فہرست مضامین
- جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
- انتساب
- بچوں کے شاعر : فراغ روہوی
- حمد باریِ تعالیٰ
- نعت شریف
- دعا
- اللہ ہی اللہ
- ہمارے نبیﷺ
- نغمۂ آزادی
- اے زمینِ وطن
- جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
- جان گئی میں
- ٹیلی ویژن
- انٹرنِٹ
- تتلی
- کون ہے وہ،بتلاؤ بچو
- پہیلی
- جھٹ سے اُس کا نام بتاؤ
- بچو، ایک پہیلی بوجھو
- کون سی وہ مخلوق ہے،بولو
- اُس کا نام بتاؤ بچو
- رنگ گناؤ، نام بتاؤ
- رباعیات
- دوہے
- کہہ مکرنیاں
- ماہیے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
(شاعری برائے اطفال)
فراغ روہوی
انتساب
فاطمہ
صدف
آفرین
درخشاں
صالحہ
شہیر
تمھارے لیے
ہم رنگِ جنوں سے ہستی کی تصویر بدل دیں گے اک دن
تدبیر و عمل سے دنیا کی تقدیر بدل دیں گے اک دن
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
بچوں کے شاعر : فراغ روہوی
آئیے بچو، سب سے پہلے ہم اس کتاب کے شاعر یعنی آپ کے فراغ چاچا کے بارے میں کچھ بتا دیں۔ آپ کے فراغ چاچا ایک خوش فکر شاعر اور خوش مزاج انسان ہیں۔ انھوں نے غزلیں، نظمیں، رباعیاں، دوہے،کہہ مکرنیاں، ماہیے اور ہائیکو بھی کہے ہیں،لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر ہیں۔ اپنے ہم عمر شاعروں میں انھیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری میں ہمیشہ نئے نئے تجربے کیے ہیں۔ وہ ایک نہایت سنجیدہ شاعر ہیں۔
ماشا اللہ،آپ کے فراغ چاچا دو برس کے بعد ۰۵ سال کے ہو جائیں گے،لیکن آج بھی ان کے اندر آپ کی طرح ایک بچہ ہمکتا رہتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ’’ کاش، ہم بھی بچے ہوتے ! ‘‘۔ آپ سب بھی یہی کہتے ہیں نا کہ ’’ جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے ‘‘ تو ڈاکٹر، انجینئر،سائنٹسٹ،وکیل اور جج بنیں گے، اظہر الدین اور کیف بنیں گے۔ آپ کے فراغ چاچا کو آپ سب سے بے حد پیار ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ سب بڑوں کی دعائیں لیں، خوب پڑھیں اور بڑے ہو کر دنیا میں نام کریں۔ اسی لیے تو انھوں نے اس کتاب کا نام ’’جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے ‘‘ رکھا ہے۔ ہے نا پیارا نام؟ اس میں نئی نئی مزے دار نظمیں بھی ہیں، رس بھری رباعیاں بھی، کھٹے میٹھے دوہے بھی،چٹ پٹی کہہ مکرنیاں بھی اور شوخ چلبلے ماہیے بھی ہیں۔
اور ہاں بچو، فراغ چاچا پہیلیاں بھی خوب بجھاتے ہیں۔ آپ نے حضرت امیر خسروؒ کی پہیلیاں توسنی یا پڑھی ہوں گی۔ آپ کے فراغ چاچا بھی اپنی پہیلیوں میں انھی کی پیروی کرتے ہیں۔ آپ کو یقیناً ان کی پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں سے لطف آئے گا۔ سنیے بچو، آپ کے فراغ چاچا کیا پہیلی بجھا رہے ہیں : ’’سال میں اک دن آتا ہے وہ / لچھے،سویّاں لاتا ہے وہ ‘‘ کیا کہا، اس کا جواب آپ جانتے ہیں، واقعی، آپ ذہین ہیں !‘‘ لیکن بچو، ان پہیلیوں کو اگر آپ نظم کی صورت میں پڑھیں گے تو اور بھی مزہ آئے گا۔ اور ہاں، ان کی نظموں میں جدید معلومات کا خزانہ بھی ہے ۔ٹیلی ویژن،انٹرنِٹ،موبائل اور کمپیوٹر پر بھی انھوں نے بے حد دلکش نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی رباعیوں میں جہاں شوخی اور ظرافت ہے وہیں آپ کے کردار کو سنوارنے کے لیے سبق آموز باتیں بھی ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ آپ اچھی اولاد،اچھے بھائی بہن، اچھے پڑوسی اور اچھے شہری بنیں گے۔
اور ہاں ! بچو، آپ نے بندر کی برات میں کبھی مور کو ناچتے دیکھا ہے ؟ نہیں دیکھا ہے نا؟، اچھا، بتائیے کبھی شیر ببر کو پان کھاتے دیکھا ہے ؟ نہیں دیکھا ہے نا؟، مگر آپ کے چاچا فراغ نے تو دیکھا ہے ‘‘ یقین نہیں آتا،تو ان کے دوہے پڑھ کر خود ہی دیکھ لیں۔ ہاں ! ان دوہوں میں فراغ چاچا نے پورے جنگل کا نقشہ کھینچ دیا ہے، بچو، یہ جان لیجیے کہ اس سے پہلے دوہے میں اس طرح کے تجربے شاید ہی کبھی کیے گئے ہوں۔
اور بچو، یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ماہیے کی ابتدا پنجابی زبان میں ہوئی ہے۔ لیکن آپ کو یہ سن کرمسرت ہو گی کہ بچوں کے ماہیے کی ابتدا پہلی بار اردو زبان میں ہوئی ہے اور وہ بھی آپ کے پیارے چاچا فراغ روہوی نے کی ہے۔ انھوں نے بچوں کے لیے چلبلے اور نٹ کھٹ ماہیے لکھے ہیں۔ پیارے بچو، آپ نے کبھی درختوں پر ٹافی اُگتے دیکھی ہے ؟ نہیں دیکھی، ارے رے رے ‘‘ لیکن فراغ چاچا نے تو دیکھی ہے اور انھوں نے اس کا ذکر اپنے ماہیے میں کیا بھی ہے۔
اور ہاں ایک راز کی بات ہے۔ ذرا کان قریب لائیے اور سنیے، آپ کے فراغ چاچا آپ کی کتابوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا ؟ تو خود ہی ان کے ماہیے پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ اور ہاں آپ کے لیے ایک اور خوش خبری ہے،فراغ چاچا مارنے پیٹنے والے استادوں کو بالکل پسند نہیں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں پر سختی نہ کی جائے۔ ان کا نظریہ ہے کہ بچے تو خود ہی دل لگا کر پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے بچو، چاچا فراغ کی یہ کتاب پڑھیے،لطف اُٹھائیے اور ان کی باتیں مانیے، سبق یاد کیجیے، اگزام دیجیے اور انعام پائیے !
شبّیر احمد، کلکتہ
حمد باریِ تعالیٰ
ترا بندہ ہے تیرا ڈر رکھنے والا
کہ ہے سب پہ تو ہی اثر رکھنے والا
تو خالق، تو رازق، تو مالک، تو حاکم
تو خلقت پہ اپنی نظر رکھنے والا
زمیں سے فلک تک تری حکمرانی
تو ارض و سما کی خبر رکھنے والا
تو ہی گردشِ وقت پر بھی ہے غالب
تو دُنیا کی شام و سحر رکھنے والا
نکھارا ہر اک گل کو رنگ اور بو سے
شجر میں بھی تو ہی ثمر رکھنے والا
دِیا نور ننھے سے جگنو کو تو نے
تو برق و حجر میں شر ر رکھنے والا
زمیں کی تہوں میں خزینے ہیں تیرے
تو ہی سیپ میں بھی گہر رکھنے والا
دی قوت ہواؤں کو تو نے کہ تو ہے
ہر اک بادباں پر نظر رکھنے والا
یقیناً تو صحرا کو گلزار کر دے
تو ہی یہ صفت، یہ ہنر رکھنے والا
بکھر جائے پل بھر میں ہر شے جہاں کی
تو ہی سب کو شیر و شکر رکھنے والا
ثنا میں ہے مصروف تیری الٰہی
فراغؔ آج ہے چشمِ تر رکھنے والا
٭٭٭
نعت شریف
دنیا نے جب کیا نظر انداز یا رسولؐ
دی آپؐ کو غلام نے آواز یا رسولؐ
کس کام کی وہ آنکھ جو دیکھے نہ آپ کو
حاصل ہو دید کا مجھے اعزاز یا رسولؐ
مہماں بنا کے اپنے مقدّس دیار کا
کر دیجیے مجھے بھی سرافراز یا رسولؐ
اک آپؐ ہی کے سر پہ شفاعت کا تاج ہے
کس کو ہوا نصیب یہ اعزاز یا رسولؐ
ثانی نہیں ہے کوئی بھی دنیا میں آپؐ کا
کیسے کروں نہ آپؐ پہ میں ناز یا رسولؐ
میرا شمار ہوتا ہے اُمّت میں آپؐ کی
دنیا میں اس لیے ہوں میں ممتاز یا رسولؐ
پڑھتے تھے نعت آپ کی حسانؓ جس طرح
مجھ کو بھی ہو نصیب وہ انداز یا رسولؐ
جب تک درود پڑھتی نہیں ہے مری زباں
ہوتا کہاں ہے نعت کا آغاز یا رسولؐ
اُس پر بھی آپؐ کی ہو نگاہِ کرم ذرا
کوئی نہیں فراغؔ کا دمساز یا رسولؐ
دعا
سُن لے معصوم دل کی صدا اے خدا
نیک انساں ہمیں بھی بنا اے خدا
کوئی کینہ ہو دل میں نہ نفرت رہے
ہر برائی سے ہم کو بچا اے خدا
عقل و انصاف، رحم و کرم، نیکیاں
ہم کو بھی ہو یہ دولت عطا اے خدا
نام روشن ہمارا بھی دنیا میں ہو
علم کا شوق دل میں جگا اے خدا
بھیج کر خشک دھرتی پہ کالی گھٹا
پیاس اُس کی بھی اک دن بجھا اے خدا
مثلِ گلشن دکھائی دے ارضِ وطن
پھول ہی پھول ہر سو کھلا اے خدا
سر ہمارا نہ باطل کے آگے جھکے
راہِ حق پر ہمیں بھی چلا اے خدا
مالکِ بحر و بر، ہم ہیں بندے ترے
ہم پہ واجب ہے تیری ثنا اے خدا
٭٭٭
اللہ ہی اللہ
کس نے سورج چاند اگائے ؟ میرے اللہ نے
کس نے یہ دن رات بنائے ؟ میرے اللہ نے
نیلے، پیلے، لال، گلابی، کومل کومل سے
کس نے ہر سو پھول کھلائے ؟ میرے اللہ نے
کون ہے لالہ زار کا خالق ؟ میرا اللہ ہے
کون ہے نور و نار کا خالق ؟ میرا اللہ ہے
ابر، دھنک، افلاک، ستارے کس کی ہیں یہ دین
کون ہے اس سنسار کا خالق ؟ میرا اللہ ہے
کس کا نہیں ہے کوئی ہمسر؟ میرے اللہ کا
کس کا نہیں ہے کوئی رہبر ؟ میرے اللہ کا
میرا اللہ گھر دیتا ہے بندوں کو، لیکن
کس کا نہیں ہے کوئی بھی گھر؟ میرے اللہ کا
٭٭٭
ہمارے نبیﷺ
ہمیں حکم رب کا سنایا ہے کس نے
رہِ حق پہ چلنا سکھایا ہے کس نے
خدا کون ہے در حقیقت جہاں کا
کریں کس کو سجدہ، بتایا ہے کس نے
ہمارے نبیؐ نے، ہمارے نبیؐ نے
ہمیں ہر قدم پر سنبھالا ہے کس نے
جہالت سے ہم کو نکالا ہے کس نے
حیات اپنی کیا تھی، سراپا بدی تھی
ہمیں نیک پیکر میں ڈھالا ہے کس نے
ہمارے نبیؐ نے، ہمارے نبیؐ نے
جہاں سے بُرائی مٹائی ہے کس نے
بھلائی کی رغبت دلائی ہے کس نے
دلوں میں ہمارے نہ تھی کچھ بھی نرمی
ہمیں درد مندی سکھائی ہے کس نے
ہمارے نبیؐ نے، ہمارے نبیؐ نے
جمالِ حرم سے نوازا ہے کس نے
کتابِ کرم سے نوازا ہے کس نے
ہمیں تیس روزوں کا پیغام دے کر
مہِ محترم سے نوازا ہے کس نے
ہمارے نبیؐ نے، ہمارے نبیؐ نے
٭٭٭
نغمۂ آزادی
کچھ فیض شیخ سے ہے، کچھ فیض برہمن سے
سینچاہے اس چمن کو سب نے بڑی لگن سے
کھلتے ہیں پھول اس میں ہرنسل، ہر نسب کے
بہتر چمن نہیں ہے کوئی بھی اس چمن سے
ہندو ہوں یامسلماں، عیسائی ہوں کہ سکھ ہوں
ہم سب کا یہ وطن ہے، ہم ہیں اسی وطن سے
رکھنا سنبھال کے اب دولت یہ ایکتا کی
ہے قیمتی بہت یہ سارے جہاں کے دھن سے
ہندوستاں کی مٹّی ہے جاں سے ہم کو پیاری
اک سوندھی سوندھی خوشبو اٹھتی ہے ہر بدن سے
آؤ کریں حفاظت عظمت کی اس کی ہم سب
ہندوستاں کا پرچم اونچا رہے گگن سے
جھکنے نہ دیں گے گردن دشمن کے آگے اپنی
چاہے جدا وہ کر دے سر کو ہمارے تن سے
نفرت کو اپنے دل میں پلنے نہ دیں گے ہرگز
ہم سب نکال پھینکیں اب اس کو اپنے من سے
آؤ منائیں جشنِ جمہور اس طرح ہم
الفت کا عہد کر لیں ہر ذرّۂ وطن سے
آؤ فراغؔ ہم سب یہ عہد کر لیں مل کر
رہنا ہے ایک ہو کر، پھرنا نہیں وچن سے
٭٭٭
اے زمینِ وطن
اے وطن، اے وطن، اے زمینِ وطن
ہم ہیں تارے ترے، تو ہمارا گگن
تیری شہرت زمانے میں صدیوں سے ہے
تو وفا کے فسانے میں صدیوں سے ہے
تو ہمیشہ رہے یوں ہی رشکِ زمن
اے وطن، اے وطن، اے زمینِ وطن
ہم ہیں تارے ترے، تو ہمارا گگن
قابلِ رشک ہے تیرا نام و نمود
اے وطن، در حقیقت ہے تیرا وجود
شانِ گنگ و جمن، فخرِ کوہ و دمن
اے وطن، اے وطن، اے زمینِ وطن
ہم ہیں تارے ترے، تو ہمارا گگن
لٹنے دیں گے نہ ہرگز تری آبرو
ہر قدم پر تجھے دے کے اپنا لہو
ہم سلامت رکھیں گے ترا بانکپن
اے وطن، اے وطن، اے زمینِ وطن
ہم ہیں تارے ترے، تو ہمارا گگن
تجھ پہ ڈالے گا کوئی جو اوچھی نظر
سرحدوں سے بڑھے کوئی دشمن اگر
ہم نکل آئیں گے سر پہ باندھے کفن
اے وطن، اے وطن، اے زمینِ وطن
ہم ہیں تارے ترے، تو ہمارا گگن
٭٭٭
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
ہم رنگِ جنوں سے ہستی کی تصویر بدل دیں گے اک دن
تدبیر و عمل سے دنیا کی تقدیر بدل دیں گے اک دن
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
ظلمت کو مٹائیں گے اک دن، یہ کر کے دکھائیں گے اک دن
دل جس سے ہوں روشن لوگوں کے، وہ دیپ جلائیں گے اک دن
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
دیکھے ہیں جو اب تک لوگوں نے، وہ خواب کریں گے ہم پورے
صحرائے وطن کو مل جل کر سینچیں گے لہو سے ہم اپنے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
ہم چیر کے سینہ دھرتی کا، ڈھونڈیں گے خزانہ دولت کا
آکاش پہ جا کر دیکھیں گے، کیا راز ہے اُس کی شہرت کا
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
کیا چیز ہے اُس کے دامن میں ساگر میں اُتر کر دیکھیں گے
طوفان میں کتنا دم خم ہے، کچھ دیر ٹھہر کر دیکھیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
٭٭٭
جان گئی میں
آؤ سنو اک پیارا قصّہ
کل ممّی نے مجھ سے پوچھا
کون سی ہے تاریخ بتاؤ
ذہن کو اپنے کام میں لاؤ
ذہن کو اپنے میں نے کھنگالا
لیکن کچھ بھی یاد نہ آیا
پاپا جب بازار سے آئے
ساتھ ہی کچھ سامان بھی لائے
میں نے سب سامان کو رکھّا
پھر ڈبوّں کو کھول کے دیکھا
اک ڈبے میں کیک بھرا تھا
کیک پہ میرا نام لکھا تھا
نام کو پڑھ کر جان گئی میں
سالگرہ ہے مان گئی میں
٭٭٭
ٹیلی ویژن
ہر سو، چرچا آج ہے میرا
سب سے اُونچا تاج ہے میرا
سب ہی میرے گن گاتے ہیں
ہر دل پر اب راج ہے میرا
چیز نئی ایجاد ہوئی ہے
تنہائی آباد ہوئی ہے
میرے آ جانے سے بچو
ساری دُنیا شاد ہوئی ہے
رونے اور ہنسانے والا
کانوں کو چونکانے والا
دُنیا بھر کی تازہ تازہ
خبریں میں ہوں لانے والا
ڈھیروں خوشیاں لاتا ہوں میں
سب کے دل بہلاتا ہوں میں
کھیلوں کے موسم میں بچو
سارے کھیل دِکھاتا ہوں میں
آنکھوں دیکھا حال سُناؤں
اَن دیکھی ہر چیز دِکھاؤں
سات سمندر پار کی سب کو
گھر بیٹھے میں سیر کراؤں
٭٭٭
انٹرنِٹ
میں ہوں مسٹر اِنٹرنِٹ
کر لو اپنے گھر میں سِٹ
کمپیوٹر میں رہتا ہوں
سب کو ولکم کہتا ہوں
جو کچھ دیتا ہے کالج
مجھ میں بھی ہے وہ نالج
جو بھی چاہو لے لو کام
حاضر ہوں میں صبح و شام
ہوتا ہے جو گھنٹوں میں
کر دیتا ہوں منٹوں میں
بھارت ہو یا پاکستان
امریکہ ہو یا جاپان
گڑیا اور بنٹی کے نام
جب چاہو بھیجو پیغام
چھپتے ہیں جو سرحد پار
مجھ پر پڑھ لو وہ اخبار
دے کر انٹر کا اگزام
مجھ سے پوچھو تم انجام
اسٹوڈنٹ ہو یا ٹیچر
مالک ہو یا مینیجر
سب میرے دیوانے ہیں
میرے ہی پروانے ہیں
میرے بارے میں سن کر
حیرت میں ہے جادوگر
٭٭٭
تتلی
متوالی، مستانی آئی
پھولوں کی دیوانی آئی
پھر ست رنگی پر پھیلائے
چھیل چھبیلی رانی آئی
آیا کیا پھولوں کا موسم
اِتراتی وہ آئی پیہم
آتے ہی گلشن میں دیکھو
ٹوٹ پڑی پھولوں پر اک دم
ڈالی ڈالی گھوم رہی ہے
پھولوں کے لب چوم رہی ہے
بھینی بھینی خوشبو پا کر
پھر مستی میں جھوم رہی ہے
اُڑ اُڑ جانے والی تتلی
سو بل کھانے والی تتلی
اُس کو پکڑنا بھی چاہو تو
ہاتھ نہ آنے والی تتلی
٭٭٭
کون ہے وہ،بتلاؤ بچو
افضل بھی ہے، اعلیٰ بھی ہے
یکتا اور نرالا بھی ہے
زیر و زبر کرتا ہے سب کو
وہ سب کا رکھوالا بھی ہے
کون ہے وہ، بتلاؤ بچو
یہ گتھّی سلجھاؤ بچو
صحرا اور گلزار نہ ہوتے
دریا اور کہسار نہ ہوتے
وہ جو اک فنکار نہ ہوتا
یہ سارے شہکار نہ ہوتے
کون ہے وہ، بتلاؤ بچو
یہ گتھّی سلجھاؤ بچّو
جنات وانساں بھی اُس کے
حشرات و حیواں بھی اُس کے
سب کو اُسی نے خلق کیا ہے
یاقوت و مرجاں بھی اُس کے
کون ہے وہ، بتلاؤ بچو
یہ گتھّی سلجھاؤ بچو
خورشید و مہتاب اُسی کے
طاؤس و سُرخاب اُسی کے
ارض و سما کیا، لالہ و گل کیا
برق و باد و آب اُسی کے
کون ہے وہ، بتلاؤ بچو
یہ گتھّی سلجھاؤ بچو
٭٭٭
جواب : اللہ تعالیٰ
پہیلی
آؤ بچو، بھید یہ کھولو
کون سا وہ تہوار ہے، بولو
چاند کے رتھ پر آتا ہے وہ
خوشیوں کی رُت لاتا ہے وہ
بچو، وہ دن آتا ہے جب
شوق سے مسجد جاتے ہیں سب
اللہ کا انعام ہے وہ دن
رحمت کا پیغام ہے وہ دن
وہ دن جب آتا ہے بچو
چہرہ کھل جاتا ہے بچو
روپ سنور جاتا ہے اُس دن
حسن نکھر جاتا ہے اُس دن
ہاتھ ملانے کا وہ دن ہے
بغض مٹانے کا وہ دن ہے
سال میں اک دن آتا ہے وہ
لچھّے، سِوَیّاں لاتا ہے وہ
آؤ بچو، بھید یہ کھولو
کون سا وہ تہوار ہے بولو
جواب : عید
جھٹ سے اُس کا نام بتاؤ
سب سے اچھی، سب سے پیاری
سارے جگ میں ہے وہ نیاری
بچو، اُس ہستی کے آگے
جھک جاتی ہے دُنیا ساری
ہر دم پیار لٹانے والی
ہر پل ناز اُٹھانے والی
ہم سب کے آرام کی خاطر
اپنا چین گنوانے والی
سب آداب سکھاتی ہے وہ
ہم کو نیک بناتی ہے وہ
کانوں میں رس گھولنے والی
لوری روز سناتی ہے وہ
پائی ہے کیا اُس نے عظمت
اُس کے پاؤں تلے ہے جنت
اِس دُنیا میں کس نے چکائی
بچو، اُس کے دودھ کی قیمت
دُور کی کوڑی آج نہ لاؤ
جھٹ سے اُس کا نام بتاؤ
اک اک کر کے پھر اے بچو
اُس کے احسانات گناؤ
٭٭٭
جواب : ماں
بچو، ایک پہیلی بوجھو
بچو، ایک پہیلی بوجھو
کون سی وہ اک چیز ہے، بولو
ہر جانب تم گھوم کے دیکھو
وہ ہر سو موجود ہے بچو
رنگ بِنا بھی ہے وہ سُندر
اُس کے آگے ہیچ ہے گوہر
اُس کے دم سے آج ہیں گھر گھر
جام، صراحی، کلسی، گاگر
بن اُس کے جل جائے کھیتی
بن اُس کے مر جائے مچھلی
بن اُس کے بے کار ہے کشتی
بن اُس کے دُشوار ہے ہستی
سمٹے تو بن جائے قطرہ
پھیلے تو ہو جائے دریا
پھول، شجر انسان، پرندہ
سب کے سب ہیں اُس سے زندہ
بچو، ہمت ہار نہ جاؤ
عقل و ذہانت آج دکھاؤ
اُس شے کا تم نام بتاؤ
کتنے گن ہیں اُس کے گناؤ
٭٭٭
جواب : پانی
کون سی وہ مخلوق ہے،بولو
بچو، بوجھو تو ہم جانیں
آج گرو تم سب کو مانیں
کھینچ رہے ہیں جس کا خاکہ
تم سب نے ہے اُس کو دیکھا
سوچو، سوچو، مل کر سوچو
کون سی وہ مخلوق ہے، بولو
بچو، اُس کا قد ہے چھوٹا
رنگ ہے کالا یا پھر سادہ
ریشم جیسے بال ہیں اُس کے
نرم بہت ہی گال ہیں اُس کے
کان ہیں چھوٹے، مونچھیں لمبی
ناک ہے چپٹی، دُم ہے موٹی
اُس کے دیدے ہیں چمکے لیے
اُس کے ناخن ہیں نوکیلے
چوزوں پر وہ رعب جمائے
چوہوں کو بھی آنکھ دکھائے
جس گھر میں ہو اُس کا ڈیرا
اُس گھر میں کیوں آئے چوہا
روز کچن میں ڈاکہ ڈالے
دودھ کو فوراً چٹ کر جائے
وہ تیز و طرّار بہت ہے
چلنے میں ہشیار بہت ہے
پکڑو تو وہ ہاتھ نہ آئے
اپنی جگہ سے جمپ لگائے
رشتے میں ہے شیر کی خالہ
گویا آفت کا پرکالہ
بچو، اُس کا نام بتاؤ
پھر اُس کی تصویر بناؤ
٭٭٭
جواب: بلی
اُس کا نام بتاؤ بچو
مالک کا دم بھرنے والا
صرف اُسی سے ڈرنے والا
جاگ کے ساری رات ہمیشہ
گھر کی حفاظت کرنے والا
پیار کہیں جب پاتا ہے وہ
اُس در کا ہو جاتا ہے وہ
چھیڑتا ہے جب کوئی اُس کو
تب اُس پر غرّاتا ہے وہ
گوشت اُسے لگتا ہے اچھا
چاہے پکا ہو یا ہو کچا
گھاس نہیں کھاتا وہ ہرگز
چاہے رہے ہفتوں کا بھوکا
جانوروں میں ہے وہ کیسا
جب بھی دیکھو، من کا سچا
اُس کی وفاداری ہے پکّی
ثانی کوئی نہیں ہے اُس کا
اُس کا نام بتاؤ بچو
جاؤ کہیں سے لاؤ بچو
٭٭٭
جواب : کتّا
رنگ گناؤ، نام بتاؤ
گلشن کی پہچان ہے اُس سے
گل دانوں میں جان ہے اُس سے
اُس کے بنا ہر سیج ادھوری
ہر محفل کی شان ہے اُس سے
تتلی کو محبوب وہی ہے
بھونرے کو مرغوب وہی ہے
نفرت سے کیا لینا اُس کو
اُلفت سے منسوب وہی ہے
تم جس کو کہتے ہو مالی
اُس کی کرتا ہے رکھوالی
لال، گلابی، نیلا، پیلا
اُس کے سارے رنگ مثالی
اُس کی بھینی بھینی خوشبو
کر دیتی ہے دل پر جادو
پیارے پیارے نام ہیں اُس کے
اُس پہ فدا تھے چاچا نہروؔ
رنگ گناؤ، نام گناؤ
اُس کے سارے کام گناؤ
٭٭٭
جواب : پھول
رباعیات
ہر سو نظر آتی ہے حکومت تیری
مامور غلامی پہ ہے خلقت تیری
ہر شے کو کیا خلق خدایا، تو نے
بندے سے بیاں کیسے ہو عظمت تیری
آسان نہیں میرے خدا، مشکل ہے
ہر کام سے یہ کام بڑا مشکل ہے
کیسے ہو ترا وصف بیاں اے مالک
انساں سے تری حمد و ثنا مشکل ہے
تو میرا یقیں بھی ہے، گماں بھی ہے تو
در اصل عیاں بھی ہے، نہاں بھی ہے تو
ہر سمت نظر آتے ہیں جلوے تیرے
موجود یہاں بھی ہے، وہاں بھی ہے تو
صحراؤں میں پیاسوں کا سہارا تو ہے
جو سوکھ نہیں سکتا وہ دھارا تو ہے
ہم تیرے سوا کس سے بھلائی چاہیں
سب غیر ہیں اللہ ! ہمارا تو ہے
اے عالمِ ایماں کے شہیرِ اعظمؐ
مولا کے سفیروں میں سفیرِ اعظمؐ
دُنیا میں کہاں آپؐ کا ثانی کوئی
ہیں آپؐ امیروں میں امیرِ اعظمؐ
اللہ کے محبوب رسولِ اکرمؐ
بندوں کے بھی مطلوب رسولِ اکرمؐ
اللہ نے جو آپؐ کو رُتبہ بخشا
وہ رُتبہ ہے کیا خوب رسولِ اکرمؐ
کیا گود میں وہ نور کا پیکر چمکا
پل بھر میں حلیمہؓ کا مقدر چمکا
اُس رحمتِ عالم کی بدولت اک دن
گمنام تھا جو نام وہ گھر گھر چمکا
دُنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا
یہ سانجھ نہ ہوتی نہ سویرا ہوتا
آتا نہ اگر دینِ محمدؐ ہم تک
ہر گھر میں جہالت کا بسیرا ہوتا
اسلام پہ جو جان لٹا دے اللہ
وہ نیک مسلمان بنا دے اللہ
جو شوق دلِ آلِ محمدؐ میں تھا
وہ شوق ہر اک دل میں جگا دے اللہ
اسلاف کے رستے پہ چلانا یارب
اُن کے سبھی اطوار سکھانا یارب
اوروں کے جو دکھ درد کو اپنا سمجھے
ہم کو بھی وہ انسان بنانا یارب
دُنیا میں مرا رُتبہ بڑا ہو مولا
مجھ کو بھی یہ توفیق عطا ہو مولا
تجھ سے یہ دعا ہے کہ ترے بندوں میں
اخلاق مرا سب سے جدا ہو مولا
چاہے نہ مری آن سلامت رکھنا
شہرت نہ مری شان سلامت رکھنا
لیکن یہ تمنا ہے کہ مرتے دم تک
یارب، مرا ایمان سلامت رکھنا
ماں باپ کے دل کو نہ دُکھاؤں یارب
غیروں کو بھی ہرگز نہ ستاؤں یارب
دُنیا میں کبھی قول و عمل سے اپنے
خود کو نہ گنہگار بناؤں یارب
ایماں کی حرارت سے خدا خوش ہو گا
بے لاگ عبادت سے خدا خوش ہو گا
جنت کی ہوس دل میں نہ رکھیے ہرگز
بے لوث اطاعت سے خدا خوش ہو گا
نیکی جو سکھائے وہی ایماں اچھا
اوروں کے جو کام آئے وہ انساں اچھا
ہر بات دِکھاوے کی بری ہوتی ہے
جو راز رکھا جائے وہ احساں اچھا
انساں ہو تو انساں سے جھگڑنا کیسا
بے وجہ کسی بات پہ اَڑنا کیسا
تھوڑی سی لچک دار طبیعت رکھّو
مِٹّی کے بنے ہو تو اکڑنا کیسا
نفرت ہو کسی سے نہ عداوت رکھّیں
ہم سب کے لیے دل میں اخوّت رکھّیں
ہر بات پہ کیوں لڑتے رہیں آپس میں
انساں ہیں تو انساں سے محبت رکھّیں
معذور کو سردار بنا دیتی ہے
مجبور کو مختار بنا دیتی ہے
جب جوش پہ آتی ہے خدا کی رحمت
مفلس کو بھی زر دار بنا دیتی ہے
کیا اُس کی ہے اوقات، بتا دیتا ہے
سر اُس کا زمانے میں جھکا دیتا ہے
مغرور پرندے کو عذابِ قدرت
اک روز بلندی سے گرا دیتا ہے
تدبیر سے تقدیر بدل سکتی ہے
دن رات کی تصویر بدل سکتی ہے
انسان اگر دل میں تہیّہ کر لے
ہر خواب کی تعبیر بدل سکتی ہے
بے وقت کی برسات بری لگتی ہے
بے کار کی ہر بات بری لگتی ہے
جو فیض نہ پہنچائے کبھی اوروں کو
وہ جیسی بھی ہو ذات، بری لگتی ہے
اخلاص و محبت کے پیمبر تم ہو
ایثار و مروّت کے بھی پیکر تم ہو
یہ بات کتابوں میں لکھی ہے بچو
دُنیا میں سدا امن کے مظہر تم ہو
اسکول سے کچھ سیکھ کے آنا پیارے
پڑھنے سے کبھی جی نہ چرانا پیارے
تعلیم سے انسان سنور جاتا ہے
یہ بات مری بھول نہ جانا پیارے
جھوٹوں کو نہ تم دوست بنانا بچو
ہرگز نہ اُنھیں پاس بٹھانا بچو
رہنا ہے تمھیں دُور بری صحبت سے
اچھوں سے سدا فیض اُٹھانا بچو
اک دن یہ تمھیں کر کے دِکھانا ہو گا
ہر دشت کو گلزار بنانا ہو گا
یہ کام اگر کر کے دِکھا دو پیارے
قدموں میں تمھارے یہ زمانہ ہو گا
اقبالؔ کی تصویر بناؤ پیارے
وہ سوچ میں ڈوبے ہوں، دِکھاؤ پیارے
اک شعر بھی تصویر کے نیچے لکھ کر
کیا اُن کا ہے پیغام، سُناؤ پیارے
اک پھول کی تصویر بناؤ بچو
اُس پھول پہ تتلی بھی دِکھاؤ بچو
تصویر کو رنگوں سے مکمل کر کے
عنوان کوئی اُس کا بتاؤ بچو
خوش رنگ کوئی آرٹ بناؤ پیارے
اُس آرٹ میں آکاش دِکھاؤ پیارے
آکاش میں پھر چاند ستارے بھر کے
تم رات کی ظلمت کو مٹاؤ پیارے
تم شور مچاتے ہو، غضب کرتے ہو
گھر سر پہ اٹھاتے ہو، غضب کرتے ہو
ہر روز نئی ایک شرارت کر کے
ممّی کو ستاتے ہو، غضب کرتے ہو
کلیوں سے بھی، پھولوں سے بھی پیاری ممّی
ہے چاند ستاروں سے بھی نیاری ممّی
محبوب ہمیں سب ہیں ادائیں اُس کی
کھٹّی بھی ہے، میٹھی بھی ہماری ممّی
اک ماں ہے جو سینے سے لگا لیتی ہے
ممتا بھرے آنچل میں چھپا لیتی ہے
اولاد سے وہ لاکھ خفا ہو، لیکن
قدموں میں جو گر جائے، اٹھا لیتی ہے
ماں باپ کی نظروں میں دُلارے ہم ہیں
دنیا میں انھیں جان سے پیارے ہم ہیں
امید پہ ہم اُن کی کھرے اُتریں گے
جب اُن کے بڑھاپے کے سہارے ہم ہیں
سہتے ہیں کہاں کوئی بُرائی پاپا
ضد کرنے سے کرتے ہیں پٹائی پاپا
معلوم ہمیں ہے کہ ہمارے حق میں
اِس طرح بھی کرتے ہیں بھلائی پاپا
کیا لینا ہمیں بگڑے ہوئے لڑکوں سے
ہم شوق سے ملتے ہیں بھلے لڑکوں سے
ممکن ہی نہیں ہے کہ بہک جائے قدم
ہم دُور ہی رہتے ہیں برے لڑکوں سے
ہر روز کا معمول نظر آتا ہے
تتلی نہ کوئی پھول نظر آتا ہے
کیسا یہ ستم ہے کہ خدایا، ہم کو
خوابوں میں بھی اسکول نظر آتا ہے
اے کاش کہ صیاد سے پیچھا چھوٹے
ہر وقت کی فریاد سے پیچھا چھوٹے
جو خوف کے سائے میں پڑھاتے ہیں ہمیں
اس طرح کے استاد سے پیچھا چھوٹے
ہم دیر سے اسکول اگر جائیں گے
استاد ذرا بھی نہ ترس کھائیں گے
فوراً وہ بنا دیں گے ہمیں بھی مرغا
ہم شرم سے پھر سر نہ اٹھا پائیں گے
عامر نے مروڑی جو کلائی میری
پھر جم کے ہوئی اُس سے لڑائی میری
عامر تھا خطاوار سراسر، لیکن
استاد نے کی خوب پٹائی میری
سنتے ہیں کہ آیا ہے غضب کا سرکس
ہے کھیل تماشے میں نرالا سرکس
اک بکری نچاتی ہے کئی شیروں کو
دیکھ آئیں ذرا ہم وہ انوکھا سرکس
پھل توڑ کے کھانے میں مزہ آتا ہے
تکلیف اٹھانے میں مزہ آتا ہے
باغات میں ہنگامہ مچا کر ہر دن
مالی کو ستاتے ہیں مزہ آتا ہے
جینے کا مزہ لو، ہے یہ بچپن جب تک
تم موج اُڑا لو، ہے یہ بچپن جب تک
معلوم نہیں کیسے جوانی گزرے
ہر لطف اٹھا لو، ہے یہ بچپن جب تک
کھانے کو جو مل جائے، غنیمت سمجھو
ماں باپ جو پہنائے، غنیمت سمجھو
ہرگز نہ کسی شے کے لیے ضد کرنا
جو وقت پہ ہاتھ آئے، غنیمت سمجھو
دیکھو تو کہاں گھوم رہی ہے تتلی
ہر پھول کا لب چوم رہی ہے تتلی
پھیلا کے وہ رنگین پروں کو اپنے
مستی میں بہت جھوم رہی ہے تتلی
پھولوں کی پرستار ہے تتلی رانی
خوشبو کی طلب گار ہے تتلی رانی
جس دن سے گلستاں میں بہار آئی ہے
گل دیکھ کے سرشار ہے تتلی رانی
٭٭٭
دوہے
کیسی اُس کی ذات ہے، کیسی اُس کی شان
بن دیکھے اللہ کو ہم لائے ایمان
ہم بندوں کی آنکھ سے اوجھل ہے معبود
اس کا جلوہ ہر جگہ پھر بھی ہے موجود
بنتے ہیں سنسار میں جس سے سب کے کام
میرے ہونٹوں پر رہے اُس مالک کا نام
تجھ کو تو معلوم ہے، ہم بندوں کا حال
یارب، کر دے علم سے سب کو مالامال
یارب، کس سے ہو سکے آقاؐ کی تعریف
تو ہی دے توفیق تو کوئی کرے توصیف
اللہ رے سرکارؐ کا رُتبہ ہے کیا خوب
نبیوں میں ہیں آپ ہی مولا کے محبوب
انساں ہو کر پا گئے پل بھر میں معراج
سچ پوچھو تو ہیں وہی نبیوں کے سرتاج
مولا نے معراج کا جب بھیجا سندیش
پلک جھپکتے ہی نبیؐ پہنچے رب کے دیش
دھرتی سے آکاش تک پھیلا تھا اک نور
مولا سے جب عرش پر ملنے گئے حضورؐ
کچھ کرنے سے پیشتر کہیے بسم اللہ
کھل جائے گی خود بخود برکت والی راہ
دل سے پانچوں وقت کی پڑھیے آپ نماز
ظاہر ہو گا آپ پر پوشیدہ ہر راز
ہر پل کرتے جائیے اپنے رب کو یاد
ہو گا پھر دل آپ کا ہر غم سے آزاد
ہر پل کھینچے گا تمھیں شیطاں اپنی اُور
تم اپنے ایمان کی پکڑے رکھّو ڈور
ہر مذہب ہر دین کا ایک یہی پیغام
سچائی کی راہ پر چلیے صبح و شام
اپنا سب کچھ دین پر جو کرتے ہیں صَرف
دُنیا میں وہ لوگ ہی ہوتے ہیں با ظرف
ہرگز منہ مت موڑئیے دے کر آپ زبان
سچا ہونا قول کا، مومن کی پہچان
صرف اُنھی کو جانیے دل کے سچے مرد
بڑھ کر خود جو بانٹ لیں غیروں کا بھی درد
حاجت مندوں کی سنو رکھتے ہو جب مال
جیون بھر داتا تمھیں رکھّے گا خوش حال
جب آتے ہیں سامنے سخت بہت ایّام
ہر مشکل میں نیکیاں آ جاتی ہیں کام
لازم ہے اِس بات پر مستقبل کی خیر
اپنی چادر دیکھ کر ہم پھیلائیں پیر
دولت مندوں سے کبھی مت ہونا مرعوب
خود داری اللہ کو ہے بے حد محبوب
ظالم لوگوں سے کبھی مت کرنا فریاد
آہ لگے گی جب اُنھیں، ہوں گے خود برباد
جیون کی ہر راہ میں ماں ہوتی ہے چھاؤں
ہم بیٹوں کو چاہیے چومیں اُس کے پاؤں
ماں کعبہ ہے پیار کا، اُس کے گِرد ہی گھوم
جنت ہے جن کے تلے اُن قدموں کو چوم
خوشیوں کی برسات ہو، چاہے غم کی دھوپ
ہر رُت میں کومل لگے ہم کو ماں کا روپ
اور کسی میں ہے کہاں، یہ خوبی کی بات
مدھ سے بھی بڑھ کر لگے میٹھی ماں کی ذات
ہوتی ہے اولاد سے ہر دن کوئی بھول
پھر بھی جھڑتا ہی رہے ماں کے منہ سے پھول
کم ہے جو بھی کیجیے ممتا کی تعریف
دے کر ہم کو ہر خوشی، آپ سہے تکلیف
پیار کی ممتا ہے بڑی بیٹے کی جاگیر
وقت پڑے تو ڈھال سے بن جائے شمشیر
لاکھ ٹکے کی بات ہے، یاد رہے یہ بات
دنیا میں کوئی نہیں ماں سے پیاری ذات
دی ہے یہ قرآن نے دُنیا کو تعلیم
کرنی ہے ماں باپ کی ہمیں سدا تعظیم
گن پائے ماں باپ کے جو سارے احسان
ایسا تو کوئی نہیں دُنیا میں انسان
جب بھی گھر میں آپ کے آ جائیں مہمان
اُن کی خاطر کیجیے، رب کا ہے فرمان
جس گھر میں بھی جائیے بن کے کبھی مہمان
اُس گھر میں مت ڈھونڈئیے اپنے گھر کی شان
سن لو گُر کی بات ہے، ہر دم رکھنا یاد
حکم ہمیشہ ماننا، خوش ہوں گے اُستاد
اگلا پچھلا ہر سبق رکھتا ہے جو یاد
دل سے دیتے ہیں اُسے شاباشی اُستاد
کھیل کہ سنڈے آج ہے، لیکن یہ مت بھول
اے بیٹی، پھر کل تجھے جانا ہے اسکول
ضائع مت کر کھیل میں اپنی صبح و شام
پڑھ لکھ کر سنسار میں روشن کر کچھ نام
بچو، انگلش بھی پڑھو تم اُردو کے سنگ
تب جا کے سنسار میں جیتو گے ہر جنگ
خالی خولی بیٹھ کر کون کمائے نام
پڑھنا لکھنا ہی سدا سب کے آیا کام
جب دولت کے زور پر مورکھ پائے گیان
بن پوتھی پنڈت بنے پھر تو ہر دھنوان
نردھن ہو کر بھی ملے اُس کو یہ پہچان
پڑھا لکھا انسان ہی کہلائے دھنوان
ہر اچھے آغاز کا ہے اچھا انجام
جو بھی کرنا ہے کرو، لے کر رب کا نام
دُنیا جس کی خوبیاں کرتی ہے تسلیم
صرف اُسی انسان کی ہوتی ہے تعظیم
شہرت ہو گی آپ کی، دُنیا دے گی داد
پھولوں سے کر دیجیے صحرا کو آباد
دُنیا کو چونکائیے، کیجیے ایسا کام
آسانی سے آپ کا روشن ہو گا نام
جس نے کی سنسار میں کچھ اچھی تدبیر
اک دن اُس انسان کی بدل گئی تقدیر
ایک پرانی بات ہے، سن لے اے نادان
ہوتی ہے تدبیر سے ہر مشکل آسان
ہنس کر گزرو گے اگر تم کانٹوں سے آج
ہاتھ تمھارے آئے گا کل پھولوں کا تاج
ہر مشکل ہو جائے گی ہمّت سے آسان
اپنے ہونٹوں پر رکھو ہر لمحہ مسکان
دُشمن کا بَل دیکھ کر مت ڈالو ہتھیار
وقت پڑے تو مُلک پر کر دو جان نثار
آ جائے جب راہ میں کوئی بڑی دیوار
اُس کو اپنے عزم سے کر ڈالو مسمار
طوفاں کا جو سامنا کرنے سے گھبرائے
دُنیا اُس انسان کو بزدل ہی ٹھہرائے
ہو گی جن کے ہاتھ میں ہمّت کی پتوار
اُن کی ٹوٹی ناؤ بھی ہو جائے گی پار
یاد رکھو تم یہ سدا جیسی ہو گفتار
اُسی مطابق ہی رکھو تم اپنا کردار
بچ کر جھوٹوں سے رہو، مکاروں سے دُور
قول پُرانا ہے بہت، لیکن ہے مشہور
جگ میں رہنا چاہیے اُن لوگوں کے ساتھ
سکھلائیں جو آپ کو اچھی اچھی بات
جا کر اُٹھیے بیٹھیے داناؤں کے پاس
نادانوں کی دوستی کب آتی ہے راس
اُلٹی سیدھی بات سے ہوتا ہے نقصان
کہنے کو ہے ایک منہ، سننے کو دو کان
آئینے کے سامنے سوچ سمجھ کر بول
ورنہ تھوڑی دیر میں کھل جائے گا پول
خود پر قابو چاہیے جب بھی آئے جوش
ایسی حالت میں کبھی مت کھو دینا ہوش
سنو حجاب و صالحہ، سنو ثنا و نگار
مل جل کر رہنا سدا، مت کرنا تکرار
خوشبو پھیلے پھول سے، بچے بانٹیں پیار
ملتے جلتے ہیں بہت دونوں کے کردار
نفرت کے سنسار میں کھیلیں اب یہ کھیل
اک دوجے کو جوڑ کر، بن جائیں ہم ریل
دو دن کی ہے زندگی، پھر کیسی تکرار
جب تک ہیں سنسار میں، سب کو بانٹیں پیار
پتھر برسائے کبھی یا برسائے پھول
جو تحفہ دے زندگی ہنس کے کرو قبول
جب سورج کی روشنی پڑ جاتی ہے ماند
لے کر اپنی چاندنی آ جاتا ہے چاند
اُس کا چلنا رات بھر دیکھ ہوئے ہم دنگ
بھور تلک چلتا رہا چاند ہمارے سنگ
ریشم کی پوشاک ہو یا نو لکھّا ہار
دو دن کے مہمان ہیں سارے شوق سنگار
گزرے ہیں سنسار میں ایسے بھی سمراٹ
بستر جن کے پاس تھا اور نہ کو ئی کھاٹ
مونگا، موتی کا ابھی پڑا نہیں ہے کال
اے مورکھ انسان جا ! جا ساگر کھنگال
سچ مچ بالکل گول ہے دُنیا کا آکار
برسوں ہم نے گھوم کے دیکھا ہے سنسار
کس کا پیچھا ہم کریں، دوڑیں کس کی اُور
چوری کر کے آپ ہی چور مچائے شور
چاہے نکلو سیر کو یا جاؤ بازار
دائیں بائیں دیکھ کر رستہ کرنا پار
بھولے سے بھی مت رکھو ماچس اپنے ساتھ
کھیلو گے جب آگ سے جل جائیں گے ہاتھ
راہ میں کوئی اجنبی تم سے کرے جب بات
یاد رہے اُس بات میں ہو گی کوئی گھات
ہاتھ اندھے کا تھام کر دکھلا دے جو راہ
ہوتا ہے اُس شخص سے خوش اُس کا اللہ
گونجے لفظ اذان کے، سنکھ بجا ہر اُور
نیند سے اب تو جاگیے، ہونے کو ہے بھور
دَوڑ لگائیں روز وہ، جو بچے ہیں سست
ہو جائیں گے آپ ہی چند دنوں میں چست
چھٹی کے اوقات میں کون کرے آرام
گھر میں کرنا چاہیے گھر کا کوئی کام
مالک ہی کی بات کیا، سب کو پیارا کام
محنت کر کے دیکھ لو، ملتا ہے انعام
بھول نہ جانا تم کبھی، یاد رہے یہ بات
جانے والا وقت پھر کب آتا ہے ہاتھ
ہم نے تو دیکھا یہی سورج ہو یا چاند
اپنے اپنے وقت پر پڑ جاتا ہے ماند
ہرگز ہو سکتی نہیں اِس سے اچھی بات
آگے بڑھیے وقت کے ہاتھ میں دے کے ہاتھ
ٹی وی جیسی چیز سے کیوں رکھّیں ہم بیر
گھر بیٹھے جب دُور کی کر لیتے ہیں سیر
کہتے ہیں یہ آپ سے موجودہ حالات
لکھیے، پڑھیے، کھیلیے کمپیوٹر کے ساتھ
اِنٹرنِٹ پر دیکھیے اکثر میرے نام
آتا ہے جاپان سے پاپا کا پیغام
اک گڑیا جاپان سے پاپا لائے ساتھ
کرتی ہے جو خود بخود کتنی پیاری بات
سالگرہ پر چاہیے پاپا سے اِس بار
تحفے میں ریموٹ سے چلنے والی کار
مجھ سے چاہو جس گھڑی کر سکتے ہو بات
موبائل اب ہر جگہ رکھتا ہوں میں ساتھ
ہم جائیں گے گھومنے پہلے نینی تال
پھر چاہے لے جایئے آپ ہمیں ننھیال
کوئل کالی ہی سہی دل لیتی ہے جیت
صورت پر مت جائیے، سنیے اُس کے گیت
گونج رہا تھا دُور تک شہنائی کا شور
بندر کی بارات میں ناچ رہے تھے مور
صرف وہی اک سین تھا شادی گھر کی جان
شیر ببر کو شان سے کھاتے دیکھا پان
خوب ہنسے یہ دیکھ کر تیتر اور بٹیر
بھوکے چیتے کو گدھا پہنچا دینے بیر
آپس میں جب لڑ پڑے دو چوہے نادان
بِلّی آ کر کر گئی دونوں کا کلیان
ناچ رہا تھا دیر سے مستی میں اک مور
نظر پڑی جب پاؤں پر آپ ہوا پھر بور
یاروں میں مشہور تھا بندر مَکھّی چوس
لیکن کل وہ پی گیا پانچ روپے کا جوس
جس کو پالا شوق سے وہ بِلّی بد ذات
دودھ ہمارا پی گئی چپکے سے کل رات
موٹی مچھلی جان کر ہم نے پھینکا جال
لیکن اُس میں آ پھنسا گز بھر کا گھڑیال
ہاتھی بولا اُونٹ سے پڑھ کے اک اخبار
دیکھو کتنا گر گیا خبروں کا معیار
مارے ڈر کے مرغیاں، اُٹّھیں تھر تھر کانپ
پر جب آیا نیولا، جھٹ پٹ بھاگا سانپ
رکھتا ہے وہ کس قدر خود داری کا پاس
بھوکا رہ جائے مگر شیر نہ کھائے گھاس
بچو، اُس کی ناک میں گھسنے کی ہے دیر
ہاتھی کو بھی ایک دن چیونٹی کر دے زیر
کیا ہرنی کیا لومڑی سبھی منائیں خیر
جنگل میں جب شیرنی کرنے نکلے سیر
دوڑ رہا تھا دیر سے وادی میں خرگوش
دیکھ کے ہاتھی کھو دیا اُس نے اپنا ہوش
بلبل نکلی سیر کو گھر سے ہو کر شاد
لیکن اُس کی تاک میں بیٹھا تھا صیاد
بچو، ڈھیلی پڑ گئی پیروں کی جب ڈور
توتا پھُر سے اُڑ گیا پھر جنگل کی اُور
مکاروں کی لِسٹ میں درجن بھر تھے نام
پھر بھی اُن میں لومڑی جیت گئی انعام
کام نہ آئی کھیت میں گدھے میاں کی آس
پو پھٹتے ہی چر گئی بکری آ کر گھاس
مُنہ پر اُس کے ایک دن ایسی ماری لات
یاد دلا دی سانڈ کو گھوڑے نے اوقات
شادی کر لی توڑ کے جنگل کا دستور
سر کے بل اِس جرم میں کھڑا رہا لنگور
پیٹ رہے تھے جیت کا سارے خچّر ڈھول
موقع پا کر کر دیا ٹٹّو نے اک گول
اچھی باری کھیل کر، لے کر مشکل کیچ
بندر نے لنگور سے جیتا کرکٹ میچ
جنگل میں بھی جب کوئی آتا ہے تہوار
کرتے ہیں سب جانور خوشیوں کا اظہار
جنگل میں سب جانور اک دوجے کے سنگ
کھیل رہے تھے جھوم کر ہولی کے دن رنگ
بچھّو بولا سانپ سے ہم یاروں کے یار
چھوٹی چھوٹی بات پر لڑتے ہو بے کار
ہو گیا غصّہ شیر کا پل بھر میں دو چند
سب نے اُس کو کر دیا پھر پنجرے میں بند
مل کر سب کرنے لگے جب آواز بلند
دہشت گردی شیر نے فوراً کر دی بند
جیسے ہی لنگور پر جھپٹ پڑا گھڑیال
کود گیا میدان میں بندر لے کر ڈھال
گرج رہا تھا دیر سے جنگل میں اک شیر
ایک دھماکا کر گیا آخر اُس کو ڈھیر
درپن رکھ کر سامنے روز سنوارے بال
کب ہے کوئی جانور بندر سا نقّال
در پر بیٹھا رہ گیا کتّا کھا کے مار
ایسا دیکھا ہی نہیں گھر کا پہرہ دار
ابّو لائے مرغیاں جا کر ہاٹ سے چار
میرے گھر میں ہو گئی انڈوں کی بھر مار
٭٭٭
کہہ مکرنیاں
پل میں تولہ پل میں ماشہ
پلک جھپکتے پلٹے پانسہ
دیکھ اُسے یاد آئے گرگٹ
کاسکھی، ساجن؟
ناسکھی، کرکٹ!
تیس دنوں کا اک مہمان
جس کے منہ نہ لگے پکوان
مانگے سیب نہ وہ چلغوزہ
کاسکھی، ساون؟
ناسکھی، روزہ!
گرمی پاتے ہی گل جائے
ہر سانچے میں وہ ڈھل جائے
اُس کو چھپا لے گانٹھ میں سوم
کاسکھی، سونا؟
ناسکھی، موم!
گھنٹوں سب کا جی بہلائے
اُس پر سب کا من آ جائے
کھینچے سب کو اُس کا طلسم
کاسکھی، میلا؟
ناسکھی، فلم!
بدل بدل کر روپ وہ آئے
الگ الگ وہ رنگ دکھائے
اک جیسا وہ رہے نہ ہر دم
کاسکھی، جوکر؟
ناسکھی، موسم!
چاہے رحمت ہو یا رام
سب کو پہنچائے آرام
ہر کوئی ہے اُس کا رسیا
کاسکھی، پیسہ؟
ناسکھی، تکیہ!
ساگر ساگر وہ اترائے
لہروں پر بھی رعب جمائے
مچھواروں کے گھر کی لچھمی
کاسکھی، مچھلی؟
ناسکھی، کشتی!
جس کا مصوّر ہے گرویدہ
شاعر جس کا پڑھے قصیدہ
نہیں ہے جس کے تن پر کھال
کاسکھی، چاند؟
ناسکھی، بال!
٭٭٭
ماہیے
سن میری دعا یارب
باغ میں ٹافی کا
اک پیڑ اُگا یارب
یہ کیسی کہانی ہے
دور تلک جس میں
راجا ہے نہ رانی ہے
لوگو، یہ کرم کر دو
بوجھ کتابوں کا
ہم بچوں پہ کم کر دو
کیوں اتنا ستاتے ہیں
خواب میں بھی مجھ کو
اُستاد ڈراتے ہیں
اگزام بھی دینا ہے
یاد سبق کر لو
انعام بھی لینا ہے
اللہ کی مرضی ہے
موج اُڑائیں گے
اک ماہ کی چھٹّی ہے
امّی نے کہا مجھ سے
جھوٹ نہیں کہنا
روٹھے گا خدا تجھ سے
استاد یہ کہتے ہیں
نیک ہیں وہ بچے
مل جل کے جو رہتے ہیں
دن رات جو لڑتے ہیں
دور رہو اُن سے
اخلاق بگڑتے ہیں
صابر جو بشر ہو گا
یاد رکھو اُس کی
آہوں میں اثر ہو گا
لکھّا ہے کتابوں میں
ظلم جو ڈھائے گا
ڈوبے گا عذابوں میں
چلتا ہوں تو لگتا ہے
ساتھ مرے ہر دم
یہ چاند بھی چلتا ہے
ہم چاند پہ جائیں گے
اور وہاں جا کر
گھر اپنا بنائیں گے
کیا ہیں یہ بتا دیں گے
وقت پہ ہم بچے
کچھ کر کے دکھا دیں گے
پھر موج اُڑائیں گے
چاند نظر آیا
کل عید منائیں گے
حاصل یہ خوشی ہو گی
عید کے دن تن پر
پوشاک نئی ہو گی
ہم شان سے چلتے ہیں
عید کے دن دل کے
ارمان نکلتے ہیں
بھر پور خوشی ہو گی
عید میں عیدی سے
جب جیب بھری ہو گی
کیوں لوٹ کے جاتی ہے
ایک برس میں جب
اے عید، تو آتی ہے
٭٭٭
تشکر: افتخار راغبؔ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید