔ پھر وحی اور رسالت کو انوکھی بات سمجھنے کی وجہ؟

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بات بھی نہیں ہے کہ ان کو اپنے رسول کے پہچاننے میں دشواری ہو رہی ہے کیونکہ رسول کی شخصیت کا ان کو اچھی طرح تجربہ ہو چکا ہے اور اس کی صداقت ان پر اچھی طرح عیاں ہے اور اس کی شخصیت میں رسالت کی نشانیاں اس طرح نمایاں ہیں کہ کسی طرح شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۸۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے انکار کی اصل وجہ یہی ہے کہ حق ان کو پسند نہیں کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے اگر وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر چلنے لگے تو درہم برہم ہو کر رہ جائے کیونکہ لوگوں کی خواہشات غلط بھی ہوتی ہیں تناقض (متضاد) بھی اور خلاف عدل بھی۔ اس دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ جو برسر اقتدار آتا ہے کامیابی کے ساتھ حکومت نہیں چلا پاتا کیونکہ مختلف خواہشات اور متضاد آراء حق و عدل کی جگہ لے لیتی ہیں نتیجہ یہ کہ سوسائٹی اور نظام حکومت میں بگاڑ ہی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے انسان کو حقیقت پسند بننا چاہیے اور حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو حق کا تابع بنائے نہ کہ اس بات کا طالب ہو کہ حق اس کی خواہشات سے مطابقت پیدا کرے۔ مشرکین حق کو شرک کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ شرک باطل خواہشات کے سوا کچھ بھی نہیں اور توحید بالکل حق اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن ان کے لیے سر تا سر یاددہانی اور نصیحت ہے جو ان ہی کی خیر خواہی کے لیے ہے مگر جو چیز ان کی اپنی خیر خواہی کے لیے نازل ہوئی ہے اسی سے وہ منہ موڑ رہے ہیں۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی (اے پیغمبرّ تم ان سے کوئی مال تو طلب کر نہیں رہے ہو کہ وہ یہ شبہ کرنے لگیں کہ یہ شخص کاہنوں (نجومیوںّ کی طرح مال بٹورنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص بھی آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ گمراہ ہے۔ آدمی کے راہِ ہدایت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخرت پر ایمان لائے اور آخرت پر ایمان لانے میں قیامت کے دن اٹھایا جانا، اللہ کے حضور پیشی اور اعمال کی جزا و سزا سب پر ایمان لانا شامل ہے۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی تکلیف کو اگر ہم دور کریں تو بجائے اس کے کہ وہ ہمارے شکر گزار ہوں سرکشی میں اور زیادہ بڑھتے چلے جائیں گے۔

اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس وقت کفار مکہ کسی تکلیف میں مبتلا کر دئے گئے تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تکلیف بھوک مری کی تھی۔

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ مصیبت او ر تکلیف ہے جس میں ایک نبی کی بعثت کے بعد اس کی کافر قوم کو اس لیے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ ہوش میں آ جائے۔ قرآن میں یہ سنت متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے مثلاً: وَمَا ارْسَلْنَا فِی قَرْیَۃ مِنْ نَبیُ اِلاّ اَخَذْنَا اَہْلَہَا باً لبَا سَآءُ الضَرَّئِ لَعَلّہُمْ یَضَّرْعُوْنَ (اعراف:۹۴) "ور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی نبی بھیجا اس کے باشندوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کریں۔”

اور ایک جگہ یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ انہیں برے عذاب سے پہلے دنیوی عذاب کی گرفت میں لے لیں گے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔ حم السجدہ کی آیت ہے۔ وَلَنُذیقنہُمْ من الْعَذَابالْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاکْبَرِلَعَلَّہُمْ یَرجعُوْنَ "ہم انہیں عذابِ اکبر سے پہلے عذاب ادنیٰ کا مزا چکھائیں گے تاکہ وہ رجوع کریں۔”

کفار مکہ بھی اس سنت الٰہی کی زد میں آ گئے تھے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قحط اور بھوک کی شدید تکلیف سے گزرنا پڑا۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "عذاب ادنی”  تو ان کے سنبھلنے کے لیے ہے لیکن اگر انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا تو وہ پھر تباہ کن عذاب کی گرفت میں آ جائیں گے جو ان کے لیے دائمی محرومی اور مایوسی کا باعث ہو گا۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نحل نوٹ ۱۱۵۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم اپنی عقل کا صحیح استعمال کرو تو توحید اور آخرت پر ایمان لے آؤ جس کی دعوت قرآن پیش کر رہا ہے۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں یہ اعتراف موجود ہے کہ دوبارہ اٹھائے جانے کی بات ایسی نہیں جس سے ہم آشنا نہ ہوں اور اب پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئی ہوئی ہو بلکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بات پہلے سے چلی آ رہی ہے اور یہ وعدہ ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ وعدہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعٰیل سے نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ کے اس جواب سے واضح ہوتا ہے کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کے وجود کے نہ صرف وہ قائل تھے بلکہ ان کا رب اللہ ہی کو مانتے تھے اور یہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل ہی کی تعلیم کا اثر ہو سکتا ہے۔ اس بنیا دی حقیقت کو ماننے کے باوجود وہ شرک کے قائل تھے۔ یہ ان کے عقیدہ کا صریح تضاد تھا مگر وہ اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں انسان متضاد باتوں کا قائل ہو جاتا ہے حالانکہ عقل سلیم متضاد باتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقتیں جن کا یہ انکار نہیں کر سکتے توحید کا واضح ثبوت ہیں نیز انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کے لیے دلیل بھی۔ واضح ہوا کہ قرآن کی دعوت بالکل حق ہے اور اس سے انکار کرنے والے بالکل جھوٹے ہیں۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے مشرکین کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ خدا نے جب کسی کو بیٹا نہیں بنایا تو بیٹیاں بنانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ نیز اس سے عیسائیوں کے بھی عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۷۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دعا اس لیے سکھائی گئی تاکہ آپ اللہ کے عذاب سے خائف رہیں کہ یہی شانِ بندگی ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ تمہارا جو مذاق اڑاتے ہیں اس کا کوئی اثر قبول نہ کرو۔ ان کے شر کو زیر کرنے کا بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کرو۔ ظاہر ہے یہ طریقہ اصلاحی اور تعمیری ہی ہو سکتا ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حق کی مخالفت کا یہ طوفان جو اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ شیطان کی شر انگیزیوں کا نتیجہ ہے۔ وہ دشمن حق بھی ہے اور دشمن انسان بھی اس لیے وہ انسان کو حق کے خلاف اکستا ہے اور جو لوگ اس کا اثر قبول کرتے ہیں وہ (His Master’s Voice) بن جاتے ہیں یعنی اپنے اس سرپرست کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ ان کے وہ اعتراضات جو قرآن ، پیغمبر اور دوسری زندگی کے بارے میں نقل ہوئے شیطان ہی کے اشاروں پر کئے گئے ہیں جب کہ وحی الٰہی نے انسان کو اس بات سے خبردار کر دیا ہے کہ شیطان اس کا ازلی دشمن ہے لہٰذا جو شخص شیطان کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس سے چوکنا رہے نیز اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دعا ہے کہ شیاطین میرے قریب بھی نہ پھٹکیں۔ شیطانوں سے شدید نفرت ہی ان کے شر اور ان کے وسوسوں سے بچنے کا سبب بنتی ہے۔

رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ہَمَزَاَتِ الشّیَاطِیْنِ وَاَعُوْذُبِکَ رَبّ اَنْ یّحْضُرُوْنِ۔ "اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب میں اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔

اگر ایک مؤمن پورے شعور کے ساتھ یہ کلمات ادا کرتا ہے تو گویا وہ اپنے کو اللہ کی حفاظت میں دے دیتا ہے اور جو شخص اپنے کو اللہ کی حفاظت میں دیدے کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اس کو اپنی حفاظت میں نہ لے۔

اس ہدایت سے وہ لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو شیطان کے وجود ہی کے قائل نہیں ہیں۔ ان مادہ پرستوں پر شیطان کا جادو ایسا چل گیا ہے کہ ان کا اپنا وجود ہی سب کچھ ہے اب ان کو کیا ضرورت کہ شیطان کے وجود کو تسلیم کر لیں !

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ایک خالی خولی بات ہے ورنہ اگر اس کو دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو وہاں پھر وہ وہی کام کرے گا جو پہلے کرتا رہا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۴۸۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برزخ کے معنی روک اور آڑ کے ہیں۔ موت کے بعد روحیں جہاں منتقل ہوتی ہیں وہ دنیا اور آخرت کے درمیان کا عالم ہے جو ایک روک اور پردہ ہے اس لیے اسے برزخ کہتے ہیں اور حدیث میں ان احوال کو جو موت کے بعد روح پر گزرتے ہیں قبر کے احوال سے تعبیر کیا گیا ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے ایک موثر تعبیر ہے ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو قبر میں دفن ہوا اس پر تو یہ احوال گزرے ہیں اور جو قبر میں دفن ہی نہیں ہوا بلکہ جس کی لاش جلائی گئی یا کسی اور طریقہ سے ضائع کر دی گئی یا ممی بنا کر دنیا میں محفوظ کر دی گئی اس پر یہ احوال نہیں گزرتے۔

مرنے کے بعد انسان کو قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہنا ہے۔ قیامت کے دن اسے جسم سمیت پھر اٹھایا جائے گا اور یہ عالم آخرت ہو گا جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے۔

عالمِ برزخ میں روحوں کی منتقلی اس بات کی واضح تردید ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی نہ کسی روپ میں دنیا ہی میں چکر کاٹتا رہتا ہے یعنی آواگوان کا نظریہ جو ایک بے بنیاد نا معقول اور متناقض نظریہ ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن رشتہ داری کام نہیں آئے گی کہ باپ بیٹے کے کام آئے یا بیٹا باپ کے اور نہ کوئی کسی کا حال پوچھنے والا ہو گا کہ ہمدردی اور غمگساری کرے اور نہ ہی کوئی کسی سے مدد طلب کر سکے گا۔ ہر شخص کو اپنی نجات کی فکر لاحق ہو گی اور کسی کے لیے بھی یہ موقع نہیں ہو گا کہ وہ دوسرے کے لیے کچھ کر سکے۔ گویا قیامت کے دن نسل و نسب کے تمام رشتے بیکار ہو گئے ہوں گے۔

نجات کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہی ہوں گے جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۶۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۷۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا المناک اور کیسا ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا ! انسان سوچے تو اللہ کے عذاب سے پناہ مانگے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم میں پہنچ کر یہ کافر اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے اور اپنی قسمت کو روئیں گے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب تمہاری کوئی شنوائی ہونے والی نہیں۔ جو موقع عمل کا تھا وہ تم نے کھو دیا اب تو اپنے کئے کی سزا تم کو بھگتنا ہے۔

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بڑی درد بھری دعا ہے جو اہل ایمان کی زبان سے اس وقت ادا ہوئی ہے جبکہ کافر انہیں اذیت پہنچا رہے تھے۔ انہوں نے ان مذاق اڑانے والوں سے کچھ نہیں کہا بلکہ اپنے رب ہی سے رحم کی درخواست کی۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں صبر کے مفہوم میں حق پر استقامت، تکلیفیں برداشت کرنا اور اذیت دہ باتوں پر تحمل سے کام لینا شامل ہے۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے پوچھے گا جیسا کہ سیاقِ کلام (Context) سے ظاہر ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں تم نے کتنی مدت گزاری۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن وہ جس دنیا میں قدم رکھیں گے اس کے احوال و ظروف اس دنیا سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت انہیں محسوس ہو گا کہ جو مدت انہوں نے دنیا میں گزاری وہ بہت مختصر تھی۔ زیادہ سے زیادہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا ان کے لیے مشکل ہو گا اس لیے وہ کہیں گے کہ اس کا صحیح جواب تو وہی دے سکتے ہیں جو اعداد و شمار کا علم رکھنے والے ہیں۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر دنیا میں تم نے یہ بات جان لی ہوتی کہ دنیا میں جو مدت عمر تم گزارو گے وہ آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی مختصر ہے تو تمہاری دنیا بدل گئی ہوتی اور اپنا قیمتی وقت برباد نہ کرتے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کا یہ سوال رہتی دنیا تک ان تمام لوگوں سے ہے جو آخرت کے قائل نہیں۔ وہ بتائیں کہ آخرت اور جزا و سزا مستقبل کی حقیقتیں نہیں تو ایک اخلاقی حس رکھنے والی اور ذمہ داریوں کی حامل مخلوق کو پیدا کرنے کا کیا مقصد؟ اگر انسان کی تخلیق کی کوئی غایت نہیں ہے تو اس کی ساری ہماہمی بے کار ہے۔ اگر مر کر ہمیشہ کے لیے مٹی ہونا ہے تو جینے کا فائدہ ؟ دنیا میں انسان طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتا ہے۔ اگر صبر کا کوئی پھل ملنے والا نہیں ہے تو تکلیف کی زندگی گزارنے کا کیا حاصل؟ کیونکہ نہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دے ؟ آج دنیا کے بڑے بڑے مفکر اور "دانشور” مسائل زندگی کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں لیکن زندگی کا جو سب سے زیادہ بنیا دی مسئلہ ہے یعنی اس کا اصل مقصد معلوم کرنا تو اس سے وہ بالکل بے پروا ہیں اور دانش و بینش سے کام نہیں لیتے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی بے مقصد کام کرے۔ یہ خیال کرنا کہ انسان جیسی اعلیٰ اور اشرف مخلوق کو اس نے بے مقصد اور بے غایت پیدا کیا ہے اس کے مرتبہ سے اس کو فروتر خیال کرنا ہے۔

اللہ تو بادشاہ حقیقی ہے پھر وہ اپنی اس مخلوق سے جس پر ذمہ داریوں کا بار ڈالا گیا ہے جوابدہی کے لیے اپنے حضور کیسے نہیں طلب کرے گا؟

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کا عرش بڑی شان والا ہے اور وہ اپنی پوری خدائی شان کے ساتھ کائنات پر حکومت کر رہا ہے لہٰذا اس کی حکومت میں اندھیر نگری ہرگز نہیں ہو سکتی۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ مؤمنوں نے فلاح پائی اور اختتام اس بات پر ہو رہا ہے کہ کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ اس سے اس سورہ کا مرکزی مضمون خود متعین ہو جاتا ہے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اخیر میں دعائیہ کلمات کی تلقین اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ دعا (رَبِّ اغْفِرْوَارحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْن) فلاح و سعادت کی راہ کھولنے والا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۲۴۔  سورۂ النور

 

 

 (۶۴ آیات)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

                   تعارف

 

نام

 

آیت ۳۵  میں بیان ہوا ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام ،النور، ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۶ھ  میں نازل ہوئی ہو گی۔  سورۂ احزاب میں جو غزوۂ خندق (شوال ۰۵ھ) کے بعد نازل ہوئی تھی گھر کے باہر کے پردہ کے سلسلہ میں احکام بیان ہوئے ہیں اور اس میں گھر کے اندر غیر محرموں پر زینت کے اظہار سے منع کیا گیا ہے۔  یہ تدریجی حکم ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ اس سے پہلے گھر کے باہر پردہ کا حکم آ چکا تھا یعنی سورہ احزاب نازل ہو چکی تھی۔

اس سورہ میں جو حدود (تعزیری قوانین) بیان ہوئے ہیں وہ بھی ایسے موقع پرہی دئے جا سکتے ہیں جبکہ قوت نافذہ حاصل ہو گئی ہو۔

مدینہ میں مسلمانوں کو یہ قوت غزوۂ بنی قریظہ کے بعد ہی حاصل ہو گئی تھی جو غزوۂ خندق کے متصلاً بعد پیش آیا تھا اور جس کے بعد یہود نواز منافق کمزور پڑ گئے تھے اور بوکھلاہٹ کی وجہ سے اوچھی باتوں پر اتر آئے تھے یعنی شریف عورتوں پر تہمت لگانا وغیرہ۔

 

مرکزی مضمون

 

عفت و پاک دامانی اور شرم و حیاء کے تحفظ کے لیے جن باتوں کا اہتمام ضروری ہے ان کی ہدایت،  بدکاری کرنے والوں اور جھوٹی تہمتیں لگا کر بے حیائی پھیلانے والوں کے خلاف کڑی سزاؤں کا اعلان اور اس حقیقت کا اظہار کہ ایمان سے مؤمن کی پوری زندگی منور ہو جاتی ہے۔ عفت و پاک دامانی اس کی درخشندہ کرنیں ہیں۔  پھر اس سورہ کا دائرہ اخلاقی نصیحت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ میں سماج پر اس کی ذمہ داریاں بھی واضح کر دی گئی ہیں اور اسلامی حکومت پر اس کے فرائض بھی۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  میں بطور تمہید اس سورہ کی یہ اہمیت واضح کی گئی ہے کہ اس میں جو احکام دئے جا رہے ہیں ان کی تعمیل فرض ہے۔  آیت ۲  تا ۱۰  میں زنا اور زنا کی تہمت کی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔

آیت ۱۱  تا ۲۶  میں منافقوں کو تنبیہ جو شریف مؤمن مردوں اور شریف مؤمن عورتوں کی عزت و ناموس پر دھبہ لگانے کے لیے جھوٹے قصے گڑھ کر سوسائٹی میں پھیلاتے تھے اور ان کے اس فتنہ کا شکار کمزور اور سادہ لوح مسلمان بھی ہو جاتے تھے۔

آیت ۲۷  تا ۳۴ میں ان باتوں کا اہتمام کرنے کی ہدایت جو عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

آیت ۳۵  تا۴۰  میں اس حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی روشنی میں چلتے ہیں ان کی زندگیاں اللہ کے نور سے منور ہو جاتی ہیں اور جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں وہ گہری تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

آیت ۴۱  تا ۵۴  میں ان دلائل کو بیان کرتے ہوئے جن سے خالص ایمان پیدا ہوتا ہے منافقوں کو دعوت کہ وہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کریں۔

آیت ۵۵  تا ۵۷  میں اہل ایمان کو بشارت کہ وہ ان کو اس طرح خلافت (اقتدار) سے نوازے گا کہ موجودہ خوف و خطر کا ماحول اطمینان و سکون کے ماحول میں تبدیل ہو جائے گا۔

آیت ۵۸  تا ۶۱  میں ان احکام کا تتمہ جو آیت ۲۷  تا ۳۴  میں گھر کے آداب کے تعلق سے دی گئی ہیں۔

آیت ۶۲  تا ۶۴  اختتامی آیات ہیں جن میں رسول کی پکار کو غیر معمولی اہمیت دینے اور اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

                   ترجمہ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک سورہ ہے جو ہم نے نازل کی ہے ۱ * اور اسے ہم نے فرض کیا ہے ۲* اور اس میں ہم نے واضح احکام نازل کئے ہیں ۳* تاکہ تم سبق لو ۴*

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زانی عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔  ۵* اور اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو ان پر ترس نہ آئے۔  ۶* اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔  اور ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ ۷*

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ سے نکاح نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر۔  ۸*

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کریں ان کو اسّی کوڑے مارو ۹* اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔  ۱۰* وہ فاسق ہیں۔  ۱۱*

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  ۱۲*

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے پاس گواہ نہ ہوں بجز ان کی اپنی ذات کے تو (اس صورت میں) ان میں سے ایک کی (یعنی شوہر کی) گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پانچویں بار یہ کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص (اس کا شوہر) جھوٹا ہے۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے۔  ۱۳*

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔  پس جان لو کہ اللہ فضل والا رحمت والا ہے) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے۔  ۱۴*

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک گروہ ہیں۔  ۱۵* تم اس چیز کو اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے اچھا ہے۔  ۱۶* ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اتنا ہی وبال اس پر ہے۔  اور جس شخص نے اس میں بڑا حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔  ۱۷*

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ ۱۸*

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ اس (الزام) کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ اور جب وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔  ۱۹*

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم لوگوں پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوئی تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے اس کی وجہ سے بڑا عذاب تمہیں آ لیتا۔  ۲۰*

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تماس (جھوٹ) کو اپنی زبانوں پر لا رہے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہ تھا۔  تم اسے معمولی بات خیال کر رہ تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات تھی۔  ۲۱*

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نے یہ بات سنی تو کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتا۔  سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔  ۲۲*

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرنا اگر تم مومن ہو۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے وہ علم والا حکمت والا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا ہے۔  ۲۳* اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔  ۲۴*

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی (تو تم کو برے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا مگر اس نے تمہیں بچایا) اور یہ کہ اللہ شفیق و رحیم ہے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔  اور جو کوئی شیطان کے نقش ِ قدم پر چلے گا تو وہ اسے بے حیائی اور برائی ہی کا حکم دے گا۔  اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی پاک نہ ہو سکتا۔  ۲۵* مگر اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا اور اللہ سنے والا جاننے والا ہے۔  ۲۶*

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ حیثیت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی اعانت نہیں کریں گے۔  انہیں چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں۔  کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۲۷*

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ پاکدامن،  بے خبر ۲۸* مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا ایسا بدلہ جو حق ہے۔  اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی ہے حق۔  حقیقت کو آشکارا کرنے والا۔  ۲۹*

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔  اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔  ۳۰* یہ لوگ بری ہیں ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ ۳۱* ان کے لیے مغفرت ہے اور عزت کی روزی۔

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو ا کرو جب تک کہ مانوس ہو کر اجازت نہ حاصل نہ کر لو اور گھر والوں کو سلام نہ کر لو۔  ۳۲* یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔  ۳۳*

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے۔  اور اگر تم سے واپس ہونے کے لیے کہا جائے تو واپس ہو جاؤ۔  ۳۴* یہ طریقہ تمہارے لیے خوب پاکیزہ ہے۔  ۳۵* اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ان غیر رہائشی مکانوں میں داخل ہو جاؤ جن میں تمہارے فائدہ کا سامان ہے۔  ۳۵* تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو اللہ سب جانتا ہے۔  ۳۷*

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۳۸* اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  ۳۹* یہ طریقہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔  جو کچھ وہ کرتے ہیں اس سے اللہ با خبر ہے۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مؤمن عورتوں سے کہو وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۴۰* اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔  ۴۱* اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے ۴۲* اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالیں۔  ۴۲* اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے یا اپنے باپ یا اپنے شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنی عورتوں یا اپنے مملوکوں یا ان مردوں کے سامنے جو تابع ہوں اور (عورتوں سے) غرض نہ رکھتے ہوں یا ان بچوں کے سامنے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی آشنا نہ ہوئے ہوں۔ ۴۴* اور اپنے پاؤں (زمین پر) مارتی ہوئی نہ چلیں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے ۴۵* اور اے مؤمنو! تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو ۴۶*  تاکہ فلاح پاؤ۔   ۴۷*

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم میں سے جو لوگ مجرد (بغیر شوہر یا بیوی کے) ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیو میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کر دو۔  ۴۸* اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔  ۴۹* اللہ بڑی وسعت والا علم والا ہے۔  ۵۰*

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہ رکھتے ہوں وہ پاک دامانی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔  ۵۱* اور تمہارے مملوکوں میں سے جو (اپنے آزاد ہونے کے لیے) تحریری معاہدہ کر لو اگر تم جانتے ہو کہ ان کے اندر بھلائی ہے۔  ۵۲* اور ان کو اللہ کے اس مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے۔  ۵۳* اور اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں محض اس لیے کہ تمہیں دنیوی زندگی کے فائدے حاصل ہو جائیں۔  ۵۴* اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان کے مجبور کئے جانے کے بعد اللہ (ان کے لیے) معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  ۵۵*

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری طرف واضح احکام نازل کئے ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔  ۵۶* اور متقیوں کے لیے نصیحت بھی۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔  ۵۷* اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہو۔  ۵۸* چراغ شیشہ (قندیل) کے اندر ہو۔  شیشہ ایسا ہو جیسے چمکتا ہوا تارہ۔  اس چراغ کو زیتون کے ایسے مبارک درخت سے جو نہ شرقی ہو نہ غربی روشن کیا جاتا ہو۔  اس کا تیل بھڑک اٹھنے کو ہو گو آگ نے اس کو چھوا نہ ہو۔  نور پر نور۔ ۵۹* اللہ اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے۔  ۶۰* اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے۔  اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔  ۶۱*

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (یہ چراغ روشن ہے) ایسے گھروں میں جن کو اللہ نے بلند کرنے اور جن میں اس کے نام کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔  ۶۲* ان میں اس کی تسبیح کرتے ہیں صبح و شام۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کی یاد سے ، نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی۔ ۶۳* وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔  ۶۴*

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین اعمال کی جزا دے اور اپنے فضل سے مزید نوازے۔  ۶۵* اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔  ۶۶*

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں نے کفر کیا ۶۷* ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے صحرا میں سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو کچھ نہ پایا البتہ اللہ کو وہاں موجود پایا اور اس نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا۔  ۶۸* اور اللہ حساب چکانے میں بڑا تیز ہے۔  ۶۹*

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اس کی مثال ایسی ہے جیسے گہرے سمندر میں تاریکیاں جس کو موج پر موج ڈھانک رہی ہو اور اس کے اوپر بادل۔  تاریکیوں پر تاریکیاں ہوں۔  اگر اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ سکے۔  ۷۰* جس کو اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے کوئی نور نہیں۔  ۷۱*

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ۷۲* دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور پرندے بھی پر پھیلائے ہوئے۔  ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے۔  ۷۳* اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے اللہ با خبر ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ۷۴* اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادلوں کو ہنکاتے ہوئے لے جاتا ہے پھر ان کو باہم ملا دیتا ہے پھر ان کو تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ ان کے درمیان سے بارش کے قطرے نکلتے ہیں۔  ۷۵* اور وہ آسمان سے اولے برساتا ہے ان پہاڑوں سے جو اس کے اندر ہیں۔ ۷۶* پھر جس پر چاہتا ہے آفت نازل کرتا ہے ۷۷* اور جس کو چاہتا ہے اس سے بچاتا ہے۔  اس کی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ نگاہوں کو اچک لے۔  ۷۸*

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہی رات اور دن کا الٹ پھیر کرتا ہے۔  ۷۹* اس میں سبق ہے ان لوگوں کے لیے جو دیدہ بینا رکھتے ہیں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور الہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔  ۸۰* ان میں سے کوئی اپنے پیٹ کے بل چلتا ہے۔  ۸۱* تو کوئی دو پاؤں پر ۸۲* اور کوئی چار پاؤں پر۔  ۸۳* اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔  ۸۴* یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے واضح کر دینے والی آیتیں نازل کی ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔  ۸۵*

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہتے ہیں ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت اختیار کی۔  اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ روگردانی کرتا ہے۔  یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔  ۸۶*

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک گروہ گریز کرتا ہے۔  ۸۷*

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے فرمانبردار بنکر آتے ہیں۔  ۸۸*

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان کے دلوں میں روگ ہے یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے ساتھ نا انصافی کریں گے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں۔  ۸۹*

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل ایمان کو تو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر ے تو کہتے ہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی۔  ۹۰* یہی لوگ ہیں کامیاب ہونے والے۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے اور اللہ سے ڈریں گے اور پرہیزگاری اختیار کریں گے وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔ ۹۱*

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کے نام سے کڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تم ان کو حکم دو تو نکل کھڑے ہوں گے۔  ۹۲* ان سے کہو قسمیں نہ کھاؤ۔  معروف طریقہ پر اطاعت کرنا چاہیے۔  ۹۳* تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔  ۹۴* لیکن اگر تم روگردانی کرتے ہو تو (یاد رکھو) رسول پر وہ ذمہ داری ہے جس کا بار اس پر ڈالا گیا ہے اور تم پر وہ ذمہ داری ہے جس کا بار تم پر ڈالا گیا ہے اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔  اور رسول پر اس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں کہ صاف صاف (احکام) پہنچا دے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت (اقتدار) بخشے گا جس طرح ان لوگوں کو بخشی تھی جو ان سے پہلے گزر چکے۔  اور ان کے لیے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے مضبوطی عطا کر ے گا اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔  وہ میری ہی عبادت کریں گے ، کسی کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔  اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔  ۹۵*

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز قائم کرو ،زکوٰۃ دو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے۔  ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! تمہارے مملوک اور تم لوگوں کے وہ بچے جو ابھی بلوغ کو نہیں پہنچے تین اوقات میں تم سے اجازت لیا کریں۔  نماز فجر سے پہلے ، دوپہر کو جبکہ تم کپڑے اتار کر رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین اوقات تمہارے لیے پردہ کے ہیں۔  ان کے علاوہ دیگر اوقات میں (اجازت لیے بغیر ان کے آنے میں) نہ تم پر کوئی گرفت ہے اور نہ ان پر۔  تمہارا ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا جانا ہوتا ہے۔  اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں واضح فرماتا ہے۔  ۹۶* اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔  ۹۷*

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم لوگوں کے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جس طرح ان سے پہلے (بلوغ کو پہنچنے) والے اجازت لیتے ہیں۔  ۹۸* اس طرح اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح فرماتا ہے اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں اگر اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیں تو ان پر کوئی گرفت نہیں ۹۹* بشرطیکہ اپنی زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔  ۱۰۰* مگر ان کے حق میں بہتر یہی ہے کہ اس سے بچیں۔  اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ نابینا پر کوئی حرج ہے ، نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے ، نہ مریض پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپ داد کے گھروں یا اپنے ماؤں کے گھروں یا اپنے بھائیوں کے گھروں یا اپنی بہنوں کے گھروں یا اپنے چچاؤں کے گھروں یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں یا اپنے ماموؤں کے گھروں یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھاؤ۔  ۱۰۱ اس بات میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں کہ مل کر کھاؤ یا الگ الگ۔  ۱۰۲* البتہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو ۱۰۳* البتہ جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو ۱۰۳* یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ دعائیہ کلمہ ہے۔  ۱۰۴* اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم پر واضح فرماتا ہے۔  تاکہ تم عقل سے کام لو۔  ۱۰۵*

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مؤمن تو در حقیقت وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ۱۰۶* اور جب کسی اجتماعی کام کے لیے رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو اس وقت تک چلے نہیں جاتے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لیں۔ ۱۰۷* جو لوگ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی ہیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والے۔  لہٰذا جب وہ اپنی کسی ضرورت سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو۔  اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔  ۱۰۸* یقیناً اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول کے بلانے کو تم آپس میں ایک دوسرے کا بلانا نہ سمجھو۔  ۱۰۹* اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لیکر کھسک جاتے ہیں۔  ۱۱۰* تو جو لوگ رسول کے حکم کو ماننے سے گریز کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنہ کا شکار نہ ہو جائیں یا درد ناک عذاب ان کو پکڑ نہ لے۔  ۱۱۱*

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔  تم جس حال پر ہو اللہ اسے جانتا ہے۔  اور جس دن یہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔  وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔  اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

 

                   تفسیر

 

ا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ قرآن کی آیتیں جن سورتوں (Chapters) کی شکل میں موجود ہیں ان کی تشکیل اللہ ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔  یہاں "ایک سورہ” کہنے کا مطلب اس سورہ کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ اس سورہ میں زنا اور تہمتِ زنا کی سخت سزائیں بیان ہوئی ہیں جن کا نفاذ طبیعتوں پر سخت گراں گزرتا ہے نیز جنسی بے راہ روی کے سدباب کے لیے بھی سخت احکام دئے گئے ہیں اس لیے آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا کہ جو احکام اس میں دئے گئے ہیں وہ فرض ہیں لہٰذا لازماً ان کی تعمیل کی جانی چاہیے۔

تعزیرات (عقوبات) کے لیے قوتِ نافذہ کا ہونا ضروری ہے اور اس کا تعلق نظم اجتماعی اور حکومت سے ہے۔  اس سے اسلام کی یہ حیثیت بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ وہ وسیع تر معنی میں دین ہے جو اجتماعی زندگی سے متعلق بھی ہدایات دیتا ہے اور اس کا اپنا ایک تعزیری قانون بھی ہے جس کو نافذ نہ کرنا جبکہ قوتِ نافذہ موجود ہو فرض کی ادائیگی سے گریز ہے اور ان کی جگہ وضعی (انسان کے بنائے ہوئے) قوانین کو نافذ کرنا احکام الٰہی کی صریح خلاف ورزی بلکہ خدا سے سرکشی ہے لیکن افسوس کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بیشتر حکومتیں بڑی بے شرمی کے ساتھ اسلام کے تعزیری قوانین کی جگہ خود ساختہ تعزیری قوانین نافذ کر رہی ہیں اور جہاں مسلمان کسی سیکولر اسٹیٹ کے تحت رہتے ہیں وہاں انہیں اسلام کے تعزیری قوانین کی صحت اور برتری ظاہر کرنے میں بھی تا مل ہوتا ہے تاکہ ان کا سیکولر ازم چکنا چور نہ ہو جائے !

ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قرآن کا علم حاصل کرنا فرض ہے کیونکہ عمل کے لیے علم شرط ہے اور تذکیر و تربیت کے پہلو سے بھی قرآن کا مطالعہ ضروری ہے۔  احکامِ الٰہی کے جو اثرات قلب و ذہن پر مرتب ہوتے ہیں وہ کسی اور کتاب سے نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو۔

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح احکام کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مفہوم بالکل واضح ہے۔  قرآن کی اس صراحت کے بعد اس کے کسی حکم کا کوئی مطلب لینا صحیح نہیں ہو سکتا جو واضح مفہوم کے خلاف ہو۔  اس سے ان تمام بحثوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو قرآن کے کسی واضح حکم کو مبہم سمجھ کر کی جاتی ہیں۔

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو تعزیری احکام دئے جا رہے ہیں وہ عبرت پذیری کے لیے ہیں یعنی اس لیے ہیں کہ کوئی شخص جرم کرنے کا حوصلہ نہ کرے نیز اس بات کی یاد دہانی ہو کہ اللہ کا قانون عدل جب مجرموں کے لیے دنیا میں سزا تجویز کرتا ہے تو اس نے جو دن انصاف کے لیے مقرر کیا ہے اس دن وہ مجرموں کو کیفر کردار کو کیوں نہیں پہنچائے گا؟

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت کے ذیل میں چند باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے :

۱) زنا ایک سنگین گناہ اور قابلِ سزا جرم ہے۔  مرد اور عورت کا اپنی مرضی سے زنا کا ارتکاب نہ ان کو بے گناہ قرار دیتا ہے اور نہ جرم سے بری۔  اس معاملہ میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں اور یکساں سزا کے مستحق البتہ اگر مرد نے عورت پر جبر کر کے زنا کیا ہے تو عورت بے قصور ہے اور اسے زانیہ نہیں کہا جا سکتا ایسی صورت میں صرف مرد سزا کا مستحق ہو گا۔

۲) متن میں لفظ ، جَلْدَہْ، استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی ایسی چیز سے مارنے کے ہیں جس کا اثر جلد پر ہو اور اس سے متجاوز نہ ہو۔  یہ مقصد کوڑے یا بید کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ضرب اس شدت سے نہ لگائی جائے کہ چمڑی ادھیڑ جائے اور جسم لہو لہان ہو جائے۔  مارتے وقت جسم پر جو معمول کپڑے ہوں وہ رہنے دئے جائیں گے اور منہ اور نازک اعضاء پر ضرب نہیں لگائی جائے گی۔  مرد کو کھڑا کر کے اور عورت کو بٹھا کر ضربیں لگائی جائیں گی۔

۳) عام جرائم کے لیے دو گواہ کافی ہوتے ہیں لیکن زنا کے ثبوت کے لیے قرآن نے چار گواہوں کا نصاب مقرر کیا ہے۔  یہ کڑی شرط اس لیے عائد کی گئی ہے تاکہ کسی کی عزت و ناموس کو آسانی سے بٹہ نہ لگایا جا سکے۔

۴) آیت کے الفاظ حکم کی عمومیت پر دلالت کرتے ہیں یعنی زانی اور زانیہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ دونوں کو سو کوڑے مارے جائیں لیکن بہ کثرت احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے زنا کے مختلف مقدمات میں شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کو زنا کا مرتکب ہونے کی بنا پر رجم یعنی سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا جس کی صحابۂ کرام نے تعمیل کی۔  یہ حدیثیں بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور مؤطا وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔  پھر خلفاء راشدین کے زمانہ میں بھی اس پر عمل درآمد ہوتا رہا اور امت کے علماء و فقہا اس پر متفق ہیں۔  علاوہ ازیں ایک حدیث میں جو سند کے اعتبار سے صحیح ہے یہ اصولی بات بھی بیان ہوئی ہے کہ:

لاَ یَحلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مسلم یَشْہَدُ اَنْ الاّاِلٰہَ اِلاّ بَاحْدیٰ ثلاثٍ: اَلنَّفسُ بِالنَّفسْ وَالثیبُ الزَّانی وَالمارق و مِنَ الدّینِ اَلتّارک الجماعۃ (بخاری کتاب الدیات) "کسی مسلمان کا جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں خون جائز نہیں الا یہ کہ ان تین صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے : اس نے کسی کا خون کیا ہو یا شادی شدہ ہو کر زنا کا مرتکب ہوا ہو یا دین سے نکل گیا ہو اور ملت کو چھوڑ دیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو) ۔”

اس لیے شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے رجم کی سزا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے البتہ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ قرآن عمومیت کے ساتھ کوڑوں کی سزا بیان کرتا ہے جبکہ حدیث شادی شدہ زانی و زانیہ کے لیے سنگسار کرنے کی سزا تجویز کرتی ہے تو دونوں میں مطابقت کی کیا صورت ہے ؟ اس کا جواب قدرے تفصیلی ہے :

زنا زمانۂ جاہلیت میں عام تھا اور اگر باہم رضامندی سے کیا گیا ہو تو اس کے لیے کسی سزا کا کوئی تصور نہیں تھا جیسا کہ موجودہ "مہذب جاہلیت” میں نہیں ہے اپنے معاشرہ میں زنا کی انتہائی سزا کے لیے تدریج ضروری تھی بالکل اسی طرح جس طرح کہ شراب کے متوالوں کو پہلے شراب سے نفرت دلائی گئی پھر صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا اور پھر شراب پینے والوں کے لیے سزا متعین ہوئی اور اس سزا میں بھی کسی قدر تدریج رہی یعنی پہلے صرف ہاتھ سے مارنے کی سزا تھی بعد میں کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی جس کی تفصیل احادیث میں ملتی ہے۔  اس حکمت تشریع کے پیش نظر مدینہ میں پہلے مرحلہ میں زانیہ عورتوں کو خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ گھروں میں نظر بند کرنے کا حکم ہوا اور زانی مرد اور عورت دونوں کو خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ تادیبی سزا دینے کا مجمل حکم دیا گیا۔  یہ حکم سورۂ نساء آیت ۱۵  اور ۱۶ میں بیان ہوا ہے۔  اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں سورۂ نور کی یہ آیت نازل ہوئی جس میں ہر قسم کے زانی کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ سو کوڑوں کی سزا کا حکم سنایا گیا۔  اس حکم سے نظر بند عورتوں کی رہائی کی سبیل پیدا ہو گئی جس کا وعدہ سورۂ نسا ء میں ان الفاظ میں کیا گیا تھا:

اَوْیَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِلاً (نساء ۱۵) "(انہیں گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے) یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔”

"سبیل” قید و بند سے رہائی کے معنی میں ہے اور کوڑوں کی سزا کا نفاذ ان کو قید و بند سے رہائی دلانے والا تھا۔  رجم کا حکم اس وقت نہیں دیا گیا تھا اور نہ رجم کو سبیل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔  اس مرحلہ میں کوڑوں کی سزا کا حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا جو بالکل بر محل تھا کیونکہ اس وقت تک شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا حکم دیا ہی نہیں گیا تھا۔

بعد میں یعنی سورۂ نور کی تنزیل کے کم از کم ایک سال بعد غالباً ۰۷ ھ  میں جو زنا کی سزا کے لیے تیسرے مرحلہ کی حیثیت رکھتا ہے انتہائی سزا تجویز کی گئی چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں زنا کے جو مقدمات پیش ہوئے ان میں آپ نے شادی شدہ زانی مرد اور شادی شدہ زانی عورت کو رجم کی سزا دی یہاں تک کہ یہود کے زنا کے مقدمہ میں بھی آپ نے یہی فیصلہ سنایا اور تورات میں رجم کا جو حکم موجود ہے اس سے ان پر حجت قائم کی۔

"اگر کوئی مرد کسی شوہر والی عورت سے زنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مرد جس نے اس عورت سے صحبت کی اور وہ عورت بھی۔  یوں تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دفع کرنا۔ اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہو گئی ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پا کر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کر دینا کہ وہ مر جائیں۔” (استثنا۲۲:۲۲،۲۳)

ان واقعات کے لیے دیکھئے بخاری،مسلم، ترمذی، ابو داؤد اور دیگر کتب حدیث کی کتاب الجدود) اس طرح تدریج کے آخری مرحلہ میں سنت نبوی نے جو وحی الٰہی ہی کی روشنی میں متعین ہوتی ہے شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا مقرر کی۔  اس سے کوڑوں کی سزا کا حکم جو سورۂ نور کی زیرتفسیر آیت میں دیا گیا ہے کنوارے مرد و عورت کے لیے مخصوص ہو گیا اور اب اس میں وہ عموم باقی نہیں رہا جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔  سنت یا احادیث صحیحہ کے ذریعہ قرآن کے احکام کی تخصیص کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً سورۂ جمعہ میں یہ حکم کہ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، بظاہر عام ہے یعنی مرد عورت سب کے لیے ہے لیکن سنت نے عورتوں کو اس سے مستثنیٰ کر کے مردوں کے لیے اس کو خاص کر دیا۔  قرآن نے وصیت کی تعمیل کا حکم دیا اور کوئی تحدید نہیں کی لیکن سنت نے ۳/۱ حصہ کے لیے اس کی تحدید کر دی۔  لہٰذا اگر سنت نے قرآن کی بیان کردہ کوڑوں کی سزا کو کنوارے زانی مرد و عورت کے لیے خاص کر دیا اور شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے اس سے زیادہ سنگین سزا تجویز کی تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ کنوارے شخص کے مقابلہ میں شادی شدہ شخص سے زنا کا ارتکاب جرم کو سنگین بناتا ہے اس لیے اس کی سزا بھی مقابلتہً سخت ہونی چاہیے لہٰذا سنت نے جو حد (سزا) مقرر کی وہ مبنی بر انصاف ہے۔

رجم کی سزا اگرچہ قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے لیکن سورۂ نور ہی کی آیت وَالَّذِین یُحِبُّونَ اَنْ تَشِیْعَ الفَاحِشَۃُ فِی الَّذیْنَ آمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدنیا وَالْآخِرۃِ  (جو لوگ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔  آیت ۱۹) اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ زنا کاروں کو درد ناک سزا دی جائے۔  سنت نے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا کا قاعدہ جاری کر کے اس آیت کے منشاء کو پورا کیا ہے۔  لہٰذا یہ کہنا صحیح نہ ہو گا کہ رجم کی سزا کے لیے قرآن میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے۔  البتہ رجم کی تائید میں اس روایت سے استدلال صحیح نہیں ہے جس میں حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن میں رجم کی آیت موجود تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت اٹھا لی گئی اور حکم برقرار رہا۔  یہ ایک بیہودہ بات ہے جو روایتوں میں آ گئی ہے اور اس کی نسبت حضرت عمر کی طرف ہرگز صحیح نہیں۔  قرآن تو ایک قطعی چیز ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔  وہ کسی راوی کے روایت کرنے سے نہیں بلکہ امت کے تواتر سے ثابت ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے پھر اگر کوئی روایت قرآن میں کسی آیت کے اضافہ کی مدعی ہو تو اس کا دعویٰ سراسر غلط بلکہ باطل قرار پائے گا اس لیے یہ روایت اس لائق نہیں کہ اس کو کوئی اہمیت دی جائے پھر اس روایت میں آیت (الشیخ والشیخۃ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) جن الفاظ اور جن اسلوب میں بیان ہوئی ہے وہ اس قدر لچر ہیں کہ اس کو قرآن سے جوڑنا ایسا ہی جیسے تاج محل میں مٹی کی دیوار کا جوڑ لگانا۔  اور اگر یہ آیت تھی تو اس کی تلاوت کا منسوخ ہونا اور حکم کا باقی رہنا بھی ایک ایسی بات ہے جو روایت پرستوں ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔  افسوس کہ لوگوں نے حدیثیں گھڑنے ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آیتیں گھڑنے کی بھی جسارت کی اور روایت پرست خلافِ قرآن اور بے ہودہ روایتوں کو بھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

۵) آیت میں خطاب اہل ایمان سے ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں اس بات کا مکلف (ذمہ دار) ہے کہ اس تعزیری قانون (حد) کو جاری کرے اور اس کے نفاذ کی عملی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں جو ان کی نمائندگی کرتی ہیں اس کو (اور اسی طرح اسلام کے دوسرے تعزیری قوانین کو) جاری و نافذ کریں۔

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا دین جہاں سختی کا مطالبہ کرتا ہے وہاں نرمی نہ برتو۔

علامہ رازی لکھتے ہیں :

"فِی دِینِ اللہ فرما کر اس بات پر متنبہ فرمایا ہے کہ دین نے جب ایک کام کو واجب قرار دیا تو اس کے بر خلاف نرمی کا استعمال صحیح نہیں۔” (تفسیر کبیر ج ۲۳ ص ۱۴۸)

نرمی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً ایک صورت یہ کہ شریعت کے تعزیری قانون کو کسی نرم قانون سے بدل دیا جائے جو کفر ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ عملاً اس کے نفاذ میں رعایت برتی جائے اور تیسری صورت یہ ہے کہ مار اتنی ہلکی ہو کہ سزا کا مقصد ہی فوت ہو جائے۔  نرمی کی ان تمام صورتوں سے احتراز ضروری ہے۔

شریعت کے تعزیری قوانین یقیناً سخت ہیں لیکن جرائم کو روکنے اور مجرموں کو سبق دینے کے لیے یہ ضروری ہیں چنانچہ آج مکہ و مدینہ کی سرزمین میں جرائم کی جو حیرت انگیز حد تک کمی ہے وہ ان قوانین ہی کے اجراء کی برکتیں ہیں۔

موجودہ دور میں تو مجرموں کے لیے بہت ہلکی پھلکی سزائیں تجویز کی جاتی ہیں۔  لوگوں کو ظالموں پر رحم آتا ہے مگر ان مظلوموں پر رحم نہیں آتا جو اغوا اور عصمت دری اور قتل و غارت گری کا شکار ہو جاتے ہیں۔  انہیں وہ سختی بھی دکھائی نہیں دیتی جو کسی جرم کا اعتراف کرانے کے لیے پولیس برتتی ہے۔  اور ایسی ایسی اذیتیں (Torture) دیتی ہے کہ دورِ وحشت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور کبھی بھی تو ملزم دم توڑ دیتا ہے حالانکہ اس کا جرم ابھی ثابت نہیں ہوا۔

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمانوں کی ایک تعداد سزا کے وقت موجود رہے تاکہ وہ عبرت حاصل کریں اور کسی شخص کو جرم کرنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ ہو۔

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں زنا کاروں کا عام طرز عمل بیان ہوا ہے۔  ایک زانی مرد زانی عورت یا مشرکہ سے نکاح کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اور نہ ایک زانیہ زانی مرد یا مشرک سے نکاح کرنے میں عار محسوس کرتی ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ایسے رشتہ حرام ہیں۔  مومن عورت کے لیے کسی زانی یا مشرک سے نکاح ہرگز جائز نہیں اور نہ مومن مرد کے لیے زانیہ یا مشرکہ سے نکاح جائز ہے۔  بدکاری اور بد عقیدگی کی بنا پر ایسے رشتے اہل ایمان کے لیے موزوں نہیں ہیں اس لیے لازماً اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

جہاں تک زنا بالجبر کا تعلق ہے وہ تو ایک زانی کسی پاکدامن خاتون کے ساتھ بھی کرتا ہے لیکن اس کو زانیہ نہیں کہا جا سکتا۔  اسی طرح ایک مسلمان خاتون لا علمی کی بنا پر ایک ایسے مسلمان کے نکاح میں آ جاتی ہے جو زانی ہے۔  اس بنا پر وہ زانیہ نہیں ہو جاتی اس لیے آیت کا مفہوم وہی صحیح معلوم ہوتا ہے جو اوپر بیان ہوا۔  واللہ اعلم۔

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تہمت سے مراد زنا کی تہمت ہے اور پاکدامن عورتوں پر خواہ وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ زنا کی تہمت لگانا ان کی عزت و ناموس کو بٹہ لگانا ہے جو ان کے لیے عار اور بدنامی کا باعث ہے اس لیے شریعت نے اس الزام کو ثابت نہ کرنے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی یعنی اسّی کورے لگانا۔

یہ سزا ہر قسم کے الزام کے لیے نہیں ہے بلکہ زنا کی تہمت کے لیے خاص ہے جس کو فقہی اصطلاح میں قذف کہا جاتا ہے۔  سزا دینا اسلامی عدالت کا کام ہے جس کے سامنے یہ مقدمہ پیش کیا گیا ہو اور تہمت لگانے والا چار گواہ پیش نہ کر سکے۔

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تہمت لگانے والوں کی شہادت ہمیشہ کے لیے ناقابل قبول ہے۔

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہوں نے بہت بڑا جھوٹ بولا اور پاکدامن عورتوں کی عزت و ناموس کو داغ دار بنانا چاہا اس لیے وہ بہت بڑے گناہ (فسق) کے مرتکب ہوئے۔

اس سے ضمناً یہ اصولی بات بھی واضح ہوئی کہ ایک مسلمان فاسق بھی ہو سکتا ہے اگر وہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے اور جب وہ دنیا میں سخت سزا کا مستحق ہو جاتا ہے تو آخرت میں فاسق مسلمانوں کو سزا سے کیوں نہ دوچار ہونا پڑے گا مگر آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد فسق و فجور کی زندگی گزارتے ہوئے اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ کلمہ گو ہونے کی بنا پر قیامت کے دن ان کو کسی سزا سے واسطہ پڑنے والا ہی نہیں ہے۔

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر ایسا شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو پھر وہ فاسق نہیں رہے گا۔  اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اور اس پر رحم فرمائے گا۔  مسلمانوں کی سوسائٹی میں بھی اسے پھر فاسق نہیں کہا جا سکے گا۔

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیتوں میں لعان کا حکم بیان ہوا ہے۔  لعان کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اور بیوی یہ حلفیہ بیان دیں کہ اگر وہ اپنے بیان میں جھوٹے ہیں تو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔  اس کی صورت یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے لیکن اس کے پاس ذاتی شہادت کے علاوہ پیش کرنے کے لیے گواہ نہیں ہیں جبکہ زنا کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ ضروری ہے تو وہ اسلامی عدالت کے سامنے چار مرتبہ حلفیہ بیان دے کہ وہ اپنے بیان میں بالکل سچا ہے اور پانچویں مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر وہ جھوٹا ہے۔  اس کے بعد عورت کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اگر شوہر کے الزام کو جھوٹا سمجھتی ہے تو اس کی تردید کرے اور اس تردید کے لیے اسے چار مرتبہ حلفیہ بیان دینا ہو گا کہ شوہر اس پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہنا ہو گا کہ اللہ کا غضب ہو اس پر (یعنی عورت پر) اگر شوہر اپنے بیان میں سچا ہے۔  اس کے بعد عدالت ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے گی اور کسی کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔  لیکن اگر شوہر کے حلفیہ بیان کے بعد بیوی زنا کے الزام کی تردید اپنے حلفیہ بیان کے ذریعہ نہیں کرتی تو وہ سزا کی مستحق ہے۔  یہ سزا وہی ہو گی جو اوپر آیت ۲  میں بیان ہوئی یعنی سو کوڑوں کی سزا کیونکہ یَدْرَ أعُنْہا العَذَابُ (اس سے سزا اس صورت میں ٹل جائے گی جبکہ۔ ۔ ۔) میں العذاب سے مراد وہی سزا لی جا سکتی ہے جو اس سیاق (Context) میں بیان ہوئی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ شادی شدہ زانیہ کی سزا سنت نے رجم مقرر کی ہے مگر وہ اس صورت میں ہے جبکہ چار گواہوں کے ذریعہ جرم ثابت ہو گیا ہو یا ملزم نے خود اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہو۔  یہاں دونوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں ہے اس لیے شوہر کے حلفیہ بیان کی تردید نہ کرنے پر عورت کو زنا کی انتہائی سزا دینے کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔  لہٰذا عورت کو زنا کی کم سے کم سزا ہی دی جا سکتی ہے یعنی سو کوڑے۔

حنفی مسلک ایسی صورت میں عورت کے لیے حَبسْ (قید) کی سزا تجویز کرتا ہے یعنی جب تک عورت شوہر کے بیان کی حلفیہ تردید نہیں کرتی اسے قید میں رکھا جائے گا مگر یَدْرَاُء عَنْہَاالْعَذَابُ (سزا عورت پر سے ٹل جائیگی۔ ۔ ۔) میں سزا سے مراد حَبس (قید) لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔  قریب ہی میں (آیت۲  میں) زنا کی سزا بیان ہوئی ہے اور زنا ہی سے متعلق سلسلۂ بیان میں یَدْرَأُ عنہَا العَذَابُ (عورت سے سزا اسی صورت میں ٹل سکتی ہے جبکہ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔) فرمایا گیا ہے اس لیے یہاں سزا سے ذہن اسی سزا کی طرف منتقل ہوتا ہے جو آیت ۲  میں بیان ہوئی ہے یعنی سو کوڑوں کی سزا۔

لعان کی صورت میں نکاح فسخ (Dissolve) ہو جاتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :”نبی صلی اللہ علیہ سلم نے انصار کے ایک مرد اور عورت کے درمیان لعان کرایا اور ان دونوں کو جدا کر دیا (بخاری کتاب الطلاق) ۔

لعان کا حکم تورات میں بھی موجود ہے مگر اس تفصیل کے ساتھ نہیں جو قرآن نے بیان کی ہے۔ (ملاحظہ ہو گنتی ۵:۱۱ تا ۳۱)

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اللہ کا فضل ہے کہ اس نے پر پیچ عائلی مسائل میں تمہاری رہنمائی کی اور یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لی مشکلات سے نکلنے کی صورت پیدا کر دی اگر ایسا نہ ہوتا تو تم مشکل میں پڑ جاتے۔  وہ توبہ قبول کرنے والا ہے اس لیے اس نے گنہگاروں کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔  وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر سکتے ہیں اور اس کی رحمت کے مستحق بن سکتے ہیں۔  وہ حکمت والا ہے اس لیے اس کے یہ احکام و قوانین حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں۔  ان کو غیر حکیمانہ اور غیر معقول وہی لوگ خیال کرتے ہیں جو اللہ کے صاحب حکمت ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔

واضح رہے کہ آیت میں لو لا (اگر ایسا نہ ہوتا) کا جواب عربی کے بلاغت کے اصول پر محذوف ہے یعنی الفاظ میں بیان نہیں ہوا ہے۔  مگر فحوائے کلام سے جو مفہوم واضح ہوتا ہے اسے ہم نے قوسین میں بیان کیا ہے۔

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے جھوٹ کے اس طوفان کی طرف جو منافقین نے کسی پاکدامن مؤمنہ کے خلاف اٹھایا تھا۔  یہ گروہ شامل تو تھا مسلمانوں میں لیکن نہ صرف یہ کہ اس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ اس کا مخالف اور مسلمانوں کے درپے آزار تھا۔  وہ محض اپنے قبیلہ کے مسلمان ہو جانے یا اس قسم کی دوسری مصلحتوں کی بنا پر اسلام لایا تھا۔  حقیقتہً اسے اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس سے بغض رکھتا تھا اور اپنے اس بغض کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتا رہتا تھا۔  غزوہ احزاب (۰۵ھ) کے بعد اس نے مسلم سماج کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے شریف مسلمان خواتین کو بدنام کرنے ، بے حیائی کا چرچا کرنے اور جھوٹی افواہیں پھیلانے کا کام شروع کیا۔  اس موقع پر وہ ایک عفت مآب مومن خاتون کے خلاف ایک گھناؤنا قصہ گھڑ لائے اور اس بہتان کو اس طرح پھیلانا شروع کیا کہ بعض غیر محتاط مسلمان بھی اس کا چرچا کرنے میں شریک ہو گئے۔  منافقوں کے اسی نئے فتنہ کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اور ان مسلمانوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے جنہوں نے جھوٹی افواہوں سے متاثر ہو کر برائی کا چرچا کرنے میں حصہ لیا تھا۔

قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ وہ کون خاتون تھیں جن کے خلاف طوفان کھڑا کیا گیا تھا اس لیے اس کا تعین ضروری نہیں اور چونکہ اس کا چرچا کرنے سے روکا گیا ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہے اس لیے صحابۂ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں طوفان کا وہ واقعہ نقل نہیں کیا جو اس وقت پیش آیا تھا۔  اس لیے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش بالکل غیر ضروری اور نا مناسب ہے کہ یہ تہمت کس خاتون پر لگائی گئی تھی اور کیا افسانہ تراشا گیا تھا۔  بے حیائی کے جھوٹے قصے بیان کرنے سے خواہ وہ تردید ہی کے ساتھ کیوں نہ ہوں برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیے ان کو نقل نہ کرنا ہی مناسب ہے اور سلامتی کی راہ یہی ہے کہ قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاء کر  کے متعلقہ احکام پر نگاہوں کو مرکوز کیا جائے۔

رہیں وہ روایتیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا قصہ بیان ہوا ہے تو قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ قرآن کا بیان عام مومن عفیفہ عورتوں سے متعلق ہے جیسا کہ آیت ۱۲  اور ۲۳ سے واضح ہے۔  اس میں کوئی اشارہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی زوجۂ مطہرہ کی طرف نہیں ہے۔  اگر واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگانے کا ہوتا تو تہمت لگانے والوں کا جرم اور سنگین ہو جاتا کہ یہ لوگ مومنوں کی ماں (ام المومنین) کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں نیز انہوں نے اپنی اس حرکت سے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اذیت پہنچائی ہے اور خاندان نبوت کی بدنامی کا باعث ہوئے ہیں لیکن اس قسم کی کوئی بات ان آیات میں اشارۃً بھی مذکور نہیں ہے۔  پھر ان روایتوں پر اسناد کے لحاظ سے بھی کلام کی گنجائش ہے اور متن (مضمون) کے اعتبار سے تو بہت سی باتیں ناقابل تسلیم ہیں ان روایتوں میں سب سے زیادہ مشہور اور مبسوط روایت زہری کی ہے جو مشہور تابعی تھے۔  یہ روایت بخاری، مسلم اور دیگر کتب حدیث میں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں نیز سیرت ابن ہشام میں بھی یہ ابن اسحق سے نقل ہوئی ہے۔  اس روایت کو یہاں نقل کرنا باعث طوالت ہو گا۔  نیز یہ بات مناسب بھی نہیں معلوم ہوتی کہ ایک ایسی روایت کو قرآن کی تفسیر میں جگہ دی جائے جس کو بیان کرنے میں انقباض محسوس ہوتا ہے۔  اس لیے ہم مختصراً یہ بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے کہ کن وجوہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے :

۱) سب سے پہلی بات جو اس روایت میں کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک اس بہتان کی اطلاع پہنچ گئی تو آپ کی نظر التفات حضرت عائشہ کی طرف نہیں رہی در آنحالیکہ حضرت عائشہ ان دنوں بیمار رہیں۔  آپ صرف خیریت معلوم کر کے چلے جاتے اس لیے حضرت عائشہ نے محسوس کیا کہ ضرور کوئی بات ہے پھر جب ام مِسطح نے حضرت عائشہ کو مطلع کیا کہ ان پر تہمت لگائی گئی ہے تو ان کو سخت صدمہ ہوا اور وہ روتی رہیں۔  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس افواہ کو سن کر اس کی فوراً تردید نہیں کی اور حضرت عائشہ سے کچھ پوچھے بغیر اور معاملہ کی تحقیق کئے بغیر ان سے بدگمان ہو گئے۔  حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان سے یہ بعید ہے کہ آپ ایسا طرز عمل اختیار کریں اپنی زوجۂ مطہرہ کے ساتھ جس کی عفت اور پاک دامانی شک سے بالاتر ہو۔  قرآن تو اہل ایمان سے کہتا ہے کہ تم نے جب بہتان کا قصہ سنا تو ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ صریح بہتان ہے (آیت ۱۲) ۔  قرآن کے اس عتاب کا رخ ان مسلمانوں کی طرف ہے جنہوں نے ایک پاکدامن خاتون پر لگائے گئے بہتان کی فوراً تردید نہیں کی۔  مگر مذکورہ روایت کو قبول کرنے کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طرزِ عمل کی توجہ کرنا مشکل ہے اور کوئی ایسی روایت جس سے منصب نبوت پر حرف آتا ہو قابل رد ہے۔

۲)  اس روایت میں دوسری بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ منسوب کی گئی ہے کہ جب آپ نے دیکھا کہ حضرت عائشہ رو رہی ہیں تو حضرت علی اور اسامہ کو بلایا اور ان سے اپنی اہلیہ کو چھوڑ دینے کے بارے میں مشورہ چاہا۔  اسامہ نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کے گھر والوں کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے اور حضرت علی نے کہا اللہ نے آپ پر تنگی نہیں فرمائی ہے۔  عائشہ کے علاوہ بہ کثرت عورتیں موجود ہیں (یعنی) آپ دوسری عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں) آپ باندی سے پوچھ لیجئے وہ آپ کو سچ سچ بتائیں گی۔  آپ نے بُریرَہ کو بلا کر پوچھا تو بریرہ نے کہا میں نے ان میں کوئی بات ایسی نہیں دیکھی جو شک پیدا کرنے والی ہو۔

یہ بات بھی باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک ایسے مسئلہ میں جو ازدواجی زندگی سے متعلق تھا اسامہ جیسے کم عمر لڑکے سے مشورہ کیا ہو گا اور پھر یہ بات کتنی عجیب ہے کہ آپ ایک لونڈی سے تو پوچھیں لیکن اپنی دوسری ازواج سے نہ پوچھیں سوائے زینب کے حضرت علی سے تو آپ مشورہ کریں لیکن حضرت ابوبکر اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کو بالکل نظر انداز کر دیں۔  حضرت ابوبکر سے روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ آپ نے حضرت ابوبکر کو اس طرف توجہ دلائی ہو کہ ان کی بیٹی کے بارے میں لوگوں میں کیا چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں۔  پھر حضر ت علی کا جواب بھی کچھ واجبی تھا۔  بجائے اس کے کہ ان کی زبان سے وہ کلمات نکلتے جن کی توقع ایک مومن سے کی جا سکتی ہے یعنی قرآن کے ارشاد کے مطابق سُبْحانَکَ ہٰذَا بُھْتَانٌ عظیمٌ (خدایا تو پاک ہے۔  یہ تو بڑا بہتان ہے) انہوں نے کہا کہ عائشہ کے علاوہ آپ کو بہت سی دوسری عورتیں مل سکتی ہیں۔  ایک زیر تحقیق مسئلہ میں یہ کیا جواب ہوا؟ حضرت علی کے بارے میں ہمیں یہ بدگمانی نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا جواب دیا ہو گا بلکہ یہ راوی کی اپنی ذہنی اپج ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ حضرت علی پہلے ہی سے حضرت عائشہ کو وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔  اس سے راوی (زہری) کے بارے میں شیعی ذہنیت کا شبہ ضرور ہوتا ہے۔

۳)  مذکورہ روایت میں ہے کہ حضرت علی سے مشورہ کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں سے خطاب کر کے فرمایا کہ کون میری مدافعت کرے گا اس شخص سے جس نے میر ے اہل بیت کے بارے میں مجھے اذیت پہنچائی ہے اور اللہ کی قسم میں نے اپنے گھر والوں میں اچھائی ہی دیکھی ہے اور جس شخص پر یہ الزام لگا رہے ہیں اس میں بھی اچھائی ہی دیکھی ہے۔  اس پر سعد بن معاذ نے کہا اگر وہ الزام لگانے والا شخص قبیلۂ اوس سے ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر قبیلۂ خزرج سے ہے تو آپ جو حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔  یہ سنتے ہی سعد بن عبادہ کھڑے ہو گئے اور سعد بن معاذ سے کہا کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔  آپ ہرگز اسے قتل نہیں کر سکتے۔  سعد بن معاذ نے کہا ہم اسے ضرورت قتل کریں گے۔  تم تو منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے بول رہے ہو۔  قریب تھا کہ اوس اور خزرج لڑ پڑیں مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ٹھنڈا کر دیا۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں انصار کے دو قبیلوں کا اس طرح جھگڑنا ناقابل یقین ہے۔  سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں ان کے بارے میں ہرگز یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے ایک دوسرے پر ذاتی حملے کئے ہوں گے۔  یہ روایت ان کے کردار کو مجروح کرتی ہے اور یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تھا تو حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کس طرح خاموش رہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت میں کیوں نہ اٹھ کھرے ہوئے۔  یہ باتیں اس روایت کو بالکل مشکوک بناتی ہیں۔

۴)  روایت میں آگے بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا اے عائشہ مجھے تمہارے بارے میں یہ خبریں پہنچی ہیں۔  اگر تم بے گناہ ہو تو اللہ تمہاری برأت ظاہر کر دے گا اور اگر واقعی تم سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اللہ سے معافی مانگو اور توبہ کرو کہ جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو وہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔  حضرت عائشہ فرماتی ہیں یہ سن کر میرے آنسو خشک ہو گئے۔  اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوئی اور آپ نے فرمایا اے عائشہ اللہ نے تمہاری برأت نازل فرمائی۔

اس روایت سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ سے بدگمان ہو گئے تھے جو آیت ۱۲  کی روشنی میں جس میں اہل ایمان کو آپس میں نیک گمان رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔  پھر آپ کا حضرت عائشہ سے یہ کہنا کہ اگر تم سے گناہ سرزد ہوا ہے تو توبہ کرو کا مطلب یہ ہوا کہ اگر حضرت عائشہ سے اتنا بڑا گناہ سرزد ہوا تھا تو اس کے لیے ان کا توبہ کرنا کافی تھا حالانکہ اس صورت میں ان پر اسلام کا تعزیری قانون نافذ ہوتا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں اپنی زوجیت میں کبھی نہ رکھتے کیونکہ یہ بات ناموس نبی کو مجروح کرنے والی ہوتی ہے۔  معلوم ہوا کہ یہ قصہ محض افسانہ ہے۔

۵)  سورۂ نور سے پہلے سورۂ احزاب نازل ہو چکی تھی جس میں نبی کی ازواج کو امہات المؤمنین (مومنوں کی مائیں) قرار دیا گیا تھا نیز رسول کو اذیت دینے والوں کو لعنت کا مستحق ٹھہرایا گیا تھا۔  اس کے بعد کون ایسا مسلمان ہو سکتا تھا جو اپنے ایمان میں مخلص بھی ہوتا اور امہات المومنین میں سے کسی پر تہمت لگانے کی جسارت کرتا؟

۶)  اس فتنہ کا اصل ذمہ دار منافقوں کا سردار عبداللہ بن اُبیَ تھا لیکن اس روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت عائشہ کی برأت والی آیات نازل ہونے کے بعد اس پر حدِ قذف جاری کی گئی البتہ دوسری روایتوں میں حضرت مسطح پر جو ایک بدری صحابی ہیں ، حضرت حسان بن ثابت پر جو دربار نبوی کے شاعر ہیں اور حضرت حمنہ بنت حجش پر حدِ قذف جاری کرنے کا ذکر ملتا ہے۔  یہ عجیب معاملہ ہے کہ جس نے اس طوفان کو اٹھایا تھا اس کو تو کوئی سزا دی ہی نہیں گئی البتہ جو لوگ اس سے متاثر ہو گئے تھے انہیں سزا دیدی گئی جبکہ قرآن کہتا ہے جس شخص نے اس بہتان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

حضرت مسِطح بدری صحابی ہیں اس لیے اتنے غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتے کہ ام المومنین پر تہمت لگائیں حضرت حسان اپنی شاعری کے ذریعہ کافروں کو منہ توڑ جواب دیا کرتے تھے اور وہ اس میدان کے مجاہد تھے۔  کیا ایسی شخصیت کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں حصہ لیں گے ؟ اگر بالفرض انہیں کوئی شبہ ہو گیا تھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علم میں لا سکتے تھے۔  آپ کے علم لائے بغیر آپ کے گھر والوں کو بدنام کرنے کی کوشش کسی مؤمن کا کام نہیں ہو سکتا کجا کہ کسی صحابیٔ رسول کے بارے میں یہ رائے قائم کی جائے۔  پھر حضرت حسان کو توسیرت ابن ہشام کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انعامات سے نوازا کیونکہ حضرت صفوان نے برہم ہو کر ان پر تلوار سے حملہ کر دیا تھا اگر وہ قذف کے مرتکب ہو کر مردود الشہادۃ ہو گئے تھے تو آپ ان کو انعامات سے کیسے نوازتے ! حمنہ حضرت زینب کی بہن تھیں اور اس روایت کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دریافت کرنے پر حضرت زینب نے حضرت عائشہ کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا تھا اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ حضرت حمنہ نے ان تمام حقائق کو نظر انداز کر کے حضرت عائشہ پر تہمت لگانے میں حصہ لیا ہو۔  واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت متعدد صحابہ کے کردار کو مجروح کرتی ہے۔

۷)  اسناد کے لحاظ سے بھی افک کی روایتوں میں کلام کی کافی گنجائش ہے۔  یہ طویل روایت تو ابن شہاب زہری سے مروی (منقول) ہے اور زہری کا شمار تو ثقہ راویوں میں ہوتا ہے مگر جیسا کہ حافظ ذہبی نے اسماء الرجال کی کتاب میزان الاعتدال میں صراحت کی ہے وہ کبھی تدلیس (گھپلا) بھی کیا کرتے ہیں۔

کان یدلس فی النادر "وہ نادر (روایتوں) میں تدلیس کیا کرتے تھے۔” (میزان الاعتدلال ج ۴ص۴۰)

تدلیس کا مطلب یہ ہے کہ روایت اصلاً جس راوی سے مروی ہے اس کی طرف اس کو منسوب نہ کرتے ہوئے کسی اور راوی کی طرف منسوب کی جائے تاکہ اسناد کی اصل حقیقت پر پردہ پڑا رہے اور لوگوں کے لیے روایت قابل قبول بن جائے۔

اور ابن حجر لکھتے ہیں : لا یثبت لہ السماع من عروۃ  "عروہ سے ان کا سننا ثابت نہیں۔” (تہذیب التہذیب ج۹ ص ۴۵۰)

زہری کے بارے میں ایک بات یہ بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایسی روایتوں کے راوی ہیں جو حضرت عائشہ اور خلفائے راشدین کو معرض بحث میں لاتے ہیں جس سے ان کے بارے میں شیعی ذہنیت کا شبہ ہوتا ہے مگر چونکہ ان کا تعلق خلیفہ عبدالملک کے دربار سے تھا اس لیے انہوں نے درمیانی طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔

غرض زہری کی روایت کسی پہلو سے بھی اطمینان بخش نہیں ہے کہ اس کو اس آیت کی جس میں افک کے کسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تفسیر قرار دیا جائے۔

رہیں دوسری روایتیں جس میں حضرت عائشہ پر تہمت کا مجملاً ذکر ہوا ہے تو ان پر بھی کلام کی کافی گنجائش موجود ہے (اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے دیکھئے حکیم نیاز احمد صاحب کی کتاب "روایت افک” مطبوعہ مشکور اکیڈیمی ۲/F/۸۹ خالد بن ولید روڈ کراچی ۲۹)

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو سوسائٹی میں جو منافق شامل ہو گئے ہیں ان کی اصلیت نمایاں ہو جائے گی۔  اسی طرح سادہ لوح مسلمانوں کو جو ان کی باتوں سے متاثر ہو گئے تھے سبق ملے گا اور محتاط رہنے والے مخلص مسلمانوں کی شان میں اضافہ ہو گا اور وہ اپنے محتاط اور متقیانہ رویہ کی بنا پر اجر کے مستحق ہوں گے۔

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس شرمناک جھوٹ کو پھیلانے میں جس نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی سزا کا مستحق ہے۔

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات اگرچہ ایک مخصوص واقعہ کے تعلق سے کہی گئی ہے مگر اس سے جو اصولی ہدایت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی پاکدامن مسلمان خاتون پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو مسلمان مردوں اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں اور نہ صرف یہ کہ حسن ظن سے کام لیں بلکہ اس الزام کی تردید بھی کریں اور اس تردید کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ کھلا بہتان ہے۔  آیت میں بات اگرچہ عورتوں کے تعلق سے کہی گئی ہے کیونکہ کسی شریف خاتون پر تہمت کا معاملہ بڑے سنگین نتائج کا حامل ہوتا ہے لیکن فحوائے کلام (انداز بیان) سے یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکباز مسلمان مرد پر تہمت لگانا بھی بہت بڑا گنا ہے۔

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زنا کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے قرآن نے چار گواہوں کی قید لگائی ہے۔  اگر کوئی شخص الزام عائد کرنے کے بعد چار گواہ پیش نہیں کرتا تو اللہ کے قانون میں وہ جھوٹا ہے اگر بالفرض اس نے گواہوں کی عدم موجودگی میں زنا کے کسی واقعہ کو دیکھا تھا تو اسے چاہیے کہ اس کا چرچا نہ کرے کیونکہ ناکافی ثبوت کی بنا پر ملزم کو سزا تو نہیں دی جا سکتی اور چرچا کرنے کا نقصان یہ ہو گا کہ سوسائٹی میں بے حیائی کی باتیں پھیلنے لگیں گی۔  گواہوں کا عادل ہونا ضروری ہے کیونکہ قرآن نے دوسری جگہ صراحت کی ہے کہ:

وَ اَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنکُمْ۔ (طلاق:۲) "اپنے میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو۔”

فاسقوں کی گواہی پر حد جاری نہیں کی جا سکتی۔  رہا یہ سوال کہ کیا عورتوں کی گواہی اس معاملہ میں قابل قبول ہے تو جمہور فقہا حدود و قصاص کے معاملہ میں عورت کی گواہی کو قابل قبول نہیں قرار دیتے لیکن قرآن نے اس کی تصریح نہیں کی ہے۔  اور نہ کسی صحیح حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔  قرآن کے احکام مردوں اور عورتوں سب کے لیے یکساں ہیں الا یہ کہ کوئی دلیل کسی حکم کو مردوں کے لیے خاص کر رہی ہو۔  سورۂ بقرہ میں قرض کے معاملہ میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا گیا ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ زنا اور قتل جیسے عینی مشاہدہ کے معاملوں میں عورتوں کی گواہی کو ساقط الاعتبار مانا جائے چنانچہ عطاء اور حماد نے زنا کے ایک مقدمہ میں مردوں اور دو عورتوں کی شہادت قبول کی تھی۔  اور ابن حزم کے نزدیک ایک مرد کی جگہ دو عادل مسلمان عورتوں کی گواہی قبول کرنا جائز ہے۔ (التشریع الجنائی ج ۲ ص ۴۱۱)

زنا بالجبر کے مقدمات میں عورتوں کی گواہی ایک ضرورت بنکر سامنے آ سکتی ہے۔

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافقوں کے اٹھائے ہوئے فتنہ میں کچھ کم فہم مسلمان بھی شریک ہو گئے تھے۔  اسی پر یہاں گرفت کی گئی ہے کہ اس قسم کے فتنہ کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔  وہ تو اللہ کا فضل ہوا کہ اس نے بر وقت تمہیں اس پر متنبہ کر کے ایک بڑے عذاب سے بچا لیا لہٰذا تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور آئندہ کے لیے محتاط ہونا چاہیے۔  اس آیت میں تنبیہ کا جو پہلو ہے وہ اگرچہ زنا کے بہتان کے تعلق سے ہے لیکن اس میں تنبیہ کا یہ عام پہلو بھی مضمر ہیں کہ اگر مسلمان منافقوں کے فتنوں کا شکار ہو گئے تو انہیں بدترین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب سبائی فتنہ کا شکار ہو گئے تو ان کے اندر تلوار چلی اور خلافتِ راشدہ سے وہ محروم ہو گئے۔

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ان کو معمولی سمجھ کر زبان پر لاتے ہیں اور ان کو نقل کرنے لگتے ہیں لیکن وہ اخلاقاً غیر ذمہ دارانہ، شرعاً بہت بڑے گناہ کا موجب اور نتائج کے اعتبار سے نہایت خطرناک ہوتی ہیں اس لیے آدمی کسی کے خلاف محض سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرے اور غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنے سے احتراز کرے۔

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے یہ اصولی رہنمائی ہوتی ہے کہ آدمی کو سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔

حدیث میں آتا ہے :

کَفَی بالمَرْء کَذِباً اَنْ یُّحَدِّث بِکُلّ مَاسَمِعَ "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے۔” (مسلم)

اسی طرح روایات کے بارے میں بھی اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جو روایتیں اللہ، اس کے رسول نیز رسول کے مخلص ساتھیوں پر کھلے بہتان کی حیثیت رکھتی ہوں ان کو فوراً رد کر دینا چاہیے۔  اس کاوش میں پڑے بغیر کہ اس کی اسناد کیسی ہے اور اس کے راوی کون ہیں کیونکہ جو بات بالبداہۃ غلط ہو وہ بہر صورت قابلِ رد ہے۔  اس کی واضح مثال تلک الغرانیق (بتوں کی تعریف) والی وہ روایت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کی گئی ہے اور جس کی تردید ہم سورۂ حج نوٹ ۹۱  میں کر چکے ہیں۔

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے حیائی (فحش) کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا، تہمت زنا، بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں۔  موجودہ زمانہ میں اشاعتِ فحش کے موڈرن طور طریقے ایجاد ہو گئے ہیں مثلاً نائٹ کلب، مخلوط تیراکی کے مظاہرے ، عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں ، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے ، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے والے اشتہارات، حسن کے مقابلے ، ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے ، ہیجان انگیز ناولیں اور افسانے ، اخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور ڈانس کے پروگرام وغیرہ۔

چونکہ بے حیائی انسان کے وقار کو کھو دیتی ہے ، اس کی عزت کو خاک میں ملاتی اور اس کے اخلاق کو تباہ کرتی ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں بے حیائی پھیلانے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے لیے نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی دردناک سزا ہے اور یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اسلامی حکومت ایسے لوگوں کے لیے کڑی سزائیں تجویز کرے۔  جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سزائیں تجویز کرنا اور ان کو نافذ کرنا اس آیت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم نہیں جانتے کہ بے حیائی کی اشاعت کے نتائج کتنے دور رس اور سنگین ہوتے ہیں۔

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ صفت لوگوں کو شیطان کے زیر اثر غرور نفس میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو پاکیزگی انہیں حاصل ہوئی ہے وہ اللہ کی توفیق سے ہوئی ہے۔ اخلاقی پاکیزگی اللہ کا فضل بھی ہے اور اس کی رحمت کا مستحق بنانے والی چیز بھی۔

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کو سنوارنے کا کام اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے وہ جسے چاہتا ہے زر خالص بنا دیتا ہے مگر اس کے فضل کی یہ بانٹ غلط نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ بندوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔  وہ جانتا ہے کہ کون پاکیزگی کا طالب ہے اور اپنی اس طلب میں کتنا مخلص ہے۔  اس موقع پر وہ دعا بھی پیش نظر رہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سکھائی ہے :

اللّہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَاوَ زَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلٰہَا۔  "اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا فرما اور اس کا تزکیہ کر دے۔  تو بہتر تزکیہ کرنے والا ہے۔  تو اس کا رفیق اور مددگار ہے۔” (مشکوٰۃ کتاب الدعوات بحوالہ مسلم)

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ اپنی کم فہمی کی بنا پر منافقوں کے اس پروپگنڈے کا شکار ہو گئے تھے جو انہوں نے بعض پاکدامن مومن عورتوں کے خلاف شروع کیا تھا خاص طور سے وہ عورتیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں سخت تنبیہات نازل فرمائیں تو بعض حضرات نے جو ان قصور وار مسلمانوں کی مدد کرتے تھے قسم کھا بیٹھے کہ وہ اب ان کی مدد نہیں کریں گے اس آیت میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسی قسمیں نہ کھائیں اور ضرورت مندوں کی مدد سے ہاتھ نہ روکیں۔  انہیں چاہیے کہ درگزر سے کام لیں۔  اگر وہ اللہ سے اپنے لیے معافی کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے قصور بھی معاف کر دینے چاہئیں۔

قرآن نے یہ بات کسی خاص شخص کے بارے میں نہیں کہی ہے بلکہ عام قرابتداروں مسکینوں اور مہاجرین کے بارے میں کہی ہے یعنی ان میں سے جن لوگوں سے بھی قصور سرزد ہوا ہے ان کی مالی اعانت سے وہ ہاتھ کھینچ نہ لیں۔

آیت سے یہ شرعی مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھے تو اسے ایسی قسم توڑ دینی چاہیے۔

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے خبر (غافلات) سے مراد وہ سیدھی سادی عورتیں ہیں جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ وہ کبھی بدکاری کی مرتکب ہو سکتی ہیں۔  یا ان پر تہمت لگائی جا سکتی ہے ان کو نہ بے حیائی کی باتوں سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ان کے رنگ ڈھنگ برے ہوتے ہیں۔

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں تو بہت سی باتوں پر پردہ پڑا رہتا ہے لیکن قیامت کے دن ہر بات کی حقیقت بالکل کھل کر سامنے آئے گی۔  جو جھوٹ دنیا میں بولے گئے تھے ان کی قلعی کھل جائے گی اور بے گناہوں پر جو الزام تراشیاں کی گئی تھیں ان کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔  اس روز لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہو گا کہ اللہ حق ہے اس لیے وہ عدل کرتا ہے اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان پردوں کو اُٹھاتا ہے جن میں سچائیاں مستور ہو کر رہ گئی تھیں۔

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں خبیث سے مراد بدکار ہیں۔  مطلب یہ ہے کہ خبیث عورتوں کے لیے خبیث مرد ہی موزوں ہیں اور خبیث مردوں کے لیے خبیث عورتیں۔  اسی طرح طیب یعنی پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ہی موزوں ہیں اور پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں۔

اس موزونیت کا تقاضا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کا رشتہ پاکیزہ مردوں ہی سے کیا جائے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں ہی سے بیاہ کریں۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ عورتوں اور پاکیزہ مردوں کے خلاف تہمت کا جو فتنہ کھڑا کیا گیا ہے اس کا جھوٹ ہونا بالکل کھلی بات ہے۔  با اخلاق عورتوں اور با اخلاق مردوں پر بدکاری کی تہمت لگانے سے ان کا دامن داغدار نہیں ہوتا۔  وہ ان جھوٹے الزامات سے بالکل بری ہیں۔

الزامات سے بری ہونے کی بات یہاں عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے یعنی تمام پاکیزہ عورتوں اور مردوں کے بارے میں یہ ایک اصولی بات ہے۔  کسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ احکام دئے جا رہے ہیں جو گھریلو زندگی کو شائستہ بنانے اور بہت سے فتنوں کی راہ بند کرواتے ہیں۔  اس سلسلہ کا پہلا حکم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہو۔  متن میں لفظ تَسْتَأنِسُوْ استعمال ہوا ہے جس کے معنی انس کے ساتھ اجازت حاصل کرنے کے ہیں اور یہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے کو صاحب خانہ سے متعارف کرا کے اس کی رضامندی کے ساتھ گھر میں داخل ہونے کی اجازت حاصل کر لی جائے۔  مطلب یہ ہے کہ وہی شخص گھر میں داخل ہو جس کا داخل ہونا صاحب خانہ پسند کرے اور اجازت دیدے۔

جب اجازت دیدے تو اندر داخل ہوتے وقت گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ یہ گھر میں داخل ہونے کے آداب میں سے ہے اور اس بات کا اظہار بھی کہ وہ گھر والوں کے لیے سلامتی کی دعائیں لئے ہوئے داخل ہو رہا ہے اس لیے اس سے امن ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

اجازت طلب کرنے کا جو معروف طریقہ ہو وہ اختیار کرنا چاہیے۔  دروازہ پر دستک دینا یا گھنٹی بجانا موجودہ زمانہ کا معروف طریقہ ہے۔  اس کے بعد اگر صاحب خانہ باہر آئے تو پہلے اسے سلام کرنا چاہیے اور جب وہ اندر آنے کے لیے کہے تو داخل ہوتے ہوئے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے۔

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اخلاقی اور دینی پہلو سے یہ نہایت شائستہ طریقہ ہے اور اس شائستگی کی تعلیم تمہیں اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ تم سوجھ بوجھ سے کام لو۔  بالفاظ دیگر اس تعلیم کے زیر اثر تمہیں تمام گھریلو معاملات و مسائل میں ہوش مندی کا ثبوت دینا چاہیے۔  اس حکم سے اس اصولی بات کی طرف رہنمائی ہوتی ہے کہ حق خلوت (Right of Privacy) ہر شخص کا اپنا حق ہے۔

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رہائشی مکانوں میں بلا اجازت کسی حال میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔  گھر میں کسی کے موجود نہ ہونے کی صورت میں بھی اور اس صورت میں بھی جبکہ صاحب خانہ کسی وجہ سے اندر نہ بلائے۔  ایسی صورت میں آدمی کو خاموشی کے ساتھ واپس جانا چاہیے اور اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اس نے کیوں اجازت نہ دی۔  ہو سکتا ہے کوئی مصلحت یا مجبوری مانع ہوئی ہو۔

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اخلاقی لحاظ سے یہ طریقہ پاکیزہ ہے۔

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ مکانات ہیں جو عام فائدے کے ہوتے ہیں اس لیے اس میں داخلہ کی عام اجازت ہوتی ہے مثلاً مسافر خانے ، سایہ کے لیے بنی ہوئی جگہیں ،دکانیں ،ہوٹلیں ، کھلے دفاتر وغیرہ۔

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم کس نیت سے کہاں داخل ہوتے ہو اللہ اس سے بخوبی واقف ہے اس لیے اس سے ڈرو اور اپنی نیتیں درست رکھو۔

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غضِّ بصر (نگاہیں نیچی رکھنے) کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا دیکھنا جائز نہیں ہے اس سے نگاہوں کو بچا لیا جائے۔  اگر اچانک نگاہ پڑے تو اس کو پھیر لیا جائے۔  یہاں خاص طور سے جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے عورتوں کو دیکھنے سے (بجز اپنی بیوی اور محرم عورتوں کے) نگاہوں کو بچانا ہے۔  نگاہیں چونکہ شہوت کی محرک ہیں اور شہوت بے حیائی پر آمادہ کرتی ہے اس لیے قرآن نے نگاہوں پر پہرے بٹھانے کا حکم دیا ہے۔  نیچی نگاہیں شرم و حیاء کی علامت ہیں اور نفس اور اخلاق کی پاکیزگی کا ذریعہ۔  اسلام شرم و حیاء کے معاملہ میں اہل ایمان کو اتنا حساس دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ عورتوں پر نگاہ غلط بھی نہ ڈالیں۔  تانک جھانک کرنا، نظریں جمانا اور گھور کر دیکھنا بڑی بد اخلاقی کی بات ہے اور شر کا باعث۔  قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے :

یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ  (المومن:۱۹) "وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔”

یہ گویا تانک جھانک کرنے والوں کے لیے تنبیہ ہے۔  غضِّ بصر کا حکم گھر اور باہر دونوں سے متعلق ہے۔ ایک مسلمان جب کسی کے گھر میں داخل ہو تو وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھے اور تانک جھانک نہ کرے اور جب راہ چل رہا ہو تو اجنبی عورتوں کو دیکھنے سے احتراز کرے۔  اگرچہ یہ کام مشکل ہے مگر جنت کی راہ مشکلات سے ہو کر ہی گزرتی ہے۔  پھر یہ مشکل ایسی نہیں ہے کہ آدمی کے اختیار سے باہر ہو کیونکہ قرآن نے نگاہیں پست کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ آنکھیں بند کر لینے کا۔  جس طرح وَاغفُضْ مِنْ صَوْتِکَ (لقمان۔ ۱۹) میں غضِّ صوت کا مطلب آواز کو بند کرنا نہیں بلکہ پست کرنا ہے۔  اسی طرح غضِّ بصر کا مطلب آنکھوں کو بند کرنا نہیں بلکہ نگاہوں کو پست کرنا ہے۔  لہٰذا بلا ضرورت عورت کے محاسن پر نظر ڈالنا ناجائز ہے اور شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

زِنَاالْعَیْنِ النَّظَرُ "آنکھ کا زنا نظر ہے۔” (بخاری کتاب الاستیذان)

انجیل میں بھی اس کو زنا سے تعبیر کیا گیا ہے :

"تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کر چکا۔” (متی ۵:۲۷۔ ۲۸)

اگر اچانک نظر پڑے تو اس کو پھیر لینا چاہیے۔  حدیث میں آتا ہے کہ جریر بن عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نگاہ کے اچانک پڑ جانے کے بارے میں پوچھا:

فَاَمَرَنِیْ اَنْ اَصْرِفَ بَصَرِیْ "تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی نگاہیں پھیر لو۔” (مسلم کتاب الآداب)

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم گاہوں کی حفاظت کے مفہوم میں ان کو پوشیدہ رکھنا بھی شامل ہے اور حرام کاری سے بچنا بھی۔

جسم کا وہ حصہ جس کو دوسروں کے سامنے کھولنے میں انسان فطرۃً شرم محسوس کرتا ہے سَتر (اور عربی میں عورہ) کہلاتا ہے۔  مرد کا ستر جمہور فقہاء کے نزدیک ناف سے گھٹنہ تک کا حصہ ہے مگر قرآن کا انداز فقہی ناپ تول کا نہیں ہے بلکہ وہ انسانی فطرت کو جگا کر اور اخلاقی حس کو بیدار کر کے کہتا ہے : ولباسُ التقویٰ ذٰلکَ خَیْرٌ (اعراف۔ ۲۶) "اور تقویٰ کا لباس بہترین لباس ہے۔”

ظاہر ہے جو شخص بھی تقویٰ کا لباس اختیار کرے گا وہ زیادہ سے زیادہ ساتر لباس استعمال کرے گا۔  قرآن نے برہنگی کو شیطان کا فتنہ قرار دیا ہے۔

"اے اولاد آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو (بہکا کر) جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس اتروا دئے تھے تاکہ ان کے ستر انہیں دکھا دے۔” (اعراف۔ ۲۷)

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظریں نیچی رکھنے کا حکم جس طرح مردوں کو دیا گیا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی دیا گیا ہے جب کوئی شخص اجازت لیکر گھر میں داخل ہو تو گھر کی عورتوں کو چاہیے کہ وہ اس شخص پر نگاہیں نہ جمائے اسی طرح جب عورتیں باہر نکلیں تو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔  بلا ضرورت اجنبی مردوں کو دیکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

اس حکم کے منشاء کو سمجھ کر اگر نیک نیتی کے ساتھ اس کی تعمیل کی جاتی ہے تو جو واقعی ضرورتیں روز مرہ کی زندگی میں عورت کے مرد کو دیکھنے اور مرد کے عورت کو دیکھنے کے تعلق سے پیش آتی ہیں ان کو پورا کرنے سے اسلام نہیں روکتا کیونکہ مقصود حرج پیدا کرنا نہیں ہے مثلاً شناخت یا گواہی کی غرض سے عورت کا مرد کو دیکھنا مجمعِ عام پر نگاہ ڈالنا وغیرہ۔

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرم گاہوں کی حفاظت میں ستر پوشی بھی شامل ہے۔

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زینت سے مراد لباس بھی ہے اور آرائش کی چیزیں بھی۔  لباس کو قرآن میں زینت سے تعبیر کیا گیا ہے :

خُذُوْا زِینَتَکُمْ عِنْدَکُلِّ مَسْجِدٍ (اعراف۔ ۳۱) "ہر مسجد کے پاس (عبادت کے موقع و محل میں) اپنی زینت لیے رہو۔”

قَدْ اَنْزَلنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشاً۔ (اعراف۔ ۲۶) "ہم نے تم پر لباس اتارا ہے کہ تمہاری ستر پوشی بھی کرے اور زینت کا ذریعہ بھی ہو۔”

اور لسان العرب میں ہے :

وَ الزِّیْنَۃ مَایَتَزیّنُ بہ "زینت یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ آرائش کی جائے۔” (لسان العرب ج ۱۳ ص ۲۰۲) آرائش کی مثال سرمہ، مہندی، انگوٹھی وغیرہ ہیں۔

آیت میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں بجز اس زینت کے جو ظاہر ہو جائے۔  اس استثناء کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو زینت کام کاج اور چلنے پھرنے کے تعلق سے کھلی رہتی ہے اس کے کھلے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس کی غرض زینت کو دوسروں پر ظاہر کرنا نہیں بلکہ ضرورۃً زینت کو کھلا رہنے دینا ہے۔  یہ استثناء اگرچہ زینت کے اظہار سے متعلق ہے لیکن طبعاً اس میں وہ اعضاء شامل ہو جاتے ہیں جو اس زینت کا محل ہیں یعنی ہاتھ اور چہرہ کیونکہ ظاہر ہونے والی زینت مہندی اور انگوٹھی ہے جس کا محل ہاتھ ہیں اور سرمہ اور کاجل ہے جس کا محل آنکھیں ہیں جو چہرہ کا جزو ہیں۔  اس لیے اگر ہاتھ اور چہرہ اپنی زینت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو عورت کو اس کی رخصت ہے۔  اور اس رخصت نے پردہ کے احکام میں اعتدال کی صورت پیدا کر دی ہے اور عورت کے لیے کام کاج میں جو حرج پیدا ہو سکتا تھا اس کو رفع کر دیا ہے۔  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتیں چہرہ کا پردہ کرتی تھیں اور نہیں بھی کرتی تھیں۔  مثال کے طور پر صحیح مسلم کی حدیث :

"عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ فضل (بن عباس) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے سوار تھے۔  بنی خشعم کی ایک عورت آئی تو فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔  اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے اور میرے والد پر فرض ہے لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں اس لیے سواری پر بیٹھ نہیں سکتے تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟آپ نے فرمایا جی ہاں۔  یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع کا ہے۔” (مسلم کتاب المناسک)

معلوم ہوا عورت کا چہرہ کھلا تھا اس لیے اس پر نظر پڑ گئی صحیح مسلم ہی کی دوسری حدیث ہے :

"جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ عید کے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک تھا۔  آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی بغیر اذان اور اقامت کے پھر بلال رضی اللہ عنہ کے سہارے کھڑے ہو گئے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی ہدایت کی اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی۔  لوگوں کو نصیحت کی اور سمجھایا۔  آپ نے فرمایا صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن بننے والی ہیں۔  یہ سنکر عورتوں کے درمیان سے ایک عورت جو پچکے ہوئے سیاہ رخساروں والی تھی، کھڑی ہو گئی اور اس نے پوچھا اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہو گا؟ فرمایا اس لیے کہ تم شکایت بہت کرتی ہو اور اپنے ساتھی کی ناشکری کرتی ہو۔  راوی کہتے ہیں یہ سن کر عورتیں اپنے زیور صدقہ کرنے لگیں۔  وہ اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالتے جاتی تھیں۔” (مسلم کتاب صلاۃ العیدین)

ظاہر ہے سوال کرنے والی عورت کا چہرہ کھلا تھا اس لیے راوی کو اس کے رخسار پچکے ہوئے دکھائی دئیے۔

حدیث سے یہ ثابت ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں داخل نہیں ہیں چنانچہ احرام کی حالت میں عورت کو نقاب ڈالنے اور دستانے پہننے سے منع کیا گیا ہے :

بخاری کی حدیث ہے :

"عورت احرام کی حالت میں نقاب نہ ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔” (بخاری۔  کتاب المناسک)

اور نماز کے بارے میں حدیث میں آتا ہے :

لاتُقْبَلُ صَلاَۃُ الْحَائِضِ اِلاّ بَخِمارٍ (ترمذی ابواب الصلوٰۃ) "بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں ہوتی۔”

اور اوڑھنی سے سر ، کان، گردن اور سینہ ڈھانک لیا جاتا ہے۔  منہ نہیں ڈھانکا جاتا۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا ضروری نہیں چنانچہ فقہائے نے اس کی صراحت کی ہے۔  مغنی میں ہے :

"اس مسلک (حنبلی) میں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورت کے لیے نماز میں اپنا چہرہ کھولنا جائز ہے اور یہ کہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ کھولنا جائز نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اس بات پر بھی اہل علم متفق ہیں کہ آزاد عورت کو نماز میں اپنا سر ڈھانکنا چاہیے۔” (مغنی ج۱ ص۶۰۱)

ہدایہ میں ہے :

"آزاد عورت کا پورا جسم ستر ہے سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے۔” (ہدایہ ج ۱ص ۳۹)

ابن رشد لکھتے ہیں :

"اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا پورا جسم ستر ہے بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے۔” (بدایۃ المجتہد ج۱ ص ۱۱۱)

رہا قدموں کا سوال تو ام سلمہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لباس اگر اتنا لمبا ہو کہ قدموں کے ظاہری حصہ کو ایک حد تک ڈھانک دے تو کافی ہے (قالت اذا تنکشف اقدامہن قال فیر خین ذراعًالایزدن علیہ۔ مشکوٰۃ کتاب اللباس بحوالہ ترمذی)

ان دلائل سے واضح ہوا کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں سے نہیں ہیں کہ ان کا چھپانا واجب ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر محرم مردوں کے لیے بلا ضرورت ان کو دیکھنا جائز ہے۔  نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم بلا ضرورت عورتوں کو دیکھنے کے لیے کوئی وجہ جواز فراہم نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ عورتیں لازماً اپنا چہرہ ہر وقت کھلا رکھیں۔  ازواج مطہرات چہرہ کا پردہ کیا کرتی تھیں اور بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے عورتیں نقاب ڈالی رہیں۔ ہم نے قرآن کی دی ہوئی رخصت کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس لیے پیش کر دیا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اسلام عورتوں کے لیے پردہ کی ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے جو موجودہ دور میں قابل عمل نہیں ہیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر عورتیں پردہ ہی کو ترک کر دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ رخصت کا پہلو بھی سامنے لایا جائے تاکہ اسلام نے پردہ کے جو کم سے کم حدود قائم کئے ہیں ان پر عورتیں کاربند رہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات کے پیش نظر عورت اپنا چہرہ کھلا رکھنے پر مجبور ہے ،بس ریل وغیرہ کا گھنٹوں اور دنوں کا سفر نقاب کی صورت میں گھٹن پیدا کر دیتا ہے اس لیے نقاب اٹھائے بغیر چارہ کار نہیں ، خرید و فروخت اور لین دین کے موقع پر بھی ہتھیلیوں کا کھل جانا ایک معروف بات ہے۔  اس لیے پردہ کے احکام میں ایسی شدت پیدا کرنا کہ شریعت کی دی ہوئی رخصتیں ختم ہو جائیں نہ صحیح ہے اور نہ مفید۔

ہم یہاں مزید چند علماء کی رائیں پیش کرتے ہیں علامہ مقدسی مغنی میں لکھتے ہیں :

"ضرورت داعی ہے کہ عورت خرید و فروخت کے لیے اپنا چہرہ کھولے اور لین دین کے لیے اپنی ہتھیلیاں کھولے۔” (مغنی ج۱ص۶۰۱)

علامہ ناصر الدین البان نے پردہ کے مسئلہ پر ایک محققانہ کتاب "حجاب المرأۃ المسلمہ” لکھی ہے جو المکتب الاسلامی بیروت سے شائع ہوئی ہے علامہ فرماتے ہیں :

"حدیث عائشہ جو ابوداؤد میں ہے اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھنا جائز ہے اگر اس حدیث کی اسناد میں وہ بات نہ ہوتی جو ہم نے اپنے نوٹ میں بیان کی ہے (اشارہ ہے حدیث کے مرسل ہونے کی طرف۔  اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ ارشاد منسوب ہے کہ آپ نے حضرت اسماء کو ایسے کپڑوں میں دیکھ کر جس سے ان کا بدن جھلکتا تھا فرمایا عورت جب بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ سوائے چہرہ اور ہتھیلیوں کے ظاہر ہو جائے۔) الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ یہ روایت مختلف طریقوں سے مروی ہونے کی بنا پر قوی ہے اور بیہقی نے اسے قوی قرار دیا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مذکورہ بات کے جواز کی دلیل بن سکتی ہے خاص طور سے اس لیے بھی کہ اس پر عہد نبوت میں عورتیں عمل کرتی رہی ہیں چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھتی تھیں اور آپ منع نہیں فرماتے تھے اور یہ بات متعدد احادیث سے ثابت ہے۔” (حجاب المرأۃ المسلمہ ص ۲۴)

آگے چل کر لکھتے ہیں :

"ہم نے جو کچھ بیان کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت کا اپنے چہرہ کو برقع وغیرہ سے جو موجودہ زمانہ میں معروف ہے ڈھانکنا پاکدامن عورتوں کے نزدیک ایک مشروع اور محمود بات ہے اگرچہ ایسا کرنا اس پر واجب نہیں ہے بلکہ جس نے اچھا کیا اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج بھی نہیں۔” (حجاب المرأۃ المسلمہ ص ۵۳)

شیخ علی طنطاوی لکھتے ہیں :

"خلاصہ یہ کہ عورت کا چہرہ اصلاً ستر نہیں ہے اور اکثر فقہاء (اصحاب مذاہب اربعہ) اس کے ستر نہ ہونے کے قائل ہیں لیکن چہرہ نہ کھولنا اکمل اور افضل ہے۔” (فتاویٰ علی الطنطاوی ص۱۵۵)

سید قطب لکھتے ہیں :

"رہی چہرہ اور ہاتھوں کے ظاہر ہونے والی زینت تو اس کا کھولنا جائز ہے کیونکہ چہرہ اور ہاتھ کھولنا مباح ہے۔ ” (فی ظلال القرآن ج۴ ص۲۵۱۲)

ڈاکٹر یوسف قرضاوی فرماتے ہیں :

"چہرہ اور ہتھیلیوں کے بارے میں یہ رعایت اس لیے کر دی گئی ہے کہ ان کو چھپانا عورت کے لیے باعث حرج ہے،  خاص طور سے ایسی صورت میں جبکہ اسے جائز ضرورت سے باہر نکلنا پڑے مثلاً بیواؤں کو اپنی اولاد کی ضروریات کے لیے اور غریب عورتوں کو اپنے شوہروں کی معاونت کے لیے باہر نکلنا پڑے ایسی صورت میں نقاب ڈالنے اور ہتھیلیاں چھپانے کی پابندی ان کے لیے مشکلات اور دشواریوں کا باعث ہو گی۔” (اسلام میں حلال و حرام ص ۲۰۸)

اور مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں :

"حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کَفَّین (ہتھیلیاں) اِلاّ مَاظَہَرَمنہا میں داخل ہیں کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔  اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی۔  آگے فقہاء نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضاء مستثنیٰ ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی یا مہندی۔  کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔” (تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی ص۴۵۸)

بعض علماء نے اِلاّ مَاظَہَرَمِنْہَا (مگر جو زینت ظاہر ہو جائے) سے مراد وہ چادر لی ہے جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے اور جس کا چھپانا ممکن نہیں یا ہوا کے جھونکے سے چادر کا اڑ جانا مراد لیا ہے مگر یہ سراسر تکلف ہے اور جیسا کہ علامہ جصاص نے لکھا ہے یہ ایک بے معنی بات ہے کیونکہ اگر یہی مراد ہوتا تو اس کو قرآن اس اہتمام کے ساتھ بیان نہ کرتا۔ (احکام القرآن ج۳ص۳۸۹۔ ۳۹۰)

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوڑھنی (خمار) اس کپڑے کو کہتے ہیں جو سر کو ڈھانک دے اور گریبانوں (جیوب) سے مراد لباس کا وہ حصہ ہے جو گردن اور سینہ کے پاس قطع ہوتا ہے۔  اوڑھنیوں کے آنچل گریبانوں پر ڈالے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ عورت سر پر اوڑھنی ڈال کر اس کے آنچل اپنے گریبانوں پر اس طرح ڈالے کہ سر، کان ، گردن اور سینہ پوری طرح ڈھک جائے۔  نہ سر کی زینت ظاہر ہو نہ کان کی اور نہ گردن کی اور نہ ہی سینہ کا ابھار نمایاں ہو۔

اوڑھنی کا یہ حکم گھر کے لیے بھی ہے اور باہر کے لیے بھی اور باہر کے لیے ایک مزید حکم جلباب (چادر) کا بھی ہے مگر چونکہ چادر کھل جایا کرتی ہے جس سے گردن اور سینہ کے ظاہر ہونے کا احتمال ہوتا ہے  اس لیے اوڑھنی بھی ضروری ہے۔  موجودہ دور میں برقع کا رواج ہے۔  اگر برقع اوڑھنی کے مقصد کو بھی پورا کرتا ہو یعنی گردن وغیرہ کے کھل جانے اور متعلقہ زینت کے ظاہر ہونے کا احتمال نہ ہو تو صرف برقع بھی کافی ہو سکتا ہے واللہ اعلم۔

گھر میں صاحبِ خانہ کی اجازت سے جب کوئی غیر محرم داخل ہو جائے تو اس سے پردہ کے کم سے کم حدود یہ ہیں کہ عورت ساتر لباس میں ہو اور دوپٹہ سے اپنا سر، کان، گردن اور سینہ چھپا لے اور چہرہ اور ہاتھ اور ان کی زینت کے علاوہ کوئی اور زینت یا جسم کا حصہ ظاہر نہ ہونے دے۔  لیکن اگر درمیان میں پردہ لٹکا دیا جاتا ہے یا مردوں کے لیے الگ کمرہ کا انتظام ہے تو یہ بہتر صورت ہو گی۔  ازواج مطہرات کے لیے کچھ مخصوص پابندیاں تھیں جن میں سے ایک پابندی یہ تھی کہ ان کے اور غیر محرموں کے درمیان پردہ حائل ہو۔  اگر کوئی چیز مانگی جائے تو پردہ کی آڑ سے مانگی جائے۔ (سورۂ احزاب آیت ۵۳) لیکن عام مسلمان خواتین کے لیے گھر کے پردہ کے معاملہ میں کسی حد تک نرمی برتی گئی ہے۔

اس نرمی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ غیر محرم رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ داری کے تعلق کو نبھانا آسان ہو جاتا ہے۔  ان کی آمد پر اگر درمیان میں پردہ حائل کر دیا جاتا ہے تو بہتر ہے لیکن اگر اس سے حرج ہوتا ہو تو پردہ کے جن کم سے کم حدود کا ابھی ذکر ہوا،  ان کی پابندی کرنا کافی ہے۔  مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر محرم کے لیے خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو خلو ت کی اجازت ہے بلکہ شوہر یا کسی محرم کی موجودگی میں عورت غیر محرم رشتہ داروں کے سامنے مذکورہ پابندیوں کے ساتھ آ سکتی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ دوپٹہ اتنا باریک نہیں ہونا چاہیے کہ بدن جھلکے کیونکہ دوپٹہ تو اعضاء کو چھپانے کے لیے ہے نہ کہ گلے میں ڈالنے یا فیشن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہے لہٰذا دوپٹہ کے لیے ایسا کپڑا استعمال کرنا چاہیے جس سے اس کا مقصد پورا ہوتا ہو۔

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس فقرہ میں زینت کو ظاہر کرنے کی جو اجازت دی گئی ہے اس سے مراد عورت کا بناؤ سنگھار کے ساتھ سامنے آنا ہے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ عورت جن کے سامنے آ سکتی ہے ان کی تفصیل یہ ہے :

۱) شوہر۔

۲) باب ، خسر، بیٹے ، شوہر کے بیٹے یعنی سوتیلے بیٹے ، بھائی، بھتیجے اور بھانجے۔  یہ سب عورت کے لیے محرم ہیں (یعنی ان سے نکاح حرام ہے) اس لیے ان کے سامنے ، عورت زینت (لباس اور زیورات وغیرہ) کے ساتھ بے تکلف آ سکتی ہے ان کے علاوہ دیگر محرم بھی ہیں مثلاً چچا، ماموں ، داماد، رضائی بھائی وغیرہ جن کا ذکر یہاں نہیں ہوا۔  ان کا ذکر نہ کرنے سے قرآن کا اشارہ اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان کے سامنے تو آ سکتی ہے مگر زینت کا اظہار ان کے سامنے ضروری حد تک ہی ہونا چاہیے۔

۳) نِساہنَّ (اپنی عورتوں) سے مراد اپنے میل جول کی اور خدمت کرنے والی عورتیں۔  پوری زینت کے ساتھ ایسی ہی عورتوں کے سامنے آنے کی اجازت دی گئی ہے۔  رہیں دوسری عورتیں تو قرآن کا اشارہ اس بات کا طرف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے اسی حد تک زینت کو ظاہر کیا جائے جس حد تک ظاہر ہونے میں فتنہ کی کوئی بات نہ ہو۔

۴) مملوک میں لونڈی غلام دونوں شامل ہیں۔  غلام کو اسلام نے گھر کے ایک فرد کی حیثیت دی ہے اور اس کو جو خدمت انجام دینا پڑتی ہے اس کے پیش نظر ضرورت داعی ہے کہ گھر کی عورتوں پر غلام کے معاملہ میں پردہ کی پابندی نہ رہے۔  اب غلامی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے اس لیے غلاموں کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔

۵) ان مردوں کے سامنے جو تابع ہوں اور غرض نہ رکھتے ہوں۔  سے مراد وہ خادم یا ملازم ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے یا بے عقل ہونے کے سبب اپنی کوئی شہوانی غرض نہ رکھتے ہوں۔  جو ان ملازمین کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔

۶) "وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوئے ہوں۔” یعنی وہ نابالغ بچے جن پر نہ نسوانی راز کھل گئے ہوں اور نہ ان میں شہوانی احساسات بیدار ہوئے ہوں۔

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عورتوں کو اس طرح پاؤں مارتے ہوئے نہیں چلنا چاہیے کہ زیور کی جھنکار سنائی دے۔  یہ اشارہ ہے خاص طور سے پازیب کی طرف کہ ان میں گھنگرو یا بجنے والی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے اور نہ چلنے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ پازیب سے کوئی چیز ٹکرا کر آواز پیدا کرے۔

آیت کے الفاظ مَایُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ۔  "جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے۔” اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پازیب پاؤں میں چھپے ہوئے ہونے چاہیے۔  اجنبی مردوں پر ان کو ظاہر نہیں ہونے دینا چاہیے۔

پاؤں مارتے ہوئے نہ چلنے کی یہ ہدایت گھر کے لیے بھی ہے اور باہر کے لیے بھی۔  گھر میں جب کوئی غیر محرم اجازت لیکر داخل ہو تو عورتوں کو چاہیے کہ گھر میں چلتے ہوئے اس احتیاط کو ملحوظ رکھیں اور جب باہر نکلنا ہو تو اس کا پورا پورا خیال رکھیں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو دین زیوروں کی جھنکار کے معاملہ میں محتاط رہنے کی تعلیم دیتا ہو اور پاؤں زمین پر مارتے ہوئے چلنے کی ممانعت کرتا ہو وہ عورتوں کی نازو ادا کی چال کو اور ان کے رقص و سرور کو کب گوارا کر سکتا ہے۔

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توبہ کے معنی رجوع کرنے کے بھی ہیں اور گناہ سے تائب ہونے کے بھی۔  اس موقع پر تمام اہل ایمان کو اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  مطلب یہ ہے کہ گھریلو زندگی کے سلسلہ میں جو ہدایت دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو اور اخلاقی پاکیزگی کے تعلق سے جو قصور اس سے پہلے تم سے سرزد ہو چکے ہوں ان کے بارے میں اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لو۔

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ فلاح ان قرآنی ہدایت پر عمل پیرا ہونے میں ہے نہ کہ ان کو پس پشت ڈال کر "موڈرن” اور "فیشن پرست” بننے میں۔

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اَیامیٰ استعمال ہوا ہے جس کے معنی محض بیواؤں کے نہیں ہیں بلکہ ان مردوں اور عورتوں کے ہیں جو مجرد ہوں یعنی وہ مرد جن کی بیویاں نہ ہوں اور وہ عورتیں جن کے شوہر نہ ہوں۔  ان کے نکاح کرا دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے متعلقین انہیں نکاح کی ترغیب دیں اور اس معاملہ میں ان کی مدد کریں۔  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بیواؤں کے نکاح کو برا خیال کرنا صحیح نہیں اسلام بیواؤں کے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب دیتا ہے۔

غلاموں اور لونڈیوں کے سلسلہ میں بھی اسلام نے اصلاحی قدم اٹھایا اور اس بات کی ہدایت کی کہ ان میں سے جو صالح زندگی گزار رہے ہیں ان کے نکاح کر دئے جائیں یہ ذمہ داری خاص طور سے ان کے مالکوں کی قرار پائی۔

یہ اس سلسلۂ ہدایت کی ایک کڑی ہے جو زنا کے سد باب کے لیے دی جا رہی ہیں۔

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نکاح کے معاملہ میں تنگ دستی مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس مبارک کام کو انجام دینا چاہیے۔  جو شخص اللہ کے حکم کی تعمیل کرے گا اللہ اسے ضرور اپنے فضل سے نوازے گا۔  اور یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شادی کے بعد کتنے ہی غریبوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور کتنے ہی لوگ خوشحال ہو گئے ہیں۔

مگر موجودہ دور کے نوجوانوں کا حال بھی عجیب ہے جو جدید تہذیب کے زیر اثر ازدواج کی ذمہ داریوں سے کتراتے رہتے ہیں۔  پچیس سال کی عمر تک تو وہ حصول تعلیم میں مشغول رہتی ہیں اس کے بعد پانچ سال معاشی جدوجہد میں اس طرح صرف کرتے ہیں کہ ان کا معیار زندگی قائم ہو جائے اور اتنا پس انداز ہو کہ وہ ٹھاٹ باٹ سے شادی کر سکیں۔  اس طرح ان کی جوانی تجرد میں گزرتی ہے اور آدھی عمر کے بعد وہ رشتہ تلاش کرتے ہیں۔  تہذیب جدید نے ایک طرف نا بالغوں کو بالغ بنا دینے والا ہیجان انگیز ماحول بنایا ہے اور دوسری طرف شادی کی ذمہ داریوں سے کترانے کا رجحان پیدا کر دیا ہے۔  نتیجہ یہ کہ بیشتر نوجوان بری طرح جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف لڑکیوں کو رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی شادی کی عمریں ضائع ہو رہی ہیں۔  یہ صورتِ حال اصلاح طلب ہے اور قرآن کی ہدایت پر عمل کی متقاضی۔

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ بڑی وسعت والا ہے اس لیے اس سے امید رکھو کہ وہ رزق میں کشائش اور فراخی پیدا کرے گا۔  وہ علم والا ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ کون عفت کی زندگی چاہتا ہے اور تنگ دست ہونے کے باوجود ازدواج کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ واقعی مجبوریوں کی وجہ سے نکاح نہ کر سکتے ہوں مثلاً موزوں رشتہ نہ ملنے یا رہائش کا انتظام نہ ہونے کی بنا پر نکاح کو مؤخر کرنا پڑ رہا ہو انہیں چاہیے کہ عفت کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور جب اللہ ان کی مشکلات کو دور کر دے تو وہ ازدواجی زندگی اختیار کریں۔

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مکاتبت” سے مراد وہ تحریری معاہدہ ہے جو ایک غلام اپنے آقا کے ساتھ اپنی آزادی کے لیے کرتا ہے جس میں مدت کے ساتھ رقم کا تعین ہوتا ہے اور غلام کو یہ موقع حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسری جگہ محنت و مشقت کر کے رقم لائے اور قسط وار مالک کو ادا کر کے غلامی سے رہائی حاصل کرے۔

رہی یہ بات کہ "اگر تم جانتے ہو کہ ان میں بھلائی ہے” تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جن غلاموں کو آزاد کرنے سے سماج کے لیے کسی شر کا اندیشہ نہ ہو بلکہ خیر کی توقع ہو ان کے ساتھ مکاتبت کر لی جائے۔  اس احتیاط کی ضرورت خاص طور سے اس لیے بھی تھی کہ اس وقت غلاموں کی بڑی تعداد جنگی اسیروں پر مشتمل تھی۔

غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے اسلام نے جو طریقے رائج کئے ان میں مکاتبت (تحریری معاہدہ) بھی ایک اہم ذریعہ تھا۔

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ترغیب ہے غلاموں کی مدد کے لیے تاکہ وہ معاہدہ کے مطابق معاوضہ ادا کر  کے آزادی حاصل کر سکیں۔  جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کی ہے ان کو چاہیے کہ گردنیں چھڑانے میں مال خرچ کریں۔

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقرہ "جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں” صورت حال کو واضح کر رہا ہے یعنی یہ بڑی ہی ظالمانہ حرکت ہے کہ لونڈیوں کو ان کی مرضی کے خلاف پیشہ کے لیے مجبور کیا جائے۔  اس وقت لونڈیوں کو ان کے مالک پیشہ کے لیے مجبور کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعہ کو کمائی ہو وہ انہیں حاصل ہو جائے۔  یہاں اسی منکر سے روکا گیا ہے۔

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر لونڈیوں کو زنا کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تو اللہ ان کی مجبوری کو دیکھتے ہوئے انہیں معاف کرے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔  اس سے یہ اصولی بات معلوم ہوئی کہ جس پاکدامن عورت زنا کے لیے جبر کیا جائے خواہ وہ لونڈی ہو یا آزاد اس کو نہ زانیہ کہا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی سزا کی مستحق ہے۔  اس کے لیے تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت کا وعدہ ہے بشرطیکہ اس نے بدکاری سے بچنے کی پوری کوشش کی ہو۔

رہے زنا کاری پر مجبور کرنے والے لوگ تو قرآن ان کو آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی دردناک سزا کا مستحق قرار دیتا ہے جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۱۹ سے واضح ہے نیز سورہ مائدہ آیت ۳۳ میں جو سزائیں سوسائٹی میں فساد پھیلانے والوں کے لیے تجویز کی گئی ہیں ان کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے ہ وہ عورتوں کو اغوا کرنے والوں۔  ان کو زنا کے لیے مجبور کرنے والوں اور قحبہ گری کے اڈے قائم کرنے والوں کو کڑی اور عبرتناک سزا دے جو موت تک کی ہو سکتی ہے۔

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان مفسد قوموں کے انجام کی طرف جنہوں نے اللہ کے احکام کی پروا نہیں کی اور اپنی خواہشات کے غلام بن کر برائیاں سمیٹتے رہے۔

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور ایک نہایت لطیف، جمیل اور پاکیزہ چیز ہے۔  وہ خود بھی ظاہر ہوتا ہے اور اپنی روشنی سے دوسری چیزوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔  اللہ کے آسمانوں اور زمین کا نور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں پوری طرح جلوہ گر ہے۔  وہ نہایت لطیف ہے،  صاحب جمال ہے،  پاک اور منزہ ہے اور اس کا وجود اپنے آپ ظاہر ہے۔  ورنہ اللہ نہ مادی معنی میں نور ہے اور نہ اس مادی نور پر اسے قیاس کرنا صحیح ہے کیونکہ لیسَ کَمِثْلِہٖ شَیْ ءٌ (شوری ۱۱) "اس جیسی کوئی چیز نہیں۔” لہٰذا کسی فلسفیانہ بحث میں یا تاویلات کے چکر میں پڑے بغیر اللہ کے آسمانوں اور زمین کا نور ہونے کا جو سیدھا سادھا مفہوم ذہن میں آتا ہے اس پر اکتفاء کرنا چاہیے۔  اللہ کی صفات کے بارے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ تھا اور یہی سلامتی کی راہ ہے۔

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں جو مثال بیان ہوئی ہے اس سے مقصود اللہ کی صفت نور کی ہیئت بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ اس کی ماہیت انسانی عقل کے ادراک سے باہر ہے بلکہ مقصود اس کے اس نور کی طرف رہنمائی کرنا ہے جو اس کائنات میں جلوہ گر ہے اور جس سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔  اس نور معرفت کے کمال اور اس کی جلوہ آفرینیوں کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو چراغ طاق میں رکھا ہوا ہو وہ زیادہ روشن ہوتا ہے پھر اگر وہ شیشہ کے اندر یعنی قندیل میں ہو تو اس کی روشنی صاف ہو گی اور شیشہ اگر چمکتے ہوئے تارہ کی طرح شفاف ہو تو اس کی روشنی نہایت درخشاں ہو گی۔  پھر اگر اس چراغ کو زیتون کے تیل سے جلایا گیا ہو، خاص طور سے زیتون کے اس درخت کے تیل سے جو کھلی جگہ میں ہونے کی وجہ سے صبح و شام اس پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہوں کہ ایسے درخت کا تیل نہایت چمکیلا ہوتا ہے تو اس صورت میں اس چراغ کی روشنی نہایت تابناک ہو گی اور وہ روشنی پر روشنی دے رہا ہو گا۔  اس مثال سے مقصود نور کی انتہائی تابناکی کو واضح کرنا ہے۔

یہ تابناک نور معرفت الٰہی کا نور ہے جو اس کائنات میں جلوہ گر ہے مگر اس کو دیکھنے کے لیے بصیرت کی آنکھیں درکار ہیں۔

تمثیل میں زیتون کے درخت کو مبارک اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کے فوائد بہت ہیں اور اس کا تیل بڑا ہی منفعت بخش ہوتا ہے۔  یہ درخت اگر پہاڑ پر یا میدان میں اس طرح کھڑا ہو کہ اس کے مشرقی یا مغربی جانب کوئی آر نہ ہو تو سورج کی شعاعیں اس پر صبح و شام پڑیں گی۔  زیتون کے ایسے درخت کا تیل بڑا صاف اور ایسا چمکیلا ہوتا ہے کہ گویا بھڑک اٹھنے کو ہے۔

زیتون کی مثال یہاں مغفرتِ الٰہی کے نور کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہے لیکن ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے تو یہ مثال اسلام پر بھی صادق آتی ہے کہ اسلام ایک مبارک دین ہے اور وہ شرقی ہے نہ عربی بلکہ آفاقی دین ہے۔  اسی طرح زیتون کے تیل کی مثال سلیم الفطرت انسان پر صادق آتی ہے جس کا دل توحید کا ساز چھیڑنے کو ہوتا ہے اور جب وحی الٰہی اسے توحید کا پیغام سناتی ہے تو وہ اس سے بالکل ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔  فطرت کی رہنمائی کے ساتھ وحی (قرآن) کی رہنمائی روشنی پر روشنی (نور علی نور) کا مصداق بن جاتی ہے۔

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اوپر جس نور کی مثال پیش کی گئی ہے اس کا تعلق ہدایت سے ہے اس لیے اس سے مراد معرفتِ الٰہی کا نور ہی ہے۔  اور معرفت الٰہی کا نور ہی ایسا ہے جو پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہونے کے باوجود ان ہی لوگوں کو دکھائی دیتا ہے جو بصیرت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔  اللہ ایسے ہی لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کو اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

آیتِ نور کااس سورہ میں بلکہ پورے قرآن میں جو مقام ہے وہ ایسا ہے جیسے ایک عالیشان محل میں لعلِ درخشاں جڑا ہوا ہو۔ معرفتِ الٰہی کے نور سے جب دل میں ایمان کا نور پیدا ہو جاتا ہے تو مؤمن کی پوری زندگی منور ہو جاتی ہے۔  گھریلو اور عائلی زندگی ہو یا خارجی اور اجتماعی، ایمان کے نور سے زندگی کا ہر گوشہ روشن ہو جاتا ہے۔

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے جو مثال بیان فرمائی ہے وہ علم کی بنیاد پر ہے اس لیے وہ بالکل موزوں ہے اور جو بات اس مثال کے ذریعہ واضح کی گئی ہے وہ سر تا سر حقیقت ہے۔

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مسجدیں ہیں اور ان کو بلند کرنے کا مطلب تعمیر کرنا بھی ہے اور ان کی تعظیم کرنا بھی،  نیز مسجد کی عمارت کو مناسب حد تک اونچا اٹھانا بھی تاکہ مسجدوں کی عظمت کا تصور قائم ہو۔  مساجد کی تعمیر کو حدیث میں جنت کا مستحق بنانے والا عمل قرار دیا گیا ہے :

مَن بَنیَ لِلّٰہ مَسْجدٍابَنیَ اللّٰہُ لَہ، بَیْتًا فِی اَلْجَنَّۃِ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ بحوالہ صحیحین) "جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔”

اور مسجد کی تعظیم کرنے میں جہاں اس کو پاک صاف رکھنا، اس میں پاکیزہ حالت میں داخل ہونا،  وہاں خرید و فروخت نہ کرنا اور کوئی ایسی بات نہ کرنا جو آدابِ مسجد کے خلاف ہو شامل ہے وہاں یہ بات بھی شامل ہے کہ نہ مسجد کے اندر کسی کی قبر بنائی جائے اور نہ کسی قبر کے اوپر کوئی مسجد تعمیر کی جائے کیونکہ یہ بات مسجد کے تقدس کے سراسر خلاف ہے۔  حدیث میں آتا ہے :

لَعَنَ اللّٰہُ الیَہُوْدَ وَالنِّصَاریٰ اِتَّخَذُوْاقَبُوْرَ اَنْبیَائہمْ مَسَاجِدَ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ بحوالہ صحیحین) "اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے۔  انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا”

اور مسجدوں کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کہ ان میں اللہ کے نام کا ذکر ہو یعنی وہاں اللہ ہی کے نام کا غلغلہ بلند ہو کہ مسجدیں اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں۔  بعض جاہل مسلمان اپنے پیر دستگیر کو بھی مسجد میں پکارنے سے نہیں چوکتے۔  ان کی یہ مشرکانہ دعائیں مسجد کے تقدس کو بری طرح پامال کرتی ہیں۔

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر کی آیتوں میں گھروں میں داخل ہونے کے آداب اور گھریلو زندگی سے متعلق احکام بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں اللہ کے گھروں کے آداب بیان ہوئے ہیں۔  یعنی جب ذکر گھروں کا ہوا تو رخ اللہ کے گھروں کی طرف پھیر دیا گیا اور قرآن کا طریقِ تربیت یہی ہے کہ وہ ذہنوں کو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف اور فرع (شاخ) سے اصول (جڑ) کی طرف موڑ دیتا ہے چنانچہ جب لباس کا ذکر ہوا تو ذہنوں کو تقویٰ کے لباس کی طرف موڑ دیا گیا۔ (سورۂ اعراف آیت ۲۶)

اوپر کی آیت میں اللہ کی عبادت گاہوں کا ذکر ہوا جہاں سے اس کے نور کی ضیاء پاشی ہو رہی ہے اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اس نور سے کسبِ فیض کرتے رہتے ہیں۔  ان کا بنیادی وصف یہ ہے کہ ان کو معاشی دوڑ دھوپ اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔  وہ اپنی کاروباری مصروفیتوں اور خرید و فروخت کے معاملات طے کرتے ہوئے بھی اللہ کو یاد رکھتے ہیں ، نماز وقت پر ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں برتتے۔

یہاں یہ بات آپ سے آپ واضح ہو رہی ہے کہ جو شخص کاروباری مصروفیتوں کے دوران اللہ کو یاد رکھے گا وہ کسب حلال ہی کے لیے جدوجہد کرے گا۔

آج مسلمانوں کا حال بڑا افسوسناک ہے۔  کتنے ہی لوگ کاروباری مصروفیتوں کے دوران نماز کو وقت پر ادا نہیں کرتے اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کو نماز پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔  گویا نماز بھی فرصت کا کوئی کام ہے اور کاروبار اس پر مقدم ہے۔  سوچنے کا یہ انداز ہی سراسر دنیا پرستانہ ہے۔  ایسے فاسقوں کو اقامتِ صلوٰۃ کی سعادت کس طرح نصیب ہو گی۔

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن کی ہولناکی سے نہ دل ٹھکانے پر رہیں گے اور نہ آنکھیں۔

اہلِ ایمان اس دن کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں اور یہ چیز ان کو سنجیدہ بناتی ہے اور ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے اور جب بندہ میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے تو وہ اللہ کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے یہ بندے اپنے اندر یہ اوصاف جو پیدا کرتے ہیں تو اس کا ثمرہ انہیں یہ ملے گا کہ ان کے جو بہترین اعمال ہوں گے ان کو معیار قرار دیکر جزاء عطاء کی جائے گی مزید براں اللہ اپنے فضل خاص سے انہیں نوازے گا۔

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنا دیتا ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔  وہ دینے میں نہایت فیاض ہے اور جن انعامات سے وہ اپنے ان مخلص بندوں کو نوازے گا اس کا تصور وہ اس دنیا میں نہیں کر سکتے۔

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی اصطلاح میں کفر صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی خدا کے وجود کا انکار کر دے بلکہ خدا کو مانتے ہوئے اس کی صفات کا انکار کرنا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہرانا یا اس کی بلا شرکتِ غیرے عبادت کرنے سے انکار کرنا،  اس کے رسولوں اور کتابوں میں سے کسی کو نہ ماننا، اس کی ہدایت کو قبول نہ کرنا ، اس کی اطاعت اور اس کے احکام کو ماننے سے انکار کرنا اور آخرت پر یقین نہ رکھنا بھی کفر ہے۔  اس لیے اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جو شخص اللہ کے وجود کا منکر ہو وہی کافر ہے بلکہ وہ شخص بھی کافر ہے جو خدا کا اقرار کرتے ہوئے اس طرح خدا کو نہیں مانتا جس طرح ماننے کا حکم اللہ نے قرآن میں دیا ہے۔

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے اعمال میں وہ تمام اعمال شامل ہیں جو خدا اور مذہب کی بنیاد پر وہ کرتے ہیں مثلاً مشرکین کا دان کرنا، خیراتی ادارے قائم کرنا، رفاہِ عامہ کے کام وغیرہ اور مشرکین عرب تو حج بھی کرتے تھے اور جہاں تک یہود و نصاریٰ کا تعلق ہے وہ اپنے طریقہ پر اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں اور آسمانی شریعت کی کچھ باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔  اسی طرح جو مسلمان منافق ہیں وہ کبھی کبھی نماز بھی پڑھ لیتے ہیں اور دوسرے دینی کاموں میں بھی شریک ہو جاتے ہیں یہ سب کا نیکی کے ہونے کے باوجود چونکہ وہ کفر کی نجاست سے ملوث ہوتے ہیں اس لیے ان کے یہ سب کام بے حقیقت ہیں اور ان کا کوئی ثمرہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والا نہیں اور نہ ان کے ان کارناموں کا کوئی صلہ انہیں ملے گا جو قوم اور وطن کی خاطر انہوں نے انجام دئے ہوں گے۔

ان کے اعمال کے بے نتیجہ ہونے کو یہاں سراب کی مثال سے واضح کیا گیا ہے۔  جس طرح ایک پیاسا، صحرا میں سراب کو دیکھ کر اسے پانی گمان کر لے اور اس امید پر وہاں جائے کہ وہ اپنی پیاس کو بجھا سکے گا مگر وہاں پہنچ کر اس کو معلوم ہو جائے کہ اس نے دھوکہ کھایا اسی طرح یہ کافر اگر یہ سمجھتی ہیں کہ مرنے کے بعد اگر جزا و سزا کا معاملہ پیش آ ہی گیا تو ان کے ان اعمال کا اجر ان کو اللہ کے ہاں ملے گا محض خوش فہمی ہے قیامت کے دن انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے اعمال کے بارے میں جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ان کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔  وہ جزا و سزا کے دن اللہ کو موجود پائیں گے اور وہ ان کے اعمال کا حساب پورے عدل کے ساتھ چکا دے گا۔

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اربوں اور کھربوں انسانوں کا حساب چکانے میں اللہ کو کچھ دیر نہ لگے گی۔

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسری مثال کافروں کے جہل مرکب کی ہے کہ وہ جہالت کی تہ در تہ تاریکیوں میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ جس کو اللہ کی طرف سے روشنی نہیں ملتی اس کو پھر کہیں سے روشنی نہیں مل سکتی۔  اس کے لیے یہ بات مقدر ہے کہ وہ تاریکیوں میں بھٹکتا رہے۔

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں جن پر غور کرنے سے اللہ کی معرفت (پہچان) حاصل ہوتی ہے۔

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "دیکھتے نہیں” یہاں "غور کرتے نہیں” کے معنی میں ہے۔  دعوت اس حقیقت پر غور کرنے کی دی جا رہی ہے کہ آسمانوں کی مخلوق ہو یا زمین کی سب اللہ ہی کی پاکی اور اس کے گن گاتے ہیں۔  فرشتے ہوں یا کوئی اور جاندار مخلوق سب اپنے اپنے طریقہ پر نماز بھی پڑھتے ہیں اور تسبیح بھی کرتے ہیں۔  یہاں تک کہ پرندے جو فضا میں پر پھیلاتے ہیں وہ اللہ کے آگے بجھ جانے ہی کی علامت ہے۔  کوئل کی کوک ، بلبل کی نغمہ سرائی،مرغ کی اذان اور چڑیوں کی چہچہاہٹ میں تسبیح کی گونج سنائی دیتی ہے بشرطیکہ آدمی گوش حقیقت نیوش سے سنے۔  علی الصبح جب چڑیاں درخت پر جمع ہو کر چہچہانے لگتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے رب کی تسبیح میں زمزمہ سنج ہیں اور صبح کی نماز میں مشغول ہیں۔  مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۸  اور سورۂ حج نوٹ ۳۲)۔

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات کہ اللہ بلا شرکت غیرے پوری کائنات کا بادشاہ ہے ایک کھلی حقیقت ہے مگر مشرکین اس کے اختیارات میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مسلمان جن کی گھٹی میں بدعتیں پڑی ہیں اللہ کو اگر بادشاہ قرار دیتے ہیں تو رسول کو وزیر اعظم۔ (مختصر تفسیر نعیمی ص۵۲۷) میں ہے "حضور صلی اللہ علیہ و سلم سلطنت الٰہیہ کے گویا وزیر اعظم ہیں”۔  اللہ کی پناہ ایسی بدعتی تفسیر سے !

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بارش کے بادلوں کا یہ نظام عام مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے لیکن اگر آدمی ہوائی جہاز میں سفر کر رہا ہو تو وہ اس کا بخوبی مشاہدہ کر لیتا ہے۔  اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بادلوں کا ایک سمندر ہے جو زمین پر چھا گیا ہے۔  وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ بادل ادھر ادھر سے آ کر بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں پھر ان کے تہ بہ تہ ہونے کا سلسلہ تو کئی میل کی بلندی تک رہتا ہے۔  اور عجیب بات تو یہ ہے کہ بادل نیچے پانی برسا رہے ہوتے ہیں اور ہوائی جہاز ان کے اوپر سے گزرتا ہے۔  یہ مشاہدہ دعوتِ فکر دیتا ہے اور آدمی اگر غور کرے تو یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ یہ سارے کام ایک منصوبہ کے تحت ہو رہے ہیں اور یہ اسی ہستی کی کارفرمائی ہے جس کا تصرف پوری کائنات پر ہے۔

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں آسمان سے مراد بلندی ہے۔  بلندی پر سرد ہوا کی شدت سے بادل برف (Snow) سے بھر جاتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے تودے ایسے ہوتے ہیں جیسے پہاڑ پھر ان پہاڑ جیسے تودوں سے برف باری ہونے لگتی ہے۔

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض مرتبہ برف باری طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس سے زبردست نقصان پہنچتا ہے۔  راقم سطور کو چندسال قبل دبئی میں ژالہ باری کے طوفان کو دیکھنے کا موقع ملا۔  برف کے گولے اوپر سے اس طرح برس رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا مشین گن سے گولیاں چلائی جا رہی ہیں اور گولوں کو دیکھ کر شبہ ہوتا تھا کہ کسی کارخانہ میں ڈھلے ہوئے ہیں۔  راقم نے تو راہ چلتے ہوئے ایک دکان میں پناہ لی تھی وہیں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اللہ سے سلامتی کے لیے دعا کر رہا تھا۔  بعد میں معلوم ہوا کہ اس ژالہ باری سے زبردست تباہی ہوئی اور کتنے ہی راہ چلتے لوگ اس کی زد میں آ گئے۔  ایسے واقعات انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی ہوتی ہیں۔

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلکیات کی رو سے رات اور دن کا الٹ پھیر زمین کی محوری گردش کا نتیجہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کون ہے جو زمین کو اس طرح گردش میں لا رہا ہے کہ طویل زمانہ گزرنے کے باوجود نہ اس کی رفتار میں کوئی فرق آیا اور نہ رات اور دن کے اوقات میں کوئی باقاعدگی ہوئی؟

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۳۵۔

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ کے بل چلنے والے جانداروں کی مثال سانپ ہے اور پانی میں تیرنے والی مچھلی بھی۔

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو پاؤں والے جانداروں میں انسان اور پرندے شامل ہیں۔

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چار پاؤں والے جانوروں میں چرنے والے مویشی بھی ہیں اور وحشی جانور بھی۔

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تخلیق کی اس گوناگونی میں اللہ ہی کا ارادہ کارفرما ہے۔

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ آیتیں توحید کو بالکل واضح کر دینے والی ہیں مگر ان سے ہدایت وہی لوگ پائیں گے جو اللہ کی مشیت کے تحت ہدایت کے مستحق قرار پائیں گے اور اللہ کی مشیت حکیمانہ فیصلے ہی کرتی ہے۔

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرتے تھے۔ یہ بات ایمان کے تقاضے کے بالکل خلاف تھی اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ درحقیقت مؤمن نہیں ہیں۔  بالفاظ دیگر ایسے لوگ منافق ہیں۔

معلوم ہوا کہ ایمان اور اطاعت سے انکار دو متضاد باتیں ہیں۔  جس دل میں ایمان ہو گا اس کا اثر عمل سے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔  وقتی طور پر کسی گناہ کا سرزد ہونا اور بات ہے اور سرے سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی کو ضروری نہ سمجھنا اور بات۔  پہلی چیز معصیت ہے اور دوسری چیز کفر۔

آج مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو ایک طرف اسلام سے عقیدت کا اظہار کرتی ہے اور دوسری طرف کتاب و سنت کی پیروی سے بالکل آزاد ہے۔  جہالت کی وجہ سے یہ لوگ خوش فہمی میں مبتلا ہیں اگر وہ ان آیتوں کو غور سے پڑھ لیں جن میں منافقوں کا حال بیان ہوا ہے تو وہ ایمان کی حقیقت کو سمجھ لیں اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی توفیق نصیب ہو۔

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا مقدمہ رسول کے پاس لے جانے سے انکار کرنا یا باہم نزاعی امور کو قرآن و سنت کے سامنے پیش کرنے کے لیے آمادہ نہ ہونا ایک منافقانہ حرکت ہے جس کی وضاحت سورۂ نسا نوٹ ۱۲۹  اور ۱۳۴  میں کی جا چکی ہے۔

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہو گا تو سر تسلیم خم کرتے ہوئے رسول کے پاس دوڑے چلے آتے ہیں۔

یہی حال موجودہ دور کے منافقوں کا ہے۔  وہ شریعت کے صرف ان احکام کو لے لیتے ہیں جن سے ان کے مفادات وابستہ ہیں۔  یہ مفاد پرستی ہے نہ کہ شریعت کی اتباع۔

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا یہ منافقانہ طرزِ عمل یا تو اس وجہ سے ہے کہ ان کے دلوں میں نفاق (منافقت) کی بیماری ہے اس لیے ان کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ آیا یہ احکام اللہ کے ہیں بھی؟ یا پھر وہ اللہ اور اس کے رسول سے اپنے لیے انصاف کی امید ہی نہیں رکھتے اس لیے اس اندیشہ میں مبتلا ہیں کہ ان کی حق تلفی ہو گی۔  ان میں سے جو بات بھی ہو ایمان کے منافی ہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے ہی حق میں ظالم بن گئے ہیں یعنی خواہش پرستی نے انہیں غلط کار اور اپنے ہی اوپر ظلم ڈھانے والا بنا دیا ہے۔

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ہے مخلص مؤمنوں کا طرز عمل لیکن موجودہ مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ نہ وہ اللہ و رسول کی بات سننے کے لیے تیار ہیں اور نہ اطاعت کرنے کے لیے۔  بہت کم لوگ ہیں جو صحیح طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جو فیصلے احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں وہ ہم سب کے لیے متعلقہ امور میں واجب الاطاعت ہیں اور اصولی رہنمائی کا سامان بھی۔

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی با مراد ہونے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اس طور سے ضروری ہے کہ دل میں اللہ کا ڈر اور اس کی معصیت سے بچنے کا جذبہ ہو۔

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ منافق قسمیں کھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اے پیغمبر اگر تم انہیں جہاد کا حکم دو تو وہ ضرور نکلیں گے۔

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قسمیں وہی لوگ زیادہ کھاتے ہیں جن کا کردار قابل اعتبار نہیں ہوتا۔  یہاں منافقین سے کہا جا رہا ہے کہ جھوٹی قسمیں کھا کر اطاعت کا یقین دلانے کے بجائے اطاعت کا جو معروف اور معلوم طریقہ ہے وہ اختیار کرو کہ سچے مومنوں کا یہی طریقہ ہے۔

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیتوں میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کی بھی بڑی تاکید کی گئی ہے اور اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے۔  اللہ کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کتاب یعنی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے اور رسول کی اطاعت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سنت کو جس کو اس نے اس امت میں رائج کیا اور جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے مضبوطی کے ساتھ تھام لیا جائے۔

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں اہلِ ایمان کے لیے خوشخبری ہے اور منافقوں کے لیے تنبیہ۔  منافق اس انتظار میں تھے کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔  انہیں متنبہ کیا گیا کہ وہ کسی خام حیالی میں نہ رہیں۔  خوف اور جنگ کی یہ حالت جس سے اس وقت اہل ایمان گزر رہے ہیں باقی رہنے والی نہیں۔  عنقریب ان کو اقتدار بخشا جانے والا ہے اور اس سرزمین پر اسلام کا مکمل غلبہ ہونے والا ہے۔

استخلاف کے معنی خلیفہ بنانے کے ہیں اور خلیفہ کے معنیٰ با اختیار اور با اقتدار کے ہیں۔

لسان العرب میں ہے :

وَ الْخِلَافَۃُ الْاِمَارَۃُ "خلافت کے معنی اِمارت کے ہیں۔” (لسان العرب ج۹ ص۸۳)

اور قرآن کی اصطلاح میں خلیفہ بنانے کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقتدار عطا کئے جانے کے ہیں اور اس اقدار سے مطلوب اختیارات کو اس کی شریعت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔  بالفاظ دیگر خلیفہ مطلق العنان حاکم (Absolute Monarch) نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کرنے والے کی ہوتی ہے۔  اس معنی میں ایک نبی بھی اقتدار پانے کے بعد خلیفہ ہوتا ہے چنانچہ قرآن میں حضرت داؤد کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ (سورۂ ص آیت ۲۶)

اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ وہ مومنین صالحین کو اقتدار اور حکومت سے سرفراز فرمائے گا بہت جلد پورا ہوا۔  فتح مکہ (رمضان ۰۸ ھ  ۶۳۰ء) اس اقتدار کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی میں پورے عرب پر اسلام کا اقتدار قائم ہو گیا،  پھر خلفائے راشدین کے زمانہ میں وقت کی دو عظیم الشان سلطنتیں فارس اور روم اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں اور خلافت کے حدود ایران، عراق، شام اور مصر تک وسیع ہو گئے۔  مدینہ پر مشرکوں اور کافروں کے حملہ کا جو خطرہ لگا رہتا تھا وہ اس طرح ختم ہو گیا کہ اب کوئی طاقت بھی اس کی جرأت نہیں کر سکتی تھی اور دین کو ایسی قوت فراہم ہو گئی تھی کہ ریاست کے نظام کو اسلام کے مطابق چلانے اور اس کے قوانین کو نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہ گئی تھی۔  پورے عرب میں توحید کا غلغلہ ہوا اور شرک سے عرب کی زمین یکسر پاک ہو گئی۔  اس طرح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا دور قرآن کے اس وعدہ کا مصداق قرار پایا مگر تعجب ہے کہ اس واضح حقیقت کے باوجود مسلمانوں کا ایک فرقہ تینوں خلفاء (حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم) کو غاصب قرار دیکر ان کو مطعون کرتا ہے۔  اگر اس فرقہ کے لوگ اس آیت کی روشنی میں خلافت کے مسئلہ پر غور کریں تو جس فرقہ بندی میں وہ مبتلا ہیں اس کی حقیقت ان پر واضح ہو جائے۔

آیت میں یہ جو فرمایا گیا ہے کہ "جس طرح ان کو بخشا گیا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے” تو یہ اشارہ ہے اللہ کی اس سنت کی طرف کہ جب کسی رسول کو اس کی قوم نے جھٹلایا ہے تو اس کو تباہ کر دیا گیا اور رسول اور اس کے اہلِ ایمان ساتھیوں کو با اقتدار بنایا گیا۔  اس کی مثالیں حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح اور ان کے ساتھی اہل ایمان ہیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل کو ارض مقدس عطاء کی گئی اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے ذریعہ حکومت کو وسیع اور مستحکم کیا گیا۔

"اس کے بعد جو کفر کریں گے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں” کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو خلافت سے جو سرفراز کیا جائے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی تکمیل اور اس کا غیر معمولی فضل ہو گا۔  یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد بھی جو لوگ اس نعمت کی نا قدری کریں گے اور فتنے کھڑے کر کے امن کو بد امنی سے بدلنے کی کوشش کریں گے وہ کھلے فاسق ہوں گے یہ گویا اشارہ تھا سبائی فتنہ کی طرف جو حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اٹھا اور جس نے حضرت علی کی خلافت کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیا۔

"رہا یہ سوال کہ اقتدار کا یہ وعدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کے لیے تھا یا یہ بعد کے مسلمانوں کے لیے بھی ہے تو اس کا جواب علامہ ابن تیمیہ نے یہ دیا کہ : "یہ وعدہ ان سب کے لیے ہے جو یہ وصف رکھتے ہوں۔  جب اگلوں نے یہ وصف اپنے اندر پیدا کر لیا تو اللہ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں خلافت سے سرفراز کیا اور ان کے بعد ایک گروہ اپنے ایمان اور عمل صالح کے اعتبار سے اس وصف کا حامل ہوا۔  تو جو اپنے ایمان میں کامل اور نیک عمل تھے ان کو مذکورہ خلافت بدرجۂ اتم عطاء ہوئی اور جن کے اندر اس اعتبار سے نقص اور خرابی رہی ان کے اقتدار میں بھی خلل اور نقص تھا۔  یہ اس عمل کی جزاء ہے تو جو لوگ یہ عمل کریں گے وہ اس جزا کے مستحق ہوں گے۔” (مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۱۸ ص ۳۰۲)

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ یہ آیت توضیحی ہے۔  آیت ۲۷  میں گھروں میں اجازت لے کر داخل ہونے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کے سلسلہ میں یہاں یہ وضاحت کر دی گئی کہ جہاں تک تمہارے لونڈی غلاموں اور نابالغ بچوں کا تعلق ہے ان کا چونکہ بار بار تمہارے پاس آنا جانا ہوتا ہے۔  اس لیے ہر وقت اجازت لینا ان کے لیے ضروری نہیں لیکن تین اوقات ایسے ہیں جن میں اجازت لینے کی پابندی ان کو بھی کرنا چاہیے اور وہ اوقات تمہارے پردہ کے ہیں۔  ایک تو عشا کے بعد کا وقت جب آدمی بستر پر جاتا ہے دوسرا نماز فجر سے پہلے کا وقت اور تیسرادوپہر کا وقت جو قیلولے کا وقت ہے خاص طور سے گرم ممالک کے لیے۔  ان اوقات میں آدمی چونکہ اپنی بیوی کے پاس خلوت میں ہوتا ہے یا جسم پر ناکافی کپڑے ہوتے ہیں اس لیے نابالغ بچوں کو بھی اس بات کا پابند بنانا ضروری ہے کہ اگر وہ ان اوقات میں اندر آنا چاہیں تو اجازت لے کر ہی آئیں۔  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بچوں کی صحیح تربیت کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے سامنے کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیے جس کا اثر ان کے اخلاق پر بر ا پڑتا ہو۔

موجودہ دور میں آبادی کی کثرت نے بڑے بڑے شہروں میں رہائش کے مسئلہ کو بڑا مشکل بنا دیا ہے۔  لوگ تنگ کمروں میں اپنے بال چوں کے ساتھ رہتے ہیں۔  ایک طرف رہنے کی یہ مجبوری ہے اور دوسری طرف حیا داری کے تقاضے ہیں جن کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  ایسی صورت میں جو محتاط طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہو وہ لازماً اختیار کرنا چاہیے ے اور دوسری تمدنی ضرورتوں پر رہائش کے مسئلہ کو مقدم رکھنا چاہیے۔  یعنی رہائش کا ایسا انتظام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خلوت بھی میسر آئے اور رہنے سہنے کے تعلق سے شرعی حدود کی پابندی بھی کی جا سکے۔ جو لوگ اخلاقی حس رکھتے ہیں اور اسلامی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کے لیے ازبس ضروری ہے کہ وہ رہائش کے مسئلہ کو مناسب طریقہ پر حل کرنے کے لیے نسبتاً زیادہ مالی بار برداشت کریں۔

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس کے یہ احکام علم و حکمت پر مبنی ہیں۔

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچے جب بالغ ہو جائیں تو ان کو دیگر اوقات میں بھی اجازت لے کر داخل ہونا چاہیے۔  یہ پابندی ان کے لیے اسی طرح ہے جس طرح پہلے سے ان سے بڑوں کے لیے ہے۔

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت ۳۱  میں عورتوں کو دوپٹہ کا حکم دیا گیا تھا کہ اگر کوئی غیر محرم گھر میں آئے تو اپنے گریبانوں پر اس کے آنچل ڈالی رہیں۔  اس آیت میں ان بوڑھی عورتوں کو جو نکاح کی امید نہ رکھتی ہوں یہ رخصت دیدی گئی کہ وہ اگر اپنے دوپٹے اتار دیں تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ زینت کی نمائش مقصود نہ ہو اور بہتر یہی ہے کہ وہ دوپٹے نہ اتاریں کہ اس میں زیادہ حیا داری ہے۔

اکثر مفسرین نے کپڑوں سے چادریں مراد لی ہیں یعنی ان کے نزدیک بوڑھی عورتیں اگر باہر نکلتے وقت اپنے اوپر چادریں نہ ڈالیں تو کوئی حرج نہیں لیکن چادر (جلباب) کا حکم سورۂ احزاب میں بیان ہوا ہے۔  اس سورہ (نور) میں تو گھر کے تعلق سے احکام بیان ہوئے ہیں جن میں اوڑھنی کا حکم بھی دیا گیا ہے اور آیت زیر تفسیر ایک توضیحی آیت ہے اس لیے اس کا تعلق اوڑھنی کے حکم سے بدرجۂ اولیٰ ہے۔

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زینت کے اظہار کی تین صورتیں اس سورہ میں بیان ہوئی ہیں۔  ایک یہ کہ جو زینت ضرورۃً ظاہر ہوتی رہتی ہے اس کے غیر محرم کے سامنے ظاہر ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اس کا حکم آیت ۳۱  میں اِلاّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔  دوسری صورت یہ ہے کہ عورت زینت کے ساتھ اپنے شوہر کے علاوہ اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے بھی آ سکتی ہے اس کا حکم آیت ۳۱  میں بیان ہوا ہے اور تیسری صورت یہ ہے کہ عورت غیر محرم مردوں کے سامنے زینت کی نمائش کرے یعنی جس زینت کو چھپانا غیر محرموں کے تعلق سے ضروری ہے اس کو وہ دکھاتی پھرے۔  زینت کی یہ نمائش حرام ہے اور قرآن کی اصطلاح میں اس کا نام "تبرج” ہے اس آیت میں اسی تبرّج کی ممانعت کی گئی ہے۔

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سورہ میں گھر کے تعلق سے جو احکام دئے گئے ہیں ان کی توضیح کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔  مقصد اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ مذکورہ پابندیوں کے پیش نظر نہ معذوروں کے لیے یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ وہ بدستور ان گھروں میں جا کر کھاتے رہیں جہاں ان کے لیے اہل خیر نے انتظام کر رکھا تھا اور نہ قریبی رشتہ دار اور دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔  اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ معذور اشخاص کے کھانے کا انتظام جن لوگوں نے اپنے گھروں میں کیا ہو وہ وہاں جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔  گھروں میں داخل ہونے کی اجازت اور پردہ کے حدود کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معذوروں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک ختم کر دیا جائے۔  رہے قریبی رشتہ دار مثلاً باپ، ماں ، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ تو اگر تمہارے کھانے کا انتظام ان رشتہ داروں میں سے کسی کے گھر میں ہے تو وہاں جا کر تمہارے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اسی طرح ان گھروں سے بھی جو تمہاری تحویل میں ہوں مثلاً کوئی شخص سفر پر چلا گیا اور اپنا بند گھر تم پر چھوڑ دیاتو اس کے گھر میں جو کھانے پینے کا سامان ہے اس سے تمہارے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے نیز اپنے دوستوں کے گھروں میں بھی جا سکتے ہیں اور بے تکلف کھا سکتے ہو۔  باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا ممد ثابت ہوتا ہے اس لیے گھر سے متعلق جو احکام دئے گئے ہیں ان کی پابندی کرتے ہوئے ان گھروں میں جانے اور کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رہی یہ بات کہ "نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ۔” تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصلاً تمہارے اپنے گھر ہی میں جہاں تم کسی روک ٹوک کے بغیر کھانا کھا سکتے ہو لیکن اگر کسی وجہ سے تمہارے کھانے کا انتظام تمہارے قریبی رشتہ داروں کے ہاں ہے یا تمہارے کسی دوست کے گھر پر ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔

آیت میں بیٹوں کے گھر سے کھانے کا ذکر نہیں ہوا کیونکہ جہاں تک کھانے کا تعلق ہے والدین کے لیے اپنے بیٹے کا گھر اپنے ہی گھر کے حکم میں ہے۔

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھانا الگ الگ کھائیں یا مل کر کھائیں یہ حالات، ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے طے کرنے کی بات ہے۔  شرعاً اس سلسلہ میں کوئی پابندی نہیں ہے اور سہولت کے پیش نظر دونوں طریقوں کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ نہ بھولو کہ تمہارا اپنا گھر ہو یا تمہارے رشتہ داروں وغیرہ کا،  داخل ہوتے وقت تمہیں لازماً سلام کرنا چاہیے۔  آدمی کے اپنے اہل و عیال ہوں یا گھر کے دوسرے افراد اپنی ملت کے افراد ہونے کی حیثیت سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو آدمی سلامتی کی دعا کا تحفہ پیش کرے۔

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دعائیہ کلمہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے اور جو نہایت ہی خیر و برکت والا پاکیزہ کلمہ ہے۔

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان احکام پر جو کافی وضاحت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں عمل درآمد کے لیے ضروری ہے کہ سوجھ بوجھ سے کام لو۔  احکام کی تعمیل محض خانہ پوری کی حد تک کرنے سے مطلوبہ مقاصد پورے نہیں ہوتے اور نہ فقہی موشگافیاں کرنے سے شریعت کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔  عمل کی صحیح صورت یہ ہے کہ جو حکم دیا گیا ہے اس کے مدعا کو آدمی اچھی طرح سمجھ لے اور اس پر عمل درآمد کے سلسلہ میں ہوش مندی کا ثبوت دے۔  اگر مسائل پیدا ہو رہے ہوں تو انہیں اپنے ناخن تدبیر سے حل کرنے کی کوشش کرے۔  اللہ تعالیٰ نے عقل اس لیے نہیں عطا کی ہے کہ اسے معطل کر کے رکھا جائے بلکہ اس لیے عطا کی ہے کہ اسے صحیح طور سے استعمال کیا جائے اور شرعی احکام کو رو بہ عمل لانے میں عقلِ سلیم سے مدد لی جائے۔

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایمان سے مراد سچا ایمان ہے جو شعوری ہوتا ہے۔  منافقوں کا سا ایمان نہیں جو نہ شعوری ہوتا ہے اور نہ اس میں وہ مخلص ہوتے ہیں بلکہ محض عقیدہ کا اظہار ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں۔

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی کام سے مراد مشاورتی مجلس بھی ہو سکتی ہے اور وہ نشست بھی جو جہاد وغیرہ کے بارے میں ہدایات دینے کے لیے بلائی گئی ہو۔  ایسی نشستیں بجائے خود اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ان میں حاضری بھی ضروری ہے لیکن جب ایسی نشست اللہ کے رسول کی موجودگی میں منعقد ہو رہی ہو تو اس کی اہمیت بدرجہا بڑھ جاتی ہے اور اس سے بلا عذر غیر حاضری یا رسول کی اجازت کے بغیر اس نشست کو چھوڑ کر چلا جانا ایک ایسی سنگین بات ہے جو ایمان سے میل نہیں کھاتی۔

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار دیا گیا کہ جو لوگ اپنی کسی ضرورت سے اجازت مانگیں ان میں سے جن کو آپ مناسب سمجھیں اجازت دیدیں۔  ساتھ ہی ان کے حق میں استغفار کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے اگر ان کا عذر قوی نہیں تھا اور انہوں نے اجازت طلب کی تھی تو اللہ ان کے قصور کو معاف کر دے۔

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول جب تمہیں کسی کام کے لیے بلائے تو تم پر فرض ہو جاتا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر اس کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔  اس کے بلاوے کو اس سطح پر نہیں رکھا جا سکتا جس سطح پر تم آپس میں ایک دوسرے کے بلاوے کو رکھتے ہو۔  رسول کا بلاوا، اس کی پکار اور اس کی دعوت ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ رسول کا جو مقام ہے وہ تم میں سے کسی کا بھی نہیں ہے۔

واضح ہوا کہ ان دو آیتوں میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ رسول کے ساتھ خاص ہیں ان کو عام امراء پر منطبق کرنا صحیح نہیں۔  ان کی اطاعت کے معروف حدود ہیں جبکہ رسول کی اطاعت اور اس کے آداب کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے منافقین کی طرف جو رسول کی مجلس سے اپنی عدم دلچسپی کے باعث کسی کی آڑ لیکر کھسک جاتے تاکہ ان کے جانے کا کسی کو پتہ نہ چلے۔

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جو رسول کے حکم کو ماننے کے بجائے اس سے گریز کرنے لگتے ہیں مگر ان کا نتیجہ ایسے لوگوں کے حق میں نہایت خطرناک ہو سکتا ہے یا تو وہ کسی فتنہ کا شکار ہو کر رہ جائیں یا دردناک عذاب کی گرفت میں آ جائیں۔

آج مسلمان طرح طرح کے فتنے میں گھرے ہوئے ہیں اور نئے نئے فتنوں کا اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔  یہ صورتِ حال نتیجہ ہے اسی ہدایت کو نظر انداز کر دینے کا یعنی رسول کی اطاعت سے گریز کرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کا۔  کاش وہ ان آیات کی روشنی میں اپنا احتساب کرتے !

٭٭٭

ای بک: اعجاز عبید

ٹائپنگ: عبد الحمید، افضال احمد، مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین، فیصل محمود، اعجاز عبید