FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

انتخاب امیر مینائی

(اضافہ شدہ)

               امیر مینائی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

وصل ہو جائے یہیں، حشر میں کیا رکھا ہے

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے

پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے

کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے

میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے

اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں

آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے

آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر

یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے

٭٭٭

 

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے

میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے

تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے

مجھے رشک حور اک پری سوجھتی ہے

یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے

تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے

جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھیں ملاؤ

وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے

یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا

وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے

جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے

تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے

امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں

نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے

٭٭٭

 

سرِ راہِ عدم گورِ غریباں طرفہ بستی ہے

کہیں غربت برستی ہے کہیں حسرت برستی ہے

تری مسجد میں واعظ، خاص ہیں اوقات رحمت کے

ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے

خمارِ نشّہ سے نگاہیں ان کی کہتی ہیں

یہاں کیا کام تیرا، یہ تو متوالوں کی بستی ہے

جوانی لے گئی ساتھ اپنے سارا عیش مستوں کا

صراحی ہے نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ مستی ہے

ہمارے گھر میں جس دن ہوتی ہے اس حور کی آمد

چھپر کھٹ کو پری آ کر پری خانے سے کستی ہے

چلے نالے ہمارے یہ زبان حال سے کہہ کر

ٹھہر جانا پہنچ کر عرش پر، ہمّت کی پستی ہے

امیر اس راستے سے جو گزرتے ہیں وہ لٹتے ہیں

محلہ ہے حسینوں کا، کہ قزاقوں کی بستی ہے؟

٭٭٭

 

دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟

درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے

حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول

آدمی کو صبر تھوڑا چاہئے

ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم

کچھ مزا اس کا بھی چکھا چاہئے

ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!

ضبطِ اظہارِ تمنا چاہئے

٭٭٭

 

وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں؟

کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟

مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت اے ہوس!

چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں؟

مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائے گا اے ناخدا!

اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں؟

وہ مرے اعمال روز و شب سے واقف ہے امیر

پیش خالق ادعائے بے گناہی کیا کروں؟

٭٭٭

 

منہ پھر نہ کر وطن کی طرف یوں وطن کو چھوڑ

چھوٹے جو بوئے گل کی طرح سے چمن کو چھوڑ

اے روح، کیا بدن میں پڑی ہے بدن کو چھوڑ

میلا بہت ہوا ہے، اب اس پیرہن کو چھوڑ

ہے روح کو ہوس کہ نہ چھوڑے بدن کا ساتھ

غربت پکارتی ہے کہ غافل، وطن کو چھوڑ

کہتی ہے بوئے گل سے صبا آ کے صبح دم

اب کچھ اِدھر اُدھر کی ہوا کھا، چمن کو چھوڑ

تلوار چل رہی ہے کہ یہ تیری چال ہے

اے بُت خدا کے واسطے اِس بانکپن کو چھوڑ

شاعر کو فِکر شعر میں راحت کہاں امیر

آرام چاہتا ہے تو مشقِ سخن کو چھوڑ

٭٭٭

 

ایک دلِ ہمدم، مرے پہلو سے، کیا جاتا رہا

سب تڑپنے تلملانے کا مزا جاتا رہا

سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی

وہ اُمنگیں مِٹ گئیں، وہ ولوَلا جاتا رہا

درد باقی، غم سلامت ہے، مگر اب دل کہاں

ہائے وہ غم دوست، وہ درد آشنا جاتا رہا

آنے والا، جانے والا، بیکسی میں کون تھا

ہاں مگر اک دم، غریب آتا رہا جاتا رہا

آنکھ کیا ہے، موہنی ہے، سحر ہے، اعجاز ہے

اک نگاہِ لطف میں سارا گِلا جاتا رہا

جب تلک تم تھے کشیدہ، دل تھا شکووں سے بھرا

تم گَلے سے مِل گئے، سارا گلا جاتا رہا

کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا، امیر

جانے دو اک بے وفا جاتا رہا جاتا رہا

٭٭٭

 

تیغِ قاتل پہ ادا لوٹ گئی

رقصِ بسمل پہ قضا لوٹ گئی

ہنس پڑے آپ، تو بجلی چمکی

بال کھولے، تو گھٹا لوٹ گئی

اس روش سے وہ چلے گلشن میں

بِچھ گئے پھول صبا لوٹ گئی

خنجرِ ناز نے کشتوں سے امیر

چال وہ کی کہ قضا لوٹ گئی

٭٭٭

 

فنا کیسی بقا کیسی جب اُس کے آشنا ٹھہرے

کبھی اس گھر میں آ نکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے

نہ ٹھہرا وصل، کاش اب قتل ہی پر فیصلا ٹھہرے

کہاں تک دل مرا تڑپے کہاں تک دم مرا ٹھہرے

جفا دیکھو جنازے پر مرے آئے تو فرمایا

کہو تم بے وفا ٹھہرے کہ اب ہم بے وفا ٹھہرے

تہ خنجر بھی منہ موڑا نہ قاتل کی اطاعت سے

تڑپنے کو کہا تڑپے ، ٹھہرنے کو کہا ٹھہرے

زہے قسمت حسینوں کی بُرائی بھی بھلائی ہے

کریں یہ چشم پوشی بھی تو نظروں میں حیا ٹھہرے

یہ عالم بیقراری کا ہے جب آغاز الفت میں

دھڑکتا ہے دل اپنا دیکھئے انجام کیا ٹھہرے

حقیقت کھول دی آئینہ وحدت نے دونوں کی

نہ تم ہم سے جدا ٹھہرے ، نہ ہم تم سے جدا ٹھہرے

دل مضطر سے کہہ دو تھوڑے تھوڑے سب مزے چکھے

ذرا بہکے ذرا سنبھلے ذرا تڑپے ذرا ٹھہرے

شب وصلت قریب آنے نہ پائے کوئی خلوت میں

ادب ہم سے جدا ٹھہرے حیا تم سے جدا ٹھہرے

اٹھو جاؤ سدھا رو ، کیوں مرے مردے پہ روتے ہو

ٹھہرنے کا گیا وقت اب اگر ٹھہرے تو کیا ٹھہرے

نہ تڑپا چارہ گر کے سامنے اے درد یوں مجھ کو

کہیں ایسا نہ ہو یہ بھی تقاضائے دوا ٹھہرے

ابھی جی بھر کے وصل یار کی لذت نہیں اٹھی

کوئی دم اور آغوش اجابت میں دعا ٹھہرے

خیال یار آنکلا مرے دل میں تو یوں بولا

یہ دیوانوں کی بستی ہے یہاں میری بلا ٹھہرے

امیر آیا جو وقت بد تو سب نے راہ لی اپنی

ہزاروں سیکڑوں میں درد و غم دو آشنا ٹھہرے

٭٭٭

 

عجب عالم ہے اُس کا، وضع سادی، شکل بھولی ہے

کبھی جاتی ہے دل میں، کیا رسیلی نرم بولی ہے

ادائیں کھیلتی ہیں رنگ، تلوار اُس نے کھولی ہے

لہو کی چلتی ہیں پچکاریاں، مقتل میں ہولی ہے

بہار آئی، چمن ہوتا ہے مالا مال دولت سے

نکالا چاہتے ہیں زر گرہ غنچوں نے کھولی ہے

عجب ملبوس ہے ہم وحشیوں کا رختِ عریانی

گریباں ہے، نہ پردہ ہے، نہ دامن ہے، نہ چولی ہے

صراحی دور میں آتی ہے، زاہد ہوں جو محفل میں

جھُکا لیں اپنی آنکھیں، دخترِ رز کی یہ ڈولی ہے

امیر ، اس بے وفا دنیا کی صورت پر نہ تم جاؤ

بڑی عیّار ہے، مکّار ہے، ظاہر میں بھولی ہے

٭٭٭

 

کون بیماری میں آتا ہے عیادت کرنے؟

غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے

اُس کو سمجھاتے نہیں جا کے کسی دن ناصح

روز آتے ہیں مجھ ہی کو یہ نصیحت کرنے

تیر کے ساتھ چلا دل، تو کہا میں نے، کہاں؟

حسرتیں بولیں کہ، مہمان کو رخصت کرنے

آئے میخانے میں، تھے پیرِ خرابات امیر

اب چلے مسجدِ جامع کی امامت کرنے

٭٭٭

 

خنجرِ قاتل نہ کر اتنا روانی پر گھمنڈ

سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ

شمع کے مانند کیا آتش زبانی پر گھمنڈ

صورتِ پروانہ کر سوز نہانی پر گھمنڈ

ہے اگر شمشیر قاتل کو روانی پر گھمنڈ

بسملوں کو بھی ہے اپنی سخت جانی پر گھمنڈ

ناز اُٹھانے کا ہے اس کے حوصلہ اے جانِ زار

اب تلک تجھ کو ہے زور ناتوانی پر گھمنڈ

نوبت شاہی سے آتی ہے صدا شام و سحر

اور کر لے چار دن اس دار فانی پر گھمنڈ

دیکھ او نادان کہ پیری کا زمانہ ہے قریب

کیا لڑکپن ہے کہ کرتا ہے جوانی پر گھمنڈ

چار ہی نالے ہمارے سن کے چپکی لگ گئی

تھا بہت بلبل کو اپنی خوش بیانی پر گھمنڈ

عفو کے قابل مرے اعمال کب ہیں اے کریم

تیری رحمت پر ہے تیری مہربانی پر گھمنڈ

شمع محفل شامت آئی ہے تری خاموش ہو

دل جلوں کے سامنے آتش زبانی پر گھمنڈ

طبع شاعر آ کے زوروں پر کرے کیوں کر نہ ناز

سب کو ہوتا ہے جوانی میں جوانی پر گھمنڈ

چار موجوں میں ہماری چشم تر کے رہ گیا

ابر نیساں کو یہی تھا ڈر فشانی پر گھمنڈ

دیکھنے والوں کی آنکھیں آپ نے دیکھی نہیں

حق بجانب ہے اگر ہے لن ترانی پر گھمنڈ

عاشق و معشوق اپنے اپنے عالم میں ہیں مست

واں نزاکت پر تو یاں ہے ناتوانی پر گھمنڈ

تو سہی کلمہ ترا پڑھوا کے چھوڑوں اے صنم

زاہدوں کو ہے بہت تسبیح خوانی پر گھمنڈ

سبزہ خط جلد یارب رخ پر اُس کے ہو نمود

خضر کو ہے اپنی عمر جاودانی پر گھمنڈ

گور میں کہتی ہے عبرت قیصر و فغفور سے

کیوں نہیں کرتے ہو اب صاحب قرانی پر گھمنڈ

ہے یہی تاثیر آبِ خنجر جلّاد میں

چشمۂ حیواں نہ کر تو اپنے پانی پر گھمنڈ

حال پر اجداد و  آبا کے تفاخر کیا امیر

ہیں وہ ناداں جن کو ہے قصے کہانی پر گھمنڈ

٭٭٭

 

کیا قصد جب کچھ کہوں اُن کو جل کر

دبی بات ہونٹوں میں منہ سے نکل کر

گرا میں ضعیف اُس کے کوچے کو چل کر

زمیں رحم کر تو ہی پہنچا دے ٹل کر

نئی سیر دیکھو سوئے قاف چل کر

سرِ راہ بیٹھی ہیں پریاں نکل کر

اِدھر کی نہ ہو جائے دنیا اُدھر کو

زمانے کو بدلو نہ آنکھیں بدل کر

وہ کرتے ہیں باتیں عجب چکنی چکنی

یہ مطلب کہ چوپٹ ہو کوئی پھسل کر

وہ مضطر ہوں، میں کیا مرے ساتھ گھڑیوں

تڑپتا ہے سایہ بھی کروٹ بدل کر

یہ کہتی ہے وہ زلف عمر خضر سے

کہ مجھ سے کہاں جائے گی تو نکل کر

گلستاں نہیں ہے یہ بزم سخن ہے

کہو شاعروں سے کہ پھولیں نہ پھل کر

غضب اوج پر ہے مری بے قراری

زمین آسماں بن گئی ہے اُچھل کر

پڑا تیر دل پر جو منہ تو نے پھیرا

نشانہ اُڑایا ہے کیا رخ بدل کر

نہ آئیں گے وہ آج کی شب بھی شاید

کہ تارے چھپے پھر فلک پر نکل کر

چلو وحشیو بزم گلزار مہکے

گل آئے ہیں پوشاک میں عطر مل کر

چھپا کب ، بہت خاک ظالم نے ڈالی

شفق بن گیا خون میرا اُچھل کر

کمر بال سی ہے ، نہ لچکے یہ ڈر ہے

جوانی پر اے ترک اتنا نہ بل کر

حضور اس کی باتیں جو کیں ڈرتے ڈرتے

کھڑا ہو رہا دور مطلب نکل کر

چھپے حرف گیری سے سب عیب میرے

ہوئی پردہ ہر بات میں تہ نکل کر

وہ ہوں لالہ ساں سوختہ بخت میکش

کہ مے ہو گئی داغ ساغر میں جل کر

کہے شعر امیر اُس کمر کے ہزاروں

مگر رہ گئے کتنے پہلو نکل کر

٭٭٭

 

جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں

کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں

بے قصد لکھ دیا ہے گِلہ اِضطراب میں

دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں

دو کی جگہ دئیے مجھے بوسے بہک کے چار

تھے نیند میں، پڑا اُنہیں دھوکا حساب میں

سمجھا ہے تو جو غیبتِ پیر مغاں حلال،

واعظ، بتا یہ مسئلہ ہے کس کی کتاب میں؟

دامن میں اُن کے خوں کی چھینٹیں پڑیں امیر

بسمل سے پاس ہو نہ سکا اضطراب میں

٭٭٭

خیالِ لب میں ابرِ دیدہ ہائے تر برستے ہیں

یہ بادل جب برستے ہیں لبِ کوثر برستے ہیں

خدا کے ہاتھ ہم چشموں میں ہے اب آبرو اپنی

بھرے بیٹھے ہیں دیکھیں آج وہ کس پر برستے ہیں

ڈبو دیں گی یہ آنکھیں بادلوں کو ایک چھینٹے میں

بھلا برسیں تو میرے سامنے کیونکر برستے ہیں

جہاں ان ابروؤں پر میل آیا کٹ گئے لاکھوں

یہ وہ تیغیں ہیں جن کے ابر سے خنجر برستے ہیں

چھکے رہتے ہیں‌ مے سے جوش پر ہے رحمتِ ساقی

ہمارے میکدے میں غیب سے ساغر برستے ہیں

جو ہم برگشتۂ قسمت آرزو کرتے ہیں پانی کی

زہے بارانِ رحمت چرخ سے پتھر برستے ہیں

غضب کا ابرِ خوں افشاں ہے ابرِ تیغِ قاتل بھی

رواں ہے خون کا سیلاب لاکھوں سر برستے ہیں

سمائے ابرِ نیساں خاک مجھ گریاں کی آنکھوں میں

کہ پلکوں سے یہاں بھی متصل گوہر برستے ہیں

وہاں ہیں سخت باتیں، یاں امیر آنسو پر آنسو ہیں

تماشا ہے اِدھر، موتی اُدھر پتھر برستے ہیں

٭٭٭

 

قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں

ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں

جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں

سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں

دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں

محشر کے دن بٹہائے گئے آفتاب میں

رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں

یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں

تیرِ دعا نشانے پہ کیونکر نہ بیٹھتا

کچھ زور تھا کماں سے سوا اضطراب میں

وہ ناتواں ہوں قلعۂ آہن ہو وہ مجھے

کر دے جو کوئی بند مکانِ حباب میں

حاجت نہیں تو دولتِ دنیا سے کام کیا

پھنستا ہے تشنہ دام فریبِ سراب میں

مثلِ نفس نہ آمد و شد سے ملا فراغ

جب تک رہی حیات، رہے اضطراب میں

سرکش کا ہے جہاں میں دورانِ سر مآل

کیونکر نہ گرد باد رہے پیچ و تاب میں

چاہے جو حفظِ جان تو نہ کر اقربا سے قطع

کب سوکھتے ہیں برگِ شجر آفتاب میں

دل کو جلا تصور حسنِ ملیح سے

ہوتی ہے بے نمک کوئی لذت، کباب میں

ڈالی ہیں نفسِ شوم نے کیا کیا خرابیاں

موذی کو پال کر میں پڑا کس عذاب میں

اللہ رے تیز دستیِ مژگانِ رخنہ گر

بے کار بند ہو گئے ان کی نقاب میں

چلتا نہیں ہے ظلم تو عادل کے سامنے

شیطاں ہے پردہ در کہ ہیں مہدی حجاب میں

کچھ ربط حسن و عشق سے جائے عجب نہیں

بلبل بنے جو بلبلہ اٹھّے گلاب میں

چومے جو اس کا مصحفِ رخ زلف میں پھنسے

مارِ عذاب بھی ہے طریقِ ثواب میں

ساقی کچھ آج کل سے نہیں بادہ کش ہیں بند

اس خاک کا خمیر ہوا ہے شراب میں

جب نامہ بر کیا ہے کبوتر کو اے امیر

اس نے کباب بھیجے ہیں خط کے جواب میں

٭٭٭

 

شمشیر ہے سناں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

اِک جانِ ناتواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

مہمان اِدھر ہما ہے اُدھر ہے سگِ حبیب

اِک مشتِ استخواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

درباں ہزار اس کے یہاں ایک نقدِ جاں

مال اس قدر کہاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

بلبل کو بھی ہے پھولوں کی گلچیں کو بھی طلب

حیران باغباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

سب چاہتے ہیں اس سے جو وعدہ وصال کا

کہتا ہے اک زباں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

شہزادے دختِ رز کے ہزاروں ہی خواستگار

چپ مرشدِ مغاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

یاروں کو بھی ہے بوسے کی غیروں کو بھی طلب

ششدر وہ جانِ جاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

دل مجھ سے مانگتے ہیں ہزاروں حسیں امیر

کتنا یہ ارمغاں ہے کسے دوں کسے نہ دوں

٭٭٭

 

جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق

ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق

مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق

آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق

کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق

دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق

ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق

سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق

دل مرا شیشہ ہے آنکھیں مری پیمانۂ عشق

جسم با جوشِ محبت سے ہے میخانۂ عشق

ہم تھے اور پیشِ نظر جلوۂ مستانۂ عشق

جس زمانے میں نہ محرم تھا نہ بیگانہ عشق

ہم وہ فرہاد تھے کاٹا نئی صورت سے پہاڑ

حسن کا گنج لیا کھود کے ویرانۂ عشق

کچھ گرہ میں نہیں گرمی کے سوا مثلِ سپند

برگ و بر دود و شرر ہوں جو اُگے دانۂ عشق

عین مستی میں ملے ہیں مجھے گوشِ شنوا

سن رہا ہوں میں صدائے لبِ پیمانۂ عشق

آ رہے باغِ جناں سے جو زمیں پر آدم

فی الحقیقت تھی وہ اِک لغزشِ مستانۂ عشق

معتقد کون نہیں کون نہیں اس کا مرید

پیر ہفتاد و دو ملت کا ہے دیوانۂ عشق

دل نے تسبیح بنا کر وہ کئے زیبِ گُلو

ہاتھ آئے جو کوئی گوہرِ یک دانۂ عشق

زلفِ معشوق نہ گھٹ جائے ادب کا ہے مقام

بڑھ چلیں اتنے نہ موئے سرِ دیوانۂ عشق

سننے والوں کے یہ ڈر ہے نہ جلیں پردۂ گوش

کیا سناؤں کہ بہت گر ہے افسانۂ عشق

خاکِ درکار ہے وہ لوثِ خطا سے جو ہو پاک

ورنہ ہر خاک سے اگتا ہے کوئی دانۂ عشق

کہتے ہیں مرگِ جوانی جسے سب اہلِ جہاں

اپنے نزدیک ہے وہ بازیِ طفلانۂ عشق

آہ! عاشق سے ہوئی غفلتِ معشوق نہ کم

خواب تھا حسنِ فسوں ساز کو افسانۂ عشق

بختِ برگشتہ ہوں تب بھی نہیں جاتا یہ مزہ

نہ گرے بادہ جو واژوں بھی ہو پیمانۂ عشق

 

طور پر کہتی ہے یہ شمع تجلّی کی زباں

سرمۂ حسن ہے خاکسترِ پروانۂ عشق

طالبِ درد ہے اس درجہ مرا طائرِ دل

ٹوٹ پڑتا ہے یہ جس دام میں ہو دانۂ عشق

ہوں وہ دیوانہ کہ قدموں سے لگا ہے مرے حسن

ہے مرے پانوں میں زنجیر پری خانۂ عشق

مر کے دے روح کو میری یہ الٰہی قدرت

ہنس بن بن کے چُگے گوہرِ یک دانۂ عشق

کیا فلاطوں کو ہے نسبت ترے دیوانے سے

آشنا ہے یہ محبت کا وہ بے گانۂ عشق

ہم تھے اور چہرۂ محبوب کا نظّارہ امیر

شعلۂ حسن تھا جس روز نہ پروانۂ عشق

٭٭٭

 

کہا جو میں نے کہ یوسف کو یہ حجاب نہ تھا

تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا

شب وصال بھی وہ شوخ بے حجاب نہ تھا

نقاب اُلٹ کے بھی دیکھا تو بے نقاب نہ تھا

لپٹ کے چوم لیا منہ، مٹا دیا انکار

نہیں کا اُن کے سوا اس کے کچھ جواب نہ تھا

مرے جنازے پہ اب آتے شرم آتی ہے

حلال کرنے کو بیٹھے تھے جب حجاب نہ تھا

نصیب جاگ اُٹھے سو گئے جو پانوں مرے

تمہارے کوچے سے بہتر مقام خواب نہ تھا

غضب کیا کہ اسے تو نے محتسب توڑا

ارے یہ دل تھا مرا شیشۂ شراب نہ تھا

زمانہ وصل میں لیتا ہے کروٹیں کیا کیا

فراق یار کے دن ایک انقلاب نہ تھا

تمہیں نے قتل کیا ہے مجھے جو تنتے ہو

اکیلے تھے ملک الموت ہم رکاب نہ تھا

دعائے توبہ بھی ہم نے پڑھی تو مے پی کر

مزہ بھی ہم کو کسی شے کا بے شراب نہ تھا

میں روئے یار کا مشتاق ہو کے آیا تھا

ترے جمال کا شیدا تو اے نقاب نہ تھا

بیاں کی جو شبِ غم کی بے کسی، تو کہا

جگر میں درد نہ تھا، دل میں اضطراب نہ تھا

وہ بیٹھے بیٹھے جو دے بیٹھے قتل عام کا حکم

ہنسی تھی اُن کی کسی پر کوئی عتاب نہ تھا

جو لاش بھیجی تھی قاصد کی ، بھیجتے خط بھی

رسید وہ تو مرے خط کی تھی ، جواب نہ تھا

سرور قتل سے تھی ہاتھ پانوں کو جنبش

وہ مجھ پہ وجد کا عالم تھا، اضطراب نہ تھا

ثبات بحر جہاں میں نہیں کسی کو امیر

اِدھر نمود ہوا اور اُدھر حباب نہ تھا

٭٭٭

 

وا کردہ چشم دل صفتِ نقش پا ہوں میں

ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں

مطلب جو اپنے اپنے کہے عاشقوں نے سب

وہ بُت بگڑ کے بول اُٹھا ، کیا خدا ہوں میں

اے انقلابِ دہر، مٹاتا ہے کیوں مجھے

نقشے ہزاروں مٹ گئے ہیں تب بنا ہوں میں

محنت یہ کی کہ فکر کا ناخن بھی گھِس گیا

عقدہ یہ آج تک نہ کھُلا مجھ پہ کیا ہوں میں

رسوا ہوئے جو آپ تو میرا قصور کیا؟

جو کچھ کیا وہ دل نے کیا، بے خطا ہوں میں

مقتل ہے میری جاں کو وہ جلوہ گاہِ ناز

دل سے ادا یہ کہتی ہے تیری قضا ہوں میں

مانندِ سبزہ اُس چمنِ  دہر میں امیر

بیگانہ وار ایک کنارے پڑا ہوں میں

٭٭٭

 

لٹکاؤ نہ گیسوئے رسا کو

پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو

ظالم تجھے دل دیا، خطا کی

بس بس میں پُہنچ گیا، سزا کو

اے حضرتِ دل بتوں کو سجدہ

اتنا تو نہ بھولئیے خدا کو

اتنا بکئے کہ کچھ کہے وہ

یوں کھولیئے قفل مدعا کو

کہتی ہے امیر اُس سے شوخی

اب مُنہ نہ دکھائیے حیا کو

٭٭٭

 

ہم لوٹتے ہیں، وہ سو رہے ہیں

کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں

پہنچی ہے ہماری اب یہ حالت

جو ہنستے تھے وہ بھی رو رہے ہیں

پیری میں بھی ہم ہزار افسوس

بچپن کی نیند سو رہے ہیں

روئیں گے ہمیں رُلانے والے

ڈوبیں گے وہ جو ڈبو رہے ہیں

کیوں کرتے ہیں غمگسار تکلیف

آنسو مرے مُنہ کو دھو رہے ہیں

زانو پہ امیر سر کو رکھے

پھر دن گزرے کہ رو رہے ہیں

٭٭٭

 

اِن شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا

کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ، دل نہیں ہوتا

آتا ہے جو کچھ منہ میں وہ کہہ جاتا ہے واعظ

اور اُس پہ یہ طرّہ ہے کہ قائل نہیں ہوتا

جب درد محبت میں یہ لذّت ہے تو یارب

ہر عضو میں، ہر جوڑ میں، کیوں دل نہیں ہوتا

دیوانہ ہے، دنیا میں جو دیوانہ نہیں ہوتا

عاقل وہی ہوتا ہے جو عاقل نہیں ہوتا

تم کو تو میں کہتا نہیں کچھ، حضرتِ ناصح

پر جس کو ہو تک ایسی وہ عاقل نہیں ہوتا

یہ شعر وہ فن ہے کہ امیر اس کو جو برتو

حاصل یہی ہوتا ہے کہ حاصل نہیں ہوتا

٭٭٭

 

یوں دل مرا ہے اُس صنمِ دلرُبا کے پاس

جس طرح آشنا کسی ناآشنا کے پاس

بولا وہ بُت سرہانے مرے آ کے وقتِ نزع

فریاد کو ہماری چلے ہو خدا کے پاس؟

توفیق اتنی دے مجھے افلاس میں خدا

حاجت نہ لے کے جاؤں کبھی اغنیا کے پاس

رہتے ہیں ہاتھ باندھے ہوئے گلرخانِ دہر

یارب ہے کس بلا کا فسوں اس حنا کے پاس

پیچھے پڑا ہے افعیِ گیسو کے دل ، امیر

جاتا ہے دوڑ دوڑ کے یہ خود قضا کے پاس

٭٭٭

 

میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا

یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا

وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا

ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی

مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا

مرے اتقا کا باعث تو ہے مری ناتوانی

جو میں توبہ توڑ سکتا تو شراب خوار ہوتا

میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی

کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا

نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں

دلِ داغدار ہوتا ہو گلے کا ہار ہوتا

وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب

مرے دونوں پہلوؤں میں دل بیقرار ہوتا

دمِ نزع بھی جو وہ بُت مجھے آ کے منہ دکھاتا

تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا

نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لحد فِشار دیتی

سر راہِ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا

جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چُرائی

وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا

میں زباں سے تم کو سچا کہوں لاکھ بار کہہ دوں

اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا

مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی

انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا

٭٭٭

پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا

تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا

تم لاکھ قسم کھاتے ہو ملنے کی عدو سے

ایمان سے کہو دوں مجھے بارو نہیں آتا

ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بلا میں

کوچے میں ترے فتنہ محشر نہیں آتا

جو مجھ پر گزرتی ہے کبھی دیکھ لے ظالم

پھر دیکھوں کے رونا تجھے کیونکر نہیں آتا

کہتے ہیں یہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمھارے

سینے سے ٹرپ کر کبھی باہر نہیں آتا

دشمن کو کبھی ہوتی ہے دل پہ مرے رقت

پر دل یہ ترا ہے کہ کبھی بھر نہیں آتا

کب آنکھ اٹھاتا ہوں کہ آتے نہیں تیور

کب یہ بیٹھ کے اٹھتا ہوں کہ چکر نہیں آتا

غربت کدۂ دہر میں صدمے سے ہیں صدمے

اس پر بھی کبھی یاد ہمیں گہر نہیں آتا

ہم جس کی ہوس میں ہیں امیر آپ سے باہر

وہ پردہ نشین گھر سے باہر نہیں آتا

٭٭٭

 

ان شوخ حسینوں پہ بھی مائل نہیں ہوتا

کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا

کچھ وصل کے وعدے سے بھی حاصل نہیں ہوتا

خوش اب تو خوشی سے بھی میرا دل نہیں ہوتا

گردن تن بسمل سے جدا ہو گئی کب سے

گردن سے جدا خنجر قاتل نہیں ہوتا

دنیا میں پری زاد دئیے خلد میں حوریں

بندوں سے وہ اپنے کبھی غافل نہیں ہوتا

دل مجھ  سے لیا ہے تو ذرا بولیے ہنسئے

چٹکی میں مسلنے کے لئے دل نہیں ہوتا

عاشق کے بہل جانے سے کو اتنا بھی ہے کافی

غم دل کا تو ہوتا ہے اگر دل نہیں ہوتا

فریاد کروں دل کے ستانے کی اسی سے

راضی مگر اس پر بھی مرا دل نہیں ہوتا

مرنے کے بتوں پر یہ ہوئی مشق کہ مرنا

سب کہتے ہیں مشکل، مجھے مشکل نہیں ہوتا

جس بزم میں وہ رخ سے اٹھا دیتے ہیں پردہ

پروانہ وہاں شمع پہ مائل نہیں ہوتا

کہتے ہیں کہ دل کے تڑپتے ہیں جو عاشق

ہوتا ہے کہاں درد اگر دل نہیں ہوتا

یہ شعر وہ فن ہے کہ امیر اس کو جو برتو

حاصل یہی ہوتا ہے کہ حاصل نہیں ہوتا

٭٭٭

 

دامنوں کا نہ پتہ ہے نہ گریبانوں کا

حشر کہتے ہیں جسے شہر ہے عریانوں کا

گھر ہے اللہ کا گھر بے سر و سامانوں کا

پاسبانوں کا یہاں کام نہ دربانوں کا

گور کسری و فریدوں پہ جو پہنچوں پوچھوں

تم یہاں سوتے ہو کیا حال ہے ایوانوں ک

کیا لکھیں یار کو نامہ کہ نقاہت سے یہاں

فاصلہ خانہ و کاغذ میں ہے میدانوں کا

دل یہ سمجھا جو ترے بالوں کا جوڑ دیکھا

ہے شکنجے میں یہ مجموعہ پریشانیوں کا

موجیں دریا میں جو اٹھتی ہوئی دیکھیں سمجھا

یہ بھی مجمع ہے تیرے چاک گریبانوں کا

تیر پہ تیر لگاتا ہے کماندار فلک

خانہ دل میں ہجوم آج ہے مہمانوں کا

بسملوں کی دم رخصت ہے مدارات ضرور

یار بیڑا تیری تلوار میں ہو پانو ں کا

میرے اعضا نے پھنسایا ہے مجھے عصیاں میں

شکوہ آنکھوں کا کرو یا میں گلہ کانوں کا

قدر داں چاہئے دیوان ہمارا ہے امیر

منتخب مصحفی و میر کے دیوانوں کا

٭٭٭

 

یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں

تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں

وصل کیسا تیرے نادیدہ خریداروں میں ہوں

واہ رے قسمت کہ اس پر بھی گناہ گاروں میں ہوں

ناتوانی سے ہے طاقت ناز اٹھانے کی کہاں

کہہ سکوں گ کیونکر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں

ہائے رے غفلت نہیں ہے آج تک اتنی خبر

کون ہے مطلوب میں کس کے طلب گاروں میں ہوں

دل جگر دونوں کی لاشیں ہجر میں ہیں سامنے

میں کبھی اس کے کبھی اس کے عزا داروں میں ہوں

وقت آرائش پہن کر طوق بولا وہ حسین

اب وہ آزادی کہاں ہے میں بھی گرفتاروں میں ہوں

آ چکا تھا رحم اس کو سن کے میری بے کسی

درد ظالم بول اٹھا میں اس کے غم خواروں میں ہوں

پھول میں پھولوں میں ہوں، کانٹا  ہوں کانٹوں میں امیر

یار میں یاروں میں ہوں، عیار ، عیاروں میں ہوں

٭٭٭

 

اس کی حسرت ہے ، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈ نے اس کو چلا ہوں جسے پا ہی نہ سکوں

وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال

کہ وہ روئے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں

ڈال کر خاک مرے خوں پہ، قاتل نے کہا

کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں

کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف

وہ مجھے دل سے بہلا دے میں بہلا بھی نہ سکوں

ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کی مانگیں جو حسیں

دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں

ایک نالے میں جہاں کو تہہ و بال کر دوں

کچھ تیرا دل یہ نہیں ہے کہ ہلا بھی نہ سکوں

٭٭٭

 

ایک دل ہم دم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا

سب تڑپنے بلبلانے کا مزہ جاتا رہا

سب کرشمے تھے جوانی کے ، جوانی کیا گئی

وہ امنگیں مٹ گئیں وہ ولولہ جاتا رہا

آنے والا جانے والا، بے کسی میں کون تھا

ہاں مگر اک دم غریب، آتا رہا جاتا رہا

مرگیا میں جب ، تو ظالم نے کہا کہ افسوس آج

ہائے ظالم ہائے ظالم کا مزہ جاتا رہا

شربت دیدار سے تسکین سی کچھ ہو گئی

دیکھ لینے سے دوا کے ، درد کیا جاتا رہا

مجھ کو گلیوں میں جو دیکھا ، چھیڑ کر کہنے لگے

کیوں میاں کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو، کیا جاتا رہا

جب تلک تم تھے کشیدہ دل تھا شکووں سے بھرا

جب گلے سے مل گئے، سارا گلہ جاتا رہا

ہائے وہ صبحِ شبِ وصل، ان کا کہنا شرم سے

اب تو میری بے وفائی کا گلہ جاتا رہا

دل وہی آنکھیں وہی، لیکن جوانی وہ کہاں

ہائے اب وہ تاکنا وہ جھانکنا جاتا رہا

گھورتے دیکھا جو ہم چشموں کو جھنجھلا کر کہا

کیا لحاظ آنکھوں کا بھی او بے حیا جاتا رہا

کیا بری شے ہے جوانی رات دن ہے تاک جھانک

ڈر توں کا ایک طرف ، خوف خدا جاتا رہا

کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا امیر

جانے دو اک بے وفا جاتا رہا جاتا رہا

٭٭٭

 

دل جُدا، مال جدا، جان جدا لیتے ہیں

اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں

مجلسِ وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم مے کش

دخترِ رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں

دھیان میں لا کے ترا سلسلۂ زلف دراز

ہم شبِ ہجر کو کچھ اور بڑھا لیتے ہیں؟

ایک بوسے کے عوض مانگتے ہیں دل کیا خوب

جی میں سوچیں تو وہ کیا دیتے ہیں کیا لیتے ہیں؟

اپنی محفل سے اُٹھاتے ہیں عبث ہم کو حضور

چُپ کے بیٹھے ہیں الگ، آپ کا کیا لیتے ہیں؟

٭٭٭

 

ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت

گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت

چشمِ عشاق سے پنہاں ہو نظر کی صورت

وصل سے جان چراتے ہو کمر کی صورت

ہوں وہ بلبل کہ جو صیاد نے کاٹے مرے پر

گر گئے پھول ہر اک شاخ سے پر کی صورت

تیرے چہرے کی ملاحت جو فلک نے دیکھی

پھٹ گیا مہر سے دل شیرِ سحر کی صورت

جھانک کر روزنِ دیوار سے وہ تو بھاگے

رہ گیا کھول کے آغوش میں در کی صورت

تیغ گردن پہ کہ ہے سنگ پر آہیں دمِ ذبح

خون کے قطرے نکلتے ہیں شرر کی صورت

کون کہتا ہے ملے خاک میں آنسو میرے

چھپ رہی گرد یتیمی میں گہر کی صورت

نہیں آتا ہے نظر، المدد اے خضر اجل

جادۂ راہِ عدم موئے کمر کی صورت

پڑ گئیں کچھ جو مرے گرم لہو کی چھینٹیں

اڑ گئی جوہرِ شمشیر شرر کی صورت

قبر ہی وادیِ غربت میں بنے گی اک دن

اور کوئی نظر آتی نہیں گھر کی صورت

خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت

آفت آغازِ جوانی ہی میں آئی مجھ پر

بجھ گیا شام سے دل شمعِ سحر کی صورت

جلوہ گر بام پہ وہ مہرِ لقا ہے شاید

آج خورشید سے ملتی ہے قمر کی کی صورت

دہنِ یار کی توصیف کڑی منزل ہے

چست مضمون کی بندش ہو کمر کی صورت

نو بہارِ چمنِ غم ہے عجب روز افزوں

بڑھتی جاتی ہے گرہ دل کی ثمر کی صورت

ہوں بگولے کی طرح سے میں سراپا گردش

رات دن پاؤں بھی چکر میں ہیں سر کی صورت

٭٭٭

 

چاند سا چہرہ، نور سی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

خوب نکالا آپ نے جوبن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

گُل رُخِ نازک، زلف ہے سنبل، آنکھ ہے نرگس، سیب زنخداں

حُسن سے تم ہو غیرتِ گلشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

ساقیِ بزمِ روزِ ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں

آنکھیں ہیں ساغر، شیشہ ہے گردن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

قہر غضب ظاہر کی رکاوٹ، آفتِ جاں درپردہ لگاوٹ

چاہ کے تیور، پیار کی چتون، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

غمزہ اچکّا، عشوہ ہے ڈاکو، قہر ادائیں، سحر ہیں باتیں

چور نگاہیں، ناز ہے رہزن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

نور کا تن ہے، نور کے کپڑے، اس پر کیا زیور کی چمک ہے

چھلے، کنگن، اِکّے، جوشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

جمع کیا ضدّین کو تم نے، سختی ایسی، نرمی ایسی

موم بدن ہے، دل ہے آہن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

واہ امیرؔ، ایسا ہو کہنا، شعر ہیں یا معشوق کا گہنا

صاف ہے بندش، مضموں روشن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!

٭٭٭

 

تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے

ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے

ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار

سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا

میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی

بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار

پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند

اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیر

بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے

میری تربت پر اگر آئیے گا

عمرِ رفتہ کو بھی بُلوائیے گا

سب کی نظروں پہ نہ چڑھیے اتنا

دیکھیے دل سے اُتر جائیے گا

آئیے نزع میں بالیں پہ مری

کوئی دم بیٹھ کے اُٹھ جائیے گا

وصل میں بوسۂ لب دے کے کہا

مُنہ سے کچھ اور نہ فرمائیے گا

ہاتھ میں نے جو بڑھایا تو کہا

بس، بہت پاؤں‌ نہ پھیلائیے گا

زہر کھانے کو کہا، تو، بولے

ہم جلا لیں گے جو مر جائیے گا

حسرتیں نزع میں‌بولیں مُجھ سے

چھوڑ کر ہم کو کہاں جائیے گا

آپ سنیے تو کہانی دل کی

نیند آ جائے گی سو جائیے گا

اتنی گھر جانے کی جلدی کیا ہے؟

بیٹھیے ، جائیے گا، جائیے گا

 

کہتے ہیں، کہہ تو دیا، آئیں گے

اب یہ کیا چِڑ ہے کہ کب آئیے گا

ڈبڈبائے مرے آنسو تو کہا

روئیے گا تو ہنسے جائیے گا

رات اپنی ہے ٹھہرئیے تو ذرا

آئیے بیٹھئے، گھر جائیے گا

جس طرح عمر گزرتی ہے امیر

آپ بھی یونہی گزر جائیے گا

٭٭٭

 

جب یار ہوا جفا کے قابل

تب ہم نہ رہے وفا کے قابل

ہے خوف سے سارے تن میں رعشہ

اب ہاتھ کہاں دعا کے قابل

آئے مجھے دیکھنے اطبّا

جب میں نہ رہا دوا کے قابل

بولے مرے دل پہ پیس کر دانت

یہ دانہ ہے آسیا کے قابل

کلفت سے امیر صاف کر دل

یہ آئینہ ہے جلا کے قابل

٭٭٭

 

تیرے جور و ستم اُٹھائیں ہم

یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم

جی میں ہے اب وہاں نہ جائیں ہم

دل کی طاقت بھی آزمائیں ہم

نالے کرتے نہیں یہ الفت میں

باندھتے ہیں تری ہوائیں ہم

اب لب یار کیا ترے ہوتے

لب ساغر کو منہ لگائیں ہم

دل میں تم، دل ہے سینہ سے خود گم

کوئی پوچھے تو کیا بتائیں ہم

آب شمشیر یار اگر مل جائے

اپنے دل کی لگی بجھائیں ہم

اب جو منہ موڑیں بندگی سے تری

اے بت اپنے خدا سے پائیں ہم

زندگی میں ہے موت کا کھٹکا

قصر کیا مقبرہ بنائیں ہم

توبۂ مے سے کیا پشیماں ہیں

زاہد و دیکھ کر گھٹائیں ہم

دل میں ہے مثل ہیزم و آتش

جو گھٹائے اُسے بڑھائیں ہم

زار سے زار ہیں جہاں میں امیر

دل ہی بیٹھے جو لطف اٹھائیں ہم

٭٭٭

 

وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا

ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا

شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا

یہ آسمان نہ تھا یا یہ آفتاب نہ تھا

لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہو سکا دمِ قتل

سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا

اُسے جو شوقِ سزا ہے مجھے ضرور ہے جرم

کہ کوئی یہ نہ کہے قابلِ عذاب نہ تھا

شکایت اُن سے کوئی گالیوں کی کیا کرتا

کسی کا نام کسی کی طرف خطاب نہ تھا

نہ پوچھ عیش جوانی کا ہم سے پیری میں

ملی تھی خواب میں وہ سلطنت شباب نہ تھا

دماغ بحث تھا کس کو وگر نہ اے ناصح

دہن نہ تھا کہ دہن میں مرے جواب نہ تھا

وہ کہتے ہیں شبِ وعدہ میں کس کے پاس آنا

تجھے تو ہوش ہی اے خانماں خراب نہ تھا

ہزار بار گلا رکھ دیا تہِ شمشیر

میں کیا کروں تری قسمت ہی میں ثواب نہ تھا

فلک نے افسرِ خورشید سر پہ کیوں رکھا

سبوئے بادہ نہ تھا ساغرِ شراب نہ تھا

غرض یہ ہے کہ ہو عیش تمام باعث مرگ

وگرنہ میں کبھی قابلِ خطاب نہ تھا

سوال وصل کیا یا سوال قتل کیا

وہاں نہیں کے سوا دوسرا جواب نہ تھا

ذرا سے صدمے کی تاب اب نہیں وہی ہم میں

کہ ٹکڑے ٹکڑے تھا دل اور اضطراب نہ تھا

کلیم شکر کرو حشر تک نہ ہوش آتا

ہوئی یہ خیر کہ وہ شوق بے نقاب نہ تھا

یہ بار بار جو کرتا تھا ذکر مے واعظ

پئے ہوئے تو کہیں خانماں خراب نہ تھا

امیر اب ہیں یہ باتیں جب اُٹھ گیا وہ شوخ

حضور یار کے منہ میں ترے جواب نہ تھا

٭٭٭

 

دل جو سینے میں زار سا ہے کچھ

غم سے بے اختیار سا ہے کچھ

رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں

جامۂ مستعار سا ہے کچھ

چشم نرگس کہاں وہ چشم کہاں

نشہ کیسا خمار سا ہے کچھ

نخل اُمید میں نہ پھول نہ پھل

شجرِ بے بہار سا ہے کچھ

ساقیا ہجر میں یہ ابر نہیں

آسمان پر غبار سا ہے کچھ

کل تو آفت تھی دل کی بیتابی

آج بھی بے قرار سا ہے کچھ

مردہ ہے دل تو گور ہے سینہ

داغ شمع مزار سا ہے کچھ

اِس کو دنیا کی اُس کو خلد کی حرص

رند ہے کچھ نہ پارسا ہے کچھ

پہلے اس سے تھا ہوشیار امیر

اب بے اختیار سا ہے کچھ

٭٭٭

 

اے ضبط دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو

دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو

مدت میں شام وصل ہوئی ہے مجھے نصیب

دو چار سو برس تو الہٰی سحر نہ ہو

اک پھول ہے گلاب کا آج اُن کے ہاتھ میں

دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو

ڈھونڈھے سے بھی نہ معنی باریک جب ملا

دھوکا ہوا یہ مجھ کو کہ اُس کی کمر نہ ہو

فرقت میں یاں سیاہ زمانہ ہے مجھ کو کیا

گردوں پہ آفتاب نہ ہو یا قمر نہ ہو

دیکھی جو صورتِ ملک الموت نزع میں

میں خوش ہوا کہ یار کا یہ نامہ بر نہ ہو

آنکھیں ملیں ہیں اشک بہا نے کے واسطے

بیکار ہے صدف جو صدف میں گُہر نہ ہو

الفت کی کیا اُمید وہ ایسا ہے بے وفا

صحبت ہزار سال رہے کچھ اثر نہ ہو

طول شب وصال ہو، مثل شب فراق

نکلے نہ آفتاب الٰہی سحر نہ ہو

منہ پھیر کر کہا جو کہا میں نے حالِ دل

چُپ بھی رہو امیر مجھے درد سر نہ ہو

٭٭٭

 

مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے

کام اپنا، نام اُس کا کر چلے

حشر میں اجلاس کس کا ہے کہ آج

لے کے سب اعمال کا دفتر چلے

خُونِ ناحق کر کے اِک بے جُرم کا

ہاتھ ناحق خُون میں تم بھر چلے

یہ ملی کس جُرم پر دم کو سزا؟

حُکم ہے دن بھر چلے شب بھر چلے

شیخ نے میخانے میں پی یا نہ پی

دخترِ رز کو تو رُسوا کر چلے

رہنے کیا دنیا میں آئے تھے امیر

سیر کر لی اور اپنے گھر چلے

٭٭٭

 

اُٹھو گلے سے لگا لو، مٹے گلہ دل کا

ذرا سی بات میں ہوتا ہے فیصلہ دل کا

دم آ کے آنکھوں میں اٹکے تو کچھ نہیں کھٹکا

اٹک نہ جائے الٰہی معاملہ دل کا

تمہارے غمزوں نے کھوئے ہیں ہوش و صبر و قرار

انہیں لٹیروں نے لوٹا ہے قافلہ دل کا

خدا ہی ہے جو کڑی چتونوں سے جان بچے

ہے آج دل شکنوں سے مقابلہ دل کا

امیر بھُول بھُلیاں ہے کوچۂ گیسو

تباہ کیوں نہ پھرے اس میں قافلہ دل کا

٭٭٭

 

وہ کہتے ہیں، نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے

قدم کوئی کہاں رکھے؟ جدھر دیکھو اُدھر دل ہے

کہیں ایسا نہ ہو تجھ پر بھی کوئی وار چل جائے

قضا ہٹ جا کہ جھنجھلایا ہوا اِس وقت قاتل ہے

طنابیں کھینچ دے یارب، زمینِ کوئے جاناں کی

کہ میں ہوں ناتواں، اور دن ہے آخر، دور منزل ہے

مرے سینے پہ رکھ کر ہاتھ کہتا ہے وہ شوخی سے

یہی دل ہے جو زخمی ہے، یہی دل ہے جو بسمل ہے

نقاب اُٹھی تو کیا حاصل؟ حیا اُٹھے تو آنکھ اُٹھے

بڑا گہرا تو یہ پردہ ہمارے اُنکے حائل ہے

الہٰی بھیج دے تربت میں کوئی حور جنت سے

کہ پہلی رات ہے، پہلا سفر ہے، پہلی منزل ہے

جدھر دیکھو اُدھر سوتا ہے کوئی پاؤں پھیلائے

زمانے سے الگ گورِ غریباں کی بھی محفل ہے

عجب کیا گر اُٹھا کر سختیِ فرقت ہوا ٹکڑے

کوئ لوہا نہیں، پتھر نہیں، انسان کا دل ہے

سخی کا دل ہے ٹھنڈا گرمیِ روزِ قیامت میں

کہ سر پر چھَترِ رحمت سایۂ دامانِ سائل ہے

امیرِ خستہ جاں کی مشکلیں آساں ہوں یارب

تجھے ہر بات آساں ہے اُسے ہر بات مشکل ہے

٭٭٭

 

لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں

اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں

مرا خط پھینک کر قاتل کے مُنہ پر طنز سے بولے

خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں

ابھی اے جاں تو نے مرنے والوں کو نہیں دیکھا

جیئے ہم تو دکھا دیں گے کہ دیکھ اس طرح مرتے ہیں

قیامت دور، تنہائی کا عالم، روح پر صدمہ

ہمارے دن لحد میں دیکھیئے کیوں کر گزرتے ہیں

جو رکھ دیتی ہے شانہ آئینہ تنگ آ کے مشاطہ

ادائیں بول اُٹھتی ہیں کہ دیکھو یوں سنورتے ہیں

چمن کی سیر ہی چھوٹی تو پھر جینے سے کیا حاصل؟

گلا کاٹیں مرا صیاد ناحق پر کترتے ہیں

قیام اس بحرِ طوفاں خیز دنیا میں کہاں ہمدم؟

حباب آ سا ٹھہرتے ہیں تو کوئی دم ٹھہرتے ہیں

٭٭٭

 

ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم اُنکی نہیں جاتی

نگہ نیچی کیئے وہ سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں

بڑے ہی قدر داں کانٹے ہیں صحرائے مُحبت کے

کہیں گاہک گریباں کے، کہیں دامن کے بیٹھے ہیں

وہ آمادہ سنورنے پر، ہم آمادہ ہیں مرنے پر

اُدھر وہ بن کے بیٹھے ہیں، اِدھر ہم تن کے بیٹھے ہیں

امیر ، اچھی غزل ہے داغ کی، جسکا یہ مصرع ہے،

بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

٭٭٭

 

جب تلک ہست تھے، دشوار تھا پانا تیرا

مٹ گئے ہم، تو مِلا ہم کو ٹھکانا تیرا

نہ جہت تیرے لیئے ہے نہ کوئی جسم ہے تو

چشم ظاہر کو ہے مشکل نظر آنا تیرا

شش جہت چھان چُکے ہم تو کھُلا ہم پہ حال

رگِ گردن سے ہے نزدیک ٹھکانا تیرا

اب تو پیری میں نہیں پوچھنے والا کوئی

کبھی اے حسن جوانی! تھا زمانہ تیرا

اے صدف چاک کرے گا یہی سینہ اک دن

تو یہ سمجھی ہے کہ گوہر ہے یگانا تیرا

دور اگلے شعراء کا تھا کبھی، اور امیرؔ

اب تو ہے ملک معانی میں زمانہ تیرا

٭٭٭

 

رو برو آئینے کے، تو جو مری جاں ہوگا

آئینہ ایک طرف، عکس بھی حیراں ہوگا

اے جوانی، یہ ترے دم کے ہیں، سارے جھگڑے

تو نہ ہوگی، تو نہ یہ دل ، نہ یہ ارماں ہوگا

دستِ وحشت تو سلامت ہے، رفو ہونے دو

ایک جھٹکے میں نہ دامن نہ گریباں ہوگا

آگ دل میں جو لگی تھی، وہ بجھائی نہ گئی

اور کیا تجھ سے، پھر اے دیدۂ گریاں ہوگا

اپنے مرنے کا تو کچھ غم نہیں، یہ غم ہے، امیر

چارہ گر مفت میں بیچارہ پشیماں ہوگا

اچھے عیسیٰ ہو، مریضوں کا خیال اچھا ہے

ہم مرے جاتے ہیں، تم کہتے ہو حال اچھا ہے

تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے

سَو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے

دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بے تابی کو

ہجر اچھا، نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے

آگیا اس کا تصور، تو پکارا یہ شوق

دل میں جم جائے الہٰی، یہ خیال اچھا ہے

برق اگر گرمیِ رفتار میں اچھی ہے امیر

گرمیِ حسن میں وہ برق جمال اچھا ہے

٭٭٭

 

وصل ہو جائے یہیں حشر ، حشر میں کیا رکھا ہے

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے

محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے

پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے

کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے

میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے

اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں

آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے

آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر

یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے

٭٭٭

 

سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ

نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ

جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ

حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ

شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو

کہیں فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ

سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا

دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ

ہمارے اور تمہارے پیار میں بس فرق ہے اتنا

اِدھر تو جلدی جلدی ہے اُدھر آہستہ آہستہ

وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں  ان سے

حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

٭٭٭

 

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں

ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں

خضر کیا جانیں مرگ کی لذت

اس مزے سے وہ آشنا ہی نہیں

شعر وصفِ دہن میں سُن کے کہا

ایسا مضمون کبھی سُنا ہی نہیں

کس طرح جائیں اُن کی محفل میں

جن کے دل میں ہماری جا ہی نہیں

کیا سُنیں گے وہ خلق کی فریاد

کہتے ہیں جو کوئی خدا ہی نہیں

لذتِ عیش وصل کیا جانیں

اس میں حصہ ہمیں ملا ہی نہیں

کل تلک تھا وہ ربط وہ اخلاص

آج وہ شوخ آشنا ہی نہیں

ہے ہمیں اب تو تیری اُلفت میں

صدمہ وہ جس کی انتہا ہی نہیں

مرنے والوں سے کہتے ہیں وہ امیر

کیا تمہاری کبھی قضا ہی نہیں

٭٭٭

 

یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے

جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے

ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے

ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے

کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار

اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے

واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں

منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے

آنکھوں کے نیچے پھِرتی ہے تصویر یار کی

پُتلی سی اک بندھی ہوئی تارِ نظر میں ہے

کرتے ہیں اس طریق سے طے ہم رہِ سلوک

سر اس کے آستاں پہ، قدم رہگزر میں ہے

پہلو میں میرے دل کو نہ، اے درد! کر تلاش

مدت ہوئی تباہی کا مارا سفر میں ہے

تُلسی کی کیا بہار ہے دندانِ یار پر

سوسن کا پھول چشمۂ آبِ گہر میں ہے

ہو دردِ عشق ایک جگہ تو دوا کروں

دل میں، جگر میں، سینے میں، پہلو میں، سر میں ہے

صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں

اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے

قاصد کو ہاتھ داغ کے بھیجا ہے یار نے

خاکی نئی رسید کفِ نامہ بر میں ہے

تیرِ قضا کو ناز ہے کیا اپنے توڑ پر

اتنا اثر تو یار کی سیدھی نظر میں ہے

تم جاؤ تیغ باندھ کے پھر سیر دیکھ لو

میرے گلے پہ ہے کہ تمھاری کمر میں ہے

ساقی مئے طہور میں کیفیّتیں سہی

پر وہ مزا کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

٭٭٭

 

گر یہ بے سود ہے نالے دلِ ناشاد عبث

داد رس کوئی نہیں شکوۂ بیداد عبث

کھنچ گئی روح بدن سے تری شمشیر کے ساتھ

حوصلہ دار لگانے کا ہے جلاد عبث

ایک رنگ آتا ہے یاں ضعف سے اک جاتا ہے

رنگ بھرتا مرے نقشے میں ہے بہزاد عبث

بندہ ہوں تیری محبت کا میں جاؤں گا کہاں

بند کرتا ہے قفس میں مجھے صیاد عبث

ایک مشتاق شہادت بھی تو جوہر نہ ہوا

تجھ میں جوہر ہیں اے خنجرِ فولاد عبث

وہ گل آیا ہے نہ آئے گا کبھی گلشن میں

سروقد اٹھتے ہیں تعظیم کو شمشاد عبث

داد بھی دے گا وہی جس نے یہ کی ہے بیداد

دوڑتی پھرتی ہے ہر سُو مری فریاد عبث

لاکھوں گھر اور ہیں دل میں میرے کیا رکھا ہے

کرتی ہے خانہ خرابی اسے برباد عبث

عمر رفتہ پہ تاسف سے نہیں کچھ حاصل

وہ ہمیں بھول گئے کرتے ہیں ہم یاد عبث

سُن کے درد دل عشق یہ کہتا ہے وہ بت

بندے اللہ کے ہو، مجھ سے ہے فریاد عبث

بال بال اس کا گرفتار بلا ہوتا ہے

بندۂ عشق کو سب کہتے ہیں آزاد عبث

جان دی کام میں معشوق کے سب کچھ پایا

کون کہتا ہے کہ تھی محنت فرہاد عبث

انبیا تک رہے پابند شریعت کے امیر

ظاہری قید سے گھبراتے ہیں آزاد عبث

٭٭٭

 

میں رو رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے

زمیں رہے نہ رہے آسماں رہے نہ رہے

رہے وہ جان جہاں یہ جہاں رہے نہ رہے

مکیں کی خیر ہو یارب مکاں رہے نہ رہے

ابھی مزار پر احباب فاتح پڑھ لیں

پھر اس قدر بھی ہمارا نشان رہے نہ رہے

خدا کے واسطے کلمہ بتوں کا پڑھ زاہد

پھر اختیار میں غافل زباں رہے نہ رہے

خزاں تو خیر سے گزری چمن میں بلبل کی

بہار آئی ہے اب آشیاں رہے نہ رہے

چلا تو ہوں پئے اظہار دردِ دل دیکھوں

حضورِ یار مجالِ بیاں رہے نہ رہے

امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہ لے

پھر التفات دلِ دوستاں رہے نہ رہے

٭٭٭

 

    داغِ غم روز ازل ہی مل گیا​

    تن میں جان آنے سے پہلے دل گیا​

    ​

    کوچۂ قاتل میں اپنا دل گیا​

    خاک میں ملنے کا رستہ مل گیا​

    ​

    خواب میں آنکھیں جو تلووں سے ملیں​

    بولے اُف اٗف پاؤں میرا چھل گیا​

    ​

    اٹھ کہ جا بیٹھا جو ان کے پاس میں​

    بولے کچھ مل بیٹھنے سے مل گیا؟​

    ​

    مسکرانے میں کھلا کیا وہ دہن​

    غنچۂ تصویر گویا کھل گیا​

    ​

    مانگنے پر بوسہ کیا کاٹی زبان​

    اب دعا دینے سے بھی سائل گیا​

    ​

    کیا ملا مجھ کو ملا کر خاک میں​

    ہاں لقب عاشق کشی کا مل گیا​

    ​

    وائے قسمت غافل آیا میں امیرؔ​

    عمر بھر غافل رہا غافل گیا​

٭٭٭

 

دامنِ رحمت اگر آیا ہمارے ہاتھ میں

پھول ہوجائیں گے دوزخ کے شرارے ہاتھ میں

گل ترے پھلوں کے ہیں اے گل جو سارے ہاتھ میں

باغ الفت کا ہے گلدستہ ہمارے ہاتھ میں

پوچھتے ہو کس سے جو چاہو کرو مختار ہو

دل تمہارے ہاتھ میں ہے یا ہمارے ہاتھ میں

اے پری افشاں چھڑکنے کا جو تجھ کو شوق ہو

زہرہ دوڑے آسماں سے لے کے تارے ہاتھ میں

لطف اُٹھے سیرِ ساحل کا شبِ مہتاب میں

ہاتھ اُس کا ہو جو دریا کے کنارے ہاتھ میں

ہم وہ مجرم ہیں کہ دوزخ ہم کو خس خانہ ہوا

حوریں دوڑیں لے کے جنت سے ہزارے ہاتھ میں

ہم بہت لاغر ہیں پہناؤ نہ ہم کو ہتھکڑی

ڈال دو چھلّا کوئی اپنا ہمارے ہاتھ میں

اُنگلیاں شوخی سے چمکاتا نہیں وہ رقص میں

یہ سمندِ ناز بھرتا ہے ترارے ہاتھ میں

جام کیسا جام ، چلو کو بنا سکتے نہیں

ہے تہی دستی سے رعشہ بھی ہمارے ہاتھ میں

ناز سے کہتے ہیں رکھ کر اپنی آنکھوں پر وہ ہاتھ

دیکھ یوں نخچیر ہوتے ہیں چکارے ہاتھ میں

آتشِ رنگِ حنا بھی ہے عجب معجز نما

ہے ضیا مثلِ کفِ موسیٰ تمہارے ہاتھ میں

کیا نزاکت ہے جوتوڑا شاخ گل سے کوئی پھول

آتشِ گل سے پڑے چھالے تمہارے ہاتھ میں

حلقہء گیسو ئے جاناں وہ بلا ہے اے امیر

چھپ رہی ہیں مچھلیاں دہشت کے مارے ہاتھ میں

​٭٭٭

 

پلا ساقیا ارغوانی شراب

کہ پیری میں دے نوجوانی شراب

وہ شعلہ ہے ساقی کہ رنجک کی طرح

اڑا دیتی ہے ناتوانی شراب

کہاں بادۂ عیش تقدیر میں

پیوں میں تو ہو جائے پانی شراب

نہ لایا ہے شیشہ نہ جام و سبو

پلاتا ہے ساقی زبانی شراب

کہاں عقلِ برنا کہاں عقلِ پیر

نئے سے ہے بہتر پرانی شراب

مرے چہرۂ زرد کے عکس سے

ہوئی ساقیا زعفرانی شراب

ہوئے مست دیکھا جو پھولوں کا رنگ

پیالوں میں تھی ارغوانی شراب

کہاں چشمۂ خضر کیسے خضر

خضر میں مری زندگانی شراب

خضر ہوں اگر میں تو جا کر پیوں

سرِ چشمۂ زندگانی شراب

گلستاں ہے پھولوں سے کیا لعل لعل

چلے ساقیا ارغوانی شراب

عجب ساقیِ گندمی رنگ ہے

کہ پرتو سے بنتی ہے دھانی شراب

رہے طاق پر پارسائی امیرؔ

پلائے جو وہ یار جانی شراب

٭٭٭

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

تری بانکی چتون نے چن چن کے مارے

نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے

نہ گل ہیں نہ غنچے نو بوٹے نہ پتے

ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا

وہاں ان کو گزرے گماں کیسے کیسے

ہزاروں برس کی ہے بڑھیا یہ دنیا

مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے

ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں

گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے

جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ

تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے

خزاں لوٹ ہی لے گئی باغ سارا

تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے

امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی

پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے​

٭٭٭

 

میری طرح نہ اک دن ابرِ بہار رویا​

وہ ایک بار رویا میں لاکھ بار رویا​

مجنوں سے میں نے پوچھا کل حال بیخودی کا​

کچھ کہہ سکا نہ منہ سے، پر زار زار رویا​

کیا بیکسی کا عالم میرے مزار پر ہے​

جو آگیا وہ بن کر شمع مزار رویا​

آواز دے رہے ہیں مقتل میں زخم بسمل​

خنداں ہوا جو پہلے انجام کار رویا​

پوچھی امیر سے کل میں نے جو دل کی حالت​

سینے پہ ہاتھ رکھ کر بے اختیار رویا​

٭٭٭

 

یہ چرچے، یہ صحبت، یہ عالم کہاں

خدا جانے ، کل تم کہاں، ہم کہاں

جو خورشید ہو تم تو شبنم ہیں ہم

ہوئے جلوہ گر تم تو پھر ہم کہاں

حسیں قاف میں گوکہ پریاں بھی ہیں

مگر اِن حسینوں کا عالم کہاں

الٰہی ہے دل جائے آرام غم

نہ ہوگا جو یہ جائے گا غم کہاں

کہوں اُس کے گیسو کو سنبل میں کیا

کہ سنبل میں یہ پیچ یہ خم کہاں

وہ زخمی ہوں میں، زخم ہیں بے نشاں

الٰہی لگاؤں میں مرہم کہاں

زمانہ ہوا غرق طوفاں امیر

ابھی روئی یہ چشم پُرنم کہاں​

٭٭٭

 

ٹائپنگ: کاشفی، فرخ منظور، فاتح الدین بشیؔر (اردو  محفل)

اور دوسرے

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید