تگڑم
نتن سیٹھی
مشمولہ اردو ڈرامے، مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق
کردار
جیون
فالتو
آتمارام
نارائن داس
عبدل
شیرو
ایک بے کار نوجوان
مالتی
دولت رام
ڈاکیہ
پولیس آفیسر
(ایک معمولی سا دفتر، دو چار کرسیاں، دو میزیں، کچھ رجسٹر، کچھ فائلیں، گھنٹی وغیرہ۔ دیوار پر ایک دو لیڈروں کی تصویریں لٹکی ہوئی ہیں۔ دفتر کے دروازے کے پاس ایک اسٹول پر بیٹھا چپراسی ہتھیلی پر سوکھا رگڑ رہا ہے۔)
جیون :(سوکھا منہ میں ڈالتے ہوئے ) ہے رام کہاں پھنسا دیا تو نے۔ آج بھی پگار نہ ملی تو۔
(آہٹ سن کر سونے کا بہانہ کرتا ہے۔ ایک ایرانی ہوٹل والے کا باہر والا جس کے ہاتھ میں دو خالی چائے کے کپ اور ایک خالی گلاس ہے داخل ہوتا ہے۔ جیون کو سوتے دیکھ کر۔)
باہر والا :(فالتو) وارے جیون کیا خراٹے بھر رہا ہے۔ ابھی تیری رات ختم نہیں ہوئی۔۔۔ کیا؟
جیون :ارے توہے میں تو سمجھا۔۔۔ کیوں کیا بات ہے ابھی سیٹھ جی نے چائے بسکٹ کے پیسے نہیں دیئے کیا؟
فالتو :اگر رقم مل گئی ہوتی تو یہاں کیوں آتا۔ کب آئے گا تیرا سیٹھ۔۔۔ کیا؟
جیون :میری جانے بلا۔۔۔ بیڑی پلا اگر ہے تو۔
فالتو :بیڑی۔۔۔ بیڑی نہیں ہے بلے، پر دیکھ اگر تو میرے پیسے دلوا دے گا تو تجھے سگریٹ پلاؤں گا، سگریٹ۔ کیا؟
جیون :اچھا، اچھا سیٹھ آئے گا تو بول دوں گا۔ تواب جا۔
فالتو :تو میں ایک گھنٹہ بعد پھر آؤں گا۔۔۔ کیا؟
(فالتو چلا گیا ہے۔ جیون پاؤں کی چاپ سن کر پھر سونے کا بہانہ کرتا ہے۔ سیٹھ آتمارام داخل ہوتا ہے۔ اپنے میز کی طرف آتے ہوئے خراٹے کی آواز سنتا ہے۔)
آتمارام:جیون۔۔۔ جیون۔۔۔ او جیون۔۔۔
(جیون ابھی بھی سو رہا ہے۔ آتمارام اس کے پاس آ کر ایک ہلکی سی چپت دیتا ہے اس کی پیٹھ پر)
جیون :کیا ہے بے سالے، کیوں تنگ کر رہا ہے۔۔۔؟
آتمارام:ابے گدھے گالی دیتا ہے۔
جیون :اوہ، معاف کرنا حجور۔ میں سمجھا وہ ایرانی کا چھوکرا ہے۔
آتمارام:چھوکرے کے بچے، یہ کیا سونے کا وقت ہے۔
جیون :بس حجور تھوڑی آنکھ لگ گئی تھی۔ گالی کا معاپھی کریں حجور۔
آتمارام:کوئی ڈاک واک ہے۔
جیون :جی نہیں۔۔۔
آتمارام:اچھا جا ساتھ والوں سے اخبار لے آ۔
(جیون جاتا ہے آتمارام اپنی وا سکٹ، ٹوپی وغیرہ اتار کر ٹوٹی سی کھوٹی پر لٹکاتا ہے۔ جیب سے دو اگر بتیاں نکال کر ا نہیں جلا کر دیوار پر ٹنگی تصویروں کے کسی حصے میں لگا دیتا ہے۔ ٹھنڈی سانس لیتا ہے اور سنتوش انوبھو کرتا ہے۔)
جیون :(آتا ہے اور اخبار بڑھا کر) حجور آج کا نہیں یہ کل کا اخبار دیا ہے ان لوگوں نے۔
آتمارام:ابے گدھے کہیں کے کل کا اخبار بھی کوئی آج پڑھتا ہے۔
جیون :حجور کل کا آج پڑھ لیویں۔
آتمارام:کیا نارائن داس ابھی تک نہیں آیا۔
جیوں :جی نہیں۔
آتمارام:جاؤ ذرا ٹائم پوچھ کر آؤ اور دیکھو گھڑی ساز سے بھی پوچھ کر آؤ کہ ہمارا کلاک کب تک ٹھیک ہو جائے گا۔
جیوں :حجور وہ گھڑیال مرمت والا کہتا ہے کلاک تو پندرہ دن سے تیار پڑا ہے مگر آپ نے ادھر سے آنا۔۔۔
آتمارام:بس بس، باتیں کم۔ ایک گلاس پانی پلاؤ۔
جیون :حجور پانی کہاں سے لاؤں۔ صراحی تو ٹوٹ گئی ہے۔ کہیں تو ایرانی کے وہاں سے لے آؤں اور ساتھ ہی ساتھ ٹیم بھی پوچھ آؤں۔
آتمارام:اچھا اچھا۔
جیون :حجور، وہ ایرانی کا باہر والا ابھی ابھی آیا تھا، چا بسکٹ کے پیسے مانگ رہا تھا اسے کیا بولوں۔
آتمارام:اسے میں دیکھ لوں گا تو فی الحال پانی دوسرے ایرانی کے ہوٹل سے لے آ۔
جیون :مگر حجور وہاں تو آپ کا کھاتہ نہیں ہے۔
آتمارام:ارے گدھے پانی کا بھی کہیں کھاتہ ہوتا ہے۔ جا۔
(جیون جاتا ہے۔)
آتمارام:(اپنے آپ سے ) نارائن داس آ جائے تو اس کی صلاح بھی لے لوں۔ اف او۔آج ہی دیر سے آئے گا۔
(نارائن داس داخل ہوتا ہے اور بڑے روکھے انداز میں کہتا ہے۔)
نارائن داس :نمستے۔
آتمارام:آ گئے۔ نمستے۔ آج ہی دیر سے آنا تھا۔ کیا ٹائم ہو گا۔
نارائن داس :جی اپنا کلاک کو آپ نے سدھرنے دیا ہوا ہے آپ کہیں تو نیچے سے یا ساتھ والوں سے پتہ کر لیتا ہوں۔
آتمارام:اس کی ضرورت نہیں مگر کبھی کبھار کچھ جلدی آ جایا کرو۔ کچھ کام ہی نکل آتا ہے۔ مثلاً۔۔۔
نارائن داس :سیٹھ جی آپ کو پتہ ہی ہے کہ دادر سے ٹرام میں آتے آتے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اگر ساڑھے نو بجے چلوں تو مشکل سے ساڑھے گیارہ بجے یہاں پہنچتا ہوں۔ میں تو خود اس ٹرام کی کھٹ کھٹ سے تنگ آ گیا ہوں۔ مگر کروں تو کیا کروں؟
آتمارام:لیکن کبھی کبھار بس میں آ جایا کرو۔
نارائن داس :دیکھئے سیٹھ جی ٹرام میں آنے جانے کے تین آنے لگتے ہیں اور بس میں آٹھ آنے اور اس طرح پانچ آنے روز کی بچت سے چار اتواروں کو چھوڑ کر مہینے میں کوئی آٹھ ایک روپئے کی بچت ہو جاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں یہ بھی غنیمت ہے اور پھر میں جس ہوٹل میں کھانا کھاتا ہوں وہاں نو بجے سے پہلے تو کھانا تیا رہی نہیں ہوتا اور ہوٹل میں چھوڑ نہیں سکتا کیوں کہ وہاں مجھے کھانا ادھار ملتا ہے۔
آتمارام:ادھار کھانا۔ کس جگہ؟
نارائن داس :رام بھروسہ ہوٹل دادر تلک برج کے نیچے۔
آتمارام:(اپنے آپ سے )رام بھروسے۔ تلک برج۔۔۔ اچھا تو دیکھو نارائن داس۔۔۔
نارائن داس :دیکھئے سیٹھ جی۔ آج تو کچھ روپئے دیجئے۔ ہوٹل والے کا تین مہینے کا بل اور ۔۔۔
آتمارام:میری جیب میں تو صرف دو روپئے بارہ آنے ہیں۔
نارائن داس :لائیے۔ وہی لائیے۔ کچھ روز ٹرام کا خرچہ تو نکلے گا۔
آتمارام:دیکھو دیکھو اب روپئے آنے ہی والے ہیں۔
نارائن داس :دیکھئے سیٹھ جی، ایک مذاق کو بار بار دہرانے سے اس کا مزا چلا جاتا ہے۔
آتمارام:نہیں مجھ پر وشواس نہیں۔
نارائن داس :مجھے تو آپ پر وشواس ہے لیکن جن لوگوں نے مجھ سے روپئے لینے ہیں ان کا مجھ پرسے وشواس اٹھ گیا ہے اور وجہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے میں ایک چھوٹی سی ہستی کا آدمی ہوں۔
آتمارام:ارے میں جو کہتا ہوں تم فکر نہ کرو اب۔
نارائن داس :تو کروں کیا؟ دفتر میں دن بھر کوئی کام بھی تو نہیں ہوتا جو کچھ گھنٹوں کے لیے اپنی مصیبتوں کو بھلا سکوں۔
آتمارام:کام کیوں نہیں ہے تم کاغذ قلم نکالو۔
نارائن داس :بس رہنے دیجئے۔
آتمارام:ارے گھبراتے کیوں ہو۔ لکھو۔
نارائن داس :جی بولیے۔
آتمارام:سنہرا موقعہ۔ اسسٹنٹ منیجر کی آسامی کے لیے۔ تنخواہ تین سو روپیہ ماہوار۔ عرضی میں اپنی ڈگریاں لکھی ہونی چاہئیں اور عرضی کے ساتھ ایک روپیہ کا پوسٹل ٹکٹ بطور خرچہ ضرور بھیجنا چاہئے۔ ضرور کے نیچے لائن لگا دو اور نیچے اپنا پتہ لکھ دو۔
نارائن :جی۔
آتمارام:اچھا تو پڑھو۔ کیا لکھا ہے؟
نارائن :(سارا مضمون دہراتا ہے۔)
آتمارام:ارے بھئی اپنے پتہ سے مطلب ہے اپنی فرم کا پتہ:آتمارام اینڈ کمپنی، ۳۶۹۔بھوشیہ روڈ، بمبئی۔
۲نارائن داس :اس کا کیا مطلب ہے سیٹھ جی۔ آ پ سے میرے ایک سو پچاس روپئے تو نہیں دیئے جاتے اور اسسٹنٹ منیجر رکھیں گے تین سو روپئے ماہوار کا۔ یہ تو حد ہو گئی۔ آ پ تو میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔
آتمارام:ارے بھئی تم بات کو سمجھو تو سہی۔ خواہ مخواہ بگڑے جا رہے ہو۔ یہ جو مضمون ہے نا اسے کسی انگریزی اخبار میں چھپوا دیں گے۔ تم تو جانتے ہی ہو کتنی بے کاری ہے آج کل۔ بس دو چار دن کے اندر ہی اندر ہمارے پاس ہزاروں عرضیاں اور ہزاروں روپئے آ جائیں گے۔پھر تم اپنے ہوٹل کابل چکا دینا اور میں اپنے دفتر کا کرایہ چکتا کر دوں گا۔
نارائن :کیا پلان بنایا ہے واہ واہ، سیٹھ جی کیا دماغ پایا ہے۔ لیکن سیٹھ جی اگر پولیس کو پتہ چل گیا تو۔
آتمارام:رام کا نام لو نارائن داس۔ پولیس کو فرصت کہاں وہ تو دارو بندی کے سلسلے میں لگی ہوئی ہے۔
جیون :(آ کر) پانی حجور۔
آتمارام:کہاں گم ہو گیا تھا تو؟لا۔ (پانی پیتا ہے ) اچھا تو نارائن تو اس کا مضمون انگریزی میں تیار کرو۔ میں ابھی آتا ہوں۔
(سیٹھ جی کان کے اردگرد دیگو پویت باندھتے ہیں۔ باتھ روم جانے کے لیے۔)
نارائن :گولڈن اپرچیونٹی۔ وانٹیڈ اپن اسسٹنٹ منیجر۔ مسٹ مینشن۔۔۔
جیون :بابو جی سیٹھ سے کہہ کر کچھ رکم دلوائیے بڑی سخت ضرورت ہے۔ گھر لگائی کو کچھ بھیجنا ہے۔
نارائن :دیکھو اس وقت میں سخت مصروف ہوں کل یا پرسوں ہو جائے گا تمہارا کام۔
جیون :بابو جی دو روز سے میرے پیٹ میں درد بھی رہتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔
نارائن :ارے ڈاکٹر کے پاس جا کر کیا ہو گا، سیدھے اس بھگوان کے پاس چلے جاؤ سب دردوں کا علاج ہو جائے گا۔
جیون :بس بس رہنے دو بابو جی۔ ایک تو پیسے نہیں دلواتے اوپر سے کہتے ہیں یہاں چلا جا۔ وہاں چلا جا۔
(دو مزدور داخل ہوتے ہیں۔)
ایک مزدور :سلام بابو۔۔۔
نارائن :سلام کیا ہے۔
مزدور :اس دفتر کے فرنیچر کے کرائے کابل۔
نارائن :(بل پڑھ کر) دیکھو بھئی۔ میرے سیٹھ صاحب اس وقت یہاں نہیں ہیں تم کل یا پرسوں۔۔۔
مزدور :یہ کل پرسوں توہم تین مہینے سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ آج کرایہ دیجئے ورنہ۔۔۔
دوسرا مزدور :ورنہ ہم فرنیچر واپس لے جائیں گے۔
نارائن :دیکھو بھئی اتنی جلد بازی اچھی نہیں
ایک مزدور :عبدل اٹھاؤ فرنیچر۔
عبدل :اٹھو بابو۔
نارائن :نہیں اٹھتا۔
عبدل :اٹھتے ہویا کرسی سمیت لے جائیں تمہیں اٹھاؤ شیرو بابو کو کرسی سمیت۔
(دونوں اٹھاتے ہیں، نارائن داس چلاتا ہے، اتنے میں آتمارام داخل ہوتا ہے۔)
آتمارام:کیا یہ ہے سب، کیا شور مچا رکھا ہے۔
عبدل :ہم یہ فرنیچر لے جانا چاہتے ہیں اور تمہارا یہ بابو کرسی سے اٹھتا ہی نہیں۔ کرایہ نہیں دو گے تو پھوکٹ میں استعمال کرو گے۔
آتمارام:دیکھو۔۔۔ کتنا بنتا ہے کل کرایہ۔
عبدل :فارٹی فائیو(Forty Five)
شیرو :پانچ کم پچاس۔
آتمارام:نارائن داس، ذرا میری چیک بک تو دینا رہنے دو۔ یہیں ہے۔(چیک لکھ کر عبدل کو دیتا ہے ) یہ لو۔
عبدل :(چیک لے کر) سلام صاحب۔
آتمارام:سلام۔ (آتمارام دوسرا چیک لکھ کر نارائن داس کو دیتا ہے۔) یہ اخبار والوں کو بھیج دینا۔ پیشگی کے بغیر تو وہ ہمارا اشتہار چھاپیں گے ہی نہیں۔
نارائن :جیون ایک گلاس پانی تو لانا۔
(جیون جاتا ہے۔)
نارائن :سیٹھ جی ایک طرف تو آپ کہتے ہیں پیسے نہیں ہیں دوسری طرف دنادن چیک پر چیک کاٹ رہے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔
آتمارام:تم نہیں سمجھو گے۔ سنو۔ فرنیچر والوں کو جو چیک دیا ہے اس پر تو دستخط ہی غلط کیے ہیں اور جو تین چار روز میں واپس آ جائے گا۔ باقی رہا اخبار والوں کا چک اس کے لیے بندوبست کر لیا ہے۔ وہ اس طرح ہے۔ آج ہے سنیچروار اور بینک بند ہو جائیں گے کوئی ایک گھنٹے میں۔ کل رہا اتوار اور پرسوں ہے بینک ہالی ڈے اور منگل سے پہلے تو ہمارے پاس ہزاروں عرضیاں اور ہزاروں روپئے آ چکے ہوں گے سمجھے اب۔ اچھا سنو اب میں شیئر بازار جا رہا ہوں۔ تم اخبار کو اشتہار فوراً بھیج دو۔ ٹائپ رائٹر کسی ساتھ والی فرم۔۔۔
نارائن : آپ چنتا نہ کریں۔
(آتمارام جاتا ہے۔ جیون پانی کا گلاس لے کر آتا ہے۔)
جیون :پانی بابو جی۔ بابو جی ہمارے سیٹھ صاحب تو چیک پر چیک کاٹتے ہیں اور آپ مجھے دس روپئے بھی نہیں دلوایت۔
نارائن :ارے تو پڑھا لکھا ہوتا تو ان چیکوں کی ساری اصلیت معلوم ہو جاتی۔
جیون :پڑھ جاتا تو چپڑاسی ہی رہتا بابو جی۔
نارائن :ارے آج کل تو ایم اے، بی اے بھی چپڑاسی بننے کی فکر میں ہیں شکر کر تو بن پڑھائی لکھائی کے ہی چپڑاسی ہے۔
جیون :ٹھیک ہے بابو جی۔ ٹھیک ہے۔
(گلاس اٹھانے لگتا ہے۔)
نارائن :ابے رکھ پانی تو پینے دے۔(جیون گلاس پھر سے رکھ دیتا ہے۔ نارائن داس کا ہاتھ لگتے ہی میز سے فرش پر گر جاتا ہے )توبہ۔ خوامخواہ میں جلد بازی کرتا ہے جیون تو۔
جیون :اب گلاس کے چھ آنے اور ہو گئے۔
نارائن :یہ ادھر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دے اور چپ چاپ بیٹھ جا اگر ایرانی پوچھے تو کہہ دینا واپس دے آیا تھا۔
جیون :میں کا ہے کو جھوٹ بولوں، میں تو صاف صاف کہہ دونگا۔
نارائن :اچھا اچھا کل جگ کے یدھسٹر مہاراج جو من میں آئے کہہ دینا۔ میں بھر دوں گاچھ آنے۔
(جیون کانچ کے ٹکڑے اٹھا رہا ہے۔ اندھیرا ہوتا ہے۔جب اسٹیج پر روشنی ہوتی ہے تو سوائے جیون کے جو اس وقت ڈنڈ پیل رہا ہے لنگوٹ پہنے ہوئے اور کوئی نہیں ہے۔ اتنے میں دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آتی ہے۔)
جیون :ارے آتا ہوں بھئی۔ ٹھہرو ایک پل۔
(جیون دروازہ کھولتا ہے تو ایک نوجوان جو کافی گھبرایا ہوا ہے نظر آتا ہے۔)
نوجوان:رام رام بھیا۔
جیون :رام رام
نوجوان:آتمارام اینڈ کمپنی یہی ہے نا۔۔۔؟
جیون :ہا ں ہاں یہی ہے۔ کیا کام ہے۔؟
نوجوان:آفس کتنے بجے کھلتا ہے۔؟
جیون :ابھی کھلنے ہی والا ہے۔
نوجوان:تمہارے سیٹھ صاحب کتنے بجے آتے ہیں۔
جیون :دس، کام کیا ہے؟
نوجوان:اور منیجر صاحب کتنے بجے آتے ہیں۔
جیون :گیارہ، کام کیا ہے؟
نوجوان:کام بہت ضروری ہے میں ان کا یہیں انتظار کرتا ہوں۔
جیون :تم باہر بیٹھو بابو میں یہاں جھاڑو واڑو لگاؤں گا۔ چلو باہر۔
(نارائن داس آتا ہے۔)
نارائن داس :رام رام جیون۔
جیون :رام رام بابو جی۔ آج تو آپ بڑے سویرے ہی آ گئے۔
نارائن :ہاں بھئی آج کام ہی ایسا ہے۔
جیون :بابو جی یہ صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
نارائن :نہیں نہیں۔ مجھے ابھی فرصت نہیں ہے۔ جیون ایک گلاس پانی تو پلانا۔
نوجوان:جی میں۔۔۔ میں۔۔۔
نارائن :اوہ آپ ہیں کہئے میں آپ کے لیے کر سکتا ہوں۔
نوجوان:میں نوکری کے بارے میں آپ سے ملنے آیا ہوں یہ رہی میری عرضی۔
نارائن داس : آپ اپنی عرضی خود ہی لے آئے۔ ڈاک سے بھیج دی ہوتی۔
نوجوان:جی میں نے ڈاک میں۔۔۔ میں نے سوچا میں خود ہی کیوں نہ دے آؤں۔
نارائن :خیر کوئی بات نہیں۔۔۔ ہاں تو فیس کے لیے ایک روپیہ کا ٹکٹ۔
نوجوان:جی میں بالکل بے کار ہوں منیجر صاحب۔ دو دن سے میں نے کھانا تک نہیں کھایا۔
نارائن :مسٹر اس میں میں کچھ نہیں کر سکتا۔
نوجوان:میں نے بی اے آنرز کے ساتھ کیا ہے۔ منیجر صاحب، کیا فیس ٹکٹ بہت ضروری ہیں۔
نارائن :جی ہاں نہایت ضروری۔
نوجوان:ایک بات کہوں آپ سے۔
نارائن ۔:کہیے۔
نوجوان: آپ مجھے ایک روپیہ ادھار دے دیں تو میں ٹکٹ لے آؤں۔ پہلی تنخواہ ملتے ہی لوٹا دوں گا۔
نارائن :خوب۔ دیکھئے میرا وقت ضائع مت کیجئے۔ یہ لیجئے اپنی عرضی اور کسی دوسرے دفتر کا منہ دیکھئے۔
(عرضی فرش پر پھینک دیتا ہے۔ نوجوان اٹھ کر چلا جاتا ہے۔)
نارائن :(اپنے آپ سے ) روپیہ ادھار دے دیجئے۔ ہوں۔
فالتو :باہر والا۔
نارائن :کیا لائے ہو؟
فالتو :لایا وایا کچھ نہیں۔ لینے آیا ہوں ساڑھے اٹھارہ آنے۔
نارائن :(چیک دکھا کر) ارے ہاں دیکھ بھئی میرے پاس چیک ہے ابھی بینک سے تڑوا کر لاتا ہوں۔ شام کو آ کر لے جانا۔
فالتو :دیکھو بابو جی، یہ سویرا شام میں بہت سن چکا ہوں آپ سیدھی طرح سے دے دو نہیں تو۔۔۔
نارائن :اچھا اچھا تم تھوڑی دیر بعد آنا لے جانا اپنی دولت۔
فالتو :وہ بھی دیکھتا ہوں۔
نارائن :کس منحوس کی صورت دیکھی ہے آج سویرے سویرے ایک صاحب آ گئے ادھار مانگنے اور دوسرا قرضہ لینے۔ ہوں۔
(آتمارام داخل ہوتا ہے بڑا خوش نظر آتا ہے۔ ہاتھ میں ایک ٹوٹی گردن کی صراحی ہے۔)
آتمارام:رام رام نارائن داس، رام رام جیون۔۔۔ یہ لو صراحی۔
نارائن اور جیون:رام رام سیٹھ جی۔
آتمارام:سناؤ کیسا چل رہا ہے۔ کوئی ڈاک واک، کوئی نئی تازی
نارائن داس :کیا نئی تازی ہے جی۔ سرو وات ہی منحوس آدمی سے ہوئی۔ بغیر ٹکٹ چلے آ رہے ہیں۔
آتمارام:کوئی بات نہیں ابھی تو۹بجے ہیں۔ جیون جا اسے بھر لا۔ !(کچھ سنتے ہوئے ) مگر یہ شور کیسا ہے۔ جیون دیکھو تو سہی یہ کیسا شور ہے۔
(جیون جاتا ہے۔)
نارائن :آج ڈاکیہ بھی ضرور دیر سے آئے گا۔
آتمارام:ہاں آج تو۔۔۔
(جیون دوڑتا ہوا آتا ہے۔)
جیون :حجور کوئی ساٹھ ستر آدمی باہر کھڑے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ا نہیں روک کر آیا ہوں۔
آتمارام:نارائن داس ساٹھ ستر روپئے۔
جیون :نہیں حجور ساٹھ ستر آدمی ہیں۔
آتمارام:جیون تم جا کران سے سب سے عرضیاں لے آؤ۔کہنا میں نے ایسا کہا ہے۔
(جیون جاتا ہے۔)
آتمارام:نارائن داس یہ سب لوگ یہ کیسے چلے آئے۔ عرضیاں ڈاک سے ہی بھیج دیتے۔
نارائن داس :وہ شاید سمجھتے ہیں آمنے سامنے ملنے سے نوکری مل جانے کی امید بڑھ جاتی ہے۔
آتمارام:کیا کہا نوکری( ہنستا ہے ) میں نے کہا تھا نا کہ سوموار کو ہم مالامال ہو جائیں گے۔
نارائن داس : آپ بڑے عقل مند اور دور اندیش ہیں سیٹھ جی۔ جیون ابھی تک آیا نہیں۔
(جیون عرضیاں لے کر آتا ہے اور میز پر رکھ دیتا ہے۔)
آتمارام:نارائن داس ان لوگوں کا بھی کچھ بندوبست کرو۔
نارائن :بڑا آسان ہے۔ سب سے اونچی ڈگری والوں کو انٹرویو کر لیں گے۔ باقیوں کو چھٹی۔
آتمارام:اور پھر انٹرویو میں انھیں بھی نا پسند کر لیں گے کیوں؟جیون دیکھو یہ شور کیوں بڑھ رہا ہے۔ کچھ اور لوگ تو نہیں آ گئے۔
(جیون جاتا ہے۔)
نارائن :اچھا سیٹھ جی اب آپ اونچی ڈگری والوں کی عرضیاں ایک طرف کر لیں اور میں ٹکٹ سنبھالتا ہوں۔
(دونوں مصروف ہیں جیون آتا ہے۔)
جیون :حجور وہاں تو دو ڈھائی سو آدمی اور آ گئے ہیں۔ کچھ بائی لوگ بھی ہیں۔
آتمارام:نارائن داس دوسو روپے اور کچھ بائی لوگ۔
نارائن :جیون تم جاؤ ا ور جا کر سب کی عرضیاں لے آؤ اور کہنا چنے ہوئے آدمیوں کا انٹرویو بھی ابھی ہی ہو گا۔
جیون :جی۔۔۔ یہ کیا ابھی ابھی ہو گا بابو جی۔
نارائن داس :انٹرویو۔
جیون :جی ہنٹروایو۔
آتمارام:نارائن داس۔ یہ دیکھو ’’مالتی دیوی ایم اے ‘‘ جاؤ اسے بلا لاؤ۔
نارائن :باقی عرضیاں بھی تو آج جانے دیجئے۔
آتمارام:ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔
(ڈاکیہ داخل ہوتا ہے۔)
ڈاکیہ :نمستے جی۔ آج تو آپ کے لیے خوب ڈاک لایا ہوں۔
آتمارام:لاؤ، لاؤ۔
ڈاکیہ :کچھ بخشش سیٹھ صاحب۔
آتمارام:ہوں؟
ڈاکیہ :کچھ ہولی کی مٹھائی۔
آتمارام:ہاں ہاں کیوں نہیں۔
(دیتا ہے۔)
نارائن :سیٹھ جی یہ تو کوئی تین سو چٹھیاں دکھائی دیتی ہیں۔
آتمارام:تین سو۔
(جیون عرضیاں لے کر آتا ہے۔)
جیون :یہ لیجئے۔
آتمارام:نارائن داس ذرا جلدی کرو۔ ایسا کیوں نہیں کہ تم مالتی دیوی کو بلا لاؤ اور میں عرضیاں دیکھ لیتا ہوں۔ کوئی ایم اے ہو تو اسے بھی بلا لانا۔
نارائن :یہ بھی ٹھیک ہے۔ مگر ذرا جلدی کیجئے۔
(جانے لگتا ہے۔ اسی وقت فالتو آتا ہے۔)
فالتو :بابو چیک تڑوا لائے۔
آتمارام:کون سا چیک۔۔۔؟
نارائن :جی وہ۔۔۔ ابے فالتو اس وقت ہم مصروف ہیں تو شام میں آ کر اپنے پیسے لے جانا۔
فالتو :میں تو آج ہی اور ابھی لے کر جاؤں گا۔ میں یہاں سے ہلنے والا نہیں ہوں۔
نارائن :اچھا دیکھ تو اس وقت دو گولڈ سپاٹ لے آ اور سب کے پیسے اکٹھے لے جانا۔
فالتو :ادھار کچھ نہیں ملے گا۔ پہلے ایک روپیہ ڈھائی آنے دلوا دو بعد میں گولڈ سپاٹ کی بات کریں گے۔
نارائن :اچھا اچھا یہ لے۔
(ایک روپیہ کا پوسٹیج ٹکٹ اٹھا کر دیتا ہے۔)
فالتو :باقی ڈھائی آنے۔
نارائن :وہ بھی مل جائیں گے۔ اب دو گولڈ سپاٹ لے آ۔
آتمارام:نہیں نہیں تم فی الحال ایک سنگل چائے لے آؤ۔
نارائن :ہیں۔
آتمارام:ہاں، ہاں سنگل چائے۔(فالتو جاتا ہے )نارائن داس اب تم جاؤ اور مالتی کو بلا لاؤ۔(نارائن داس جاتا ہے ) دیکھو جیون عرضیوں کے ساتھ ٹکٹ لگے ہوئے ہوں گے۔ ٹکٹ اس طرف رکھتے جاؤ، عرضیاں ادھر۔
جیون :(کام کرتے ہوئے ) حجور آج تو مجھے بیس روپے دلوا دیں مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔
آتمارام:اچھا اچھا یہ لو دو روپئے (دو ٹکٹ دیتا ہے۔)باقی کل پرسوں لے لینا۔
جیون :نہیں حجور دو روپئے سے کام نہیں چلے گا۔ ڈاکٹر بولتا ہے بیس روپئے کا درد ہے میں آپ کے پاؤں پکڑتا ہوں۔ مجھے بیس روپئے دے دیں۔
آتمارام:اف اور کیا مصیبت ہے۔
(نارائن داس مالتی دیوی کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔)
(جیون آتمارام کے پاؤں چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے۔)
نارائن :آئیے آئیے۔(جیون کو ڈانٹتے ہوئے ) جیون!
(جیون اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔)
نارائن :سیٹھ جی آپ ہیں مالتی دیوی۔ آپ ہیں ہمارے بوس۔
آتمارام:بیٹھئے۔(آتمارام اور نارائن داس دونوں اپنی اپنی کرسی پیش کرتے ہیں۔دونوں کرسیوں کے بیچ پڑی کرسی پر مالتی بیٹھ جاتی ہے ) تو آپ نے ایم اے کہاں سے کیا ہے۔
(عین اس وقت ایک نوجوان بدحواسی کی سی حالت میں داخل ہوتا ہے۔)
نوجوان: آپ نے پہلے مجھے کیوں نہیں بلایا۔ میں نے بھی تو ایم اے پاس کیا ہے۔ بلکہ میں نے ایم اے کے ساتھ بی ٹی بھی کیا ہے اور عرضی کے ساتھ ایک روپیہ کا ٹکٹ بھی بھیجا ہے۔(نرمی سے ) سیٹھ جی میں یہ نوکری ساڑھے تین سوکی بجائے دوسو میں بھی کرنے کو تیار ہوں۔ میں نے ایم اے ہائی سکنڈ کلاس میں پاس کیا ہے۔ یہ رہے میرے سرٹیفکٹ۔
(کاغذوں کا پلندہ میز پر دے مارتا ہے۔)
( ان میں ایک کھلا ہوا چاقو بھی ہے۔)
آتمارام:یہ چاقو۔ کیا مطلب۔
(مالتی دیوی اپنی کرسی میں سکڑ جاتی ہے۔)
نوجوان:جی یہ مجھے۔۔۔ جی یہ میں نے۔۔۔ معاف کرنا مجھے اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ آپ مجھے یہ نوکری دے دیجئے نہیں تو میں۔۔۔ نہیں نہیں میں خودکشی نہیں کروں گا۔ میں دنیا سے لڑوں گا میں اپنے جیون کو مدھر بناؤں گا۔ میری بیوی ہے۔ میرے بچے ہیں۔ میں ان کی خاطر، میں اپنی خاطر کام کرنا چاہتا ہوں۔ سیٹھ جی۔ یہ نوکری مجھے دے دیں میں پوری تندہی سے کام کروں گا۔ میں خون پسینہ ایک کر دوں گا۔
آتمارام:بیٹھئے بیٹھے۔۔۔ نارائن داس دیکھنا تو ان کی عرضی۔۔۔ کیا نام ہے آپ کا۔
نوجوان:جی دولت رام۔
نارائن :(عرضیاں الٹتے پلٹتے ) جی یہ رہی ان کی عرضی۔
آتمارام:آگے کہیں کام کیا ہے؟
دولت رام :جی ہاں تین مہینے پیشتر میں ایک مل میں چپڑاسی تھا۔
جیون :چپڑاسی۔
دولت رام :اس سے پہلے میں ایک ا سکول میں ٹیچر تھا۔
آتمارام: آپ آفس کا حساب کتاب کیسے سنبھالیں گے۔
نارائن :کیا گجراتی مراٹھی بھاشا جانتے ہیں؟
دولت رام :جی۔۔۔ جی نہیں۔
نارائن :ہمارا تو کام کاج، لین دین، حساب کتاب گجراتی مراٹھی میں ہوتا ہے۔
دولت رام :جی میں دونوں زبانیں پندرہ دن کے اندر اندر سیکھ لوں گا۔
آتمارام:یہ تو نہایت اچھی بات ہے۔ اچھا دیکھئے فی الحال میں اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ آپ کو پندرہ دن کے لیے Trial پر رکھیں۔
دولت :جی شکریہ۔
(اٹھتا ہے۔)
آتمارام:اچھا تو میں آپ کوAppointment لیٹر بذریعہ ڈاک بھیج دوں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔(دروازہ تک چھوڑ کر آتا ہے دولت رام کو) اچھا نمستے۔(جیون سے ) جیون دیکھو تم دروازے کے باہر بیٹھو اور کسی فالتو آدمی کو اندر مت آنے دینا۔ سمجھے۔
مالتی :اچھا تو میں چلتی ہوں۔
(اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔)
آتمارام، نارائن:کیوں۔ کیوں؟
مالتی : آپ نے تو نوکری ان کودے دی نا۔
نارائن :اجی وہ تو یونہی ٹالنے۔۔۔
آتمارام:نوکری کی بات تواب ہو گی۔۔۔ بیٹھئے۔
(بیٹھ جاتی ہے۔)
آتمارام اور نارائن:مالتی دیوی۔
مالتی :جی۔
آتمارام:نارائن داس تم ذرا۔۔۔ ہاں تو مالتی دیوی ہمارے پاس آپ کی یہ پہلی نوکری ہو گی۔
مالتی :جی میں نے اپنی عرضی میں سب کچھ لکھ رکھا ہے۔
آتمارام:اوہ!میں سمجھا آپ سیدھی انٹرویو دینے ہی آئی ہیں۔
نارائن :(جو عرضی ڈھونڈ کر اسے پڑھ رہا ہے ) آپ نے پہلی دو نوکریاں کیوں چھوڑ دیں۔
آتمارام:نارائن داس تم ذرا۔۔۔ جی ہاں آپ نے پہلی دو نوکریاں کیوں چھوڑ دی۔
مالتی :کپڑا سلائی کے کارخانے میں تو تنخواہ بہت ہی کم تھی اور Continuity Girl کی اس لیے چھوڑ۔۔۔
آتمارام:یہ کان۔۔۔ کان۔۔۔ کانٹٹی گرل۔۔۔
مالتی :جی میں ایک فلم ڈائرکٹر کی اسسٹنٹ تھی۔
نارائن :تب تو تنخواہ خوب ملتی ہو گی۔
مالتی :جی ہاں تنخواہ تو خوب ملتی تھی مگر مجھے وہاں کا atmosphere پسند نہیں آیا۔
آتمارام:کیا پسند نہیں آیا۔
مالتی :جی atmosphere۔
نارائن داس :اوہ۔ واتاورن۔ واتاورن۔
آتمارام:اچھا واتاورن۔ اچھا اچھا(نارائن داس کو باہر جانے کا اشارہ کرتا ہے نارائن داس ایسے دیکھتا ہے جیسے سمجھا ہی نہ ہو)نارائن داس آپ جا کر دو گولڈ سپاٹ لے آئیں۔
نارائن :جی۔
(بڑی بے دلی سے جاتا ہے۔)
آتمارام: آپ کے گھر اور بھی کوئی کمانے والا ہے۔
(اسی بیچ وہ اپنی کرسی پاس لے آتا ہے۔)
مالتی :جی نہیں۔ میرا ایک چھوٹا بھائی اور بوڑھی ماں۔
آتمارام: آپ sunday کو تو فری ہوتی ہوں گی کیوں کہ۔۔۔ (نارائن داس جلدی سے آ کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے ) لے آئے گولڈسپاٹ۔
نارائن :جی جیون کو کہہ دیا ہے لانے کے لیے۔
آتمارام:میں نے تم سے کہا تھا یا جیون سے۔ جیون دو گھنٹے میں لائے گا۔ خیر ہاں تو مالتی دیوی جی۔ میں آپ سے کہہ رہا تھا کہ کیا آپ سنڈے کو فری ہوتی ہیں نا۔
(نارائن داس چھینک مارتا ہے۔)
نارائن :(اپنی کرسی نزدیک لاتے ہوئے ) آپ نے سیٹھ جی کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
مالتی :جی میں سمجھی نہیں۔
نارائن داس :جی میں یہی کہ ہمارے سیٹھ جی کچھ کاروبار بڑھانے والے ہیں۔ آپ تو جانتی ہی ہیں کہ اگر کام کا رش ہو گیا تو دفتر میں کام سنڈے کو بھی کرنا پڑے گا۔ بس اتنا ہی۔
مالتی :اچھا تو میں چلوں۔
(چل پڑتی ہیں۔)
آتمارام:(دروازے کے پاس پہنچ کر) تو میں کیا سمجھوں۔
مالتی :جی میں کوشش کروں گی۔
آتمارام:(مالتی کے کندھے کو چھو کر) آپ کوشش کریں گی واہ واہ تب تو نوکری آپ ہی کو ملے گی۔
(مالتی سن کر باہر چلی جاتی ہے۔)
آتمارام:نارائن داس اس لڑکی کا پتہ تو دینا مجھے۔ کبھی شاید واقعی نوکری دینی پڑ جائے۔ (دونوں مسکراتے ہیں ) اچھا دیکھو جلدی سے باقی عرضیوں سے بھی ٹکٹ الگ کر لو تو کام نبٹ جائے۔
نارائن :جی۔
(دونوں مصروف ہیں عرضیوں سے ٹکٹ الگ کرتے ہوئے۔)
(جیون داخل ہوتا ہے دوڑتا ہوا۔)
جیون :حجور ایک پولیس آفیسر ساتھ والوں سے آپ کا پتہ پوچھ رہا ہے۔
آتمارام:جاؤ ان کی عرضی بھی لے آؤ۔
نارائن :سیٹھ جی پولیس آفیسر۔
آتمارام:ہیں !
نارائن :میں نے پہلے ہی کہا تھا پولیس سے ہوشیار رہئے گا۔
آتمارام:اب کیا ہو گا۔ اوہ ایشور۔ دیکھو جیون تم یہ تمام ٹکٹ اس رجسٹر میں رکھ دو اور اسے اپنے پاس رکھ لو۔ نارائن داس تمام عرضیاں تم۔۔۔ اف ہو۔۔۔ تم ان کو جلادو مگر یار۔۔۔ خیر تم ا نہیں اپنے دراز میں رکھ دو۔
(نارائن داس دراز میں رکھنے جاتا ہے مگر میز میں دراز نہ پا کر سیٹھ کی دراز میں رکھنے جاتا ہے۔)
نارائن :سیٹھ جی میری میز میں تو دراز ہی نہیں ہے۔
آتمارام:اف ہو۔ تم ان کے اوپر بیٹھ جاؤ۔ بیٹھ جاؤ۔ ہے پرمیشور۔
(پولیس آفیسر داخل ہوتا ہے۔)
آفیسر :کیا جگہ لی ہے آپ نے بھی ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں تھک گیا۔
آتمارام:جی لے لی ہے۔ کہئے میں آپ کی کیا سیوا کر سکتا ہوں۔جیون ایک لیمن، ایک ٹھنڈا لیمن تو لانا۔
آفیسر :نہیں نہیں۔ لیمن رہنے دیں کوئی خاص ضرورت نہیں۔ دیکھئے کل کے ٹائمز میں اشتہار آپ ہی نے دیا تھا۔
آتمارام:جی مجھے ایک اسسٹنٹ منیجر کی ضرورت تھی۔
آفیسر :تھی یا ہے۔
آتمارام:جی فی الحال توہے۔ کام کا کوئی آدمی ہی نہیں ملتا۔
آفیسر :ہر عرضی کے ساتھ ایک روپئے کا پوسٹیج ٹکٹ بھی منگوایا ہے نا آپ نے۔
آتمارام:جی۔ وہ رجسٹری سے جواب دینے کے لیے۔
آفیسر :بات دراصل یہ ہے۔۔۔ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔
آتمارام:جی۔ نہیں۔ آپ نے کسی اور کو دیکھا ہو گا۔
آفیسر :جی نہیں مجھے یقین ہے میں نے آپ ہی کو دیکھا ہے۔ یاد نہیں آتا کہاں۔ شاید باندرہ پولیس اسٹیشن پر یا باندرہ ریلوے اسٹیشن پر۔
(جیون اپنا سامان لے کر باہر جاتا دکھائی دیتا ہے۔)
آتمارام:جی باندرہ ریلوے اسٹیشن پر دیکھا ہو گا۔ میں کبھی کبھار باندرہ جاتا ہوں وہاں میرا ایک رشتہ دار رہتا ہے۔
آفیسر :جی میں بھی پہلے باندرہ پولیس اسٹیشن پر لگا ہوا تھا اب میری تبدیلی اندھیری ہو گئی ہے۔
آتمارام:مگر یہ تو چرچ گیٹ کا علاقہ ہے انسپکٹر صاحب۔
آفیسر :جی ہاں میں ایک ضروری کام کی وجہ سے آیا تھا۔ دیکھئے آپ ذرا باہر تک تو چلئے۔
آتمارام:جی میں۔
آفیسر :جی ہاں آپ۔
آتمارام:جی یہ اپنے ہی آدمی ہیں۔ یہ میرے منیجر ہیں نارائن داس۔
نارائن :جی نمستے۔
آفیسر :نمستے۔ نارائن داس جی آپ ہی ذرا باہر چلے جائیں۔
(نارائن داس کرسی سمیت باہر جاتا ہے۔)
آفیسر :بات یہ ہے کہ میرا بھتیجا اب جوان ہو گیا ہے اور اگر آپ یہ نوکری اسے دے دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔ وہ بڑا ہی ہونہار لڑکا ہے۔ اس نے اسی سال میٹرک کیا ہے۔ یہ رہی اس کی عرضی۔ ٹکٹ تو میں لانا بھول گیا۔البتہ یہ لے لیں ایک روپیہ۔
آتمارام:نہیں نہیں روپیہ کی کیا ضرورت ہے آپ تو شرمندہ کر رہے ہیں۔ آپ کا بھتیجا۔ میرا بھتیجا۔ میں تو سمجھا۔۔۔ خیر آپ عرضی بھی نہ لاتے تو بھی میرا فرض تھا کہ آپ کے بھتیجے کو رکھ لوں۔
آفیسر : آپ کا شکریہ کن الفاظ میں ادا کروں۔
آتمارام:کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔
آفیسر :تو میں اب چلتا ہوں۔
آتمارام:دیکھئے ایک مہربانی کیجئے۔
آفیسر :جی کہئے نا۔
آتمارام:باہر کچھ امیدوار کھڑے ہیں۔ اگر آپ ا نہیں کہہ دیں گے کہ Selection ہو گیا ہے تو وہ چلے جائیں گے۔
آفیسر :ہاں ہاں کیوں نہیں۔ یہ کون سی بڑی بات ہے۔ ضرور کہہ دوں گا۔
آتمارام:شکریہ۔
(آفیسر جاتا ہے۔)
(نارائن داس آ کر)
نارائن داس :سیٹھ جی کیا ہوا۔ بڑا خوش خوش گیا ہے یہ پولیس آفیسر تو۔
آتمارام:بس جلدی کرو۔ کاغذات عرضیاں سنبھالو اور بھاگو یہاں سے۔
نارائن داس :مگر سیٹھ جی ابھی تو آپ کا پلان روپئے میں چار آنے بھی مکمل نہیں ہوا۔ ابھی تو شام کی ڈاک آئے گی۔ کل کی ڈاک آئے گی۔
آتمارام:ارے پاگل کل کی ڈاک سے پہلے تو انسپکٹر کا بھتیجا آ دھمکے گا۔
نارائن داس :تو کیا ہوا۔ اگر ضرورت پڑی تو ان ٹکٹوں میں سے کچھ پیشگی بھی دے دیں گے۔
آتمارام:دیکھو، نارائن داس، پلان میں نے بنایا ہے یا تم نے۔
نارائن داس : آپ نے۔
آتمارام:تو جیسا میں کہوں ویسا ہی کرنا پڑے گا۔ اٹھاؤ فائلیں، عرضیاں وغیرہ۔ وہ ٹکٹوں والا رجسٹر بھی لے لو۔ یہ سب لے کر چلو میرے گھر۔
نارائن داس :وہ ٹکٹوں والا رجسٹر تو آپ کے پاس تھا سیٹھ جی۔
آتمارام:ارے میرے پاس کہاں تھا۔ تمہیں ہی تو دیا تھا میں نے۔
نارائن داس :کیا کہہ رہے ہیں آپ بھی۔ یہاں تو دکھائی نہیں پڑتا۔
آتمارام:یہیں ہو گا، جانا کہاں ہے اسے۔ ارے وہ تو میں نے جیون کو دیا تھا۔۔۔ کہاں ہے جیون۔۔۔؟
نارائن :جیوں ابھی ابھی تو یہیں تھا۔
آتمارام:دیکھو وہ رجسٹر اپنے بستر میں تو نہیں رکھ گیا۔
نارائن :سیٹھ جی، اس کا بستر توہے ہی نہیں۔
آتمارام:ارے یہیں ہو گا۔
نارائن :لگتا ہے بستر اور رجسٹر لے کروہ چمپت ہو گیا ہے۔
آتمارام:تمہیں کیسے پتہ کہ وہ چمپت ہو گیا ہے۔
نارائن :بس یونہی میرا خیال ہے۔
آتمارام:خیال ہے تو یہ تمہارا خیال ہے۔ سچ سچ بتاؤ کہاں ملنے کو کہہ گیا ہے بولو۔ بتاؤ۔
نارائن :کیا کہہ رہے ہیں آپ۔
آتمارام:میں ٹھیک ہی کہہ رہا ہوں۔ تم دونوں مجھے لوٹنے پر تلے ہوئے ہو۔ میں ابھی تھانے میں جا کر رپورٹ لکھواتا ہوں کہ تم دونوں نے میری چوری کی ہے۔
نارائن :ذرا ہوش میں آئیے سیٹھ جی۔ تھانے میں جانے سے نقصان آپ کا ہی ہو گا۔ تھانے میں تو جاؤں گا میں اور دیکھتا ہوں سزا آپ کو ہوتی ہے یا مجھے۔ یہ پلان آپ نے شروع کیا تھا یا میں نے۔ پہلے تو آپ نے مجھے اس کام میں شریک کیا اب مجھ ہی پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔ شرم نہیں آتی۔
(غصے میں چلا جاتا ہے۔)
آتمارام:اچھا بابا میں ہی۔۔۔ نارائن سنو تو۔۔۔ ہائے میں لٹ گیا۔ پولیس، جیل۔ نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔ نہیں (کچھ دیر مسکراتا ہے ) ہاں ہاں دوسرا تگڑم۔۔۔ آج ہی کلکتہ۔۔۔ آج ہی کلکتہ۔
(زور سے ہنستا ہے۔)
(پردہ گرتا ہے۔)
***
ماخذ:’’شگوفہ‘‘(ڈرامہ نمبر)۱۹۷۹ء، ۳۱/مجردگاہ، معظم جاہی مارکیٹ۔ حیدرآباد۔۔ ۵۰۰۰۰۱(اے پی)
مشمولہ اردو ڈرامے، مرتبہ پروفیسر سیدمعزالدین احمدفاروق
فائل کے لئے تشکر: ڈاکٹر شرف الدین ساحل، ساحل کمپیوٹرس، ناگپور
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید