FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تقریباً ہر شے  کی مختصر تاریخ

 

(اے بریف ہسٹری آف نیئرلی ایوری تھنگ)

 

                   بل برائسن (Bill Bryson)

 

حصہ اول

 

اردو ترجمہ

 

                   منصور محمد قیصرانی

 

 

ماہرِ طبعیات لیو سزیلرڈ نے اپنے دوست ہانس بیتھ کو بتایا کہ وہ ڈائری لکھنا چاہتا ہے۔ ‘میں یہ ڈائری چھاپنا نہیں چاہتا۔ میں یہ ڈائری محض خدا کو حقائق بتانے کے لیے لکھنا چاہتا ہوں ‘۔
دوست نے پوچھا ‘ گویا خدا کو حقائق کا علم نہیں؟’
سزیلرڈ نے جواب دیا کہ ‘خدا کو علم تو ہے لیکن خدا ان حقائق کو ہمارے نکتہ نظر سے نہیں جانتا’۔
ہانس کرسچئن وون بائیر
Taming the atom
٭٭٭

تعارف

خوش آمدید۔ اور مبارکباد۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ یہاں تک پہنچ ہی گئے۔ یہاں تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ در حقیقت میرا خیال ہے کہ آپ کو بالکل بھی اندازہ نہیں کہ یہاں تک پہنچنا کتنا مشکل کام ہے۔
سب سے پہلے تو کھربوں کی تعداد میں ایٹموں کا انتہائی عجیب طور پر جمع ہو کر آپ کو تشکیل دینا ایک معجزہ ہے۔ در حقیقت یہ اجتماع اتنا منفرد ہے کہ نہ تو آپ سے قبل کبھی یہ سارے ایٹم اس طرح جمع ہوئے اور نہ ہی آپ کے بعد کبھی جمع ہوں گے۔ اگلے بہت سالوں تک یہی سارے ایٹم اسی طرح جمع رہتے ہوئے آپ کو زندہ اور چلتا پھرتا رکھیں گے اور اس سارے معجزے کو آپ ‘وجود’ کہتے ہیں۔
یہ بات ابھی تک معمہ ہے کہ ایٹم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ایٹمی پیمانے پر انسان یا وجود کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ کو بنانے کے باوجود ایٹموں کو نہ تو آپ کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی آپ کے وجود کا علم ہوتا ہے۔ انہیں تو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کا اپنا وجود بھی ہے یا نہیں۔ ان کا دماغ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ خود زندہ ہوتے ہیں (اگر آپ انتہائی باریک چمٹی سے اپنے جسم سے ایک ایک کر کے تمام ایٹم نوچنا شروع کر دیں تو آخر میں آپ کے پاس ایٹمی گرد کا انبار ہو گا لیکن یہ تمام ایٹم غیر جاندار ہوتے ہوئے بھی کبھی آپ جیسے جاندار کا حصہ تھے )۔ تاہم آپ کی زندگی کے دوران ان کا واحد کام آپ کو زندہ رکھنا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ایٹم بے وفا ہوتے ہیں اور ایک جگہ زیادہ دیر نہیں رکتے۔ ایک عام انسان کی زندگی کا دورانیہ اوسطاً ساڑھے چھ لاکھ گھنٹے ہوتا ہے۔ جب یہ دورانیہ یا آپ کی زندگی ختم ہوتی ہے تو یہ تمام ایٹم ایک دم سے آپ کے وجود کو ختم کر کے دوسری چیزوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آپ کا قصہ یہیں تمام ہو جاتا ہے۔
پھر بھی آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ ایسا ہوتا تو ہے۔ عام طور پر کائنات میں ایسا نہیں ہوتا۔ کم از کم اب تک کی معلومات کے مطابق وہ تمام ایٹم جو جمع ہو کر زمین پر مختلف جاندار بناتے ہیں، عین اسی طرح کے ایٹم کائنات کے دوسرے حصوں میں ہوتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرتے۔ چاہے کچھ بھی ہو، کیمیائی اعتبار سے زندگی بہت عام سی بات ہے۔ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن، تھوڑی سی کیلشیم، چٹکی بھر سلفر یعنی گندھک اور دیگر عام اجزاء کی معمولی سی مقدار، غرض ہر وہ چیز جو آپ کو عام فارمیسی میں مل جائے گی، سے زندگی جنم لیتی ہے۔ جو ایٹم آپ کو بناتے ہیں، ان کی خاص بات ہی یہی ہے کہ وہ آپ کو بناتے ہیں۔ اسے زندگی کا معجزہ کہتے ہیں۔
چاہے کائنات میں دوسری جگہوں پر ایٹم زندہ مخلوقات بناتے ہوں یا نہ بناتے ہوں، لیکن ہر چیز ایٹموں سے ہی بنتی ہے۔ ان کے بغیر نہ تو پانی ہو گا اور نہ ہی پتھر اور نہ ہی ستارے اور سیارے، نہ ہی کہکشائیں اور نہ ہی نیبولا اور نہ ہی کائنات کا کوئی اور جرمِ فلکی۔ ایٹم اتنے اہم اور اتنے زیادہ ہیں کہ عام طور پر ہم ان کے وجود کو بھلا دیتے ہیں۔ ایسا کوئی قانونِ فطرت نہیں ہے کہ کائنات کو اپنے اندر زندگی کے لیے ضروری روشنی، مادہ، کششِ ثقل یا کچھ اور پیدا کرنا ہو۔ اصولی طور پر تو کائنات کے ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔ بہت طویل عرصے تک ایسا ہی تھا کہ نہ تو کائنات تھی اور نہ ہی اس میں موجود ایٹم۔ کہیں بھی کچھ بھی نہیں تھا۔
اس لیے شکر ہے کہ ایٹم ہیں۔ تاہم اس حقیقت کے باوجود کہ ایٹموں نے جمع ہو کر آپ کو بنایا، یہ اصل داستان کا محض ایک حصہ ہے۔ یہاں، اکیسویں صدی میں پیدا ہونے کے لیے آپ کو حیاتیاتی خوش قسمتی کی انتہائی لمبی زنجیر کا حصہ ہونا بھی لازمی ہے۔ زمین پر زندہ رہنا اتنا بھی آسان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وقت کے آغاز سے اب تک جنم لینے والی کھربہا انواع میں سے 99.99 فیصد انواع اب موجود نہیں۔ زمین پر زندگی نہ صرف مختصر بلکہ انتہائی معمولی حیثیت رکھتی ہے۔ عجیب بات دیکھئے کہ ہم جس سیارے پر رہتے ہیں، زندگی کو پروان چڑھانے کے لیے جتنا سازگار ہے، اس سے زیادہ اسے ختم کرنے کے لیے بھی سازگار ہے۔ اوسطاً ایک نوع زمین پر چالیس لاکھ سال تک زندہ رہتی ہے۔ اگر آپ اربہا سال تک اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے ہوں تو پھر آپ کو ایٹم ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ آپ کو ہر ممکن تبدیلی کو اپنانا ہو گا، چاہے وہ شکل ہو، حجم ہو، رنگ ہو یا کسی قسم کی پسند و ناپسند۔ اس تبدیلی کا عمل کہنے کی حد تک آسان ہے کیونکہ یہ تبدیلی کسی ترتیب سے نہیں ہوتی۔ زندگی کی قدیم ترین خورد بینی شکل سے لے کر موجودہ دور کے انسان تک، جانداروں کو انتہائی لمبے عرصے تک بروقت اور انتہائی مخصوص قسم کی جینیاتی تبدیلیاں لانی پڑی ہیں۔ لگ بھگ پچھلے چار ارب سال سے جانداروں کو پہلے آکسیجن سے نفرت اور پھر اسے برداشت کرنے، فِن اور ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء میں تبدیلی، انڈے دینا، دو مونہی زبان، چکنی جلد، بالدار کھال، زیرِ زمین رہنا، درختوں پر رہنا، ہرن جتنا بڑا یا چوہے جتنا چھوٹا ہونا اور لاکھوں دیگر کام کرنے پڑے۔ ان ارتقائی تبدیلیوں سے بال برابر بھی فرق پڑنے سے عین ممکن ہے کہ آپ اس وقت غار کی دیواروں سے الجی چاٹ رہے ہوتے یا والرس کی طرح پتھریلی زمین پر لوٹنیاں لگا رہے ہوتے یا سمندر میں وہیل کی شکل میں اپنے سر کے پیچھے موجود شگاف سے پانی اچھال کر پھر ساٹھ فٹ گہرا غوطہ لگا رہے ہوتے۔
نہ صرف یہ کہ وقت کی ابتداء سے آپ مخصوص ارتقائی لڑی سے جڑے رہے بلکہ آپ کے آباء و اجداد کے حوالے سے بھی آپ معجزانہ طور پر خوش قسمت ہیں۔ سوچئے کہ تقریباً چار ارب سال سے آپ کے آباء و اجداد میں تمام نر اور مادہ اتنے خوش شکل تھے کہ انہیں جوڑے ملے، اتنے صحت مند تھے کہ جنسی تولید کر سکیں اور قسمت اور حالات کی مہربانی سے وہ اتنا عرصہ زندہ بھی رہے اور اپنی نسل آگے بڑھائی۔ سوچئے، اگر ہمارے آباء و اجداد میں سے ایک فرد بھی اگر افزائشِ نسل سے پہلے کچلا، کھایا، ڈوبا، بھوکا مرتا، کہیں مشکل جگہ پھنسا، زخمی یا کسی وجہ سے بھی مرنے سے قبل اپنے جینیاتی مواد کو ٹھیک وقت پر اپنے جوڑے تک منتقل نہ کر پایا ہوتا اور یہ سلسلہ اسی طرح نہ چلتا آیا ہوتا تو سوچئے کہ آپ یہاں نہ ہوتے۔
یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ ایسا کیسے ہوا، عدم سے وجود کیسے پیدا ہوا، پھر اس وجود سے ہم کیسے بنے اور اس دوران اور کیا کیا واقع ہوا۔ تاہم تفصیل انتہائی زیادہ ہے اور اسی وجہ سے اس کتاب کا نام ‘تقریباً ہر چیز کی مختصر تاریخ’ رکھا گیا ہے جو کہ کسی حد تک غلط ہے۔ ہر چیز کے بارے معلومات دینا ممکن ہی نہیں۔ تاہم جب ہم یہ کتاب پوری کر لیں گے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ شاید اب آپ تقریباً ہر چیز کے بارے کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔
میری تلاش کا نکتہ آغاز میری چوتھی یا پانچویں جماعت کی ایک درسی کتاب تھی۔ 1950 کی دہائی کی عام درسی کتب کی مانند یہ کتاب بھی ثقیل اور ناقابلِ فہم زبان میں لکھی گئی تھی اور شاید ہی کسی کو پسند آئی ہو۔ تاہم اس کی ابتداء میں زمین کی ایک تصویر تھی۔ جیسے کسی نے چاقو سے زمین کے اندر سے ایسے قاش نکالی ہو جیسے ہم تربوز سے نکالتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ میں نے ایسی تصویر بہت بار دیکھی ہو گی، لیکن اس کتاب نے جیسے مجھے جکڑ لیا ہو۔ شروع میں میری سوچ یہ تھی کہ جیسے بہت بڑی تعداد میں لوگ مشرقی ریاستوں کو جا رہے ہوں جہاں اچانک قطب شمالی سے وسطی امریکہ کے درمیان 4٫000 میل طویل اور بہت اونچا پہاڑی سلسلہ ان کو روک لیتا ہے۔ تاہم پھر میں نے اس تصویر کے نیچے پڑھا کہ ہماری زمین کی مختلف تہیں ہیں اور عین درمیان میں لوہے اور نکل کا دہکتا ہوا گولہ موجود ہے جس کا درجہ حرارت سورج کی سطح جتنا ہے۔ میں اس وقت حیرت سے یہی سوچ رہا تھا، ‘آخر انہیں یہ سب کیسے پتہ چلا؟’
مجھے ان معلومات کی درستگی پر ہلکا سا بھی شبہ نہیں تھا۔ آج بھی میں سائنس دانوں کے انکشافات پر اسی طرح یقین کرتا ہوں جیسا میں کسی سرجن، پلمبر یا دوسرے ماہرین پر کرتا ہوں۔ تاہم مجھے یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ انہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ ہزاروں میل نیچے زمین کے اندر کیا ہے، جسے کبھی کسی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی ایکسرے وہاں تک پہنچ سکتی ہے؟ میں اسے معجزہ سمجھتا رہا۔ اس وقت سے سائنس کے بارے میں یہی خیال رکھتا ہوں۔
خوشی خوشی میں یہ کتاب گھر لے گیا اور رات کو کھانے کی میز پر جب میں نے یہ کتاب کھولی تو میری ماں کو فکر لاحق ہوئی کہ میں بیمار تو نہیں۔ پھر میں نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔
یہیں سے مسئلہ شروع ہوا۔ کتاب انتہائی خشک نکلی۔ اسے سمجھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ تصویر دیکھ کر میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے، کسی کا جواب بھی اس کتاب سے نہیں مل سکا۔ مثلاً ہماری زمین کے اندر یہ چھوٹا سا سورج کیسے آن پہنچا اور سائنس دانوں کو اس بارے کیسے علم ہوا؟ اگر ہماری زمین کے عین وسط میں سورج جل رہا ہے تو ہمیں زمین گرم کیوں نہیں لگتی؟ زمین کا مرکزہ پگھل کیوں نہیں جاتا؟ اگر یہ مرکزہ کسی دن جل کر ختم ہو گیا تو کیا ہماری زمین میں کہیں بہت بڑا سوراخ پیدا ہو جائے گا؟ آخر یہ بات کیسے پتہ چلی؟
تاہم ایسی باتوں کے بارے مصنف بالکل خاموش رہا۔ اس کا سارا زور زمین کی سطح کے نشیب و فراز، محوری گردش اور اسی طرح کی چیزوں پر تھا۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے مصنف ہر اہم اور دلچسپ بات کو چھپانے کی نیت سے اسے ناقابلِ فہم زبان میں پیش کر رہا ہو۔ وقت گزرتا رہا اور مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ محض میری کیفیت نہیں بلکہ دیگر لوگ بھی ایسے سوچتے ہیں۔ ایسے محسوس ہونے لگا جیسے پوری دنیا کی درسی کتب کے مصنفین کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ درسی کتب کو ہر ممکن طور پر ناقابلِ فہم بنائیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ درسی کتب کسی قیمت پر بھی دلچسپ نہ ہونے پائیں۔
تاہم اب مجھے علم ہے کہ انتہائی دلچسپ اور معیاری سائنس لکھنے والے مصنفین کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں ٹموتھی فیرس، رچرڈ فورٹی، رچرڈ فین مین جیسے نام سرِ فہرست ہیں۔ تاہم بدقسمتی سے ان کی لکھی ہوئی ایک بھی درسی کتاب میں نے نہیں دیکھی۔ میری تمام تر درسی کتب ہمیشہ مرد مصنف کی لکھی ہوتی تھیں جو یہ سمجھتے تھے کہ دنیا کی مشکل سے مشکل بات بھی مساوات میں لکھنے سے آسانی ہو جائے گی اور کبھی یہ نہ سوچتے کہ باب کے آخر پر لکھے گئے سوالات کیسے ان بچوں کے ذہن کو پراگندہ کریں گے۔ جوں جوں میں بڑا ہوتا گیا، مجھے یقین آتا گیا کہ سائنس انتہائی خشک مضمون ہے۔ تاہم مجھے گمان تھا کہ سائنس کو ایسا ہونا نہیں چاہئے۔ بہت عرصے تک میرا یہی حال رہا۔
طویل عرصے بعد، اب سے کوئی چار یا پانچ سال قبل بحر الکاہل عبور کرتے ہوئے لمبی پرواز کے دوران چاندنی میں چمکتے سمندر کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ خیال آیا کہ مجھے اپنے اس سیارے کی الف بے بھی نہیں معلوم، جبکہ یہ واحد سیارہ ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ مثلاً مجھے علم نہیں تھا کہ سمندر تو نمکین ہیں لیکن عظیم جھیلیں کیوں میٹھے پانی سے بنی ہیں؟ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ آیا وقت کے ساتھ ساتھ سمندر مزید نمکین ہو رہے ہیں یا نہیں اور اس سے ہمارے مستقبل پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں (آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ 1970 کے اواخر تک زیادہ تر سائنس دانوں کو بھی یہ باتیں معلوم نہیں تھیں، لیکن انہوں نے اس بارے خاموشی اختیار کیے رکھی)؟
سمندر میں نمک کی مقدار میری لاعلمی کی ایک انتہائی ادنیٰ سی مثال تھی۔ مجھے نہ تو پروٹان کا علم تھا اور نہ ہی پروٹین کا، کوارک اور کواسر کا فرق بھی مجھے نہیں معلوم تھا اور نہ ہی یہ جانتا تھا کہ کھائی کی دیوار پر موجود پتھر کا رنگ دیکھ کر ارضیات دان کیسے اس کی عمر کے بارے بتا سکتے ہیں۔ مجھے کچھ بھی تو معلوم نہیں تھا۔ تاہم مجھ پر ایک جنون سا طاری ہو گیا کہ آخر سائنس دان یہ سب کیسے جان لیتے ہیں اور یہ کہ مجھے بھی یہ سب جاننا ہے۔ مجھے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ سائنس دان کیسے نت نئی دریافتیں کر لیتے ہیں۔ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ زمین کا وزن کتنا ہے، چٹانیں کتنی پرانی ہیں یا زمین کے مرکزے میں کیا ہے؟ کائنات کا آغاز کیسے ہوا اور اس وقت کیسی دکھائی دیتی ہو گی؟ ایٹم کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف تو سائنس دان تقریباً ہر بات جانتے ہیں تو دوسری طرف انہیں نہ تو زلزلے کے آنے کا پیشگی علم ہوتا ہے اور نہ ہی ہفتے بعد کے موسم کے بارے درست پیشین گوئی کر سکتے ہیں۔
اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کا ایک حصہ ان باتوں کو جاننے کے لیے صرف کروں گا۔ یہ عرصہ تین سال نکلا۔ اس دوران میں نے لگاتار کتب اور سائنسی رسائل پڑھے اور بے شمار ماہرین سے بظاہر انتہائی احمقانہ سوالات پوچھے جن کے جوابات ہمیشہ انہوں نے سنجیدگی اور خندہ پیشانی سے دیئے۔ میرا مقصد سائنس کی خیرہ کن کامیابیوں کے بارے عام زبان میں جاننا تھا۔
یہی میرا خیال اور میرا مقصد تھا جو اب اس کتاب کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ خیر، ہم نے بہت کچھ سیکھنا اور ہمارے پاس ساڑھے چھ لاکھ سے بھی کم گھنٹے بچے ہیں۔ آئیے، شروع کرتے ہیں۔
٭٭٭

حصہ اول: کاسموس میں گم

وہ تمام ایک ہی میدان میں ہیں۔ ایک ہی سمت حرکت کر رہے ہیں۔ بے داغ۔ انتہائی شاندار۔ ناقابلِ یقین۔
خلاء نورد جیفری مارسی نظامِ شمسی کے بارے بات کرتے ہوئے

1 کائنات کیسے بنائی جائے

 

آپ چاہے جتنی کوشش کیوں نہ کر لیں، آپ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ایک پروٹان کتنا چھوٹا ذرہ ہے۔ پروٹان واقعی بہت مختصر جسامت کا حامل ہے۔
ایٹم کے مقابلے میں پروٹان اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنا یا اس کی پیمائش کرنا بالکل بھی ممکن نہیں۔ تاہم ایٹم خود بھی کوئی زیادہ بڑی چیز نہیں اور اسے عام حالات میں دیکھنا بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے نقطے میں کم از کم 5 کھرب پروٹان سما جائیں گے۔ 5 کھرب کتنی بڑی رقم ہے، یوں سمجھیں کہ پانچ لاکھ سال میں گزرنے والے سیکنڈوں کی تعداد کے برابر ہے۔ یعنی پروٹان انتہائی چھوٹا ذرہ ہے۔
تاہم یہ بات واضح کر دوں کہ میں نے فرض کیا ہے کہ آپ تیزی سے پھیلنے والی کائنات بنانا چاہ رہے ہیں۔ اگر آپ بگ بینگ کے شیدائی ہوں تو اس کے لیے مزید بھی بہت کچھ درکار ہو گا۔ یعنی کائنات میں موجود تمام مادے کو جمع کر کے انتہائی چھوٹی سی جگہ پر رکھنا ہو گا۔ اس جگہ کو ہم اکائی یا وحدت یا Singularity کہیں گے۔
خیر، جو بھی کائنات آپ کی منشا کے مطابق ہو، ہر حال میں ایک انتہائی بڑے دھماکے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس دھماکے کو کہیں دور اور محفوظ جگہ پر بیٹھ کر دیکھنا چاہیں گے لیکن افسوس، ایسا ممکن نہیں۔ یہ اکائی یا وحدت ہی واحد جگہ ہے۔ جب کائنات پھیلنا شروع ہو گی تو ایسا نہیں کہ پہلے سے موجود خالی جگہ کو بھرتی جائے گی بلکہ اپنے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ جگہ بناتی اور اسے بھرتی جائے گی۔
زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکائی یا وحدت سے مراد ایک تھلتھلاتے ہوئی غبارے جیسی کوئی چیز ہو گی جو تاریک خلاء میں معلق ہے۔ نہ تو ایسی کوئی چیز موجود ہے اور نہ ہی کوئی خلاء اور نہ ہی تاریکی۔ اکائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں تو یہ بھی پوچھنے کی اجازت نہیں کہ کیا یہ اکائی پہلے سے موجود تھی یا ابھی ابھی وجود میں آئی ہے یا ہمیشہ سے اسی طرح تھی۔ ابھی وقت پیدا نہیں ہوا۔ اس اکائی کا کوئی ماضی نہیں کہ جہاں سے یہ پیدا ہوتی۔
اس طرح کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری کائنات شروع ہوئی۔
ایک خیرہ کر دینے والے لمحے میں یہ اکائی اچانک، انتہائی سرعت سے پھیل کر لامتناہی حجم میں بدل گئی۔ پہلے ہی لمحے (اس ایک لمحے کو فلکیات دان مزید حصوں میں تقسیم کرتے کرتے اپنی عمر گزار دیتے ہیں ) میں تجاذب اور دیگر طبعی قوتیں پیدا ہو گئیں۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کائنات ایک کروڑ کھرب میل پھیل گئی اور ابھی تک پھیلتی جا رہی ہے۔ اس دوران بے پناہ حرارت پیدا ہوئی۔ اس حرارت کی مقدار اندازاً دس ارب ڈگری ہو گی جس سے نیوکلیائی تعامل شروع ہوا اور اس درجہ حرارت سے ہلکے عناصر جیسا کہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور انتہائی معمولی مقدار (دس کروڑ میں سے ایک ایٹم) میں لیتھیم پیدا ہونے لگے۔ تین منٹ کے اندر اندر پوری کائنات میں اس وقت تک موجود یا آئندہ پیدا ہونے والے مادے کا 98 فیصد حصہ پیدا ہو گیا۔ اب ہمارے پاس ایک کائنات آ گئی ہے۔ انتہائی ناممکن کام ممکن ہوا اور انتہائی خوبصورت کائنات پیدا ہوئی۔ اس سارے عمل میں اتنا وقت لگا جتنی دیر میں ایک سینڈوچ بنتا ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا، کافی بحث طلب امر ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق دس سے بیس ارب سال قبل یہ لمحہ آیا تھا۔ زیادہ تر ماہرین تیرہ اعشاریہ سات ارب سال پر متفق ہیں۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ یہ باتیں یقین سے کہنا انتہائی مشکل کیوں ہیں۔ یقین سے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی بعید میں کسی ناقابلِ بیان لمحے میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر ایک ایسا لمحہ آیا جسے سائنس t=0 کے نام سے جانتی ہے۔
بے شمار چیزیں ہم ابھی تک نہیں جان پائے یا انہیں جانے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ حتیٰ کہ بگ بینگ کی اصطلاح حال ہی میں متعارف ہوئی ہے۔ 1920 کی دہائی میں بیلجیم کے ایک پادری اور محقق جارجز لیماتر نے یہ نظریہ پیش کیا تھا لیکن 1960 کی دہائی کے وسط میں اسے شہرت ملی جب دو نوجوان ریڈیائی انجنیئروں نے ایک حیران کن دریافت کی۔
ان کے نام ارنو پینزیاس اور رابرٹ ولسن ہیں۔ 1965 میں انہوں نے نیو جرسی میں واقع ہولمڈیل کے مقام پر نصب بیل لیبارٹریز کے مواصلاتی انٹینا استعمال کرنے کی کوشش کی تو ان کا واسطہ ایک مستقل شور سے پڑا۔ اس شور کی وجہ سے کسی قسم کا تجربہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ یہ شور بظاہر غیر متعلق اور بے ترتیب تھا اور آسمان کے ہر گوشے سے آ رہا تھا۔ دن ہو یا رات، اس میں تبدیلی نہیں آتی تھی۔ پورے ایک سال تک انہوں نے اس شور کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہر برقی نظام کو چیک کیا۔ بہت سارے آلات دوبارہ بنائے۔ سرکٹ دیکھے، تاریں بدلیں اور پلگ صاف کیے۔ پھر جھاڑو لے کر وہ انٹینا پر چڑھے اور پرندوں کی بیٹیں بھی صاف کیں جو سائنسی زبان میں وائٹ ڈائی الیکٹرک مٹیریل کہلاتا ہے۔ پھر ہر اونچ نیچ پر ٹیپ لگائی۔ تاہم ان کی ساری محنت اکارت گئی۔
اب اِن کی بے خبری دیکھیں کہ ان سے محض 30 میل دور پرنسٹن یونیورسٹی میں رابرٹ ڈکی نامی فلکیات دان کی زیرِ نگرانی ایک ٹیم عرصے سے اسی چیز کو تلاش کرنے کی دھن میں تھی جس سے یہ دونوں چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک نظریے کے مطابق اگر ہم خلاء میں انتہائی دور دیکھیں تو ہمیں پس منظر میں بگ بینگ کی بچی کھچی تابکاری مل سکتی ہے۔ روسی سائنس دان جارج گیمو نے حساب لگایا تھا کہ اس انتہائی وسیع کائنات میں سفر کر کے جب یہ تابکاری ہم تک پہنچے گی تو شکل بدل کر مائیکرو ویو بن چکی ہو گی۔ ایک حالیہ مضمون میں گیمو نے یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ پوری دنیا میں اگر کوئی اینٹینا یہ شعاعیں موصول کر سکتا ہے تو وہ بیل لیبارٹریز کا ہولمڈل والا یہی انٹینا ہے۔ بدقسمتی سے نہ تو رابرٹ اور پینزیاس اور نہ ہی پرنسٹن کی ٹیم نے یہ مضمون دیکھا تھا۔
ظاہر ہے کہ پینزیاس اور رابرٹ کا سامنا جس شور سے تھا وہ در اصل گیمو کی پیشین گوئی کے عین مطابق تھا۔ انہوں نے کائنات کا سرا دریافت کر لیا تھا جو 90 ارب کھرب میل دور تھا۔ یہ در اصل وہ ابتدائی فوٹان تھے جو کائنات کی ابتدائی روشنی تھے۔ وقت اور فاصلے کی وجہ سے وہ مائیکرو ویو میں بدل چکے تھے۔ اس امر کی وضاحت گیمو نے پہلے ہی کر دی تھی۔ ایلن گتھ نے اپنی کتاب Inflation Universe میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کائنات کے دور دراز گوشوں میں جھانکنے کو ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی 100ویں منزل پر کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے سے تشبیہ دیں تو 100ویں منزل آج کو جبکہ زمین کی سطح بگ بینگ کو ظاہر کرتی ہے۔ ولسن اور پینزیاس کی دریافت سے قبل بعید ترین کہکشاں 60ویں منزل جبکہ بعید ترین کواسر 20ویں منزل پر تھا۔ ولسن اور پینزیاس کی دریافت ہمیں زمین کی سطح سے محض نصف انچ قریب لے گئی۔
اپنی لاعلمی کی وجہ سے ولسن اور پیزیاس نے پرنسٹن یونیورسٹی میں ڈکی کو فون کیا اور اپنا مسئلہ بتا کر مدد مانگی۔ ڈکی نے فوراً بھانپ لیا۔ فون رکھ کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ‘بازی ہاتھ سے نکل گئی ہے ‘۔
کچھ عرصے بعد آسٹرو فزیکل جرنل میں دو مضامین چھپے۔ پہلا مضمون ولسن اور پینزیاس کا تھا جس میں انہوں نے اس نامعلوم شور کے بارے اپنی حیرت ظاہر کی تھی اور دوسرا ڈکی اور اس کی ٹیم کی جانب سے جس میں اس شور کی وضاحت کی گئی تھی۔ اگرچہ ولسن اور پینزیاس نہ تو اس شور کو تلاش کر رہے تھے اور نہ ہی جانتے تھے کہ انہوں کی کیا دریافت کیا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت کی، پھر بھی 1979 میں انہیں فزکس کا نوبل انعام ملا جبکہ پرنسٹن کے محققین کے پاس صرف لوگوں کی ہمدردیاں ہی آئیں۔ ڈینس اوربائی نے Lonely hearts of the cosmos میں بیان کیا ہے کہ پینزیاس اور ولسن کو اپنی دریافت کی اہمیت کا اندازہ تب ہوا جب انہوں نے اس کے بارے نیویارک ٹائمز میں پڑھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس شور سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اپنے ٹی وی پر کوئی بھی ایسا چینل لگائیں جو موصول نہ ہو رہا ہو تو سکرین پر ناچتے دھبوں کا کم از کم ایک فیصد حصہ یہی تابکاری ہوتی ہے۔ اب جب آپ سوچیں کہ ٹی وی پر کچھ نہیں آ رہا تو در حقیقت آپ کائنات کی پیدائش کا منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اگرچہ ہم سب بگ بینگ کو اسی نام سے جانتے ہیں لیکن بہت ساری کتب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ کوئی عام نوعیت کا دھماکہ نہیں تھا بلکہ انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا اچانک پھیلاؤ تھا۔ اس کی کیا وجہ ہو گی؟
ایک رائے یہ ہے کہ یہ اکائی در اصل پہلے سے موجود کائنات کے سکڑنے سے بنی تھی۔ یعنی مسلسل کائنات پھیل اور سکڑ رہی ہے ایسے ہی جیسے لوہار کی دھونکنی پھولتی اور پچکتی ہے۔ کچھ لوگ اسے False Vacuum, A scalar field یا Vacuum energy کا نام دیتے ہیں۔ چاہے یہ کوئی خاصیت ہو یا کوئی چیز، اس نے لامکان یعنی نتھنگ نیس میں عدم توازن پیدا کر دیا۔ اگرچہ کچھ نہ ہونے سے کچھ پیدا ہونا ناممکن لگتا ہے پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ عدم سے ہی ہماری کائنات وجود میں آئی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کائنات دیگر بے شمار کائناتوں کا ایک معمولی سا حصہ ہو جو نامعلوم ابعاد میں پھیلی ہوئی ہوں؟ ہر وقت اور ہر جگہ بگ بینگ ہو رہے ہوں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ وقت اور مکاں بگ بینگ سے قبل کچھ ایسی شکل میں ہوں جو ہم سمجھ نہ سکتے ہوں؟ ہو سکتا ہے کہ بگ بینگ در اصل ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقلی کا ہی نام ہو؟ جس میں کائنات ایک نامعلوم شکل سے ایسی شکل میں بدل گئی ہو جسے ہم سمجھ سکتے ہیں؟سٹین فورڈ کے ایک ماہر فلکیات نے 2001 میں نیو یارک ٹائمز میں کہا، ‘یہ سوال بہت حد تک مذہبی نوعیت کے لگتے ہیں ‘۔
بگ بینگ کا نظریہ ہمیں در اصل بگ بینگ کے بارے نہیں بلکہ اس کے فوراً بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے بتاتا ہے۔ فوراً بعد سے مراد فوراً بعد ہی ہے۔ بہت سارے حساب کتاب اور پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ہونے والے تعاملات کے مشاہدے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ بگ بینگ کے بعد 10-45سیکنڈ تک کے واقعات کے بارے جان گئے ہیں۔ اس وقت کائنات اتنی مختصر ہو گی کہ اسے دیکھنے کے لیے ہمیں خورد بین کی ضرورت پڑتی۔ اگرچہ ہر بڑی رقم دیکھ کر حیران ہونا اچھی بات نہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ یہ 10x-45 کتنی بڑی رقم ہے۔ 0.0000000000000000000000000000000000000000001۔ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک اربویں، کھربویں کھربویں کھربویں حصے کے برابر (سائنس میں بہت بڑی یا بہت چھوٹی رقم لکھنے کے لیے ہم طاقت کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ بصورت دیگر انہیں لکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یعنی 10x 10 مساوی 100۔ اسے ہم1×102 کہیں گے۔ اسی طرح 1.4×109 مکعب کلومیٹر سے 1.4 ارب مکعب کلومیٹر مراد ہے۔ جب ہم کائنات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی طرح لکھنا پڑے گا)۔
ہم میں سے اکثر لوگ کائنات کے بارے آج جو بھی جانتے ہیں یا جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سٹین فورڈ یعنی موجودہ ایم آئی ٹی کے جونیئر پارٹیکل فزسٹ ایلن گُتھ کے 1979 میں پیش کردہ نظریے کا مرہونِ منت ہے۔ اس کے اپنے الفاظ میں اس وقت اس کی عمر 32 سال تھی اور اس وقت تک اس نے کوئی تیر نہیں مارا تھا۔ اگر اس نے رابرٹ ڈکی کا بگ بینگ کے عنوان پر ہونے والا لیکچر نہ سنا ہوتا تو اسے شاید کبھی اس بات کا خیال تک نہ آتا۔ اس لیکچر کی وجہ سے اس کے دل میں کائنات کی ابتداء کے بارے جاننے کا شوق پیدا ہوا۔
اس کا نتیجہ ‘کائنات کا پھیلاؤ’ نظریے کی صورت میں نکلا۔ اس کے مطابق تخلیق کے فوراً بعد انتہائی مختصر عرصے میں کائنات میں عظیم پھیلاؤ واقع ہوا۔ یوں سمجھیں جیسے کائنات اپنے آپ سے فرار ہو رہی ہو۔ ہر 10-34 سیکنڈ میں کائنات کا حجم دُگنا ہوتا گیا۔ تاہم یہ سارا سلسلہ 10-30سیکنڈ میں ختم ہو گیا۔ یعنی ایک سیکنڈ کے ایک لاکھ لاکھ کھربویں حصے میں ہماری کائنات جو اس وقت ہماری ہتھیلی میں سما جاتی، سے 1000 کھرب کھرب گنا بڑی ہو گئی۔ یہ نظریہ ہمیں ان باتوں کے بارے بھی بتاتا ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات کی پیدائش ممکن ہوئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری کائنات میں محض گیس اور تاریکی ہی ہوتی اور ستارے یا مادہ نہ پیدا ہو سکتے۔
گتھ کے نظریے کے مطابق ایک سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے کے ایک کھرب کھرب کھرب وقفے میں تجاذب کی قوت جبکہ ایک اور انتہائی مختصر وقفے کے دوران برقناطیسی اور کمزور و طاقتور نیوکلیائی قوتیں پیدا ہو گئیں جو طبعیات سے متعلق ہیں۔ اس کے فوراً بعد بنیادی اجزاء پیدا ہوئے۔ یہ اجزاء ہر قسم کے مادے کا بنیادی حصہ ہیں۔ اس طرح چشم زدن میں عدم سے الیکٹران، پروٹان، نیوٹران اور فوٹان وغیرہ پیدا ہو گئے۔ فی ذرہ ان کی تعداد 1079 سے لے کر 1089 کے درمیان ہے۔ یہ تعداد ہمیں بگ بینگ کے نظریے سے پتہ چلتی ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ایک لمحے کے اندر اندر ہمیں اتنی بڑی کائنات تیار شکل میں مل گئی جو کم از کم ایک کھرب نوری سال چوڑی تھی۔ یہ کم از کم کا اندازہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کائنات تقریباً لامحدود ہو سکتی ہے۔ یہ کائنات نہ صرف ستاروں، کہکشاؤں بلکہ دوسرے پیچیدہ نظاموں کے لیے بھی تیار ہے۔
ہمارے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ یہ کائنات ہمارے لیے انتہائی کارآمد شکل اختیار کر گئی ہے۔ اگر اس کائنات کی تخلیق تھوڑی سی بھی مختلف طریقے سے ہوئی ہوتی، مثلاً کششِ ثقل اگر کچھ کم یا کچھ زیادہ ہوتی یا پھر پھیلاؤ کا عمل کچھ زیادہ تیز یا کچھ سست ہوتا تو عین ممکن ہے کہ نہ تو کوئی عنصر پیدا ہوتا اور نہ ہی آپ اور میں اور نہ ہی یہ زمین۔ اگر کشش تھوڑی سی بھی طاقتور ہوتی تو یہ ساری کائنات اس طرح بنتی جیسے غبارے سے ہوا نکل رہی ہو۔ اگر یہ قوت کمزور ہوتی تو مادہ جمع نہ ہو سکتا۔ یوں کائنات صرف لامکاں پر مشتمل ہوتی۔
اس سے کئی ماہرین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بگ بینگ ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ارب ہا بگ بینگ ہوئے ہوں جو ازل سے جاری ہوں اور اس بار ہم اس لیے پیدا ہوئے ہوں کہ ہماری تخلیق محض اسی بگ بینگ سے ممکن تھی؟ کولمبیا یونیورسٹی کے ایڈورڈ پی ٹائرن نے ایک بار کچھ یوں کہا تھا، ‘ہماری کائنات کیوں بنی، اس کا سادہ سا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ایسی باتیں گاہے بگاہے ہوتی رہتی ہیں۔ ‘ اس پر ایلن گُتھ نے لقمہ دیا، ‘ٹائرن شاید یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ کسی نے ناکام کوششوں کا شمار نہیں کیا۔ ‘
برطانوی رائل آسٹرانومر مارٹن کے مطابق بے شمار کائناتیں ہیں جو لامحدود تعداد میں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہر ایک کے خواص مختلف ہیں۔ ہم جس کائنات میں رہ رہے ہیں، وہ ان خاصیتوں کی حامل ہے جس میں ہم رہ سکتے ہیں۔ اس کی مثال انہوں نے کچھ یوں دی کہ آپ کپڑوں کے بہت بڑے سٹور میں جاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ کے سائز اور پسند کا لباس ملنا عین ممکن ہے۔ اسی طرح اگر بہت ساری کائناتیں ہوں جن میں مختلف اعداد پائے جاتے ہوں، ان میں سے ایک ایسی بھی مل جائے گی جس میں زندگی ممکن ہو۔ اس وقت ہم ایسی ہی ایک کائنات میں ہیں۔
مارٹن کے مطابق ہماری کائنات پر چھ اعداد کی حکمرانی ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کی مقدار بھی ذرا کم یا زیادہ ہوتی تو ہم یہاں نہ ہوتے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن سے ہیلیم میں منتقلی کا عمل مسلسل مگر یکساں رفتار سے ہوتا ہے، یعنی ایک ہزار میں سے ساتواں حصہ۔ اگر یہ مقدار ساتویں سے کم کر کے چھٹا حصہ کر دی جائے تو یہ سارا عمل معطل ہو جائے گا۔ ساری کائنات میں محض ہائیڈروجن ہی ہائیڈروجن ہو گی اور کچھ نہیں۔ اسی طرح اگر اس شرح کو آٹھویں حصے تک بڑھا دیا جائے تو یہ عمل اتنا تیز ہو گا کہ ہائیڈروجن کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ یعنی کمی یا بیشی، دونوں صورتوں میں کائنات یکسر مختلف ہو جاتی۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب تک ہر بات درست انداز سے ہوتی آئی ہے۔ تاہم طویل عرصے بعد ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تجاذب کچھ زیادہ طاقتور نکلے اور کائنات کا پھیلاؤ تھم جائے اور کائنات سکڑنے لگے اور سکڑتے سکڑتے واپس اسی اکائی تک پہنچ جائے جہاں سے پھیلاؤ کا عمل شروع ہوا تھا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ تجاذب اتنی کمزور ہو کہ کائنات ہمیشہ پھیلتی جائے اور آخرکار سارا مادہ ایک دوسرے سے اتنی دور چلا جائے کہ کائنات انتہائی وسیع لیکن بے جان رہ جائے۔ ایک اور امکان ہے کہ تجاذب بالکل مناسب ہو اور کائنات کا پھیلاؤ ہمیشہ کے لیے جاری رہے۔ ماہرین فلکیات اسے بعض اوقات گولڈی لاک اثر کا نام دیتے ہیں۔ یعنی ہر چیز بالکل درست تناسب سے ہے۔ ان تین ممکنہ کائناتوں کو بالترتیب مقید، آزاد اور چپٹی کائنات کہا جاتا ہے۔
اب ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم سفر کرتے کرتے کائنات کے آخری سرے تک پہنچ جائیں اور اس سے سر باہر نکال کر دیکھیں؟ اگر ہمارا سر کائنات کی حدود سے باہر نکلا تو کہاں ہو گا؟ کائنات کے باہر کیا دکھائی دے گا؟ تاہم اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کبھی بھی کائنات کے سرے تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ نہ سمجھیں کہ وہاں تک کا سفر بہت لمبا ہے۔ ظاہر ہے کہ سفر تو لمبا ہے ہی۔ فرض کریں کہ آپ خطِ مستقیم میں لامحدود عرصے تک سفر کرتے رہیں گے تو بھی کبھی کائنات کے سرے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ آپ کی منزل وہی مقام ہو گا جہاں سے آپ نے سفر شروع کیا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ آپ تھک کر ہمت ہار دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے تصور سے بھی کہیں دور، کائنات در اصل خم کھا رہی ہے جو آئن سٹائن کے اضافیت کے نظریے کے عین مطابق ہے۔ فی الحال یہ کہنا بہتر ہے کہ کائنات کوئی پھولا ہوا غبارہ نہیں کہ جس میں ہم تیر رہے ہوں۔ بلکہ یہ ایک خمدار خلاء ہے۔ اس طرح یہ خلاء محدود لیکن بے کراں ہے۔ یہ کہنا بھی شاید غلط ہو کہ خلاء پھیل رہی ہے۔ نوبل انعام یافتہ طبعیات دان سٹیون وین برگ کے مطابق، ‘نہ تو نظامِ شمسی اور نہ ہی کہکشائیں پھیل رہی ہیں اور خلاء بھی نہیں پھیل رہی۔ بلکہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں۔ ‘ ہماری عقل یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک حیاتیات دان جے بی ایس ہیلڈین کے مطابق، ‘کائنات اتنی عجیب نہیں جتنی ہم سوچتے ہیں۔ کائنات اس سے کہیں عجیب تر ہے جتنی کہ ہم سوچ سکتے ہیں۔ ‘
اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ جیسے کسی ایک مخلوق کو جو کہ چپٹی دنیا کی باسی ہو اور اس نے کبھی گول کرہ نہ دیکھا ہو، کو زمین پر لے آئیں۔ اب وہ جتنا بھی حرکت کرے، کبھی زمین کے سرے پر نہیں پہنچ پائے گی۔
٭٭٭

2 نظامِ شمسی میں خوش آمدید

 

آج کے دور میں ماہرین فلکیات بھی کمال کرتے ہیں۔ اگر کوئی بندہ چاند پر ماچس کی تیلی جلائے تو وہ اس کا شعلہ دیکھ لیں گے۔ انتہائی دور موجود ستاروں کی ٹمٹماہٹ اور لرزش دیکھ کر عام نظروں سے اوجھل سیاروں پر زندگی کے لیے مناسب حالات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ حالانکہ خلائی جہاز سے ان سیاروں تک جانے میں کم از کم 5 لاکھ سال لگیں گے۔ اپنی ریڈیائی دوربینوں کی مدد سے وہ اتنی خفیف مقدار کی ریڈیائی شعاعیں پکڑ لیتے ہیں کہ بقول کارل ساگان، ‘1951 سے جب یہ عمل شروع ہوا، اب تک جمع ہونے والی کل توانائی کی مقدار اس توانائی سے کم ہے جب برف کا گالا زمین سے ٹکراتا ہے۔ ‘
مختصراً یوں سمجھ لیں کہ جب ماہرین فلکیات کے پاس وقت ہو تو کائنات کی شاید ہی کوئی چیز ان کی نظر سے بچ پاتی ہو۔ شاید یہی وجہ ہو کہ 1978 تک کسی کو گمان تک نہیں تھا کہ پلوٹو کا ایک چاند بھی ہے۔ اس سال کے موسم گرما میں ایک نوجوان فلکیات دان جیمز کرسٹی جو امریکی بحریہ کی رصد گاہ (فلیگ سٹاف، ایریزونا) میں پلوٹو کی تصاویر کی روز مرہ کی جانچ پڑتال کر رہا تھا کہ اس کی نظر پلوٹو کے ساتھ موجود ایک دھندلے سے دھبے پر پڑی۔ یہ دھبہ انتہائی دھندلا لیکن پلوٹو سے الگ تھا۔ اپنے رفیق رابرٹ ہیرنگٹن سے اس نے مشورہ لیا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو پلوٹو کا چاند ہے۔ اور یہ کوئی عام چاند نہیں، اپنے سیارے کی جسامت کے تناسب سے یہ ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے بڑا چاند تھا۔
اس بات سے پلوٹو کے سیارہ ہونے کی حیثیت پر گہرا اثر پڑا ہے جو پہلے ہی بہت مختصر جسامت کا حامل تھا۔ جس جگہ پلوٹو اور اس کا چاند موجود ہیں، کے بارے خیال کیا جاتا تھا ہے کہ وہاں صرف پلوٹو ہے۔ اب جا کر پتہ چلا کہ پلوٹو تو اس سے بھی بہت چھوٹا ہے۔ عطارد بھی اس سے بڑا ہے۔ ہمارے چاند سمیت نظامِ شمسی کے 7 چاند پلوٹو سے زیادہ بڑے ہیں۔
ظاہری بات ہے کہ آپ سوچیں گے کہ پلوٹو کے چاند کو دریافت کرنے پر اتنا وقت کیوں لگا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فلکیات دان اپنے آلات کا رخ کس سمت کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کے آلات کس مقصد کے لیے تیار کیے گئے تھے اور یہ بھی کہ یہ محض پلوٹو ہی تو ہے۔ زیادہ تر اہمیت اس بات کی ہے کہ ان کے آلات کا رخ کس جانب ہے۔ فلکیات دان کلارک چیپ مین کے مطابق، ‘زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ فلکیات دان رات کو رصد گاہ جا کر آسمان کا مشاہدہ شروع کر دیتے ہوں گے لیکن یہ بات درست نہیں۔ زیادہ تر دوربینیں اس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہیں کہ ان کو آسمان کے ایک انتہائی چھوٹے حصے پر مرکوز کر کے وہاں بلیک ہول یا کہکشاؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔ ‘ آسمان کی ‘کھوج’ کے لیے بنائی جانے والی دوربینیں فوج کے استعمال میں ہوتی ہیں۔
فنکاروں کے بنائے ہوئے خاکے دیکھ دیکھ کر ہماری عادتیں خراب ہو چکی ہیں کیونکہ یہ زیادہ تر تخیلاتی ہوتی ہیں۔ کرسٹی کا بنایا ہوا فوٹو جس میں پلوٹو ہمیں دھندلا سا دکھائی دے رہا ہے اور اس کا چاند نیشنل جیوگرافک کی تصویر کے برخلاف انتہائی دھندلا ہے۔ اس دھندلاہٹ کی وجہ سے ہی اس بات پر 7 سال لگے کہ کوئی دوسرا بندہ اس چاند کو دیکھ کر اس کی آزادانہ تصدیق کر سکے۔
کرسٹی کی دریافت میں مزے کی یہ بات ہے کہ اس نے یہ دریافت فلیگ سٹاف میں بیٹھ کر کی۔ اسی جگہ 1930 میں پلوٹو بھی دریافت ہوا تھا جس کا سہرا فلکیات دان پرسیوں لوؤل کے سر بندھا۔ لوؤل کا خاندان بوسٹن کے قدیم اور امیر ترین گھرانوں میں سے ایک تھا۔ یہ رصد گاہ لوؤل کی تعمیر کردہ ہے اور اسی کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم لوؤل کی وجہ شہرت اس کا نظریہ تھا کہ مریخی لوگ مریخ پر باقاعدہ نہریں بنا کر قطبین سے پانی استوائی مقامات کی طرف لے جاتے ہیں جہاں کی زمینیں زرخیز لیکن پانی کمیاب ہے۔
لوؤل نے یہ بھی بتایا کہ نیپچون سے پرے ایک اور سیارہ موجود ہونا چاہیئے جسے اس نے سیارہ ایکس کا نام دیا۔ یہ نواں سیارہ اس وقت تک نامعلوم تھا۔ اس نظریے کی بنیاد در اصل نیپچون اور یورینس کے مداروں میں موجود بے قاعدگیاں تھیں۔ اپنی زندگی کے آخری سال لوؤل نے اسی فرضی گیسی دیو کی تلاش میں ضائع کر دیئے تھے اور اسی دوران اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے مرتے ہی تلاش کا کام کھٹائی میں پڑ گیا کیونکہ اس کے رشتہ دار جائیداد کے بٹوارے میں لگ گئے۔ تاہم 1929 میں لوؤل کی رصد گاہ کے ڈائریکٹر نے لوگوں کی توجہ مریخ کی نہروں سے ہٹانے (جو باعثِ شرمندگی بن گئی تھیں ) کے لیے کینساس کے ایک نوجوان کلائیڈ ٹومباغ کے ذمے سیارہ ایکس کی تلاش کا کام لگایا۔
ٹومباغ نے اگرچہ فلکیات کی باقاعدہ تربیت تو نہیں لی تھی لیکن اس کا حوصلہ بلند تھا اور ایک سال کی محنت کے بعد اس نے پلوٹو دریافت کر لیا۔ یہ دریافت معجزہ تھی اور اس کا دوسرا پہلو لوؤل کی جانب سے بیان کردہ تفصیلات کے عین برعکس ہونا ہے۔ ٹومباغ فوراً ہی پہچان گیا تھا کہ یہ نیا سیارہ بالکل بھی گیسی دیو نہیں۔ لیکن اس سیارے کے بارے اس کی رائے پر کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ پلوٹو کی دریافت بذاتِ خود انتہائی اہم خبر تھی۔ امریکہ میں دریافت ہونے والا یہ پہلا سیارہ تھا۔ اس لیے اس امر پر کسی نے توجہ نہیں دی کہ یہ سیارہ محض برفیلا نقطہ ہے جو انتہائی دور واقع ہے۔ پلوٹو کے نام کے پہلے دو حروف لوؤل کے نام کے ابتدائی ہجے ہیں۔ ہر کسی نے لوؤل کی بعد از مرگ تعریف کرنا شروع کر دی کہ وہ کتنا عظیم ماہر فلکیات تھا۔ ماہرین فلکیات کے سوا زیادہ تر لوگوں کو ٹومباغ کا نام تک بھول گیا۔
بعض فلکیات دانوں نے پھر بھی سیارہ ایکس کی تلاش کا کام جاری رکھا۔ ان کے خیال میں مشتری سے کم از کم دس گنا بڑا یہ سیارہ سورج سے کم از کم 45 کھرب میل دور ہو گا۔ تاہم اس کی دریافت ابھی تک نہیں ہو پائی۔ اس کی شکل زحل یا مشتری سے بہت مختلف ہو گی۔ یوں سمجھیں کہ یہ سیارہ ایک ستارہ تھا جو سورج بنتے بنتے رہ گیا ہو۔ زیادہ تر نظامِ شمسی دو ستاروں سے بنے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارا ایک سورج والا نظامِ شمسی کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
جہاں تک پلوٹو کا سوال ہے تو کوئی نہیں جانتا کہ پلوٹو کس چیز سے بنا ہے یا اس کی فضاء کیسی ہو گی یا یہ ہے کیا۔ بہت سارے فلکیات دان کے خیال میں پلوٹو سیارہ نہیں بلکہ کوئیپر پٹی میں موجود اجرامِ فلکی میں سے ایک ہے۔ کوئیپر بیلٹ یا پٹی کا نظریہ 1930 میں ایک فلکیات دان ایف سی لیونارڈ نے پیش کیا تھا لیکن اس کا نام ولندیزی نژاد امریکی فلکیات دان جیرارڈ کوئیپر کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے اس نظریے کو توسیع دی۔ اس پٹی میں ایسے دمدار ستارے ہیں جو باقاعدگی سے اندرونی نظامِ شمسی کا چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ان میں مشہور ترین ہیلی کا دمدار ستارہ ہے۔ طویل المدتی دمدار ستارے اس سے بھی کہیں زیادہ دور اُوورت بادل سے آتے ہیں۔
یہ بات بجا ہے کہ پلوٹو عام سیاروں سے بہت فرق ہے۔ نہ صرف بہت چھوٹا اور غیر واضح ہے بلکہ اس کا مدار بھی کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ آج سے سو سال بعد پلوٹو کہاں ہو گا۔ دوسرے سیارے ایک خاص محور پر گردش کرتے ہیں جبکہ پلوٹو ان سے 17 درجے ہٹ کر گردش کرتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے ہیٹ کا کنارہ ہوتا ہے۔ اس کا مدار اتنا بے قاعدہ ہے کہ کافی عرصہ تک پلوٹو نیپچون کی نسبت سورج سے زیادہ قریب رہتا ہے۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں کا زیادہ تر وقت نیپچون ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے دور افتادہ سیارہ تھا۔ 11 فروری 1999 کو پلوٹو واپس دور دراز سیارے کے درجے پر پہنچا جہاں وہ اگلے 228 سال تک رہے گا۔
اب اگر پلوٹو سیارہ ہے بھی تو بہت عجیب سیارہ ہے۔ اس کی جسامت زمین کے ایک فیصد کا ایک چوتھائی ہے۔ اگر آپ اسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نقشے پر رکھیں تو زیریں 48 ریاستیں بھی پوری طرح نہیں چھپ سکیں گی۔ یہ بات بھی انتہائی عجیب ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی کے اندرونی چار سیارے چٹانوں، دوسرے چار سیارے گیسی دیو اور پھر ایک برفانی کرہ یعنی پلوٹو پر مشتمل ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں پلوٹو کے آس پاس کے علاقے سے مزید ایسے برفانی کرے دریافت ہو جائیں تو مسئلہ اور بھی گھمبیر ہو جائے گا۔ جب کرسٹی نے پلوٹو کا چاند دریافت کیا ہے اس کے بعد سے فلکیات دانوں نے اس جگہ کا بغور مشاہدہ شروع کر دیا ہے اور دسمبر 2002 تک مزید چھ ایسے اجسام تلاش کر لیے ہیں جو نیپچون اور پلوٹو کے درمیان واقع ہیں۔ ان میں سے ایک تو پلوٹو کے چاند جتنا بڑا ہے۔ فلکیات دانوں کے خیال میں اس جگہ ہو سکتا ہے کہ ایسے ایک ارب اجرامِ فلکی گھوم رہے ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت بہت تاریک ہے۔ عام طور پر ان کی روشنی منعکس کرنے کی صلاحیت محض 4 فیصد ہوتی ہے جو کوئلے کے برابر ہے۔ اب لطف کی بات یہ ہے کہ ‘کوئلے ‘ کے یہ ڈھیر ہم سے 4 ارب میل دور ہیں۔
4 ارب میل کتنا بڑا فاصلہ ہے، اس کا اندازہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں۔ خلاء بہت وسیع ہے۔ اس کو یوں سمجھتے ہیں کہ ہم راکٹ میں بیٹھ کر سفر پر نکلتے ہیں۔ ہمارا سفر زیادہ طویل نہیں بلکہ ہم محض نظامِ شمسی کے سرے تک ہی جائیں گے۔ اس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ خلاء کتنی وسیع ہے اور ہمارا نظامِ شمسی کتنا چھوٹا ہے۔
ایک بری خبر۔ رات کو کھانے پر واپس لوٹنا ممکن نہیں۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے بھی نکلیں تو پلوٹو تک پہنچنے میں 7 گھنٹے لگیں گے۔ تاہم روشنی کی رفتار کو پہنچنا ممکن نہیں۔ انسانی تیار کردہ اجسام میں وائجر اول اور دوم تیز ترین ہیں۔ اس وقت 35، 000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے یہ ہم سے دور جا رہے ہیں۔
اگست اور ستمبر 1977 میں دونوں وائجروں کو روانہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مشتری، زحل، یورانس اور نیپچون اس طرح سیدھی قطار میں آ رہے تھے جو ہر 175 سال بعد ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح انہیں تجاذبی مدد یعنی گریوٹی اسسٹ ملی جس سے ان کی رفتار بہت بڑھ گئی۔ اس تکنیک میں ایک سیارے کی کشش کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے سیارے تک جاتے ہیں۔ اس کے باوجود یورانس تک پہنچے پہنچے 9 سال جبکہ پلوٹو تک 12 سال لگے۔ 2006 کے جنوری میں نیو ہورائزن نامی جہاز کو پلوٹو کی طرف روانہ کرتے وقت ہمیں سائنسی ترقی اور سیاراتی مقامات کا فائدہ پہنچا اور امید ہے کہ تقریباً دس سال کے بعد یہ خلائی جہاز پلوٹو تک پہنچ جائے گا۔ تاہم واپسی کہیں زیادہ وقت لے گی۔ مجھے شک ہے کہ ہمارا سفر کچھ زیادہ ہی لمبا ہو جائے گا۔
خلاء میں پہنچ کر سب سے پہلے آپ کو احساس ہو گا کہ خلاء میں جگہوں کے نام تو بکثرت ہیں جبکہ اجرام فلکی بہت کم۔ شاید کھربوں میل کے دائرے میں ہمارا نظامِ شمسی ہی واحد متحرک نظام ہے۔ لیکن ہمارا سورج، سیارے، ان کے چاند، سیارچے اور اربوں کی تعداد میں شہاب ثاقب وغیرہ کو ملا کر بھی اس ساری خلاء کا محض کھربواں حصہ بنتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی احساس ہو جائے گا کہ درسی نقشے وغیرہ حقیقت سے بہت ہٹ کر بنتے ہیں۔ تدریسی نصاب میں چارٹ پر ترتیب سے جو سیارے دکھائی دیتے ہیں، ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی بڑے سیارے ایک دوسرے سے اتنے قریب ہوتے ہیں۔ اس غلط بیانی کا مقصد محض اتنا ہوتا ہے کہ سارا نظامِ شمسی ایک کاغذ پر پورا آ جائے۔ نیپچون مشتری سے کچھ دور نہیں بلکہ ان کا درمیانی فاصلہ زمین اور مشتری کے درمیانی فاصلے سے 5 گنا زیادہ ہے۔ اتنی دور ہونے کی وجہ سے مشتری کی نسبت نیپچون کو محض تین فیصد سورج کی روشنی ملتی ہے۔
یہ فاصلے اتنے بڑے ہیں کہ نقشے کو درست تناسب سے بنانا ممکن ہی نہیں۔ چاہے ہم کتنے ہی صفحات مسلسل چپکاتے جائیں۔ اگر ہم نظامِ شمسی کا ایسا نقشہ بنائیں جس میں زمین کا حجم مٹر کے دانے برابر ہو تو مشتری ہم سے 1000 فٹ دور ہو گا اور پلوٹو کوئی ڈیڑھ میل اور اس کا حجم محض ایک بیکٹریا جتنا ہو گا۔ اگر مشتری کو ایک نقطے کے برابر دکھایا جائے تو پلوٹو ایک مالیکیول جتنا اور 35 فٹ دور ہو گا۔
یعنی ہمارا نظامِ شمسی بہت وسیع ہے۔ جب ہم پلوٹو تک پہنچیں گے تو ہمارا پیارا سورج، جس سے ہمیں حرارت اور روشنی ملتی ہے، محض سوئی کی نوک سے ذرا بڑا ہو گا۔ یعنی عام ستاروں سے کچھ زیادہ روشن۔ اتنے فاصلے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کئی اہم چیزیں مثلاً پلوٹو کا چاند دریافت کرنا کیوں اتنا مشکل ہے۔ پلوٹو کو چھوڑیں، وائجر سے قبل ہمارے علم میں نیپچون کے دو چاند تھے۔ وائجر نے چھ مزید دریافت کیے۔ جب میں بچہ تھا تو اس وقت ہمارے نظامِ شمسی میں معلوم چاندوں کی تعداد 30 تھی۔ اب یہ تعداد کم از کم 90 ہو چکی ہے جس کی ایک تہائی محض پچھلے 10 سال میں دریافت ہوئی ہے۔
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے نظامِ شمسی کا بھی پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ جب ہم پلوٹو کے پاس سے گزریں گے تو ہمیں بس یہی دکھائی دے گا کہ ہم پلوٹو کے پاس سے گزر رہے ہیں۔ اگر آپ نقشے کو دیکھیں تو ہمارا نظامِ شمسی اسی جگہ ختم ہو رہا ہے۔ نقشے پر پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کا آخری سیارہ سہی، ہمارا نظامِ شمسی یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جب تک ہم اُوورت بادل کو عبور نہ کر لیں، ہمارا نظامِ شمسی جاری رہے گا۔ اس بادل میں دمدار ستارے ہوتے ہیں۔ اس کے اختتام تک پہنچے پہنچے ہمیں مزید 10,000سال لگیں گے۔ سکولوں میں موجود درسی نقشہ جات کے برعکس پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کے آخری سرے تک کے فاصلے کا محض 50,000 واں حصہ ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنا لمبا سفر ممکن نہیں۔ چاند تک کا محض 2,40,000 میل کا سفر ابھی تک ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ صدر بش اول نے شاید دکھاوے کے لیے مریخ پر انسان بردار جہاز بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق اس سفر پر کم از کم 450 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور قوی امید ہے کہ سارے خلاء باز مر جائیں گے (ان کا ڈی این اے شمسی تابکاری کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا)۔
ہمارے موجودہ علم کے مطابق کوئی بھی انسان نظامِ شمسی کے آخری سرے تک کا سفر کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ فاصلہ انتہائی طویل ہے۔ ہبل دوربین کی مدد سے ہم ابھی تک اُوورت بادل تک نہیں دیکھ پائے کہ آیا ہے بھی یا نہیں۔ اس کی موجودگی ابھی تک خیالی اور فرضی ہے۔ اس کا اصل نام اوپک اُوورت بادل ہے جو استونین فلکیات دان ارنسٹ اوپک اور ولندیزی ماہر فلکیات جان اُوورت کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اوپک نے 1932 میں اس بادل کی موجودگی کا نظریہ پیش کیا تھا جسے 18 سال بعد اُوورت نے ریاضیاتی طور پر بہتر بنایا۔
اس بارے محض یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اُوورت بادل پلوٹو کے بعد کہیں شروع ہوتا ہے جو تقریباً دو نوری سال چوڑا ہے۔ نظامِ شمسی میں فاصلے کو ماپنے کی اکائی آسٹرانومیکل یونٹ یعنی فلکیاتی اکائی ہے۔ یہ فاصلہ زمین سے سورج کے فاصلے کے برابر ہے۔ ہمارا اور پلوٹو کا درمیانی فاصلہ 40 فلکیاتی اکائیوں کے برابر ہے۔ اُوورت بادل کے مرکز تک کا فاصلہ 50,000 فلکیاتی اکائیوں کے برابر ہے۔ یعنی اوورت بادل انتہائی وسیع ہے۔
فرض کریں کہ ہم اوورت بادل تک پہنچ گئے ہیں۔ سب سے پہلی بات جو آپ کو محسوس ہو گی وہ یہ کہ یہاں بہت سکون ہے۔ اس وقت ہم ایک طرح سے لامکاں تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمارا سورج اب آسمان پر سب سے روشن ستارہ نہیں رہا۔ اندازہ کریں کہ روشنی کا ننھا سا نقطہ اتنے بڑے اور وسیع نظامِ شمسی کو اپنی کشش سے باندھے ہوئے ہے۔ تاہم اس جگہ سورج کی کشش بہت کمزور پڑ چکی ہے اور دمدار ستارے محض 220 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر رہے ہیں۔ بعض اوقات اس کشش میں خلل پڑنے یا کسی ستارے کے پاس سے گزرنے کی وجہ سے یہ دمدار ستارے اپنے مدار سے نکل کر یا تو خلاء کی وسعتوں میں ہمیشہ کے لیے کھو جاتے ہیں یا پھر نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے 3 یا 4 طویل مدتی دمدار ستارے ہر سال ہمارے نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کرتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ دمدار ستارے کسی ٹھوس جسم جیسا کہ زمین وغیرہ سے ٹکرا جاتے ہیں۔ اب ہم اس جگہ اس دمدار ستارے کو دیکھنے آئے ہیں جس نے ابھی ابھی نظامِ شمسی کے مرکز کا رخ کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ستارہ زمین پر کسی بھی جگہ جا گرے۔ تاہم اس کا سفر بہت طویل ہے اور 30 یا 40 لاکھ سال بعد زمین تک پہنچے گا۔ اس کا تذکرہ آگے چل کر آئے گا۔
یہ ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ اس سے پرے کیا ہو گا؟ کچھ بھی نہیں اور بہت کچھ بھی۔ آپ کی مرضی جس طرح سے دیکھیں۔
مختصر الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی بنائی ہوئی خلاء بھی اتنی خالی نہیں جتنی ستاروں کے درمیان کی جگہ خالی ہے۔ اس طرح بہت طویل فاصلے تک خالی خلاء کے بعد جا کر پھر کچھ خاص آتا ہے۔ کائنات میں ہمارے نظامِ شمسی کے نزدیک ترین موجود ستارہ پراکسیما سینچاؤری ہے جو الفا سنچاؤری نامی تین ستاروں کے نظام کا حصہ ہے۔ یہ ستارہ ہم سے کوئی 4,3 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ کائنات میں یہ فاصلہ کچھ بھی نہیں لیکن چاند تک کے سفر سے یہ دس کروڑ گنا بڑا ہے۔ خلائی جہاز سے ہمیں اس تک پہنچنے میں کم از کم 25,000 سال لگیں گے۔ اگر ہم وہاں تک پہنچ بھی گئے تو یہی دکھائی دے گا کہ خالی خلاء میں تین ستارے موجود ہیں۔ اگلی منزل ہمارے لیے سائریس ہو گی جو مزید 4,6 نوری سال کے فاصلے پر ہو گا۔ اسی طرح ہم ایک ستارے سے دوسرے ستارے پر چھلانگ لگاتے ہوئے کائنات میں سفر کر سکتے ہیں۔ ہماری اپنی کہکشاں کے مرکز تک پہنچنے میں جتنا وقت لگے گا وہ وقت انسان کے بطور نوع جنم لینے سے کہیں زیادہ ہے۔
میں ایک بار پھر کہوں گا کہ خلاء انتہائی وسیع ہے۔ دو ستاروں کا درمیانی اوسط فاصلہ 2,000 کھرب میل ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے بھی یہ فاصلے بہت بڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ممکن تو ہے کہ خلائی مخلوق اتنے دور سے ہماری زمین پر لوگوں کو ڈرانے یا فصلی دائرے بنانے آئے لیکن اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی ہیں۔
اتنے فاصلوں کے باوجود بھی خلائی مخلوق کے امکانات بہت روشن ہیں۔ ہماری کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد کے بارے اندازہ ہے کہ 100 سے 400 ارب ستارے ہیں۔ ہماری کہکشاں 140 ارب یا اس سے زیادہ کہکشاؤں میں سے ایک ہے جن میں سے بہت سی ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہیں۔ 1960 میں کورنل کے پروفیسر فرینک ڈریک نے مختصر ہوتے امکانات کی بنیاد پر اپنی مشہورِ زمانہ مساوات پیش کی۔
ڈریک کی مساوات کے مطابق ہر کہکشاں کے ستاروں کی کل تعداد کو ہم اس عدد سے تقسیم کرتے ہیں جن کے بارے ہمیں اندازہ ہو کہ ان کے سیارے ہو سکتے ہیں۔ حاصل جواب کو ہم اس عدد سے تقسیم کریں گے کہ جن سیاروں پر زندگی کے امکانات ہوں۔ حاصل جواب کو ہم اس عدد سے تقسیم کریں گے کہ جن سیاروں پر نہ صرف زندگی پیدا ہوئی بلکہ اس نے ذہانت کے درجے کو بھی پا لیا۔ کم سے کم اعداد دینے کے باوجود بھی ہماری کہکشاں میں ذہین مخلوق رکھنے والے ممکنہ سیاروں کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔
کتنی عمدہ سوچ ہے نا؟ ہو سکتا ہے کہ لاکھوں ذہین مخلوقات میں سے ہم ایک ہوں۔ بدقسمتی سے خلاء اتنی وسیع ہے کہ ہر دو ایسی مخلوقات کے درمیان موجود فاصلہ کم از کم 200 نوری سال کی اوسط کے برابر ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر کسی ایسی مخلوق کو ہمارے وجود کا علم ہو جائے اور وہ اپنی دوربینیں ہماری طرف مرکوز کریں تو انہیں ہم دکھائی نہیں دیں گے بلکہ 200 سال پرانا زمانہ دکھائی دے رہا ہو گا جب لوگ ریشمی کپڑے پہنے اور وگیں لگائے پھر رہے ہوں گے جنہیں نہ تو جین اور نہ ہی ایٹم کا علم ہو گا اور ان کے نزدیک شیشے کی سلاخ کو ریشمی کپڑے سے رگڑنے سے بجلی پیدا کرنا کمال فن ہو گا۔ 200 سال حقیقتاً انتہائی بڑا فاصلہ ہے۔
اسی وجہ سے جب فروری 1999 میں بین الاقوامی فلکیاتی یونین نے پلوٹو کو سیارہ تسلیم کر لیا تو ہمارے لیے ایک طرح سے خوش خبری ہی تھی۔ کائنات بہت وسیع ہے اور جتنے ہمسائے ہوں، اتنا ہی بہتر محسوس ہو گا۔
٭٭٭

3 ایوانز کی کائنات

 

رات کو جب مطلع صاف ہو اور چاند زیادہ روشن نہ ہو تو ریورنڈ رابرٹ ایوانز اپنی بھاری دوربین اٹھا کر گھر کے پچھواڑے میں بیٹھ کر ایک انوکھا کام کرتا ہے۔ اس کا کام آسمان کی گہرائیوں میں جھانک کر دم توڑتے ستارے تلاش کرنا ہے۔ اس کا گھر سڈنی کے مغرب میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ماضی کو دیکھنا نسبتاً آسان کام ہے۔ رات کے وقت آسمان پر نگاہ ڈالیں، تا حدِ نظر آپ کو ماضی ہی ماضی ملے گا۔ ہمیں دکھائی دینے والے ستاروں کا وہ ماضی ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ جب روشنی ان سے نکلی ہو گی۔ مثلاً قطبی ستارہ عین ممکن ہے کہ کئی سو سال قبل تباہ ہو چکا ہو لیکن ہمیں ابھی پتہ نہ چلا ہو۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج سے 680 سال قبل یہ ستارہ اسی جگہ دمک رہا تھا۔ ستارے مسلسل مرتے رہتے ہیں۔ ایوانز کی وجہ شہرت ایسے مرتے ستاروں کی تلاش ہے۔
دن کے وقت ایوانز ایک چرچ میں جزوی نوکری کرتا اور انیسویں صدی کی مذہبی تحاریک پر تحقیق کرتا ہے۔ رات کے وقت اس کا کام بدل جاتا ہے اور وہ سپر نووا تلاش کرتا ہے۔
جب ہمارے سورج سے بہت بڑا ستارہ سکڑتا اور پھر تباہ ہوتا ہے تو سپر نووا پیدا ہوتا ہے جو ایک لمحے میں کئی سو ارب سورجوں کے برابر توانائی خارج کرتا ہے اور پوری کہکشاں کے دیگر ستاروں کی مجموعی روشنی اس کے آگے ماند پڑ جاتی ہے۔ ایوانز کہتا ہے کہ جیسے کئی کھرب ہائیڈروجن بم ایک ساتھ پھٹے ہوں۔ اس کے مطابق اگر سپر نووا ہم سے 500 نوری سال کے فاصلے کے اندر کہیں بھی پیدا ہو، ہمیں ختم کر دے گا۔ تاہم کائنات بہت وسیع ہے اور سپر نووا عموماً ہم سے بہت دور ہوتے ہیں اور ہمارے وجود کے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔ ان کی اکثریت تو اتنی دور ہوتی ہے کہ ان کی روشنی محض ایک ٹمٹماتے دھبے کی شکل میں پہنچتی ہے۔ لگ بھگ ایک ماہ جتنا عرصہ یہ ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر ستاروں کی نسبت یہ ‘عارضی ستارے ‘ ہمیں ان جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں جو اس سے پہلے خالی تھی۔ ایوانز کا کام اس وسیع و عریض آسمان پر ایسے دھبے تلاش کرنا ہے۔
فرض کیجئے کہ عام کھانے کی میز پر کالا کپڑا بچھا کر اس پر مٹھی بھر نمک چھڑک دیا جائے۔ نمک کا ہر دانہ ایک کہکشاں کو ظاہر کرتا ہے۔ اب ایسے کل 1500 میزیں اکٹھی کر لیں جو دو میل لمبی قطار بنائیں گی۔ ان پر اسی طرح نمک چھڑک دیں۔ پھر کسی بھی میز پر، کسی بھی جگہ، نمک کا ایک اضافی دانہ ڈال دیں اور ایوانز کو کہیں کہ جاؤ اور جا کر اس ذرے کو تلاش کرو۔ ایک نظر ڈالتے ہی وہ اس دانے کو تلاش کر لے گا۔ یہ اضافہ دانہ سمجھئے کہ سپر نووا ہے۔
ایوانز کی یہ خاصیت اتنی منفرد ہے کہ ایک مصنف نے اپنی کتاب میں ان کے بارے پورا ایک قطعہ لکھا ہے۔ تاہم ایوانز نہیں جانتا کہ اس نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی۔ بقول اس کے، اسے لوگوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے۔
اس کی دوربین ایک عام گھریلو گیزر جتنی بڑی ہے اور مشاہدے کے لیے وہ خود اسے اٹھا کر باہر لے جاتا ہے۔ اس کے گھر کے باہر اور درختوں کے اوپر جو تھوڑا سا آسمان دکھائی دیتا ہے، وہ اسی میں اپنی تلاش جاری رکھتا ہے۔ اسی جگہ جب چاند زیادہ نہ روشن ہو اور مطلع صاف ہو تو وہ سپر نووا تلاش کرتا ہے۔
سپر نووا کی اصطلاح 1930 کی دہائی میں فرٹز زویسکی نے متعارف کرائی تھی جو بلغاریہ میں پیدا ہوا لیکن پرورش سوئٹزرلینڈ میں پائی۔ 1920 کی دہائی میں جب وہ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یعنی کالٹیک پہنچا تو اپنی سخت گیر طبیعت اور منفرد صلاحیتوں سے خود کو منوایا۔ اگرچہ اتنا باصلاحیت یا غیر معمولی ذہین نہیں تھا اور اس کے کئی ساتھی اسے تنک مزاج اور احمق گردانتے تھے۔ تاہم اسے اپنی صحت کے بارے جنون تھا۔ اگر کوئی اس کی طاقت کے بارے شک ظاہر کرتا تو کھانے کے کمرے یا جہاں بھی ہوتا، وہیں زمین پر لیٹ کر ایک ہاتھ سے ڈنڈ پیلنا شروع کر دیتا تھا۔ اس کے علاوہ انتہائی تنک مزاج تھا۔ اس کے قریبی ساتھی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے والٹر باڈ نے زویسکی کے ساتھ اکیلے کام کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ زویسکی نے کئی بار باڈ کو نازی کہا اور ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا ‘اگر باڈ کالٹیک میں کہیں بھی دکھائی دیا تو میں اسے قتل کر دوں گا’۔
تاہم زویسکی بعض معاملات میں انتہائی ذہین بھی ثابت ہوا۔ 1930 کے اوائل میں جب آسمان پر دکھائی دینے والے اتفاقیہ اور عارضی ستارے سائنس دانوں کے لیے وجہ پریشانی بنے تو زویسکی نے اس پر توجہ دی۔ اس وقت انگلستان میں جیمز چیڈویک نے نیوٹران دریافت کیا تھا اور اس نئی دریافت کے سبب زویسکی نے سوچا کہ شاید ان نئے عارضی ستاروں کے پیچھے نیوٹران کسی نہ کسی طرح ملوث ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ستارے بھی اسی طرح سکڑتے ہوں جیسے ایٹم، تو نتیجتاً انتہائی مختصر مگر انتہائی کثیف اجسام تشکیل پائیں گے۔ یعنی جیسے ایٹم سکڑ جائیں تو ان کے الیکٹران اور پروٹان مل کر نیوٹران بنائیں گے۔ سوچیں کہ اگر توپ کے کروڑوں گولوں کو سکیڑ کر ایک کنچے کے برابر جگہ میں رکھ دیا جائے تو کیا ہو گا۔ نیوٹران ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہے کہ ایک چمچ بھر مادے کی کثافت 5 سو ارب کلوگرام کے برابر ہو گی۔ زویسکی نے سوچا کہ اس حالت میں پھٹتے ستارے سے نکلنے والی توانائی انتہائی زیادہ ہو گی۔ پھٹنے کی اس کیفیت کو زویسکی نے سپر نووا کا نام دیا۔ تخلیق کے سب سے بڑے مظاہر سپر نووا ہی ہیں۔
15 جنوری 1934 میں فزیکل ریویو نامی رسالے میں ایک ماہ قبل سٹین فورڈ یونیورسٹی میں زویسکی اور باڈ کے لیکچر کے اہم نکات شائع کیے۔ انتہائی اختصار کے باوجود 24 سطور کا ایک پیراگراف سائنس کی ایک نئی شاخ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس میں پہلی بار نیوٹران ستارے اور سپر نووا کا نہ صرف حوالہ دیا گیا بلکہ ان کے بننے کے طریقے اور ان کے پھٹنے کے پیمانے پر بھی روشنی ڈالی گئی اور مزید یہ بھی بتایا گیا کہ سپر نووا کے پھٹنے سے ہی کاسمک ریز یعنی کائناتی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو ان دنوں کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی مل رہی تھیں۔ یہ نکات انتہائی انقلابی نوعیت کے تھے۔ نیوٹران ستاروں کے وجود کا پہلا ثبوت 34 سال بعد جا ملا۔ کاسمک ریز یعنی کائناتی شعاعیں اس وقت ممکن تو سمجھی جاتی ہیں، لیکن ان کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ کالیٹک کے آسٹرو فزسٹ کپ تھورن کے مطابق ‘یہ مقالہ طبعیات اور فلکیات کے موضوع پر شاید سب سے پر مغز مقالہ ہو’۔
مزے کی بات یہ تھی کہ زویسکی کو پسِ منظر میں ہونے والے عوامل کا علم نہیں تھا۔ تھورن کا خیال ہے کہ زویسکی کو طبعیات کے قوانین کا کوئی علم نہیں تھا اور اپنے نظریے سے متعلق طبعی قوانین کی سمجھ بھی نہیں تھی۔ اس کا وقت بڑے نظریات کے لیے وقف تھا۔ باقی ریاضیاتی کام کرنے کے لیے دوسرے افراد تھے جن میں باڈ سرِ فہرست تھا۔
زویسکی پہلا انسان تھا جس نے یہ بات جانی کہ ہماری کائنات میں ہرگز اتنا مادہ موجود نہیں جو تمام کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے منسلک رکھ سکے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ کوئی نہ کوئی اور چیز ہونی چاہئے جس کی کشش سے تمام تر کہکشائیں ایک دوسرے سے منسلک رہتی ہیں۔ آج اسے ڈارک میٹر یعنی تاریک مادہ کے نام دیا جاتا ہے۔ ایک بات جس کا احساس زویسکی کو نہ ہو پایا، یہ تھا کہ جب نیوٹران ستارہ انتہائی سکڑتا ہے تو اس کی کشش روشنی پر بھی غالب آ جاتی ہے اور اسے بلیک ہول یعنی سیاہ شگاف کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے زویسکی کے تعلقات دیگر ساتھیوں سے اتنے کشیدہ تھے کہ اس کے نظریات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حتیٰ کہ پانچ سال بعد جب اوپن ہائیمر نے نیوٹران ستاروں پر اپنا مشہور مقالہ لکھا، اس نے ایک بار بھی زویسکی کی تحقیق کا حوالہ نہیں دیا، حالانکہ زویسکی اسی عمارت میں چند کمرے دور اسی مسئلے پر برسوں سے تحقیق کر رہا تھا۔ تاریک مادے پر زویسکی کی تحقیق پر لگ بھگ چار دہائیوں بعد توجہ دی گئی۔
جب ہم سر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں انتہائی محدود کائنات دکھائی دیتی ہے۔ پوری زمین سے ایک وقت میں ہم زیادہ سے زیادہ 6,000 ستارے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک جگہ کھڑے ہو کر دیکھیں تو ستاروں کی تعداد 2,000 سے زیادہ نہیں بڑھ پاتی۔ عام دوربین سے دیکھیں تو یہ تعداد بڑھ کر 50,000 ہو جاتی ہے۔ دو انچ قطر والی دوربین سے یہ تعداد بڑھ کر 3,00,000 ہو جاتی ہے۔ 16 انچ قطر کی دوربین سے ستاروں کی بجائے ہمیں کہکشائیں دکھائی دینے لگ جاتی ہیں۔ ایوانز کا خیال ہے کہ ان کی دوربین سے دکھائی دینے والی کہکشاؤں کی تعداد 50,000 سے 1,00,000 ہے اور ہر کہکشاں میں اربوں کی تعداد میں ستارے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کے باوجود دکھائی دینے والے سپر نووا کی تعداد انتہائی قلیل ہوتی ہے۔ عام طور پر ستارے اربوں سال تک روشن رہتے ہیں اور پھر اچانک خاموشی سے بجھ جاتے ہیں۔ اکا دکا ستارے ہی پھٹتے ہیں۔ زیادہ تر ستارے بجھتے بجھتے ختم ہو جاتے ہیں۔ عام کہکشاں میں سو ارب ستارے ہوتے ہیں اور اوسطاً اس میں ہر دو یا تین سو سال بعد سپر نووا پھٹتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر کھڑے ہو کر دوربین کی مدد سے دیکھتے ہیں کہ مین ہٹن میں کسی عمارت کی کھڑکی سے کسی کو اپنی 21ویں سالگرہ کا کیک کاٹا جا رہا ہو۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب ایوانز نے فلکیات دانوں سے جا کر سپر نووا کی تلاش میں مدد دینے والے نقشے مانگے تو انہوں نے سوچا کہ ایوانز پاگل ہو گیا ہے۔ اس وقت ایوانز کے پاس 10 انچ قطر کی دوربین تھی جو شوق کی حد تو بہت اچھی ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس وقت ایوانز کا مقصود کائنات کے نادر ترین واقعات کو دیکھنا تھا۔ ایوانز سے قبل دیکھے گئے سپر نووا کی تعداد 60 بھی نہیں تھی۔ ایوانز نے 2003 تک 36 مزید دریافت کر لیے تھے۔
ایوانز کو کئی فائدے بھی ہیں۔ زیادہ تر لوگ شمالی نصف کرے میں ہیں جبکہ ایوانز جنوبی نصف کرے میں رہتا ہے جہاں بہت کم لوگ ایسے مشاہدات کرتے ہیں۔ دوسرا ایوانز کی یادداشت بہت اچھی ہے اور رفتار بھی۔ بڑی دوربینوں کو مطلوبہ مقام تک لانے کے لیے مشینوں کی مدد لینی پڑتی ہے۔ مشاہدے سے زیادہ وقت اسے مطلوبہ مقام تک لانے پر لگتا ہے۔ ایوانز آرام سے اپنی چھوٹی دوربین کو ہاتھ سے گھما کر ہر دو تین سیکنڈ بعد اگلے مقام کو دیکھنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح چند گھنٹوں میں ایوانز اگر چار سو کہکشائیں دیکھ لیتا ہے تو بڑی سائنسی دوربین والے بمشکل پچاس سے ساٹھ کہکشائیں دیکھ پاتے ہیں۔
سپر نووا کی تلاش عموماً ناکام رہتی ہے۔ 1980 سے 1996 تک ایوانز نے سالانہ دو سپر نووا بمشکل دیکھے تھے۔ ایک بار 15 دن میں تین سپر نووا دیکھے تو ایک بار تین سال تک ایک بھی نہیں دکھائی دیا۔
اس کے خیال میں ‘کچھ نہ ملنا در اصل ناکامی نہیں۔ اس سے ماہرینِ فلکیات کو کہکشاؤں کے پھیلاؤ کے بارے معلومات ملتی ہیں۔ یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کی عدم موجودگی ہی شواہد کا کام دیتی ہے ‘۔
دوربین کے ساتھ ایک میز پر ایوانز کی کھینچی ہوئی سپر نووا کے متعلق کاغذات اور تصاویر رکھی ہوئی ہیں۔ عام طور پر ہم فنکاروں کی بنائی ہوئی رنگین اور خوبصورت تصاویر دیکھتے ہیں جو سپر نووا سے متعلق ہوتی ہیں۔ تاہم ایوانز کی تصاویر ان سے بہت مختلف اور بلیک اینڈ وائٹ دھندلی تصاویر ہیں۔ ایک تصویر میں ڈھیر سارے ستارے دکھائی دے رہے تھے جن کے درمیان ایک نسبتاً روشن دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے تصویر کو بہت قریب سے دیکھنا پڑا تب کہیں جا کر سپر نووا دکھائی دیا۔ ایوانز نے بتایا کہ یہ سپر نووا مجموعہ النجوم فورنیکس میں تھا جو بذاتِ خود این جی سی 1365 نامی کہکشاں کا حصہ ہے۔ این جی سی سے مراد نیو جنرل کیٹلاگ ہے۔ یہ پہلے کتابی شکل اور اب ڈیٹا بیس کی شکل میں ہے۔ 6 کروڑ سال تک اس ستارے کی روشنی خلا سے گزرتی ہوئی اگست 2001 میں زمین پر پہنچی اور ظاہر ہے کہ ایوانز ہی پہلا انسان تھا جس نے اسے دیکھا۔
ایوانز نے بتایا ‘یہ بات بہت سکون پہنچاتی ہے کہ کروڑوں سالوں تک روشنی خلا سے گزر کر زمین تک پہنچتی ہے اور عین اس خاص وقت پر کوئی انسان آسمان کے اس حصے کو دیکھتا ہے۔ اتنے بڑے واقعے کا مشاہدہ اچھا لگتا ہے ‘۔
سپر نووا محض عجوبہ ہی نہیں بلکہ ان سے اور بھی کئی فوائد منسلک ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ان کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے ایک تو ایوانز کی دریافت ہے۔ ان میں سے ایک قسم آئی اے سپر نووا کہلاتا ہے جو فلکیات کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ سپر نووا ایک مخصوص حجم کا ہوتا ہے اور ہر بار ایک ہی طریقے سے پھٹتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے معیاری مانتے ہیں اور اس کی روشنی سے دوسرے ستاروں کی روشنی کا جائزہ لیتے ہیں اور اس سے ہمیں کائنات کے پھیلنے کی رفتار کا علم ہوتا ہے۔
1987 میں کیلیفورنیا کی لارنس برکلے لیبارٹری کے سال پرل مٹر کو اس سے زیادہ آئی اے سپر نووا درکار تھے جو عام مشاہدے سے مل رہے تھے۔ اس نے تلاش کے طریقے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔ اس نے کمپیوٹر اور انتہائی عمدہ کیمروں کو ملا کر ایک نظام بنایا۔ اس نظام میں دوربینوں کی مدد سے کیمرے ہزاروں تصاویر لے کر کمپیوٹر کو بھیجتے اور کمپیوٹر ان تصاویر میں سپر نووا تلاش کرتے۔ اس تکنیک کی مدد سے پانچ سال میں 42 نئے سپر نووا تلاش ہوئے۔ اب تو عام انسان بھی اس تکنیک کی مدد سے سپر نووا تلاش کر رہے ہیں۔ ایوانز نے اپنی مایوسی کا اظہار کچھ یوں کیا ‘دوربین اور کیمرے کو آسمان پر کسی جگہ فوکس کر کے آپ دوسرے کام کرنے لگ جائیں۔ سارا لطف غارت ہو کر رہ گیا ہے ‘۔
میں نے ایوانز سے پوچھا کہ کیا وہ اس نئی تکنیک کو اپنانا چاہے گا تو اس نے انکار کیا اور ایک سپر نووا کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ‘مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی میں بعض اوقات ان سے آگے نکل جاتا ہوں ‘۔
اب عام سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمارے نزدیک کوئی ستارہ پھٹے تو کیا ہو گا؟ ہمارے نزدیک ترین ستارہ الفا سنچوری یعنی قنطورس اول ہے جو 4.3 نوری سال دور ہے۔ اگر یہ ستارہ پھٹتا ہے تو چار سال سے زیادہ عرصے تک ہم اس کے پھٹنے کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب چار سال اور چار ماہ کا عرصہ ایسے ہو گا کہ ہم لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی ہوئی موت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ جب اس کی تابکاری ہم تک پہنچے گی تو کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گا۔ کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی لوگ کام کریں گے؟ کیا کسان فصلیں اگائیں گے؟ کیا دکانوں پر سامان پہنچے گا؟
ایک ہفتے بعد جب میں اپنے گھر پہنچا تو اپنے قصبے کے کالج کے ماہرِ فلکیات جان تھورسٹنسن سے یہی سوال کیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے تسلی دی ‘فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس طرح کے واقعات میں تابکاری یا تباہی روشنی کی رفتار سے ہی حرکت کرتی ہے۔ جب ہمیں سپر نووا دکھائی دے گا، وہی ہمارا آخری لمحہ ہو گا۔ تاہم ایسا نہیں ہو گا’۔
اس نے بتایا کہ سپر نووا سے زمین پر اس طرح کی تباہی کے لیے اس سپر نووا کا دس نوری سال سے کم فاصلے پر ہونا لازمی ہے۔ اس سے پورے آسمان پر ہمیں انوارِ قطبی دکھائی دیں گے جو انتہائی خوبصورت ہوں گے۔ تاہم ایسی روشنیاں پیدا کرنے والے منبع کا اتنا قریب ہونا اچھی خبر نہیں کہ اس سے لازمی تباہی ہو گی کیونکہ اس سے زمین کا مقناطیسی کرہ تباہ ہو جائے گا جو ہمیں مختلف اقسام کی تابکاریوں سے بچاتا ہے۔ اگر مقناطیسی کرے کے بناء ہم دھوپ میں جائیں گے تو فوراً ہی ہماری جلد جل جائے گی۔
اس نے مزید بتایا کہ ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سپر نووا ایک خاص قسم کے ستارے سے بنتا ہے۔ ایسا ستارہ ہمارے سورج سے 10 سے 20 گنا زیادہ بڑا ہونا چاہئے اور اس حجم کا کوئی ستارہ اتنے قریب موجود نہیں۔ کائنات بہت وسیع ہے۔ اس طرح کا نزدیک ترین ستارہ Betelgeuse ہے جو زمین سے 50,000 نوری سال دور ہے۔ تاہم اس ستارے پر اسی قسم کی سرگرمی جاری ہے۔
ہماری تاریخ میں دس یا بارہ مرتبہ سپر نووا اتنے نزدیک پھٹا ہے کہ اسے دوربین کے بغیر بھی دیکھا گیا ہے۔ کریب نیبولا 1054 میں پھٹا تھا۔ 1604 میں دوسرا سپر نووا پھٹا جو تین ہفتے تک دن کے وقت بھی دکھائی دیتا تھا۔ آخری ایسا سپرنووا 1987 میں لارج میجلینیک کلاؤڈ میں پھٹا اور جنوبی نصف کرے سے بمشکل نظر آتا تھا۔ اس کا فاصلہ ہم سے 1,69,000 نوری سال تھا۔
ہمارے وجود کے لیے سپر نووا کی اہمیت بنیادی ہے۔ سپر نووا کے بغیر حیات پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ پہلے باب میں ہم نے دیکھا کہ بگ بینگ کے وقت کائنات میں ہلکی گیسیں ہی تھیں لیکن بھاری عناصر نہیں بن سکے۔ طویل عرصے تک کسی کو علم بھی نہیں تھا کہ بھاری عناصر بعد میں کیسے بنے۔ بھاری عناصر کے بننے کے لیے انتہائی بلند درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جو انتہائی گرم ستاروں کے مرکزے سے بھی زیادہ گرم ہو۔ اس سے کاربن اور لوہا بنتا ہے۔ سپر نووا سے یہ بات پتہ چلی کہ بھاری عناصر سپر نووا سے ہی بنتے ہیں۔ اسے انگریز ماہرِ فلکیات نے دریافت کیا۔
یارکشائر میں پیدا ہونے والے اس بندے کا نام فریڈ ہوئل تھا جو 2001 میں فوت ہوا۔ نیچر میگزین کے مطابق ماہرِ فلکیات کے علاوہ متنازعہ شخصیت بھی تھا۔ اس کے متنازعہ بیانات نے اس کی شخصیت کا ہمیشہ منفی پہلو پیش کیا۔ مثال کے طور پر اس نے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں آرکیو ٹیرکس کے فوسل جعلی ہیں۔ عجائب گھر کے منتظمین کو وضاحت پیش کرتے کرتے بہت دن لگ گئے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ زمین پر حیات اور اکثر بیماریاں جیسا کہ انفلوئنزا اور ببونک طاعون بھی خلاء سے آئے ہیں۔ ایک بار اس نے دعویٰ کیا کہ انسانی نتھنے نیچے کی طرف اس لیے ہیں کہ خلاء سے آنے والے جراثیم سے بچاؤ ہو سکے۔
اسی نے ریڈیو پر بات کرتے ہوئے پہلی بار 1952 میں بگ بینگ کی اصطلاح استعمال کی۔ اسی نے بتایا کہ طبعیات کا ہمارا علم ہرگز یہ بات نہیں بتا سکتا کہ کیسے تمام مادہ ایک جگہ جمع ہوا اور پھر ڈرامائی انداز میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کائنات سٹیڈی سٹیٹ ہے یعنی ایسی کائنات جو مستقل طور پر پھیل رہی ہے اور پھیلتے ہوئے مزید مادہ پیدا کرتی جا رہی ہے۔ ہوئل نے ہی یہ بات بتائی کہ اگر ستارے اندر کی جانب پھٹیں تو بے انتہا حرارت پیدا ہو گی جو 10 کروڑ ڈگری سے بھی زیادہ ہو گی جس سے بھاری عناصر کی پیدائش کا عمل شروع ہو گا۔ا س عمل کو نیوکلیو سنتھسیز کہتے ہیں۔ 1957 میں ہوئل نے دیگر سائنس دانوں کی مدد سے ثابت کیا کہ سپر نووا کے پھٹنے کے دوران کیسے بھاری عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی کام پر اس کے ایک ساتھی فاؤلر کو نوبل انعام ملا جبکہ ہوئل کو کسی نے نہیں پوچھا۔
ہوئل کے نظریے کے مطابق پھٹتا ہوا ستارہ نئے عناصر بنا کر انہیں کائنات میں پھینک دیتا ہے اور وہ آگے چل کر گیسی بادل بنتے ہیں جو ستاروں کے درمیان موجود ہوتے ہیں۔ بعد میں یہی بادل جمع ہو کر نظامِ شمسی بناتا ہے۔ ان نئے نظریات کی مدد سے آخرکار یہ ممکن ہو گیا کہ ہم اپنی پیدائش کی منظر کشی کر سکیں۔ اب ہمارا خیال ہے کہ:
4.6 ارب سال قبل 24 ارب کلومیٹر طویل گیس اور گرد کا ایک بادل اسی جگہ پہنچا جہاں ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ 99.9 فیصد جمع ہو کر سورج بنا جبکہ دیگر میں سے پہلے دو خورد بینی ذرات برقی طاقتوں کے تحت جمع ہوئے جو ہماری زمین کا پیش خیمہ بنے۔ اس وقت پورے نظامِ شمسی میں یہی ہو رہا تھا۔ گرد کے ذرے ایک دوسرے سے ٹکراتے اور جمع ہوتے گئے۔ جب ان کا حجم ایک خاص حد سے بڑا ہوا تو یہ سیارچے بن گئے جو اسی طرح بڑے ہوتے ہوتے سیارے بنے۔
خیال ہے کہ یہ عمل بہت تیز تھا کہ خورد بینی ذرات سے چھوٹے سیارچے تک کا عمل ایک لاکھ سال سے بھی کہیں کم عرصے میں ہوا۔ 20 کروڑ سال سے بھی کم عرصے میں ہماری زمین بن گئی اگرچہ شروع میں یہ زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی اور اس پر مسلسل اجرامِ فلکی گر رہے تھے۔
اس موقع پر یعنی 4.4 ارب سال قبل مریخ کے حجم کا ایک اجرامِ فلکی زمین سے ٹکرایا اور اس سے اٹھنے والے گرد و غبار نے چند ہفتوں میں جمع ہو کر شکل اختیار کرنا شروع کر دی۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس نے گول چٹانی شکل اختیار کی اور تب سے چاند کی شکل میں ہمارے ساتھ ہے۔ خیال ہے کہ چاند کا زیادہ تر حصہ زمین کے مرکزے کی بجائے سطح سے آیا ہے۔ اسی وجہ سے چاند پر لوہے کی شدید قلت جبکہ زمین پر عام پایا جاتا ہے۔ اگرچہ اس نظریے کو جدید مانا جاتا ہے تاہم یہ نظریہ 1940 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے اور ہارورڈ کے ریگنالڈ ڈالی نے پیش کیا تھا۔ اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ لوگوں نے اس پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔
جب زمین موجودہ حجم کا محض ایک تہائی تھی تو اس پر فضاء تشکیل پانے لگ گئی تھی جس کا زیادہ تر حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن، میتھین اور سلفر پر مشتمل تھا۔ اس پر زندگی کا وجود شاید ہی ممکن ہوتا۔ تاہم اسی زہریلے آمیزے سے حیات نے جنم لیا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سبز مکانی یعنی گرین ہاؤس گیس ہے۔ اُس دور میں سورج بہت مدھم تھا جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہونا فائدہ مند رہا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین آج بھی برفیلا سیارہ ہوتی اور اس پر حیات کا وجود ممکن نہ ہو پاتا۔ تاہم حیات شروع ہو گئی۔
اگلے 50 کروڑ سال تک زمین پر سیارچوں، دمدار ستاروں اور شہابِ ثاقب اور دیگر اجرامِ فلکی کی بارش ہوتی رہی جس سے اتنا پانی جمع ہو گیا کہ سمندر بن گئے جہاں سے زندگی کی ابتداء ہوئی۔ اس وقت کا ماحول بہت مشکل تھا تاہم پھر بھی حیات شروع ہو گئی۔ کوئی چھوٹا سا کیمیائی بیگ حرکت میں آیا اور حیات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
4 ارب سال بعد جا کر لوگوں نے اس بات پر حیران ہونا شروع کر دیا کہ ایسا کیسے ہوا۔ آئیے اب اس اگلے مرحلے کی طرف چلتے ہیں۔
٭٭٭

حصہ دوم: زمین کا حجم

4 چیزوں کی پیمائش

اگر آپ کو کہیں مشاہدہ کرنے کے لیے جگہ کا انتخاب کرنا ہو تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آپ فرانس کی رائل اکیڈمی کے 1735 والے پیرو کے ملک والے دورے سے برا انتخاب نہ کر پائیں گے۔ اس مہم کی سربراہی پیئر بوگر نامی ہائیڈروجسٹ اور فوجی اور ماہرِ ریاضیات چارلس مارلی کے ذمے تھی۔ اس مہم میں سائنس دان اور مہم جو افراد حصہ لے رہے تھے جو ‘ٹرائینگولیٹ’ نامی طریقے سے اینڈیز پہاڑوں میں فاصلوں کی پیمائش کرنا چاہتے تھے۔
ان دنوں لوگوں کو زمین کے بارے زیادہ سے زیادہ جاننے کا جنون ہو رہا تھا اور مختلف امور جیسا کہ زمین کی عمر، اس کا وزن، خلاء میں کس جگہ موجود ہے اور اس کی پیدائش کیسے ہوئی وغیرہ جیسے امور پر بحث ہوتی رہتی تھی۔ اس مہم کا اصل مقصد ایک ڈگری کی پیمائش کرنا تھا جو زمین کے کل محیط کا 1/360 حصہ ہے۔ اس پیمائش کے لیے انہوں نے کیوٹو کے نزدیک یاروقی نامی جگہ کا انتخاب کیا۔ یہ جگہ موجودہ دور کے ایکواڈور کے مقام کیونسا سے 320 کلومیٹر دور ہے (ٹرائینگولیشن میں ان کا منتخب کردہ طریقہ اس اصول سے نکلا تھا کہ اگر آپ کو مثلث کے ایک ضلع کی لمبائی اور دیگر دو کے زاویے معلوم ہوں تو آپ باقی دونوں اضلاع کو آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر ہم چاند کا زمین سے فاصلہ معلوم کرنا چاہیں تو پہلے ہم تھوڑا دور چلے جائیں گے۔ ایک بندہ پیرس اور ایک ماس کو میں پہنچ کر ایک ہی وقت چاند کو دیکھیں اور فرض کریں کہ پیرس اور ماس کو اور چاند تین لکیروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب اگر ہم ماس کو اور پیرس کا درمیانی فاصلہ ماپ لیں اور دونوں مقامات سے چاند کے زاویے معلوم کر لیں تو باقی کا حساب آسان ہو جائے گا۔ مثلث کے اندرونی زاویوں کا مجموعہ ہمیشہ 180 کے برابر ہوتا ہے۔ اگر ہمیں دو زاویے معلوم ہوں تو تیسرا معلوم کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں اس فرضی مثلث کی شکل پتہ چل جاتی ہے۔ یہ تکنیک 150 قم میں دریافت کی گئی تھی جس نے زمین سے چاند کا فاصلہ معلوم کیا۔ زمین پر بھی مختلف جگہوں کا فاصلہ اسی طرح ماپا جا سکتا ہے۔ ایک ڈگری کی قیمت جاننے کے لیے ماہرین اسی طرح مثلث در مثلث استعمال کرتے جاتے ہیں )۔
ابتداء سے ہی مسائل شروع ہو گئے۔ کیوٹو پہنچتے ہی کسی وجہ سے مقامی افراد ان کے خلاف بھڑک گئے اور ان کا استقبال سنگ باری سے کیا۔ اس کے فوراً بعد کسی عورت پر پیدا ہونے والی غلط فہمی کی وجہ سے مہم کے ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا۔ ماہرِ نباتات پاگل ہو گیا۔ کئی دیگر افراد بخار اور حادثات کا شکار ہوتے گئے۔ مہم کا تیسرا سب سے بزرگ شخص ایک 13 سالہ لڑکی کے ساتھ بھاگ گیا اور واپس آنے سے انکاری ہو گیا۔
ایک بار تو مہم جوئی کا کام 8 ماہ تک رکا رہا کہ ٹیم کے اراکین کو لیما جا کر اپنے کام کے اجازت ناموں کی تجدید کرانی پڑی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ان دونوں سربرا ہوں نے ایک دوسرے سے بات چیت اور کام کرنا بھی بند کر دیا۔ مقامی سرکاری افراد کو اس بات کے ماننے میں عار تھا کہ فرانسیسی دنیا کے دوسرے کونے سے اتنے چھوٹے کام کے لیے آئے ہیں؟ یہ بات ان کی سمجھ سے باہر تھی۔ اڑھائی سو سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ بات کسی کی سمجھ میں ٹھیک سے نہیں آ رہی۔ بھلا فرانسیسیوں نے یہ پیمائش فرانس میں ہی کیوں نہ کر لی اور اتنی مصیبتوں میں کیوں پڑے؟
اس کا جواب اس دور کے سائنس دانوں سے متعلق ہے۔ اس دور میں سائنس دان بالعموم اور فرانسیسی سائنس دان بالخصوص جب کوئی کام کرتے تو ہر ممکن طور پر انتہائی دشوار ترین طریقے تلاش کرتے تھے۔ ایک وجہ وہ مسئلہ بھی تھا جو ان سے قبل انگریز ماہرِ فلکیات ایڈمنڈ ہیلی کو بھی پیش آ چکا تھا۔
ہیلی غیر معمولی شخصیت کا مالک تھا۔ انتہائی تخلیقی کیریئر کے دوران ہیلی نے بحری کپتان، نقشہ نویس، آکسفورڈ یونیورسٹی میں جیومیٹری کے پروفیسر، شاہی ٹکسال کے سربراہ کے نائب، شاہی ماہرِ فلکیات اور گہرے سمندر میں غوطہ خوری کے لیے مشین بنانے جیسے کام کر چکا تھا۔ اس نے مقناطیسیت، سیاراتی حرکات اور گردش اور افیون کے فوائد پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے موسمیاتی نقشے بنانے کا طریقہ، سورج سے زمین کا فاصلہ اور زمین کی عمر جاننے کے بارے، حتیٰ کہ بے موسمی مچھلی کو تازہ رکھنے کے بارے بھی مضامین لکھے۔ البتہ اس نے اپنے نام سے مشہور دمدار ستارہ دریافت نہیں کیا تھا۔ اس نے البتہ یہ بات ضروری بتائی کہ جس دمدار ستارے کو اس نے 1682 میں دیکھا تھا، یہ وہی دمدار ستارہ ہے جو اس سے قبل 1456، 1531 اور 1607 میں دیگر افراد دیکھ چکے تھے۔ ہیلی کی وفات کے 16 سال بعد 1758 میں اسے ہیلی کا دمدار ستارہ کہا جانے لگا۔
تاہم ہیلی کی وجہ شہرت اس کا رابرٹ ہُک اور سر کرسٹوفر ورین کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا۔ ہُک نے پہلی بار خلیے کی ساخت بیان کی۔ 1683 میں ہیلی، ہُک اور ورین جب لندن میں کھانا کھا رہے تھے تو ان کی گفتگو کا رُخ اجرامِ فلکی کی طرف ہو گیا۔ اس وقت تک یہ بات عام ہو چکی تھی کہ سیاروں کی گردش بیضوی مدار کی صورت میں ہوتی ہے۔ تاہم اس کی وجہ کسی کو معلوم نہیں تھی۔ ان دونوں میں سے جو اس معمے کو حل کرے گا، ورین اسے 40 شلنگ انعام دے گا۔ اس کی اپنی دو ہفتوں کی تنخواہ کے برابر رقم تھی۔
ہُک کے بارے یہ بات مشہور تھی کہ وہ دوسروں کے کام کو اپنے نام سے مشہور کرا دیتا ہے۔ اس نے فوراً ہی کہا کہ اس نے یہ معمہ حل کر لیا ہے لیکن اسے تب تک خفیہ رکھے گا جب تک دوسرے اس کو حل نہیں کر لیتے۔ ہیلی نے اس بارے کام کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں اس نے ریاضی کے پروفیسر آئزک نیوٹن سے مدد مانگی۔
نیوٹن بذاتِ خود بہت عجیب انسان تھا۔ انتہائی ذہین ہونے کے علاوہ تنہائی پسند، خشک اور سنکی بھی تھا۔ اکثر صبح کو اٹھنے کے بعد بستر پر بیٹھا ٹانگیں جھلاتا سوچوں میں گم ہو جاتا۔ اس کی اپنی لیبارٹری تھی جو کیمبرج میں پہلی تھی لیکن بعد میں اس نے عجیب تر کام شروع کر دیئے۔ ایک بار اس نے چمڑا سینے والی لمبی سوئی اپنی آنکھ میں گھسا کر گھمانا شروع کر دی کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ تاہم کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک بار وہ سورج کو کافی دیر تک گھورتا رہا تاکہ انسانی بصارت پر اس کے اثرات جانچ سکے۔ نتیجتاً اسے چند روز تاریک کمرے میں گزارنے پڑے تاکہ آنکھیں واپس اصل حالت پر آ جائیں۔
تاہم ان سب سنکوں کے باوجود نیوٹن انتہائی ذہین بلکہ عبقری تھا۔ مثال کے طور پر جب دورِ طالبعلمی میں اس نے ریاضی کے روایتی طریقوں سے اُکتا گیا تو اس نے ریاضی کی ایک نئی شاخ ایجاد کی جسے ہم کیلکولس کے نام سے جانتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنی یہ ایجاد 27 سال تک چھپائے رکھی۔ اس کے علاوہ اس نے بصریات اور روشنی پر بہت کام کیا اور سپیکٹروسکوپی کی سائنس کی بنیاد رکھی لیکن اس کام کو بھی 30 سال تک چھپائے رکھا۔
تمام تر ذہانت کے باوجود اصل سائنس نیوٹن کی زندگی کا محض ایک حصہ تھی۔ اس نے اپنی زندگی کا لگ بھگ نصف حصہ الکیمی اور دیگر مذہبی نظریات پر کام کرتے گزارا۔ اس کے علاوہ نیوٹن آریانزم کے نظریے کا بھی خفیہ پیروکار تھا جو مقدس تثلیث کا انکاری ہے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ نیوٹن کا کالج جو کیمبرج میں واقع تھا، تثلیث کا پیروکار تھا۔ نیوٹن نے بہت وقت یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے فرش کے نقشے کو پڑھنے پر گزارا کیونکہ اس بارے یقین کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کے بارے معلومات رکھتا ہے۔ اس دوران نیوٹن نے اصلی مسودات پڑھنے کی غرض سے عبرانی بھی سیکھی۔ الکیمی یعنی سونا بنانے کے عمل سے بھی اسے کافی شغف تھا۔ 1936 میں جب جان مینیارڈ کینز نے نیوٹن کے کاغذات سے بھرا ٹرنک خریدا تو اس سے اجرامِ فلکی کی حرکات کی بجائے الکیمی پر مشتمل مسودات برآمد ہوئے جن میں درج تھا کہ کیسے سستی دھاتوں کو قیمتی دھاتوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ 1970 کی دہائی میں نیوٹن کے ایک بال کے معائینے کے دوران پتہ چلا کہ اس میں سیسے کی غیر معمولی مقدار موجود ہے۔ یہ علامت الیکمسٹ حضرات کے علاوہ تھرمامیٹر بنانے والے اور ہیٹ بنانے والوں کی عام نشانی ہے۔ سیسے کی مقدار تقریباً 40 گنا زیادہ تھی۔ ظاہر ہے کہ اسی وجہ سے صبح بیدار ہوتے ہی نیوٹن اتنا غائب مزاج ہوتا تھا۔
اگست 1684 میں ہیلی کن توقعات کے ساتھ نیوٹن سے ملنے پہنچا، اس بارے اندازہ لگانا دشوار ہے۔ تاہم نیوٹن کے ایک دوست نے اس ملاقات کا کچھ حال بتایا ہے :
1684 میں ڈاکٹر ہیلی کیمبرج آیا اور کچھ بات چیت کے بعد ہیلی نے نیوٹن سے پوچھا کہ اس کے خیال میں وہ کُروی حرکت کیسی ہو گی جو سورج کی کشش کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے سیاروں کی ہوتی ہے اور یہ حرکت ان کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔
ہیلی کے خیال میں اس سارے مسئلے کے پیچھے ریاضی کی وہ شاخ ہو سکتی تھی جو انورس سکوئر لاء سے متعلق ہے تاہم اسے سو فیصد یقین نہیں تھا۔
آئزک نے فوراً جواب دیا کہ بیضوی۔ ہیلی نے خوشی اور حیرت سے پوچھا کہ اسے کیسے پتہ؟ نیوٹن نے جواب دیا کہ اس نے اس بارے کچھ حساب کتاب کیا ہوا تھا۔ جب ہیلی نے تفصیل پوچھی تو نیوٹن کو متعلقہ کاغذ نہیں ملا۔
یہ بات اتنی حیرت انگیز تھی جیسے کوئی کینسر کا علاج تو دریافت کر لے لیکن اس کا فارمولا جس کاغذ پر لکھا ہو، وہ گم ہو جائے۔ تاہم ہیلی کے اصرار پر نیوٹن نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ حساب کر کے ہیلی کو تفصیل بہم پہنچائے گا۔ نیوٹن نے نہ صرف اپنا وعدہ پورا کیا بلکہ اس نے مزید بہت کچھ بھی پیش کیا۔ دو سال کی عرق ریزی کے بعد نیوٹن نے اپنا شاہکار پیش کیا جسے Philosophiae Naturalis Principa Mathematica یا Mathematical Pricniples of Natural Philosophy یا عرفِ عام میں Principia کہا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں چند بار ہی ایسا ہوا ہے کہ انسانی ذہانت نے ایسی تخلیق پیش کی ہے کہ سننے والے یہ فیصلہ کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ آیا یہ دریافت زیادہ حیرت انگیز ہے یا اس دریافت کا خیال۔ پرنسپیا کی تخلیق بھی ایک ایسا ہی یادگار لمحہ تھا۔ فوراً ہی نیوٹن کی شہرت چہار دانگ پھیل گئی اور مرتے دم تک اسے مسلسل اعزازات اور انعامات سے نوازا جاتا رہا۔ حتیٰ کہ نیوٹن کا پرانا حریف گوٹ فرائیڈ لیبنیز، جس کا نیوٹن سے کیلکولس کی دریافت پر زبردست جھگڑا چل رہا تھا، نے تسلیم کیا کہ نیوٹن کا یہ کام آج تک کیے ہوئے تمام کاموں سے عظیم تر ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ پرنسپیا کو دنیا کی مشکل ترین کتابوں میں سے ایک بھی مانا جاتا ہے۔ اس کتاب کو مشکل بنانے کی وجہ یہ تھی کہ نوآموز ریاضی دان اسے تنگ نہ کرتے پھریں۔ تاہم جو افراد اسے سمجھ لیتے ہیں، ان کے لیے یہ کتاب مشعلِ راہ ہے۔ اس میں نہ صرف اجرامِ فلکی کی حرکات اور ان کے مدار پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ انہیں مدار میں رکھنے والی اصل قوت یعنی تجاذب کے بارے بھی بتایا گیا۔ یکایک کائنات کی ہر حرکت کی وجہ سمجھ آ گئی۔
اس کتاب کا مغز نیوٹن کے تین بنیادی قوانین تھے (اول: تمام اجسام اسی سمت حرکت کرتے ہیں جس میں انہیں تحرک دیا گیا ہو، دوم: تمام متحرک اجسام اس وقت تک ایک ہی سمت میں حرکت جاری رکھیں گے جب تک انہیں دوسری طاقت روک یا موڑ نہ دے، سوم: ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے )۔ جن کے مطابق کائنات کا ہر جسم دوسرے پر کوئی نہ کوئی اثر ڈالتا ہے۔ اگرچہ ہمیں محسوس نہیں ہوتا لیکن اس وقت آپ اپنے اردگرد موجود ہر چیز کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، چاہے وہ دیواریں ہوں، پنکھا، لیمپ یا چھت وغیرہ۔ اسی طرح یہ تمام چیزیں بھی آپ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ نیوٹن نے اس اصول کے مطابق رچرڈ فین مین نے کہا کہ دو اجسام کی تجاذب کی وقت ان کی کمیت کے مجموعے کے براہ راست اور ان کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔ یعنی اگر آپ دو اجسام کا درمیانی فاصلہ دو گنا بڑھا دیں تو ان کی باہمی کشش چار گنا کم ہو جائے گی۔ اس کی مساوات کچھ ایسے ہے :
F=GMm
r2
یہ مساوات ہم میں سے زیادہ تر افراد کو سمجھ نہیں آتی لیکن پھر بھی اچھی اور مختصر تو ہے۔ دو سہل ضربیں، ایک سادہ سی تقسیم اور آپ چاہے جہاں بھی ہوں، تجاذب کی مقدار جان سکتے ہیں۔ اسے آپ پہلا قدرتی قانون کہہ سکتے ہیں جس کو انسان نے سمجھا تھا۔ اسی وجہ سے نیوٹن کو عالمگیر شہرت ملی۔
پرنسپیا ہیلی کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی کیونکہ اس کی تکمیل کے دوران نیوٹن اور ہُک کا انورس سکوئر لاء کی دریافت پر زبردست جھگڑا شروع ہو گیا اور نیوٹن نے اس کتاب کا تیسرا حصہ پیش کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بغیر پہلے دو حصے کسی کام کے نہیں تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی خوشامد، دشواریوں اور پریشانیوں کے بعد ہیلی نے نیوٹن سے تیسرا حصہ نکلوایا ہو گا۔
ہیلی کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ رائل سوسائٹی نے اس کتاب کو چھپوانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ تاہم مالی مشکلات کا عذر کر کے انہوں نے انکار کر دیا۔ ایک سال قبل انہوں نے مچھلیوں کی تاریخ پر ایک مہنگی مگر ناکام کتاب چھپوائی تھی اور ان کے خیال میں ریاضی جیسے مضمون پر کتاب کا چھاپنا ممکن نہیں تھا۔ اب چھاپنے کی ساری ذمہ داری ہیلی پر آن پڑی جس کی معاشی حالت ویسے بھی کافی پتلی تھی۔ نیوٹن کبھی بھی اس طرح کے کاموں پر اپنا پیسہ لگانے کا قائل نہیں تھا۔ جیسے تیسے کر کے ہیلی نے کتاب چھپوائی۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ انہی دنوں ہیلی نے رائل سوسائٹی میں کلرک کی نوکری حاصل کی تھی۔ سوسائٹی نے اسے بتایا کہ معاشی مشکلات کے سبب سوسائٹی اسے مجوزہ 50 پاؤنڈ دینے سے معذور ہے۔ تاہم انہوں نے اس کے بدلے اسے متذکرہ بالا مچھلیوں کی تاریخ والی کتاب کی کاپیاں دینے کا وعدہ کیا۔
نیوٹن کے قوانین نے بہت ساری باتوں کی وضاحت کی جیسا کہ سمندری لہروں کا مد و جذر، اجرامِ فلکی کی حرکات، توپ کے گولے زمین پر گرنے سے قبل قوس کیوں بناتے ہیں، اگر زمین گول ہے اور سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ (زمین کی رفتار اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ خطِ استوا پر زمین کی رفتار 1600 کلومیٹر فی گھنٹہ جبکہ قطبین پر صفر ہے۔ لندن میں یہ رفتار 998 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے ) کی رفتار سے گھوم رہی ہے تو ہم سب اس سے نیچے کیوں نہیں گر جاتے؟ اس کتاب کو سمجھنے میں لوگوں کو کچھ عرصہ لگا۔ تاہم ایک بات شروع سے ہی متنازعہ رہی۔
متنازعہ امر یہ تھا کہ زمین بالکل گول نہیں۔ نیوٹن کے نظریے کے مطابق زمین کی حرکت سے پیدا ہونے والی مرکز گریز قوت کی وجہ سے زمین قطبین پر نسبتاً چپٹی اور خطِ استوا پر نسبتاً پھیلی ہوئی ہونی چاہئے۔ اسی وجہ سے سیارے بالکل گول نہیں بلکہ ہلکے سے بیضوی بن جاتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ سکاٹ لینڈ میں ڈگری کی قیمت اٹلی والی ڈگری سے چھوٹی ہوتی۔ یعنی جوں جوں ہم قطبین کی طرف جاتے جائیں، ڈگری چھوٹی ہوتی جائے گی۔ اب جو لوگ زمین کو مکمل کُرہ سمجھ کر اس کی پیمائش کر رہے تھے، ان کے لیے یہ بری خبر ثابت ہوئی۔
نصف صدی تک لوگ زمین کی پیمائش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان میں سے ایک انگریز ریاضی دان رچرڈ نارووڈ تھا۔ جوانی میں نارووڈ نے ہیلی کی غوطہ خور مشین سے مماثل مشین کی مدد سے برمودا میں سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا کیونکہ نہ تو یہ مشین ٹھیک طرح سے کام کر رہی تھی اور نہ ہی اس جگہ موتی موجود تھے۔ تاہم اسی دوران اس نے ایک اور اچھوتا کام کر دکھایا۔ اس دور میں برمودا کا سفر بحری کپتانوں کے لیے بھیانک خواب کی مانند تھا۔ نہ صرف یہ کہ سمندر بہت وسیع ہے بلکہ برمودا بھی انتہائی چھوٹا ہے اور اس دور میں بحری رہنمائی کے آلات انتہائی بیکار ہوتے تھے۔ اس وقت تک تو بحری میل کی پیمائش پر بھی اتفاق نہیں ہوتا تھا۔ حساب کتاب کی انتہائی معمولی سی غلطی سمندر کے دوسرے کنارے موجود برمودا سے بہت دور لے جاتی تھی۔ نارووڈ کی اصل دلچسپی ٹرگنومیٹری اور زاویوں میں تھی۔ اسی لیے اس نے بحری رہنمائی کے لیے ریاضی سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور ڈگری کی پیمائش کا سوچا۔
اگلے دو سال تک نارووڈ نے ٹاور آف لندن سے شمال میں یارک تک کا 208 میل کا پیدل سفر بار بار طے کیا اور ہر مرتبہ اس نے اپنے پاس موجود زنجیروں سے پیمائش جاری رکھی۔ اس نے زمین کے نشیب و فراز کے علاوہ راستے کے پیچ و خم کو بھی مدِ نظر رکھا۔ آخری مرحلے میں اس نے سال کے اسی ماہ اور اسی دن اور اسی وقت یارک میں سورج کا زاویہ ماپا جو اس نے ایک سال قبل لندن میں ماپا تھا۔ اس طرح اس نے ایک ڈگری کی قیمت نکالی اور اس کی مدد سے زمین کے گرد فاصلے کا حساب لگایا۔ یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ ایک انتہائی معمولی سی غلطی سے بھی کئی میل کا فرق پڑ سکتا تھا۔ اس نے فخر سے بتایا کہ ایک ڈگری کی قیمت 110.72 کلومیٹر ہے اور غلطی کا اندازہ اس نے زیادہ سے زیادہ چھ سو گز لگایا۔
1637 میں نارووڈ نے اپنا شاہکار The Seaman’s Practice چھپوایا جو کامیاب رہا۔ اس کتاب کے 17 ایڈیشن چھپے اور اس کی وفات کے 75 سال بعد بھی یہ کتاب چھپ رہی تھی۔ بعد میں نارووڈ اپنے خاندان سمیت برمودا منتقل ہو گیا اور اس نے زندگی کی نئی شروعات کیں۔ اپنے فارغ وقت میں اس نے ٹرگنومیٹری پر توجہ دی۔ برمودا میں اس نے کل 38 سال گزارے۔ یہ سوچنا دشوار نہیں کہ اس نے وہاں عیش اور سکون کی زندگی گزاری ہو گی۔ تاہم ایسا نہیں۔ لندن سے روانگی کے وقت اس کے دو بیٹے ایک نوجوان پادری کے کمرے میں رہے اور انہوں نے پتہ نہیں کیا کیا کہ پادری نے اپنی بقیہ زندگی نارووڈ کے لیے ہر ممکن مشکل پیدا کرنے میں گزاری۔
نارووڈ کی بیٹیوں نے بھی اپنی شادیوں سے باپ کے لیے کافی مشکلات پیدا کیں۔ ایک کا شوہر جو شاید متذکرہ بالا پادری کا ہی بھیجا ہوا تھا، نے نارووڈ کے خلاف مسلسل چھوٹے چھوٹے الزامات کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے اسے بار بار برمودا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا پڑتا۔ 1650 کی دہائی میں وچ ہنٹ کا سلسلہ برمودا تک پہنچ گیا اور بقیہ زندگی نارووڈ نے اسی خوف میں گزاری کہ اس کے ٹرگنومیٹری کی علامات کو شیطانی علامات نہ سمجھ لیا جائے۔ اسی وجہ سے ہمیں نارووڈ کی زندگی کے آخری برسوں کے بارے نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی پیمائش کا کام فرانسیسیوں تک آن پہنچا۔ فرانس کے ماہرِ فلکیات جین پیکارڈ نے ٹرائینگولیٹنگ کے لیے انتہائی پیچیدہ اور دقیق طریقہ ایجاد کیا جس میں دائرے کی چوتھائی کی پیمائش، پنڈولم گھڑیاں، اجرامِ فلکی کا مشاہدہ خواں کے عین سر پر ہونا اور دوربینیں (تاکہ مشتری کے چاندوں کی حرکات دیکھی جا سکیں ) لازمی ہوتی تھیں۔ یورپ بھر میں دو سال تک اس طرح پیمائش کرنے کے بعد اس نے 1669 میں ایک ڈگری کی درست تر قیمت 110.46 کلومیٹر بتائی۔ اہلِ فرانس کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ زمین کا مکمل گول ہونا اس پیمائش کی بنیاد تھا جسے نیوٹن نے ماننے سے انکار کر دیا۔
مزید دشواری یہ پیدا ہوئی کہ پیکارڈ کے طریقے سے دو باپ بیٹے جیوانی اور جیکوئس کیسینی نامی سائنس دانوں نے زمین کی پیمائش نسبتاً بڑے پیمانے پر کی اور بتایا کہ زمین خطِ استوا کی بجائے قطبین پر زیادہ موٹی ہے جو نیوٹن کے نظریے کے عین خلاف تھا۔ اسی وجہ سے اکیڈمی آف سائنس نے جنوبی امریکہ کے لیے مہم روانہ کی تھی۔
اینڈیز پہاڑ اس وجہ سے چنے گئے کہ ایک تو وہ خطِ استوا پر ہیں، دوسرا یہ بھی کہ پہاڑوں کا مشاہدہ آسان تر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اینڈیز کے پہاڑ مستقل بادلوں سے ڈھکے رہتے ہیں اور ایک گھنٹہ مشاہدے کے لیے انہیں کئی کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کا چنا ہوا علاقہ دنیا کا سب سے دشوار گزار علاقہ تھا۔ پیرو کے لوگ اس علاقے کو اپنی زبان میں ‘حادثاتی’ علاقہ کہتے ہیں۔ یہ پہاڑ نہ صرف انتہائی دشوار چڑھائی کے تھے بلکہ ان تک پہنچنے کے لیے گھنے جنگلوں، پتھریلے صحراؤں اور بپھرے دریاؤں وغیرہ سے بھی گزرنا پڑتا تھا جس کا نہ تو کوئی نقشہ تھا اور نہ ہی ساز و سامان ملنے کی توقع ہوتی تھی۔ مہم جو پورے ساڑھے نو سال تک ان مشکلات سے نبرد آزما رہے۔ مہم کی تکمیل سے ذرا قبل انہیں اطلاع ملی کہ دوسری فرانسیسی ٹیم نے شمالی سکینڈے نیویا (ان کی بھی اپنی مشکلات تھیں کہ انہیں دلدلوں اور برفانی پانیوں سے گزرنا پڑتا تھا) نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ قطبین کی جانب واقعی ڈگری کی قیمت اسی طرح زیادہ تھی جیسا کہ نیوٹن نے بتایا تھا۔ اگر ہم زمین کو خطِ استوا پر ماپیں تو وہ قطبین پر ماپی گئی مقدار سے 43 کلومیٹر زیادہ ہے۔
اس طرح تقریباً ایک دہائی تک ناپسندیدہ کام کرنے کے بعد، یہ جانتے ہوئے کہ کوئی اور یہ کام پہلے ہی کر چکا ہے، ان کا نتیجہ پہلی ٹیم کے موافق تھا۔ جب انہوں نے واپسی کا رخ کیا تو دونوں سربراہ ابھی تک بات نہیں کرتے تھے اور انہوں نے واپسی کے لیے الگ الگ بحری جہاز پکڑے۔
نیوٹن کی کتاب میں ایک اور دلچسپ بات درج تھی۔ اگر آپ سیسے کے ایک گولے کو کسی بڑے پہاڑ کے پاس لٹکائیں تو وہ معمولی سا پہاڑ کی جانب کھینچا ہوا ہو گا۔ اگر آپ اس پہاڑ کے وزن کی پیمائش کر لیں تو پھر ہم پوری زمین کی تجاذبی قوت کو جان سکتے ہیں اور زمین کا وزن بھی۔
اس مہم نے یہ کوشش بھی کی تھی لیکن تکنیکی مشکلات اور باہمی دشمنی کی وجہ سے ناکام رہے۔ اس پر 30 سال بعد برطانوی ماہرِ فلکیات نیول ماسکلائن نے کام شروع کیا۔ اس نے زمین کا وزن ماپنے کا طریقہ بنایا۔
ماسکلائن نے محسوس کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ متناسب قسم کا پہاڑ کیسے تلاش کیا جائے، کیونکہ متناسب پہاڑ کا وزن جاننا آسان ہو جائے گا۔ اس کے کہنے پر رائل سوسائٹی نے ایک قابلِ اعتبار بندہ اس کام کے لیے مقر ر کیا جو برطانیہ بھر میں پھر کر ایسا پہاڑ تلاش کرتا۔ ماسکلائن کا ایک جاننے والا چارلس میسن ایسا ہی ماہرِ فلکیات اور معائنہ کار تھا۔ ان کی دوستی 11 سال قبل اس وقت شروع ہوئی تھی جب انہوں نے سورج کے سامنے سے زہرہ کے گزرنے کا مشاہدہ کرنا تھا۔ ایڈمنڈ ہیلی برسوں پہلے بتا چکا تھا کہ اگر زمین کے مختلف مقامات سے اس کا مشاہدہ کیا جائے تو زمین اور سورج کا فاصلہ اور دیگر اجرامِ فلکی کا زمین سے فاصلہ بھی جان سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے زہرہ کا سورج کے سامنے سے گزرنا بہت بے قاعدہ ہے۔ یہ ہمیشہ آٹھ سال کے دوران دو بار ہوتا ہے اور پھر سو سال سے زیادہ وقفہ آ جاتا ہے۔ ہیلی کی زندگی میں ایسا واقعہ نہیں پیش آیا (حالیہ دو بار 8 جون 2004 اور 2012 میں ہوئے ہیں۔ 21ویں صدی میں دوبارہ ایسا نہیں ہو گا)۔ تاہم یہ خیال لوگوں کے ذہن میں رہا اور اگلی بار 1761 میں جب ایسا وقت آیا تو سائنسی دنیا اس کے لیے تیار تھی۔ ہیلی کو مرے 20 برس گزر چکے تھے۔ شاید ہی اس سے قبل کسی فلکیاتی مشاہدے کے لیے دنیا اتنی تیار ہوئی ہو۔
اس دور کے سائنس دانوں نے پوری احتیاط کے ساتھ زمین پر 100 جگہوں کا انتخاب کیا جو سائبیریا، چین، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، وسکونسن، برطانیہ وغیرہ تھے۔ فرانس نے 32، برطانیہ نے 18 ماہرِ فلکیات بھیجے جبکہ سوئیڈن، روس، اٹلی، جرمنی، آئرلینڈ اور دیگر ممالک سے بھی بہت سارے سائنس دان اس کام پر نکلے۔
اسے ہم دنیا کی پہلی مشترکہ سائنسی مہم کہہ سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہر جگہ اسے مشکلات پیش آئیں۔ کئی جگہ سائنس دانوں کا سامنا جنگ، بیماری یا بحری جہاز کی تباہی سے ہوا۔ کئی سائنس دان اپنی منزل پر تو پہنچ گئے لیکن استوائی گرمی سے ان کے آلات خراب یا تباہ ہو چکے تھے۔ فرانسیسیوں کو سب سے زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ ایک فرانسیسی مہینوں تک برف، کشتی اور گھوڑا گاڑی پر سفر کر کے سائبیریا پہنچا۔ راستے بھر اس نے ہر اونچ نیچ پر اپنے آلات کا معائنہ کیا تھا۔ تاہم اس کی منزل کا آخری چھوٹا سا حصہ ناقابلِ عبور دریاؤں سے بھرا ہوا تھا کیونکہ ان دنوں موسمِ بہار کی بارشیں بہت زیادہ ہوئی تھیں۔ مقامی افراد نے اس پر الزام دھرا کہ وہ اپنے عجیب عجیب آلات آسمان کی طرف کیے رہتا تھا جس سے یہ بارشیں ہوئیں۔ اگرچہ اس کی جان تو بچ گئی لیکن کسی قسم کا سائنسی مشاہدہ نہ کر سکا۔
دوسرا فرانسیسی مقر رہ وقت سے ایک سال قبل ہی ہندوستان کو روانہ ہوا لیکن یکے بعد دیگر مشکلات کے سبب وہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ زہرہ نے سورج کے سامنے اپنا سفر شروع کر لیا۔ سمندر ایسے مشاہدات کے لیے بدترین جگہ ہوتی ہے۔
خیر، چونکہ آٹھ سال بعد اس کا دوبارہ موقع تھا، اس لیے اس نے ہندوستان پہنچ کر انتظار شروع کر لیا۔ آٹھ سالوں کے دوران اس نے بہترین رصد گاہ بنائی اور اسے ہر طرح سے آزمایا۔ تاہم 4 جون 1769 کی صبح کو جب زہرہ نے سورج کے سامنے سے گزرنا تھا، تو سورج کے سامنے بادل کا ایک ٹکڑا آن کر رک گیا۔ یہ ٹکڑا تقریباً 3 گھنٹے، 14 منٹ اور 7 سیکنڈ تک سامنے رہا اور زہرہ نے سورج کے سامنے سے گزرنے پر عین اتنا وقت لگایا۔
مایوس ہو کر جب اس نے اپنا ساز و سامان باندھ کر بندرگاہ کا رخ کیا تو پیچش کا شکار ہو کر ایک سال کے قریب بستر پر پڑا رہا۔ جب صحت یاب ہو کر جہاز سے روانہ ہوا تو افریقہ کے ساحل کے نزدیک ایک سمندری طوفان سے جہاز ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ آخرکار جب ساڑھے گیارہ سال بعد خالی ہاتھ گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے رشتہ داروں نے اسے مردہ سمجھ کر اس کی ملکیت آپس میں بانٹ لی تھی۔
برطانویوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ میسن کے ساتھ نوجوان جیرمیاہ ڈکسن تھا جو بہت اچھے دوست بن گیا۔ ان کو ہدایت تھی کہ وہ سماٹرا پہنچ کر مشاہدہ کریں۔ تاہم سمندری سفر کے اگلے روز ہی ان کے جہاز پر فرانسیسی جنگی کشتی نے حملہ کیا۔ میسن اور ڈکسن نے رائل سوسائٹی کو خط بھیجا کہ ان حالات میں ان کا سفر جاری رکھنا غیر ضروری اور مہلک ثابت ہو سکتا تھا۔ انہیں جواب ملا کہ قوم اور سائنس دانوں نے ان سے بہت بلند توقعات وابستہ کی ہوئی ہیں اور ان کی ناکامی پوری قوم کی ناکامی شمار ہو گی اور یہ بھی کہ وہ اپنا معاوضہ پہلے ہی لے چکے ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا لیکن ان کے سماٹرا پہنچنے سے قبل وہاں فرانسیسیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے راس امید کے مقام پر اس کا ادھورا مشاہدہ کیا۔ واپسی پر جب وہ سینٹ ہیلینا رکے تو ان کی ملاقات ماسکلائن سے ہوئی جس کے مشاہدات بادلوں کی وجہ سے نہ ہو سکے۔ میسن اور ماسکلائن کی گہری دوستی ہو گئی اور انہوں نے سمندری بہاؤ پر کئی ہفتے کام کیا۔
ماسکلائن کی برطانیہ واپسی پر اسے آسٹرانومر رائل بنایا گیا اور اس نے میسن اور ڈکسن کے ساتھ اپنے تجربات کی روشنی میں 4 سالہ سفر پر امریکہ روانہ ہو گئے جہاں انہوں نے 244 میل کے خطرناک علاقے میں ولیم پن اور لارڈ بالٹی مور کی ریاستوں پینسلووینیا اور میری لینڈ کی سرحدوں کا تعین کیا۔ ان کے کام کو آج میسن-ڈکسن حد کہا جاتا ہے جو غلامی کی حامی اور مخالف ریاستوں کی حد بن گئی۔ اس کام کے علاوہ انہوں نے ساتھ ساتھ کئی فلکیاتی مشاہدے بھی کیے اور اس صدی میں ماپی گئی ایک ڈگری کی درست ترین قیمت بھی معلوم کی۔ اس وجہ سے برطانیہ میں ان کی زیادہ عزت کی گئی۔
یورپ میں ماسکلائن اور اس کے جرمن اور فرانسیسی ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ 1761 میں زہرہ کا مشاہدہ ناکام رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بے شمار افراد مشاہدہ کرتے ہوئے بالکل متضاد نتیجوں پر پہنچے تھے۔ زہرہ کے سورج کے سامنے گزرنے کا درست مشاہدہ کرنے کا سہرہ یارکشائر والے جیمز کُک کے سر بندھا جس نے تاہیتی کے پہاڑوں پر سے کیا تھا۔ پھر کُک نے آسٹریلیا کو تاجِ برطانیہ کے نام پر دریافت کیا۔ واپسی پر اس کے پاس اتنی معلومات تھیں کہ ان کی مدد سے فرانسیسی ماہرِ فلکیات جوزف لالینڈ نے سورج اور زمین کا درمیانی فاصلہ درستگی سے ناپا جو 15 کروڑ کلومیٹر سے کچھ زیادہ تھا۔ اگلی صدی میں زہرہ کے ایسے دو مزید مشاہدوں کے بعد ماہرینِ فلکیات نے یہ فاصلہ 14 کروڑ 95 لاکھ 90 ہزار کلومیٹر معلوم کیا جو آج تک نہیں تبدیل ہوا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ بالکل درست فاصلہ 1,49,59,78,70,691 میٹر ہے۔ آخرکار خلاء میں زمین کا مقام معلوم ہو گیا۔
میسن اور ڈکسن نے انگلستان کا رخ کیا اور گھر پہنچ کر نامعلوم وجوہات کی بناء پر تعلق ختم کر دیا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے مشہور افراد کے بارے کیسے اتنی کم معلومات ہیں۔ ڈکسن کے بارے نیشنل بائیوگرافی ڈکشنری میں درج ہے کہ وہ کوئلے کی کان میں پیدا ہوا۔ کب، کیوں اور کیسے، یہ قاری کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھی درج ہے کہ اس کی وفات 1777 میں ڈرہم میں ہوئی۔ اس کے نام اور میسن کے ساتھ طویل رفاقت کے علاوہ اس کے بارے کچھ نہیں معلوم۔
میسن کے بارے بھی کچھ زیادہ معلومات نہیں۔ 1772 میں اس نے ماسکلائن کی دعوت پر متناسب پہاڑ کی تلاش کا کام شروع کیا اور آخرکار اس نے وسط سکاٹ لینڈ میں ایسا پہاڑ تلاش کر لیا۔ تاہم وہ کسی قیمت پر بھی اس کے مشاہدے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس نے پھر کبھی عملی میدان کا رُخ نہیں کیا۔ اس کے بارے اگلی اطلاع 1786 میں ملتی ہے جب اس نے اچانک ہی فلاڈلفیا کا رُخ کیا اور اپنی بیوی اور 18 بچے بھی ساتھ لایا۔ عجیب بات یہ ہے کہ 18 سال قبل سروے کے بعد پہلی بار اس نے امریکہ کا رُخ کیا تھا اور وہاں اس کا نہ تو کوئی دوست تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا۔ وہاں پہنچنے کے چند ہفتے بعد مر گیا۔
میسن نے جب سروے سے انکار کیا تو پہاڑ کا سروے کرنے کا کام ماسکلائن کے ذمے لگا۔ 1774 کے موسم گرما میں چار ماہ تک اس نے یہ کام کیا اور اس دوران اس نے اپنی ٹیم کے افراد کو ہر ممکن طور پر اور ہر ممکن زاویے سے پہاڑ کی پیمائش کا کام کرنے کی ہدایات دیں۔ ان پیمائشوں سے پہاڑ کا وزن معلوم کرنے کا کام انتہائی طویل تھا۔ اس نے ان پیمائشوں کو ترتیب دینے اور آسان بنانے کا طریقہ اپنایا اور اس نے پورے پہاڑ کی شکل بنائی اور اس کے بیرونی خطوط ایجاد کیے۔
اس کی پیمائشوں سے ہٹن نے زمین کا کل وزن 5 کروڑ ارب کلو نکالا۔ اس کی مدد سے ہم نظامِ شمسی کے دیگر اراکین بشمول سورج کے، کا وزن جان سکتے ہیں۔ بیرونی خطوط کا علم اس کے ساتھ ہمیں اضافی ملا۔
تاہم ہر سائنس دان ان نتائج سے مطمئن نہیں تھا۔ ماسکلائن کی پیمائش کی اصل خامی یہ تھی کہ اس سے ہمیں پہاڑ کے وزن کا اندازہ ہوا۔ اصل وزن نہیں ناپا جا سکا۔ اپنی سہولت کی خاطر ہٹن نے پہاڑ کی کثافت کو عام پتھر کے برابر یعنی پانی سے اڑھائی گنا زیادہ شمار کی۔ تاہم یہ محض اندازہ ہی تھا۔
اس بارے پھر جان مچل نے توجہ دی جو تھورن ہل نامی گاؤں میں رہتا تھا۔ اگرچہ دور دراز جگہ پر رہنے اور کم مواقع کی وجہ سے اسے زیادہ شہرت نہیں ملی لیکن پھر بھی سائنسی حلقوں میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔
اس نے سب سے پہلے زلزلوں کی لہر نما نوعیت کو سمجھا اور مقناطیسیت اور تجاذب پر بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ اس نے دیگر سائنس دانوں سے لگ بھگ 200 سال قبل بلیک ہول یعنی سیاہ شگافوں کے امکان پر بھی کام کیا۔ بلیک ہول کے بارے تو نیوٹن نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔ جب مشہور جرمن موسیقار ولیم ہرشل نے فلکیات میں دلچسپی محسوس کی تو اس نے مچل سے ہی دوربین بنانے میں رہنمائی لی۔ اس وجہ سے فلکیات کی دنیا آج بھی اس کی شکر گزار ہے (1781 میں ہرشل موجودہ دور کا پہلا فرد تھا جس نے سیارہ دریافت کیا۔ پہلے اس نے اس کا نام برطانوی بادشاہ کے نام پر جارج رکھا لیکن پھر اسے یورینس نام دیا گیا)۔
مچل کی کارگزاریوں میں سے زمین کا وزن کرنے والی مشین بنانا ہی سب سے اہم ہے۔ تاہم تجربات کرنے سے قبل ہی اس کی وفات ہو گئی اور اس کی مشین لندن کے ایک سائنس دان ہنری کیونڈش کو ملی۔
کیونڈش بذاتِ خود ایک پوری کتاب ہے۔ منہ میں سونے کا چمچ لیے پیدا ہونے والے کیونڈش کا دادا اور نانا نواب تھے۔ اپنے دور کا سب سے قابل انگریز سائنس دان کہلانے والا کیونڈش عجیب ترین بھی تھا۔ ایک ہم عصر کے مطابق کیونڈش انتہائی شرمیلا اور تنہائی پسند انسان تھا۔ کسی بھی انسان سے اس کا سامنا اس کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث بنتا تھا۔
ایک بار کیونڈش نے دستک پر دروازہ کھولا تو سامنے ایک بندہ کھڑا تھا جو اسی وقت آسٹریا سے آیا تھا۔ کیونڈش کو دیکھتے ہی اس نے تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے۔ چند لمحے برداشت کرنے کے بعد کیونڈش نے سیدھا راستے پر دوڑ لگا دی اور اپنے گھر کو کھلا چھوڑ کر دور نکل گیا۔ کئی گھنٹوں بعد اس کی واپسی ہوئی۔ اس کے ملازمین بھی اس سے بذریعہ خط رابطہ کرتے تھے۔
بعض اوقات اسے محفلوں میں بھی جانا پڑتا تھا لیکن یہ بات ہمیشہ دیگر مہمانوں کو بتا دی جاتی تھی کہ وہ کسی بھی قیمت پر کیونڈش سے براہ راست بات نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی طرف دیکھیں گے۔ اگر کسی مدد یا مشورہ درکار ہو تو وہ اس کے قریب ایسے جائیں جیسے اتفاقاً ادھر پہنچے ہوں اور دوسری طرف منہ کر کے اپنا مسئلہ بیان کریں۔ اگر ان کے مسئلے کی کوئی سائنسی اہمیت ہوتی تو شاید منمناہٹ جیسی آواز میں کچھ جواب مل جاتا مگر اکثر اوقات لوگ یہی دیکھتے کہ کیونڈش نے کسی دوسرے پرسکون گوشے کی طرف دوڑ لگا دی ہوتی تھی۔
اپنی دولت اور تنہائی کی وجہ سے اس نے اپنے گھر کو بڑی لیبارٹری میں بدل دیا تھا جہاں اس نے ہر طبعی سائنس پر کام کیا تھا چاہے وہ برقیات ہوں، حرارت، تجاذب، گیس یا کچھ بھی۔ اس صدی کے لوگوں کو مادے کی طبعی خصوصیات میں دلچسپی ہوتی تھی۔ امریکہ میں بنجامن فرینکلن نے اپنی جان داؤ پر لگا کر پتنگ کی مدد سے آسمانی بجلی کو قابو کیا۔ فرانس میں ایک سائنس دان نے اپنے منہ میں ہائیڈروجن بھر کر اسے شعلے پر اگل کر اس کی آتش گیر خاصیت کا مظاہرہ کیا۔ اس تجربے سے یہ بات بھی پتہ چلی کہ ایسے تجربات کے نتیجے میں ممکن ہے کہ بھنویں بھی جل سکتی ہیں۔ کیونڈش نے خود کو بتدریج بڑھتی ہوئی شدت کی بجلی کے جھٹکے دینا شروع کر دیئے اور جب تک ہوش میں رہتا، تجربات جاری رہتے۔
دیگر کامیابیوں کے علاوہ کیونڈش نے سب سے پہلے ہائیڈروجن کو الگ کرنے اور پھر ہائیڈروجن کو آکسیجن سے ملا کر پانی بنانے کے تجربات کیے۔ تاہم اس کے ہر تجربے میں ہی انفرادیت ہوتی۔ اکثر اپنی تصنیفات میں وہ جو باتیں بیان کرتا، ان تجربات کے بارے اس کے ساتھیوں کو بھی علم نہیں ہوتا تھا۔ راز داری میں وہ نیوٹن سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ برقی موصل سے متعلق اس کے تجربات ایک صدی قبل از وقت تھے۔ اس کے کام کا زیادہ تر حصہ اگلی صدی کے اواخر میں جا کر جانا گیا جب کیمبرج کے طبعیات دان جیمز کلرک میکسویل نے کیونڈش کے کاغذات کی تدوین شروع کی۔ تب تک اس کے زیادہ تر کاموں کا سہرہ دوسرے سائنس دان لے چکے تھے۔
کسی کو بتائے بناء کیونڈش قانون بقائے توانائی، اوہم کا قانون، ڈالٹن کا قانون برائے جزوی دباؤ، چارلس کا گیسوں کا قانون، برقی موصلیت کے اصولوں وغیرہ کو جان چکا تھا۔ تاہم یہ اس کے کیے ہوئے کاموں کا معمولی سا حصہ ہیں۔ اس نے ڈارون اور کیلون سے قبل زمین کی سست ہوتی ہوئی گردش پر ٹائڈل فرکشن پر بھی کام کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ایسے اشارے بھی دیئے جن کی بنیاد پر نوبل گیسوں کا گروپ دریافت ہوا۔ ان میں سے بعض اتنی عجیب ہیں کہ آخری گیس 1962 میں جا کر دریافت ہوئی۔ تاہم اس وقت ہماری دلچسپی 1797 میں 67 سال کی عمر میں کیونڈش کے آخری تجربے پر مرکوز ہے جو اس نے جان مچل کی چھوڑی ہوئی مشین پر کیا تھا۔
جب مچل کی مشین کو جوڑا گیا تو وہ ایک بہت بڑی ترازو کی مانند تھی۔ اس میں وزن، ان کا اثر ختم کرنے والے دیگر باٹ، پنڈولم، سلاخیں اور دیگر تاریں وغیرہ تھیں۔ مشین کا اہم ترین حصہ دو 350 پاؤنڈ وزنی سیسے کے گولے تھے جن کے ساتھ دو چھوٹے گولے لٹکائے گئے تھے۔ تجربے کا اصل مقصد چھوٹے گولوں پر بڑے گولوں کا تجاذبی اثر دیکھنا مقصود تھا۔ اس تجربے سے تجاذبی مستقل پتہ چلتا اور تجاذبی مستقل کی مدد سے زمین کی کمیت (طبعیات دانوں کے نزدیک وزن اور کمیت دو الگ باتیں ہیں۔ آپ جہاں بھی ہوں، آپ کی کمیت ایک ہی رہے گی جبکہ وزن زمین یا کسی دوسرے بڑے اجرامِ فلکی سے قربت یا دوری پر بدلتا جائے گا۔ اگر اگر آپ چاند پر جائیں تو آپ کی کمیت وہی رہے گی لیکن وزن کافی کم ہو جائے گا۔ تاہم زمین پر عام استعمال کے دوران وزن اور کمیت میں زیادہ فرق نہیں ) نکالی جا سکتی تھی۔
چونکہ تجاذب ہی اجرامِ فلکی کو مدار میں متحرک رکھتی ہے اور اسی کی وجہ سے چیزیں زمین پر گرتی ہیں، ہم اسے بہت طاقتور قوت سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں۔ بحیثیتِ مجموعی یہ قوت بہت طاقتور سہی لیکن اجزاء کی سطح پر اس کی شدت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہی کشش سیاروں کو سورج کے گرد گردش کرنے پر مجبور کرتی ہے تو دوسری طرف میز پر پڑی کتاب اٹھانے میں ہمیں کوئی دقت نہیں پیش آتی، حالانکہ ہم اس وقت پوری زمین کی کششِ ثقل پر قابو پا رہے ہوتے ہیں۔ کیونڈش کی کوشش یہ تھی کہ اس انتہائی قلیل مقدار والی کشش کی پیمائش کی جائے۔
نزاکت ہی اصل لفظ ہے۔ جس کمرے میں مشین تھی، اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے تھی۔ کیونڈش نے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر دوربین کی مدد سے دیوار کے سوراخ کے پار مشین کا مطالعہ کیا۔ اس سارے عمل میں 17 مختلف لیکن ایک دوسرے سے منسلک پیمائشیں کرنی تھیں جن پر تقریباً ایک سال لگا۔ تاہم جب تجربہ پورا ہوا تو کیونڈش کے مطابق زمین کی کمیت 6 ارب کھرب مکعب ٹن تھی۔
آج سائنس دانوں کے پاس اتنی جدید مشینیں موجود ہیں کہ وہ ایک بیکٹیریا کا وزن بھی ناپ سکتے ہیں اور ان کی حساسیت اتنی زیادہ ہے کہ 75 فٹ دور جماہی لیتے بندے سے بھی ان کی پیمائش متاثر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس وقت بھی سائنس دان 1797 میں کیونڈش کے بیان کردہ وزن میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کر سکے۔ اس وقت کے اندازے کے مطابق زمین کی کمیت 5.9725 ارب کھرب مکعب ٹن ہے جو کیونڈش کی پیمائش سے ایک فیصد کم ہے۔ مزے کی بات یہ کہ کیونڈش اور موجودہ حساب کتاب، دونوں نے 110 سال قبل نیوٹن کی بتائی ہوئی پیمائش کی تصدیق کی ہے جبکہ نیوٹن نے کسی قسم کا تجربہ بھی نہیں کیا تھا۔
جو بھی ہو، 17ویں صدی کے سائنس دان زمین کی شکل و صورت اور سورج اور دیگر سیاروں سے فاصلے وغیرہ سے بخوبی واقف تھے اور اب کیونڈش نے گھر بیٹھے انہیں زمین کی کمیت بھی بتا دی تھی۔ آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان سب معلومات کے ساتھ سائنس دانوں کو زمین کی عمر کے بارے جاننا کوئی مشکل نہیں لگا ہو گا۔ حقیقت میں انسان نے ایٹم کو توڑا اور ٹیلی ویژن، نائلن اور انسٹنٹ کافی وغیرہ بھی بنا لی تب کہیں جا کر زمین کی عمر معلوم ہوئی۔
اس کی وجوہات کو جاننے کے لیے آئیے سکاٹ لینڈ چلتے ہیں جہاں ایک غیر معروف بندے نے اپنی ذہانت کے بل پر سائنس کی ایک نئی شاخ متعارف کرائی جسے ہم آج ارضیات کے نام سے جانتے ہیں۔
٭٭٭

5 سٹون بریکرز

 

جب ہنری کیونڈش لندن میں زمین کی کمیت کے بارے تجربات میں مصروف تھا تو 400 میل دور اینڈنبرگ میں جیمز ہٹن کی وفات کے ساتھ ہی ایک اور اہم واقعہ رونما ہو رہا تھا۔ اگرچہ یہ موت جیمز ہٹن کے لیے بری خبر تھی لیکن سائنسی دنیا کے لیے اچھی خبر تھی کہ ہٹن کی وفات کے ساتھ جان پلے فیئر کے لیے راستہ ہموار ہو گیا اور وہ ہٹن کے کام کو دوبارہ لکھ سکتا۔
ہٹن انتہائی باریک بین اور خوش گفتار تھا اور وہ سُست رفتار عوامل جو زمین کی شکل و صورت بدلتے تھے، کے بارے اس سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ بدقسمتی سے ہٹن ان تمام معلومات کو آسان زبان میں لکھنے سے یکسر عاری تھا۔ اس کی سوانح حیات لکھنے والے ایک بندے کے مطابق اس کی لکھی ہوئی ہر سطر ایک معمہ ہوتی تھی۔ 1975 میں اس کی شاہکار تصنیف A Theory of the Earth with Proofs and Illustration سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے :
جس زمین پر ہم رہتے ہیں، وہ مادوں سے بنی ہے، تاہم یہ وہ زمین نہیں جو موجودہ دور کی زمین سے قبل ہوتی تھی بلکہ وہ زمین جو موجودہ زمین کی اگلی حالت ہو گی اور اسے ہم تیسری زمین کا نام دیتے ہیں اور یہ وہ زمین ہے جو سطح سمندر سے بلند تھی جبکہ ہماری موجودہ زمین وہ ہے جو اس وقت سمندر کی سطح کے نیچے تھی۔
اس کے باوجود انتہائی ذہانت سے اس نے ارضیات کے علم کی بنیاد رکھی اور زمین سے متعلق ہماری سمجھ بوجھ کو معنی عطا کیے۔
ہٹن 1726 میں خوشحال سکاٹش خاندان میں پیدا ہوا اور ہر قسم کی سہولت اور عیش سے لطف اندوز ہوا۔ اس نے طب کا علم حاصل کیا لیکن زیادہ پسند نہ آیا اور اسے چھوڑ کر کاشتکاری اپنائی اور اپنی جائیداد پر آسانی اور سہولت سے اس مشغلے کو اپنائے رکھا۔ جب کھیت کھلیانوں اور گلہ بانی سے جی بھر گیا تو اس نے 1768 میں ایڈنبرگ کا رُخ کیا اور کوئلے اور کالک سے سال امونیک کی تیاری کا اچھا کاروبار کیا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر سائنسی تجربات بھی جاری رکھے۔ اس دور میں ایڈنبرگ علوم و دانش کا مرکز تھا اور ہٹن نے اس سے ہر ممکن طور پر لطف اٹھایا۔ وہ اویسٹر کلب کا نمایاں رکن بنا اور اپنی شامیں مشہور شخصیات جیسا کہ ماہرِ معاشیات ایڈم سمتھ، کیمیا دان جوزف بلیک اور فلسفی ڈیوڈ ہیوم کے علاوہ کبھی کبھار بنجامن فرینکلن اور جیمز واٹ کے ساتھ گزاریں۔
اس دور کی روایات کے مطابق ہٹن نے ہر ممکن موضوع میں دلچسپی لی جو معدنیات سے تصوف یا روحانیات تک ہر چیز تھی۔ اس نے کیمیائی مرکبات پر تجربات جاری رکھے، کوئلے کی کانکنی کے طریقوں، نہریں بنانا، نمک کی کانوں کی سیر، جینیاتی وراثت، فوسل جمع کرنا اور بارشوں کے متعلق نظریات، فضاء کی ساخت، تحرک کے قوانین وغیرہ پر بھی ہاتھ صاف کیا۔ تاہم اس کی دلچسپی کا اصل محور ارضیات تھی۔
دیگر لوگوں کی مانند اس کے لیے یہ بات معمہ تھی کہ آخر سیپیوں اور دیگر سمندری جانوروں کے فوسل کیسے پہاڑوں کی چوٹیوں سے ملتے ہیں؟ آخر یہ وہاں کیسے پہنچتے ہیں؟ اس بارے دو مختلف آراء تھیں۔ ایک کے خیال میں اس کا جواب سمندروں کی اترتی چڑھتی سطحوں میں پوشیدہ تھی۔ انہیں نیچپونسٹ کہا جاتا تھا۔ ان کے خیال میں عالمگیر سیلابوں کے دوران پہاڑ وغیرہ بھی سب زیرِ آب آ جاتے تھے۔
دوسرے گروہ کو پلوٹونسٹ کہا جاتا ہے اور ان کے خیال میں سمندری سطح کی بجائے آتش فشاں اور زلزلوں کے علاوہ دیگر ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے زمین کی شکل بدلتی رہتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراض اٹھایا کہ جب سیلاب نہیں ہوتے تو یہ پانی کہاں چھپ جاتا ہے؟ مثال کے طور پر اگر اتنا پانی ہے کہ سیلاب سے ایلپس جیسے اونچے پہاڑ ڈوب جاتے ہیں تو پھر بعد میں یہ پانی کہاں چلا جاتا ہے؟ ان کا خیال تھا کہ زمین کے اندر اور اس کی سطح پر بھی مختلف قسم کی قوتیں کام کرتی رہتی ہیں۔ تاہم ان کے پاس بھی اس بات کا کوئی شافی جواب نہیں تھا کہ سمندری جانوروں کے فوسل آخر کیسے اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ جاتے ہیں؟
اس بارے غور و فکر کرتے ہوئے ہٹن کو کئی غیر معمولی خیالات آئے۔ اس نے اپنی اراضی دیکھی تو صاف دکھائی دیا کہ یہ زمین چٹانوں کے کٹنے سے بنی ہے اور اس کی مٹی مسلسل نہروں اور دریاؤں سے بہہ کر کہیں اور چلی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر یہی عمل ساری دنیا میں جاری و ساری رہتا تو اس وقت پوری دنیا ہموار ہو چکی ہوتی جبکہ اس کے آس پاس ہر جگہ پہاڑ بھی موجود تھے۔ اس نے سوچا کہ لازماً کوئی نہ کوئی ایسا عمل ہے جو زمین کی سطح کی تعمیرِ نو کرتا ہے اور پہاڑوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہے اور یوں یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس نے یہ بھی جانا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود بحری جانوروں کے فوسل سیلابوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سمندر کی تہہ میں موجود تھے جو بعد میں اوپر کو اٹھ کر پہاڑ بنی۔ اس نے یہ بھی جانا کہ زمین کے اندر موجود حرارت کی وجہ سے ہی نئی چٹانیں بنتی ہیں اور پہاڑی سلسلے بنتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سائنس دانوں کو یہ نظریات سمجھنے میں لگ بھگ دو سو سال لگ گئے اور پلیٹ ٹیکٹانکس کا نظریہ وجود میں آیا۔ اس کے علاوہ ہٹن کے خیال میں زمین میں اتنی بڑی تبدیلیاں راتوں رات نہیں بلکہ ناقابلِ یقین حد تک طویل عرصے میں ہوئیں۔ ان خیالات کی وجہ سے زمین کے بارے ہمارے نظریات بدلے۔
1785 میں ہٹن نے ان خیالات کو جمع کر کے ایک طویل مقالہ تحریر کیا اور پھر اینڈبرگ کی سوسائٹی کی میٹنگوں میں اسے پیش کرتا رہا۔ تاہم کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اس بے توجہی کی وجہ اس کا طرزِ بیان بھی ہے :
ایک صورت میں تشکیل کی وجہ اس چیز کے اندر ہے جو کہ الگ ہوئی، کیونکہ جب یہ چیز حرارت کی وجہ سے متحرک ہوئی تو یہ اس چیز میں موجود اصل مادے کا ردِ عمل تھا کہ جس کھائی میں یہ بنی، اس کی تشکیل ہوئی۔ دوسری صورت میں یہ وجہ اس چیز کے باہر تھی کہ جس کھائی میں یہ پیدا ہوئی۔ اگرچہ شدید ٹوٹ پھوٹ اور توڑ موڑ ہوتی رہی لیکن اس کی وجہ ابھی تک نامعلوم ہے۔ اور یہ کسی شاخ میں بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ ہر ٹوٹ پھوٹ ایسی نہیں کہ جس میں معدنیات جمع ہو سکیں جیسا کہ عام ملتی ہیں۔
اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ سامعین میں سے کسی کو بھی ہٹن کی بات کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کہنا کیا چاہتا ہے۔ دوستوں نے اس امید پر کہ شاید غلطی سے ہی سہی، اس کا طرزِ بیان کچھ آسان ہو جائے، مشورہ دیا کہ وہ اس نظریے پر مزید کام کرے۔ اس نے اگلے دس سال اس پر کام کرتے گزارے اور 1795 میں اپنی کتاب دو جلدوں میں چھاپی۔
یہ دونوں جلدیں اس کے رجائی دوستوں کی توقعات سے بھی بدتر تھیں کہ اس نے اپنی تصنیف کے نصف حصے میں فرانسیسی اقوال فرانسیسی زبان میں ہی پیش کیے تھے۔ تیسری جلد 1899 میں ہٹن کی وفات کے سو سال بعد جا کر شائع ہوئی۔ چوتھی اور آخری جلد کبھی شائع نہ ہو سکی۔ ہٹن کی کتاب، Theory of Earth سائنس کی دنیا کی اہم ترین مگر سب سے کم پڑھی جانی والی کتب میں سے ایک ہے۔ اگلی صدی کے عظیم ترین ماہرِ ارضیات چارلس لائل نے بھی اعتراف کیا کہ اس کتاب کی اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آئی۔
خوش قسمتی سے ہٹن کا ایک دوست یونیورسٹی آف ایڈنبرگ میں ریاضی کا پروفیسر تھا جو بہت عمدہ نثر نگار تھا۔ ہٹن سے دوستی کی وجہ سے اکثر اسے سمجھ بھی آ جاتی تھی کہ ہٹن کہنا کیا چاہتا ہے۔ ہٹن کی وفات کے 5 سال بعد 1802 میں پلیفیئر نے ہٹن کے اصولوں کو سادہ زبان میں پیش کیا جس کا نام Illustrations of the Huttonian Theory of the Earth تھا۔ اس وقت ارضیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے اس کتاب کو خوشی خوشی وصول کیا تاہم اس وقت ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ تاہم جلد ہی صورتحال بدل گئی۔ کیسے؟
1837 کے موسم سرما میں 13 ہم خیال افراد لندن میں فری میسن کی عمارت میں جمع ہوئے اور ایک کلب کی بنیاد رکھی۔ اس کلب کا نام جیوگرافیکل سوسائٹی رکھا گیا۔ اس کا مقصد ہر ماہ جمع ہو کر ارضیات سے متعلق گفتگو کرنا تھا اور پھر کھانا کھا کر گھر چلے جاتے۔ اس کھانے کی قیمت جان بوجھ کر 15 شلنگ رکھی گئی جو اس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر للو پنجو نہ آئے۔ تاہم جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ اس کلب کو کسی مستقل عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا کہ لوگوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ بمشکل دس سال میں رکنیت 400 سے بھی بڑھ گئی اور سارے کے سارے افراد طبقہ اشرافیہ سے متعلق تھے اور ایسا لگنے لگا کہ یہ کلب شاید رائل سوسائٹی سے بھی آگے نکل جائے۔
نومبر سے جون تک اراکین کے ہر ماہ دو اجلاس ہوتے اور پھر گرمیوں میں سب عملی میدان کا رخ کرتے۔ یاد رہے کہ ان افراد کو معدنیات سے اس لیے دلچسپی نہیں تھی کہ وہ اس سے پیسہ بناتے یا ان کے پاس جغرافیہ کی تعلیم ہوتی تھی، بلکہ یہ ایسے دولت مند افراد تھے جو اسے بطور شوق پیشہ ورانہ مہارت سے اپناتے تھے۔ 1830 تک ان کی تعداد 745 ہو گئی اور آج تک ایسا اجتماع دوبارہ نہ ہو سکا۔
آج تو یہ تصور کرنا بھی محال ہے لیکن اُس صدی میں ارضیات کے علم نے لوگوں کے تصورات پر اس حد تک قبضہ کر لیا تھا کہ اس طرح کی کوئی سائنس دوبارہ ایسا نہ کر سکی۔ 1839 میں جب روڈرک مرچیسن نے The Silurian System چھپوائی جو ایک خاص قسم کی چٹانوں سے متعلق تھی۔ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی اور اس کے چار ایڈیشن چھپے۔ اس کی قیمت 8 گنی تھی اور ہٹن کے انداز میں انتہائی ناقابلِ مطالعہ زبان میں لکھی گئی تھی (مرچیسن کے ایک پرستار نے اقرار کیا کہ اس کتاب میں مکمل طور پر ادبیت کا فقدان ہے )۔ 1841 میں جب چارلس لائل بوسٹن میں لیکچر دینے پہنچا تو اس کے ہر لیکچر کی 3,000 نشستیں فوراً بک جاتی تھیں۔
جدید دنیا میں اور خصوصاً برطانیہ میں مردوں کا محبوب مشغلہ شہر سے باہر نکل کر ‘پتھر توڑنا’ ہوتا تھا۔ ان سب افراد کے سر پر ہیٹ اور کالے لباس ہوتے۔ تاہم آکسفورڈ کا پادری بک لینڈ باقاعدہ تدریسی گاؤن پہن کر یہ کام کرتا تھا۔
اس شعبے میں بے شمار غیر معمولی افراد جمع ہوئے۔ مرچیسن نے اگرچہ تیس سال تک لومڑیوں کا پیچھا اور پرندوں کا شکار جاری رکھا اور اس کی ذہانت دی ٹائمز پڑھنے یا تاش کھیلنے تک محدود تھی۔ تاہم جب اس نے ارضیات کا رخ کیا تو بہت کم عرصے میں سب سے آگے نکل گیا۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر جیمز پارکنسن بھی تھا جو شروع میں سوشلٹ ہونے کے علاوہ اشتعال انگیز پمفلٹ چھاپتا تھا۔ 1794 میں اسے بادشاہ جارج کو ہلاک کرنے کی سازش میں پکڑا گیا کہ جب بادشاہ تھیٹر دیکھنے بیٹھتا تو سازشی لوگ اس وقت گُدی میں زہریلا تیر مارتے۔ پریوی کونسل کے سامنے معاملہ پیش ہوا اور صاف لگ رہا تھا کہ اسے زنجیروں میں جکڑ کر آسٹریلیا بھیج دیا جائے گا لیکن پھر اس کے خلاف تمام الزامات خاموشی سے ختم کر دیئے گئے۔ اس واقعے کے بعد پارکنسن نے اپنی ترجیحات بدل لیں اور ارضیات میں دلچسپی لینے لگا اور جیولاجیکل سوسائٹی کے بانی اراکین میں سے ایک بنا۔ اس نے ارضیات پر ایک اہم کتاب بھی لکھی جس کا نام Organic Remains of a Former World تھا۔ یہ کتاب نصف صدی تک چھپتی رہی۔ اس نے دوبارہ کوئی مشکل نہیں پیدا کی۔ آج ہم اسے پارکنسن نامی بیماری پر کام کے حوالے سے جانتے ہیں جو اس دور میں رعشے کی بیماری کہلاتی تھی (اس کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے کہ شاید وہ دنیا کا واحد انسان ہے جس نے انعام میں ایک نیچرل ہسٹری میوزیم جیتا تھا۔ یہ عجائب گھر سر ایشٹن لیور نے لیسیسٹر سکوائر میں قائم کیا تھا۔ لیور کی عجائبات جمع کرنے کی خواہش نے اس کا دیوالیہ نکال دیا۔ پارکنسن نے 1805 تک اس کی ذمہ داری اٹھائی لیکن پھر جب مزید اخراجات برداشت نہ کر سکا تو اس نے نوادرات بیچ دیئے )۔
ان سب سے زیادہ با اثر چارلس لائل تھا جو ہٹن کی وفات کے سال اور اس سے 70 میل دور پیدا ہوا۔ سکاٹش النسل ہونے کے باوجود اس کی پرورش جنوبی انگلینڈ میں ہوئی کہ اس کی والدہ کے خیال میں سکاٹ لوگ بہت زیادہ شرابی ہوتے ہیں۔ اس دور کے شرفاء سائنس دانوں کی مانند چارلس کا تعلق بھی امیر گھرانے سے تھا اور اسے شاعر دانتے اور کائی پر حرفِ آخر مانا جاتا تھا۔ اپنے باپ کی وجہ سے ہی چارلس کو نیچرل ہسٹری میں دلچسپی ہوئی لیکن آکسفورڈ پہنچ کر اس پر پادری ولیم بک لینڈ کا جادو چل گیا اور پھر لائل کی بقیہ زندگی ارضیات سے متعلق ہو کر رہ گئی۔
بک لینڈ بھی کچھ عجیب سا انسان تھا۔ ایک کامیاب انسان ہونے کے باوجود اس اس کی عجیب عادتوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس کی اصل وجہ شہرت ہر قسم کے جانوروں کو گھر میں کھلا رکھنا اور ہر قسم کے جانور کو کھانا تھا۔ اس کے مہمانوں کے سامنے کبھی گنی پگ، کبھی چوہے، کبھی خارپشت تو کبھی سمندری جانور رکھے جاتے۔ چھچھوندر کے علاوہ ہر جانور میں بک لینڈ کو کوئی نہ کوئی فائدہ دکھائی دیتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اسے کوپرولائٹ یعنی فاسل فضلے پر حرفِ آخر کا درجہ مل گیا اور اس کے گھر ایک میز پر اس کے اپنے مجموعے کو رکھا گیا تھا۔
سنجیدہ نوعیت کے تجربات کے دوران بھی اس کا رویہ عجیب ہوتا۔ ایک بار رات کو اس نے اپنی بیوی کو جھنجھوڑ کر جگایا اور بتایا کہ جس فوسل شدہ نشانات پر وہ کام کر رہا تھا، وہ بالکل ہی کچھوے کے لگتے ہیں۔ میاں بیوی پھر دوڑے دوڑے باورچی خانے گئے جہاں اس کی بیوی نے آٹے کی لئی بنائی اور اپنے پالتو کچھوے کو اس پر چلایا۔ کچھوے سے بننے والے نشانات واقعی انہی نشانات سے مماثل تھے۔ چارلس ڈارون اسے مسخرہ کہتا تھا لیکن چارلس لائل اسے کافی پسند کرتا تھا۔ اسی کے ساتھ 1824 میں چارلس لائل سکاٹ لینڈ کی سیر کو گیا اور پھر اس نے قانون کو چھوڑ کر کل وقتی ارضیات پکڑ لی۔
لائل کی قریب کی نظر بہت کمزور تھی اور انتہائی بھیں گے پن کا شکار تھا (آخرکار اس کی بینائی مکمل طور پر چلی گئی تھی)۔ اس کی ایک اور عجیب عادت یہ تھی کہ جب سوچنے لگتا تو عجیب سی حالت میں کھڑا رہتا یا بیٹھ جاتا۔ مثال کے طور پر دو کرسیوں پر لیٹ جاتا، ایک بار کھڑی حالت میں اس نے کرسی پر سر رکھ دیا۔ کئی بار تو سوچتے سوچتے کرسی سے اتنا پھسل جاتا کہ کولہے زمین کو لگنے والے ہو جاتے۔ زندگی بھر میں لائل کی واحد نوکری 1831 سے 1833 تک کنگز کالج میں ارضیات کے پروفیسر کی تھی۔ اسی دوران اس نے The Principles of Geology لکھی جو ایک طرح سے ایک نسل پہلے والے ہٹن کے خیالات کو جمع کر کے سہل زبان میں پیش کش تھی (اگرچہ لائل نے ہٹن کی اصل کتاب تو نہیں پڑھی تھی لیکن اس نے پلے فیئر کا پیش کردہ خلاصہ بہت دھیان سے پڑھا تھا)۔
ہٹن اور لائل کے درمیان کے عرصے میں ایک نئی ارضیاتی مشکل پیدا ہوئی۔ اکثر لوگ اسے نیپچونیئن-پلوٹونیئن سے جوڑتے ہیں جو کہ غلط فہمی ہے۔ یہ مسئلہ Catastrophism اور uniformitarianism کہلاتا ہے۔ یہ مسئلہ بہت طویل عرصے تک چلتا رہا۔ کیٹاسٹرافسٹ لوگوں کے مطابق زمین کی شکل و صورت بنانے میں شدید نوعیت کے واقعات ذمہ دار ہیں جن میں سیلاب سب سے زیادہ اہم تھے۔ شاید اسی وجہ سے ان دونوں مسائل کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریے کے حمایتی زیادہ تر مذہبی افراد تھے کہ طوفانِ نوح جیسے عالمگیر سیلاب کو اس طرح سائنسی بحث میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یونیفارمیٹیرین کے مطابق زمین پر یہ عمل انتہائی سُستی سے اور بہت طویل عرصے تک ہوتے رہے۔ اگرچہ یہ خیال ہٹن کا تھا لیکن لوگ اسے ہٹن کی بجائے لائل کے نام سے زیادہ جانتے ہیں اور اسی وجہ سے ہٹن کی بجائے لائل کو زیادہ تر بابائے ارضیات مانا جاتا ہے۔
لائل کا خیال تھا کہ زمین پر ہونے والی تبدیلیاں مسلسل اور آہستہ آہستہ تھیں اور ماضی کے ہر واقعے کو حالیہ واقعات کے ساتھ ملا کر سمجھا جا سکتا ہے۔ لائل اور اس کے پیروکاروں نے مخالف نظریے کو رد کرنے کی بجائے اسے غلط ثابت کیا۔ کیٹاسٹرافسٹ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ زمین پر مختلف انواع کی معدومیت اچانک تھی اور ان کے بدلے دوسری انواع ایک دم سے نمودار ہو جاتی تھیں۔ شاید جب کسی سوال کا جواب معلوم نہ ہو تو یہی بہترین جواب ہوتا ہے۔
تاہم لائل کی خامیاں بھی کوئی معمولی نوعیت کی نہیں تھیں۔ وہ یہ بتانے میں ناکام رہا کہ پہاڑی سلسلے کیسے بنتے ہیں اور یہ بھی نہ جان سکا کہ گلیشیئر بھی زمین پر تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ اس نے اگاسز کے برفانی دور کے خیال کو یکسر رد کر دیا۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ قدیم ترین فاسلوں سے بھی ممالیہ جانور مل سکتے ہیں۔ اسے یہ بات سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی کہ اچانک کسی نوع کے تمام تر جاندار معدوم ہو سکتے ہیں۔ اس کے خیال میں جانوروں کے تمام اہم گروہ یعنی ممالیہ، خزندے، مچھلیاں وغیرہ سب کی سب وقت کی ابتداء سے ہی چلی آ رہی ہیں۔ ان سب معاملات میں وہ غلط ثابت ہوا۔
تاہم لائل کے اثر کو یکسر رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ The Principles of Geology کے بارہ ایڈیشن لائل کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ پہلے ایڈیشن کی ایک جلد چارلس ڈارون اپنے بیگل والے بحری سفر پر لے کر گیا تھا اور اس سے بہت متاثر ہوا۔ تاہم 1980 کی دہائی میں لائل کے نظریے کا ایک حصہ رد کرنا پڑا کیونکہ انواع کی معدومیت کے پیچھے شہابِ ثاقب وغیرہ کے زمین سے ٹکراؤ بھی ثابت ہو چکے تھے۔ تاہم اس بارے ہم کسی اور جگہ بات کریں گے۔
اس دوران ارضیات کے لیے بہت سارے ادھورے کام پڑے تھے۔ شروع میں ماہرینِ ارضیات نے چٹانوں کو ان ادوار میں بانٹا جس میں وہ بنی تھیں۔ تاہم اس پر شدید اختلافات عام سی بات تھے۔ سب سے لمبی بحث ‘گریٹ ڈیونیئن’ دور سے متعلق تھی۔ مسئلہ یہ ہوا کہ کیمبرج کے پادری ایڈم سیج ویک نے دعویٰ کیا کہ وہ چٹان کیمبرین دور سے تعلق رکھتی ہے جس کے بارے روڈرک مرچیسن کا خیال تھا کہ یہ سلیورین دور سے ہے۔ یہ بحث کئی سال تک چلتی رہی اور ایک بار تو مرچیسن نے اپنے حریف کو ‘گندا کتا’ کہا۔ اس جھگڑے کا اختتام 1879 میں ہوا جب کیمبرین اور سلیورین ادوار کے بیچ ایک نیا دور اورڈویشین کے نام سے بنایا گیا۔
چونکہ ارضیات کی ابتداء میں برطانوی زیادہ متحرک تھے، اس لیے زیادہ تر نام برطانیہ سے لیے گئے ہیں۔ ڈیونیئن دور انگلستان کے ایک قصبے سے نکلا ہے۔ کیمبرین کا تعلق ویلز کے رومن نام سے جا ملتا ہے۔ اورڈویشین اور سلیورین قدیم ویلش قبائل تھے۔ تاہم جب دنیا بھر سے لوگ ارضیات میں دلچسپی لینے لگے تو غیر برطانوی نام بھی متعارف ہوئے۔ جراسک دور فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر موجود جُرا پہاڑی سلسلے سے نکلا ہے۔ پرمیئن کوہ یورال میں ایک سابقہ روسی قصبے پریم سے نکلا ہے۔ کریٹیشیئس بیلجین ماہرِ ارضیات کی دین ہے۔
ابتداء میں زمین کی تاریخ چار ادوار میں منقسم تھی جو پرائمری، سیکنڈری، ٹرشری اور کواٹرنری تھے۔ تاہم جغرافیہ دانوں کو اتنی سادہ تقسیم پسند نہیں آئی اور مزید تقسیم شروع ہو گئی۔ پرائمری اور سیکنڈری سرے سے بھلا دیئے گئے جبکہ کواٹرنری کو کچھ لوگوں نے رد کیا تو کچھ نے اس کا استعمال جاری رکھا۔ آج ٹرشری دور ہی واحد دور باقی بچا ہے جو ہر جگہ ایک ہی مطلب میں استعمال ہوتا ہے، اگرچہ یہ اصل مطلب سے فرق ہے۔
لائل نے اپنی کتاب میں مزید ادوار متعارف کرائے تھے جن کے نام ڈائنو ساروں کے بعد کے ادوار سے متعلق تھے، مثلاً پلیؤسٹین (جدید ترین)، پلیوسین (نسبتاً جدید)، میوسین (نسبتاً کم جدید) اور مبہم نام اولیگوسین (بہت کم جدید) رکھے۔
آج کے دور میں زمین کی تاریخ کو چار بڑے ادوار یعنی پری کیمبرین، پیلیوزوئک، میسوزوئک اور سینوزوئک کہا جاتا ہے۔ ان چاروں کو مزید دس سے بیس چھوٹے گروہوں میں بانٹا گیا ہے۔ تاہم بعض لوگ انہیں مزید کئی ہزار چھوٹے گروہوں میں بانٹتے ہیں (اگرچہ انہیں یاد رکھنا بہت مشکل ہے تاہم آپ ان چار بڑے ادوار کو سال کے چار موسم اور ہر دور کے اندر مزید ادوار کو مہینوں کے ناموں کی طرح یاد کر لیں )۔
مزید مشکل یہ بھی ہے کہ شمالی امریکہ اور یورپ میں ایک ہی دور کے مختلف نام ہوتے ہیں اور ادوار بھی شاید ایک نہیں ہوتے۔
اس کے علاوہ یہ تمام معلومات مختلف کتابوں اور مختلف اشخاص کی زبانی مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں ماضی قریب میں چار ادوار تھے تو دیگر کے خیال میں سات۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان ادوار کو وقت کے حساب سے بانٹا گیا ہے۔ تاہم چٹانوں اور پتھروں کو الگ الگ نظاموں، سلسلوں اور مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وقت کے اعتبار سے قدیم تر اور جدید تر کے علاوہ پتھر کی اوپری اور نچلی تہہ کو بھی فرق سمجھا جاتا ہے۔
خیر، موجودہ دور میں ہم جدید تکنیک کی مدد سے چٹانوں اور پتھروں کے دور کو جان سکتے ہیں۔ 18ویں صدی میں یہی کام محض اندازوں سے ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کسی چیز کی درست تاریخ معلوم کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے کسی قدیم نمونے کو قدیم تو مانا جاتا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آیا یہ دس ہزار سال پرانا ہے یا دس کروڑ سال پرانا۔
اگرچہ ایسی تکنیک تو نہیں تھی لیکن پھر بھی لوگ اس پر کام کرنے کو تیار تھے۔ چرچ آف آئرلینڈ کے ایک مشہور پادری جیمز اشر نے بائبل اور دیگر مذہبی صحیفوں کے مطالعے کے بعد بتایا کہ زمین 23 اکتوبر 4004 قم میں دوپہر کے وقت پیدا ہوئی۔ اس خیال پر سائنس دان آج بھی سر دھُنتے نظر آتے ہیں (اشر کا تذکرہ تو بہت کتب میں ملتا ہے لیکن تفصیلات پر اتفاق نہیں۔ بعض کتب میں اس خیال کا سال 1650 لکھا ہے تو کسی جگہ 1654 تو کسی جگہ 1664)۔
یہ غلط فہمی عام ہے کہ 18ویں صدی تک کے نظریات پر اشر کا گہرا اثر تھا جسے پھر لائل نے آن کر درست کیا۔ اس بارے ایک اور پادری بک لینڈ نے بتایا کہ مذہبی صحیفوں میں کہیں یہ درج نہیں کہ خدا نے زمین اور آسمان کو پہلے دن میں بنایا تھا بلکہ وہاں یہ تذکرہ ہے کہ شروع میں پیدا کی گئیں۔ اب یہ شروع کروڑوں سال پر محیط عرصہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر شخص یہ تو جانتا تھا کہ زمین بہت قدیم ہے پر اس بارے کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنی قدیم ہے۔
زمین کی عمر کے بارے ایڈمنڈ ہیلی نے 1715 میں تجویز پیش کی کہ اگر ہم سمندر میں موجود نمکیات کی موجودہ مقدار جانچ کر پھر یہ دیکھیں کہ ہر سال کتنا نمک بڑھتا ہے تو پھر ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ سمندر کتنا پرانا ہے اور پھر اس سے زمین کی عمر کا اندازہ لگ سکتا ہے۔ تاہم اس وقت کسی کے پاس سمندر میں نمکیات کی مقدار جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اس لیے یہ خیال بھلا دیا گیا۔
اس بارے پہلا تجربہ ایک فرانسیسی نے کیا تاہم اسے ہم سائنسی تجربہ شاید نہ کہہ سکیں۔ اس کے خیال میں زمین کے اندر جتنا نیچے جائیں گے، اتنا گرمی بڑھتی جائے گی جیسا کہ اکثر کانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے سوچا کہ اگر حرارت کے اخراج کی مقدار کو جان لیں تو کام آسان ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے دھاتی گولوں کو اتنا گرم کیا کہ وہ سفید ہو گئے۔ پھر اس نے انہیں ہلکے سے چھو کر ان کی حرارت کا اندازہ لگایا۔ اس طرح اس نے زمین کی موجودہ عمر کے متعلق اندازہ لگایا کہ یہ 75,000 سے 1,68,000 سال ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اندازہ انتہائی غلط تھا۔ تاہم اس پر اسے مذہبی شخصیات نے مرتد قرار دینے کی دھمکی دی۔ اس نے فوراً اپنے خیالات پر معذرت کر لی۔
18ویں صدی میں بہت سارے پڑھے لکھے لوگ یہ جان گئے تھے کہ زمین لاکھوں سال پرانی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کروڑوں سال پرانی ہو۔ تاہم اس سے زیادہ وہ نہ جان سکے۔ جب 1859 میں چارلس ڈارون نے اپنی کتاب On The Origin of Species میں بتایا کہ ویلڈ کا علاقہ جو جنوبی انگلستان میں کینٹ، سرے اور سسکس پر مشتمل ہے، کو بننے میں 30,62,66,400 سال لگے تو لوگ بہت حیران ہوئے۔ اتنا لمبا اندازہ لوگوں کی عقل سے باہر تھا (ڈارون کو بالکل درست اعداد معلوم کرنے کا جنون تھا۔ ایک بار اس نے گنتی کی کہ اوسطاً برطانیہ کے ہر ایکڑ میں 53,767 کیچوے پائے جاتے ہیں )۔ اس پر اتنی بحث ہوئی کہ تیسرے ایڈیشن سے ڈارون نے اسے ہٹا دیا۔ تاہم مسئلہ پھر بھی باقی رہا۔ ڈارون اور اس جیسے دیگر سائنس دانوں کے خیال میں زمین کو بہت پرانا ہونا چاہئے لیکن وہ اسے ثابت نہ کر سکتے تھے۔
ڈارون اور اس نظریے کی بدقسمتی کہ اس پر لارڈ کیلون کی نظرِ کرم پڑی۔ اس وقت تک کیلون کو لارڈ نہیں بنایا گیا تھا اور وہ 67 سال کی عمر میں اور اپنے کیریئر کے اختتام پر تھا۔ کیلون 18ویں صدی بلکہ ہر صدی کا عجیب ترین انسان تھا۔ جرمن سائنس دان ہرمین ون ہلم ہولٹز کے مطابق کیلون سے زیادہ ذہین انسان اس نے نہیں دیکھا۔
کیلون اپنے دور کا سپر مین تھا۔ اس کی پیدائش 1824 میں بلفاسٹ میں ہوئی۔ کیلون کا باپ رائل اکیڈیمیکل انسٹی ٹیوٹ میں ریاضی کا پروفیسر تھا۔ کیلون کی پیدائش کے بعد یہ لوگ گلاسگو منتقل ہو گئے۔ وہاں کیلون نے اتنی ذہانت دکھائی کہ محض دس سال کی عمر اسے گلاسگو یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جب وہ بیس سال سے کچھ زیادہ ہوا تو اس نے لندن اور پیرس سے تعلیم حاصل کی اور کیمبرج سے تعلیم مکمل کی۔ اس نے کیمبرج سے کشتی رانی اور ریاضی میں اعلیٰ وظیفے بھی پائے۔ اس کے علاوہ اسے پیٹر ہاؤس کا رکن بھی بنایا گیا۔ اس نے ریاضی پر درجن بھر مقالے لکھے جو اتنے عمدہ تھے کہ اپنے بڑوں کو ناراض نہ کرنے کے خیال اس نے فرضی نام سے چھپوائے۔ پھر گلاسگو لوٹ کر اس نے نیچرل فلاسفی کے شعبے میں پروفیسر شپ قبول کی اور اس عہدے پر اگلے 53 سال تک کام کرتا رہا۔
87 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوا لیکن اس سے قبل وہ 661 مقالے اور 69 پیٹنٹ کرا چکا تھا اور اس وجہ سے اس کی دولتمندی میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ اس نے سائنس کی تقریباً ہر معلوم شاخ میں اپنا لوہا منوایا۔
اس کے بتائے ہوئے اشاروں کی مدد سے ریفریجریٹر کی ایجاد ممکن ہوئی۔ مطلق درجہ حرارت کا پیمانہ اس نے بتایا جو آج بھی اس کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے ایسی مشینیں بنائی جو بحرِ اوقیانوس کے پار تار کے سگنل بھیج سکتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس نے جہاز رانی اور بحری رہنمائی کی خاطر بہت سارے کام کیے۔ اس نے پہلا گہرائی ماپنے والا آلہ بنایا۔ یہ سب اس کے عملی کام تھے۔
نظریاتی سطح پر اس نے برقناطیسیت، حرحرکی یعنی تھرمو ڈائنامکس اور روشنی کے موجی نظریے پر کام کیا (اس نے تھرموڈائنامکس کے دوسرے قانون کی وضاحت کی تاہم ان کی تفصیل پر الگ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ تھرموڈائنامکس کے 4 قوانین ہیں جن میں سے تیسرا قانون نمبر دو کے نام سے مشہور ہے اور سب سے پہلے دریافت ہوا۔ پہلا اور صفر قانون بعد میں دریافت ہوئے۔ پہلا قانون دوسرا ہے اور تیسرا شاید الگ سے قانون ہی نہ ہو۔ دوسرا قانون یہ بتاتا ہے کہ توانائی کی معمولی سی مقدار ہمیشہ ضائع ہوتی رہتی ہے۔ آپ کوئی بھی ایسی مشین نہیں بنا سکتے جو مستقل توانائی کی ایک ہی مقدار پر چلتی رہے۔ ایسی ہر مشین ہر بار چلنے پر توانائی کا کچھ نہ کچھ ضیاع کرتی رہے گی اور ایک وقت آئے گا کہ توانائی ختم ہو جائے گی۔ پہلے قانون کے مطابق توانائی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ تیسرے کے مطابق آپ کبھی بھی مطلق صفر درجہ حرارت تک نہیں پہنچ سکتے۔ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ حرارت پھر بھی باقی رہ جائے گی۔ ایک اور سائنس دان کے الفاظ میں اول تو یہ کہ آپ کبھی جیت نہیں سکتے، دوم آپ کبھی برابر نہیں ہو سکتے اور تیسرا یہ کہ آپ کھیل ختم بھی نہیں کر سکتے )۔ اس کی ایک ہی خامی تھی کہ اس سے زمین کی عمر نہیں ناپی گئی۔ تاہم یہ سوال اس کی زندگی کے کافی بڑے عرصے تک اسے تنگ کرتا رہا تاہم اسے کامیابی نہ ہوئی۔ 1862 میں اس کے پہلے اندازے کے مطابق زمین کی عمر تقریباً 10 کروڑ سال تھی۔ تاہم اس نے یہ بھی کہا کہ کم از کم 2 کروڑ اور زیادہ سے زیادہ 40 کروڑ سال بھی ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بات بھی واضح کر دی کہ بعض ان دیکھے عوامل کی وجہ سے اس کا اندازہ سو فیصد درست شاید نہ ہو۔
وقت کے ساتھ ساتھ کیلون کی درستگی کم ہوتی گئی اور خوش فہمی بڑھتی گئی۔ اس نے اپنے اندازے میں زیادہ سے زیادہ 40 کروڑ سال کو کم کر کے 10 کروڑ سال کر دیا جو بعد میں 5 کروڑ اور پھر 1897 میں محض اڑھائی کروڑ سال رہ گیا۔ اس میں کیلون کا قصور اتنا نہیں تھا کہ اس وقت کی طبعیات میں ایسا کوئی امکان دکھائی نہ دیتا تھا کہ سورج جتنا بڑا ستارہ کروڑوں سال تک اپنا ایندھن جلانے کے باوجود روشن رہ سکے۔ نتیجتاً اس نے فیصلہ سنایا کہ سورج اور سیارے نسبتاً کم عمر ہونے چاہئیں۔
مسئلہ صرف اتنا تھا کہ فوسل شواہد اس کے برعکس بتاتے تھے اور 18ویں صدی میں فوسلوں بہت بڑی مقدار میں دریافت ہونے لگ گئے تھے۔
٭٭٭

6 سائنس ریڈ ان ٹوتھ اینڈ کلاء
1787 میں نیو جرسی میں کسی کو ایک نہر کے کنارے سے بہت بڑی ہڈی جھانکتی ہوئی ملی۔ اس جگہ کو وڈبری کریک کہا جاتا ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ اس ہڈی کا موجودہ دور کے کسی جاندار سے تعلق نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو وہ جانور نیوجرسی میں نہیں پایا جاتا۔ اندازہ لگایا گیا کہ یہ ہڈی بطخ کی چونچ والے ڈائنوسار کی ہو گی جو ہارڈوسار کہلاتا تھا۔ اس وقت تک ڈائنوسار کو کوئی نہیں جانتا تھا۔
یہ ہڈی ملک میں علم الابدان کے ماہر ترین فرد ڈاکٹر کیسپر وسٹر کو بھیجی گئی جس نے اس کے بارے امریکن فلاسفیکل سوسائیٹی کی فلاڈلفیا میں ہونے والی موسمِ خزاں کی میٹنگ میں بات کی۔ بدقسمتی سے وسٹر اس ہڈی کی اہمیت جاننے سے قاصر رہا اور اس نے گول مول الفاظ میں اس پر بات کی۔ اس طرح اس نے دیگر افراد سے پچاس سال قبل ڈائنوسار کی دریافت کا سنہری موقع گنوا دیا۔ اس ہڈی کو اس نے اپنے سٹور روم میں رکھوا دیا جہاں سے وہ کچھ عرصے بعد غائب ہو گئی۔ یعنی ڈائنوسار کی ملنے والی پہلی ہڈی ہی گم ہونے والی پہلی ہڈی بن گئی۔
اس ہڈی کے بارے زیادہ تحقیق نہ ہونا عجیب امر ہے کہ اس دور میں امریکی سائنس دانوں میں قدیم اور دیو ہیکل جانوروں کے بارے جاننے کا جنون پیدا ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بفن نے جب گرم کُّروں کی مدد سے زمین کی عمر معلوم کی تو اس نے یہ بھی بتایا کہ قدیم دنیا کے جانور جدید دنیا کے جانوروں سے کہیں بڑے ہوتے تھے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ امریکی سرزمین پر دلدلیں موجود ہیں اور ان سے اٹھنے والے زہریلے بخارات اور بغیر سورج کے جنگلات اتنے ناکارہ تھے کہ وہاں رہنے والے انسان بھی داڑھی یا جسمانی بالوں سے محروم تھے۔ ان کی عورتوں کے جنسی اعضاء بھی چھوٹے تھے۔
بفن کے نظریات کی تائید دیگر افراد نے بھی کی حالانکہ ان میں سے کوئی بھی امریکہ نہیں گیا تھا۔ ایک ڈچ سائنس دان نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ امریکی انڈین مرد اتنے ناکارہ ہیں کہ ان کی چھاتیوں سے دودھ بہتا ہے۔ یہی نظریات 18ویں صدی تک یورپ کی تحقیقات میں بار بار دہرائے جاتے رہے۔
امریکہ میں ان نظریات پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ تھامس جیفرسن نے انتہائی تلخ انداز میں Notes on the State of Virginia میں ان کی پر زور تردید کی اور اپنے 20 فوجی بھیجے جو جنگل سے نر مُوز کو پکڑ کر لائیں تاکہ دنیا پر ثابت کیا جا سکے کہ امریکی سرزمین زرخیز اور طاقتور ہے۔ مطلوبہ جانور تلاش کرنے میں دو ہفتے لگے اور جب اسے شکار کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے سینگ بھی نہیں تھے۔ جیفرسن کے دوست جنرل سلیوان نے مشورہ دیا کہ اس پر ایلک یا بارہ سنگھے کے سینگ لگا کر بھیج دیتے ہیں۔ آخر فرانس والوں کو کیا پتہ چلنا ہے؟
اسی دوران فلاڈیلفیا میں ایک بہت بڑے جانور کی ہڈیاں جمع کی جا رہی تھیں جسے پہلے تو ‘عظیم امریکی نامعلوم جانور’ اور پھر بعد ازاں میمتھ کہا گیا۔ جلد ہی یہ ہڈیاں جگہ جگہ سے ملنے لگ گئیں۔ ایسا لگنے لگا کہ امریکی سرزمین در حقیقت کسی دور میں انتہائی عظیم الجثہ مخلوقات کی سرزمین تھی اور یہ تمام ہڈیاں بفن کی احمقانہ تصانیف کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کافی تھیں۔
تاہم جوش کے مارے امریکیوں نے اس جانور کے بارے قدرے مبالغے سے کام لیا اور اس کی اونچائی اصل سے چھ گنا بڑھا کر بیان کی اور پاس ملنے والے ایک بہت بڑے سلاتھ کے جبڑے کو بھی اس سے ملا دیا۔ انہوں نے یہ مبالغہ بھی کیا کہ یہ جانور شیر کی طرح خطرناک اور سفاک تھا اور تصویروں میں اسے پتھروں کے اوپر سے اپنے شکار پر چھلانگ لگاتا دکھایا گیا۔ جب اس کے دانت ملے تو انہیں عجیب عجیب طرح سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ ایک ماہر نے تو ان دانتوں کو الٹا لگا دیا جس سے اس جانور کی دہشت بڑھ گئی۔ دوسرے ماہر نے دانت الٹے اور گھما کر لگائے کہ یہ جانور شاید آبی ہو اور آرام کرنے کے لیے درختوں سے لٹک جاتا ہو۔ واحد خامی یہ تھی کہ یہ جانور معدوم ہو چکا تھا اور بفن نے فوراً اسی طرف اشارہ کیا کہ یہی امریکی سرزمین کے ناکارہ ہونے کا ثبوت ہے۔
بفن تو 1788میں مر گیا لیکن اس کا فساد جاری رہا۔ 1795 میں ان ہڈیوں کا کچھ حصہ پیرس بھیجا گیا جہاں اس وقت کے ابھرتے ہوئے ماہر نے ان کا معائنہ کیا۔ یہ ماہر جارجس کوئیر تھا۔ کویئر پہلے ہی بے ہنگم ہڈیوں کو ترتیب دے کر جانور بنانے میں ماہر بن چکا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ ایک دانت کی مدد سے کویئر کسی بھی جانور کے خد و خال اور اس کی عادات پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس جانور کی نوع اور جینس بھی بتا دیتا۔ جب اس نے دیکھا کہ امریکہ میں کسی نے بھی اس جانور کے بارے تعارف نہیں لکھا تو اس نے تعارفی مقالہ لکھا جس کی وجہ سے اسے باقاعدہ دریافت کنندہ کا درجہ مل گیا۔ کویئر نے اسے ماسٹوڈون کہا۔
بفن کے پیدا کردہ مسئلے سے متاثر ہو کر کویئر نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام Note on the Species of Living and Fossil Elephants تھا۔ اس نے پہلی بار باقاعدہ طور سے معدومیت کا نظریہ متعارف کرایا۔ اس کا نظریہ تھا کہ وقفے وقفے سے زمین پر ایسی آفتیں آتی رہتی ہیں جن میں مختلف جانوروں کے گروہ مٹ جاتے ہیں۔ مذہبی لوگوں بشمول کویئر کے، نے اسے مسئلہ سمجھا کہ بغیر کسی وجہ کے خدا ایسا کیوں کرتا۔ آخر خدا ایسے جانور پیدا ہی کیوں کرتا جو اس نے خود ہی مار دینے ہوں؟ یہ نظریہ اس بیان کے عین مخالف تھا کہ خدا نے کائنات کی ہر چیز کی خاص مقصد کے لیے بنائی ہے اور ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ جیفرسن بھی یہی کہتا تھا کہ پوری کی پوری کے تمام تر جانور ایک ساتھ نہیں مر سکتے۔ اس لیے جب اسے سیاسی اور سائنسی حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ دریائے مسی سیپی کے پار ایک سائنسی مہم بھیجی جائے جو اس موضوع پر تحقیق کرے تو اس نے فوراً حامی بھر لی۔ اس نے شاید سوچا ہو گا کہ عظیم الجثہ جانور آج بھی ہرے بھرے میدانوں میں گھاس چرتے مل جائیں گے۔ جیفرسن کا معتمدِ خاص اور سیکریٹری اس مہم کا نائب سربراہ بنا جبکہ ولیم کلارک کو سربراہی ملی۔ کسپر وسٹر کے ذمے یہ تھا کہ کن جانوروں پر کام کرنا ہے۔
اسی سال اور اسی ماہ جب کویئر نے یہ نظریہ پیش کیا، انگلش چینل کی دوسری جانب ولیم سمتھ نے ایک اور کام کیا۔ پیشے کے اعتبار سے ولیم کا کام سومرسیٹ کول کینال کی تعمیر کی نگرانی تھی اور یہیں اسے وہ خیال آیا جس سے وہ مشہور ہوا۔ 5 جنوری 1796 کو جب وہ ایک سرائے میں بیٹھا تو اس نے سوچا کہ فوسل سے چٹانوں کی عمر کے بارے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اس نے سوچا کہ جب چٹانوں کی تہہ بدلتی ہے تو اس پر موجود فوسل نیچے دب جاتے ہوں گے اور اس کے اوپر نئی تہہ اور نئے فوسل جمع ہوں گے۔ اس لیے ہر تہہ میں موجود جانوروں کے فوسل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سی چٹان کتنی پرانی ہے۔ اس طرح آپ ایک ہی قسم کی چٹانوں کی عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں، چاہے وہ کہیں بھی پائی جاتی ہوں۔ اپنے علم کی مدد سے اس نے برطانیہ کے چٹانی طبقات کا نقشہ بنانا شروع کر دیا جو بہت عمیق معائنے کے بعد اس نے 1815 میں چھپوایا اور جدید ارضیات کا اہم سنگِ میل بن گیا۔
بدقسمتی سے سمتھ کی دلچسپی چٹانوں تک ہی محدود تھی اور اس نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی کہ یہ چٹانیں اس طرح بنتی ہی کیوں ہیں۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے ان طبقات پر توجہ دی اور ان کی ساخت کے بارے سوالات بھلا دیئے کہ وہ اس کے شعبے سے متعلق نہیں تھے۔
سمتھ کے نقشے سے مسائل اور بڑھ گئے۔ اس نے یہ بات ثابت کی کہ خدا نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار مختلف انواع کے جانوروں کو اجتماعی طور پر مارا ہے جس سے خدا کا لاپرواہی سے زیادہ سفاک ہونے کا پہلو سامنے آتا تھا۔ اس بات کی وضاحت بھی اب لازم ہو گئی کہ بعض انواع تو معدوم ہوئیں لیکن دیگر کیسے اور کیوں بچ گئیں؟ اس نے سوچا کہ معدوم ہونے کے پیچھے طوفانِ نوح کے علاوہ بھی وجوہات ہونی چاہئیں۔ کویئر نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ طوفانِ نوح انواع کی آخری معدومیت سے متعلق تھا۔ خدا حضرت موسیٰ کو اس سے قبل کی تباہیوں سے آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہو گا۔
18ویں صدی کے اوائل سے ہی لوگ فوسلوں پر توجہ دینے لگے اور اسی وجہ سے وسٹر کی ناکامی کا سبب محض بدقسمتی ہی ہو سکتا ہے کہ اس نے ڈائنوسار کے فوسل پر توجہ نہیں دی۔ وجہ چاہے جو بھی ہو، جگہ جگہ سے فوسل ملنا شروع ہو گئے تھے۔ کئی مواقع پر امریکیوں کو ڈائنوسار کی دریافت کا سہرہ اپنے سر باندھنے کا موقع ملا لیکن تمام مواقع ضائع ہوئے۔ 1806 میں لیوس اور کلارک کی مہم ہل کریک فارمیشن سے گزری جو مونٹانا میں واقع ہے۔ اس جگہ ماہرین ڈائنوسار کی ہڈیوں سے ٹھوکریں کھاتے پھرتے تھے۔ ایک جگہ انہوں نے ڈائنوسار کی بہت بڑی ہڈی چٹان میں پھنسی دیکھی اور اس کا معائنہ بھی کیا لیکن پھر اسے وہیں چھوڑ گئے۔ دریائے کنکٹی کٹ سے بھی ڈائنو سار کے فوسل اور ہڈیاں ملیں مگر بے سود۔ ایک ڈائنوسار کی 1818 میں ملنے والی ہڈیوں کو محفوظ کر کے رکھا گیا اور 1855 میں ان کی شناخت ہوئی۔ 1818 میں کیسپر وسٹر کی وفات ہوئی لیکن ایک ماہرِ نباتات نے اس کے نام پر ایک بیل کا نام رکھا جو آج تک چلا آ رہا ہے۔
اس وقت تک یہ رجحان انگلستان منتقل ہو گیا تھا۔ 1812 میں لائم رجس میں میری ایننگ نامی گیارہ بارہ سالہ بچی نے 17 فٹ طویل ایک سمندری مخلوق کا ڈھانچہ تلاش کیا جو رودبارِ انگلستان کے ایک کنارے کی چٹانوں سے نکلا ہوا تھا۔
یہیں سے ایننگ کا کیریئر شروع ہوا۔ اگلے 35 سال اس نے فوسل جمع کرنے میں گزارے جو وہ سیاحوں کو بیچتی تھی (اسی سے مشہور انگریزی مشکل محاورہ شروع ہوا She sells sea shells on seashore)۔ اس نے ایک اور عظیم الجثہ بحری جانور کا ڈھانچہ تلاش کیا اور پہلے اور بہترین ٹیروڈکٹائل کی دریافت بھی اسی کے سر ہے۔ اگرچہ ان میں سے کوئی بھی تکنیکی اعتبار سے ڈائنوسار نہیں تھا لیکن اس وقت کے لوگ ڈائنوسار کے نام سے ویسے بھی ناواقف تھے۔ اصل یہ بات اہم ہے کہ ہماری زمین پر کبھی اتنے عظیم الجثہ جانور آباد تھے جن کو ہم اب دریافت کرنا شروع ہوئے ہیں۔
ایننگ نہ صرف فوسل تلاش کرنے کی ماہر تھی بلکہ انہیں نکالنے کی مہارت میں بھی بے نظیر تھی۔ لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں قدیم سمندری خزندوں کے فوسل کے سیکشن میں جا کر دیکھئے کہ اس لڑکی نے کتنے بنیادی اوزاروں سے کس قدر محنت کے ساتھ ایسے فوسل نکالے۔ پلیسیوسار نکالنے پر اسے 10 سال تک محنت کرنا پڑی۔ اگرچہ اس نے باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی تھی لیکن پھر بھی وہ عالموں کے لیے بہترین خاکے تیار کر دیتی تھی۔ اگرچہ اس نے بہت محنت کی لیکن اہم دریافتیں کم ہی ہوئیں اور اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ اس نے غربت میں گزارا۔
اگرچہ میری ایننگ سے زیادہ نظرانداز ہونے والا انسان ڈھونڈنا بہت مشکل لگتا ہے لیکن ایسا فرد سسکس کا ایک دیہاتی ڈاکٹر گڈون الجیرنون مینٹل تھا۔
مینٹل میں اگرچہ بہت ساری خامیاں تھیں کہ وہ بے فائدہ، لا پرواہ، خودغرض، خاندان پر توجہ نہ دینے والا وغیرہ وغیرہ تھا لیکن اس سے بہتر شوقیہ ماہر متحجرات نہیں ہے۔ اس کی بیوی بہت فرمانبردار تھی۔ 1822 میں جب ڈاکٹر ایک مریض کو دیکھنے گیا تو اس کی بیوی گھر سے سیر کو نکلی۔ ساتھ ہی سڑک کے گڑھے بھرنے کے لیے پتھر ڈالے گئے تھے جہاں اسے اخروٹ کے برابر ایک گول بھورا پتھر دکھائی دیا۔ چونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے شوہر کو فوسل پسند ہیں تو اس نے وہ پتھر اٹھا لیا۔ مینٹل نے ایک نظر ڈالتے ہی پہچان لیا کہ یہ کسی سبزی خور گزندے کا دانت ہے جو دسیوں فٹ بڑا ہو گا اور یہ بھی کہ اس کا تعلق کریٹیشئس دور سے ہے۔ اس کے یہ تمام اندازے درست تھے لیکن اس وقت کسی کو بھی اس پر یقین نہ آیا کہ اتنی پرانی دریافت پہلی بار ہو رہی تھی۔
چونکہ اس دریافت سے ماضی کے بارے بیش قیمت معلومات مل سکتی تھیں، اس لیے پادری ولیم بک لینڈ نے اسے احتیاط کا مشورہ دیا۔ مینٹل نے تین سال تک انتہائی احتیاط سے تحقیق جاری رکھی۔ اس نے یہ دانت کوئیر کو پیرس بھیجا جس نے خیال ظاہر کیا کہ یہ دانت کسی دریائی گھوڑے کا ہے (بعد میں کوئیر نے اپنی غلطی پر معذرت کر لی تھی)۔ ایک بار لندن کے ایک عجائب گھر میں ایک ماہر سے گفتگو کرتے ہوئے اسے پتہ چلا کہ یہ ماہر جس جانور کے فوسل پر کام کر رہا ہے، یہ دانت اسی کا لگتا ہے۔ یہ جانور جنوبی امریکہ کی اگوانا تھی۔ انہوں نے فوراً ملایا تو بات درست نکلی۔ مینٹل کی یہ دریافت اگوانوڈن کہلائی۔
مینٹل نے فوراً اس پر مقالہ تیار کر کے رائل سوسائٹی کے سامنے پیش کیا۔ بدقسمتی سے کچھ عرصہ قبل اسی طرح کا ایک ڈائنوسار دریافت ہو چکا تھا۔ شومیِ قسمت وہ ڈائنوسار اسی بک لینڈ نے دریافت کیا تھا جس نے اسے تین سال تک صبر کی تلقین کی تھی۔ بک لینڈ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ دانت عام چھپکلیوں کی طرح جبڑے میں گڑا نہیں ہوتا تھا بلکہ مگرمچھوں کی طرح جبڑے میں بنی جگہ پر رہتا تھا۔ بک لینڈ یہ اندازہ تو نہ کر سکا کہ یہ بالکل ہی نئی قسم کا جانور تھا لیکن پھر بھی ڈائنوسار کی دریافت اسی سے منسوب کی جاتی ہے حالانکہ اصل سہرہ مینٹل کے سر بندھنا چاہیے تھا۔
اس بات سے بے خبر ہوتے ہوئے کہ مایوسی اس کے مستقبل کا گہرا حصہ بن چکی ہے، اس نے فوسلز کی تلاش جاری رکھی۔ 1833 میں اس نے ایک نیا ڈائنوسار دریافت کیا اور اس نے دیگر افراد سے فوسلز کی خریداری جاری رکھی۔ کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ میں اس سے زیادہ فوسل کسی کے پاس نہیں ہوں گے۔ اگرچہ مینٹل بہترین ڈاکٹر اور فوسل جمع کرنے والا تھا لیکن وہ دونوں کے ساتھ انصاف نہ کر پایا۔ جوں جوں فوسل جمع کرنے کا جنون بڑھتا گیا، ڈاکٹری پر اس کی توجہ کم ہوتی گئی۔ جلد ہی فوسلوں سے اس کا گھر بھر گیا اور آمدنی کا زیادہ تر حصہ فوسلوں کی خریداری پر صرف ہونے لگا۔ بقیہ آمدنی کا بڑا حصہ بھی انہی فوسلز پر کتب لکھنے اور انہیں چھپوانے پر خرچ ہونے لگا جن کے خریدار نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس کی کتاب Illustrations of the Geology of Sussex کی کل 50 جلدیں بکیں جبکہ خرچہ 300 پاؤنڈ ہوا جو اس وقت کے مطابق بہت بڑا نقصان تھا۔
مایوسی کے عالم میں اس نے اپنے گھر کو فوسلوں کا عجائب گھر بنانے کا سوچا۔ اس نے داخلہ فیس لینا شروع کی لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا کہ اس طرح اس کی شرافت اور سائنس دان ہونے پر دھبہ لگ جائے گا۔ اس نے داخلہ مفت کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آتے رہے اور اس کی گھریلو زندگی اور اس کی ڈاکٹری، دونوں ہی تباہ ہو کر رہ گئے۔ آخرکار اس نے قرضوں کی ادائیگی کی خاطر زیادہ تر فوسل بیج دیئے۔ جلد ہی اس کی بیوی چاروں بچوں سمیت اسے چھوڑ گئی۔
بدقسمتی سے یہ اس کی مشکلات کی ابتداء تھی۔
جنوبی لندن کے علاقے سڈن ہیم میں ایک جگہ کرسٹل پیلیس پارک کے نام سے مشہور ہے جہاں کبھی لوگ سیر کرنے جاتے تھے۔ اس جگہ کو دنیا پہلا تھیم پارک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس جگہ ڈائنوساروں کے دیو ہیکل مجسمے لگے ہوئے تھے۔
تاہم ان ماڈلوں میں بہت ساری غلطیاں بھی ہیں۔ اگوانوڈون کا انگوٹھا اس کے ناک پر لگایا گیا تھا اور اسے چاروں ٹانگوں پر کھڑا دکھایا جاتا تھا جبکہ وہ دو پایہ تھا۔ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا لیکن ڈائنوساروں پر نیچرل ہسٹری کی تاریخ کا سب بڑا اور سب سے نفرت انگیز مسئلہ پیدا ہوا۔
ڈائنوساروں کے ان مجسموں کو بنانے کے دوران سڈن ہیم کو کرسٹل پیلیس کی مشہور عمارت کو بنانے کے لیے چنا گیا کہ یہ بہت وسیع و عریض جگہ تھی۔ لوہے اور شیشے سے بنی یہ عمارت 1851 کی عظیم نمائش کا مرکز بننی تھی۔ اس پارک کا نام اسی سے موسوم ہے۔ ڈائنوسار کنکریٹ سے بنے اور اس سے پارک کی دلچسپی بڑھ گئی۔ 1853 کو سالِ نو کی تقریبات کے لیے 21 مشہور سائنس دانوں کو کھانے پر زیرِ تعمیر اگوانوڈون کے اندر مدعو کیا گیا۔ گڈون مینٹل، جس نے اس اگوانوڈون کو دریافت کر کے پہچانا تھا، کو نہیں بلایا گیا۔ کھانے کی صدارت اس وقت کی پیلنٹالوجی کے ابھرتے ستارے رچرڈ اوون کے پاس تھی اور اس شخص نے کئی برس سے گڈون مینٹل کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا تھا۔
اوون شمالی انگلینڈ میں لنکاسٹر میں پلا بڑھا اور اس نے ڈاکٹری کی تعلیم پائی۔ وہ پیدائشی ماہرِ علم الا ابدان تھا اور اس نے اپنی تعلیم کے دوران بعض اوقات غیر قانونی طور پر انسانی اعضاء بھی ‘ادھار’ لیتا اور انہیں گھر لا کر آرام سے ان کی چیر پھاڑ کرتا تھا۔ ایک بار اس نے ایک حبشی ملاح کی لاش کا سر اتارا اور تھیلے میں ڈال کر گھر کو روانہ ہوا۔ راستے میں اس کا پیر پھسلا اور تھیلے سے سر نکل کر لڑھکتا ہوا سامنے ایک گھر کے کھلے دروازے کے اندر جا گھسا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ گھر کے مکینوں نے کیا سوچا ہو گا جب پہلے ایک حبشی کا کٹا ہوا سر لڑھک کر اندر آیا اور پھر اس کے پیچھے پیچھے ایک نوجوان بوکھلائے ہوئے انداز میں گھس کر بغیر کچھ کہے اس سر کو اٹھا کر بھاگ گیا۔
1825 میں 21 سال کی عمر میں اوون لندن منتقل ہوا اور جلد ہی رائل کالج آف سرجنز کے لیے جمع شدہ طبی عجائبات کو ترتیب دینے کے کام میں لگ گیا۔ یہ عجائبات زیادہ تر جان ہنٹر کے تھے جو اپنے دور کا مانا ہوا سرجن تھا اور اس نے ایسے عجائبات کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا۔ تاہم اسے ترتیب دینا ایک مسئلہ تھا کہ ہنٹر کے مرتے ہی ان عجائبات سے متعلق کاغذات کہیں کھو گئے تھے۔
اوون نے جلد ہی ہڈیوں کو ترتیب دینے اور ان سے نتائج نکالنے میں ایسی مہارت دکھائی کہ اس کا مقابلہ پیرس کے کویئر سے کیا جانے لگا۔ لندن کے چڑیا گھر کے مرنے والے جانور اس کے گھر معائنے کے لیے بھیجے جانے لگے۔ ایک بار اس کی بیوی گھر آئی تو دیکھا کہ سامنے ہی ایک گینڈے کی لاش پڑی تھی۔ جلد ہی اسے ہر قسم کے زندہ یا مردہ جانوروں پر حرفِ آخر مانا جانے لگا۔ بواریہ میں آرکیوٹیرکس کی دریافت کے بعد اوون نے ہی اس کا مطالعہ کر کے اس پر مقالہ لکھا۔ اسی نے سب سے پہلے ڈوڈو پر نوحہ لکھا۔ مل ملا کر اس نے 600 سے زیادہ مقالے علم الابدان پر لکھے۔
تاہم اوون کو ڈائنوساروں پر تحقیق سے جانا جاتا ہے۔ اسی نے پہلی بار 1841 میں ڈائنوساریا کی اصطلاح متعارف کرائی جس کا مطلب ‘بری چھپکلی’ ہے۔ ڈائنوسار حالانکہ برے ہرگز نہیں تھے اور نہ ہی چھپکلیاں۔ چھپکلیاں در حقیقت ڈائنوساروں سے کم از کم 3 کروڑ سال زیادہ پرانی ہیں۔ اوون کو بخوبی علم تھا کہ ڈائنوسار خزندے ہیں اور اس کے لیے یونانی لفظ ‘ہرپیٹون’ موجود تھا لیکن اوون نے اسے نہیں استعمال کیا۔ ایک اور غلطی بھی اوون سے یہ ہوئی کہ اس نے ڈائنوساروں کو ایک آرڈر میں شمار کیا جبکہ وہ دو آرڈروں میں تھے جن میں سے ایک اڑے والے اور دوسرے چلنے والے تھے۔
اوون کسی طور بھی پُر کشش نہیں تھا، نہ ظاہراً اور نہ ہی قوتِ برداشت کے حوالے سے۔ اس کی ایک تصویر دیکھیں تو اس کی اُبلی ہوئی آنکھیں، لمبے بال اور ڈھانچہ نما جسم دیکھ کر بچے بہ آسانی ڈر سکتے ہیں۔ یہ واحد انسان ہے جس سے چارلس ڈارون نفرت کرتا تھا۔ اوون کے بیٹے، جس نے بعد میں خودکشی کی، اپنے باپ کو قابلِ ملامت اور سرد مہر کہا کرتا تھا۔
اس کی علم الابدان کی مہارت اس کی بدعنوانیوں پر پردہ ڈال دیتی تھی۔ 1857 میں ٹی ایچ ہکسلے چرچل کی میڈیکل ڈکشنری کے ورق گردانی کر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اوون کا نام گورنمنٹ سکول آف مائنز میں پروفیسر آف کمپیریٹو اناٹومی اینڈ فزیالوجی کے طور پر درج تھا جبکہ یہ عہدہ ہکسلے کو ملا ہوا تھا۔ جب ہکسلے نے چرچل سے پوچھا کہ ایسی فاش غلطی کیوں کر ہوئی تو جواب ملا کہ ڈاکٹر اوون نے یہ معلومات خود دی تھیں۔ اوون کے ہم عصر ہف فالکنر نے ایک بار اپنی ایک دریافت دیکھی جو اوون اپنے نام سے منسوب کر رہا تھا۔ کئی افراد نے الزام لگائے کہ اوون نے ان سے کئی عجائبات ادھار مانگے اور پھر واپسی سے انکار کر دیا۔ شاہی دندان ساز سے اوون کا دانت کی ساخت سے متعلق ایک دریافت کی ملکیت کا جھگڑا ہوا۔
جس بندے کو وہ ناپسند کرتا، اس کے خلاف کاروائی شروع کر دیتا۔ شروع میں اس نے اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے زووآلوجیکل سوسائٹی سے ایک نوجوان رابرٹ گرانٹ کو مشکل میں ڈال دیا جس کا قصور محض اتنا تھا کہ وہ ابھرتا ہوا ماہر تھا۔ اس بے چارے کو یقین نہ آیا کہ جب اس نے تحقیق کی خاطر کچھ نمونے مانگے تو اسے انکار کر دیا گیا۔ تحقیق ادھوری رہ جانے پر وہ منظرِ عام سے غائب ہو گیا۔
تاہم اوون کی وجہ سے گڈون مینٹل سے زیادہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔ جب مینٹل کی بیوی بچوں سمیت اسے چھوڑ گئی، اس کے فوسل بک گئے اور ڈاکٹری ختم ہو گئی تو مینٹل لندن منتقل ہوا۔ 1841 میں جب اوون نے ڈائنوساروں کی رسمی دریافت کی تو مینٹل کو ایک حادثہ پیش آیا۔ ایک جگہ وہ اپنی گھوڑا گاڑی سے نیچے گرا اور باگوں میں پھنس کر سخت زمین پر گھوڑوں کے پیچھے گھسٹتا گیا۔ اس حادثے سے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور بقیہ زندگی اس نے تکلیف اور معذوری میں گزاری۔
مینٹل کی معذوری کو دیکھتے ہوئے اوون نے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے مینٹل کی برسوں قبل دریافتوں پر سے مینٹل کا نام مٹا کر اس پر اپنا نام لکھنا شروع کر دیا۔ مینٹل نے تحقیقات جاری رکھیں لیکن اوون نے اپنے اثر و رسوخ کی بناء پر مینٹل کے زیادہ تر مقالے مسترد کرا دیے۔ 1852 میں دلبرداشتہ ہو کر مینٹل نے خودکشی کر لی۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ اس کی ٹوٹی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کو نکال کر رائل کالج آف سرجنز کو بھیج دی گئی جہاں رچرڈ اوون نے اس کا ذمہ لے لیا۔
مینٹل کی بے عزتی ابھی جاری تھی۔ مرنے کے فوراً بعد لٹریری گزٹ نامی رسالے میں ایک مضمون چھپا جس میں مینٹل کو اوسط درجے اور محدود علم والے ماہرِ علم الابدان کے نام سے متعارف کرایا گیا۔ اگوانوڈون کی دریافت کو بھی اس رسالے نے مینٹل کے نام سے ہٹا کر اوون اور کویئر کے نام سے پیش کیا اور اسی طرح کئی دوسرے امور بھی غلط پیش کیے گئے۔ اگرچہ اس مضمون کو لکھنے والے کا نام نہیں دیا گیا تھا پھر بھی طرزِ تحریر بلا شبہ اوون کا تھا جو نیچرل سائنس سے متعلق ہر فرد پہچانتا تھا۔
اس وقت تک اوون کی غیر قانونی حرکات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس کا آغاز تب ہوا جب رائل سوسائٹی کی کمیٹی نے اوون کو اپنا اعلیٰ ترین اعزاز یعنی رائل میڈل دینے کا فیصلہ کیا۔ اوون اتفاق سے اس کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اس اعزاز کی وجہ اس کا وہ مضمون تھا جو اس نے ایک خاص قسم کی ناپید سیپی پر لکھا تھا۔ ‘اتفاق’ سے یہ مضمون اس کا اپنا نہیں تھا کیونکہ یہ سیپی چار سال قبل ایک شوقیہ نیچرلسٹ چیننگ پیئرس نے دریافت کر کے اس کی اطلاع جیولاجیکل سوسائٹی کو تفصیل سے پہنچا دی تھی اور اس وقت اوون اس میٹنگ میں موجود بھی تھا۔ تاہم رائل سوسائٹی میں اپنا مضمون پیش کرتے وقت نہ صرف اوون نے اس بات کو چھپائے رکھا بلکہ اس نے تو اس جانور کو اپنے نام سے بھی منسوب کر دیا۔ اگرچہ رائل میڈل تو اس سے واپس نہیں لیا گیا لیکن اس کی شہرت اس کے چند بچے کھچے ہمدردوں کے دل میں بھی ہمیشہ کے لیے داغدار ہو گئی۔
آخرکار ہکسلے نے اوون کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اب تک اوون دوسروں کے ساتھ کرتا آیا تھا۔ اس نے زووالوجیکل اور رائل سوسائٹیوں سے اوون کے خلاف ووٹ دلوایا۔ اس کے علاوہ ہکسلے نے رائل کالج آف سرجنز میں اوون کی جگہ پروفیسر شپ سنبھال لی۔
اوون نے پھر کوئی تحقیقی کام نہیں کیا۔ تاہم اس کی زندگی کا آخری حصہ اس کوشش میں گزرا جس کے لیے ہم سب اس کے شکرگزار ہیں۔ 1856 میں وہ برٹش میوزیم میں نیچرل ہسٹری شعبے کا سربراہ بنا اور اسی نے لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی داغ بیل ڈالی۔ یہ میوزیم ساؤتھ کینزنگٹن میں قائم ہے اور 1880 میں یہ عجائب گھر کھلا اور اوون کی بصیرت کا شاہکار ہے۔
اوون سے قبل عجائب گھر بنیادی طور پر امراء کے لیے بنائے جاتے تھے اور اکثر امراء کو بھی داخلے میں مشکل پیش آتی تھی۔ برٹش میوزیم کے ابتدائی دنوں میں لوگوں کو تو باقاعدہ درخواست دینے بعد مختصر انٹرویو بھی دینا پڑتا تھا کہ آیا وہ عجائب گھر میں داخلے کے اہل ہیں بھی یا نہیں۔ دوسرے چکر پر انہیں داخلے کی ٹکٹ دی جاتی تھی یا بتا دیا جاتا تھا کہ وہ داخل نہیں ہو سکتے۔ تیسرے چکر پر وہ عجائب گھر میں داخل ہوتے۔ تاہم اس کے بعد انہیں جماعت کی شکل میں سیر کرائی جاتی اور کہیں زیادہ دیر رکنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اوون نے اس بات کو یقینی بنایا کہ عجائب گھر کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہوں اور ملازم پیشہ افراد کو شام میں آنے کی اجازت بھی ہو اور یہ بھی کہ زیادہ تر جگہ پر عوام کے لیے نمائش پر عجائبات رکھے جائیں۔ اس نے یہ تجویز تک پیش کی کہ عجائبات کے ساتھ کاغذ پر مختصر الفاظ میں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس بارے ہکسلے نے اس کی مخالفت کی کیونکہ ہکسلے کے خیال میں عجائب گھر محض تحقیق کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اوون کی وجہ سے آج عجائب گھر عام افراد کے لیے کھلے ہیں۔
ان تمام تر باتوں کے باوجود اس کی ذاتی دشمنیاں ہمیشہ جاری رہتی تھیں۔ اس نے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ہال میں چارلس ڈارون کے مجسمے کو لگوانے کے خلاف کافی کوششیں کیں مگر ناکام رہا۔ تاہم آج اس کا اپنا مجسمہ نیچرل ہسٹری میوزیم کے بڑے ہال میں لگا ہے جبکہ ہکسلے اور ڈارون کے مجسمے جن جگہوں پر ہیں، وہاں سے وہ لوگوں کو کافی پیتے اور کھانا کھاتے ہی دیکھ سکتے ہیں۔
اگر آپ یہ سوچتے ہوں کہ اوون کی وجہ سے پیلنٹالوجی کے شعبے کو بہت نقصان پہنچا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ اتنا ہی نقصان دو امریکی سائنس دانوں کی لڑائی سے بھی ہوا۔ ان کے نام ایڈورڈ ڈرنکر کوپ اور اوتھنیئل چارلس مارش تھے۔
دونوں میں کافی باتیں مشترک تھیں۔ دونوں ہی بگڑے ہوئے، خودغرض، جھگڑالو، حاسد، اعتبار نہ کرنے والے اور دکھی آتما تھے۔ تاہم ان دونوں نے مل کر پیلنٹالوجی کی دنیا بدل دی۔
دونوں کا تعلق دوستی سے شروع ہوا جو اتنا بڑھا کہ ایک دوسرے کے نام پر فوسلوں کو نام دینے لگ گئے۔ 1968 میں ایک ہفتہ اکٹھے کام کرتے گزارا۔ پھر کوئی ایسا مسئلہ ہوا کہ اگلے سال ان کی دوستی نفرت میں بدل گئی اور اگلے تیس سال تک جاری رہی۔ اس حد تک کہہ سکتے ہیں کہ نیچرل سائنسز کی تاریخ میں اس سے بڑی دشمنی کسی نے نہیں دیکھی۔
مارش عمر میں کوپ سے آٹھ سال بڑا تھا اور کتابی کیڑا تھا۔ اس نے فیلڈ میں کم وقت گزارا اور شاید ہی کسی اچھی تلاش میں کامیاب ہوا ہو۔ ایک مؤرخ کے مطابق جب مارش کومو بلف کے مشہور میدان میں گیا تو ہر طرف بکھری ہوئی ڈائنوسار کی ہڈیاں تک شناخت کرنے میں ناکام رہا۔ تاہم اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ جو چیز چاہتا، خرید لیتا۔ اس کا باپ متوسط قسم کا کسان تھا۔ تاہم اس کا چچا انتہائی امیر انسان تھا۔ جب مارش نے نیچرل ہسٹری میں دلچسپی دکھائی تو اس کے چچا نے ییل میں اس کے لیے باقاعدہ عجائب گھر بنوایا اور اتنی دولت دی کہ وہ جو چاہے خرید سکتا۔
کوپ امیر گھر میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ فلاڈلفیا کا مشہور تاجر تھا۔ اس کی زیادہ دلچسپی فیلڈ سے متعلق تھی۔ 1876 میں جب وہ مونٹانا میں جس جگہ سے ہڈیاں تلاش کر رہا تھا، اس کے پاس ہی ریڈ انڈین لوگ جارج آرمسٹرانگ کی فوج کو قتل کر رہے تھے۔ جب کسی مشورہ دیا کہ ان حالات میں انڈین لوگوں کی زمین سے ہڈیوں کی تلاش خطرناک کام ہے تو اس نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ دورہ انتہائی کامیاب جا رہا تھا۔ ایک بار وہ کرو انڈین لوگوں میں گھر گیا لیکن اپنے مصنوعی دانتوں کو بار بار نکالنے اور لگانے سے وہ ان کو خوش کر کے بچ نکلا۔
ایک دہائی تک ان کی دشمنی چھپی رہی لیکن پھر 1877 میں دونوں ہی پھٹ پڑے۔ اسی سال کولوراڈو کے ایک استاد آرتھر لیکس کو سیر کرتے ہوئے ایک جگہ بہت بڑی ہڈیاں دکھائی دیں۔ اس نے انہیں جمع کر کے مارش اور کوپ کو بھجوا دیا۔ کوپ نے اسی وقت خوشی خوشی 100 ڈالر بھجوا دیئے اور کہا کہ اس بارے کسی کو بھی نہیں بتانا، مارش سے خصوصاً یہ بات چھپائی جائے۔ پریشان ہو کر لیکس نے مارش سے کہا کہ وہ ان ہڈیوں کو کوپ کو بھجوا دے۔ مارش نے ایسا ہی کیا لیکن اپنی شکست برداشت نہ کر سکا۔
ان کی دشمنی بہت گھٹیا حد تک جا پہنچی۔ اکثر ایک کی ٹیم کے اراکین کام کرتی ہوئی دوسری ٹیم پر پتھراؤ کرتے۔ ایک موقع پر کوپ کو مارش کے ڈبے کھولتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ دونوں نے زبانی اور تحریری، ہر طرح سے ایک دوسرے کی بے عزتی کی۔ کبھی کبھار ہی ایسا ہوا ہے کہ دو انسانوں کی لڑائی سے سائنس کو اتنی ترقی ملی ہو۔ اگلے کئی سال تک ان کی لڑائی کے نتیجے میں امریکی ڈائنوساروں کی انواع کی تعداد 9 سے بڑھ کر ڈیڑھ سو ہو گئی۔ عام مشہور تمام تر ڈائنوسار انہی دونوں کی دریافت تھے۔ بدقسمتی سے دشمنی میں اندھے ہو کر وہ پہلے سے دریافت شدہ جانور کو دوبارہ دریافت کر لیتے۔ دونوں نے ایک ہی ڈائنوسار کو کم از کم 22 مرتبہ دریافت کیا۔ ان الجھنوں کو دور کرنے میں برسوں لگے۔ بعض مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔
ان دونوں میں سے کوپ کی سائنسی اہمیت زیادہ ہے کہ اس نے 1400 تحقیقی مقالے لکھے اور فوسل شدہ مختلف جانوروں کی لگ بھگ 1300 انواع متعارف کرائیں۔ یہ مقدار مارش سے دو گنا زیادہ ہے۔ اس کی تحقیق مزید ترقی کرتی لیکن 1875 میں ملنے والی دولت کو اس نے چاندی کی کانوں میں لگایا اور پائی پائی کا محتاج ہو گیا۔ آخری وقت میں اس کے رہنے کے لیے فلاڈلفیا کے بورڈنگ ہاؤس میں صرف ایک کمرہ تھا جس میں کتب، کاغذات اور ہڈیاں جمع تھیں۔ مارش نے ساری زندگی عیش سے گزاری۔ کوپ 1897 اور مارش 1899 میں فوت ہوا۔
تاہم آخری برسوں میں کوپ کو ایک اور شوق ہو گیا۔ اس نے یہ اعلان کیا کہ اس کی موت کے بعد اس کی ہڈیوں کو صاف کر کے ہومو سیپیئنز کا نمائندہ ڈھانچہ بنا دیا جائے۔ اگرچہ کسی بھی نوع کی ملنے والی پہلی ہڈیاں ہی اس کا نمونہ سمجھی جاتی ہیں لیکن انسان کے لیے ابھی تک یہ جگہ خالی تھی۔ کوپ اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اگرچہ یہ خواہش بہت عجیب تو تھی لیکن بظاہر اس کی مخالفت کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔ آخر میں کوپ نے اپنی ہڈیوں کو وسٹر انسٹی ٹیوٹ کو دینے کی وصیت کی۔ تاہم جب بعد از مرگ اس کی ہڈیوں کو صاف کر کے تیار کیا جانے لگا تو پتہ چلا کہ ہڈیوں پر آتشک کی بیماری کے نشانات موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے یہ ہڈیاں بیکار سمجھی گئیں۔ اس لیے کوپ کی وصیت کو اس کی ہڈیوں سمیت الماری میں رکھ دیا گیا۔ موجودہ انسان کا ابھی تک کوئی نمونہ کسی عجائب گھر میں موجود نہیں۔
اس ڈرامے کے دیگر کھلاڑیوں میں سے اوون 1892 میں فوت ہوا۔ بک لینڈ دیوانہ ہو کر ایک پاگل خانے میں مرا جو مینٹل کی جائے حادثہ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ مینٹل کی ریڑھ کی ٹوٹی پھوٹی ہڈی کم از کم ایک صدی تک نمائش پر لگی رہی جہاں آخر ایک جرمن بم گرا اور اس نے اس کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ مینٹل کے بچے کھچے نوادرات کو 1840 میں اس کا بیٹا والٹر نیوزی لینڈ لے گیا۔ والٹر وہاں جا کر اتنی ترقی کر گیا کہ اسے مقامی آبادی کے امور کا وزیر بنا دیا گیا۔ 1865 میں اس نے اپنے باپ کے جمع کردہ بہترین نمونے، بشمول اگوانوڈون کا دانت، ولنگٹن کے عجائب گھر کو عطیہ کر دیے جو آج بھی وہاں موجود ہیں۔ تاہم اگوانوڈون کا دانت کہ جو پیلنٹالوجی کی سب سے اہم دریافت ہے، اب نمائش سے ہٹ گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ ڈائنوساروں کی تلاش ان کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ تو محض آغاز تھا۔ 1898 میں مارش کی متذکرہ بالا جگہ کومو بلف سے چند میل کے فاصلے پر فوسلز کی بہت بڑی مقدار دریافت ہوئی۔ اس جگہ کو بون کیبن کیوری کہا جاتا تھا کیونکہ وہاں اتنی ہڈیاں تھیں کہ لوگوں نے ان سے ایک کیبن بنا دیا تھا اور اسی سے نام مشہور ہوا۔ پہلے دو سالوں میں 1 لاکھ پاؤنڈ ہڈیاں نکالی گئیں اور اگلے پانچ یا چھ سالوں تک مزید لاکھوں پاؤنڈ ہڈیاں نکالی گئیں۔
19ویں صدی کے اوائل تک پیلنٹالوجسٹوں کے پاس ٹنوں کے حساب سے ہڈیاں جمع ہو چکی تھیں۔ تاہم یہ بات ہنوز تحقیق طلب تھی کہ یہ ہڈیاں کتنی پرانی ہیں۔ اس وقت تک زمین کی عمر بھی درست طور پر نہیں جانی جا سکی تھی۔ اگر زمین محض کروڑ سال پرانی ہے تو ڈائنوسار وغیرہ کی آمد اور رخصت میں کوئی خاص وقت نہ لگا ہو گا جو سمجھ سے بالاتر بات تھی۔
کیلون کے علاوہ بھی دیگر سائنس دان زمین کی عمر جاننے کے لیے کام کر رہے تھے تاہم انہیں بھی ناکامی ہوئی۔ مثال کے طور پر ڈبلن کے ٹرینیٹی کالج کے مشہور ارضیات دان سیموئل ہفٹن کے مطابق زمین کی عمر 2.3 ارب سال تھی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ عمر تو دیگر اندازوں سے کہیں زیادہ ہے تو اس نے یہ مقدار کم کر کے 15 کروڑ سال کے لگ بھگ کر دی۔ جان جالی جو اسی کالج سے متعلق تھا، نے ایڈمنڈ ہیلی کے نظریے کے مطابق سمندری نمکیات کو جانچنے کی کوشش کی لیکن متعدد وجوہات کی بناء پر ناکام رہا۔ تاہم اس کا اندازہ لارڈ کیلون کے اندازے کے نزدیک تر اور حقیقت سے کوسوں دور تھا۔
18ویں صدی میں انہی مشکلات کے پیشِ نظر کیمبرین دور کے بارے مختلف کتب میں مختلف مدتیں درج ہیں۔ کچھ کے خیال میں 30 لاکھ تو کچھ اسے تقریباً دو کروڑ تو کچھ اسے 60 کروڑ تو کوئی اسے لگ بھگ 80 کروڑ اور کچھ اسے اڑھائی ارب سال بتاتے ہیں۔ 1910 تک سب سے معتبر اندازہ امریکی جارج بیکر کا تھا جس نے زمین کی عمر ساڑھے پانچ کروڑ سال بتائی تھی۔
ابھی یہ سب مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہو رہے تھے کہ ایک نئی شخصیت ایک نئی تکنیک کے ساتھ نمودار ہوئی۔ یہ بندہ نیوزی لینڈ میں پیدا ہونے والا ارنسٹ ردرفورڈ تھا اور اسی نے پہلی بار ایسے ثبوت دیئے کہ زمین کی عمر کئی کروڑ سال یا اس سے بھی زیادہ ہے۔
ردرفورڈ کی پیش کردہ تکنیک قدرتی، سائنسی طور پر قابلِ قبول اور غیر روایتی ہونے کے باوجود الکیمی ہی تھی۔ نیوٹن کا اندازہ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔
٭٭٭

 

7 بنیادی اجزاء

 

جب رابرٹ بوائل نے 1661 میں اپنا مشہور مقالہ The Sceptical Chymist پیش کیا تو کیمیا اور الکیمی کا فرق واضح ہونے کے علاوہ کیمیا کو قابل اعتبار سائنس کا درجہ مل گیا۔ تاہم یہ عمل بہت سست تھا اور 17ویں صدی کے زیادہ تر عالم کیمیا اور الکیمی، دونوں طرح سے بخوبی کام کرتے تھے۔ اس کی بہترین مثال جرمن کیمیا دان جان بیچر تھا جس نے معدنیات کے بارے Physica Subterranea جیسی معلوماتی کتاب لکھی لیکن اسے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقین تھا کہ اگر اسے مطلوبہ مادے مل جائیں تو وہ خود کو نظروں سے اوجھل کر سکتا ہے۔
ہینگ برانڈ نامی جرمن کی 1675 میں کی گئی دریافت سے زیادہ کیمیائی سائنس میں حادثاتی دریافتوں کے بارے شاید ہی کچھ اور بتا سکے۔ برانڈ کو کسی طرح یہ یقین ہو گیا کہ انسانی پیشاب سے سونا نکالا جا سکتا ہے۔ شاید رنگ کی مماثلت سے ایسا ہوا ہو۔ اس نے انسانی پیشاب کی 50 بالٹیاں جمع کیں اور کئی ماہ تک انہیں اپنے تہہ خانے میں رکھا۔ مختلف مشکل مراحل سے اس نے پہلے پیشاب کو گاڑھے مائع میں بدلا جو بعد میں نیم شفاف اور موم نما مادہ بن گیا۔ تاہم اس سے سونا تو نہیں نکلا لیکن اس کی بجائے کچھ اور ہوا۔ کچھ وقت کے بعد یہ چیز چمکنے لگی۔ اس کے علاوہ جب اسے ہوا لگتی تو اچانک آگ لگ جاتی۔
نتیجتاً اس چیز کو فاسفورس کہا گیا جو لاطینی اور یونانی زبان سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ‘روشن’ ہے۔ جلد ہی اس کے تجارتی استعمال دریافت ہونے لگے تاہم اس کی تیاری بہت مشکل تھی۔ ایک اونس فاسفورس کی قیمت 6 گنی تھی جو شاید آج کے دور میں 300 پاؤنڈ کے برابر ہو۔ یہ قیمت سونے سے بھی زیادہ ہے۔
پہلے پہل تو ‘خام مواد’ کے لیے فوجیوں کو بلایا گیا جو زیادہ سود مند نہ تھا۔ 1750 کی دہائی میں سوئیڈش کیمیا دان کارل شیل نے فاسفورس کو بنانے کا ایسا طریقہ ایجاد کیا جس میں پیشاب کی بو سے جان چھوٹ گئی۔ اسی وجہ سے ہی سوئیڈن آج تک فاسفورس اور ماچسوں کی تیاری میں سب سے آگے ہے۔
شیل انتہائی بدقسمت انسان تھا۔ بطور فارماسیسٹ اور عام آلات کی مدد سے اس نے آٹھ مختلف عناصر دریافت کیے جو کلورین، فلورین، میگانیز، بیریئم، مولبیڈیئم، ٹنگسٹن، نائٹروجن اور آکسیجن تھے تاہم ایک عنصر کی دریافت بھی اس سے منسوب نہیں۔ ہر بار یا تو اسے اسے نظرانداز کر دیا جاتا یا پھر اس کی دریافت تب چھاپی جاتی جب پہلے کوئی اور اسے الگ سے دریافت کر کے چھپوا چکا ہوتا۔ اس نے کئی اور مرکبات بھی دریافت کیے جن میں امونیا، گلیسرین اور ٹینیک ایسڈ اہم ہیں اور اس نے سب سے پہلے کلورین کو بلیچ کے طور پر استعمال کرنے کا خیال پیش کیا۔ ان تمام دریافتوں سے دیگر افراد انتہائی امیر بنے۔
شیل کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ جس چیز پر کام کرتا، اس کی معمولی سی مقدار لازمی چکھتا جن میں پارہ، ہائیڈرو سائنک ایسڈ (اس کا اپنا دریافت کردہ) انتہائی زہریلے ہیں۔ شیل کی یہی بے احتیاطی اسے لے ڈوبی۔ 1786 میں 43 سال کی عمر میں اپنی تجربہ گاہ میں مردہ حالت میں پایا گیا اور اس کے آس پاس ہر طرح کے زہریلے مادے بکھرے پڑے تھے جن میں سے کوئی بھی اس کی موت کا سبب ہو سکتا تھا۔
اگر دنیا میں انگریزی کی بجائے سوئیڈش عام بولی جاتی تو اس وقت شیل کی شہرت آسمان کو چھو رہی ہوتی۔ شیل نے 1772 میں آکسیجن دریافت کی تاہم انتہائی دل شکن وجوہات کی بناء پر اس کی دریافت بروقت نہ چھپ سکی اور اس کا سہرہ جوزف پریسٹلے کے سر بندھا جس نے 1774 کے موسمِ گرما میں اسے دریافت کیا۔ کلورین بھی آج تک ہمفری ڈیوی کی دریافت شدہ شمار ہوتی ہے جبکہ اس نے شیل سے پورے 36 سال بعد اسے دریافت کیا تھا۔
اگرچہ نیوٹن اور بوائل کے بعد شیل اور پریسٹلے اور ہنری کیونڈش کے درمیان طویل مدت آ گئی تھی پھر بھی کیمیا کو ابھی بہت مشکلات سے گزرنا تھا۔ اس صدی کے اواخر میں سائنس دانوں نے ایسی چیزیں بھی تلاش کر لی تھیں جو موجود ہی نہیں ہوتیں مثلاً vitiated airs, dephlogisticated marine acids, phloxes, calxes, terraqueous exhalations اور۔ phlogiston آخری چیز کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جلنے کے عمل میں شامل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ‘روح’ کا تصور بھی تھا کہ جو مردہ چیزوں میں جان لاتی ہے۔ اس بارے تو کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ روح کہاں ملے گی، تاہم دو باتیں یقینی تھیں۔ ایک تو یہ کہ بجلی کے جھٹکے سے روح بیدار ہو سکتی ہے اور دوسرا یہ کہ روح بعض چیزوں میں تو پائی جاتی ہے لیکن بعض چیزوں میں نہیں پائی جاتی۔ اسی سے کیمیا کی دو شاخیں پیدا ہوئیں، آرگینک (ایسی چیزیں جن میں روح ہوتی تھی) اور ان آرگینک (ایسی چیزیں جن میں روح نہیں تھی)۔
اس وقت کیمیا کو موجودہ دور تک لانے کے لیے کچھ کاوشوں کی ضرورت تھی جو ایک فرانسیسی نے کیں۔ اس کا نام انٹوئن لاورینٹ لاویئزر تھا۔ 1743 میں لاویئزر کا تعلق زیریں اشرافیہ طبقہ سے تھا۔ 1768 میں اس نے بدنامِ زمانہ جنرل فارم نامی ادارے کے حصص خریدے جس کا کام حکومت کی جانب سے ٹیکس اور فیسیں جمع کرنا تھا۔ اگرچہ لاویئزر خود تو نرم اور معتدل مزاج انسان تھا لیکن اس کی کمپنی انتہائی روکھی اور کمینی تھی۔ اس کا کام امراء کی بجائے صرف غرباء سے ٹیکس وصول کرنا تھا اور یہ کمپنی بار بار مختلف حیلوں سے ٹیکس وصول کرتی تھی۔ لاویئزر کے لیے کمپنی سے صرف ایک مفاد وابستہ تھا کہ اس سے ملنے والے پیسے سے وہ اپنے شوق یعنی سائنس پر کام جاری رکھ سکتا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اس کی ذاتی آمدنی سالانہ ڈیڑھ لاکھ لیور تک پہنچ گئی تھی۔ آج کے دور کے حساب سے اسے سوا کروڑ پاؤنڈ سمجھ لیں۔
اس سرمایہ کاری کے تین سال بعد اس نے اپنے افسرانِ اعلیٰ میں سے ایک کی 14 سالہ بیٹی سے شادی کر لی۔ یہ شادی جسم و جان کا ملاپ تھی۔ اس کی بیوی انتہائی ذہین تھی اور اس نے جلد ہی اپنے شوہر کے ساتھ اسی معیار کا کام شروع کر دیا۔ اپنی نوکری اور سماجی سرگرمیوں کے علاوہ میاں بیوی اکثر پانچ گھنٹے روزانہ سائنس پر خرچ تھے جو دو گھنٹے صبح اور تین گھنٹے شام ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ اتوار کا پورا دن بھی اسی کی نظر ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاویئزر کو بارود بنانے کے کارخانے کا سربراہ، پیرس کے گرد دیوار کی تعمیر تاکہ سمگلروں کو دور رکھا جا سکے، میٹرک نظام بنانے میں مدد دینے کے علاوہ ایک کتاب لکھنے کا بھی وقت مل گیا جو آج بھی عناصر کے نام رکھنے کے اصولوں کی مستند ترین کتاب ہے۔
شاہی سائنسی اکیڈمی کا نمایاں رکن ہونے کی وجہ سے اسے اس وقت کے اہم مشاغل سے بھی دلچسپی لینا پڑتی جو ہپناٹزم، جیلوں کی اصلاح، حشرات میں نظامِ تنفس اور پیرس میں پانی کی سپلائی وغیرہ سے متعلق تھے۔ اس طرح کی مصروفیات میں جب اس کے سامنے ایک نظریہ رکھا گیا تو لاویئزر نے اس نظریے کو یکسر مسترد کر دیا۔ اگرچہ یہ نظریہ غلط تھا، لیکن اس کے پیش کنندہ نے لاویئزر کی یہ غلطی معاف نہیں کی۔ اس بندے کا نام جین پال مرات تھا۔
ایک کام جو لاویئزر نے کبھی نہیں کیا، وہ عناصر کی دریافت تھی۔ اس دور میں ایک بیکر، آگ اور کسی قسم کا پاؤڈر ہو تو لوگ بہ آسانی عناصر دریافت کر لیتے تھے اور اس وقت تک دو تہائی عناصر ابھی دریافت نہیں ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ بیکروں کی کمی نہیں ہو سکتی کہ لاویئزر کے پاس 13,000 بیکر تھے۔ اس کے پاس شاید دنیا کی پہلی پرائیوٹ لیبارٹری تھی۔
اس نے دوسروں کی دریافتوں کو اٹھا کر ان کو بامعنی بنایا۔ اس نے فلو گیسٹن (ایسا عنصر جس کے بارے فرض کیا جاتا تھا کہ وہ آگ لگنے کے عمل میں پیدا ہوتا ہے ) اور میفیٹک ایئر (بری ہوا) کے نظریات کو رد کیا۔ اس نے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو اکٹھا کرنے سے پانی بننے کو ثابت کیا اور ان دونوں کو موجودہ نام عطا کیے۔ مختصر یہ کہ اس نے کیمیا میں درستگی، شفافیت اور طریقہ کار متعارف کرائے۔
اس کے نفیس آلات سے بہت فائدے بھی حاصل ہوئے۔ مثال کے طور پر ان میاں بیوی نے انتہائی مشکل تجربے سے ثابت کیا کہ زنگ لگنے کے عمل میں لوہے کا وزن کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ لوہے نے ہوا سے مختلف عناصر کے ذرات کو جمع کیا۔ یعنی مادہ ختم نہیں ہو سکتا، البتہ اس کی شکل بدل سکتی ہے۔ یعنی اگر آپ اس کتاب کو جلائیں تو راکھ اور دھواں پیدا ہو گا لیکن کائنات میں موجود تمام تر عناصر کی کل مقدار وہی رہے گی۔ اسے قانون بقائے مادہ کا نام دیا گیا جو بہت انقلابی دریافت تھی۔ بدقسمتی سے اس کا ٹاکرا ایک اور انقلاب سے ہو گیا، جو انقلابِ فرانس کے نام سے مشہور ہے۔ اس انقلاب میں لاویئزر غلط جانب تھا۔
نہ صرف اس لیے کہ وہ قابلِ نفرت فارم جنرل کا رکن تھا بلکہ اس لیے بھی کہ اس نے شہر کے گرد دیوار بنائی تھی۔ یہ دیوار انقلابیوں نے سب سے پہلے تباہ کی۔ مرات نے اپنی دشمنی کو یاد رکھا۔ اب نیشنل اسمبلی میں ہونے کی وجہ سے اس نے مشورہ دیا کہ لاویئزر بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور اسے پھانسی دینا مناسب نہیں۔ جلد ہی فارم جنرل بند ہو گئی۔ تاہم اس کے فوراً بعد مرات کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اس کی قاتل ایک نوجوان عورت تھی مگر لاوئزر کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔
1793 میں خوف کا دور مزید انتہا کو پہنچا۔ اکتوبر میں ملکہ میری کو گلوٹین پر سزائے موت ملی۔ نومبر میں جب لاویئزر اور اس کی بیوی سکاٹ لینڈ فرار ہونے کے منصوبے بنا رہے تھے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اسے اور 31 دوسرے فارم جنرل کے مالکان کو انقلابی ٹربیونل کے سامنے پیش کیا گیا۔ ٹربیونل کی صدارت مرات کا مجسمہ کر رہا تھا۔ ان میں سے آٹھ بری ہوئے جبکہ لاویئز اور دیگر کو گلوٹین کو بھیج دیا گیا۔ پہلے لاویئزر کا سسر اور پھر اسے مارا گیا۔ اس کے تین ماہ سے بھی کم عرصے بعد 27 جولائی کو اس انقلاب کے رہنما کو بھی عین اسی طریقے سے اسی جگہ گلوٹین نصیب ہوئی اور انقلاب اپنی موت آپ مر گیا۔
لاویئزر کی وفات کے سو برس بعد پیرس میں اس کا مجسمہ لگایا گیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم پھر کسی نے اعتراض کیا کہ یہ مجسمہ اس سے مشابہ نہیں۔ تفتیش پر مجسمہ ساز نے اعتراف کیا کہ اس نے اس امید پر کہ کون اس غلطی کی نشاندہی کرے گا، ایک اور مشہور ریاضی دان اور فلسفی مارکوئس ڈی کنکارڈکٹ کا سر لگا دیا تھا جو پہلے سے بنا رکھا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم تک یہ غلط مجسمہ لگا رہا اور پھر اسے پگھلا کر لوہا الگ کر دیا گیا۔
1800 کے اوائل میں انگلینڈ میں نائٹرس آکسائیڈ کو سونگھنے کا فیشن بن گیا کہ سونگھنے کے بعد انتہائی لطف آتا تھا۔ اگلی نصف صدی تک نوجوانوں کی پسندیدہ نشہ رہا۔ تھیٹروں میں باقاعدہ شامیں منائی جاتی تھیں جس میں اداکار اس گیس کو سونگھ کر تماشائیوں کو اپنی مزاحیہ حرکات سے محظوظ کرتے تھے۔
1846 میں پہلی بار کسی نے اس گیس کا عملی استعمال دریافت کیا۔ اسے آپریشنوں میں بطور نشہ استعمال کیا جانے لگا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے قبل کتنے افراد سرجن کے نشتروں تلے تڑپتے رہے ہوں گے اور کسی کو گیس کا یہ استعمال کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ارضیات کی مانند کیمیا بھی ایک صدی انتہائی مقبول رہی تو اگلی صدی کے آغاز سے اس کی مقبولیت ختم ہوتی چلی گئی۔ ایک وجہ تو اس دور کے آلات کی محدودیت تھی اور اس لیے بھی کہ سینٹری فیوج مشینیں اس صدی کے دوسرے نصف جا کر ایجاد ہوئیں اور بہت سارے اہم تجربات اسی وجہ سے رکے رہے۔ اس کے علاوہ سماجی وجہ بھی تھی۔ اس دور میں کیمیا کاروباری افراد کا مشغلہ سمجھا جاتا تھا، ایسے لوگ جو کوئلے، پوٹاش اور رنگوں سے شغل کرتے تھے۔ طبقہ اشرافیہ میں ایسی حرکات کی گنجائش نہیں تھی۔ شرفاء ارضیات، نیچرل ہسٹری اور طبعیات میں دلچسپی لیتے تھے۔ یہ بتانا کافی رہے گا کہ صدی کی اہم ترین دریافتوں میں سے ایک براؤنیئن حرکت کسی کیمیا دان نے نہیں بلکہ ایک سکاٹش نباتات دان رابرٹ براؤن نے دریافت کی تھی اور اسی سے مالیکیولوں کی حرکت کا نظریہ ثابت ہوا تھا (اصل میں 1827 میں رابرٹ براؤن نے مشاہدہ کیا کہ پانی میں جب پولن ڈالے جائیں تو قطع نظر اس بات کے کہ پانی کتنا عرصہ ساکن رکھا رہا ہے، پولن مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں۔ یہ مشاہدہ پہلے سے بھی ہو رہا تھا لیکن براؤن نے پہلی بار یہ بات کہی کہ یہ حرکت دکھائی نہ دینے والے مالیکیولوں کی وجہ سے ہے )۔
صورتحال اس سے کہیں بدتر ہو سکتی تھی اگر ہمارے درمیان کاؤنٹ وُن رمفورڈ نہ ہوتا۔ رمفورڈ 1753 میں میساچوسٹس میں بنجامن تھامپسن کے نام سے پیدا ہوا۔ تھامپسن بہادر اور پر امید انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت اور متناسب جسامت کا مالک بھی تھا۔ انتہائی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اسے اخلاقیات سے کوئی خاص شغف بھی نہیں تھا۔ 19 سال کی عمر میں وہ 33 سالہ بیوہ سے شادی کر بیٹھا۔ انقلاب کی جنگ میں اس نے غلطی کرتے ہوئے وفاداروں کا ساتھ دیا اور ان کے لیے جاسوسی بھی کی۔ اس کی گرفتاری پر انعام مقر ر ہوا۔ 1776 میں جب مشتعل ہجوم گرم تارکول اور پروں کی ٹوکریاں لیے پر سجانے پہنچے تو وہ اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
پہلے انگلستان اور پھر جرمنی پہنچ کر اس نے قیام کیا اور بویریا کی حکومت کے فوجی مشیر کا کام شروع کر دیا۔ اس کی کارکردگی اتنی عمدہ تھی کہ 1791 میں اسے مقدس رومن ایمپائر کے کاؤنٹ وُن رمفورڈ کا اعزاز دیا گیا۔ اس نے ہی مشہورِ زمانہ انگلش گارڈن نامی باغ بنوایا۔
ان سب کاموں کے علاوہ اس نے وقت نکال کر خالص سائنس پر بھی توجہ دی۔ تھرموڈائنامکس پر اسے حرفِ آخر مانا گیا اور مائع میں حرارت کی منتقلی اور بحری روؤں پر اس نے سب سے پہلے روشنی ڈالی۔ اس نے بہت سارے مفید آلات بھی بنائے جن میں ڈرپ کافی میکر، گرم زیر جامے اور رمفورڈ آتش دان بھی شامل ہیں۔ 1805 میں فرانس میں مختصر قیام کے دوران اس نے مادام لاویئزر سے شادی کر لی۔ تاہم جلد ہی شادی ناکام ہو کر طلاق پر منتج ہوئی۔ 1814 میں جب رمفورڈ کی وفات ہوئی تو اس کی سابقہ بیویوں کو چھوڑ کر باقی پوری دنیا اس کی معترف تھی۔
یہاں اس کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ 1799 میں اپنے مختصر قیام کے دوران اس نے لندن میں رائل انسٹی ٹیوشن قائم کیا جو اس دور کے دیگر اہم اداروں کی طرح ایک تھا۔ کچھ وقت تک یہ واحد ادارہ تھا جو کیمیا کی نئی نئی شاخ پر توجہ دے رہا تھا۔ اس کی وجہ شاید ہمفری ڈیوی ہے جو اس ادارے کے قیام کے فوراً بعد اس میں کیمیا کے پروفیسر کے طور پر مقر ر ہوا۔ جلد ہی اس کے بہترین مقر ر اور بہترین تجربہ کرنے والے کے طور پر شہرت ہوئی۔
عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ڈیوی نے یکے بعد دیگر مختلف عناصر دریافت کرنا شروع کر دیے جن میں پوٹاشیم، سوڈیم، میگنیشیم، کیلشیم، سٹرونشیم اور المونیم اہم ہیں۔ تاہم اس کامیابی کی وجہ اس کی تجربات سے متعلق سنجیدگی نہیں بلکہ وہ تکنیک تھی جس کی مدد سے وہ پگھلے ہوئے مادوں میں برقی رو گزارتا تھا۔ یہ عمل برق پاشیدگی کہلاتا ہے۔ اس نے کل 12 عناصر دریافت کیے جو اس وقت کے معلوم عناصر کا پانچواں حصہ تھے۔ اس نے اور بھی بہت سارے عناصر دریافت کیے ہوتے مگر وہ نائٹرس آکسائیڈ کا شیدائی ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ ہر روز تین یا چار مرتبہ وہ اس گیس کو استعمال کرتا۔ آخرکار 1829 میں اسی گیس کی زیادہ مقدار سے اس کی ہلاکت ہوئی۔
خوش قسمتی سے زیادہ سنجیدہ لوگ بھی کیمیا میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ 1808 میں جان ڈالٹن نے پہلی بار ایٹم کی ساخت سے واقفیت پیدا کی تو 1811 میں ایک اطالوی نواب لورینزو رومانو اماڈیو کارلو ایوگاڈرو نے بتایا کہ ایک ہی حجم کی کوئی سی بھی دو مختلف گیسیں جو ایک ہی درجہ حرارت اور ایک ہی دباؤ پر رکھی جائیں تو ان کے مالیکیولوں کی تعداد برابر ہو گی۔
ایوگاڈرو کے اصول سے دو باتیں واضح ہو گئیں۔ پہلی تو یہ کہ ایٹم کا حجم اور وزن دریافت کرنا آسان ہو گیا۔ اسی اصول کی مدد سے کیمیا دانوں نے آخرکار یہ جانا کہ عام ایٹم کا قطر 0.000000008 سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ اصول 50 سال تک مخفی رہا (یہ اصول کو بعد میں ایوگاڈرو کے نمبر کے نام سے پہچانا گیا جو کیمیا میں پیمائش کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک بنا دیا گیا۔ تاہم یہ کام ایوگاڈرو کی وفات کے بہت برس بعد ہوا۔ یہ نمبر ہائیڈروجن کی 2.016 گرام میں موجود ایٹموں کی تعداد ہے جو 6.0221367×1023 ہے۔ برسوں تک کیمیا کے طلباء نے اس تعداد کو جاننے کی کوشش جاری رکھی۔ یوں سمجھ لیں کہ مکئی کے دانوں کی تعداد جو پورے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو 9 میل اونچائی تک بھر دے یا بحر الکاہل کے پانی کو کپوں میں ماپا جانا یا سوڈے کے کین اگر برابر رکھے جائیں تو پوری زمین پر 200 میل اونچے ہو جائیں گے یا اگر امریکی پینیاں ہر امریکی میں تقسیم کی جائیں تو ہر انسان کھرب پتی بن جائے گا)۔
شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایو گاڈرو خود بھی کافی تنہائی پسند تھا۔ اسے اکیلے کام کرنے کی عادت تھی اور ساتھی سائنس دانوں سے نہ ہونے کے برابر تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے چند ہی مقالے چھپوائے اور کبھی کسی میٹنگ میں نہیں گیا۔ تاہم اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت نہ تو کوئی میٹنگز ہوتی تھیں اور نہ ہی کیمیاسے متعلق رسائل کی تعداد زیادہ تھی۔ بظاہر یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ صنعتی انقلاب کیمیا کا ہی مرہونِ منت ہے اور دہائیوں تک اس کی تنظیم نہیں کی گئی تھی۔
لندن کی کیمیکل سوسائٹی کا قیام 1841 میں عمل میں آیا اور 1848 میں اس نے پہلا مجلہ شروع کیا۔ اس وقت تک دیگر تمام سوسائٹیوں جیسا کہ ارضیات، جغرافیہ، حیوانات، نباتات وغیرہ کے مجلات چھپتے دو دہائیاں ہو رہی تھیں۔ کیمیا کا دوسرا ادارہ 1877 کو وجود میں آیا۔ چونکہ کیمیا کے علم کو منظم ہونے میں اتنا وقت لگ رہا تھا، اس لیے ایوگاڈرو کی کامیابی کی خبر تب پھیلی جب 1860 میں کیمیاوی پہلی بین الاقوامی کانگریس ہوئی۔
چونکہ کیمیا دان اکیلے رہ کر کام کرتے تھے، اس لیے اصطلاحات کی تشکیل کا عمل بہت سُست رہا۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف عرصے میں H2O2 شاید ایک سائنس دان کو پانی کا فارمولا لگتا تو دوسرے کو ہائیڈروجن پر آکسائیڈ محسوس ہوتا۔ C2H4 کا مطلب ایتھائلین بھی ہو سکتا تھا اور دلدلوں کی گیس بھی۔ شاید ہی کوئی ایسا مالیکیول ہوتا جسے ہر جگہ ایک ہی نام سے جانا جاتا۔
کیمیا دان اکثر خود ساختہ علامات اور مخففات استعمال کرتے۔ سوئیڈن کے کیمیا دان برزیلیس نے انہیں ترتیب دی اور بتایا کہ عناصر کی پہچان ان کے یونانی یا لاطینی نام کے مخفف سے ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے لوہے کی علامت Fe ہے جو لاطینی کے لفظ Ferrum سے نکلی ہے۔ چاندی کو Ag سے ظاہر کرتے ہی جو لاطینی میں Argentumکا مخفف ہے۔ بہت سارے عناصر کے مخفف ان کے انگریزی ناموں سے نکلے محسوس ہوتے ہیں جو در حقیقت انگریزی میں لاطینی سے مستعار لی گئی اصطلاحات ہی ہیں۔ اس طرح کی مثالوں میں ہائیڈروجن کا H، آکسیجن کا O اور نائٹروجن کا N وغیرہ مشہور ہیں۔ برزیلیس نے ہی مالیکیول میں موجود ایٹموں کی تعداد کو ظاہر کرنے کے لیے اوپر چھوٹے نمبر لکھنے شروع کیے جیسا کہ H2O، تاہم بعد میں بغیر کسی وجہ کے، رجحان انہیں نیچے لکھنے کی طرف منتقل ہو گیا اور آج H2O لکھا جاتا ہے۔
18ویں صدی کے دوسرے نصف تک کیمیا کی سائنس میں کوئی نظم و ضبط نہیں تھا۔ اسی وجہ سے جب 1869 میں سینٹ پیٹرز برگ کی یونیورسٹی کے عجیب دکھائی دینے والے پروفیسر دمیتری ایوانووچ مینڈیلیف کو شہرت ملی تو کیمیا دانوں کو تسلی ہوئی۔
مینڈیلیف 1834 میں سائبیریا کے انتہائی مغربی علاقے توبولسک میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کافی خوشحال تھے۔ اس کے بہن بھائیوں کی تعداد اتنی تھی کہ تاریخ دان آج تک ان کی تعداد پر متفق نہیں ہو سکے۔ بعض کے مطابق 14 تو بعض کے مطابق 17 بہن بھائی تھے۔ مینڈیلیف سب سے چھوٹا تھا۔ بدقسمتی سے ابھی مینڈلیف کم سن ہی تھا کہ اس کے والد، جو کہ مقامی سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا، کی بینائی چلی گئی اور اس کی ماں کو معاشی ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں۔ اس کی ماں نے انتہائی محنت سے کام کیا اور ایک شیشہ بنانے والی فیکٹری کی مینیجر بنی۔ 1848 میں یہ فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی اور مینڈیلیف کا خاندان پائی پائی کو ترس گیا۔ اپنے سب سے چھوٹے بچے مینڈیلیف کو تعلیم دلانے کی دھن میں اس کی بلند حوصلہ ماں اس کے ساتھ چار ہزار میل کا پیدل سفر طے کر کے سینٹ پیٹرزبرگ پہنچی جو استوائی گنی سے لندن تک کا فاصلہ بنتا ہے۔ لسانیات کے ادارے میں اپنے بیٹے کو داخل کرانے کے کچھ عرصہ بعد یہ بلند ہمت خاتون چل بسی۔
پوری لگن سے اپنی تعلیم پوری کرنے کے بعد مینڈیلیف نے مقامی یونیورسٹی میں نوکری کر لی۔ ماہر ہونے کے باوجود مینڈیلیف کوئی انتہائی منفرد کیمیا دان نہ تھا۔ اس کے بال اور داڑھی بکھرے رہتے اور سال میں ایک بار انہیں تراشتا تھا۔
تاہم 1869 میں مینڈیلیف نے عناصر کو ترتیب دینے کا ارادہ کیا۔ اس دور میں عناصر کو ترتیب دینے کے دو طریقے تھے۔ ایک طریقے میں ایواگاڈرو کے اصول کے مطابق ایٹمی وزن کی ترتیب سے اور دوسرے طریقے میں ان کی مشترکہ خصوصیات جیسا کہ دھاتیں، گیس وغیرہ کی بنیاد پر انہیں اکٹھا کیا جاتا تھا۔ مینڈیلیف کا کارنامہ ان دونوں طریقوں کو ملا کر ایک جدول بنانا تھا۔
جیسا کہ سائنس کی دنیا میں اکثر ہوتا ہے، یہ طریقہ انگلستان کے ایک شوقیہ کیمیا دان جان نیولینڈز نے اس سے تین سال قبل اختیار کیا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب عناصر کو ایٹمی اوزان کی ترتیب سے رکھا جاتا ہے تو ہر آٹھویں نمبر پر ان کی خصوصیات ایک جیسی ہوتی ہیں۔ نیولینڈز نے اسے ‘ہشتے کے قوانین’ کہا۔ اس کی بات میں شاید کچھ وزن تھا لیکن اس کے نظریے کا ہر جگہ مذاق اڑایا گیا۔ دلبرداشتہ ہو کر نیولینڈز نے یہ خیال ہی بھلا دیا۔
مینڈیلیف نے تھوڑے سے فرق سے یہی تکنیک استعمال کی۔ اس نے عناصر کو 7، 7 کے گروہوں میں بانٹا تو ہر چیز بامعنی ہو گئی۔ چونکہ خصوصیات بار بار دہرائی جاتی ہیں، اس لیے یہ دوری جدول کے نام سے مشہور ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ مینڈیلیف تاش میں سالیٹیئر یا پیشنس کے کھیل سے متاثر تھا۔ اس کھیل میں تاش کے پتے اپنی علامت کے اعتبار سے افقی اور قیمت کے اعتبار سے عمودی طور پر رکھے جاتے ہیں۔ اسی خیال کو وسیع پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے مینڈیلیف نے عناصر کو افقی قطاروں یعنی ادوار اور عمودی کالموں یعنی گروہوں میں رکھا۔ جب عناصر کو دائیں سے بائیں دیکھا جاتا تو ان کی کچھ خصوصیات مشترک ہوتیں اور اگر اوپر سے نیچے دیکھا جاتا تو کچھ اور خصوصیات مشترک ہوتیں۔ اس لیے تانبہ چاندی کے اوپر اور سونا چاندی کے اوپر اس لیے ہیں کہ یہ سب دھاتیں ہیں۔ اسی طرح ہیلیم، نیون اور آرگان کو ایک ہی کالم میں رکھا گیا ہے کہ یہ سب گیسیں ہیں۔ یہ ترتیب ویلنسی کے مطابق ہوتی ہے۔ افقی قطاروں میں عناصر کو ان کے مرکزے میں موجود پروٹانوں کی تعداد کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے جو ایٹمی نمبر کہلاتا ہے۔
ایٹموں کی ساخت اور پروٹانوں کی اہمیت پر اگلے باب میں بات کریں گے۔ ابھی آپ یوں سمجھ لیں کہ اس سے ترتیب آسان ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے مرکزے میں ایک پروٹان ہے اس لیے اس کا ایٹمی وزن بھی ایک ہے۔ اور اسے دوری جدول میں پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یورینیم کے مرکزے میں 92 پروٹان ہیں اور اسے دوری جدول کے آخر کے قریب رکھا گیا ہے کیونکہ اس کا ایٹمی نمبر 92 ہے۔ اس طرح سے فلپ بال کے مطابق کیمیا گنتی کا کام بن گیا ہے۔ ایٹمی نمبر اور ایٹمی وزن میں یہ فرق ہے کہ ایٹمی نمبر مرکزے میں پروٹانوں کی تعداد کو جبکہ ایٹمی وزن مرکزے کے پروٹان اور نیوٹران، دونوں کے مشترکہ وزن کو ظاہر کرتا ہے۔
ابھی بھی بہت کچھ یا تو معلوم نہیں تھا یا اس کی وجوہات کے بارے کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہائیڈروجن ہماری کائنات کا سب سے عام عنصر ہے تاہم یہ بات 30 سال بعد جا کر پتہ چلی۔ ہیلیم دوسرا عام ترین عنصر ہے اور اس کی دریافت دوری جدول سے ایک سال قبل ہوئی اور یہ دریافت زمین پر نہیں بلکہ سورج گرہن کے مشاہدے سے پتہ چلی۔ اس کی موجودگی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یونانی زبان میں سورج دیوتا کو ہیلیوس کہتے ہیں اور ہیلیم اسی سے نکلا ہے۔ 1895 میں اسے الگ کیا گیا۔ پھر بھی مینڈیلیف کی وجہ سے کیمیا کی بنیاد مضبوط ہو گئی۔
ہم لوگوں کے لیے دوری جدول ایک صاف ستھرا جدول ہے لیکن کیمیا دانوں کے لیے یہ بات اس سے زیادہ اہم ہے۔ ایک کیمیا دان رابرٹ کریبس نے اپنی کتاب The History and Use of Our Earth’s Chemical Elements میں لکھا ہے کہ دوری جدول آج تک بنائے گئے تمام جدولوں سے بہتر ہے۔ کیمیا کی تاریخ اسی طرح کی تعریفوں سے بھری ہوئی ہے۔
آج ہمارے پاس کل 120 کے لگ بھگ عناصر ہیں جن میں سے 92 قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جبکہ دیگر کو لیبارٹری میں بنایا جاتا ہے۔ اصل تعداد کے بارے ہم صد فیصد یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیدائش اور فنا کا درمیانی وقت ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے پر ہی محیط ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کیمیا دان بھی بعض اوقات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے عنصر کو دیکھا بھی ہے کہ نہیں۔ مینڈیلیف کے وقت میں دریافت شدہ عناصر کی تعداد 63 تھی لیکن اسے یہ بھی علم تھا کہ ابھی مزید عناصر دریافت ہونے باقی ہیں۔ اس لیے اس کے جدول میں کئی خانے خالی تھے جنہیں بالکل درستگی سے مطلوبہ جگہوں کو بعد ازاں بھرا گیا۔
کوئی نہیں جانتا کہ کل عناصر کی تعداد کیا ہے لیکن اندازہ ہے کہ 168 سے آگے کے ایٹمی وزن محض تخیل ہی ہیں۔ تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جوں جوں یہ عناصر دریافت ہوتے جائیں گے، مینڈیلیف کے دوری جدول میں انہیں درستگی سے رکھا جا سکے گا۔
18ویں صدی میں کیمیا دانوں کے لیے ایک نئی چیز بچی ہوئی تھی۔ 1896 میں جب ہنری بیکرل نے پیرس میں یورینیم کے ایک نمونے کو جب دراز میں رکھا تو اس کے نیچے فوٹوگرافک پلیٹ بھی لپٹی ہوئی رکھی تھی۔ کچھ عرصے بعد جب اس نے فوٹوگرافک پلیٹ نکالی تو اس پر یورینیم کا نقش ثبت تھا۔ ایسا لگا جیسے پلیٹ پر روشنی پڑی ہو۔ یورینیم سے شعاعیں نکل رہی تھیں۔
اس دریافت کی اہمیت سے قطع نظر، بیکرل نے عجیب کام یہ کیا کہ اس نے پولینڈ سے آئی ہوئی اپنی طالبہ میری کیوری کو تحقیق پر لگا دیا۔ اپنے شوہر پیئری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس نے دریافت کیا کہ کئی قسم کی چٹانیں مستقل اور غیر معمولی مقدار میں توانائی خارج کرتی رہتی ہیں جبکہ ان کے حجم یا وزن پر بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ چٹانیں در اصل مادے کو توانائی میں انتہائی عمدہ طریقے سے تبدیل کر رہی تھیں۔ اگلی دہائی میں آئن سٹائن نے اس کی وضاحت کی تھی۔ میری کیوری نے اپنی اس دریافت کو ریڈیو ایکٹوٹی یعنی تابکاری کا نام دیا۔ اس دوران میاں بیوی نے دو نئے عناصر پولونیم اور ریڈیم بھی دریافت کیے۔ پولونیم کا نام اس نے اپنے آبائی ملک پولینڈ کے نام پر رکھا۔ 1903 میں بیکرل اور میری کیوری اور اس کے شوہر کو مشترکہ طور پر طبعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔ 1911 میں میری کیوری کو کیمیا میں بھی نوبل انعام دیا گیا۔ طبعیات اور کیمیا میں نوبل انعام پانے والی یہ واحد انسان ہے۔
مانٹریال کی میک گل یونیورسٹی میں نیوزی لینڈ سے آئے ہوئے ارنسٹ ردرفورڈ نے تابکار عناصر میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اپنے ساتھی فریڈرک سوڈی کے ساتھ مل کر ردرفورڈ نے دریافت کیا کہ مادے کی چھوٹی مقدار میں انتہائی بڑی مقدار میں توانائی پوشیدہ ہے اور انہی تابکار عناصر سے پیدا ہونے والی توانائی زمین کو گرم رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ تابکار عناصر انحطاط سے گزر کر دوسرے عناصر بناتے ہیں۔ یعنی ایک دن اگر ہمارے پاس یورینیم کا ایک ایٹم ہے تو دوسرے دن وہ سیسے کا ایٹم بن جائے گا۔ یہ دریافت انتہائی اہم تھی۔ یہی چیز الکیمی تھی جس کے بارے کسی کو شبہ تک نہیں تھا کہ یہ کام فطرت میں خودبخود بھی ہوتا ہے۔
عملی انسان نہ ہونے کے باوجود ردرفورڈ نے اس کا عملی استعمال دیکھا۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کسی بھی خاص عنصر کی نصف مقدار ہمیشہ ایک مخصوص وقت کے بعد انحطاط کا شکار ہوتی ہے۔ اسے ہاف لائف (اگر آپ کو یہ بات سمجھ نہ آئے کہ کون سے نصف ایٹم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے انحطاط پذیر ہونا ہے اور کون سے نصف نہیں، تو یہ اصطلاح محض ایک شماریاتی اصطلاح ہے۔ یعنی اگر ایک نمونے کی ہاف لائف 30 سیکنڈ ہے تو ایسا نہیں کہ پورے 30 سیکنڈ بعد آدھے ایٹم انحطاط پذیر ہو جائیں گے۔ کسی ایٹم میں یہ کام دو سیکنڈ میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی میں برسوں بعد بھی نہ ہو۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی نمونے میں دیے گئے ایٹموں کی نصف تعداد ہر تیس سیکنڈ بعد انحطاط کا شکار ہوتی جائے گی۔ تاہم یہ عام اصول ہے اور اسے کہیں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ امریکی ڈائم کی ہاف لائف 30 سال ہے ) کہا جاتا ہے۔ یہ عمل اتنا قابلِ اعتبار ہے کہ اسے وقت کی پیمائش کے لیے بھی استمعال کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی عنصر میں تابکاری کی موجودہ مقدار کو جانچ کر اور یہ دیکھ کر کہ انحطاط کی کیا شرح ہے، ہم کسی بھی مادے کی عمر کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس نے پچ بلینڈ کے ایک نمونے کو جانچا جو یورینیم سے متعلق ہے اور اس نے اس کی عمر کا اندازہ 70 کروڑ سال لگایا۔ اس وقت زمین کی عمر اس سے کہیں کم مانی جاتی تھی۔
1904 کے موسمِ بہار میں ردرفورڈ لندن گیا تاکہ رائل انسٹی ٹیوشن میں اپنا مقالہ پیش کر سکے۔ ردرفورڈ وہاں انحطاط پر بات کرنے گیا تھا اور پچ بلینڈ کا ٹکڑا بھی ساتھ لے گیا۔ وہاں کیلون بھی موجود تھا۔ ردرفورڈ کی خوش قسمتی کہ کیلون پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زمین کی حرارت سے متعلق کسی نئے ذریعے کی تلاش سے اس کا نظریہ باطل ہو جائے گا۔ اس طرح ردرفورڈ نے کیلون کے نظریے کو رد کر دیا جس کے مطابق زمین کی عمر اڑھائی کروڑ سال تھی۔
کیلون نے ردرفورڈ کے نظریے کی داد تو دی لیکن اسے قبول نہیں کیا۔ مرتے دم تک اسے اپنے حساب کتاب پر ہی بھروسہ تھا اور اس کے خیال میں حرحرکی قوانین میں کیے گئے کام کی نسبت یہ کام زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔
ہر سائنسی انقلاب کی طرح ردرفورڈ کے نظریے کو بھی ہر جگہ پذیرائی نہیں ملی۔ ڈبلن کے جان جولی نے 1930 کی دہائی تک پر زور طریقے سے کہنا جاری رکھا کہ زمین کی عمر 9 کروڑ سال سے ذرا کم ہے اور مرتے دم تک وہ اسی پر قائم رہا۔ ردرفورڈ کے حامی بھی یہ سوچنے لگے کہ کہیں ردرفورڈ نے بہت زیادہ تو عمر نہیں بتا دی۔ اس تکنیک کو ریڈیو میٹرک پیمائش کا نام دیا گیا اور اس میں کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد ہم آج یہ بتانے کے قابل ہو گئے ہیں کہ زمین کی عمر کتنی ہے اور اس میں غلطی کا امکان ایک ارب سال کی کمی بیشی تک کا ہے۔ سائنس درست راستے پر تو چڑھ گئی تھی لیکن ابھی بھی منزل بہت دور تھی۔
کیلون نے 1907 میں وفات پائی۔ اسی سال دمیتری مینڈیلیف بھی فوت ہوا۔ کیلون کی نسبت مینڈیلیف کی ڈھلتی عمر کا کام زیادہ متنازعہ ہوتا گیا۔ مثال کے طور پر اس کا خیال تھا کہ تابکاری کا کوئی وجود نہیں اور الیکٹران یا دیگر کوئی ایسے ذرات بھی موجود نہیں جن کا سمجھنا دشوار ہو۔ آخری برسوں میں اسے بار بار لیکچر ہالوں اور لیبارٹریوں سے خفا ہو کر نکلتے دیکھا گیا۔ 1955 میں 101 نمبر والے عنصر کو اس کے نام پر مینڈیلیویم کہا گیا۔ شومیِ قسمت، یہ عنصر غیر مستحکم ہے۔
تابکاری پر کام جاری و ساری رہا۔ 1900 کے اوائل میں پیئری کیوری میں تابکاری سے متعلق بیماری کی علامات شروع ہو گئیں جن کی علامات ہڈیوں میں درد اور طبعیت کی خرابی اہم تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیماریاں بڑھتی گئیں۔ تاہم اس بارے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ 1906 میں پیرس کی ایک سڑک عبور کرتے ہوئے گاڑی کے نیچے آ کر اس کی ہلاکت ہوئی۔
میری کیوری نے اپنی بقیہ زندگی انتہائی وقار اور کامیابی سے تحقیق کرتے گزاری۔ اس نے پیرس کی یونیورسٹی میں 1914 میں مشہورِ زمانہ ریڈیم انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ اپنے دو نوبل انعامات کے باوجود اسے اکیڈمی آف سائنس کے لیے کبھی منتخب نہیں کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد میری کیوری نے ایک شادی شدہ طبعیات دان سے معاشقہ شروع کر دیا تھا۔
بہت طویل عرصے تک عام سمجھا جاتا تھا کہ تابکاری جیسی حیرت انگیز چیز بہت مفید ہو گی۔ برسوں تک ٹوتھ پیسٹ اور قبض کشا ادویات میں تابکار تھوریم شامل کی جاتی رہی۔ 1920 کی دہائی میں گلین سپرنگز ہوٹل جو نیویارک کے علاقے میں قائم تھا، فخریہ انداز میں ‘تابکار معدنی چشمے ‘ کے عنوان سے اپنی مشہوری کرتا رہا۔ 1938 میں صارفین کے استعمال کی چیزوں میں تابکار عناصر کے استعمال کو بند کیا گیا۔ تاہم اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی کہ میری کیوری کا انتقال 1934 میں لیکومیا سے ہوا۔ تابکاری کے انتہائی طویل عرصے تک خطرناک ہونے کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ میری کیوری کے 1890 کی دہائی کے کاغذات، حتیٰ کہ اس کی کھانا بنانے کی تراکیب والی کتب سیسے سے بنے ڈبوں میں بند ہیں کہ ابھی تک ان میں موجود تابکاری کی مقدار خطرناک حد تک بلند ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل کے برسوں میں کیے گئے اولین تابکاری کے ماہرین کے کام کی بدولت ان کی جانوں کو تو خطرہ لاحق ہوا لیکن انہوں نے بتایا کہ زمین سچ میں بہت پرانی ہے۔ اگرچہ اس بات کا تعین کرنے میں مزید پچاس سال لگے کہ زمین کتنی پرانی ہے۔ اسی دوران سائنس نے ایک نئی جہت اختیار کی جسے ایٹمی دور کا نام دیا جاتا ہے۔
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید