فہرست مضامین
ایک درندہ ایک انسان
کینتھ اینڈرسن
پیشکش: انیس الرحمٰن
یہ داستان جو مجھے نیل گری کے ایک گاؤں میں مقیم اپنے دوست سنجیو نے سنائی اس قدر حیرت انگیز ہے کہ آپ اس پر یقین نہیں کریں گے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعض حقائق اپنے اندر افسانے کی سی رعنائی رکھتے ہیں۔ میں اُن دنوں ہندوستان میں تھا اور جس گاؤں کا ذکر کرنے لگا ہوں، اس کے قریب ہی مقیم تھا۔ نیل گری کی پہاڑیوں کے دامن میں یہ گاؤں آباد ہے۔ اس کے چاروں طرف کیلوں کے پیڑ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان باغات کی وجہ سے یہ گاؤں دور دور تک مشہور ہے اور شائقین یہاں امڈے چلے آتے ہیں۔
گاؤں سے دس میل دور دیوا کی جھونپڑی تھی۔ وہ کیلے اُگاتا اور انہیں شہر میں بیچ کر اپنی گزربسر کرتا تھا۔ یہی اس کی ساری کائنات تھی۔ ایک روز شام ڈھلے دیوا کیلے کے ایک نئے درخت کی جڑوں میں پانی دے رہا تھا کہ ایک سادھو نے خاص انداز میں صدا دی اور جھونپڑی میں دو راتیں بسر کرنے کی اجازت مانگی۔ دیوا خوش عقیدہ ہندو تھا، اس نے سوچا سادھو کی آمد سے ممکن ہے کیلوں کی فصل زیادہ اچھی ہو، وہ اسے اپنی جھونپڑی میں لے آیا۔ کیلوں اور تازہ مکھن سے اس کی تواضع کی۔ جب اس نے سادھو سے سنا کہ وہ گاؤں گاؤں لوگوں کو آشیرباد دینے کے لیے پیدل چل رہا ہے، تو وہ فرطِ عقیدت سے جھوم اُٹھا۔ اس نے سادھو کے پاؤں دباتے ہوئے کہا، "سوامی جی! آپ میرے پاس دو ہفتے ٹھیریں اور خدمت کا موقع دیں۔ یہ باغ پھل کم دینے لگا ہے، آپ کی دیا سے یہاں بہار آ جائے گی۔ ”
سادھو نے اتنے میٹھے اور لذیذ کیلے پہلی بار کھائے تھے اور تازہ مکھن نے تو سونے پر سہاگے کا کام کیا تھا، لہٰذا اس نے دیوا کی دعوت قبول کر لی۔
دو ہفتے کے بجائے دو مہینے بیت گئے۔ سادھو وہیں جم گیا۔ اُسے تازہ کیلوں اور تازہ مکھن کی چاٹ ایسی لگی تھی کہ نگر نگر گھومنا بھول گیا۔ دیواؔ نے جب دبے لفظوں میں سادھو کو اس کا مشن یعنی گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو آشیرباد دینا یاد دلایا، تو اس نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا،
"میری ذرا سی بددعا تمہارے باغ کو بھسم کر ڈالے گی۔ ”
دیوا کانپ اٹھا اور اس کے قدموں میں جھک گیا۔ سادھو نے تحکمانہ لہجے میں حکم دیا، "اپنے باغ کے کنارے میرے لیے ایک الگ جھونپڑی بنا دو، آج سے میں وہیں رہوں گا۔ مجھے ہر روز کیلے اور مکھن پہنچا دیا کرنا۔ ” دیواؔ نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔
سادھو شام کا کھانا کھانے کے بعد بانسوں اور گھاس پھوس کی بنی ہوئی جھونپڑی میں چلا جاتا اور پھر بالکل باہر نہ آتا۔ اندر دیے کی لو ٹمٹماتی رہتی اور بعض اوقات ساری رات جلتی رہتی۔ کیلے کے باغوں میں کام کرنے والے مزدور حیران تھے کہ دیا رات بھر کیوں جلتا ہے اور سادھو اس دیے کی روشنی میں کیا کرتا ہے۔ ایک رات ایک مزدور چپکے سے جھونپڑی کے قریب گیا اور اس نے بانسوں کی ریخوں سے جھانک کر دیکھا، تو سادھو کو غیر موجود پایا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ بستر بچھا ہوا تھا، لیکن سادھو غائب تھا۔ مزدور نے ساتھیوں کو سارا واقعہ سنایا۔ وہ سب تاک میں بیٹھ گئے کہ دیکھیں سادھو کب آتا ہے۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ شیر کی دھاڑ سے پورا جنگل گونج اٹھا۔ مزدور خوف و دہشت کے مارے وہیں دبک گئے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد شیر پھر گرجا۔ اب کی بار یہ آواز سادھو کی جھونپڑی کے بالکل قریب سے آ رہی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شیر کیلوں کے باغ کے نزدیک گرج رہا تھا۔ پندرہ بیس میل ادھر کئی درندے جنگل میں گھوما کرتے تھے، لیکن اِس طرف کبھی کوئی شیر وغیرہ نہیں آیا تھا۔ مزدور دم سادھے آہستہ آہستہ اپنی اپنی جھونپڑیوں میں چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی وہ سیدھے سادھو کی جھونپڑی میں گئے۔ شیر کے پاؤں کے نشانات جھونپڑی سے دور جنگل تک چلے گئے تھے، لیکن سادھو اپنی جھونپڑی میں مزے سے کیلے اور مکھن کھا رہا تھا۔
ان دنوں وہاں بڑی تعداد میں مزدور کام کر رہے تھے۔ جنگل صاف کر کے نئے درخت لگائے جا رہے تھے۔ اس جنگل میں شیر کی آمد نے مزدوروں اور مالکان کو خوف زدہ کر دیا۔ وہ رات کو باڑوں کے گرد بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے اور دن کو بھی بہت محتاط ہو کر چلتے پھرتے۔ شیر ہر رات سادھو کی جھونپڑی کے قریب سے گرجتا اور دھاڑتا ہوا جنگل میں گم ہو جاتا، لیکن اُس نے اب تک کسی کو گزند نہیں پہنچائی تھی۔
ایک ہفتہ یونہی گزرگیا۔ شیر ہر رات دھاڑتا اور پھر دور جنگل میں گم ہو جاتا۔ اب تک اسے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس سے لوگوں کا خوف کچھ کم ہوا، بہرحال انہوں نے مویشیوں کے باڑوں کے گرد موٹی لکڑی اور اینٹوں کی دس دس فٹ اونچی دیوار کھڑی کر لی اور راتوں کو اطمینان سے سونے لگے۔ ایک روز علی الصباح گاؤں کا بوڑھا گڈریا جالوؔ چیختا ہوا آیا۔ رات کو شیر اس کی خوبصورت گائے اٹھا کر لے گیا تھا۔ اس کے باڑے کی دیوار ایک طرف سے کچھ کم اونچی تھی۔ شیر نے اسی جانب سے جست لگائی، گائے کو جبڑوں میں دبوچا اور اسی طرف سے واپس چلا گیا۔ گائے کے خون کے بڑے بڑے قطرے خاصی دور تک چلے گئے تھے۔ شیر نے جس جگہ گائے کا گوشت کھایا تھا، وہ سادھو کی جھونپڑی سے بمشکل ڈیڑھ دو سو گز دور ہو گی۔ پھر ہر رات ایک گائے غائب ہونے لگی۔ شیر کسی نہ کسی طرح اپنا شکار حاصل کر لیتا۔ کبھی خون پی کر مُردہ جسم وہیں چھوڑ جاتا اور کبھی جانور کو دور تک گھسیٹتے ہوئے لے جاتا۔ ان واقعات سے ہر طرف دہشت پھیل گئی۔ لوگ رات رات بھر جاگتے، الاؤ روشن کرتے، پہرہ دیتے، لیکن شیر خاموشی سے رات کی تاریکی میں کسی نہ کسی گائے، بھینس یا بکری کو اڑا لے جاتا۔
یہ عجیب بات تھی کہ یہ شیر نہ تو دن کو دھاڑتا اور نہ چاندنی رات میں کسی کو نظر آتا تھا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ اگر کسی انسان کا خون اس کے منہ کو لگ گیا، تو معلوم نہیں کیا آفت آ جائے گی۔ ادھر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ شیر سادھو کو کوئی نقصان کیوں نہیں پہنچاتا؟ کوئی کہتا کہ سادھو اپنی روحانی طاقت کے بل پر اس شیر کا دوست بن گیا ہے، اور کوئی کہتا کہ سادھو ہی رات کو شیر بن کر مویشیوں پر حملہ کرتا ہے۔ ان افواہوں نے ایک طرف تو لوگوں کے دلوں میں سادھو کا خوف پیدا کر دیا اور دوسری طرف وہ اسے پوجنے کی حد تک عقیدت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
اتفاق کی بات ہے کہ انہی دنوں ایک جنگلی ہاتھی نے بھی تباہی مچانی شروع کر دی۔ وہ کیلے کے باغات اجاڑنے لگا۔ دن دیکھتا نہ رات، باغ میں گھس آتا اور کیلے کے پیڑ تہس نہس کرتا ہوا گزر جاتا۔ دیوا کا باغ بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس کے پاس ایک چھوٹی سی بندوق تھی جو ہاتھی کو ہلاک تو نہیں کر سکتی تھی، لیکن اسے ڈرانے کے لیے بہرحال استعمال کی جا سکتی تھی۔ ایک رات وہ ایک اونچے درخت پر جا بیٹھا، اس کا ارادہ ہاتھی پر فائر کرنے کا تھا۔ چاندنی رات میں وہ درخت پر بیٹھا بیٹھا تھک گیا۔ اچانک اس نے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی، تو سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس نے غور سے دیکھا، سادھو کی جھونپڑی کے قریب شیر کی آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی انسان نے اس شیر کو دیکھا۔ دیوا کے دل میں خیال آیا کہ وہ کیوں نہ بندوق چلا دے، ممکن ہے شیر زخمی ہو کر ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو جائے۔ اسے یقین تھا کہ اگر نشانہ خطا گیا، تو بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، کیونکہ وہ بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ یہ خیال آتے ہی اس نے لبلبی پر انگلی رکھ دی، نشانہ لیا اور بندوق چلا دی۔ بندوق کی آواز کے ساتھ ہی شیر قیامت خیز انداز میں گرجتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔ اگلے روز دیوا کا نوجوان بیٹا جب کیلے اور مکھن لے کر سادھو کی جھونپڑی میں گیا، تو خلاف معمول دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس نے آواز دی، تو اندر سے جواب آیا "میں بیمار ہوں، اس لیے کچھ کھاؤں پیوں گا نہیں۔ "اس دوران لڑکے کی نظر اچانک جھونپڑی کی دہلیز پر پڑی۔ خون کے بہت سے قطرے زمین میں جذب ہو کر سیاہی مائل ہو گئے تھے۔ دروازے پر بھی خون کے نشانات تھے۔ لڑکے نے خیال کیا کہ شاید سادھو زخمی ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے باہر سے ہی آواز دی، "سوامی جی، کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائیے۔ ”
سادھو زور سے چیخا، "یہاں سے فوراً دفعہ ہو جاؤ، مجھے تمہاری کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ ”
لڑکے نے جب دیوا کو یہ واقعہ سنایا تو ایک لمحے کے لیے وہ بھی سکتے میں آ گیا۔ اس کے دماغ میں وہ تمام افواہیں گردش کرنے لگیں جو سادھو کے بارے میں مشہور تھیں۔ رات اس نے شیر پر جو بندوق چلائی تھی کہیں اسی سے سادھو زخمی تو نہیں ہو گیا! شاید سادھو اس وقت شیر کے روپ میں تھا۔ وہ چپکے سے اٹھا اور سادھو کی جھونپڑی کی جانب چل دیا۔ جھونپڑی اب بھی بند تھی۔ دروازے اور دہلیز پر خون کے چھینٹے بدستور موجود تھے۔ وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور زمین پر لیٹ کر ریخوں میں سے اندر جھانکنے لگا۔ اچانک اسے اپنے سر پر شیر کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔ سادھو غصے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ اور بازو کا بالائی حصہ کپڑے سے بندھا ہوا تھا۔ خون سرایت کر جانے کی وجہ سے کپڑا سرخ اور سخت ہو گیا تھا۔ دیوا نے سادھو کو دیکھتے ہی کہا، "میرے لڑکے نے بتایا تھا کہ آپ بیمار ہیں۔ میں اس لیے آیا تھا کہ آپ کی کچھ خدمت کر سکوں۔ ”
"لیکن تم اندر کیوں جھانک رہے تھے ؟” سادھو نے غصے سے پوچھا۔
دیوا کے ہونٹ کپکپانے لگے اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، سادھو غصے سے چلایا، "اس سے پہلے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے، تم یہاں سے دفعہ ہو جاؤ۔ ”
دیوا خوف اور دہشت سے اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کے ذہن میں سادھو کی پراسرار حیثیت کے متعلق توہمات اور شکوک کا ہجوم امنڈ آیا، تاہم اس کا لڑکا روزانہ علی الصباح کیلے اور مکھن سادھو کی جھونپڑی کے دروازے پر رکھ آتا اور اس کے واپس چلے جانے کے بعد سادھو یہ چیزیں اٹھا لیتا۔ ایک ہفتہ یونہی گزر گیا، شیر نے کوئی شکار نہیں کیا۔ لوگ سمجھے شیر کسی اور جنگل میں چلا گیا، لیکن دیوا کو یقین تھا کہ چونکہ اس کی بندوق سے سادھو زخمی ہو چکا ہے، اس لیے وہ شیر کا روپ نہیں دھار رہا، تاہم اس نے اپنا یہ خیال کسی پر ظاہر نہیں کیا۔
ابھی اس واقعے کو بمشکل ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ گاؤں والوں پر ایک نئی قیامت نازل ہو گئی۔ یہ خوفناک واقعہ نیل گری کے اس گاؤں سے کوئی چار میل کے فاصلے پر پیش آیا۔ گاؤں کا ایک چرواہا مٹھو جنگل کے کنارے اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک جھاڑیوں سے ایک شیر نکل کر اس کے ریوڑ پر حملہ آور ہو گیا۔ یہ دیکھ کر چرواہا اپنی لاٹھی گھماتا اور شور مچاتا شیر کی طرف دوڑ پڑا۔ عام طور پر ایسی حرکت حملہ آور شیر کو بھگانے میں کامیاب رہتی ہے مگر بدنصیب مٹھو کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ شیر اتنی آسانی سے اپنا شکار چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا۔ شیر کے تیور دیکھ کر مٹھو کو خطرے کا احساس ہوا اور وہ ایک قریبی درخت کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ مگر معاملہ اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا، جنگل کا غضبناک بادشاہ اپنا شکار چھوڑ کر مکمل طور پر چروا ہے کی جانب متوجہ ہو چکا تھا۔ اس سے قبل کہ مٹھو درخت تک پہنچ پاتا، شیر کا پنجہ اس کے داہنے شانے پر پڑا اور کمر تک کھال ادھیڑ گیا۔ خون میں لت پت بدقسمت مٹھو وہیں گر پڑا۔ اس بے چارے کی جان یوں بچی کہ شیر نے فقط اسے مار گرانے پر ہی اکتفا کیا اور دوبارہ اس بکری کی جانب متوجہ ہو گیا جسے اس نے تھوڑی دیر قبل ہلاک کیا تھا۔ جب مٹھو کے ہوش و حواس کسی قدر بحال ہوئے تو اس نے کچھ ہی دور ہڈیاں چٹخنے کی آواز سنی۔ غور کیا تو شیر کو مُردہ بکری کا گوشت چٹ کرتے پایا۔ وہ اس قدر سراسیمہ ہوا کہ سانس روکے وہیں پڑا رہا۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو اب کی بار شیر حملہ کر کے حقیقتاً اسے مار ڈالے گا۔ اپنا شکار چٹ کر جانے کے بعد شیر نے خون آلود پنجے چاٹے اور اپنے حلقوم سے طمانیت بھری غراہٹیں نکالتا جنگل میں غائب ہو گیا۔ مٹھو پر اس قدر خوف طاری تھا کہ وہ دیر تک اوندھے منہ وہیں لیٹا رہا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ خطرہ ٹل گیا ہے، تو اپنی لاٹھی سنبھال کر کسی نہ کسی طرح گرتا پڑتا اُٹھا اور گاؤں پہنچ گیا۔ راستے میں وہ کئی بار خاک میں گر کر لوٹ پوٹ ہوتا رہا۔ گاؤں والوں نے جب اس کی یہ ابتر حالت دیکھی اور شیر کی اس نئی واردات کا حال سنا تو ہر طرف خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر شیر یا چیتے کے حملے سے کوئی فوری طور پر ہلاک نہ ہو تو بھی ان درندوں کے پنجوں میں پایا جانے والا ایک مخصوص زہر شکار کے خون میں داخل ہو کر بعد ازاں ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کو درندے نے حملہ کر کے زخمی کر دیا ہو اس کے زخم اتنی آسانی سے مندمل نہیں ہوتے۔ مٹھو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور اس کے زخم دو ہفتوں میں ہی خراب ہو کر اس کی موت کا باعث بن گئے۔
ٹھیک بیس روز بعد شیر نے اسی گاؤں کے ایک اور ریوڑ پر حملہ کر دیا۔ گایوں کے اس ریوڑ کا چرواہا شیر کی دہشت کے مارے اپنی جگہ بت بنا کھڑا رہ گیا۔ اتفاق سے شیر نے جس گائے پر حملہ کیا وہ خاصی جاندار اور غصیلی تھی، جونہی شیر اس کی پیٹھ پر سوار ہوا، گائے نے جھٹک کر اسے نہ صرف پرے پھینک دیا بلکہ پلٹ کر سینگ مارنے کی بھی کوشش کی۔ گائے کے جوابی حملے نے شیر کو کسی قدر بوکھلا کر رکھ دیا اور اس نے جھلّا کر پاس کھڑے چروا ہے پر جست لگا دی۔ گایوں کا بوکھلایا ہوا ریوڑ جب زخمی گائے سمیت گاؤں میں داخل ہوا تو جیسے کہرام مچ گیا۔ چروا ہے کے دوست، رشتہ دار لاٹھیوں اور بلموں سے لیس ہو کر اس کی تلاش میں نکلے مگر جائے وقوعہ پر خون کے سوا کچھ نہ ملا۔ البتہ چند روز بعد ایک اور چروا ہے کو اس بدقسمت کی لاش کی باقیات جھاڑیوں میں پڑی ملیں۔
اب دیوا بے چارے نے گاؤں والوں کے سامنے سادھو کے متعلق اپنے شبہات کا اظہار شروع کر دیا اور شیر پر بندوق چلانے، سادھو کے زخمی ہونے اور اس کی برہمی کی داستان گاؤں والوں کو سنائی۔ یہ تمام واقعات منظر عام پر آنے سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد سادھو سے جا کر ملے اور اس سے استدعا کی جائے کہ وہ یہ خونیں ڈراما بند کر دے۔ دیوا نے اس وفد کی قیادت کی۔ گاؤں کے دس سیانے سادھو کی جھونپڑی میں پہنچے تو وہ آنکھیں بند کیے مالا جپ رہا تھا۔ سب مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔ دس منٹ کے بعد سادھو نے آنکھیں کھولیں، تو دیوا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے عرض کی، "سوامی جی، آپ جب سے اس گاؤں میں آئے ہیں، باغوں میں بہار آ گئی ہے، لیکن مویشی اور انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ہم آپ کے گیان کے معترف ہیں۔ جو شیر ہمارے مویشیوں اور انسانوں کو لقمہ بناتا ہے، وہ آپ کا مطیع ہے، وہ آپ کی جھونپڑی کے پاس سے دھاڑتا ہے، لیکن آپ کو کچھ نہیں کہتا۔ آپ اس سے کہیے کہ وہ یہاں سے چلا جائے، اور اگر آپ خود انسان کا جسم چھوڑ کر شیر کا روپ دھار لیتے ہیں، تو ہماری درخواست ہے کہ ہمارے گاؤں پر رحم کیجیے۔ ہمارے مویشیوں اور انسانوں کو شکار نہ کیجیے۔ اگر آپ انسانوں کا شکار کیے بغیر نہیں رہ سکتے، تو میں عرض کروں گا کہ نیل گری کی پہاڑیوں میں باواک اور کرمبا قبائل آباد ہیں، وہاں چلے جائیے۔ وہ وحشی ہیں اور ان کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ”
سادھو بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ کبھی کبھار وہ آنکھ اٹھا کر دیوا کو دیکھ لیتا۔ وہ وفد کے دوسرے ارکان کو بھی اپنی سرخ سرخ آنکھیں دکھاتا رہا۔ دیوا اس استدعا کے بعد اپنی جگہ مؤدب ہو کر بیٹھ گیا۔ سادھو نے آنکھیں اٹھائیں اور مالا گھماتے ہوئے بولا، "میں ایک شرط پر یہاں شکار کرنا بند کر سکتا ہوں۔ ”
سب کے دل تیز تیز دھڑکنے لگے، وہ مجسم سوال بنے ہوئے تھے۔ سادھو نے کہنا شروع کیا، "مجھے ہر مہینے دو سو روپے ادا کیے جائیں۔ چاول، گھی، سبزیاں، کیلے اور مکھن روزانہ اسی جھونپڑی میں پہنچائے جائیں۔ اگر کبھی کبھار مجھے انسانی گوشت کی ضرورت محسوس ہوئی، تو میں قبائلیوں کو شکار کرنے چلا جایا کروں گا۔ ”
اور تمام شرطیں پوری کی جا سکتی تھیں، لیکن غریب دیہاتی دو سو روپے ماہوار کا انتظام نہیں کر سکتے تھے۔ دیوا نے درخواست کی کہ رقم گھٹا کر پچاس روپے ماہوار کر دی جائے، لیکن سادھو نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، لہٰذا وفد ناکام واپس آ گیا۔
اس واقعے کے چوتھے روز شیر نے دن دہاڑے ایک اور شخص کو ہلاک کر ڈالا۔ وہ اس وقت اپنی جھونپڑی سے ایک فرلانگ دور اپنے باغ کی رکھوالی کر رہا تھا۔ شیر نے اسے بھاگنے کا موقع بھی نہیں دیا، اسے دبوچا اور چیرپھاڑ دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص ان دس سیانوں میں سے ایک تھا جو وفد لے کر سادھو کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اسی نے دوسو روپے ماہوار دینے کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی۔
مجھے یہ سارا قصہ میرے ذاتی خدمت گار اور دوست سنجیو نے سنایا جو اسی گاؤں کے ایک قبیلے اریلا کا فرد تھا۔ میں ان دنوں اس جنگل میں شکار کی غرض سے مقیم تھا۔ مجھے وہاں آئے بمشکل ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔ میں جب بھی وہاں آتا، سنجیو میرے قیام و طعام کا بندوبست کرتا۔ وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہونے کے ناتے ایک اچھا گائیڈ تھا۔ میں جب بھی سیر و شکار کی غرض سے وہاں جاتا، میری پہلی ترجیح سنجیو ہی ہوتا۔ اب کی بار جب میں گاؤں میں پہنچا تو وہاں کے مکینوں کے چہروں پر ایک عجب طرح کا خوف مسلط نظر آیا۔ جب میرے استفسار پر کسی نے بھی کچھ نہ بتایا تو میں نے سنجیو سے پوچھا۔ پہلے پہل تو سنجیو نے بھی مجھے ٹالنے کی کوشش کی، مگر پھر میرے بار بار کے استفسار پر اس نے مجھے دیوا اور سادھو کا قصہ سنا ہی ڈالا۔ میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں آدم خور درندوں کا کام تمام کیا تھا مگر ایسے پراسرار آدم خور سے آج تک میرا پالا نہ پڑا تھا۔ ۔ بہرحال مجھے یقین تھا کہ وہ سادھو ایک عام آدمی تھا جو سادہ لوح دیہاتیوں کو مرعوب کرنے کے لیے یہ سارا ناٹک رچائے ہوئے تھے۔ دوسری طرف آدم خوری کے واقعات بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت تھے۔ میں جتنا اس معاملے پر غور کرتا، اتنا ہی میرا دماغ الجھتا چلا جاتا۔ بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ در حقیقت ان معصوم دیہاتیوں کا پالا دو مکار ہستیوں سے پڑ چکا تھا۔ ایک تو وہ مکار سادھو جو اس علاقے میں موجود آدم خور شیر کی آڑ میں لوگوں کو بے وقوف بنا رہا تھا، اور دوسرا وہ شیر جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر مویشی خوری چھوڑ کر آدم خوری کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ یہ امر بھی بعید ازقیاس نہ تھا کہ وہ آدم خور شیر اس مکار سادھوکا ہی سدھایا ہوا ہو اور وہ دونوں ہی اس شیطانی کھیل کے ذمے دار ہوں۔ حقیقت جو کچھ بھی تھی، میں نے اس معمے کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جب سنجیو مجھے یہ قصہ سنا رہا تھا، اس وقت ہم جنگل میں آم کے ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے نزدیک آگ کا ایک بڑا الاؤ روشن کر رکھا تھا۔ رات بھیگ رہی تھی، دور سے جنگلی ہاتھی کے بانسوں کو توڑنے کی آواز بلند ہوئی جس کے تھوڑی ہی دیر بعد جنگل شیر کی آواز سے گونج اٹھا۔ سنجیو خوف سے بری طرح کانپنے لگا۔ اس کی بھرائی ہوئی آواز میری سماعت مرتعش کر گئی، "سادھو شیر نے میری باتیں سن لی ہیں، اب وہ مجھے نہیں چھوڑے گا، میں تباہ ہو گیا۔ ”
میں نے اس کی ہمت بندھانے کے لیے کہا، "یہ تمہارا وہم ہے، شیر اتنی دور سے تمہاری باتیں نہیں سن سکتا، وہ مافوق الفطرت طاقت بھی نہیں رکھتا۔ "اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی رائفل میں کارتوس بھرے اور ٹارچ سنبھال لی۔ ہمارے تین طرف آگ کا الاؤ روشن تھا اور خالی سمت کی حفاظت کے لیے ہمارے پاس رائفل موجود تھی۔ شیر ایک بار پھر گرجا۔ وہ ندی کے قریب ہی تھا۔ سنجیو مسلسل کہہ رہا تھا کہ اب ہماری خیر نہیں، سادھو شیر نے سب کچھ سن لیا ہے، ہم صبح تک زندہ نہیں رہیں گے۔ میں نے اس کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھا تو وہ چپ ہو گیا۔ اتنے میں جنگلی ہاتھی کے چنگھاڑنے کی آواز آئی۔ ہم دونوں سہم گئے۔ الاؤ کی روشنی میں کافی دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔ میں مصلحتاً ٹارچ روشن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہاتھی کے چنگھاڑنے اور شیر کے غرانے کی آواز ایک بار پھر آئی۔ تھوڑی دیر بعد ایسی آوازیں آئیں جیسے دو حیوان آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ ہاتھی اور شیر کی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ جنگل میں بہت کم شیر ہاتھی پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہاتھی عموماً گروہ کی شکل میں ہی گھومتے ہیں۔ اگر کبھی کسی شیر کا ہاتھیوں کے لشکر سے آمنا سامنا ہو بھی جائے تو وہ بے چارا کنی کترا کر نکل جانے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ بہرحال اگر کبھی کسی اکیلے ہاتھی سے آمنا سامنا ہو جائے اور اس وقت جنگل کا بادشاہ بھوکا بھی ہو تو سمجھ لیجیے کہ ہاتھی کی موت ہی اسے تنہا اس طرف کھینچ لائی ہے۔
ابھی میرا ذہن انہی سوچوں میں گم تھا کہ شیر کی غصیلی غراہٹوں میں تیزی آ گئی، ساتھ ہی وقتاً فوقتاً ہاتھی کی درد میں ڈوبی آوازیں بھی سنائی دے جاتیں۔ ہاتھی اور شیر کی وہ جنگ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے تو نہیں ہو رہی تھی مگر جنگلوں میں گزارے ہوئے اپنے شب و روز کی بدولت میں بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ دونوں حیوان کیسے آپس میں گتھم گتھا ہوں گے۔ اس وقت سنجیو کی حالت الگ غیر ہو رہی تھی۔ وہ بار بار مجھے کسی درخت پر چڑھنے کی تلقین کر رہا تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر دونوں درندے لڑتے لڑتے اس طرف آ نکلے تو ہماری بھی شامت آ جائے گی۔ میں نے اسے حوصلہ دیا اور اپنی جگہ خاموش کھڑے رہنے کی ہدایت کی۔ اس وقت میں اپنی سماعت سے بصارت کا کام لے رہا تھا۔ وقفے وقفے سے ابھرنے والی آوازوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ لڑائی بس آخری دموں پر ہے۔ پھر چند ہی لمحوں بعد ہاتھی کی درد بھری آوازیں اپنا وجود کھوتی چلی گئیں اور فضا میں فقط شیر کی طمانیت بھری غراہٹیں باقی رہ گئیں۔ ہاتھی یقیناً دم توڑ چکا تھا اور شیر اب اس کے بدن سے گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔ کبھی کبھی کسی ہڈی کے ٹوٹنے کی آواز اُبھرتی تو سنجیو بے اختیار جھرجھری لے کر میرے اور قریب ہو جاتا۔
مجھے یقین تھا کہ اب شیر اس طرف نہیں آئے گا اور ہمیں اگر اسے شکار کرنا ہے تو اس کے پاس جانا ہو گا، لیکن ایسا میں اس لیے نہ کر سکتا تھا کہ مجھے اس وقت اس امر کا یقین نہ تھا کہ آیا یہ وہی شیر ہے جس نے علاقے بھر میں قیامت مچا رکھی ہے یا پھر کوئی عام شیر ہے۔ میں کسی عام درندے کو خواہ مخواہ شکار کرنا نہیں چاہتا تھا۔
وہ رات ہم نے اُسی جگہ جاگ کر گزاری۔ سنجیو کا برا حال تھا۔ ہم نے اردگرد سے جمع کی ہوئی لکڑیاں الاؤ میں ڈال دیں۔ میں چاہتا تھا کہ سنجیو باتیں کرتا رہے، کہیں ہم نیند سے اونگھنا شروع نہ کر دیں، لیکن اس کے ہوش و حواس گم تھے، وہ اب سادھو شیر کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ صبح ہوئی، تو سب سے پہلے ہم نے مرے ہوئے ہاتھی کو دیکھا۔ وہ ابھی پوری طرح جوان نہیں ہوا تھا۔ معلوم نہیں کیسے اپنی ٹولی سے بچھڑ گیا۔ ناشتے کے بعد میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ میں اس سادھو سے ملوں جو عام روایت کے مطابق رات کو اور کبھی کبھی دن کو شیر بن جاتا ہے۔ جب میں نے سنجیو سے اس کا ذکر کیا، تو اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ اس نے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا، لیکن جب میں نے اس کی حفاظت کا پورا یقین دلایا اور بہت بڑے انعام کا لالچ دیا، تو وہ بادلِ نخواستہ تیار ہو گیا۔ اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ میں نے سادھو کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سنجیو میرے پیچھے کھڑا ہوا خوف سے کانپ رہا تھا۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ انتہائی بد ہیئت، آوارہ بالوں اور بے ترتیب الجھی ہوئی داڑھی والا سادھو غلیظ اور بدبو دار کپڑوں میں ملبوس ہمارے سامنے آ کھڑا ہوا، اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلاتا، سادھو کی آنکھیں انگارے برسانے لگیں۔ وہ گرجدار آواز میں بولا، "میں جانتا تھا کہ تم یہاں ضرور آؤ گے اور یہ جو تمہارے پیچھے گیدڑ کی طرح کانپ رہا ہے، یہی تمہیں یہاں لایا ہے۔ میں نے رات تم دونوں کو ندی کے قریب دیکھا تھا۔ تم نے الاؤ روشن کر رکھا تھا۔ میں تم دونوں میں سے ایک کو ضرور چٹ کر جاتا، لیکن وہ ہاتھی کا بچہ مزاحم ہو گیا اور میں نے تمہارے بجائے اس پر حملہ کر دیا۔ ”
سنجیو گڑ گڑا کر معافی مانگنے لگا، لیکن میں نے اسے ڈانٹ دیا۔ میں چاہتا تھا کہ اس مکار سادھو کو گولی کا نشانہ بنا دوں، لیکن اس طرح میں قانون کی زد میں آتا تھا۔ میں غصے سے کانپنے لگا۔ میں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے سادھو سے کہا، "تم جھوٹ بکتے ہو، تم انسان ہو اور کسی صورت شیر کا روپ اختیار نہیں کر سکتے۔ تم ان اَن پڑھ، معصوم، بھولے بھالے اور توہم پرست دیہاتیوں کو بے وقوف بنا کر اپنا اُلّو سیدھا کر سکتے ہو، لیکن مجھے کسی مغالطے میں نہیں ڈال سکتے۔ ” سادھو نے دھیمی آواز میں کہنا شروع کیا، "سفید بابو، اتنا غصہ نہ ہو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو، جن باتوں کو تم نہیں سمجھتے، ان میں کیوں دخل دیتے ہو! تم یہاں بے سہارا ہو، بہتر ہے تم لوٹ جاؤ، ورنہ یاد رکھو تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ ”
یہ کہہ کر سادھو مڑا اور زور سے جھونپڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ سنجیو نے جھونپڑی کے گرد ریت پر بعض نشانات کی طرف اشارہ کیا جو شیر کے پنجوں سے ملتے جلتے تھے اور دور تک چلے گئے تھے۔ سرِشام ہم دوبارہ اسی آم کے درخت کے نیچے آ گئے جہاں ہم نے الاؤ کے گرد رات گزاری تھی۔ میں نے درخت پر مچان باندھی اور اسی پر بستر لگا کر سو گیا۔ سنجیو رات بھر جاگتا رہا تھا، وہ بھی مچان پر ایک طرف لیٹ گیا اور خراٹے لینے لگا۔ میں تین گھنٹے سویا ہوں گا، لیکن یقین کیجیے کہ مجھے نیند میں شیر دکھائی دیتا رہا جس کا سر سادھو سے ملتا جلتا تھا۔ در اصل میرے دل میں بھی ایک عجیب سا خوف پیدا ہو گیا تھا۔ سادھو نے ہمارے متعلق جو کچھ کہا تھا، وہ حرف بہ حرف ٹھیک تھا۔ آخر ہمارے متعلق اسے یہ سب کچھ کس نے بتایا تھا؟ سنجیو اس وقت سے اب تک میرے ساتھ تھا۔ اگر خود سادھو رات کی تاریکی میں ہماری نگرانی کر رہا تھا، تو یقیناً وہ ایک بہادر انسان تھا، کیونکہ شیر اور ہاتھیوں کی موجودگی میں تن تنہا گھومنا پھرنا معمولی بات نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ میرا مقابلہ ایک نہیں، دو سے ہے، آدم خور شیر اور مکار سادھو سے۔ شیر کو تو شکار کیا جا سکتا تھا، لیکن سادھو کے فریب کا پردہ چاک کرنا بڑا دشوار تھا۔ اس نے مجھے مار ڈالنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ وہ انسان ہونے کی حیثیت سے سوچ سکتا تھا، منصوبے بنا سکتا تھا اور مجھے دھوکے فریب سے نقصان پہنچا سکتا تھا، اس لیے اس سے نبٹنا سب سے مشکل تھا۔ سوچ سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر شیر شکار ہو گیا، تو سادھو کے فریب کا راز خودبخود کھل جائے گا، اس لیے پہلے شیر کا شکار کرنا ضروری ہے۔
میں نے سنجیو کو ساتھ لیا اور دو بچھڑے خریدنے کے لیے گاؤں میں آ گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب گاؤں کے ہر شخص نے کسی بھی قیمت پر بچھڑے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ شیر کے روپ میں تم سادھو کو قتل کر دو گے، اور اگر سادھو اس روپ میں نشانہ بن گیا، تو پورے گاؤں پر کوئی آسمانی آفت ٹوٹ پڑے گی۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ میں یہ سب کچھ تمہاری جانوں کی حفاظت کے لیے کر رہا ہوں اور انسان کبھی شیر کا قالب اختیار نہیں کر سکتا، لیکن کسی نے بھی میری بات پر کان نہیں دھرا اور بچھڑے فروخت کرنے سے سختی کے ساتھ انکار کرتے رہے۔ اب ایک ہی صورت تھی کہ میں اور سنجیو پورا دس میل دور کانڈا نامی گاؤں جائیں اور وہاں سے بچھڑے خرید کر لائیں، لیکن ہم اسی روز غروب آفتاب سے پہلے کسی طرح بھی نہیں لوٹ سکتے تھے، اس لیے ہم نے اپنا پروگرام اگلے روز پر ملتوی کر دیا اور پھر اسی آم کے درخت کے نیچے رات گزارنے کے لیے پہنچ گئے۔ یہ بھی ایک عجیب بات تھی کہ ہمیں گاؤں میں کوئی شخص اپنی جھونپڑی میں پناہ دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہم نے ایک بار پھر الاؤ روشن کیا اور اپنے قریب اتنی لکڑیاں اور خشک پتّے جمع کر لیے کہ ساری رات آگ جلتی رہے۔ سنجیو کی خواہش تھی کہ ہم رات جاگ کر کاٹنے کے بجائے مچان پر سوکر گزاریں، لیکن مجھے شیر کی نسبت مکار سادھو سے زیادہ خطرہ تھا کہ اگر ہم سوگئے، تو ممکن ہے وہ ہماری جان لے بیٹھے۔ اس رات سنجیو نے سادھو شیر کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔ جنگل میں ہر طرف سکوت طاری تھا، بس کبھی کبھار کوئی مینڈک ٹراتا یا درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دے جاتی۔
میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، بارہ بج رہے تھے اور نیند کی وجہ سے ہماری آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں کہ اچانک ندی کے قریب سے ایک عجیب و غریب آواز سنائی دی۔ کوئی اہاہا، اہاہا کہتا جاتا تھا اور پھر اچانک یہی آواز شیر کی گرج میں بدل گئی۔ سنجیو تو سہم کر سکڑ گیا، لیکن میں اپنی رائفل اور ٹارچ سنبھال کر بیٹھ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ سادھو ہمیں ڈرانا چاہتا ہے۔ پہلی آواز سے اس نے اپنے انسانی وجود کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے اور دوسری آواز سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب وہ شیر کے قالب میں آ گیا ہے۔ چونکہ میں بھی ضرورت پڑنے پر شیر کی آواز نکالنے پر قدرت رکھتا ہوں اس لیے سادھو کا ایسی آواز نکال لینا میرے لیے قطعاً باعث حیرت نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں ناں اسے ابھی پکڑ لیا جائے۔ میں نے سنجیو کی ہمت بندھائی اور ہم دونوں ٹارچ کی روشنی میں اسی آواز کی طرف دوڑتے گئے، لیکن وہاں دور دور تک سادھو تھا نہ شیر۔ ہم سیدھے اس کی جھونپڑی پر پہنچے، اندر دیا روشن تھا، ہماری آہٹ پاکر سادھو نے از خود دروازہ کھول دیا اور غضب ناک ہو کر بولا، "زندگی عزیز ہے، تو بھاگ جاؤ، تم شیر کی روح کو ہرگز شکار نہیں کر سکتے۔ ”
میں حیران تھا کہ سادھو ہم سے پہلے یہاں کیسے پہنچ گیا! میں شکاری ہونے کی حیثیت سے بہت تیز دوڑتا تھا اور جھونپڑی تک پہنچنے کے لیے جو راستہ میں نے اختیار کیا تھا، وہ مختصر تھا۔ سادھو نے ایک بار پھر مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہم پھر درخت کے نیچے پہنچ گئے اور رات کا باقی حصہ الاؤ کے نزدیک جاگ کر گزار دیا۔ صبح ہونے پر ہم کانڈا گئے، وہاں سے دو بچھڑے خریدے اور الٹے پاؤں واپس آئے۔ اس وقت شام کے چار بج رہے تھے اور سورج غروب ہونے میں صرف دو گھنٹے باقی تھے۔ دوسری طرف ہمیں نیند نے ستایا ہوا تھا۔ دن میں دو تین گھنٹے سونے سے کہاں سکون مل سکتا تھا اور اب تیسری رات جاگ کر گزارنا تھی۔ سنجیو کا تو بہت ہی برا حال تھا۔ ہم نے جلدی سے چائے تیار کی، کچھ سینڈوچ کھائے اور کچھ کیلے۔ باقی چائے تھرماس میں ڈال کر مچان پر رکھ لی۔ ایک بچھڑے کو مچان سے پچاس گز کے فاصلے پر باندھ دیا گیا اور دوسرے کو سنجیو اپنی جھونپڑی میں چھوڑ آیا۔ بدقسمتی سے اس رات شیر بالکل نہیں دھاڑا اور ہماری تمام محنت اکارت گئی۔ ہم صبح تک جاگتے رہے تھے اور سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ایسے سوئے کہ دوپہر کے بارہ بجے آنکھ کھلی۔
سنجیو نے یہ تجویز رکھی کہ ہمیں یہاں سے ہٹ کر ندی کے اور قریب برگد کے درخت پر مچان باندھنا چاہیے۔ اس کا خیال تھا کہ شیر ندی پر پانی پینے کے لیے ضرور آتا ہے۔ برگد کے درخت پر مچان بھی اچھی اور محفوظ بندھتی ہے۔ اس درخت کے پتے چوڑے اور ایک دوسرے سے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مجھے یہ تجویز پسند آئی اور ہم فوراً اس طرف چل دئیے۔ سنجیو نے گھنٹہ بھر کی جد و جہد کے بعد برگد کے سہ شاخے پر مچان تیار کی اور بچھڑے کو پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر باندھ دیا۔
جب رات خوب بھیگ گئی اور جنگل میں ہر طرف سناٹا چھا گیا، تو اچانک شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔ شیر ایک بار اور گرجا۔ یہ آواز سادھو کی جھونپڑی سے آ رہی تھی۔ میں نے رائفل سنبھالی اور ٹارچ درست کر کے بیٹھ گیا۔ ایک پراسرار سکوت طاری تھا۔ جنگل میں رات کو شیر عموماً تین چار بار ہی دھاڑتا ہے۔ میں اس کی ایک اور آواز سننے کے لیے بے چین تھا۔ آدھ گھنٹہ اسی طرح گزر گیا۔ معاً مجھے خیال آیا کہ جھونپڑی کے پاس چل کر دیکھنا چاہیے کہ سادھو موجود ہے یا نہیں۔ میں نے سنجیو کو ہدایت کی کہ وہ مچان پر بیٹھا رہے، اور اسے یہ بتائے بغیر کہ میں کہاں جا رہا ہوں، درخت سے نیچے اُتر آیا۔ میں ٹارچ کی روشنی میں آگے بڑھتا رہا۔ بھری ہوئی رائفل میرے ہاتھ میں تھی۔ میں انتہائی محتاط قدم اٹھا رہا تھا، مبادا ’شیر‘ بے خبری میں مجھ پر حملہ کر دے۔ جب میں جھونپڑی کے قریب پہنچا، بانسوں کے سوراخوں سے اندر دئیے کی لو صاف نظر آ رہی تھی۔ پہلے تو میں نے چپکے سے ان ہی سوراخوں کے اندر جھانکنے کی کوشش کی، لیکن جب سادھو کے متعلق واضح طور پر کچھ معلوم نہ ہو سکا، تو میں دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ جھونپڑی خالی تھی، سادھو باہر گیا ہوا تھا۔ میرے دل میں ہلکا سا خوف اُبھرا۔ سنجیو کی سنائی ہوئی داستان خیالات میں حقیقت بن کر گھومنے لگی۔ میں جھونپڑی سے باہر نکل آیا اور سادھو کا انتظار کرنے لگا۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا، نہ سادھو آیا اور نہ شیر تیسری بار گرجا۔ معاً میرے ذہن میں ایک خیال اُبھرا۔ شیر اپنے ہم جنس کی آواز پر لپکتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اصلی شیر بھی کہیں نزدیک ہی موجود ہے، اس لیے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ کے قریب ایک مخصوص زاویے سے حلقہ بنایا اور شیر کی سی آواز نکالی۔ یہ طریقہ میں نے افریقہ کے جنگلوں میں جنگلی قبائل سے سیکھا تھا۔ وہ شیر کا شکار اسی طرح کیا کرتے تھے۔ آواز سن کر جونہی شیر اس جانب بڑھتا، وہ اپنے زہر میں بجھے ہوئے نیزوں سے اس پر حملہ کر دیتے اور آن واحد میں شکار کر لیتے تھے۔ میری یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی۔ میری آواز کے جواب میں شیر پھر دھاڑا۔ میں خشک پتوں پر کسی کے چلنے اور اپنی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ سننے لگا۔ میں جھونپڑی کے قریب ہی جھاڑیوں میں زمین پر لیٹ گیا۔ قدموں کی چاپ کی طرف میری رائفل کا رُخ ہو گیا اور میں آنے والے لمحوں کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا۔ اچانک میں نے ایک ہیولا اپنی طرف بڑھتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ انسان کی طرح سیدھا دو پاؤں پر چل رہا تھا، لیکن اس کے جسم پر شیر کی کھال لپٹی ہوئی تھی۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ سادھو ہے جو شیر کی کھال اوڑھ کر جنگل میں گھوم رہا ہے اور اب اپنی جھونپڑی میں واپس آ رہا ہے۔ سادھو ابھی مجھ سے پچاس گز دور تھا کہ شیر ایک بار پھر گرجا۔ پھر میں نے المناک منظر دیکھا کہ شیر اور سادھو گتھم گتھا ہو گئے، وہاں اونچی اونچی گھاس تھی۔ شیر نے تھپڑ مار کر سادھو کو نیچے گرا لیا تھا اور بری طرح بھنبھوڑ رہا تھا۔
اب مزید وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا، لہٰذا میں نے شیر کے سر کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ مجھے سادھو کو بچانے کی بھی پروا نہ تھی کیونکہ وہ بھی گاؤں والوں کا اتنا ہی مجرم تھا جتنا کہ آدم خور شیر۔
گولی کی گونج تھمی نہ تھی کہ شیر سادھو کو چھوڑ کر اس سمت متوجہ ہو گیا جدھر سے اس پر گولی داغی گئی تھی۔ میں پوری طرح جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا لہٰذا میرا دیکھا جانا بعید از امکان تھا، دوسری طرف جھاڑیوں میں لیٹا ہوا ہونے کی وجہ سے میں شیر کا درست نشانہ بھی نہیں لے پا رہا تھا، لہٰذا میں نے اللہ کا نام لے کر اُٹھنے کا ارادہ کیا تاکہ شیر پر تاک کر گولی چلا سکوں۔ اس لمحے شیر کے حلق سے ایسی دہشت ناک آوازیں برآمد ہو رہی تھیں کہ اگر کمزور دل آدمی سن لیتا، تو وہیں ڈھیر ہو جاتا۔ میں نے دوبارہ رائفل کندھے سے لگا کر اس کا نشانہ لیا اور اندازے سے گولی داغ دی۔ اس مرتبہ گولی اس سے چند انچ کے فاصلے پر خاک اڑا گئی۔ پہلی گولی نے فقط اس کا شانہ ادھیڑ ڈالا تھا جبکہ دوسری کچھ نہ بگاڑ سکی۔ البتہ شیر کو اتنا علم ہو گیا کہ اس پر گولیاں کس سمت سے داغی جا رہی ہیں۔
کچھ دیر بعد اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ اتنی دور سے بھی مجھے اس کی آنکھوں سے قہر و غضب کی چنگاریاں پھوٹتی دکھائی دیں اور رائفل میرے ہاتھوں میں لرزنے لگی۔ میں نے کھڑے ہو کر بڑی فاش غلطی کی تھی۔ مجھے لیٹے لیٹے ہی اس پر گولی چلانی چاہیے تھی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا! میں اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر وہ مجھ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر لیتا تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے بچا نہیں سکتی تھی۔ میں بے اختیار الٹے قدموں پیچھے ہٹنے لگا۔ ساتھ ہی لرزتے ہاتھوں سے رائفل دوبارہ بھرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ میری نگاہیں جیسے درندے کے وجود سے چپک کر رہ گئی تھیں۔ آس پاس کی مجھے کچھ خبر نہ تھی۔ در اصل ایسے مواقع پر درندے پر سے نظریں ہٹانا موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے۔
شیر کے شانے سے خون کا فوارہ اُبل رہا تھا، اس کے باوجود وہ پہلے سے بھی زیادہ خوفناک انداز میں گرجا۔ گرج سن کر میں سہم گیا اور کارتوس میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے جا گرے۔ موت مجھ سے چند گز کے فاصلے پر تھی۔ کسی بھی لمحے زخمی درندہ جست لگا کر مجھے راہ عدم کا مسافر بنا سکتا تھا۔ جیسے تیسے میں نے رائفل دوبارہ بھری اور ایک ٹیلے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند ثانیوں بعد میں نے ٹیلے کی اوٹ سے سر باہر نکال کر دیکھا، تو شیر کہیں نظر نہ آیا۔ البتہ خون کی لکیر دور سے چمکتی نظر آ رہی تھی۔ اس دوران سنجیو بھی وہاں پہنچ گیا۔ "آپ ٹھیک تو ہیں ناں صاحب جی؟” اس نے اکھڑی ہوئی سانسوں کے درمیان سوال کیا۔
میں نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی رائفل دوبارہ گولیوں سے بھر لی۔ میری نظریں جنگل کے اس حصے پر مرتکز تھیں جدھر شیر روپوش ہوا تھا۔ چند ثانیوں بعد میرے اندازے کی تصدیق ہو گئی۔ جنگل کے اسی حصے سے شیر کی درد و تکلیف سے بھرپور دھاڑیں سنائی دیں۔
زخمی شیر ہو یا کوئی اور درندہ، اس کا فوری تعاقب جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اسے تلاش کرنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب زخم ٹھنڈے پڑ جائیں اور خون بکثرت بہہ جانے کے باعث اس پر نقاہت غلبہ پالے۔
سادھو آدم خور کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔ اس کی لاش اسی کھال میں لپٹی ہوئی تھی جسے اوڑھ کر وہ لوگوں کو شیر بن کر جھانسا دیا کرتا تھا۔ یہ اس کی بدقسمتی ہی تھی کہ جب اس نے شیر کا ناٹک رچایا تو انہی دنوں حقیقتاً ایک شیر اس علاقے میں مویشی خور بن بیٹھا۔ اگر وہ غلطی سے چروا ہے کو نوالا نہ بناتا تو یقیناً آدم خور نہ بنتا۔ بہرحال مجھے یقین تھا کہ سادھو بھی آدم خوری کی لت میں مبتلا تھا اور نہ جانے اب تک کتنے انسانوں کو لقمہ اجل بنا چکا تھا۔ بعد ازاں اس کی جھونپڑی سے نہ صرف شیر کی ایک دوسری کھال برآمد ہوئی بلکہ ایک ایسا آلہ بھی ملا جس کی مدد سے سرکس میں کام کرنے والے بازی گر شیر کی سی آواز نکالتے ہیں۔ سادھو کی موت کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ گاؤں والوں کے سامنے اس کا راز فاش ہو گیا اور انہیں میری باتوں پر یقین آنے لگا۔
بہرحال اب درندے کا کام تمام کرنا میری اخلاقی ذمے داری بن گیا تھا۔ میں سنجیوکو ساتھ لیے واپس گاؤں آ گیا۔ دو گھنٹوں کی اس تکلیف دہ مہم نے میرے اعصاب کو اتنی بری طرح جھنجھوڑ دیا تھا کہ میں سنجیو کی جھونپڑی میں سوائے آرام کرنے کے کچھ نہ کر سکا۔ شیر کی دھاڑیں اور فائرنگ کا شور سن کر گاؤں والوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارا درندے سے سامنا ہو چکا ہے، البتہ درست صورت حال بعد ازاں سنجیو کی زبانی معلوم ہوئی۔
"اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟” دوپہر کے کھانے پر سنجیو نے مجھ سے پوچھا۔
"مجھے یقین ہے کہ زخمی شیر زیادہ طویل مسافت طے نہیں کر سکے گا۔ ” میں نے جواب دیا۔ "ایسے میں ہانکا کرانے کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ”
"گاؤں کی اکثریت سادھو کی کہانی پر یقین رکھنے والوں کی ہے۔ ” سنجیو نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔ "بزدل ہونے کے باعث وہ کبھی اس امر پر رضامند نہیں ہوں گے کہ زخمی درندے کی موجودگی میں ہانکا کریں۔ ہاں دوسرے گاؤں سے مسلمان جوان بلائے جا سکتے ہیں۔ ”
"جب تک وہ آئیں، زخمی شیر ہماری دسترس سے دور جاچکا ہو گا۔ ” میں نے جواب دیا۔ "اب یہی ہو سکتا ہے کہ میں خون کے نشانات کے ذریعے درندے کا تعاقب کروں۔ ”
افسوس درندہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ مکار اور طاقتور نکلا۔ اسی رات اس نے ایک اور ہولناک واردات کر ڈالی۔ نیا واقعہ پچھلے تمام واقعات سے زیادہ لرزہ خیز تھا۔ شیرآدھی رات کے قریب ایک باڑے میں گھس گیا جس میں گائے بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ رکھوالا دروازے کے پاس ہی سویا ہوا تھا۔ شیر ایک موٹے تازے بچھڑے کو شکار بناکر اسے باہر گھسیٹ رہا تھا کہ مویشیوں کی بھگدڑ سے رکھوالے کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے درندے کو دیکھا تو بدحواس ہو کر چیختا ہوا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ دیکھ کر شیر نے بچھڑے کو چھوڑا اور رکھوالے کا کام تمام کر ڈالا۔ بہرحال شور شرابا سن کر جب تک گاؤں والے وہاں پہنچے، شیر اپنے تازہ شکار سمیت رفوچکر ہو چکا تھا۔ مجھے اطلاع دی گئی۔ میرے لیے یہ کوئی معمولی خبر نہ تھی، اگر یہ واردات اسی شیر کی تھی تو اس کا مطلب تھا کہ میری چلائی ہوئی گولی سے اسے کوئی کاری نقصان نہیں پہنچا تھا۔ میں نے اسی وقت سنجیو کو ساتھ لیا اور باڑے پہنچ گیا۔ اندر ہر طرف خون بکھرا ہوا تھا۔ باقی جانور ہٹادیے گئے تھے۔ ایک طرف مُردہ بچھڑا خون میں لت پت پڑا تھا۔ شیر نے اس کی گردن توڑ ڈالی تھی۔ دروازے کے قریب بدقسمت رکھوالے کے خون کے دھبے اور جا بجا ایسے نشانات تھے جن سے پتا چلتا تھا کہ شیر اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا ہے۔
پنجوں کے نشانات سے میں نے اندازہ لگالیا کہ یہ وہی زخمی شیر تھا۔ باہر بھی ایسے نشانات خاصی دور تک نظر آئے۔ میں نے ان کی رہنمائی میں شیر کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر اپنے شکار کا کچھ حصہ کھانے کے بعد اسے کہیں چھپادے گا۔ ایسے میں اگر ہم لاش کے قریب مچان بنالیں، تو ہمیں کامیابی مل سکتی تھی۔
صبح کاذب کا اُجالا ہونے کو تھا جب میں سنجیو کے شدید اصرار پر اسے ساتھ لیے ضروری سازوسامان سے لیس ہو کر خون اور رگڑنے کے نشانات کا معائنہ کرتا آدم خور کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ کسی بھی آدم خور کو تلاش کر کے ہلاک کرنا شکار کا خطرناک ترین مرحلہ ہوتا ہے، خاص طور پر جب اس کے قبضے میں تازہ شکار بھی ہو۔ جنگل کی حدود تک تو ہم بآسانی نشانات کا تعاقب کرتے رہے۔ پھر جھاڑ جھنکار کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ایک ایک کر کے نشان مفقود ہونے لگے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ ابھی سورج پوری طرح طلوع نہ ہوا تھا۔ دوسری طرف جنگل کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ شیرکو پیدل تلاش کرنے میں کئی خطرات پوشیدہ تھے۔ گھنی جھاڑیاں، تناور درخت، چٹانیں، ٹیلے، نالے اور اندھے گڑھے۔ وہ بڑا ہی ہیبت ناک جنگل تھا۔ طلوع آفتاب نے اگرچہ ہمارے لیے خاصی آسانی پیدا کر دی مگر اچانک درندے کے آثار غائب پاکر میری روح مضطرب ہو گئی۔ سنجیو کو میں نے آگے چلنے کی ہدایت کر رکھی تھی مبادا وہ میری غفلت میں درندے کا نوالہ بن جائے۔
ہم لوگ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جنگل میں چکر لگاتے رہے مگر آدم خور تو کجا کوئی ایسی نشانی بھی نہ ملی جو اس کی موجودگی کی چغلی کھاتی۔ نشانات کچھ تو مٹ گئے، کچھ اگر ہوں گے تو نظر نہیں آئے۔ جنوب کی طرف جنگل قدرے چھدرا اور زمین ہموار تھی۔ بعض اوقات قدرت نیک کاموں میں قابل قدر مدد کرتی ہے۔ جنوب کی طرف مڑ کر ہم املی کے ایک درخت کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اچانک مور کی آواز سن کر ہمارے قدم ساکت ہو گئے۔ مور اور شیر کی دوستی مشہور ہے، مگر یہ دوستی اسی وقت قائم ہوتی ہے جب شیر کا پیٹ خوب بھرا ہوا ہو اور اسے دانتوں میں خلال کی ضرورت پیش آئے۔ بصورت دیگر خون میں کھیلنے والے ہلاکت آفریں شاہِ جنگل سے سبھی چرند پرند کنی کتراتے ہیں۔
وہ تیز چیخ نما آواز جو ہم نے اس لمحے سنی، مور صرف اسی وقت نکالتا ہے جب شیر کے تیور جارحانہ ہوں۔ میری اور سنجیو کی نگاہیں ایک پل کے لیے چار ہوئیں اور میں یہ سوچنے لگا کہ ممکن ہے مور نے شیر کے بجائے کسی دوسرے درندے کو دیکھ کر یہ آواز نکالی ہو۔ بہرحال اب ہمارا رخ فی الفور اس طرف ہو گیا جدھر سے مور کی آواز آئی تھی۔ وہ علاقہ کسی قدر دشوار گزار بھی تھا۔ جا بجا خاردار جھاڑیاں اور اونچے نیچے ٹیلے تھے۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے جنگل زیادہ خطرناک ہوتا گیا۔ ساتھ ہی ہماری رفتار بھی کم ہو گئی کیونکہ خاردار جھاڑیاں ہماری راہ میں مزاحم تھیں۔ بہرحال ہم پھونک پھونک کر قدم رکھتے آگے بڑھتے رہے۔ سنجیو کو میں بار بار اشارہ کرتا کہ زمین کی طرف دیکھ کر خون کے دھبے یا کوئی اور نشان تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
ہم برگد کے نہایت پرانے درخت کے سائے تلے سے گزر رہے تھے کہ سنجیو رک گیا۔ مجھے اس کے چہرے پر خوف و دہشت کے آثار نظر آئے۔ اب جو میں نے اس طرف نظر دوڑائی، تو میرا وجود بھی کانپ گیا۔ ہم سے تقریباً دس گز دور جھاڑی کے پاس ایک انسانی لاش اس طرح پڑی تھی کہ اس کا دھڑ جھاڑی کے اندر جب کہ دونوں ٹانگیں باہر نکلی پڑی تھیں۔ سنجیو کے تاثرات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ اسی بدقسمت رکھوالے کی لاش تھی جسے آدھی رات کے وقت شیر نے گاؤں سے اٹھایا تھا۔
میری شکاری زندگی کا وہ عجیب نظارہ تھا۔ کوئی بھی شیر خصوصاً آدم خور اپنے شکار کو اس طرح کھلا نہیں چھوڑتا۔ میرا ذہن یہ گتھی سلجھانے میں مصروف تھا کہ دفعتاً قرب وجوار سے ایک مہیب آواز سنائی دی اور میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ یقیناً شیر ہی کی آواز تھی۔ جنگل کے پُر ہیبت سناٹے میں اگر کوئی عام جانور بھی بولے، تو دل پر دہشت طاری ہو جاتی ہے، وہ تو شیر تھا، جنگل کا فرمانروا…! پل بھر کے لیے تو ہم دونوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ ساتھ ہی مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم دونوں آدم خور کی عیاری کا شکار ہو چکے تھے۔ مکار درندے نے در اصل ہمیں اپنے جال میں پھانس لیا تھا۔
بہرحال اب درپیش صورت حال سے نمٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، میں نے جلدی سے ایک رائفل سنجیو کو پکڑائی اور اس کے ساتھ پیٹھ جوڑے چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا۔ اس وقت درخت پر چڑھنے کا خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا تھا۔ ایک پل کی بھی غفلت موت کو دعوت دینے کے برابر تھی۔ میں ہمہ تن چشم و گوش بنا، رائفل پر گرفت مضبوط کیے کسی بھی جھاڑی سے شیر کے برآمد ہونے کا منتظر تھا۔
اچانک تیس گز دور گھنی جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی اور میں نے ایک بھاری بھرکم وجود کو جھاڑیوں سے نکل کر اپنی طرف حملہ آور پایا۔ وہ یقیناً وہی شیر تھا مگر اس میں وہ پھرتی نہ تھی جو ایک تندرست درندے میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس کا ایک شانہ صحیح طور پر کام نہیں کررہا تھا۔
آدم خور درندہ میری طرف بڑھ رہا تھا جبکہ میں مچان پر بیٹھے ہونے کے بجائے زمین میں کھڑا اسے تک رہا تھا۔ عین اُس وقت جب شیر کے اور میرے درمیان بیس گز کا فاصلہ رہ گیا، میں نے اس کے وجود پر نگاہیں گاڑ کر رائفل کندھے سے لگالی۔ جنگل میری رائفل کے ہولناک دھماکوں اور آدم خور شیر کی ہیبت ناک آوازوں سے گونج اٹھا۔ دونوں گولیاں اس کے جسم سے آر پار ہو گئیں۔ وہ مٹی کے بت کی طرح زمین پر آ رہا مگر چشم زدن میں دوبارہ کھڑا ہو گیا۔ اب میرے اور اس کے درمیان فاصلہ ہی کتنا رہ گیا تھا… بمشکل سات آٹھ گز۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دو اور گولیاں اس کے دونوں شانوں کے درمیان داغ دیں۔ شیر کیا تھا قیامت تھا، اتنی گولیاں کھاکر بھی وہ پھر اچھلا اور مجھے اس کا چہرہ اور پنجہ اپنے سے چند فٹ کے فاصلے پر ابھرتا نظر آیا۔ وہ بدبخت مجھے موت کی آغوش میں پہنچانے کا پورا انتظام کر چکا تھا اگر عین اس لمحے سنجیو شیر پر گولی نہ داغتا۔ گولی نے دونوں آنکھوں کے عین درمیان اس کی پیشانی کا مہلک بوسہ لیا اور شیر کا پورا جسم کانپ گیا۔ وہ پشت کے بل پلٹ کر گرا اور بغیر آواز نکالے ساکت ہو گیا۔
یوں نیل گری کا وہ گاؤں ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن گیا جس کی فضاؤں میں کچھ عرصہ قبل ایک مکار سادھو اور آدم خور شیر قیامت بن کر نازل ہوئے تھے۔
٭٭٭
مترجم: عبدالمجید قریشی
چینا گڑھ کا آدم خور شیر
نواب قطب یار جنگ
چینا گڑھ کا مشہور آدم خور شیر کسی مرے ہوئے سنار کی بدروح سمجھا جاتا تھا۔ اس موذی نے ایک سال میں ۷۸آدمی ہڑپ کیے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے پیر میں چاندی کا کڑا ہے۔ ایک شکاری صاحب نے بتایا کہ اس کا رنگ سفید ہے۔ آدم خور کی تلاش اور ہلاکت میں کئی ماہ نکل گئے اور میں اس مسلسل دوڑ دھوپ سے سخت ہلکان ہوا۔ ناظم صاحب ڈاک خانہ، معتمد صاحب سیاسیات اور ناظم صاحب مال نے متعدد مراسلے لکھے اور ایک افسر دوست نے مجھ پر طنز بھی کیا:
"صاحب آپ اچھے شکاری بنے پھرتے ہیں۔ چھ ماہ ہو گئے اور ذرا سا شیر نہیں مارا جاتا!”
تاؤ تو بہت آیا، مگر میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ کئی بار تو شبہ بھی ہوا کہ یہ موذی واقعی کوئی بد روح تو نہیں ! ابھی سنا مغرب میں ہے، ادھر پہنچا تو مشرق میں دیکھا گیا۔ گویا یہ آدم خور دن بھر میں پچاس پچاس میل کی مسافت آسانی سے طے کر لیتا تھا۔
یہ بھی سنا گیا کہ وہ کمبل پوش لکڑی کاٹنے والوں پر متعدد بار حملہ آور ہوا۔ کئی آدمی اس شرط کے ساتھ کمبل اوڑھ کر لکڑی کاٹنے پر تیار ہوئے کہ میں اس درخت پر بیٹھوں۔ مگر میں نے ایسا خطرہ مول لینا مناسب نہ جانا، البتہ یہ ضرور کیا کہ لکڑی پر کمبل اوڑھا کر میں درخت پر بیٹھا اور کئی کلہاڑی والوں کو مختلف درختوں پر چڑھا کر ہدایت کی کہ لکڑی کاٹنے کی آواز پیدا کریں، مگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور کہیں آدم خور کا سراغ نہ لگا۔ اس عرصے میں حکومت کی جانب سے اس کی ہلاکت کا انعام بھی بہت معقول ہو گیا تھا۔
اس لالچ سے متعدد گاؤں اوردیہاتوں کے شکاری آدم خور کو ہلاک کرنے کے متمنی تھے مگر کم بخت کوئی تدبیر نہ کرتے۔ اگست ۱۹۲۲ء کا مہینہ تھا۔ بارش نہ ہونے کے باعث میں دورے پر روانہ ہوا۔ ایک مقام پر گھوڑے پر گزر رہا تھا کہ پٹیل پٹواری اور چند ادنیٰ طبقے کے لوگوں نے راستے میں بتایا کہ اس مقام سے تین میل پر صبح کے وقت آدم خور ایک آدمی کو اٹھا کر لے گیا اور اب اس قبیلے کے لوگ جنگل میں اسے تلاش کرنے گئے ہیں، لیکن ابھی تک ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شیر لاش لے کر سامنے کے پہاڑ پر چڑھ گیا ہے۔ یہ پہاڑ اس مقام سے جہاں میں کھڑا تھا اندازاً تین میل ہو گا۔ میں نے فوراً پہاڑ کا رخ کیا۔ میرے پاس صرف ۱۵۰۰ ایکسپریس اور ریوالور تھے۔ راستے میں جو گاؤں والے ملے وہ بھی ساتھ ہولیے۔ ان میں بمٹونام کا ایک آدمی بھی تھا۔ اس کے پاس توڑے دار لمبی نال کی بندوق تھی۔ وہ نہایت جوش کے ساتھ میرے گھوڑے کے آگے آگے ہولیا۔ پہاڑ کے قریب پہنچے تو ہمیں ۲۷ آدمیوں کی ایک جماعت ملی۔ ان کے ساتھ تین جنگلی کتے بھی تھے۔ وہ ہمارے پاس آئے اور بیان کیا کہ پہاڑ کے بائیں طرف تک خون آلود کپڑے کی دھجیوں سے کچھ پتا لگا، آگے سراغ نہیں ملتا۔ نالہ پہاڑ کے نیچے بہت گہرا ہے۔ ممکن ہے شیر اسی نالے میں اترا ہو، مگر ہماری ہمت نہیں پڑتی۔ مجھے خیال گزرا غالباً اس قلیل عرصے میں شیر نے پوری لاش نہ کھائی ہو۔ اگر لاش کا بچا ہوا حصہ مل جائے تو شاید شیر پھر آئے اور مار کھا جائے۔
محض اس قیاس کے سہارے میں اس حصے تک پہنچا جہاں مقتول کے کپڑے کا ٹکڑا ملا تھا۔ یہاں پر دو آدمی اور منتخب کیے۔ ایک اپنا بندوق بردار اور دوسرا وہ توڑے دار بندوق والا۔ بقیہ سب لوگوں کو وہیں ٹھہر جانے کی ہدایت کی۔ یہاں سے میں اور میرے دونوں ہمراہی نہایت آہستہ آہستہ نالے کے دائیں کنارے کی طرف بڑھے۔
دوپہر کا ڈیڑھ بج گیا۔ ہم زیادہ سے زیادہ ڈھائی فرلانگ چلے ہوں گے کہ مجھے نالے کے اندر سے ہڈیاں چٹخنے کی آواز آئی۔ جوش اور ہوش و حواس کو پوری طرح کام میں لانے کی کوشش میں جو کیفیت طاری ہوتی ہے اس سے شکاری خوب واقف ہیں اور یہ معاملہ تو نہایت خبیث آدم خور کا تھا۔ دو تین منٹ تک میں نہایت توجہ سے کان کے پیچھے ہاتھ رکھ کر سنتا رہا۔
اس دوران تین مرتبہ اور صاف آواز آئی۔ معلوم ہوا شیر ہڈیاں چبارہا ہے۔ بس یہ اشارہ بہت تھا۔ شیر کے شکار میں سب سے ضروری جزو ان معلومات کا بہم ہونا ہے کہ شیر ہے کہاں ؟ جب یہ مرحلہ طے ہو جائے تو ہلاکت کی تدبیریں سوچنا دوسرا کام ہے۔ چنانچہ شیر کا سراغ لگنے کے بعد میں فوراً اس جگہ سے چل کر آہستہ آہستہ گاؤں والوں کے پاس پہنچا۔ خوش قسمتی دیکھئے کیمپ والوں میں سے میرے شکاری میری بندوق سمیت پتا معلوم کر کے وہاں آ گئے تھے۔ یہاں "کونسل آف وار” منعقد ہوئی اور طے پایا کہ ہانکا کیا جائے۔ شیر بہت چالاک ہے، کسی شخص کو پیدل اپنے تک پہنچنے نہ دے گا اور ذرا سے شبہ پر ہوا ہو جائے گا۔ ہانکا پہاڑ کی طرف کیا جانا چاہیے اور پہاڑ کے پائیں میں مجھ کو درخت پر بیٹھنا ہو گا، مگر مصیبت یہ کہ جھولا اور سیڑھی وغیرہ لانے میں بہت دیر ہو گی اور یہاں ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، لہٰذا طے پایا کہ دو ایک گاؤں والے مدد دے کر مجھے درخت پر چڑھادیں گے اور وہ میرے ساتھ رہیں گے۔
ساتھیوں کے آ جانے سے بڑی مدد ملی، ورنہ گاؤں والوں کو سمجھانے میں خاصی دقت ہوتی اور وقت باقی نہ رہتا۔ اس اسکیم پر فوراً عمل ہوا۔ میں دور کا چکر کھاکر شیر سے تقریباً دو سو گز آگے پہنچ گیا۔ اسٹاپ لگادئیے گئے اور جس قدر ہانکے والے فراہم ہو سکے ان کے ساتھ ہانکے کی لائن بن گئی۔ بدنصیبی ملاحظہ ہو کہ ایک درخت بھی ایسا نہ ملا جس پر میں سیڑھی کے بغیر چڑھ سکوں۔ مجبور ہو کر درخت کے نیچے اپنی جگہ تجویز کی اور سامنے چند شاخیں توڑ کر عارضی ٹٹی سی بنالی۔ میں اس ٹٹی کی شاخیں اور پتے درست کرنے میں مشغول تھا۔ بندوق اردلی کے ہاتھ میں تھی کہ یکایک میری دائیں جانب کوئی سوگز کے فاصلے پر پہلے دھت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دھت، یعنی شیر کو ہانکنے کی اور اس کے ساتھ ہی شیر کی بھپکی کی نہایت دہشت انگیز آواز آئی۔ اب ٹٹی درست کرنے کا وقت نہ تھا۔ اپنے ہوش وحواس درست کرنے تھے۔ فوراً اردلی کے ہاتھ سے بندوق لے لی، سیفٹی کیچ ہٹایا اور پوری طرح تیار ہو کر اس طرف دیکھنے لگا جدھر سے آواز آئی تھی۔ اس آواز کے یساتھ ہی ہانکے والوں نے جو اب تک اشارے کے انتظار میں خاموش کھڑے تھے، بغیر اشارے کے پوری قوت سے چلّانا شروع کر دیا۔ میں مسلسل اس طرف دیکھتا رہا جس طرف سے آواز آئی تھی اور ہر لحظہ موذی کے سامنے آنے کا خطرہ تھا۔ دل کی دھڑکن اس قدر تیز کہ میں سمجھا نشانہ خالی جائے گا۔ بہرصورت اس وقت کی حالت زبان سے بیان نہیں کی جا سکتی۔ بندوق لیے تیار کھڑا ہوں، ہانکے والے بہت آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں یکایک اسی طرف سے فائر کی آواز آئی۔ مگر شیر نے آواز نہ نکالی۔ اول تو توڑے دار بندوق کی آواز صاف پہچانی جاتی ہے، دوسرے خالی جانے کی آواز جو بڑے بور کی بندوقوں میں بین طور پر پہچانی جاتی ہے اور سب سے بڑا غضب یہ کہ شیر کی خاموشی۔ ۔ ۔ ان تینوں اسباب نے مل کر مجھے تقریباً مایوس کر دیا۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ مایوسی کے خیال نے میرے ہاتھ پیر یا یوں سمجھئے، اعصاب ڈھیلے کر دئیے۔ اس فائر کی آواز کے بعد ہانکے والوں نے زیادہ زور لگایا۔ ان کی آوازیں دہشت اور جوش سے بھری ہوئی تھیں، مگر میں ذہنی طور پر پتھر کے بت کی مانند کھڑا تھا۔ شاید دو تین منٹ اس حالت میں گزرے ہوں گے کہ سردار خان نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر ٹھیک میری جگہ سے ۹۰ڈگری پر اشارہ کیا۔ میں فوراً اس طرف پورا مڑ گیا اور غور سے ادھر دیکھا، مگر کچھ نظر نہ آیا۔ سردار خان دبے لہجے میں بولا: "صاحب! سامنے کی زرد گھاس ہلتی ہوئی نظر آئی تھی۔ اس میں شیر ہے یا کوئی اور جانور، مگر ہے ضرور۔ اسی پر نگاہ رکھئے۔ ” میں دل میں خیال کر رہا تھا کہ فائر کی آواز دوسری طرف سے آئی۔ شیر یہاں کیوں کر پہنچ گیا۔ دس بارہ سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ صاف طور پر مجھ کو گھاس ہٹتی اور ہلتی محسوس ہوئی۔ اس امید افزا منظر نے پھر مجھ میں چستی پیدا کر دی۔ میں نے سردارخان سے کہا، "فاصلہ کم ہے، مجھے بڑی بندوق دے دو۔ ”
اس متحرک گھاس کا فاصلہ ۹۰گز کے لگ بھگ ہو گا اور میں جانتا ہوں کوئی شیر اتنی دور سے حملہ نہیں کرتا۔ پھر بھی اس آدم خور کی شہرت اور اس کے قصے سن سن کر اس کا ایسا رعب دل پر غالب تھا کہ ہر حرکت اور ہر غیر معمولی مکاری کی اس سے توقع کی جا سکتی تھی۔ اعشاریہ ۵۷۷ہاتھ میں لیے مجھے مشکل سے پانچ سات سیکنڈ گزرے ہوں گے کہ پھر چار پانچ گز تک گھاس ہلتی نظر آئی اور جب ہلنا موقوف ہوا تو کچھ اس قسم کا احساس ہوا کہ میں نے پلک جھپکنے سے بھی کہیں قلیل وقفے میں کوئی چیز سفید اور مٹیالے سے رنگ کی دیکھی جو نگاہ پڑتے ہی پیچھے کی طرف ہٹ گئی۔ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ در حقیقت میں نے کچھ دیکھا یا محض میرا تصور تھا، مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دل و دماغ اور تمام جسم کی کمانیاں پوری طرح کھنچ گئیں اور کامل ایک منٹ کے بعد میں نے پھر اس میلے، کچھ زرد اور کچھ سفید سیاہی مائل جسم کو گھاس کے بیچ میں اچھی طرح پیچھے کی جانب ہٹتے دیکھا اور اب کی مرتبہ یقیناً دیکھا۔ دل و دماغ نے گواہی دی اور شکاری کی تمام حسوں نے خبردار کر دیا کہ اب صحیح طور پر ہم سے کام لو۔ ہانکا ہو رہا ہے مگر مجھے معلوم نہیں زور سے یا آہستہ۔ ۔ ۔ اور ہانکے والے کیا کہہ رہے ہیں ؟ مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ میں کتنی دیر گھاس پر نظریں جمائے رہا۔ آخرکار گھاس میں کوئی ۸۰ گز کے فاصلے پر حرکت ہوئی۔ میں مسلسل اسی طرف دیکھ رہا تھا۔ گھاس میں کہیں کہیں درخت تھے اور کہیں کہیں جھاڑیاں، مگر درخت بڑے اور تناور نہ تھے اور نہ جھاڑیاں گنجان تھیں۔ اگر کوئی جانور میری طرف بڑھنا چاہے تو اس گھاس میں سے گزرنا اس کے لیے لازمی تھا کہ تھوڑا فاصلہ میری نگاہ کے سامنے طے کرے۔ اس جانور کا اس وقت مقصد گھاس میں گزر کر جھاڑیوں کی آڑ میں جانا تھا۔ تجربہ کار اور پرانے شکاری جب ہرن کا پیچھا کرتے ہیں تو یہی طریقہ کام میں لاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جانور بھی اس طریقے سے واقف تھا اور پوری طرح اس عمل سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
میں اور سردار خان اب پوری طرح سمجھ گئے تھے کہ اس گھاس میں شیر ہے۔ مگر نہ معلوم کیوں مجھے یہ خیال بھی نہ تھا کہ اس شیر کی نگاہ ہم پر ہے۔ تاہم میرے ساتھی کو یقین تھا کہ شیر ہم پر حملہ کرے گا۔ اپنے اس خیال کے ثبوت میں اس نے بتایا کہ میں نے بندوقیں درخت کے تنے پر رکھ دی تھیں کہ حملے کی صورت میں جلد ہاتھ میں لے سکوں، جھکنا نہ پڑے۔ غالباً اس کا یہ انداز اس امر سے لاعلمی پر مبنی تھا کہ اگر تیس گز سے زیادہ فاصلہ ہو، تو شیر حملہ نہیں کرتا۔
میری بہت بڑی غلطی یہ تھی کہ میں یہ احساس نہ کر سکا کہ شیر ہمیں شکار سمجھ کر چپکے چپکے حملہ کرنے کی تیاریاں کرے گا اور خاص طور پر ایسی حالت میں جب کہ ہانکا ہو رہا ہو۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اس نے اب تک ہمیں دیکھا ہی نہیں۔ ایک دو منٹ بعد پھر حرکت ہوئی۔ اگلی مرتبہ شیر سر نکالے بغیر جھاڑی کی آڑ میں آ گیا، مگر جھاڑی گنجان نہ تھی، کہیں کہیں سے اس کا جسم نظر آتا تھا۔ ہانکے والے چونکہ روکے نہیں گئے، اس لیے وہ برابر آگے بڑھتے آئے اور پانچ منٹ میں ان کا بایاں حصہ شیر والی جھاڑی سے سو گز کے فاصلے پر پہنچ گیا۔
اس پانچ منٹ میں ہم نے کوئی حرکت نہ کی اور مسلسل جھاڑی کی طرف دیکھتے رہے۔ چند آدمیوں کے اس مقام پر پہنچتے ہی جسے میں سوگز کا خیال کرتا ہوں، شیر نے جھاڑی کی آڑ سے جست کی۔ یہ جست زیادہ بڑی نہ تھی مگر آواز کو بادل کی گرج سے تشبیہ دینا غلط نہ ہو گا۔ بجلی چمکنے کی صورت میں جس طرح تھوڑی سی دیر کے لیے گرج ہوتی ہے اور دو زبردست جسموں کے آپس میں رگڑنے کی آواز کا احساس ہوتا ہے، اس کے بعد کڑک ہوتی ہے، اسی طرح شیر نے اپنے حملے کا آغاز کیا۔ جست اور آواز دونوں ساتھ ساتھ واقع ہوئیں۔ غالباً جست کرنے میں یہ گرجدار آواز اس کے حلق سے نکلی۔ مجھ کو دونوں کا احساس وقت واحد میں ہوا۔
شیر کی اس دھاڑ سے بڑے بڑوں کا لہو خشک ہونے لگتا ہے اور اعصاب گویا سُن ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد شیر نے بلی کی طرح بلکہ زیادہ دبک کر اور جھک کر پنجوں سے مٹی اڑانی شروع کی اور مسلسل حلق سے غر غر کی آوازیں نکالتا رہا، پھر وہاں سے چل کھڑا ہوا۔ میں برابر اس کے اگلے حصے کو بندوق کی مکھی پر لیے رہا۔ اب کہہ نہیں سکتا کہ فائر کیوں نہ کیا۔ شاید فاصلہ زیادہ سمجھتا تھا۔ بہرحال تیس چالیس گز تک گیا اور آدھ سیکنڈ کے لیے رکا، پھر پوری طرح سنبھل کر چار گز کے قریب لمبی جست کی اور جست ہی کی حالت میں زور سے دھاڑا۔ اس جست سے جب زمین پر آیا تو پھر ذرا سا ٹھہرا اور دوسری جست کے لیے چار پانچ قدم تیز دوڑا، پھر چھلانگ لگائی اور ہوا میں معلق نظر آیا۔ میں نے ٹھیک آگے بڑھے ہوئے سر کے رخ پر تقریباً تین فٹ آگے فائر کر دیا۔ خدا کا شکر کہ گولی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ناک کی خط سے کوئی دو انچ اوپر لگی۔ ابھی شیر معلق تھا، اعشاریہ ۵۷۷ کے زور نے اسے پیچھے کی طرف پھینک دیا۔ دُم میری طرف ہو گئی اور سر زمین سے ٹکرایا۔ اس نے بہت خفیف جنبش کی جس طرح کسی کے ہاتھ پیروں میں لرزہ ہوتا ہے۔ اس لرزے کی صورت میں درندے کے منہ سے کچھ ایسی مہیب چیزیں باہر آئیں جن کا تصور سخت تکلیف دہ ہے۔ پندرہ منٹ انتظار کے بعد ہانکے والوں کا ایک جم غفیر لاش پر آیا۔ مقتول کے بھائی نے درندے کے پیٹ کی آلائش دیکھ کر جو باہر آ گئی تھی چیخ ماری اور پھر میرے پیروں پر آن گرا۔ اسے سمجھا کر اٹھایا۔ تھوڑی دیر میں یہ اپنے رشتہ داروں سمیت ناچنے لگا۔ ناپنے سے معلوم ہوا کہ جس جگہ میں کھڑا تھا وہاں سے شیر کی لاش ۲۲گز کے فاصلے پر تھی۔ کھوپڑی پاش پاش ہو گئی تھی۔ یہ ایک بڈھا نر شیر تھا۔ اس کے سیاہ پٹے بال گر جانے کی وجہ سے ہلکے سیاہ، بلکہ بھورے ہو گئے تھے۔ بالوں میں چمک نہ تھی۔ جلد کی زرد زمین بھی خاصی میلی ہو گئی تھی اور بال اس قدر کم کہ اندر کی سطح خاکی اور سیاہی ملی ہوئی نظر آتی تھی۔ دُم کا گچھا باقی نہ رہا تھا۔ صرف چند بال تھے جن کی وجہ سے دُم کا کنارا نوک دار نظر آتا تھا۔ کلائی میں چاندی کا کڑا جو مشہور تھا وہ کسی بیل یا جھاڑی سے رگڑ کا نشان تھا۔ اس جگہ کے بال کم ہو گئے تھے۔ دور سے دیکھنے والے کو اس پر سفیدکڑے کا گمان گزرا ہو گا۔ مہتمم صاحب نے بیان کیا تھا کہ یہ شیر سفید ہے۔ اس کی دُم کے قریب پٹھے پر دو انچ لمبے اور ایک انچ چوڑے گہرے زخم کا نشان تھا اور اس زخم کے نیچے دو سخت گلٹیاں ریٹھے کے بیج کے برابر تھیں۔ چلنے میں یہ گلٹیاں درندے کو کوئی تکلیف دیتی تھیں یا نہیں، معلوم نہیں ہو سکا، مگر بعض لوگوں نے بتایا کہ شیر پیچھے کا جسم جھکا کر چلتا تھا۔ میرا خیال ہے ابتدائے عمر میں کسی اناڑی شکاری نے درخت پر بیٹھ کر اس کے پٹھے پر گولی رسید کی ہو گی۔ ان دو گلٹیوں کو نکلوا کر دیکھا۔ ان میں اوپر کی طرف تو چربی اور اندر کی جانب کچھ ایسا مادہ تھا کہ اسے مٹی بھی کہہ سکتے ہیں اور گلی ہوئی لکڑی کا برادہ بھی۔ بہرحال یہ محض قیاس ہے۔ اس کے تین دانت سالم تھے جو تیز اور نوک دار نہ تھے۔ شیر کے کانوں پر سیاہ بالوں کی منجاب ہوتی ہے، وہ نہ تھی اور سینکڑوں کیڑوں نے کان کی جگہ زخمی کر دی تھی۔ یہ عبرت کی جاء ہے کہ شیر کے ہلاک ہوتے ہی ان میں خون چوسنے والے کیڑوں نے شیر کا جسم فوراً چھوڑ دیا۔ اس کا پورا قد ناک سے دُم کے آخری سرے تک ۹ فٹ چار انچ تھا۔
کسی نے اپنی توڑے دار بندوق سے اس پر فائر کیا تھا۔ وہاں سے جب یہ پلٹا تو اس نے غالباً ہمیں دیکھ لیا اور راہِ فرار کو مسدود پاکر وہیں چھپ گیا۔ یوں بھی صبح جس آدمی کو اس نے شکار کیا تھا اس کے گوشت سے اسے پیٹ بھرنے کا شاید موقع نہ ملا اور ابھی یہ بھوکا تھا، چنانچہ ہمیں نعم البدل سمجھ کرتا ک میں لگ گیا۔ بہرحال تمام واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی درندہ ستّر یا اسّی گز دور سے حملہ کرنے کی کوشش کرے۔ میرا خیال ہے یہ صرف اپنی جان بچانا چاہتا تھا۔ راہ میں ہم مل گئے۔ آدم خوری کی بد عادت نے اسے یہ سُجھایا کہ آؤ انہی کو مار لو۔ اس کے پچھلے پیر کا ناخن ٹوٹا ہوا اور خون سے تر تھا۔
٭٭٭
ماخذ:
http://shikariyat.blogspot.in/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید