FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

نخلستان کی تلاش

 

 

 

 

                رحمٰن عبّاس

 

 

 

فہرست

 

انتساب.. 4

باب اول: محبت کے رنگ… 7

باب دوم: وجود اور عدم وجود 23

باب سوم: یادداشت اور فراموشی.. 47

باب چہارم: آکار نراکار 85

باب پنجم: نخلستان کی تلاش.. 91

 


 

 

 

انتساب

 

کشمیر کی اداس روحوں کی نام

 

 

 

"U have suffered from the illusion that even things..mere chairs, tables, mirrors.۔ .conspire to increase my solitude.”

John Fowles

(The French Lieutenant’s Woman)

 

 

 

 

"What possibilities remain for man in a world where the external determinants have become so overpowering that internal impulses no longer carry weight.”

Milan Kundera

(The Art of Novel)

 

 

 

 

 

"In every community there is a class of people profoundly dangerous to rest. I don’t mean the criminals. For them we have punitive sanctions. I mean the leaders. Invariably the most dangerous people seek the power.”

Saul Bellow

(Herzog)

 

 

 

 

باب اول: محبت کے رنگ

 

 

"His soul was loosend of her memories.”

James Joyce

(A Portrait of The Artist As A Young Man)

 

 

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

گذشتہ دنوں تین بار میرے خوابوں میں ویدک عہد کی دیوی ادیتی آئی اور ہر بار اس نے مجھ سے کہا کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتی لیکن اتنا بتا سکتی ہوں۔ تمہارے اندر اگنی دیو کی خوشبو ہے۔ میں نے ان خوابوں پر کئی بار غور کیا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔

 

میری زندگی کا مختصر احوال کچھ یوں ہے۔ میں بمبئی میں پیدا ہوا۔ اس شہر کے علاوہ کہیں رہا نہیں۔ اس شہر سے میرا رشتہ کچھ اس طرح ہے کہ میں کہیں اور رہ بھی نہیں سکتا۔ میرے سارے دوست اسی شہر میں ہیں اور میرے سارے خواب اسی شہر سے عبارت رہے ہیں۔ اس شہر میں کئی رنگ میری زندگی میں آئے۔ جن میں سے بعض اتنے گہرے اور جاذب ہیں کہ کبھی کبھی متعدد صورتیں بنا کر میرے شکستہ کمرے میں چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ یہ دیواریں جن کا رنگ جگہ جگہ سے اڑ گیا ہے۔ ایسے لمحوں میں تتلیوں کے پروں کی طرح خوش رنگ لگنے لگتی ہیں۔ ان لمحوں کا رقص میری زندگی میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ بہت سارے رنگ دیواروں کی رگوں سے پھوٹ پڑتے ہیں اور لکیریں بن کر بہنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی تنہائی میں ماضی کے یہ رنگ جانے کہاں سے دبے پاؤں ہیولے بن کر سرایت کرتے ہیں۔ دھواں سا بن کر میرے نتھنوں سے میرے اندر کی ویرانی میں اتر جاتے ہیں۔ میں بہت چیختا ہوں۔ لیکن میری چیخ میرے حلق میں پھنس جاتی ہے۔ میرے بے رنگ چہرے پر کبھی کبھی مجھے میری پلکیں بھی گراں بار لگتی ہیں۔

مجھے یاد ہے : ایسے وقت میرے کمرے کی چھت تحلیل ہو جاتی ہے۔ کائنات کی بے پناہ وسعت میں سر گرداں آوارہ اجسام زینہ زینہ اس کمرے میں اترنے لگتے ہیں۔ بہت سارے رنگ، بہت ساری روشنی اندھیرے کے بطن کو چیرتی کاٹتی میرے ارد گرد پھیل جاتی ہے۔ میری آنکھیں جو بہت اندر کو دھنس گئی ہیں، اس خیرہ کن اجالے سے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔

 

                ………۲…………

 

مجھے یاد ہے : میں یونیورسٹی میں اس کو چپ چاپ دیکھا کرتا تھا۔ وہ جو ایک قسم ہے پیلے رنگ کی ( پیلا رنگ مستقل دھوپ میں رہ رہ کر سفید رنگ کے قریب ہو جاتا ہے، لیکن نہ پوری طرح سفید ہو پاتا ہے نہ پیلا رہ پاتا ہے )، اس کا رنگ تھا۔ تیز دھوپ میں یہ رنگ سنہری رنگ کی بہ نسبت زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ اندھیرے میں یہ رنگ دل میں ایک کیف اور کشش پیدا کرتا ہے۔

مجھے یاد ہے : ایم اے کی کلاس میں وہ ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتی تھی۔ میں اس کے پیچھے بیٹھ کر اس کے پیلے رنگ کو دیکھا کرتا تھا۔ کمرۂ جماعت کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ روشنی تین سمتوں سے اندر داخل ہوتی تھی۔ میں نے بارہا دیکھا کہ روشنی کی کئی شعاعیں اس کے رنگ سے ٹکرا کر منعکس ہونے کے بجائے اس کے رنگ میں گھل جایا کرتی تھیں۔ وہ دھنک رنگوں میں بدل جاتیں۔ وہ دھنک جماعت پر چھا جاتا۔ میں اپنی میز پر بے حس و حرکت پڑا رہتا۔ میری روح ان دھنک پٹوں کو چومنے لگتی …وہ سب کے سب رنگ ہوا کی لہروں کے ساتھ بہہ نکلتے۔ میں بھی ان کے تعاقب میں بہت دور نکل جاتا۔ جس طرح دیہاتوں میں بچے، گلہریوں اور تتلیوں کے پیچھے جنگل اندر جنگل نکل جاتے ہیں۔

 

 

 

                ………۳……………

 

’’دن اس کی جلد کو مزید چمکدار اور پرکشش بنا رہے تھے …‘‘

مجھے یاد ہے : ایک دن میں نے بالآخر اس سے بات کرنا چاہا … بہت دیر تک مشق کرتا رہا … بہت دیر تک خود میں توانائی اکٹھا کرتا رہا جواس’ سامنے ‘ کے لیے درکار تھی۔ جانے کیوں اس کے پاس پہنچنے ہی یاد کئے گئے سارے جملوں نے بے وفائی کی تھی۔ میں نے بہت دیر تک ان لفظوں اور جملوں کو ذہن کے تہہ خانے میں صدائیں دیں لیکن شاید وہ اس کے رنگ کی تپش سے پگھل گئے تھے۔ میری اس حالت پر اسے حیرت نہیں ہوئی بلکہ اپنے سے انداز میں وہ مجھ پر ہنس دی۔ وہ ہنسی تو سارا ماحول مجھ پر ہنس پڑا … پھر وہ خاموش ہوئی، وہ خاموش ہوئی تو ایک جہاں خاموش ہو گیا۔ اک جہاں خاموش ہوا تب میرے دل کی دھڑکنیں فصیل جسم سے باہر کود پڑیں۔

اس نے ان دھڑکنوں کو سنا جو مجھے احمق ثابت کر رہی تھیں۔ میں نے سوچا، کاش ! میں اس دل کو کسی صندوق میں چھپا کر سمندر میں غرق کر دیتا۔ کچھ لمحے ارادے کی تعمیر اور تشکیل میں گزر گئے … اسی دوران ایک طرف سے رنگوں کا ایک کارواں نکلا، جو یقیناً میری جانب بڑھ رہا تھا۔ … میں نے چاہا … کاش !یہ جو رنگ دار شلواریں اس چلچلاتی دھوپ اور تمازت میں میں پھڑ پھڑا رہی ہیں۔ کتنا اچھا ہو گا اگر یکایک تیز طوفانی ہوا چلے جس سے ان کی ناڑیاں کھل جائیں اور یہ سب شرم، حیرانی اور اور عجلت میں درختوں اور دیواروں کے پیچھے چھپ جائیں … پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ … وہ میرے اطراف پھیل گئیں … شلواریں پھیل گئیں تو وہ ایک طرف ہوئی اور وہاں سے نکل گئی … میں بمشکل اسے جاتے ہوئے دیکھ سکا۔

کالج کے امتحانات کے ساتھ ساتھ میں عشق کے امتحان بھی دے رہا تھا۔

لیکن۔ ۔ ۔ رفتہ رفتہ مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا کہ:

میرے اطراف عشق بہ صورت زہر اپنا حلقہ گہرا کرتا جا رہا تھا۔ میں چمنی کے اندرونی حصے کی طرح اندر ہی اندر سیاہ ہوتا جا رہا تھا۔ میرے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ اسے باہر نکال سکوں، لیکن مجھے یاد ہے : جب کبھی کوئی شلوار مجھے یکایک چھوڑ کر کسی اور جزیرے کی سیر کے لیے نکل جاتی، تب میرا دل بہت چاہتا کہ وہ رنگ مجھ پر چھا جائے، جس کے سامنے میرے لب کھل نہیں سکے تھے۔ وہ قوسِ قزح بن کر میرے اندر رجائیت کی ترنگ بھر دے۔ وہ میرے اندر ایسے دھیرے دھیرے اترے، جیسے سمندر کی پر سکون موجوں میں سرخ تابندہ سورج کی مسافت اترتی ہے۔ وہ میرے ذہن کے حلقوں میں ایسے پھیل جائے جیسے دن اور رات کے مابین مغموم بے نام بے ہئیت وقفہ۔ ۔ ۔ ۔

 

                ………۴…………

 

میری ایک معتبر دوست فرحین اس کی بھی دوست تھی۔ فرحین سے مل ہمیشہ اپنے پن کا احساس ہوتا تھا۔ شاید فرحین کواس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ جن شلواروں نے مجھے کہرا کی طرح گھیر رکھا ہے وہ میرے لیے تاریکی اور ہلاکت کے اور کچھ نہیں ہو سکتیں۔ یہ بہت ممکن ہے کہ فرحین نے اسے میرے بارے میں بہت ساری باتیں بتائی ہوں اور بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا ہو۔ غالباً اسی سبب چند روز بعد وہ مجھ سے ملی۔ جو وہ ملی تو ایک خاص قسم کی روشنی ( جو نہ پیلی ہے، نہ سفید ) نے مجھے اپنے حصار میں کھینچ لیا۔ اس نے مجھے اپنے حصار میں کھینچا، تو کہرائے بے سمت کی کئی تہیں بیٹھ گئیں اور کئی نیم چست شلواریں میری نگاہ سے محو ہو گئیں۔ وہ کسی دوسرے جزیرے پر چلی گئیں ہوں گی۔

میں اور وہ باتیں کرنے لگے۔

لڑکیوں اور پرندوں میں کتنی قدریں مشترک ہیں ؟

 

 

 

                ………۵………

 

مجھے یاد ہے : وہ مجھے مختلف رنگوں کے نقصانات اور مضر اثرات سے واقف کراتی۔ مجھ سے بہت ساری باتوں پر لڑا کرتی۔ روٹھ جاتی۔ کبھی مجھے منا لیتی اور اکثر روٹھی رہتی کہ میں اسے منت سماجت کر کے منالوں۔

ہم ایک دوسرے کے قریب ہونے لگے۔

اس کا رنگ مجھے نظر آنے والے ہر منظر میں شامل ہو گیا۔ میں نے ان دنوں جب بھی کتاب کھول کر پڑھنے کی کوشش کی ایسا ہوا کہ سیاہ الفاظ کاغذ پر سے غائب ہوئے اور اس کی سرخ مائل مسکراہٹ سحر انگیز موسیقی لیے ہوئے کمرے کی نا قابلِ مسافت تنہائی میں ہر جا بکھر گئی۔ یہ وہی تنہائی ہے جو ہندوتوا وادی فسطائیت نے تاریخی انتقام کے جنون میں مجھ پر نازل کی ہے۔ کیا اس تنہائی میں میری گم شدگی کا رمز پنہاں ہو گا؟

 

                ………۶………

 

موسم خزاں کی آمد ہوئی۔ ہواؤں نے اپنی تمام گرد اور گرمی کو خیر باد کہہ دیا۔ سر شام برگد، آم، گل مہر اور املی کے پیڑوں کے نیچے پت جھڑ کی آواز بہتی رہتی۔ خزاں رسیدہ پتوں سے سڑک کے دونوں کنارے اٹے پڑے تھے۔ سورج کی کرنیں برہنہ شاخوں کے سایے، کچھ یوں بناتی تھیں کہ سب دل کے الجھے ہوئے دھاگے ہوں گویا، دن کی مراجعت اور ہر طرف بکھری ہوئے سرخ رنگ سے کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا، جیسے سیلِ وقت جامد تسلسل سے کٹ کر ایک طرف خاموش تماشائی بن بیٹھا ہے۔ ہم دونوں کمرۂ جماعت سے ملحق سیڑھیوں پر بیٹھے تھے، لیکن ہمیشہ جیسی گفتگو اور روز ایسا جھگڑا اس دن نہیں ہو سکا۔ اس کے چہرے پر ایک اجنبی ڈر سایہ کیے ہوئے تھا، گویا پت جھڑ کی آواز کا جو المیاتی نوحہ تھا اس کی بازیافت ہو چکی تھی۔ خزاں نے اس کے دل کی گہرائیوں اور دیدوں کے داخلی منظر جمع خانوں کو کھنگال رکھا تھا۔ ۔ ۔

’’کیا بات ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ کچھ نہیں۔ ‘‘

’’ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔ ‘‘ میں نے اصرار کیا۔

’’بات ……؟‘‘ اس نے مری ہوئی آواز میں کہا۔

’’ یس، بات ‘‘ میں نے دوہرایا۔

’’ ایک بات ضرور ہے ‘‘ اس نے ہونٹ دبا کر کہا اور پھر لہجہ بدل کر کہنے لگی… ’’ میں سوچتی ہوں میرے پاس تمہارے لیے کوئی تحفہ، کوئی نخلستان نہیں ہے۔ اس کے باوجود تم مجھ سے محبت کیوں کرتے ہو…  ؟‘‘( اس سوال کا جواب میرے ماضی اور اس کے مستقبل سے آپ خود اخذ کر لیں گے )

 

                …………۷…………

 

ہم دونوں چپ ہو گئے۔ ہوائیں جن میں خنکی سرائیت کر گئی تھی ہمارے جسموں کو چھو کر گزر رہی تھیں۔ ہم سے کچھ نہ کہا گیا۔ درختوں کی شاخوں سے سورج کی کرنیں تنوں میں اتر کر غائب ہو گئیں۔ ہمارے ذہن ایک پر اسرار شب خون کی زد میں تھے۔ شاید ہم بہت کچھ سوچ رہے تھے …… شاید ہم بہت کچھ کھل کر کہنا سننا چاہ رہے تھے، لیکن ایسی کوئی بات تھی بھی تو نہیں، جسے ہم کہہ نہ چکے ہوں۔

بہت دیر یوں ہی بیٹھے رہے۔

چوکیدار کے اشارے کے بعد … ہم یونیورسٹی سے باہر نکل آئے۔ وہ بس میں سوار ہوئی اور بس کے دروازے سے ہاتھ ہلاتے ہوئے مجھ سے دور ہو رہی تھی۔ بس بمبئی کی ٹرافک میں گم ہو گئی۔

مجھے یاد ہے، ایک کرب ناک، اذیت ناک لہر اس کے جسم سے گزری تھی جس کا نقش اس کی آنکھوں میں نمی کی صورت آویزاں تھا۔ فضا یکا یک منجمد، یخ بستہ اور بوجھل ہو گئی تھی۔ میں شب دیر تک جوہو بیچ کے کنارے بیٹھا رہا اور سوچتا رہا۔ ’’ کاش ! وہ ایک بات، جس نے اس کے اندر ہیجان اور نا آسودگی کی کیفیت کو جمع کر رکھا ہے، نہ ہوتی تو بہتر ہوتا۔ ‘‘ یہ جملہ بار بار میرے ذہن میں متلاطم سمند رکی سطح پر ابھر رہا تھا۔ ساحل کا سارا منظر ہجوم، بچوں کا شور اور کھیل کود، دُکانوں کی ہما ہمی اور شلواروں کی مسکراہٹیں، سب کچھ، سارا ماحول، اس ایک جملے سے باطن میں پیدا ہونے والے گرداب میں ڈوب رہا تھا۔ میں صفر ہو رہا تھا۔ میرا لہو نفی درجوں پر سرد ہو رہا تھا۔ میرا دل مجھے چیخنے پر مجبور کر رہا تھا، لیکن میں لب تک کھول نہیں سکا۔ چیخنے کی خواہش کے دکھ نے اتنی شورش پیدا کر دی تھی کہ میرا سرچکرانے لگ گیا تھا، مگر پتہ نہیں پھر بھی میں کب تک وہاں رنجیدہ، اداس اور ایک غیر مانوس چہرے سے نبرد آزما رہا، جس کا تعلق اس کی اس زندگی سے ہے۔ وہ زندگی جو ہماری محبت کے خاتمے کے بعد شروع ہونے والی تھی۔

                ……………۸…………

 

اس رات کی صبح دوپہر بارہ بجے ہوئی۔ میں یونیورسٹی نہیں جا سکا۔ سارا دن گزشتہ روز کی تلخی کو یاد کرتا رہا۔ پھر کچھ یوں مصروف ہوا کہ متواتر ایک ہفتہ یونیورسٹی سے غائب رہا۔ جمعرات کی شام تاخیرسے پہنچ کر یونیورسٹی کیفے میں چائے پی رہا تھا۔ میرا گمان تھا کہ سب چلے گئے ہوں گے۔ آستین کے کف کھلے ہوئے تھے اور چہرے پر داڑھی اُگ آئی تھی۔ چائے کا گلاس ہاتھوں میں تھا مے میں منجمد پھیپھڑوں کو گرما رہا تھا، جو کئی دنوں کی برفباری میں سردا گئے تھے۔ یکایک وہ وارد ہوئی، ٹیبل کے قریب آ رکی اور اپنا بیگ زور سے پٹخ دیا … میں اسے دیکھتا رہا … کچھ کہہ نہ سکا… وہ بیٹھ گئی۔

’’ کیوں …؟ بہت اسمارٹ ہو گئے ہو، کہاں تھے اتنے دنوں سے ؟‘‘

’’ مصروف تھا۔ ‘‘

’’ جھوٹ مت بولو۔ ‘‘

’’ نہیں، سچ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘

’’ چپ رہو۔ ‘‘ وہ چیخی

میرے سینے کے برفستان میں ایک لطیف خیال کپکپی لینے لگا۔ میں نے گلاس کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ مجھے ایسا لگنے لگا تھا کہ بس ابھی گر کر ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گلاس سے لپٹی میری انگلیوں پر اپنی انگلیاں رکھیں اور کہنے لگی، کیا تمہیں لگتا ہے کہ احساسات صرف تمہارے پاس ہی ہیں … ؟کیا جذبات تمہارے پاس ہی ہیں ؟کیا میری خواہشات نہیں ہیں، اپنے اندر سے باہر نکلو، دیکھو اب تک بہت کچھ خوبصورت ہے !‘‘

میں چپ رہا۔

اس کی نظریں مجھ پر مرکوز تھیں، مرے لب ہلے۔

’’ نہیں فقط اندھیرا ہے … گہرا اندھیرا … بے رنگ اندھیرا …!!!‘‘

’’ ہاں اور کہو، جان لیوا…‘‘ تمہاری یہ قنوطی باتیں میں سن چکی ہوں۔ اب بس کرو … چلو اٹھو … باہر چلتے ہیں۔

( میرے حصے میں جو مرگ افروز قنوطیت ہے اس کا ادراک وہ شخص آسانی سے کر سکتا ہے، جس پر فسطائیت کیا سا یہ پڑا ہو۔ )

 

                ………………۹………………

 

ہم دونوں برگد کے نیچے بیٹھے رہے۔ چپ چاپ … خزاں کا احساس تناور درختوں کی مفلسی، سڑک پر دونوں کناروں پر بکھرے زرد پتوں اور ہواؤں کی سرد مہری سے ہوتا تھا۔ سیاہ برہنہ شاخوں سے شام کے سائے لکیریں بناتے ہوئے پھیلے اور جڑوں کی طرف مراجعت کر صفر میں بدل گئے۔ اس نے میری انگلیاں سختی سے جکڑ رکھی تھیں۔

’’ بات نہیں کرو گے ؟ ‘‘ اس نے کہا۔

’’ کیا کہوں ؟ کہنے جیسا کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ مایوسی چھوڑو‘‘

’’ کیسے ممکن ہے ؟ ‘‘

’’ ہنسا کرو …‘‘

’’ ہنسی …! ‘‘ میں نے مایوسی سے کہا۔

’’ تمہیں مجھ سے پیار ہے نا …‘‘ اس نے انتہائی نرم لہجے میں کہا۔

’’ بے شک ‘‘ میرے منہ سے برجستہ ادا ہوا۔

’’ تو پھر میں جب تک یہاں ہوں، میری خوشی کی خاطر خوش رہو۔ ‘‘

اس کے لہجے کا اعتماد دیکھ کر مجھ میں ایک تازگی جاگی … اس نے میرے ہاتھ چومے۔ اس نے میرے ہاتھ چومے تو ایک مخصوص نیلے رنگ کی لہر اس کے لبوں سے تیزی سے نکل کر میرے سارے وجود کو مرتعش کر گئی۔ اس نیلے احساس کو میں نے آخری بار اپنے خاتمے سے چند منٹوں قبل د و بارہ دل سے دیدوں تک پھیلتے ہوئے محسوس کیا تھا اور اس کے چہرے کا آخری نقش دماغ کی اسکرین پر ابھرا تھا۔ وہ بھی گہرا نیلا لہر دار تھا … … پھر ابدی تاریکی۔

 

                ………………۱۰……………

 

ان دنوں میرا وزن بہت کم ہو گیا ہے۔ میرے ہاتھ بانس کی طرح پتلے اور پیلے ہو گئے ہیں۔ میرے جبڑے بہت اندر دھنس گئے ہیں۔ میں مسخرہ سا لگنے لگا ہوں۔ حد درجہ بد ہیئت۔ میری شناخت ظاہر اور باطن دونوں سطحوں پر ماند پڑ گئی ہے۔ اس مخدوش شناخت کی باز یافت کو آگے چل کر میرا مقصدِ زندگی بننا تھا ……

 

                …………۱۱…………

 

گھاس کے وسیع قطعے، زرد اور تانبے کی تاروں میں بدل گئے ہیں۔ تانبے کی ان تاروں کے درمیان سے گزرنے کے بعد یونیورسٹی کا امتحان گھر آتا ہے۔ لیکچرز سے فارغ ہوئے، تو ہم اس طرف نکل پڑے۔ ہم تیسرے آدمی سے متعلق گفتگو کر رہے تھے، جس سے اس کے والدین نے اس کا رشتہ طے کیا ہے۔ قطعہ گھاس کے درمیان میرے قدم زمین نے سختی سے پکڑ لیے، میں رک گیا… وہ ایک قدم آگے بڑھی اور پھر پیچھے مڑ گئی۔ ’’ کیا ہوا ؟ کیوں ٹھہر گئے ؟ ‘‘۔ اس کے سرخ لبوں کی جنبش مجھے متاثر کر رہی تھی جن پر سرخی مائل رنگ کی اضافی مہین تہہ جمی ہوئی تھی اور اسی سبب ایک لا بیان شعاع، لا عکس شعاع منعکس ہو رہی تھی۔ اس کی تاب میرے سارے مسامات کو لرزہ گئی … ایک نیم واضح رنگ بے ہئیت رشتے کی کونپلیں میرے بطن سے نمو پانے لگیں … وہ چپ تھی۔ مجھے تبدیل شدہ دیکھ کر سہم گئی تھی۔ چند ہی ساعتوں میں میں نے دیکھا : اس کی آنکھوں میں ایک اجالا سا منور ہونے لگا اور ایک احساسِ نرگسیت اس کی پلکوں پر جم گیا۔

میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ تانبے کے تاروں کی کپکپاہٹ اور سرسراہٹ اس کے جسم میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کا رواں رواں منتشر ہو کر خلائے لا محیط میں نور کی رفتار سے بکھرنے لگا، لیکن یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے اندر کی خود محسوس تبدیلیوں کو چھپانے میں اپنی حد تک کامیاب بھی تھی۔ اسی وقت ہمارے درمیان برسہا برس کی خاموشی جاگ رہی تھی۔ ہمارے درمیان کا بے چہرہ اجنبی ڈر شکست سے گذر رہا تھا۔ ہمارے اندر ایک ٹھنڈی لہر بہہ رہی تھی، جو ہمارے پسلیوں تک آتے آتے گرم ہو جاتی، جس کی تپش سے میری ہتھیلی گرماہٹ محسوس کر رہی تھی، میں نے اس کی ہتھیلی تھام لی، جو برفاب ہو چکی تھی …… میں نے اسے یک لخت اپنے قریب کھینچا، اس کی سانسوں کا ردھم تیز تر ہو چکا تھا۔ اس کے ہونٹوں کی سرخی مائل پرت پر میری زبان رینگنے لگی، تو ہمارے دلوں کا زہر ہماری رگوں میں پھیل گیا اور ایک مہک دار جھاگ ہمارے مساموں کی کھڑکیوں سے بہہ رہا تھا۔ کئی سال بعد ایک شب اسے اپنے خواب میں اور اپنے کمرے میں محسوس کرنے کے بعد جب میری آنکھ کھلی، تو بدن کی اس مہک دار خوشبو کی لہروں کو میں نے اپنے کپڑوں اور بستر پر اسی شدت سے محسوس کیا۔

شاید وہ چیخنا چاہتی تھی …… شاید رونا چاہتی تھی …… یا شاید اپنی مٹھی بھر طاقت سے میرا سینہ پیٹنا چاہتی تھی …… پر وہ کچھ نہ کر سکی …… اس نے انتہائی حیران کن لفظ استعمال کیا۔ ’’ بس۔ ۔ !‘ ‘

یہ ’بس ‘زہر میں بجھے تیر کی طرح نا معلوم جہت سے آ کر میرے سینے میں سن سے پیوست ہو گیا۔ تانبے کے سارے مسرور تار دوسری طرف اپنے سروں کو جھکائے تیز تیز ہوا کی زد میں زرد رخ سورج کو الوداع کہہ رہے تھے۔

 

                ……………۱۲……………

 

پھر ہم دونوں کا معمول بن گیا کہ لیکچر سے غائب رہ کر گھنٹوں محبت میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہتے۔ ان ہی دنوں مجھے پہلی بار اس بات کا احساس ہوا ’’ محبت وہ واحد عمل ہے، جس میں منطق کی گنجائش نہیں ہے اور وہ محبت جس میں بدن کا لطف شریک نہ ہو، ایک ذہنی اور روحانی مرض ہے۔ ‘‘

 

                ……………۱۳………………

 

ہم اکثر خالی کمروں میں جا بیٹھتے، متواتر کہتے اور سنتے رہتے، کبھی کبھار یوں ہی چپ چاپ، بجھے بجھے ملول سے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا کرتے … وہ جو میرے بہت قریب ہوتی، تو اس کا سارا بدن گلاب کی ٹہنیوں جیسا اور اس کا چہرہ گل لالہ کی مثل ہو جاتا۔ وہ اپنی جسمانی اہمیت کی معطر روشنی میں غوطہ زن ہو جاتی … ایسے وقتوں میں وہ مجھے کھینچ کر بھینچ کر اور دبوچ کر اپنی چھاتی سے لگا تی، گویا ہر نگاہ سے محفوظ کر لینا چاہتی ہوں۔ میں اس کی بھیگی ہوئی پیشانی، کا جل پھیلی پلکوں، سرخی مائل ہونٹوں اور گرم گردن جس کی اندرونی نسیجوں کے درمیان دھوئیں کی روئیں بہہ رہی ہیں، کو پیار کرتا۔ ایک طرح کی شعلگی ہماری رگوں اور شریانوں میں بیدار ہونے لگتی اور ایک طرح کی مبہم پر اسرار مہک ہمارے گرد دائرے بنانے لگتی اور ایک طرح کی خاموشی ہم سے کلام کرتی رہتی، ہم ایک دوسرے سے لپٹ جاتے۔ ہم مقناطس میں بدل جاتے۔ …… اور ایک آفاقی، بے ہیئت سیال مادہ ہمارے اندر سے پرندہ بن کر جہنم کی طرف اڑ جاتا۔ کبھی کبھار اس سفید محبت کے پرندے کی آمد کے بعض نشانات مجھے اپنی روح کے عکس پر نظر آتے۔

 

                …………۱۴ ………

 

یوں اس نے مجھے محبت کے ایک ایسے رنگ میں باندھ دیا، جس کا تصور میں نے کبھی نہیں کیا تھا۔ رفتہ رفتہ ماضی کے وہ تمام رنگ جن سے میں نے زندگی میں محبت کے تانے بانے بننے چاہے تھے۔ میرے ذہن سے اوجھل ہو گئے۔ اب ذہن کے منطقہ ہائے عشق پر فقط وہ ایک جادوئی رنگ چھا گیا، جو نہ سفید ہے، نہ پیلا !!!راہ چلتے گلی کوچے، کہیں بھی اگر اجنبی رنگ چہرے نظر آتے، تو سارا منظر پس منظر اور سب چہرے سارا کا سارا طبعی اور غیر طبعی عالم اس ایک رنگ میں اپنے کو سمو دیتا۔ ۔ ۔ مخدوش کمرے کی ویرانی میں جب کبھی کسی شب، تاریکی اور بد روحوں کی آسیب زدگی در آتی، تو یہی رنگ، رقص حیات ابدی بن کر یادستان کو منور کر دیتا، جس کے نخلستان میں ملاقاتوں کے کارواں یہاں سے وہاں آنے جانے لگتے۔ دل میں اس رنگ نے ایک نمی، مٹھاس اور گداز کی کیفیت پیدا کی ہے، جس کے باعث تلخی ایام کی افسردگی اور تاریخ کے سب سے زیادہ غیری تاریخی عہد کی سیاسی ہلاکتوں کی غمناکی کم کم سی ہو گئی۔ لیکن دل کی اس ارض نم کی تہہ میں ایک عمیق دلدل کے موجود ہونے کا احساس بھی باقی ہے، جو اندر ہی اندر کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔  ’’ چند دنوں بعد یہ جہان دل ویران ہو جائے گا…… یہ رنگ غائب ہو جائے گا… وہ رخصت ہو جائے گی۔ یہاں سے دور علی گڑھ یا لکھنؤ میں کسی انجنئیر کی میکانکی زندگی کا پرزہ بن جائے گی۔ ابھی میں عمر کی اس منزل میں کہاں تھا، جہاں اس بات کا ادراک ہو کہ محبت میں عرصے کی اہمیت ہر گز نہیں، بلکہ تعلق کی شدت اور گہرائی کی ہے۔ ‘‘

 

یہ کرب بعض اوقات جاں گداز المناکی اور اعصاب زدگی میں مجھے غرق کر دیتا اور میں نفس کی دلدل میں گم شدہ یاد کی طرح فراموشی کا حصہ بن جاتا۔

 

                …………… ۱۵……………

 

میں چند روز یونیورسٹی سے غائب رہا۔ جب پہنچا، تو وہ برس پڑی۔ ’’ مجھے تڑپنے کے لیے یہاں چھوڑ جاتے ہو، میں یہاں پاگلوں کی طرح تمہارا انتظار کرتی ہوں۔ ‘‘ مجھے ہنسی آئی۔ وہ پھر شروع ہو گئی۔ ’’ تم بہت خراب ہو، تم بدل گئے ہو، تم مجھ سے انتقام لے رہے ہو، اب میں تم سے ہر گز ہر گز نہیں ملوں گی۔ ‘‘ مجھے پھر ہنسی آ گئی۔ ( اس لیے کہ میں جانتا تھا جب وہ یہ کہتی ہے کہ اسے مجھ سے ہر گز ہرگز نہیں ملنا ہے، در حقیقت ان ہی لمحوں میں وہ مجھ سے شدت سے ملنا چاہ رہی ہوتی ہے۔ ) میں نے یوں ہی کہا ’’ تمہارا کہنا درست ہے۔ ‘‘ وہ مجھے گھور رہی تھی۔

’’ ویسے بھی گرمیوں کی چھٹی کے بعد تم مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاؤ گی۔ ‘‘

میں مزید کہنا چاہتا تھا لیکن آنکھوں کے اندرون میں جہاں آنسوؤں کے خزانے جمع رہتے ہیں وہاں سے موتی کے چشمے ابل پڑے … … وہ دوڑ کر اس کمرۂ جماعت میں چلی گئی، جہاں ہم ملتے تھے۔ دروازے کی زور دار آواز میں نے سنی۔ کمرے کی دیوار لرز کر رہ گئی اور دیوار کے جس حصے کا دل کمزور تھا، وہاں سے رنگ و روغن اور گرد بکھری۔ کچھ دیر وہیں ٹھہری، پھر ہوا کی لہروں کے ساتھ کسی اور سمت کوچ کر گئی۔ دیوار اور چھت کے درمیان بہت کم کھلی جگہ تھی جہاں عموماً کبوتر محوِ عشق رہتے۔ شور سن کر وہ بھی اڑ گئے اور گل مہر کے پیڑ پر جا بیٹھے۔

میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے متواتر دروازے پر دستکیں دیں۔

’’ دروازہ کھولو ! ارے بس یوں ہی تو کہہ رہا تھا۔ ‘‘ اندر سے سسکیاں ہلکے ہلکے ابھر رہی تھیں۔

’’ دروازہ کھولو، ہماری محبت میں اس مقام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘

٭٭

 

 

وہ میز پر میرے سامنے بیٹھی۔ دونوں ہاتھوں کے درمیان گردن چھپائے رو رہی تھی۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کے کانوں کو تھام کر اس کا سر اونچا کیا۔ اس کا کاجل اس کی پلکوں اور گالوں پر پھیل گیا تھا۔ اس کی گردن سرخ ہو گئی تھی۔ آنکھوں کے گرد کچھ ہلکی سبز لکیریں نظر آ رہی تھیں۔ میں نے اس کے گالوں پر ہاتھ رکھے اور تھوڑی طاقت لگا کراسے کھڑا کیا …… اس کی نگاہیں فرش پر تھیں، سسکیاں آہستہ آہستہ اس کی چھاتی کے قشر میں واپس لوٹ رہی تھیں، مگر سانسوں کا جال تیزی سے لہرانے لگا تھا۔ ۔ میں نے ہاتھ اس کے دائیں کندھے پر رکھا۔ اس نے دل کے خالی رقبے کو پر کرنے کی نیت سے مجھے اپنی خالی بانہوں میں کس کر دبوچ لیا۔ دروازہ بند ہو چکا تھا اور اس کے آنسو میری کالر پر دوبارہ قطرہ قطرہ گرنے لگے تھے۔ محبت مرد کو طفل اور عورت کو دیوی بنا دیتی ہے۔ محبت کا سر ور واحد سرور ہے، جو تنہائی کا تریاق بن سکتا ہے۔ عورت کے بدن کا عرفان واحد عرفان ہے، جو موت کے حسن کے راز اور خدا کے جواز کی منطق سے وجدان کو روشن کر سکتا ہے۔ محبت کے بغیر انسان ہمیشہ آدمی ہی رہتا ہے اور بدن کی لذت کے بغیر عشق کفرِ ذات ہے۔ بدن کی لذت سے متواتر اور متعدد لڑکیوں سے آشنائی نے غالباً مجھے زندگی آشنا کر دیا تھا۔ زندگی سے آشنائی شناخت کی بقا کے مسئلے کو اجاگر کرتی ہے۔ بالآخر شناخت کی چاہت نے مجھے ایک ایسی بصیرت عطا کی، جس کا مجھ میں فقدان تھا۔ اس بصیرت نے مجھے فسطائی طاقتوں کے ارادوں کے خلاف کھڑا کر دیا اور میرے مردہ شعور کو بینائی بخشی۔ میں نے تاریخ، سیاست، شناخت اور فسطائی قوتوں کے عروج کے اسباب کو سمجھنا شروع کیا۔ میری تاریخی حقیقت اور اس کے دفاع کی اہمیت سے مجھے محبت اور بدن کی لذت نے روشناس کیا ہے۔ مجھے کبھی کبھی ایسا بھی لگنے لگا کہ جو محبت کی صفت نہیں رکھتے، ان کی شخصیت کھنڈر ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب دوم: وجود اور عدم وجود

 

 

 

"The only thing wrong with that eye is that it sees more than it ought to be.”

Gabriel Garcia Marquez

(Of Love And Other Demons)

 

 

 

 

 

 

                …………۱…………

 

گرمی کے دن ہیں۔ سورج جب ٹھیک سر پر آ کھڑا ہوتا ہے، جسم بدبو دار پسینے سے گیلا ہو جاتا ہے۔ ممبئی کی سڑکوں پر زندگی سنوارنے کی کوشش میں بھٹکتے ہوئے لوگ تھکے تھکے نظر آنے لگتے ہیں۔ زندگی کی تمام جد و جہد انھیں پسینے کے بد بو دار قطروں میں تحلیل ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ سفر کیوں اور کہاں سے شروع ہوا ہے اور اس کا انجام کہاں اور کس مقام پر ہو گا؟اس بات کا علم کسی کو نہیں ہے۔

ہم برسوں سے منطق کی زد میں ہیں کہ ’ ہم ہیں ‘ ہمارے ہونے کی ممکن توضیحات تک ہمارے پاس نہیں ہیں۔ کیا ہم خواہشات کی عدم تکملیت کا المیہ ہیں ؟ کیا ہم محض ایک خیال ہیں ؟ کیا ہماری زندگی کا کوئی متعین مقصد نہیں ہے۔ کیا ہم فقط زندگی کو ضروریات کی تکمیل کا جواز قرار دیں ؟ ہم مذہب کے فرسودہ تصور اور نا معلوم مبلغوں کے واضح کردہ عقیدوں پر عمل پیرا ہونے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ؟

ٍ        بے شمار ننگے اور بے سر و پیر سوالات دھوپ کی تمازت اور جسم کی بد بو کے ساتھ بمبئی کے چوراہوں پر کھڑے لوگوں کے ماتھے پر نظر آتے ہیں۔ جن کے جواب کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندستان کی موجودہ نسل تاریخ کے ایسے نیم تاریک عبوری عہد سے دبے پاؤں گزر رہی ہے، جہاں صرف بدن افراد کی شناخت ہے۔ فقط بدن۔ یہ وہ مرحلۂ تاریخ ہے جہاں روح، باطن، فکر اوراحساس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ گویا وہ غیر فطری عناصر تھے، جنھیں موجودہ سماجی معاشرتی اور سیاسی نظام کی سفاکی نے کسی حد تک مٹا دیا ہے۔

گرمی میں چہرے کی دیواروں پر ملا ہوا رنگ و روغن پگھلنے لگتا ہے، تو آدمی اپنے اصلی چہرے کو لیے فرار ہونے کی خواہش میں گرفتار ہوتا ہے۔ یہ اس شہر کا المیہ ہے کہ یہاں صرف جھوٹ زندہ رہتا ہے۔ یہاں سچ ناف کے نیچے کا حصہ ہے، جسے چھپا کر رکھنا فرض ہے۔

مہینہ بیت گیا۔ گرمی درختوں کی شاخوں پر حیات نو لے آئی۔ سوکھے درختوں کی ٹہنیوں پر کونپلیں نظر آنے لگیں۔ جنھیں دیکھ کر بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ کائنات کا وجود موہوم نہیں ہے۔ زندگی کا طلسمی میٹا مور فوسی اور غیر مادی رقص طاقت ور ہے۔ طاقت کی تعریف ممکن ہے اور چیزوں کی ماہیتی بنیادیں بھی ہیں۔

میں پیپل کے تنے سے لگ کر بیٹھا تھا۔ سورج اپنی مسافت سے تھک ہار کر شفق کے سایوں کے رنگوں میں نہا رہا تھا۔ پیپل کے نئے تازہ سرمئی، نارنگی پتے سرسراہٹ میں حصہ لے رہے تھے۔ راحت بخش ہواؤں کے ساتھ موسیقی کے ٹکڑے بہہ رہے تھے۔ مجھے اس کا انتظار تھا۔ پچھلے تین دنوں سے وہ متواتر یونیورسٹی نہیں آ ئی تھی۔ مجھے اس کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے اس کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ تو کیا وہ سچ مچ میری عادت بن گئی ہے ؟ لیکن یہ کیسے ممکن ہے ؟ کبھی کبھی میری سوچ کے خطوط و زاویے یکسر بدل جاتے ہیں اور میں انسانی رشتوں کی صداقتوں پر وحشت زدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے لگتا ہوں۔ میں بار بار سوچتا ہوں کہ رشتوں کی اساس کیا ہے ؟ غایت منطق اور ضرورت کیا ہے ؟ رشتوں کے استحکام اور پائیداری کا ’ غیر لازمی ‘جواز کیا ہونا چاہیے ؟ رشتوں کا کوئی غیر سماجی جواز ہے بھی یا نہیں ؟رشتوں کی نوعیت کس نے اور تاریخ کے کن مراحل نے طے کی ہے ؟ رشتوں کی عمر اور تاریخی حقیقت فی نفس کیا ہے ؟ رشتوں کا مابعد الطبعی تصور مذہب ہی کا وضع کردہ ہے یا سماجی بھوک اور انحصار کی خواہش نے اسے جنم دیا ہے ؟ رشتوں کے معروضی تقاضے کیا ہیں اور ان تقاضوں کی تکمیل یا عدم تکمیل میں رشتوں کے ارتقا کا سفر اور کن ’ غیر لازمی ‘ بنیادوں پر ہو گا ؟ یا رشتوں کی جتنی بھی اشکال ہیں ان کی سالمیت، اظہار یا علامتی فرضی اظہاریت میں ہونا چاہیے ؟ کیوں رشتوں کے ان مکڑ جالوں کے بغیر انسانی سماج کا ڈھانچہ تیار نہیں کیا جا سکتا ؟ کیا کمزور اور مطلب کے رشتوں کو جھٹک دینا چاہیے ؟ کیا ہمیشہ حقیقی اور محبت پر منحصر رشتوں کی تلاش میں رہنا چاہیے ؟ کیا ہمیشہ ایک عرصے بعد ہر رشتہ بد نما داغ میں بدل جاتا ہے ؟ کیا رشتے کی خواہش سراب نہیں ہے ؟؟؟

اس قسم کے بے شمار وحشی سوالات ذہن کی رگوں میں آتش فشاں کی صورت پھوٹ پڑتے، دل کی خوشنما شاخوں پر سانپ کی صورت ڈسنے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یکایک سیاہ بے نور غاروں کی بھول بھلیوں میں جنگلی سور شور مچا رہا ہے۔ یہ کیسا عجیب طلسم ہے ؟ یہ داخلی الجھنوں کی کون سی الوہی پکار ہے ؟ ہم کیوں کائنات کے رموز کا عرفان چاہتے ہیں ؟ ہمارے پاس ایقان کا کوئی خود ساختہ یا خود آزمودہ نظام کیوں نہیں ہے ؟جو ہمیں ساری نا آسودگیوں اور الوہی کربناکیوں سے نجات دلا سکے ؟لیکن ہماری خود کار خواہشِ نجات کے معنی ہم پر کیا کھلتے ہیں ؟ ہم بنیادی طور پر خوشی کے کس مفہوم سے آشنا ہیں ؟ اور خوشی کی اصلیت کون طے کرے گا ؟ کیا خوش رہنے کی تمام کوششوں کے باوجود ہم تصنع بھری مٹھی بھر زندگی گزارنے میں کامیاب ہوتے ہیں ؟ کیا ہم انسان صبح کاذب کو جاگ کر اپنے اپنے چہروں اور دلوں پر اپنے اپنے خود تیار کردہ ماسک لگا لیتے ہیں ؟ ہمارا سماج کے ساتھ رشتہ کن بنیادوں پر ہے۔ ہماری انفرادی، خاندانی اور سماجی زندگی میں رابطے کا معیار کون طے کرے گا ؟ ہمیں اپنی خواہشات کا کتنا اختیار ہونا چاہیے ؟ خواہش کا سبب کیا ہے ؟ سوالات کا لا متناہی تسلسل بہتا جاتا ہے۔ کشتی گرداب میں گھومتی جاتی ہے۔ سوال در سوال زندگی کا رنگ مزید گہرا ہوتا جائے گا۔ ۔ مگر ’پانی ‘ کا رنگ پھر بھی ’ پانی‘ ہی رہے گا۔ ( کیا آپ اس طرح کے سوالات کے بھنور سے نبرد آزما نہیں ہوئے ہیں ؟)

 

                ………………۲………………

 

دن سورج کی گلابی رنگت کو سمیٹ کر ڈوب گیا اور فضاؤں کے کانوں میں حشرات کی گنگناہٹ سائیں سائیں کرنے لگی۔ بعض محروم اور نیم روشن کھڑکیوں والے گھروں کی چھتوں پر چاندنی اور اداسی بال کھولے سونے آ گئی۔ پیپل کا درخت اندھیرے کے بدن میں اپنے سرسراتے وجود کو چھپانے لگا۔ رات جو ساری کائنات کا ابدی انجام ہے، جو کائنات کی ماں ہے، پیپل کی نمو یافتہ کونپلوں پر آفاقی صد جہات سے برس رہی تھی۔ یہ رات بھی تو ایک احساس ہے۔ ختم ہو جانے کا، غائب ہو جانے کا، زوال کا۔ ۔ ۔ فقط احساس !جس میں ہر آن زندگی کے بے شمار روشن منطقے سیاہ خالی جگہوں میں تبدیل ہو کر اپنی موت کے نوحہ گر بن کر ’’ خود اپنے ہی گرد اور اپنے باطن میں مقید ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ رات اور دن کی مسابقت میرے دل میں بڑی مہیب حالت پیدا کرتے ہیں، مگر کس سے کہوں ؟

میں وجود اور عدم وجود کے درمیان ایک حد فاصل کی جستجو کرتا ہوں اور رشتوں کو ایک کلیدی جواز کے طور پر تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ رشتوں کے جواز کی بازیافت کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بھی ایک ایسے شعوری عہد میں جب تاریخ پہلی بار سیاسی راگوں منتروں سے پاک کی جانے والی ہے۔ میں نہیں جانتا اور نہ ہی اب جاننا چاہتا۔ میں نہ تھا تو کیوں اور میں ہوں تو کیوں ؟ یہ سوال لاحاصل ہے۔ کیوں کہ ان سوالوں کا تعلق میرے ہونے سے کم اور میرے نہ ہونے سے زیادہ ہے، جبکہ میں نے ان دنوں دو حقیقتوں پر ایمان لایا ہے۔ پہلی یہ کہ’ میں ہوں ‘، دوسری یہ کہ مجھے ’ نہیں ہونا ہے ‘۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ’’ میں خود میں ہوں، اس لیے نہیں کے کانٹ سوچتا تھا اور میں بھی سوچتا ہوں، بلکہ اس لیے کہ میرے پاس رشتوں کا جال ہے۔ میرے اور دیگر انسانوں کے درمیان احساسات اور محسوسات کا ناقابل تمام سفر، پل صراط ہیں۔ میرے اور دیگر انسانوں کے درمیان خواہشوں کی تکمیل اور عدم تکمیلیت کے ریگستان ہیں، جن کو پاٹنے کی سعی میں ہم عمل زندگانی میں دھنستے جاتے ہیں، میرے اور دیگر انسانوں کے درمیان مابعد الطبعیاتی اپنائیت اور محبت کا رشتہ ممکن ہے۔ میرے اور دیگر انسانوں کے درمیان تعلقات کا ایسا وسیلہ بھی ہے، جس میں بدن کی شمولیت کلیدی، فطری اور لازمی شرط بن جاتی ہے۔

میں خود کسی کے ساتھ وابستہ کر سکتا ہوں اور اس وابستگی کا احساس میرے مٹھی بھر وجود کو توانائی، معنی اور زرخیزی عطا کر سکتا ہے۔ مجھے جب کسی کا انتظار ہوتا ہے، اس وقت وہ لمحہ جو میں حالت انتظار میں گزارتا ہوں میرے اور اس وجود کو ٹھوس بنیاد عطا کرتا ہے۔ میں خود کو عدم وجود کی ہولناکی سے نکال کر روح کو انبساط کی زمین دے پاتا ہوں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب تحت الثریٰ کی عذاب ناک تنہائی سے نکل کر میں وجود کی ناقابل تفہیم لطافت کو محسوس کرتا ہوں۔

وجود اور عدم وجود کی گفتگو میں زندگی کی مادی عمومیت فنا ہونے لگتی ہے۔ ہر طرح سے نقصان کا خدشہ رہتا ہے، مگر اس عمومیت کے خاتمے کے بغیر عرفان کی گنجائش کے دروازے بھی بند رہتے ہیں۔ عمومیت سے مراد اس مصروفیتِ روز و شب سے بھی ہے، جو اس احساس کو توانائی عطا کرتی ہے۔ کہ ہم جڑوں اور زمین سے مربوط ہیں۔ جڑیں اور زمین احساس ہیں۔ ایک غیر مادی نظام جو فنا نہیں ہو سکتا، مگر بدل سکتا ہے۔

گزشتہ برسوں مجھ میں اپنی جڑوں اور زمین کا احساس بہت گہرا ہو گیا ہے۔ میری ثقافت کی شاخوں سے کوئی مجھے کاٹنے کے درپے تو نہیں ہے ؟ کہیں کوئی میری جڑوں کو مسخ شدہ تاریخی مفروضات کہہ کر کاٹ تو نہیں رہا ہے ؟ میری زمین سے میری شخصیت کو جو توانائی اور زرخیزی ملتی ہے، میری زبان کی شیرینی اور شادابی میں میری ذات کے جو جواہر پوشیدہ ہیں اور جن سے میری شناخت، میری تاریخ، میرا کل سب کچھ وابستہ ہے، کوئی مجھے سازش بنا کر اس سے دور تو نہیں کر رہا ہے ؟ میں اپنی جڑوں اور زمین میں تحلیل ہو جاؤں گا، مگر خود کو کسی دوسری شناخت میں تبدیل نہیں کر پاؤں گا، کیا آپ کر پائیں گے ؟ کیا آپ اپنی تاریخ سے کٹ کر جی سکیں گے ؟ کیا آپ اپنے یادستان کو فراموشی کے کہرا میں بدل کا ماسک دھار کر اطمینان کا سانس لے سکیں گے ؟ ؟

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اسے یاد کرنے کے سبب، اپنے آپ کو خوش رکھنے کی طاقت میرے اندر جاگی ہے۔ یعنی ایک احساس میرے اندر گہرے اتر کر باطن کی سراسیمگی، افسردگی، ویرانی، بیا بانی، رفعت، لطافت، آسودگی، متانت اور اطمینان عطا کر سکتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ کون سی سطح ہے کہ جن پر ہم بے قرار رہتے ہیں ؟ وہ کون سی منزل ہے جہاں ایک خارجی مسئلہ پہنچ کر ہمارے اپنے شخصی اور ذاتی رویے کو کریدتا ہے اور ہمیں رنج و ملال کی دلدل میں ڈوباتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم اپنے وجود کی اساس پر برنگیختہ ہو جا تے ہیں۔ وجود ہمیں سخت کوش عذاب ناک سایہ نظر آنے لگتا ہے، جو منفی ہوتے ہوتے ’’ہر چند ہے۔ ۔ ۔ نہیں ہے ‘‘ کے گمان کا شکار ہو جاتا ہے، جس کے سبب زندگی آگ کا بے مایہ دریا نظر آنے لگتی ہے، ۔ انتشار ہمارا مقدر بن جاتا ہے اور ہم اپنے وجود کی نوعیت پر اس کی شوریدگی پر روتے ہیں کہ ہمارا لہو بے رنگ ہو کر ہماری آنکھوں سے بہہ پڑتا ہے۔

ہم اس سطح کا تعین کیوں نہیں کر سکتے، جہاں خوش رہنے کے احساس کی ایک لہر ہمارے اندر یکایک تبدیلی پبا کرے جو ہمارے ماضی کے رنجیدہ اور بظاہر فراموش کردہ واقعات کو اپنے طلسم سے تحت الشعور کی ویران وادی میں دھکیل دے۔ ۔ ہمیشہ کے لیے۔ کوئی تو حد ہو گی، جہاں دکھ اور سکھ کی سرحد ایک دوسرے میں مدغم ہوتی ہوئی نظر آئے اور ہم ٹھہر کر گزریں اور گزرتے ہوئے وقت کو معیار بنا کر اپنے حصے کی سرشاری فسوں گری کی پیمائش کر سکیں۔

اس خیال نے ہمیشہ مجھے ایک لطیف ترین ترنگ کے ساتھ ایک شاداب حزنیے میں مبتلا کیا ہے کہ شدید ترین انتشارِ وجود کی حالت میں بھی ایک احساس نے زندگی کی رونق اور تازگی کو میرے جسمانستان میں بویا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ایک روشن ہالۂ نور رفتہ رفتہ پھیل کر ساری تاریکی کو مات دے دیتا ہے۔ ظلمت اور سیاہی کی روح پر جو حکمرانی ہے وہ کیچوے کی طرح رینگ کر دور نکل جاتی ہے۔ اس کی میعاد کتنی ہے، یہ شاید الگ بحث ہے، لیکن اس امر کے واقع ہونے کی گواہی تو دے سکتی ہے۔ اس اضافی قوت کی تعریف کیسے ہو گی جو ہمیں زندگی کی توانائی مہیا کرتی ہے ؟ہمارے باطن کی فسوں کاری پر ممتا بن کر پھیل جاتی ہے اور ہمارے غیر مانوس المیاتی وجود کو بوجھل پن سے نکال کر ایک ناقابلِ یقین مسرت عطا کرتی ہے۔ محبت اس مسرت ذاتی کے حصول کا سب سے بہتر ذریعہ ہے۔ ورنہ انسان زندہ در گور ہو جائے گا۔ کیا آپ زندہ در گور ہیں ؟ اگر آپ محبت سے حاصل ہونے والی مسرت ذاتی کے بغیر جی رہے ہیں، تو یقیناً آپ زندہ در گور ہیں۔

اس کو یاد کرنا میری عادت نہیں، وہ میری مجبوری نہیں ہے۔ نا میں شعوری طور پر اس کی یاد کو اپنے گرد پھیلاتا ہوں۔ لیکن کم از کم مجھے یہ جاننا ہی پڑے گا کہ آخر کیا بات ہے، جو مجھے اس کی یاد دلاتی ہے ؟ یا یوں کہ آخر کیوں میں اسے یاد کرتا ہوں ؟ یاد بطورِ حقیقت کس قدر کی حامل ہے ؟ اور اس کی جڑیں طبعی خواہشوں پر ہیں یا ہماری جبلت کا خمیازہ ہیں ؟ کیا سارے انسان زندگی کا بڑا حصہ یادستان میں گزارتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو کیا یاد، ایک کائناتی صداقت ہے ؟ جو ہر آن آفاق میں سو جاری و ساری ہے، جس سے خدا کو بھی صفر برابر مفر نہیں ؟ خیر! خدا پر کمندِ تصور پھینک کر ہمیں کیا حاصل ہو گا ؟ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے اس کی یاد کیوں آتی ہے، تو جو وجہ میرے ذہن میں اس وقت ابھر رہی ہے وہ یہ ہے کہ ( چونکہ ) ’’میں موجود ہوں اور سوچ بھی رہا ہوں اور عین اس وقت میری ذات کا تعلق عناصرِ حیات سے بھی ہے۔ اسی لیے یہ میری کائناتی جبلت کا ایک عنصر ہے کہ میں تمام عناصر حیات کی جانب اپنے ذہن کو رجوع کروں۔ ‘‘

یعنی یہ میرے محور کی طرف میری ذات کی مراجعت ہے اور محورِ ذات شخصیت کی تعمیر کے تمام لوازمات سے متشکل ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اکثر و بیشتر جو چہرے میرے تصور میں یا جو نام میرے دل میں ابھرتے ہیں، ان کا کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی رشتہ میری موجودہ زندگی سے بھی ہے۔ میری ذہنی اور تصوراتی زندگی سے ہے۔ میری فکر اور نفس کے سمندر میں ابھرتے مٹتے میرے ہی عکس لا تفسیر سے ہے۔ مثلاً مجھے ان دنوں میری ( میری طالب علمی کے دن ) خاص کر فلابئیر،د وستوفسکی، ہنری جیمز، منٹو، سارتر، کامیو اور میرا جی یاد آتے رہتے ہیں۔ ان ناموں کے پس منظر میں، جو ایک دنیا ہے، میں کم یا زیادہ لیکن اس سے بھی واقف ہوں کہ ان میں سے بیشتر نام اپنے ساتھ ایک المیاتی افسانوی حقیقت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں درد، شوریدگی، انتشار، کرب اور حوصلہ سب ایک معیار بن چکا ہے، تو ان کی یاد میری ذات کے اسرار اور کائنات کی تنظیم کے سبب ہی ہے، ۔ اس طرح سوچا جائے، تو یاد ایک تاریخی تسلسل، سفر اور ارتقائی دستاویز بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومیں برسوں بعد بھی اپنی تضحیک اور شکست کا انتقام لیتی ہیں۔

ہندستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورت حال اس بات کی گواہ ہے کہ مغل حکمرانوں اور دگر مسلم حملہ آوروں کی تباہ کاریوں کو جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اسی تاریخ جواز کی بنیاد پر ہم عصر ہندو معاشرے کا احیا ہو رہا ہے۔ گویا ایک تاریخی انتقام لیا جا رہا ہے۔ ہم نے اسرائیل کی تعمیر دیکھی ہے اور ہم ان دنوں سے بھی با خبر ہیں، جب جرمنی نے اس یہود قوم پر زندگی تنگ کر دی تھی …… یہاں تک کہ اس قوم کی معصوم کم عمر بچیوں کے نازک جسمانی حصوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وقت گزر گیا، مگر ہر لمحہ اپنی شدت کے ساتھ تاریخ کی آنکھوں کا حصہ بن گیا ہے۔ ۔ ۔ اور تاریخ ایک انتقامی روداد ہے۔ یہ بہت ممکن ہے کہ یہود قوم اپنی تاریخی شکست اور بے عزتی کا انتقام لے ؟ ان کی سماجی زندگی کی سیاسی بنیاد ہی تاریخی تشخص کی تکمیل پر ہے۔ یہ زمین کا محوری نظام ہے۔

مجھے اسے یاد کرنے میں ایک خوشی ملتی ہے، جس کی پیمائش ممکن نہیں، لیکن اسے یاد کرتے ہوئے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اسے کسی طور بھول جاؤں اور مجھے بے پناہ خوشی محسوس ہو، جس کی قدر اور پیمائش ممکن ہو۔

زندگی ایک اذیت ناک داخلی دلدل ہے، جس میں سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں۔ کیا کبھی یادوں کی دلدل میں گرتے ہوئے آپ نے اس ہلاکت کو محسوس نہیں کیا ؟ کیا کبھی آپ نے یہ محسوس نہیں کیا کہ بعض مخصوص واقعات کی یاد کی دلدل میں آپ کی شخصیت ڈوب رہی ہے ؟ آپ سوائے یادوں کے دفتر کے علاوہ اور کیا جمع کرتے رہتے ہیں ؟ یادیں آپ کا واحد غیر مادی سرمایہ ہیں۔ یہ جس قدر ضخیم اور بالیدہ ہو گا وسیع اور عمیق ہو گا، آپ کی داخلی اور قلبی زندگی کو اسی قدر استحکام اور عرفان نصیب ہو گا۔ یادیں علم کی تجربہ گاہ ہیں اور نسلی تشخص کی تعمیر اور تاریخی سفر میں ثقافت کے فروغ اور تحفظ کا واحد ذریعہ۔ ۔ ۔ میں اپنے ارتقا کی تاریخ اور ثقافت کے فروغ کی یاد کے ساتھ زندہ ہوں۔ اس وجودی تاریخی سرمایے کو میرے بعد آنے والی نسلوں تک پہچانے کا ذمہ دار۔ ۔ ۔ اور مجھے احساس ہوتا ہے : کوئی اس ’ ’یاد ‘‘ پر حملہ آور ہے۔ تب میں فیصلہ کن حد تک جہاد کے لیے خود کو آمادہ کرتا ہوں … یہی زمین کی تاریخی صداقت ہے۔ ۔ ۔ اسی سے تہذیبی جبلت جنم لیتی ہے۔

 

                …۴ …

 

رات دو بجے تک میں کامیو کا ناول Outsider پڑھتا رہا۔ غالباً علی الصباح ہو گی، جب سورج کی تیز کرنیں روزن سے اندر داخل ہو رہی تھیں، جس کے سبب سارا کمرہ طلسمی اجالے سے روشن ہو گیا تھا۔ میں نے پتلی پتلی تین چادروں کو اپنے چہرے کے گرد لپیٹ لیا، ’’مجھے سونا ہے۔ ‘‘ میں ہوش میں رہنے کے چاہ سے دست بردار ہونا چاہتا ہوں، مگر وہ روشنی کا سیلاب مزید تیز ہوا چاہتا تھا اور چادر کے ریشوں کو پگھلا کر اندر داخل ہو کر میرے دیدوں کے بھیتر کے اندھیروں کو چاندی جیسے اجالے میں بدل رہا تھا۔ جب میری آنکھ لگی ہوئی تھی تب کوئی نشانِ خواب نہیں بنا تھا، گویا نیند کے وہ پر کار لمحے وجود کی مراجعت کے ایسے پل تھے جن میں روح بدن سے بیگانہ ہو گئی تھی۔ اب میں دوبارہ ایسے ہی عدم خواب کے حلقۂ نیند میں مراجعت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے روزن کے شیشے پر پردہ کھینچ لیا، تاکہ سورج کی شعاعیں اس سے ٹکرا کر آگ کے گولے میں لوٹ جائیں۔ میرے کمرے کی یکسوئی اور اپنا پن سادھی نیم تاریکی لوٹ آئے، تاکہ میں اس عذاب پرور چمکے لیے اجالے سے نجات حاصل کر سکوں۔ مجھے ناکامی ہوئی۔ شاید سورج کی کافر شعاعوں میں کسی بد روح کی بد دعا تھی، جو شکلیں بدل بدل کر کمرے میں مدخل ہوتی جاتی تھیں۔ میں نے ایک اور چادر، جو بہت دنوں سے کونے میں پڑی ہوئی تھی اٹھا کر پیٹ میں دبوچ لی۔ لیکن جانے کیوں اجالا میری آنتوں اور رانوں میں سرائیت کر رہا تھا۔ ایک ساعت کے لیے میرے دیدوں میں ایک پیکر ابھرا …… نیم تاریکی میں وہ سبز رنگ کا جان پڑا، پھر وہ سبز رنگ کائی میں بدل گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ پیکر مجھے آواز دے رہا ہے۔ آواز دیواروں کے بیچ مرتعش ہوئی اور جانے کس نقطے پر مرتکز ہو کر یکایک ہوا کی لہروں میں تحلیل ہو گئی۔ شاید میری روح میں وہ آواز محور تلاش کر گئی ہو۔ میں ہوں …… میں اسی لیے ہوں، مجھے کس کر دبوچ لو۔ میں نے اپنے ہاتھ رانوں کے درمیان دبوچ لیے۔ وہ کائی رنگ، خاکسری رنگ میں بدل گیا۔ پیکر میرے بستر سے متصل کھڑا ہو گیا۔ میری جانب دیکھ کر مسکرانے لگا، گویا … پارے کا سمندر آپ کو کھینچ رہا ہو۔ اس آہستگی اور ملاحت کے ساتھ جس سے روح کی تمام مغموم شاخیں ایک مسرور کن احساسِ جمال سے سرشار ہو جائیں۔ میری آنکھوں میں وہی سفید کپاس دار اجالا ہچکولے لے رہا تھا، جس نے میری بائیں پسلی کی دیواروں میں جمی موم کو پگھلانا شروع کر دیا۔ کیا پگھلنے والی موم کے گرم قطرے میری انگلیوں سے ٹپکنا چاہتے تھے ؟ میری پرانی پوشیدہ بے رنگ چادر کو وہ پیکر خاکستری یوں آہستگی سے کھینچنے لگا، جیسے کوئی گلاب کی پنکھڑیوں سے مہک کی لہریں کشید کرتا ہے۔ میں نے حیرانی اور استعجاب سے آنکھیں کھولیں، اسے دیکھا : ’’ نہیں مجھے نیند کی جھیل میں غرق ہونا ہے۔ ‘‘ اس نے میری بات نہیں سنی اور جبراً میرے بستر میں گھس آیا۔ لیٹ گیا۔ میں بے بس اور محکوم تھا۔ اس نے میرے ہونٹوں پر اپنی حنائی انگلیاں رکھیں اور کہا: ’’ مجھے دبوچ لو …… میں اسی لیے ہوں۔ ‘‘ میرے اوندھے بدن پر وہ بالکل برہنہ لیٹ گیا۔ اس پیکر کے سینے کی ملائمت مجھے اپنے سینے پر محسوس ہوئی، تو مجھ پر کھلا کہ وہ کون ہے۔ انبساط کا نشہ پہلے روح میں پھیلا پھر ذہن کے مرکز میں ایک نقطے میں روح سمت گئی، پھر چند ساعتوں بعد وہ مرکز گہرے اندھیرے سے بھر گیا جس میں چند لمحات کے لیے احساسِ روح بھی فنا ہو گیا …… روح کے تحلیل ہونے کے سبب دل کی زمین پر پھنسے ہوئے عدم اتفاق اور احتجاج کے فلسفے بھی پگھل پڑے …… اجتماعی شعور کے درخت کی شاخیں موم بن کر شریانوں کی راہ باہر آنے کے لیے مچلنے لگیں۔ دیواریں خاموشی سے اس موہوم اتصال کی گواہ بن رہی تھیں۔ بدن کے شور و شر ر کو چادریں اپنے ریشوں میں جذب کر رہی ہوں گی۔ دروازے کی کڑی اپنی آنکھوں سے اس راز عشق نفس کو کھلتے دیکھ رہی تھی۔ مٹی کا مٹکہ اپنے اندر کی نمی باہر چھوڑ رہا تھا۔ کیا اس میں بھی میرے نفس کی آنچ موجود ہے ……؟مٹی کے برتن سے الہامی رشتہ ممکن ہے۔ بستر کے اوپر طاقِ نسیاں میں سوئی ہوئی مذہبی کتاب کی آیات شرم اور تحیر آمیز گی کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ دیواروں اور کھڑکی دروازوں کے باریک چھیدوں سے بھاگ رہی تھیں۔ موری کے سرنگ شکل سوراخ سے کیچوے اندر آئے۔ پرانی میز کے اندر کی دیمک کو جگایا اور سب مل کر محوِ تماشہ ہو گئے۔ اس کے ہونٹ بادامی رنگ کی آمیزش رکھتے تھے۔ ان سے مشک ایسی مہک پھیلی جس سے میری آنتوں میں سفید جھاگ کا سمندر لہریں مارتا رہا۔

یہ جھاگ بھرا سمندر کب سے موجزن ہے ؟ کیا آپ کے اندر اس وحشت سے موجیں مارتا سمندر ہے۔ کیا سرد سمندر والے انسان کے ساتھ رہا جا سکتا ہے ؟ کیا آپ کا جھاگ بھرا سمندر سرد ہے ؟ نہیں نا ؟

’’ یہ جھاگ کب نفس سے باہر نکلے گا۔ ‘‘ میرے منہ سے جملہ ادا ہوا۔ دیوروں کے کانوں نے اس جملے کو سن لیا ہو گا۔ اس نسوانی پیکر کی گرمی میرے دماغ کی رگوں میں منتقل ہو چکی تھی اور میں اس کی توانائی کے زیر اثر روح کے محور پر رقصاں ہو گیا تھا۔ تیز تیز تیز تر …… اس کے چہرے پر بھی ہلکی اوس امڈ آئی تھی اور جانے کس درد کی زیریں لہریں اس کی سانسوں میں محلول ہو چکی تھیں۔ اس کی سیاہ منور آنکھوں میں چمکدار قطرے بنے اور گردن کے پسینے تک بہہ آئے اور میری گردن کے پسینے میں ڈوب گئے۔ ان آنسوؤوں کے قطروں نے مجھے نمی، آسودگی اور تکمیل کے احساس سے آشنا کیا۔

 

 

 

 

                …… ۵……

 

پگھلتی موم کے قطرے میری انگلیوں سے بہہ کر چادر نم کر گئے تھے۔ میرا سینہ وزنی ہو گیا، میری پلکیں بوجھل ہو گئیں اور یقین کیجیے آنکھوں میں حلقۂ نیند سما گیا، جس کی عدم خوابی میں گہرے بادلوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ میں اس نیند کو اس اطمینان سکون کو کس قدر ترستا ہوں، کیا آپ ایسی ہی بے خواب حقیقی نیند کو نہیں ترستے ؟

وہ مدھم آنچ کی طرح الگ ہوئی ہو گی اور کٹ بدل کر وہیں سو رہی ہو گی۔ برہنہ، خاکستری، مطمئن مضمحل ……

 

                ………۶………………

 

دوپہر ایک بجے کے قریب میری آنکھ کے در کھلے۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہو گیا۔ دیکھتا ہوں کہ میرا بستر مڑا تڑا پڑا ہے۔ ایک طرف ایک کونے میں ایک چادر پڑی ہوئی ہے۔ روشنی در آنے والے روزن پر پردہ گرا پڑا ہے۔ میں کہاں غرق تھا؟میرے منہ سے یہ جملہ کیا نکلا؟علی الصباح کا واقعہ دماغ کے اسکرین پھیل گیا۔ میں نے چادر اٹھائی، جس پر موم کے چند قطرے منجمد برف میں بدل گئے تھے۔ چادر میں نے موری میں پھینکی اور نہانے بیٹھ گیا۔ مجھے یاد آیا : آج فریدہ کا یومِ پیدائش ہے۔ مجھے اسے تحفہ دینا ہے۔ وہ خاکستری پیکر تصور بن کر میرے ذہن میں در آئی اور مجھے وہ تحفہ دے گئی ……… جو زندگی کے تمام زہر کا تریاق ہے۔ یاد کیجیے۔ کیا آپ کو اس طرح کا تحفہ السرور کسی نے دیا ہے ؟اگر نہیں، تو آپ کے خوش نصیب ہونے پر شبہ کیا جا سکتا ہے۔

 

                ………۷………

 

’’ وہ تم سے بہت ناراض ہے۔ ‘‘

’’ کیا کہا اس نے ؟ ‘‘

’’ وہ کہہ رہی تھی، تم سے بالکل بات نہیں کرے گی۔ ‘‘

مختار میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ جب وہ مجھ سے ناراض ہوتی ہے۔ ان لمحوں وہ مجھ سے ملنے کی مشتاق ہوتی ہے۔ کاش تم لڑکیوں کو سمجھتے ؟وہ جن سے محبت کرتی ہیں ان سے ہی روٹھا کرتی ہیں، ناراض ہوتی ہیں، غصہ کرتی ہیں۔ ان کی اصلاح کا بھوت بھی ان پر سوار رہتا ہے۔ خیر میں تم سے کل یونیورسٹی میں بات کرتا ہوں۔ اتنا کہہ کر میں نے فون رکھ دیا۔

میں جانے کن کاموں میں مصروف تھا لیکن دل میں اس کے خیال آتے رہے۔ مثلاً مجھ سے جھگڑنے کے بعد اگر کبھی وہ سہیلیوں کے درمیان بیٹھی ہوتی … اس وقت بھی وہ صرف میرے ہی خیالات میں غرق رہتی اور میرے تاثرات کا مشاہدہ کرتی رہتی اور جب اس کا موڈ ٹھیک ہو جاتا تو خود ہی ہنس ہنس کر بتا بھی دیتی۔ وہ جانتی ہے میں اس کی فطرت سے واقف ہوں۔ وہ اس بات کو محسوس کر چکی ہے کہ میں یہ جاننے لگا ہوں۔ ’’آئندہ زندگی میں وہ اپنے شوہر سے جزوی محبت ہی کر سکے گی۔ ‘‘

وہ یہ بات بھی جانتی ہے کہ ’’متعدد لڑکیوں کے ساتھ روابط رکھنے کے باوجود میں اس کے رنگ محبت سے نکل نہیں پاؤں گا۔ کیا یہ بات درست ہے کہ عہد حاضر میں محبت کی قدر ’’ عرصہ ‘‘ نہیں بلکہ ’’ شدت ‘‘ ہے ؟ الفاظ نہیں بلکہ جذبات ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محبت کا دارو مدار ہر فرد کی ذہنی صلاحیت پر منحصر ہے اور محبت کی کوئی قدر آفاقی نہیں۔ مجھے یہ مفروضہ اتنا ہی بکواس لگتا ہے، جتنا یہ کہ معنی کا تعلق قاری کی علمی صلاحیت پر مبنی ہوتا ہے۔ لاکھ سہی مگر متن کی تفہیم سے اہم اس کی تشکیل کی غایت و ضرورت ہے اور اسی میں حقیقی معنی کا التزام پوشیدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح محبت میں تکمیل ذات کی اساس پوشیدہ ہے اور اس کی قدر کا تعین فرد کی تکمیل اور ذات کی تشکیل سے مربوط ہے۔ ’’ محبت کی سب سے بڑی اور آفاقی قدر اس کا غیر مشروط ہونا ہے، وہ ساری محبتیں دھوکا اور غیر حقیقی ہیں، جو مشروط ہوں۔ وہ نام نہاد شادیاں، بندھن اور محبتیں اور جو انجام کی فکر کے ساتھ شروع ہوتی ہیں، سب غیر محبت ہے۔ ‘‘محبت کو اس ملک میں کبھی سمجھا نہیں گیا ہے جس طرح خدا، جمہوریت اور آزادی کو اس ملک میں سمجھا نہیں گیا۔ جب کہ زندگی کی ساری صداقت، آزادی محبت اور خدا میں پوشیدہ ہے۔ اور ان کی تفہیم اور تلخیص کے لیے مخصوص ثقافتی و ذہنی ترقی درکار ہے۔ اس ملک میں وہ افق کبھی نمودار ہی نہیں ہوا۔ اسی لیے اس ملک میں محبت کا تصور اخلاقی، سماجی، مذہبی اور اقداری رہا۔ انسانی اور باطنی نہیں۔ فطری اور کائناتی نہیں رہا۔

 

                … ۸…

 

ایک پرانی بات یاد آئی۔ لیکچر کامپلیکس کے عقب میں ہم بیٹھے تھے۔ جہاں لکڑی کی میزیں تھیں۔ میزیں جہاں تہاں سے ٹوٹ گئی تھیں۔ میں نے لکڑی کے ٹوٹے ہوئے حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا تھا : ’’ دیکھو، ہر چیز زوال پذیر ہے۔ ‘‘

پھر میں نے کہا آج ہماری محبت ہے، کل نہ ہم ہوں گے نہ محبت۔ ۔ اسے بھی زوال کے سایے سے گزرنا ہے۔ وقت کی دیمک ہر جامد غیر جامد شے کو کھا جاتی ہے، جس طرح بارش کا پانی اس لکڑی کی دیمک زدہ حالت کو برادے میں تبدیل کر کے دوبارہ مٹی کے سپرد کر دے گا۔ بالکل اسی طرح وقت کی بارش ہماری یادوں اور چاہت کو دل کی زمین پہ سے مٹا دے گی۔ ہمارے دماغ خالی ہو جائیں گے۔ مجھے یاد ہے : میری باتوں کو بہ غور سننے کے بعد اس نے ایک بہت چھوٹا جملہ ادا کیا تھا۔ ’’ داغِ عشق حقیقی دل کے ساتھ جاتا ہے جناب۔ ‘‘ اس جملے کو سن مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے سچ مچ نفسیات سے بی اے کیا ہے۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ تمہاری قنوطیت تمہاری ہلاکت ہے۔ ‘‘ تم جانتے ہو میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں۔ ‘‘ ( اس کی آواز لرزتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ) ’’ جہاں سے میرے شوہر کا وزن مجھے ہلکا محسوس ہو گا، تمہارے وجود کا بار اپنے اعصاب پر محسوس کروں گی۔ میں کچھ کہنے جا رہا تھا کہ اس نے ہتھیلی میرے ہونٹوں پر رکھ دی۔ ’’ بے وقوف ! سمجھتے کیوں نہیں ؟ محبت کے لیے شادی ایسی ضروری نہیں۔ ‘‘

’’تم تو پروفیسر شگفتہ علی موڈک کا جملہ دوہرا رہی ہو۔ ‘‘

’’ ہاں ! بات تو ان کی صحیح ہے۔ ‘‘

’’ بکواس کرتی ہیں وہ۔ ‘‘

’’نہیں وہ صحیح ہے۔ وہ عورت ہے اور جانتی ہے عورت ہونا کیسا ہوتا ہے ؟‘‘

’’بکواس بکواس بکواس۔ ‘‘

ا…ل…ے …مے …لے …ب…بو( الے میلے ببو) آواز کھینچ کر وہ کبھی کبھار مجھے یوں بھی مخاطب کرتی تھی۔ گویا میری باتوں کی نفی کرنے پر بضد ہو۔

’’ نہیں … مگر وہ پروفیسر کی بچی۔ ‘‘

’’چھوڑو چلو ان کو، اتنا مانو میں تمہیں اپنا چکی ہوں۔ اس محبت میں، میں بھی داؤ پر ہوں۔ ‘‘ اس نے نظر جھکا لی، پھر آسمان کی جانب اٹھا کر کہا۔ ’’ شاید جس کی تلافی ممکن نہ ہو۔ ‘‘

’’ میں سمجھتا ہوں۔ ‘‘

’’ یہ بھی سمجھو … ‘‘ اس نے رک کر جملہ پھر شروع کیا، ’’ میں چاہ کر بھی تم سے خود کو الگ نہیں کر سکوں گی۔ تم اس اختیاری حد کو تجاوز کر گئے ہو۔ ‘‘ وہ پھر رکی، میرا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی۔ رات کی تنہائی میں تمہیں اپنے ساتھ محسوس کرتی ہوں۔ اس کے بعد اس نے کچھ بہت ہی آہستہ آہستہ کہا تھاجس کا غالباً مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے دل کے صفحے پر میری محبت کے گرم و سیال قطروں کے انجماد کی خواہش میں اکثر خود کو گرفتار محسوس کرتی ہے۔ ‘‘

’’ اور میں تمہاری شرابی پلکوں کو پیار کرتا رہتا ہوں، جو تمہاری روح کا دروازہ ہے۔ ‘‘ ( میں نے شرارت آمیز لہجے میں کہا ) ’’اور تم سے چمٹا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ ہے نا ؟ محبت میں شرارت کا جواب شرارت سے ہی دیا جاتا ہے، ہے نا؟کیوں ؟‘‘ اس کے پاس جو کتاب تھی، اس نے میرے سر پر دے ماری۔ اس کتاب کے صفحے بکھر گئے۔ شاید کتاب کی بائنڈنگ زندگی کی بائنڈنگ کی طرح کمزور تھی۔ غالباً وہ کرشن چندر کا ناول ’شکست‘ تھا۔ وہ صفحے اکٹھا کیے جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی۔ تمہیں کچھ اور نہیں سوجھتا ؟ نٹ، یو آر اے نٹ، سیکس، سیکس دیوتا۔ لکڑی کی میز سے لگ کر کلاس روم تھا۔ سارے صفحات جمع کر کے وہ سیدھی کھڑی ہو گئی۔ ہم ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ میں نے اس کے سرخ مائل گال پر ہاتھ رکھا۔ اس کی آنکھیں تذبذب کے ساتھ میری آنکھوں سے ٹکرا گئی تھیں۔ کچھ کہنے کی جسارت نہیں تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ ہم کلاس روم میں گئے۔

’’ارے باہر ہی ٹھیک تھے نا ؟‘‘

’’ نہیں۔ ‘‘

’’ارے یہاں اکیلے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘

’’ تم فکر مت کرو، اس وقت پہرے دار کینٹن میں ہوں گے۔ ‘‘

’’ اگر آ گئے اور پکڑے گئے تو …… ؟ ‘‘

’’ پکڑے گئے تو۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ تمہیں کیا ؟ رسوائی تو میری ہو گی۔ ‘‘

میں نے دروازے کے پیچھے اسے کھڑا کر کے اس کی گردن پر اپنی انگلیاں رکھیں۔

’’ اسٹوپڈ۔ ۔ ۔ دروازہ کھلا ہے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ چلو باہر، پلیز۔ ‘‘

’’ نہیں ‘‘

’’ پلیز پھر کبھی۔ دیکھو۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔ ‘‘

’’ نہیں … اچھا آؤ … ترکیب … تم دروازے کے بالکل کونے میں آ جاؤ، میں باہر بھی دیکھتا رہتا ہوں۔ ‘‘

اس کی سانسوں میں ہلکا ارتعاش تھا اور اس کی پلکوں کے درمیان ہلکی سی تپش۔ وہ دروازے کے پیچھے ہو آئی۔ میں نے آدھا دروازہ کھلا رکھا۔ کمرے میں جھٹپٹا سا اندھیرا چھا گیا۔ مدھم اجالے میں میری انگلیاں اس کے چہرے پر رینگ رہی تھیں۔ اس کی پلکیں کچھ گرم تھیں۔ اس طرح کے محبت آمیز لمحات ہم دونوں کو ایک لا فانی احساسِ لذت سے آشنا کیا کرتے۔ ہماری زبانیں فرطِ محبت سے تحلیل ہو جاتیں اور ہمارے الفاظ ہماری زبانوں پر مر جاتے۔

کسی نے متصل کلاس روم کے دروازے کو زور سے ڈھکیلا۔ ( غالباً پہرے دار نے ) ہو گا۔ ہم لوگ باہر نکل آئے۔ ( ایک طرف واٹر کولر کے پاس کھڑا پہرے دار مسکرا رہا تھا۔ اس کی مسکراہٹ گوتم بدھ سے اتنی کیوں ملتی ہے۔ شاید میری محبت کا راز اس پر منکشف ہو رہا تھا۔ )

کامپلیکس کے احاطے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس نے بال سنوارے، مجھے کئی بار گھور کر دیکھا۔ پھر کہا : ’’ جناب، خوش ہوئے ؟ اگر وہ پکڑ لیتا، تو گھسیٹتا لے جاتا۔ ‘‘

’’ کہاں ؟ ‘‘ میں نے بے نیازانہ انداز میں کہا۔

’’جہنم میں، بے وقف قادر ابن دلوائی سر کے پاس اور کہاں ؟ ‘‘

’’ یہ ممکن نہیں تھا ؟ ‘‘

’’ کیونکہ آج جو تین پہرے دار ہیں۔ ان کا کینٹن کا بل میرے اکاؤنٹ میں لکھا گیا ہے۔ میں کہہ آیا تھا۔ وہ تینوں میرے دوست ہیں۔ ‘‘

’’ تم بہت چالو ہو گئے ہو۔ ‘‘

’’ سب تمہاری خاطر۔ ‘‘

’’ میری خاطر؟؟‘‘

’’ ہماری خاطر۔ ‘‘

’’ اچھا !خیر۔ اٹھو، چلو، ساڑھے پانچ بج رہے ہیں، بس آ رہی ہو گی۔ ‘‘

اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچا۔ جب وہ ضدی بن کر مجھے اس طرح کھینچتی ہے۔ اس وقت وہ بہت معصوم لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ سراپا عشق ہے۔ کس اپنائیت کے ساتھ وہ مجھ پر اتنا اختیار جتاتی ہے۔ کیا آپ پر کوئی اپنا حق جتاتا ہے ؟ نہیں، تو سمجھ لیجیے : آپ محبت سے محروم ہیں۔ یونیورسٹی کینٹن کے سامنے بس اسٹاپ ہے وہاں پہنچے تو دیکھا ڈپارٹمنٹ کے طلبا و طالبات ہیں۔ ہم دونوں ان کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے کہ بس آ گئی۔ وہ فوراً دوڑ کر بس میں چڑھ گئی۔ بس کی پچھلی سیٹ والی کھڑکی سے ہاتھ ہلا ہلا کر بس کے موڑ کاٹ لینے تک علاحدگی کے منظر کو اور تکلیف دہ بناتی رہی۔ میں کینٹن چلا گیا۔ نظر دوڑائی تو دیکھا، ایک میز پر ایک طالبہ کے ساتھ وہ پروفیسر بیٹھے ہوئے ہیں، جو افسانہ نگار بھی ہیں۔ میں نے آداب کیا، انھوں نے بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔ پروفیسر صاحب نے اس طالبہ کی طرف اشارہ کر تے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ ’’ کیا آپ انھیں جانتے ہیں ؟ ‘‘

’’ ہاں، پروبیبلی ایم اے فرسٹ ایر میں ہیں۔ ‘‘ انھوں نے میرا تعارف اس طالبہ سے کیا … میں نے اسے ہیلو کہا۔ اس نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ ’’ میں آپ کو پہلے سے جانتی ہوں۔ ‘‘

’’ وہ کیسے ؟ ‘ ‘

’’ آپ مہاراشٹر کالج کے بزم اردو کے جنرل سیکریٹری تھے، تب میں جونئیر تھی۔ ‘‘

’’ او ہو، بڑی خوشی ہوئی، آپ میرے کالج سے ہیں ؟ ‘‘

چائے آ گئی … پروفیسر صاحب نے چائے پیتے ہوئے انتہائی سنجیدہ انداز میں مجھ سے پوچھا۔ ’’ ان دنوں کیا پڑھ رہے ہو ؟ ‘‘

’’ سر، سارتر کی کتاب Being and nothingnessپڑھ رہا ہوں۔ ‘‘

’’ کیسی کتاب ہے ؟ ‘‘

’’ سر، عمدہ ہے۔ ‘‘

’’کیوں ؟ ‘‘

’’ سر سارتر کا اصرار ہے کہ و جود کے نا قابلِ برداشت بھاری پن کو قابل برداشت لطافت میں بدلنے کے لیے وجود کے اسرار سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ۔ ۔ اور مجھے میرے اسرار جاننے کا مرض ہے۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ انھوں نے چائے کی چسکی لی اور ہما کی جانب نظریں جما کر میرا جملہ دوہراتے ہوئے پوچھا۔ ’’ مجھے میرے اسرارا جاننے کا مرض ہے۔ تمہاری اس جملے سے کیا مراد ہے ؟ ‘‘

سر میرا خیال ہے کہ ’’ میں قایم بذات احساس کو لے کر پیدا نہیں ہوا ہوں۔ میرا رد عمل میری شخصیت کا تعین کرتا ہے اور رد عمل کی حقیقت ذات کی حقیقت سے علاقہ رکھتی ہے۔ ذات احساسات کے جنگل سے عبارت ہے۔ ان کی ہئیت اور ساخت کا تعین روح کرتی ہے، جسے ہم زمین کہہ سکتے ہیں۔ جہاں تک جڑیں پہنچتی ہیں وہاں تک ہم زمین کے رموز سے واقف ہوتے ہیں، مگر اس کے آگے بھی بہت کچھ ہے، جن سے ہم واقف نہیں ہیں … وہ ہمارے اسرار ہیں۔ ‘‘

میں چپ ہو گیا، ہما کی نگاہیں مجھ پر جمی تھیں اور پروفیسر افسانہ نگار کی چائے پر۔

’’ آگے بھی کچھ ہے۔ ‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے ؟

( یہ سالے پروفیسرز، تمہاری مراد کیا ہے ؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ پوچھنا کب چھوڑیں گے ؟ )

میں لمحہ بھر خاموش رہا، پھر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ میں نے جواب دیا۔ ’’ آگے بھی بہت کچھ ہے۔ اس کا اشارہ ہے کہ انسانی عرفان کی جس منزل پر ہم آج ہیں اس سفر کی کئی منازل ابھی طے کرنی ہیں۔ ہم پر ہمارے تمام اسرار کھلے نہیں ہیں۔ یہ مسلسل جستجو کی علامت ہے۔ پروفیسر صاحب کے سنجیدہ چہرے پر مسکراہٹ ابھری، انھوں نے کہا۔ ’’ بیٹے ! یہ راستہ تمہیں گہرے سمندروں بلکہ سیاہ سمندروں میں لے جائے گا۔ ‘‘

’’ نہیں سر، میرا خیال ہے۔ اپنے وجود کے اسرار کا انکشاف مجھے میری اصل کا شعور حاصل کرنے میں تعاون کرے گا۔ میرے موجودہ شعور کا ادراک میرے وجود سے معمور ہے۔ میں باہر کی دنیا سے زیادہ قابل علم و دریافت ہوں۔ ‘‘

’’ خیر مجھے تمہارے معمے اچھے لگتے ہیں، پر سنبھلنا۔ ۔ ۔ فلسفہ بڑا شکنجہ ہے۔ ‘‘

’’ سر مجھے زندگی کے لطف سے ماسوا اس کی بصیرت پسند ہے۔ ‘‘

وہ مسکرائے۔ بل ادا ہوا۔ ہم تینوں کینٹن سے باہر آ گئے۔ کینٹن سے بس اسٹاپ تک تنگ راہ گزر ہے۔ دونوں طرف تار لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف پیلے اور گلابی رنگ کے پھولوں والے پودے لگے ہیں۔ پروفیسر صاحب یونیورسٹی کاٹج میں رہتے ہیں۔ وہ سلام کر کے آگے بڑھ گئے۔ شام اپنی موسیقی لیے وارد ہوئی۔ ہما اور میں بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔

’’ آپ کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے ؟ ‘‘ ہما نے پوچھا۔

’’ خاصی تکلیف دہ ہے۔ ‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’ میرا خیال ہے فہم سوائے عذاب کے کچھ نہیں۔ ‘‘

’’ مگر ابھی ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ ’’ اپنے اسرار جاننے کا شوق ہے۔ ‘‘

’’ ہما … بات سچ ہے، مگر بھولو مت کہ وجود کے اسرار کا عرفان زندگی کی آنکھوں پر سے غلاف اتار دیتا ہے اور زندگی کی بیشتر بنیادیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔ ‘‘

’’ تمہاری باتیں واقعی دلچسپ ہیں۔ ‘‘

’’میں تمہاری تعریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ‘‘ ( مجھے ہنسی آ گئی ) مگر تم ابھی مجھ سے واقف نہیں ہو۔ پھر ہو سکتا ہے، تمہاری رائے بدل جائے۔ ‘‘

’’ اچھا … میں کوشش کروں گی، تم سے کچھ واقفیت حاصل کرنے کی۔ ‘‘

’’ یہ ممکن نہیں۔ ‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’ کیونکہ فرد نہ حالت ہے، نہ ہئیت نہ حقیقت بلکہ ایک تغیر پذیر ما بعد صداقت ہے۔ ‘‘

’’ تم سے جیتنا ممکن نہیں لگتا۔ ‘‘ ( ہم ہنس پڑے )

بس یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوئی۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور ہم الگ ہو گئے۔ کاش !مجھے اس وقت یہ علم ہوتا ایک سال بعد ہما کے مقدر میں خود کشی تحریر ہے اور اس کا سبب ایک ’’ حقیقی غیر مشروط محبت ‘‘ کو بننا ہے۔

 

                …………………۹…………………

 

اس کا انتظار اور اسے یاد کرنے میں دو دن دبے پاؤں گزر گئے۔ میں دل کی لطافت میں ڈوبا رہا۔

دو دن بعد اس نے آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نہیں آئی۔ میں نے فون کیا، تو علم ہوا کہ اسے بخار نے گھیر لیا ہے۔ میں یوں ہی سا منہ بنائے لائبریری میں بیٹھا شفاف شیشے کی کھڑکیوں سے باہر چلچلاتی دھوپ کی لہروں کو دیواروں اور پودوں کی رگوں میں اترتے دیکھ رہا تھا۔ ہوا پگھل کر ہر طرف چھاؤں تلاش کر تی پھر رہی تھی۔ ایک طرف بیر کے پیٹر کی چھاؤں چھوٹے چھوٹے دھوپ کے خانوں میں منقسم دل کش لگ رہی تھی۔ کسی طرف سے پرندے کی کوئی آواز نہ آتی تھی۔ سب کے سب شاید دور کہیں کسی جھیل کی گود میں جا کر اپنے پروں میں اٹکی دھوپ کو نکال رہے ہوں گے۔

لائبریری میں سوائے ایک عیسائی لڑکی کے اور کوئی نہیں تھا۔ وہ کچھ اس ڈھب سے ملبوس تھی کہ بس … باہر موسم کے سبب گرمی یہاں اندر یہ گرمیِ خواہش !! میں اسے نظر بھر دیکھتا، تو میرے اندر کی تاریک گپھا سے ایک اژدہا سا منہ اونچا کیے ہنکارتا … اور اس طلسمی اژدہے کی روشن آنکھوں اور شعلہ زبان سے آگ کی لپٹیں پھیلتی تھیں۔ گر می کا شدید احساس میرے اعضا میں تشنج کی شکل اختیار کر لیتا۔ یہ آگ مزید مشتعل ہوتی کہ وہ دروازے سے مسکراتے ہوئے لائبریری میں داخل ہوئی، اپنا اسکارف ڈھیلا کیا اور اُف کہتے ہوئے بیٹھ گئی۔

’’اُف کتنی گرمی ہے باہر ؟‘‘ اس نے کہا۔

’’ اندر بھی اتنی ہی ہے۔ ‘‘ میں نے کہا اور اشارتاً آنکھیں اس عیسائی لڑکی کی طرف موڑ لیں۔

’’ اوہ ! جناب میری غیر موجودگی میں گرم ہوئے جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’ نہیں، بس آنکھیں سینک رہا تھا۔ ‘‘ میں نے یوں ہی کہا۔

’’ چلو … اٹھو … اٹھو چلو … یہاں نہیں بیٹھنا … چلو۔ ‘‘

’’پہلے یہاں سے اٹھو، چلوباہر۔ ‘‘

’’ باہر گرمی ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔

’’ گرمی، تو یہاں بھی ہے۔ ‘‘ اس نے منہ بنا کر کہا۔

’’ اچھا، اچھا۔ ۔ ۔ اوکے چلتے ہیں۔ ‘‘

ہم دونوں لائبریری سے باہر نکل آئے۔ لائبریری کے باہر ایک چھوٹا باغ ہے۔ اس کے گرد سرو اور گل مہر کے پیڑ لگائے گئے ہیں۔ باغ میں مالی پانی دے رہا تھا۔ گل مہر کے پیڑ ہلے اور ہوا کے چند جھونکے دروازے کی سمت آئے۔ جی کچھ ہلکا محسوس ہوا، اژدہا پسینے کی بوندوں میں بدل کر بہہ پڑا۔ لائبریری کے باہر کچھ ہوا ہے … لیکن اندر …اندر اب صرف گرمی رہ گئی ہے۔

اس نے گلابی شلوار قمیض پہنا ہے، جو اسے معلوم ہے کہ مجھے بہت پسند ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ رنگ اس کی جلد کو حسین تر بناتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی چھاتی پر سیمیں رنگ کے بٹن لگے ہوئے ہیں، جن سے مجھے بہت سہولت ہوتی ہے۔ اس کے بال گہرے سیاہ اور لمبے ہیں۔ جو اس کی کمر تک پہنچ کر خم دار ہو جاتے ہیں۔ درمیان سر وہ مانگ نکالتی ہے اور بائیں کلائی پر پتلی گھڑی پہنتی ہے۔ کاجل پلکوں کی دونوں جانب لگاتی ہے اور ہونٹوں پر ہلکی گلابی رنگت۔ اس کے کولہے ابھرے ہوئے اور چھاتیاں بھری بھری سی ہیں جن میں میرے لیے کاہِ ندا یسی کشش ہے۔

لائبریری سے نکل کر ہم دائیں ہاتھ کی طرف مڑے۔ جہاں لیکچر ہاؤس ہے۔ ہم اس کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔

’’ پہلے یہ بتاؤ، تمہیں کس مرض نے گھیر رکھا ہے ؟‘‘

’’ ارے کچھ نہیں۔ ‘‘ اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’ مگر پتہ تو چلے ؟ ‘‘

’’ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ‘‘ اس نے مزید مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے کچھ برا سا لگا۔

’’ ہاں مجھے تو … تمہاری کوئی فکر ہی نہیں۔ ‘‘ ناراض ہو کر میں نے کہا۔

’’ مجھے پتہ ہے، مجھے پتہ ہے، میری خاطر تم فکر مند ہو۔ ‘‘ اس نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ پھر بھی تم مجھ سے کچھ چھپا رہی ہو۔ ‘‘

’’… کچھ باتیں ہوتی ہیں، جو لڑکوں سے چھپائی جاتی ہیں۔ ‘‘ اس نے کہا۔ اس کے گال سرخ ہو گئے۔

’’ اونہہ، بتاؤ نا ایسی کیا بات ہے ؟‘‘

’ ’۔ ۔ ۔ مانو گے ؟ الو جو ہو !‘‘

’ ’ چلو، الو ہی سہی … بتاؤ نا۔ ‘‘

یک لخت اس نے نظریں اوپر اٹھائیں اور مجھے دیکھنے لگی۔ ۔ متواتر سفید روشنی پھیلی ہوئی پر کشش آنکھیں۔ جن میں حیا کی سرخ لکیریں لہو کی مثل دمک رہی تھیں۔ مجھے اندر باہر سے کھنگال گئیں۔ میں نے اس کے سر پر ہتھیلی ماری اور کہا۔ ’’ یوں نہ دیکھو یار ! سارا ہوش جانے لگتا ہے۔ ‘‘ وہ ہنس پڑی۔

’’ ایکچولی، میرے ڈیز رک گئے تھے۔ ‘‘

اس نے معصومانہ سفاکی سے کہا اور اپنے ادا کیے ہوئے لفظوں کے دریا میں غوطہ زن ہو گئی۔ زور دار قہقہہ لیکچر ہاؤس کی سیڑھیوں پر پھیل گیا۔ اس اصرار کے ساتھ کے برسوں تک ان قہقہوں کی باز گشت آپ کو محسوس ہو گی۔ ( مجھے معلوم نہیں تھا جس شب میری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر مجھے نا معلوم مقام پر لے جایا جانے والا تھا اس دن ان قہقہوں کو میرا تعاقب کرنا تھا۔ )

٭٭٭

 

 

 

باب سوم: یادداشت اور فراموشی

 

 

"The struggle of man against power is the struggle of memory against forgetting.”

Milan Kundera

(The Book of Laughter and Forgetting)

 

 

 

 

 

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

زیرِ حراست خالد حسین کی موت واقع ہوئی ہے ! لاش کل شام تک ممبئی پہنچ جائے گی۔

میں مرحوم کے گھر ملوں گا۔

…………………

 

دروازہ کھول کر میں کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ایک پرزے پر نظر پڑی، جو مختار میرے لیے چھوڑ گیا تھا۔ مضمون پڑھنے کے بعد ایک ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر ابھری، پھر آنکھیں نم، پھر چند ساعتوں کے بعد ذہن کی اسکرین پر ایک ہنستا ہوا وجود ابھر آیا اور اطراف کا وہ حصہ، جو ابھی تک اندھیرے میں تھا۔ ہلکا روشن ہو گیا۔ وہ مسکراتا ہوا چہرہ تڑا مڑا اور پھر منتشر ہو کر بکھر گیا۔ ذہن کے اسکرین پر لفظوں کا رقص رہا … پھر نقطے یکجا ہوئے اور چہرہ دو بارہ مکمل ہو گیا۔ غصے سے لال پیلا چہرہ، حکومت، نظام، فسطائیت، سماج واد، جمہوریت اور کمیونزم کے خلاف اپنے خیالات کا نا قابلِ سماعت رفتار سے اظہار کرنے لگا۔

یہ ہیولہ، جس کا وجود اس لمحے سے قبل تک با معنی تھا۔ با مقصد تھا۔ با عمل تھا۔ خالد حسین کا ہے۔ جس نے انگریزی ادب میں گریجویشن کیا تھا اور کالج کے ابتدائی دنوں سے کمیونسٹ پارٹی کے لیے کام کیا کرتا تھا۔ مارکس، لینن، چے گوار اور کاسٹرو کی تصاویر اس کے گھر میں جا بجا آویزاں تھیں۔ اس کی اپنی چھوٹی سی لائبریری تھی۔ ۔ کمیونسٹ پارٹی کے کئی ارکان کا اس کے گھر آنا جانا تھا۔ چونکہ اس کے والد کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین ذہن ساز لیڈر تھے اور بزرگ کمیونسٹ تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سبب وجہ وہ بھی آزادانہ ماحول میں رچا بسا تھا۔ اس قدر سخت مزاج کمیونسٹ خالدحسین گزشتہ پانچ برسوں سے کچھ چڑچڑا سا ہو گیا تھا۔ اس کی عمر ۳۲ سال ہو گی۔ ان برسوں اس کا اعتماد کمیونزم پر سے اٹھ گیا تھا۔ سارے روسی ادب کو اس نے ( خاص طور سے مارکسی تحریک کے زیرِ اثر لکھے گئے ) ردی کہتے ہوئے دوستوں کو دے دیا تھا۔ اسے ان ادیبوں سے اس قدر نفرت ہو گئی تھی کہ پھر اس نے اپنی گفتگو میں ان تذکرہ بھی کرنا چھوڑ دیا۔ کمیونسٹ لیڈروں کی تصاویر اس نے نذر آتش کیں۔ صرف چے گوار کی ایک تصویر اس کی لائبریری میں بچی رہی، جس کی طرف دیکھ کر وہ مسکرایا کرتا تھا۔ شاید اسے احساس تھا کہ چے گوار کی موت کے ساتھ کون سے راز نئی دنیا میں دفن ہو گئے ہیں۔ یہاں وہ مذہب کے متعلق طرح طرح کے سوالات پوچھا کرتا تھا۔ عموماً تشکیک زدہ، مگر انتہائی علمی اور دیانت داری کے ساتھ۔ ۔ ۔ پھر کمیونزم کے زوال اور بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی نے اسے بنیاد پسند مذہبی گروہ کے قریب کر دیا۔ چند برسوں میں وہ انتہا پسند اسلامی تنظیم کے اہم ترین نمائندوں میں شمار کیا جانے لگا۔

کشمیر کی تین بنیاد پرست تنظیموں کے اکابرین سے اس کے روابط بہت گہرے ہو گئے تھے۔ اس بات کا علم مختار کے علاوہ کسی اورکو نہیں تھا۔ سنیچر کی رات جب بھی شہر میں موجود ہوتا۔ اپنی سفید رنگ والی کار لے کر رات دس بجے کے آس پاس میرے مکان پر حاضر ہو جاتا۔

گزشتہ سال سخت ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔ لوگ باگ سرِشام ہی گھروں میں سمٹ رہے تھے۔ تب ایک رات خالد حسین گیارہ بجے کے آس پاس میرے یہاں وارد ہوا۔ وہ اکیلا تھا … میں نے چائے بنائی۔ چند چسکیاں لی گئیں۔ میں اسے اپنی محبوبہ کے متعلق کچھ بتانا چاہتا تھا کہ اس نے میرے ہاتھ پر یکایک اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط کر لی۔ میری اندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں نے اس کے دیدوں میں محفوظ باتوں کو پڑھنا چاہا۔ کمرہ ویران برفاب کھنڈر میں بدل گیا اور ہمارے بدن یکایک امڈے ہوئے احساسات کے نا قابلِ بیان ڈر کی وجہ سے منجمد ڈھانچے بن گئے۔ ویرانی اور خاموشی کے سمندر میں پیدا ہوئے ہوا کے شور سے ہمارے کانوں کے پردے بادبانوں کی مثل پھڑپھڑانے لگے۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی، جو چے گوارا کے چہرے پر ہوا کرتی تھی۔ میں اس میں پوشیدہ مفہوم کو سمجھ نہیں سکا۔

…………………

…… اس نے پتلون اتار دی … اس کی ران پر پستول بندھا ہوا تھا۔ جس پر نظر پڑتے ہی میری آنکھیں حیرانی سی دائرۂ چشم میں سکڑ گئیں۔ میرے دیدوں میں ایک وحشت سی پھیلی۔ اس وحشت میں دیوداسی کا رقص بھی شامل تھا۔ جس میں میں بہت دور سے آنے والی گھنگروؤں کی شوریدگی کو محسوس کر رہا تھا۔ میرے کانوں میں برف کڑکرا کر ٹوٹ رہی تھی۔ میں نے فوراً اٹھ کر کھڑکی بند کر دی جس نے کمرے کو زنداں میں بدل دیا۔ ’’ میری آنکھیں ابر تصویر منجمد رہیں۔ ‘‘

…………

’’ خالد وحشی ہو گئے ہو؟ ‘‘

( اس کے چہرے پر دبیز مسکراہٹ کی لہر…)

’’ کیا ہو گیا ہے ؟ … کیا کرنا چاہتے ہو ؟ خالدکس طرف جا رہے ہو؟ تمہیں اس ہتھیار کی ضرورت کیوں پڑ گئی… ؟ خالد تم ادب کے طالب علم تھے ! پھر۔ ۔ ؟‘‘

’’ میں زندگی دیکھ رہا ہوں، مسلمان ہوں، میں زندہ رہنا چاہتا ہوں … میں نفی نہیں ہوں …مجھے زندہ رہنا ہے، میں زندگی دیکھ رہا ہوں … لفظوں کی آڑی ترچھی لکیریں ہو امیں کھینچ کر وہ چپ ہو گیا۔

’’تم زندہ ہو… اور محفوظ ہو … تم کو کون مار سکتا ہے۔ ‘‘

’’وہ ‘‘ ( اس نے اس قدر متانت کے ساتھ کہا، گویا کوئی دشمن کی بیوہ کے سر شفقت سے ہاتھ رکھ رہا ہو۔ )

’’ کون وہ ؟ ‘‘

’’ وہ، وہی لوگ !‘‘

’’ کون لوگ، خالد بتاؤ، تمہیں اس طرح کا قدم ہر گز نہیں اٹھانا چاہیے۔ ‘‘

’’ وہ ہم سب سے طاقتور ہیں !‘‘

’’ یار بول … آخر کون ہے وہ …؟ بول … بھینڈ چود کون ہے ؟‘‘

’’ گالی سے ہم اتنے بڑے دشمن کو نہیں مار سکتے۔ ‘‘ اس نے میرے برہم انداز گفتگو پر آہستگی سے کہا۔

’’ اچھا۔ ۔ ۔ چل پھر بتا … ( میں نے چائے کا گلاس میز پر رکھا ) یار تجھے اس طرح دیکھ کر میرا دماغ تو کھراب ہو گا ہی … میں کیسے قابو میں رہوں گا ؟ تو بیٹھ … مجھے بتا کیا مسئلہ ہے ؟ ‘‘

وہ میز پر بیٹھ گیا، پستول اس نے میز کے ایک کونے میں رکھا اور گردن جھکا کر چائے کی چسکیاں لینے لگا۔ اتنے کم سمئے میں اتنا شانت ہو گیا مانو … بہت بڑا طوفان دریا کی تہہ میں ڈوب گیا۔ آکاش گنگا میں چاند کسی بھنور میں ڈوب گیا۔ ٹھنڈی ہوائیں کمرے میں رینگ رہی تھیں اور مجھے ایسا لگ رہا تھا، بہت دور جنگلوں سے آنے والی دیو داسیوں کی وحشتِ گھنگھرو رفتہ رفتہ واپس جا رہی ہے اور شہر کی عمارتوں میں پھنسے ہوئے شور کے ٹکڑے، چیخیں اور بمبئی کی جھوپڑ پٹیوں کی گلیوں سے سوروں اور کتوں کے رونے کی آوازیں یک دم سے زیرِ زمین بہنے والی نالیوں میں دب گئی ہیں۔ میں بھی میز پر بیٹھ گیا۔ خالد نے سگریٹ جلایا۔ ہمارے ذہنوں میں لوکل ٹرین کی پٹریاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں اور ہمارے چہروں پر خامشی تھی۔ ہم لمحوں کی خاموشی کا حسن دیکھ رہے تھے۔ اندھیرا رات کی کوکھ میں سرائیت کر رہا تھا۔ زمین جانے کس کس سیارے اور نظام شمسی کے گرد رقصاں تھی۔

’’ خالد کسی نے دھمکی دی ہے تمہیں ؟ ‘‘

( اس نے گردن اوپر کی، نگاہیں مجھ پر مرکوز تھیں ) ’’پاگل ہو؟ہمارا دشمن ایک فرد نہیں ہے، ایک گروہ نہیں ہے، بلکہ ایک شکست خوردہ ازدحام ہے۔ وہ جو اس ملک میں 1923سے سے پروان چڑھ رہا ہے۔ جس نے کئی انسانوں کی زندگی بھسم کی ہے۔ وہ ہم سے ہماری زندگی چھین رہا ہے۔ وہ ہماری لاشوں اور بد حالی کو دیکھ کر جوان ہوا ہے۔ اس کی بنیاد ہماری تاریخی شناخت کو مٹانا ہے۔ اس کی رڈار کی زد میں وہ نسلیں بھی ہیں جنھوں نے ابھی سانس بھی لینا شروع نہیں کیا ہے۔ ‘‘

’’ خالد ( میں میز سے اتر کر خالد کے پاس جا کھڑا اور اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا )خالد ظلم کی میعاد کم ہے … وہ خود ہی ہار جائیں گے۔ صبر کرو خالد میں بھی تو ان کا victimہوں، کیا کم کھویا ہے میں نے … ( خالد نے میری گردن میں اپنی انگلیاں گاڑ دیں ) خالد ترشول والوں نے میری ( خالد نے گردن کے گرد انگلیوں کی گرفت کس لی ) بہن … انھوں نے اسے ’’ن ‘‘ … خالد نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ میری آنکھوں سے گرم قطرے اس کے سینے میں دفن ہو رہے تھے۔ اس کے سینے کے بال میرے ہونٹوں سے چپک گئے تھے … میری رال بہہ رہی تھی، اس نے میرے سر کے بال انگلیوں کی گرفت میں پکڑے پھر … ہلکے ہلکے انھیں سہلانے لگا۔

 

……………

پھر وہ اپنے انداز میں کہنے لگا۔ ’’ رو مت، رو مت، رونا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ رونا شکست تسلیم کرنا ہے۔ رونے سے کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں ملتی۔ رونے سے کچھ نہیں ملتا۔ رونے سے خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔ رو مت … ہم بڑی بہت بڑی قوم ہیں … ہمیں زندہ رہنا ہے، ہمیں عزت و حمیت کے ساتھ زندہ رہنا ہے … ہمیں کوئی جھوکا نہیں سکتا… ہم طاقت کی علامت ہیں … ہم تاریخ ہیں … رو مت، کتنا روئے گا ؟ رو کر کیا ملے گا ؟ ’’ زندگی ‘‘، عزت، بہن … رو مت۔ ۔ اس سے بزدلی اور گھٹن ملتی ہے۔ ( اس کی آواز وزنی ہو گئی تھی اور سسکیاں تیز )رو مت پاگل … تو، تو جمہوریت میں believe کرتا ہے … پھر تو کیوں روتا ہے ؟ تو، تو سیکولرزم اور آرٹ کا دیوانہ ہے نا ؟تو کیوں روتا ہے ؟ دکھ تو مجھے ہے۔ کیونکہ میں صرف مسلم ہوں … بنیاد پرست تم کہتے تھے نا ؟ مجھے اپنی قوم کی تجدید اور بقا عزیز ہے۔ یہ دکھ تو میرا ہے تو کیوں روتا ہے ؟ ذلت، شکست اور تباہی تو میری ہوئی ہے … عزت میری بہنوں کی تار تار ہوئی ہے … تجھے کیا ؟ پاگل ( وہ پھر ہلکے ہلکے میرے بال کھینچ رہا تھا )پاگل مت رو، رونے سے کچھ ملتا ہے کیا ؟‘‘ایک بہن کی ذلت آمیز ہلاکت پر رو رہے ہو… میری ہزاروں بہنوں کی عزت ترشول والوں نے خاک میں ملائی ہے، مجھے تو خود کشی کر لینی چاہیے۔ ’’ پن نہیں، میں زندہ رہوں گا، میں قوم ہوں۔ ‘ میں بہت بڑی قوم ہوں … میری جنگ وقت سے عظیم ہے۔ آج ضرور میں کمزور پست، کم علم بکھرا ہوا ہوں، لیکن اس کے باوجود مجھ میں دفاع کی صفت ہے۔ مجھے بھی اپنی شناخت کے ساتھ، عقائد اور نظریات کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے اور اپنے اس حق کے لیے میں آخری فرد کی صورت لڑتا رہوں گا۔ میں ان سب کے ارادوں کے خلاف نبرد آزما رہوں گا، جو میری شناخت کو کچلنا چاہتے ہیں۔ میں انھیں پست کروں گا۔ میں نقشے پر کھینچی گئی جغرافیائی حدوں کو نہیں مانتا۔ میں کشمیر ہوں۔ میں روس ہوں۔ میں بوسنیا ہوں۔ میں الجیریا ہوں، میں انڈیا ہوں۔ ۔ میں دنیا کی آواز ہوں۔ میں امن ہوں۔

( میری سسکیاں ڈوب رہی تھیں )میں امن ہوں … میں ہوں … سن رہے ہونا ؟ میں ان سے انتقام لوں گا … سب کی عزت کی خاطر ( اس نے میرے بال زور سے کھینچے اور دیوار سے لگا دیا ) لے یہ پستول، (اس نے میز سے اٹھا کر میرے ہاتھ پر رکھا۔ )یہ کسی بھی وقت تیرے کام آئے گا۔ جنوری سے مارچ تک ہم لوگ ان سے انتقام کا ایک بڑا پلان بنا رہے ہیں … دھماکہ اتنا بڑا اور با اثر ہو گا کہ ان کے دماغ کی رگوں کے ریشے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے، جبر کے حوصلے پست ہو جائیں گے … درندہ صفت جنگلی سور اپنی تاریخ کی سیاہ گپھاؤں میں دو بارہ گھس جائیں گے۔ ( وہ متواتر انگریزی میں کہے جا رہا تھا ) اور ان کے سیندور لگے ظلم رنگوں سے سجے ترشول، ان کے سیاسی بیانات اور میری تاریخی شناخت مٹانے کے ان کے سڑکوں پر تھوکے ہوئے خواب، ان کی آنکھوں سے اڑ جائیں گے۔ وہ جان جائیں گے، ’’ جبر صرف جبر کو جنم دیتا ہے۔ ‘‘

اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اس نے سانس درست کی اور پھر کہا۔ ’’ رکھ یہ پستول رکھ … اگر بعد میں کچھ ہوا، تو تیرے کام آئے گا…ڈر مت … یہ بات صرف ہمارے درمیان ہے … اور کل میں سری نگر جا رہا ہوں … پھر اس راز کو جاننے والا کوئی نہیں ہو گا … چل اٹھ، تھوڑی چائے بنا۔ ہمیں زندہ رہنا ہے۔ اپنے عزیزوں کی زندگی کو مستقبل کے hollowcaustسے بچانا ہے۔ ‘‘ میں اٹھا۔ کھڑکی کھول دی۔ … سامنے آسمان پر پورا چاند نظر آ رہا تھا… جو ہلکے نیلے زرد کہراکی چادر کے اس پار زندگی کا احساس دلا رہا تھا۔ کمرے میں باہر سے ٹھنڈی ہوائیں چلی آئیں۔ میرا نظام تنفس دوبارہ ٹھیک ہونے لگا۔

کیا سچ مچ تاریخی شناخت کو آشکار کرنا اور کار گہہِ شیشہ گری بہت نازک کام ہوتے ہیں ؟کیا اس کی میخیں نظر اور دل میں پیوست ہوتی ہیں ؟ کیا تاریخی شناخت سے کٹ کر فرد بے معنی ہو جاتا ہے ؟ کیا اپنی شناخت کو بچانے کے لیے خالد حسین کی دیوانگی کوتسلیم کیا جا سکتا ہے ؟کیا انسانی جبر کے خلاف لڑنا بھی جبر ہے ؟ میں بہت کنفیوژ ہوں … کچھ آپ ہی بتائیے۔

 

                …………۲………………

 

یہ اس کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔ غالباً پھر وہ کشمیر چلا گیا تھا۔ مجھے اس کا کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔ ۔ ۔ ہاں لیکن میں یہ سمجھ گیا تھا کہ اب اس کی زندگی کے تار کشمیر تحریک سے جڑ گئے تھے۔ اس کا خواب تھا کہ کشمیر حکومتِ ہند کے قبضے سے آزاد ہو جائے۔ ایک خود مکتفی آزاد اسلامی ریاست بن جائے۔ ممکن ہے اس خواب کی تکمیل میں وہ بہت دور تک بہہ گیا ہو۔ اسے اس بات کا علم تھا کہ کشمیر پر حکومت ہند کی گرفت نا قابلِ تسخیر ہے۔ ( اس کے باوجود اس کا اعتقاد اس کے اللہ پر زیادہ تھا، جو اس کی مدد جانے کن وسیلوں سے کرنے والا تھا۔ )

اسے اس بات کا علم تھا کہ زمین کا یہ حصہ وقار کا مسئلہ بن گیا ہے اور زمین کے اس حصے کو بچانے اور اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے حکومت ہند کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ طاقت استبداد کا سرچشمہ ہے۔ وہ کہا کرتا تھا کہ کشمیری عوام کے پاس کوئی مرکز گزیدہ راستہ نہیں ہے۔ غریب اور محروم، حتیٰ کہ انسانی حقوق سے بھی محروم عوام کے پاس احتجاج اور سیاسی فیصلوں کی سماعت کے علاوہ اور کیا ہے ؟ وہ کہا کرتا تھا کہ اس سیاسی احتجاج کے رد عمل میں انھیں جمہوریت پسند سپاہیوں کی جانب بربریت کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔

میرا خیال تھا کہ تاریخ کا ایک باب حب الوطنی اور دوسرا باب آزادی کی ’’ ناکام اور نا مکمل جد و جہد ‘‘ کے نام سے سرحدوں کے آر پار سانس لیتا رہے گا۔ اسی سرحد پر لاکھوں افراد کی ہلاکت، گم نام قبروں کی آہ و بکا اور تاریک راتوں میں بہائے گئے سرد خون کی بُو سے اٹھنے والا غبار ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ برف فاری کے موسم میں یہ غبار کبھی کبھار منجمد ہو کر پیڑوں کی شاخوں پر سویا کرے گا۔

چند کلو میٹر کی جغرافیائی مسافت تاریخی صداقت کو کس حد تک متاثر کرتی ہے ؟ سچ کس قدر مبہم ہے ؟ سچ کہاں گم ہے ؟ ‘‘

’’ ہم سب: جتنا جانتے ہیں۔ وہ وہی ہے۔ جو حکومت چاہتی ہے، ہم جانیں۔ ہم سب: جو کچھ بولتے ہیں۔ وہ وہی ہے۔ جو حکومت چاہتی ہے، ہم بولیں ؟‘‘یہ آزادانہ جمہوری طرز زندگی ہے کیا ؟ کیا جمہوریت بذات خود جمہوریت کی دشمن ہے ؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں پڑتا … میں کنفیوژ ہوں۔ ۔ کنفیوژ ہی شاید مروں گا … دیکھ لینا۔ کیا یہ خیالات صرف مجھے پریشان کرتے ہیں ؟ کیا میری طرح کوئی اور ان سے نبرد آزما نہیں ؟

 

                …………۳……………

 

جمہوریت کے نام پر جتنا دھوکہ سیاست دانوں اور وقتی حکومتوں نے عوام الناس کو دیا ہے، وہ ایک نادر مثال ہے : بہترین نظریے کے خمار میں گرفتار کر کے عوام کی قوت یادداشت کو شکست دینے کا۔ دیکھا جائے تو جمہوریت ایک طرح کی افیم ثابت ہوئی ہے جس کا استعمال لوگوں کی یادداشت، بنیادی انسانی حقوق، سماجی تعلقات، اور تہذیبی امتیازات کو فراموشی کے کوزے میں بند کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ حب الوطنی کے تاریک اور طلسمی درندہ صفت سمندر میں ڈبونے کے لیے کیا گیا ہے۔ سادہ لوح لوگوں نے اعتبار اور ترقی کے پروپیگنڈے کی ترنگ میں حیات و ممات کا احساس تک کھو دیا۔ روز و شب کی سلسلہ وار پیہم سعی میں زندگی اپنا جوہر کھو بیٹھی ہے۔ بارِ گراں زندگی کو مواصلات کی اینٹوں تلے اس قدر پکا یا گیا کہ دلوں کی مشک بجھ گئی ہے خواہشوں کے مردہ منجمد دھبے داغ دل بن گئے ہیں۔ اب تو داغ بھی مردہ کائی رنگ میں رفتہ رفتہ بدل رہے ہیں۔

جمہوریت منشیات کی دکان ثابت ہوئی۔ سیاسی مفاد پرستی نے ذہنی تشنج اور باطنی خلفشار کو جنم دیا۔ جمہوریت ایک کارگر کلورو فارم ہے۔ جس کے استعمال سے ہندستانی عوام کو انسانی اقدار اور اصولِ حیات سے بے خبر کر دیا گیا۔ افراد کی مجموعی یادداشت کو فراموشی کے اتھاہ سمندر میں ڈوبا دیا گیا۔ جبر کے سمندری گھوڑے گاؤں، شہروں اور گلی کوچوں کی شانتی کو روندتے ہوئے گاندھی کی دھوتی پر حملہ آور ہوئے : اب سڑکوں کے اطراف نالیوں میں برہنہ، مغموم اور شکست خوردہ گاندھی کی تصاویر گری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ۔ ۔ کسی کو گاندھی کے فسوں کا احساس نہیں ہے۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ غیر انسانی گھوڑے ( جن کی کایا بہت جلد بدل جاتی ہے ) اب سفید کرتا پاجامہ اوڑھے رہتے ہیں۔ سر پر سفید ٹوپے پہنے ہوتے ہیں گھر گھر سرایت کر چکے ہیں۔ لوگ :جو خود بھی میٹا مور فورس کے عمل سے گزرے ہیں۔ اب کتے بن کر ان سفید گھوڑوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنے لگے ہیں۔ خود فراموشی کی ایسی مثال جدید دنیا میں اب کہیں اور نہیں مل سکتی۔ حد تو یہ ہے کہ اگر یاد کی ایک لہر اگر کہیں کسی کی آنکھ میں کروٹ لیتی ہے۔ وہ میٹا مورفوزڈ گھوڑے کے بھیانک، خونخوار چہرے۔ ۔ ۔ اور خونخوار دانتوں کو پہچان لیتا ہے۔ اس پر بھونکنا شروع کرتا  ہے۔ دوسروں کو بیدار کرنا شروع کرتا  ہے، انھیں یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کیا کیا بھول چکے ہیں۔ فوراً اسی کو پاگل، غد دار، غیر ملکی ایجنٹ اور حب الوطنی کا دشمن قرار دے کر بغیر کسی مقدمے کی سماعت اور کار روائی کے قید کی بھٹی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یادداشت کی کونپل کو شجر اندر مقید کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زمین کے سینے میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

اگر کبھی اچانک کسی زلزلے یا آتش فشاں کے سبب یاد کی بہت ساری زیریں لہریں افراد کے گروہ میں نمودار ہوں، تو پھر ایسی افراد کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ ’’ دلدل‘‘ میں بھاگیں، دلدل میں بھاگتے ہوئے جماعت کے افراد کے سر گولیوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ اگر وہ رک گئے، تو شوٹ کر دیے جائیں گے۔ وہ بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آگے دلدل گہرا، گہرا اور گہرا ہو جاتا ہے۔ نا قابلِ پیمائش مسافت بھرا دلدل ! موت دونوں طرف ہے۔ زندگی کا کوئی سرا نظر نہیں آتا۔ موت اور زیست کے درمیان دوڑنے کا یہ وقفہ یادداشت اور فراموشی کی کشمکش کے وقفے سے تاریخ میں مربوط رہے گا۔ اگر تاریخ صداقت کے سینے میں محفوظ رہ سکی تو۔

خالد حسین کی یاد داشت : فراموشی کے دلدل میں ڈوبا دی گئی۔ اس کی لاش ( جس پر جا بجا گولیوں کے نشان نظر آتے تھے ) کو نہلا کر کفن پہنایا گیا۔ اس کے والد کو یہ سارا منظر دھندلا دکھائی دیا ہو گا۔ کیونکہ انھوں نے اپنی نمبر والی عینک اس روز اتار رکھی تھی۔

 

                ………۴………

 

 

 

میں اسٹوڈنس کانفرنس میں شرکت کرنے سرینگر گیا۔ جہاں مجھے دو ہفتے گزارنے تھے۔ موسمِ سرما کی آمد تھی۔ سرِ شام شاہراہوں پر کہرا چھانے لگا تھا۔ پانچ بجے تک تمام منظر پر کہرا پھیل جاتا اور کپاس کے اس سمندر میں بہت ساری تمنائیں تہہ دل میں گرمی پیدا کرنے لگتیں۔ کانفرنس ایک خفیہ مقام پر تھی۔ اس میں جن موضوعات پر گفتگو ہونے والی تھی، اس کا علم تحریک کے چند سنجیدہ اور ذمے دار لیڈران کو تھا۔ یہ تحریک ہندستانی سماج اور سیاسی نظام کو بدلنے اور جمہوریت کے اس فریبی تصور سے افراد کو آزاد کرانے کی کوشش تھی، جس نے ہر ہندستانی کو پیدائش سے ما قبل ایک مقروض فرد میں بدل کر رکھ دیا تھا۔

رات دو بجے تک میں اعجاز اور مستقیم لشکری کے ساتھ ایک نقشے پر کام کرتا رہا۔ تھکاوٹ سے کمر ٹیڑھی ہو گئی تھی۔ دیواروں کے شفاف شیشوں پر سفید دودھ پھیل کر جم گیا تھا۔ میں کھڑکی کی طرف بڑھا۔ اپنی ہتھیلی جوں ہی شیشے پر رکھی ٹھنڈ کی لہر پورے جسم میں اتر گئی۔ وہاں جمی احتجاج اور غصے کی برف کڑکڑا کر ٹوٹ گئی اور جسمانستان کے اندرونی حصوں میں ایک نا قابلِ بیان احساس بیدار ہوا۔ اس احساس کی آنچ سینے اور بغل تک آ کر ٹھہر گئی۔ ہتھیلی شیشے سے الگ کی تو دیکھا۔ ۔ ۔ کئی لکیریں نقش بن کر وہیں جمی ہوئی ہیں۔ کوئی ایک لکیر سیدھی نہ تھی۔ ان ٹیڑھی لکیروں نے اکثر مجھ میں یہ احساس پیدا کیا تھا کہ ’’ میں نا مراد پیدا ہوا ہوں کیا ؟ ‘‘ قنوطیت کی مسموم یخ زدہ ہوا دل سے اٹھنے والی تھی کہ مجھے ایسا لگا جیسے باہر گھنے لمبے پیڑوں کے درمیان تاریکی اور سردی میں فریدہ کھڑی ہے۔ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں تھا۔ کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ میں کہاں ہوں …… میں جب سے اس سے دور ہوا ہوں۔ وہ متواتر مجھے میرے آس پاس محسوس ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب میں ارادتاً اسے بھولنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے زیادہ یاد آ تی ہے۔

لا شعور کے دھندلکوں اور کہرا کے جال بہت گہرائی تک اتر گئے۔ میں دل کی تاریک کھائی میں ایک لمحے کے لیے پہنچ گیا۔ ۔ ۔ پھر میں نے شیشے پر جمی نمی کو صاف کیا۔ باہر کا منظر، جو شب کی آہنی چادر میں خاموشی سے سو رہا تھا۔ جاگ گیا۔ بہت دور پہاڑیوں میں بسے ایک گاؤں کی روشنیوں کے چھوٹے چھوٹے داغ نظر آتے تھے۔ لیکن ان سے مجھے کیا۔ ۔ ؟

تھوڑی دیر بعد میں نیم کے پیڑ کے نیچے پھیلے ہوئے ایک امرود کے پیڑ کے پاس فریدہ کو تلاش کر رہا ہوں، جسے چند منٹوں قبل میں نے اس کے ارد گرد محسوس کیا تھا۔ وہاں فریدہ کیا اس کا سایہ بھی نہیں تھا۔  وہ ’’ کچھ نہیں ‘‘ تھا۔ مجھے ’’ کچھ نہیں ‘‘ بہت اچھا لگتا ہے ! ’’ مجھے کچھ نہیں ہونا ‘‘ بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ احساس میری جڑوں کو مضبوط کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کچھ نہیں ہونا … بہت کچھ ہونا ہے۔

 

                …………۵…………

 

میں کمرے میں لوٹ آیا۔ دیکھا کہ کھڑکی پر دو بارہ برف کے ذرات جم گئے ہیں۔ باہر اب کچھ نظر نہیں آتا۔ دل میں ارادہ کیا۔ کل دوپہر اسے فون کروں گا۔ اتوار ہے۔ وہ گھر پر ہو گی۔ یکایک یونیورسٹی سے مجھے غیر حاضر پا کر وہ بہت پریشان ہو گی اور کس کس سے نہ پوچھتی ہو گی ؟ ’’کیا اس نے تم کو بتایا تھا یونی ورسٹی نہیں آئے گا ؟ ‘‘

اس کی ایسی حالت بھی عجیب ہوتی ہے۔ جو مجھے احساس دلاتی ہے کہ میرا وجود اس کی تعبیر ہے۔ عشق احساسِ روح ہے۔ جب وہ مجھے میرے بارے میں فکر مند نظر آتی ہے۔ وہ لمحے، جب وہ مجھے ڈھونڈتی ہے۔ وہ لمحے، جب وہ مجھے نصیحتیں کرتی ہے اور وہ لمحے، جب وہ مجھ سے آنکھیں چراتی ہے۔ میرے لیے پر کیف اور یادگار لمحے ہوتے ہیں۔ ان سے میرے عشق کو دوام ملتا ہے۔

میں ایک طرف میز پر بیٹھ گیا۔ عرفان لشکری کانفرنس کے نکات کو ترتیب دے رہا تھا۔ اعجاز بٹ ایک طرف کچھ لکھ رہا تھا۔ کیا ہم تینوں میں کوئی قدر مشترک تھی ؟ تینوں چپ تھے۔ نیند کی طلسم کاری کا ہم پر کوئی اثر نہیں تھا۔ بمبئی سے نکلتے وقت میں نے گارسیامارکیز کا ناول ’’ تنہائی کے سو سال ‘‘ بھی ساتھ رکھ لیا تھا۔ سوچا، چلو یادِ حبیب کو مٹانے کے اس طلسمی نگار خانے کی زیارت کی جائے۔ بیگ سے کتاب نکالی، جو ایک مراٹھی اخبار میں لپٹی ہوئی تھی۔ کتاب بائیں ہاتھ میں لی، دائیں ہاتھ میں اخبار کا صفحہ تھا۔ جس پر اس لیڈ رکی تصویر تھی، جسے غالباً خالد حسین قتل کرنا چاہتا تھا۔ تصویر کے نیچے سرخی لگی تھی۔ ’’ انھیں اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ‘‘

میں نہیں جانتا ایسا کیوں ہوا کہ مجھے ہنسی آ گئی اور قہقہہ بلند ہو گیا …… کمرے کا سناٹا دیواروں سے ٹکرا کر مراجعت کرنے کے بجائے غالباً باہر برف کی دبیز تہوں میں جا کر کہیں منجمد ہو گیا۔ لشکری نے مڑ کر میری جانب دیکھا۔ اعجاز اٹھ کر میرے قریب آیا۔ لیکن اس قہقہے کی باز گشت واپس نہیں آئی۔ شاید ہماری چیخوں اور قید خانوں میں اموات کی فہرست بھی کبھی واپس نہیں آئی تھی ……

’’میں نہیں جانتا کہ ایسا کیوں اور کب سے ہوا تھا۔ ‘‘

لشکری :پیارے کیا ہوا ؟

اعجاز : اسے اپنی معشوقہ یاد آئی ہو گی۔

لشکری :۔ بھئی، بتاؤ کیا بات ہے ؟

اعجاز :۔ یہ سوچ را۔ ۔ ہوتا … وہ ادھر ہوتی تو؟

نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے … یہ دیکھو !یہ اسی حیوان کی تصویر ہے، جسے جہنم رسید ہونا چاہیے۔ اس مادر …… نے اپنے اخبار میں لکھا ہے کہ ہمیں اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم اچھے اور مہذب شہری نہیں ہیں۔ ہماری آبادی بڑھنے سے ان کی ثقافت کو خطرہ ہے۔ ( لشکری کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اعجاز منہ کھولے مجھے دیکھ رہا تھا ) یہ گانڈو ہمیں مٹا کر اس زمین کو پاک کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہر دن اس طرح کے بیانات دیتا ہے۔ جمہوریت کی کوکھ میں فسطائیت کا زہر بھرتا ہے لیکن اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔ اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ سارا ملک ترشول والوں کنٹرول میں چلا گیا ہے۔ وہ جو ظاہری طور پر کانگریسی، کمیونسٹ اور ڈیمو کریٹک نظر آتے ہیں، سالے وہ بھی اندر سے زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اس رنگ سے ہمارے قتل اور ہمارے خلاف فسادات کی فہرست تیار ہوتی ہے …… یہ سب اس شیطان کے دوست ہیں اور اقتدار میں آنے کے لیے اسے مہرے کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ سور ہماری بہنوں کی عصمت دری کے لیے جرمنی سے ایسے اسپرے منگاتے ہوں گے، جس سے ایک ہی شب میں کئی کئی لڑکیوں کی …………

لشکری کا چہرہ سرخ انگارے میں بدل گیا تھا۔ اعجاز میرے پیروں کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ ’’ ہمیں ان کے ساتھ جنگ کرنا چاہیے۔ ‘‘لشکری نے کہا۔ یہ ممکن نہیں ہے لشکری میں نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ جبر کے ہاتھ بہت مضبوط ہو چکے ہیں۔ جمہوریت کا لیبل ان کے سروں پر ہے۔ ان کے پاس حکومت ہے۔ اقتدار ہے۔ فوج ہے۔ پولس ہے۔ میڈیا ہے۔ وہ خود کو معصوم اور ہمیں ظالم، غیر مہذب اور شر پسند ثابت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کی پوری مشنری ہماری دشمن ہے۔ ہمیں جمہوری دفاتر کے تعاون سے ہلاک کر رہے ہیں۔

اعجاز : تو کیا کریں ؟

لشکری ہم کیا کریں ؟ تم بتاؤ ہم کیا کریں ؟ صرف کانفرنسوں سے کیا ہو گا ؟

ہم کیا کریں …… ؟

…… ’’ ہم مجتمع ہوں، ہم اپنے وجود کا احساس پیدا کریں۔ ‘‘

لشکری : لیکن اتحاد نا ممکن ہے۔ ہماری قوم ان کے جھوٹے پروپیگنڈے اور ذاتی مفادات کے دائروں میں بٹی ہوئی ہے۔

ہاں !! یہ ہماری تاریخی بد قسمتی ہے۔ انھوں نے انتہائی دانش مندی سے ہمیں عقیدوں کے فرسودہ مقبروں میں زندہ درگور کر دیا ہے۔ جمہوریت ایسے شائستہ لفظوں کو استعمال کر ہمیں کمزور، بے سہارا اور غیر منطقی بنا دیا ہے۔ ہمارے وجودی احتجاج کو رجعت پسندی کا نام دے دیا ہے۔ ہماری عبادتوں اور عقائد کو بنیاد پرستی کے عنوان کے تحت غیر جمہوری عمل ثابت کیا اور خود اپنی مردہ غیر انسانی ثقافت اور تہذیب کو احیاء عطا کرنے میں لگے رہے۔ گزشتہ نصف صدی سے خود کو اکٹھا کرتے رہے اور آج اس قدر طاقت ور ہو گئے ہیں، کہ ان کے دانت آہنی اور آنکھوں میں زہر کے سائے بھر گئے ہیں۔ ان کی جلد گیندے ایسی موٹی ہو گئی ہے، جس میں جمہوریت کی لچک اور حقیقت پسندی کہیں بہت اندر دم توڑ چکی ہے۔ جمہوریت کے نام پر کسی معاشرے کا اختتام اتنا ہیبت ناک اور بالترتیب فسطائیت پر ہو گا کب کس نے سوچا ہو گا ؟ اور اب وہ ہم سے تاریخی انتقام لینا چاہتے ہیں۔ تاریخ بھی وہ، جسے خود انھوں نے مرتب کیا ہے۔ اپنے عروج اور ثقافتی ارتقا کو جواز عطا کرنے کے لیے انھیں ایک دشمن کی ضرورت تھی۔ وقت نے یہ ضرورت ہماری صورت میں پوری کی ہے۔ ان برسوں ان فسطائی ذہن والوں نے سارے بھارت کو دلدل میں پھینک دیا ہے۔ ہماری معیشت تباہ کی گئی ہے۔ سیکولر کہلانے کا چسکہ لگا کر ہمارے پڑھے لکھے طبقے سے اس کی شناخت تک چھینی جا رہی ہے۔ ( سودا دونوں طرف سے برابر ہوتا، تو بات الگ ہوتی ) ترشول والے اپنی جڑوں کی طرف مراجعت کرنے لگے اور ہمیں اپنی ثقافتی حقیقت سے دور کرنے کا منصوبہ کرتے رہے اور یہ سب جمہوریت کے ماسک پہن کر کیا گیا ہے۔ ہم اور ہماری طرح کے بے شمار لوگ۔ ۔ وہ بھی جو ان کے گھرانوں میں پیدا ہوئے۔ لیکن مثبت فکر رکھتے تھے۔ اس مہیب فسطائی دلدل میں پھنس رہے ہیں۔ ( مجھے پہلی بار اس قدر تفصیل سے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے دیکھ کسی نے مداخلت نہیں کی۔ )

لشکری : ہمیں ہارنا نہیں ہے۔

اعجاز : یقیناً!!اسی لیے تو اب یہ ذمہ داری ہم طلبہ کی ہے۔ ہمیں رفتہ رفتہ اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ذہنوں کو جمہوریت کے اس فریبی اور مکروہ چہرے سے آشنا کرانا ہے۔ اس لفظ کی آڑ میں ہماری حمیت کو تار تار کیا گیا ہے۔ اس لفظ کے پس پردہ ہمارے گھروں کو بھگوے شعلوں میں بھسم کیا جا رہا ہے۔

لشکری : میں مستقبل کے ہندستان کا نقشہ بناؤں گا …… جس میں سب کے ساتھ انصاف ہو گا۔

اعجاز : یہاں کی آزادی کے بعد ہمیں توانائی ملے گی۔ ۔ ۔ لیکن شاید بہت وقت لگے گا … شاید ایک صدی … لیکن تحریک کو آگے بڑھانا ہے۔

اعجاز : لیکن تحریک کو آگے بڑھانا ہماری ذمے داری ہے۔

کچھ دیر اور باتیں ہوتی رہیں۔

اچھا بھئی اب سو بھی جاؤ۔ چار بج رہے ہیں۔ صبح اسٹیج بھی تو سجانا ہے۔ ہم بستر پر لیٹ گئے۔

 

                ……………۶…………

 

وجود کی اصل وجود کی عدم وجودی حالت ہے۔ یہ سفر میں نے ’’ نہیں ‘‘ سے شروع کیا اور آج ’’ہوں ‘‘ تک اس بنا پر پہنچا ہوں، ۔ چنانچہ میری اصل وہ ہے۔ جہاں سے میں نے سفر شروع کیا تھا۔ میں جہاں پہنچ گیا ہوں۔ وہ میرا انجام ہے۔ یہ میری ترمیم شدہ حالت ہے۔ جو میری حقیقت اور عینیت سے مختلف ہے۔ مجھے احساس ہے اب میں دو بارہ اپنی اصل حالت کی طرف مراجعت نہیں کر سکوں گا۔ جہاں سے اس کی تمہید ہوئی تھی۔ اس سفر میں اب مجھے ہمیشہ رہنا ہے۔ موت !! بس اک پل کے لیے مجھے میرے ماضی کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔ ’’ میں ذہن کے پیچیدہ تر پیچوں پر کھڑا ایک بے صدا انسان ہوں۔ ‘‘

چلو اب میں اس حالت سے باہر نکل آؤں۔ فریدہ کے یہاں نا ہو کر بھی ہونے کے احساس نے میرے اندر خلا سا پیدا کر دیا ہے۔ اس خاموش، تنہا، برفاب شب میں وہ اپنے حسم و جمال کے ساتھ مجھ میں اپنا احساس بیدار کر ہی ہے۔ اس کے بدن کی مہک سے میری روح میں ترنگ بھر جاتی ہے۔ ایسے لمحوں میں، میں اس کے جسم کو اپنی بانہوں میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کی گرمی اور خوشبو سے اپنے لہو میں اٹھنے والی موجوں کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے تارِ نفس پر میں خود کو رفتہ رفتہ سلگتا ہوتا ہوا محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ دل کے نخلستان میں گم ذات مسافر کی طرح ساکت کھڑے رہ کر میں خاموش لمحوں کے اتصال کا گواہ بننا چاہتا ہوں۔ ان احساسات سے رگوں اور شریانوں میں سویا ہوا کہرا چھٹ جائے گا۔

فریدہ میرے لاتفسیر وجود کو معنی عطا کرتی ہے۔ میری زندگی کی تاریک سمتوں اور مسافتوں میں نور بن جاتی ہے۔ اس کی خواہش میرے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس کے بدن کے خطوط اور اس کے سینے کی حرارت مجھے تکمیل اور کامرانی کی بشارت دیتے ہیں۔

ایک جھینگر سیاہ پتھر کے نیچے سے نکلا۔ امرود کی ایک شاخ سے گلہری لپکی۔ ۔ وہ ڈر کر زرد بکھرے پتوں میں گھس گیا۔ ایک پل کے لیے میرا ذہن اس طرف متوجہ ہوا۔ خاموشی اس شور سے بکھری۔ کہرا کے ذرات میں ارتعاش ہوا۔ ایک لہر پیدا ہوئی اور دائرہ بن گئی۔ ان دائروں میں جھینگر اور گلہری کی ایک پل کی جھلک محفوظ ہے۔ تھوڑی دیر قبل میں یاد کے ہالوں میں بہتا جا رہا تھا۔ میں جانتا ہوں۔ آپ اسے کمزوری کہیں گے۔ لیکن اس کا کیا حل نکالا جائے ؟ وگرنہ زندہ رہنے کے لیے کوئی بامعنی اور منطقی جواز بھی تو نہیں ہے۔ ’’ میرے لیے زندہ رہنے کا واحد جواز محبت ہے اور دنیا کاسب سے محروم آدمی وہ ہے، جس کے ساتھ محبت نہ کی گئی ہو۔ ‘‘کیا آپ سے کوئی محبت کرتا ہے ؟ کیا آپ کسی کے ساتھ محبت کرتے ہیں ؟وہ لوگ، جو محبت پر اعتماد نہیں کرتے، شکست خوردہ ذہن کو پیش کرتے ہیں۔ سیاسی اور سماجی زوال کے عروج میں آبادی کا بڑا حصہ شکست خوردہ ذہن ہوتا ہے !! کہیں آپ بھی ! !!

 

                ………… ۷ …………

 

انگیٹھی میں کوئلے ابھی بجھے نہیں تھے۔ ہلکی ہلکی آنچ موجود تھی۔ باہر کہرا گہرا ہو گیا تھا۔ کھڑکیوں پر دودھ ایسی سفید پرت جم گئی تھی۔ کمرے کی بجلی گل ہونے سے اندھیرا پھیل گیا۔ اس سیمابی تاریکی میں تین جسم سانس لے رہے تھے۔ تینوں طالب علم اپنے تاریخی اور ثقافتی وجود کی شناخت کو باقی رکھنے کی امنگ دل میں لیے ہوئے، تینوں کے دلوں کی زمین پر شاندار اور با معنی تاریخ کی یادیں اگی ہوئی تھیں۔ تینوں ایک نازک ڈور پر چل رہے تھے، جس کے نیچے نوکدار میخیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ وہ طالب علم ہیں، جنھوں نے عرصہ ہوا جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اسکول اور کالج میں ڈرامے کیے تھے۔ نا انصافی اور جبر کے خلاف نکڑ ناٹک کیے تھے لیکن بہت جلد وقت نے ان کے تصورِ جمہوریت کی معنویت ان پر آشکار کر دی۔ تحت الشعور نے کروٹ لی اور وہ سمجھ گئے جمہوریت ان کے لیے صرف ایک ماسک ہے۔ ایک ڈھال ہے۔ جس کی آڑ میں سیاسی تشدد، فسطائیت، زعفرانی بنیاد پرستی، مسلم کش فرقہ واریت اور اقدار کے خلاف ایک سازش ہے۔ ان کی شناخت کو مٹانے کی منصوبہ بند سازش ہے۔ یہ اتنا بڑا کھیل ہے، جس کا صدیوں تک صحیح طور پر تجزیہ ممکن نہیں۔ وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ جمہوریت کی صلیب پر ان کی تاریخ کو لٹکا دیا گیا ہے۔ عوام الناس کو اس قبیح فعل کے احساس سے ماورا کرنے کے لیے ان کے گھروں میں موجود ٹیلی ویژن شب و روز پروپیگنڈے میں جٹ گئے ہیں۔ وہ ادیب، فنکار اور دانشور، جو اس قہر کی معنویت کے خلاف لکھنے کی جسارت کرتے تھے ان پر ملک دشمن اور غیر ملکی سازشوں کو مضبوط کرنے کا الزام لگایا جائے گا اور لگایا گیا ہے۔ فسطائیت کے ناسور نے ہزاروں انسانوں انتہائی سفاکی سے بے نشان کیا ہے۔ جمہوریت عفریت ہے۔ بے در و دیوار زنداں ہے۔

 

                ………………۸……………

 

میں نے کتنی بار کروٹیں بدلیں مجھے معلوم نہیں۔ جانے کیا بات ہے کہ میرے دماغ سے نیند غائب ہو گئی ہے اور مجھے مسلسل یہ احساس اذیت پہنچا رہا ہے کہ میرے ساتھ اس بستر میں خالد حسین کی لاش بھی کروٹیں بدل رہی ہے۔ لیکن خالد حسین تو دفنا دیا گیا تھا۔ پھر مجھے ایسا کیوں لگا ؟ لا شعوری طور پر میں نے کئی بار بستر میں ٹٹولا۔ مجھے رہ رہ کر ایسا کیوں لگتا ہے کہ خالد حسین مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ ہاں ! میں جانتا ہوں۔ اس کا بہیمانہ قتل کیا گیا تھا۔ اس کے جسم پر جا بجا اذیت کے نشان تھے۔ مجھے یاد ہے : اس کی مردہ آنکھوں میں ایک خواب اٹکا ہوا تھا۔ وہ خواب میری پلکوں میں بھی ہے اور اب دھیرے دھیرے میری طرح بے شمار لوگوں کی آنکھوں میں دکھائی دینے لگا ہے۔ ( سوائے ان افراد کے جو اب تک جمہوریت کے عفریت کا شکار نہیں ہوئے ہیں ) یا جنھیں سفید کرتے پاجامے والی سیاسی پارٹی نے ’’ ممی ‘‘ بنا رکھا ہے۔ جس کے لیڈروں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے بھیڑیوں نے انسان چہرے کا ماسک پہن لیا ہے۔ اس پارٹی میں جو سب عظیم اور انسان دوست تھا اس کا قتل ہندوتوا وادی فسطائیت کا جمہوریت پر پہلا حملہ تھا… وہ بوڑھا، نیک دل، گول عینک والا، دھوتی والا۔ ۔ ۔ رام رام کہتا ہوا خاک میں مل گیا …جمہوریت کے اس علم بردار کا اپنا مذہب اور اس کی ایک تہذیبی شناخت تھی … وطن ثانوی چیز ہے۔ شاید اسی لیے موت کے آخری لمحات میں اس کے ہونٹوں پر ’’ اے وطن ‘‘ کی بجائے ’’ رام رام ‘‘ تھا … یہ وہی شخص ہے، جو ساری زندگی کہتا رہا کہ وطن مذہب سے بڑی اور مقدس چیز ہے، لیکن خود کو مذہب کے آسیب سے علاحدہ نہ کر سکا۔ پھر وطن کو مذہب بنانے والی فسطائی طاقتیں مجھ سے یہ تقاضا کیوں کرتی ہیں کہ میں اپنی ثقافتی اساس سے دست بردار ہو جاؤں … خالد حسین کہتا تھا : اس مہاتما کے قتل نے ہندستان کو ایک خاندان کی حکمرانی میں پھینک دیا ہے۔ ( کہیں اس مقصد کے تحت اس کا قتل تو نہیں ہوا تھا ؟ ) شاید نہیں۔ لیکن جمہوریت کے تقاضوں سے لاعلم افراد سے بھرا ہوا ملک خاندانی مطلق العنانی کا شکار ہو گیا۔ بنگال کی تقسیم، کشمیر کا مسئلہ، ایمرجنسی، مسجد مندر تنازعہ، ترمیم بل، فسادات، تعلیمی پسماندگی وغیرہ مسائل میں عوام کو اسی خاندان نے پھنسایا تاکہ افراد کی یادداشت بیدار نہ ہو اور وہ یہ سوال نہ اٹھائیں کہ جمہوری طرزِ حکومت میں خاندان کے نام کی بالا دستی کس طرح در آئی ؟ ؟ میری طرح بے شمار نوجوانوں کا وجود اس خاندان کے پیدا کردہ پریشان حال ہندستان میں گم ہو گیا۔ مجھے اپنے وجود کی بنیادوں کو تلاش کرنا ہے۔ مستحکم کرنا ہے۔ مجھے خود کی بازیافت کرنی ہے۔ میرا وجود تاریخ ہے۔ میں اپنی یادداشت ہوں … میں فرد اور میں ہی معاشرہ ہوں۔ میں اپنی کائنات ہوں۔ مجھے اپنے کھوئے ہوئے دھارے ڈھونڈنے ہیں۔ مجھے اپنے بارے میں سوچنا ہو گا… ’’ میں ہوں ‘‘، اور ابھی میں خالدحسین کی طرح بے نشان نہیں کیا گیا ہوں۔ خیالات کے دائرے ذہن کی فصیلوں کے درمیان پھیلتے رہے اور جانے کب مجھے نیند کی آغوش میں لے گئے۔

’’ نیند سے عدم مربوط ہے کیا ؟ ‘‘

 

                …………۹………

 

صبح دس بجے ہوں گے جب میری آنکھ سے نیند واپس عدم آباد لوٹ گئی۔ کھڑکیوں سے شفاف روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ کہرا کسی اور سمت چلا گیا تھا ۔ ۔ دور پہاڑوں پر برف چمک رہی تھی۔ کمبل سے نکل کر میں کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ باہر امرود کے پیڑ کے نیچے جھینگر کے پر نظر آئے۔ جنھیں دیکھ کر یاد آیا کہ رات گلہری نے اس کا شکار کیا ہو گا۔ کیا گلہری گوشت خور ہے ؟

بیشتر پنڈت اور برہمن گوشت خور نہیں ہوتے لیکن انسانی خون سے کھیلنا انھیں اچھا لگتا ہے۔ کہیں برہمن دماغ میں یہودی قوم سے منسوب وہ کہانی تو نہیں گھس گئی ہے، جس میں اپنے ایک مخصوص تیوہار پر روٹیاں بنانے کے لیے یہودی لوگ عیسائی لڑکوں کا خون استعمال کرتے تھے۔ جس کے لیے انھیں یہودی لڑکوں کو اغوا اور قتل کرنا پڑتا تھا۔ سنا ہے برہمن قوم زیادہ شاطر ہے۔ا س نے عقائد کا ایسا جال بنایا ہے، جو دیگر عقائد سے ٹکراتا ہے۔ اگر کوئی اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہو … تو برہمنوں کو اس سے بر سر پیکار ہونے کا جواز مل جاتا ہے۔

ہندوتوا وادی شدت پسندوں کا کہنا ہے : جانور مت کاٹو، لیکن جانوروں کو کاٹنے والوں کا صفایا کرو…

بتائیے ! کیا حالتِ غیر میں، میرا ان باتوں پر سوچنا یکسر بے معنی ہے ؟

 

                ……………۱۰………

 

صنوبر کے پیڑ کے نیچے کشمیر کی پر آشوب ہوا بدن میں میخیں گاڑتے ہوئے بہہ رہی تھی۔ صنوبر کا تنا پھیلا ہوا تھا۔ اس کی جڑیں مضبوط ہو چکی تھیں۔ اس کی شاخوں کے درمیان ڈوبتے ہوئے زرد سورج کی شعاعیں منور ہو کر یہاں وہاں منعکس ہو رہی تھیں۔ بالائی حصہ گویا آسمان سے محو کلام تھا۔ یہ گفتگو ابھی پر اسرار ہو گی۔ وادی میں ہر طرف سبزہ زار پر لہو رنگ زرد سرخ کرنوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ دور کی پہاڑیاں یوں لگتی ہیں، جیسے، وہیں پر ابھی ابھی کسی دیو مالائی کردار کر قتل ہوا ہے، جس کا چمکدار لہو برف کی چوٹیوں پر بکھرا پڑا ہے۔ وہ کردار جانے کس لمحے سے اس حسین منظر کے پس منظر میں ترشول اپنے دانتوں میں پکڑے برہنہ رقص مرگ و حیات کر رہا تھا۔ لیکن اس کا قاتل کون ہے ؟ ؟ میرا خیال ہے کہ اس اک جواب صنوبر اور آسمان جانتے ہیں اور ان کا کلام ابھی پر اسرار ہے۔

’’ وقت بھی پر اسرار رقص ہے جس کی رفتار میں تاریخ اور اذہان گردش کرتے ہیں۔ ‘‘ تاریخ صرف اذہان کی ہوتی ہے، جو تخلیقی، مادی اور نظریاتی بنیادیں استوار کرتی ہے۔ تاریخ کا حسن تصادم اور کش مکش ہے۔ وقت کی صداقت اس کا تحرک ہے۔ زندگی کا جمال اور اس کی لطافت، خالی پن کے لمحوں میں یا عدم احساسیت میں ہے۔ نہیں ہونے کا خیال ’’ وجود ‘‘ کو تشکیل کرتا ہے۔ اسے زندگی سے بر سرِ پیکار ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ زندگی کے حسن کی تزئین کرتا ہے۔ میں خالی آسمان کو دھیان کی بینائی سے دیکھ رہا تھا۔ بھیتر کی آتما میں ایک عجیب نہ ہو کر ہونے کا احساس ابھر رہا تھا۔ وجود کی شیریں لطافت نے ایک پر کیف حزنیے میں مجھے مقید کر لیا۔ اس کے سینے کے سروں کی رنگت … کس قدر ہلکی گلابی … جس میں گندمی رنگ گھل گیا ہو۔ اطراف میں نیم واضح چھوٹے چھوٹے نقطے سے نشان … اور پھر وہ جان لیوا گولائی، جو سفید اور جلدی رنگ کی آمیزش سے روح کی دیواروں میں ایک الہامی کیفیت بیدار کرتی ہے۔ اس کے بدن کا یہ حصہ طلسمی جھیل کی سطحِ آب سا ہے جس پر کاغذ کی کشتی کی مانند رفتہ رفتہ ڈوب جانے کو جی بے قرار ہو اٹھتا ہے۔ میری نوک زباں پر اس کے سینے کا ذائقہ آویزاں ہے۔

 

                ………۱۱………

 

لیکچر روم پہلے منزلے پر تھا۔ ہمارے لیکچرز دو بجے دوپہر سے پانچ بجے تک ہوتے تھے۔ بمبئی میں کبھی کبھی اچانک بہت گرمی ہوتی ہے۔ گرمی سے میں بے حال تھا۔ لیکن دل میں اس کے احساس کا لطف تھا۔ یہی لطافت وجود کو سارے نا مساعد حالات میں بھی توانائی عطا کرتی ہے۔ ایک تخیل عطا کرتی ہے۔ آخری لیکچر غالباً پروفیسرہدایت اللہ کا تھا۔ لیکچر ختم ہوتے ہی طلبا ذہن کی الجھی ہوئی کیفیت سے باہر آنے کے لیے فوراً کمرۂ جماعت سے نکل پڑے۔ یہ اور بات ہے کہ پروفیسرہدایت اللہ کے لیکچرز بڑے علمی ہوا کرتے تھے۔ شاید میری نسل میں علمی باتوں کو سننے کی صلاحیت معدوم ہو گی۔ کمرۂ جماعت میں ہم دونوں رہ گئے تھے۔ کیا ہماری آنکھوں میں ایک دوسرے کو اکیلا پا کر جاگنے والی غنودگی اور سرور آپ سمجھ نہیں سکتے ؟ وہ نشۂ حیات آپ محسوس نہیں کر سکتے ؟ میں نے اس کی چوٹی کھینچی … اس کے اعصاب کی شبنم جبیں پر افشاں ہو گئی۔

’’ اف ‘‘ … پاگل …ہو گئے ہو ؟ ‘‘

’’ ہاں ‘‘

اس نے زبان باہر نکال کر چڑانے والے انداز میں کہا … ’’ اونہہ … ‘‘

میں نے چوٹی دوبارہ کس کے کھینچی۔

’’ما… روں گی … ہاں … دیکھ … نا ‘‘

’’ مار تو چکی ہو۔ ‘‘

وہ ایسے لمحوں میں بے حد شوخ ہو جاتی اور میرے دل میں شوق کے عنوان عریاں ہو جاتے … میں نے کہا : ’’ فریدہ بٹن کھولو … ‘‘

اس جملے نے اسے حیرانی کے گرداب میں پھینک دیا۔ وہ حیران نظروں سے مجھے دیکھتی رہی … اس کی جبیں پر آشفتہ بوندیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔

’’ کیا کہا میاں مٹھو … پھر سے کہو ؟ ‘‘

میں نے اپنا جملہ دوہرایا۔

اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ سن ہو گئی۔ کمر پر اس کی چوٹی کھل کر جیسے سایہ کر گئی۔ خاموشی ہمارے اطراف ساکت کھڑی تھی جس میں اس کے دل کی دھڑکنوں کو سنا جا سکتا تھا۔ وہ بلیک بورڈ سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے اپنی ہتھیلی اس کے بائیں گال پر رکھی۔ اس کی روح کی آنچ اس کے گالوں پر محسوس ہوئی۔ وہ لرز گئی۔ اس کی سانسوں کا شور تیز ہوتا گیا۔ اس کی نظر کھڑکی کی جانب تھی … میں نے کھڑکی اور دروازہ بند کر دیا … کمرے میں اس کی کھلی چوٹی کا سایہ نیم تاریکی میں بدل گیا۔ میرے قدم اس کی جانب بڑھے۔ اس کا دل تیز رفتار ٹرین کی طرح دوڑ رہا تھا۔ اس کے بدن میں اس کے دل کی آواز کا شور پھیل گیا۔ وہ ساکت و جامد لیکن اندر ہی اندر لرزاں تھی۔ اس کی نگاہیں مجھ پر مرکوز تھیں۔ اس کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ لکیروں کے آڑے ترچھے خطوط بنے تھے۔ میں اس کے قریب پہنچ کر کھڑا ہو گیا۔

وہ مجھے گھورتی رہی۔

ایسا لگ رہا تھا، جیسے بلیک بورڈ پر لکھے تمام حروف ایک اک کر کے بلیک بورڈ سے ترتیب وار اترے اور اسی قطار میں دروازے اور کھڑکیوں کے کونوں سے باہر جا رہے تھے تاکہ ہمارے درمیان ان کی موجودگی محسوس نہ ہو۔ ’’ محبت کے لیے اتنی یکسوئی کی ضرورت کیوں ہوتی ہے ؟ ‘‘

’’ فریدہ دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘

… ’’ مجھ سے نہیں ہوتا۔ ‘‘ بالآخر بہت آہستہ اس نے کہا۔

’’ کیا نہیں ہوتا … ؟ ‘‘

’’ تم کیوں نہیں سمجھتے … مجھ سے نہیں ہوتا۔ ‘‘

میں نے بے رخی سے کہا۔ ’’ تو پھر چلو نکلو … چلتے ہیں۔ ‘‘

’’ ناراض… ہو گئے ہو ؟‘‘

’’ نہیں تو کیا … یار تم اتنا جھجک کیوں محسوس کرتی ہو؟ ‘‘

میں مڑنے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا … اس کے ہونٹوں پر ایک نسائی آہنگ اور آنکھوں میں جوشِ محبت تھا۔ ’’ رکو تو … میں نے ’نہیں ‘۔ ۔ ۔ کہا کیا؟ ‘‘

میرے چہرے پر اس کے اس مختصر جملے سے مسکراہٹ پھیل گئی۔

اس نے نگاہیں جھکا لیں۔ اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ کمرۂ جماعت کی میزوں کے اندر دیمک یہاں سے وہاں میزوں کے برادے میں پاگل ہو کر بھاگ دوڑ رہی تھی۔

’’ محبت کے لمحوں میں دنیا کی ساری کیفیات آپ سے کس قدر مانوس ہو جاتی ہیں ؟ کیا ہمارے مٹی جسم کا دیگر اجسام سے کوئی ربط ہے ؟ کیا فرطِ محبت سے پیدا ہونے والی ہماری جسمانی توانائی کے اسرار دیگر اجسام و عناصر پر عیاں ہیں ؟ ‘‘

’’ کچھ دیر بعد اس نے کہا لو اب … خوش ؟ ‘‘

میری روح میرے دیدوں میں مرکز کئے تھی۔ میں چپ تھا۔

’’ اف بابا … کتنے وحشی ہو، خود نہیں … ؟ ‘‘

’’ اوکے اوکے ‘‘ میں نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔

میں جانتا ہوں اگر وہ روٹھ گئی تو اس لمحے کا انبساط فنا ہو جائے گا۔ وہ تمام حروف جو ہماری خاطر کمرۂ جماعت سے ہجرت کر کے باہر گئے۔ وہ کہیں گے۔ ’’ ہماری ہجرت بیکار گئی۔ ‘‘ میں دیمک کے رقص کو المیے میں نہیں بدل سکتا۔ اس کی آنکھیں میری آنکھوں میں سمائی ہوئی تھیں … اس کی گردن پر بخارات جمع ہو گئے تھے۔ اس کی سانسیں مزید تیز ہو گئی تھیں۔ اس کی گھبراہٹ، نسوانیت، لڑکھڑاہٹ اک پل میں محو ہو گئی۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں احساس تِکمیلیت نمایاں ہوا۔ ’’ کیا احساس جنس کے بغیر وجود کی تکمیل ممکن ہے !!‘‘

میری آنکھوں نے ذہن میں جتنی ’’ فرمیز ‘‘ اس وقت بنائی ہوں گی سب میں وہ نا قابلِ بیان احساس ثبت ہو گیا … سیاہ گندمی رنگ کی آمیزش والے گلابی نقطے پھیلے۔ میری زبان کے لمس نے اس کے دل کی بھول بھلیوں میں آتش فشاں جگا دیا ہو گا۔ اس کے دل سے ابھرنے والا شور میرے بدن کی دیواروں کو مسمار کر رہا تھا۔ زبان کے توسط سے جسم کا جسم میں ادخال اس قدر با معنی ہے نا ؟ شاید زبان خواہشوں کو ایک دوسرے میں تحلیل کرتی ہے۔ اس کے نفس کا ردم منتشر ہو کر کمرۂ جماعت میں بکھر گیا تھا۔ میں جن لمحوں اس کی بدن سے اپنے حصے کی محرومیاں مٹا رہا تھا، وہ ان لمحوں میرے بال سہلا رہی تھی۔ ’’ آپ بتا سکتے ہیں، بعض اوقات محبت میں اس قدر شفقت کیوں شامل ہو جایا کرتی ہے ؟ ‘‘ میں نہیں جانتا … اس کے اندر۔ ۔ مجھے اس سے محبت کرتے ہوئے دیکھنے اور …… خوش رکھنے کا جذبہ اس قدر کیوں ہے ؟ جب اس کی انگلیاں میرے بالوں کو سہلا رہی ہوتی، تب مجھے یوں محسوس ہوتا گویا وہ مجھ سے پندرہ بیس سال بڑی عورت ہے، جو محبت کے سارے مرحلوں اور راحت حاصل کرنے کے تمام سلسلوں سے گزر چکی ہے۔ کیا جنسی انحصار کے لیے تجربہ ضروری نہیں ہے ؟

’’ کیا بدن سے لطف اندوز ہونے کے لیے مشق ناگزیر ہے ؟

ہم دونوں بارشِ عشق سے شرابور ہو چکے تھے۔ اظہار نفس فصیل جسم سے باہر امڈ آیا تھا۔ دونوں کے تلوے گرم سلگتی ہوئی ریت پر تھے۔ ہمارے اجسام روح کے جان لیوا احساسِ ثقل سے کبھی آزاد ہوئے ہیں ؟ کیا آپ کو اس لمحے کا فرحت بخش انبساط یاد ہے، جب بدن کی حلاوت سے آنکھوں میں دھند بھر جاتی ہے ؟

………

…………

……………

 

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ بلیک بورڈ سے سر ٹکائے کھڑی تھی۔ وہ قطرے محبت کی بے زبانی کا دفتر تھے۔ ان میں عورت ہونے کا جذبہ چمک رہا تھا۔

میں جس میز پر بیٹھا تھا اس سے چند قدموں پر کار آ رکی۔ کار کی آواز نے مجھے خیالات کی جھیل سے باہر نکالا۔ صنوبر کا سایہ تنے کے ارد گرد پھیل گیا تھا۔ امرود کے پیڑ پر گلہری رقص کر رہی تھی۔

 

                ……… ۱۲………

 

علی گڑھ، جواہر لال نہرو، لکھنؤ اور جامعہ ملیہ سے کچھ نمائندے آئے تھے۔ مختصر سی بات چیت کے بعد میں نے لشکری سے کہا کہ انھیں ان کے لیے مختص کمروں تک پہنچائے۔ کار جموں یونیورسٹی کا ایک طالبِ علم ڈرائیو کر رہا تھا۔

مجھے فون کرنا تھا۔ وہ واپس شہر کی طرف جا رہا تھا۔ میں اس کے ساتھ ہو لیا۔

آسمان سے شام اترنے لگی تھی۔ سورج کی سرخی سیاہی میں بدل رہی تھی۔ دور کی پہاڑیوں میں ہونے والے قتل کا پریشاں لہو برف کی چوٹیوں پر منجمد ہو رہا تھا۔ صنوبر کا پیڑ خاموش، تنہا اور یاس زدہ لگ رہا تھا ۔ جس طرح بہت دور ہزاروں میل دور سمر قند، تاشقند اور اسپین میں تاریخ کے امین محلات و محراب اور ان سے ملحق عبادت گاہیں کھڑی ہیں۔ خاموش، تنہا و یاس زدہ۔ … کیا انھیں کسی انقلاب کا انتظار ہے ؟ کیا وہ ایک طوفان کے انتظار میں ہیں، جو ان کے کربناک سکوت کو توڑ دے گا ؟ کسے معلوم ؟ ہاں ! مگر یہ صنوبر آزادی چاہتا ہے۔ یہ صنوبر اپنی جڑوں سے انسیت رکھتا ہے۔ یہ تمام مالکان کے استبداد سے نجات چاہتا ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ اس کے حصے کا آسمان اس کا اپنا ہو۔ اس حصے کی زمین اس کی اپنی ہو ؟ کیا اسے معلوم نہیں اس کی شاخوں میں آزادی کے لیے درکار قوت نہیں ہے۔ حرکت نہیں ہے۔ ۔ ۔ اسے معلوم ہے وہ وقت کی ستم ظریفی اور اپنی بے توانائی کا شکار ہے۔ اس کے باوجود وہ خواب تو دیکھ سکتا ہے۔ وہ اپنی آزادی اور وجود کا احساس دلا چکا ہے۔ وہ آزاد ہے۔ بس سیاسی طور پر اس کی آزادی تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ ایک دن وہ خود اپنی آگ میں جل جائے گا اور اپنی شاخوں سے پورے ماحول کو بھسم کر دے گا۔ اسے غلامی، محکومی اور ذلت سے زیادہ سرفروشی پسند ہے۔ صنوبر کا ضمیر بیدار ہے اور اسے پتہ ہے وقت کی پر اسرار تاریخ کی جھیل میں یاد کے کنکر کتنی دور تک دائرے بناتے جائیں گے۔ فی الحال وہ تصورِ آزادی کے نقش و نگار آسماں کے دھوئیں میں بنا رہا ہے۔ اس کی شاخیں برہنہ رقص کرنے والے دیومالائی کردار کو اپنے بازوؤں میں جکڑ کر موت کی وادی میں سلا رہی ہیں۔

 

                ………۱۳………………

 

ذہن ایک خیال محشر بپا کئے تھا۔ وقت نے دستک دی۔ معلوم ہوا، جہاں سے سفر شروع ہوا تھا، وقت وہاں سے آگے بہہ چکا ہے۔ وقت بھی کافر ہیولہ ہے، جس کی صورت قدرت کی جانے کتنی یکتائی داؤ پر لگی ہوئی ہے ؟

جاوید نے کار ٹیلی فون کے بوتھ کے پاس پارک کی۔ سا منے چند خاکی وردی والے مشین گن لیے کھڑے تھے۔ میں نے احتیاط کے طور پر ایک مقامی اخبار کا کارڈ بنوا رکھا ہے۔ اس اخبار کا ایڈیٹر میرا دوست ہے۔ ہر طرف کہرا پھیل رہا تھا۔ بیشتر مکانات کی کھڑکیاں بند تھیں۔ گلیوں میں ویرانی انگیٹھی سینک رہی تھی۔ فون بوتھ میں ایک بوڑھا شخص تھا۔ اس کے عقب میں وہی ابلیس چہرہ جو جمہوریت کے فسطائی باطن کی خاطر صنوبر کی شاخیں کاٹ رہا ہے۔

میں نے رنگ کیا۔ ۔ ۔

’’ہلو۔ ۔ ۔ ۔ فریدہ کو دینا۔ ‘‘

فون اس کی بڑی بہن نے اٹھایا تھا۔ میں اس کی آواز سے مانوس تھا۔ چند سیکنڈ کی اس خاموشی میں اس ابلیسی چہرے نے ریڈیو جیسی ایک مشین کو کئی بار کانوں سے لگایا۔ ۔ مجھے تو فریدہ سے بات کرنا تھی۔ چنانچہ کوئی تشویش نہیں تھی۔

’’ ہلو، جناب کہاں سے بول رہے ہیں ؟ ‘‘

’’ کیسی ہو تم ؟ ‘‘

’’میں ٹھیک ہوں، لیکن تم کہاں ہو؟ کئی دنوں سے غائب ہو ؟ ‘‘

’’ ہاں، بس اسی لیے تو فون کر رہا ہوں۔ ‘‘اس نے ناک بھوں چڑھے لہجے میں کہا۔ ’’ ہو گے کسی کے ساتھ ‘‘

’’ ارے نہیں یار۔ ۔ ۔ تم بس خواہ مخواہ۔ ۔ ‘‘

’’اوکے، اوکے۔ ۔ کب آ رہے ہو ؟‘‘

’’ دس پندرہ دنوں میں۔ ‘‘

’’ مائی گاڈ۔ ‘‘

’’ کوشش کروں گا۔ ۔ ۔ جلدی آ جاؤں۔ ‘‘

’’ دیر مت کرنا، میں انتظار کر رہی ہوں۔ ۔ ۔ سمجھے ؟‘‘

اس کی آواز دب رہی تھی۔ وہ مضمحل ہو چکی ہو گی۔ اس نے فون نہیں رکھا تھا۔ وہ ہمیشہ چاہتی تھی کہ پہلے فون میں رکھوں۔ ’’ اچھا فون رکھو۔ ‘‘ اس کی منتشر آواز آئی۔ میں نے دھیرے سے فون رکھ دیا۔ مجھے معلوم ہے ریسور اس کے ہاتھوں اور کان پر ہو گا۔ ایسا لگتا ہے۔ ڈار سے بچھڑے کسی ساتھی کو تلاش کرتا ہوا کوئی خود بھی کہر زدہ جنگل میں کھو گیا ہے۔ مجھ سے دوری کا احساس اسے اس قدر مغموم کیوں کرتا ہے ؟ ’’کیا آپ کبھی کسی سے دور رہنے کے سبب مغموم ہوئے ہیں ؟ ‘‘جس سے نفس کی برف مزید سخت ہو ئی ہو۔ وہ چاہتی تھی کہ میں یونیورسٹی میں اس سے ملوں اور باتیں کروں۔ میں نہیں جانتا ایسا وہ کیوں چاہتی ہے ؟ میں نہیں جانتا کیوں وہ میرے بغیر اس قدر اداس ہو جاتی ہے ؟ میں اس کے اس رویے کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ کیا بے پناہ محبت کے باوجود ہم اپنے حبیب کو کم ہی سمجھ پاتے ہیں ؟ کیا آپ نے کبھی یہ محسوس نہیں آپ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں جس سے محبت کے آپ دعوے دار ہیں ؟ اسی لیے مجھے لگتا ہے۔ ’ محبت وہ واحد عمل ہے جس میں منطق کی گنجائش نہیں ہے۔ ‘

 

                ……… ۱۴…………

 

مجھے لگتا ہے : ’’ جمہوریت کی ناکامی، کمیونزم کا انتشار، سیکولرزم کا فراڈ، مغربی قوتوں کی یلغار، بڑھتی ہوئی ہندو توا وادی فسطائیت کا خوف اور مسلم کش فسادات میں قانون و انتظامیہ کی شمولیت نے خالدحسین کو انتہا پسند مسلم بنا دیا۔ ‘‘

مجھ سے وہ دس بارہ سال بڑا تھا۔ ممبئی یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگریزی صحافت سے جڑ گیا تھا۔ انتہائی متین اور سنجیدگی سے اپنے خیالات پیش کرتا تھا۔ لیکن گذشتہ چند برسوں میں اس کے مزاج میں کچھ نمایاں تبدیلیاں نظر آنے لگیں تھیں۔ صحافت ترک کیے بیٹھا تھا۔ اتفاقاً ان برسوں میں اس کے کچھ زیادہ قریب ہو گیا تھا۔ وہ گھنٹوں جمہوریت، فسطائیت، مسئلہ کشمیر، بوسنیا، روس، ہندوتوا وادی انتہا پسندی، افغانستان اور اسلامی اقدار ان کے زوال پر بے تحاشا باتیں کیا کرتا۔ جن ممالک میں جمہوریت کے فروغ یا مارکس ازم کے احیا کے نام پر مسلمانوں کی نسلی کشی کی جو کوششیں کی گئی ہیں ان اس کا ذکر کرتا۔ ان لمحوں اس کا چہرہ دہکتا ہوا سرخ پھول جان پڑتا۔ اس کے انگریزی کے نفیس جملے ٹوٹ جاتے اور اس کی گفتگو میں گالیاں در آتیں۔ وہ اکثر نیلے یا کالے رنگ کی جینس پر ٹی شرٹ پہنے ہوئے نظر آتا۔ وہاں فرائض دنیوی بھی ادا کرنے لگا تھا۔ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام غالباً بنیادی وجہ ہو گی جس نے اسے انتہا پسند تنظیم کا رکن بنا دیا۔ ، اس کے لہجے کی اندوہناکی بیان واقعات کو شدت عطا کرتی۔ سننے والے اس کے جذبات کو بھی محسوس کرتے۔ اسے ان اسلامی ممالک پر افسوس تھا، جو پٹرول کی دولت کے نشے میں چور ہیں۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ انسانوں کو جانوروں کی طرح بے حسی اور سفاکی سے کاٹا جا رہا ہے۔ خواتین کی شرمگاہوں میں فسطائی جبر کا زہر انڈیلا جا رہا ہے ایسے میں تم کربلا پر ماتم تو کرتے ہو لیکن جو کچھ سامنے ہو رہا ہے اس کربلا سے آنکھیں چرا رہے ہو۔ ایسے وقت اس کی زبان سے بے شمار گالیاں ادا ہوتیں۔

میں اس کا بہت قریبی دوست بن گیا تھا۔ حالانکہ اس کے بیشتر خیالات سے کبھی پوری طرح اتفاق نہیں کر سکا لیکن اس کی باتوں اور استدلال پر معترض ہونے کی قوت بھی اپنے اندر اکٹھا نہ کر سکا۔ وہ اکثر کہا کرتا کہ میری زندگی کا بس ایک مقصد ہے : میں موت سے پہلے فلسطین اور کشمیر کو جبر کے شکنجوں سے آزاد دیکھوں۔ اللہ میری اس خواہش کو پورا کر دے۔ میں اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔

خالدحسین تین سال قبل کشمیر ہو آیا تھا۔ وہاں کے حالات کا ذکر اس نے مجھ سے کیا تھا۔ خالد حسین کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ اس کی باتوں میں جھوٹ کے شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میری زندگی میں وہ واحد شخص تھا جس کے مزاج میں تصنع نہیں تھا۔ اس کے باطن اور ضمیر میں دوسروں کو بے جا خوش رکھنے اور خود سے خوش گمان رہنے کے کیڑے نہیں رینگتے تھے۔ اس کی سنجیدگی اس کا اثاثہ تھی۔ اس کے قول و فعل میں باہم ربط تھا۔ وہ جب بھی واقعات کشمیر بیان کرتا اس کی آنکھوں میں نمی در آتی اور اس کے گال غصے کی ہلکی پرت سے گاڑھے اور روشن ہو جاتے۔ اس کی زبان میں لکنت در آتی۔ شاید اس کا ذہن ان واقعات کی اذیت سے کسی داخلی زلزلے سے گزرتا ہو گا۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں اس زلزلے کا ’یپی سینٹر ‘تھیں۔

’’ یار یہ سالے !جو خود کو انسان دوست کہتے ہیں۔ ۔ ۔ سب انسانیت کے دشمن ہیں۔ گاؤں کے معصوم لوگوں کو رات میں جا کر گولیوں سے بھون دیتے ہیں اور نام مجاہدوں کا لیتے ہیں۔ بہنوں کے ساتھ شرمناک حرکت کرتے ہیں۔ سالوں نے وہاں کئی بہنوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی ہے۔ لیکن اب کشمیر کا بچہ بچہ اسے آزاد کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کشمیر آزاد ہو گا۔ فسطائی جبر سے آزاد ہو گا۔ اب کوئی وعدہ انھیں نہیں بھٹکائے گا۔ انقلاب جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ کشمیر جنگ کا میدان بن گیا ہے۔ مجاہد کامیاب ہوں گے۔ ‘‘ اس طرح کی باتیں وہ اکثر کیا کرتا تھا۔ میرا اس سے متفق ہونا ان دنوں ناممکن تھا۔

بعض اوقات وہ جذباتی گفتگو کے بعد آسمان کی جانب ہاتھ اٹھا لیتا اور کہتا ’’ اللہ …… مجھے کشمیر کی آزادی کا دیدار نصیب کر …… میری زندگی کا مقصد اسے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھنا ہے، جہاں تیرا دین نافذ ہو۔ ‘‘

خالد حسین کی اس داستانیں سن کر اس کچھ دوست اس کے ہم نوا ہو گئے تھے۔ جبر اور ظلم کے قصے وہ سلجھے ہوئے انداز میں بیان کرتا۔ یہ ایسے قصے تھے جن کو چند انگریزی اخبار بھی پیش کر رہے تھے۔ چنانچہ، جھوٹ کا شبہ کسی کو نہیں ہوتا تھا۔ میں جمہوریت کی حمایت کرتے ہوئے خود کو اکثر اس کے سامنے ہارتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ اس کی بنیاد حقائق پر مبنی تھی۔

ہمارا جمہوری نظام کمزور ہو گیا ہے۔ شاید اسی لیے ہمارے الفاظ میں کشش اور آب  وتاب نہیں ہے۔ جمہوریت ایک وحشی سراب بن گئی ہے جس میں عقل اور عرفان کی کشتیاں ڈوب رہی ہیں۔ اسے سب سے زیادہ نفرت ہندو توا وادی جبر پرستوں سے تھی۔ جو اب سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی صورت میں سامنے آئے ہیں … اور کون ہے، جو ان سے نفرت نہیں کرتا ؟ شنکراچاریہ اڈوانی، اوما ہندی، نریندر بہاری مودی، شنکراچاریہ گنیش، بال داس ٹھاکرے … یہ کیسے امن پسند لوگ ہیں ؟ کیا یہ جمہوریت کے دشمن نہیں ہیں ؟ کیا یہ قومی یک جہتی کے دشمن نہیں ہیں ؟ اس طرح کے سوالات کھڑے کر کے خالد حسین سب کے ہونٹ سی دیتا تھا۔

بمبئی 92کے فسادات میں جس سیاسی پارٹی کے لیڈر نے براہ راست حصہ لیا تھا۔ اس کی ناک لمبی ہے۔ سیاہ رنگ کا چوکور چشمہ پہنتا ہے۔ خالد حسین اسے قتل کرنا چاہتا تھا۔ یہ وہ آدمی ہے جس کی سیاسی زندگی لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں صرف ہوئی۔ اسی نفرت نے اسے اکثریتی فرقے کے مخصوص ذہن رکھنے والے افراد کے نزدیک طبقاتی سیاست کا معمار بنا دیا۔

خالدحسین کو اس عفریت سے بجا نفرت تھی۔ یہ شخص فسطائی ذہن کا مالک اور فسطائی رجحانات کو قوی کرنے والا ہے۔ یہ ہٹلر کا شیدائی ہے۔ حقیقی جمہوریت کا ازلی دشمن ہے۔

ممبئی میں 93کے بم دھماکوں کے بعد خالد حسین کو اکثر یہ کہتے سنا گیا تھا۔ کاش ابلیس کا گھر نشانے پر ہوتا … کاش !! مگر ابلیس کو خدا نے ہی توانائی اور دماغ عطا کیا ہے۔ ابلیس کی زندگی اور عمر کا تعین آدمی نہیں کر سکتا۔ امن کی شاہراہ کو سرخ و سیاہ کرنے، انسانی خون اور لاشوں سے بھرنے کے فرائض ابلیس کا نصیب ہے۔ شاید اسی لیے ابنِ آدم کی بے پناہ کاوشوں کے باوجود ابلیس کا خاتمہ نہیں ہوتا۔

ابلیس کے خاتمے کے بعد خدا کی حاجت کسے رہے گی ؟ خدا کی موجودگی کا احساس زندہ رکھنے کے لیے وجودِ ابلیس ناگزیر ہے۔

 

                …………۱۵…………

 

عنایت غازی نے پٹرول کا چھڑکاؤ کیا تو انگیٹھی میں راکھ سرخ رنگت اختیار کر گئی۔ رات کے گیارہ بجے ہوں گے۔ لشکری، اعجاز بٹ، شکیل عارف اور حمید وارثی اسپین پر ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے تھے۔ میں ایک طرف کھڑے ہو کر کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔ باہر شب کہرا زدہ، تاریک اور یخ بستہ تھی۔ گہرا دھواں بہہ رہا تھا۔ اس دھوئیں میں کئی روحیں امڈ آتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ تحلیل ہو جاتیں۔ ان کے چہروں پر زندگی کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ کوئی جنبش نہیں تھی۔ ۔ ۔ کبھی رہی ہو گی۔ اب تو یہ یاد کے کہرا زار میں دھوئیں کی زنجیریں تھیں۔ یہ چہرے یکایک ٹوٹ کر دوبارہ تاریکی کے غار میں لوٹ جاتے۔ کسی کنجِ بے نام میں بکھر جاتے۔ اگر کہیں قریب کوئی جگنو روشن ہوتا تو رات کے سینے میں نور کی لکیر دور تک گزر جاتی۔ ملگجی پودے، سیاہی میں ڈوبے تناور درخت، بکھرے حشرات کی کائنات، اس ننھی سی روشنی کی تیرتی ہوئی ایک ساعت میں نگاہوں میں روشن ہوتی۔ پھر دھندلکے کی تہہ انھیں لینے آ جاتی۔ ایک عجیب سی بے قراری تھی۔ ایک ناقابلِ یقین … … احساس گمشدگی کی کیفیت سے میں دو چار تھا۔ لشکری نے پیچھے سے آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’ کیا دیکھ رہے ہو؟ سب فلم دیکھ رہے ہیں … یہاں کیا ہے۔ اس اندھیرے میں ؟ ‘‘

’’ بس یوں ہی۔ ‘‘

’’ تم اور یوں ہی۔ ۔ ۔ ہر گز نہیں۔ کوئی یاد آ رہا ہے کیا ؟ ‘‘

’’ نہیں یار ‘‘

’’ اچھا !محبوبہ کو یاد کر رہے ہو ؟‘‘

( اعجاز بٹ، شکیل عارف اور حمید بھی آ کھڑے ہوئے )

’’ سوچتا ہوں، ہم کتنی بد نصیب نسل ہیں۔ ہمارے نصیب میں کیسی ذلت ہے۔ کیسی ویرانی ہے ؟ ہمارا دکھ کتنا مبہم ہے ؟ ہم تاریخ کی تجربہ گاہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ۔ ہم کتنے مخدوش ہو گئے ہیں۔ بے ربط ہو گئے ہیں۔ ‘‘

اعجاز نے مجھے اپنے گلے لگایا۔

’’ ہم اپنے اجداد کی خطاؤں کا سیاسی اور تاریخی خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمارے اجداد ہمیں جلتی ہوئی کشتیوں میں چھوڑ کر جانے کہاں چلے گئے۔ ‘‘

( حمید نے کھڑکی کھولی۔ )

’’ ہمیں ہماری شناخت کے لیے لڑنا پڑ رہا ہے۔ ہم کتنی مبہم حقیقتوں کے درمیان پھنس گئے ہیں ؟ ‘‘

( شہر یار نے جا کر ویڈیو بند کر دیا )

’’ہم اپنے وجود کے تحفظ کے لیے لڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ‘‘

شہر یار نے لب کھولے۔

’’ ہاں ! دشمن، جمہوریت کے لباس میں ہے۔ معصوم عوام بھی اس سے بد گمان ہیں۔ ‘‘

لشکری نے کہا۔

’’ وہ اپنی شیطانی صورت اور بھگوے ترشولی دانتوں کے ساتھ وطن کی چھاتی پر رقص کر رہا ہے۔ ‘‘

شکیل عارف نے کہا۔

’’ مادر وطن ان کے شکنجوں میں پھنس گیا ہے۔ وہ وطن پرستی کا لیبل لیے وطن کو فسطائی کربلا کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ان کے خلاف کچھ کہنا تمام یادداشت میں وطن کے خلاف اور امن کے خلاف زبان کھولنا ہے۔ یہی وہ خطرناک چال ہے، جس کے ذریعے وہ اقتدار میں آئے ہیں۔ ‘‘

(میرے لبوں سے نکلا)

’’ ان تمام باتوں کے جواب کی تلاش مجھے یہاں لے آئی ہے۔ چے گوارا کی روح میرے بھی دماغ میں جاگ اٹھی ہے۔ کبھی کبھار ایسا کیوں ہوتا ہے کہ امن کی خاطر تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ کھلا نہیں رہتا۔ راون کا قتل کرنے کے لیے بھی تو تشدد کا راستہ اپنا یا گیا تھا۔ زار شاہی سے نجات کے لیے، انگریزوں سے نجات کے لیے، ہٹلر سے نجات کے لیے، جنگ لازمی ٹھہری تھی۔ ہٹلروں سے نجات کے لیے جنگ اور تشدد کے علاوہ کیا کوئی دوسرا راستہ بچا ہے ؟‘‘

( حمید وارثی درمیان میں بول پڑا )

’’ میں کبھی کبھی کنفیوژ ہو جاتا ہوں۔ ‘‘

( شکیل عارف نے کہا )

’’ تم اکے لیے نہیں۔ اس وقت بر صغیر کا ہر ذہین طالب علم اور امن پسند آدمی کنفیوژ ہے۔ ‘‘

( شہر یار نے کہا )

’’ یہ تاریخی جدلیاتی کش مکش کا ایک پہلو لگتا ہے۔ ‘‘

( لشکری سے رہا نہ گیا )

’’ نہیں شہر یار یہ فلسفیانہ استدلال کا وقت نہیں ہے۔ تم فلاسفی کے لیکچر ر اس طرح کے مبہم جوابات کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہو۔ ‘‘ ایک بار تم نے مجھے خط میں لکھا تھا کہ تمہیں طاہر ناچن کا مضمون ’’ ہندو توا وادی فاشزم کی منطق ‘‘ پسند آیا ہے۔ اسے یاد کرو۔ فسطائیت ایک طرف ہماری تاریخ کو مسخ کرنے اور تاریخ کو جواز بنا کر اقتدار حاصل کرنے سے عبارت ہے تو دوسری طرف … یہ کھیل اس لیے بھی ہے کہ اس بڑے طبقے کو دوبارہ غلام بنایا جائے جو بدھ مذہب اختیار کر کے ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ معاشی، سیاسی اور تعلیمی طور پر کمزور اور بدحال طبقے پر حکومت کرنا اصل میں ہندوتوا وادی فلسفہ ہے۔ جمہوریت، سیکولزم اور مساوات کے فروغ سے یہ طبقہ ان کے شکنجے سے تیزی سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ جس سے مستقبل میں ایک دوسرے اور خونی تاریخی انتقام کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اگر مساوات، خوش حالی اور معاشی استحکام کی بدولت پست ذات تصور، مظلوم اور محکوم افراد تاریخی اور طبقاتی جدلیت کے شعور سے فیض یاب ہو گئے، تو برہمن واد کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔

(سب لشکری کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے )

منو وادی فکر کے حامل لوگ بہت کم ہیں۔ اس لیے عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اپنے تاریخی چہرے کو مٹتے ہوئے محسوس کر کے یہ سٹپٹا گئے ہیں۔ اسی لیے مختلف ناموں سے یہ اپنی فکر اور تاریخی انا کو تحفظ فراہم کرنے میں کوشاں ہیں۔ کیا آر ایس ایس کیا، بجرنگ وجرنگ، کیا بی جے پی سب منوواد کے دفاع اور دلتوں کو حقوق سے محروم کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ وطن پرستی تو ان کا ماسک ہے۔ تاکہ ان کا ابلیسی چہرے منظر عام پر نہ آئے۔ وطن پرستی، تاریخی مراجعت، ثقافتی احیا پرستی اور قومیت ان کے ہتھیار ہیں۔ ان ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کو انھوں نے ڈھال کے طور پر اپنا یا ہے۔ ’’ جمہوریت کے ذریعے، جمہوریت کا قتل ان کا منصوبہ ہے۔ ‘‘

( شکیل عارف )

’’ تمہاری دلیل متاثر کن ہے ‘‘

( لشکری):

’’ یہی سچ ہے۔ دیکھ لینا! ہندستان میں ایک دن ہر اس پارٹی کو وطن دشمن قرار دیا جائے گا جو فسطائیت اور ہندوتوا واد کے خلاف عوامی تحریک کی بنیاد رکھے گی۔ بائیں بازو کے لیڈروں کو خرید لیا جائے گا اور انھیں بکری کی مینگنیوں میں بدل کر سماج کے سامنے پھینک دیا جائے گا۔ ان اخبارات پر مقدمے چلیں گے جو حقیقی جمہوریت کا تقاضا کریں گے۔ خود احتسابی کی بات کریں گے۔ وہ دن دور نہیں جب انگریزی کو باہری قوتوں سے جوڑ کر اس کی بیخ کنی کی کوشش کی جائے گی۔ یا اس کے مزاج کو سنسکرت در آمد زبانوں کے مزاج پر منوواد کی تبلیغ کا آلہ بنا نے کی کوشش ہو گی۔ نئے ہندستان میں انگریزی ایک ایسی زبان ہے جو فسطائیت کے خلاف محاذ کھول سکتی ہے۔ اسی لیے ہندوتوا وادی سے نالاں اور خائف ہیں۔

( شہر یار نے درمیان میں کہا)

’’یہ لوگ انگریزی کو نقلی جمہوریت پسند کہتے ہیں۔ ‘‘

’’ حرامی ہیں سالے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر لشکری بیٹھ گیا۔

( حمید وارثی، جو کسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا۔ ۔ ۔ اس نے کہا )

’’ لشکری وہ ہمیں کیوں مفلوج کر رہے ہیں ؟ تعلیم، سیاست اور معیشت کی سطح پر وہ کیوں ہماری کمر توڑ رہے ہیں ؟ کیوں وہ ہمیں ذلت اور محرومیوں سے دو چار کر رہے ہیں ؟ کیوں فسادات کی آگ میں ہم کو جھونکتے رہتے ہیں ؟

میری نگاہوں کے سامنے دیہات آگ کی لپیٹوں میں جل رہے تھے۔ خالدحسین کی لاش ہوا میں معلق دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی ناک سے خون کے قطرے رہ رہ کر گر رہے تھے۔ دور دراز شہروں اور دیہاتوں سے انسانی چیخ و پکار کی آوازیں میرے کان کے پردوں کو پھاڑ رہی تھیں۔ یہ کیسی زمین ہے جہاں عورتوں کی شرم گاہوں پر تیزاب انڈیل کر لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ یہ کیسا جہاں ہے جہاں عورتوں کی چھاتیوں کو تلواروں سے کاٹ کر ان کے گھر کے افراد کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ کیسی تہذیب ہے جہاں حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر دئے جاتے ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں نوجوان لڑکوں کے اعضاء کاٹ دئے جاتے ہیں۔

ان تمام مظلوم روحوں کا پر آشوب گریہ میرے کانوں میں گونجتا ہے۔ ان کے رونے کی آوازوں میں اس قدر درد ناکی اور کرب ہے کہ ایسا لگتا ہے میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔ یادیں فرش پر بکھر جائیں گی …… وہیں مچل مچل کر فنا ہو جائیں گی۔ دوسری طرف میرے ذہن کے ایک تاریک گوشے میں میری والدہ کی جلی ہوئی ہڈیاں تھیں۔ جن کو میں ہمیشہ سے فراموش کرنے کی کوشش میں گرفتار رہا ہوں۔

یاد کی اس کروٹ کی اذیت ناقابلِ برداشت ہے … نا قابل بیان ہے … ایک لمحے میں کتنے منظر بنتے ہیں اور معدوم ہو جاتے ہیں ؟ کیا آپ کی آنکھ میں ایسا اذیت ناک منظر نہیں ہے ؟

لشکری نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔

یہ ہمارا مقدر ہے، ہم تاریخ کے آسیب کی زد میں ہیں۔ یہ پرانی جنگ ہے۔ یہ وجود کی بقا اور سا لمیت کو جاوداں رکھنے کی ابدی کشمکش ہے۔ تم میں اور وہ سب جوان افکار کے سیلاب میں بہہ رہے ہیں۔ انھیں اس گرداب کا بھی سامنا ہے۔

’’ہمیں اپنے وجود کی تفہیم سے روشنی حاصل کرنا ہے۔ ہم خود کو یاد کر رہے ہیں۔ ‘‘

وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر گیا … شہر یار کو اس نے بغور دیکھا پھر کہنے لگا:

’’ مجھے خوشی ہے۔ ہم سب کو خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے اندر اپنی حقیقت سے مکالمہ کرنے کی صلاحیت ابھی فوت نہیں ہوئی ہے۔ ہم ذلتوں کی ماری نسل سہی، لیکن وقت کے میزان پر اپنے وجدان کو پرکھنے سے ہم محروم نہیں ہیں۔ میرے یارو ! تم سب عمدہ ذہن رکھتے ہو… تم تاریخ، سماج اور زندگی کا احتساب کرنے کی لیاقت رکھتے ہو… یہی سرمایہ ہے۔ فسطائیت سے لڑنے کی یہی طاقت ہے۔ جب تک قوم کا قوت حافظہ محفوظ رہتا ہے اسے کوئی طاقت زیر نہیں کر سکتی۔ ہم اپنی شناخت، ثقافت اور تحت الشعور کے ساتھ زندہ ہیں … رہیں گے۔ ہمیں اپنے دوستوں اور بھائیوں کو یاد دلانا ہو گا کہ ’وہ زندہ ہیں ‘۔ ہمیں یہاں سے لوٹنے کے بعد یہی فریضہ ادا کرنا ہے۔ احتیاط اور دانش مندی کے ساتھ۔ ‘‘

اعجاز بٹ درمیان میں اٹھ کر چلا گیا تھا۔ چائے لے آیا۔ سب چائے کی طرف بڑھ گئے۔ باہر صنوبر کے تنے کے پاس ایک جگنو رینگ رہا تھا۔ وہ تنہا یخ بستہ شب میں زندگی کا استعارہ ہے۔ مانا کہ اس کی روشنی ماند پڑ رہی ہے۔

ہر انسان کے دل میں ایک عدد ایسا جگنو ضرور ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت سخت کوش، یخ بستہ شب کی ظلمت میں کون کرتا ہے ؟

۔ ۔ ۔ ۔

کش مکش حیات، نظریاتی تصادم، تاریخی شعور، عالمی اور ملکی سطح کی سازشیں، توہمات اور عقائد پر دن رات مباحث رہے۔ کئی نئے دوست ملے۔ بے تکلف باتیں ہوئیں۔ طاقت، جبر، فلسفہ اور انسانی حقوق پر تبادلۂ خیال ہوا۔ یہ سارے احباب پہلی اور غالباً آخری بار مل رہے ہوں گے۔ سب اپنے اپنے ذمے کچھ کام لے کر بچھڑ رہے تھے۔ یہ جمہوریت کے فریب خوردگی اور فسطائیت کے عروج سے بد ظن اور دلبرداشتہ اسکالرز تھے۔ شاید جن کے نصیب میں فسطائیت کے عفریت کی خوراک بننا لکھا ہو… کسے معلوم؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کا انجام کس قدر اذیت ناک ممکن ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں میرا انجام خالدحسین سے کس قدر مختلف اور نا قابلِ فہم ہے ؟ ’’ کیا آپ اپنے انجام کی اذیت سے واقف ہیں ؟ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب چہارم: آکار نراکار

 

 

 

"The form which stand in closest competition with those undergoing modification and improvement will naturally suffer most.”

Darwin

(The Origin of Species)

 

 

 

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

( آج کی شب گزارنے کے لیے یہ کمرہ میں نے کرایے پر لیا ہے۔ )

سری نگر سے بمبئی واپسی کے وقت دل نے چاہا چند روز ڈلہوزی میں گزار لوں۔ میں پٹھان کوٹ ہوتا ہوا ڈلہوزی پہنچا … ہفتے بھر کے لیے ایک کمرہ بک کیا۔ اس خوبصورت پہاڑی مقام کے شمال اور جنوب میں برفباری خوب ہوتی ہے۔ برف پوش پہاڑوں سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ہوئی سورج کی کرنوں کا جلوہ بڑا دلکش ہوتا ہے۔ پہاڑوں کے عقب اور ڈھلان چبوتروں میں برطانوی طرز کے بڑے بڑے مکانات راستوں کے دونوں طرف نظر آ تے ہیں۔ جن میں شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں بھی جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔ شیشہ آنکھ اور منظر کے درمیان حائل نہیں ہوتا۔

برفیلی پہاڑیوں کو سرخ روشن طلسمی قبا پہنائے شام اتر آئی ہے۔ فضا میں ایک نغمگی تھی۔ رنگ برنگی پودے جو ابھی تک نگاہوں میں نگار خانہ بنائے ہوئے تھے، اندھیری چادر میں سرکنے لگے۔ لیکن ان کے خوب صورتی دیدوں میں ٹھہر گئی۔ بہت سارا حسن اور قدرت کی شادابی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ایک حزنیہ کیفیت میرے دل میں تھی۔ ہم اپنے خیالات سے زخم خوردہ کیوں ہوتے ہیں ؟ اپنے تفکرات سے نجات کیوں کر ممکن ہے ؟ مجھے یہ بات بار بار کیوں پریشان کرتی ہے کہ ’’ کون سا میں ‘‘ حقیقی میں ہوں ؟ میری شخصیت کا تاثر مختلف لوگوں کے پاس مختلف ہے اور ہر شخص مجھے دوسرے سے الگ طور پر جانتا ہے۔ لیکن جس ’میں ‘ کو میں جانتا ہوں وہ سب سے پوشیدہ ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور ان کے تعلق کی بنیاد غیر حقیقی ہے۔ وہ جس آدمی سے مربوط ہیں۔ وہ میں نہیں ہوں … میں کس طرح بتاؤں کہ میں ’’ کیسا ‘‘ ہوں ؟ یہ بات سمجھائی نہیں جا سکتی۔ اسی طرح شاید میں بھی ان کی حقیقی شخصیت سے واقف نہیں ہوں۔ ذات کا تجربہ انفرادی ہوتا ہے اور اس کی قدریں مشترک نہیں ہیں۔

مذہب کو بنیاد بنا کر میں خود کو تاریخ کے سیل رواں میں کیوں کھوجتا ہوں ؟ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں ایک تاریخی تسلسل ہوں ؟ ( جس سے لوگ مجھے منقطع کرنا چاہتے ہیں ) میں فریدہ سے عشق کیوں کرتا ہوں ؟ میں اندھیرے سے کیوں ڈرتا ہوں ؟ کیوں رنگوں کے پرتو میں مقید ہو جاتا ہوں ؟ فریدہ سے محبت کے باوجود دوسرے رنگ بھی مجھے متاثر کیوں کرتے ہیں ؟ میرا دل تلاشِ رنگِ رائے گاں میں انبساط کیوں ڈھونڈتا ہے ؟ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں فلائبیر کا خلق کیا ہوا کردار ’مادام بواری‘ ہوں۔ ( تو فریدہ سے میری الفت کی صداقت کیا ہے ؟) بواری کا زہر پینا جاں سوز ہے۔ اس کے باوجود مجھے لگتا ہے وہ ابھی قیدِ حیات ہے۔ جانے کس شہر، کس دیہات، کس قصبے میں وہ میری منتظر ہے۔ کیا میرا ذہن منہدم ہو رہا ہے ؟ میرا شعور لاشعور میں بدل رہا ہے۔

 

                ………۲…………

 

مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ترشول میرے تعاقب میں ہے ؟ ایک ہندتوا وادی سیاسی جماعت کے اراکین بھالے، نیزے اور تیزاب لیے میرے قتل کی سازش بن رہے ہیں ؟میں صلیب وطن پر بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں۔ مجھ پر وطن سے غداری اور خود سے محبت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ساری عدالتوں کے جج ترشول اپنے ہاتھوں میں لیے میرے خلاف فیصلے رقم کر رہے ہیں۔ میں ہار رہا ہوں۔ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میرا حشر ذلت آمیز ہے ؟

کیا میرے نصیب میں ایک خوں آشام جنگ ہے ؟ کیا شناخت کے تحفظ کے لیے وطنیت کی دیواروں کو مسمار کرنا میرے لیے آخری راستہ ہے ؟ کیا مجھے ان سیاسی لیڈروں کو قتل کرنا پڑے گا جو مجھے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ کیا خود کو زندہ رکھنے کے لیے مجھے کمل کی پنکھڑیوں پر سوار، رتھ یاتراؤں میں مگن حیوانوں کو بم دھماکے سے ہلاک کرنا ہو گا ؟ وہ جو خاموش تماشائی ہیں، میری رسوائی کے، کیا مجھے ان کے خلاف بھی لڑنا ہو گا ؟

’’ کیوں تاریخ کے جدلیاتی سفر میں ایسا موڑ آتا ہے، جب امن کے استعارے کو تشدد کا لباس اوڑھنا پڑتا ہے ؟ کون ہے اس جدلیاتی کش مکش کا محرک ؟ وقت، خدا یا تاریخ …! کون ؟ ‘‘

میں مجبور ہوں۔ تنہائی میں خیالات کے ہالے میری روح کے گرد رقصاں ہوتے ہیں۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے ان ہالوں کی روشنی میں جاگتا کٹتا رہا ہوں۔ اندھیرے میں خود کلامی کی دیوی میری روح میں جاگزیں ہو جاتی ہے … حتیٰ کہ … اندھیرے میں، میں خود کو ٹٹولتا ہوں۔ آواز دیتا ہوں۔ … ہاں تاریکی میں، اپنے سایے سے بات کرنا میری عادت بن گئی ہے۔ اس سے مجھے تسکین میسر ہے۔ میرے اور سایے کے بیچ کوئی پردہ حائل نہیں رہتا۔ ایک راز کی بات اور بتاؤں … اندھیرے میں برہنہ بیٹھنے کی مجھے لت لگ گئی ہے۔ تاکہ میں خود کو دیکھ سکوں۔ دریافت کر سکوں۔ کیا احساسِ زیاں آدمی کو اس قدر مبہم بنا دیتا ہے ؟کیا احساسِ زیاں کا تعلق شناخت کی محرومی ہے ؟ مجھے تو کسی بات کا علم نہیں ہے۔ میں مخدوش تصویر ہوں۔ حالانکہ میری تمنا وجود کے جمالیاتی اسرار دریافت کرنا تھی۔

 

                …………۳…………

 

جب ہر طرف اندھیرا پھیل گیا تب باہر کی ہوا اپنے ساتھ اندھیرے کی تہوں کو کمرے میں لے آئی۔ اندھیرا سانسوں سے گزر کر ظلمتِ دل میں اتر گیا۔ میری روح بدن کی بے آسماں فصیلوں میں مقید ہو گئی۔ جس طرح عالم تمام کی روشنی ازلی اندھیرے کے بطن میں قید ہے۔ یکایک لشکری کا چہرہ میرے سامنے آ کھڑا ہو ا۔ پھر ایک ایک کر کے وہ سارے چہرے نظروں کے سامنے ایک حصار میں گردش کرتے رہے۔ ان کے ہونٹوں پر نا قابلِ سماعت لفظوں کی قطاریں کھڑی ہیں اور ان کی آنکھوں کے کونوں میں نہ روئے گئے آنسوؤں کا دریا ہے۔ ان کی نگاہوں میں وہ مناظر ہیں جو جمہوری کے نام زائیدہ عفریت کے جبر و تشدد کا رزمیہ بیان کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ہم زبان ہم شناخت عورتوں کے جسموں پر فسطائیت کے ناخنوں سے خراشیں پڑ گئی ہیں۔ ان میں ایسی بد نصیب عورتیں بھی ہیں جن کی چھاتیوں کو تلواروں سے کاٹ دیا گیا۔ خون کے فواروں کی طرح ان کی آنکھوں سے اب تک خونِ دل بہہ رہا ہے۔

یہ سب چہرے وہ چہرے ہیں اس درد کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کا ندبہ و نوحہ بیان کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی آنکھوں سے خون کے فوارے امڈ پڑتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں اندھیرا گہرے منجمد خون کے دھبوں سے اٹ گیا ہے۔

 

                …………۴……………

 

سرخ ذرے جب ظلمت شب کی جھیل میں ڈوب گئے، تو میں نے دیکھا کیلاش پربت کی طرح بلند و بالا پہاڑیوں سے گوتم بدھ دیوانہ وار بھاگتا چلا آ رہا ہے۔ یقیناً اس نے شنکر کا قتل کیا ہے۔ میرے سامنے پہنچ کر وہ برہنہ ہو گیا اور شنکر کے دربار میں سنی ہوئی تال پر  رقص کرنے لگ گیا۔ اس کے چہرے کی ابدی مسکراہٹ شنکر کے لہو کے ساتھ بہہ گئی ہو گی۔ وہ پر تشدد آنکھوں سے ہر شے کو دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کا رقص اس قدر تیز ہو گیا کہ مناظر اور اشیاء اس کی آنکھوں سے محو ہو گئے ہوں گے۔ رقص تیز تر ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے اور دل کے ریشے بدن کی ویرانی میں بکھر گئے ہوں گے۔ تبھی تو اس کے تلوؤں سے منجمد سبز و سرخ لہو کے گاڑھے گاڑھے قطرے زمین پر بکھر نے لگے۔ میں نے چیخ کر کہا :

گوتم، بس کرو … پاگل ہو گئے ہو کیا ؟ دیواروں نے اس کی زبان اختیار کر لی، لرزہ بر اندام بولیں : ’’ نراکار ہو جاؤ ‘‘ رقص نے کمرے کی ہر شے کو بے سدھ اور بے شکل کر دیا تھا۔ شیشے کا گلاس اور چائے کی کیتلی نم دیدہ ہو گئے تھے … میں نے کہا : مگر کیوں نراکار ہو جاؤں ؟

دیواروں کے چہرے روشن ہوئے اور الفاظ کا ارتعاش ہوا : ’’ میں ہار کا سوگ منا رہا ہوں۔ میری تپسیا ویرتھ گئی … میرا جنم بے کار ہے … میرا نروان لا حاصل … ‘‘

’’ گوتم اب ماتم کرنے سے کیا فائدہ ؟ ‘‘

’’ نراکار … نراکار … ویرتھ … ویرتھ … ‘‘

’’ گوتم، تمہارا خواب بے معنی تھا۔ تم دکھ اور خواہش سے نجات چاہتے تھے۔ غافل ہو گئے تھے کہ نجات کی خواہش تمہارے اندر جاگ گئی ہے۔ تم نجات کی خواہش میں بندھ گئے تھے … ‘‘

’’ کچھ نہیں ! نراکار … نراکار … مرتی ہوئی آوازوں کے ساتھ دیواروں کا چہرہ ٹوٹ پھوٹ گیا اور دھویں کی لکیریں بہتی ہوئی آسمان کی طرف چل پڑیں۔ رقص کا شور کانوں میں منجمد ہو گیا تھا۔ دیواریں گویا رو چکی تھیں۔ آنسوؤں کی لکیر سے رنگ غائب نظر آتا تھا۔ شیشے کے گلاس کا پانی برف بن گیا تھا اور چائے کی کیتلی سردا گئی تھی۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو ٹٹولا … ابہام سے باہر نکلا … شاید کبھی نہ جان سکوں گا۔ ’’ مجھے ایسے واقعات واقع پذیر ہوتے ہوئے کیوں محسوس ہوتے ہیں ؟ ‘‘سوچ کے دائرے پھیل رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کمرے میں مکان مالک کی بیوی داخل ہوئی۔

’’ صاحب اندھیرا ہوا ہے، لائٹ لگا دوں ؟ ‘‘

’’ جی جی۔ ‘‘

اس کے جاتے ہی میں نے خود کو بستر پر پھینک دیا۔ ’’ نیند سے بہتر علاج درد کیا ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ نیند دکھ کو نراکار بنا دیتی ہے …؟ مگر نیند نراکار کو آکار بھی تو عطا کرتی ہے۔ وہ بھلا کیوں ؟ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب پنجم: نخلستان کی تلاش

 

 

 

"It is difficult to express well that one has never felt'”

Gustave Flaubert

(The Novel, Forms And Techniques)

 

 

 

 

 

 

خالدحسین کی موت نے جمال کی زندگی، فکر اور نظریات کو متاثر کیا تھا۔ جمہوری اقدار کی شکست اور فسطائی تحریکوں کے عروج نے شناخت کے بحران میں اسے ابھی پھینک دیا تھا۔ اس کے ذہنی کنفیوژن نے بالآخر اسے بھی بنیاد پرست مذہبی تنظیموں سے وابستہ کر دیا۔ جہاں اس کی تاریخی، مذہبی، فکری اور جدلیاتی شناخت کے نئے نقوش بننے والے تھے۔ خالد حسین کی موت کا صدمہ میرے لیے بھی اتنا جاں سوز تھا جتنا جمال کے لیے، لیکن میرے اور جمال کے ماضی اور حال میں فرق تھا۔ ورنہ شاید ناول کا یہ حصہ جمال میرے لیے تحریر کر رہا ہوتا … جمال ان بد نصیب ذہین اور مفکرانہ طرزِ حیات رکھنے والے طلبہ میں سے ایک تھا، جن کے بچپن میں مایوسی اور یاسیت کا یکساں گرفت رکھنے والا کوئی نہ کوئی مقناطیسی منظر ہوتا ہے۔ ’’ ناخوش ‘‘ رویہ تخلیقی فکر کا منبع ہے اور جمال کی زندگی کا بڑا حصہ اس رمز کو پیش کرتا تھا۔ محبت کی پر زور اور والہانہ خواہش بھی باطن کی ناخوش حالت پر قابو پانے کا ایک فکری عمل لگتا ہے۔ جمال سے فریدہ کی محبت اور کیا ہے ؟ محبت کی ساری کہانی میں کیا آپ نے یہ محسوس نہیں کیا کہ جمال، فریدہ کے بدن سے لذت کے تمام جزیرے دریافت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے جسم کی نازکی کا بیان وہ اکثر پر کشش انداز میں کیا کرتا تھا۔ ہاں !! جن باتوں کو اس نے آپ کے سامنے کھل کر پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ باتیں وہ مجھ سے اور خالد حسین سے کیا کرتا تھا۔ فریدہ کی محبت میں گرفتار ہونے سے قبل بھی اس کے جنسی تعلقات بعض لڑکیوں سے تھے۔ ماسٹر بیٹ کے لطف کا تذکرہ بھی وہ کیا کرتا جس پر ہم اس کو بہت کوستے تھے۔ لیکن وہ میراجی کی نظمیں سنا کر ہماری بولتی بند کر دیتا۔ نیلی فلموں کے حیران کن جنسی مناظر کا جب وہ بیان کرتا محفل کون و مکان سے ماورا ہو جاتی۔

وہ ہمیشہ جنسی تسکین کا متلاشی رہا ہے۔ محبت شاید ایک پردہ سیمیں تھی جس پر جنسی جذبات اور عدم اطمینانی کے المیے باہم ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر اس کا ماضی … ایک گانٹھ بن کر اس کی روح کی ویرانی میں بیٹھا سانس لیتا رہا۔ شاید اس نے آپ کو بتایا تھا کہ اس کے گھرانے کے بعض افراد کا قتل اور ایک بہن کی عصمت دری ہندتوا وادی فسادیوں نے کی تھی۔ جب وہ چھوٹا بچہ تھا۔ رشتے داروں نے اس کی پر ورش کی تھی۔ تنہائی اور حزن کا بار لیے وہ جوان ہوا… البتہ یہ بات بھی درست ہے کہ انسانی درد مندی کا لالہ اس کے دل میں کھلا ہوا تھا۔ مارکسی خیالات نے اسے سماج کے پسماندہ طبقات کے بہت قریب کر دیا تھا … ایک وقت تھا جب وہ مذہب کو دماغی ایڈز کہا کرتا تھا۔ ہر اس کام سے پرہیز کیا کرتا تھا جو مذہبی ثقافت اور تہذیب سے اس کی شناخت کو مربوط کرتا … وہ انسانی اقدار کا زبر دست حامی تھا۔ جب خالد حسین نے شروع شروع میں مذہبی تحریک سے اپنا رشتہ استوار کیا تب جمال نے کئی بار اپنی برہمی کا مجھ سے اظہار کیا تھا۔ کہتا ’’ ایک اور ذہین آدمی ریت میں گم ہو گیا …!!‘‘ لیکن سیاست کے مذہبی کرن، اس کے ماضی کی ہولناک یادوں، اور فسطائیت کے عروج نے شاید اسے اپنے تاریخی چہرے کو تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔ خالد حسین کی ناگہانی موت نے اس کے ماضی کے کرب کو ایک راہ فراہم کی اور وہ اس راستے پر چل پڑا جو گہرے سمندروں میں جاتا ہے۔ فریدہ سے ملاقاتیں کم ہونے لگیں اور تحریکی کاموں میں اس کا وقت زیادہ گزرنے لگا۔ خود مجھ سے بہت کم ملاقاتیں رہیں۔ میں نے اسے کبھی نہیں روکا۔ ہماری دوستی ’’ غیر مشروط ‘‘ تھی اور اس میں مشورے بازی کا چلن شروع سے نہیں تھا۔ یہ الگ بات ہے میں نے اس کا راستہ نہیں اپنایا ؟ میں خود کو حق بجانب اور اس کو غلط قرار نہیں دے سکتا۔ موجودہ حالات مطلق کسی ایک فیصلہ کن حالت میں ہمیں کھڑا نہیں کرتے۔ آج ہر آدمی بے زبان، محکوم اور بے ربط ہے۔ اس کے سامنے کوئی منظر خوش رنگ نہیں ہے۔ میں کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ جمال ذات کے الاؤ میں گر گیا جس کی تپش کا اندازہ کوئی اور نہیں لگا سکتا۔

آپ کے ذہن میں ممکن ہے یہ سوال کروٹ لے رہا ہو کہ جب ساری روداد جمال خود شعور کی رو میں بیان کر رہا تھا، تو اچانک میں کہاں سے آ دھمکا … اور میں کون ہوں … میں مختار ہوں۔ جس نے جمال کے کمرے پر خالد حسین کی موت کا پیغام پہنچایا تھا۔ اب میں واحد گواہ ہوں جسے اس بات کا علم تھا کہ جمال کی گمشدگی یا گرفتاری سے قبل وہ کس ریاست میں اور کس نوعیت کی کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تھا … وہاں سے جب اس نے فریدہ کو فون کیا تھا، اسی دن اس نے مجھے بھی فون کیا تھا۔ واپسی کا دن بتایا تھا۔ لیکن وہ کبھی واپس نہیں آیا … میں نے اس کے تحریکی ساتھیوں سے کئی دنوں کے انتظار کے بعد رابطہ قایم کیا۔ انھوں نے کانفرنس کے منتظمین سے رابطہ قایم کیا لیکن جمال کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ دو تین مہینوں بعد باتیں قیاس آرائی میں بدل گئیں۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے خفیہ ایجنٹس نے اسے گرفتار کر لیا ہو۔ وہ فرار ہو گیا ہو۔ کوئی حادثہ ہوا ہو… مگر کوئی وثوق سے یہ نہیں بتا سکا کہ اب جمال کہاں ہے ؟ یا اس کی طرح بہت سارے نوجوان اچانک کس صحرا میں گم ہو جاتے ہیں۔ وہ نوجوان جو وطنِ عزیز میں سیاسی فسطائیت کے خلاف گفتگو کا خواب دیکھتے ہیں۔ ناقابلِ جبر کے صحرا میں شناخت کے نخلستان کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید