خدا کے سائے میں آنکھ مچولی
رحمن عباس
"If you had died young , I would have asked you to get life. But you lived long. So I shall ask you to come again the way you came before”
Things Fall Apart- Chinua Achebe
٭
مؤذن نے تکبیر پڑھی اور لوگ جمعہ کی نماز کے لئے صف میں کھڑے ہو گئے۔ عبد السلام کالشیکر بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کے سر پر ٹوپی نہیں تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ امام نے سورۂفاتحہ شروع کی تو اس کے کان میں کھجلی ہوئی۔ اس نے کان کھجایا۔ کان کھجاتے ہی اسے یاد آیا کئی دنوں سے وہ کان صاف کرنے کے بڈس خریدنا بھول رہا ہے۔ اس نے خود سے کہا آج وہ ضرور خریدے گا۔ اسی دوران اس کی نظر مسجد کی دیوار پر لگی گھڑی پر گئی جس میں ایک بج کر پینتیس منٹ ہو رہے تھے۔ اس نے فوراً اپنی کلائی پر بندھی گھڑی میں وقت دیکھا جس میں ایک بج کر پینتالیس منٹ ہو رہے تھے۔ وقت کی یہ تفاوت اس پر گراں گزری۔ اس نے سوچا مسجد کی گھڑیاں اکثر پیچھے کیوں رہتی ہیں۔ اس خیال پر وہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہتا تھا لیکن عین اسی وقت ایک موٹی سرخ چینوٹی نے اس کے انگوٹھے پر رینگنا شروع کیا۔ اس نے ہلکے سے چار پانچ بار پیر جھٹکا تا کہ چینوٹی گر جائے۔ چینوٹی رینگتے ہوئے اس کی ایڑی تک پہنچ گئی۔ ابھی وہ اس آفت پر قابو پانے میں کامیاب ہوتا کہ اس سے لگ کر جو نمازی کھڑا تھا اس نے آنکھیں ترچھی کر کے ایک نظر اس کو گھور کر دیکھا۔ ان دونوں کی آنکھیں ملیں تو اس نے آنکھوں کے اشارے سے عبدالسلام کو احساس دلایا کہ اس کا دھیان امام صاحب کی طرف ہونا چاہیے۔ تذبذب میں اس نے گردن جھکائی۔ دوبارہ چینوٹی پر اس کی نظریں مرکوز ہوئیں، جس نے اسے عجیب الجھن میں ڈال دیا تھا۔ بالآخر اس نے دھیرے سے اپنا ایک پیر اٹھا کر دوسرے پیر سے رگڑا اور اس ابلیسی چینوٹی سے نجات پائی۔
سورۂ فاتحہ ختم ہوئی اور آمین کا شور بلند ہوا۔ اس نے بھی بہ آوازِ بلند آمین کہا۔ جوں ہی اس کی زبان سے آمین ادا ہوا ایک دبیز مسکراہت اس کی چہرے پر پھیلی۔ ۔ ۔ در اصل اسے امینہ یاد آ گئی تھی۔ طالبِ علمی کے زمانے میں وہ کالج کے عقبی حصے کی جھاڑ یوں میں اسے یہ کہہ کر لے جا یا کرتا تھا کہ پیار کی باتیں ایسی جگہ بیٹھ کر کرنا چاہیے، جہاں فطرت کے علاوہ ان کی گفتگو کوئی اور نہ سن سکے۔ امینہ گیارھویں جماعت میں اس کی کلاسمیٹ تھی۔ امینہ کی یاد کے ساتھ اس کا سراپا اس کی نگاہوں میں روشن ہو گیا جس میں گداز، کیف اور شرارے ہم آہنگ تھے۔ پھر نماز کب، کس طرح ختم ہوئی، اسے کچھ خبر نہ رہی۔ بس امینہ کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کے لذّت بھرے ذائقے اسے یاد آتے رہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد امام صاحب نے دعا شروع کی۔ جس میں بار بار مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کی اللہ سے استدعا تھی۔ جانے کیوں اس وقت اسے ہنسی آ گئی جسے وہ کسی طرح روک نہ سکا۔ اس کے چہرے سے یوں بھی عیاں تھا کہ وہ دعا مانگنے میں امام کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ اس کی نظریں امام پر مرکوز تھیں۔ اچانک اسے بچپن کے دنوں کے وہ امام صاحب یاد آ گئے جو اکثر مکتب ختم ہونے کے بعد اس کے دوست نظیر عمر شیخ کو پیر دبوانے کے لئے مسجدمیں روک لیتے تھے۔ امام صاحب بنگالی تھے اور عموماً لنگی پہنے رہتے تھے۔ نظیر عمر شیخ پیر دباتے دباتے، امام صاحب کی چھڑی کے ڈر سے، ان کی لنگی میں چھپنے لگا۔ پھر کئی برسوں تک امام صاحب کے پان جس میں ’ ایک سو بیس‘ تمباکو کی تیز بو شامل ہوتی تھی، نظیر کی چھاتی سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی رہی۔ مکتب میں پڑھنے والے کچھ دوستوں نے عبدالسلام کو یہ بھی بتایا تھا کہ نظیر عمر شیخ کے بدن سے امام صاحب کے سر میں لگائے جانے والے زیتون کے تیل کی مہک بھی آتی ہے۔ ایک دوست نے راز دارانہ انداز میں اس کو بتایا تھا کہ ایک دن اس نے نظیر کے کان میں کچھ کہنا چاہا تو اس کے کان سے عطر جنت الفردوس کی خوشبو آ رہی تھی۔ یہ وہی عطر تھا جس کا پھاہا امام صاحب اپنے بائیں کان میں لگائے رکھتے تھے۔ امام صاحب نے بچوں سے یہ بھی کہا تھا کہ عطر کا استعمال کرنا افضل ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ نظیر یسّرنا القران سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ ایک دن اس کے جی میں کیا آیا کہ اپنے کپڑے ایک تھیلی میں ٹھونس کر وہ گھر سے نکلا اور بمبئی نمبر۸ کی بھول بھولیاں میں کھو گیا۔ نظیر کا اس طرح یکایک غائب ہونا ایک معمہ تھا۔ عبدالسلام نے نظیر عمر شیخ کا ذکر اپنی نجی ڈائری میں صرف ایک بار کیا ہے۔ چند برسوں بعد نظیر کے یکایک غائب ہونے کا عقدہ اس پر کھل گیا تھا۔
یاد کے اس ٹکڑے کے ساتھ ہی عبدالسلام کے دعا کے لیے اٹھے ہاتھ اس کے چہرے پر گر گئے۔ ایک افسردگی اس کی روح میں کروٹ لینے لگی۔ وہ اٹھا اور احاطۂ مسجد سے باہر نکل گیا۔
٭٭
عبدالسلام ’ انجمن یاد گارانِ مسلمین‘ میں بطورِ انگریزی معلم بر سرِ روزگار تھا۔ جہاں مذہبی اقدار کے فروغ کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔ طالبات کے لیے اسکارف لازمی تھا۔ لڑکے کبڈی کے کھیل میں بھی ٹوپی سر سے اتارنے کی گستاخی نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اللہ ان کا ساتھ نہیں دے گا۔ عبد السلام کو اس وقت بہت حیرانی ہوتی جب دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے سروں پر سفید وسیاہ ٹوپیاں، بازوؤں پر اماموں اور پیروں کے تعویذ اور ضامن بندھے ہوتے۔ ایسے وقت وہ سوچتا : اب خدا کس کو جتائے گا؟ کیا خدا کنفیوژ ہو گا؟ پھر وہ خود کو سمجھاتا کہ خدا طاقتور کے ساتھ ہو جائے ہو گا کیوں کہ طاقت کی معنویت سے خدا سب سے زیادہ واقف ہے !
اسکول کے تدریسی اسٹاف میں دو مرد اور پندرہ خواتین تھیں۔ خواتین ٹیچریں گھر سے برقعہ اوڑھ کر آتیں اور اسکول میں اتار دیتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹاف روم میں گرمی زیادہ ہوتی ہے۔ عبدالسلام کا خیال تھا کہ ان میں سے بعض خود بھی اسٹاف روم کی گرمی کا سبب ہیں۔ مرد ٹیچروں کے لب و لہجہ میں نسائیت در آئی تھی۔ دونوں حضرات ماشا اللہ باریش تھے اس لئے جنسی تشخیص فوراً ہو جاتی تھی۔ خالی وقتوں میں وہ مذہب کے زوال کے اسباب، مسلماناں ہند کی تعلیمی پسماندگی اور فسادات میں پولس کی جانب داری ایسے موضوعات پر خواتین ٹیچروں سے ہم کلام رہتے۔ خواتین ٹیچریں سلائی بنائی میں مصروف یا پھر وڑا سموسا کھاتے یا بیاضیں چیک کرتے ہوئے ان کی باتوں کو بہ غور سنتیں۔ سب کو عبدالسلام سے شکایت تھی کہ وہ ان سنجیدہ اور گراں قدر موضوعات پر ہونے والی بات چیت میں حصّہ نہیں لیتا۔ وہ اخبار یا کسی کتاب میں ڈوبا رہتا یا مسکراتا رہتا۔ لیڈیز ٹیچر یں اس بات پر متفق تھیں کہ انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اردو میڈیم طلبہ کے مقابلے، لکھنے پڑھنے کی مہارت جلدی حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی بناء پر انھوں نے اپنے بچوں کو انگریزی اسکول میں تعلیم دلوانا مناسب سمجھا تھا۔ یہ واحد یکسانیت ان خواتین میں تھی ورنہ دوسرے تمام موضوعات پر ان میں اختلاف پایا جاتا تھا۔
وقت کی کمی، کام کا بوجھ، تنخواہ سے روپے بچانے کے ایسے طریقے جس پرساس اور نندیں معترض نہ ہوں، ، شوہر سے اپنی فرمائشوں کی تکمیل کے نسخے، کنڈوم جائز ہے یا حرام ؟ انگریزوں اور یہودیوں کی بنائی ہوئی ربڑ جیسی اس شئے سے مزہ کم ہوتا یا زیادہ اور اس کی ایجاد کے پس پردہ کوئی صیہونی سازش تو نہیں ہے ؟وغیرہ ایسے موضوعات تھے جن پر اکیلے میں وہ خوب بحث کرتیں اور حسب عادت کبھی ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتیں۔ جن کے شادی کے بعد معاشقے چل رہے تھے، وہ راز داری میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتیں کہ انھیں اپنے عاشق پر کتنا خرچ کرنا چاہیے ؟کن ہوٹلوں میں سستا کمرے ملتے ہیں ؟ کون سے ہوٹل شہر سے دور ہیں ؟اورگیزم میں کس کو مزہ زیادہ آیا ہے ؟ ساتھ ہی ساتھ شبِ قدر اور شب معراج میں کتنی نفل تو نے پڑھی اور میں نے کتنے روزے رکھے ان کے عام موضوعات تھے۔
عبدالسلام اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ لیڈیز ٹیچریں زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اور انبساط کشید کرنے کے عمل سے گزر ر ہی ہیں جبکہ مرد ٹیچرز انفرادی شخصیت کو تحلیل کر کے، فراموش کر کے، سب کی طرح بن جانے کے عمل میں گرفتار ہو کر رفتہ رفتہ بے شخص اور بے ضر ر آدمی میں بدل رہے ہیں۔ وہ اس بات پر حیراں ہوتا کہ ان کے ملبوسات بھی ایسے ہوتے کہ کہیں سے انفرادیت کا عنصر نہ جھلک پائے۔ ’’ سماج اور معاشرے کے مطابق رہنے کے عمل نے بیشتر مرد ٹیچروں کو گانڈو آدمی بنا دیا ہے۔ ‘‘ یہ عبارت اپنی نوٹ بک میں اس نے تحریر کی، پھر کچھ دیر اس پر غور کیا اور گانڈو لفظ کو کاٹ د یا۔ اس کے جگہ ’غیر آدمی‘ لکھا۔ اس نے اس لفظ کو اس لیے کاٹا تھا کہ نوٹ بک اسٹاف روم میں رکھی رہتی تھی اور اسے خدشہ تھا کہ اگر کوئی ٹیچر ورق گردانی کرے گا تو خواہ مخواہ برا دل برداشتہ ہو جائے گا۔ عبدالسلام کا خیال تھا کہ ٹیچر ایک ایسا جانور ہے جس کی اپنی نہ کوئی شناخت ہے، نہ ذات۔ وہ ہمیشہ سب کے جیسا، سارے مذہبی تہوار منانے والا، سرکاری اجلاس میں جامدو ساکت بیٹھنے والا، دوسروں کے فارم بھرنے والا، اور الیکشن یا مردم شماری میں کلرکوں کے کام آنے والا انسٹرومنٹ بن گیا ہے۔ ٹیچر اس کے مشاہدے میں ایک ایسی پر جاتی تھی جس کے کیمیاء میں احتجاج، غصے، اور بغاوت کا کوئی نشان نہیں تھا۔
٭٭
عبدالسلام کی تعلیم و تربیت بمبئی میں ہوئی۔ وہ ایک متوسط طبقے اور روایتی طور پر خود کو مذہبی تصور کرنے والے گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے باوجود مذہب کے معاملات میں اس کے خیالات کو پوری طرح سمجھنا دشوار ہے۔ کبھی وہ مذہب کے متعلق حد درجہ سنجیدہ نظر آتا اور کبھی ایسا لگتا مذہب اسے ایک لبادہ نظر آتا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ باطن کی نمائش کے حق میں نہیں تھا۔ لیکن اس کے جن خیالات سے اس کے قریبی دوست واقف تھے۔ ان میں یہ باتیں شامل تھیں کہ اس کا خیال تھا کہ وہ جس عہد میں جی رہا ہے، اس میں مذہب ذات کے اسفل ترین چہرے کو چھپانے کا ایک وسیلہ ہے۔ نمائش پسند لوگوں کا ہتھیار ہے۔ مذہب افراد کے اچھے برے ہونے کا پیمانہ نہیں ہے۔ بے عقل اور غیر منطقی فکر کے حامل افراد مذہب کی جمالیات کو سمجھ نہیں سکتے۔ وہ لوگ جو جنس اور حسن کی معنویت سے آشنا نہ ہوں خدا سے مربوط نہیں ہو سکتے ؟
٭٭
دوسری جانب یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ معمولی سی بیماری بھی اس پر سایہ کرتی تو وہ مسجد کا رخ کرتا اور اللہ سے دعا کرتا:’ یا اللہ ترے بارے میں غلط غلط سوچتارہا۔ ۔ کیا تو اس کی سزا دے رہا ہے ؟ میں جو کچھ سوچتا ہوں وہ میرا دماغ سوچتا ہے۔ میں کیا کروں ؟ دماغ کی ساخت تو نے بنائی ہے۔ تری مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا پھر دماغ کیا کر سکتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں تیرے خلاف سوچنے پر۔ ۔ ۔ (وہ غور کرنے والے انداز میں سوچتا) تو ہی مجھے اکساتا ہے۔ ؟ جیسے تو نے ابلیس کو ترے خلاف محاذ کھلنے کی توفیق دی تھی۔ سب تیرا گیم ہے۔ اچھا اب میں ترے بارے میں غلط نہیں سوچوں گا۔ ۔ ۔ لیکن توفیق تجھے دینا پڑے گی ۔ دعا کے بعد خوشی خوشی مسجد سے باہر نکلتا۔ دل میں فتح مندی کا احساس بیدار ہوتا تو پان کی دکان سے ماوا بنواتا۔ ’بھولا، کتری سپاری، اسٹار مار کر ‘۔
ماوا منہ میں ڈالتا اور ادھر ادھر ٹہلتا رہتا۔ ٹوپی سر سے نہیں اتارتا۔ محلّے کے لوگوں سے سلام دعا کرتا ہوا بازار میں بھٹکتا پھرتا۔ کچھ دیر بعد جب اپنی ترنگ میں لوٹ آتا تو سوچتا : میں جس کو مخاطب کر کے اتنی باتیں کر رہا تھا۔ ۔ وہ ہے بھی یا نہیں۔ ۔ یا بس میرا وہم ہے ؟ آدمی کیا کر سکتا ہے۔ ۔ ۔ مجبور جو ہے۔ ۔ کچھ توقف کے بعد سوچتا : خدا نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں۔ ۔ لیکن اگر نکالا؟۔ ۔ ۔ وہ کچھ دیر اور خدا کے وجود پر غور کرتا پھر کہتا : خیریت اسی میں ہے کہ اس کے خلاف نہ جاؤ ( پھر چاہیے جو کرو) جیسے سبھی کرتے ہیں۔ ۔ لیکن ہر بار اس موڑ پر آنے کے بعد وہ نفی میں سر ہلاتا اور خود کلامی کا اختتام اس خیال پر کرتا : اگر میں بھی سبھی کی طرح ہو گیا تو بچا کیا۔ ۔ ۔ نہیں نہیں میں نفس کے ساتھ فریب نہیں کر سکتا۔ ’میں صرف اپنی نفس کا اظہار ہوں ‘۔ (اس کی نجی ڈائری کا ذیلی عنوان یہی ہے۔ )
٭٭
عبدالسلام کے مطابق خدا سب کی ڈھال ہے اور چوری چوری چپکے چپکے سب کے ساتھ تھوڑا بہت وقت گزار لیتا ہے۔ توگڑیا، اڈوانی، اور مودودی کا خدا ہے۔ اسامہ، صدام اور ملا عمر کا خدا ہے۔ جارج بش، پوٹن، اور ٹونی بلیرکا خدا ہے۔ میڈونا، مادھوری دکشت اور کرشمہ کپور کا خدا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ آدمی سوچتا ہے جب تک دوسرے اسے احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے وہ بے آدمی ہے۔ اسی احساس کو برداشت کرنے کی صفت انسانی ذہین نے ابھی ایجاد نہیں کی ہے۔
’ ’انسان خدا سے کٹ کر خود کو دریافت کرنے کی اجتماعی کوشش کم از کم مزید ۵ ملین برسوں تک نہ کر پایے۔ یا شاید کبھی نہ کر پایے۔ مگر انسان خدا سے جڑا بھی تو نہیں رہتا۔ وہ خدا کو شلوار کی طرح پہن لیتا ہے۔ تلک کی طرح لگا لیتا ہے یا ٹوپی کی صورت اوڑھ لیتا ہے۔ یا مزار کی صورت اس کے گرد قوالیاں منعقد کرتا ہے۔ خدا کو استعمال کرتا ہے، اپنے آپ کو سماج میں مناسب مقام دلوانے کے لئے، قبولیت کے لئے۔ گویا صحرائے زندگی میں خدا ایک چادر ہے جو ہمارے سروں پر ہمیشہ رہے۔ ڈر ہے اس سایے سے باہر نکلتے ہی دھوپ کی تمازت سے ہمارے دلوں کے نرم ریشے تحلیل ہو جائیں گے۔ ‘‘
اپنے پہلے ناول ’غیر مطبوعہ‘‘ اب ’آدمی کی سوانح عمری‘ کے مسودے میں مندرجہ بالا پیراگراف اس نے لکھا تھا۔ لیکن جو ایڈیشن شائع ہوا اس میں یہ پیرا گراف نہیں ہے۔ مسودے میں ہی اس نے اس پیرا گراف کو کاٹ دیا تھا۔ اسے ڈر تھا اس کے مذہبی دوست (جو خود ادیب تھے )اس کی ان باتوں سے ناراض ہو جائیں گے۔ اس پیرا گراف کو کاٹ کر اس نے حا شے پرسرخ سیاہی سے لکھا تھا : ’’ میں تیرے بارے میں وہ باتیں بھی دوسروں کو نہیں بتا سکتا جو تو خود چاہتا ہے میں انھیں بتا دوں۔ ‘‘
٭٭
عبدالسلام کبھی خدا سے بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتا اور کبھی اس پر برانگیختہ ہوتا۔ طیش اور غصے سے کبھی اس کے فیصلوں اور غلط جماعت کے ساتھ ہونے پر تنقید کرتا۔ پھر سوچتا : ’یار جب تو ہے ہی نہیں، تو میں تجھ پر اتنے الزام کیوں لگاتا ہوں ؟ میری مت ماری گئی ہے ؟‘ پھر مسکراتا اور کہتا: ’’ سن! اب اگر ہے، تو میری سر پھری باتوں کا مجھ سے انتقام مت لینا۔ ‘ ایسے جملے وہ آ سمان کی جانب دیکھ کر دل ہی دل میں ادا کرتا۔
اس کی خود کلامی پر جب کوئی اس سے پوچھتا: ’کیا ہوا بھئی ؟‘
جواب دیتا’ ربّ باری سے فریادِ مغفرت کر رہا ہوں۔ اللہ تمہیں بھی بے حیائی اور برائی سے بچائے۔ ‘
جیسے ہی پوچھنے والا شخص گزر جاتا۔ وہ مسکراتا اور کہتا۔ ۔ ’’ اِنَّ للہ۔ ۔ ۔ راجعون۔ ‘‘
٭٭
ایک دفعہ کا واقعہ ہے جب اس کی خدا برہمی پہلی اور آخری بار اس کے ایک طالب علم پر عیاں ہو گئی۔ ہوا یوں تھاکہ اسکول کی پکنک کسی پہاڑی مقام پر گئی ہوئی تھی۔ وہاں ایک آبشار سے پانی دھاڑ دھاڑ گر رہا تھا۔ طلبہ اور اساتذہ سب موج مستی میں مگن تھے۔ عبد السلام ایک پیڑ کے سایے میں بیٹھا اپنی ایامِ جوانی کی اس پکنک کو یاد کر رہا تھا جس میں شہلا نامی ایک لڑکی کو وہ ایسے ہی کنج میں درختوں کے پیچھے لے جا کر محوِ کلام عشق تھا۔ اس شام کے پر شہوت منظر اس کے دماغ کی اسکرین پر ماضی کے کھنڈر ات سے نکل کر ابھی جلوہ گر ہونے ہی والے تھے کہ ایک طالبِ علم جو اکثر اس سے سنجیدہ موضوعات پر غیر سنجیدہ سوالات پوچھا کرتا تھا، قریب آیا اور پوچھ بیٹھا :’سر یہ آبشار میں پانی کدھر سے آتا ہے ؟ ‘
اس کی زبان سے ایک تلخ اور دلبرداشتہ کر دینے والا جملہ ادا ہوا۔ لڑکا تلملایا اور فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گیا۔ عبدالسلام کو کچھ دیر بعد اپنے رویے پر ندامت بھی ہوئی پر خدنگ جستہ اور زبان سے ادا ہوا جملہ دونوں کا حساب کسی نہ کسی دن ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں وہ بہت دیر تک اپنی سابقہ معشوقہ کو دل کی بھول بھولیاں میں ڈھونڈتا رہا مگر اس نے مراجعت نہیں کی۔ ہاں ! البتہ اس دن کے بعد سے عبدالسلام اس طالبِ علم سے نظریں چراتا رہا۔ اسے نظر انداز کرتا رہا۔ لیکن کمبخت !وہ طالب علم بھی جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا، جب کبھی جمعہ کی نماز میں اسکول کی مسجد سے عبد السلام کو باہر آتے دیکھ لیتا چشم زدن میں، کسی جن کی طرح اس کے سامنے وارد ہوتا اور کہتا: ’’ سر۔ ۔ سلام۔ ۔ وعلیکم۔ ۔ ‘‘کبھی کبھی رحمت اللہ بھی جوڑ دیتا۔ عبدالسلام کو ایسا لگتا یہ سلام اس لڑکے کے منہ سے نہیں بلکہ انتقاماً اسی مقام سے آ رہا ہے جہاں سے آبشار آتا ہے۔
٭٭
جہاں تک میں نے معلومات اکٹھا کی ہے اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ باگ عبدالسلام کو پسند کیا کرتے تھے۔ وہ خاصا انسان دوست شخص تھا۔ آشفتہ حال صرف اس وقت ہوتا جب کسی انتہائی کم درجہ آدمی کی مبالغہ آمیز تعریف اس کے سامنے کی جاتی۔ کسی تعلیمی جلسے میں ایک محترمہ کے منہ سے دوران تقریر ادا ہوا ’ سابق صدر جناب عبدالکلام جتنے عظیم سائنسداں ہیں اتنے ہی با کمال شاعر بھی ہیں۔ ‘ عبد السلام سے رہا نہیں گیا۔ وہ سٹیج پر گیا۔ اس نے خاتون سے مخاطب ہو کر کہا ’بڑی بی! عبد الکلام کی انگریزی شاعری ایسی ہی ہے جیسی اردو میں تابڑاہیم چاشک کی۔ مجمع قہقہہ بردار ہو گیا حتیٰ کہ وہ محترمہ بھی ہنس پڑیں۔ (تابڑاہیم چاشک کی وفات چند روز قبل ہی ہوئی تھی۔ وہ بمبئی کے ایک مقامی تاجر تھے جن کو شاعری کا بھی چسکا تھا۔ حالانکہ وہ انتہائی کمزور شاعر تھے لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ وہ عہد حاضر کے غالب ہیں۔ ) اسی واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ عبد السلام کے حوالے سے ممبئی شہر کے علمی حلقوں میں مشہور تھا۔ اس کے ایک استاد افسانہ نگار ایک رسالے کے مدیر بھی تھے۔ عبدالسلام کو اپنے استاد کی افسانہ نگاری شاید نا پسند تھی۔ بہت ہی خاص دوستوں میں سے کسی نے اس سے پوچھا کہ ’ استاد کی افسانہ نگاری کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘ بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا : ’’ چھوتیا افسانہ نگار ہے۔ ‘‘ ہفتے پندرہ دن میں بات عبدالسلام کے استاد تک پہنچ گئی۔ ایک ادبی جلسے میں استاد کے سامنے وہ حاضر تھا۔ کسی سے کہہ رہا تھا کہ ان سے ملئے یہ میرے استاد ہیں۔ استاد کو غصہّ آ گیا اور اونچی آواز میں بولے، ’’منہ پر استاد کہتے ہو اور پیچھے چھوتیا۔ خود استاد ہو گئے ہو کچھ تو شرم کرو۔ ‘‘
چند افسانہ نگار اور شاعر ارد گرد جمع ہو گئے۔ عبدالسلام نے استاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: ’’سر! میں آپ کو چھوتیا کیسے کہہ سکتا ہوں۔ کیا آپ چھوتیا ہیں ؟‘‘ اس پر مجمع ہنس دیا۔ استاد کچھ سمجھے نہ سمجھے، مسکراتے ہوئے ایک طرف ہو گئے۔ عبدالسلام نے زیرِ لب کہا:’ سچ مچ کس قدر چھوتیا آدمی ہے۔ ۲۰۰۳ء تک لفظ ’’چھوتیا‘‘ ممبئی میں کم فہم آدمی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس واقعے کے بعد لوگ شرارتاً عبدالسلام کے استاد کا نام اس لفظ کی جگہ استعمال کرنے لگ گئے۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں عبدالسلام کو اس واقعے پر افسوس ہوتا رہا۔
٭٭
رمضان کا مہینہ اس کے لیے رحمتوں بھرا نہیں بلکہ اذیتوں بھرا ہوتا۔ روزہ نہیں رکھتا تھا لیکن پورا دن روزہ داروں کی سی حالت بنائے رہتا۔ دل میں افسوس کرتا کہ کاش میں انھیں بتا دیتا کہ میں بھوکا ہوں روزہ دار نہیں ہوں۔ گھر پر رہتا تو دن بھر کھاتے پیتے رہتا اور مغرب کی اذان سے ذرا پہلے دستر خوان پر بیٹھ جاتا۔ والدہ کے ساتھ دعا پڑھ کر روزہ کھولتا اور بھائیوں کے ساتھ بلڈنگ سے نیچے اترتا۔ اس کے بھائی مسجد کی طرف جاتے، یہ پان والے کی دکان پر پہنچ جاتا۔ ’’ ایک بھولا، کچی سپاری، اسٹار مار کر۔ ‘‘
دکان والا پوچھتا ’سر روجے کیسے جا رہے ہیں ؟
تو جواب میں کہتا۔ ’’اس سال تو معلوم ہی نہیں پڑ رہے ہیں۔ ‘‘
پان منہ میں ڈال کر دل میں کہتا :کس سالے کو معلوم نہیں پڑ رہے ہیں ؟پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچتا، اس مہینے اگر شیطان کو تو قید کرتا ہے تو پھر مجھے گمراہ کون کر رہا ہے ؟شاید تو ہی نہیں چاہتا کہ میں روزے رکھوں۔ اگر تیری یہی مرضی ہے، تو مجھے روزے رکھنے کی توفیق کیوں کر نصیب ہو؟ویسے رکھ بھی لیتا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ اسکول میں اتنے گھنٹے تو یوں بھی بھوکا رہتا ہوں۔ کچھ دیر بعد اپنی ہی بات کا کاٹتے ہوئے کہتا :کیا پاگل پن ہے۔ بھوکا رہنے سے تو خوش ہو جاتا ؟ تو اتنا بے وقوف نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتا تو نا؟ہاں مگر بھوکا رہنے سے میرا ہاضمہ ٹھیک ہو جائے گا۔ کئی فائدے ہیں روزہ رکھنے میں۔ ۔ نکسٹ ٹائم رکھوں گا۔ تری خاطر نہیں بلکہ اپنے ہاضمے کی خاطر۔ مگر وہ دن کبھی نہ آیا۔ پچاسویں سالگرہ کے دوسرے روز اسے متواتر پیچش ہوئے، تب ڈاکٹر سے کہا :’ سب جانتا ہوں، ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ؟ کاش سالے روزے رکھ لیتا۔ ‘ پھر آسمان کی جانب دیکھ کر ملتجیانہ لہجے میں کہا :’ اتنے نحیف آدمی سے اتنا شدید انتقام۔ ‘
٭٭٭
٭
’ ہندوستانی سماج میں خواتین ٹیچروں کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو ذہنی، معاشی اور جنسی عدم اطمینانی کا شکار ہے۔ جن کا درد کوئی نہیں سمجھتا۔ ‘
عبدالسلام کا اس جملے کو بار بار دہرانا اس کے تجربے کا حصہ تھا۔
اس کا یقین تھا کہ اپنی عدم تشفی کو دبانے کی خاطر بالعموم خواتین ٹیچریں، پنج سورہ، مسنون دعائیں، برقعے اور بات بات پر احادیث کا استعمال کرتی ہیں۔ اسکول میں جو چہرہ وہ پیش کرتی ہیں وہ ان کی ذات کی ضد ہوا کرتا ہے۔ مذہب کا زیادہ سہارا ذات کے گہرے انتشار اور آشفتگی کا اظہار ہے۔ عبدالسلام جب کسی برقعہ پوش ٹیچر سے بات چیت کرتا تو اکثر حبس بے جا میں محزون دل اور آب بستہ بدن کی فغاں کا اسے احساس ہوتا۔ اس نے ایک جگہ لکھا ہے :’کئی بار محزون دل عورتوں کے بدن سے اٹھنے والی بو میں نے محسوس ہے۔ ‘جس کا سبب اسے یہ لگتا تھا کہ حزنیہ کیفیت کی وجہ سے ان عورتوں کے بدن پر داغ نکل آتے ہیں جو ایک عرصے بعد پیپ بن کر رسنے لگتے ہیں جس کی سرانڈ کو سب محسوس نہیں کر سکتے۔ بعض اوقات یہ خواتین خود اس بو کے اصل سبب کو سمجھ نہیں پاتیں۔
کئی دفعہ اسے یوں بھی لگا کہ اسکول اسٹاف روم سے متصل کمرے میں جو بعض خواتین ٹیچریں نماز کے لیے جاتی ہیں ان میں ایسی بھی ہیں جو در حقیقت رونے کے لیے جائے سکون کی متلاشی ہیں۔ اپنے ذہن اور بدن کے اسرا ران پر کھل گئے ہیں۔ ان کی تکمیل کے راستے مسدود پا کروہ ہیجان کی شکار ہیں۔ اسی لیے خدا کی گود میں سر رکھ کروہ اپنی نسوانی ارتکازیت کو بھولنا چاہتی ہیں۔ ان میں خدا جن کو اپنی گرفت میں لینے سے انکار کر دیتا ہے وہ لا محالہ کسی کلرک، کسی ٹیچر یا کسی پڑوسی کے آدھے ادھورے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے ہفتے پندرہ دن سے ہو آتی ہیں۔ فائلوں پر نمبر شمار لکھنا، مضمون نویسی میں مدد کرنا، پرچے پر دیئے گئے نمبروں کو re-checkکرنا ایسے کاموں میں ان کا تعاون، در اصل ان کی شخصیت کی کال کوٹھری میں نہاں، اداس اور نہ بیان کی گئی کہانی کے سب سے زیادہ اذیّت ناک حصّے کا اظہار ہے۔
عبدالسلام پر یہ اسرار منکشف ہو گیا تھا۔ اسی سبب انہماک سے کام کرتی ہوئی ٹیچروں کو دیکھ کر اسے عجیب احساس زیاں گھیر لیتا۔ وہ جانتا ہے : ’’کام: وقت اور ذات کو قتل کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ ‘‘ اور یہ محروم ٹیچریں اسے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ مردہ زندہ ابدان ہیں۔ عبد السلام کو ان سے ہمدردی بھی تھی اور یہی ہمدردانہ روّیہ ایک روز اسے اپنی سب سے سنیئر موسٹ ٹیچر کے گھر لے گیا۔ جس کی شادی کو دس بارہ سال بیت چکے تھے۔ اس کا شوہر سعودی عرب میں ملازم تھا۔ دو بچّے تھے، اور دونوں اسی شوہر سے تھے۔ عبدالسلام نے اس کے ساتھ ٹی وی پر کوئی فلم دیکھی۔ پھر اسٹاف کی باتیں ہوئیں۔ پھر چائے، پھر لطیفے، کبھی کبھار خدائے رحیم و کریم کے اوصاف پر صوفیانہ انداز میں گفتگو ہوتی۔ عبدالسلام کا اس کے گھر آنا جانا بڑھتا گیا تو وہ بھی ساڑی سے شلوار قمیص اور پھر میکسی پر اتر آئی۔ چند مہینوں بعد جب عبدالسلام کی سانسیں دوبارہ اپنے ردھم میں لوٹنا شروع ہوئیں تو میکسی بھی ٹی۔ وی کی طرح ایک کونے سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ عبدالسلام حیران نہ تھا۔ سنیئر موسٹ پریشان نہ تھی۔ انھیں ابتدا سے اس انجام کا احساس اور انتظار تھا۔ البتہ درمیان میں جو اتنے ہفتے یوں ہی اجنبیت کی دیوار پاٹنے میں گذر گئے انھیں صرف اس کا ملال تھا۔
عبدالسلام کے تعلقات اس کے ساتھ ۲۶ برسوں تک رہے۔
اس کے شوہر کی واپسی اور بچوں کے جوان ہونے کے بعد بھی دوستی کی چھانو میں محبت کا یہ تماشا جاری رہا اور اس روز ختم ہوا جب سنیئر موسٹ کے سرخ دنوں کے بجائے گاڑھے سفید سیال نے اختیار کیا۔ سفید سیال دنوں کے آغاز کے چوتھے مہینے سینئر موسٹ نے حج کے لئے فارم بھر دیا۔ عبدالسلام اس دن خوب ہنستا رہا۔ حالانکہ اسے خود یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کس بات پر اس قدر ہنس رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے اسے اس بات کا سبب پتہ ہو لیکن اس نے اپنی کسی ڈائری میں اس کا اظہار کرنے کو مناسب نہیں سمجھا۔ جب وہ آخری بار اس سے ملنے آئی، تب اس لمحے کی سردمہری میں عبدالسلام کی زبان سے ایک سرد جملہ ادا ہوا : ’’ خدا تمہارے گناہ بھی میرے نام ٹرانسفر کر دے۔ میرا خدا تعلقات کی نوعیّت کو سمجھتا ہے۔ وہ عدم ہے۔ ‘‘
حج سے واپسی کے نو سال بعد اور عبدالسلام کی موت سے پندرہ سال پہلے سینئر موسٹ کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا۔ غم گساروں میں وہ بھی شریک رہا۔ نعش دوسرے کمرے میں رکھی ہوئی تھی۔ جہاں عورتیں نم آنکھوں سے اس کا آخری دیدار کر رہی تھیں۔ لیکن سلام کو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ نعش کے قریب کھڑا ہے اور سنیئر موسٹ کے زرد گلابی چہرے کو دیکھ رہا ہے۔
میت اس سے کہتی تھی :’دیکھو! اس بدن کے کتنے گہرے راز تمہارے دل میں دفن ہیں ؟ میرا دل تمہاری یادوں سے بھرا ہوا تھا جسے ایک دن، باعثِ ضعف پھٹنا پڑا۔ ‘
ٍ عبدالسلام کی آنکھوں میں بھنور بنے جن میں آنسو نہیں، بلکہ کچھ ریت تھی۔
وہ وہاں سے نکل گیا۔
محمد علی روڈ سے گزرتے ہوئے پان کی دکان پر وہ رک گیا۔
’ارے یار۔ ۔ ۔ ایک بھولا، کتری سپاری، اسٹار مار کر دینا۔ ‘
اس کے لہجے میں افسردگی تھی اور اس کے گلے میں گویا ریت کے بھنور بن رہے تھے۔
٭٭
عبدالسلام کی دیرینہ خواہش تھی کے انتقال سے پہلے وہ اپنی ’’ داستانِ عشق‘‘ مکمل کر لے جس کی تین جلدوں کے مسودے وہ لکھ چکا تھا لیکن جب تک ساتوں جلدیں جو اس کے دل میں محفوظ تھیں، زیب قرطاس نہ ہوں وہ ان کو شائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی دو وجوہ وہ بیان کرتا تھا۔ پہلی: اس کے قارئین کو پھر جانے کتنے برسوں تک دوسری جلد کے انتظار میں خوامخواہ بے قراری اور اضطراب سے گزرنا پڑے گا۔ دوسری: وہ محبوبائیں جو اب تک قید حیات ہیں چوں کہ ان کا ذکر مطبوعہ جلدوں میں نہیں ہو گا ان کی ناراضی اسے برداشت کرنا پڑے گی۔ چوں کہ آدمی ایمان دار تھا اس لیے استعجال میں اپنی کسی محبوبہ کے ساتھ نا انصافی کرنے کا گناہ گار نہیں بننا چاہتا تھا۔
’’داستان عشق‘‘ تحریر کرنے کا ارادہ اس نے طالب علمی کے دنوں میں کیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی معشوقہ شہلا نے اسے یہ مشورہ دیا تھا۔ ایک روز شہلا نے اس سے کہا : ’’تم جو اس والہانہ دیوانگی کے ساتھ مجھے کالج کے عقب کی جھاڑیوں میں پرندوں کے گھونسلے بتانے کے بہانے پیار کرنے لاتے ہو۔ کیا اس دیوانگی کو دنیا پر آشکار نہیں کرو گے۔ کیا ہمارا یہ پاگل پن مشہور ہو کر تاریخ میں زندہ نہیں رہ سکتا؟‘‘تب فرطِ محبت میں اس نے شہلا کی لپ اسٹک کو جیب سے رو مال نکال کر صاف کر تے ہوئے کہا تھا۔ ’ہماری محبت عہد حاضر کی سب سے یادگار روداد ہو گی۔ جسے میں خود تحریر کروں گا۔ ‘ جملہ ادا کرنے کے بعد اس نے رو مال پر لپ اسٹک کی سرخی دیکھنے کے لئے آنکھیں مرکوز کیں تو وہ حیران و ششدر رہ گیا۔ غلطی سے رو مال کی بجائے عجلت میں وہ جیب میں والد کی سفید ٹوپی ٹھونس آیا تھا۔ اب اس ٹوپی کو دوبارہ گھر لے جانا مناسب نہیں ہوتا۔ اس نے سوچا:کیوں نہ محبت کی نشانی کے طور پر ٹوپی کو وہیں جھاڑیوں کے سپر کر دے۔
چند روز تک یہ محبت اپنے شباب پر رہی۔ پھر شہلا کے دماغ میں یہ بات آئی کہ ’’محبت میں بچھڑنا ضروری ہے ورنہ اسے تاریخی اہمیت حاصل نہیں ہو گی۔ ‘‘ شاید اس خیال کے اختراع کے نشے میں چور ہو کر وہ ترکِ محبت پر آمادہ ہو گئی۔ شہلا کی بے وفائی نے اس کے دل کو مفلس کا چرغ بنا دیا تھا جس کے سبب چند روز تک اسے بے قرار، مضطرب اور کینٹین میں چائے پر چائے پیتے اور میر ؔ کے اشعار سنتے سناتے دیکھا گیا۔ پھر ایک دوسری لڑکی سے دوستی پر یہ دکھ رفتہ رفتہ مندمل ہو گیا۔ مگر اس محبت نے اسے جو سب سے اہم سبق سکھایا وہ یہ تھا کہ محبت کے واقعات کو ہر شب سونے سے قبل ایک ڈائری میں تحریر کر لینا چاہیے تاکہ کثرت کی وجہ سے وہ کہیں انھیں بھول نہ جائے۔ اس طرح ہر معشوقہ کی محبت کی علاحدہ روداد کے لئے الگ ڈائری بنائی جائے تاکہ واقعات آپس میں گڈ مڈ نہ ہوں اور اگر ناموں میں یکسانیت ہو تو آخری ایّامِ زندگی میں وہ انھیں ایک ہی سمجھنے کی حماقت نہ کر بیٹھے۔
آگے چل کر وہ باقاعدگی سے واقعات محبت کو تحریر کرنے لگا۔ ان ڈائریوں کو وہ ایک خاص الماری میں رکھتا تھاجس کو اس نے اپنے دل میں ’آخری شب کے ہم سفر‘ نام دیا تھا۔ جب تک وہ والدین کے ساتھ رہا، الماری کی چابی اس نے ہمیشہ اپنے پاس رکھی۔ زندگی کے سفر میں کل ملا کر ۵۳ چھوٹی چھوٹی ڈائریاں اس کی الماری میں جمع ہو گئیں۔ جن میں بے شمار واقعات، حاشیہ جات، تواریخ، تحفوں اور شکایتوں کے اندراجات کے علاوہ محبت کے جذبے اور تجربے پر اس کے اپنے خیالات محفوظ ہیں۔ ان ڈائریوں کی اساس پر ہی’داستان عشق ‘کے تین مسودے اس نے تحریر کیے تھے۔ جن میں صرف ۲۶ ڈائریوں کا مواد سمایا تھا۔ ’داستان عشق ‘ کی باقی چار جلدوں میں وہ باقی ماندہ ڈائریوں کی محبتوں کے احوال کو استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کی کمی اور مزاج کی بے راہ روی کی بنا پر مکمل نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ رٹائر منٹ کے بعد وہ یہ کام دل لگا کر کر پائے گا۔ ساتوں جلدوں کی اشاعت پر جو اخراجات ہوں گے وہ پرویڈنٹ فنڈ سے حاصل ہونے والی رقم سے ادا کرے گا۔
۵۳ ڈائریوں میں بعض کنواری لڑکیاں، چند معزز افراد کی بیویاں، چار بمبئی کی اسکول ٹیچریں،ا یک کچی کلی، تین مطا لقہ خواتین، دو گجراتی لڑکیاں، ایک ملیالم لڑکی، ایک تمل، اور چار مراٹھی عورتوں کے علاوہ، تین دوستوں کی بیویاں شامل تھیں جنھیں وہ الگ نام دے دیا کرتا تھا تاکہ دوستی پر خواہ مخواہ آنچ نہ آئے۔ ساری محبتوں کا ذکر اس نے انتہائی عرق ریزی سے کیا تھا۔ مگر ایک محبت کا ذکر وہ چاہ کر بھی نہیں کر سکا۔ وہ لڑکی جو اس کی زندگی کے بڑے عرصے پر سایہ کئے رہی۔ ساری جاری محبتوں کے درمیان وہ یاد کا مینار بن کر اس کے دل کی تاریک گلیوں میں وقفے وقفے سے مراجعت کیا کرتی تھی۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ وہ لڑکی عبدالسلام کے دل کے ایک حصے میں مقیم تھی لیکن وہ خود اس حصے کو فراموش کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس کے نام کی ڈائری وہ کبھی نہیں لکھ سکا۔ ہر بار چند سطریں لکھ کر وہ اداس اور مغموم ہو جاتاجس کے سبب کئی دنوں تک ذہنی طور پر وہ بے کنار اور گم سم رہتا۔ درد کی اس لہر کا مداوا اور محبت کے اس الہام کی توضیح و تفہیم کا پروانہ اس کے پاس نہیں تھا۔ یہ وہ واحد محبت تھی جو نا قابلِ تحریر تھی۔ ناگہانی موت سے چند روز قبل اس نے اپنی زندگی کا احتساب اور اپنی معشوقاؤں کی فہرست پر نظر ڈالی تھی تب اسے پختہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ واحد لڑکی ہے جس کی کہانی تو وہ لکھ نہیں سکا لیکن اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ وہ محبت میں جسم و جاں کے مکمل ارتکاز کے ساتھ شریک بھی نہیں تھا۔ تب اسے عرفان ہوا، ’ الفاظ: جذبات کی شدت کے مدِ مقابل بہت ادنی اور کم احاطہ ہیں۔ اس لیے حقیقی محبت کی واردات نا قابل تحریر ہے۔ ‘ یہ جملہ اس نے اپنی ایک پسندیدہ کتاب کے ابتدائی صفحے پر لکھا تھا۔ اس کتاب کا عنوان تھا ’داغ عشق تنہا رہ گیا‘۔ غالباً یہ جملہ اس نے اپنی موت کے چند ماہ پہلے لکھا ہو گا۔ یہ بات اس کتاب کی تاریخِ اشاعت کو مد نظر رکھ کہی جا رہی ہے۔
٭٭
میں عبدالسلام کی زندگی پر ایک ضخیم ناول لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہا ہوں۔ جس کی اساس پر اس کے کردار اور شخصیت کو فکشن کا روپ دینے کی کوشش کروں گا۔ ۔ شاید میں بھی مذکورہ محبت کو بیان کرنے سے قاصر رہوں۔ تجربے کی حقیقت کے بغیر جو کچھ تحریر ہو گا وہ خیالی ہو گا اور محبت غیر خیالی ٹھوس حقیقت ہے۔ یہ ہماری انسانی مجبوری ہے کہ ہم اپنی ٹھوس حقیقی محبت کے علاوہ باقی تمام واقعات لکھ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں، میں اتنا تو آپ کو بتا سکتا ہوں کہ عبدالسلام کا ماننا تھا کہ اگر وہ اپنی معشوقاؤں کی ڈائرز نہیں لکھتا تو ممکن ہے کئی کو بھول جاتا لیکن یہ واحد محبت تھی جسے نہ لکھنے کی وجہ سے وہ زیادہ شدید طور پر یاد رکھنے میں کامیاب تھا۔
٭٭٭
٭
عبدالسلام کو ہندوستانی فلمیں پسند نہیں تھیں۔ البتہ چند ہیروئنز کا ذکر وہ اکثر کیا کرتا۔ اسے ان کے نشیلے ابدان، ان کی انگڑائیاں اور محبت کے منظروں میں ان کی آوازیں، ( جو اشتہا انگیز ہوتی ہیں )اس کی دلچسپی کا مرکز تھیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں وہ کہتا :’ عورتیں عموماً محبت کے لمحوں میں مردہ پڑی رہتی ہیں۔ ‘یہ مردانہ معاشرے کے نفسیاتی جبر کی انتہا ہے۔ جہاں عورتیں اپنے لذت آشنا لمحوں میں بھی بے حس، بے جان، بلکہ ایک لاش میں بدل کر رہ جائیں۔ وہ کہتا:’ افسوس! فلم کی ہیروئنز کو دیکھ کر بھی عورتیں کچھ سیکھ نہیں پاتیں۔ جس کا مطلب ہے اجتماعی فراموشی کی برف ان کے دماغ کے خلیوں میں نا قابل پیمائش حد تک سرایت کر چکی ہے۔ ‘ ایک بار جب اس موضوع پر بات ہو رہی تھی اور کسی نے اس سے پوچھا کہ جو آپ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے تو پھر یہ بات بھی تو صحیح ہے کہ فلم کی ہیروئنز بھی تو عورتیں ہیں پھر ان کو کیسے یاد رہتا ہے کہ محبت کے لمحوں میں روح کا نغمہ کیسا ہوتا ہے۔ پوری بات سننے کے بعد اس نے کہا تھا کہ مرد کی یادداشت میں یہ بات محفوظ ہے کہ عورت کی آواز یں اس پر کیا اثر مرتب کرتی ہیں اور یہ مناظر اسی یادداشت کا غیر شعوری اظہار ہے۔ مرد بنیادی طور پر ایسی عورت سے ہم آغوش ہونے کا متمنی ہوتا ہے جس کی روح کے نغمات بھی وہ سن سکے لیکن عورت مرد کے معاشرے سے اس قدر خائف رہی ہے کہ اس کے اندر کی موسیقی، مرد کی یادوں میں اس کے بدن سے منور ہو جاتی ہے لیکن مرد کی موجودگی میں اسیر ذات ہو جاتی ہے۔ کچھ دوستوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ جن تین دوستوں نے یک آواز ہو کر کہا تھا کہ ’تری بات میں دم ہے۔ ‘ ان کی طرف دیکھ کر اس نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا تھا تم لوگوں کی بیویاں ہیروئنز ہیں کیا؟ان تینوں کے علاوہ سارے دوست اس ریمارک پر بہت دیر تک ہنستے رہے۔
٭٭
چند نامور شعراء کو چھوڑ کر باقی کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ یہ نا حاصل کئے گئے ابدان پر ماتم کرتے ہیں۔ وہ کہتا: یہ کم بخت نہ محبت کرتے ہیں، نہ فطرت کے رمز شناس ہیں نہ ہی مذہبی و معاشی جدلیت سے واقف، جانے کیوں قافیہ ردیف ملاتے رہتے ہیں۔ اس کا خیال کا تھا کہ اردو ادب محبت کی رنگارنگی سے محروم ہے اور شاعری میں عورت کا تصور فلمی ہے۔
ایک بار کسی نے اس سے پوچھا : علامہ اقبال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟اس نے جواب دیا۔ ’’ سب کو سینڈی لگا کر گیا ہے وہ، مردِ مومن بنائے نہیں جاتے، وہ پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال کے خیالات تھیریٹیکل ہیں، پریکٹیکل نہیں۔ اس کے باوجود وہ ایک عظیم شاعر ہے۔ ‘‘
مشاعروں کو وہ تماشا اور سیاست دانوں اور سیٹھ لوگوں کے ذوق کا سامان کہتا۔ مشاعرہ باز شعراء کو ’بد بخت بھانڈ‘ کہتا، کہیں اس نے لکھا بھی ہے کہ شعراء ایک ایسی نسل کے جانوروں ہیں جن میں نوے فی صد بد خصال اور نامراد ہوتے ہیں۔ ‘
اردو افسانہ نگاروں کے بارے میں اس کی رائے تھی:’یہ افراد کی واحد جماعت ہے جسے ان کے علاوہ نہ کوئی جانتا ہے، نہ مانتا ہے اور نہ پڑھتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کی تحریریں پڑھتے ہیں اور خود ہی ایک دوسرے پر مضامین لکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ پاگل پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ خود ایک دوسرے کو کافکا اور موپاساں کہتے ہیں لیکن دونوں کی تخلیقی دنیا میں فرق کرنے سے محروم ہوں۔ عموماً وہ یہ بات دہراتا اور خوب ہنستا۔ پھر کہتا:’ خدا بھی ایک افسانہ نگار ہے اور اس کی حالت اردو افسانہ نگاروں سے بری ہے ‘۔ اس کی کتابوں کو وہی لکھواتا ہے، وہی پڑھواتا ہے اور خود ہی سنتا ہے۔ پھر اس سماعت پر پڑھنے والوں کو انعامات سے نوازتا بھی ہے۔ عجیب تماشا ہے۔ ایک بار اس طرح کی گفتگو میں اس نے کہا تھا:’در اصل سب سے بڑا المیہ اسی افسانہ نگار کے ساتھ ہے۔ ‘
آس پاس جو لوگ کھڑے تھے، وہ خاموش رہے۔ اس نے ان کے چہروں کو پڑھا اور کہا:’ آپ لوگ ڈرتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہیں زبان سے کچھ الٹا سلٹا نکلا تو خدا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہمارے پیچھے پڑ جائے گا۔ جانے کن کن امراض یا قدرتی آفات کو جھیلنا پڑے گا۔ ‘ اس کے دوستوں نے کچھ نہیں کہا۔ ایک کا چہرہ، اکھڑا ہوا لگ رہا تھا۔ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر عبدالسلام نے کہا۔ ’بات صحیح ہے تیری۔ اللہ سے نہ زیادہ دوستی اچھی، نہ دشمنی۔ ‘
دوست مسکرایا۔
سلام کے چہرے پر بھی مسکراہت پھیلی۔ پھر اس نے دل میں کہا:’دیکھا خدا جی!لوگ تجھے بمبئی کے پولس والے جیسا سمجھتے ہیں ‘۔
(کچھ دیر بعد اسی مقام پر:)
جانے کس خیال میں گم تھا۔ ایک دوست نے اس سے پوچھا :’یار اب کیا سوچ رہے ہو۔ ‘
تب خیالات کے بھنور سے ابھرتے ہوئے اس نے کہا:’ اللہ کی جلوہ گری دیکھ رہا ہوں۔ ہر چیز کو کس تناسب سے اس نے پیدا کیا ہے ؟‘
سننے والے نے سبحان اللہ کہا۔ کچھ اور لوگوں کے بھی چہرے کھل گئے۔
ایک دوست کے قریب جا کرآہستہ سے اس نے کہا’تناسب‘ کہا ہے میں نے، تو نے کچھ اور تو نہیں سن لیا نا۔ ۔ ‘ پھر گردن اونچی کر کے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ دنوں کچھ دیر ایک دوسرے کو اسی کیفیت میں دیکھتے رہے۔
٭٭
کچھ دیر بعد وہ نکڑ کی پان کی دکان پر پہنچا :’ ایک بھولا، کتری سپاری، اسٹار مار کر۔ ۔ سب’ مناسب ‘ڈالنا۔
’ساب ’مناسب ‘بولے تو کیا۔ ‘دکان پر بیٹھے لڑکے نے پوچھا۔
’مناسب مطلب جتنا میرے نصیب میں ہے۔ ‘سلام نے کہا۔
لڑکا مسکرایا اور بولا:ساب مجاک اچھا مارتے ہو۔
دونوں مسکرائے اور جو ایک مبہم تلخی سلام کی ذات میں لہریں مار رہی تھی وہ کم ہو گئی۔
٭٭
ایک دن:
صبح سے اس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ ایک طرح کی الجھن وہ محسوس کر رہا تھا۔ داخلی کم مائے گی اور انتشار سے نجات کی اسے ایک ترکیب نظر آئی۔ اس نے اندھیری اسٹیشن سے بس پکڑی اور سیدھے ماہم میں واقع سینٹ میری چرچ پہنچ گیا۔ چرچ مردوں، عورتوں اور بچوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے لیے تھوڑی سی جگہ بنائی اور وہاں سے عبادت میں منہمک افراد کے چہروں کے تاثرات کو پڑھنے لگا۔ خوب صورت لڑکی یا عورت پر نظر مرکوز ہوتی تو صرف چہرہ پڑھنے پر قناعت نہیں کرتا۔ تھوڑا فارم کا ذائقہ بھی چکتا۔ اس کے بائیں طرف ایک شوخ حسینہ عبادت میں محو تھی۔ اس نے سرخ رنگ کی اسکرٹ اور اس پر سفید ٹی شرٹ پہنا تھا۔ عبدالسلام نے اس کے چہرے کے دلکش خطوط اور اس کی سڈول ٹانگوں کو دیکھ کر سوچا:’ بد نصیب ہے وہ تخلیقی ذہین جو اس تحفہ السرور سے محروم ہو۔ ‘ اس خیال کے ساتھ ہی اسے فیض احمد فیض کی ایک نظم یاد آئی جو کچھ دن پہلے اس نے You-tube سے عابدہ پروین کی آواز میں ڈاؤن لوڈ کی تھی۔ نظم کے کچھ مصرعے اسے یاد تھے :
ہائے اس جسم کے کم بخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسانے ہوں گے
اپنا موضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
ان مصروعوں کو وہ زیرِ لب گنگنا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک پرانے دوست پنکج پر جا ٹھہری جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ممبر تھا۔ دونوں کالج کے دنوں کے دوست تھے۔ اس وقت پنکج نے عبدالسلام کو کارل مارکس کی تھیوری سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی۔ پنکج چاہتا تھا کہ عبدالسلام بھی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو جائے اور بائیں بازو کی اس تحریک میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کی نمائندگی کرے اور ان کی شرکت میں اضافہ کرے۔ عبدالسلام پنکج کی باتوں کو سن کر ہوا میں اڑا دیتا تھا۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ جس طرح وہ خدا کے وجود کے بارے میں لایقینی کا شکار ہے بالکل اسی طرح وہ خدا کے عدم وجود کے بارے میں بھی لایقینی کا شکار ہے۔ اس کا مزاج سیاست کے لیے موزوں نہیں تھا۔ اس بارے میں اس نے نجی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’سیاست کی دلدل میں پھنسے سے بہتر ہے میں ذات کی دلدل میں ڈوبا رہوں۔ ‘ اس بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ سیاست کے موضوع سے فرار کی کوشش کرتا تھا بلکہ جن لوگوں نے اس کے بارے میں مجھے زیادہ معلومات فراہم کی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس کا سیاسی شعور بیدار اور بالغ تھا لیکن وہ سیاسی و سماجی سرگرمیوں سے الگ رہ کر زندگی کا مشاہدہ کرنے کو ترجیح دیا کرتا۔
پنکج کو گرجا گھر میں دیکھ کر اسے حیرت ہوئی۔ اس نے سوچا یہ یہاں کیا لینے آیا ہے۔ کیا اب کارل مارکس کی تھیوری میں خدا کے لیے بھی گنجائش پیدا ہو گئی ہے ؟ سالا مارکس کہیں پیغمبر مارکسزم تو نہیں بن گیا ؟
عبدالسلام کسی طرح پنکج کے پاس پہنچا۔
اس نے پنکج کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ مڑ گیا۔
اسے دیکھ کر پنکج استعجاب اور استفہام کی ایک ملی جلی کیفیت سے دوچار ہوا۔ پہلے تو عبدالسلام کو ایسا لگا پنکج کی بولتی بند ہو گئی ہے یا اس کی حلق میں کانٹا پھنس گیا ہے۔ اس نے سوچا یہ سوچ رہا ہو گا کہ جس کو میں کمیونسٹ بنانا چاہتا تھا وہ اپنے خدا کو چھوڑ کر میرے خدا کے دربار میں کیا کر رہا ہے۔ شش و پنج میں پنکج نے سلام کیا اور اس سے ہاتھ ملایا۔ پنکج کی زبان سے جیسے ہی’ سلام یار ‘ ادا ہوا اس کے آس پاس کھڑے عیسائی افراد ڈر سے گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ بات بگڑ جاتی اور پولیس ولیس کو بلایا جاتا، وہ دونوں چرچ سے باہر نکل گئے۔ دونوں چپ چاپ چلتے ہوئے ایک ملباری کے کیفے میں داخل ہوئے۔ پھر اپنی اپنی حیرانیوں کو چھپانے کے لیے یہاں وہاں کے سوالات ایک دوسرے سے پوچھتے رہے۔ چند منٹوں بعد دونوں کی حیرانی میں کچھ کمی واقع ہوئی تو دونوں نے ایک ساتھ پوچھا:’ تو ادھر کیسے ؟‘
دونوں کے چہروں پر مسکراہت پھیلی۔
پنکج نے کہا:’ یار میری عورت رلجیس ہے اور اس کو ہیپی کرنے کے لیے کبھی کبھی آ جاتا ہوں۔ وہ چرچ کے لوگوں کے ساتھ مل کر سٹریٹ پیپل کے لیے کام بھی کرتی ہے۔ ‘ پھر لہجہ درست کرتے ہوئے اس نے کہا: but i am still a communist۔ میرے کو گوڈ ووڈ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، کھالی عورت کی happiness کے واسطے ۔ ۔ ۔ ۔ عبد السلام سے رہا نہیں گیا اس نے پنکج کے جملے کے ختم ہونے سے پیشتر کہا :’ مسلمان آدمی اپنی عورت کی خوشی کے لئے خدا کو خوش نہیں کرتا۔ ہمارے ادھر یہ شرک ہے۔ لیکن ایک حساب سے تم خوش نصیب ہو۔ ہمارے یہاں atheist کو شاید گوڈ معاف بھی کر دے لیکن، مشرک کو نہیں۔ اپنی بات کہنے کے بعد اس نے ‘ پنکج کو شرک اور مشرک کے معنی بھی سمجھائے۔
پنکج کے چہرے پر شرمندگی اور کنفیوژن کا ملا جلا ایک رنگ ابھرا۔ پھر وہ مسکرایا کہ مسکراہت تذبذب کو زائل کرنے کا آسان طریقہ ہے جس کا استعمال کرنے میں کمیونسٹ یوں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
اب یہ بتا، تو چرچ میں کیسے ؟ کرسچن بن گیا ہے کیا؟ پنکج نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
’ یار سن! جو اپنے دھرم کا پوری طرح سے نہیں ہو ا۔ ۔ وہ چرچ کا کیا ہو گا۔ ‘
’تو سالے پھر تو چرچ میں کیا کر رہا تھا؟ ‘
’بات کیا ہے نا، مئی کی چھٹیاں ہیں۔ گھر میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ سوچا چلو ٹائم پاس کرتے ہیں۔ اس لیے ادھر نکل آیا۔ ادھر ایک سے بڑھ کر ایک مال دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہمارے ادھر بس کالی بکریاں دکھائی دیتی ہیں۔ ‘دونوں ہنس پڑے۔ پھر بہت دیر تک یہاں وہاں کی باتیں ہوتی رہیں۔ رخصت ہونے سے قبل ایک دوسرے کے موبائل نمبر لیے اور ملاقات کا وعدہ کیا۔
کچھ دنوں بعد عبدالسلام پنکج کے گھر گیا۔
حالات حاضرہ پر باتیں ہوئیں جس میں پنکج کی بیوی نے بھی حصہ لیا۔ عبدالسلام کو یہ جان کر خوشی ہوئی کے پنکج کی بیوی کو انگریزی ادب سے خاصا لگاؤ ہے۔ دونوں میں انگریزی فکشن پر گفتگو ہونے لگی۔ پنکج کی بیوی کو ھںوں کہ ان کا ذکر مطبوعہ جلد ouھے ہاٹکچھ کتابیں ’مابعد جدیدیت کی فلسفیانہ اساس‘ پر درکار تھیں جو اسے نہیں مل رہی تھیں۔ سلام نے اس موضوع پر اسے تین کتابیں دیتے ہوئے کہا : ‘Those who cannot write they can live in the labyrinth of linguistics.’۔ پنکج کی بیوی کو اس جملے نے بہت متاثر کیا اور اس نے عہد کر لیا کہ وہ خالص ادب پڑھے گی اور غیر ضروری فلسفیانہ مضامین جو ادب کے نام پر لکھے جاتے ہیں ان میں وقت ضائع نہیں کرے گی۔ اس طرح ان میں ادب پر ایک مکالمہ شروع ہوا جس نے دونوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دن سلام نے اس کے لیے ایک کتاب خریدی جس کا عنوان تھا ’ memories of my melancholy whore۔ کتاب اسے دیتے وقت اس کی لپ اسٹک کا گلابی رنگ سلام کے رو مال پر منتقل ہو گیا۔ جب گھر لوٹ کر اس نے رمال دھویا تو وہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کہ سرخ رنگ کا نشان پھیل کر مزید گہرا ہو گیا ہے۔ اس بات کا ذکر اس نے نجی ڈائری میں بھی کیا ہے اور ’داستان عشق ‘ میں اس واقعے کو اس نے ایک ذیلی عنوان ’اس کے لبوں کی سرخی‘ دیا ہے۔ لپ اسٹک کے رنگ کی اپنی مہک تھی جسے عبدالسلام کئی دنوں تک باتھ روم میں محسوس کرتا رہا۔ وہاں کامریڈ اپنی سیاسی سرگرمیوں میں جٹے ہوئے تھے یہاں یہ دونوں ادب اور رومان کی دنیا میں محو۔ یہ سلسلہ کامریڈ کے ٹرانسفر تک جاری رہا۔ کامریڈ ایک بینک میں ملازم اور بینک یونین کے لیڈر تھے۔
ٹرانسفر سے دو تین روز قبل :
عبدالسلام نے کامریڈ اور ان کی بیوی کو اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ ہندستانی ٹریڈ یونین، روس کی تقیسم، کیرالا اور بنگال میں پارٹی کی صورت اور بائیں بازو کے ادب پر گرما گرم گفتگو ہوئی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد پنکج پر قیلولہ طاری ہو ا۔ اس کی آنکھ لگنے پرسلام اس کی بیوی کو اپنی الماری کے پاس لے گیا۔
اس نے وہ رو مال نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا جس میں لپ اسٹک کی مہک کا احساس اس وقت بھی موجود تھا۔
اس عقیدت کو دیکھ کر جگر سوختہ امرتا کی آنکھوں میں ہلکے بادل پھیل گئے۔ اس نے رو مال کو تہہ کر کے پرس میں رکھ لیا۔ عبدالسلام نے اس شام اس واقعے کو ڈائری میں نوٹ کر لیا تھا۔ ’امرتا کچھ دن اور جی لیے ہوتے ‘ کے عنوان کے تحت اس نے دس صفحے تحریر کئے ہیں۔ ان صفحات پر اس کیف اور سرور کا اندراج تھا جو امرتا کے ساتھ بات چیت کر کے اسے حاصل ہوا۔ ایک پیراگراف میں اس نے لکھا ہے ’ بعض اوقات اسے ایسا لگتا ہے کہ ذہنی ہم آہنگی کی کمی رشتوں کی موت کا ایک اہم سبب ہوتا ہے۔ عورت محبت میں جنس سے زیادہ ہم آہنگی، قرب، عزت، اور توجہ کی طلب گار ہوتی ہے۔ ‘دوسری اہم بات جو ان صفحات میں اس نے لکھی ہے وہ یہ ہے کہ مرد کی خواہش عموماً عورت نہیں بلکہ اپنی خواہش کی تکمیل ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے مرد عموماً محبت کے جوہر سے محروم رہتا ہے۔ جبکہ عورت محبت کی متلاشی ہوتی ہے اور بیشتر اوقات اس کے حصول کے لیے سب کچھ داو پر لگا دیتی ہے۔ عزت نفس بھی اور زندگی بھی۔ اسی میں عورت کی فنا کے اسباب تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
٭
اس دنیا میں :سب برے نہیں ہیں پھر بھی:
ایک ایسے سماج میں جہاں اسفل سے اسفل کام ہو رہا ہو لیکن اس کا بیان ممنوع ہو، عبدالسلام ایسے آدمی کے لیے کئی دشواریاں تھیں۔ ایسے معاشرے میں جس کی بنیا فریب، جھوٹ، مکاری اور خواہشاتِ نفسانی کے حصول پر ہو لیکن اظہار پر پابندی ہو۔ ایک ایسی زبان جو اس کے اطراف کے لوگ استعمال کرتے تھے اور جس میں زندگی کی سچائیوں پر پردہ ڈال کر اخلاقیات کے کھوکھلے نغمے گانے کا چلن تھا، وہاں شفاف باطن عبد السلام خود کو کتنا لاچار سمجھتا ہو گا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔ اس کے مشاہدے میں ہر چیز متضاد اور پیراڈوگسیکل تھی۔ مثلاً ٹیچروں کا طبقہ جس سے اس کا تعلق تھا وہ یوں تو پڑھنے پڑھانے کی بات کرتا ہے لیکن خود نرا جاہل اور کبھی نہ پڑھنے والا طبقہ تھا۔ مذہب کی چادر میں لپٹے ہوئے افراد جو اس کے اطراف پھیلے ہوئے تھے اور ہر وقت دین دھرم کاپر چار کیا کرتے وہ فی نفس جابروں، مفسدوں اور امیروں کے طرف دار تھے۔ عوام کی بھلائی کے نام پر آئے دن ہڑتال اور جلسے کرنے والے بائیں بازو کے نادار لوگ عموماً بکاؤ یا پھر بے ضر ر و بے اثر تھے۔ ان سب کے درمیان اپنی شخصیت کے جوہر کی حفاظت کرنا اس کے لئے ایک چیلنج تھا۔ اس چیلنج کو قبول کرنے اور خود کو سماج کی جڑوں میں پیوست کرنے کی کوشش میں شاید اس کی شخصیت میں ایک انتشار در آیا تھا جسے وہ سمجھ نہیں پا یا لیکن اس کی تحریروں کو پڑھ کر اس کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عبدالسلام کا مشاہدہ تھا کہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے اور بات بات پر شریعت کی دال بگھارنے والے افراد زیادہ تر لالچی، مغرور، بزدل، بے علم اور خود پرست تھے۔ مذہب کی روح اور روحانیت کی چاشنی ان کے ضمیر سے کوسوں دور تھی۔ ان ساری باتوں نے اس کی دل شکستگی میں اضافہ کیا اور تشکیک اس کی روح میں ایک راہ بھٹکے ہوئے پرندے کی طرح آ کر بس گئی۔
دوسری طرف اس کے ملنے جلنے والوں میں جو کوئی جس کسی طبقے کی نمائندگی کرتا اس کے افعال، ، نظریات اور شخصی برتاؤ میں تضاد اور اور غیر مبہم پیرا ڈوگسیکل حالت دکھائی دیتی۔ جس سے عبدالسلام کا اعتقادِ انسانی ایک حد تک کمزور ہو گیا تھا۔ وہ کہتا :’لوگ جو نہیں ہوتے ہیں وہی ہونے پر اصرار کیوں کرتے ہیں۔ ‘ اس کی اس حالت کا برملا اظہار اس جملے میں ملتا بھی ہے جو اس نے اپنے مضمون ’آدمی اور انسان: ایک ازلی کشمکش‘ میں کوٹ کیا تھا ’ کیا فائدہ اس دنیا میں رہنے کا جس میں آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، زبان اسے جھٹلاتی ہے۔ ‘ در اصل یہ جملہ اردو نقاد وارث علوی کا ہے لیکن اس نے غلطی سے وارث علی شاہ بابا سورتی لکھ دیا تھا۔ یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ غلطی اس سے سرزد ہوئی تھی یا اس کے پس پردہ کوئی شرارت تھی۔
زندگی کے تضاد نے عبدالسلام کو بد ظن کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ایک طرح کے احساس زیاں میں بھی گرفتار ہو گیا۔
کچھ لوگوں نے بتایا کہ نوجوانی میں وہ لوگوں سے الجھا کرتا تھا۔ ان کے دوغلے پن اور ان کے جھوٹے بیانات کا تجزیہ کر کے وہ ان کی شخصیت کا دوغلہ پن ان کے سامنے پیش کرتا۔ لیکن بہت جلد شاید اسے اس بات کا احساس ہو گیا کہ اگر وہ مستقل اس راستے پر چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب وہ لگ تھلگ پڑھ جائے۔ لوگ اسے خبطی اور مفسد کہیں گے۔ بعض اس پر بے دین ہونے یا گمراہ ہونے کا لیبل چسپاں کر دیں گے۔ اس سماج میں کسی کو تنہا کرنے کا سب سے آسان ہتھیار یہی ہے کہ اس پر ’بے دین‘ ہونے کا لیبل لگا دیا جائے۔ بلاشبہ لوگ اس ہتھیار کا استعمال کرنے میں پیدائشی طور پر فعال واقع ہوئے ہیں۔
٭٭
جس دنیا سے وہ آیا تھا:
اس کے بچپن کے دو دوست رفیق اور شفیق معاشرتی بد حالی اور ذہنی تناؤ کے سبب پاگل پن کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یوں تو وہ کسی سے بات چیت نہیں کرتے تھے لیکن ہر وقت ایک ہنگامہ سا بپا کئے رہتے۔ گالیاں بکتے اور توڑ پھوڑ کرتے۔ صرف مسلمانوں کے خدا کو نہیں بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے خداؤں کو وہ سرِ عام گالیاں بکا کرتے۔ عبد السلام ان سے کبھی کبھار ملنے جاتا تو لوگ حیران رہ جاتے کہ ان پاگلوں کو کیا ہو جاتا ہے جو اس کے روبرو چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ ان سے بڑے اشتیاق سے باتیں کیا کرتا۔ وہ نظریں خلاء میں مرکوز کئے اس کی باتوں کو سنتے رہتے۔ کسی نے عبدالسلام سے اس راز کو جاننا چاہا توا س کی زبان سے بر جستہ یہ جملہ ادا ہوا تھا:’ میں انھیں صرف اتنا بتاتا ہوں کہ خدا نے اور کس کس کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔ ‘
یہ سن کر شاید انھیں اپنا دکھ کم اور پاگل پن غیر واجب لگتا ہو گا۔ یا شاید وہ مجھے پاگل سمجھ کر چپ ہو جاتے ہوں گے۔ کیوں ؟
سوال پوچھنے والا مسکرا تے ہوئے گزر گیا۔ عبدالسلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: ’کس قدر پاگل پن ہے یار۔ ؟؟ کنٹرول نہیں کر سکتا کیا ‘ لیکن فوراً اسے نطشے کا جملہ یاد آیا کہ ’ خدا نے نوے فی صد احمق اسی لیے پیدا کئے ہیں تاکہ اس کی حکمرانی برقرار رہے۔ اس کے معتقد اکثریت میں رہیں۔ ‘
ویسے عبدالسلام یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ دنیا کا کاروبار خدا نے ان ہی دس فی صد لوگوں کے ہاتھوں میں تھما رکھا ہے، جن کو خدا سے کوئی خاص رغبت نہیں ! ان دس فی صد افراد نے خدا کے نام پر باقی ماندہ نوے فیصد لوگوں کو یرغمال کر رکھا ہے۔ جب پہلی بار یہ خیال اس کے دل میں آیا تھا۔ تب ایک مسکراہت کے ساتھ اس کی زبان سے ادا ہوا :’ یار۔ ۔ تو کس کے ساتھ ہے ؟ جو ترے ساتھ رہتے ہیں شاید تو ان کے ساتھ نہیں رہتا ہے۔ جو تیرے ساتھ نہیں رہتے ہیں بس کہتے ہیں تیرے ساتھ ہیں۔ ۔ تو ان کے ساتھ اکثر نظر آتا ہے۔ تیری غیر جانب داری پر بھی شک ہے۔ پارٹی بدلنے میں تجھے وقت نہیں لگتا؟ تو مکّے میں ابو سفیان کے ساتھ تھا۔ کربلا میں یزید کے ساتھ ہو گیا۔ جرمنی میں تو نے ہٹلر کا بھی خوب ساتھ دیا۔ یہاں کئی برسوں سے افغانستان اور عراق کی معصوم عوام کی قاتل امریکہ پر بھی تیرا اشر واد نظر آتا ہے۔ تیرا ریکارڈ بہت خراب ہے جسے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ تو طاقت ور اور اقتدار کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ کیوں ؟؟
ہا ہا ہا ہا ہا۔ ۔ ۔
کچھ دیر بعد پھر اس نے آہستہ سے کہا:’ تو ہوتا تو اتنا غیر منصف نہیں ہوتا۔ شا ید تو نہیں ہے ! کیوں بھے ؟ ‘
٭٭
رفیق کا پاگل پن گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔ اس کی بڑی بہن کی شادی احمد آباد کے ایک تاجر گھرانے میں ہوئی تھی لیکن ابھی صرف تین مہینے گزرے تھے کہ احمد آباد پر ایک قدرتی آفت ٹوٹ پڑی۔ مقامی مسلمانوں نے بتایا کہ دل کو دہلا دینے والی بجلی کی گرج کے ساتھ رات کے دوسرے اور تیسرے پہر خون کی بارش ہوئی، جسے صبح حکومت نے یہ کہہ کر جھٹلا یا کہ اصل میں برف باری ہوتی رہی ہے۔ جن لوگوں کو خون کی بارش نظر آئی ان کا پاگل خانے میں علاج کیا جائے گا۔ یہ پاگل خانے حکومت اور وی ایچ پی کمپنی آف بجرنگ دل کے تعاون سے مسلمانوں کے علاج کے لیے ان ہی دنوں تعمیر کئے گئے تھے جس میں پولیس بہ طور ڈاکٹر تعینات تھے۔ خون کی بارش گجرات کے کئی اضلاع میں ہوتی رہی لیکن جو تصاویر حکومت کے ماتحت میڈیا میں جاری کی جاتی ان سے ایسا لگتا تھا کہ موسم خوشگوار ہے اور کہرا کی ایک چادر نے شہر کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ لیکن مقامی لوگوں نے بعد میں اپنے اقارب کو بتایا پہلے پہل تو خون کی موسلادھار بارش ہوئی بعد میں چنندہ گھروں کو یکایک آگ لگ جاتی تھی جس میں پہلے گھر کے مکیں جل کر خاک ہوتے تھے۔ اس کے بعد گھر کے اندر کاساز وسامان ہوا میں اڑ کر حکومت کے کارندوں اور رضا کاروں کے گھروں میں منتقل ہو جا تا پھر آگ گھر بار کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ مکان جلتا رہتا۔ چیخیں آگ کے شعلوں میں بے ہوش جلتے ابدان کی حلق سے نکلنے کا راستہ بھول جاتیں اور دل کی شریانوں میں قید ہو جاتیں۔
ایسی ہی ایک خوں آشام رات رفیق کی بہن اور شوہر بھی آگ میں بھسم ہو گئے۔ حکومت نے بعد میں اس یکایک لگنے والی آگ کے بارے میں یہ بیان دیا کہ زلزلے کے بعد والے جھٹکوں سے ایسا ہوا تھا۔ جب رقیق کو اس کی بہن کی موت کی خبر دی گئی تو اس پر خاموشی کے بادل چھا گئے۔ وہ تین دنوں تک گنگ ہو کر آسمان کو دیکھتا رہا۔ چوتھے روز بھی لوگوں کو ایسا لگا کہ وہ آسمان میں کچھ ڈھونڈ رہا ہے لیکن اس روز اس کی سراسیمہ روح دنیا کو خیر باد کہہ چکی تھی۔
البتہ چار پانچ برسوں کے مستقل علاج سے شفیق ٹھیک ہو گیا تھا۔ اس سے میری ایک ملاقات ہوئی۔ میں نے عبدالسلام کی زندگی کے بارے میں اس سے کچھ جاننا چاہا۔ پہلے اس نے انکار کر دیا۔ لیکن جب میں نے اسے بتایا کہ میں اس کی لکھی گئی کتابوں کو شائع کرنے والا ہوں اور اس کی زندگی پر ایک تفصیلی مضمون لکھ رہا ہوں تا کہ لوگ اس کی تحریروں کے رمز کو سمجھ سکیں۔ تب اس نے مجھے کچھ اہم باتیں بتائیں۔ جن کو جاننے کے بعد عبدالسلام کی زندگی میں میری دلچسپی اور بڑھ گئی۔ میں نے اس کی تحریروں کو بہ غور پڑھنا شروع کیا۔ ان مقامات کی سیر کی جن کا ذکر اس کی ڈائریوں میں تھا اور کئی لوگوں سے ملاقات کی تاکہ اس کی شخصیت کے گوناگوں پہلوؤں کو سمجھ سکوں اور جو موشگافیاں، کنائے اور ابہام اس کے مختصر جملوں اور طویل عبارتوں میں نظر آتا ہے، اس کی تفسیر کا امکان پیدا ہو۔
٭٭
اس کی کچھ بہ ظاہر غیر منطقی باتیں :
عبدالسلام بھارت کی تاریخ کے بارے میں عجیب و غریب باتیں کیا کرتا۔
دوستوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، یا کمرۂ جماعت میں دورانِ تدریس کبھی کبھار عبدالسلام بھارت کی تاریخ کے بارے میں عجیب اور غیر روایتی باتیں کرتا۔ مثلاً ایک دن بچے علامہ اقبال کی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ گا رہے تھے۔ ایک طالبِ علم نے پوچھا :’ سر کیا یہ بات سہی ہے کہ یونان، مصر، او ر روم مٹ گئے ہیں ؟‘
عبدالسلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ اس نے سوال پوچھنے والے طالب علم پر نظریں مرکوز کرتے ہوئے کہا:’ بیٹا! اقبال صاحب بے وقوفی کی باتیں زیادہ کیا کرتے تھے۔ جتنے علامہ وہ کہلاتے ہیں اتنے تھے نہیں۔ مبالغہ ان کی پہچان ہے۔ بلکہ اردو شاعری سے مبالغہ کی لعنت کو نکال دیا جائے تو صرف غازہ، گیسو اور غمزہ بچ جائے گا۔ یونان مصر اور روم کی تہذیب، بھارت سے زیادہ طاقت ور نہیں تو کم بھی نہیں تھی۔ علامہ اقبال کی شاعری۔ ۔ ۔ یا کسی بھی شاعر۔ ۔ سیاست داں اور فلمی ڈائلاگ میں۔ ۔ ۔ اس ملک کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر کبھی یقین مت کرنا۔ اس ملک میں بغیر تحقیق۔ ۔ ۔ بغیر چھان پھٹک۔ ۔ جذباتی باتیں گھڑی جاتی ہیں۔ بلکہ تاریخ کے معاملے میں تو جھوٹ۔ ۔ ۔ سوچ سمجھ کر کہا جاتا ہے۔ ‘
کلاس کے طلبہ اس کی باتوں کو( خاص کر جب وہ تھوڑا جذباتی ہو جاتا تھا) دھیان سے سنتے تھے۔
اس نے دس منٹ متواتر اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کا آخری جملہ جو ایک طالب علم نے اپنی بیاض میں لکھ لیا وہ یہ تھا : ’تہذیبیں تاریخ ہوتی ہیں۔ تاریخ نا قابل ترمیم ہے۔ جو ہوا سو ہوا، جو ہوا وہ جس طرح سے بتایا گیا ہے اسی طرح ہوا یا نہیں اس کی تحقیق ممکن ہے۔ ‘
میں یہ بات آپ کو بتا چکا ہوں کہ بعض اوقات اس کی باتوں میں ابہام در آتا اور سننے والے کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر رہ جاتے۔ لیکن اس کے طلبہ اس کی باتوں کے عادی ہو گئے تھے۔ کبھی کبھی وہ کمرۂ جماعت میں ایسے الفاظ بھی استعمال کرتا جو ادق ہوتے اور بیشتر طلبہ کو حصول معنی میں دقت پیش آتی۔ چوں کہ طلبہ اس سے محبت کرتے تھے اور اس کی باتوں کو ایک عالم کی باتوں کا درجہ دیتے تھے اس لیے انھوں نے اس کا حل بھی تلاش کیا تھا۔ دوسرے دن کلاس کا مانیٹر لغت سے ان الفاظ کے معنی تلاش کر کے لاتا اور بورڈ پر لکھ دیتا اور پھر دیر تک کلاس میں کہرام مچا رہتا جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مانیٹر جو عبد السلام کو اپنا روحانی گروہ تسلیم کرتا تھا وہ اس کے بتائے گئے معنی کی دوبارہ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا۔ یہ سب فری پریڈ میں ہوتا۔ اسکول میں خواتین معلمات زیادہ تھیں اور وہ اپنے پریڈ میں عموماً جماعت سے غائب رہتیں۔ ایک طالب علم نے ایسے ہی ایک واقعے کا ذکر کیا کہ ایک روز وہ ڈرامے کے فن پر طلبہ سے مخاطب تھا۔ خیالات کی بے ترتیبی کی وجہ سے بچے سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ اصل میں کیا کہہ رہا ہے۔ تب ایک طالب علم نے جسارت کی اور کہا:’سر! میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ‘
وہ رک گیا۔ مسکرایا۔ پھر اس نے کہا: ’میری بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ ‘
کچھ دیر وہ خلا میں جانے کیا دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا:’ ایسی حالتیں بھی ڈرامہ ہیں۔ ‘
سارے طلبہ ہنس پڑے۔
سلام نے کتاب بند کر دی اور طلبہ سے لطیفے سنتا رہا۔ پریڈ ختم ہونے کی بیل بجنے سے ایک منٹ پہلے طلبہ کو دوبارہ مخاطب کر کے اس نے کہا:’ یاد رکھنا! صرف لطیفے ڈرامے نہیں ہوتے ہیں۔ ‘ اتنا کہہ کر وہ کمرۂ جماعت سے نکل گیا۔ کلاس کنٹرول کے لیے مانیٹر کھڑا ہوا۔ اس نے تختۂسیاہ پر شرارت کرنے والے طلبہ کے رول نمبر لکھنے کے بجائے لکھا: ’’ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک لطیفہ ہے اور ہم جس اسکول میں ہیں وہ بھی ایک لطیفہ ہے۔ ‘‘ ساری کلاس قہقہہ بردار ہوئی، شور کلاس کی دیواروں کو عبور کر کے پہلے اسٹاف روم تک پہنچا پھر پرنسپل کی آفیس میں داخل ہوا۔ دو تین معلمات جو اپنے ٹفن دھو رہی تھیں۔ شور سنتے ہی اس طرف آئیں۔ لیکن بچوں کے قہقہوں کے سیلاب میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوئی۔ بالآخر پرنسپل کو آ کر ان سے اس بات کی وجہ دریافت کرنا پڑی کہ وہ کیا بات ہے جس کے سبب وہ اس قدر قہقہے لگا رہے ہیں کہ چھ ٹیچرز انھیں خاموش کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور خود کلاس کے باہر کھڑے رہ کر اپنی ناکامی پر قہقہہ لگا رہے ہیں۔
لیکن اس وقت تک سارے بچے بے زبان ہو گئے تھے۔
کیا انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ’ یہ بھی ایک لطیفہ ہے۔ ‘ اس لائن میں اور کیا معنی پوشیدہ ہیں۔ اس جملے میں ان کی زندگی کا کتنا درد کتنا انبساط پوشیدہ ہے۔ درد اور انبساط کو کہیں بیان کیا جا سکتا ہے ؟
پرنسپل شاعر آدمی تھے اور طلبہ پر ان کی دہشت قائم تھی۔ وہ جس کلاس سے انتقام لینا چاہتے اس جماعت میں دو تین گھنٹے اپنے غیر مطبوعہ کلیات کی غزلیں سنایا کرتے۔ ممکن ہے ان کو دیکھ کر، طلبہ اس ڈر سے چپ ہو گئے ہوں کہ پھر انھیں نان اسٹوپ دنیا کی عظیم شاعری سننا پڑے گی۔ پرنسپل نے جن جماعتوں میں اپنا کلام سنایا تھا اس جماعت کے طلبہ کا بیان ہے کہ پرنسپل شاعری شروع کرنے سے پہلے یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی پڑھے لکھے آدمی (جس کا نام وہ باقر مہدی بتاتے ہیں) نے ایک بار یکسوئی میں ان کو بتایا ہے کہ ان کی شاعری دنیا کی عظیم شاعری میں شامل ہوتی ہے۔ یہ بات جب عبدالسلام کی جماعت کے مونیٹر نے اسے بتائی تب اس نے کہا تھا کہ باقر مہدی در اصل روسی زبان میں ایک ایسے پرندے کو کہتے ہیں جو اکثر گدھوں پر سواری کرتا ہے، لیکن گدھوں کو اس بات کا احساس نہیں ہو تا۔ مونیٹر اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ وہ دیر تک ہنستا رہا۔ اس نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی کہ سلام کی نگاہ میں پرنسپل بے وقوف اور بے حس آدمی ہیں۔
٭٭
اس کا مکان اور اس کا دل:
عبدالسلام چار بنگلہ، (اندھیری، ممبئی) میں ایک سات منزلہ عمارت میں رہتا تھا۔ اس کا فلیٹ گراونڈ فلور پر تھا۔ فلیٹ میں داخل ہوں تو سامنے الماری میں قرآن مجید کی پانچ کاپیاں (دو انگریزی تراجم، دو اردو تراجم اور ایک عربی زبان میں )، تبلیغی نصاب کی اردو ہندی جلدیں، بہشتی زیور، تاریخ انبیا ء، مختصر شافعی فقہ کی تین جلدیں، مسنون دعائیں، جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی کی کتابیں ’ خلافت و ملوکیت‘ اور’ پردہ‘ کے ساتھ ساتھ چند اور مقبول مذہبی کتابیں تھیں۔ فرش پر ایرانی قالین بچا ہوا رہتا۔ ایک عمدہ صوفہ تھا۔ دیوار پر سونی کا فلیٹ ٹی وی، جس کے نیچے اونیڈا کمپنی کا ڈی وی ڈی پلیر۔ ڈی وی ڈی پلیر پر ہندستانی گل بوٹوں کی چھاپ والا پردہ پڑا رہتا۔ دیوار پر ایک اسلامی کیلنڈر، ایک زرد رنگ گھڑی۔ دوسری دیوار پر ایک بڑی سی فریم تھی جس میں مخمل کے کپڑے پر قرآنی آیات، خطاطی کا عمدہ نمونہ تھیں۔ فرش پر دیدہ زیب ٹائلس لگی ہوئی تھیں۔
بیڈروم سے متصل ایک چھوٹا کمرہ تھاجس میں صرف اس کے دیرینہ دوستوں کو اجازت تھی۔ اس خاص کمرے کے دروازے پر انگریزی میں لکھا ہوا تھا Dead People’s Conference Room۔ جنھیں اس کمرے میں رسائی حاصل تھی صرف انھیں پتہ ہو گا یہ کمرہ عبدالسلام کے دل کی طرح گنجلک تھا۔ اس کمرے میں ہر طرف کتابوں اور فائلوں کا انبار تھا۔ اردو اور انگریزی ادب کا نمائندہ انتخاب آپ کو نظر آئے گا۔ دیوار پر ایک کاغذ کا ٹکڑا چسپاں تھا جس پر نیلی روشنائی میں تحریر تھا :’کتابیں : زندہ در گور لوگوں کا ندبہ ہیں۔ آؤ! ان سے رونے کے آداب سیکھیں۔ ‘‘ایک جگہ پینسل سے دیوار پر تحریر تھا:’ سچ در اصل جھوٹ ہے۔ ‘‘اس کمرے میں کھڑکی کے پاس دو چھوٹے گملے تھے۔ ایک میں زربیل کا پودا اور دوسرے میں کوئی جنگلی گھاس تھی۔ سلام کا کہنا تھا کہ ان دونوں میں ایک خاص رشتہ ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہ آتا کہ زربیل اور جنگلی گھاس میں کیا رشتہ ممکن ہے ؟ اگر کوئی جاننا چاہتا تو اس کا جواب ہوتا :’خود غور کیجئے۔ آپ جان لیں گے۔ ‘ لیکن ایسی باتوں پر غور کرنے کے لئے اضافی وقت کس کے پاس تھا۔ ایک روز دوستوں نے اصرار کیا کہ وہ خود بتائے کہ زربیل اور جنگلی گھاس میں اسے کیسا رشتہ نظر آتا ہے۔ وہ راضی ہو گیا۔ اس نے کہا:
رمضان عید کی شام میں آپ کو دعوت پر بلاؤں گا، تب بتاؤں گا۔
بعض اس بات کو مذاق سمجھ کر بھول گئے۔ دو ایک دوستوں کو اشتیاق رہا۔
اپنے وعدے کے مطابق سلام کو یہ بات یاد تھی۔ عید کے دن وہ دیر تک سوتا رہا جب سورج نصف النہار پر آ کر ہنسنے لگا تب دوستوں کو فون کر کے عید کی مبارک باد دی اور کہا: ’آئیے ! زربیل اور جنگلی گھاس کے رشتے کا راز جاننا ہے نا ؟‘
جن کے پاس وقت تھا وہ اس کے گھر پہنچ گئے۔ سلام دعا کے بعد کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں پھر اس نے کہا :’ اب سنو !زربیل اور جنگلی گھاس میں کیا رشتہ ہے۔ ‘
سب نے کہا جلدی بتائیے۔
’ ایک ہی رشتہ ہے۔ ‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’کیا؟‘ استعجاب کے ساتھ سب نے کہا۔
وہ خموش ان کو دیکھتا رہا۔
دوستوں کو لگ رہا تھا کہ وہ انھیں بے وقوف بنائے گا۔
ان کے فق ہوتے ہوئے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے کہا : ’’ دونوں مٹی کی شکلیں ہیں۔ ایک ہمارے لیے زر کی علامت ہے دوسری رائے گانی کی۔ ۔ ۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ بے معنی ہونے کی۔ دوست اس کے چہرے کو تاک رہے تھے۔ اس نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا:’ جب تک ان دونوں کی اہمیت دل میں یکساں نہیں ہو گی۔ خدا آپ کی سمجھ سے دور ہو گا اور اسی سبب خوشی منانے کے لیے آپ کوکسی طے کردہ دن کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ جیسے عید کا دن۔ ۔ ۔ ‘
اس کے آخری جملے سے دوستوں کو مایوسی ہوئی۔ مایوسی کے احساس کو زائل کرنے کرنے کے لیے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔
ان کے مرجھائے ہوئے چہروں کو دیکھ کر اس نے کہا:’مجھے ہر دن عید سا لگتا ہے۔ کوئی دن دوسرے سے افضل یا کمتر نہیں ہوتا۔ ‘
اس جملے سے یکایک در آیا سنناٹامزید گہرا گیا۔ ماحول کی کثافت کو اس نے محسوس کیا۔ فوراً غیر متوقع خاموشی کو خوش گواری میں بدلنے کی نیت سے اس نے کہا:’ بریانی دلی دربار سے منگائی ہے، ۔ ۔ ۔ آپ تو سنجیدہ ہو گئے۔ کم از کم عید کے دن تو مسکرائیے۔ آؤ بھئی بریانی کھاتے ہیں۔ ‘
دوست مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے ڈائننگ ہال کی طرف بڑھے۔ تب اس نے دل میں کہا:’دیکھا! تیرے بندوں کو میں نے عید کے دن بھی رنجیدہ کر دیا۔ تو کیوں انھیں فرضی خوشیاں دینے کے وعدے کرتا ہے۔ تیری اسی حرکت کی وجہ سے انھیں فطری طور پر خوش رہنے کی عادت نہیں پڑتی۔ ‘ اس دن کا تذکرہ اس نے نجی معاملات کی ڈائری میں کیا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ خوش رہنے کے لیے کسی خاص دن کا انتظار نہ کریں بلکہ روزمرہ کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے عادی ہوں تاکہ زندگی کی سنگلاخی کا مقابلہ کرنے کی لیاقت میں اضافہ ہو۔
اس کے کمرے میں ان دو گملوں کے علاوہ ایک صندوق تھا جس میں پرانے قلم تھے جو بے مصرف ہو چکے تھے۔ لیکن ان بے مصرف اقلام کے ساتھ اسے ایک طرح کی عقیدت تھی۔ وہ کہتا:’ جب آدمی خیالات کو کاغذ پر اتارنے سے محروم ہو جاتا ہے، تو قلم اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے از خود نئے افکار تحریر کر لیتے ہیں۔ بعض بے روح تصور کئے جانے والے قلم ادیب سے زیادہ ذہن اور حسّاس ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں مردہ سمجھ کر پھینکنا نہیں چاہیے۔ ‘ قلم دان سے لگ کر فائلوں میں ایک بہت ہی خاص فائل تھی جسے اس کی زندگی میں کسی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ خود بھی اسے بہت کم کھولتا تھا۔ جو کچھ اس میں ہے۔ وہ اتنا ذاتی اور قیمتی ہے کہ کسی سے شیئر نہیں کیا جا سکتا۔ گویا یہ اس کے دل کا سب سے پوشیدہ باب تھا جس میں اس کی ذات کی سب سے زیادہ نا قابل بیان یادیں محفوظ تھیں۔ ایسا خانۂ نسبتی ہر آدمی کے دل میں ہوتا ہے، گویا یہ وہ محور ہوتا ہے جس پر شخصیت کے اسرار رقص کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار شب کی تنہائی میں جب عبدالسلام کے دل کی ویرانی میں ان جانی طغیانی در آتی اور ہر ایک لمحہ، لمحۂ گریزاں بن جاتا اور اس گریزاں لمحے کا خالی پن موجزن سکوت بن کر اس کے دل پر موت کا اندھیرا پھیلا دیتا تب وہ اس فائل کو شب کی خاموشی اور کمرے کی مہیب تاریکی میں ٹٹول کر کھولتا اور کاغذوں کے انبار سے ایک بوسیدہ تصویر کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیتا۔ آنسوؤں کو پلکوں کی نسیجوں سے دباتے ہوئے وہ اس تصویر کو اپنی چھاتی سے لگاتا۔ پھر آنکھوں کو دیر تک تنہائی میں بہنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا۔ اس کی پوری زندگی میں ۲۳ بار وہ اس حالت سے گزرا ہے۔ شاید یہ اس لڑکی کی تصویر ہو گی جس کی داستان وہ ’داستانِ عشق ‘ میں کبھی قلمبند نہ کر سکا۔ اس آواگون سی کیفیت سے وہ جب بھی گزرا ہے دوسرے دن اس نے سرخ روشنائی سے اپنی نجی ڈائری میں ہر بار یہ شعر نقل کیا ہے :
کب تک رہے گا روح پہ پیراہن بدن
کب تک ہوا اسیر رہے گی حباب میں
یہ تصویر اسی لڑکی کی ہو گی اس نتیجے پر پہنچنے میں مجھے بھی بہت وقت لگا ہے۔
اس نے جب بھی یہ شعر لکھا ہے، ساتھ ہی نمبر شمار لکھا ہے، جو کل ۲۳ ہیں۔ لیکن صرف ان نمبرات کو دیکھ کر ان کا رشتہ اس کی روح کی اداسی سے لگانا غیر مناسب ہوتا۔ جب میں نے ’داستان عشق‘ کے تیسرے مسودے کا مطالعہ کیا، اس کے چھٹے پیراگراف سے مجھ پر اس شعر اور اس کے نیچے لکھے گئے نمبر کا راز کھلا۔ اس نے لکھا ہے ایک محبت ایسی بھی ہے جس کی یادیں اس کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہیں۔ کبھی کبھی وہ اس کے دل میں کروٹ لیتی ہیں تب اسے ایسا لگتا ہے کہ اس درد کا مداوا موت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ آگے اسی پیرا گراف میں اس نے لکھا ہے کہ جب بھی وہ اس حالت سے گزرتا ہے اسے شکیب جلالی کا ایک شعر بہت یاد آتا ہے اور اس کی انگلیاں از خود اس شعر کو ڈائری میں اتارتی ہیں۔ شعر نقل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ دن اور تاریخ بھی لکھا کرتا تھا۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ وہ اس بات کو یاد رکھنا چاہتا تھا وہ کب کب اس ہولناک کیفیت سے گزرا ہے جب اس کا دل خود کشی کی طرف اس کو بلاتا رہا ہے۔ اس کیفیت کو خود اسی نے ایک جگہ ’ کیفیت آواگون‘ تحریر کیا ہے اور میں نے اس کی کاپی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اس اصطلاح سے اس کی کیا مراد تھی میں سمجھ نہیں سکا۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ سمجھ جائیں۔
٭٭
اس کے دوستوں نے مجھے بتا یا کہ وہ اپنے مکان کو سلیقے سے رکھنے کی کوشش کرتا۔ نئے پردے، نئی پینٹنگز، نئے گلاس، عمدہ پائدان، اچھی خوشبوئیں اس کے مزاج کا حصّہ تھیں مگر کبھی کبھار کچھ چھوٹی موٹی چیزوں کو بدلنے میں بھی اسے خاصہ وقت لگ جاتا مثلاً ایک مرتبہ اس نے بازار سے دروازے میں لگایا جانے والا eye hole خریدا اور سوچا خود ہی فٹ کر دے گا۔ عجلت میں اس نے ’آئے ہول ‘لگا یا اور اسکول چلا گیا۔ شام کو واپسی کے بعد آرام کر رہا تھا کہ دروازے پر غیر مترقبہ دستک ہوئی۔ وہ دروازہ کھولنے کے لیے بڑھا تو اس کے ذہین میں خیال آیا کہ دیکھے تو سہی اس وقت کون آیا ہے۔ اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ وہ حیران ہوا۔ اس نے دوبارہ ہول میں جھانکا۔ اسے سوائے اندھیرے کے اور کچھ نظر نہیں آیا۔ اس نے زیر لب کہا :’ کیا اس طرف اللہ میاں آ گئے ہیں۔ ‘
دو تین بار دستک ہوئی۔ اس نے دروازہ کھولا۔ اس کا ایک دوست تھا۔
دوست قہقہہ لگا رہا تھا۔
’کیوں ہنس رہے ہو یار‘ اس نے پوچھا۔
’ کیا ہوا ؟ اس نے پھر کہا۔
دوست نے ہنستے ہوئے کہا:’ پہلے یہ بتاؤ یہ hole eye کس نے فٹ کیا ہے۔ مجھے باہر سے تمہاری آنکھ نظر آ رہی تھی۔ ‘
عبدالسلام کی زبان سے ادا ہوا ’’ واٹ ‘‘ پھر وہ خود باہر کی طرف گیا۔ اس نے باہر سے جھانکا۔ اس کا کمرہ، اسے اصل سے کچھ بڑا نظر آیا۔ اسے اپنی حماقت پر ہنسی آئی۔
کئی دن گزر گئے لیکن eye hole کو ٹھیک کرنے کی اسے فرصت نہیں ملی۔ اس بارے میں کوئی اس سے سوال کرتا تواس کا جواب ہوتا ’’I believe in transparency ‘‘
رفتہ رفتہ احباب دستک دینے سے پہلے کمرے میں جھانکنے کے عادی ہو گئے۔ اسے بھی اس بات کا احساس تھا وہ سوچتا:’ خدا تو نے ایک کام اچھا کیا کہ اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ قیامت کے دن تو لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام کے ساتھ مخاطب کرنے والا ہے۔ ورنہ ان منہوسوں کو کتنی مایوسی ہوتی۔ ۔ ‘ ایک بار اس خیال پر اسی ہنسی آئی تھی، پھر اس نے سوچا : ’خدا کی دانشوری پر مجھے رشک ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے خدا ہو اور مسکراتا بھی ہو۔ ‘ پھر آسمان کی طرف دیکھ کر اس نے آنکھ ماری اور کہا: ’تو جانتا ہے نا۔ ۔ ہماری پرانی بلڈنگ کی حمیدہ سید اور کلثوم پٹھان کے بچے میرے کیا لگتے ہیں ؟ انگلیوں کو اپنے ہونٹوں پر لا کر ایک بوسہ اس نے فلک کی طرف خدا کے لیے اچھال دیا۔
دانش مند قاری ! اگر میں اس واقعے کو ناول میں شامل کروں گا تو مجھ سے یہ مت پوچھنا کہ وہ بوسہ ربِ کائنات تک پہنچا، یا فرشتوں نے درمیان میں اسے ’کٹ ‘ کر کے ’ کتاب حساب ‘ میں ’پیسٹ‘ کر دیا تھا۔
٭٭
ایک روز اس کے ایک دوست نے اس سے دریافت کیا جس طرح کی مذہبی کتب تم نے ڈرائینگ روم میں شیشے کی الماری میں رکھی ہیں ویسی کتابیں تمہارے پڑھائی لکھائی کرنے والے کمرے میں نہیں ہیں ؟ کیا وجہ ہے ؟عبدالسلام نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’اصل میں کیا ہے نا! جب یہ مذہبی کتابیں ادب کی کتابوں کے ساتھ رکھی جاتی ہیں تو ان کی اصلاح کا کام شروع کر دیتی ہیں۔ بعض پر فحاشی اور جذبات کو پراگندہ کرنے یا اخلاقیات کو مجروح کرنے کا الزام لگاتی ہیں۔ جھگڑا شروع ہو جاتا ہے یار۔ ۔ بہ ظاہر۔ ۔ ۔ تو یہ کتابیں جلد بند ہیں لیکن غصّے میں آتی ہیں تو گالی گلوچ، مار دھاڑ، قتل کی سازش اور سماجی بائیکاٹ کی دھمکیاں دینے لگ جاتی ہیں۔ میرا دل بیٹھ جاتا ہے۔ اس لیے میں نے انھیں نکال کر اس کمرے میں ’ سب کے سامنے ‘ رکھا ہے۔ ‘
دوست گردن ہلا کر اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
عبدالسلام نے بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔ :’ الگ رکھنے سے کیا ہوتا ہے نا۔ ۔ گھرمیں آنے والوں کی توجہ ان کو مل جاتی ہے۔ تو جہ ملتے ہی ان کا کلیجا ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور لوگ انھیں میرے ڈرائنگ روم میں دیکھ کر مجھے بھی دین دار تصور کرتے ہیں۔ ان کا بھی کلیجا رام ہو جاتا ہے۔ ‘
’مطلب تو دوسروں کو ایڑا بناتا ہے۔ ‘
’نہیں، اس کی کیا ضرورت ہے۔ ‘
(دونوں مسکرائے )
’بات کیا ہے زندگی کا حسن اس کے تضاد میں پنہاں ہے۔ بہت ساری مردہ کتابیں در اصل زندہ لوگوں کے تعلقات کو برقرار رکھنے کا ایک آسان ذریعہ بن گئی ہیں۔ ‘
دوست نے حامی بھری اور کہا:’ تو کبھی کبھی اردو بہت سولڈبولتا ہے۔ ‘
سلام نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا:’ جو کتابیں اس الماری میں ہیں ان کا ایک اور فائدہ ہے۔ ان کی موجودگی سے لوگ میری باتوں کو گوارا کر لیتے ہیں۔ ان کا گھر میں ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ ’اپنا آدمی ہے۔ ورنہ یار تم تو جانتے ہو۔ ۔ یوں بھی یہ کتابیں کون سمجھتا ہے۔ ‘
’ تیری بات میں پوئنٹ ہے، آج کل میں بھی دیکھ ریلاؤں ان سب کے بہانے ہی مولانا لوگ مسلمانوں کو آپس میں لڑا رے لے ہیں۔ ‘ دوست نے اس کی بات ختم ہونے سے پیشتر کہا جسے تین چار مہینے قبل ایک مسجد سے یہ کہ کر نکال دیا گیا تھا کہ اس مسجد میں وہابی حضرات کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
٭٭٭
٭
(چند سوالات 🙂
کیا عبد السلام ایسے افراد ہمارے معاشرے میں کم ہیں ؟
عبدالسلام ایسے لوگوں کو خدا خود پیدا کرتا ہے یا یہ خود کو پیدا کرنے کے مرتکب ہیں ؟اگر یہ کردار سماج میں فٹ نہیں ہے تواس کا ذمہ دار سماج ہے یا خدا ؟ کیا ایسے سماج میں خدا فٹ ہو سکتا ہے جس میں عبدالسلام ان فٹ ہو۔
عبدالسلام کو ناول کے کردار کے طور پر پیش کرنے کی خواہش کے بعد میں عجیب تخلیقی دشواری سے گزرنے لگا۔ سوال یہ ہے کہ بہ طورِ ناول نگار کیاعبدالسلام کے کردار کی تخلیق کی ساری ذمے داری مجھ پر عائد ہو گی ؟ اس کے تمام افعال کا ذمہ دار میں رہوں گا ؟ میں اس وسوسے کا بھی شکار رہا ہوں کہ اس کی اپنی ذات اور شخصیت، ناول میں خود کو میرے ارادے کے بغیر کس طرح پیش کرے گی ؟ اس کی زندگی کے بارے میں، میں نے جتنی معلومات اکٹھا کی ہے اس کے بعد وہ میری بنائی ہوئی تخلیقی دنیا میں کس طرح قید رہے گا؟ ان سوالات کے علاوہ بعض دوسرے مگر اردو زبان میں ناول نگار کے طور پر جنم لینے کے سبب کچھ زیادہ اہم سوال مجھے پریشان کرتے ہیں۔ مثلاً:
۱)اگر افراد کا عمل غیر اخلاقی ہو تو کیا اسے من و عن بیان کرنا اخلاقی گناہ ہے ؟
۲) مذہب سے بیگانہ افراد کا بیان کس طرح کیا جانا چاہیے ؟
۳)ایک شخص عام زندگی میں اگر گالیاں بکتا ہے تو کیا لکھنے والے کو اسے حزف کر دینا چاہیے ؟
۴) کردار اپنی سابقہ محبتوں اور جنسی تعلقات کو کسی مخصوص حالت میں زیادہ جذباتی وابستگی سے یاد کرتا ہے تو کیا ان کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ؟
۵)کردار اگر سماجی اصولوں، مذہب اور اخلاقیات پر سوالات قائم کرتا ہے تو کیا انھیں صرف اس لیے بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اب اردو پڑھنے والوں میں زیادہ افراد مذہب پرست ہیں ؟
۶) کیا لکھنے سے پہلے ادیب کو مذہبی رہنماؤں سے درسِ اخلاقیات لینا چاہیے کہ زندگی کو بیان کرنے کی کتنی آزادی اسے حاصل ہے ؟
۷) کیا ادیب کام لوگوں کو یہ بتاتا ہے کہ انھیں زندگی کس طرح گزارنا چاہیے یا یہ بتانا کہ افراد زندگی کے گرداب میں کس طرح پھنسے ہوئے ہیں ؟
۸) ادیب ناصح ہے یا آزاد بیانیہ کا خالق جو جاری زندگی کا متن میں عکس پیش کرتا ہے ؟
٭
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن سے اکثر ادیب گزرتا رہتا ہے لیکن میرے دل میں کچھ اوراقسام کے سوالات بھی ابھرتے ہیں، مثلاً
۱) کیا ناول کا کلاسیکی فارم اب بھی کار آمد ہے ؟ ابتدا۔ عروج۔ اختتام والا فارم۔ کردار کی پیدایش، جوانی اور انجام۔ یا کردار کی ذہنی حالتوں کا بیان اہم ہے ؟
۲) شعور کی رو سے کس طرح باہر نکلا جا سکتا ہے ؟
۳)کیا ہر ناول کے لیے فارم کا تجربہ مناسب ہے ؟
۴)کیا ناول کے اسالیب سے فنی طور پر واقف ہوئے بغیر اس میدان میں اضافے کے امکانات ہیں ؟
۵) کیا فارم کے تجربے کو دوہرانا تخلیقی توانائی کے کمی کی علامت نہیں ہے ؟
۶) کیا فلابیئر، وکٹورہیگو، ٹولسٹائی، گارسیا مارکیز، اور میلان کنڈیرا یسے ناول نگاروں کے فنی اسالیب کا اردو ناول کے ساتھ موازنہ ممکن ہے ؟
۷) اردو ادیب مذکورہ عالمی ناول نگاروں کی تحریروں سے آگے کے ناول کس طرح لکھ پائے گا؟
۸)کیا اپنے اندھیروں کو دوسروں کے اجالے کے سامنے پرکھنا بے جا ہے ؟
۹) بدلتی دنیا میں ناول نگار کا کام کیا ایک مخصوص لسانی و مذہبی ثقافت کا دفاع ہے یا اجتماعی شعور کا عرفان حاصل کرنا ؟
۱۰)تہذیبی سطح پر عرفان کی مغربی اور مشرقی تاویلوں میں پھنس کر مذہبی وابستگی کی پاس داری کی جائے یا روشن خیالی کی راہ اپنائی جائے ؟
۱۱) اردو کا معاشرہ نثر اور تخلیقی نثر سے اس قدر بے گانہ کیوں ہے ؟
٭٭
یہ سوالات عبدالسلام کی زندگی پر ناول لکھنے کی نیت سے جمع کیے جانے والے مواد، اس کی ڈائریوں اور دیگر مضامین کے مطالعے کے وقت بھی میرے ذہین میں کروٹ لیتے رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود عبدالسلام کو لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور وہ خود کو ناول نگار سمجھتا تھا۔ انگریزی کا معلم ہونے کے باوجود اردو ادب سے اس کا رشتہ گہرا تھا۔ بعض اوقات تو مجھے حیرت ہوتی کہ اس کے فکشن کے متعلق خیالات میرے خیالات سے کس قدر ملتے ہیں۔ وہ کہتا ہے :’ زندگی پانی، ہوا، اور خوشبو کی طرح ہے۔ جن کا کوئی ایک فارم نہیں ہے۔ ناول کو بھی زندگی کی طرح ہونا چاہیے۔ یا اس کا مشہور جملہ: ’’ ناول زندگی پر خدا کی تنقید ہے۔ ایک ایسے خدا کی جو ہے، لیکن کہیں موجود نہیں۔ ‘‘ مجھے بے حد پسند ہے۔ ایسا لگتا ہے میں خود اس بات کو لکھنا چاہتا تھا۔
عبدالسلام کے کردار پر مبنی ناول لکھنے کا خاکہ تیار کرتے کرتے میں نے آپ کے سامنے اپنے دل کے چند وسوسے بیان کر دیے۔ یہ باتیں میں اس خاکے میں تو لکھ سکتا ہوں، ناول میں اس کو عیب سمجھا جائے گا۔ کئی بار یہ خیال بھی آیا کہ صرف معلومات کی بنیاد پر ناول لکھنا آسان نہیں ہو گا۔ ناول کے آرٹ سے میری واقفیت ابھی کم ہے۔ اس لیے غلطی اور لغزش کے امکانات ہوں گے۔ ممکن ہے دوران تحریر میں جگہ جگہ بہک جاؤں۔
کیا آپ ایک مقصود، مشق یافتہ اور پرفیکٹ زندگی گزار رہے ہیں۔ عبدالسلام کا بیان اس ضمن میں درست ہو گا کہ ہماری ٹریجڈی یہی ہے کہ ہمیں زندہ رہنے کا کام اس کی مشق کے بغیر دیا گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں ایک ایسے آدمی کی کہانی میں ناول کے کلاسیکی فارم میں کیسے لکھوں گاجس کی زندگی میں انتشار تھا۔ افعال میں کبھی توازن نہیں رہا۔ جس کی زندگی بے ترتیب، غیر ارادی اور موج رواں کی طرح تھی۔ )
٭٭
ایک رات کا ذکر:
بمبئی سے دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر کسارا گھاٹ ایک علاقہ ہے۔ حدِ نظر پہاڑی سلسلہ ہے۔ پہاڑوں کی بلندی سے جھانکے پر چند اداس ندیاں رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ موسم باراں میں جب اطراف سے سیاہ بھور بادل اس پہاڑی علاقے پر سینہ پھاڑ کر روتے ہیں تو ندیاں سرخ وسفید جھاگ کے ساتھ بہتی ہیں لیکن تب بھی ایسا لگتا ہے کسارا گھاٹ کی فضا میں کسی مہجور عورت کا گیت محلول ہو گیا ہے۔ اردو شاعر بانی اس مقام کی سیر کرتے تو وہ اسے ’ نواح جاں کی لایعنی تفسیر‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ کسارا گھاٹ کے بارے میں عبدالسلام نے لکھا ہے کہ اس گھاٹ کی تنہائی میں کچھ گھنٹے سانس لینے سے دل کا انتشار کم ہو جاتا ہے۔ یہاں مظاہر فطرت سے مکالمہ کیا جائے تو خاموشی کی دیوار سے جوابات چھن کر آتے ہیں۔ کسارا گھاٹ کے جنوب میں ’دل آباد ‘ نامی ایک چھوٹا سا گانو تھا جس کو چاروں طرف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا۔ یہ گانو اس کے ایک دوست سرفراز صوبے دار کا تھا۔ سرفراز بمبئی کی ایک کالج میں نفسیات کا لیکچر ر تھا۔ دونوں کو جب بھی وقت ملتا وہ ’دل آباد‘ چلے جاتے۔ عبدالسلام نے اپنی زندگی کی بعض انتہائی اداس شامیں ’دل آباد‘ میں گزاری ہیں۔ سردی کے موسم میں یہاں سر شام سورج زرد پھول کی طرح دھند سے اٹے ہوئے تالاب میں سرنگوں نظر آتا ہے۔
اس روز بھی سورج کی کرنیں سرد ذرات میں بہت جلد دم توڑ چکی تھیں اور جانے کس ماتم کی آمد تھی کہ عبدالسلام کا دل شام سے ہی ایک محور کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ جانے کون سے گھاؤ ہمارے دلوں میں کب کے لگے ہوتے ہیں جو پھر ماضی کے کھنڈرات سے کبھی کبھار غبار بن کر اٹھتے ہیں اور غیر محسوس طور پر روح میں رقصاں ہو جاتے ہیں۔
زرد سفید دھند عبدالسلام کے چہرے پر نیا رنگ بھرنے میں ناکام تھی اس لیے خود بھی مغموم تھی۔
جب دھند رات بہت روتی ہے تو صبح ’دل آباد‘ کے مکانوں کی کھڑکیوں کے شیشوں پر اس کے آنسوؤں کی پرت چڑھ جاتی ہے۔ جس پر بچے ا، آ، ئی۔ ۔ لکھنے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ اس شب بھی یخ بستہ تنہائی کوئی فطری وقفہ نہیں تھی، بلکہ عبدالسلام کے دل کی بھول بھلیاں کی کشاکش بھی اس میں شامل تھی۔ ایک بے منزل، بے مقصد، رائے گاں زندگی کا احساس ؛کہیں بہت اندر، اپنا ایک آدھا ادھورا چہرہ، خلق کئے ہوئے تھی۔ جسے وہ سما جی روابط کے استحکام کے لیے باطن کے زنداں میں پوشیدہ رکھنے میں کامیاب تو ہوا تھا لیکن تضاد سے پیدا ہونے والے تلاطم سے وہ مستقل متصادم بھی تھا۔ اس متصادم تلاطم میں خدا سے اس کی روح کے منقطع ہونے کا نوحہ بھی جاری تھا۔
رات کا سایہ جنگلی پودوں اور درختوں پر پھیل گیا تھا۔
کیڑوں کی موسیقی، سوکھی گھاس کے قطعوں، جھاڑیوں اور نیم خوابیدہ درختوں کی شاخوں سے بہہ رہی تھی۔ جس میں اتنا نشہ تھا کہ ہوا کو اپنے قافلے سے کاٹ کر اپنے ساتھ دور تک بہا لے جا رہی تھی۔ اندھیرا عبدالسلام کو منور دکھائی دیتا تھا۔ اس سرد شب کی سیاہی سے اس کے دل میں سوئے اندھے پرندے کسمسائے اور پھڑپھڑائے۔ اس نے دیکھا:دل کے نہاں خانے سے اندھے پرندے باہر آئے اور ظلمتِ شب میں اس کے ارد گرد جگنو بن کر چمکنے لگے۔
جگنو کہاں سے آتے ہیں ؟
انسان اس کرہ پر کہاں سے آیا ہے ؟
……
خدا کیوں ہے ؟
کیا روح جگنو ہے ؟
کیا جگنو خدا ہے ؟
٭٭
عبدالعزیز کے دل میں سوالات کچھ اس انداز سے پیدا ہوتے تھے گویا وہ خود ایک بھنور ہے اور یہ سوالات نفس کی گردش جس میں اس کی روح ڈوب رہی ہو۔
اس لمحے شاید وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اگر خدا روح ہے تو میں اسے اپنے دل کے نہاں خانے میں مقید کئے ہوئے ہوں پھر عبادتوں کے پل صراط کیا معنی رکھتے ہیں۔ عبادتیں افراد کو سیاسی مصلحتوں سے دور رکھنے اور ریاست کا مطیع بنانے کا آلہ تو نہیں ؟ عقائد کی بنیاد پر سیاسی اقتدار حاصل کرنے والے مذہبی مبلغ کیا عوام کی سادگی کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے ڈھال بناتے رہے ہیں۔
سرفراز ایک طرف بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ وہ جانتا ہے کہ عبد السلام جب چپ چاپ ہو تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے۔
عبد السلام شاید خدا کو صداقت سمجھتا ہے۔ جسے اجتماعی آنکھ اور عبادتوں کے سلسلوں سے دریافت نہیں کیا جا سکتا۔ ’’ ہر روح ایک انفرادی تجربہ ہے اور ہر روح کا خدا سے رشتہ اس کے انفرادی وجود اور فہم کی سطحوں سے تشکیل ہو گا۔ خدا بے ہئیت، لا ماضی، عدم خواہش، لامکاں اور لامستقبل ہے۔ انسان ماضی، خواہش، مکان اور مستقبل سے مربوط ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور پیداوار ہیں۔ ‘‘ یہ عبارت ’دل آباد‘ کی ایک سیر کے چند روز بعد اس نے اپنی نجی ڈائری میں اتاری تھی۔
عبد السلام نے سرفراز کی سگریٹ سے اپنی سگریٹ سلگائی۔ اور پھر محو خیال ہو گیا۔ اس نے سوچا:
خدا اور اِنسان کے درمیان جو رشتہ ہے اسے آگہی کے ایک مخصوص نقطے پر محسوس کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد زندگی کے تصرف کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ ایک ایسا عرفان جس سے خاموشی، مسکراہٹ اور محبت کی حقیقی معنویت آدمی پر آشکار ہوتی ہے۔ اس نے سگریٹ کا ایک کش لیا اور پھر سوچا: عرفان نفس سے زندگی ایک تجرباتی صداقت بن کر پر لطف ہو جاتی ہے۔
عبدالسلام کے دل کی نسیجوں میں سگریٹ کا دھواں پھیلا اور اس کی سانس کے ساتھ بہت سارے اندھے پرندے صدیوں کی قید سے آزاد ہو کر سیاہ شب کی تنہائی میں پھیل گئے۔ ۔ ۔ اب وہ اردگرد کی تاریکی میں روشنی پھیلا رہے تھے۔
بہت دیر تک خاموشی ’دل آباد ‘ پر سیاہ کئے رہی۔
دونوں بہت ساری سگریٹس پی چکے تھے۔
٭٭
’’عبدالسلام کیا ہوا؟ابہت مایوس لگ رہے ہو؟‘‘ سرفراز نے کہا۔
’’یار دل میں بے شمار خیالات آتے ہیں ؟
’’ کونسے خیالات؟
(وقفہ)
’’ کونسے خیالات یار‘‘؟
’’ ہم کون ہیں یار جو ان پہاڑوں کا نظارہ کر رہے ہیں۔ کیا ہم بھی بس ایک نظارہ ہیں جسے کوئی صدیوں کے فاصلے سے کر رہا ہے۔ ‘‘
’’ تو بھی یار۔ ۔ کیا کیا سوچتا رہتا ہے ؟‘‘
’’کیا کروں یار۔ ۔ یہ سوالات بے چین کرتے ہیں ‘‘
’’تو خالی پھوکٹ دماغ کیوں خراب کرتا ہے۔ لے ماوا کھا۔ ‘‘
’’کون سا ہے۔ ‘‘
’’میرے کو معلوم ہے یار۔ ۔ ۔ تو کون سا کھاتا ہے۔ وہی بھولا، کتری سپاری، اسٹار مار کر۔ ۔ ‘‘
عبدالسلام مسکرایا۔ سرفراز نے ماوا نکال کر اسے دیا۔
دونوں مسکراتے ہوئے سرفراز کے گھر میں داخل ہوئے جہاں اس کی والدہ نے ان کے لیے چائے بنا رکھی تھی۔ وہ چاردیواری میں چلے گئے تو باہر جگنوؤں کی دنیا بھی مفقود ہو گئی۔
٭٭٭
٭
اس کی زندگی کا ایک عجیب تجربہ :
عبدالسلام کی خالہ زاد بہن اس سے کم و بیش دس بارہ سال بڑی تھی۔ اس کی شادی میں عبدالسلام اپنے والدین کے ساتھ شریک ہوا تھا۔ شادی اس کے آبائی گانو میں تھی جو ممبئی سے سات گھنٹوں کی دوری پر واقع ہے۔ گانو کی شادی میں اسے خوب مزہ آیا تھا۔ کوکنی رسوم اور بولی سے اس کی واقفیت کم تھی۔ اس کے باوجود اسے کوکن کا ماحول اچھا لگا۔ بمبئی واپسی کے تین روز بعد اس کی خالہ نے فون پر اس کے والدہ کو بتایا کے شگفتہ سسرال چھوڑ کر گھر واپس آئی ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے راضی نہیں ہے۔ طلاق چاہتی ہے۔ عبدالسلام کے والداس خبر سے خاصے پریشان ہوئے۔ سارا دن کچھ اور شتے داروں سے صلاح مشورہ کرتے رہے۔ کالج سے واپسی پر عبدالسلام کو اس بات کا علم ہوا تو پہلے اسے حیرت ہوئی پھر ماجرے کی پیچیدگی اس کی دلچسپی کا سبب بن گئی۔ وہ اس چیستان کو سمجھنا چاہتا تھا کہ دو تین دن میں ایک لڑکی طلاق پر بہ ضد کیوں ہے۔ اسی لیے جب دوسری صبح اس کے والد گانو جانے کے لیے تیار ہوئے، وہ بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔
گانو کے چند عمر رسیدہ ا اور بزرگ افراد آنگن میں جمع تھے۔ قریبی رشتے دار گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔
شگفتہ مٹی کے چبوتروں سے بنے ہوئے ایک کمرے میں بیٹھی تھی۔ جس میں ایک چالیس واٹ کا بلب رات آٹھ بجے روشن ہوتا اور گیارہ بارہ بجے کے درمیان بغیر کسی کو سوئچ آف کرنے کی زحمت دئے خود سو جاتا تھا۔ ایک طاق میں چراغ جل رہا تھا۔ جس کے مقابل کتابِ مقدس رکھی ہوئی تھی۔ اس کتاب کو صرف رمضان کے مہینے میں پڑھا جاتا اور ساری قسمیں اس سے منسوب کی جاتیں۔ ایک کونے میں چٹائے پر گودڑی بچھی ہوئی تھی۔ اگر آپ اجالے میں گودڑی کو دیکھیں گے تو اندازہ ہو گا کہ کس ریاضت سے اسے تیار کیا گیا ہے۔ کیسے کیسے گل بوٹے، پرندے، اور جغرافیائی علامات اس پر بنی ہیں۔ ایک طرف تھوک دان رکھا ہوا تھا۔ اس کے قریب ہی پان سپاری کی تھیلی اور اڑکیتا رکھا ہوا تھا۔ پانی سے بھرا ہو ا ایک لوٹا تھا۔ زمین گوبر سے لیپی ہوئی تھی۔ کمرے کی اندرونی دیواروں کو لال مٹی سے رنگا یا گیا تھا۔
شگفتہ کو سمجھانے کی سب نے بہت کوشش کی تھی لیکن وہ اپنے ارادے پر قایم تھی۔ یہاں کے لوگوں نے لڑکے والوں سے بات کی وہ ہر طرح کی مفاہمت کے لیے تیار تھے۔ لیکن شگفتہ طلاق پر بہ ضد تھی۔ اس کا کہنا تھا : ’اگر اس کی طلاق نہیں ہوئی تو جان سے جائے گی۔ ‘
آنگن میں بیٹھے بزرگوں کی باتیں سن کر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہا تھا بلکہ گتھی الجھتی جا رہی تھی۔ اس نے سوچا وہ خود شگفتہ اور خالہ سے مل کر مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
دروازے کی کڑی کو کھٹکھٹا کر وہ اس نیم روشن کمرے میں داخل ہوا جس میں کویلوں اور دیوار کے درمیان کی پھٹوں سے چاند کی روشنی ایک گاڑھی لکیر کی صورت کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ ۔ کونے میں شگفتہ دیوار سے لگ کر بیٹھی تھی۔ گھٹنوں کے گرد کہنیوں کا گھیرا بنائے۔
’’بھانا۔ ‘‘(آپا۔ ۔ )
’’ کون‘‘
’’بھانا عبدالسلام۔ ‘‘
’’ممبئی والو۔ ‘‘ (بمبئی والا)
’’ ارے یہ بس۔ ‘‘
اس نے گھٹنوں کے گرد سے کہنیوں کو الگ کیا اور گودڑی پر اس کے لیے جگہ بنائی۔
عبدالسلام اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے شگفتہ کے چہرے کو اتنے قریب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سفید اور منور آنکھیں عبد السلام پر مرکوز تھیں۔
’’ تم کیوں آئے ہو۔ ‘‘
’’ ہمیں برا لگا۔ ‘‘
’’برا تو سب کو لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’ مگر کیوں آپا۔ ‘‘
’’ ابھی تم چھوٹے ہو۔ ۔ ۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے بڑا ہونا پڑتا ہے۔ ‘‘ شگفتہ نے انتہائی متین لہجے میں کہا۔
’’ آپا میں بڑا ہو چکا ہوں۔ ‘‘
’’بدھو ویسے بڑا نہیں۔ تھوڑا زندگی کا تجربہ۔ ‘‘
’’ مجھے بہت ہے۔ ‘‘
شگفتہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
’’بھانا میں جاننا چاہتا ہوں۔ کیا تمھیں لڑکا پسند نہیں ہے ؟‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘
’’ اس کے گھر والوں سے پریشانی ہے۔ ‘‘
’’نہیں۔ وہ بھی اچھے ہیں۔ ‘‘
عبدالسلام نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’ارے تو پھر پروبلم کیا ہے۔ ‘‘
’’ کچھ باتیں ہوتی ہیں جن کو سمجھنے کے لیے بڑا ہونا پڑتا ہے۔ ‘‘ اس بار شگفتہ نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
’’باتیں بنا کر مجھے ایڑا مت بناؤ۔ کہیں اس لڑکے نے تمہیں نا پسند تو نہیں کیا؟‘‘
’’ بالکل نہیں۔ ‘‘
’’ پھر کیوں۔ ۔ ۔ کیوں سارے خاندان کو۔ ‘‘
عبدالسلام جملہ مکمل نہ کر سکا۔ شگفتہ نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
اس دوران محلے کی ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی۔ اونچے قد اور بھرے ہوئے بدن کی لڑکی۔ جس کی عمر چوبیس پچیس سال ہو گی۔
’’ شگفتہ۔ مھاورں تلوچاں ہے۔ ‘‘(مچھلی تلنا ہے )
’’ براں۔ تو جامنگ‘‘ ( ٹھیک ہے، تم جاؤ۔ )
اس نے جاتے ہوئے ایک لمحہ ٹھہر کر عبدالسلام کو دیکھا۔ عبدالسلام عمر کی اس منزل پر، یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس طرح ٹھہر کر اسے دیکھنے کا کیا مفہوم تھا۔
’’ا رے کلثوم ماجو بھاس ہے۔ ‘‘ ( ارے کلثوم میرا بھائی ہے۔ )
یہ جملہ غیر متوقع تھا اور شگفتہ کا لہجہ بھی اسے کچھ عجیب لگا۔ پل بھر کے لیے عبدالسلام کوا یسا لگا سچ مچ ابھی وہ بہت چھوٹا ہے۔
تیز طرار اور تیکھے نقوش والی وہ لڑکی چلی گئی لیکن اس کے چہرے کے خطوط سلام کی آنکھوں میں کچھ دیر ٹھہرے اور پھر یادداشت میں محفوظ ہو گئے۔
’’یہ کون تھی آپا۔ ‘‘
’’ میری خاص سہیلی ہے۔ ‘‘
’’ اچھا۔ ‘‘ کہہ کر اس نے ایک بار شگفتہ کی سفید چمک دار آنکھوں میں دیکھنے کی نیت سے آنکھیں اٹھانے کی کوشش کی لیکن اس کی قوت نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور اس کی نظریں چالیس واٹ کے بلب پر جا کر رک گئیں جس کے ارد گرد بہت سارے جنگلی کیڑے مکوڑے اڑ رہے تھے۔ دیوار کی ایک پھٹ سے ایک چھپکلی ان کو گھور رہی تھی۔
دیر تک عبدالسلام وہاں بیٹھا رہا لیکن جس جواب کا اسے انتظار تھا، اسے نہیں ملا۔ دو دن قیام کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ بمبئی واپس آ گیا۔ چند ہفتوں بعد شگفتہ کی طلاق ہو گئی۔ عبدالسلام کئی مہینوں تک ایک الجھن کا شکار رہا۔ اس کی یادداشت میں کلثوم کے تیکھے نقوش ابھرتے اور اسے ایسا لگتا اس کی حسین اور تاب دار آنکھیں اس کی طرف گھور رہی ہیں۔
طلاق کے چھ مہینے بعد اس نے شگفتہ کو دو خط لکھے۔
کبھی کبھار کچھ رشتے داروں سے اس کی خیریت بھی دریافت کیا کرتا۔
کرسمس کے موقع پر کالج ہفتے بھر کے لیے بند تھا۔ اس کے دل میں گانو جانے کا خیال کروٹ لے چکا تھا۔ اس نے والد سے اجازت لی اور شگفتہ سے ملنے نکل پڑا۔
کیا شگفتہ کی ٹریجڈی نے اس کے دل میں ہمدردی پیدا کی تھی ؟کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ کلثوم کی تاب دار حسین آنکھوں کا جادو جاننے کا اشتیاق اس کے تحت الشعور میں پیدا ہوا تھا ؟دوران سفر وہ متواتر ایس ٹی بس کی کھڑکی پر گردن لٹکائے باہر درختوں، کھیت کے قطعوں اور چھوٹی موٹی بستیوں کو دیکھتا رہا۔ شگفتہ کا نیم اندھیرے میں دیکھا ہوا مغموم چہرہ کہیں کھو سا گیا تھا۔ بس، پل بھر کے لیے چہرے کا کوئی ایک خط ابھرتا اور ذہن کی نیم تاریکی میں دوبارہ ڈوب جاتا۔
جس وقت وہ شگفتہ کے مکان کی دہلیز پر پہنچا سورج کی کرنیں اس کے سرخ ہالے میں مراجعت کر چکی تھیں۔ آنگن میں امرود کا ایک پیڑ تھا۔ وہ کچھ اداس سا لگ رہا تھا۔ کئی دنوں سے سرِشام ایک ہری دم والا پرندہ آ کر اس کی ایک سوکھی ہوئی شاخ پر بیٹھ جاتا اور ایک ’فراموش کردہ داستان‘ کا کچھ حصہ سناتا تھا۔ داستان ۱۸۵۷ کے آس پاس کسی نے تحریر کی تھی۔ پرندہ ہر دن کہانی کو ایسے المیاتی موڑ پر لا کر قصہ ختم کرتا تھا کہ امرود کے پیڑ کی اداسی میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ ’فراموش کردہ داستان ‘ بہت طویل تھی اور پرندے نے امرود کے پیڑ سے وعدہ کیا تھا کہ جب تک داستان ختم نہیں ہو گی تب تک وہ اسے یہ نہیں بتائے گا کہ وہ ’ طاؤس چمن‘ کے دربار سے مفرور پرندہ ہے۔ اس کے مالک کا نام طلسم نیر ابن گنجفہ ابن عطرِ کافور تھا۔
آنگن کے دروازے سے لگ کر مہمانوں کے بیٹھنے کا کمرہ تھا جسے وٹے دار کہتے ہیں۔ وہیں سے اندرونِ مکان جانے کے لیے ایک دروازہ تھا۔ اندر دائیں بائیں دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں مالے کے لیے سیڑھی لگی تھی۔ پھرا ترن کے بعد پڑی تھی جس میں ایک طرف موری اور دوسری طرف چولہا تھا۔ ایک کونے میں لکڑیاں اور سوکھے پتوں کا انبار تھا۔ پڑی کے درمیان سے پچھواڑے میں نکلنے کے لیے ایک دروازہ تھا۔ پڑی گوبر سے لیپی ہوئی تھی۔ آنگن کی فصیل پتھروں سے بنی تھی۔ اس سے الگ کر دو کلم کے پیڑ (ہاپوس آم ) اور ایک شالو کا پیڑ تھا۔ ایک کونے میں چھوٹی کھوپٹی تھی جس میں برسات کے لیے لکڑیاں جمع کر کے رکھی جاتی ہیں۔
اس نے وٹے دار سے آواز لگائی۔ شگفتہ اس وقت پڑی میں تھی۔ اس کے کانوں پر آواز کا بس ارتعاش ہوا۔ وہ پڑی سے اٹھ کر وٹے دار کی طرف آئی۔ سلام پر نظر پڑھتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہت پھیلی۔ وہ آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے سوٹ کیس لیتے ہوئے کہا : ’ ارے اچانک۔ ‘
’’ ہاں تمہاری یاد آ رہی تھی۔ ‘‘
’’ تجا سارکھوس بھاس ہاؤے۔ ‘‘( بھائی ہو تو تمہاری طرح)
’’اچھا چل اندر آ۔ ‘‘ اس نے کہا۔
اس کی خالہ پڑی میں بیٹھی چاول چن رہی تھی۔ اس نے خالہ کو سلام کیا۔ خالہ نے کھڑے ہو کرا سے گلے لگایا۔
’’تھوڑا الما پی۔ ‘‘ ( سلیمانی چائے پیو)
’’بُکّی کمی ٹاک۔ ‘‘( چائے پتی کم ڈالنا)
شگفتہ چائے کی تیاری میں لگ گئی۔ عبدالسلام باہر منگلیدار میں جا کر ہاتھ پیر دھونے لگا۔ چائے چولہے پر رکھ کر اس نے ہڑپے ( لکڑی کا بڑا صندوق جس کا استعمال اشیائے خورد و نوشت اور دیگر غذائی اجناس رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ) سے ایک صاف ستھرا ٹاول نکالا۔
’’باہر چو دستے ‘‘( فارین کا لگ رہا ہے )
’’ہاں ‘‘ کہہ کر وہ مڑی۔
چائے ابل رہی تھی۔ شگفتہ نے اندر جا کر چولہے کی سلگتی ہوئی لکڑیوں کو بجھایا۔ ابھی سلام ٹاول سے چہرہ پونچھ رہا تھا کہ آنگن کی فصیل کے اس طرف سے گزرنے والی پگڈنڈی پر اسے کلثوم نظر آئی۔ وہ بھی وہاں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ بلب کی ہلکی زرد روشنی میں اس کا چہرہ پرکشش اور پر اسرار دکھائی دے رہا تھا۔
جب دونوں کی آنکھیں ملیں تو کلثوم نے پوچھا ’’کنوا ایلوس۔ ‘‘( کب آئے ؟)
’’آج ابھی ابھی۔ ‘‘
’’اچھا۔ ‘‘
پھر کلثوم نے اونچی آواز میں کہا۔
’’ گو شگفتہ۔ ۔ ۔ اگو پن ہیس کھیں۔ ( ارے شگفتہ ہو کہاں۔ )
شگفتہ کے ہاتھ سے کپ گرتے گرتے رہ گیا۔ اس نے و ہیں سے جواب دیا۔ ۔
’’ایلوں ‘‘ ( آئی)
شگفتہ نے چائے کا کپ عبدالسلام کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے جواب دیا۔
’بول۔ ‘
’’ارے سکل مالا تو جاں، نواں پولکاں ہوا یں۔ ‘‘ ( کل مجھے تیرا نیا بلاؤز چاہیے۔ )
’’ملیل ملیل۔ ‘‘ ( ٹھیک ٹھیک)
’’اچھا چل سکل بات کروں ‘‘ (چلو ٹھیک ہے کل بات کرتے ہیں )
عبدالسلام چائے کا کپ لیے، وہیں کھڑے ہو کر ان کی باتیں سن رہا تھا۔
٭٭
کلثوم جانے کے لیے مڑی۔ ایک قدم اگلے بڑھ کر وہ رکی اور گردن موڑ کراس نے ایک بار شگفتہ اور عبدالسلام کو دیکھا۔ زرد بلب کی روشنی کچھ اور پیلیا گئی تھی۔ زرد مائل روشنی نے امرود کے پیڑ کی افسردگی کو مزید بڑھا دیا تھا۔ آنگن کی فصیل جو اندر سے کھوکھلی تھی اس میں ایک بے رنگ سانپ انگ رہا تھا۔ شالو کے پیڑ پر کوئل بیٹھی سارے دن کی تھکن کو یاد کر رہی تھی۔ شگفتہ نے اس کے طرف دیکھا لیکن اس کی نظروں میں اتنی تاب نہیں تھی کہ وہ بھی اس کی آنکھوں میں جھانک کر کچھ تلاش کر پاتا۔ اس نے کپ سے چائے کا آخری گھونٹ پیا۔ آنگن کی فصیل میں لیٹا سانپ گھر اور محلے کے تمام افراد کی بو سے واقف تھا۔ عبدالسلام کی تازہ بو سونگھنے کے بعد وہ الرٹ ہو گیا تھا۔ ورنہ سورج ڈوبنے کے بعد وہ وہاں سے نکل کر فصیل کے پیچھے والی جھاڑیوں سے ہو کر قریب کے جنگل میں کچھ دور شکار کی تلاش میں اب تک نکل چکا ہوتا۔
کلثوم نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔
مگر اس کی سفید پر اسرار آنکھیں وہیں بلب کی زرد روشنی میں ساکت تھیں۔ گویا عبداسلام کو گھور رہی ہوں۔
٭٭
رات میں کھانے پر خاندان کے دیگر افراد سے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔
بھونے ہوئے کولم کا ذائقہ اسے بہت اچھا لگا۔
کوکن میں رات کے کھانے کے بعد آنگن میں بیٹھ کر گپ شپ کرنے کا رواج ہے۔ تاروں بھرا آسمان جھلملا کر اس گفتگو کا لطف لیتا ہے۔ سلام نے سوچا اتنا روشن آسمان، مھانگر ممبئی میں نظر کیوں نہیں آتا؟ وہ کہکشاں کو دیکھتا رہا۔ چاروں طرف بکھری رات کی بے زبانی، آم، پیپل اور کٹھل کے پیڑوں کی شاخوں سے پیدا موسیقی کے ذریعے اپنا گیت سنا رہی تھی۔ ایک طرف دھومی کی گئی تھی۔ جس سے ہلکا ہلکا سفید دھواں لہروں کے صورت اٹھتا تھا اور تھوڑے سفر کے بعد شب کی چا در میں گم ہو جاتا تھا۔
خالہ کے کئی سوالوں کا جواب عبدالسلام دیتا رہا۔
درمیان میں شگفتہ بھی اس کی تعلیم اورمستقبل کے منصوبوں پر سوالات کرتی رہی۔ وہ جواب دیتا رہا۔ ایک سوال وہ بھی شگفتہ سے پو چھنا چاہتا تھا۔
مگر خالہ کی غیر موجودگی اس کے لیے لازمی تھی۔
اتفاق کہیے کہ خالہ پان دان لانے خود ہی اٹھ گئی۔
’’ شگفتہ آپا۔ ۔ کلثوم کچھ نرالی لگتی ہے !‘‘
ہنستے ہوئے شگفتہ نے کہا۔ ‘‘وہ بہت اچھی ہے۔ ‘‘
’’ہاں۔ مگر اس کی آنکھوں میں عجیب تیج ہے۔ کیوں ؟‘‘
’’تمہیں ایسا لگتا ہے۔ ۔ تو ہو گا۔ ‘‘
’’تم کب سے اس کو جانتی ہو۔ ‘‘
’’ہم بچپن سے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے۔ ‘‘
٭٭
عبدالسلام کے لیے لفظ ’ محبت ‘ اس وقت ایک سادہ سا لفظ تھا۔ شاید اس لفظ کی بوقلمونی اور پیچیدگی سے واقف ہونے کے لیے اسے ابھی سچ مچ کچھ اور بڑا ہونے کی ضرورت تھی۔ کیا شگفتہ اس بات کو بھول گئی تھی کہ عبدالسلام ابھی اتنا بڑا نہیں ہوا ہے۔
(چند روز بعد ایک صبح )
خالہ نے اس کے لیے چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گھاؤنے بنائے۔ جنھیں اس نے بڑے شوق سے کھایا اور خالہ کی تعریف کرتا رہا۔ چائے کے بعد وہ وہیں چولہے کے قریب بیٹھ کر خالہ سے گانو کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔ کچھ دیر بعد چند اور رشتے دار اس سے ملاقات کے لیے آئے جن کے ساتھ اس کا اچھا وقت گزرا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد وہ لیٹا رہا۔ جلدی ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد کلثوم آئی۔ شگفتہ اور وہ پڑی میں باتیں کرتے رہے۔ پھر شگفتہ اسے کسی کام کے بہانے اندرونی کمرے میں لے گئی۔ خالہ جنگل میں لکڑیاں لانے چلی گئی تھی۔
آدھا گھنٹہ شاید وہ باتیں کرتی رہی ہوں گی۔
گھر میں پھیلی خاموشی نے عبدالسلام کو جگا دیا۔ اس نے پڑی کی طرف جھانکا۔ دروازے پر اندر سے کڑی لگی ہوئی تھی۔ اس نے کلثوم کے کمرے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ وہ بھی بند تھا۔ وہ اٹھ کر دبے پاؤں پڑی میں گیا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ دوبارہ شگفتہ کے کمرے کی طرف آیا۔ دروازے کے پاس جا کر رک گیا۔
کمرے میں وہ دونوں باتیں کر رہی تھیں۔ آواز مٹی کی دیوار سے چھن کر آ رہی تھی۔ بہت مدھم۔ ۔ الفاظ کا تسلسل یکایک ٹھہر جا تا لیکن چند ساعتوں بعد دوبارہ جاری ہو جاتا۔ سلام کے تجسس میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ وہ دیوار سے لگ کر چپ چاپ کھڑا رہا۔ دیوار اس کی اس ادا سے مبہوت تھی۔ تھوڑی دیر بعد الفاظ کا باہر آنا بند ہو گیا۔ خموشی کو اس نے اپنے اطراف پھیلتے ہوئے محسوس کیا۔ دس بارہ منٹ بعد مدھم سانسوں کی حیران کن لہر یں بہتی ہوئی دیوار سے ٹکڑا کر واپس کمرے میں لوٹ رہی تھیں جن ارتعاش کو سلام نے محسوس کیا۔ اس کا ایک ہاتھ دیوار سے لگا ہوا تھا۔ دیوار کی مٹی آواز کی لہروں کے ارتعاش کو پہلے خود میں جذب کرتی پھر سلام کی ہتھیلی میں اس کے تاثر کو منتقل کرتی تھی۔ لیکن بہت جلد وہ طلسمی ارتعاش بھی ٹوٹ گیا۔ تب شگفتہ کا ایک جملہ اسے صاف طور پرسنائی دیا۔
’’آج نہیں۔ میرا بھائی آ یا ہوا ہے۔ وہ جاگ جائے گا۔ ‘‘
اتنا سنتے ہی عبدالسلام دبے پاؤں آ کر دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔
سانسوں کی حیران کن لہروں نے اس پر شگفتہ کی طلاق کا راز افشاں کر دیا تھا۔ کچھ دنوں تک وہ پر ملال رہا۔
آئندہ دو تین برسوں میں زندگی کی زیادہ سفاک صداقتوں سے اس کا سامنا ہونے والا تھا، تب اس نے اس موضوع پر شگفتہ سے بات بھی کی اور یہ تاثر دیا کہ وہ معترض نہیں ہے۔ شگفتہ کو حیرانی ہوئی جسے عبدالسلام کے اس جواب نے دور کر دیا۔ ’طلاق کے سبب کو سمجھنے کے لیے اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ ‘
شگفتہ، کلثوم اور اس کے درمیان آگے چل کر ایک تعلقِ خاطر پیدا ہوا۔ عبدالسلام نے انھیں کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ وہ غیر فطری اظہارِ نفس کو غیر حقیقی سمجھتا ہے۔ مزید چند برسوں بعد اس کا کہنا تھا۔ ’’ صرف اقلیت میں ہونے سے کوئی فعل غیر فطری نہیں ہو جاتا۔ ‘‘ وہ شگفتہ کی جسارت اور نجی زندگی کو یہ کہہ کر تسلیم چکا تھا کہ کم از کم اس ماضی حال جاری زندگی میں کوئی فریب نہیں ہے۔ ان ہی دنوں اسے نظیر کی گم شدگی کے سبب کا ادراک ہوا۔ مدرسے کے امام کا مکروہ چہرہ یاد آنے پر اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو جاتا۔
رفتہ رفتہ خاندان کے دیگر افراد پر بھی شگفتہ اور کلثوم کے رشتے کی حقیقت کھل گئی اور سب نے ان دونوں سے منہ موڑ لیا۔ چند برسوں بعد خالہ بھی لقمۂ اجل ہو گئیں۔ ان کے انتقال کے بعد شگفتہ اکیلی ہو گئی تھی۔ رشتے دار اس سے تعلقات محدود کر چکے تھے۔ دوسری طرف عبدالسلام سے اس کی قربت بڑھ گئی تھی۔ شاید اسی لیے سال دو سال کے عرصے میں وہ گانو جا کر اس سے ملتا۔ کلثوم سے بھی بات چیت ہوتی۔ وہ دونوں کے لیے تحفے لے جاتا۔ ان تینوں کے دلوں کے دھاگے جس مضبوطی سے آخری دم تک جڑے رہے وہ واقعی بڑی انوکھی مثال تھی۔
٭٭٭
٭
عبدالسلام کے دل میں اس کے گانو کی عورتوں اور ندیوں کو دیکھ کر ایک عجیب خیال پیدا ہوتا جسے ایک دن جامع ترتیب میں یوں اس کے ذہن میں متشکل ہونا تھا: ’’ کوکن کی عورتوں اور ندیوں کا دکھ یکساں ہے۔ ‘‘ یہ جملہ اس کی نجی ڈائری میں اس کے گانو کے بارے میں لکھے گئے ایک طویل پیراگراف میں ہے۔
۱۹۹۸ ء میں اس نے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ مئی کی چھٹیوں میں سیر و تفریح کے لیے وہ کوکن گیا۔ اس بار وہ دو مہینے کوکن میں رہا۔ اس نے اپنے تمام رشتے داروں اور گانو کے لگ بھگ سارے لوگوں سے ملاقات کی۔ گانو کے بیشتر گھروں میں جاتا، بیٹھتا، اور زندگی کا مشاہدہ کرتا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ ایک دن فکشن کا مواد بن سکتا ہے۔ اب لوگوں نے کھیتی باڑی ترک کر دی تھی۔ زمین دلتوں کو جوتنے کے لیے دی جاتی جس کے عوض فصل کا ایک حصہ زمین کے مالک کو ملتا۔ بعض زمین کے قطعے بارش میں بھیگتے ہوئے اپنے مالک کی بے توجہی اور نا انصافی پر روتے ہوں گے۔ عبدالسلام کو یاد ہے یہی کچھ دس بارہ برس قبل جبہ گانو آیا تھا اس وقت رشتے کی بڑی عورتیں اسے اپنے سینے سے لگا لیتی تھیں۔ دعائیں دیتی تھیں۔ مگر اب بچوں کو وہ اپنائیت نصیب نہیں ہے۔ حتیٰ کہ قریب المرگ عورتوں کو بھی ان کے بیٹوں نے جماعت کی نصابی کتاب سے محرم اور نا محرم کا فرق سمجھا دیا ہے۔ اب ہاتھ ملانا ’’زنا ’’ کی ایک شکل کہلاتی ہے اور لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہاتھ کا وہ حصہ ہزار برسوں تک جہنم میں جلتا رہے گا۔
جہنم کا ڈر اور قبر کا عذاب عموماً گفتگو کا موضوع ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ مدرسے کھل گئے ہیں جن میں فقہ اور مسلک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جو بچّے عموماً آوارہ گردی کرتے ہیں یا وہ لڑکیاں جو پہلی ماہ واری کے بعد گھر کی فصیلوں سے کود کر ندیوں کے کنارے کروندے کھانے یا رنگ برنگی پتھر چننے جانے کی جسارت کرتی ہیں۔ انھیں فوراًسیاہ لباس پہنا کر اخلاقی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدارس میں داخل کیا جاتا ہے۔
مدارس سے فارغ ہونے کے بعد وہ عالمہ کہلاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک عالمہ سے اس کی ملاقات ۹۸ء کی چھٹیوں میں ہوئی۔ وہ اپنے ایک دور کے رشتے دار کے گھر ان سے ملاقات کے لیے گیا تھا۔ معلوم ہوا وہ جناب کہیں باہر گئے ہیں اور عالمہ ان کی بیٹی ہے جو اس وقت گھر میں اکیلی تھی۔ عبدالسلام اس سے باتیں کرتا رہا۔ یہ ملاقات بہت خوش گوار رہی۔ عالمہ کو پتہ تھا کہ وہ کس رشتے دار کے یہاں مقیم ہے۔ا ب جب بھی اس کے والدین بازار چلے جاتے وہ فون کر کے عبدالسلام کو بلاتی۔ وہ بھی تپاک سے اس کے دیار پر حاضر ہو جاتا۔ عالمہ کی گفتگو میں علمیت اور مذہبی عقیدت کا ملا جلا رنگ تھا۔ عبدالسلام اس سے کافی متاثر ہوا۔ اسے اس کے ہاتھوں کی چائے بہت پسند آئی۔ جس کی اس نے برملا تعریف بھی کی۔
ایک دن دوپہر کے دو بجے ہوں گے۔ عبد السلام پھنس (کٹھل )کی شاکھ (سبزی) کھا کر قیلولہ کے لیے پلنگ پر دراز ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اس کی خالہ سو رہی تھی۔ اس نے فون اٹھایا۔ اس طرف سے عالمہ کی آواز آئی۔ دو تین منٹ بات کرنے کے بعد عالمہ نے اسے اپنے گھر بلایا۔ جب وہ اس کے دروازے پر پہنچا دروازے کی کڑی باہر سے لگی ہوئی تھی۔ عبد السلام نے دروازے کی کڑی کھولی اور اندر داخل ہوا۔
’’عابدہ‘‘
’’ارے آ گئے۔ آؤ اندر پڑی میں آ جاؤ۔ ‘‘
’’اچھا۔ ‘‘
’’عبدالسلام کڑی لگا آنا۔ ہوائیں بہت تیز چل رہی ہیں۔ ‘‘
عالمہ کی ہدایت کے مطابق دروازے سے لگی ہوئی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر اس نے دوبارہ باہر کی کڑی لگا دی۔ وہ پڑی میں گیا۔ پڑی کے ایک کونے میں موری تھی۔ موری میں دروازے کی جگہ پردہ لگا ہوا تھا۔ وہ کمرے کی پائٹن پر بیٹھ گیا۔ تین چار منٹ گزرے ہوں گے کہ عابدہ کی آواز اس کے کانوں پر پڑی: ’’ سلام علیکم۔ ۔ وہ وہاں رسی پر ٹاول ہے ذرا دینا۔ میں بھول گئی تھی۔ ‘‘
’ابھی لایا ‘۔
غسل خانے کے دروازے کے پردے سے ایک مخروطی انگلیوں والا ہاتھ باہر نکلا۔ عبدالسلام نے ٹاول آگے بڑھایا۔ عابدہ کی انگلیوں کا لمس اس کی انگلیوں سے ہوتا ہوا فوراً اس کے دل میں جا کر مدغم ہو گیا۔ وہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ عابدہ فیروزی رنگ کی امپورٹیڈ میکسی پہنے ہوئے، بالوں کو جھٹکتی ہوئی اس کے سامنے جلوہ افروز ہوئی۔ (’جلوہ افروز ہوئی‘ اس نے لکھ کر کاٹ دیا تھا اور لکھا تھا’ آ کھڑی ہو گئی‘۔ شاید دوسری قرات کے بعد ریمارک کے طور پر اس نے اسی لائن کے نیچے سبز روشنائی سے لکھا :’ فارسی اور عربی کے الفاظ سے بیان دل کش نظر آتا ہے لیکن مبالغے اور فریب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کافروں سے کیسے بچا جائے۔ ‘ ) خیر ! لیکن مجھے پتہ نہیں کیوں ’ جلوہ افروز ہوئی‘ لکھنے میں مزہ آیا۔ کیا اس کی وجہ عابدہ کا عالمہ ہونا ہے ؟ اللہ ہی دلوں کا حال جانتا ہے۔ ۔ ۔ ویسے میں لکھ رہا تھا کہ عابدہ فیروزی رنگ کی امپورٹیڈ میکسی پہنے ہوئے، بالوں کو جھٹکتی ہوئی اس کے سامنے جلوہ افروز ہوئی۔ اس کے بال اس کی کمر تک پہنچتے تھے۔ اس قدر گھنے تھے کہ ایک لمحے کے لیے سلام کو ایسا لگا عابدہ ان کو جہاں پھیلا دے، وہاں اندھیرا ہو جائے گا۔
تھوڑی دیر بعد دونوں عابدہ کے کمرے میں تھے۔ عابدہ اپنے بالوں میں تیل لگا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ عبدالسلام کی آنکھوں میں اپنا عکس تلاش کر رہی تھی۔
’’سب کہاں گئے ہیں۔ ‘‘
’’ دوسرے گانو میں۔ ‘‘
’’کب تک آئیں گے۔ ‘‘
’’آج رات نہیں، کل صبح آئیں گے۔ ‘‘
’’ تو تم اکیلی رہو گی۔ ‘‘
’’ہاں ‘‘
’’ تمہیں ڈر نہیں لگتا؟
’’ کس کا ڈر۔ اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے، وہاں تک شیطان نہیں آ تے۔ ‘‘ عابدہ نے ایک سانس میں کہا۔
’’ہاں ! صحیح کہا تم۔ ۔ ۔ ۔ ‘ کہتے ہوئے سلام نے دوبارہ اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھا جس پر عابدہ کے بھیگے ہاتھ کے لمس نے ایک عجیب احساس جگا دیا تھا۔ عابدہ آئینے کے سامنے بال سنوار رہی تھی کہ اس کی کنگی بالوں میں الجھ گئی۔ ’’ووں ‘‘ اس کی زبان سے ادا ہوا۔
عبدالسلام نے کنگھی نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھا یا تو عابدہ نے کہا:’ کنگھی تو نکل جائے گی۔ ‘ اتنا کہہ کر اس نے ایک بار سلام کی آنکھوں میں جھانکا اور جملہ مکمل کیا ’دل کی الجھن کیسے کم ہو گی ؟‘‘
عابدہ اس کے سینے سے اتنی قریب تھی کہ امپورٹیڈ میکسی کی مہکا س کے نتھنوں میں پھیل رہی تھی۔ عابدہ کا جسم اسے چھو رہا تھا۔ آئینے میں عبدالسلام کا عکس لہرا یا۔ پہلے گندمی، پھر سمندری، پھر نیلے۔ پھر جامنی رنگ میں اس کا سایہ بدل گیا۔ جس میں شریانوں کا جدا گانہ سرخ اور قرمزی رنگ الگ سے نظر آتا تھا۔ اپنی یہ چھبی اس کے لیے پہلا تجربہ تھا۔ عابدہ کے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر تھے۔ وہ کوکن کی برساتی ندی کی طرح پر جوش لگ رہی تھی۔ ابھی اس میں اتنی تیزی اتنا بہاؤ اور اتنی امنگ تھی کہ اسے عبور کرنا جان جوکھم میں ڈالنا ہوتا۔
عبدالسلام نے رات میں آنے کا وعدہ کیا۔ عابدہ دروازے پر کھڑی اسے دوپہر کی دھوپ میں اوجھل ہوتے دیکھتی رہی۔ سلام خالہ کے گھر جانے کی بجائے گھنے جنگل میں چلا گیا۔ جنگل کے بیچوں بیچ ایک تالاب ہے جسے ’’مانی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٹھنڈے، میٹھے پانی کا تالاب۔ ۔ بیس پچیس سال قبل یہاں شیر اور دوسرے خونخوار جانور اپنی پیاس بجانے راتوں کو آیا کرتے تھے۔ مگر آبادی کے بڑھنے اور جنگلوں کی کٹائی نے جانوروں کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہو گا۔ عبدالسلام نے تالاب سے تھوڑا پانی پی کر اپنے گلے کو تر کیا جس کی ساری رطوبت کو عابدہ کی پر اسرار نگاہوں نے خشک کر دیا تھا۔ پانی کی ٹھنڈک کا احساس اس کی حلق سے نیچے اترا تو ایک شاداب لہر کی ترنگ بھی اس میں سرایت کرتی گئی۔ وہ دیر تک جنگل میں بھٹکتا رہا۔ جب واپس لوٹا تو اس کی خالہ نے چائے بنائی۔ چائے پینے کے کچھ دیر بعد اس نے کہا:’ میں شام کو دیر سے آؤں گا۔ ‘
کچھ دیر وہ جانے انجانے لوگوں سے باتیں کرتا رہا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کے قدم از خود کسی شرابی کی طرح مہ خانے کی طرف بڑھنے لگے۔ جب وہ عابدہ کے دروازے پر پہنچا۔ باہر سے کڑی لگی ہوئی تھی۔ لیکن اب وہ جانتا تھا اس کا مفہوم کیا ہے۔ مکان کے اندر داخل ہو کر اس نے دوبارہ کڑی باہر سے ؛پھر اندر سے لگائی، اور عابدہ کو آواز دی۔
’’اندر آؤ۔ ‘‘
عبدالسلام کمرے میں داخل ہوا تو عابدہ پلنگ پر بیٹھی تھی۔ عبدالسلام کو دیکھتے ہی کھڑی ہو گئی۔ اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ بیٹھ گیا۔
’’عبدالسلام تمھیں براتو نہیں لگا۔ ‘‘
’’کیسی بات کر رہی ہو۔ ‘‘
’’نہیں یوں ہی۔ ‘‘
تھوڑی دیر دونوں چپ رہے۔ پھر عبدالسلام نے کہا’ ’بیٹھو، کھڑی کیوں ہو۔ ‘‘
عابدہ اس کے قریب بیٹھ گئی۔ عبدالسلام نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کی انگلیوں کے لمس کے ساتھ ہی اس نے ایک مدھم آتشی لہر کو اپنی شریانوں میں لرزاں محسوس کیا جو اس خیال کے پیدا ہونے سے قبل ہی اس کے پیروں کی انگلیوں تک پہنچ چکی تھی۔ جس کی آنچ سے وہ پگھل گئی اور اس نے اپنی گردن سلام کے کندھے پر جھکا دی۔ کئی برسوں بعد اپنی ایک خاص سہیلی کو اس راز میں شریک کرتے ہوئے اس نے بتایا :’در حقیقت میں آنکھیں بند کر کے اس لطف کو دیکھنا چاہتی تھی جسے عام طور پر لوگ صرف محسوس کرتے ہیں۔ ‘
عبدالسلام نے اس کے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیریں، تب عابدہ نے سرشاری میں اس کے دونوں ہاتھوں کو چوم لیا۔ اس رات عبدالسلام کو احساس ہوا کہ ندیوں میں مستقل بہاؤ، تیزی اور اپھان کے لیے متواتر اورمسلسل بارش کتنی ضروری ہے۔ یا پھر کہیں دور کسی پگھلتے ہوئے برف کے پہاڑی سلسلوں سے ان کا ربط کس قدر لازمی ہے۔ اس معاملے میں کوکن کی ندیاں بد نصیب ہیں۔ کوکن کی بیشتر’ ندیاں‘ سال بھر سرشاری سے محروم رہتی ہیں۔ حالانکہ بارش کے موسم میں یہ لہراتی، جھومتی اور گاتی ہوئی لبریز بہتی ہیں مگر سال کا بیشتر حصّہ یہ سوکھی، منتظر اور اداس رہتی ہیں۔ ان کے حزن کا احساس صرف کوکن کی منتظر، اداس اور تنہا عورتوں کی آنکھوں میں جھانک کر لگایا جا سکتا ہے۔
٭٭
چند برسوں بعد عابدہ کی شادی قطر میں ملازمت کرنے والے گا نو کے ایک لڑکے سے ہو گئی۔ چھٹی کے دو ماہ گزار کر وہ واپس قطر چلا گیا۔ عابدہ ایسے لمحوں میں عبدالسلام کو بہت یاد کیا کرتی اور جب اس کا دل بہت اداس ہو جاتا تو وہ بھی گھنے جنگلوں میں سیرو تفریح کے لئے نکل جاتی۔ جہاں ’’مانی‘‘ ہے۔ جس کے ایک گھونٹ سے ہی پیاس بجھ جاتی ہے۔ جب کبھی عبداسلام گانو آتا تو وہ اسی جگہ عابدہ کا انتظار کیا کرتا۔ اور وہ یہیں ایک دوسرے کی بانہوں میں نا آسودہ زندگی کے کرب کو بدن کی موسیقی میں تحلیل کرتے۔ یہ سلسلہ ۲۲ برسوں تک جاری رہا۔ پھر جب عابدہ کے شوہر کو بلڈ پریشر اور شگر کے مرض نے بہت دق کیا اور وہ نوکری چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے واپس آیا تب اس کی تیمار داری میں عابدہ بارش کی سرشاری کے منظر بھول گئی۔ اس پورے سفر میں عابدہ نے دو لڑکوں اور ایک لڑکی کو جنم دیا۔ کئی سال بعد عابدہ کا بڑا لڑکا جب ایک موڑ پر عبدالسلام کے سامنے پہلی بار وارد ہوا تو عبدالسلام کو پتہ نہیں کیوں ایسا لگا گویا وہ اپنی نو جوانی کی تصویر دیکھ رہا ہو۔ عبدالسلام کی ڈائری کے ایک باب میں اس محبت کے بارے میں اور بھی کئی باتیں تحریر ہیں جنھیں اس نے ’’داستان عشق ‘‘ میں شامل نہیں کیا ہے۔
٭٭٭
٭
عبدالسلام سیر سپاٹے کا شوقین تھا۔ اکثر وہ اپنے احباب کے ساتھ پکنک کا پروگرام بناتا رہتا۔ اس کا خیال تھا کہ شہری زندگی کی ہنگامہ خیزی کو سر سبز وادیوں، پہاڑوں، آبشاروں اور ہوا دار پیڑوں کے درمیاں وقت گزار کے کم کیا جا سکتا ہے۔ زندگی کی یکسانیت، چند لوگوں کے ساتھ روزانہ کے معاملات میں ایک جیسی سوچی سمجھی باتوں کو دہرانا۔ لیکن اس تکرار کو محسوس نہ کرنا اور اس سے پیدا ہونے والی پژمردگی کی کیفیت سے دل شکستہ نہ ہونا؛ سلام کے مطابق، ’ ذات کی گم شدگی‘ کی علامت تھی۔
اس کے اس خیال سے اس کے بیشتر دوست متفق تھے اور وہ سب مل کر عموماً دور دراز کے مقامات پر وقت گزارنے جایا کرتے تھے۔ اس نے اپنے دوستوں کو وارننگ دے رکھی تھی کہ جب وہ تفریح کے ارادے سے نکلیں، تب وہ اسکول، تعلیم اور بچوں کے مستقبل جیسے فرسودہ موضوعات پر بحث نہ کریں۔ ورنہ تفریح کا لطف جاتا رہے گا۔ اسے پہاڑی مقامات، ندیوں کے دہانوں اور گھنے جنگلات میں بسے ادی واسیوں کی زندگی سے بے پناہ محبت تھی۔ اس محبت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ ان کی زندگی کو ’حسین زندگی‘ سمجھنے کی حماقت کرتا تھا بلکہ اسے ان کی زبوں حالی، تنگ دستی، سیاسی و معاشی استحصال، اور ان کی سمٹی ہوئی زندگی کا دکھ تھا۔ ان کے جسم کا دبلا پن، ان کے بچوں کی کسمپرسی اور ان کی عورتوں کی نیم برہنگی اس کے سینے میں کپکپی لیتی۔ وہ اس طبقے کی اس حالت پر احتجاج کرنا چاہتا تھا۔ لیکن سرکاری ملازمت میں احتجاج اتنا آسان نہیں تھا۔ اسے اپنی یہ مجبوری گلے کے ناسور کی طرح مہلک لگتی تھی۔
ایک دفعہ اپنے تین دوستوں کے ساتھ وہ بمبئی سے ستر اسی کلو میٹر دور سپالے نامی ایک مقام پر بھٹک رہا تھا۔ ان کے واٹر بیگ کا پانی ختم ہو گیا تھا۔ کچھ دور جھاڑیوں اور مٹی سے بنے ہوے دو جھونپڑے نظر آئے۔ حالانکہ کچھ مزید فاصلے پر پندرہ بیس اور مکانات بھی تھے لیکن اس نے سوچا پانی تو یہاں بھی مل جائے گا۔ یہ چاروں اس مٹی سے بنے جھونپڑے کے پاس پہنچے۔ اس مکان کا دروازہ لکڑیوں کا ایک کواڑ تھا شاید شب میں اسے دیوار کی بانس کے ساتھ باندھ لیا جاتا ہے۔
’’ارے کوئی ہے۔ ‘‘
’’ اندر کوئی ہے۔ ‘‘
اندر سے ایک نحیف آواز :
’’کون پائجے۔ ‘‘( کون چاہیے )
’’ارے باہر آؤ۔ ہم شہر سے آئے ہیں۔ ‘‘
ایک نحیف آدمی نمودار ہوا۔
’’ساہب کائے پائجے۔ ۔ ‘‘
’’پانی آہیکا۔ ‘‘( پانی ہے کیا)
نحیف آدمی کے چہرے پر مایوسی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے چاروں کو کھنگالنے والی نگاہوں سے دیکھا۔ اپنا سر کھجایا، پھر کہا:
’’کائے منٹھلے ساہب‘‘( کیا کہا جناب )
’’پانی پائجے پانی، پینیا کرتا۔ ‘‘ (پانی چاہیے پانی، پینے کے لیے )
اس کے چہرے پر ابھری ہوئی اداسی یکایک غائب ہو گئی۔ ایک مسکراہٹ: زندگی کے انبساط سے لبریزمسکراہٹ۔ ۔ اس کے لبوں پر، اس کی روح کے کواڑ کھول کر چلی آئی۔ صدیوں سے اجتماعی تحت الشعور کے تہہ خانے میں مقید اس کی آنکھوں کی چمک دوبارہ اس کی آنکھوں کے آنگن میں لوٹ آئی۔
’’ صاحب ایک منٹ۔ ‘‘کہہ کر وہ اپنے جھونپڑے میں چلا گیا۔
چاروں وہیں کھڑے باتیں کر تے رہے۔
کچھ دیر بعد ایک نے دروازے میں سے گردن جھکا کر اندر دیکھا تو اسے کوئی نظر نہ آیا۔
ارے وہ ادی واسی تو اندر نہیں ہے۔
سب نے باری باری اندر جھانکا۔
جھونپڑے کے عقب سے بھی ایک دروازہ تھا۔ وہ وہاں سے نکل کر غائب ہو گیا تھا۔
یہ چاروں جھونپڑی کے احاطے کو پار کر کے پیچھے کی طرف گئے۔ وہ کہیں نظر نہ آیا۔ یہ اسے نظریں جمائے یہاں وہاں دیکھتے رہے۔
٭٭
(دس منٹ بعد)
دور ایک چھوٹی سی بستی تھی اس طرف سے وہ دوڑتا ہوا ان کی طرف آ رہا تھا۔ ایک پگڈنڈی پر ہانپتا کانپتا اس کا سیاہ رنگ ہیولہ دھوپ کی لہروں میں ڈول رہا تھا۔ یہ پگڈ نڈی اس کے لیے پل صراط سے کم نہ ہو گی۔
چاروں اس ہیولے کو آدمی میں بدلتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
وہ قریب پہنچا تو اس کی نحیف پسلی میں غبارے پھولے ہوئے تھے۔ اس نے کہا: ’ساہب شما کرا ہاں۔ ۔ وشیر جھالا۔ ‘( صاحب معاف کیجئے، دیر ہو گئی)
اس کے ہاتھ میں ایک جھولا تھا۔ وہ اس جھولے کو لے کر اندر داخل ہوا اورفوراً مٹکا لیے باہر نکلا۔ اس نے جھولے سے شیشے کے دو گلاس نکالے۔
چاروں ’ایک حیران تماشائی‘ میں بدل گئے تھے۔
اس نے گلاس دھوئے اور پانی پیش کیا۔
عبدالسلام اور ایک دوست نے پانی پیا اورگلاس واپس کیا۔
عبدلسلام یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس آدی واسی کی صدیوں سے خشک آنکھوں میں گریے کی نمی نمودار ہوئی۔ جانے کتنی صدیوں سے اس کے اندر یہ بادل بن کرسر گرداں رہے ہوں گے۔
عبدالسلام نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس کے نحیف بدن میں اتعاش ہوا اور وہ بادل پھٹ پڑے۔ وہ زار زار رونے لگ گیا۔
چاروں حیران کھڑے رہے۔
عبدالسلام نے بلآخر اس سے پوچھا۔
’’رڑتوس کشالا۔ ‘ ( رو کیوں رہے ہو۔ )
اس نے دوبارہ کہا۔
’’ارے پن کائے جھالا۔ ‘‘(بھئی ہوا کیا ہے۔ )ایک نے پوچھا۔
’ساہب امچا ہاتا نی کونی ہی پانی پت نائی۔ آج جیونات پیلیان دا تماس پانی دینیاچہ اوسر بھیٹلا۔ کائے چمتکار جھالا۔ امالاتمی مانوس سمجھتاؤ۔ می آنندی جھالو۔ (صاحب ہمارے ہاتھوں سے کوئی پانی نہیں پیتا، آج زندگی میں پہلی بار آپ کو پانی پلانے کا موقع ملا۔ معجزہ ہو گیا، آپ ہمیں انسان سمجھتے ہیں۔ ۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ ) رندھی ہوئی آواز سے اس نے کہا۔
عبدالسلام بات سمجھ گیا تھا۔ صدیوں کے استحصال اور عدم مساوات نے اس ادی واسی کی زندگی میں جس ابدی تنہائی اور سکوت کو جنم دیا تھا آج پہلی بار اس میں ایک پل کے لیے سہی حرکت ہوئی تھی۔ کسی نے اسے اپنے برابر انسان سمجھ کر اس سے کسی چیز کا تقاضا کیا تھا ورنہ اعلی ذات کے افراد ان کے گھروں، برتنوں، یہاں تک کہ ان کے سایوں سے بھی دور رہتے آئے ہیں۔ اسی لیے خوشی کی ترنگ میں عقب دروازے سے نکل کر وہ ادی واسیوں کی اس بستی میں گیا تھا جہاں چند لوگ شیشے کے گلاس استعمال کرتے تھے ۔ وہ خود پلاسٹک کے گلاس میں پانی پیا کرتا تھا۔ اپنی زندگی کے اس یادگار دن وہ ہمیں کس طرح پلاسٹک کے گلاس میں پانی پیش کرتا۔
عبدالسلام نے تھوڑے توقف کے بعد اس سے کہا۔
’’بابا زر تمی پاٹاٹ پانی دلا استہ، تری چا للا استا۔ ‘‘( اگر تم نے لوٹے میں پانی دیا ہوتا تب بھی چل جاتا)
٭
وہ اس کے ساتھ بہت دیر بیٹھے رہے۔ اس کی کہانیاں، جنگل کے واقعات اور نچلی ذات کے لوگوں کی زندگی کے متعلق اس کی باتیں سنتے رہے۔ اسے اپنا اتا پتا ایک کاغذ پر مراٹھی میں لکھ کر دیا اور کہا جب کبھی شہر آئے تو ان سے ملے۔ مگر وہ شہر کبھی نہیں آیا۔
٭٭
عبدالسلام جب بھی اخباروں میں بھوک سے خود کشی کرنے والے ادی واسیوں کی خبریں پڑ ھتا، تب اس کے سامنے اس لاغر، نحیف بدن والے ادی واسی کا چہرہ آ جاتا۔ وہ سوچتا: کیا بھوک کی آگ میں وہ بھی جل گیا ہو گا؟ کیا بھوک نے اسے جنت کی آرزو میں دنیا کو خیر باد کہہ کر خود کشی کرنے پر مجبور کیا ہو گا ؟
عبدالسلام آسمان کی جانب مغموم نگاہوں سے دیکھتا، کچھ کہہ نہ پاتا۔ صدیوں کی عدم مساوات کا احتجاج الفاظ سے کہاں ممکن تھا۔ ایسے اذیت ناک لمحوں میں وہ اکثر گھر سے نکل جاتا۔ بھیڑ میں بے ربط بھٹکتا۔ ’’ بسمہ اللہ پان شاپ‘‘ پر پہنچتا: ’عابد ایک بھولا، کتری، سپاری اسٹار مار کر۔ ‘
کیا صرف ماوا کھانے سے اس کے اندر کی اذیت اور افسردگی کم ہوتی ہو گی؟
٭٭
اس کے اسکول میں ایک دن:
اسکول میں ’بزم ادب‘ کا جلسہ منعقد کرنا تھا۔
عبدالسلام کو اس طرح کی سر گرمیوں میں دلچسپی تھی۔ وہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اپنی ذمے داری سمجھتا تھا۔ اس نے بڑھ چڑھ کر اس تقریب میں حصّہ لینا چاہا۔ یہ واقعہ اس کی تدریسی زندگی کے ابتدائی برسوں کا ہے۔ طلبہ کا انتخاب کیا گیا۔ بزم کے عہدے تفویض کئے گئے۔ طلبہ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ نقشِ دیوار کے لیے ان کی تخلیقات جمع کی گئیں۔ تین چار اساتذہ جن کا ادب سے کوئی علاقہ نہ تھا، وہ بھی پیش پیش رہے۔ نامور ادیبوں اور شعراء سےرابطہ کیا گیا۔ پروگرام طے ہونے کے بعد ادارے کے ٹرسٹی کو بتایا کہ اسکول ادبی و ثقافتی پروگرام منعقد کر رہی ہے جس میں مشہور شخصیتوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ انھیں صدارتی خطبہ دینا ہو گا۔ ٹرسٹی کو ادب یا ثقافتی پروگرامز سے کوئی نسبت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہ فوراً تیار ہو گئے۔ شاید انھیں ایسا لگا ہو کہ یہ کوئی ایسی سرگرمی ہو گی جس سے آخر میں انھیں فیض ہو گا۔ سلام کو بھی ان کی شخصیت کا پورا علم نہیں تھا۔ خیر! ’بزم ادب‘ کا جلسہ شروع ہوا اور ختم ہوا۔ طلبہ نے شعراء کا کلام توجہ اور گرم جوشی سے سنا۔ ان کے آٹو گراف لئے۔ آٹو گراف دیتے ہوئے شعرائے کرام کے چہروں پر کیسی شادمانی نظر آتی ہے اس بات کا احساس سلام کو اس دن ہوا۔ ایک نوجوان شاعر جس نے پہلی بار آٹو گراف دیا تھا وہ بہت مسرور لگ رہا تھا۔ طعام کے بعد اسے بیت الخلاء کی حاجت ہوئی۔ جہاں بیٹھے بیٹھے تصور کی دنیا میں وہ خود کو اتنی بار آٹو گراف دیتے ہوئے دیکھتا رہا کہ اس کی آنکھ لگ گئی۔ خواب میں اس نے امیتابھ بچن، من موہن سنگھ، رابندر ناتھ ٹیگور، علامہ اقبال اور ٹارزن کو آٹو گراف دیے۔ یہ سب ایک عالمی مشاعرے کے بعد قطار میں کھڑے ہو کر اس سے آٹو گراف لے رہے تھے۔ سب سے آخر میں نریندر مودی تھے۔ ان کی آٹو گراف بک کا رنگ کیسری تھا۔ نوجوان شاعر نے ایک نظر ان کی تل چاؤلی داڑھی پر ڈالی اور آٹو گراف بک میں دستخط کرتے ہوئے اسے ایک شعر سنایا:
خود دار ہوں کیوں آؤں درِ اہل کرم پر
کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
مشاعرے کے بعد ابھی وہ ان اہم شخصیات کے ساتھ طعام کے لیے بیٹھنے ہی والا تھا کہ بیت الخلاء کے دروازے پر دستک ہوئی اور اس کا خواب ٹوٹ گیا۔ نوجوان شاعر فوراً بیت الخلاء سے باہر نکلا۔ اس کے سامنے دو سنیئر شاعر کھڑے تھے۔
ایک نے کہا :’ کیا کر رہے تھے آدھے گھنٹے سے یار۔ ۔ ‘
نوجوان شاعر نے آنکھ ملتے ہوئے کہا: جو رہی سو بے خبری رہی۔ ‘ اور بے نیازی سے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
دوسرے سنیئر شاعر نے فوراً اسے ٹوکتے ہوئے کہا: ’محترم! پائجامہ درست کیجئے۔ ۔ ورنہ مصرعہ بحر سے باہر آ جائے گا۔ ‘
نوجوان شاعر نے تذبذب میں سنیئر شاعر کی انگلی کے اشارے کی طرف دیکھا۔ بے خبری کا نشہ کا فور ہو گیا۔ شرمندگی کے عالم میں اس نے ایک طرف منہ کیا اور کرتا پائجامہ درست کیا۔ در اصل عجلت میں اس کے کرتے کا آدھ حصہ پائجامے کے اندر پھنس گیا تھا اور وہ پائجامے کا ایک بٹن لگانا بھی بھول گیا تھا۔
٭٭
مشاعرے سے قبل ٹرسٹی صاحب نے ایک لمبی اور اکتاہٹ بھری تقریر کی تھی جس کا علم، تعلیم اور عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں تھا بلکہ مستقبل کے ان پروپزلز کا تفصیلی بیان تھا جس سے ان کی ٹرسٹ کی مالی حیثیت مزید مستحکم ہونے والی تھی۔ اس بات کو چھپانے کے لیے وہ مذہبی تعلیم کے فروغ پر بھی زور دے رہے تھے۔ عبدالسلام کو ایک لمحے کے لیے ایسا لگا کہ یہ آدمی واقعی قوم کا ہمدرد ہے۔ مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے مزین کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت تک اسے معلوم نہیں تھا کہ اس قبیل کے لوگ محض سننے والوں کو رجھانے بھر کے مسلمان ہوتے ہیں۔
غزلوں کی ترنگ اور طلبہ کی امنگ نے خوب سماں باندھا تھا لیکن ٹرسٹی کے چہرے کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نظر نہ آئی تھی۔ ان کے چہرے پر حیرانی کا ایک رنگ واضح تھا، جسے پرانے اسٹاف نے پہلے بھی کئی بار ان کے چہرے پر ضرور دیکھا ہو گا۔
محفل کی برخاستگی کے بعد اساتذہ اور ٹرسٹی کی میٹنگ تھی۔ بیشتر اساتذہ کو ایسا لگا تھا کہ اتنے اچھے پروگرام پر ٹرسٹی صاحب خوشی کا اظہار اور حوصلہ افزائی کریں گے۔ مہمانوں کے چلے جانے کے بعد میٹنگ کے لیے سب اسٹاف روم میں اکٹھا ہوئے۔ میٹنگ کی شروعات قرآن کی تلاوت سے ہوئی۔
تلاوت ختم ہوتے ہی ٹرسٹی بول پڑے۔ ’’میں مسلمان ہوں۔ میں دینی تعلیم سے لوگوں کو اچھا مسلمان بنانا چاہتا ہوں۔ شاعری وائری سے مجھے نفرت ہے۔ یہ اپنے مجب کے خلاف ہے۔ تم لوگ بچوں کو بگاڑ نے پے تلے ہو کیا؟۔ ‘‘
عبداسلام حیرانی کے ساتھ اسے دیکھتا رہا۔
ایک بزرگ معلم نے کہا :’ شاعری۔ ۔ اردو زبان کی ثقافت اور نصاب کا حصہ ہے۔ ‘
’’جبان اور سکافت کے نام پر کاپھروں جیسے کام کون سی دین داری ہے۔ ‘‘ ٹرسٹی نے طیش میں کہا۔
ایک خاتون معلمہ جن کے شوہر بھی شاعر تھے بیچ میں بول پڑیں : ’سر اس سے کافروں کا کیا تعلق ہے ؟‘
’’کاپھر لوگ سے تالّوک ہے۔ میرے مجب میں یہ سب نہیں ہے۔ ‘‘
عبدالسلام سوچ رہا تھا کہ کہہ دے آپ کے مذہب میں مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اور وہ سارے کام بھی نہیں ہیں جن کے سبب آپ دولت مند ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ لیکن وہ کہہ نہ سکا۔ وہ اپنے سنیئرز کو سنتارہا۔
اردو کے ایک معلم نے کہا : ’سر اس طرح تو پوری اردو زبان کافروں کی ہو جائے گی۔ ‘
چیئر مین نے اس کی جانب دیکھا اور کہا: ’’ میں نے اردو زبان کا اسکول اس لیے کھلا کیوں کہ مجب کی زیادہ کتابیں اس میں ہیں۔ تم لوگ مجب کی کتابیں پڑھو۔ ‘‘
عبدالسلام سوچ رہا تھا کہ کیا اس آدمی نے اپنی زندگی میں مذہب کے بارے میں ایک بھی کتاب پڑھی ہو گی۔
٭
’مجھے معلوم نہیں تھا کہ مذہبی کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کو پڑھنے کا مشورہ دینے کے لیے ہیں۔ ‘
مذہب: عمل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ شخصیت کو سنوارنے، سماج میں مرتبہ اورسیاسی مقاصد حاصل کرنے کا ایک شورٹ کٹ ہے۔
’مذہب لاٹھی ہے بینائی نہیں۔ ‘
٭
شاید یہ جملے ’ متفرق نوٹس کی ڈائری‘ میں سلام نے اسی پس منظر میں لکھیں ہوں۔ ایک سال بعد کی تاریخ کے ساتھ اس میں مزید کچھ باتوں کا اندراج ملتا ہے مثلاً دولت مند افراد کا ایک بڑا طبقہ مذہب کو ایک نشہ آور گولی کی طرح استعمال کرتا ہے۔ بے ایمان، مفاد پرست، شخصیت پرست، دھوکے باز، اور بد اخلاق افراد بھی مذہب کی چادر اوڑھ کر اپنے سیاہ باطن اور ناسورزدہ ذہنیت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ دو تین عربی کلمات کو تقاریر کی تمہید اور اختتام میں استعمال کرتے ہیں جس سے بے علم اور نادار مسلمان ان کو دین کا پاسدار سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔
عبدالسلام کی شخصیت میں جو کج روی در آئی تھی اس کا سراغ اس طرح کی مزید واقعات کو پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ جن کو اس نے تفصیل کے ساتھ ’متفرق نوٹس کی ڈائری‘ میں لکھا ہے۔ یہ واقعات ۳۳۰ صفحات پر پھیلے ہیں۔
٭٭
اس کی ذات کا کنواں :
عبدالسلام کو کنویں سے بہت ڈر لگتا تھا۔
اس کے بچپن کا ایک واقعہ ہے۔ وہ ہم جھولیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ کافی دقت گزرنے پر ان میں سے دو دوستوں کو پیاس لگی۔ پانی پینے کے ارادے سے وہ ایک کنویں پر پہنچے۔ ایک دوست ڈول ڈال کر پانی نکالتا اور دوسرا دونوں ہاتھوں کو کٹوری بنا کر پیتا۔ جب عبدالسلام نے کنویں میں ڈول پھینکا تو یکایک اس کے ہا تھ سے رسی چھوٹ گئی اور ڈول کنویں میں گر گیا۔ کنویں کی دیوار سے جھانک کر اس نے دیکھنا چاہا کہ ڈول کہاں ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ دیر تک بے حس و حرکت کنویں کی دیوار سے چمٹا رہا۔ آخر کار ایک دوست نے اسے چھو کر پوچھا : ’’ابھے اتنے دیر سے کیا دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
عبدالسلام چونک کر مڑا۔ اس کی آنکھوں میں کنویں کا گہرا اندھیرا اتر گیا تھا۔
ایک دوست نے کہا : ’ کسی نے دیکھا نہیں ہے۔ ۔ وٹ لو ادھر سے۔ ‘
دوسرا بولا:’ ڈول تو ہاتھ سے چھوٹتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ناراج کائے کو ہوتا ہے، کوئی اور آئے گا تو نکال لے گا۔ ‘
عبدالسلام کے چہرے پر یکایک چھائی ہوئی اداسی کو دور کرنے کی دوستوں نے کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ تب استہزائیہ انداز میں ایک نے کہا۔ ’’ ابھے کنویں میں بھوت تھا کیا۔ ‘‘
عبدالسلام نے اس دوست کی طرح مڑ کر دیکھا۔ دونوں کی آنکھیں ملیں۔ عبدالسلام کی آنکھوں میں اداسی کی وجہ سے ایک خاص قوت در آئی تھی جس کا احساس ہوتے ہی اس کے دوست نے آنکھیں جھکا لیں۔
دوسرے دوست نے کہا ’’سالے بتائے گا ؟‘‘
عبدالسلام نے کہا: ’’کنواں بہت گہرا تھا۔ اتنا گہرا کنواں میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘
ایک نے کہا:۔ پچھر جیسا ڈائلوگ مت مار۔ ‘‘
دوسرا بولا: ’’ ابھے سسپنس مارتا ہے۔ ‘‘
عبدالسلام کواس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ اس نے کنویں میں جو کچھ دیکھا ہے اس پر کوئی یقین نہیں کر سکتا اور اس کے علاوہ کوئی اور وہ دیکھ بھی نہیں سکتا جو اس نے دیکھا ہے۔ اس شام کی رات عبدالسلام نے کھانا نہیں کھایا۔ بہانا بنا کر جلدی لیٹ گیا۔ چادر میں اس نے آنکھیں کھولیں، تو ڈر گیا۔ اسے لگا وہ خود اس کنویں میں ہے۔ اس کے اطراف اندھیرا ہے۔ اس کی نگاہ سفر کرتی جاتی ہے لیکن کنویں کی گہرائی کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ گو یا کنواں کبھی نہ ختم ہونے والی ایک سرنگ ہو۔ بے انت اندھیری سرنگ۔ تاریک سرنگ میں جو چیز ڈول رہی تھی، وہ ڈول نہیں تھا۔ وہ غالباً اس کے والد کا چہرہ تھا۔ اس سرنگ میں اس کے والد کا چہرہ کہاں سے در آیا۔ سرخ تمتماتا ہوا چہرہ، موٹی سوجی ہوئیں آنکھیں۔ چوڑی پیشانی جس پر کوئی لکیر نہیں تھی۔ پتلے پھیلے ہوئے ہونٹ۔ ان ہونٹوں سے الفاظ ایسی ہی بے ترتیبی سے ادا ہو رہے تھے جس طرح اس کے والد ادا کرتے تھے، جب وہ شراب اور چرس کے نشے میں مد ہوش ہو کر گھر لوٹتے تھے۔ اور پھر۔ ۔ بات بے بات گھر میں ہنگامہ ہوا کرتا۔ نشہ اپنے آخری اظہار کے طور پر اس کی والدہ پر ٹوٹتا۔ والدہ کا غم زدہ چہرہ والد کی مار پیٹ اور گالی گلوچ سے سوجھ کر پھول جاتا۔ اتفاق سے وہ بھی سرنگ کے ایک کونے میں لٹک رہا تھا۔ جس پر کچھ دیر بعد اس کی نظر پڑی تھی۔
اس کے بڑے بھائی کا چہرہ جو والد کے ظلم سے تنگ آ کر کئی بار گھر چھوڑ کر بھاگ چکا تھا اور ہر بار ماں کی محبت اسے دوسرے تیسرے دن گھر لے آتی تھی۔ آج وہ حیران تھا۔ اس کے گھر میں واقع ہونے والے سارے واقعات پل بھر میں اس تاریک کنویں میں کہاں سے در آئے۔ خدا جانے ! لیکن ان واقعات نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا۔ سراسیمگی کے عالم میں اس نے کچھ دیر خود کلامی کی جو اسے بعد میں یاد نہیں رہی۔
فراموشی کی دلدل میں وہ ان واقعات کو ڈبونے کی کوشش کرتا رہا۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس واقعے کے بعد کنویں کا ڈر اس کی روح میں بیٹھ گیا تھا۔ کنواں اس کے المیاتی تحت الشعور کے تحرک کی نشانی بن گیا تھا۔
عبدالسلام نے نجی ڈائری میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ اپنے والد کی شراب نوشی اور تباہ حالی سے بہت دل برداشتہ تھا جس کی وجہ سے اس کی ذات میں بھی ایک چھید ہو گیا تھا جس میں وہ جب بھی جھانکتا اسے کسمساتے ہوئے اندھیرے میں کچھ چیزوں کے رینگنے کا احساس ہوتا لیکن وہ کبھی سمجھ نہیں پاتا وہ کیا یا کون ہیں۔ اس کی روح جس قدر اس کی ذات کے چھید کی گہرائی اور پر اسراریت کی پیمائش کرنا چاہتی، اس کا احاطہ پھیلتا اور وہ مزید گہرا ہوتا چلا جاتا۔ اس احاطے میں وہ اپنے بچپن کی یادوں کی سنگلاخی کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی والدہ کی سیاہ بے نور آنکھیں نظر آتیں جن میں شوہر کے ظلم سے پیدا ہونے والی ویرانی تھی۔ کبھی کبھی اسے ایسا لگتا شدت درد سے اس کی والدہ کی آنکھیں پھٹ جائیں گی اور اس کے چہرے پر ان آنکھوں کے اندر کا مواد آگرے گا۔ ان آنکھوں نے جو خواب دیکھے تھے وہ وہیں پڑے پڑے مر گئے تھے اس کی بو وہ اپنے ناک میں محسوس کرتا۔ اسے اپنی ماں کا چہرہ بغیر آنکھوں کے دکھائی دیتا جن میں آنکھوں کے سوکیٹ کی جگہ دو سیاہ داغ نظر آتے تھے۔ ان مردہ سیاروں میں بہت کشش ثقیل تھی۔ اس کے اطراف کی ساری اشیاء خود بہ خود ان میں گر کر اپنا وجود گنوا دیتیں۔ اس طرح کے احساسات کو زائل کرنے کے لیے وہ گھنٹوں سرگشتہ و درماندہ بھٹکتا رہتا۔ ۔ ۔ مزید بر اں اس کی یہ کوشش بھی ہوتی کہ وہ گھر کی چار دیواری میں جاری تلخی اور نا آسودگیوں کے سبب پیدا ہونے والی افسردگی کوکسی طرح بھول جائے۔ ۔ ۔ ۔
والد کی جانب سے کرب ناک حد تک نظر انداز کئے جانے اور اس کرب پر نہ بہائے ہوئے آنسو اس کی ذات کے چھید میں قطرہ قطرہ گرتے رہتے۔ ( اس عمیق باطنی کنویں میں پھینکی گئی یادوں کی صلیبیں وقت کی حدت سے عدم ہو جائیں گی۔ اس کا یہ گمان اس کی بہت بڑی بھول تھی۔ )۔ عبدالسلام کو ایسا لگتا تھا وہ دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان ہے جس کے پاس ’فراموشی کے لیے یادداشت ہے۔ ‘ شاید یہ بہت بڑا تضاد تھا جو اس کی شخصیت کو دو متساوی خانوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسے معلوم تھا اس کے دل میں ایک نا گفتہ کنواں ہے اور وہ یہ بھی جانتا تھا اسی بات کو چھپانے کی جد و جہد میں وہ زندگی کی دیگر سر گرمیوں میں گرفتار ہے۔ تعلقات، محبتیں، تنازعات اور کامیابیاں، در حقیقت: روح کے اس بے نت اندھیرے سے چشم پوشی کے بہانے تھے۔ اسی لیے وہ خود کو ہمیشہ سر گرم اور مصروف رکھا کرتا تھا۔ کیا وہ واقعی یہ بھول گیا تھا کہ وہ بہت ساری حقیقتوں کا قبرستان ہے۔ یادوں کے مہیب قبرستان میں بدلنا آدمی کا مقدر کیوں ہے ؟
ایک روز جب وہ صفیہ کے نیشنل پارک میں بیٹھ کر محبت اور سماج کے موضوع پر گفتگو کر رہا تھا تب صفیہ نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا تھا۔ باتوں میں وقت بتانے سے بہتر ہے۔ ۔ ۔ وہاں ایک پرانا کنواں ہے، چلو اسے دیکھ آتے ہیں۔ اس وقت اس کے منہ سے برجستہ نکلا تھا:’ یہاں بھی پرانا کنواں !‘ اس دن پل بھر کے لیے اسے یہ احساس ہوا تھا کہ وہ جس بات کو بھول چکا ہوتا ہے، وہ باتیں اسے زیادہ یاد رہتی ہیں۔
صفیہ کے اس جملے پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اس وقت وہ کسی بات پر دھیان دینے کی حالت میں یوں بھی نہیں تھی۔ عبدالسلام کا ہاتھ پکڑ کر، اسے کھینچ کر، وہ اسے کچھ دور لے گئی۔ جہاں زیادہ گھنی جھاڑیاں تھیں۔ ایک سایہ دار پیڑ تھا۔ وہ درخت کے تنے سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے۔ صفیہ نے اس کے کندھے پر اپنا سر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ عبدالسلام نے ایک نظر اردگرد دیکھا اور پھر کہا:’تو بولی تھی ادھر بانوڑی ہے۔ کدھر ہے ؟ ‘
صفیہ نے پلکیں کھولتے ہوئے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ’’ بدّھو! پیار کے ٹوپک پے لیکچر دے رہے تھے۔ ۔ پر اتنا نہیں جانتے۔ ۔ پیار بولنے کا نہیں کرنے کا نام ہے۔ ‘‘
عبدالسلام مسکرایا۔ اس نے قدرِ متانت سے کہا :’ ’مائے گوڈ! loveکے معاملے میں تو expert لگتی ہے۔ ‘‘
صفیہ نے بمبئی کی بولی میں جواب دیا جس کا مطلب تھا: ’’ یہ عورتوں کا میدان ہے۔ اور اس معاملے میں ہم زیادہ practicalہیں۔ ‘‘
’’اور مرد کیا ہوتا ہے ؟
’’مرد۔ ۔ ۔ عورتوں کا خیال ہے کہ experimental ہوتا ہے۔ ‘‘
اس گفتگو کے بعد صفیہpractical ہو گئی اور عبدالسلام experimental ہو گیا۔
عبدالسلام نے جب صفیہ کی روداد اپنی ڈائری میں لکھی تو اس واقعے پر اس نے ایک رمارک بھی لکھا۔ وہ کچھ یوں ہے کہ: ’’ محبت نہ ہو تو آدمی دل کے پر اسرار کنویں میں گر کر مر جائے گا۔ ‘‘
٭
اسی صفحے پر چھ سال بعد اس نے ایک اور جملہ لکھا:’خدا کے بغیر اتنی تنہا اور بے معنی زندگی میں، سوائے محبت۔ ۔ اور کون معنی پیدا کر سکتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور جھوٹی سے جھوٹی محبت بھی اپنا ذائقہ، اپنا لطف، اپنی شادابی اور اپنے رنگ رکھتی ہے۔ اس کے بغیر ز ندگی بھی خدا کی طرح بے رنگ اور نراکار ہو جائے گی۔ ‘‘
٭٭
ایک دن ایسا بھی آنے والا تھا جب عبدالسلام کو اپنی ذات کے سب سے بڑے خوف کا سامنا کرنا تھا۔ اسے کنویں میں کودنا تھا۔ جو مرکز اس کی روح کی المناکی کا سبب تھا جس نے اس کی زندگی کو ایک تجربہ بنا دیا تھا اس گہرے چھید میں ایک دن اس کو چھلانگ لگانا تھی۔
٭٭
ہوا یوں کہ اسکول کی الوداعی پارٹی جاری تھی۔ شام کے سات بجے ہوں گے۔ طلبہ و طالبات جوش وخروش میں تھے۔ غزلیں اور فلمی نغمے گائے جار ہے تھے۔ تقاریر ہو رہی تھیں۔ دوسری طرف اسکول کی دیوار سے ملحق میدان میں ایک طالبہ بیٹھی اپنے عاشق کے نام آخری خط لکھ رہی تھی۔ شاید اس کی شادی اس کے والدین نے قبل از وقت اس کی مرضی کے خلاف کہیں طے کی ہو گی یا اس کے عاشق کا دل کسی اور پر آ گیا ہو گا۔ وہ اس طالبہ کے ناک نقشے سے واقف تھا۔ کھڑکی کے شیشوں سے یوں ہی بے خیالی میں جب اس نے باہر جھانکا تو اسے جھٹ پتے میں سر سراتا ہو ا ایک سایہ دکھائی دیا۔ اس نے سائے پر نظریں مرکوز کیں۔ بہ غور دیکھا اور پھر پروگرام میں بیٹھے طلبہ پر ایک اچٹتی نظر دوڑائی۔ روحانہ کو وہاں نہ پا کر اسے حیرت ہوئی۔
دوسرے منزلے سے اتر کر اسکول کا احاطہ عبور کر کے وہ سرعت سے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ جہاں روحانہ کے سائے کو اس نے دیکھا تھا۔ وہیں کچھ فا صلے پر کنواں بھی تھا۔ اس دوران روحانہ نے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کو تیز دھار دار بلیڈ سے کاٹا اور تازہ خون سے کاغذ پر لکھا:صمد تم میری دنیا تھے جس دنیا میں تم نہیں اس دنیا میں مجھے بھی نہیں رہنا خدا حافظ۔
کاغذ کو اس نے زمین پر رکھا اور کنویں کی طرف بڑی۔
اس کا کنویں تک پہنچنا تھا کہ عبدالسلام احاطے کو عبور کر چکا تھا۔ اس کی نظروں نے اسے دیکھ لیا۔ وہ فوراً اس کے پیچھے دوڑا۔ تب تک وہ کنویں میں چھلانگ لگا چکی تھی۔ عبدالسلام کے پاس شاید اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ چلا کر بھیڑ جمع کرتا اور پھر کسی اور کو کنویں میں کودنے کے لیے کہتا۔ کنویں کے قریب پہنچتے ہی ایک طلسمی طاقت نے اسے ایک پل کے لیے زمین سے جکڑ لیا۔ وہ رکا۔ اس نے خود کو یادداشت اور فراموش کے پل صراط پر کھڑا پایا۔ اس نے ماضی کے الوہی عذاب کے دکھ کے ساتھ فلک شگاف آواز میں اسکول کے دیگر اساتذہ کو پکارا اور کنویں میں کود پڑا۔ آواز محفل گاہ کی کھڑکیوں سے ٹکرا کر اندر داخل ہوئی۔ بعض طلبہ اور اساتذہ استعجاب کے ساتھ دوڑ پڑے۔ اس بیچ کنویں کی تنہائی میں عبدالعزیز روحانہ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے، سر آسمان کی طرف کئے دوستوں کو آواز دے رہا تھا۔
سب وہاں پہنچے۔
روحانہ بے ہوش نہیں ہوئی تھی البتہ حیرانی اور بے یقینی سے بے زبان ہو گئی تھی۔ وہیں کسی کی نظر اس کاغذ پر پڑی۔
دو خاتون ٹیچروں نے روحانہ کو اٹھایا اور فوراً دوا خانے کی طرف لے دوڑیں۔ عبدالسلام نے ایک گھونٹ پانی پیا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر کھڑا ہوا۔ اس کے قدم کنویں کی جانب بڑھے۔ کنویں کی دیوار پر ہاتھ رکھ کر اس نے کنویں میں جھانکا۔ وہاں اس کے والد کا سرخ کوئلوں کی طرح دھکتا ہوا چہرہ سیمابی اندھیرے میں لہرا رہا تھا۔ ایک کونے میں اس کی ماں کی تھکی افسردہ آنکھوں کی اداسی اونگھ رہی تھی۔ آج کنویں میں اسے یہ دیکھ کر مزید حیرانی ہوئی کہ نیلے آسمانی رنگ کے ساتھ ایک اور چہرہ وہاں لہرا رہا تھا جس سے اس نے بے پناہ محبت کی تھی لیکن جس کی کہانی وہ کبھی قلم بند نہیں کر سکا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ جسے وہ آج تک کنواں سمجھتا آیا ہے۔ وہ کنواں نہیں اس کا دل ہے۔ کنواں تو وہ تھا جس میں روحانہ نے چھلانگ لگائی تھی۔
اس کی آنکھیں آب دار ہو گئیں۔
وہ مڑا اور کنویں کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ فشارِ خون سے اس آنکھیں شعلے کی طرح دمک رہی تھیں۔ اسے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ اس کی اب تک کی زندگی، اس کی خود سے آویزش اور خود سے حریفانہ کشمکش کی کہانی تھی۔ اس احساس نے اسے حزنِ جاں اور امتلا میں مبتلا کیا جس نے اس کے دل کے ناسور کو پھاڑ دیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا لیکن آنسو اس کی آنکھوں میں نہیں تھے۔ اس وقت اس کی جیب میں بھولا کتری سپاری والا ماوا بھی نہیں تھا۔
اس واقعے کے تین دن بعد پولیس نے اس کے گھر سے اس کی لاش برآمد کی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق فشار خون نے اس کے دماغ کی رگوں کو پھاڑ دیا تھا۔ ارتحال کے وقت بھی اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ دنیا کو دیکھنے کا اس قدر متمنی کیوں تھا۔ کوئی نہ جان سکا۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید