FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

حرفِ وداع

 

The Prophet by Kahlil Jibran

 

نقش گر: جبران خلیل جبران

 

 

عکس گر: محمد شبیر حسین

 

 

انتساب

 

فیضانِ نظر۔۔۔۔ مکتب کی کرامت کے نام
آدابِ فرزندی

 

 

 

 

 

 

مصطفیٰ: برگزیدہ عزیزِ جاں، اپنے عہد کی صبحِ تاباں۔
اورفیلس شہر میں بارہ برس تک اپنے جہاز کا انتظار کرنے والا مسافر۔
وہ جہاز جو آ کر اُسے اُس کے اپنے جزیرے، اُس کی جنم بھومی پر لے جانے والا تھا۔
بارھویں سال اِیلول کے ساتویں دن فصل سمیٹنے کے موسم میں۔
شہر سے باہر وہ ایک پہاڑی پہ چڑھا اور اُس نے دور فضا میں سمندر پر نگاہ دوڑائی۔
تو اُس نے سمندر کے دھندلکوں سے اپنے جہاز کو نمودار ہوتے دیکھا۔
مسرت و شادمانی نے اُس کے درِ دل کو وا کر دیا
اس کے دل کی شادمانی دور سمندر پر پرواز کرنے لگی، اُس نے آنکھیں موند لیں اور اپنے اندر ہی اندر دل کی گہرائیوں میں دعا گو ہوا۔
جب وہ پہاڑی سے نیچے اترا تو وہ ملول تھا، وہ گریہ در گلو تھا مگر خاموش۔
اُس نے سوچا : یہ کیسے ممکن ہے کہ میں یہاں سے شاداں و فرحاں، بے غم وداع ہو سکوں ؟ شاید ہر گز نہیں !
اپنی روح کو زخمائے بغیر میں اس شہر کو ہر گز نہ چھوڑ پاوں گا۔
آہ! درد کے دن طویل تھے اور تنہائی کی راتیں طویل تر، جو میں نے اس شہر پناہ میں بسر کی تھیں۔
کون ہے؟ جو اپنے دردِ دروں سے، اپنی تنہائی ذات سے بے ملال، بے محن وداع ہو سکے۔میری ذات کے، میرے وجود کے کتنے ہی ٹکڑے ان گلیوں میں بکھرے پڑے ہیں اور میری آرزوؤں کے کتنے ہی بچے ان پہاڑیوں میں برہنہ پا، برہنہ سرکھیلتے پھرتے ہیں۔
میں اپنے دل پر بوجھ لیے بغیر، دردِ فراق سہے بغیر ان سے کیسے وداع ہو سکوں گا؟
یہ میرا پیرہن تو نہیں جسے میں آج خود اپنے جسم سے برغبت اتار پھینکوں۔
یہ تو میری کھال ہے جسے مجھے خود اپنے ہاتھوں کھینچنا ہو گا۔
یہ شہر محض کوئی تصور تو نہیں، یہ وہم و گماں بھی نہیں جسے میں اپنے پیچھے چھوڑ کے چلا جاؤں۔یہ تو میرا دل ہے جسے میری طلب نے رعنائی دی اور میری تشنگی نے فرحت عطا کی تھی۔
میں یہاں مزید کچھ اور رک بھی نہیں سکتا کہ سمندر جس کی آغوش مادرِ مہرباں کی مانند ہمیشہ سب کے لیے وا رہتی ہے مجھے اپنی جانب بلا رہا ہے آؤ! آؤ!
اور مجھے اپنے جہاز پر ضرور سوار ہونا ہے، ضرور اپنے سفر پر روانہ ہونا ہے۔
رک جانا، جلتی ہوئی راتوں کے سلگتے ہوئے لمحوں میں ٹھہر جانا گویا کسی قالب میں مسدودہو جانا ہے۔
آہ کاش! یہ ممکن ہوتا کہ وہ سب کچھ، جو یہاں ہے میں اپنے ساتھ لے جا سکتا۔
مگر یہ تو ممکن نہیں ! آواز ہونٹوں سے اور زبان سے بال وپرِپروازمستعار لیتی ہے مگر انہیں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتی، اُسے آفاق کی وسعتوں کا اکیلے ہی تعاقب کرنا ہوتا ہے۔
اور شاہین، جب کہ سورج کی دھوپ کو اپنے پروں سے چیرتے ہوئے محوِ پرواز ہوتا ہے تو اُس سفر پر وہ اپنے آشیانے کو ساتھ نہیں لے جا سکتا اسے تنہا ہی اپنی پرواز کی تکمیل کرنا ہوتی ہے۔
اور اب جب کہ وہ پہاڑی کے دامن میں اتر آیا تھا، تو اُس نے بارِ دِگر سمندر پر نگاہ کی، اُس نے دیکھا کہ اُس کا جہاز بندر گاہ کی جانب بڑھا آ رہا ہے۔
اُس کے عرشے پر جہاز ران اُس کے اپنے ہم وطن ہیں۔
اُس کی روح نے انہیں آواز دی اے میری ابدی ماں کے بیٹو! او لہروں سے کھیلنے والو! تم جو مدّ و جزر کی سواری کرنے والے ہو!تم بارہا میرے خوابوں میں سمندر کی موجوں پہ سوار آئے۔
اب جب کہ تم میری کامل بیداری میں آئے ہو، وہ بیداری جو میرے عمیق تر خواب کی مانند ہے۔
تو ہاں !پھر میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں، میرا شوق ہواؤں کا منتظر ہے کہ وہ اُسے اپنے سفر پر روانہ کر دیں۔
بس ایک دفعہ اور میں ان پاکیزہ ہواؤں میں سانس لوں گا۔
اور صرف ایک نگاہِ شوق کے ساتھ میں پیچھے مڑ کے دیکھوں گا، اُس کے بعد میں تمہارے ساتھ ہوں گا۔
ایک مہم جو دوسرے مہم جوؤں کے درمیان۔
ایک مسافردوسرے مسافروں کے درمیان۔
تو اے گہرائی اور گیرائی والے سمندر!اے محوِ استراحت، محوِ خواب ماں !تو کہ جو ندّیوں کو اور دریاؤں کو گہرا سکون اور کامل آزادی عطا کرتی ہے۔
ہوا کے کچھ اور جھونکے یہاں مسرت سے سرسرا لیں اور کچھ دیر گنگنا لیں تو میں تیرے پاس چلا آؤں گا۔۔۔۔ایک لا انتہا قطرہ لا انتہا سمندر کی آغوش میں۔
اور جب وہ وہاں سے شہر کی جانب چلا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کے پیچھے پیچھے بہت سارے مرد و زن اپنے کھلا نوں، اپنے تاکستانوں کو چھوڑ کر شہر کے بڑے داخلی دروازے کی جانب بعجلت چلے آ رہے ہیں۔
اس نے ان کی آوازیں سنیں ان میں بس ایک ہی پکار تھی جو اُس کا اپنا ہی نام تھا۔
وہ سب ایک دوسرے کو جہاز کی آمد سے آگاہ کر رہے تھے۔
تب وہ خود اپنے آپ سے اپنی ہی ذات میں گویا ہوا:
کیا صبحِ جدائی ہی شامِ وصال ہے اور کیا میری شاموں کا دھندلکا ہی میرے لیے نویدِ طلوعِ سحرہے؟
میں اُس شخص کو کیا دے سکوں گا؟ جس نے میرے لیے۔۔۔۔صرف میری خاطر اپنے کھیتوں میں ہل چھوڑا۔
اور میں اُسے کیا دے سکوں گا؟ جس نے میرے لیے، صرف میری خاطر مئے ارغواں کی کشید روک دی ہے۔
کیا ایساہو سکتا ہے کہ میرا وجود شجرِ سایہ دار، شجرِ ثمر بار بن جائے کہ میں اُس کے سایے میں اُس کا پھل چن چن کر انہیں دے دوں۔
کیا ایساممکن ہے کہ میری آرزوئیں چشموں کی مانند بہ نکلیں اور میں ان سب کو سیراب کر دوں۔
اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میرا دل بربط بن جائے، جس کے تاروں کو کسی با کمال مطرب کی انگلیاں چھڑیں اور ان سے نغمۂ جانفزا پیدا ہو۔۔۔۔یا پھر ایسی چوبِ نے جس میں مغنی اپنی روح پھونک دے کہ جس کے شیریں نغمے ان سب کو سرورِ سرمدی سے مد ہوش کر دیں۔
میں کہ تنہائیوں کے خرابوں کا مکیں اور خاموشیوں کا غواص تھامیں نے اپنی خاموشیوں کے پاتال سے، اپنی تنہائیوں کے خرابوں میں سے کون سا خزانہ پایا؟جو میں انہیں حسنِ تکریم کے ساتھ عطیہ کرسکوں۔
اور اگر یہ میرا فصل سمیٹنے کا دن ہے تو میں نے کہاں، کس جگہ اور کس بھولے بسرے موسم میں بیج بویا تھا؟
اگر فی الحقیقت یہی وہ وقت ہے کہ جب مجھے اپنی مشعل کو روشنی کے لیے بلند کرنا ہے تو کیا اُس مشعل کا شعلہ میرے اپنے قلبِ سوزاں سے بلند نہ ہو گا؟میری مشعل!شاید جب میں اُسے بلند کروں گا تو وہ خالی اور بجھی ہوئی ہو گی مگر مجھے کامل امید ہے کہ اندھیری راتوں کا محافظ اُسے تیل سے بھر دے گا اور اُس ے روشن رکھے گا۔
یہ وہ باتیں تھیں جنہیں اُس نے لفظوں کا پیرہن پہنایا، مگردوسری بہت سی باتیں اُس کے دل میں ناگفتہ رہ گئیں۔
اور وہ اپنے اسرارِ سر بستہ کو فاش نہ کر سکا۔
جب وہ شہر میں داخل ہوا تو شہر کے سب لوگ اُسے ملنے آئے، وہ سب اُس سے بیک زبان التجائیں کرنے لگے۔
شہر کے سب سربرآوردہ لوگ آگے بڑھے اوراُس سے عرض گزار ہوئے:
ابھی ہمیں چھوڑ کے نہ جا! ابھی ہمیں داغِ جدائی نہ دے!تُو ہماری شاموں کے جھٹپٹوں میں ہمارے لیے کامل دوپہر لے کے آیا تھا۔
تیری جوانی کے خوابوں نے ہمارے خوابوں کو خواب دیکھنا سکھایا۔
تُو ہمارے لیے کوئی بیگانہ نہیں کوئی اجنبی بھی نہیں۔
تُو ہمارے لیے کوئی مہمان بھی تو نہیں۔
تُو تو ہمارا اپنا بیٹا ہے، تُو ہمارا محبوب ہے۔
تُو ابھی ہماری آنکھوں کو اپنے چہرے کی دید سے محروم نہ کر۔
عابدوں اور زاہدوں نے بھی اُس سے التجا کی:
ابھی سمندر کی پہنائیوں کو اپنے اور ہمارے درمیان حائل نہ ہونے دے، وہ زمانہ جو تُو نے ہمارے درمیان بتایا اُسے ایک خوابِ پارینہ نہ بننے دے۔
تُو ہمارے درمیان مقدس روح کی مانند چلا ہے۔
تیرے وجود کے سایے نے ہی ہمارے چہروں کو نورانی بنایا تھا اور انہیں تابندگی عطا کی تھی۔
ہم نے تجھ سے بے پناہ محبت کی مگر ہماری وہ محبت حجابوں میں پنہاں رہی اب وہ بے حجاب ہے اور تجھے آواز دے رہی ہے۔
اور یہی ہوتا ہے ازل تا ابد کہ محبت اپنی پہنائیوں سے بے خبر رہتی ہے جب تک کہ ساعتِ فراق نہ آ جائے۔
اور لوگ بھی آئے سب اُس سے التجا کرتے رہے لیکن اُس نے کسی کو بھی کوئی جواب نہ دیا۔
بس اُس نے اپنی گردن جھکا لی، وہ لوگ جو اُس کے قریب تھے انہوں نے اُس کے سینے پر اُس کے آنسووں کو گرتے دیکھا۔
پھر وہ اور باقی سب لوگ بھی معبد کے صحن میں آئے، وہاں حرم سے ایک خاتون باہر نکلی۔جس کا نام المیتراتھا وہ ایک روشن ضمیر، صاحبِ نظر اور صاحبِ کشف عورت تھی۔
اُس نے اُسے محبت اور تکریم کی نظر سے دیکھا۔
یہی وہ عورت تھی جس نے اُسے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا تھا اور اُس پر ایمان لے آئی تھی، ابھی جب کہ اُسے اُس شہر میں وارد ہوئے صرف ایک روز ہی ہوا تھا۔
اُس نے اُس کا خیر مقدم کیا اور کہا :
اے دانائے راز! اے محرمِ اسرارِ ازل! تو نے ایک زمانہ اپنے جہاز کا انتظار کیا۔
اب جب کہ تیرا جہاز آ چکا اور تجھے ضرور اپنی محبتوں کی سرزمین پہ جانا ہے اور تیری یادوں کی، تیری اپنی دنیا میں لوٹ جانے کی تیری آرزو بہت گہری، بہت عظیم ہے تو تُو بصد شوق جا، ہماری محبت تجھے پا بہ زنجیر نہ کرے گی۔ہماری ضرورتیں بھی تیری راہ میں حائل نہ ہوں گی۔ ہاں ! اس سے پیشتر کہ تُو ہمیں داغِ فراق دے، بس تھوڑی سی دیر ہم سے کلام فرما!
اپنی صداقت میں سے ہمیں بھی کچھ عطا کر ہم تیری اس عطا کو اپنے بچوں کے حوالے کر دیں گے اور وہ اپنے بچوں کے، یوں یہ صداقت کبھی بھی نابود نہ ہو گی۔
تُو نے اپنی تنہائیوں میں ہمارے دنوں کا مشاہدہ کیا اور اپنی بیداری میں تُو نے ہمارے خوابوں کو گریاں و خنداں دیکھا۔
اس لیے تُو اب ہم پر ہماری ذات کے اسرار فاش کر، ہم پر وہ راز کھول جو تیرے سامنے عیاں ہیں ہم پہ آشکار کر کہ حیات و ممات کے درمیان کیا ہے؟
تو اُس نے جواب دیا:
اورفیلس کے لوگو! میں تم سے کیا کہوں سوائے اُس کے جو خود تمہاری روحوں کی پہنائیوں میں لرزاں و موجزن ہے۔
تب المیترا بولی :
ہمیں اسرارِمحبت سے آگاہ کر!
اور اُس نے اپنا سر اوپر اٹھایا، سب لوگوں کو نگاہِ کرم سے دیکھا۔
ان سب پہ گہرا سناٹا چھا گیا۔
اور تب اُس نے پُر شکوہ آواز میں کہا:
جب محبت تمہیں اشارا کرے تو اُس کی اقتدا کرو۔
اگرچہ اُس کی راہیں کٹھن ہیں اور دشوار ہیں۔
اور جب وہ تمہیں اپنے پروں میں بھینچنا چاہے، تو بھی اُس کی اُس آرزو کوتسلیم کرو!
خواہ اُس کے پروں میں پنہاں خنجر تمہاری روح کو زخما ہی کیوں نہ دے۔
اور جب وہ تم سے کلام کرے تو اُس پر ایمان لے آؤ۔
خواہ اُس کی آواز تمہارے خوابوں کے پیرہن کو تار تار ہی کیوں نہ کر دے، جس طرح بادِ شمال باغوں کے حسن کو پا مال کر دیتی ہے
ہاں ! محبت تمہیں تاج و تخت بھی عطا کرتی ہے، وہ تمہیں مصلوب بھی کر دیتی ہے۔
وہ تمہاری پرورش بھی کرتی ہے اور تمہاری تہذیب بھی۔
جس طرح وہ تمہیں بلندیوں سے سرفراز کرتی ہے اور تمہاری نازک ترین دھوپ میں لہلہاتی شاخوں کوبوسے دیتی ہے۔
اسی طرح وہ مٹی کی گہرائیوں سے پیوست تمہاری جڑوں کو ہلا کے رکھ دیتی ہے اور مٹی سے تمہارا رشتہ توڑ دیتی ہے۔
وہ اپنے لیے تمہیں غلّے کے گٹھوں کی طرح سمیٹتی ہے۔
پھر وہ تمہیں پھٹکتی ہے تاکہ تم اپنے پوست سے باہر نکلو۔
پھر وہ تم سے تمہاری بھوسی الگ کرنے کی خاطر تمہیں چھانتی بھی ہے۔
پھر وہ تمہیں پیستی ہے تاکہ تمہارا میدہ حاصل کرے۔
پھر وہ تم میں نرمی اور لوچ پیدا کرنے کے لیے تمہیں گوندھتی ہے۔
پھر وہ تمہیں اپنی مقدس آگ میں پکاتی بھی ہے تاکہ تم خدا کی مقدس تقریب کے لیے پاکیزہ روٹی بن جاو۔
محبت تمہارے ساتھ یہ سب کرتی ہے تاکہ تم اپنے اسرارِ پنہاں سے باخبر ہو سکو۔
قلبِ زیست کا حصہ بن سکو، وجودِ حیات کے لیے ایک عمدہ خِلعت۔
اگر تم اپنے خوف کے باعث صرف محبت سے سکون اور مسرت کے آرزو مند ہو، تو تمہارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ تم اپنی عریانیوں کو ملبوس کر کے محبت کے کھلیانوں سے باہر نکل جاؤ تاریک، بے موسم اور بے تغیر دنیاؤں کی طرف۔
جہاں تم ہنسو گے مگر اپنے سب قہقہے نہیں۔
اور روؤ گے مگر اپنے سب آنسو نہیں۔
محبت تمہیں کچھ بھی عطا نہیں کرتی مگر خود اپنا آپ ہی تمہیں بخش دیتی ہے اور محبت کسی سے کچھ نہیں چاہتی مگر وہ خود اپنی تکمیل کی خواہاں ضرور ہوتی ہے۔
محبت کسی پر قابض ہوتی ہے اور نہ کوئی اُس پہ قابض ہو سکتا ہے۔
محبت کے لیے یہی سب کچھ ہے کہ وہ محبت ہے۔
جب تم محبت کرو تو مت کہو کہ محبوبِ ازل میرے دل میں مقیم ہے۔
بلکہ کہو کہ میں اُس کے دل میں رہتا ہوں۔
مت سوچو کہ تم محبت کی جولاں گاہوں کا تعین کر سکتے ہو۔
ہاں ! اگر وہ تمہیں اس اہل پائے تو وہ تمہاری جولاں گاہ کا تعین ضرور کر دیتی ہے۔
محبت کوئی تقاضا نہیں کرتی۔۔۔۔مگر اپنی تکمیل کا۔
اگر تم محبت کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ تمہاری آرزوئیں بھی ہوں تو پھر اس کی آرزوؤں کو ہی اپنی آرزو بنا لو۔
پگھل جاؤ اور وہ چشمہ آبِ رواں بن جاؤ جو رات کی خاموشیوں میں شیریں نغمے گنگناتا ہے۔
محبت کے درد کو اور اس کے کرب کو، اس کی شفقت اور اس کا احسان سمجھو۔
اور اپنے شعورِ بیدار کے ساتھ محبت کے زخم خوردہ بنو۔
اور مسرور و شاداں اپنا لہو بہنے دو۔
قلبِ مسرور کے ساتھ جب تم طلوعِ سحر کے ساتھ اٹھّو تو ایک اور محبت بھرے دن کے لیے شکرگزار ہو جاو۔نصف النہار کے وقت، جب کہ تم استراحت فرماؤ تو محبت کی عنایات کا تصور کرو۔
شام کے دھندلکوں میں جب گھر لوٹو تو محبت کے لیے ممنونیت اور تشکر کے ساتھ۔
اور پھر جب تم رات کو سونے لگو تو تمہارے دل میں محبوب کے لیے دعا ہو اور تمہارے ہونٹوں پہ اس کے لیے نغمہ تحسین ہو۔

المیترا نے پھر کہا:
اور آقا شادی؟
تو اُس نے جواب دیا:
تم تب تک اکٹھے رہو گے جب تک فرشتہ اجل اپنے سفید پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے تمہارے سلسلہ شب وروز کو منتشر نہ کر دے۔
اور ہاں !خدا کے خاموش حافظے میں بھی تم ہمیشہ اکٹھے ہی رہو گے۔
مگر تمہارے وصل میں فصل بھی چاہیے۔
تاکہ تم بادِ بہشت کو اپنے درمیان رقص کناں ہونے دو۔
ایک دوسرے کو محبت دو، مگر اپنی محبت کے سبب زنجیر بکف، بند بہ پانہ ہو جاؤ۔
محبت کو اپنی روحوں کے ساحلوں کے درمیان ایک وسیع و متحرک سمندر بناؤ۔
ایک دوسرے کی تشنگی کو سیراب کرو، ایک دوسرے کا پیمانہ لبریز کرو، مگر ایک ہی جام سے مت پو ۔
ایک دوسرے کو اپنی روٹی دو، مگر ایک ہی ٹکڑے سے اپنے لیے لقمہ مت توڑو۔
اکٹھے رہو، نغمگیں محبت کے ساتھ رقص کرو، زندگی کی نعمتوں سے اکٹھے لطف اٹھاؤ، لیکن ایک دوسرے کو آزاد اور تنہا بھی رہنے دو۔۔۔۔ایسے ہی، جیسے کہ بَربط کے تار الگ الگ ہوتے ہیں اور ایک ہی نغمے میں ایک ساتھ تھرتھراتے بھی ہیں۔
ایک دوسرے کو اپنا دل دو مگر اس پر قابض نہ رہو۔
صرف دستِ حیات ہی تمہارے دلوں کو سنبھال رکھنے کا مستحق ہے۔
اکٹھے کھڑے رہو مگر جُدا جُدا، ایسے ہی جیسے کہ معبد کے ستون ایک معین فاصلے پر کھڑے رہتے ہیں۔کیونکہ شمشاد و صنوبر ایک دوسرے کے سائے میں پرورش نہیں پاتے۔

اور ایک عورت جو اپنے سینے سے ایک بچے کو لگائے ہوئی تھی، بولی:
آقا بچوں کے متعلق بھی کچھ بتا!
تو اس نے کہا:
تمہارے بچے در اصل تمہارے بچے نہیں۔
وہ فطرت کے بچے ہیں حیات کی آرزوئے تسلسل کے بچے۔
وہ تمہارے ذریعے سے وجود پاتے ہیں لیکن وہ تم میں سے نہیں ہیں۔
اگرچہ وہ تمہارے ساتھ ہیں لیکن ان کا اور تمہارا کوئی ایسا اٹوٹ رشتہ بھی نہیں کہ جس کے بغیر وہ اپنی پہچان کھو دیں۔
تم انہیں اپنی محبت دے سکتے ہو۔۔۔۔اور دو بھی مگر تمہارے تفکر کی اور تمہارے تصورات کی انہیں احتیاج نہیں۔
ان کی اپنی فکر زرخیز اور ان کا اپنا تصور زندہ و متحرک ہے۔
ان کے جسموں کے لیے گھر تعمیر کرو مگر ان کی روح کو آزادی دو۔
کیوں کہ ان کی روح تو آیندہ زمانوں میں مقیم ہے۔
وہ زمانے، جنہیں تم کبھی نہ دیکھ پاؤ گے۔۔۔۔ اپنے خوابوں میں بھی نہیں۔
تم ان جیسا بننے کی جستجو کرو مگر انہیں اپنے جیسا بنانے کی آرزو مت کرو، کیونکہ زندگی کبھی واپسی کا سفر اختیار نہیں کرتی وہ پسپائی سے گریزاں ہے وہ ہمیشہ آگے اور آگے اور آگے جانے کی آرزو مند رہتی ہے۔
زندگی کبھی ماضی کے مزاروں میں مقیم نہیں ہوتی۔
وہ مستقبل کی منزلوں کی مسافر ہے۔
تم تو محض کمانیں ہو اور تمہارے بچے تیر۔
کمان کا کام تو بس تیروں کو آگے دور تک پھینکنا ہے۔
اور تیر انداز ابدیت کے نشانوں تک اپنے تیروں کو بھیجنے کا آرزو مند ہے۔
اس لیے وہ تمہیں اپنی پوری قوت سے خمیدہ کرتا ہے تاکہ اس کے تیر اپنی پوری استعداد سے دور تک جائیں۔
خود کو تیر انداز کے ہاتھ میں بصد مسرت خمیدہ رہنے دو۔
کیونکہ وہ دور تک پرواز کرنے والے تیروں سے بھی محبت کرتا ہے اور مضبوط کمان سے بھی۔

پھر ایک صاحبِ ثروت نے کہا:
ہمیں جود و سخا کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے جواب دیا:
تم عطا تو کرتے ہو مگر بہت تھوڑا، جب کہ تم اپنی مملوکہ چیزیں تقسیم کرتے ہو۔
اور جب تم خود اپنی ذات ہی دوسروں کو عطا کر دو تو تم واقعی کوئی بخشش کرتے ہو۔
تمہاری مملوکہ چیزیں ہیں کیا؟ سوائے اس کے کہ جن پر تم قابض ہو اور جن کی تم محض اس خوف سے حفاظت کرتے ہو کہ کہیں کل تمہیں ان کی ضرورت پیش نہ آ جائے۔
اور کل۔۔۔۔ اور کل اس کتے کے لیے کیا لا سکتی ہے جو حد درجہ مصلحت کوش ہے، جو بے آب و گیاہ، بے جہت صحرا میں ہڈیاں دباتا ہے اور خود ان زائرین کے پیچھے چلا جاتا ہے جو مقدس شہروں کا قصد کیے چلتے ہیں۔
ضرورت کا خوف بجائے خود ایک ضرورت ہے۔
اور خوفِ تشنہ لبی۔۔۔۔ خود نہ بجھنے والی پیاس، جب کہ تمہارا کنواں پانی سے پُر بھی ہو۔
تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی املاک سے کچھ تھوڑا بہت دوسروں کو دان کر دیتے ہیں۔
وہ ایسا اپنے سمّان کے لیے کرتے ہیں اور ان کی یہ پوشیدہ آرزو ان کی اس عطا کوناساز گار و مضرت رساں بنا دیتی ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں جن کے قبضے میں بہت کم ہوتا ہے، لیکن دوسروں کو سب کچھ بخش دیتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو زندگی کے عطیات پر اور اس کے فیضِ کریمانہ پر ایمان لانے والے ہیں، ان کا خزانہ کبھی بھی خالی نہیں ہوتا۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو بصد مسرت عطا کرتے ہیں اورتسکین پاتے ہیں ان کی یہی مسرت اور یہی تسکین بجائے خود نیک بدلہ ہے۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو دیتے تو ہیں لیکن آزردگی کے ساتھ اور یہی کرب ان کا روحانی تجربہ ہے۔
اور ایسے بھی ہیں جو عطا کرتے ہیں بغیر کسی کرب کے، بغیر کسی آرزوئے مسرت کے، نیکی کی تمنا کے بغیر۔
وہ یوں عطا کرتے ہیں جیسے کہ منہدی کا پودا اپنی سانسوں سے دور تک وادی کی فضاؤں کو معطر کرتا ہے۔
ان کا ہاتھ ہی در اصل خدا کا دستِ عطا ہے انہیں کی آنکھوں سے وہ زمین کو دیکھتا ہے اورمسکراتاہے۔
طلب پر عطا احسن ہے۔
مگر بے طلب، اپنی فراست سے دوسروں کو عطا احسن تر ہے۔
کریم کی لے لینے والے کی تلاش، عطا کرنے کی نسبت زیادہ پُر مسرت ہے۔
تو ایسا بھی کچھ ہے، جس پر تم قابض رہنا چاہو؟
جو کچھ بھی تمہارے قبضے میں ہے کسی دن دے دیا جائے گا، وہ بٹ جائے گا۔
لہذا ابھی دے دو۔
تاکہ بخشش کی مسرت تمہارے وارث کی بجائے تمہیں نصیب ہو۔
بسا اوقات تم کہتے ہو میں دوں گا، مگر صرف اسے جو حق دار ہے۔
تمہاری پھلواریوں کے پودے اور تمہارے مرغزاروں میں چرتے ریوڑ تو ایسا نہیں کہتے۔
وہ دے دیتے ہیں تاکہ وہ تسلسلِ حیات کو برقرار رکھیں تاکہ وہ معدوم نہ جائیں۔
فی الحقیقت جو اپنے روز و شب کا حصہ فطرت سے پاتا ہے، وہ تم سے بھی حصہ پانے کا حق دار ہے۔
وہ جو بحرِ حیات سے خود کو سیراب کرتا ہے، یقیناً وہ یہ حق بھی رکھتا ہے کہ تمہاری جوئے رواں سے اپنی تشنگی رفع کرے۔
حوصلہ حیات سے اور اعتمادِ ذات سے اس سے بڑھ کر اور کیا بے وفائی ہو گی کہ صرف پن دان پر ہی گزران کی جائے۔
تم ہو کون ؟ کہ لوگ خود کو نوچتے ہوئے تمہارے پاس آئیں وہ اپنی خود داری کو اور اپنی عزت ِنفس کو تم پر عریاں کردیں تاکہ تم ان کی ضرورتوں کو بے حجاب دیکھ سکو۔
دیکھو تو سہی کیا تم عطا و کرم کے اعزاز کے مستحق ہو بھی؟ کہ تمہیں خدائے بخشندہ اپنے جودوسخا کا وسیلہ بنائے۔
فی الحقیقت زندگی ہی زندگی کو عطا کرتی ہے، تم ہو کہ خود کو داتا سمجھ لیتے ہو۔
تمہاری عطا کچھ بھی نہیں البتہ فطرت کی عنایات پر گواہی۔
اور تم لینے والے اور بس لینے والے محتاج ہی تو ہو۔
تو ممنونیت کا اور احسان مندی کا ایسا بار نہ اٹھاؤ جو تمہارے لیے اور دینے والے کے لیے گراں ہو جائے۔
اور عطا کرنے والے کی ارفع عطا کے ساتھ خود بھی بلند پرواز ہو جاو۔
تمہاری حد سے زیادہ شکر گزاری اور ممنونیت دراصل شک ہے ایسے کریم النفس پر، جس کی ماں بخشش کرنے والی زمین اور جس کا باپ عنایات کرنے والا آسمان ہے۔

پھر ایک بوڑھا جو سرائے کا نگران تھا بولا:
ہمیں خور و نوش کے متعلق بھی کچھ بتا!
تو اس نے کہا:
کاش ایسا ہوتا کہ تم صرف زمین کی خوشبو پر ہی زندہ رہ سکتے ایسے خود رو پودوں کی مانند جو صرف سورج کی روشنی ہی سے حیات پاتے ہیں۔
لیکن اگر تم مجبور ہو کہ اپنے رزق کی طلب میں دوسروں کو ذبح کرو۔۔۔۔اپنی تشنگی کو سیراب کرنے کے لیے نومولود بچھڑوں کی ماؤں کا دودھ چرا ؤ تو پھر اسے بھی عبادت کا عمل بنا لو۔
اپنے دستر خوان کوایسی قربان گاہ بنا و، جس پر معصوم اور پاکیزہ جانور قربان کیے جاتے ہیں۔
اس پاکیزہ تر اور معصوم تر روح کے لیے جو انسان کے اندر ہے یعنی خود تمہارے اندر۔
جب تم کسی حیوان کو بامرِ مجبوری ذبح کرو تو اس سے یوں خطاب کرو:
وہ عظیم طاقت جو تجھے قربان کرتی ہے مجھے بھی ضرور ذبح کرے گی۔
میں بھی تیری طرح تصرف میں لایا جاؤں گا۔
وہ قانونِ فطرت جس نے تجھے مجھ سے ذبح کروایا وہی قانون مجھے بھی اپنے سے قوی تر اور پُر جلال طاقت کو سونپ دے گا۔
میرا اور تیرا خون کچھ بھی نہیں سوائے اس جوہر کے جو باغِ بہشت کے کسی نخلِ عظیم کی جڑوں کو سیراب کر دے۔
اور جب تم کوئی سیب اپنے دانتوں سے چباؤ تو اسے یوں کہو :
تیرے بیج میرے وجود میں حیات پائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے۔
تیری کونپلیں میرے دل میں پھوٹیں گی اور لہلہائیں گی۔
تیری مہک میری سانسوں کو تازگی بخشے گی۔
سب موسموں میں ہم ایک ساتھ پرورش پائیں گے۔
اور جب خزاں میں تم اپنے باغیچوں سے انگور چنو تو شراب کشید کرتے ہوئے اپنے دل سے یوں خطاب کرو:
میں بھی ایک تاکستان ہوں اور میرا پھل بھی شراب کشید کرنے کے لیے چنا جائے گا۔
شرابِ نو کے مانند مجھے بھی ناندوں میں بھرا جائے گا۔
جاڑوں میں جب تم اس شراب سے اپنے جام پُر کرو تو تمہارے ہر پیمانے کے لیے تمہارے دلوں میں ایک روح پرور گیت ہو۔
اور اس پُر مسرت گیت کی ہر لے میں تم خزاں کو، تاکستانوں کو اور شراب کشید کرنے کے ہنر کو یاد کرو۔

پھر ایک کسان نے کہا :
مشقت اور جستجو کے بارے ہمیں کچھ بتا!
اور اس نے جواب دیا:
تمہارا مشقت اٹھانا اور جستجو کرنا، فطرت کا اور زمان و مکاں کا رفیقِ سفر ہونا ہے۔
اور تمہارا تساہل، گویا سب موسموں سے بیگانہ محض ہو جانا۔
یہ برگشتگی ہے کاروانِ حیات سے جو پورے جلال سے، پورے وقار سے ابدیت کی راہوں پر گامزن ہے جو لا انتہا کا مسافر ہے۔
تمہارا مشقت اٹھانا! گویا کمالِ نے نوازی ہے جس میں مغنّی کا سوزِ نفس لمحوں کی سرگوشیوں کو نغمہ جاوداں بنا دیتا ہے۔
تم میں سے کون ہے، جو آرزو کرے کہ وہ نیستاں کے نرسل کی مانند سدا بے زبان، سدا خاموش رہے جب کہ کاروانِ حیات کے سبھی مسافر کمال ہم آہنگی سے مسرت کے نغمہ ہائے شیریں گنگناتے چلے جا رہے ہوں۔
تم سے ہمیشہ کہا گیا کہ کام کرنا لعنت ہے اور مشقت اٹھانا بد طالعی، مگر میں کہتا ہوں کہ تمہاری محنت کی لگن حیات و کائنات کے عمیق ترین خواب کی تعبیر ہے جس کے لیے تم اسی لمحہ ازل میں منتخب کر لیے گئے تھے، جس لمحہ ا زل میں وہ خواب پیدا کیا گیا۔
خود کو مشقت کے قابل بنانا گویا محبت کے ساتھ جینا ہے۔
پُر مشقت محبت بھری زندگی دراصل اسرارِ حیات سے آگاہی ہے۔
اگر تم مشقت کے درد سے گریزاں اپنے جنم کو ایک اذیت ایک لعنت قرار دیتے ہو، ایسی لعنت جو بے جا تمہاری پیشانیوں پر رقم کر دی گئی۔
تو میں کہتا ہوں اس دنیا میں ایسا کچھ بھی نہیں جو اس نوشتہ تقدیر کو تمہاری پیشانیوں سے دھوسکے سوائے تمہارے پسینے کے قطروں کے۔
اور تم سے حرماں نصیب اور درماندہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی در اصل تاریکیوں میں گم خود بھی ایک تاریکی ہے۔
میں کہتا ہوں ہاں ایسا ہی ہے مگر تب نہیں جب جرأتِ کردار ہو
اور ہاں جرات اندھی ہے مگر تب نہیں جب علم ہو۔
اور علم رایگاں ہے مگر تب نہیں جب کہ وہ بروئے کار آئے۔
اور ساری جستجوئیں کارِ زیاں ہیں مگر تب نہیں جب محبت ہو۔
محبت کے ساتھ جستجو، خود کو خود سے، جہانِ دِگر سے اور ذاتِ لم یزل سے متصل کرنا ہے۔
محبت کے ساتھ جستجو ہے کیا؟
محبت کے ساتھ جستجو! گویا اپنے قلب کے تا ر و پود کا خِلعت بنانا ہے بصد آرزو کہ تمہارا محبوب اسے زیبِ تن کرے۔
محبت کے ساتھ جستجو! ایک گھر کی تعمیر ہے بصد اشتیاق کہ اس میں تمہارا محبوب مقیم ہو۔۔۔۔محبت کے ساتھ جستجو! گویا تخم پاشی ہے بصد مسرت اور اس کا حاصل یہ آرزو کہ تمہارا محبوب خوشہ چیں ہو۔
محبت کے ساتھ جستجوتو گویا اپنے وجود کی مہک سے سارے جہاں کو معطر اور مسرور کر دینا ہے۔
محبت کے ساتھ جستجو علمِ یقین ہے ادراک ہے کہ تمہارے کارِ حسنہ خنداں اور شاداں تمہاری شاد کامیوں پر شاہد ہیں۔
کبھی کبھی میں نے تمہیں تمہارے خوابِ گراں میں یہ بھی کہتے سنا :
وہ فنکار جو مرمریں شبیہیں تراشتا ہے اور سخت پتھر میں اپنی روح کو مجسم کر دیتا ہے، ایک دہقان کی نسبت عظیم تر ہے۔
اور وہ مصور جو دھنک کے سب رنگوں کو اپنی مٹھی میں لے کر کسی کپڑے پر انسان کی صورت میں نقش کر تا ہے وہ جفت ساز سے مقدم و بر تر ہے۔
مگر میں عالمِ رویا میں نہیں، بلکہ کمال بیداری میں تم سے کہتا ہوں اور بجا کہتا ہوں ہوائیں جس طرح بالا قد سرو سے اٹکھیلیاں کرتی ہیں اسی طرح وہ بے حیثیت پرِ کاہ کو بھی اپنے لمس سے ضرور نوازتی ہیں۔
اور عظیم ہے وہ مطرب جو ہوا کی سرسراہٹ کو سوزِ نفس سے نغمہ شیریں بنا دے۔
جستجو اور مشقت فی الحقیقت محبت کی تجسیم ہے۔۔۔۔مادی پیکر میں۔
اور ہاں ! اگر تم محبت کے ساتھ مشقت نہیں کر سکتے بلکہ حقارت کے ساتھ اور کراہت کے ساتھ ایسا کرنے پر مجبور ہو تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم ایسی محنت کو ترک کر کے کسی معبد کے سایہ دیوار میں جا بیٹھو اور ان راہ چلتے لوگوں کی خیرات پر گزران کرو جو بصد شوق محنت کا بار اٹھاتے ہیں۔
اگر تم بد دلی سے اور بے اعتنائی سے روٹی پکاتے ہو تو گویا تم اس کا ذائقہ ہی تلخ کر دیتے ہوایسی روٹی صرف آدم نما لوگوں کی ہوسِ جوُع کو تسکین دے تو دے۔
اگر تم دل میں کرودھ لیے مردہ دلی کے ساتھ انگور سے شراب کشید کرو گے تو تم اسے سمِ قاتل بنا لو گے۔
اگر تم فرشتوں کا سا الوہی گیت بھی گاؤ مگر اس میں محبت شامل نہ کروتو تمہارا وہ گیت اہلِ ذوق کے گوشِ سماع کو بہرا کر دے گا۔
وہ صبح و مسا کی کوئی آہٹ کوئی سرسراہٹ نہ سن پائیں گے۔

پھر ایک عورت نے کہا :
ہم سے مسرت اور الم کی باتیں بھی کر!
اور اس نے جواب دیا:
تمہارا الم در حقیقت تمہاری وہ مسرت ہے، جسے بے نقاب کر دیا گیا ہے۔
یہ وہی کنواں ہے جس کی اتھاہ سے تمہارے قہقہوں کی گونج ابھرتی ہے مگر کبھی کبھی تمہارے آنسو بھی اس میں آ ٹپکتے ہیں۔
اور اس کے سوا ممکن ہی کیا ہے ؟
سوزِ الم جس قدر زیادہ تمہارے شعور کو کریدتا ہے، اسی قدر تمہارے دل میں مسرت کے لیے وسعت پیدا ہوتی ہے۔
تمہار ا جامِ مئے جو مئے گلگوں سے پُر ہے، وہی تو ہے جسے کمہار نے بھٹی میں تپایا تھا۔
اور وہ بَربط جو تمہاری روح کو تسکین دیتا ہے، کیا اسے چاقو سے نہیں تراشا گیا؟
جب تم مسرور و شاداں ہو تو اپنے دل کی گہرائی میں نظر ڈالو، تم پہ آشکار ہو گا کہ جو تمہیں الم آشنا کرتا ہے، وہ وہی تو ہے جو تمہارا دامن مسرتوں سے بھرتا ہے۔
اور جب تم ملول ہو تو بارِ دِگر اپنے قلب کی پہنائیوں میں دیکھو، تم جان لو گے کہ جس نے تمہیں الم آشنا کیا ہے، وہی ہے جو کبھی تمہارے لیے سراپا مسرت تھا۔
تم میں کچھ ایسے بھی تو ہیں جو کہتے ہیں کہ مسرت، الم سے بر تر ہے۔
اور دوسرے وہ ہیں جو کہتے ہیں نہیں، دردِ الم عظیم تر ہے۔
مگر میں تم سے کہتا ہوں نہیں وہ دونوں لاینفک ہیں۔
وہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ دیے آیا کرتے ہیں۔
جب ایک تمہارے دستر خوان پر اکل و شرب کے مزے اٹھاتا ہے، تو دوسرا تمہارے بستر میں استراحت فرما ہوتا ہے۔
اور ہاں ! تم ان دونوں کے درمیان ترازو کی مانند معلق ہو۔
جب تمہارے پلڑے خالی ہیں تو تم میں ٹھہراؤ ہے اور کامل توازن بھی۔
مگر جب زندگی کا خزینہ دار تمہیں اٹھاتا ہے تاکہ تم سے اپنے سیم و زر کی پیمائش کرے، تو ضروری ہے کہ تمہاری مسرتیں اور تمہارے درد و الم بڑھیں یا پھر کچھ کم ہوں۔
پھر ایک معمار آگے آیا اور اس نے کہا:
ہمیں گھرکے متعلق بتا!
اور اس نے جواب دیا:
اس سے پیشتر کہ تم شہر کی فصیلوں میں اپنے گھر تعمیر کرو تمہیں چاہیے کہ صحراؤں اور ویرانوں کو اپنی خلوت گاہیں تصور کرو۔
اس لیے کہ جب شام کی شفق میں تم اپنے گھروں کو لوٹتے ہو تو تمہارے اندر کا خانہ بدوش تنہائی میں پناہ گزیں ہونے کا آرزو مند رہتا ہے۔
تمہارا گھر، در اصل تمہارا جسدِ کبیر ہے۔
یہ نورِ آفتاب سے نمو پاتا ہے اور رات کی خاموش تنہائیوں کی گہری نیند میں محوِ استراحت ہوتا ہے۔
یہ نا آشنائے خواب نہیں اور اس کے خواب ہیں شہروں سے دشت و صحرا کا قصد۔
کاش! ایسا ہو سکتا کہ میں تمہارے گھروں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا اورکسی کسان کی مانند انہیں مرغزاروں میں اور جنگلوں میں بکھیر دیتا۔
کاش! وادیاں تمہارے گلی کوچے اور مرغزار تمہاری راہیں ہوتے۔
کاش! تم تاکستانوں میں ایک دوسرے سے ملنے کے آرزو مند رہتے۔
اور اپنے لباسوں میں مٹی کی سوندھی مہک بساتے۔
آہ! ابھی توایسا ممکن نہیں۔
تمہارے واہموں نے اور تمہارے خوف نے تمہارے آبا کو اکٹھا رہنا سکھایا۔
اور انہوں نے اپنے اوہام اور اپنے وسوسے تمہیں ورثے میں دیے۔۔۔۔ ابھی ان کے خدشے تھوڑی سی مدت باقی رہیں گے۔
ابھی اک زمانے تک تمہارے آتش دانوں اور تمہارے کشت زاروں کے درمیان فصیلِ شہر حائل رہے گی۔
اورفیلس کے لوگو!بتاؤ تو سہی تمہارے ان گھروں میں ہے کیا؟
ایسی کون سی آسایش ہے جس کی حفاظت کے لیے تم اپنے دروازے مضبوطی سے بند رکھتے ہو؟
کیا تمہیں یہاں تسکینِ قلب میسر ہے اور کیا تمہارا عزم ایسا عظیم ہے جو تم پر تمہاری سب قوتیں آشکار کر دے؟
کیا تمہارے پاس عظیم یادوں کا خزانہ ہے ؟ جھملارتی ہوئی حسین محرابوں کی صورت، جو تا حدِ امکان عقلِ سلیم کے کمالات کی مظہر ہوتی ہیں۔
اور کیا تمہارے پاس حسنِ تصور ہے ؟ جو لکڑی اور پتھر کی لایعنی چیزوں سے، مقدس پہاڑوں کی جانب رہنمائی کرسکے۔
کیا تمہارے گھروں میں یہ سب کچھ ہے یا صرف آسایش ہی آسایش؟
اور ہاں ! ہوسِ آسایش پوشیدہ پوشیدہ تمہارے گھروں میں مہمان بن کے آتی ہے اور پھر میزبان بن جاتی ہے اور آخر کار تمہاری آقا۔
پھر تازیانے کے ساتھ تمہاری عظیم آرزوؤں کو اپنی مرضی سے سدھارتی ہے۔
وہ انہیں کٹھ پتلیاں بنا دیتی ہے اور ان سے کھیلتی رہتی ہے۔
اگرچہ اس کی انگلیاں ابریشم ہیں لیکن اس کا دل فولاد ہے۔
وہ تمہیں لوریاں دیتی ہے وہ تمہیں تھپکتی ہے، صرف اس لیے کہ وہ تمہارے نرم بستر کے پاس کھڑی ہو کے تمہاری بشری حاجتوں کا تمسخر اڑائے۔
اور تمہارے قویٰ کی تضحیک کرے وہ انہیں نازک ظروف کی مانند ملفوف کر دے۔
فی الحقیقت آسایش کی ہوائے نفس روح کے عظیم جذبات کا قتل کرتی ہے۔
اور زہرِ خندہ کے ساتھ ان کی تدفین کرتی ہے۔
مگر تم تو فضاؤں کی وسعتوں کی اولادیں ہو، تم کہ حالتِ آرام میں بھی سکوں ناآشنا، بے چین، بے قرار ہو۔۔۔۔تم ہرگز گرفتارِ کمند نہ ہو پاؤ گے، نہ ہی تمہیں بہکایا جا سکے گا۔
تمہارا گھر جہاز کا وہ لنگر نہ ہو گاجو پانیوں میں ڈوبا اسے ساکت و ساکن رکھتا ہے بلکہ وہ تو مستول ہو گا، بلند مینارہ نور۔
وہ چمکتی ہوئی متورم کھال کی مانند نہ ہو گاجو اندر کے زخموں کو ڈھانپے رکھتی ہے بلکہ وہ پردہ چشم ہو گاجو بینائی کی حفاظت کرتا ہے۔
جب تم اپنے دروازوں سے اندر آؤ گے تو ان کی تنگی کے باعث تمہیں اپنے پروں کو سمیٹنا نہ پڑے گا۔
اور چھتوں کی بلندیوں کی کم مائیگی کے باعث اپنے بازوؤں کو موڑنا نہ پڑے گا کہ کہیں وہ ان سے ٹکرا نہ جائیں۔
اور نہ اس خوف کے باعث اپنی سانسوں کو روکنا ہو گا کہ کہیں وہ دیواروں کو شق نہ کر دیں۔
اور تم ان مقابر میں جوشِ حیات کو رایگاں نہ جانے دو گے جو مُردوں کی تعمیر ہیں۔۔۔۔ تم وہاں بسران نہ کرو گے۔
تمہارے گھر پُر شکوہ تو ہوں گے لیکن وہ تمہاری آرزوؤں کا آخری ملجا و ماوا نہ ہوں گے۔
کیونکہ تمہارے اندر کی لامتناہی صداقتوں کو آسمانوں کی محل سرا میں ہی رہنا ہے، جس کے دروازے صبحوں کے دھندلکے، جس کے دریچے راتوں کی خاموشیاں اور اس کے نغمہ ہائے دلنواز ہیں۔

پھر ایک جولاہے نے کہا :
ہمیں لباس کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے جواب دیا:
تمہارا لباس بسا اوقات تمہارے حسنِ وجود کو نظروں سے پنہاں کر دیتا ہے۔لیکن وہ تمہاری قباحتوں کو پردہ دری سے بچا نہیں سکتا۔
اگر چہ لباس کو تم ذریعہ تسلیم کرتے ہو ان آزادیوں کا جو تمہاری اپنی ہی زندگیوں سے وابستہ ہیں۔
مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تم اس کے ذریعے سے آزادی نہیں پا سکتے، وہ تو تمہارے لیے زنجیرِ غلامی سے بھی بد تر بیڑی ہے۔
کاش!ایسا ہو سکتاکہ تم شعاعِ آفتاب کا سواگت اپنی ننگی جلد سے کرتے اور ہواؤں کی سرسراہٹ کو اپنے تنِ عریاں پر محسوس کر سکتے۔
کیونکہ زندگی کی سانسیں نورِ آفتاب سے وابستہ ہیں اور اس کی قوتِ نمو ہواؤں کی آغوش میں پرورش پاتی ہے۔
تم میں سے کچھ کہتے ہیں کہ اَتّر کی ہوا ہمارے لیے لباس تیار کرتی ہے، وہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی عریانی کو ڈھانپیں۔
ہاں !یہ بادِ شمال ہی تو تھی جس نے تمہارے لیے لباس تیار کیا۔
اس نے شرم کے چرخے پر تمہارے لیے سوت کاتا، اس نے تمہارے اعضا کی لطافت سے ہی تار و پود چرائے تھے۔
جب اس کی عیاری انجام کو پہنچی تو وہ جنگل میں گئی اور تمہاری سادگی کا جی بھر کے مذاق اڑایا۔
مت بھولو کہ لباس کا عجز، صرف گدلی نگاہوں سے پردہ ہے۔
جب نظر میں کجی نہیں تو پھر یہ عجز کیا؟مگر فطرت سے اتصال میں ایک رکاوٹ ایک زنجیر اور ذہن کے لیے محض ایک دشنام آمیز کراہت۔
ہمیشہ یاد رہے کہ زمین تمہارے پیروں کے لمس سے مسرور ہوتی ہے۔
اور ہوائیں تمہارے بالوں میں شانہ کرنے کی آرزو مند رہتی ہیں۔

پھر ایک تاجر نے کہا:
ہمیں خرید و فروخت کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے جواب میں کہا:
دھرتی اپنی کوکھ سے رزق پید اکر کے تمہیں عنایت کرتی ہے اور اگر تم جان جاؤ کہ اس کی عنایتوں کوکیسے اور کیونکر اپنے دامن میں سمیٹنا ہے تو تمہاری کوئی احتیاج باقی نہ رہے گی۔
دھرتی کے ان تحفوں کے تبادلے سے اور ان کی کریمانہ تقسیم سے تم وافر رزق پاؤ گے اور مطمئن زندگی بھی۔
اور اگر تمہاری تقسیم عدل اور رحم سے معرا ہی رہی تو پھر خدشہ ہے کہ تم میں کچھ لوگ اہلِ ہوس ہوں گے اور باقی ان کے دریوزہ گر، بھوکے، سدا کے محتاج۔
جب تم ماہی گیروں سے یا اہلِ حرفہ سے یا بافندوں سے یا کوزہ گروں سے سرِبازار ملو تو ان سے اپنے معاملے عدل کے ساتھ طے کرو۔
اور عادل ِ مطلق سے مدد کے طلب گار رہو وہ منصف جو دھرتی کا آقا ہے۔
اس سے التجا کرو کہ وہ لین دین کے سب معاملوں میں تمہارے ساتھ رہے اور تم اسی کے بھروسے عدل کرو۔
پیمانے کو ہمیشہ مقدس سمجھو! کیونکہ وہ قدر کے بدلے قدر کا اور جنس کے بدلے قیمت کا تعین کرتا ہے۔
اور ان تہی دستوں سے ہمیشہ کنارا کش رہو جو تمہاری مشقت کو صرف اپنے شیریں الفاظ سے بدلنے کے آرزو مند رہتے ہیں۔
تم ایسوں سے صاف کہ دو:
آؤ! ہمارے ساتھ ہمارے کھیتوں اور کھلیانوں میں یا پھر ہمارے بھائیوں کے ساتھ سمندر میں جاؤ، اس میں اپنے جال پھیلاؤ۔
زمین کی مٹی اور سمندر کی وسعت تمہارے لیے بھی ایسی ہی فیض رساں ہے جیسی کہ ہمارے لیے۔
اگر تمہارے پاس مطرب آئیں یا رقاص یا پھر نے نواز تو تم ان کے تحفوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھوان کے تحفوں کو بھی خریدو۔
ان کے یہ تحفے شیریں پھل کی مثل ہیں۔۔۔۔ مثلِ مشک و عنبر۔
وہ روح کا لباس بھی ہیں اور اس کی غذا بھی۔
جب تم بازار کو چھوڑو تو دیکھو کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی شخص وسعتوں بھری اس دنیا سے خالی ہاتھ تو نہیں لوٹ رہا بھوکا اور ناامید۔
کیونکہ اس زمین کی روحِ عظیم پاک ہواؤں پر اُس وقت تک مطمئناستراحت نہ فرمائے گی، جب تک کہ تم میں سے کسی کم تر کی بھی سب احتیاج پوری نہ ہو جائے اور وہ زندگی کی مسرتوں کو سمیٹ کر اپنے دامن میں نہ بھر لے۔

پھر شہر کے منصفوں میں سے ایک منصف آگے آیا اور کہنے لگا:
ہمیں جرم اور سزا کے متعلق بھی بتا!
اور اس نے جواب میں کہا:
تم سے جرم تب سر زد ہوتا ہے جب تمہاری روح ہوا کی مانند بے سمت اور بے جہت ہو جائے۔
تب تم محفوظ نہیں رہتے کہ جب تم میں بے حسی آ جائے۔
تب تم دوسروں پہ جبر کرتے ہو یعنی در حقیقت خود اپنے آپ ہی پہ۔۔۔۔اس ظلم کے بعد اوراس سے وابستہ احساسِ زیاں کے بعد، تمہیں چاہیے کہ اہلِ سعادت کی چوکھٹ پہ جا بیٹھو، ان کی توجہ اور ان کی نگاہِ کرم کے منتظر رہو۔
اور ہاں ! تمہاری انائے عظیم تمہارا ضمیر، بحرِ بے کراں ہے۔
وہ سدا کا پاک باز ہے۔۔۔۔ہمیشہ بلند پروا زشاہباز۔
روشن آفتاب کی مانند۔
وہ چھچھوندروں کی ٹیڑھی راہوں کا تجسس نہیں کرتا اور نہ کینہ پرور سانپ کے بل کھاتے ہوئے بلوں کا۔
تمہاری انائے عظیم تمہارے وجود میں تنہا جا گزیں نہیں ہوتی۔
اس کا جوہر انسانی عظمتوں کا پروردہ ہے۔
اور ظاہر میں لگتا ہے کہ وہ کچھ تھوڑا سا خام کار بھی ہے، اس بے شکل، تہی مغز، ادنیٰ بالشتیے کی مانند جو رات کے دھندلکوں میں، برقاس میں اپنی بیداری کی تلاش میں سر گرداں ہو۔
میں اب تمہارے اس جوہر کے اسرار فاش کرتا ہوں۔
تمہارا جوہر تمہاری انائے عظیم در اصل بے مغز بالشتیا نہیں جو جرم سے اور اس کی سزا سے تھوڑاسا باخبر ہے۔
بسا اوقات میں نے تمہیں یہ کہتے سنا کہ جو شخص خطا کار ہے، وہ ہم میں سے نہیں وہ ایک اجنبی ہے ہماری دنیا میں بے وجہ دخل اندازی کرنے والا نا معقول۔
مگر میں کہتا ہوں کہ تم میں سے جو سب سے زیادہ متقی ہے وہ ان رفعتوں سے زیادہ سربلند نہیں ہو سکتا جو تم سب کو ودیعت کی گئی ہیں۔
اور وہ جو تم میں سب سے زیادہ خطا وار اور کمزور تر تصور کیا جاتا ہے وہ بھی ان پستیوں سے زیادہ پست نہیں ہو سکتا جن سے تم سب آشنا ہو۔
کوئی بھی اپنی ذات کی حدوں سے باہر نہیں نکل سکتا۔
جس طرح کوئی پتّا خشک ہو کر درخت کی شاخ سے ٹوٹتا ہے تو اس کا علم پورے درخت کو ہوتا ہے اسی طرح کوئی بھی خطا کار اس وقت تک خطا سر زد نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کی خطا میں تم سب کی پوشیدہ آرزو شامل نہ ہو۔
ایک جماعت کی مانند ایک قافلے کی صورت تم سب اپنی انائے عظیم کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہو۔
تمہی مسافر ہو تمہی رستہ ہو اور تم ہی منزل۔
اور جب تم میں سے کوئی راہ میں گر پڑتا ہے تو وہ اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے علامت بن جاتا ہے، اک اعلان کہ دیکھو آگے ٹھوکر دینے والا پتھر ہے تمہاری راہ میں حائل ایک رکاوٹ۔
اور وہ گرنے والا اپنے پیش روؤں کی غفلت کے سبب ہی گرتا ہے جو تیز خرام ہیں، اپنے قدموں پر بھروسا کرتے ہیں مگر سنگِ راہ کو ہٹاتے نہیں۔
ہوسکتا ہے کہ میرے الفاظ تمہاری سماعتوں پہ گراں گزریں۔
مگر اصل یہ ہے کہ کوئی بھی مقتول اپنے قتل سے بری الذمہ نہیں۔
اور لٹنے والا اپنی قزّاقی کے الزام سے کبھی آزاد نہیں ہوتا۔
پاکباز، بد قماشوں کے معاملے میں معصوم نہیں ہوتے۔وہ کہ جسے دعویِٰ پارسائی ہے، وہ بھی سنگین جرم کے باب میں پاک دامن نہیں۔
ظالم اکثر اوقات اسی کا شکار بنتا ہے، جسے وہ زخم دیتا، جسے وہ زک کرتا ہے۔
اور اکثر اوقات جسے اس کی خطا کے سبب ملامت کیا جاتا ہے، وہ پاکبازوں کی نیّتوں کا ہی بوجھ اٹھاتا ہے۔
تم عدل کو ظلم سے اور خیر کو خطا سے جدا نہیں کر سکتے۔
وہ شعاعِ خورشید سے اکٹھے روشنی پاتے ہیں۔۔۔۔ایسے ہی جیسے کہ سفید اور سیاہ دھاگے ایک ساتھ بُنے جاتے ہیں۔جب کوئی کالا دھاگا ٹوٹتا ہے تو جولاہا سارے تھان کے ایک ایک تار کو غور سے دیکھتا ہے وہ اسے پھر سے جوڑتا ہے اور اپنی اس کل کو بھی دیکھتا ہے جس پر وہ دھاگا کاتا گیا تھا۔
اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کواس کی دغا بازی کے سبب عدل کے لیے منصف کے روبرو لاتا ہے، تو منصف کو چاہیے کہ اس عورت کے شوہر کے دل کو بھی اپنی عدل کی میزان میں تولے اور اس کی روح کی گہرائی کی بھی پیمائش کرے۔
جو شخص قانون شکن پر ملامت کے تازیانے برساتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اس شخص کی روح کی پہنائیوں میں بھی جھانک لے جو اس کی ملامت سے دلگیر ہوا۔
اگر تم میں سے کوئی خیر کے نام پر سزا کو روا رکھے اور نخلِ شر کو کاٹنا ضروری خیال کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی جڑوں کو بھی دیکھے لے۔
وہ ضرور اس راز سے آشنا ہو گا کہ اچھی اور بُری۔۔۔۔ با ثمر اور بے ثمر سب پودوں کی جڑیں زمین کی تاریک گہرائیوں میں باہم دِگرپیوست اور الجھی ہوئی ہیں۔
اگر تم منصف ہو تو بتاؤ تم اس شخص سے کیا عدل کرو گے جو اپنے ظاہر میں پاکباز ہے اور ایمان دار بھی، مگر اس کی روح کے اندر چور چھپا بیٹھا ہے۔
اور اس کی کیا تعزیر ہے ؟جو ظاہر میں ایک سنگ دل قاتل ہے لیکن اصل یہ کہ اس کی اپنی روح ہی مقتول ہے۔
تم اس کے خلاف کیا استغاثہ کرو گے جو اپنے عمل میں خطا وار ہے مگر ستم رسیدہ شاکی بھی اور خود ہی سفاک بھی۔
اور تم انہیں کیا سزا دو گے، جو اپنے کیے پہ پشیمان ہیں جن کی ندامت ان کی خطا سے بڑی ہے۔
کیا احساسِ ندامت خود عدل نہیں جو عظیم قانون ساز نے ان پر نافذ کر دیا ہے وہ عظیم قانون ساز جس کے تم ادنیٰ خادم ہو۔
اور تم کسی معصوم پر احساسِ زیاں کیوں کرمسلط کر سکتے ہو اور احساسِ ندامت کو بدوں سے کیسیدورکر سکتے ہو۔
پشیمانی اندھیری راتوں میں دبے پاوں بن بلائے آتی ہے تاکہ خطا وار اس کا حکم مانیں اور اس کی تقلید کریں، وہ اپنے نفس کے پاتال میں اتریں اور خجالت سے اسے دیکھا کریں۔
تم جو خود کو عادل منصف کہتے ہو۔
کہو توتم عدل کی اصل کو کیسے سمجھ پاؤ گے، جب تک کہ نفسِ انسانی کی کمزوریوں سے اور اس کی ضرورتوں سے خوب آگاہ نہ ہو جاو۔
تم اسی وقت جان پاؤ گے کہ جو قوی اور ایستادہ ہے وہی گرا ہوا اسفل بھی ہو سکتا ہے۔
اور انسان ؟ انسان وہی تو ہے جو اپنے نفسِ اسفل کی تاریکیوں اور اپنی انائے بسیط کے نور کے درمیان کھڑا ہے۔
اور ہاں ! یاد رکھو کہ معبد کے کلس کا بلند ترین پتھر اس کی بنیاد کے پہلے پتھر سے اپنی اہمیت میں ہر گز بلند مرتبت نہیں۔

پھر ایک قانون دان نے کہا:
اور ہمارے قانون کے متعلق بھی کچھ کہیے آقا!
اور اس نے جواب دیا:
اگرچہ تم قانون کو نافذ کر کے حظ اٹھاتے ہو۔
لیکن اسے توڑ کر تم اور بھی زیادہ محظوظ ہوتے ہو۔
ساحلِ سمندرپہ کھیلتے ہوئے بچوں کی مانند، جو پورے انہماک سے ریت کے مینارے بناتے ہیں اور پھر اپنے قہقہوں میں انہیں مسمار کر دیتے ہیں۔
جب تم ریت کے مینارے تعمیر کرتے ہو تو سمندر اور زیادہ ریت کنارے پر لے آتا ہے اور جب تم انہیں خستہ و خراب کرتے ہو تو سمندر کے قہقہے تمہارے قہقہوں میں شامل ہوتے ہیں۔
ہاں ! واقعی سمندر معصوموں کے ساتھ مل کے ہنستا ہے۔
اور ان کی بے چارگی کا کیا مداوا کہ جن کے لیے زندگی سمندر نہیں اور نہ انسانی قاعدے ریت کے مینارے۔
بلکہ ان کے لیے زندگی ایک سخت چٹان ہے اور قانون اسے تراشنے کا تیشہ کہ جس کی مدد سے وہ زندگی کو اپنے مرضی سے تراشنے کے آرزو مند ہیں۔
تو اس اپاہج کی بے چارگی کا کیا کہنا؟ جو محوِ رقص لوگوں سے اپنی بے بسی کے سبب نفرت کرے۔
اور اس بیل کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ جو اپنے جوے پہ نازاں ہے، اور اپنی دانست میں جنگل کے آزاد ہرنوں کو آوارہ گرد بھٹکے ہوئے بچے سمجھتا ہے۔
اور اس کینہ جُو بوڑھے سانپ کے متعلق تم کیا کہو گے ؟جو اپنے بڑھاپے کے سبب اپنی کینچلی اتار نہیں سکتا اور دوسروں کو بے حیا عریاں کہتا ہے۔
اور اس پیٹو کے متعلق تمہارا کیا کہنا ہے، جو ہر تقریبِ مسرت میں بلائے، بن بلائے چلا آتا ہے، بے تحاشا کھا کر چُور ہو جاتا ہے اور یہ کہتے ہوئے اپنی راہ پہ چل دیتا ہے کہ ایسی سب تقریبیں قانون کی بے حرمتی ہیں اورایسی سب ضیافتوں کے مہتمم قانون شکن۔
میں ان کے متعلق کیا کہوں ؟ جو سورج کی روشنی میں کھڑے ہیں لیکن سورج کی طرف پشت کیے ہوئے۔
وہ صرف اپنے سایے دیکھتے ہیں اور ان کے سایے ہی ان کے قاعدے، قانون اور ضابطے ہیں۔
تو کیا آفتاب کی اور کچھ حقیقت نہیں سوائے اس کے کہ وہ سایوں کا خالق ہے ؟
اور ان کا ان ضابطوں کی اطاعت اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ و ہ اپنے ہی سایوں کو زمین پر لرزاں و متحرک دیکھیں۔
اور اگر تم سورج کی جانب منہ کیے چلتے ہو تو پھر کون سا نقش ہے جو تمہارے لیے سدِ راہ ہو۔
تم وہ ہو جو ہواؤں کے دوش پہ سفر کرنے والے ہو، تو پھر باد نما تمہاری راہوں کا تعین کیسے کر سکتا ہے۔
اور انسانی ضابطے تمہیں کیسے پا بہ زنجیر کر سکتے ہیں، اگر تم اپنے جوے کو توڑ دو اور کسی انسان کے بنائے ہوئے عقوبت خانوں میں بسرام نہ کرو۔
تو پھر وہ کون سا قانون ہے جو تمہیں ہراساں کرے؟ جب کہ تم آزادومسرور، رقص کناں ہو اور کسی انسان کی فولادی زنجیر سے نہیں الجھتے۔
اگر تم اپنا پیرہن تار تار کر دیتے ہو مگر اسے کسی شخص کی راہ میں نہیں ڈالتے تو پھر کسے حق حاصل ہے کہ تم سے تمہارے اس عمل کی وجہ پوچھے۔
اورفیلس کے رہنے والو! تم نقاروں کو چیتھڑوں میں چھپا سکتے ہو کہ شاید ان کی آواز دب جائے۔
تم بَربط کے تاروں کو ڈھیلا کر سکتے ہو کہ شاید ان کے نغمے دم توڑ دیں۔
لیکن آسمان میں اڑتے چکوروں پر تو تمہارا حکم نہیں چلتا۔

اور ایک سخن ور نے کہا :
ہمیں آزادی کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے کہا:
میں تمہیں شہر کے دروازے پر اور اپنے گھروں میں آتش دانوں کے آس پاس، اوندھے منہ گرے شکست خوردگی کی حالت میں غلامانہ طریق پر اپنی آزادی کی پرستش کرتے دیکھ چکا ہوں۔
جس طرح کہ غلام مطلق العنان اور جابر فرماں رواؤں کے حضور اپنا سرِ نیاز خم رکھتے ہی اور وہ تب بھی اُن کے لیے نغمہ توصیف ہی گاتے ہیں جب کہ وہ انہیں سفاکی سے موت کے حوالے کرتے ہیں۔
ہاں ! معبد کے درختوں کے جھنڈوں میں اور قلعے کی فصیلوں کے سایے میں میں نے تم میں سے سب سے زیادہ آزاد لوگوں کو ہی آزادی کا طوق پہنے زنجیر بکف بند بہ پا دیکھا ہے۔
میرا دل اندر ہی اندر یہ جان کر لہو لہو ہوا ہے کہ تمہاری ہوسِ آزادی تمہارے لیے ایک پُر خطر، دشوار گزار راہ بن گئی ہے۔
اور ایسا تب تک ہو گا جب تک کہ تم آزادی کی گفتگو کو حاصلِ آرزو اور منتہائے مقصود سمجھنا ترک نہ کر دو۔
جب تک تمہارے دن بے جا اندیشوں سے اور تمہاری بے طلب راتیں غمِ دوراں سے آزاد نہ ہو جائیں، تم آزادی کی اصل سے ناآشنا ہی رہو گے۔
مگر تمہیں حقیقی آزادی تو تب ہی نصیب ہو گی، جب تمہاری حیات جس خوف میں محیط ہے اس سے تم ماورانہ ہو جاو۔
اور تم صبح و مسا کی پابندیوں سے ماورا ہو سکتے ہو اگر تم ان زنجیروں کو توڑ دو، جو تمہاری صبحِ صادق ہی سے تمہارے فہم کو جکڑے ہوئے ہیں۔
اور فی الحقیقت تمہاری آزادی ہی ان زنجیروں میں سے مضبوط ترین زنجیر ہے۔اس کی کڑیاں دھوپ میں چمکتی ہیں اور تمہاری نظروں کو خیرہ کرتی ہیں۔
وہ اصل میں ہیں کیا ؟بس تمہاری اپنی ذات ہی کے چند ٹکڑے، جنہیں بے کار مان کر جھٹلانا ہو گا، تاکہ تم واقعی آزاد ہو جاو۔
وہ قانون جس کی بنیاد عدل پر نہیں اور اب تم اس کی تنسیخ کے آرزو مند ہو، تو یاد رہے وہ قانون تمہارے ہاتھوں ہی تمہاری جبیں پہ لکھا گیا تھا۔
اب تم، اسے اپنی کتابِ قانون کو جلا کر نابود نہیں کر سکتے اور نا اپنے منصفوں کی پیشانیوں کو سب سمندروں کے پانی سے دھو کر اسے مٹا سکتے ہو۔
اگر تم سب لوگ مل کر کسی جابر کو معزول کرنے کے خواہاں ہو، تو دیکھو کہ اس کا وہ اقتدار جو تمہاری روحوں میں ایستادہ تھا زمیں بوس ہو گیا؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی غاصب کوئی جابر حکمران خوددار جذبہ حرّیت کے محافظوں پر حکومت کر سکے۔مگر یہ بد طالعی تبھی ظہور پذیر ہوتی ہے، جب جابر کا حکم ان کی آزادی ان کی عزتِ نفس اور ان کی حیا پر قابض ہو جائے۔
اگر تم کسی تذبذب سے آزادی چاہتے ہو تو تمہیں بھولنا نہیں چاہیے کہ وہ دغدغہ تم نے خود ہی اپنے آپ پر قانون کی صورت مسلط کیا ہے وہ تم پر نافذ نہیں کیا گیا۔
اگر تم کسی خوف سے آزادی کے طالب ہو جو تمہارے ضمیر میں جاگزیں ہو گیا ہے، تو یاد رہے وہ تمہارا اپنا ہی پیدا کر دہ ہے، فی الحقیقت وہ وہی سب کچھ ہے جو تمہاری ذات میں متحرک ہے، راسخ ہے، باہم پیوست ہے، جدا جدا ہے، مرغوب بھی ہے اور مردود بھی مسعود بھی ہے اور محجوب بھی اور وہ سب کچھ، تم جس سے گریزاں ہو اور وہ سب کچھ جو تم میں روشنی کے عکس کی مانند جھلملاتا ہے۔
اور جب عکس محض وہم و گمان ہو اور وہ روشنی محض یادوں کا ایک ہیولا، تو یاد رہے کہ وہ خود کسی دوسری تیز روشنی کا ہیولا بن جاتی ہے۔
وہ سب عکس اور روشنیاں زنجیریں ہیں اور تمہاری آزادی جب ان تمام زنجیروں کو توڑ دیتی ہے تو تب تم واقعی آزاد ی کو پا لیتے ہو۔

پھر وہی عابدہ دوبارہ گویا ہوئی، اور کہا :
ہم سے خرد و جنوں کے باب میں بھی کچھ کہہ!
اور اس نے جواب دیا:
تمہاری روح بسا اوقات میدانِ کار زار بن جاتی ہے اور تمہارے خرد و شعور اور تمہاری فہم و فراست، تمہارے جذبات، تمہاری اشتہا اور تمہارا ذوق اور اشتیاق ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔
کاش! ایسا ہو سکتا کہ میں تمہاری روحوں کے لیے امن و سکوں کا امین بن سکتا۔
اور تمہاری ذات کے عناصر کی بد آہنگی کو نغمہ اعتدال میں بدل دیتا، تمہارے عناصر کی نزاع اور رقابت کو ایک وحدت بنا سکتا۔
مگر میں یہ سب کیسے انجام دے سکتا ہوں جب تک کہ خود تمہاری روح اس کی مشتاق نہیں۔
تمہاری خرد اور تمہارا جنون تمہاری دریا نورد روح کے لیے دو پتوار ہیں وہ دو بادبانوں کی مانند ہیں۔
اگر پتوار ٹوٹ جائیں یا پھر بادبان پھٹ جائیں تو آوارہ موجیں تمہیں بہا لے جائیں گی یا پھر تم ساکن پانیوں میں کھڑے رہ جاؤ گے۔
ایسے ہی تمہاری خرد اور تمہارا شعور تمہیں ہر گام پہ روکتا ہے۔
اور تمہارا جذبہ اور تمہارا جنون اگر تمہارے شعور کے التفات سے محروم رہ جائے تو وہ ایک ایسا شعلہ ہے جو خود کوہی جلا کے خاکستر کر ڈالے۔
لہذا اپنی روح کو اجازت دو کہ وہ تمہاری عقل و خرد کو تمہارے جذبے اور جنون کی بلندیوں سے سرفراز کرے تاکہ وہ نغمہ حیات گنگنائے۔
اور اپنی روح کو اجازت دو کہ تمہارے جنوں کو تمہاری خرد سے مربوط کر دے تاکہ تمہارے جذبے ہر روز حیات نو پائیں، ققنس کے مانند ہر روز اپنی ہی خاکستر سے پھڑپھڑاتے ہوئے نئی پرواز کا آغاز کریں۔
میری تمنا ہے کہ تم اپنی آرزوؤں کو اور اپنی قوت فیصلہ کو اپنے گھر میں دو عزیز مہمان جانو۔
یقیناً تم ایسا تو نہیں کرو گے کہ ایک مہمان کو دوسرے پہ فائق سمجھو۔
جو ایک مہمان کو زیادہ توجہ دیتا ہے وہ آخر کار دونوں کے التفات سے محروم ہو جاتا ہے اور دونوں کے اعتماد کو کھو دیتا ہے۔
جب تم پہاڑوں میں چناروں کے سایوں میں سستاؤ اور دور دراز کی وادیوں اور مرغزاروں کی متانت سے سکون پاؤ تو اپنے قلبِ خاموش کو کہنے دو خدا خرد میں استراحت فرما ہوتا ہے۔
اور جب طوفانی ہوائیں دشت و صحرا کو پلٹ کر رکھ دیں، اور بادلوں کی کڑک اور بجلیوں کی چمک آسمانوں کی عظمت کا اعلان کریں تو اپنے قلبِ مسحور کو بصد احترام کہنے دو خدا جذبے میں حرکت کرتا ہے۔
تم خدا کے اقتدار میں سانس لیتے ہو اور خدا کے لا انتہا دشت کا محض ایک پتّا ہو تو پھر تمہیں بھی خرد میں استراحت کرنی چاہیے اور جذبے میں حرکت۔

اور ایک خاتون نے کہا:
اور آقا! درد و الم کی کچھ حقیقت بھی کہہ!
اور اس نے کہا:
تمہارا درد دراصل تمہارے صدف کی چٹخ ہے، وہ صدف جس میں تمہارا شعور موتی کی مثل بند ہے۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی پھل کے چھلکے کی چٹک تاکہ اس کا گودا باہر نکلے۔
یا زمین کی تاریکیوں میں کسی گٹھلی کی چٹخ تا کہ اس سے حیاتِ نو کی نونہال اور شاداب کونپلیں پھوٹیں اور نورِ آفتاب سے پرورش پائیں۔
لہذا اپنے درد کی اہمیت کو جانو!
اگر تمہارے پاس ایسا دل ہے جو کرامات ایام پر نازاں ہے، تو پھر تمہارا درد بھی تمہیں محوِ حیرت کر دے گا، وہ بھی تمہارے لطف کی مانند جانفزا ہے۔
تمہیں چاہیے کہ تم اپنے دل کے موسموں کے تغیر کو قبول کروجس طرح تم اپنے کھیتیوں کے لیے موسموں کا تغیر پسند کرتے ہو۔
اپنی زندگی کے سوزو الم کو متانت سے قبول کرو، وہ تمہارا اپنا ہی انتخاب ہے۔
یہ وہ رقیق دوا ہے، جو تمہارا طبیبِ لبیب تمہیں دیتا ہے، تاکہ تم شفا پاؤ۔
اپنے طبیب پر بھروسا رکھو۔
اور اس کی تلخ دوا کو خاموشی اور اطمینان کے ساتھ پی جاؤ۔
اگرچہ اس کا ہاتھ سخت ہے اور تکلیف دیتا ہے مگر اس کا رہنما قدرت کا دستِ شِفا ہی ہے۔
اس کا پیالہ اگرچہ تمہارے ہونٹوں کو جلاتا ہے مگر وہ اسی مٹی سے بنا ہے جسے کوزہ گر نے اپنے اشکوں سے نم کیا تھا۔

پھر ایک مرد نے کہا:
ہم پہ اسرارِ ذات منکشف کر!
اور اس نے جواب دیا:
خاموش اور پُر سکون تنہائیوں میں تمہارا دل تمہارے روز و شب کے سب اسرار سے آگاہ ہو سکتاہے۔
تنہائی میں تمہارے کان تمہارے دل کے اسرار سے آگاہی کے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں۔
مگر تنہائی دوا ہے غذا نہیں۔
تمہارا علم تمہارے تخیل کی پہنائیوں میں جنم لیتا ہے، مگر لفظوں کا پیرہن پہن کر اپنے جمال کو عیاں کرتا ہے۔
تمہاری آرزو ہے کہ تم اپنے خوابوں کے عریاں وجود کو اپنی پوروں کا لمس دو۔۔۔۔اور اسی میں خیر بھی ہے۔
اور تمہاری روح سیخوابوں کے سوتے ضرور بھر جانے چاہییں تاکہ وہ گنگناتے ہوئے بے پایاں سمندر کی جانب رواں دواں ہوں۔
تاکہ تمہارے سمندر کی ابدیت کی پہنائیوں کے خزانے تمہاری نظروں پہ عیاں ہوں۔
تم اپنے کشفِ ذات کی اتھاہ کی پیمائش کی آرزو مت کرو۔
کیونکہ خودی کا سمندر ہر پیمائش سے ماورا ہے، وہ بحرِ بے کراں ہے۔
مت کہو کہ میں نے حقیقت ابدی کو پا لیا بلکہ کہو کہ مجھ پر اس کا ایک جہت عیاں ہو گئی۔
مت کہو کہ میں نے اپنی روح کی حقیقت کو سمجھ لیا بلکہ کہو کہ میں چلتے بھٹکتے اپنی روح سے سرِ راہ ملا ہوں۔
اس لیے کہ سب راہیں روح کی راہیں ہیں اور وہ ہر راہ کو پھلانگ جاتی ہے۔
وہ معین رستوں پہ نہیں چلتی اور نہ ہی وہ پا بہ گل نرسل کی مانند نشو و نما پاتی ہے۔
روح ہزار پتیوں والے کنول کی مانند خود کو عیاں کرتی ہے۔

پھر ایک اُ ستاد نے کہا :
تعلیم و تدریس کے متعلق بھی کچھ فرما
اور اس نے کہا:
کوئی بھی شخص تم پر کوئی بھی بات عیاں نہیں کر سکتا، سوائے اس کے جو تمہارے علم کے سپیدہ سحر میں نیم غنودگی کے عالم میں ہے۔
وہ معلم جو اپنے طلبا کی معیت میں معبد کی دیواروں کے سایے میں خرام کرتا ہے، وہ انہیں کوئی نیا علم نہیں سکھاتا، وہ انہیں کوئی دانائی یا حکمت بھی عطا نہیں کرتا بلکہ وہ تو انہیں اپنا ایمان، اپنا عقیدہ اور اپنی محبتیں بخشتا ہے۔
اگر وہ فی الحقیقت صاحبِ نظر حکیم ہے تو وہ تمہیں اپنے خانہ دانش میں آنے کی دعوت نہیں دے گا، بلکہ وہ تمہیں تمہارے خانہ شعور کی راہ دکھائے گا۔
کائنات کی وسعتوں میں جھانکنے والا منجم تمہیں آفاق کی پہنائیوں کی خبر تو دے سکتا ہے، مگر وہ اپنا علم اور اپنا مشاہدہ تمہیں عطا کرنے سے قاصر ہے۔
ممکن ہے کہ کوئی مطرب تمہارے لیے نغمہ سرا ہو اور اس کے ترنم میں وہ لے ہو، وہ زیر و بم ہو، جو ساری کائنات کی روحِ رواں ہے۔
مگر وہ تمہیں اپنے گیت کی نزاکتوں سے آشنا کان نہیں دے سکتا اور نہ وہ آواز دے سکتا ہے جو نغمہ سرا ہوتی ہے۔
اور کوئی مہندس جو اپنے میدان کا آزمودہ کار ہے، وہ تمہیں کم و کیف کی اقلیموں کی خبر تو دے سکتا ہے مگر تمہیں ان دنیاؤں کے سفر پہ لے جا نہیں سکتا۔
کسی ایک شخص کی وسعتِ علم کسی دوسرے شخص کے تخیل کو پرِ پرواز عطا کرنے سے معذور ہے۔
جس طرح تم میں سے ہر کوئی علیمِ مطلق کے علم میں اپنا علاحدہ تشخص رکھتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس علیم و حکیم کے بارے میں بھی اپنا علمی تفرد قائم کرے۔
اور انفس و آفاق کی فہم میں بھی یکتا ہو۔

اور ایک جوانِ رعنا نے کہا:
ہمیں دوستی کے اخلاص و مروت کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے جواب دیا:
تمہارا دوست تمہاری وہ ضرورت اور امید ہے، جو بھر آئی ہے۔
تمہارا دوست وہ کشتِ زر بار ہے جس میں تم محبت کا بیج بوتے ہو اور شکرانہ نعمت کے ساتھ اس کے پھل کی برداشت کرتے ہو۔
وہ تمہارا دسترخوان ہے اور تمہاری آسایش بھی۔
تم اس کے پاس تشنہ کام جاتے ہو تو اسے منتظر و مشتاق پاتے ہو کہ وہ تمہاری تشنگی کو سیراب کرے۔
جب تمہارا دوست تم پہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو تم اسے ناں کہتے ہوئے متردد نہیں ہوتے۔
اور نہ ہی اسے اپنی ہاں سے محروم کرتے ہو۔
جب اس کے لب گویا نہیں ہوتے، تو بھی تمہارا دل اس سے کلام کرتا ہے۔
دوستی میں سارے خیالات، سارے واقعات اور سب آرزوئیں جو پیدا ہوتی ہیں، اپنے اظہار میں لفظوں کی محتاج نہیں۔
وہ اپنا اظہار کرتی ہیں مسرت کے ساتھ، وہ مسرت جس کی کبھی جستجو نہیں کی جاتی۔
ہاں ! دوست کا فراق تمہیں کبھی آزردہ نہ کرے۔۔۔۔ یہ اس لیے کہ اس کے وہ اوصاف جو تمہیں اس کے قرب میں عزیز ہیں، عین ممکن ہے کہ اس کی فرقت میں، تم پروہ اپنی پوری آب و تاب سے عیاں ہوں۔
جس طرح کوہ پیما کو دور میدان سے بلند پہاڑ زیادہ صاف دکھائی دیتے ہیں۔
اور ہاں ! یہ بھی ضروری ہے کہ دوستی و مروّت کا اپنی روح کی اتھاہ میں جھانکنے کے سوا کوئی مقصد نہ ہو۔
جو محبت اشیا کی جستجو کرے اور اپنے عجائا ت کو افشا کرے وہ محبت نہیں۔۔۔۔ بلکہ وہ ایسا دام ہے جو بحرِ حیات سے لاحاصل اور رایگاں ہی کا شکار کرسکتا ہے۔
اپنی ذات کا بہترین حصہ اپنے دوست کو پیش کرو۔
اگر وہ تمہارا جزر دیکھنے کا مشتاق ہے تو اسے اپنا تلاطم بھی دکھا دو۔
وہ دوست ہی کیا تم جس کی جستجو صرف اس لیے کرو کہ اپنا بے مصرف وقت اس کے ساتھ بیتا سکو۔
تمہیں پُر مشقت لمحوں میں بھی اس کا مشتاق ہونا چاہیے۔
یہی زیبا ہے کہ وہ تمہاری احتیاج کو پورا کرے، نہ کہ وہ تمہارے خالی کاسہ گدائی میں کوئی چیز ڈالے۔
دوستی کی حلاوت کو اپنے قہقہوں سے اور اپنی مسرت سے شیریں تر کر دو۔
اگرچہ شبنم کے قطرے اپنے وجود میں معمولی سہی لیکن قلب ِ حیات کو فرحت اور تازگی ضرور بخشتے ہیں۔

پھر ایک علم دوست نے کہا:
ہمیں آدابِ گفتگو کی تعلیم بھی دے!
تو اس نے جواب میں کہا:
تم گفتگو میں تب پناہ لیتے ہو جب تمہارے خیالات میں ہلچل پیدا ہو اور امتنانِ قلب باقی نہ رہے۔
اور جب تمہارے لیے اپنے دل کی سنسان خلوتوں میں رہ پانا ممکن نہ رہے تو پھر تم اپنے لبوں پہ آ قیام کرتے ہو۔
تب آواز تمہارے لیے کربِ تنہائی سے اجتناب اور فرصت کا مشغلہ بن جاتی ہے۔
مگر تمہارا ذوقِ گفتار تمہارے خیالات کو اور تمہارے افکار کو بسااوقات نیم بسمل کر دیتا ہے۔
تفکر لامحدود فضاؤں کا شاہباز ہے ممکن ہے کہ وہ قفسِ الفاظ میں اپنے پروں کو تو پھڑپھڑا لے مگر لذتِ پرواز سے محروم ہی رہے گا۔
تم میں ایسے بھی ہیں جو بسیار گو لوگوں کی قربت کے ہمیشہ آرزومند رہتے ہیں۔
وہ اپنی خلوت میں اپنی ہی ذات کی جلوہ گری سے لرزاں وترساں ہوتے ہیں۔
ان کی خلوت کی خاموشیاں ان پر، ان کے نفس کی عریانیاں اور تاریکیاں آشکار کرتی ہیں اور وہ ہیں کہ اس سے گریزاں رہنے کے آرزو مند رہتے ہیں۔
تم میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بے تکان کلام کرتے ہیں، بغیر علم کے، عاقبت نا اندیش ایسے اسرار کو افشا کرنے والے جن کا انہیں خود بھی کچھ ادراک نہیں۔
کچھ برگزیدہ ایسے بھی ہیں جن کے اندر اسررِ حیات اور اسرار معرفت موجزن ہوتے ہیں، وہ ان اسرار کی وسعتوں کو لفظوں میں مقید نہیں کرتے۔
ان کے اندر ان کی روح نغمگیں خاموشیوں میں بسرام کرتی ہے اور جب تم سرِ راہ چلتے چلتے یا اپنی جائے روزگار پہ اپنے دوستوں سے ملو تو اپنی روح کو آزادی دو کہ وہ تمہارے لبوں کو جنبش دے اور تمہاری زبان کو حرکت سے نوازے۔
اور نوائے یاراں کو آزادی دو کہ وہ تمہاری آواز کے دوش بدوش تمہاری سماعتوں میں پرواز کرے اور ان کا ذوقِ سماع تمہاری سماعتوں سے مل کے تمہاری آوازوں سے فیض یاب ہو۔
یہ سب اس لیے ہے کہ ان کی روح تمہاری صداقتِ قلب کو اپنی یادوں میں بسیرا کرنے کی اجازت دے، جس طرح کہ کیفِ مئے کشی مدتوں یاد رہتا ہے۔
جب کہ رنگِ مئے یادوں سے محو ہو چکا ہوتا ہے، خُم و ساغر اپنا وجود مٹی میں کھو چکے ہوتے ہیں اور خُمکدے ویران ہو چکتے ہیں۔

پھر ایک منجم کہا:
آقا! زمان کی حقتک: بھی بتا؟
اور اس نے کہا:
تم ماورائے پیمائش زماں کا حساب رکھنے کے آرزو مند ہو ؟
تمہاری تمنا ہے کہ تم کائنات سے اپنے رشتوں کو، یہاں تک کہ اپنی روح کے عمل کو بھی مقرر ساعتوں اور موسموں سے ہم آہنگ کر دو؟
اور تسلسلِ زماں جس کے بارے میں تمہارا تصور ہے کہ وہ ایسی جوئے رواں ہے، جس کے کنارے پر تم بیٹھ سکتے ہو اور اس کے آبِ رواں کا نظارہ کر سکتے ہو۔
ہاں !مگر تمہارے اندر تو ایک عظیم تر قوت ہے جو زمان و مکاں کی حدو دسے آزاد ہے، اسے ادراک ہے کہ سلسلہ حیات اپنی اصل میں زمان و مکاں کی قیود سے ماورا ہے۔
اور اسے شعور ہے کہ ساعتِ گزشتہ لمحہ موجود کی یاد ہے نقش بر آب اور ساعتِ آیندہ لمحہ حاضر کا خواب ہے۔۔۔۔بس وہم و گماں۔اور وہ عظیم تر قوت تمہارے ہی وجود میں جا گزیں ہے نغمہ جانفزا گنگناتے ہوئے، گہرے تفکر کی وادیوں میں سر گرداں۔
اس کے شعور کا اس ساعتِ اوّل سے بھی گہرا رشتہ ہے جس ساعتِ ازل میں کائنات کو مہ و انجم سے فروزاں کیا گیا۔
تم میں ایساکون ہے ؟ جو یہ خیال نہ کرے کہ اسے بے پایاں محبت کی قدرت ودیعت کی گئی ہے۔
کون ہے ؟جو نہیں سمجھتا کہ گہری محبت بسیط سہی مگر وہ خود اپنے آپ میں محصور ہے۔
اور محبت کی یاد، کیا محبت کی یاد تک ہی رواں نہیں ؟
اور کیا ایک محبت کی احتیاج دوسری محبت کی احتیاج کی جانب متحرک نہیں ؟
اور کیا زماں بھی عشق کی مانند غیر منقسم بے حدو نہایت بے قرار نہیں ؟
اگر تم تصور کرتے ہو کہ تم وقت کی پیمائش موسموں سے ہی کرو، تو ہر موسم کو اجازت دو کہ وہ دوسرے سب موسموں پر محیط ہو جائے۔
آج کو یومِ گذشتہ کی حسیں یادوں سے اور روزِ آیندہ کی عظیم آرزوؤں سے ہم آغوش ہونے دو۔

اور شہر کے سربرآوردہ لوگوں میں سے ایک نے کہا:
ہمیں خیر و شر کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے جواب دیا:
میں تمہارے اندر کے خیر کے متعلق کچھ کہوں تو کہوں مگر تمہارے شر کے بارے میں کیا کہوں ؟
اور بُرا ہے کون؟
وہی جسے اس کی عَطش و جُوع نے مبتلائے کرب کر دیا ۔
ہاں !جب کسی نیک فطرت انسان کو اس کی اشتہا مجبور کر دے تو وہ اندھیرے غاروں میں بھی رزق ڈھونڈتا پھرتا ہے اور جب اس کی تشنگی اسے ستاتی ہے تو وہ غلیظ پانی بھی پی لیتا ہے۔
تم تب تو نیک ہو ہی جب تم میں اور تمہاری انا میں کامل ہم آہنگی ہے مگر جب تم اس حسنِ توازن سے محروم ہو جاو، تو بھی ضروری نہیں تم واقعی بدوں میں شامل ہو گئے۔
کوئی ایسا گھر جس کے سارے باسی آپس میں ہم آہنگ نہیں، تو کیا ضروری ہے کہ وہ چوروں کی گفّا بن جائے؟
یا کوئی ایسا گھر جس کے سارے باسی ہم آہنگ نہ ہوں، وہ جزیروں میں بے مقصد، بے جہت، بن پتوار کے جہاز تو ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ سمندر کے پاتال میں غرقاب بھی ہو جائے۔
تم نیک ہو جب کہ تم ایثارِ نفس کرتے ہو، مگر تب بھی تم زِشت خُو نہیں جب اپنی ذات کے لیے کچھ کر پانے کرنے کی جستجو کرو۔
جب تم ایسا کرتے ہو تو تم ایک جڑ کی مانند ہو جو زمین کی گہرائیوں میں پرورش پاتی ہے اس کا پھل اسے اس کے اس عمل پر طعن نہیں کرسکتا۔
وہ نہیں کہہ سکتا کہ تُو بھی میری طرح ہو جا، پکا ہوا ہوا رس بھرا۔
اور سدا کا فیاض، جو دوسروں کو خود اپنا آپ بخش دیتا ہے۔
جس طرح پھل کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو دوسروں کے حوالے کر دے اسی طرح جڑ کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ مٹی سے رزق کشید کرے۔
تم اچھے ہو جب تم مکمل بیداری کے عالم میں محوِ کلام ہو۔
مگر جب عالمِ خواب میں تم گنگناتے ہو یا تمہاری زبان لڑکھڑا جاتی ہے تو بھی یہ ضروری نہیں کہ تم بُرے ہو گئے۔
بے مقصد اور بے ارادہ کی گئی گفتگو بھی ممکن ہے کہ کسی کمزور کو تقویت دے دے۔
تم اچھے ہو اگر تم استقلال سے سوئے منزل رواں ہو ثابت قدم، مستحکم عزم کے ساتھ۔لیکن اگر تم نالاں و گریاں لنگڑاتے ہوئے سوئے منزل روانہ ہو تے ہو تو بھی تم بُرے نہیں۔
تم میں جو ثابت قدم، تیز رو ہے اسے لنگڑوں کے سامنے لنگڑا نا نہ چاہیے کہ یہی شفقت ہے اور یہی احترامِ اولادِ آدم۔
تم کارو بارِ حیات میں اکثر راست رو ہو، مگر جب تم ایسے نہیں، تو بھی ضروری نہیں کہ تم کج رو ہو گئے آرام طلب کاہل الوجود۔
آہ افسوس! کہ غزال، کچھووں کو تیز روی کی تعلیم نہیں دے سکتے مگر رفتار صرف غزالوں کے لیے ہی تو نہیں، کچھوے بھی اس میں اپنا کچھ نا کچھ حصہ ضرور پاتے ہیں۔
تمہارے وجود میں پنہاں تمہارا جذبہ خیر، جو تمہیں نفسِ عظیم کی طرف رہنمائی دیتا ہے تم سب میں موجود ہے۔۔۔۔کسی میں تیز دھارے کی صورت جو احساسِ عظمت سے غنائیت کے ساتھ سوئے دریا رواں ہے، اپنی لہروں میں دشت و جبل کے جلال و جمال کے ان کہے ان سنے بھید چھپائے ہوئے۔
اور کسی دوسرے میں یہ تمنا ایک چھوٹی سی بے نام ندّیا کی طرح ہے جو سمندروں کے اتصال سے پہلے ہی ریگِ صحرا میں اپنا وجود کھو دیتی ہے۔
اور وہ جس میں یہ تمنا موجِ دریا کی صورت ہے، اسے اجازت نہ دو کہ وہ سوال کرے کس کی آرزو خام ہے۔
کون کیوں سست رو اور لنگڑا ہے ؟
وہ جو اپنی سرشت میں نیک ہے، عریاں تن لوگوں سے سوال نہیں پوچھتا کہ تمہارا لباس کدھر ہے ؟
اور نہ ہی خانماں ویرانوں سے پوچھتا ہے کہ تمہارا گھر کیوں کر اجڑا۔

پھر ایک عابد نے سوال کیا :
ہمیں دعا و مناجات کے متعلق بھی کچھ بتا!
تو وہ بولا:
تم اکثر اوقات درد و الم میں اور آفت و ناداری میں اپنی ضرورتوں سے مجبور ہو کر دعا کرتے ہو۔
کاش! ایسا ہوتا کہ تم بہتات اور لطف و کرم کے دنوں میں بھی محوِ مناجات رہتے۔
تو اچھا!دعا ہے کیا؟دعا کشادگی ہے تمہارے اپنے وجود کی بسیط فضاؤں میں۔
اگر تم اپنی ظلمتوں کو خلائے بسیط میں انڈیل کر راحت پاتے ہو تو تمہیں اپنے انوارِ قلب کو بھی اسی طرح پھیلا دینا چاہیے۔جب تمہاری روح تمہیں دعا کی طرف پکارے تو اسے چاہیے کہ وہ بار بار تمہاری اشک فشانی کو مہمیز کرے، جب تک کہ تم اپنی مسکراہٹوں کی طرف لوٹ نہیں آتے۔
جب تم دست بہ دعا ہوتے ہو تو تم بسیط فضاؤں میں ان لاہوتیوں سے ملتے ہو جو عین اسی لمحے محوِ مناجات ہوتے ہیں وہ کہ جن کی پناہ گاہ دعا ہے، تم انہیں اس کیف و سرمستی کے سوا کہیں نہیں مل سکتے۔
لہذا روح کی اس غیر مرئی عبادت گاہ میں تمہارا ورود کسی بھی چیز کے لیے نہیں ہونا چاہیے مگر ذوق واِنبساط اور مقدس رفاقت کے لیے۔
اگر تم دعا کے معبد میں کسی مرئی مقصد کے لیے داخل ہوتے ہو، تو وہاں تمہیں صرف تہی دست ہی پکارا جائے گا۔
اور اگر تم وہاں صرف اظہارِ عجز کے لیے داخل ہوتے ہو تو پھر تم کبھی سربلند نہیں ہو سکتے۔
ہاں اگر تم وہاں دوسروں کی شفاعت کے لیے آئے ہو، تو تمہاری دعا کا کیا مقام کہ وہ قبول کی جائے؟
ہاں ! یہی کافی ہے کہ تم اس غیر مرئی دنیا میں غیر مرئی طریقے پر آؤ۔
میں عاجز ہوں ! میں تمہیں سکھا نہیں سکتا کہ دعا کو لفظوں کا گلیم کیسے پہنایا جائے۔
وہ قاضی الحاجات تمہارے لفظوں کو نہیں سنتا جب تک کہ وہ خود انہیں طریق تکلم سے آشنا نہ کر دے اور خود انہیں تمہارے لبوں تک نہ لے آئے۔
میں قاصر ہوں ! میں تمہیں سکھا نہیں سکتا کہ دشت و دریا اور کوہ و صحرا کون سی مناجات کرتے ہیں۔
مگر تم کہ یہ کوہ و صحراو دشت و دریا سب تمہارے ہی ہیں، تم ان کی دعا کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں پا سکتے ہو۔
اگر تم رات کی خاموشیوں میں سن سکو تو تم سنو گے کہ وہ دعا کرتے ہیں :
اے ہستیِ مطلق! اے کہ تُو نے ہمارے وجود کو پیرہنِ حسن عطا کیا ہے ہمارے اندر تیرا ہی ارادہ ہے جو ہماری صفات سے منعکس ہو تا ہے۔
یہ آرزو تیری ہی آرزو ہے جو ہمیں آداب طلب سکھاتی ہے۔
تُو ہی تو ہے جو ہمیں ذوقِ جستجو عطا کرتا ہے، کہ ہماری تاریک راتیں روزِ روشن میں بدل جائیں۔
ہم تجھ سے کیا مانگیں، تُو کہ علیمِ مطلق ہے، تُو ہماری احتیاجات کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی جانتا ہے۔
تُو ہی ہماری احتیاج کا مدعا، تُو ہی اس کی طلب اور تُو ہی اس کی حکمت ہے۔
تُو کہ خود کو ہمیں دے ڈالتا ہے تو گویا سب کچھ عطا کر دیتا ہے۔

اور پھر ایک گوشہ نشیں، جو شہر میں سال بھر میں صرف ایک بار ہی آیا کرتا تھا، آگے آیا اور کہنے لگا:
ہمیں مسرت و اِنبساط کے متعلق بھی کچھ بتا!
اور اس نے جواب دیا:
اِنبساط نغمہ آزادی ہے۔
مگر یہ خود اپنے آپ میں آزادی نہیں۔
یہ تمہاری آرزوؤں کے غنچے کی چٹک ہے، یہ ان کا حاصل نہیں۔
یہ تو اس نشیب کی مانند ہے جس سے زندگی کے فراز کی راہیں دکھائی دیتی ہیں۔
مگر یہ بجائے خود پست و بلند نہیں۔
یہ تو قیدی پرندے کا پرِ پرواز ہے، جو پھڑ پھڑاتا تو ہے لیکن لذتِ پرواز سے یکسر محروم رہتا ہے۔
یہ بسیط فضائے پرواز نہیں۔
اور حقیقت تو یہی ہے کہ بس یہی کچھ نغمہ آزادی ہے۔
اگر تم سرورِ قلب کے ساتھ نغمہ سرا ہوتے ہو تو میں بھی تمہارے ساتھ شادماں ہوں۔
مگر میری یہ تمنا نہیں کہ تم زندگی کی سب امنگیں اور ساری آدرشیں اسی نغمے کی لے میں کھو دو۔
تم میں سے کچھ جوان ایسے ہیں جو ہمیشہ عیش کے جویا ں رہتے ہیں کہ یہی ان کے لیے سب کچھ ہے اور اُ ن کو سرزنش کی جاتی ہے۔
میں نہ تو ان کی تضحیک کروں گا اور نہ ہی کوئی سرزنش۔
میری یہ تمنا ہے کہ وہ اس کی آرزو کرتے رہیں۔
کیونکہ وہ مسرت کو تنہا نہ پائیں گے، اس کی سات بہنیں اور بھی ہیں۔
اور جو اُن میں حسن میں کم تر ین ہے وہ بھی مسرت سے زیادہ حسین ہے۔
اور کیا تم نے ایسے شخص کے بارے میں کچھ نہیں سنا، جس نے جڑ یں کھودیں اور خزانہ پا لیا۔
اور تم میں سے کچھ معمر لوگ مسرت کو یاد کرتے ہیں ملال و پشیمانی کے ساتھ۔
گویا انہوں نے نشہ مئے میں کچھ غلط کیا تھا۔
اور ملال دل کا حقیقتِ پارینہ سے محجوب ہونا ہی تو ہے۔
یہ تو کوئی سزا نہیں۔
انہیں تو اپنی مسرت کو احسان مندی کے جذبے اور احساسِ تشکر کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔
جیسے کہ گرمیوں میں شکر کے ساتھ فصل سمیٹتے ہیں۔
اگر وہ آزردگیِ خاظرسیہی آرام پاتے ہیں تو پھر انہیں اسی طرح آرام پانے دو۔
اور تم میں کچھ ایسے بھی ہیں جو نہ تو جوان ہیں کہ تسخیرِ مسرت کی آرزو کریں اور نہ ہی عمر رسیدہ کہ عیشِ رفتہ کی یاد سے دل کو بہلا لیں۔
ان کا خوف انہیں اُس کی طلب سے اور اس کی یاد سے کنارا کش رہنے پہ مجبور کرتا ہے۔
ان کا یہ ترک عیش کی اک صورت ہی تو ہے۔
وہ کپکپاتے ہاتھوں سے جڑ کھودتے ہیں اور خزانہ پا لیتے ہیں۔
تم میں سے کون ہے جو اپنی روح کو اِنبساط سے محروم اور تشنہ کام رکھے؟
کیا بُلبُل رات کی خاموشیوں کو اپنے نغموں سے اور کرمکِ شب تاب ستاروں کو اپنی تابانی سے محروم رکھتے ہیں۔
اور کیا تمہارے شعلے کا دھواں ہوا کو بوجھل کر سکتا ہے ؟
کیا تم تصور کرتے ہو کہ روح ایک جوہڑ ہے، رکا ہوا ساکن پانی، جس میں تم محض ایک شاخِ خمیدہ سے اضطراب پیدا کر سکتے ہو۔
بسا اوقات تم اپنی حصولِ مسرت کی آرزو کو اپنی ذات کے کسی خانہ تاریک میں چھپا دیتے ہو اور یقین کرتے ہو کہ تم نے اس سے نجات پائی۔
کون جانتا ہے کہ فردا لغزشِ امروز کا منتظر ہے ؟
تمہارا جسم اپنے سارے حقوق کو جانتا ہے، وہ تم سے ہر گز دھوکا نہ کھائے گا۔
تمہارا جسم مثل بَربط کے ہے اور تمہاری روح مثل بربط نواز کے۔
اور یہ تم پہ ہی منحصر ہے کہ تم اس سے نغمہ شیریں پیدا کرو یا مجہول شور و شغب۔
اب تم اپنے دل سے پوچھتے ہو کہ مسرت میں زیبا کیا ہے نازیبا کیا ہے ؟
اپنے باغوں میں جاؤ اور اپنے مرغزاروں میں جاؤ۔
وہاں تم جان لو گے کہ مگس کے لیے انتہائے مسرت یہ ہے کہ وہ لالہ و گل سے شہد کشید کرے اور ان پھولوں کے لیے انتہائے مسرت یہ ہے وہ اپنا شہد خوشی خوشی اسے عطا کر دیں۔
مگس کے لیے پھول سر چشمہ حیات ہیں۔
اور وہ، پھولوں کے لیے پیغمبرِ محبت۔
دونوں کے لیے جود و سخا اور تسلیم و رضا انتہائے اِنبساط ہے۔
اورفلیس کے رہنے والو! اپنی مسرت میں شہد کی مکھی اور گلستان بن جاو۔

اور ایک شاعر نے کہا :
آقا! حسن کا راز عیاں کر!
اس نے کہا:
تم حسن کی جستجو کہاں کرو گے اور تم اسے کہاں پاؤ گے؟
جب تک کہ وہ خود تمہاری راہ اور تمہارا رہنما نہ بن جائے۔
تم اسے لفظوں کا پیرہن کیسیپہنا سکتے ہو جب تک کہ وہ خود تمہارے کلام کے تار و پُو نہ بُنے۔
اور تم میں سے گھائل اور ستم رسیدہ کہتے ہیں :
حُسن خندہ رو اور نرم خُو ہے، وہ اُس جوان ماں کی مانند ہے جو اپنی عظمت پہ کچھ کچھ شرمائی ہوئی ہمارے درمیان چلتی ہے۔
اور مغلوبِ غضب کہتے ہیں :
نہیں وہ تو قوّت و جلال کا مظہر ہے۔
طوفانِ باد و باراں کی مانند وہ ہمارے نیچے کی زمین اور سر پہ آسمان کو ہلا ڈالتا ہے۔
اور درماندہ راہ کہتے ہیں :
حُسن ایک مدھم سرگوشی ہے، جو ہماری روح میں سرسراتی ہے۔
اس کی آواز ہماری خاموشیوں کو مدھم مدھم روشنیاں عطا کرتی ہے جو سایوں کے خوف سے تھر تھراتی ہیں۔
اور مضطرب اور بے چین لوگ کہتے ہیں :
ہم نے اُس کی چیخ پکار پہاڑوں میں سنی ہے۔اور اس کی چیخ کے ساتھ گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز بھی آتی ہے اور موت کے پروں کی پھڑپھڑا ہٹ بھی اور شیروں کی گرج بھی۔
اور رات کو بستیوں کے محافظ کہتے ہیں :
وہ صبحِ صادق کے ساتھ مشرق سے طلوع ہو گا۔
مشقت اٹھانے والے مزدور اور رستوں کے مسافرگرم دوپہروں میں کہتے ہیں :
ہم نے آسمان کے دریچے سے غروبِ آفتاب کے ساتھ اس کی ایک جھلک دیکھی ہے۔
اور سرما میں برف باری کے ستائے ہوئے مجبور لوگ کہتے ہیں :
وہ بہاروں میں پہاڑوں پہ چہل قدمی کرتے ہوئے آئے گا۔
اور گرما کی شدت میں فصل کاٹنے والے کہتے ہیں :
ہم اسے خزاں رسیدہ پتوں کے ساتھ رقصاں دیکھ چکے ہیں ہم نے اس کے بالوں میں برف کے سفید گالے بھی دیکھے تھے۔
یہ سب باتیں تم حُسن کے بارے میں کہتے ہو اور اصل تو یہ ہے کہ تم ایساصرف اپنی ضرورتوں کے بارے میں ہی کہتے ہو۔
اور حُسن کوئی ضرورت نہیں وہ عنایت ہے اور غایت اِنبساط ہے۔
یہ کوئی تشنہ لب یا خشک حلق نہیں۔
اور نہ ہی یہ کسی گدا کا دستِ تہی ہے جو ہوسِ طلب میں پھیلتا ہے۔
ہاں ! مگر ایک دل، جو گرم جوش ہے اور ایک روح، جو لبھاتی ہے۔
یہ کوئی مرئی نقشِ تصور نہیں جسے تم دیکھ سکو اور نہ کوئی نغمہ ہے جسے تم سن پاو۔
یہ تو ایسا نقشِ تصور ہے جسے تم اپنی بند آنکھوں سیہی دیکھ سکتے ہو اور ایسا نغمہ راحت ہے جسے تم اپنی بند سماعتوں سے ہی سن سکتے ہو۔
یہ وہ جھاگ نہیں جسے جہاز سمندر میں اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور نہ یہ کوئی پر ہے جو عقاب کے پنجے میں جکڑا ہوا ہو۔
یہ تو ایک باغ ہے جس میں سدا شگوفے پھوٹتے ہیں اور فرشتوں کا غول ہے جو سدا محوِ پرواز رہتا ہے۔
اورفیلس کے لوگو! حُسن زندگی ہے جب وہ اپنے مقدس چہرے کو بے نقاب کر دے۔
اور تم ہی زندگی ہو اور تم ہی اس کا نقاب۔
حُسن ابدیت ہے جو آئینے میں خود کو دیکھتا ہے۔
اور تم ہی ابدیت ہو اور تم ہی اس کا آئینہ۔

پھر ایک بوڑھے راہب نے کہا:
ہمیں مذہب کے بارے میں بھی کچھ بتا!
اور اس نے کہا:
تو کیا آج کے دن میں نے تم سے سوائے مذہب کے بھی کچھ کہا؟
تمہارے سب اعمال اور تمہارے تمام خیالات کا عکس، کیا وہ تمہارا مذہب نہیں ؟
اور وہ بھی جو اِن سے ماورا ہے کیا مذہب کے حدوں سے باہر ہے ؟
تمہاری روح میں کونپل کی مانند پھوٹنے والی حیرت جب کہ تمہارے ہاتھ سخت چٹانیں کاٹتے ہیں یا اپنے لباس کے لیے سوت کاتتے ہیں۔کیا یہ سب مذہب سے علاحدہ کچھ ہے ؟
کون ہے جو اپنے ایمان کو اپنے جادہ عمل سیالگ کرسکے؟
کون ہے جو اپنے عقیدوں کو سلسلہ روزگار سے الگ کر کے دیکھ سکے؟
کون ایسا ہے ؟جو اپنے سلسلہ شب و روز پر گہری نگاہ کرے اور فیصلہ دے، کہ یہ وقت خدا کے لیے ہے، یہ میری ذات کے لیے، یہ میرے نفس کے لیے اور یہ میری روح کا حصہ ہے اور باقی ماندہ میرے جسم کا۔
سلسلہ روز و شب تو اُن پَروں کی مانند ہے جو ذات سے ذات تک، روح سے روح تک پھڑپھڑاتے ہیں۔
اور وہ جو اپنے اخلاقِ عالیہ کو لباس کی صورت پہنتا ہے، کیا ہی بہتر ہو کہ وہ ننگا ہی رہے۔
ہوا کی تُندی اور سورج کی شعاعیں اس کی جلد کو پھاڑ ڈالیں۔
اور وہ جو اپنے اطوار کو کسی خاص اصول کے تابع کر دے تو یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اس نے کسی نغمہ سنج پرندے کو قید کر دیا۔
آزاد الوہی نغمے قفس کے طاقوں اور تیلیوں سے تو پیدا نہیں ہوتے۔
اور ایسا انسان جس کے لیے عبادت محض ایک دریچہ ہے کھولنے کے لیے اور بند کرنے کے لیے، اس نے اپنی روح کے معبد کی زیارت کی ہی نہیں وہ معبد جس کے دریچے افق تا افق کھلتے ہیں۔
تمہارا عمومی طرزِ حیات ہی تمہارا معبد اور تمہارا مذہب ہے۔
اور جب تم اس میں جاؤ تو اپنے ساتھ اپنا ہل، اپنی قوتِ اِختراع، اپنا عصا اور اپنا بربط، سب لے جاؤ، وہ سب کچھ جسے تم نے رواج دیا، جسے تم نے اپنایا ہے، اپنی ضرورت کے لیے یا اپنی مسرت لیے۔
اس دنیا میں اس عالمِ محویت میں، نا تو تم اپنی کامرانیوں سے بلند تر ہو سکتے ہو اور نہ اپنی ناکامیوں سے پست تر۔
اور اپنے ساتھ سب لوگوں کو بھی لے جاو، کیونکہ تم عشق و تعظیم کی سرزمین میں ان کی امیدوں سے زیادہ بلند پرواز نہیں ہوسکتے اور نہ ان کی مایوسیوں سے پست تر گر سکتے ہو۔
اگر تم محبوبِ ازل کو پہچاننا چاہتے ہو تو سخنِ مبہم کے تجزیے مت کرو۔
اپنے گردا گرد دیکھو تم اسے ننھے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پاؤ گے اور آسمانوں میں اسے بادلوں میں اڑتا ہوا دیکھو گے۔
اور بجلی کی چمک میں اسے اپنے بازو پھیلائے ہوئے اور باد و باراں میں اسے زمین پہ نازل ہوتا ہوا دیکھو گے۔۔۔۔تم اسے خندہ گل میں پاؤ گے اور لہلہاتی شاخوں میں اپنے بازو ہلاتے ہوئے بھی دیکھو گے۔
وہ تم سے دور نہیں۔
پھر المیترا بولی:
ہم پہ سرِ مرگ عیاں کر!
اور اس نے کہا:
تم سرِ مرگ سے آشنا ہونے کے آرزو مند ہو؟
مگر تم اسے کیسے پا سکتے ہو؟ جب تک کہ تم قلبِ حیات میں اس کی جستجو نہیں کرتے۔
وہ مجبور الّو جس کی آنکھیں صرف رات کی تاریکی میں ہی دیکھ سکتی ہیں اور دن میں اندھی ہو جاتی ہیں، وہ روشنی کے معجزے کو بے نقاب نہیں دیکھ سکتیں۔
موت ایک روشنی ہے۔
اگر تم واقعی موت کے راز کو جاننے کے آرزو مند ہو تو اپنے دل کو وجودِ حیات کی آخری حدوں تک وسعت دو۔۔۔۔کیونکہ زندگی اور موت دونوں کی اصل ایک ہی ہے۔
ایسے ہی جیسے کہ ندّی اور سمندرکی اصل ایک ہی ہے۔
تمہاری امیدوں اور آرزوؤں کی گہرائیوں میں تمہارا علم، جو ماورا کے متعلق ہے محوِ خواب ہے۔وہ ان بیجوں کی مانند ہے جو سالہا سال برف کی تہ میں دبے پو ری آرزو کے ساتھ حیاتِ نو کے خواب دیکھتے ہیں۔
اپنے خوابوں پہ اعتبار کرو کیونکہ انہی میں ابدیت کا دروازہ کھلتا ہے۔
موت سے تمہارا خوف ایسا ہی ہے جیسے کہ ایک چرواہے کی کپکپی جب کہ وہ بادشاہ کے حضور دست بستہ کھڑا ہوتا ہے۔
بادشاہ اس کی اس کی اس ہچکچاہٹ کو جان کر اپنا دستِ شفقت اس کے سر پہ رکھتا ہے۔
تو کیا اس کی تھر تھراہٹ میں یہ مسرت اور تسکین نہیں ہوتی کہ وہ کچھ دیر کے بعد بادشاہ کا عطا کیا گیا خِلعت زیبِ تن کرے گا؟
اور کیا وہ اپنی کپکپی پہ بھی مسرور نہیں ہوتا۔
موت ہے کیا؟ ہوا میں عریا ں تن کھڑا ہو جانا تاکہ آفتاب کی تمازت اسے پگھلا دے۔
اور سانسوں کا ترک ایسے ہی ہے جیسے کہ سانسیں اپنی آمد و رفت کی قیود سے آزاد ہو کر وسعتیں اور فراخیاں پا جائیں اور آزادی کے ساتھ خدا کی طلب کریں۔
اور اس لمحے میں جب کہ تم ابدی خاموشی کے بحرِ بے نہایت سے سیراب ہو گے، تب تمہاری روح واقعی نغمہ سرا ہو گی۔
اور جب تم زندگی کے پہاڑ کی چوٹی کو سر کرو گے تو تم بلندیوں کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر و گے۔
اگر تم نے موت کے راز کو پا لیا، تو جب زمین تمہارے جسم پہ اپنا حق جتائے گی تب تم رقص کناں ہوں گے۔

اب شام ہو گئی تھی۔
اور المیترا جو روشن ضمیر تھی کہنے لگی :
مقدس ہے یہ دن اور مقدس ہے یہ مقام اور مقدس ہے تیری روح جس نے ہم سے کلام کیا۔
اور اس نے کہا :
تو کیا ایسا تھا کہ میں کلام کرنے والا ہی تھا؟
کیا میں سننے والا بھی نہ تھا؟
تب وہ معبد کے زینوں سے اتر آیا اور اور اپنے جہاز کی جانب چلا، سب لوگوں نے اس کی تقلید کی۔
اور وہ اپنے جہاز پہ جا پہنچا اور اس کے عرشے پہ کھڑا ہو گیا۔
اس نے لوگوں کو پھر ایک بار محبت سے دیکھا اور اس نے انہیں دوبارہ مخاطب کیا:
اورفیلس کے لوگو! ہوا مجھے حکم دیتی ہے کہ میں اب تمہیں وداع کہوں۔
اگر چہ میں ہوا سے کچھ کم ہی شتاب کار ہوں لیکن بہر حال مجھے جانا تو ہے۔
ہم جیسے مسافر جو سدا ویرانوں کی جستجو کرتے ہیں، ہم کہ ہمارا ایک دن جہاں تمام ہوتا اسی مقام سے ہمارے دوسرے دن کا آغاز نہیں ہوتا۔
اور طلوعِ سحر ہمیں کبھی بھی اس مقام پر نہیں پاتی جہاں ہم نے غروبِ آفتاب کا منظر دیکھا ہو۔۔۔۔حتیٰ کہ جب اہلِ جہاں مستِ خواب ہوتے ہیں تو بھی ہم اپنی راہوں پہ محوِ سفر رہتے ہیں۔
ہم کہ سخت جان پودوں کے بیج ہیں، تو ہماری بقا اسی میں ہے اور ہماری آرزو بھی یہی ہے کہ ہم خود کو ہواؤں کے حوالے کر دیں، ہوا کے دوش پر خود کو بکھرنے دیں۔
قلیل تھا وہ وقت جو میں نے تم میں بسر کیا۔
اور قلیل تر تھے وہ الفاظ جو میں نے تم سے کہے۔
اگر میری آواز تمہاری سماعتوں میں محض ایک چبھتا ہوا خیال بن کے رہ گئی یا میری محبت تمہاری یاد سے محو ہونے لگے تو میں پھر لوٹ کے آؤں گا۔
مسرور دل اور آرزو مند روحوں کے لیے، اسرارِ ہستی کو فاش کرتے ہوئے لبوں کے ساتھ میں پھر تم سے کلام کروں گا۔
ہاں ! میں سمندر کی لہروں پہ واپس لوٹوں گا۔
خواہ موت مجھے اپنی آغوش میں چھپا لے اور گہرا سکوت مجھے اپنے پروں میں بھینچ لے۔
میں پھر بھی تمہارے شعور میں سمانے کی جستجو ضرور کروں گا۔
اور مجھے یقین ہے کہ میری جستجو ناکام یاب نہ ہو گی۔
میں نے تم سے جو کچھ بھی کہا، اگر اس میں صداقت موجود ہے تو وہ صداقت خود کو تم پر پہلے سے زیادہ صاف آواز میں آشکار کرے گی۔
اور اس کے لفظوں کا تمہارے تصورات سے زیادہ مضبوط رشتہ ہو گا۔
اورفیلس کے لوگو! میں ہوا کے ساتھ جاتا ہوں لیکن فنا کے خلا میں نہیں بلکہ زندگی کی وسعتوں میں۔
اگر آج کا دن تمہاری ضرورتوں کی تسکین نہیں کرتا اور تم سے میری محبت کو کمال تک نہیں پہنچاتا تو پھر اس دن کو کسی اور دن میں میرے آنے کا وعدہ سمجھو!
انسان کی ضرورتیں بدلتی ہیں مگر اس کی محبت کبھی نہیں بدلتی۔
اور نہ اس کی یہ آرزو بدلتی ہے کہ اس کی محبت اس کی ذات کی تکمیل کرے۔
اس لیے جان لو! میں گہری خاموشیوں سے اور عظیم تر تنہائیوں سے پھر تمہاری طرف ضرور لوٹوں گا۔
دھند جو سپیدہ سحر کے ساتھ ہواؤں میں تحلیل ہو جاتی ہے اور لالہ زاروں میں اوس کے قطرے چھوڑ جاتی ہے اور آسمانوں کی بلندیوں پر بادلوں کا روپ دھارتی ہے تو پھر وہ بارش کی صورت دوبارہ زمین کی مٹّی ہی سے آ ملتی ہے۔
کیا میں اُس دھندکی مانند نہیں ؟
تاریک راتوں میں، میں تمہارے شہر میں کوچہ گردی کرتا رہا۔
میری روح تمہارے خانہ ہائے آباد کا طواف کرتی رہی۔
اور تمہارے دلوں کی دھڑکنیں میرے دل کی دھڑکنوں میں سماتی رہیں۔
میں نے تمہاری سانسوں کو اپنے چہرے پہ بارہا محسوس کیا۔
ہاں ! میں تم سب سے آشنا ہوں۔
مجھے تمہارے غموں کا اور تمہاری مسرتوں کا ادراک ہے۔
اور تمہاری نیندوں میں جو خواب تھے وہ میرے ہی خواب تھے۔
اور بسا اوقات میں تمہارے درمیان ایسے ہی تھا جیسے کہ پہاڑوں کے بیچ جھیل لبریز روشن روشن۔
میں نے تمہارے کمال و زوال کو آئینہ دکھایا۔
اور تمہارے تصور کے اڑتے ہوئے گالوں کو اور تمہاری آرزوؤں کے پرّوں کو بھی تم پہ افشاں کیا۔
میری خاموشیوں میں تمہارے بچوں کے قہقہے زندگی کی پوری رعنائیوں اور توانائیوں کے ساتھ گونجے۔
اور تمہارے جوانوں کی امنگیں پُر شور دریا کی مانند میری خاموشیوں میں در آئیں۔
وہ میری ذات کی پہنائیوں میں اتریں اور نغمگیں ہو گئیں۔
مگر میرے لیے ان قہقہوں سے شیریں تر اور ان امنگوں سے محبوب تر تمہاری ذات کی لامتناہیت ہے۔
اور اِس وجود میں تمہاری حیثیت تو صرف مٹھی بھر گوشت پوست کی ہے۔
وہ وسعتِ بے کراں جس میں تمہارے سب گیت محض ایک بے آواز ارتعاش کے سوا کچھ نہیں۔ وہ وہی وجود بے نہایت ہے جس میں سما کے تم بھی بے نہایت ہو جاتے ہو۔
اس کے اندر میں نے تمہاری ذات کا مشاہدہ کیا اور تم سے محبت کی ہے۔
اور محبت اس کی وسعتوں میں داخل ہونے کے لےی کتنا فاصلہ طے کرتی ہے ؟
کون سا تصور، کون سی تمنا اور کون سی امید اس کی پرواز سے زیادہ بلند بال ہو سکتی ہے ؟
بالا قد بلوط کی مانند بیلوں سے ڈھکا ہوا وہ وجودِ لا انتہا تم میں موجود ہے، اس کی طاقت مٹّی سے تمہارا رشتہ قائم رکھتی ہے اور اس کی خوشبو تمہاری ذات کو فضاؤں میں بلند کرتی ہے اور اس کا استقلال تمہیں ابدیت کی سرحدوں تک لے جاتا ہے۔
تمہیں کہا گیا کہ تم زنجیر کی کمزور ترین کڑی کی مانند کمزور ترین ہو۔
مگر یہ تو آدھی صداقت ہے۔
تم اس طرح مضبوط بھی ہو جس طرح زنجیرِ حیات کی مضبوط ترین کڑی۔
تمہاری چھوٹی سی کمزوری سے تمہیں پرکھنا ایسا ہی ہے جیسے کہ سمندر کی جھاگ کی نزاکت سے اس کی قوت و جبروت کا اندازہ کرنا۔
تمہاری ناکامیوں سے تمہیں جانچنا گویا تمہاری ناکامیوں کے عدم پر بقا کا گمان کرنا ہے۔
تم سمندر کی مانند ہو۔
اگرچہ تمہارے ساحلوں پہ بڑے بڑے جہاز مدّ و جزر کے منتظر رہتے ہیں مگر بڑے سمندروں کی مانند تم اپنے مدّ و جزر کو پیدا کرنے سے قاصر ہو۔
اور تم موسموں کی مانند بھی ہو۔
اگرچہ تم سرما میں اپنی بہار کا انتظار کرتے ہو جب کہ وہ تمہارے اندر استراحت کرتی ہے اور عالمِ غنودگی میں مسکان اس کے لبوں پہ کھیلتی ہے۔
وہ دوسرے موسموں پہ دست اندازی کر کے انہیں نا خوش نہیں کرتی۔
ہاں ! مت سوچو کہ میں جو باتیں تم سے کہہ رہا ہوں وہ اس لیے ہیں کہ تم میرے بعددوسروں سے کہو۔
دیکھو اس نے ہماری بے پناہ تعریف کی اور اس نے ہمارے اندر صرف خیر ہی خیر دیکھا۔
میں تم سے صرف وہی کچھ کہتا ہوں جو تم اپنی ذات کی گہرائیوں میں چھپائے بیٹھے ہو۔
اور لفظوں کی وساطت سے دیا گیا علم ہے کیا؟ سوائے اس کے کہ وہ اس حکمت کا پر تو ہے جو لفظوں سے ماورا ہے۔
تمہارے تصورات اور میرے الفاظ تو محض اس حافظے کی لہریں ہیں، جو ہمارے ماضی کو محفوظ کرتی ہیں۔
ماضی وہ زمانہ وہ عہدِ عتیق کہ جب زمین نہ ہمیں جانتی تھی اور نہ خود اپنے آپ کو اور وہ راتیں کہ زمین فطرت کی بے ترتیبیوں میں آوارہ و سرگرداں تھی۔
اہل دانش اس سے پہلے بھی تمہارے پاس آئے تاکہ تمہیں اپنے فہم و تدبر سے کچھ عطا کریں مگر میں تو تم سے حکمتِ زیست کے آداب سیکھنے آیا تھا اور میں نے تم سے وہ پایا جو ہر دانش سے بالا ہے۔
اور وہ تمہارا شعلہ روح ہے، جو خود اپنے وجود سے بھی زیادہ کچھ سمیٹے ہوئے ہے۔
جب تم اس کی کشادگی سے غافل اپنے ایام کی پژمردگی کا ماتم کرتے ہو تو کیوں بھول جاتے ہو کہ یہ حیات قدیم ہی تو ہے جو اجسامِ نو میں حیاتِ نو کی جستجو کرتی ہے، وہ اجسامِ نو جو خوفِ لحد سے لرزاں و ترساں ہیں۔
لیکن یہاں تو کوئی لحد نہیں۔
یہ وادیاں یہ پہاڑ تو گہوارے ہیں اور سنگِ راہ ہیں، ابدیت کی منزلوں کے۔
جب کبھی تم ان میدانوں سے گزرو جہاں تمہارے آبا و اجداد کے مقابر ہیں تو تم غور کرو۔
تب تم دیکھو گے کہ تمہارے اپنے نفوس اور تمہاری اولادیں ہاتھوں میں ہاتھ دیے رقصاں ہیں اور تم کبھی کبھی اپنی لاعلمی میں بھی خوشیاں مناتے ہو۔
تمہارے پاس کچھ اور لوگ بھی آئے۔
جنہوں نے تمہیں سنہری خواب دکھائے، وہ تمہارے لیے بہت سے وعدے لائے اور یوں وہ تمہارے ایمان پر قابض ہوئے۔
تم نے اپنی امارت، اپنی قوت اور اپنی عظمت ان کے حوالے کر دی۔
میں نے تمہیں کسی وعدے سے بھی کم دیا اور تم مجھ پہ اس سے زیادہ مہربان ہوئے۔
تم نے مجھے ما بعدِ حیات کی گہری تشنگی عطا کی۔
یقیناً اس سے عظیم تر تحفہ کسی کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتا جو اس کے تمام مقاصد کو خشک لبوں میں اور اس کی حیات کو چشمہ رواں میں بدل دے۔
اور یہی میری تکریم ہے اور یہی میرا انعام ہے۔
جب بھی میں اس ندّی پر اپنی تشنگی کو سیراب کرنے کے لیے آتا ہوں تو اس کے آبِ رواں کو خود سے بھی زیادہ پیاسا پاتا ہوں۔
وہ مجھے سیراب کرتا ہے اور میں اسے سیراب کرتا ہوں۔
تم میں سے کچھ لوگوں نے مجھے تحفہ لینے کے معاملے میں شرمیلا اور متکبر تصور کیا۔۔۔۔میں واقعی متکبر ہوں، جب اجرت کی بات ہو، مگر تب نہیں جب کوئی تحفہ عنایت کرے۔
میں نے پہاڑوں میں پیلو اور گوندنی کے پھلوں پہ گزران کی۔
جب کہ تم نے خواہش کی تھی کہ میں تمہارے دسترخوان پہ تمہارے ساتھ اکل و شرب کا لطف لوں۔
اور میں معبد کی پیش گاہ میں سویا، جب کہ تم بصد اشتیاق مجھے اپنے گھروں میں پناہ دینے پہ آمادہ تھے۔
یہ تمہاری محبت ہی تو تھی جس نے میرے روز و شب کو مسرور کیا اور اس مسرت نے میرے رزق کو شیریں تر بنا دیا اور میری نیندوں کو خواب دیکھنا سکھایا۔
میں تمہارا بے حد بے حساب ممنون ہوں۔
تم نے مجھے بہت کچھ عطا کیا اور نہ جانا کہ تم نے مجھ پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو نیکی آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہے آخر کار پتھر ہو کے رہ جاتی ہے۔
اور وہ بھلائی جس کی یہ آرزو ہو کہ اسے شگفتہ شگفتہ ناموں سے پکارا جائے، آخر کار اس کے گربھ سے وبال جنم لیتا ہے۔
تم میں سے کچھ لوگوں نے مجھے بے نیاز اور خلوت نشیں کہا اور خودمست بھی۔
اور تم نے یہ بھی کہا :
وہ تو جنگل کے بیل بوٹوں سے مشاورت کرتا ہے، وہ انسانوں کو اس کے قابل نہیں سمجھتا۔
وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پہ بیٹھتا ہے اور وہاں سے ہمارے شہر کو نظرِ حقارت سے دیکھتا ہے۔
ہاں ! یہ صداقت ہے کہ میں پہاڑوں پہ چڑھا اور میں نے دور دراز جگہوں کی سیاحت کی۔
میں تمہاری ہستی کی حقیقت کو کیسے دیکھ پاتا اگر میں تمہارا مشاہدہ عظیم بلندیوں اور دور دراز فاصلوں سے نہ کرتا۔
کوئی کیسے قرب کے عیش کو سمجھ سکتا ہے جب تک کہ وہ دردِ ہجراں سے آشنا نہ ہو۔
تم میں سے کچھ لوگوں نے مجھے پکارا مگر لفظوں میں نہیں اور انہوں نے کہا :
او اجنبی! نا قابلِ حصول سربلندیوں کے جویا!تو کیوں بلندیوں کو اپنا مسکن بناتا ہے۔
تُو کیوں اس کی طلب کرتا ہے جس تک رسائی ممکن ہی نہیں۔
تُو کس طوفان کو اپنے دام میں پھانسنے کا آرزو مند ہے ؟
تُوکس ہُما کو آسمانوں میں شکار کرنے کی آرزو رکھتا ہے ؟
آ جا ہم میں سے ہو جا!
اپنی بھوک کو ہماری روٹی سے تسکین دے، اپنی پیاس کو غرقِ مئے ناب کر۔
انہوں نے اپنی روح کے گوشہ تنہائی میں یہ بات کہی۔
آ ہ کاش!ان کی اس خلوت گزینی کا کوئی عظیم مقصد ہوتا۔
کاش! وہ جان پاتے کہ میں نے جس کے لیے آہِ سرد بھری ہے، وہ تمہاری ہی آسایش اور تمہارے ہی درد و الم ہیں۔
میں تمہاری ہی انائے کبیر کا صیاد تھا جو آسمان کی رفعتوں میں محوِ پرواز ہوتی ہے۔
مگر صیاد خود صیدِ زبوں بھی تھا۔
میرے بہت سے تیر میری ہی کمان سے نکلے اور میرے ہی سینے میں ترازو ہو گئے۔
ہواؤں میں اڑنے والا پتنگا زمین میں رینگنے والا کیڑا بھی بنا۔
جب میرے شہپرِ پرواز آسمان پر دھوپ میں پھیلے ہوتے تھے تو میرا سایہ زمین پر کچھوے کی مانند رینگتاتھا۔
اور میں صاحبِ ایمان، متشکک بھی تھا۔
اکثر اوقات میں نے اپنے ناخنوں سے اپنے زخم کریدے، تاکہ تم پہ میرا بھروسہ پختہ ہو سکے، میں تمہیں خوب جان پاوں۔
اور اسی ایقان، اسی علم اور اسی بھروسے پر میں کہتا ہوں تم اپنے جسموں میں مقید نہیں ہو، نہ ہی اپنے گھروں اور کھلیانوں تک محدود ہو۔
تمہاری ذاتِ معنوی جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسرام کرتی ہے اور ہواؤں کے دوش پر مستِ پرواز ہوتی ہے، وہ ایسی فرو مایہ نہیں جو تمازت کے لیے دھوپ میں رینگے اور پناہ کے لیے اندھرپوں میں بل کھودتی پھرے۔
بلکہ وہ آزاد ہے۔۔۔ ایک ایسی روح جو زمان و مکاں پر محیط ہے اور ہر لحظہ متحرک ہے۔
اگر میرے یہ الفاظ غیر معین اور غیر واضح ہیں تو پھر ان کی شرح مت چاہو۔
مبہم اور غیر معین صورت ہر چیز کی ابتدا ہے۔۔۔۔ وہ اس کا انجام نہیں۔
میری تمنا ہے کہ تم مجھے ابتدا کے طور پہ یاد رکھو۔
حیات اور سب ذی حیات مبہم دھندلکوں ہی سے ظہور میں آتے ہیں، واضح اور شفاف سے نہیں۔
اور کون جانتا ہے کہ جو واضح او رمعین ہے اپنے ایامِ زوال میں مبہم دھندلکا ہی تو ہے۔
میری آرزو ہے کہ تم جب مجھے یاد کرو تو یہ بھی یاد کرو کہ تمہارے وجود میں جو عنصر ضعیف و ناتواں ہے، وہی اپنی اصل میں پختہ تر اور مضبوط تر ہے۔
یہ تمہاری سانس ہی تو ہے جو تمہیں تقویت دیتی ہے اور تمہاری ہڈیوں کو مضبوط کرتی ہے اگرچہ ظاہر میں وہ بے حیثیت ہے۔
اور کیا وہ اک خواب نا تھا؟جسے تم میں سے کسی خواب دیکھنے والے نے اپنی آنکھوں میں بسا یا اور اسے یاد رکھا، وہ سب کچھ جو تمہارے شہروں میں تعمیر ہوا، جس نے رواج پایا مضبوط اور پائیدار۔
اگر تم اپنی سانسوں کے مدّ و جزر کو سمجھ سکتے تو تم اس کے علاوہ سب کچھ دیکھنا ترک کر دیتے۔
اگر تم خوابوں کے نغمے سن پاتے تو کوئی بھی دوسری آواز تمہارے لیے قابلِ ستایش نہ رہتی۔
مگر تم دیکھتے ہو اور نہ سنتے ہو اور یہی اچھا بھی ہے۔
وہ پردہ جو تمہاری نگاہوں پہ پڑا ہے اسے وہی اٹھائے گا جس نے اسے بُنا۔
وہ مٹّی جو تمہارے کانوں میں بھری ہے اسے وہی پوریں نکالیں گی جنہوں نے اسے گوندھا تھا۔
اور تم دیکھو گے۔
اور تم سنو گے۔
تب تم اپنے اندھے پن کو جان کر متاسف نہ ہو گے۔
اور نہ تمہیں اپنے بَہرے پن کا ملال ہو گا۔
اس وقت تم تمام چیزوں کے پنہاں مقاصد کو جان جاؤ گے۔
اور تم ظلمتوں کے بھی ویسے ہی شکر گزار ہو گے جیسے کہ نور کے۔
یہ سب کچھ کہہ چکنے کے بعد اس نے اپنے ارد گرد دیکھا۔
اور اس نے دیکھا کہ اس کے جہاز کا ناخدا مستعد کھڑا بادبانوں کو دیکھ رہا ہے۔
اور اس نے کہا:
بہت صابر ہے اور بہت ثابت قدم ہے میرے جہاز کا نا خدا۔
ہوا چل رہی ہے اور بادبان بے قرار ہیں۔
پتوار رہنمائی چاہتے ہیں اور میرا ناخدا میری خاموشی کا منتظر ہے۔
اور میرے دریا نورد ملا ح جنہوں نے سمندر کی سماع گاہ میں اس کی لہروں کی موسیقی سنی ہے، وہ مجھے بھی صبر کے ساتھ سن رہے ہیں۔
مگر اب وہ زیادہ انتظار نہیں کریں گے۔
ہا ں ! میں چلنے کو تیار ہوں۔
ندّی سمندر سے آ ملی۔
اور پھر ماں اپنے بچے کو سینے سے لگانے کو بے قرار ہے۔
الوداع اورفیلس کے لوگو! الوداع
آج کا دن تمام ہوا یہ ہم پہ بند ہو رہا ہے جیسے کہ کنول آیندہ کل دوبارہ کھلنے کے لیے خود کو بند کرتا ہے۔
جو کچھ ہمیں یہاں ملا ہم اسے سنبھال کر رکھیں گے۔
اور اگر یہ کافی نہیں تو ہم پھر دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔
اور خدائے بخشندہ کے حضور دستِ طلب دراز کریں گے۔
مت بھولنا کہ میں دوبارہ تمہارے پاس ضرور آؤں گا۔
اک زمانے کے بعد میری آرزو میرے ایک دوسرے جسم کے لیے خاک اور جھاگ اکٹھا کرے گی۔
اک زمانے کے بعد جب میں ہواؤں کی آغوش میں آرام کر چکوں گا تو ایک اور عورت پھر مجھے اپنے گربھ سے جنم دے گی۔
الوداع! تمہیں اور الوداع اس جوانی کو جو میں نے تم میں بیتائی۔
وہ کل تھا جب ہم خواب میں ملے۔
تم نے میری تنہائیوں کو نغمگیں کیا اور میں نے آسمان میں تمہارے لیے آرزوؤں کا بلند مینار تعمیر کیا۔
اب ہماری نیند ختم ہوتی ہے اور خواب تمام اور طلوعِ سحر میں دیر نہیں۔
دوپہر ڈھلنے کو ہے، نیم بیداری کامل بیداری بن گئی اب وقتِ جدائی ہے۔
ہم یادوں کی شفق پہ پھر ملیں گے، پھر بولیں گے اور تم پھر میرے لیے مدھر مدھر گیت گاؤ گے۔
اور اگر ہمارے ہاتھ خواب میں دوبارہ ملے تو ہم پھر آسمان میں مینارہ نور تعمیر کریں گے۔
یہ کہتے ہوئے اس نے ملاحوں کو اشارہ کیا۔
انہوں نے لنگر اٹھایا اور مشرق کی جانب چل دیے۔
تب لوگوں کے دلوں سے فغاں نکلی اور دور سمندر پر تیر گئی، جیسے بانگِ دہل۔
صرف المیترا چپ تیر وہ جہاز کو تکتے چلی گئی۔
جب تک کہ وہ سمندر میں شام کے دھندلکوں میں غائب نہ ہو گیا۔
اور جب سب لوگ وہاں سے منتشر ہو گئے تو بھی وہ سمندر کے کنارے پر کھڑی ہی رہی۔
اور اس کا دل جانے والے کے الفاظ کو یاد کر رہا تھا:
’’اک زمانے کے بعد جب میں ہواؤں کی آغوش میں آرام کر چکوں گا تو ایک اور عورت پھر مجھے اپنے گربھ سے جنم دے گی۔‘‘
٭٭٭
تشکر: مترجم، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید