FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بدن چوپال

منور رانا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


ہاں اجازت ہے اگر کوئی کہانی اور ہے

ان کٹوروں میں ابھی تھوڑا سا پانی اور ہے

مذہبی مزدور سب بیٹھے ہیں ان کو کام دو

اک عمارت شہر میں کافی پرانی اور ہے

خامشی کب چیخ بن جائے کسے معلوم ہے

ظلم کر لو جب تلک یہ بے زبانی اور ہے

خشک پتے آنکھ میں چبھتے ہیں کانٹوں کی طرح

دشت میں پھرنا الگ ہے باغبانی اور ہے

پھر وہی اکتاہٹیں ہوں گی بدن چوپال میں

عمر کے قصے میں تھوڑی سی جوانی اور ہے

بس اسی احساس کی شدت نے بوڑھا کر دیا

ٹوٹے پھوٹے گھر میں اک لڑکی سیانی اور ہے

٭٭٭

 

تمہارے پاس ہی رہتے نہ چھوڑ کر جاتے

تمھیں نوازتے تو کیوں ادھر ادھر جاتے

کسی کے نام سے منسوب یہ عمارت تھی

بدن سرائے نہیں تھا کہ سب ٹھہر جاتے

٭٭٭

سرقے کا کوئی شعر غزل میں نہیں رکھا

ہم نے کسی لونڈی کو محل میں نہیں رکھا

مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے

مٹی کو کسی تاج محل میں نہیں رکھا

٭٭٭

 

کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا

وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا

وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتہ نہیں چلتا

الجھ کے رہ گیا سیلاب قریۂ دل سے

نہیں تو دیدۂ تر کا پتہ نہیں چلتا

اسے بھی کھڑکیاں کھولے زمانہ بیت گیا

مجھے بھی شام و سحر کا پتہ نہیں چلتا

یہ منصبوں کا علاقہ ہے اس لئے شائد

کسی کے نام سے گھر کا پتہ نہیں چلتا

٭٭٭


جرأت سے ہر نتیجے کی پروا کیے بغیر

دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر

یہ شہرِ احتجاج ہے خاموش مت رہو

حق بھی نہیں ملے گا تقاضہ کیے بغیر

پھر ایک امتحاں سے گزرنا ہے عشق کو

روتا ہے وہ بھی آنکھ کو میلا کیے بغیر

پتے ہوا کا جسم چھپاتے رہے مگر

مانی نہیں ہوا بھی برہنہ کیے بغیر

اب تک تو شہرِ دل کو بچائے ہیں ہم مگر

دیوانگی نہ مانے گی صحرا کیے بغیر

اس سے کہو کہ جھوٹ ہی بولے تو ٹھیک ہے

سچ بولتا نہ ہو کبھی نشّہ کیے بغیر

٭٭٭

 

بند کر کھیل تماشا ہمیں نیند آتی ہے

اب تو سو جانے دے دنیا ہمیں نیند آتی ہے

ڈوبتے چاند ستاروں نے کہا ہے ہم سے

تم ذرا جاگتے رہنا ہمیں نیند آتی ہے

دل کی خواہش کہ ترا راستہ دیکھا جائے

اور آنکھوں کا یہ کہنا ہمیں نیند آتی ہے

اپنی یادوں سے ہمیں اب تو رہائی دے دے

اب تو زنجیر نہ پہنا ہمیں نیند آتی ہے

چھاؤں پاتا ہے مسافر تو ٹھہر جاتا ہے

زلف کو ایسے نہ بکھرا ہمیں نیند آتی ہے

٭٭٭


ان سے ملیے جو یہاں پھیر بدل والے ہیں

ہم سے مت بولئے ہم لوگ غزل والے ہیں

کیسے شفاف لباسوں میں نظر آتے ہیں

کون مانے گا کہ یہ سب وہی کل والے ہیں

لوٹنے والے اسے قتل نہ کرتے لیکن

اس نے پہچان لیا تھا کہ بغل والے ہیں

اب تو مل جل کے پرندوں کو رہنا ہوگا

جتنے تالاب ہیں سب نیل کمل والے ہیں

یوں بھی اک پھوس کے چھپر کی حقیقت کیا تھی

اب انہیں خطرہ ہے جو لوگ محل والے ہیں

بے کفن لاشوں کے انبار لگے ہیں لیکن

فخر سے کہتے ہیں ہم تاج محل والے ہیں

٭٭٭

 

رونے میں اک خطرہ ہے، تالاب، ندی ہو جاتے ہیں

ہنسنا بھی آسان نہیں ہے، لب زخمی ہو جاتے ہیں

اسٹیشن سے واپس آ کر بوڑھی آنکھیں سوچتی ہیں

پتے دیہاتی ہوتے ہیں، پھل شہری ہو جاتے ہیں

گاؤں کے بھولے بھالے باسی، آج تلک یہ کہتے ہیں

ہم تو نہ لیں گے جان کسی کی، رام دکھی ہو جاتے ہیں

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے

رہتے  رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

سب سے ہنس کر ملیے جلئے، لیکن اتنا دھیان رہے

سب سے ہنس کر ملنے والے، رسوا بھی ہو جاتے ہیں

اپنی انا کو بیچ کے اکثر لقمۂ تر کی چاہت میں

کیسے کیسے سچے شاعر درباری ہو جاتے ہیں

٭٭٭


خون رلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن

سب چلے جائیں گے خالی کر کے بستی ایک دن

چوستا رہتا ہے رس بھونرا ابھی تک دیکھ لو

پھول نے بھولے سے کی تھی سرپرستی ایک دن

دینے والے نے طبیعت کیا عجب دی ہے اسے

ایک دن خانہ بدوشی گھر گرہستی ایک دن

کیسے کیسے لوگ دستاروں کے مالک ہو گئے

بک رہی تھی شہر میں تھوڑی سی سستی ایک دن

تم کو اے ویرانیو شائد نہیں معلوم ہے

ہم بنائیں گے اسی صحرا کو بستی ایک دن

روز و شب ہم کو بھی سمجھاتی ہے مٹی قبر کی

خاک میں مل جائے گی تیری بھی ہستی ایک دن

٭٭٭

 

مہاجر نامہ

مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں

تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے

کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں

پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی

وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی

کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے

نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے

وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد

ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے

ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے

اجنتا چھوڑ آئے ہیں الورا چھوڑ آئے ہیں

سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے

دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں

اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب

الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی

کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں

کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی

کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی

اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے

کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی

وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی

کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر

کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں

سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی

ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے

مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی

میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے

کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا

جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے

مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں

ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا

جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں

۔ق۔

کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو

جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں

وہ حیرت سے ہمیں  تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا

وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں

ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے

ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا

مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر

تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے

چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں

سڑک بھی شیر شاہی آ گئی تقسیم کی زد میں

تجھے ہم کر کے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو

بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے

کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی

وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے

ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی

وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے

کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں

٭٭٭

 

میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی

میں لہجہ نرم بھی کر لوں تو جھنجھلاہٹ نہیں جاتی

میں اک دن بے خیالی میں کہیں سچ بول بیٹھا تھا

میں کوشش کر چکا ہوں منہ کی کڑواہٹ نہیں جاتی

جہاں میں ہوں وہیں آواز دینا جرم ٹھہرا ہے

جہاں وہ ہے وہاں تک پاؤں کی آہٹ نہیں جاتی

محبت کا یہ جذبہ جب خدا کی دین ہے بھائی

تو میرے راستے سے کیوں یہ دنیا ہٹ نہیں جاتی

وہ مجھ سے بے تکلف ہو کے ملتا ہے مگر رانا

نہ جانے کیوں میرے چہرے سے گھبراہٹ نہیں جاتی

٭٭٭

 

جسے دشمن سمجھتا ہوں وہی اپنا نکلتا ہے

ہر اک پتھر سے میرے سر کا کچھ رشتہ نکلتا ہے

ڈرا دھمکا کے تم ہم سے وفا کرنے کو کہتے ہو

کہیں تلوار سے بھی پاؤں کا کانٹا نکلتا ہے؟

ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی

مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

فضا میں گھول دی ہیں نفرتیں اہل سیاست نے

مگر پانی کوئیں سے آج تک میٹھا نکلتا ہے

جسے بھی جرمِ غداری میں تم سب قتل کرتے ہو

اسی کی جیب سے کیوں ملک کا جھنڈا نکلتا ہے

دوائیں ماں کی پہنچانے کو میلوں میل آتی ہیں

کہ جب پردیس جانے کے لئے بیٹا نکلتا ہے

٭٭٭


عجب دنیا ہے ناشاعر یہاں پر سر اٹھاتے ہیں

جو شاعر ہیں وہ محفل میں دری چادر اٹھاتے ہیں

تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں

انھیں فرقہ پرستی مت سکھا دینا کہ یہ بچے

زمیں سے چوم کر تتلی کے ٹوٹے پر اٹھاتے ہیں

سمندر کے سفر سے واپسی کا کیا بھروسہ ہے

تو اے ساحل خدا حافظ، کہ ہم لنگر اٹھاتے ہیں

غزل ہم تیرے عاشق ہیں مگر اس پیٹ کی خاطر

قلم کس پر اٹھانا تھا قلم کس پر اٹھاتے ہیں

برے چہروں کی جانب دیکھنے کی حد بھی ہوتی ہے

سنبھلنا آئینہ خانو، کہ ہم پتھر اٹھاتے ہیں

٭٭٭


ہماری دوستی سے دشمنی شرمائی رہتی ہے

ہم اکبر ہیں ہمارے دل میں جودھا بائی رہتی ہے

کسی کا پوچھنا کب تک ہمارے راہ دیکھو گے

ہمارا فیصلہ جب تک کہ یہ بینائی رہتی ہے

میری صحبت میں بھیجو تاکہ اس کا ڈر نکل جائے

بہت سہمی ہوئے دربار میں سچائی رہتی ہے

گلے شکوے ضروری ہیں اگر سچی محبت ہے

جہاں پانی بہت گہرا ہو، تھوڑی کائی رہتی ہے

بس اک دن پھوٹ کر رویا تھا میں تیری محبت میں

مگر آواز میری آج تک بھرائی رہتی ہے

خدا محفوظ رکھے ملک کو گندی سیاست سے

شرابی دیوروں کے بیچ میں بھوجائی رہتی ہے

٭٭٭

 

کئی گھروں کو نگلنے کے بعد آتی ہے

مدد بھی شہر کے جلنے کے بعد آتی ہے

نہ جانے کیسی مہک آ رہی ہے بستی میں

وہی جو دودھ ابلنے کے بعد آتی ہے

ندی پہاڑوں سے میدان میں تو آتی ہے

مگر یہ برف پگھلنے کے بعد آتی ہے

وہ نیند جو تیری پلکوں کے خواب بنتی ہے

یہاں تو دھوپ نکلنے کے بعد آتی ہے

یہ جھگیاں تو غریبوں کی خانقاہیں ہیں

قلندری یہاں پلنے کے بعد آتی ہے

گلاب ایسے ہی تھوڑے گلاب ہوتا ہے

یہ بات کانٹوں پہ چلنے کے بعد آتی ہے

شکایتیں تو ہمیں موسم بہار سے ہیں

خزاں تو پھولنے پھلنے کے بعد آتی ہے

٭٭٭


مٹی میں ملا دے کہ جدا ہو نہیں سکتا

اب اس سے زیادہ میں ترا ہو نہیں سکتا

دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں

روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا

بس تو مری آواز میں آواز ملا دے

پھر دیکھ کہ اس شہر میں کیا ہو نہیں سکتا

اے موت مجھے تونے مصیبت سے نکالا

صیاد سمجھتا تھا رہا ہو نہیں سکتا

اس خاک بدن کو کبھی پہنچا دے وہاں بھی

کیا اتنا کرم بادِ صبا، ہو نہیں سکتا

پیشانی کو سجدے بھی عطا کر مرے مولیٰ

آنکھوں سے تو یہ قرض ادا ہو نہیں سکتا

٭٭٭

 

جب بھی دیکھا مرے کردار  پہ دھبا کوئی

دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی

لوگ ماضی کا بھی اندازہ لگا لیتے ہیں

مجھ کو تو یاد نہیں کل کا بھی قصہ کوئی

بے سبب آنکھ میں آنسو نہیں آیا کرتے

آپ سے ہوگا یقیناً  مرا رشتہ کوئی

یاد آنے لگا ایک دوست کا برتاؤ مجھے

ٹوٹ کر گر پڑا جب شاخ سے پتّہ کوئی

بعد میں ساتھ نبھانے کی قسم کھا لینا

دیکھ لو جلتا ہوا پہلے پتنگا کوئی

اس کو کچھ دیر سنا لیتا ہوں رودادِ سفر

راہ میں جب کبھی مل جاتا ہے اپنا کوئی

کیسے سمجھیگا بچھڑنا وہ کسی کا رانا

ٹوٹتے دیکھا نہیں جس نے ستارہ کوئی

٭٭٭

 

امیر شہر کو تلوار کرنے والا ہوں

میں جی حضوری سے انکار کرنے والا ہوں

کہو اندھیرے سے دامن سمیٹ لے اپنا

میں جگنوؤں کو علم دارکرنے والا ہوں

تم اپنے شہر کے حالات جان سکتے ہو

میں اپنے آپ کو اخبار کرنے والا ہوں

میں چاہتا تھا کہ چھوٹے نہ ساتھ بھائی کا

مگر وہ سمجھا کہ میں وار کرنے والا ہوں

بدن کا کوئی بھی حصہ خرید سکتے ہو

میں اپنے جسم کو بازار کرنے والا ہوں

تم اپنی آنکھوں سے سننا مری کہانی کو

لب خموش سے اظہار کرنے والا ہوں

ہماری راہ میں حائل کوئی نہیں ہوگا

تو ایک دریا ہے میں پار کرنے والا ہوں

٭٭٭

 

کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا

تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا

یہ سوچ کر کہ تیرا انتظار لازم ہے

تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

یہاں تو جو بھی ہے آب رواں کا عاشق ہے

کسی نے خشک ندی کی طرف نہیں دیکھا

وہ جس کے واسطے پردیس جا رہا ہوں میں

بچھڑتے وقت اسی کی طرف نہیں دیکھا

نہ روک لے ہمیں روتا ہوا کوئی چہرہ

چلے تو مڑ کے گلی کی طرف نہیں دیکھا

بچھڑتے وقت بہت مطمئن تھے ہم دونوں

کسی نے مڑ کے کسی کی طرف نہیں دیکھا

روش بزرگوں کی شامل ہے میری گھٹّی میں

ضرورتاً بھی سخی کی طرف نہیں دیکھا

٭٭٭


سمجھوتوں کی بھیڑ بھاڑ میں سب سے رشتہ ٹوٹ گیا

اتنے گھٹنے ٹیکے ہم نے آخر گھٹنا ٹوٹ گیا

دیکھ شکاری تیرے کارن ایک پرندہ ٹوٹ گیا

پتھر کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن شیشہ ٹوٹ گیا

گھر کا بوجھ اٹھانے والے بچے کی تقدیر نہ پوچھ

بچپن گھر سے باہر نکلا اور کھلونا ٹوٹ گیا

کس کو فرصت اس محفل میں غم کی کہانی پڑھنے کی

سونی کلائی دیکھ کے لیکن چوڑی والا ٹوٹ گیا

پیٹ کی خاطر فٹ پاتھوں پہ بیچ رہا ہوں تصویریں

میں کیا جانوں روزہ ہے یا میرا روزہ ٹوٹ گیا

یہ منظر بھی دیکھے ہم نے اس دنیا کے میلے میں

ٹوٹا پھوٹا ناچ رہا ہے اچھا خاصا ٹوٹ گیا

٭٭٭

 

ہم کبھی جب درد کے قصے سنانے لگ گئے

لفظ پھولوں کی طرح خوشبو لٹانے لگ گئے

لوٹنے میں کم پڑے گی عمر کی پونجی ہمیں

آپ تک آنے ہی میں ہم کو زمانے لگ گئے

آپ نے آباد ویرانے کئے ہوں گے بہت

آپ کی خاطر مگر ہم تو ٹھکانے لگ گئے

دل سمندر کے کنارے کا وہ حصہ ہے جہاں

شام ہوتے ہی بہت سے شامیانے لگ گئے

بے بسی تیری عنایت ہے کہ ہم بھی آج کل

اپنے آنسو اپنے دامن پر بہانے لگ گئے

انگلیاں تھامے ہوئے بچے چلے اسکول کو

صبح ہوتے ہی پرندے چہچہانے لگ گئے

کرفیو میں اور کیا کرتے مدد اک لاش کی

بس اگر بتی کی صورت ہم سرہانے لگ گئے

٭٭٭


تجھ میں سیلابِ بلا تھوڑی جوانی کم ہے

ایسا لگتا ہے مری آنکھوں میں پانی کم ہے

کچھ تو ہم رونے کے آداب سے ناواقف ہیں

اور کچھ چوٹ بھی شائد یہ پرانی کم ہے

اس سفر کے لئے کچھ زادِ سفر اور ملے

جب بچھڑنا ہے تو پھر ایک نشانی کم ہے

شہر کا شہر بہا جاتا ہے تنکے کی طرح

تم تو کہتے تھے کہ اشکوں میں روانی کم ہے

کیسا سیلاب تھا آنکھیں بھی نہیں بہہ پائیں

غم کے آگے یہ مری مرثیہ خوانی کم ہے

منتظر ہوں گی یہاں پر بھی کسی کی آنکھیں

یہ گزارش ہے مری یاد دہانی کم ہے

٭٭٭


ہنستے ہوئے ماں باپ کی گالی نہیں کھاتے

بچے ہیں تو کیوں شوق سے مٹی نہیں کھاتے

تم سے نہیں ملنے کا ارادہ تو ہے لیکن

تم سے نہ ملیں گے یہ قسم بھی نہیں کھاتے

سو جاتے ہیں ٖفٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

بچے بھی غریبی کو سمجھنے لگے شائد

اب جاگ بھی جاتے ہیں تو سحری نہیں کھاتے

دعوت تو بڑی چیز ہے ہم جیسے قلندر

ہر ایک کے پیسوں کی دوا بھی نہیں کھاتے

اللہ غریبوں کا مددگار ہے رانا

ہم لوگوں کے بچے کبھی سردی نہیں کھاتے

٭٭٭


خوبصورت جھیل میں ہنستا کنول بھی چاہئیے

ہے گلا اچھا تو پھر اچھی غزل بھی چاہئیے

اٹھ کے اس ہنستی ہوئی دنیا سے جا سکتا ہوں میں

اہلِ محفل کو مگر میرا بدل بھی چاہئیے

صرف پھولوں سے سجاوٹ پیڑ کی ممکن نہیں

میری شاخوں کو نئے موسم میں پھل بھی چاہئیے

اے میری خاکِ وطن! تیرا سگا بیٹا ہوں میں

کیوں رہوں ٖفٹ پاتھ پر، مجھ کو محل بھی چاہئیے

دھوپ وعدوں کی بری لگنے لگی ہے اب ہمیں

صرف تعریفیں نہیں، اردو کا حل بھی چاہئیے

تونے ساری بازیاں جیتی ہیں مجھ پر بیٹھ کر

اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں اصطبل بھی چاہئیے

٭٭٭


ہمارا تیر کچھ بھی ہو نشانے تک پہنچتا ہے

پرندہ کوئی موسم ہو ٹھکانے تک پہنچتا ہے

دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بادل دوڑ پڑتا ہے

خوشی سے کون بچہ کارخانے تک پہنچتا ہے

ہماری مفلسی پر آپ کو ہنسنا مبارک ہو

مگر یہ طنز ہر سید گھرانے تک پہنچتا ہے

میں چاہوں تو مٹھائی کی دوکانیں کھول سکتا ہوں

مگر بچپن ہمیشہ رام دانے تک پہنچتا ہے

ابھی اے زندگی تم کو ہمارا ساتھ دینا ہے

ابھی بیٹا ہمارا صرف شانے تک پہنچتا ہے

سفر کا وقت آ جائے تو پھر کوئی نہیں رکتا

مسافر خود سے چل کر آب و دانے تک پہنچتا ہے

٭٭٭


امید بھی کردار پہ پوری نہیں اتری

یہ شب دلِ بیمار پہ پوری نہیں اتری

کیا خوف کا منظرتھا تیرے شہر میں کل رات

سچائی بھی اخبار میں پوری نہیں اتری

تصویر میں ایک رنگ ابھی چھوٹ رہا ہے

شوخی ابھی رخسارپہ پوری نہیں اتری

پراس کے کہیں،جسم کہیں، خود وہ کہیں ہے

چڑیا کبھی مینار پہ پوری نہیں اتری

ایک تیرے نہ رہنے سے بدل جاتا ہے سب کچھ

کل دھوپ بھی دیوار پہ پوری نہیں اتری

میں دنیا کے معیار پہ پورا نہیں اترا

دنیا میرے معیار پہ پوری نہیں اتری

٭٭٭


جب کبھی دھوپ کی شدت نے ستایا مجھ کو

یاد آیا بہت اک پیڑ کا سایہ مجھ کو

اب بھی روشن ہے تری یاد سے گھر کے کمرے

روشنی دیتا ہے اب تک ترا سایہ مجھ کو

میری خواہش تھی کہ میں روشنی بانٹوں سب کو

زندگی تونے بہت جلد بجھایا مجھ کو

چاہنے والوں نے کوشش تو بہت کی لیکن

کھو گیا میں تو کوئی ڈھونڈ نہ پایا مجھ کو

سخت حیرت میں پڑی موت یہ جملہ سن کر

آ، ادا کرنا ہے سانسوں کا کرایا مجھ کو

شکریہ تیرا ادا کرتا ہوں جاتے جاتے

زندگی تونے بہت روز بچایا مجھ کو

٭٭٭

 

آنکھوں میں کوئی خواب سنہرا نہیں آتا

اس جھیل پہ اب کوئی پرندہ نہیں آتا

حالات نے چہرے کی چمک دیکھ لی ورنہ

دوچار برس میں تو بڑھاپا نہیں آتا

مدت سے تمنائیں سجی بیٹھی ہیں دل میں

اس گھر میں بڑے لوگوں کا رشتہ نہیں آتا

اس درجہ مسائل کے جہنم میں جلا ہوں

اب کوئی بھی موسم ہو پسینہ نہیں آتا

میں ریل میں بیٹھا ہوا یہ سوچ رہا ہوں

اس دہر میں آسانی سے پیسہ نہیں آتا

اب قوم کی تقدیر بدلنے کو اٹھے ہیں

جن لوگوں کو بچپن ہی میں کلمہ نہیں آتا

بس تیری محبت میں چلا آیا ہوں ورنہ

یوں سب کے بلا لینے سے رانا نہیں آتا

٭٭٭

 

تو کبھی دیکھ تو روتے ہوئے آ کر مجھ کو

روکنا پڑتا ہے آنکھوں سے سمندر مجھ کو

اس میں آوارہ مزاجی کا کوئی دخل نہیں

دشت و صحرا میں پھراتا ہے مقدر مجھ کو

ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا مسافر ہوں میں

ہاں نگل جائے گا ایک روز سمندر مجھ کو

اس سے بڑھ کر مری توہینِ انا کیا ہوگی

اب گدا گر بھی سمجھتے ہیں گدا گر مجھ کو

زخم چہرے پہ، لہو آنکھوں میں، سینہ چھلنی

زندگی اب تو اڑھا دے کوئی چادر مجھ کو

میری آنکھوں کو وہ بینائی عطا کر مولیٰ

ایک آنسو بھی نظر آئے سمندر مجھ کو

کوئی اس بات کو مانے کہ نہ مانے لیکن

چاند لگتا ہے ترے ماتھے کا جھومر مجھ کو

دکھ تو یہ ہے مرا دشمن ہی نہیں ہے کوئی

یہ مرے بھائی ہیں کہتے ہیں جو بابر مجھ کو

مجھ سے آنگن کا اندھیرا بھی نہیں مٹ پایا

اور دنیا ہے کہ کہتی ہے منور مجھ کو

٭٭٭

 

اگر دولت سے ہی سب قد کا اندازہ لگاتے ہیں

تو پھر اے مفلسی ہم داؤ  پر کاسہ لگاتے ہیں

انہیں کو سر بلندی بھی عطا ہوتی ہے دنیا میں

جو اپنے سر کے نیچے ہاتھ کا تکیہ لگاتے ہیں

ہمارا سانحہ ہے یہ کہ اس دورِ حکومت میں

شکاری کے لئے جنگل میں ہم ہانکا لگاتے ہیں

وہ شاعر ہوں کہ عالم ہوں کہ تاجر یا لٹیرے ہوں

سیاست وہ جوا ہے جس میں سب پیسہ لگاتے ہیں

اگا رکھے ہیں جنگل نفرتوں کے ساری بستی میں

مگر گملے میں میٹھی نیم کا پودا لگاتے ہیں

زیادہ دیر تک مردے کبھی رکھے نہیں جاتے

شرافت کے جنازے کو چلو کاندھا لگاتے ہیں

غزل کی سلطنت پر آج تک قبضہ ہمارا ہے

ہم اپنے نام کے آگے ابھی رانا لگاتے ہیں

٭٭٭

 

اتنا روئے تھے لپٹ کر درو دیوار سے ہم

شہر میں آ کے بہت دن رہے بیمار سے ہم

اپنے بکنے کا بہت دکھ ہے ہمیں بھی لیکن

مسکراتے ہوئے ملتے ہیں خریدار سے ہم

صلح بھی اس سے ہوئی جنگ میں بھی ساتھ رہی

مختلف کام لیا کرنے ہیں تلوار سے ہم

سنگ آتے تھے بہت چاروں طرف سے گھر میں

اس لئے ڈرتے ہیں اب شاخ ثمردار سے ہم

سائباںہو، ترا آنچل ہو کہ چھت ہو لیکن

بچ نہیں سکتے ہیں رسوائی کی بوچھار سے ہم

٭٭٭

 

کچھ میری وفاداری کا انعام دیا جائے

الزام ہی دینا ہے تو الزام دیا جائے

یہ آپ کی محفل ہے تو پھر کفر ہے انکار

یہ آپ کی خواہش ہے تو پھر جام دیا جائے

ترشول کی تقسیم اگر جرم نہیں ہے

ترشول بنانے کا ہمیں کام دیا جائے

کچھ فرقہ پرستوں کے گلے بیٹھ رہے ہیں

سرکار ! انھیں روغنِ بادام دیا جائے

٭٭٭

 

نہ میں کنگھی بناتا ہوں نہ میں چوٹی بناتا ہوں

غزل میں آپ بیتی کو میں جگ بیتی بناتا ہوں

غزل وہ صنف نازک ہے جسے اپنی رفاقت سے

وہ محبوبہ بنا لیتا ہے میں بیٹی بناتا ہوں

حکومت کا ہر ایک انعام ہے بندوق سازی پر

مجھے کیسے ملے گا میں تو بیساکھی بناتا ہوں

مرے آنگن کی کلیوں کو تمنا شاہزادوں کی

مگر میری مصیبت ہے کہ میں بیڑی بناتا ہوں

سزا کتنی بڑی ہے گاؤں سے باہر نکلنے کی

میں مٹی گوندھتا تھا اب ڈبل روٹی بناتا ہوں

وزارت چند گھنٹوں کی، محل مینار سے اونچا

میں اورنگزیب ہوں اپنے لئے کھچڑی بناتا ہوں

بس اتنی التجا ہے تم اسے گجرات مت کرنا

تمہیں اس ملک کا مالک میں جیتے جی بناتا ہوں

مجھے اس شہر کی سب لڑکیاں آداب کرتی ہیں

میں بچوں کی کلائی کے لئے راکھی بناتا ہوں

تجھے اے زندگی اب قید خانے سے گزرنا ہے

تجھے میں اس لئے دکھ درد کا عادی بناتا ہوں

میں اپنے گاؤں کا مکھیہ بھی ہوں بچوں کا قاتل بھی

جلاکر دودھ کچھ لوگوں کی خاطر گھی بناتا ہوں

٭٭٭


میرے کمرے میں اندھیرا نہیں رہنے دیتا

آپ کا غم مجھے تنہا نہیں رہنے دیتا

وہ تو یہ کہئے کہ شمشیر زنی آتی تھی

ورنہ دشمن ہمیں زندہ نہیں رہنے دیتا

مفلسی گھر میں ٹھہرنے نہیں دیتی ہم کو

اور پردیس میں بیٹا نہیں رہنے دیتا

تشنگی میرا مقدر ہے اسی سے شائد

میں پرندوں کو بھی پیاسا نہیں رہنے دیتا

ریت پر کھیلتے بچوں کو ابھی کیا معلوم

کوئی سیلاب گھروندہ نہیں رہنے دیتا

غم سے لچھمن کی طرح بھائی کا رشتہ ہے میرا

مجھ کو جنگل میں اکیلا نہیں رہنے دیتا

٭٭٭

 

مری تھکن کے حوالے بدلتی رہتی ہے

مسافرت مرے چھالے بدلتی رہتی ہے

میں زندگی! تجھے کب تک بچا کے رکھوں گا

یہ موت روز نوالے بدلتی رہتی ہے

خدا بچائے ہمیں مذہبی سیاست سے

یہ کھیل کھیل میں پالے بدلتی رہتی ہے

امید روز وفادار خادمہ کی طرح

تسلیوں کے پیالے بدلتی رہتی ہے

تجھے خبر نہیں شائد کہ تیری رسوائی

ہمارے ہونٹوں کے تالے بدلتی رہتی ہے

ہماری آرزو معصوم لڑکیوں کی طرح

سہیلیوں سے دوشالے بدلتی رہتی ہے

بڑی عجیب ہے دنیا طوائفوں کی طرح

ہمیشہ چاہنے والے بدلتی رہتی ہے

٭٭٭


جگمگاتے ہوئے شہروں کو تباہی دے گا

اور کیا ملک کو مغرور سپاہی دے گا

پیڑ امیدوں کا یہ سوچ کے کاٹا نہ کبھی

پھل نہ آ پائیں گے اس میں تو ہوا ہی دے گا

تم نے خود ظلم کو معیارِ حکومت سمجھا

اب بھلا کون تمہیں مسندِ شاہی دے گا

جس میں صدیوں سے غریبوں کا لہو جلتا ہو

وہ دیا روشنی کیا دے گا سیاہی دے گا

منصفِ وقت ہے تو اور میں مظلوم مگر

تیرا قانون مجھے پھر بھی سزا ہی دے گا

کس میں ہمت ہے جو سچ بات کہے گا رانا

کون ہے اب جو میرے حق میں گواہی دے گا

٭٭٭

ناکامیوں کی بعد بھی ہمت وہی رہی

اوپر کا دودھ پی کے بھی طاقت وہی رہی

شائد یہ نیکیاں ہیں ہماری کہ ہر جگہ

دستار کے بغیر بھی عزت وہی رہی

میں سر جھکا کے شہر میں چلنے لگا مگر

میرے مخالفین میں دہشت وہی رہی

جو کچھ ملا تھا مال غنیمت میں لٹ گیا

محنت سے جو کمائی تھی دولت وہی رہی

قدموں میں لا کے ڈال دیں سب نعمتیں مگر

سوتیلی ماں کو بچوں سے نفرت وہی رہی

کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے

باسی بھی ہو گئی ہیں تو لذت وہی رہی

٭٭٭

 

اڑ کے یوں چھت سے کبوتر مرے سب جاتے ہیں

جیسے اس ملک سے مزدور عرب جاتے ہیں

ہم نے بازار میں دیکھے ہیں گھریلو چہرے

مفلسی تجھ سے بڑے لوگ بھی دب جاتے ہیں

کون ہنستے ہوئے ہجرت پہ ہوا ہے راضی

لوگ آسانی سے گھر چھوڑ کے کب جاتے ہیں

اور کچھ روز کے مہمان ہیں ہم لوگ یہاں

یار بیکار ہمیں چھوڑ کے اب جاتے ہیں

لوگ مشکوک نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہیں

رات کو دیر سے گھر لوٹ کے جب جاتے ہیں

٭٭٭

 

مجھ کو گہرائی میں مٹی کی اتر جانا ہے

زندگی باندھ لے سامانِ سفر، جانا ہے

گھر کی دہلیز پہ روشن ہیں وہ بجھتی آنکھیں

مجھ کو مت روک، مجھے لوٹ کے گھر جانا ہے

میں وہ میلے میں بھٹکتا ہوا اک بچہ ہوں

جس کے ماں باپ کو روتے ہوئے مر جانا ہے

زندگی تاش کے پتوں کی طرح ہے میری

اور پتوں کو بہرحال بکھر جانا ہے

ایک بے نام سے رشتے کی تمنا لے کر

اس کبوتر کو کسی چھت پہ اتر جانا ہے

٭٭٭

 

تمہارے جسم کی خوشبو گلوں سے آتی ہے

خبر تمہاری بھی اب دوسروں سے آتی ہے

ہمیں اکیلے نہیں جاگتے ہیں راتوں میں

اسے بھی نیند بڑی مشکلوں سے آتی ہے

ہماری آنکھوں کو میلا تو کر دیا ہے مگر

محبتوں میں چمک آنسوؤں سے آتی ہے

اسی لئے تو اندھیرے حسین لگتے ہیں

کہ رات مل کے تیرے گیسوؤں سے آتی ہے

یہ کس مقام پہ پہنچا دیا محبت نے

کہ تیری یاد بھی اب کوششوں سے آتی ہے

٭٭٭

 

مری مظلومیت پر خون پتھر سے نکلتا ہے

مگر دنیا سمجھتی ہے مرے سر سے نکلتا ہے

یہ سچ ہے چارپائی سانپ سے محفوظ رکھتی ہے

مگر جب وقت آ جائے تو چھپر سے نکلتا ہے

ہمیں بچوں کا مستقبل لئے پھرتا ہے سڑکوں پر

نہیں تو گرمیوں میں کب کوئی گھر سے نکلتا ہے

٭٭٭

 

اناکی موہنی صورت بگاڑ دیتی ہے

بڑے بڑوں کو ضرورت بگاڑ دیتی ہے

کسی بھی شہر کے قاتل برے نہیں ہوتے

دلار کر کے حکومت بگاڑ دیتی ہے

اسی لئے تو میں شہرت سے بچ کے چلتا ہوں

شریف لوگوں کو عورت بگاڑ دیتی ہے

٭٭٭

 

ہم دونوں میں آنکھیں کوئی گیلی نہیں کرتا

غم وہ نہیں کرتا ہے تو میں بھی نہیں کرتا

موقع تو کئی بار ملا ہے مجھے لیکن

میں اس سے ملاقات میں جلدی نہیں کرتا

وہ مجھ سے بچھڑتے ہوئے رویا نہیں ورنہ

دو چار برس اور میں شادی نہیں کرتا

وہ مجھ سے بچھڑنے کو بھی تیار نہیں ہے

لیکن وہ بزرگوں کو خفابھی نہیں کرتا

خوش رہتا ہے وہ اپنی غریبی میں ہمیشہ

رانا کبھی شاہوں کی غلامی نہیں کرتا

٭٭٭

 

بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے

بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے

بہت جی چاہتا ہے قیدِ جاں سے ہم نکل جائیں

تمہاری یاد بھی لیکن اسی ملبے میں رہتی ہے

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا

میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے

امیری ریشم و کم خواب میں ننگی نظر آئی

غریبی شان سے اک ٹاٹ کے پردے میں رہتی ہے

میں انساں ہوں بہک جانا مری فطرت میں شامل ہے

ہوا بھی اس کو چھو کر دیر تک نشے میں رہتی ہے

محبت میں پرکھنے جانچنے سے فائدہ کیا ہے

کمی تھوڑی بہت ہر ایک کے شجرے میں رہتی ہے

یہ اپنے آپ کو تقسیم کر لیتا ہے صوبوں میں

خرابی بس یہی ہر ملک کے نقشے میں رہتی ہے

٭٭٭

 

یہ احترام تو کرنا ضرور پڑتا ہے

جو تو خریدے تو بکنا ضرور پڑتا ہے

بڑے سلیقے سے یہ کہہ کے زندگی گزری

ہر ایک شخص کو مرنا ضرور پڑتا ہے

وہ دوستی ہو، محبت ہو، چاہے سونا ہو

کسوٹیوں پہ پرکھنا ضرور پڑتا ہے

کبھی جوانی سے پہلے کبھی بڑھاپے میں

خدا کے سامنے جھکنا ضرور پڑتا ہے

ہو چاہے جتنی پرانی بھی دشمنی لیکن

کوئی پکارے تو رکنا ضرور پڑتا ہے

شراب پی کے بہکنے سے کون روکے گا

شراب پی کے بہکنا ضرور پڑتا ہے

وفا کی راہ پہ چلیے مگر یہ دھیان رہے

کہ درمیان میں صحرا ضرور پڑتا ہے

٭٭٭

 

سرقےکا کوئی داغ جبیں پر نہیں رکھتا

میں پاؤں بھی غیروں کی زمیں پر نہیں رکھتا

دنیا میں کوئی اس کے برابر ہی نہیں ہے

ہوتا تو قدم عرشِ بریں پر نہیں رکھتا

کمزور ہوں لیکن مری عادت ہی یہی ہے

میں بوجھ اٹھا لوں تو کہیں پر نہیں رکھتا

انصاف وہ کرتا ہے گواہوں کی مدد سے

ایمان کی بنیاد یقیں پر نہیں رکھتا

انسانوں کو جلوائے گی کل اس سے یہ دنیا

جو بچہ کھلونا بھی زمیں پر نہیں رکھتا

٭٭٭

 

دھنستی ہوئی قبروں کی طرف دیکھ لیا تھا

ماں باپ کے چہروں کی طرف دیکھ لیا تھا

دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن

بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا

اس دن سے بہت تیز ہوا چلنے لگی ہے

بس میں نے چراغوں کی طرف دیکھ لیا تھا

اب تم کو بلندی کبھی اچھی نہ لگے گی

کیوں خاک نشینوں کی طرف دیکھ لیا تھا

تلوار تو کیا میری نظر تک نہیں اٹھی

اس شخص کے بچوں کی طرف دیکھ لیا تھا

٭٭٭

 

قسم دیتا ہے، بچوں کے بہانے سے بلاتا ہے

دھواں چمنی کا ہم کو کارخانے سے بلاتا ہے

کسی دن آنسوؤ! ویران آنکھوں میں بھی آ جاؤ

یہ ریگستان بادل کو زمانے سے بلاتا ہے

میں اس موسم میں بھی تنہا رہا ہوں جب صدا دے کر

پرندے کو پرندہ آشیانے سے بلاتا ہے

میں اس کی چاہتوں کو نام کوئی دے نہیں سکتا

کہ جانے سے بگڑتا ہے نہ جانے سے بلاتا ہے

٭٭٭


بس اتنی بات پر اس نے ہمیں بلوائی لکھا ہے

ہمارے گھر کے اک برتن پہ آئی۔ایس۔ آئی لکھا ہے

یہ ممکن ہی نہیں چھیڑوں نہ تجھ کو راستہ چلتے

تجھے اے موت میں نے عمر بھر بھوجائی لکھا ہے

میاں مسند نشینی مفت میں کب ہاتھ آتی ہے

دہی کو دودھ لکھا دودھ کو بالائی لکھا ہے

کئی دن ہو گئے سلفاس کھا کر مرنے والی کو

مگر اسکی ہتھیلی پر ابھی شہنائی لکھا ہے

ہمارے ملک میں انسان اب گھر میں نہیں رہتے

کہیں ہندو کہیں مسلم کہیں عیسائی لکھا ہے

یہ دکھ شائد ہماری زندگی کے ساتھ جائے گا

کہ جو دل پر لگا ہے تیر اس پر بھائی لکھا ہے

٭٭٭

 

عین خواہش کے مطابق سب اسی کو مل گیا

کام تو ‘ٹھاکر’ ! تمہارے آدمی کو مل گیا

پھر تیری یادوں کی شبنم نے جگایا ہے مجھے

پھر غزل کہنے کا موسم شاعری کو مل گیا

یاد رکھنا بھیک مانگیں گے اندھیرے رحم کی

راستہ جس دن کہیں سے روشنی کو مل گیا

اس لئے بیتاب ہیں آنسو نکلنے کے لئے

پاٹ چوڑا آج آنکھوں کی ندی کو مل گیا

آج اپنی ہر غلط فہمی پہ خود ہنستا ہوں میں

ساتھ میں موقع منافق کی ہنسی کو مل گیا

٭٭٭

 

گوتم کی طرح گھر سے نکل کر نہیں جاتے

ہم رات میں چھپ کر کہیں باہر نہیں جاتے

بچپن میں کسی بات پر ہم روٹھ گئے تھے

اس دن سے اسی شہر میں ہیں گھر نہیں جاتے

ایک عمر یوں ہی کاٹ دی فٹ پاتھ پہ رہ کر

ہم ایسے پرندے ہیں جو اڑ کر نہیں جاتے

اس وقت بھی اکثر تجھے ہم ڈھونڈنے نکلے

جس دھوپ میں مزدور بھی چھت پر نہیں جاتے

ہم وار اکیلے ہی سہا کرتے ہیں رانا

ہم ساتھ میں لے کر کہیں لشکر نہیں جاتے

٭٭٭

 

وہ مجھے جرأتِ  اظہار سے پہچانتا ہے

میرا دشمن بھی مجھے وار سے پہچانتا ہے

شہر واقف ہے میرے فن کی بدولت مجھ سے

آپ کو جبہ و دستار سے پہچانتا ہے

پھر کبوتر کی وفاداری پہ شک مت کرنا

وہ تو گھر کو اسی مینار سے پہچانتا ہے

کوئی دکھ ہو کبھی کہنا نہیں پڑتا اس سے

وہ ضرورت کو طلب گار سے پہچانتا ہے

اس کو خوشبو کے پرکھنے کا سلیقہ ہی نہیں

پھول کو قیمتِ بازار سے پہچانتا ہے

٭٭٭

 

کئی گھر ہو گئے برباد خود داری بچانے میں

زمینیں بک گئیں ساری زمیں داری بچانے میں

کہاں آسان ہے پہلی محبت کو بھلا دینا

بہت میں نے لہو تھوکا ہے گھر داری بچانے میں

کلی کا خون کر دیتے ہیں قبروں کو بچانے میں

مکانوں کو گرا دیتے ہیں پھلواری بچانے میں

کوئی مشکل نہیں ہے تاج اٹھانا اور پہن لینا

مگر جانیں چلی جاتی ہیں سرداری بچانے میں

بلاوا جب بڑے دربار سے آتا ہے اے رانا

تو پھر ناکام ہو جاتے ہیں درباری بچانے میں

٭٭٭


کسی بھی غم کے سہارے نہیں گزرتی ہے

یہ زندگی تو گذارے نہیں گزرتی ہے

کبھی چراغ تو دیکھو جنوں کی حالت میں

ہوا تو خوف کے مارے نہیں گزرتی ہے

نہیں نہیں یہ تمہاری نظر کا دھوکا ہے

انا تو ہاتھ پسارے نہیں گزرتی ہے

مری گلی سے گزرتی ہے جب بھی رسوائی

بغیر مجھ کو پکارے نہیں گزرتی ہے

میں زندگی تو کہیں بھی گزار سکتا ہوں

مگر بغیر تمہارے نہیں گزرتی ہے

ہمیں تو بھیجا گیا ہے سمندروں کے لئے

ہماری عمر کنارے نہیں گزرتی ہے

٭٭٭

 

اداس رہتا ہے بیٹھا شراب پیتا ہے

وہ جب بھی ہوتا ہے تنہا شراب پیتا ہے

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

وہ میرے ہونٹوں پہ رکھتا ہے پھول سی آنکھیں

خبر اڑاؤ کہ رانا شراب پیتا ہے

٭٭٭

 

جو حکم دیتا ہے وہ التجا بھی کرتا ہے

یہ آسمان کہیں پر جھکا بھی کرتا ہے

میں اپنی ہار پہ نادم ہوں اس یقین کے ساتھ

کہ اپنے گھر کی حفاظت خدا بھی کرتا ہے

تو بےوفا ہے تو اک بری خبر سن لے

کہ انتظار میرا دوسرا بھی کرتا ہے

حسین لوگوں سے ملنے پہ اعتراض نہ کر

یہ جرم وہ ہے جو شادی شدہ بھی کرتا ہے

ہمیشہ غصے میں نقصان ہی نہیں ہوتا

کہیں کہیں یہ بہت فائدہ بھی کرتا ہے

٭٭٭

 

حالانکہ ہمیں لوٹ کے جانا بھی نہیں ہے

کشتی مگر اس بار جلانا بھی نہیں ہے

تلوار نہ چھونے کی قسم کھائی ہے لیکن

دشمن کو کلیجے سے لگانا بھی نہیں ہے

یہ دیکھ کے مقتل میں ہنسی آتی ہے مجھ کو

سچا میرے دشمن کا نشانہ بھی نہیں ہے

میں ہوں مرا بچہ ہے، کھلونوں کی دکاں ہے

اب کوئی میرے پاس بہانہ بھی نہیں ہے

پہلے کی طرح آج بھی ہیں تین ہی شاعر

یہ راز مگر سب کو بتانا بھی نہیں ہے

٭٭٭

 

سر میں جو بھی ہو رختِ سفر اٹھاتا ہے

پھلوں کا بوجھ تو ہر اک شجر  اٹھاتا ہے

ہمارے دل میں کوئی دوسری شبیہ نہیں

کہیں کرائے پہ کوئی یہ گھر اٹھاتا ہے

بچھڑ کے تجھ سے بہت مضمحل ہے دل لیکن

کبھی کبھی تو یہ بیمار سر اٹھاتا ہے

وہ اپنے کاندھوں پہ کنبے کا بوجھ رکھتا ہے

اسی لئے تو قدم سوچ کر اٹھاتا ہے

میں نرم مٹی ہوں تم روند کر گزر جاؤ

کہ میرے ناز تو بس کوزہ گر اٹھاتا ہے

٭٭٭


فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

اندھیری رات میں اکثر سنہری مشعلیں لے کر

پرندوں کی مصیبت کا پتہ جگنو لگاتے ہیں

دلوں کا حال آسانی سے کب معلوم ہوتا ہے

کہ پیشانی پہ چندن تو سبھی سادھو لگاتے ہیں

یہ مانا آپ کو شعلے بجھانے میں مہارت ہے

مگر وہ آگ جو مظلوم کے آنسو لگاتے ہیں

کسی کے پاؤں کی آہٹ پہ دل ایسے اچھلتا ہے

چھلانگیں جنگلوں میں جس طرح آہو لگاتے ہیں

بہت ممکن ہے اب میرا چمن ویران ہو جائے

سیاست کے شجر پر گھونسلے الّو لگاتے ہیں

٭٭٭

 

کسی بھی موڑ پر تم سے وفاداری نہیں ہوگی

ہمیں معلوم ہے تم کو یہ بیماری نہیں ہوگی

تعلق کی سبھی شمعیں بجھا دیں اس لئے میں نے

تمہیں مجھ سے بچھڑ جانے میں دشواری نہیں ہوگی

مرے بھائی وہاں پانی سے روزہ کھولتے ہوں گے

ہٹا لو سامنے سے مجھ سے افطاری نہیں ہوگی

زمانے سے بچا لائے تو اس کو موت نے چھینا

محہبت اس لئے پہلے کبھی ہاری نہیں ہوگی

٭٭٭

 

اداس رہنے کو اچھا نہیں بتاتا ہے

کوئی بھی زہر کو میٹھا نہیں بتاتا ہے

کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں

یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے

٭٭٭

چمن میں صبح کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے

کلی جب سو کے اٹھتی ہے تو تتلی مسکراتی ہے

ہمیں اے زندگی تجھ پر ہمیشہ رشک آتا ہے

مسائل میں گھری رہتی ہے پھر بھی مسکراتی ہے

بڑا گہرا تعلق ہے سیاست کا تباہی سے

کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دہلی مسکراتی ہے

٭٭٭

 

محبت کرنے والوں میں یہ جھگڑا ڈال دیتی ہے

سیاست دوستی کی جڑ میں مٹھا ڈال دیتی ہے

طوائف کی طرح اپنے غلط کاموں کے چہرے پر

حکومت مندر و مسجد کا پردہ ڈال دیتی ہے

حکومت منھ بھرائی کے ہنر سے خوب واقف ہے

یہ ہر کتے آگے شاہی ٹکڑا ڈال دیتی ہے

کہاں کی ہجرتیں، کیسا سفر، کیسا جدا ہونا

کسی کی چاہ پیروں میں دوپٹہ ڈال دیتی ہے

یہ چڑیا بھی میری بیٹی سے کتنی ملتی جلتی ہے

کہیں بھی شاخِ گل دیکھے تو جھولا ڈال دیتی ہے

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دوکانوں میں

غریبی کان چھدواتی ہے، تنکا ڈال دیتی ہے

حسد کی آگ میں جلتی ہے ساری رات وہ عورت

مگر سوتن کے آگے اپنا جھوٹا ڈال دیتی ہے

٭٭٭

 

تم اچٹتی سی ایک نظر ڈالو

جام خالی  ہے، اس کو بھر ڈالو

دوستی کا یہی تقاضہ ہے

اپنا الزام میرے سر ڈالو

فیصلہ بعد میں بھی کر لینا

پہلے حالات پر نظر ڈالو

زندگی جب بہت اداس لگے

کوئی چھوٹا گناہ کر ڈالو

میں فقیری میں بھی سکندر ہوں

مجھ پہ دولت کا مت اثر ڈالو

٭٭٭

 

ہماری زندگی کا اس طرح ہر سال کٹتا ہے

کبھی گاڑی پلٹتی ہے کبھی ترپال کٹتا ہے

دکھاتے ہیں پڑوسی ملک آنکھیں تو دکھانے دو

کہیں بچوں کے بوسے سے بھی ماں کا گال کٹتا ہے

اسی الجھن میں اکثر رات آنکھوں میں گزرتی ہے

بریلی کو بچاتے ہیں تو نینی تال کٹتا ہے

کبھی راتوں کے سناٹے میں بھی نکلا کرو گھر سے

کبھی دیکھا کرو گاڑی سے کیسے مال کٹتا ہے

سیاسی وار بھی تلوار سے کچھ کم نہیں ہوتا

کبھی کشمیر جاتا ہے کبھی بنگال کٹتا ہے

٭٭٭

 

تمہارے پاس ہی رہتے نہ چھوڑ کر جاتے

تمھیں نوازتے تو کیوں ادھر ادھر جاتے

کسی کے نام سے منسوب یہ عمارت تھی

بدن سرائے نہیں تھا کہ سب ٹھہر جاتے

٭٭٭

کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا

وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا

وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتہ نہیں چلتا

٭٭٭


مری چاہت کا فقیری سے سرا ملتا ہے

کوئی نمبر بھی ملاتا ہوں تیرا ملتا ہے

تم ان آنکھوں کے برسنے سے پریشاں کیوں ہو

ایسے موسم میں تو ہر پیڑ ہرا ملتا ہے

ایک دیا گاؤں میں ہر روز بجھاتی ہے ہوا

روز فُٹ پاتھ پر ایک شخص مرا ملتا ہے

اے محبت تجھے کس خانے میں رکھا جائے

شہر کا شہر تو نفرت سے بھرا ملتا ہے

آپ سے مل کے یہ احساس ہے باقی کہ ابھی

اس سیاست میں بھی انسان کھرا ملتا ہے

یہ سیاست ہے تو پھر مجھ کو اجازت دی جائے

جو بھی ملتا ہے یہاں خواجہ سرا ملتا ہے

٭٭٭

 

میں کھل کے ہنس تو رہا ہوں فقیر ہوتے ہوئے

وہ مسکرا بھی نہ پایا امیر ہوتے ہوئے

یہاں پہ عزتیں مرنے کے بعد ملتی ہیں

میں سیڑھیوں پہ پڑا ہوں کبیر ہوتے ہوئے

عجیب کھیل ہے دنیا تری سیاست کا

میں پیدلوں سے پٹا ہوں وزیر ہوتے ہوئے

یہ احتجاج کی دھن کا خیال رکھتے ہیں

پرندے چپ نہیں رہتے اسیر ہوتے ہوئے

نئے طریقے سے میں نے یہ یہ جنگ جیتی ہے

کمان پھینک دی ترکش میں تیر ہوتے ہوئے

جسے بھی چاہئے مجھ سے دوائیں لے جائے

لٹا رہا ہوں میں دولت فقیر ہوتے ہوئے

تمام چاہنے والوں کو بھول جاتے ہیں

بہت سے لوگ ترقی پذیر ہوتے ہوئے

٭٭٭

 

فقیروں میں اٹھے بیٹھے ہیں شاہانہ گزاری ہے

ابھی تک جتنی گزری ہے فقیرانہ گزاری ہے

ہماری طرح ملتے تو زمیں تم سے بھی کھل جاتی

مگر تم نے نہ جانے کیسے مولانا گزاری ہے

نہ ہم دنیا سے الجھے ہیں نہ دنیا ہم سے الجھی ہے

کہ اک گھر میں رہے ہیں اور جدا گانہ گزاری ہے

نظر نیچی کیے گزرا ہوں میں دنیا کے میلے میں

خدا کا شکر ہے اب تک حجابانہ گزاری ہے

٭٭٭


گھر میں رہتے ہوئے غیروں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں دھان کے پودوں کی طرح ہوتی ہیں

اڑ کے اک روز بڑی دور چلی جاتی ہیں

گھر کی شاخوں پہ یہ چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

سہمی سہمی ہوئی رہتی ہیں مکانِ دل میں

آرزوئیں بھی غریبوں کی طرح ہوتی ہیں

ٹوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں ایک لمحے میں

کچھ امیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں

آپ کو دیکھ کے جس وقت پلٹتی ہے نظر

میری آنکھیں ، مری آنکھوں کی طرح ہوتی ہیں

باپ کا رتبہ بھی کچھ کم نہیں ہوتا لیکن

جتنی مائیں ہیں فرشتوں کی طرح ہوتی ہیں

٭٭٭


کھنڈر سے دل میں پھر کوئی تمنا گھر بناتی ہے

میرے کمرے میں اک ننھی سی چڑیا گھر بناتی ہے

مقدر کے لکھے کو لڑکیاں بالکل نہیں پڑھتیں

وہ دیکھو ریت پر بیٹھی  وہ گڑیا گھر بناتی ہے

نگل لیتی ہے لڑکوں کو بڑے شہروں کی رنگینی

نہ جانے کس تمنا میں یہ بڑھیا گھر بناتی ہے

جلا کر راکھ کر دیتی ہے ایک لمحے میں شہروں کو

سیاست بستیوں کو روز کوڑا گھر بناتی ہے

چلو امداد کرنا سیکھ لیں ہم بھی حکومت سے

یہ پکا گھر گرا دیتی ہے کچا گھر بناتی ہے

نہیں سنتا ہے میری تو مرے بچوں کی ہی سن لے

یہ وہ موسم ہے جب چڑیا بھی اپنا گھر بناتی ہے

٭٭٭

 

کہیں پر چھپ کے رو لینے کو تہ خانہ بھی ہوتا تھا

ہر اک آباد گھر میں ایک ویرانہ بھی ہوتا تھا

تیمم کے لئے مٹی کا ٹکڑا تک نہیں ملتا

ابھی کل تک گھروں میں ایک وضو خانہ بھی ہوتا تھا

یہ آنکھیں جن میں اک مدت سے آنسو تک نہیں آئے

انہیں آنکھوں میں پہلے ایک میخانہ بھی ہوتا تھا

ابھی اس بات کو شائد زیادہ دن نہیں گزرے

تصور میں ہمارے ایک پری خانہ بھی ہوتا تھا

محبت اتنی سستی بھی نہیں تھی اس زمانے تک

محبت کرنے والا پہلے دیوانہ بھی ہوتا تھا

سبھی کڑیاں سلامت تھیں ہمارے بیچ رشتوں کی

ہمیں گاہے بگاہے اپنے گھر جانا بھی ہوتا تھا

میاں پنجاب میں لاہور ہی شامل نہ تھا پہلے

اسی کے کھیت کھلیانوں میں ہریانہ بھی ہوتا تھا

٭٭٭

 

الماری سے خط اس کے پرانے نکل آئے

پھر سے مرے چہرے پہ یہ دانے نکل آئے

ماں بیٹھ کے تکتی تھی جہاں سے مرا رستہ

مٹی کے ہٹاتے ہی خزانے نکل آئے

ممکن ہے ہمیں گاؤں بھی پہچان نہ پائے

بچپن میں ہی ہم گھر سے کمانے نکل آئے

بوسیدہ کتابوں کے ورق جیسے ہیں ہم لوگ

جب حکم دیا ہم کو کمانے نکل آئے

اے ریت کے ذرے ترا احسان بہت ہے

آنکھوں کو بھگونے کے بہانے نکل آئے

اب تیرے بلانے سے بھی آ نہیں سکتے

ہم تجھ سے بہت آگے زمانے نکل آئے

ایک خوف سا رہتا ہے مرے دل میں ہمیشہ

کس گھر سے تری یاد نہ جانے نکل آئے

٭٭٭

 

نہ کمرہ جان پاتا ہے، نہ انگنائی سمجھتی ہے

کہاں دیور کا دل اٹکا ہے بھوجائی سمجھتی ہے

ہمارے اور اس کے بیچ ایک دھاگے کا رشتہ ہے

ہمیں لیکن ہمیشہ وہ سگا بھائی سمجھتی ہے

تماشا بن کے رہ جاؤ گے تم بھی سب کی نظروں میں

یہ دنیا دل کے ٹانکوں کو بھی ترپائی سمجھتی ہے

نہیں تو راستہ تکنے سے آنکھیں بہہ گئیں ہوتیں

کہاں تک ساتھ دینا ہے یہ بینائی سمجھتی ہے

میں ہر اعزاز کو اپنے ہنر سے کم سمجھتا ہوں

حکومت بھیک دینے کو بھی بھرپائی سمجھتی ہے

ہماری بے بسی پر یہ در و دیوار روتے ہیں

ہماری چھٹپٹاہٹ قید تنہائی سمجھتی ہے

اگر تو خود نہیں آتا تو تیری یاد ہی آئے

بہت تنہا ہمیں کچھ دن سے تنہائی سمجھتی ہے

٭٭٭


مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں

جس شان سے آیا ہوں اسی شان سے جاؤں

بچوں کی طرح پیڑوں کی شاخوں سے میں کو دوں

چڑیوں کی طرح اڑ کے میں کھلیان سے جاؤں

ہر لفظ مہکنے لگے، لکھا ہوا میرا

میں لپٹا ہوا یادوں کے لوبان سے جاؤں

مجھ میں کوئی ویرانہ بھی آباد ہے شائد

سانسوں نے بھی پوچھا تھا بیابان سے جاؤں

زندہ مجھے دیکھے گی تو ماں چیخ اٹھے گی

کیا زخم لئے پیٹھ پہ میدان سے جاؤں

کیا سوکھے ہوئے پھول کی قسمت کا بھروسہ

معلوم نہیں کب ترے گل دان سے جاؤں

٭٭٭


لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے

میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے

اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہوگی

تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے

تبھی جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے

کہ جب سسرال سے گھر آ کے بیٹی مسکراتی ہے

چمن میں صبح کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے

کلی جب سو کے اٹھتی ہے تو تتلی مسکراتی ہے

ہمیں اے زندگی تجھ پر ہمیشہ رشک آتا ہے

مسائل سے گھری رہتی ہے پھر بھی مسکراتی ہے

بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا

کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دہلی مسکراتی ہے

٭٭٭

 

دنیا تری رونق سے میں اب اوب رہا ہوں

تو چاند مجھے کہتی تھی میں ڈوب رہا ہوں

اب کوئی شناسا بھی دکھائی نہیں دیتا

برسوں میں اسی شہر کا محبوب رہا ہوں

میں خواب نہیں آپ کی آنکھوں کی طرح تھا

میں آپ کا لہجہ نہیں اسلوب رہا ہوں

اس شہر کے پتھر بھی گواہی میری دیں گے

صحرا بھی بتا دے گا کہ مجذوب رہا ہوں

رسوائی مرے نام سے منسوب رہی ہے

میں خود کہاں رسوائی سے منسوب رہا ہوں

دنیا مجھے ساحل سے کھڑی دیکھ رہی ہے

میں ایک جزیرے کی طرح ڈوب رہا ہوں

پھینک آئے تھے مجھ کو بھی مرے بھائی کنویں میں

میں صبر میں بھی حضرت ایوب رہا ہوں

سچائی تو یہ ہے کہ ترے قریۂ دل میں

ایسا بھی زمانہ تھا کہ میں خوب رہا ہوں

شہرت مجھے ملتی ہے تو چپ چاپ کھڑی رہ

رسوائی، میں تجھ سے بھی تو منسوب رہا ہوں

٭٭٭

 

جب بھی کشتی مری سیلاب میں آ جاتی ہے

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

روز میں اپنے لہو سے اسے خط لکھتا ہوں

روز انگلی مری تیزاب میں آ جاتی ہے

دل کی گلیوں سے تری یاد نکلتی ہی نہیں

سوہنی پھر اسی پنجاب میں آ جاتی ہے

رات بھر جاگتے رہنے کا صلہ ہے شائد

تیری تصویر سی مہتاب میں آ جاتی ہے

ایک کمرے میں بسر کرتا ہے سارا کنبہ

ساری دنیا دل بیتاب میں آ جاتی ہے

زندگی تو بھی بھکارن کی ردا اوڑھے ہوئے

کوچۂ ریشم و کمخواب میں آ جاتی ہے

دکھ کسی کا ہو چھلک اٹھتی ہیں میری آنکھیں

ساری مٹی میرے تالاب میں آ جاتی ہے

٭٭٭

 

اشعار

مرا خلوص تو پورب کے گاؤں جیسا ہے

سلوک دنیا کا سوتیلی ماؤں جیسا ہے

٭٭

معلوم نہیں کیسی ضرورت نکل آئی

سر کھولے ہوئے گھر سے شرافت نکل آئی

٭٭

وہ جا رہا ہے گھر سے جنازہ بزرگ کا

آنگن میں اک درخت پرانا نہیں رہا

کم سے کم بچوں کے ہونٹوں کی ہنسی کی خاطر

ایسی مٹی میں ملانا کہ کھلونا ہو جاؤں

٭٭

جو بھی دولت تھی وہ بچوں کے حوالے کر دی

جب تلک میں نہیں بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں

٭٭

جسم پر میرے بہت شفاف کپڑے تھے مگر

دھول مٹی میں اٹا بیٹا بہت اچھا لگا

٭٭

بھیک سے تو بھوک اچھی گاؤں کو واپس چلو

شہر میں رہنے سے یہ بچہ برا ہو جائیگا

٭٭

اگر اسکول میں بچے ہوں گھر اچھا نہیں لگتا

پرندوں کے نہ ہونے سے شجر اچھا نہیں لگتا

دھواں بادل نہیں ہوتا کہ بچپن دوڑ پڑتا ہے

خوشی سے کون بچہ کارخانے تک پہنچتا ہے

٭٭

میرا بچپن تھا مرا گھر تھا کھلونے تھے میرے

سر پہ ماں باپ کا سایہ بھی غزل جیسا تھا

٭٭

ہو چاہے جس علاقے کی زباں، بچے سمجھتے ہیں

سگی ہے یا ہے سوتیلی یہ ماں، بچے سمجھتے ہیں

٭٭

یہ بچی چاہتی ہے اور کچھ دن ماں کو خوش رکھنا

یہ کپڑوں کی مدد سے اپنی لمبائی چھپاتی ہے

٭٭

یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں

اس پیڑ کا سایہ مرے بچوں کو ملے گا

٭٭

اے خدا پھول سے بچوں کی حفاظت کرنا

مفلسی چاہ رہی ہے مرے گھر میں رہنا

٭٭

اے خدا تو فیس کے پیسے عطا کر دے مجھے

میرے بچوں کو بھی یونیورسٹی اچھی لگی

٭٭

مفلسی ! بچے کو رونے نہیں دینا ورنہ

ایک آنسو بھرے بازار کو کھا جائے گا

٭٭

کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے

میں وہ میلے میں بھٹکتا ہوا اک بچہ ہوں

جس کے ماں باپ کو روتے ہوئے مر جانا ہے

٭٭

کچھ کھلونے کبھی آنگن میں دکھائی دیتے

کاش ہم بھی کسی بچے کو مٹھائی دیتے

٭٭

قسم دیتا ہے بچوں کی، بہانے سے بلاتا ہے

دھواں چمنی کا ہم کو کارخانے سے بلاتا ہے

٭٭

کتابوں کے ورق تک جل گئے فرقہ پرستی میں

یہ بچہ اب نہیں بولے گا بستہ بول سکتا ہے

٭٭

ان میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں

دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے

تیرے چہرے پہ کوئی غم نہیں دیکھا جاتا

ہم سے اترا ہوا پرچم نہیں دیکھا جاتا

وہ ہمیں جب بھی بلائے گا چلے آئیں گے

اس سے ملنا ہو تو موسم نہیں دیکھا جاتا

٭٭

گھروں میں یوں سیانی لڑکیاں بے چین رہتی ہیں

کہ جیسے ساحلوں پر کشتیاں بے چین رہتی ہیں

٭٭٭

ماخذ:

http://www.kavitakosh.org

گوگل کی مدد سے دیو ناگری سے رسم الخط کی تبدیلی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید