FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               کے اشرف (خواجہ اشرف)

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

شہزادی

کہانیاں بہت ہیں اور وقت کم۔ کس کی کہانی پہلے سنوں اور احاطہ تحریر میں لاؤں اور کس کی بعد میں۔ وہ پہاڑی لڑکی جس نے مری کی پہاڑیوں میں مال روڈ پر چلتے ہوئے مجھ سے مد د کی درخواست کی تھی یا گھانا سے اغوا کی کئی اس نوجوان لڑکی کی جسے پہلے ساؤتھ افریقہ میں بیچا گیا اور بعد میں امریکہ لا کر غلام کی طرح خادمہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔

یا اس نومولود ایرانی بچے کی جس کو اس کی ماں سمیت اس لئے سنگ زنی سے ہلاک کر دیا گیا کہ اس نے اس مہذب انسانوں کی دنیا میں محبت کے ایک وقتی کی ابال کے سہارے داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ کئی کہانیاں آنسوؤں سے پر ہیں اور کئی قہقہوں سے۔

دنیا بھر کے دکھی انسانوں کو دیکھتا ہوں تو جی چاہتا ہے کہ صرف قہقہوں کی گونج پر تیرتی کہانیوں کو احاطہ تحریر میں لاؤں لیکن پھر پاکستان میں ایک عیسائی عورت میرا دامن پکڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے نبی اسلام کی توہین کی ہے۔ چنانچہ اس الزام میں اُسے پھانسی دی جا رہی ہے۔ میں ابھی اس کی مکمل بات سن نہیں پاتا کہ ایک مفلوک الحال شاعر اپنی آزاد نظم سنانے کی درخواست کرتا ہے۔

"یار میں شاعری کے ذوق سے بالکل محروم ہوں۔ کیا تم اپنی نظم کسی اور آدمی کو نہیں سنا سکتے۔ ” وہ میرا جواب سن کر آزردہ ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرے لگتے ہیں۔

"میرے ساتھ زندگی نے نا انصافی کی ہے اور تم بھی مجھ سے بے اعتنائی برت رہے ہو۔ میری نظم نہیں سننا چاہتے تو نہ سنو لیکن بات تو ٹھیک طرح سے کرو۔”

ابھی میں اپنے شاعر دوست کو جواب نہیں دے پاتا کہ ایک سیاہ فام بھکارن میرے پاس پہنچ جاتی ہے۔ وہ مجھ سے فالتو سکوں کے بارے میں پوچھتی ہے۔

میں اُس سے اُس کا نام پوچھتا ہوں۔ وہ اپنے لباس سے ٹپکتی غربت کے باوجود مجھے کہتی ہے کہ اُس کا نام "شہزادی ” ہے۔

اُس کا نام سن کر میں ایک لمبی ٹھنڈی سانس بھرتا ہوں۔ اپنی جیب سے نکال کر تمام سکے یہ کہتے ہوئے اُس کے حوالے کر دیتا ہوں کہ اگر وہ شہزادی ہے تو اُسے زندگی میں کسی نہ کسی شہزادے کو ڈھونڈنا چاہئے۔ لیکن وہ میری بات سنے بغیر سکے لے کر چل پڑتی ہے۔

شاعر عجیب نظروں سے میری طرف دیکھتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اُسے بھکارن کے میری بات سنے بغیر چلے جانے سے خوشی ہوئی ہے۔

آخر وہ اپنی آنکھوں میں چھپی بات اپنی زبان پر لے آتا ہے۔

"دیکھا تم نے میری نظم سننے سے جس بے دردی سے انکار کیا تھا اُسے سیاہ فام بھکارن نے کس طرح تم سے چند سکے لے کر تمہاری بات سنے بغیر فوراً کس طرح برابر کر دیا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ اُس نے تمہاری بات نہیں سنی۔ "

میں شاعر کے طنزیہ جملے کا جواب دیئے بغیر آگے چل پڑتا ہوں۔ مری کی پہاڑیوں پر چلتی مد د مانگنے والی لڑکی کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ گھانا سے اغوا ہونے والی لڑکی بھی کہیں ہجوم میں گم ہو چکی ہے۔ میں نیویارک میں پارک ایونیو پر آوارگی کر رہا ہوں۔

برفباری کی وجہ سے میں نے سر پر ٹوپی ، آنکھوں پر ڈارک شیشوں کی عینک، ہاتھوں پر اونی دستانے اور اپنے نحیف و نزار جسم پر سیاہ رنگ کا اوور کوٹ پہن رکھا ہے۔

گھر سے نکلتے وقت میں نے سردی سے بچنے کا پورا انتظام کیا تھا لیکن اس کے باوجود ٹھنڈ میری ہڈیوں میں سرائت کر رہی ہے۔

میں ایک میکڈانلڈ میں داخل ہو جاتا ہوں۔ میرے ذہن میں ہے کہ میکڈانلڈ سے چائے کا یک کپ خریدوں گا اور گھنٹہ بھر یہیں بیٹھ کر ٹی وی دیکھوں گا۔ برفباری میں کمی واقع ہو گی تو زیر زمین ٹرین پکڑ کر گھر واپس جاؤں گا۔

میکڈانلڈ میں داخل ہونے کے بعد مجھے یاد آتا ہے کہ میں اپنا بٹوا گھر بھول گیا تھا۔ میری جیب میں وہی چند سکے تھے جو میں نے سیاہ فام "شہزادی” کو دے دیئے تھے۔

میں تھوڑا سا پریشان ہوتا ہوں اور پھر میکڈانلڈ کے باتھ روم میں پیشاب کرنے کے لئے داخل ہو جاتا ہوں۔ پیشاب کرنے کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو پہلے مجھے اپنے دستانے اتارنے پڑتے ہیں۔ دستانوں سمیت انگلیوں سے اوور کوٹ کے بٹن کھولنا خاصہ مشکل کام ہے۔ دستانے اتار کر اوور کوٹ کے بٹن کھولتا ہوں۔ پھر پینٹ کی زپ کھولنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن انگلیاں اس حد تک سرد ہو چکی ہیں کہ مجھے پینٹ کی زپ پکڑنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔

پیشاب کا دباؤ بڑھ جاتا ہے لیکن مجھ سے زپ کھل نہیں پاتی۔ آخر بہت مشکل کے ساتھ زپ کھولتا ہوں۔ پیشاب کرتا ہوں تو مجھے کچھ راحت محسوس ہوتی ہے۔ میں زپ بند کر کے اوور کوٹ کے بٹن بند کرتا ہوں۔ پھر اپنے ہاتھوں پر اونی دستانے پہنتا ہوں۔ باتھ روم سے نکلتا ہوں تو مجھے "شہزادی ” دکھائی دیتی ہے۔ وہ خواتین کے باتھ روم سے باہر نکل رہی ہے۔

میں اُسے دیکھ کر ہاتھ ہلا کر اُسے پکارتا ہوں : "ہائے شہزادی۔” وہ میرے مخاطب کرنے پر مجھے گھور کر دیکھتی ہے

میں پھر ہاتھ ہلا کر اُسے پکارتا ہوں : "ہائے شہزادی۔” وہ مجھے جواب دیئے بغیر آگے بڑھ کر کاؤنٹر پر لگی لائن میں کھڑی ہو جاتی ہے۔

میں بھی اُس کے پیچھے جا کر لائن میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ اُسے اپنے پیچھے میرا لائن میں کھڑا ہونا اچھا نہیں لگتا۔ میں پھر اُسے "شہزادی "کہہ کر پکارتا ہوں لیکن وہ کہتی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے اور اُس کا نام "شہزادی ” نہیں ہے۔

میں اُسے یاد دلاتا ہوں کہ اُس نے ابھی سڑک پر مجھ سے ایک بھکارن کی طرح چند سکے مانگے تھے۔ میں نے اپنی جیب سے سارے سکے نکال کر اُسے دے دیئے تھے۔ میرے استفسار پر اُس نے مجھے اپنا نام "شہزادی ” بتایا تھا۔

وہ خشمگیں نگاہوں سے میری طرف دیکھتی ہے۔ "تم مجھے تنہا چھوڑو گے یا میں بلاؤں پولیس کو۔” میں پولیس کا نام سن کر اُسے لائن میں چھوڑ کر میکڈانلڈ سے باہر نکل آتا ہوں۔

باہر ابھی تک برفباری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی فٹ برف گر چکی ہے لیکن تا حال برفباری رکنے کا نام نہیں لے رہی۔

لیکن برفباری کے باوجود نیویارک متحرک ہے۔ گاڑیاں چل رہی ہیں۔ لوگ سڑکوں پر آ جا رہے ہیں۔ میں جدھر دیکھتا ہوں کہانیاں میرے ارد گرد بکھری ہیں۔ کئی کہانیاں میں نے جیبوں میں اُڑس لی ہیں کہ مناسب وقت پر انہیں لکھوں گا۔

کہانیاں بہت ہیں اور وقت بہت کم۔ لیکن میں ابھی تک مری میں مال روڈ پر ملنے والی اس پہاڑی لڑکی کی تلاش میں ہوں۔ وہ مجھے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ لیکن میں اس کی بات سنی ان سنی کر کے آگے بڑھ گیا تھا۔ پھر گھانا سے اغوا ہو کر ساؤتھ افریقہ اور وہاں سے امریکہ اسمگل ہونے والی لڑکی۔ شاید میں اُسے غلامی کی مشقت سے نجات دلا سکوں۔ اور وہ بے چاری عیسائی عورت جس پر نبی اسلام کی توہین کا الزام لگا کر اُسے موت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ یا وہ نومولود ایرانی بچہ جسے اس کی ماں سمیت سنگسار کر دیا گیا تھا۔ اُس کی ماں بہت چیخی چلائی تھی۔ ہر پتھر پر اُس کی دلدوز صدائیں فضا میں بلند ہوتی تھیں۔ لیکن اُس نومولود نے تو ایک چیخ بھی بلند نہیں کی تھی۔

آنسوؤں سے بھری کہانیاں۔ قہقہوں سے شرابور کہانیاں۔ کونسی پہلے لکھوں۔ اور کسے کسی اور وقت کے لئے موخر کر دوں۔

وہ شاعر ابھی تک برفباری میں پھر رہا ہے۔ میں اسے آواز دیتا ہوں۔ فی الحال اُس کی نظم سننا سب سے آسان کام ہے۔

میں اُسے آواز دیتا ہوں لیکن وہ سنی ان سنی کر کے چلا گیا ہے۔ "شہزادی ” چائے کا کپ پکڑے میکڈانلڈ سے ابھی ابھی باہر آئی ہے۔ وہ کسی اور راہگیر سے فالتو سکے مانگ رہی ہے۔ میری آنکھوں سے آنسو گر کر میرے گالوں پر جمتے جا رہے ہیں۔ میں شاعر کی بے رخی دیکھ کر خود ہی کچھ لائنیں گھڑ لیتا ہوں۔

"اسے زندگی میں تجھ سے شرمسار ہوں

انسان اتنے بے ضمیر اور بے حس بھی ہو سکتے ہیں۔

کیا یہ سب تیرے بیٹے بیٹیاں ہیں ؟ "

"شہزادی ” راہگیر سے چند سکے لے کر میرے قریب سے گزرتی ہے۔ وہ میری نظم سن کر رک جاتی ہے۔ مجھے پوچھتی ہے :

"تم رو کیوں رہے ہو؟”

"تم نے مجھے دکھی کر دیا ہے۔” میں اُسے جواب دیتا ہوں۔

"دیکھو اجنبی۔ یہ زندگی ہے۔ اسے جینا سیکھو۔ اس طرح دکھی ہو گے تو کیسے چلے گا۔ میں ایک بھکارن ہوں۔ سڑک پر سوتی ہوں۔ لوگوں سے پیسے مانگ کر گزارہ کرتی ہوں۔ کل کی فکر نہیں کرتی۔ نہ گزرے کل کی نہ آنے والے کل کی۔

میں گھانا میں پیدا ہوئی تھی۔ اغوا کاروں نے مجھے اغوا کر کے کئی ملکوں میں کئی ہاتھوں میں بیچا۔ مجھ سے مشقت لی۔ میرے ساتھ زیادتیاں کیں۔ مجھے اپنا پیدائشی نام بھی یاد نہیں۔ کوئی پوچھتا ہے تو کہہ دیتی ہوں میرا نام شہزادی ہے۔ "

میں اُس کی کہانی سن کر آگے چل پڑتا ہوں۔

وہ مجھے پوچھتی ہے کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ میں اُس بتاتا ہوں کہ میں گھر جار ہا ہوں۔ وہ پوچھتی ہے کہ میں کہیں قریب ہی رہتا ہوں۔ میں کہتا ہوں نہیں میں وہاں سے بہت دور رہتا ہوں۔ وہ کہتی ہے ٹرین کیوں نہیں پکڑتے۔ میں کہتا ہوں کرائے کے پیسے نہیں۔

وہ اپنی جیب سے چند سکے نکال کر میری ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہتی ہے :

"لو اتنے پیسوں سے نیویارک میں تم زیر زمین ٹرین پر کہیں بھی جا سکتے ہو۔ ” میں نہیں نہیں کرتا ہوں لیکن شہزادی پیسے میری ہتھیلی پر چھوڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔

برفباری ابھی تک جاری ہے۔ کہانیاں میرے ارد گرد بکھری ہیں۔ میں سب کچھ بھول کر زیر زمین ٹرین اسٹیشن کے لئے بنی سیڑھیاں اُتر رہا ہوں۔

ٹرین میں بیٹھ کر مری میں مال روڈ پر ملنے والی لڑکی کے بارے میں سوچوں گا۔ گھانا سے اغوا ہونے والی شہزادی سے ملاقات تو ہو گئی ہے۔ شاید مری والی پہاڑی لڑکی سے بھی کہیں ملاقات ہو جائے۔

 باقی رہی ایران میں سنگسار ہونی والی لڑکی اور اس کا نومولود بیٹا اور پاکستان میں نبی اسلام کی توہین کر کے سزائے موت پانے والی عیسائی عورت۔

ان کی کہانیاں میری جیب میں اُڑسی ہیں۔ کبھی نہ کبھی وقت ملا تو وہ بھی لکھوں گا۔ وقت کم ہے اور کہانیاں بہت زیادہ۔

٭٭٭

 

کرشنا

پہلی بار میں نے اُسے کہاں دیکھا تھا؟ ہاں یاد آیا وہ شمالی ہندوستان میں دور تک پھیلے پہاڑی سلسلے میں پہاڑیوں پر اچھل کود کر رہا تھا۔ کبھی ایک پہاڑی پر کبھی دوسری پہاڑی پر۔ وہ ایک پہاڑی سے دوسری پر اس طرح قدم رکھ رہا تھا جیسے وہ پہاڑیاں نہ ہوں کوئی شاہراہ ہو۔

دیکھنے میں وہ کوئی طویل القامت شخص نہیں تھا۔ مشکل سے ساڑھے چار فٹ کا رہا ہو گا۔ رنگ ایسا جیسے امریکہ میں آباد حبشی غلاموں کے بیٹے بیٹیوں کا۔ حبشی غلاموں کے بیٹیاں بیٹے بھی اُسے دیکھتے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکل جاتا: کالا۔

لیکن وہ کس طرح اتنی آسانی سے ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر قدم رکھ رہا تھا۔ یہ بات کم از کم میری عقل سے باہر تھی۔

اُس نے مجھے پریشان دیکھا تو میرے پاس آ کر بولا:

"تم ٹھیک تو ہو۔۔۔۔؟”

"ہاں۔ ہاں۔ بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔” میں نے اپنی حیرانی چھپاتے ہوئے جواب دیا۔

لیکن میں نے زندگی میں اُس کے قد کاٹھ کے کسی آدمی کو اتنی آسانی سے پہاڑیوں پر چلتے نہیں دیکھا تھا۔اُسے دیکھ کر لگتا تھا کوئی بندر ایک درخت کی شاخ سے جھولتا ہُو ا دوسری اور پھر تیسری شاخ پر پھدک رہا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ اس کا قد چھوٹا اور رنگ کالا سیاہ تھا بلکہ وہ دیکھنے میں بھی بہت دبلا پتلا دکھائی دیتا تھا۔ اِس کے باوجود بڑے بڑے قدم اٹھانے کے علاوہ اُس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔

لیکن کرشنا بہر حال ایک معمولی انسان نہیں تھا۔ وہ خدا تھا۔ اور خدا معمولی انسان نہیں ہوتے۔ اُن کی غیر معمولی صلاحیتیں ہی انہیں عام انسانوں سے ممیز کرتی ہیں۔

اُس نے مجھے سوچوں میں گم دیکھا تو کہنے لگا:

"میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہے ہو۔۔۔”

"کیا سوچ ر ہا ہوں۔۔۔۔؟” میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

"تم سوچ رہے ہو کہ میں اتنے بڑے بڑے قدم کیسے اٹھا رہا ہوں کہ میرا ایک قدم ایک پہاڑی پر اور دوسرا دوسری پہاڑی پر پڑتا ہے۔ ” اُس نے انتہائی نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔ ہاں۔ میں یہی سوچ رہا ہوں۔” میں نے گھبرائے ہوے لہجے میں جواب دیا اور پھر اپنی بات جاری رکھی۔۔۔۔”اور جانتے ہو کرشنا اِس میں مزید حیران کن بات کیا ہے ؟”

"ہاں تم سوچ رہے ہو کہ میں نے تمہارے سوال کرنے سے پہلے تمہارا ذہن کیسے پڑھ لیا۔” مجھے لگا کرشنا سے میری کوئی بات چھپی نہیں ہے۔ میری حیرانگی کو دیکھتے ہوئے اُس نے خود ہی میرے سوال کی وضاحت کی:

"دیکھو اقلیم وقت میں ہر چیز خیال سے بندھی ہے۔ رونما ہونے والے واقعات وقت میں ایک طویل زنجیر کی طرح ہوتے ہیں۔ تم چاہو تو واقعات کی اس زنجیر کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہو۔ ہر واقعے کو رونما ہونے سے پہلے دیکھ سکتے ہو۔ بلکہ چاہو تو اُس واقعہ کے شاہد بن سکتے ہو۔اُسے چھو سکتے ہو۔ محسوس کر سکتے ہو۔ اور اگر تم میں جرات ہو تو تم اُس واقعہ کے لمحے میں جی سکتے ہو۔گویا تم ایک وقت میں کئی وقتوں کی سیاحت کر سکتے ہو۔ "

اُس نے اتنا کہا اور پھر رک گیا۔ مجھے لگا وہ میرے خیالات پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پھر کہنے لگا:

"چلو چھوڑو ا ن باتوں کو۔۔۔ اگر تمہارے ذہن میں کوئی سوال تمہیں تنک کر رہا ہے تو پوچھو میں تمہارے سوال کا جواب دے کر تمہیں مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا۔”

"کرشنا میں چاہتا ہوں تم میرے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دو۔۔۔۔” میں نے قدرے تذبذب کے ساتھ کرشنا سے درخواست کی۔

"میں خدا ہوں۔۔اور خدا کے دل نہیں ہوتا۔۔۔” کرشنا نے مسکراتے ہوئے میرے سوال کو طرح دینے کی کوشش کی۔

"اور خدا چوری بھی نہیں کرتا۔۔۔۔” میں نے کرشنا کو اُس کا بچپن یاد دلانے کی کوشش کی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خدا کی بجائے میرے ساتھ انسانوں کی طرح بات کرے۔ میں نے اُسے بچپن میں مکھن چوری کر کے کھانے کی بات دہرائی۔ لیکن میری بات کا اُس پر کوئی اثر نہ ہُوا۔ وہ بالکل پرسکون رہا۔ پھر اُسی پُر سکون لہجے میں کہنے لگا:

"زمان حقیقی میں نہ بچپن ہے نہ بڑھاپا۔ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہتا ہے اور وہ حالت ہے جوانی کی۔ زمان حقیقی میں کوئی حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔”

کرشنا نہیں چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ انسانی سطح پر اُترے۔ بلکہ اُس نے کوشش کی وہ مجھے انسانی سطح سے اُٹھا کر خدائی سطح پر لے جائے۔ اُس کا پہاڑیوں پر چلنا، میرے خیالات کو بغیر گفتگو پڑھنا، گہری جادوئی آواز میں گفتگو ، آدھی ننگی گوپیوں سے التفات مجھے اُس کی خدائی سطح پر نہ لے جا سکا۔ جیسا کہ خداؤں سے گفتگو کے دوران اکثر میں کرتا ہوں ، میں مضبوطی سے اپنی انسانی سطح پر جما رہا۔ کرشنا کوشش کے باوجود مجھے اُس ماورائی سطح پر نہ اُٹھا سکا جہاں وہ میرے خیالات کو کنٹرول کرتا۔

خداؤں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ انسانوں سے ہمدردی ضرور رکھتے ہیں لیکن انسانوں کی سطح پر اُتر کر زندگی گزارنا پسند نہیں کرتے۔ صرف انسانوں کو وقت کی اقلیم سے گزرنا پڑتا ہے اور ہر طرح کے مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ خدا وقت کی اقلیم سے باہر رہتے ہیں۔ وہ حقیقی وقت میں زندگی گزارتے ہیں۔ اور حقیقی وقت میں ماضی یا مستقبل نہیں ہوتا۔ صرف حال ہوتا ہے۔ ماضی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تکلیف دہ یاد نہیں ہوتی۔ مستقبل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خوشگوار اُمید نہیں ہوتی۔ اس لئے خدا نہ یادوں کا عذاب سہتے ہیں نہ انہیں اپنی اُمیدیں پوری نہ ہونے کا دُکھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اِس لئے وہ انسانوں کے ساتھ کبھی حقیقی ہمدردی نہیں کر سکتے۔ صرف انسان ہی انسانوں کے ساتھ ہمدردی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ انسان درد سے آشنا ہونے کی وجہ سے دوسروں کا درد سمجھتے ہیں۔

کرشنا میرے خیالات پڑھ رہا تھا۔ میرے خیالات کا عکس اُس کے چہرے پر آگ کی پرچھائیوں کی طرح نمایاں تھا۔ میں نے دیکھا وہ اندر ہی اندر ایک درد محسوس کر رہا تھا۔ وہ دل کی گہرائیوں میں رو رہا تھا۔ چند لمحے پہلے وہ کہہ رہا تھا خدا رویا نہیں کرتے۔ لیکن میں نے دیکھا اب وہ باقاعدہ رونے لگا تھا۔ ایک بے قرار بچے کی طرح۔ لیکن کیوں ؟ وہ رونے کیوں لگا تھا؟ شاید اُس پر میرا داؤ چل گیا تھا۔ میں خاموشی سے اُس کے پاس ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ میں اُس کے اندر جاری عمل کو نہیں روکنا چاہتا تھا۔ شاید اُس میں چُھپا خدا مر رہا تھا اور ایک انسان جنم لے رہا تھا۔

میں نے چند لمحوں بعد دیکھا وہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ رہا تھا۔

مجھے لگا اب وہ خداؤں کی دنیا سے نیچے انسانوں کی حقیقی دنیا میں چلا آیا تھا۔ ایک ایسی دنیا جس میں انسان پیدا ہوتے ، جیتے ، درد سہتے اور مرتے ہیں۔

"کیا ہُوا کرشنا۔۔۔۔؟” میں نے اُس سے پوچھا۔ پھر اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے ایک اور سوال اُس کی طرف اچھال دیا:

"بولو کرشنا تمہاری کہانی کیا ہے۔۔۔؟”

"میری کہانی کچھ نہیں۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔ مجھے کبھی اپنے ماں باپ کی محبت نہ مل سکی۔ چنانچہ اُس محبت کی کمی کو پوری کرنے کے لئے میں نے گوپیوں کی محبت کا سہارا لیا۔ میں ایک گوپی سے دوسری گوپی کے پاس گیا۔ میں اُن میں اپنی ماں ڈھونڈ رہا تھا۔

 جو آدمی بھی ایک عورت سے دوسری اور دوسری سے تیسری عورت کے پاس جاتا ہے وہ ان میں اپنی ماں ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اُسے اُن میں اپنی ماں نہیں ملتی وہ اُن میں سے نئے بچوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ سلسلہ اُس کی زندگی اور نئے پیدا ہونے والے بچوں کی زندگیوں میں چلتا رہتا ہے۔ اِسی کو دوبارہ جنم لینا کہا جاتا ہے۔”

"دوبارہ جنم۔۔۔۔۔؟”

میں نے اُس کا جملہ دہرایا۔ میں اُس کے فکری بہاؤ کے ساتھ جُڑا رہنا چاہتا تھا۔

"ہاں دوبارہ جنم۔۔۔۔اس کا مطلب ہے مآخذ کی طرف لوٹنا اور پھر اُس میں سے اپنے جیسا نیا انسان پیدا کرنا۔ دوبارہ جنم لینے کا اِس کے سوا کچھ اور نہیں۔”

"پھر پچھلے جنم کی کہانی کیا ہے ؟” میں نے اُس ایک اور سوال میں الجھا دیا۔

"انسانی تصور ایک عجیب چیز ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو وقت کی قید سے آزاد کرنا چاہتا ہے وہ اپنے تصور کی قوت استعمال کرتا ہے۔ یہ انسانی تصور ہی ہے جو عام انسانوں کو خداؤں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ورنہ خداؤں کا کوئی وجود نہیں۔ وہ انسان ہیں جو وقت کی حدود سے نکل چکے ہیں۔ جب وہ زمینی وقت کی حدوں سے نکل کر حقیقی وقت کی حدوں میں داخل ہوتے ہیں وہ خدا بن جاتے ہیں۔ پھر انہیں قوت حاصل ہو جاتی ہے کہ وہ عام انسانوں کے خیالات سے چھیڑ چھاڑ کر سکیں۔ وہ اُن کے خیالات کے ذریعے اُن کی قسمتوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کچھ اُن کے ذہنوں میں مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔ عام انسانوں کو اُن کے ساتھ وابستہ ہونا اچھا لگتا ہے۔ وہ اِس مقصد کے لئے طرح طرح کی رسمیں بنا لیتے ہیں۔ وہ جتنا اُن رسموں کی تکرار کرتے ہیں وہ اپنے خداؤں کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ "

"کرشنا اب تم بول رہے ہو۔۔۔” میں نے مسکراتے ہوئے اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ اب وہ زیادہ سے زیادہ انسانی انداز اپنا رہا تھا۔ میں نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے ایک اور چوٹ لگائی۔

"کرشنا تم اپنی ماں کا ذکر کرتے ہوئے رو کیوں رہے تھے ؟ ” میں نے اُس کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھا۔

"میری ماں۔ غریب اور مجبور ماں۔ ہمیشہ میرے لاشعور میں موجود رہی۔ خدا بننے کے بعد بھی۔ میں کبھی خود کو اُس کے تصور سے آزاد نہ کرا سکا۔ اُس نے اپنی زندگی میں بہت دکھ اُٹھائے تھے۔ میں جب بھی اُس کے دکھوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔

عورت اِس دنیا میں مظلوم ترین ہستی ہے۔ وہ معاشی اور سیاسی طور پر کتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہو جائے۔ وہ مظلوم ہی رہتی ہے۔ اُن کی مجبوریاں اور دُکھ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ بعض اوقات وہ اپنے اندر مطمئن ہو جاتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کی مظلومیت واپس لوٹ آتی ہے۔

میری ماں بھی عام عورتوں کی طرح تھی۔ اُس نے بھی اپنی زندگی میں بہت دکھ اُٹھائے تھے۔ کوئی با عزت انسان ویسی زندگی نہیں گزارنا چاہے گا جیسی میر ی ماں نے گزار ی تھی۔ "

اپنے ماں کا ذکر کرتے ہوئے وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ میں نے اُسے پہاڑ کے نیچے رونے کے لئے تنہا چھوڑ دیا۔

اب کرشنا خدا نے تھا بلکہ ایک عام آدمی بن چکا تھا۔۔۔ ایک عام آدمی جس کے دل کا درد آنسو بن کر اُس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔

٭٭٭

 

پنشن

وہ دیر تک سڑک پر کھڑا آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ اسے لگا کہ یہ لوگ پہلے ایسے نہیں تھے۔ اب ان میں کچھ مختلف تھا۔ لیکن کیا مختلف تھا اس کا اندازہ لگانے کے لئے اسے کچھ انتظار کرنا پڑا۔

اس انتظار میں اس کا ذہن ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ یہ بھول بھلیاں کہاں سے شروع ہوتی تھیں اور کہاں ختم اس کا اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔

وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تھا۔ گاؤں کیا تھا چند سو گھروں کا مجموعہ تھا۔ جس کے ارد گرد چاروں طرف کھیت تھے۔ دو طرف سیلابی ندیاں تھیں اور دو طرف نہریں۔

یہ نہریں اور سیلابی ندیاں گوروں نے بنائی تھیں۔ گوروں کا خیال آتے ہی اس کا ذہن مال روڈ کی طرف مڑ گیا۔ مال روڈ بھی تو گوروں نے بنایا تھا۔ اور مال روڈ کے ارد گرد پھیلی عمارتیں۔ ہائی کورٹ، گورنمنٹ کالج، جی پی او اور میوزیم۔ کتنی عمارتیں تھیں جو گوروں کے جانے کے بعد بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ مال روڈ پر آتے جاتے لوگوں کو اپنے بنانے والوں کی یاد دلاتی رہتی تھیں۔

مال روڈ کی عمارتوں کے بعد اس کا ذہن پھر گاؤں کی طرف چلا گیا۔ چاچا کریم دارے میں چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ وہ چاچے کریم کے پاس نیچے سروٹ کی بنی ایک چٹائی پر بیٹھا تھا۔

"بیٹا گورے بہت اچھے لوگ تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے کام کرتے تھے جن سے عام لوگوں کی بھلائی ہوتی تھی۔ ان کے برعکس مسلمان بادشاہ ہمیشہ اپنے لئے محلات اور بارہ دریاں بناتے تھے۔”

چاچا کریم ان پڑھ آدمی تھا۔ جوانی میں ریلوے میں ملازم تھا۔ اب اسے ریلوے سے پینتیس روپے پنشن ملتی تھی۔ اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ سب کے سب شادی شدہ تھے۔ بیٹے تو اس کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ لیکن بیٹی قریبی گاؤں میں بیاہی تھی۔

وہ سردیوں گرمیوں میں سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ گھر سے چارپائی اٹھائے دارے میں آتا اور سورج کی آخری کرنوں تک وہیں بیٹھا حقہ پیتا اور آنے جانے والوں کے ساتھ گپ شپ کرتا۔

سردیوں میں وہ اپنی چارپائی ایسی جگہ جماتا جہاں دھوپ براہ راست پڑتی۔ جیسے جیسے دن گرم ہوتا اس کی چارپائی دھوپ سے درختوں کے سائے کی طرف سرکتی جاتی۔

گرمیوں میں وہ اپنی چارپائی درختوں کی چھاؤں میں بچھاتا۔ زیادہ گرمی ہوتی تو اپنا کرتا اتار لیتا۔ ورنہ کھلے میں ہونے کی وجہ سے کرتے میں ہونے کے باوجود ٹھنڈی ہوا کے مزے لوٹتا اور حقہ گڑگڑاتا رہتا۔

کاما صبح سکول جاتا تو دور سے چاچے کریمے کو سلام کرتا۔ چاچا بہتیرا کہتا کہ وہ چند لمحے اس کے پاس رک جائے لیکن وہ بغیر چاچے کریمے کے پاس رکے سکول چلا جاتا۔ تاہم سکول سے واپسی پر وہ فوراً سکول سے ملے گھر کے کام والی کتابیں اٹھا کر دارے میں چاچے کریمے کے پاس چلا آتا۔

وہ چاچے کے پاس بچھی چٹائی پر اپنی کتابیں رکھ کے سکول کا کام کرنا شروع ہو جاتا۔ کام کے ساتھ ساتھ اس کی چاچے کے ساتھ گفتگو چلتی رہتی۔

چاچا جب بھی گوروں کی بات کرتا وہ ہمیشہ چاچے کو تنگ کرتا:

"چاچا اگر گورے اتنے اچھے تھے تو تم گوروں کے ساتھ ان کے دیس کیوں نہ چلے گئے۔ یہاں دارے میں بیٹھنے کی بجائے لندن میں کسی پارک میں بیٹھ کر حقہ پیتے۔”

"اوئے کامے۔ تمہیں کیا پتہ کہ گورے کتنے اچھے لوگ۔ اب دیکھو ناں۔ انہوں نے کیسا انتظام کیا تھا۔ میں ریلوے میں معمولی ملازم تھا۔ ریل کی پٹریوں پر صاحب کی ٹرالی دوڑاتا تھا۔ ساری عمر ٹرالی دوڑائی۔ ہمیشہ صحت مند رہا۔ کوئی بیماری قریب نہیں آئی۔ اب پچاسی برس کا ہو کر بھی نوجوانوں سے پنجہ لڑاتا ہوں۔ دن بھر حقہ پیتا ہوں۔ عزت سے بڑھاپا کاٹ رہا ہوں۔ پنتیس روپوں میں میرا اور تمہاری چاچی کا اب بھی اچھا گزارہ ہوتا ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے اور گوروں کی جگہ کالے انگریز حکمران ہوئے ہیں کوئی چیز ٹھیک نہیں۔ "

پھر سڑک پر کھڑے کھڑے اس کا ذہن چاچے کریمے سے سڑک پر دوڑتی گاڑیوں کی طرف مڑ جاتا۔ دھواں چھوڑتی گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے ، موٹر سائیکلیں اور انسانی ٹانگوں سے چلتے سائیکل اندھا دھند سڑک پر دوڑتے چلے جاتے۔ وہ سب پریشان حال کسی نہ کسی سمت بھاگتے دکھائی دیتے۔

"یہ سب کیوں پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔آخر یہ تھوڑی دیر رک کر، بس تھوڑی دیر، کہیں بیٹھ کیوں نہیں جاتے۔ کہیں بیٹھ کر حقہ کیوں نہیں پیتے۔ گپ شپ کیوں نہیں کرتے۔”

حقے کے نے کی گڑگڑاہٹ کے پیچھے اسے پھر چاچے کریمے کی آواز سنائی دیتی۔

"اگر گورے ہندوستان نہ آتے۔ تو نہ ریلوے لائن ہوتی۔ نہ اسکول ہوتے۔ نہ کالج بنتے۔ نہ لڑکے لڑکیاں تعلیم پاتے۔ اور نہ مجھے پینتیں روپے ماہانہ پنشن ملتی۔ میں فراغت سے دارے میں بیٹھ کر حقہ پینے کی بجائے کسی آڑھت پر بوریاں اٹھاتے اپنی کمر تڑوا کر کب کا مر کھپ چکا ہوتا۔ "

چاچے کریمے کی باتیں سن کر اسے لگتا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ لیکن گورے غیر ملکی حکمران تھے۔ وہ ہندوستان پر قابض تھے۔ انہوں نے ہندوستان فتح کیا تھا۔ سارے ہندوستانی ان کے غلام تھے۔ گوروں کے جانے کے بعد ہندوستانی بھی آزاد تھے اور پاکستانی بھی۔

ہندوستانی کس حال میں تھے۔ اس کا تو اسے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ لیکن پاکستانی بیمار تھے۔ سب کے سب۔ اوپر سے نیچے تک۔ اوپر والے زیادتیاں کرتے تھے اور نیچے والے زیادتیاں برداشت کرتے تھے۔ اوپر والوں کو زیادتیاں کرتے شرم نہیں آتی تھی اور نیچے والوں کی زیادتیاں سہتے غیرت نہیں جاگتی تھی۔

عزت اور غیرت کی اوٹ سے اسے پھر چاچے کریمے کے حقے کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔

ایک دن دارے میں بیٹھے چاچے کریمے نے اسے اپنے ہی گاؤں کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ گاؤں کے چوہدری نے اپنے ہی ایک کمی کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی تھی۔

کمی نے گورے صاحب سے روتے ہوئے انصاف کی درخواست کی تھی۔ گورے صاحب نے گاؤں آ کر سارے گاؤں میں پنچایت لگائی۔ اس نے سارے گاؤں والوں سے پوچھا تھا کہ چوہدری کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔

سارے گاؤں کا فیصلہ تھا کہ چوہدری کی کمی کی بیٹی سے شادی کر دی جائے۔ ساری زمین اس کے نام کی جائے اور وہ باقی کی ساری زندگی اس کا وفادار شوہر بن کر کاٹے۔

گورے صاحب نے وہیں پٹواری کو بلا کر چوہدری کی ز مین کمی کی بیٹی کے نام کی۔ مولوی صاحب کو بلا کر چوہدری کا اس کا نکاح اس کے ساتھ پڑھوایا۔ چوہدری کی ساری اولاد اسی کمی کی بیٹی سے پیدا ہوئی۔ کسی نے علی گڑھ سے بی اے کیا اور اب اپنے نام کے ساتھ علیگ لکھتا ہے اور کسی نے کے ای ایم بی بی ایس کیا اور اب وہ ڈاکٹر ہے۔

اب کالے انگریزوں کے زمانے میں روز لوگ مر رہے ہیں۔ کوئی بھوک سے۔کوئی ننگ سے۔ نہ مرنے والوں کو شرم آتی ہے۔ نہ ان کو جن کی وجہ سے مر رہے ہیں۔

وہ سڑک کے کنارے کھڑا آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اب بھی پوری رفتار سے بھاگے جا رہے تھے۔ ہر کوئی دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن اس دوڑ میں بھی منظر میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی تھی۔ اس قدر تیز رفتاری کے باوجود منظر اسی طرح ایک جگہ ٹھہرا تھا۔ گاڑیاں ، ویگنیں اور رکشے بدل رہے تھے لیکن منظر۔۔۔آخر منظر کے ٹھہراؤ سے اس کی آنکھیں پتھرانا شروع ہو گئیں۔ اس نے چند لمحوں کے لئے ادھر ادھر دیکھ کر اپنی آنکھوں کو پتھرانے سے روکنا چاہا لیکن اس فضول حرکت سے اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔ گاڑیاں ، ویگنیں او ر رکشے اسی طرح بھاگتے رہے لیکن منظر اسی طرح ٹھہرا رہا۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پتھرائی رہیں۔ جامد و ساکت کسی تبدیلی کے احساس کے بغیر۔

ایک دھواں چھوڑتی ویگن کا دھواں اس کے نتھنوں میں گھسا تو اسے پھر چاچا کریما یاد آیا:

"یہ بد بخت کوئی کام ٹھیک نہیں کر سکتے۔ کامے ہم تو گاؤں میں رہتے ہیں۔ تم لاہور جاؤ گے تو دیکھو گے کہ گوروں نے کتنا خوبصورت شہر بنایا تھا اور اب ان کالے انگریزوں نے اس شہر کا کیا حال کیا ہے۔ "

"لیکن چاچا لاہور میں تو شاہی قلعہ ہے۔ بادشاہی مسجد ہے۔ شالیمار ہے۔ بارہ دریاں ہیں۔ سب مغلوں نے بنائی تھیں۔” اس نے چاچے کریمے کو لقمہ دینے کی کوشش کی۔

چاچے نے حقہ گڑگڑاتے ہوئے اسے جواب دیا: "قلعہ بادشاہوں نے اپنے لئے بنایا تھا۔ لیکن اب یہ مختلف سوچ رکھنے والوں کی دماغی اصلاح کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ بارہ دریاں اور شالیمار بھی انہوں نے اپنے لئے بنائے تھے۔ اور بادشاہی مسجد لوگوں کو یہ یاد دلانے کے لئے بنائی تھی کہ بادلوں سے اوپر، ستاروں کے اس پار، آسمانوں سے ماورا ایک عرش ہے اور عرش پر ایک خدا بیٹھا ہے جس کا سایہ بادشاہ سلامت ہے۔ پانچ وقت اس عرش پر بیٹھے خدا کے لئے زمین پر سر رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ ان کا سر ہمیشہ بادشاہ کے سامنا جھکا رہے جو اس زمین پر اس خدا کا سایہ ہے۔ "

اس کی پتھرائی آنکھیں ٹھہرے منظر میں سڑک پر دوڑتی گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اور سائیکلیں دیکھتی رہیں لیکن اس کا ذہن مسلسل چاچے کریمے کے ساتھ مکالمے میں مصروف رہا۔ چاچا مسلمان بادشاہوں سے پھر گوروں کی طرف لوٹ آیا تھا۔

"گورے اب بھی اپنے ملکوں میں ہر کام کرنے سے پہلے اپنے عوام کا مفاد دیکھتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو، سوچ بچار، بحث مباحثہ اس لئے ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے۔ ان کی زندگی میں کیسے بہتری لائی جائے لیکن ان کے یہ کالے نائبین ہر کام کرنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ اس میں ان کا کتنا فائدہ ہے۔ "

"چاچا۔ پلیز تم گوروں کو یاد کرنا چھوڑ دو۔ اب تمہاری پنشن کے پینتیس روپے لندن سے نہیں آتے۔ حکومت پاکستان کے خزانے سے آتے ہیں۔”

"خزانہ۔۔۔”

اس کے منہ سے خزانے کا لفظ سن کر چاچے کے حقے کی گڑگڑاہٹ تیز ہو گئی۔ دارے میں ہوا تیزی کے ساتھ چلنا شروع ہو گئی۔ چاچے نے اپنی قمیض پہن لی۔

سڑک پر گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اور سائیکلیں پوری رفتار سے دوڑ رہے تھے لیکن منظر اسی طرح ٹھہرا رہا۔ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

اس نے پتھرائی آنکھوں سے دیکھا اس کے گاؤں کا ایک شخص اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ وہ گامے موچی کا بیٹا للّو تھا۔

"للّو تم۔۔۔کب آئے ہو گاؤں سے ؟” کامے نے گامے موچی کے بیٹے للّو کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ "کیا گاؤں میں سب ٹھیک ہے ؟”

"سب ٹھیک ہے۔ صرف چاچا کریما فوت ہو گیا ہے۔ دارے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ ڈاکیئے نے خط لا کر دیا۔ اس نے پڑھنے کے لئے کہا۔ سرکاری خط تھا۔ خط میں لکھا تھا۔ حکومت کا خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ اب اس کو ادا کرنے کے لئے حکومت کے پاس پینتیں روپے نہیں۔ اس نے خط سنا۔ حقے کا لمبا کش لیا۔ اور یہ کہہ کر چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں کہ جن کالے گوروں کے دیس کے خزانے میں ادا کرنے کے لئے پنشن کے پینتیس روپے نہ ہوں وہاں جی کے کیا کرنا۔”

گاڑیاں ، ویگنیں ، رکشے اور سائیکلیں سڑک پر ویسے ہی دوڑ رہی تھیں۔ لیکن منظر اسی طرح ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ للّو کے ساتھ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا چل دیا۔

اس کا دل بوجھل تھا۔ چاچے کریمے کے بغیر گاؤں کا دارہ کتنا خالی ہو گا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ پھر اس نے دیکھا چاچا کریما اب بھی دارے میں چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔

"گورے کتنے اچھے لوگ تھے۔ ہر کام لوگوں کے لئے کرتے تھے۔ اور یہ کالے انگریز۔۔۔۔” وہ کہہ رہا تھا۔

٭٭٭

 

صدر محترم

سڑک پر جہاں تک نظر جاتی تھی لوگ ہی لوگ تھے۔ انسانی سروں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ مرد، عورتیں ، لڑکیاں ، لڑکے ، بچے اور بوڑھے تھے کہ چلے آ رہے تھے۔ آج اتنے لوگ کہاں سے سڑکو ں پر نکل آئے تھے کسی کو اندازہ نہیں تھا۔

نہ انہیں کسی نے سڑکوں پر آنے کی دعوت دی تھی۔ نہ ان کا کوئی لیڈر تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ایک تار ہے جس میں وہ سب پروئے ہیں اور جانتے ہیں کہ انہیں کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔

وہ سب ملک کے دارالحکومت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دارالحکومت جا کر انہیں کیا کرنا تھا اس کا بھی انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا۔ بس وہ چل رہے تھے۔ چل رہے تھے۔ اور چلتے جا رہے تھے۔

وزارت داخلہ کے وزیر نے صدر محترم کو بتا یا کہ سارے ملک سے لوگ دارالحکومت کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں روکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی فورس نہیں۔ ہم کچھ بھی کر لیں ان کے سامنے کتنی بھی رکاوٹیں کھڑی کر لیں وہ رکنے والے نہیں۔ وہ دارالحکومت پہنچ کر رہیں گے۔

وزارت داخلہ کے وزیر کی رپورٹ سن کر صدر محترم کی بتیسی کھل اٹھی۔ اپنے میلے دانتوں ، اور ہوس سے بھری آنکھوں کے ساتھ ، ہنستے ہوئے صدر محترم نے فرمایا کہ جو بھی ہو لوگوں کے اس طوفان کو دارالحکومت نہیں پہنچنا چاہیئے۔

"صدر محترم میں نے سارے ملک کے پولیس کے انسپکٹروں سے درخواست کی ہے کہ وہ لوگوں کو دارالحکومت کی طرف سے بڑھنے سے روکیں لیکن سب نے معذرت کر لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عوام کے اس بپھرے ہوئے سمندر کو روکنا ان کے بس کی بات نہیں۔ "

وزارت داخلہ کے وزیر نے خوف زدہ لہجے میں مصنوعی اعتماد پیدا کرتے ہوئے جواب دیا۔

میلے دانتوں اور ہوس بھر ی آنکھوں سے ہنستے ہوئے وزارت داخلہ کے وزیر سے کہا :”اگر سارے ملک کے پولیس انسپکٹر انسانوں کے اس امڈتے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو فوج کے چیف کو کال کرو۔ اسے کہو کہ وہ فوجیوں کو حکم دے کہ وہ کروڑوں انسانوں کو دارالحکومت کی طرف بڑھنے سے روکیں۔”

"صدر محترم میں نے کوشش کی تھی کہ فوج کے کمانڈر انچیف سے رابطہ کروں لیکن کمانڈر انچیف کا پرائیوٹ سیکرٹری، کوئی کرنل ہے ، مجھے اس کا نام یاد نہیں ، کہتا ہے کہ میں کمانڈر انچیف سے بات نہیں کر سکتا۔ ” وزارت داخلہ کے وزیر نے پھر اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔

"کیا تم نے اسے بتایا تھا کہ کروڑوں لوگ دارالحکومت کی طرف بڑھے آ رہے ہیں ؟” صدر محترم نے وزارت داخلہ کے وزیر سے پوچھا۔ پھر خود کلامی کرتے ہوئے بولے : "نہ جانے وہ دارالحکومت آ کر کیا کریں گے۔ اتنے لوگوں کو یہاں آنے کیا ضرور ت تھی۔ ہم ہیں ناں یہاں پر۔ ان کے نمائندے۔ ان کو دارالحکومت کا راستہ کس نے دکھایا ہے ؟” ان کی خود کلامی میں بھی ان کی ناراضگی عیاں تھی۔ وزیر داخلہ نے صدر محترم کی خود کلامی کا جواب دیتے ہوئے کہا:

"ہم نہیں جانتے صدر محترم انہیں دارالحکومت کی طرف کس نے بھیجا ہے۔ ظاہراً کوئی ان کی قیادت نہیں کر رہا۔ کچھ سیاست دانوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ طرح طرح سے انہیں دارالحکومت آنے سے روکا لیکن وہ رکتے دکھائی نہیں دیتے۔ بس بڑھے چلے آ رہے ہیں۔”

"اچھا مجھے فوج کے کمانڈر انچیف سے ملاؤ۔ میں اسے خود حکم دوں گا کہ وہ جائے اور جا کر اتنے گنوار اور جاہل لوگوں کو دارالحکومت کی طرف آنے سے روکے۔” صدر صاحب نے غصے سے چلاتے ہوئے وزارت

داخلہ کے وزیر کو ہدایت کی۔

صدر صاحب کے کہنے پر وزیر داخلہ نے فون کے نمبر دبائے تو دوسری طرف سے اسی کرنل کی پھر آواز سنائی دی:”میں نے تمہیں پہلے منع کیا تھا کہ کمانڈر انچیف صاحب تم سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ تم پھر ہمیں کال کر رہے ہو۔”

وزیر داخلہ نے صدر محترم کی موجودگی میں تھوڑا حوصلہ دکھاتے ہوئے کہا: "کرنل صاحب اب میں نہیں صدر محترم کمانڈر انچیف صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں۔”

"یہ صدر محترم کون ہے۔ اس ملک میں صرف ہم محترم ہے۔ ہمارے علاوہ یہ دوسرا محترم کون پیدا ہو گیا ہے۔” کرنل صاحب نے دھاڑتے ہوئے وزیر داخلہ کو جواب دیا۔

"کرنل صاحب ، صدر محترم آرمڈ فورسز کے سپریم کمانڈر ہیں۔” وزیر داخلہ نے وضاحت کی۔

"ہم کسی ایسے عہدیدار کو نہیں جانتے۔ ہم صرف اپنے کمانڈر انچیف کو جانتے ہیں۔ اور وہ اس وقت کسی اور محترم سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں۔”

وزیر داخلہ کی جب فوج کے کمانڈر انچیف کے سیکرٹری ،جسے بعض اوقات رعب و دبدبے کے اظہار کے لیے چیف آف اسٹاف بھی کہا جاتا ہے ، بات ہو رہی تھی صدر محترم پاس ہی کھڑے تھے۔ گفتگو سن کر ان کے چہرے پر کچھ مایوسی کے تاثرات ابھرے۔ ان کی بتیسی کچھ لٹک سی گئی۔ اور ہوس بھری آنکھوں سے بھی مایوسی ٹپکنے لگی۔ انہوں نے و وزیر داخلہ سے پوچھا : ” لوگ کہاں تک پہنچے ہیں ؟”

وزیر داخلہ نے جواب دیا : ” وہ ابھی دارالحکومت سے کچھ فاصلے پر ہیں۔ اگر اسی طرح چلتے رہے تو آج رات سے پہلے دارالحکومت پہنچ جائیں گے۔ "

صدر محترم نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ پھر وزیر داخلہ سے کہا: "ہماری پارٹی کے لوگ کہاں ہیں۔ کیا ہم انہیں متحرک نہیں کر سکتے۔ وہ آئیں اور آ کر انسانوں کے اس سیلاب کو دارالحکومت کی طرف بڑھنے سے روکیں ؟”

"صدر محترم۔ ہماری پارٹی کے لوگ بھی انہی میں شامل ہیں جو دارالحکومت کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اب وہ سب ایک ہی پارٹی کے لوگ ہیں۔ ان میں کوئی تقسیم نہیں۔ کسی کے پاس کوئی پرچم نہیں جو ایک کو دوسرے سے جدا کرے۔ وہ سب ایک ہیں اور بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ ” وزیر داخلہ نے کپکپاتی آواز میں جواب دیا۔

"کوئی آئیڈیا ہے کہ وہ سب یہاں آ کر کیا کریں گے ؟ ” صدر محترم نے خوف زدہ آواز میں وزیر داخلہ سے پوچھا۔

"صدر محترم اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ وہ کوئی نعرہ بلند نہیں کر رہے۔ کوئی مطالبہ نہیں کر رہے۔ بس دارالحکومت کی طرف چل رہے ہیں ، مسلسل چل رہے ہیں ، اور چلتے ہی آ رہے ہیں۔ یہاں آ کر وہ کیا کریں گے اس کے بارے کچھ کہنا مشکل ہے۔”

صدر صاحب نے وزیر داخلہ سے کہا : "لو مجھے آخری کوشش کرنے دو۔ میں انٹر کام پر کمانڈر انچیف سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تا کہ وہ فوج کو حکم دے کر انہیں دارالحکومت کی طرف بڑھنے سے روکے۔”

یہ کہہ کر صدر محترم نے انٹر کام پر کمانڈر انچیف کو فون کیا۔ دوسری طرف کمانڈر انچیف نے ہیلو کہا تو صدر محترم نے کمانڈر انچیف سے کہا: ” میں صدر مملکت بول رہا ہوں۔ "

"جی بولیں۔۔۔۔” کمانڈر انچیف نے پرسکون لہجے میں صدر مملکت کو جواب دیا۔

” مجھے وزیر داخلہ نے بتا یا ہے کہ کروڑوں لوگ دارالحکومت کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ ملک بھر کے پولیس انسپکٹروں نے اتنی بڑی تعداد میں دارالحکومت کی طرف بڑھتے ہوئے لوگوں کو روکنے سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ فوج ان لوگوں کو دارالحکومت آنے سے روکے۔”

کمانڈر انچیف نے صدر محترم کی بات سنی تو کھنکھناتی ہوئی آواز میں جواب دیا: ” صدر محترم ، دارالحکومت ان کاہے اگر وہ دارالحکومت آ رہے ہیں تو ہم انہیں یہاں آنے سے کیسے روک سکتے ہیں ؟ میں معذرت چاہتا ہوں۔ فوج اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر سرحدو ں پر دشمن فوج ہمارے ملک کی طرف بڑھ رہی ہے تو ہم ابھی جا کر ان کو روکتے ہیں۔ لیکن اگر اپنے لوگ اس طرف آ رہے ہیں تو ہم انہیں یہاں آنے سے نہیں روک سکتے۔ یہ دارالحکومت ان کاہے۔ وہ جب چاہیں یہاں آ سکتے ہیں۔”

کمانڈر انچیف کا جواب سن کر صدر محترم نے اپنے دانت کٹکٹائے لیکن اس قدر آہستگی کے ساتھ کہ کمانڈر انچیف تک ان کی آواز نہ پہنچے۔

اس سے پہلے کہ صدر محترم کمانڈر انچیف کو خدا حافظ کہتے اس نے خود فون بند کر دیا۔ صدر محترم اور وزیر داخلہ نے ایک دوسرے کو نظروں ہی نظروں میں کمانڈر انچیف کی گستاخی کی خاموش اطلاع دی اور پھر اس گستاخی کو نظرانداز کرتے ہوئے دارالحکومت کی طرف بڑھتے لوگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگے۔

"وزیر داخلہ۔”

"جی صدر محترم۔”

"تمہارا کیا خیال ہے۔ مجھے نیوی چیف سے انٹر کام پر بات کرنی چاہیئے۔” انہوں نے اپنی بتیسی کٹکٹاتے ہوئے وزیر داخلہ سے پوچھا۔

"صدر محترم ، اگر کمانڈر انچیف فوج کے ذریعے انسانوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے تیار نہیں تو نیوی چیف کے پاس تو ایسی کوئی نفری نہیں ہوتی۔ ویسے بھی وہ سمندروں میں کاروائی کرتے ہیں۔ خشکی پر وہ کیا کر سکتے ہیں۔”

"تو پھر کچھ سوچو۔ دارالحکومت کی طرف بڑھتے ہوئے ان انسانوں کو کیسے روکنا ہے۔ اگر اتنے سارے لوگ یہاں پہنچ گئے تو نہ جانے کیا ہو جائے۔”

دارالحکومت میں وزیر داخلہ اور صدر محترم میں ڈائیلاگ چل رہا تھا اور ادھر دارالحکومت کی طرف بڑھنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ جس گاؤں یا شہر سے گزرتے اس کے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے۔

وہ چل رہے تھے ، اور مسلسل چل رہے تھے ، اور چلتے ہی چلے آ رہے تھے۔ کوئی انہیں روکنے والا نہیں تھا۔ وہ چلتے چلتے دارالحکومت پہنچے تو سورج مغرب میں غروب ہو رہا تھا۔ دارالحکومت میں انہیں داخل ہونے سے کوئی روکنے والا نہیں تھا۔

دارالحکومت میں داخلے کے بعد اچانک ان میں جوش و خروش پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ ان کی خاموشی ٹوٹ گئی۔ ان کے گھسٹتے قدموں میں سختی آنا شروع ہو گئی۔ وہ ایک ساتھ قدم اٹھانے اور زمین پر رکھنے لگے۔ کروڑوں انسانوں کے ایک ساتھ قدم زمین سے اٹھانے اور زمین پر رکھنے سے دلوں کو دہلا دینے والی ایک مارچ کی صدا پیدا ہونے لگی۔

وہ سب ایوان صدر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کے قدموں کی چاپ ایوان صدر میں سنائی دینے لگی تھی۔ جیسے جیسے وہ ایوان صدر کے قریب آر ہے تھے ان کے قدموں کی چاپ بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔ یہ چاپ اتنی بلند تھی کہ صدر محترم اور وزیر داخلہ کے کانوں کے پردے قدموں کی اس چاپ سے تھر تھرانے لگے تھے۔ صدر محترم اور وزیر داخلہ نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونسی ، پھر ائیر پلگ ٹھونسے ، لیکن کروڑوں انسانوں کے قدموں کی صدا بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ ان کے کانوں میں ٹھنسی روئی اور ائیر پلگ بھی اس آواز کو روکنے میں ناکام ہو گئے۔

اب صورت حال یوں تھی کہ وزیر داخلہ اور صدر محترم ایوان صدر میں بند تھے۔ کروڑوں لوگ ایوان صدر کے باہر جمع زور زور سے قدم اٹھا کر زمین پر رکھ رہے تھے۔ ان کے قدموں سے ایوان صدر کے ارد گرد کی ساری زمین لرز رہی تھی۔ پھر کروڑوں انسانوں نے مکھیوں کی طرح آہستہ آہستہ بھنبھنانا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ ان کی بھنبھناہٹ میں تیزی آتی گئی۔

ان کے قدموں کی چاپ سے زمین دہل رہی تھی۔ان کے شور سے ایوان صدر میں وزیر داخلہ اور صدر محترم خوف سے سمٹنا شروع ہو گئے۔ وہ سمٹتے چلے گئے ، سمٹتے چلے گئے ، یہاں تک کہ وہ دونوں سانپو ں میں تبدیل ہو گئے۔

سانپوں میں تبدیل ہو کر انہوں نے ایوان صدر سے رینگتے ہوئے فرار ہونا چاہا لیکن لوگوں کے قدموں تلے چلے گئے۔

لوگ جس طرح سارے ملک سے مارچ کرتے آئے تھے۔ سانپوں کے کچلے جانے کے بعد ویسے ہی واپس چلے گئے۔

اب ایوان صدر خالی ہے۔ اور لوگ اپنے معاملات خود چلاتے ہیں۔ بغیر کسی صدر اور وزیر داخلہ کے۔ ان کی زندگیاں ان کے بغیر زیادہ بہتر انداز میں چل رہی ہیں۔

٭٭٭

 

ہیں خواب میں ہنوز

جب احمد کی آنکھ کھلی اس نے محسوس کیا کمرے میں ایک خوشبو پھیلی تھی۔ اسے اپنا کمرہ کچھ اجنبی سا دکھائی دیا۔

اس نے ایک ایک چیز کی ترتیب یاد کرنے کی کوشش کی تو بظاہر اُسے کسی چیز میں کوئی تبدیلی دکھائی نہ دی۔ ہر چیز وہیں تھی جہاں اُسے ہونا چاہیئے تھا۔

میز پر پڑے پھول دان میں مصنوعی جاپانی پھول اصلی پھولوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ کارنس پر بیٹھی پیتل کی چڑیا، منہ میں خوشۂ گندم دبائے ، اڑنے کے لیے پر تول رہی تھی۔ شیلف میں کتابیں بھی اسی ترتیب سے رکھی تھیں۔ اسٹیریو ابھی تک خوبصورت خواب آور موسیقی کی دھنیں کمرے کی خوشگوار فضا میں بکھیر رہا تھا۔ لیکن اسے لگا یہ جگہ پہلے سے مختلف تھی۔

اُس نے تعجب اور حیرانی سوچا کہ یہ جگہ پہلے سے مختلف کیوں ہے لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آئی۔

"ہو سکتا ہے میں ہی وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔” ایک خیال اس کے ذہن میں سرسرایا۔ اس خیال نے اُس کے تجسس کو ہوا دی۔ اُس نے بستر سے اُٹھ کر ملحقہ غسل خانے میں دیوار پر آویزاں آئینے میں جھانکا تو اُسے آئینے میں کچھ دکھائی نہ دیا۔

"ارے یہ آئینے کو کیا ہوا ہے۔ آج یہ جھوٹ سچ کچھ نہیں بول رہا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں صورت کی قید سے آزاد ہو چکا ہوں۔ ” اس نے سوچا۔

"میں اس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر روزانہ اپنے دانت صاف کرتا تھا، شیو بناتا تھا، چہرے پر طرح طرح کے لوشن اسپرے کرتا تھا لیکن اب میں اس آئینے میں جود کو نہیں دیکھ سکتا۔ کہیں یہ آئینہ اندھا تو نہیں ہو گیا؟ اگر یہ اندھا ہو گیا ہے تو بھی اس میں دھندلا سا عکس تو بننا ہی چاہیئے تھا۔ لیکن یہاں تو سرے سے کوئی عکس نہیں بن رہا۔

اگر یہ آئینہ اندھا نہیں ہوا تو پھر میں۔۔۔ کیا میں۔۔۔ ہونے کی کسی دوسری صورت میں منقلب ہو چکا ہوں۔ اور وہ دوسری صورت کیا ہے ؟

کیا میں "شعور خالص” میں تبدیل ہو چکا ہوں۔ "شعور خالص” کے خیال نے اُس کے دل و دماغ کو ایک عجیب سی لذت سے بھر دیا۔”

"احمد تم لا محدود ہو۔”

اس نے آئینے سے توجہ ہٹاتے ہوئے خود سے مخاطب ہو کر کہا۔ اُس نے غسل خانے سے باہر آ کر کمرے کے باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی پر پڑے پردے کی ڈوری کھینچی اور کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔

سڑک پر گاڑیوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی قطاریں اُسی طرح رینگ رہی تھیں۔ یونیورسٹی کیمپس میں پھیلے ہوئے انسانی چہروں کے پھول اسی طرح شاداب اور تر و تازہ تھے۔ دور بحر الکاہل خاموش اور پر سکوں نیلے آسمان تک پھیلا تھا۔ اُس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور چپکے سے باہر نکل گیا۔

اُس ے محسوس ہوا وہ کوئی خلا نورد ہے اور خلائی جہاز سے باہر نکل کر خلا میں چہل قدمی کر رہا ہے۔

"احمد یہ کونسی صورت حال ہے ؟” اُس نے اپنی بے وزنی کی کیفیت کے بارے میں خود سے سوال کیا۔ اور پھر فٹ پاتھ پر چلتا شہر کی اہم سڑک ٹیلی گراف کی طرف چل پڑا۔

سڑک کنارے اس کی پرانی ڈاٹسن کھڑی تھی۔ اس نے ایک لمحہ رک کر ڈاٹسن کی طرف دیکھا اور پھر ٹیلی گراف کی طرف پیدل اپنا سفر جاری رکھا۔ اسے بے وزنی کیفیت میں پیدل چلنا بہت اچھا لگ رہا تھا۔

راستے میں اُسے شناسا چہرے دکھائی پڑے لیکن اُس نے کسی طرف توجہ نہ کی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے پسندیدہ کافی ہاؤس کے سامنے سے بھی خاموشی س گزر گیا۔ وہ عموماً پہروں وہاں بیٹھ کر کافی پیتا۔ یونیورسٹی کی لڑکیوں اور لڑکوں سے گپ شپ کرتا۔ لیکن آج اس نے نظر اُٹھا کر اپنے پسندیدہ کافی ہاؤس کی طرف نہ دیکھا۔

دراصل وہ نئی صورت حال کی لذت سے باہر نہیں آنا چاہتا تھا۔ اُسے بے وزنی کی اس کیفیت میں گھومنا پھرنا اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی باقی خواہشات اس کے لیے بے معنی ہو چکی تھیں۔ حالانکہ اس حالت میں وہ اپنی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتا تھا۔ لیکن اسے اپنی خواہشات اس قدر بیکار محسوس ہوئیں کہ وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔

ایسے میں اُسے اپنی کئی خواہشیں یاد آئیں جن کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن اب وہ ان سے آزاد ہو چکا تھا۔

انہی سوچوں میں گم وہ اپنی پسندیدہ سڑک ٹیلی گراف ایونیو پر پہنچا تو اسے بہت بھلا محسوس ہوا۔ خوبصورت انسانی چہروں کا سیلاب اب بھی حسب معمول ٹیلی گراف پر بہہ رہا تھا۔ وہ سب لوگ بھی وہیں موجود تھے جو ہر روز ہوا کرتے تھے۔ خوانچہ فروش لڑکیاں اب بھی سڑک کے دونوں طرف اپنے اپنے اڈوں پر ساماں بیچ رہی تھیں۔

شہر کی مشہور شاعرہ جولیا  ونو گریڈ اُسی طرح گلے میں تھیلا لٹکائے ، ایک ہاتھ میں اپنی کتاب سٹریٹ سکنز کی کاپیاں پکڑے ، دوسرے ہاتھ سے لوگوں پر رنگ برنگے بلبلے اُڑا رہی تھی۔ بچے اُس کے اڑائے ہوئے بلبلے پکڑنے کے لیے ماؤں کے ہاتھ چھڑا کر ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔

وہ انسانوں کے اس ہجوم میں گھومتے ہوئے بور ہو کر آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے دیکھا اُس کے دوستوں اور عزیز و اقارب کا ایک ہجوم سوگوار بیٹھا تھا۔ اس کی بیوی اس کے جسم سے لپٹی رو رہی تھی۔ اُس کا جی چاہا وہ آگے بڑھ کر اپنی بیوی کو تسلی دے۔ لیکن پھر وہ اپنے جسم سے اٹھتے بُو کے بھبھوکوں سے گھبرا کر دوبارہ گھر سے باہر چلا گیا۔

٭٭٭

 

زیرو آور

علی نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں ، پوری کائنات جامدو ساکت کھڑی تھی۔ آسمان پر سورج ایک جگہ ٹھہرا تھا۔ ہوا میں اڑنے والے پرندے اپنی اپنی جگہ معلق تھے۔ اس کا جہاز بھی اڑتے ہوئے اچانک فضا میں معلق ہو گیا تھا۔ جہاز کے انجن بند ہو چکے تھے اور کنٹرول سسٹم کے تمام بٹن حرکت سے بے نیاز اپنے اپنے مقام پر فکس تھے۔

اس نے چند لمحوں تک اس انوکھی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس کا انسانوں نے اپنی تاریخ میں پہلے کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔ چنانچہ اسے سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔

علی نے دور بین کی مد د سے جہاز سے زمین پر دیکھا تو اسے اپنی بیگم گاڑی میں بیٹھی دکھائی دی۔ وہ بھی اس کی طرح پریشان نظروں سے اپنے ارد گرد پھیلی جامد و ساکت کائنات کو دیکھ رہی تھی۔

"شازو۔۔۔۔ شازو۔۔۔۔”

علی نے جہاز کا کاک پٹ اُوپر اُٹھا کر اپنی بیگم کو آواز دی۔

"علی۔۔۔۔” وہ جواب میں چلائی۔

علی نے بغیر کچھ سوچے سمجھے جہاز سے چھلانگ لگا دی۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ ٹھہری ہوئی کائنات میں زمین پر گر کر زخمی نہیں ہو گا۔

اس نے بالکل ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔ کیونکہ جہاز سے چھلانگ لگانے کے بعد وہ اس طرح تیزی سے زمین کی طرف نہ لڑھکا جیسے اسے نارمل حالات میں گرنا چاہیئے تھا۔ بلکہ وہ تقریباً نا محسوس رفتار سے ، روئی کے گالے کی طرح، زمین کی طرف سرکتا رہا۔

اُس نے ٹھہری ہوئی فضا میں تیرتے ہوئے سوچا۔۔۔۔” یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟” لیکن وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ڈھونڈ سکا۔

"Entropy۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

اُسے یونیورسٹی کے زمانے میں فزکس کے استاد ڈاکٹر جمیل "انٹراپی پر دیا ہوا لیکچر یاد آیا۔ "شاید ماہرین طبعیات کا "انٹراپی” کا مفروضہ عملی صورت اختیار کر چکا ہے۔” اس نے سوچا۔

"لیکن انٹراپی میں تو کائنات کے ‘آرڈر’ کو مکمل طور پر ‘ڈس آرڈر ‘ میں تبدیل ہونا تھا۔ جب کہ اس وقت کائنات مکمل جمود اور سکوت کی حالت میں ہے۔ اور ہر چیز کسی "نامعلوم” لمحے میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر گئی ہے۔ "

اس کے ذہن میں استدلال اور ردّ استدلال کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔

نیچے زمین پر اس کی بیوی گاڑی میں بیٹھی اُس کو ہوا میں آہستہ آہستہ تیرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ علی کی بیگم نفسیاتی علوم کی ماہر تھی۔ وہ مقامی یونیورسٹی مین شعبہ نفسیات کی انچارج تھی۔ اس نے امریکہ کی ایک نامور یونیورسٹی سے نفسیات سے ڈاکٹریٹ کر رکھی تھی۔ وہ خواب و بیداری کی حالت میں ذہنی کیفیات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو خوب اچھی طرح سمجھتی تھی۔ لیکن کائنات کا یہ "جمود” کوئی ذہنی صورت حال نہیں ، بلکہ ایک عملی اور ٹھوس حقیقت تھی۔ اور اس حقیقت کا ڈاکٹر شازیہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ سامنا کر رہی تھی۔

"کوما۔۔۔۔”

اُس نے ہوا میں روئی کے گالے کی طرح آہستہ آہستہ تیرتے علی پر نظریں جمائے ہوئے سوچا۔” لیکن ‘کوما ‘ تو ایک فرد کے ذہن کے حسّیاتی تعطل کی صورت حال ہے۔ اور یہاں معاملہ ایک فرد نہیں بلکہ پوری وسیع و عریض کائنات کاہے۔’

” کیا پوری کائنات ‘کوما’ کی حالت میں جا سکتی ہے ؟” اس نے سوچا۔

"جا کیا سکتی ہے۔ ‘کوما’ کی حالت میں ہے۔” کسی اجنبی آواز نے "جمود” کی موجودہ صورت حال کے بارے میں اس تشکک پر اُسے سرزنش کی۔

ڈاکٹر شازیہ خیالات کے اسی تانے بانے میں الجھی تھی اور اس کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل رہی تھیں۔

اس ٹھہری ہوئی کائنات میں صرف علی اور شازیہ دو ذی روح وجود حرکت میں تھے۔ باقی ہر چیز جامدو ساکت تھی۔

اس کا جہاز ابھی تک فضا میں معلق تھا۔ سڑک پر تمام گاڑیاں اپنی اپنی جگہ رُکی ہوئی تھیں۔ گاڑیوں میں بیٹھے افراد جس حالت میں تھے ، اُسی حالت میں ساکت تھے۔

کسی کا ایک ہاتھ اسٹیرنگ پر اور دوسرا سائڈ ونڈو پر رکھا تھا۔ کوئی منہ میں سکرٹ دبائے اسے آگ دکھانے کو کوشش کر رہا تھا کہ اس کا ہاتھ وہیں ٹھہر گیا تھا۔

اسکول سے گھروں کو واپس لوٹتے بچے ، کتابوں کے بستے گلوں میں لٹکائے ، اپنی اپنی جگہوں پر پیوست ہو چکے تھے۔ ان سب کی آنکھیں حیرت سے کھلی مسلسل ایک ہی سمت میں دیکھے جا رہی تھیں۔ کسی کے ہاتھ میں آئس کریم پکڑی تھی جو اس کے منہ کے پاس ٹھہری تھی۔ اس کے ہونٹ کھلے لیکن ایک ہی پوزیشن میں جامد تھے۔

کسی کا ایک پاؤں زمین پر تھا اور دوسرا اوپر ہوا میں معلق۔ کسی کا ایک پاؤں آگے تھا اور دوسرا پیچھے۔ کسی کا ایک بازو آگے تھا اور دوسرا پیچھے۔

اس دوران علی ہوا میں روئی کے گالے کی طرح آہستہ آہستہ تیرتے بیگم شازیہ کے پاس پہنچ چکا تھا۔ بیگم شازیہ علی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر رو پڑی۔

"علی یہ سب کیا ہے۔ پوری کائنات کیوں ٹھہر گئی ہے۔ اور صرف ہم دو۔۔۔۔ہم دو۔۔۔۔کیوں حرکت میں ہیں ؟”

علی نے ڈاکٹر شازیہ کے گال پیار سے سے تھپتھپاتے ہوئے اسے تسلی دی۔ اور اپنے بیٹے حامد کے بارے میں پوچھا۔

"میں اسے سڑک پر ٹرائی سائیکل چلاتے ہوئے چھوڑ آئی تھی۔ ” وہ سسکیاں بھرتے ہوئے بولی۔ علی نے آگے بڑھ کر گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی۔ اس نے گاڑی کو دھکا لگا کر اس کی جگہ سے حرکت دینا چاہی لیکن اسے لگا اس کے وجود میں دھکا دینے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ وہ بیگم شازیہ کو وہیں گاڑی میں بیٹھے رہنے کی تلقین کر کے گھر کی طرف بھاگا۔ لیکن وہ فقط روئی کے گالوں کی طرح آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف حرکت کر سکا۔ اس کے گرد ہر چیز اپنی اپنی جگہ رکی ہوئی تھی۔

راستہ چلتے لوگ، دوکانوں میں شاپنگ کرتے افراد، دفتروں سے باہر آتے کلرک، ہر کوئی۔۔۔ ہر کوئی۔۔ ایک ہی جگہ جما کھڑا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ حرکت کرتا گھر کے پاس پہنچا تو اس کا بیٹا حامد گھر کے باہر ٹرائی سائیکل پر ایک جگہ کھڑا مسلسل ایک ہی طرف دیکھ رہا تھا۔

” حامد۔۔۔۔حامد۔۔۔۔ کیا تم مجھے سن سکتے ہو۔۔۔۔؟”

وہ پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے بولا۔ لیکن حامد ٹھہری ہوئی نگاہوں کے ساتھ مسلسل ایک طرف دیکھتا رہا۔۔۔بے حس و حرکت۔۔۔ساکت و جامد۔۔۔۔اور خاموش۔

اپنے ننھے منے بیٹے کی اس حالت پر وہ سسک اُٹھا۔

پھر اپنی بیگم شازیہ کا خیال آنے پر اس کے طرف گیا تا کہ جمود کی اس صورت حال کا کوئی حل ڈھونڈا جا سکے۔

"شازیہ۔۔۔شازیہ۔۔۔۔ ہمارا حامد بھی ‘زیرو آور’ میں قید ہو چکا ہے۔”

‘زیرو آور’ کے لفظ نے جیسے اُس کے ذہن میں بجلی کی لہر دوڑا دی۔ "زیرو آور”۔۔۔۔”زیرو آور”۔۔۔

"زیرو آور”۔

"زیرو آور” کا خیال آتے ہی وہ اپنی بیگم شازیہ اور بیٹے حامد کو بھول کر اسپیس سنٹر کے کنٹرول روم کی طرف بھاگا۔

کنٹرول روم میں پہنچ کر اس نے دیکھا بڑے کمپیوٹر کی سوئیاں "زیرو آور” پر رکی تھیں۔ اور "زیرو آور ” کا مطلب تھا۔۔۔۔ وقت کی قید سے مکمل آزادی۔

اس کی نظریں کمپیوٹر کی "زیرو آور” پر رکی سوئیوں پر اٹک گئیں۔ اسے اپنی نبضیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

٭٭٭

 

کھڑکی سے باہر سورج

پھر یوں ہوا کہ میرے سارے وجود پر کیکٹس اُگ آئے۔ میں نے اپنے اوپر کمبل اوڑھ لیا اور آنکھیں موند کر لیٹ گیا۔

وہ کمبل سیاہی کی انت رات میں بدل گیا جس میں سے دو بڑی بڑی مونچھوں نے جنم لیا جن کے عقب سے ایک چہرہ مجھے شعلہ بار نظروں سے گھور رہا تھا۔

میں ان شعلہ بار نظروں سے خوف زدہ ہو گیا۔ کہیں یہ خفیہ والا تو نہیں۔ میرے ذہن میں خوف کے سائے سرسرانے لگے۔

اس نے مجھے خوف زدہ دیکھا تو مسکراتے ہوے بولا:

"تمہارا المیہ یہ ہے۔۔۔”

اس نے اچانک ایک کیکڑا کہیں سے نکال کر مجھ پر پھینکا اور پھر قہقہہ لگاتے ہوے بولا:

"معاف کرنا میں نے یہ جملہ اس لیے کہا ہے کہ آج کل تمام تنقیدی مضامین کا آغاز اسی جملے سے ہوتا ہے۔” اس کی بات سن کر میں بھی ہنس دیا۔

"ہاں میرا المیہ۔۔۔”

ابھی میں نے اتنا کہا تھا کہ اس نے میرا جملہ کاٹتے ہوے مجھ سے پوچھا: ” کیا تم نے کبھی عشق کیا ہے ؟” پھر اس نے لعل حسین پر مجھے پورا لیکچر پلا دیا۔

میرے اندر چھناکے سے لاکھوں گلاس ٹوٹ گئے۔

مجھے اپنا ایک طالب علم یاد آیا جس نے کلاس روم میں مجھ سے پوچھا تھا: "سر آزادی کا مفہوم کیا ہے ؟”

میں نے بے دردی سے اسے ڈانٹتے ہوے کہا: "بیٹھ جاؤ ، اور آئندہ کلاس میں ایسا بیکار سوال مت کرنا۔” پھر میں واشنگٹن چلا آیا۔

میرے چھوٹے بیٹے نے مجھے خط لکھا:

"ابو ، اگر آپ کو وہاں وہ پنجرہ دکھائی دے ، جس میں وہ طوطا قید ہے ، جس میں اس دیو کی جان ہے ، جس نے شہزادی کو قید کر رکھا ہے ، تو اسے ضرور مار دیں تا کہ بے چاری شہزادی اس دیو کی قید سے رہا ہو سکے۔”

مجھے لگا یہ میرے بیٹے کی نہیں بلکہ اس کی ماں کی تحریر ہے۔

"تمہارا  بیٹا تم سے زیادہ عقلمند دکھائی دیتا ہے۔” مونچھوں والے نے خط پر نظریں دوڑاتے ہوے کہا۔

"تم فقط شہری بابو ہو۔ ننانوے لفظوں کے ہیر پھیر سے ساری گفتگو کرتے ہو۔ اگر میں تم سے ننانوے لفظ چھین لوں تو تم گونگے ہو جاؤ گے۔”

میں نے مونچھوں والے کی نظریں بچا کر اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی لیکن اس نے عین وقت پر مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔

” تم کیا لفظوں سے۔۔۔ ؟ پھر اس نے ایک اور کیکڑا مجھ پر پھینکا۔

میں نے اپنی تمام جسمانی قوت بروئے کار لاتے ہوے اس کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن میں اپنا جواب خود بھی نہ سن سکا۔ ننانوے لفظوں کی دیوار میرے اور اس کے بیچ حائل تھی۔ اس نے مجھے متذبذب دیکھ کر کہا:

"لفظ لمحہ موجود کو آواز بخشتا ہے۔ "

"لمحہ موجود کی آواز۔۔۔؟ "

میرے اندر حیرت و استعجاب کے لاکھوں قمقمے جل اٹھے۔

"ہاں لمحہ موجود کی آواز۔۔۔” بڑی مونچھوں والے نے ہر لفظ پر زور دے کر کہا۔ "لیکن تم نے اپنی دنیا کو صرف ننانوے لفظوں تک محدود کر رکھا ہے۔ ہر چیز کو ان ننانوے لفظوں میں دیکھتے ، پرکھتے اور تولتے ہو۔ یہ ننانوے لفظ تمہارے اور لمحہ موجود کے درمیان ایک ایستادہ دیوار ہیں۔ جو تم تک لمحہ موجود کا پیغام نہیں پہنچنے دیتے۔ کیونکہ اس سے خود ان کی موت واقع ہو نے کا امکان ہے۔ ” مونچھوں والے نے اپنی بات جاری رکھی۔

اس کی بات سن کر میں نے اپنے اندر اس طرح جھانکا جیسے مجھے اندھیرے کمرے میں چھپے کسی چور کی تلاش ہو۔ پھر میں خود کو سنبھالتے ہوے بولا:

” لیکن بھائی میں تو ایک پروفیسر آدمی ہوں۔ لفظوں سے میرا دانہ پانی چلتا ہے۔ میں لفظوں کے ہیر پھیر سے کیسے نکل سکتا ہوں ؟”

میرے جواب پر اس نے بغیر کچھ کہے ایک زبردست قہقہہ لگایا۔ مجھ پر شرم سے گھڑوں پانی گر گیا۔ مجھے لگا میری چوری پکڑی گئی ہے۔

پھر اس نے رات کی تاریکی میں اونچی آواز میں بلہے شاہ کو گانا شروع کر دیا:

"راتیں جاگیں شیخ سداویں

تے راتیں جاگن کُتے

تیں تھی اُتے۔

پھر نہ جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ اس نے بلہے شاہ کو ادھورا چھوڑ کر مجھ پر ایک اور کیکڑا پھینکا:

"یہ جو تم سیاست کی بات کرتے ہو۔ تمہاری سیاست بھی ننانوے لفظوں کی سیاست ہے۔ تم زندہ رہنے کی سیاست نہیں کرتے۔”

"لفظوں کی سیاست۔۔۔”

لفظ میرے ہونٹوں پر کپکپائے۔ میں نے بے بس ہوتے ہوے ترحم آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جیسے میری بے بسی تاڑ گیا تھا۔

"لیکن اصل چکر تو وہ چلاتا ہے۔۔۔”

” وہ کون؟”

وہ جس کا نام تمہارے ہونٹوں تک آتے آتے کبوتر بن کر اُڑ جاتا ہے اور پولیس والے تم پر بندوقیں تان لیتے ہیں۔

وہ اپنی مونچھوں کو بل دینا شروع ہو گیا۔

میں نے دیکھا بہت سے پولیس والے بندوقیں تانے پھانسی کا پھندہ لہراتے میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ میری پیشانی پسینے کے قطروں سے بھیگ گئی۔

بڑی بڑی مونچھوں والے نے میری پیشانی پر خوف سے تیرتے پسینے کے قطرے دیکھ کر قہقہے لگانے شروع کر دیے۔

"میں نے کہا تھا ناں کتابیں پڑھنے والے ٹھوس سچائی کا سامنا نہیں کر سکتے۔ "

"کیا تم سچائی کے نام پر پھانسی کا پھندا میرے گلے میں فٹ کروانا چاہتے ہو؟” میں غصے سے چیخنے لگا۔ مجھے ناراض دیکھ کر اس نے اپنی انگور کی طرح پکی ہوئی ناک کھجانا شروع کر دی۔

میں نے اس کو ناک کھجاتے دیکھ کر اس پر چڑھائی کر دی۔ ” جانتے ہو تمہارا مسئلہ کیا ہے۔ تم ہر چیز پر بغیر اس کا حصہ بنے تنقید کرنا چاہتے ہو۔ لیکن پھر بھی تم مجھے معقول آدمی دکھائی دیتے ہو۔ بولو چائے پیو گے ؟ اس نے میر ی چائے کی پیشکش قبول کر لی۔

میں نے چائے کی کیتلی چولہے پر رکھی تو وہ کھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر سیاہی مائل نیلگوں آسماں کی طرف دیکھنے لگا۔ شاید وہ ستاروں کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس دوران چائے دم ہو گئی تو میں نے اسے دو پیالیوں میں انڈیل کر سامنے بچھی میز پر رکھ دیا۔ وہ کچھ دیر تک گرم گرم چائے سے اٹھتی بھاپ کے مرغولے دیکھتا رہا اور پھر چائے کی پیالی ہونٹوں تک لے جاتے ہوے بولا:

” کیا تم دیوار پر آویزاں وہ نقشہ دیکھ رہے ہو۔”

اس نے دیوار پر آویزاں نقشے کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوے کہا۔

"کیا تمہیں اس میں نئی ابھرتی ہوئی لکیریں دکھائی دے رہی ہیں ؟”

مونچھوں والے نے ا فسردہ اور دکھی لہجے میں مجھ سے کہا۔

"لیکن ان تبدیل ہوتی ہوئی لکیروں کے باوجود تمہیں یہیں رہنا ہے۔”

میں نے دیکھا آسمان پر ایک تارا ٹوٹا اور دور تک روشنی کی لکیر کھینچتا فضاؤں میں معدوم ہو گیا۔ میں پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔

” ہاں ، ہاں ، مجھے یہیں رہنا ہے۔”

میں نے دیکھا تب تک بڑی بڑی مونچھوں والا چائے ختم کر کے جا چکا تھا۔ میں نے دوبارہ کھڑکی سے باہر جھانکا۔ میں نے دیکھا میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نے سورج کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ اس کے عقب میں بہت سے کبوتر فضا میں پرواز کر رہے تھے۔

٭٭٭

 

اور خدا خوشی سے رو پڑا

جہاں تک نظریں کام کرتی تھیں ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ فطرت مکمل طور پر بپھری ہوئی تھی۔

پانی ہر طرف سے اُبلا چلا آ رہا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے پہاڑ اُبل پڑے ہیں اور بلندیوں سے اچھلتے پانی کے ریلے ہنستی بستی بستیوں ، کھیتوں ، کھلیانوں ، درختوں ، مویشیوں ، عورتوں ، مردوں اور بچوں کو بہا لے جانا چاہتے ہیں۔

آناً فاناً کروڑوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کے سر پر چھتیں نہیں ، سونے کے لیے چارپائیاں نہیں ، کھانے کے لیے روٹی نہیں ، پہننے کے لیے کپڑے نہیں ، اور اتنے پانی کے درمیان پینے کے لیے پانی نہیں۔

وہ کروڑوں انسانوں کی تباہی اور بربادی پر پریشان ہے۔ وہ ان کی مد د کرنا چاہتا ہے۔ وہ سب اس کی مخلوق ہیں۔ اس کے بندے اور بندیاں ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مر رہے ہیں ، مٹ رہے ہیں ، تباہ و برباد ہو رہے ہیں لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا۔

 وہ فرشتوں سے ناراض ہے۔ چیخ چیخ کر انہیں احکامات دے رہا ہے۔ جاؤ جاؤ اُس کی مد د کرو، اِس کی مد د کرو، اُسے بچاؤ، اِسے بچاؤ۔ فرشتے بھی پریشان ہیں۔ اتنی بڑی تباہی اور بربادی سے دوچار لوگوں کی مد د کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ لیکن خدا کی چیخ و پکار پر وہ بھی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ جس کی جتنی مد د ہو سکتی ہیں کر رہے ہیں۔

خدا ان سب کو دیکھ رہا ہے جو اس مصیبت سے دو چار ہیں۔ وہ انہیں بھی دیکھ رہا ہے جو اس وقت ان لوگوں پر مسلط ہیں۔ ان کا مسخرہ پن دیکھ کر اسے افسوس ہو رہا ہے۔

وہ فرشتوں سے پوچھتا ہے۔ یہ سب بدصورت لوگ کون ہیں۔ کوِی لندن جا رہا ہے تا کہ ان کروڑوں انسانوں کی تباہی و بربادی کے باوجود اپنے پینٹ ہاوس کی ڈیل کی تکمیل کر سکے۔ کوئی اپنے سوٹ، نکٹائیاں ، اور جوتے نیلام کرنا چاہتا ہے ، تاکہ ان کروڑوں لوگوں کی مصیبت کا مذاق اڑا سکے ، کوئی تصویریں کھنچوانے کے لیے میڈیا کی ٹیمیں ساتھ لیکر ہیلی کاپٹروں اور گاڑیوں میں مارا مارا پھر رہا ہے تا کہ لوگ دیکھ لیں کہ وہ کتنا ذمہ دار حکمران ہے۔ کوئی لندن میں بیٹھ کر تقریریں کر رہا ہے۔ کوئی ان مصیبت کے مارے لوگوں کی مد د کے نام پر دنیا بھر میں پھیلے ہم وطنوں سے پیسے اکٹھے کر رہا ہے۔

فرشتے جواب دیتے ہیں کہ یہ پاکستان کے موجودہ اور متوقع حکمران ہیں۔ خدا فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ان سب مسخروں کے گلوں میں رسیاں ڈال کر ٹائٹ کر دو اور ان کے بارے میں میرے احکامات کا انتظار کرو۔ مجھے اپنے ان کروڑوں بے بس انسانوں کے مصائب سے فارغ ہو لینے دو جو پانی کے ریلوں میں بہہ رہے ہیں اور سیلاب کے تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ پھر میں تمہیں بتاؤں گا کہ ان مسخروں کا کیا کرنا ہے۔

فرشتوں کے ساتھ اس گفتگو کے دوران اچانک خدا کو ایک طرف سے رونے دھونے اور گڑگڑانے کی آوازیں آتی ہیں۔ کچھ لوگ ہزاروں انسانوں کے ساتھ رو رو کر، گڑگڑا ، گڑگڑا کر، دعائیں مانگ رہے ہیں۔

"اللہ اس امتحان کو امتحان ہی رہنے دینا اسے عذاب نہ بنانا۔ اللہ کروڑوں انسان بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان کو دوبارہ گھر عطا کر۔ اللہ اللہ ہمارے گناہوں کو نہ دیکھ [خدا زیر لب مسکراتا ہے ] اپنی رحمتوں کو دیکھ۔ "

وہ رو رہے ہیں۔ گڑگڑا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہزاروں لوگ ہاتھ اٹھاۓ رو رہے ہیں۔ گڑگڑا رہے ہیں۔

خدا فرشتوں سے پوچھتا ہے یہ کون ہیں ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں۔ یہ علماۓ دین اور ان کے پیروکار ہیں۔ یہ رو رو کر تمہاری توجہ پانی کے ریلوں میں پھنسے تمہارے کروڑوں تباہ حال انسانوں کی طرف دلانا چاہتے ہیں۔

اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دیتا ہے۔ ان مسخروں کے گلوں میں بھی رسیاں ڈال کر ٹائٹ کر دو۔ اور ان کے بارے میں میرے احکامات کا انتظار کرو۔ میں نے ان نا خلفوں کو جس کام کے لیے پیدا کیا تھا یہ مجھ سے انہی کاموں کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔

 یہ جہلا نہیں جانتے کہ میں پانی کے ریلوں میں پھنسے اپنے کروڑوں انسانوں کی حالت سے نہ صرف با خبر ہوں بلکہ ان کی مد د کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ مسخرے کروڑوں انسانوں کو مسلسل بے عملی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ بجاۓ مصائب میں پھنسے انسانوں کی مد د کرنے کے نہ صرف اپنا وقت ضائع کر رہے بلکہ ان کروڑوں انسانوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں جو رونے دھونے اور گڑگڑانے کی بجاۓ عملاً ان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کی مد د کر سکتے ہیں جنہیں اس وقت ان کی مد د کی ضرورت ہے۔

ان رونے دھونے اور گڑگڑانے والے بے عمل مسخروں سے دور خدا کو چند نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دکھائی دیتے ہیں جن کی پیشانیاں زندگی کے عزم سے چمک رہی ہیں وہ اپنی بساط کے مطابق پانی کے ریلوں میں پھنسے بے حال لوگوں کی جس طرح بن پڑ رہا ہے مد د کر رہے ہیں۔ کوئی ان لٹے پٹے لوگوں کو سنبھال رہا ہے۔ کوئی انہیں حرف تسلی دے رہا ہے۔ کوئی ان تک کھانا پہنچا رہا ہے۔ کوئی ان تک پانی پہنچا رہا ہے۔ کوئی انہیں بیماریوں سے بچنے کے لیے دوائیاں دے رہا ہے۔ کوئی ان کو جینے کی امید دلا رہا ہے۔ کوئی ان کے حوصلوں کو ٹوٹنے سے بچا رہا ہے۔

خدا ان عزم سے بھرپور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو مصروف عمل دیکھتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔

فرشتے خدا کی آنکھوں میں آنسو دیکھتے ہیں تو پوچھتے ہیں۔ اے الٰہ العالمین تمہاری آنکھوں میں آنسو؟

خدا فرشتوں سے کہتا ہے۔ یہ خوشی کے آنسو ہیں۔ یہ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو پانی میں پھنسے میرے کروڑوں انسانوں کی مد د کر رہے یہ میری امید ہیں۔ یہی سچے اور کھرے انسان ہیں۔ جاؤ اور جا کران کی مد د کرو۔

خدا کا حکم ملتے ہی لاکھوں کروڑوں فرشتے آسمانوں سے اُڑتے ہیں اور زمین پر آ کر ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے کام میں شامل ہو جاتے ہیں جو پانی کے ریلوں میں پھنسے ان بے بس انسانوں کی مد د کر رہے۔

٭٭٭

 

دستخط

علی اکبر نے بی اے کیا تو اس کے والد نے اس کے مستقبل کے عزائم کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا کہ اس سے پہلے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے وہ دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔وہ ملکوں ملکوں گھومنا پھرنا چاہتا ہے اور اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ اسے زندگی میں کیا کرنا ہے۔

ملک اکبر نے بیٹے کی بات سنی تو ہنس کر کہنے لگے ” ان کی بہت خواہش تھی کہ وہ پاکستان سے باہر سفر کرتے ، ہر ملک کی سیر کرتے ، لیکن زندگی نے انہیں فرصت دی تو صرف اتنی کہ ایک بار وہ سعودی عرب حج کے لیے گئے اس کے علاوہ انہیں کہیں جانے کا موقع نہیں ملا۔ انہیں خوشی ہو گی اگر ان کا بیٹا ملکوں ملکوں جائے۔ ہر ملک کے لوگوں سے ملے۔ ہر کلچر کا مشاہدہ کرے اور پھر پاکستان میں سیٹل ہو۔”

علی اکبر نے باپ کی بات سنی تو اسے حوصلہ ملا۔ چنانچہ اس نے اگلے ہفتے چند ہزار روپے جیب میں ڈالے اور بذریعہ کابل یورپ کی طرف روانہ ہو گیا۔

لاہور ، پشاور، کابل، زاہدان ، تہران اور انقرہ استنبول ہوتے ہوے اورینٹیل ایکسپرس پر و ہ پیرس پہنچا تو اسے لگا کہ وہ دنیا کے کلچرل سنٹر میں پہنچ گیا ہے۔

چند دن پیرس میں گزارنے کے بعد وہ لندن چلا آیا۔ لندن میں اس کے جاننے والے کئی پاکستان رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے اسے کشاد ہ دل اور کھلے بازوں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ سب کی خواہش تھی کہ علی اکبر لندن میں رک جائے اور باقی زندگی وہیں گزارے۔ لیکن چند دن لندن کے گلی کوچوں میں آوارگی کرنے کے بعد اس نے امریکہ کا ٹکٹ خریدا اور جہاز پر بیٹھ کر نیویارک پہنچ گیا۔

نیویارک اسے پیرس اور لندن سے مختلف لگا۔ بطور شہر نیویارک کی شخصیت اسے اس اوور کوٹ اور ہیٹ میں ملبوس شخص جیسی لگی جس نے اپنا سب کچھ اپنے اوور کوٹ کے نیچے چھپا رکھا ہو۔ اس کی پھٹی پرانی پینٹ، مختلف رنگوں کی جرابیں ، میلی کچیلی شرٹ سب کچھ اس اوور کوٹ کے نیچے چھپا تھا۔

لیکن اس سب کے باوجود نیویارک میں ایک ایسا حسن تھا جو لندن اور پیرس میں نہیں تھا۔ یہ حسن اس سوئی ہوئی حسینہ سے مشابہ تھا جو سوتے میں بھی اپنے حسن کے بارے میں باخبر رہتی ہے۔ اور اپنے طرف بڑھنے والے کسی بھی آشنا ہاتھ کو پہلے جھٹکتی ہے پھر اسے تھام لیتی ہے۔

چند دن نیویارک میں گزارنے کے بعد علی اکبر نے ایک عدد گاڑی خریدی اور یو ایس کے ٹرپ پر نکل کھڑا ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس ملک کو اندر باہر سے اچھی طرح دیکھے اور جانے۔

امریکہ میں وہ شہروں شہروں گھومتا پھرتا سین فرانسسکو پہنچا تو اسے محسوس ہوا یہی وہ شہر تھا جس کی اسے تلاش تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سین فرانسسکو میں ہمیشہ کے لیے قیام کرے گا۔ یہیں اپنی باقی تعلیم پوری کرے گا۔ گھر بنائے گا، شادی کرے گا اور بچے پیدا کرے گا۔

اس فیصلے کے بعد اس نے سین فرانسسکو میں پہلے تعلیمی مواقع کا جائزہ لیا۔پھر ایک اپارٹمنٹ رینٹ کیا اور وہیں رہائش اختیار کر لی۔

رہائش کا فیصلہ اور اہتمام کرنے کے بعد اس نے اسکول میں ایم بی اے میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ایک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ جب تک اس نے ایم بی اے کی ڈگری لی۔ اس کی کمپنی پہلے ہی لاکھوں ڈالرز ماہانہ کا بزنس کر رہی تھی۔ کاروبار کی وجہ سے اسے اکثر چین، جاپان، پاکستان اور کئی ایک دیگر ممالک کا سفر کرنا پڑتا۔

وہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھا۔ ایک طرف اس کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی اور دوسری طرف امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار سیٹ ہو چکا تھا۔

ان کامیابیوں کے بعد سین فرانسسکو ہی میں اسے ایک خوبصورت ، نیک دل ، نیک سیرت پاکستانی لڑکی مل گئی جس کے ساتھ اس نے شادی کر لی۔

شادی ہوئی تو بچے بھی پیدا ہونے تھے۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے ان کے ہاں پانچ بچے پیدا ہوے۔ بچوں کی پیدائش کے بعد اس نے اور اس کی بیوی نے اس طرح بچوں کی تربیت کی کہ وہ پاکستانی ماحول میں پاکستانیوں کی طرح اور امریکی ماحول میں امریکیوں کی طرح فٹ ہو جاتے۔ انہیں نہ پاکستانیوں میں اور نہ امریکیوں میں اجنبیت کا احساس ہوتا۔

علی اکبر اپنی ان کامیابیوں پر بہت خوش تھا۔ جب وہ امریکہ آیا تھا اس نے ابھی جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا تھا۔

لیکن امریکہ میں پڑھائی لکھائی، کاروبار، شادی، بچوں اور بچوں کی تربیت میں زندگی اتنی تیزی سے گزری کہ اسے اپنے باپ سے بی اے پاس کرنے کے بعد کی گئی گفتگو گزشتہ کل کی بات محسوس ہوتی۔ اس کی جوانی ادھیڑ عمر ، اور ادھیڑ عمر بڑھاپے میں اتنی تیزی کے ساتھ ڈھلی کہ اسے عمر گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔

اس دوران پاکستان میں اس کے ماں باپ فوت ہوے ، پھر بہن بھائی اور ایک ایک کر کے کئی ایک رشتے دار فوت ہوے۔

شہر میں اس کے سارے خاندان کی قبریں ایک جگہ تھیں۔ اس کا پردادا، پردادی، دادا، دادی ، والدین، بہن بھائی اور دوسرے عزیزو اقارب کی قبریں ایک جگہ تھیں۔

اب وہ زندگی کے طویل سفر کے بعد خود عمر کے اس حصے میں آ پہنچا تھا جہاں انسان زندگی کے آخری لمحوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ خاص طور پر جب بہن بھائی فوت ہو جائیں تو پھر انسان اپنی باری کا انتظار کرنے لگتا ہے۔

بچوں نے جوان ہونے کے بعد علی اکبر کا کاروبار سنبھال لیا تھا اور اب وہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا۔ صبح اٹھ کر اخبار پڑھتا، ناشتہ کرتا، ٹی وی دیکھتا اور پھر طویل سیر کے لیے باہر نکل جاتا۔ کبھی کبھار اس کی بیوی اس کے ساتھ ہو لیتی۔اگر کسی وجہ سے اس کی بیوی ساتھ جانے سے معذرت کرتی تو وہ اکیلا سیر کے لیے نکل کھڑا ہوتا۔

جب کبھی وہ اور اس کی بیوی اکٹھے سیر کے لیے جاتے ان کی اپنی زندگی کی آخری رسومات کے بارے میں بات چل نکلتی۔

اس کی بیوی کا خیال تھا کہ وہ اس سے پہلے فوت ہو گی۔ لیکن علی اکبر کا خیال تھا کہ پہلے وہ فوت ہو گا۔ پہلے میں پہلے میں کے بعد وہ اکثر سوچتے کہ انہیں پاکستان میں دفن ہونا چاہیے یا امریکہ میں ؟ اس کی بیوی کا خیال تھا کہ چونکہ ان کے خاندان کے سارے افراد پاکستان میں دفن ہیں اس لیے انہیں وہیں دفن ہونا چاہیے۔ علی اکبر اس بارے میں رائے دینے سے گریز کرتا۔ کہتا بھی تو اتنا کہ یہ کام بچوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ جو وہ فیصلہ کریں گے ٹھیک ہو گا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک دن علی اکبر کی طبعیت اچانک بگڑ گئی۔ ایمبولینس آئی۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں ہسپتال آتے کافی دیر ہو چکی ہے۔ انہیں بلڈ کینسر ہے۔ اور وہ زیادہ دن نہیں جی پائیں گے۔ اس خبر سے اس کی بیوی اور بچوں کی آنکھو ں میں آنسو آ گئے۔ لیکن انہوں نے رخ پھیر کر آنسو صاف کئے تا کہ علی اکبر انہیں دیکھ نہ پائے۔

لیکن علی اکبر نے ان کے آنسو دیکھ لیے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوے بولے۔ زندگی اور موت ایک ہی پیالے سے پانی پیتے ہیں۔ جس طرح زندگی ایک حقیقت ہے۔ اس طرح موت بھی ایک حقیقت ہے۔ پھر بیوی سے بولے "انہیں افسوس ہے کہ وہ اس سے جدا ہو رہے ہیں۔ اور پھر کہنے لگے۔ انہوں نے اپنی آخری رسومات کے بارے میں کپڑوں کی الماری میں ایک لفافے میں ہدایات لکھ رکھی ہیں۔ اگر ہو سکے تو ان پر عمل کیا جائے۔”

علی اکبر نے اتنا کہا اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ہسپتال والوں نے اس کے مردہ جسم کو ہسپتال کے فریزر میں رکھوا دیا۔

بیوی اور بچے روتے ہوے گھر آئے۔ بیوی نے کپڑوں کی الماری میں دیکھا تو وہاں واقعتاً ایک لفافہ رکھا تھا۔ لفافہ کھولا تو اس میں سے ایک سفید کاغذ نکلا جس پر لکھا تھا:

"یو ایس اے میرا ملک ہے۔ مجھے اس ملک سے محبت ہے۔ اگر میں کسی دوسرے ملک میں فوت ہو جاؤں تو میرے مردہ جسم کو یہاں واپس لایا جائے اور یہاں رولنگ ہلز قبرستان میں دفنا یا جائے۔ میری پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی لیکن امریکہ نے مجھے اتنی محبت دی کہ میں چاہتا ہوں میرا جسم مرنے کے بعد اس مٹی کا حصہ بنے۔”

علی اکبر کی تحریر دیکھ کر اس کی بیوی کے آنسو بے اختیار بہنے لگے۔ پھر وہ بچوں کے ساتھ رولنگ ہلز قبرستان گئی۔ وہاں دفتر میں قبر کے لیے فارم بھرا تو ایک کی بجائے دو قبروں کا خانہ بھرا۔ بچوں نے بغیر سوال کئے استفہامیہ انداز میں دو قبروں کے بارے میں پوچھا تو تر آنکھوں کے ساتھ کہنے لگی:

"جہاں علی اکبر وہاں میں۔ اگر وہ یہاں دفن ہونا چاہتا ہے۔ تو میں بھی یہیں دفن ہوں گی۔ امریکہ صرف علی اکبر کا ہی نہیں میرا بھی ملک ہے۔ اور تمہارا بھی اور تمہاری آئندہ نسلوں کا بھی۔” اور پھر اس نے فارم پر دستخط کر دئیے۔

٭٭٭

 

اجنبی

روبینہ کی شادی ہوئی تو اسے لگا کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ ہار پہنے ، سہرے سجائے ، سفید گھوڑے پر سوار حقیقت کا روپ دھار کر اس کی زندگی میں چلا آیا ہے۔

شادی کے بعد آسماں تلے اگر کوئی اس کی توجہ کا مرکز تھا تو صرف اس کا خاوند اعجاز احمد۔ باپ نے اسے رخصت کرتے ہوے کہا تھا کہ بیٹیاں باپ کے گھر سے سرخ جوڑے میں خاوند کے گھر جاتی ہیں اور سفید کفن میں وہاں سے نکلتی ہیں۔

روبینہ کے بابا نے رخصتی کے وقت روتے ہوے یہ بات اس طرح کہی تھی کہ ان کے الفاظ اس کے سینے میں قبر کے کتبے پر کھدے لفظوں کے طرح ہمیشہ کے لیے کندہ ہو گئے تھے۔

شادی کے چند ماہ تک اعجاز کا روبینہ کے ساتھ رویہ بہت محبت آمیز تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتا۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا۔ باہر گھمانے پھرانے لے جاتا۔ جب بھی دفتر سے چھٹی ہوتی اسے ساتھ لے کر کبھی باغوں اور کبھی ساحل سمندر کی سیر کو نکل جاتا۔ شاپنگ کراتا اور شہر کے اچھے ریستورانوں میں کھانا کھلاتا۔

لیکن رفتہ رفتہ بچوں کی پیدائش کے بعد شادی اعجاز کے لیے روزمرہ کا ایک واقعہ بن گئی۔ اس کی توجہ گھر سے زیادہ باہر کے معاملات پر مرکوز رہنے لگی۔ روبینہ اس کے لیے ایک ثانوی چیز بن گئی۔

یہ نہیں کہ اعجاز ایک برا آدمی تھا۔ یا اس کے شادی سے باہر کسی اور عورت کے ساتھ تعلقات تھے۔ بس اسے مجلسی زندگی سے زیادہ دلچسپی تھی۔ دوستوں کے ساتھ بیٹھنا ، گپ شپ کرنا، تاش اور کیرم کھیلنا اسے اچھا لگتا تھا۔

 اعجاز کی بڑھتی ہوئی بے اعتنائی اور عدم توجہ سے روبینہ کی زندگی میں ایک خلا پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ وہ بہت کوشش کرتی کہ بچوں کے ساتھ اپنے آپ کو مصروف رکھے لیکن دن بھر کی اس مصروفیت میں بھی ایسے چند لمحے ضرور آتے جب اس کا دل اداس ہو جاتا۔ وہ اپنی شادی سے پہلے کی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع ہو جاتی۔

شادی سے پہلے کی زندگی میں سے اسے ایک دن ہمیشہ یاد رہا۔ وہ کبھی اس دن کو نہ بھلا سکی۔ اس دن کا خیال آتے ہی اس کی اداسی ایک مسکراہٹ میں بدل جاتی۔ اس کے بچے اس کے چہرے پر ساون بھادوں کی دھوپ کی طرح ابھرتی اور ڈوبتی مسکراہٹ کا سبب پوچھتے تو وہ انہیں ششکار دیتی۔ اور پھر روز مرہ کے کاموں میں مصروف ہو جاتی۔

وقت کے ساتھ اعجاز احمد کی مجلسی مصروفیات اور زیادہ بڑھتی چلی گئیں۔ روبینہ اور بچے زندگی کی ڈگر پر چلتے ایسے مقام تک آ پہنچے جہاں سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو گئے۔ بچے پڑھ لکھ کر جوان ہوے اور اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔

زندگی اتنی تیزی سے گزری کہ اعجاز احمد کی بے اعتنائی سے پیدا ہونے والے خلا کے باوجود روبینہ سمجھتی کہ اس نے ایک عورت ہونے کے ناطے اپنے تمام فرائض پوری دیانت داری کے ساتھ پورے کر دیئے ہیں۔ اعجاز احمد کے خاوند ہونے کی حیثیت سے جتنے حقوق تھے سب پورے کئے۔ بچوں کی جیسی پرورش کرنی چاہیے تھی کی۔ انہیں محبت سے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا، جوان کیا اور اچھے انسان بنایا۔ یہاں تک کہ وہ سب اپنی اپنی جگہ سیٹ ہو گئے۔ وہ سب بھی روبینہ کا بہت خیال رکھتے۔

روزانہ اسے گھمانے پھرانے لے جاتے۔ کبھی ساحل سمندر پر چلے جاتے۔ کبھی شہر کے معروف ریستورانوں میں ڈنر کے لیے جاتے۔ کبھی کسی گارڈن میں پھولوں کی نمائش دکھانے لے جاتے۔ ایسے میں کبھی اعجاز احمد ان کے ساتھ ہوتے اور کبھی وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ کہیں اور مصروف ہوتے۔

اگر اعجاز ان کے ساتھ ہوتے روبینہ کی پوری توجہ ان پر مرکوز ہوتی اور اگر وہ ساتھ نہ ہوتے تو وہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی کمی محسوس کرتی۔

اس ڈگر پر چلتے چلے زندگی ایسے موڑ پر آ گئی جہاں انسان سب کے ہوتے ہوے بھی تنہا ہو جاتا ہے۔ بھری مجلسوں میں خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ تب اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ ایک بار انہی راہوں پر لوٹ جائے جہاں کبھی اس نے زندگی کا کوئی ایسا رنگ دیکھا تھا جو ہمیشہ کے لیے اس کے دل میں چراغ بن کر جل اٹھتا ہے اور پھر ساری عم جلتا رہتا ہے یہاں تک کہ انسان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا۔

کچھ ایسے ہی حالات میں ، ایک روشن صبح ، دن چڑھے ، روبینہ نے غسل کیا۔ کپڑے بدلے ، سر پر چادر اوڑھی اور جوتے پہن کر اکیلے گھر سے باہر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ بچوں نے پوچھا کہ وہ کہاں جانا چاہتی ہے۔ پھر کہنے لگے کہ وہ جہاں بھی جانا چاہے وہ اسے لے جانے کے لیے تیار ہیں لیکن روبینہ نے محبت سے ان سب کی مد د ٹھکراتے ہوے جواب دیا کہ وہ اکیلے جانا چاہتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اکیلی گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔

گھر سے باہر کا ماحول اس کا دیکھا بھالا تھا۔ وہ کئی بار اس راستے پر سفر کر چکی تھی۔ وہی دکانیں ، ویسی ہی لوگوں کی آمدو رفت، وہی بجلی کے کھمبے ، وہی آوارہ کتے ، اور وہی بدروؤں میں سے باہر بہتا پانی۔

چلتے چلتے تھکاوٹ کی وجہ سے وہ کئی بار رکی، تھوڑی دیر سانس لیا، اور پھر چل پڑی۔ یہاں تک کہ وہ چلتے چلتے اپنے ہائی اسکول سے تھوڑی دور واقع بچوں کے ایک پارک کے پاس پہنچ کر رگ گئی۔ پارک میں اس نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر وہاں نصب لکڑی کے ایک بنچ پر بیٹھ گئی۔ وہ بہت دیر تک اس بنچ پر بیٹھی خلا میں گھورتی رہی۔

کئی پہر تک وہاں بیٹھنے اور خلا میں گھورنے کے بعد وہ اٹھی۔ بنچ کے پاس ہی اگے گلاب کے ایک پودے سے ایک پھول توڑا ، اور اسے ہاتھ میں تھامے گھر کی طرف چل دی۔

وہ گھر لوٹی تو دن ڈھل چکا تھا اور تقریباً اندھیرا چھا چکا تھا۔ بچوں نے کھانے پینے کے بارے میں پوچھا تو اس نے طبعیت نہ ٹھیک ہونے کا کہہ کر کچھ بھی کھانے سے انکار کر دیا۔ پھر بچوں سے چند باتیں کر کے اپنے کمرے میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ بستر پر لیٹے ہی اس نے آنکھیں موند لیں۔

اگلی صبح اس کے بچوں نے دیکھا گلاب کا ایک پھول اس کی چھاتی پر رکھا تھا ، اس کے چہرے پر ایک پرسکون مسکراہٹ پھیلی تھی اور وہ ابدی نیند سور ہی تھی۔ لگتا تھا وہ اب بھی کسی کا انتظار کر رہی ہے۔ لیکن کس کا اس کا کسی کو کوئی پتہ نہیں تھا۔

٭٭٭

 

دہشت گرد

پر ہجوم جگہ پر بم پھٹا تو کئی لوگوں کے پرخچے اڑ گئے۔ آسمان پر اڑتے چیلوں اور کووں نے بم سے فضا میں بکھرتے انسانی وجودوں کے کچھ چیتھڑے زمین پر گرنے سے پہلے دبوچے اور پھر سامنے بنی اونچی عمارتوں کی ممٹیوں پر بیٹھ کر ضیافت اڑائی۔ ان کے طور اطوار دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بھی دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوے ہیں۔

رحمت علی ایک ان پڑھ آدمی تھا۔ نماز روزے اور دینی فرائض سے مکمل طور پر نابلد اور دنیا داری میں عام پاکستانیوں جیسا۔۔ سیدھا سادہ، بھولا بھالا کام سے کام رکھنے والا انسان۔

جب سے شہر میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس کی کوشش ہوتی کی وہ کسی بھی ایسی جگہ کھڑا نہ ہو جہاں لوگوں کا ہجوم ہو۔ اسے اندازہ تھا کہ دہشت گرد ایسی ہی پر ہجوم جگہوں پر کاروائیاں کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر سکیں۔ وہ کیوں اس طرح اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو ہلاک کر رہے تھے اس کا رحمت علی کو کوئی اندازہ نہیں تھا۔

وہ نہیں جانتا تھا کہ امریکہ کا صدر کون ہے۔ نہ اسے یہ پتہ تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔ نہ اسے اندازہ تھا کہ افغانستان میں پوری دنیا سے آئے نیٹو کے فوجی ان افغانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں جواس سے پہلے دو سپر پاوروں کو عبرت ناک شکست دے چکے ہیں اور اب تیسری سپر پاور کی فاتحہ خوانی کی تیاری کر رہے ہیں۔

جب سے شہر میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا معمول تھا وہ صبح مزدوری کے لیے گھر سے نکلنے سے پہلے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر پورے شہر کی فضا کا جائزہ لیتا۔ اس کی بیوی اور بچے اسے پوچھتے کہ وہ کام پر جانے سے پہلے چھت پر کھڑا ہو کر کس چیز کا جائزہ لیتا ہے تو وہ سادگی سے جواب دیتا کہ وہ دیکھتا ہے کہ آج شہر کے کس حصے میں چیلیں اور کوے پرواز کر رہے ہیں۔ پھر کہتا کہ پولیس والوں کو دہشت گردوں کی کاروائیوں کا پیشگی پتہ نہیں چلتا لیکن آسمان پر اُڑتے چیل اور کوے جانتے ہیں کہ آج شہر کے کس علاقے میں انہیں انسانوں کا گرما گرم گوشت کھانے کو ملے گا۔ چنانچہ وہ صبح ہی صبح اس علاقے میں پرواز شروع کر دیتے ہیں۔ اور جیسے ہی بم پھٹتا ہے یا خود کش حملہ آور کاروائی کرتا ہے وہ فوراً آسمان کی بلندی سے زمین کی طرف غوطہ لگاتے ہیں اور جس کی چونچ میں جو آتا ہے جھپٹ کر کسی عمارت کی ممٹی پر جا بیٹھتا ہے اور پھر مزے لیکر انسانی گوشت کھاتا ہے۔

پھر وہ کہتا کہ شہر کے جس حصے میں اسے چیلیں اور کوے پرواز کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ ادھر کا رخ کرنے کی بجائے مزدوری کی تلاش میں شہر کے دوسرے حصوں کی طرف نکل جاتا ہے۔

وہ کہتا ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ ابھی وہ جوان ہے اور ابھی وہ مرنا نہیں چاہتا۔ ابھی وہ اپنی جوان بیوی، اپنے چھوٹے سے بیٹے اور ننھی منی سی بیٹی کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے۔

اس کا تیرہ سالہ بیٹا اور دس سالہ بیٹی اس کی یہ بات سن کر ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے۔

"باپو کووں اور چیلوں کو کیا پتہ کہ دہشت گرد شہر کے کس حصے میں حملہ کرنے جا رہے ہیں ؟”

وہ پیار سے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا لیتا اور کہتا:

"پگلی جانور انسانوں سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔ وہ قبل از وقت اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ان کو خوراک کہاں ملے گی۔ چنانچہ وہ پہلے سے اس جگہ پہنچ جاتے ہیں۔”

ایک دن صبح ہی صبح سوکھی روٹی بن چینی چائے کے کپ کے ساتھ کھا کر حسب معمول وہ گھر کی چھت پر گیا تا کہ آسمان پر اڑتے چیلوں اور کووں کی پرواز دیکھ کر اندازہ لگائے کہ آج دہشت گرد کس علاقے میں کاروائی کریں گے۔

اسے یہ دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ اس روز چیلیں اور کوے اس کے اپنے علاقے میں پرواز کر رہے ہیں۔

وہ چھت سے نیچے اترا اور مزدوری کے لیے گھر سے باہر جانے سے پہلے اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج نہ وہ خود گھر سے باہر جائے اور نہ بچوں کو جانے دے۔ بلکہ ہو سکے تو آج گھر کا دروازہ تک نہ کھولے مبادا کوئی دہشت گرد کہیں آس پاس بم نہ پھوڑے یا خود کو دھماکے سے نہ اڑائے۔

یہ کہہ کر وہ گھر سے نکلا تو تھوڑی دور ایک پان والے کی دوکان پر رکھے چھوٹے سے ٹی وی سیٹ سے نشر ہونے والی خبریں سننے کے لیے رک گیا۔

ٹی وی پر خبریں سنانے والی خاتون کہہ رہی تھی: "حکومت کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ چند دہشت گرد شہر میں داخل ہو چکے ہیں چنانچہ تمام شہری اپنے ارد گرد لوگوں پر نظر رکھیں اور اگر انہیں کسی جگہ کوئی مشکوک آدمی دکھائی دے تو اس کی اطلاع فوراً پولیس کو دیں۔”

یہ خبر سن کر وہ آگے بڑھا تو تھوڑے فاصلے پر ایک چوک میں اسے ایک ٹریفک پولیس والا ٹریفک کنٹرول کرتا دکھائی دیا۔

رحمت علی چند لمحوں کے لیے رک گیا تا کہ پولیس والے کو اپنے خدشات سے آگاہ کرے کہ آج بم دھماکہ اس علاقے میں ہو گا۔ پھر کچھ سوچ کر وہ پولیس والے کو کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گیا۔

اس نے سوچا اس کے بچے اس کا چیلوں اور کووں کا مفروضہ سن کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں بھلا پولیس والا اس کی بات کہاں سنے گا۔ بلکہ الٹا کہیں یہ نہ ہو کہ وہ اسے پکڑ کر دہشت گردوں کا ساتھی ہونے کے الزام میں تھانے لے جائے۔

چنانچہ وہ پولیس والے کو اس کے حال پر چھوڑ کر اپنے مزدوری کے اڈوں کی طرف چلا گیا۔

وہ ایک کے بعد مزدوری کے دوسرے اور پھر تیسرے اڈے پر گیا لیکن خلاف معمول آج اسے کوئی کام نہ ملا۔ ویسے بھی صبح اپنے علاقے میں چیل اور کوے اڑتے دیکھ کر آج وہ کچھ اچھا محسوس نہیں کر رہا تھا۔

وہ ایک فیملی مین تھا اور محنت مشقت پر ایک سچے محنت کش کی طرح ایمان رکھتا تھا۔ مزدوری نہ ملنے پر وہ کوئی نہ کوئی ایسا دھندہ ڈھونڈھ لیتا جو اس کے معمول کے کاموں سے ہٹ کر ہوتا۔ اس سے اگر اسے چند روپے مل جاتے تو وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا اور اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان لے کر گھر لوٹتا۔

اس دن روز مرّہ کی مزدوری نہ ملنے پر اس نے کوئی اور دھندہ ڈھونڈھنے کی کوشش نہ کی۔

وہ مزدوری کے روزمرّہ اڈوں سے سیدھا گھر کی طرف روانہ ہوا تاکہ آج کا دن عافیت سے اپنے بچوں کے ساتھ گزارے۔

خالی ہاتھ گھر واپس جاتے ہوے وہ دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ آج کا دن خیریت سے گزر جائے اور کہیں خون خرابہ نہ ہو۔

انہی خیالات میں گم وہ اس چوک کے پاس پہنچا جہاں صبح ٹریفک پولیس والا آتی جاتی ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔

اس نے دیکھا ٹریفک پولیس والے نے ایک سفید رنگ کی گاڑی روک رکھی تھی اور اس کے ڈرائیور سے کاغذات مانگ رہا تھا۔ پھر شاید پولیس والے کو کوئی شک ہوا تھا کہ اس نے گاڑی والے کو گاڑی سے نیچے اترنے اور گاڑی کی تلاشی دینے کے لیے کہا۔

رحمت علی نے دیکھا چیلیں اور کوے عین اس وقت آسمان پر بہت نیچی پرواز کر رہے تھے۔

چیلوں اور کووں کو اتنی نیچی پرواز کرتے دیکھ کر اس نے وہاں سے اپنے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس نے دیکھا عین اس لمحے وہ گاڑی ایک دھماکے کے ساتھ اڑ گئی جس سے گاڑی والا، پولیس والا اور ارد گرد کھڑے دسیوں لوگوں کے جسموں کے پرخچے اڑ گئے۔

چیلوں اور کووں نے حسب معمول جھپٹ کر ہوا میں اڑتے انسانی گوشت کے ٹکڑے پکڑے اور آس پاس کی عمارتوں کی ممٹیوں پر بیٹھ کر کھانے لگے۔

وہ دوڑتا ہوا اپنے گھر پہنچا اور اپنے بیٹے اور بیٹی کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

٭٭٭

 

غلام

گارسن صبح اٹھتے ہی پہلا کام یہ کرتا کہ اپنے غلام آبا و  اجداد کی تعریف میں ایک گیت گاتا۔

یہ گیت اس نے خود ہی گھڑا تھا۔ عجیب بے ربط اور بے معنی گیت تھا لیکن وہ اس گیت سے اپنے دن کا آغاز مذہبی فریضہ سمجھ کر کرتا۔ جیے ہی اس کی فرینک سناٹرا جیسی دھن بلند ہوتی اس کا انڈین دوست وجے اسے گالی دے کر خاموش ہونے کی تلقین کرتا۔ لیکن گارسن وجے کی گالیاں سننے کے باوجود اپنا راگ جاری رکھتا۔

"تم جنہیں جہازوں میں بھر کر

افریقہ کے جنگلوں سے

لایا گیا

وہ منڈیاں بھی کیا منڈیاں تھیں

جن میں تمہاری بولی لگی

تمہارے بدصورت موٹے کالے ہونٹ

سسکتے رہے

دام لگتے رہے

تم یونہی برس ہا برس بکتے رہے

تم جنہیں جہازوں میں بھر کر

افریقہ کے جنگلوں سے

لایا گیا

تمہاری نظر

آسماں پر چمکتے ستاروں پر

ٹکی رہی

تمہاری جاں

 شکنجوں میں اٹکی رہی

تمہارے بدصورت موٹے کالے ہونٹ

سسکتے رہے

دام لگتے رہے

تم یونہی برس ہا برس بکتے رہے "

وجے گالیاں دیتا، کبھی کان سرہانے میں دبا کر سونے کی کوشش کرتا، لیکن گارسن گاتا رہتا جب تک کہ وجے اٹھنے پر مجبور نہ ہو جاتا۔ گارسن اور وجے دونوں یوسی برکلے کے طالب علم تھے۔ گارسن ٹینسی کا رہنے والا تھا جہاں اس کے آبا و اجداد کسی زمانے میں پلانٹیشنز پر غلاموں کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ جبکہ وجے کے ماں باپ انڈیا سے ہجرت کر کے امریکہ آئے تھے۔ لاس ائجلس میں ان کا گروسری اسٹور تھا۔ وجے اور اس کی بہن سپتمی کی پیدائش امریکہ میں ہوئی تھی۔ دونوں پڑھائی لکھائی میں تیز تھے۔ لاس اینجلس ہائی سے گریجویشن کے بعد دونوں کو یوسی برکلے میں داخلہ ملا تھا۔

دونوں بہن بھائیوں نے یوسی کے پاس ہی ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لیا تھا۔ گارسن کو ابھی تک رہنے کے لیے جگہ نہیں ملی تھی اس لیے وجے نے اسے اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی تھی جو اس نے بخوشی قبول کر لی تھی۔

ہوٹل سے وجے اور سپتمی کے ساتھ منتقل ہونے سے پہلے گارسن نے انہیں بتا دیا تھا کہ اسے علی الصبح گانے کی عادت ہے۔ اس کی آواز اتنی اچھی نہیں ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ اپنے دن کا آغاز اسی گیت سے کرتا ہے۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنی اور اپنے آبا و اجداد کی تاریخ کو فراموش کرے۔

وجے کے برعکس سپتمی کو گارسن کا گانا اچھا لگتا۔ جیسے ہی علی الصبح گارسن کے گانے کی تان بلند ہوتی سپتمی اٹھ جاتی۔ وہ اٹھ کر اپنے اور گارسن کے لیے چائے بناتی۔ گارسن کے گانے کی تعریف کرتی۔ پھر دونوں چائے پینے کے لیے بیٹھ جاتے۔ اور دونوں میں گپ شپ شروع ہو جاتی۔

سپتمی کہتی:

"گارسن تمہارے گیت میں بہت درد ہے۔ تمہارا گیت سن کر مجھے ہندوستان کی غلامی کا دور یاد آتا ہے۔ میں امریکہ میں پیدا ہوئی تھی۔ مجھے ہندوستان میں رہنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن میرے ماں باپ اور ان کے دوست کبھی کبھار ہندوستان کی طویل غلامی کی بات کرتے ہیں تو ان کی باتوں میں مجھے تمہارے گیت جیسے درد کے احساس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔”

گارسن سپتمی کی بات سنتا تو کہتا: ” میں یہ گیت گا کر خود کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ دنیا سے غلامی کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ میرے آبا و اجداد سے زیادہ بدتر غلامی میں مبتلا ہیں۔ میرے آبا و اجداد کو افریقہ سے زنجیریں ڈال کر امریکہ اور یوروپ لایا گیا تھا لیکن اب پوری دنیا سے لوگ خود بخود غلامی کرنے کے لیے یوروپ اور امریکہ کھنچے چلے آتے ہیں۔ پہلے یہاں آنے کے لیے سو سو طرح کے جتن کرتے ہیں پھر کوشش کرتے ہیں کہ جس حد تک ممکن ہو یوروپی اور امریکی رنگ ڈھنگ اپنائیں۔ اگر خود نہ اپنا سکیں تو اپنے بچوں کو یوروپی اور امریکی کلچر کا شاہکار بنا دیتے ہیں۔”

وجے گارسن اور سپتمی کی گفتگو سنتا تو سرہانہ ایک طرف پھینک کر اسے ہندی میں الٹی سیدھی گالیاں دینی شروع ہو جاتا۔

گارسن اس کی گالیاں سن کر ہنس دیتا۔ وجے اور سپتمی کے امریکی لب و لہجے سے گارسن کو اندازہ تھا کہ یہ بھی ان غلاموں کی اولاد ہیں جو غلامی کی خاطر خود بخود امریکہ کھنچے چلے آتے ہیں اور یہاں اپنی شکل و صورت کے علاوہ ہر چیز بدل لیتے ہیں۔

وہ ہنستے ہوے وجے سے کہتا: ” وجے اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے ماں باپ سے ٹھیک طرح سے ہندی گالیاں ہی دینا سیکھ لو۔ جب تم امریکی لہجے میں مجھے ہندی گالیاں دیتے ہو مجھے اپنے آبا و اجداد کے دکھ یاد آ جاتے ہیں۔”

وجے اسے ترکی بترکی جواب دیتا:

"میری بگڑی ہوئی ہندی گالیوں کا تمہارے آبا و اجداد کے دکھوں سے کیا تعلق ہے۔”

گارسن کہتا: ” ان گالیوں کا میرے آبادو اجداد کے غلامی میں اٹھائے گئے دکھوں سے وہی تعلق ہے جو میرے گیت کا ہے۔ میں امریکی انگریزی میں گیت گاتا ہوں تو مجھے اپنی بدقسمتی کا احساس ہوتا ہے کہ میں زنجیروں میں جکڑے ، شکنجوں میں کسے ، اپنے آبا و اجداد کی غلامی کے دکھوں کا اظہار بھی ان کی زبان میں کرتا ہوں جنہوں نے ان پر غلامی کی ذلت مسلط کی تھی۔ کاش مجھے اپنے آبا و اجداد کی زبان آتی۔ کاش میں یہ گیت انہی کی زبان میں گا سکتا۔ تا کہ ان کی روحیں جان جاتیں کہ ان کا کوئی بیٹا اب بھی ان کے افریقہ سے امریکہ تک پر مصائب سفر کی کہانی دنیا کو سنا رہا ہے "۔

گارسن یہ بات کچھ ایسی دردمندی سے کہتا کہ اس کی آواز جذبات کی شدت سے بھرا جاتی۔

سپتمی اسے تسلی دیتی۔ اس کی دلجوئی کرتی۔ اسے بتاتی کہ اب اسے اپنے آبا و اجداد کی غلامی کے مسئلے پر اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ صدیوں قبل گزرے واقعات پر آدمی کو اس طرح دکھی نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا حال بے حال ہو جائے۔

وجے گارسن سے اتنی ہمدردی دکھانے پر بہن کو ششکارتا۔

انہی باتوں میں اسکول جانے کا وقت ہو جاتا۔ وہ تینوں بیک پیک کندھوں پر ڈال کر اپارٹمنٹ سے کیمپس جانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ گارسن اور وجے کی کلاسیں ایک ہی تھیں اس لیے وہ اکھٹے اپنی کلاسوں میں پہنچتے جبکہ سپتمی مختلف کلاسوں میں ہونے کے باعث کیمپس کے گیٹ پر ان سے جدا ہو جاتی۔

جاتے جاتے وہ گارسن کو تلقین کرتی کہ وہ دن بھر اپنے آبا و اجداد کی غلامی کے بارے میں سوچنے کی بجائے اپنے لیکچروں پر توجہ دے تا کہ وہ پڑھائی لکھائی سے اپنے حال کو اپنے آبا و  اجداد کی زندگیوں سے بہتر بنا سکے۔

گارسن نے انتہائی ملائمت سے سپتمی کا شکریہ ادا کیا۔ جب کہ اس نے بھی مسکراتے ہوے اپنی راہ لی۔

کلاس روم کی طرف جاتے ہوے وجے پھر گارسن کی دکھتی رگ چھیڑی۔

"گارسن یہ جو تم صبح اٹھ کر گیت گاتے ہو اس کے بارے میں تمہیں میرا ایک مشورہ ہے۔

گیت گانے کے علاوہ اگر تم گٹار بجانی سیکھ لو اور یہ گیت صبح صبح اپارٹمنٹ میں گانے کی بجائے گٹار کے ساتھ ٹیلیگراف پر گایا کرو تو اپنے لیے چند سکے بھی اکھٹے کر سکتے ہو۔”

گارسن نے وجے کا منہ چڑاتے ہوے جواب دیا کہ اسے گٹار بجانی آتی ہے۔ لیکن سکے اکھٹے کرنے کے لیے اسے گٹار بجانے کی ضرورت نہیں۔

گارسن اور وجے کلاس روم میں پہنچے تو سوشیالوجی کے پروفیسر جیمز اپنا لیکچر شروع کر چکے تھے۔ ان کے لیکچر کا موضوع تھا جنس اور کلچر۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جنس اگرچہ زندگی کا ایک بنیادی وظیفہ ہے لیکن انسانی سماج میں یہ کئی ایسی ثقافتی شکلیں اختیار کرتی ہے جس پر مختلف دلچسپیوں کے حامل گروپ طرح طرح کے لیبل اس طرح چڑھاتے ہیں کہ اصل موضوع غائب ہو جاتا ہے۔

جدید انسان نے جس طرح غلامی کو جاری رکھنے کے لیے ایسے معاشی سسٹم ایجاد کئے ہیں کہ انسان خود بخود رضامندی سے انتہائی خوشی کے ساتھ غلامی کی غیر مرئی زنجیریں پہن لیتا ہے اور پھر ساری عمر کتے کی طرح سسٹم کی خدمت سرانجام دیتا ہے اسی طرح جنس غیر محسوس رضامندی سے کئی ایسے ثقافتی روپ اختیار کرتی ہے کہ اس کا اصل وظیفہ غائب ہو جاتا ہے اور تجارتی مقاصد ٹیک اوور کر لیتے ہیں۔

پروفیسر صاحب بول رہے تھے اور گارسن اور وجے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔

وجے نے گارسن سے دھیمے لہجے میں کہا:

"سالے صبح غلامی پر تمہارا گیت سنا تھا یہاں پروفیسر صاحب بھی اسی موضوع پر گفتگو فرما رہے ہیں۔”

پروفیسر جیمز نے وجے کو گارسن سے کانا پھوسی کرتے دیکھا تو انہوں نے اسے پوچھا کہ وہ گارسن سے کیا کہہ رہا ہے۔

وجے نے پروفیسر صاحب کو بتایا کہ گارسن ہر صبح اپنے آبا و اجداد کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے ایک گیت گاتا ہے اس کے گیت اور آپ کے لیکچر کا موضوع ایک ہی ہے۔

پروفیسر جیمز کا تعلق بھی افریقی امریکن کمیونٹی سے تھا۔ وجے کی بات سن کر انہوں نے گارسن سے درخواست کی کیا وہ بھی ان کے اور اپنے دیگر ہم جماعتوں کے لیے وہ گیت گانا پسند کرے گا۔ پروفیسر صاحب کا حکم بجا لاتے ہوے گارسن نے سر کلاس صبح والا گانا اپنے ہم جماعتوں کی ضیافت طبع کے لیے پیش کیا:

کلاس میں ایک لڑکے کے پاس اس کی گٹار تھی۔ گارسن نے گانا شروع کیا تو اس طالب علم نے گٹار باکس سے نکال کر بجانا شروع کر دی۔

"تم جنہیں جہازوں میں بھر کر

افریقہ کے جنگلوں سے

لایا گیا

وہ منڈیاں بھی کیا منڈیاں تھیں

جن میں تمہاری بولی لگی

تمہارے بدصورت موٹے کالے ہونٹ

سسکتے رہے

دام لگتے رہے

تم یونہی برس ہا برس بکتے رہے

تم جنہیں جہازوں میں بھر کر

افریقہ کے جنگلوں سے

لایا گیا

تمہاری نظر

آسماں پر چمکتے ستاروں پر

ٹکی رہی

تمہاری جاں

 شکنجوں میں اٹکی رہی

تمہارے بدصورت موٹے کالے ہونٹ

سسکتے رہے

دام لگتے رہے

تم یونہی برس ہا برس بکتے رہے "

گارسن کے گیت اور ساتھی طالب علم کی گٹار سے کلاس روم کا ماحول تبدیل ہو گیا۔

گارسن کا گیت ختم ہوا تو پروفیسر صاحب نے اپنا چشمہ اتار کر اپنی آنکھوں میں تیرتے آنسووں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔ پھر انہوں نے طالب علموں کو دعوت دی کہ وہ غلامی، جنس اور کلچر کے موضوع پر اپنے اپنے تاثرات پیش کریں۔

پروفیسر صاحب کی دعوت عام سن کر ایک چینی لڑکی کھڑی ہوئی۔ اس نے کہا کہ اس کا اصل نام جن یی ہے لیکن اس نے اپنی اور امریکیوں کی سہولت کے لیے اپنا نام جینی رکھ لیا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اس کا تعلق امریکہ میں آباد چوتھی نسل کے چینیوں سے ہے۔ اس کے پردادا ریلوے لائن بچھانے کے لیے امریکہ آئے تھے اور پھر یہیں رہ گئے تھے۔

لیکن آج بھی اسے اس کی چینی ثقافتی وراثت بعض اوقات حزن کا شکار کر دیتی ہے۔

صبح کے وقت اسکول آنے سے پہلے کبھی کبھار جب وہ آئنے میں اپنے سراپا کا جائزہ لیتی ہے تو وہ اپنے بارے میں کنفیوزن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسے اکثر یہ سوال تنگ کرتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ کیا وہ چینی ہے یا امریکن؟

جب وہ اپنی شکل کو دیکھتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ وہ چینی ہے۔ لیکن پھر اسے یاد آتا ہے کہ اسے چینی زبان نہیں آتی۔ چینی رسم و رواج اور کلچر کے ساتھ اس کا وہ تعلق نہیں جو چین میں رہنے والے چینیوں کاہے۔ تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ جسمانی طور پر وہ ایک چینی لڑکی ہے لیکن اس میں امریکی جن حلول کر گیا اور اب وہ میرے جسم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

وجے نے جینی کی بات سنی تو گارسن سے کہا:

"میں سمجھتا تھا تیرا گیت ایک بکواس کے سوا کچھ نہیں لیکن جینی کی بات سن کر لگتا ہے کہ یہ مسئلہ کچھ زیادہ گھمبیر ہے "۔

"گارسن نے کہا:

"مجھے لگتا ہے تم اپنے بزرگوں کی بات توجہ سے نہیں سنتے۔ ہندوستان صدیوں تک غلام رہا ہے۔ ہندوستان کی روح میں چھپا درد تمہارے لب و لہجے سے بھلے غائب ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ تمہارے بزرگ اب بھی اس غلامی کی صدیوں طویل رات کو یاد کر کے ضرور ملول ہوتے ہوں گے۔”

پروفیسر جیمز نے وجے اور گارسن کو باہمی گفتگو کرتے دیکھا تو وجے سے کہا کہ فقط گارسن سے بات کرنے کی بجائے وہ اپنے ہم جماعتوں سے اپنے خیالات شیر کرے تو زیادہ مناسب رہے گا۔

پروفیسر جیمز کے کہنے پر وجے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ عہد حاضر کے ہندوستان کی ساخت میں اتنی تہذیبوں نے اپنی اچھائیوں اور برائیوں کے جراثیم داخل کئے ہیں کہ ہم تقریباً بھول گئے ہیں کہ اصل ہندوستان کیسا تھا۔

ہمارے آبا و اجداد کا رہن سہن کیسا تھا۔ رسم و رواج کیسے تھے۔ بول چال کیسی تھی۔

تاہم انگریزوں کے ہندوستان آنے سے پہلے ہمارے بزرگوں نے پوری کوشش کی کہ وہ ہندوستان کی روح کو زندہ رکھیں۔ ہندوستان میں یونانی آئے ، ایرانی آئے ، افغانی آئے لیکن ان کی غلامی میں جانے کے باوجود ہماری روح آزاد رہی۔

انگریزوں نے ہمارے ساتھ وہی کیا جو جینی کے ساتھ امریکہ نے کیا ہے۔ اب ہم ہندوستانی کم اور گورے زیادہ ہیں۔

ہماری زبان، ہمارا کلچر، ہمارے رسم و رواج، ہماری سوچیں ، ہمارا طرز استدلال، ہمارا طرز زندگی ہندوستانی کم اور امریکی و برطانوی زیادہ ہے۔

ہماری روایتوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہم اپنی روایتوں کا دفاع کرنے کی بجائے برطانوی اور امریکی روایتوں کا دفاع زیادہ کرتے ہیں۔

انگریزوں نے ہمارے اخلاقی، سماجی، تاریخی اور سیاسی معیار بدل دیے ہیں۔ اب ہم نہیں جانتے ہمارا کیا ہے۔ ہم نے ہر وہ چیز اپنا لی ہے جو برطانیہ اور امریکہ نے ہم پر مسلط کی۔

ہندوستان ایک ارب سے زیادہ انسانوں کا ملک ہے لیکن ان ارب انسانوں کے ملک میں چند کروڑ انسانوں کا ایک جزیرہ ہے جو برطانوی اور امریکی قدروں کا ہو بہو عکس ہے۔ اس جزیرے کی حقیقت باقی ایک ارب ہندوستانیوں کی حقیقت سے مختلف ہے۔ لیکن یہ چند کروڑ ہندوستانی جدید ہندوستان کا چہرہ مہرہ ہیں جبکہ باقی کروڑوں ہندوستانی اس سارے بندوبست میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

وجے بول رہا تھا اور ساری کلاس پورے انہماک سے سن رہی تھی۔ خود گارسن کو اندازہ نہیں تھا کہ صبح صبح اس کے گیت پر اسے گالیاں دینے والا وجے جدید طرز غلامی کی باریکیوں کو اس طرح سمجھتا ہے۔

سوشیالوجی کی کلاس ختم ہوئی تو گارسن اور وجے ٹیلی گراف پر واقع ایک کیفے میں جا بیٹھے۔

تھوڑی دیر میں اپنی کلاس سے فارغ ہو کر سپتمی بھی وہیں آ گئی۔ اس نے گارسن اور وجے کو کیفے میں بیٹھے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔

وجے اور گارسن نے اپنے لیے کیپوچینو آرڈر کیا تھا جبکہ سپتمی نے موکا کی خواہش ظاہر کی۔

گارسن نے سپتمی کے لیے موکا آرڈر کیا اور پھر اس سے بولا:

"سپتمی آج تمہارے بھولے بھالے بھائی وجے نے سوشیالوجی کی کلاس میں کمال کر دیا ہے۔ پہلے میں اسے ایک گھامڑ ہندوستانی سمجھتا تھا۔ اب مجھے اس میں چھپا ایک دانشور دکھائی دیتا ہے جو جدید دنیا کی غلامی کی غیر مرئی زنجیروں کو اسی طرح پہچانتا ہے جیسے میں اپنے آبا و اجداد کی مرئی زنجیروں کو پہچانتا ہوں اور آج بھی ان کی بے چین روحوں کو سکون پہنچانے کے لیے ہر صبح ان کے لیے گیت گاتا ہوں۔”

سپتمی نے گارسن سے پروفیسر جیمز کی کلاس کی کہانی سنی تو موکے کے چسکی لگاتے ہوے کہنے لگی۔

"گارسن یہ تمہارے گیت کا اثر ہے ورنہ وجے ایسی چیزوں پر کم ہی توجہ دیتا ہے۔”

گارسن نے کیپوچینو کا کپ دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور پھر کپ منہ تک لاتے ہوے بولا:

"لیکن مجھے افسوس ہے کہ اب اسے صبح صبح میرا گیت سننے کو نہیں ملے گا کیونکہ ہاوسنگ آفس نے میرے لیے ڈام میں ایک کمرے کا بندوبست کر دیا ہے۔”

وجے جو اب تک خاموش بیٹھا گارسن اور سپتمی کی گفتگو سن رہا تھا کہنے لگا:

"گارسن تمہارے گیت نے میری روح کر دکھی کر دیا ہے۔ کیا اب تم مجھے میری ہزاروں سال کی غلامی کے درد سے آشنا کر کے ڈام میں منتقل ہو جاؤ گے ؟”

اس سے پہلے کہ گارسن کچھ کہتا سپتمی بولی:

"میرا خیال ہے کہ ہمیں ایک میوزک گروپ بنانا چاہیے۔ گارسن تم اپنے آبا و اجداد کی بھٹکتی روحوں کو سکون پہنچانے کے علاوہ ایک نیا گیت لکھو جس میں عہد حاضر کے بھٹکے ہوے زندہ غلاموں کی روحوں کو جھنجھوڑو اور انہیں بتاؤ کہ امریکہ اور یوروپ کی اندھا دھند فکری و ثقافتی و سیاسی و معاشی غلامی کے بجائے اپنی اصل کو پہچانیں۔ جدید غلامی کی زنجیریں پوری انسانیت کو تباہی کی ایسی منزل کی طرف لے جا رہی ہیں جہاں کچھ نہیں بچے گا۔ "

گارسن نے سپتمی کی بات سنی تو کہنے لگا کہ یہ ایک بہت اچھا آئیڈیا ہے۔ یہ گیت وہ تنہا نہیں لکھے گا۔ یہ گیت افریقہ اور ایشیا کے غلاموں کی اولاد مل کر لکھے گی۔

پھر گارسن نے اپنے پہلے کی گیت کی طرز پر مصرعہ اٹھایا:

"ہم جو جہازوں میں بھرکر

افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ سے

یوروپ اور امریکہ کی منڈیوں میں

بکنے کے لیے

ہجوم در ہجوم چلے آتے ہیں "

سپتمی نے اگلی چند لائنیں الاپیں

"ہم جن کی شکلیں

چینی، جاپانی، اور ہندوستانی ہیں

لیکن روحیں

برطانوی اور امریکی ہیں "

وجے نے گارسن اور سپتمی کے گیت کو آگے بڑھایا:

"ہم غلام ابن غلام ابن غلام

نہیں جانتے

آزادی کا مفہوم کیا ہے۔

ہم جن زنجیروں سے بندھے ہیں

یہ ہمارے جسموں کو نہیں

ہماری روحوں کو زخمی کرتی ہیں "

تینوں نے اپنا اپنا ڈرنک ختم کیا اور پھر یہ گاتے ہوے اکھٹے اپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہوئے :

"ہم جو جہازوں میں بھرکر

افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ سے

یوروپ اور امریکہ کی منڈیوں میں

بکنے کے لیے

ہجوم در ہجوم چلے آتے ہیں

ہم غلام ابن غلام ابن غلام

نہیں جانتے

آزادی کا مفہوم کیا ہے۔”

٭٭٭

 

سگرٹ کی بو

اس رات دوکان بند کر کے سلیمی صاحب گھر آئے تو بہت خوش تھے۔ بیگم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے آج میر صاحب اپنے بیٹے کے لیے سدرہ کا ہاتھ مانگنے آئے تھے۔ لڑکا اچھا ہے۔ پڑھا لکھا ہے۔ کھاتا کماتا ہے۔ میں نے ہاں کر دی ہے۔

لیکن آپ نے ہاں کرنے سے پہلے سدرہ سے پوچھ تو لیا ہوتا۔ سدرہ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کیا اپنے بابا کے پسند کردہ لڑکے سے شادی سے انکار کرے گی۔

انہوں نے بہت اعتماد کے ساتھ بیگم کو جواب دیا۔ ابھی سلیمی صاحب اور ان کی بیگم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ سدرہ کمرے میں داخل ہوئی۔ سلیمی صاحب نے پیار سے بیٹی کو چمکارتے ہوے اپنے پاس بلایا اور کہا:

” سدی بیٹی آج میں بہت خوش ہوں۔ آج میر صاحب آئے تھے۔ اپنے بیٹے حماد کے لیے تمہارا ہاتھ مانگ رہے تھے۔ میں نے ہاں کر دی ہے۔ "

” ابو یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔ میں حماد سے شادی نہیں کروں گی۔”

بیٹی کے منہ سے حرف انکار سنتے ہی سلیمی صاحب بھڑک اٹھے۔ انہیں توقع نہیں تھی کہ سدی اس طرح اس رشتے سے صاف انکار کر دے گی۔ پھر بھی ضبط دکھاتے ہوے انہوں نے کہا:

"سدی تم اپنے بابا کے سامنے کہہ رہی ہو کہ تم ان کے پسند کئے ہوے لڑکے سے شادی نہیں کرو گی۔”

"ہاں بابا، میں حماد سے شادی نہیں کروں گی۔”

اس بار سدی کے انکار پر سلیمی صاحب واقعتاً  آپے سے باہر ہو گئے۔ ” دیکھو سدی میں سیدھے سبھاؤ تم سے کہتا ہوں کہ میں میر صاحب کو زبان دے چکا ہوں۔ اب تمہیں ہر حال میں ان کے بیٹے سے شادی کرنا ہو گی ورنہ۔۔۔”

"ورنہ کیا۔۔۔؟ سدرہ نے باپ کے روبرو آتے ہوے کہا۔

"ورنہ۔۔” یہ کہہ کر انہوں نے سدی کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ والے کمرے کے اندر دھکیلا اور باہر کنڈی لگا کر تالہ لگا دیا۔

"ورنہ تم اس وقت تک یہاں قید رہو گی جب تک تم میر صاحب کے بیٹے سے شادی کے لیے ہاں نہیں کر دیتی۔ اور تب تک تمہارا کھانا پینا سب بند۔ اگر تمہاری ماں ، بہن یا بھائی نے تمہیں کھانا دینے کی کوشش کی تو ان کو بھی تمہارے ساتھ اس کمرے میں بند کر دوں گا۔” یہ کہہ کر انہوں نے تالے کی چابی جیب میں ڈالی اور پاوں چٹختے ، بغیر کچھ کھائے پئے ، باہر چلے گئے۔

اب بیٹی کمرے کے اندر قید تھی اور باہر اس کی ماں ، بہن اور بھائی رو رہے تھے اور اس سے درخواست کر رہے تھے کہ وہ حماد سے شادی کر لے۔ حماد اچھا لڑکا ہے۔ شکل و صورت کا اچھا ہے۔ پڑھا لکھا ہے۔ اچھے پیسے کماتا ہے۔ اور میر صاحب کی شہر میں ایک عزت ہے۔ سب لوگ ان کو جانتے ہیں۔ اور دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔ اگر وہ ہاں کر دے گی تو اس کے ابا کا غصہ کم ہو جائے گا۔ اور وہ تالہ کھول دیں گے۔ اور یہ مصیبت ٹل جائے گی۔

لیکن سدی اپنی ضد پر اڑی رہی۔ وہ بھی کمرے کے اندر دروازے کے پیچھے کھڑی رو رہی تھی لیکن یہی کہے جا رہی تھی کہ وہ مر جائے گی لیکن حماد سے شادی نہیں کرے گی۔

سلیمی صاحب بیٹی کو کمرے میں بند کر کے گھر سے چلے تو آئے تھے اور انہیں بیٹی کے میر صاحب کے بیٹے سے شادی سے انکار پر غصہ بھی آ رہا تھا لیکن ساتھ ہی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے پر ان کے دل میں مسلسل ٹیسیں بھی اٹھ رہی تھیں۔ انہوں نے جس محبت کے ساتھ اپنی دونوں بیٹیوں اور ایک بیٹے کو پالا تھا ان کے جاننے والوں میں اس کی مثال دی جاتی تھی۔

شاید ہی کبھی بچوں کی کوئی خواہش ہو گی جو انہوں نے پوری نہ کی ہو۔ خاص طور پر سدی ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی اور اس سے وہ بے پناہ محبت کرتے تھے۔

زندگی میں یہ پہلی بار تھا کہ انہوں نے اس کو ناراضگی سے کمرے میں اس طرح بند کیا تھا اور تالہ لگا کر گھر سے چلے آئے تھے۔

عام طور پر وہ بعد از شام گھر سے نکلتے تھے تو اپنے دوست ملک صاحب کے ریستورانٹ پر جا کر بیٹھ جاتے ، جہاں ان کے دوسرے دوست بھی آ جاتے اور اس وقت تک وہاں بیٹھے گپ شپ کرتے رہتے اور گھر نہ جاتے جب تک ملک صاحب ڈنر سے فارغ ہو کر رستورانٹ بند نہیں کر دیتے تھے۔

لیکن یہ پہلی بار تھی کہ ان کے قدم رستورانٹ کی طرف اٹھنے کی بجائے شہر کے وسط میں واقع نہر کی طرف جا رہے تھے۔ ان کا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ کسی سے ملیں یا بات کریں۔

ان کے سر میں سارا وقت میر صاحب کی ان کی دوکان پر آمد سے لے کر، ان کی بیٹی کا عاجزانہ اور محبت بھرے انداز میں اپنے بیٹے کے لیے ہاتھ مانگنا ، ان کے بیٹے حماد کا چہرہ، اور پھر گھر میں ہونے والی اپنی بیگم اور بیٹی سے گفتگو اور بیٹی کا حماد سے شادی کرنے کا صاف انکار اور پھر اسے کمرے میں بند کر کے تالا لگانا ایک ٹیپ کی طرح چل رہا تھا۔ وہ افسوس کے ساتھ سوچ رہے تھے اور مسلسل سوچے چلے جا رہے تھے کہ آخر سدرہ نے حماد سے شادی کرنے سے کیوں انکار کر دیا تھا۔ انہیں اس بات پر اور بھی تعجب تھا کہ آخر ایسی کیا بات تھی کہ اس نے سزا کے طور پر کمرے میں بند ہو جانا قبول کر لیا تھا لیکن اس سے شادی کی حامی نہیں بھری تھی۔

انہوں نے سوچا شاید اسے کوئی اور لڑکا پسند ہو جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہو اور اس نے انہیں کسی وجہ سے اعتماد میں نہ لیا ہو۔ لیکن انہیں کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں تھا کہ کبھی ان کی بیگم نے ان کے ساتھ ایسی کوئی بات کی ہو جس میں سدرہ کے کسی لڑکے کو پسند کرنے کا حوالہ ہو۔

وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں ہلکے ہلکے قدم اٹھاتے نہر کی طرف چل رہے تھے۔ ان کو سدرہ کی پیدائش سے لیکر اس روز انکار تک اس کی زندگی کے سب واقعات یاد آ رہے تھے۔

انہیں یاد آیا کہ جب وہ پیدا ہوئی تھی تو کتنی دیر تک وہ اسے اپنے بازوں میں تھام کراس کے ننھے منے ہاتھوں اور پیروں کو محبت سے چومتے رہے تھے۔

وہ جب بھی شام کو دوکان سے واپس لوٹتے تو وہ ہمک کر ان کے بازوں می آ جاتی اور وہ دیر تک اسے اٹھائے اس کے ساتھ محبت سے کھیلتے اور باتیں کرتے رہتے۔

اور پھر جب وہ اور ان کی بیگم پہلے دن اسے اسکول چھوڑنے گئے تھے تو کس طرح بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ گھر لوٹے تھے۔ تب ان کی بیگم نے انہیں تسلی دیتے ہوے کہا تھا کہ ابھی تو اسے اسکول چھوڑا ہے کسی دن ان کو اس کا ہاتھ کسی اجنبی کے ہاتھ میں تھمانا ہو گا تب وہ کیا کریں گے۔

سلیمی صاحب ان خیالات میں کھوئے تھے اور ادھر گھر میں سدرہ کا کمرے کے اندر اور اس کی ماں اور بہن اور بھائی کا کمرے سے باہر رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔

سدرہ کا بھائی شکیل ماں سے روتے ہوے کہہ رہا تھا کہ امی بابا بہت برے ہیں۔ انہوں نے دیدی کو کمرے میں بند کر دیا ہے اور رولایا ہے۔ میں کبھی ان سے بات نہیں کروں گا۔

بہن طاہرہ جو کہ سدرہ سے کئی سال چھوٹی تھی روتے ہوے ماں سے کہہ رہی تھی کہ ماں دیدی کو باہر نکالو ورنہ وہ اندر   ہی بھوک اور پیاس سے مر جائے گی۔

شکیل اور طاہرہ کی باتوں سے سدرہ اور اس کی ماں کے جذبات اور بھی بے قابو ہو رہے تھے۔

ماں اب بھی سدرہ سے کہہ رہی تھی کہ وہ فل الحال بابا سے ہاں کر دے وہ بعد میں انہیں سمجھا بجھا کر ان کو اپنا فیصلہ بدلنے کے لیے کہے گی۔ لیکن اس کے جواب میں سدرہ نے ایک ناں پکڑ رکھی تھی اور مسلسل روتے ہوے کہے جا رہی تھی کہ میں مر جاؤں گی لیکن حماد سے شادی نہیں کروں گی۔

اسکول چھوڑنے والے دن کا واقعہ یاد کر کے سلیمی صاحب کی آنکھیں پھر آنسوؤں سے نم ہو گئیں اور وہ چلتے چلتے سسکیاں بھرنے لگے۔ سدی جان میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی میں ایک ایسا دن بھی آئے گا کہ مجھے تمہارے ساتھ یہ سلوک کرنا پڑے۔ کاش میری زندگی میں یہ دن کبھی نہ آتا۔ کاش تم حماد کے ساتھ شادی کرنے سے اس طرح انکار نہ کرتی۔ کاش میں تمہارے ساتھ اس وقت تمہاری شادی کی بات نہ کرتا تو شاید یہاں تک نوبت نہ آتی کہ مجھے تمہیں اس طرح کمرے میں بند کر کے تالا لگانا پڑتا۔

جیسے جیسے شاید کی گھنٹی کی آواز ان کے ذہن میں تیز ہو رہی تھی ان کی آنکھوں کی نمی برکھا میں بدل گئی۔ مون سون کے بادل کی طرح روتے روتے ان کے قدم گھر نہر کی طرف جانے کی بجائے گھر کی طرف اٹھنے لگے۔

اسی حال میں وہ گھر پہنچے اور اپنے ہاتھوں سے تالا کھول کر بیٹی کو گلے سے لگایا تو بیٹی بھی رونا شروع ہو گئی۔ پھر روتے روتے بولی: بابا حماد مجھے بھی پسند ہے۔ میں بھی اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ میری اس سے بات بھی ہوئی تھی۔ لیکن۔۔۔۔

بولو بولو بیٹی لیکن کیا؟ ماں نے بے قراری سے پوچھا۔ بتاؤ ناں دیدی لیکن کیا؟ طاہرہ اور بھائی نے سدرہ سے لپٹتے ہوے کہا:

"لیکن یہ کہ وہ سگریٹ پیتا ہے اور مجھے سگرٹوں کی بو سے سخت نفرت ہے۔ میں نے اسے کہا تھا وہ سگریٹ پینا چھوڑ دے لیکن وہ کہتا ہے وہ مر جائے گا لیکن سگریٹ پینا نہیں چھوڑے گا۔ اس لیے میں بھی مر جاؤں گی لیکن اس سے شادی نہیں کروں گی۔ "

"اچھا یہ بات ہے "، سلیمی صاحب نے بیٹی کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوے کہا، ” تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ میں کل ہی میر صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہ حماد کے لیے کوئی اور لڑکی دیکھ لیں سدرہ کی شادی ان کے بیٹے سے نہیں ہو سکتی۔

"بابا آپ نے مجھے بتانے کا موقع ہی کب دیا تھا۔” سدرہ نے روتے ہوے جواب دیا۔

٭٭٭

 

آئینے میں قید لڑکی

دن چڑھے رشید کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی لڑکی اس کے آس پاس سسکیاں بھر رہی ہے۔

وہ اپنے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ اس لیے سسکیوں کی آواز پر اسے تعجب ہوا جو رفتہ رفتہ خوف بن کر اس کی ریح کی ہڈی میں سرسرانے لگا۔ اس نے سوچا اس کے علاوہ اس گھر میں اور کوئی موجود نہیں تو پھر یہ سسکیاں کون بھر رہا ہے ؟

اس نے اپنے کمرے کا بغور جائزہ لیا لیکن وہاں اس کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔

ڈرائنگ روم اور کچن کا جائزہ لیا وہاں بھی کوئی نہیں تھا لیکن سسکیوں کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔

آخر اس نے پوری توجہ سے سسکیوں کی آواز سن کر اس کے ماخذ تک پہنچنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ سسکیوں کی آواز اس کے کمرے اور باتھ روم کی مشترکہ دیوار پر آویزاں قد آدم آئینے سے آ رہی تھی۔

آئینے سے سسکیوں کی آواز آتے سن کر رشید کے ہوش و حواس خوف سے شل ہونا شروع ہو گئے۔ اس کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آئینے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے اور جاننے کی کوشش کرے کہ آخر آئنے سے سسکیوں کی آواز کیوں آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر تک خوف میں مبتلا رہنے کے بعد رشید کے حواس کچھ کچھ نارمل ہوے تو اس نے ہمت کر کے آئنے کی طرف دیکھا۔ اسے آئینے کے اندر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان لڑکی دکھائی دی جو زانوں پر سر نیوڑھائے بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔

آج سے پہلے جب بھی رشید نے آئینہ دیکھا اسے ہمیشہ آئینے میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ وہ روزانہ نہا دھوکر فارغ ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہونے سے پہلے قد آدم آئنے کے سامنے اپنے سراپا کا جائزہ لیتا۔

آج صبح جو وہ سو کر اٹھا، کمرے میں مسلسل آنے والی سسکیوں کی آواز نے اس کے روز مرہ کے معمولات منتشر کر دیے۔ اسے نہ باتھ روم جانا یاد رہا، نہ دانت صاف کرنا، نہ شیو بنانا، نہ غسل کرنا، اور نہ دفتر جانے کے لیے کپڑے تبدیل کرنا۔ اس کی ساری توجہ پہلے سسکیوں پر مرکوز تھی اور پھر آئینے میں بیٹھی، سفید کپڑوں میں ملبوس، زانوں پر سر رکھے بیٹھی خوبصورت لڑکی پر۔ وہ پریشان تھا کہ آخر آئینے میں بیٹھی لڑکی کون تھی، آئینے کے اندر کیسے پہنچی تھی۔ اور آئینے میں حقیقی عمق کے نہ ہونے کے باوجود وہ کیسے وہاں ایک جیتی جاگتی لڑکی کی طرح بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ ان سوالوں سے پریشان وہ ہمت کر کے آئینے کے سامنے پہنچا اور چند لمحوں تک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کراس لڑکی کی سسکیوں کی آواز سنتا رہا اور اسے پر تجسس نگاہوں سے دیکھتا رہا۔

وہ لڑکی اس کے وجود سے بے خبر اسی طرح زانوں پر سر جھکائے سسکیاں بھرتی رہی۔

وہ سوچتا رہا اس لڑکی سے بات کرے تو کیسے ؟اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائے تو کیسے ؟ وہ لڑکی آئینے کے اندر تھی اور اس تک اس کی آواز پہنچنا ممکن نہیں تھا۔

کچھ سوچ کر اس نے اپنی انگلیوں سے آئینے پر ٹھک ٹھک کی لیکن آئینے کے اندر لڑکی اسی طرح اس کی آمد سے بے خبر زانوں پر سر رکھے سسکیاں بھرتی رہی۔ لڑکی کا چہرہ زانوں میں چھپا ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک اس کی صورت نہیں دیکھ پایا تھا لیکن اس کے کومل بازوں اور پیروں سے اوپر تھوڑی سی نظر آتی سفید ٹانگوں اور سر کے چمکتے زندگی سے بھرپور سیاہ بالوں سے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک نوجوان لڑکی ہے جو آئینے میں قید ہے۔

اس کی سسکیوں کی آواز کا کنوار پن بھی اس کے اندازے کی تائید کر رہا تھا۔ اس کی آواز کی نرماہٹ اور رسیلا پن صاف بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی عورت پن سے دور ابھی نو عمری کی دہلیز پر کھڑی ہے

رشید کی اپنی عمر بھی ابھی زیادہ نہیں تھی۔ حال ہی میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ایک انٹرنیشنل کمپیوٹر کمپنی میں کام شروع کیا تھا۔ جس گھر میں وہ آئینے میں قید لڑکی کے روبرو کھڑا تھا یہ بھی کمپنی کا فراہم کردہ تھا۔ گھرکے علاوہ کمپنی نے اسے گاڑی بھی دے رکھی تھی جسے عام طور پر وہ کام پر آنے جانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔

گھر اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اسے اس طرح سے ڈیزائین کیا گیا تھا کہ یہاں رہنے والے کو زندگی کا تمام آرام میسر ہو اور وہ اپنے قیام سے لطف اندوز ہو سکے۔ گھر تقریباً تمام جدید سہولیات سے مزین تھا۔

گھر کے بیرونی گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ گیٹ کے اندر گاڑی پارک کرنے کی جگہ تھی۔ سامنے ڈرائنگ روم تھا۔ جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ڈائننگ روم تھا جو دیکھنے میں ڈرائنگ روم کا ہی حصہ دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ساتھ کچن اور کچن کے ساتھ آگے مختصر سے ہال وے کے بعد بیڈ روم تھا جس کے ساتھ ایک کشادہ باتھ روم تھا جسے گھر کا مکین اور ڈرائنگ روم میں آنے والے مہمان مشترکہ طور پر استعمال کر سکتے تھے۔

اسی جگہ خواب گاہ اور باتھ روم کی مشترکہ دیوار پر ہال وے میں آویزاں وہ آئینہ تھا جس میں قید وہ اجنبی لڑکی زانوؤں پر سر رکھے مسلسل سسکیاں لے رہی تھی۔

جب آئینے پر بار بار ٹھک ٹھک کرنے سے لڑکی رشید کی طرف متوجہہ نہ ہوئی تو اس نے ہمت کر کے لڑکی کو مخاطب کیا۔

"محترمہ آپ کون ہیں اور یہاں بیٹھی سسکیاں کیوں بھر رہی ہیں ؟”

آئینے پر ٹھک ٹھک کا جواب نہ دینے والی لڑکی نے رشید کا سوال سن لیا تھا۔ اس کے سوال پر اس نے سر اٹھا کر رشید کی طرف دیکھا تو اس کے حسن کی چمک سے رشید کے اوسان اس طرح خطا ہوے کہ وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔

آج تک اس نے اتنی خوبصورت، زندگی سے ایسی بھرپور نوجوان لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی۔

لڑکی نے بظاہر رشید کا سوال سن لیا تھا لیکن اس نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا۔

وہ یونہی بیٹھی، زانوؤں پر دونوں ہاتھ رکھے ، سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی دید میں ایک سحر تھا، ایک بات تھی، اور ایک راز تھا۔ آئینے میں قید تنہا نوجوان لڑکی جو تھوڑی دیر پہلے سسکیاں بھر رہی تھی اب خاموش بیٹھی گہری نظروں سے رشید کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔

رشید نے پھر اپنا سوال دہرایا:

” محترمہ آپ کون ہیں اور اس آئینے میں کیا کر رہی ہیں ؟ "

اس بار لڑکی رشید کا سوال سن کر آہستگی سے اپنے پیروں پراس طرح کھڑی ہوئی کہ رشید کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس کے لیے لڑکی کے خوبصورت سراپا کو نظر بھر دیکھنا ناممکن ہو گیا۔

” میں اس آئینے کی قیدی ہوں۔ ” لڑکی کے جواب کے کرب سے رشید سسکیاں بھرتے لگا۔

اب تک اس نے کئی طرح کے قیدی دیکھے تھے ، قیدیوں کی کہانیاں پڑھی تھیں لیکن آئینے کے کسی قیدی کے بارے میں نہ اس نے کبھی سنا نہ ایسے قیدی سے اس کا کبھی سامنا ہوا۔

"محترمہ میں اس بات کے ادراک سے قاصر ہوں کہ کوئی شخص آئینے میں قید ہو سکتا ہے۔ "

"ہاں جب تک میں آئینے میں قید نہیں ہوئی تھی یہ بات میرے ادراک سے بھی باہر تھی۔”

” لیکن اس آئینے کے اندر آپ کیسے پہنچیں۔؟”

رشید نے اظہار تعجب کرتے ہوے آئینے میں قید لڑکی کی صورت حال سمجھنے کی کوشش کی۔

"آپ چونکہ آئینے سے باہر ہیں اس لیے آپ آئینے کی اندر کی دنیا کا شعور حاصل نہیں کر سکتے۔ "

لڑکی نے رشید کا تعجب کم کرنے کے لیے جواب دیا۔

"لیکن محترمہ کیا آپ زندہ ہیں ؟” رشید نے مزید متعجب ہوتے ہوے سوال کیا۔

"آپ کا کیا خیال ہے ؟”

"مجھے تو آپ زندہ دکھائی دیتی ہیں۔ بلکہ زندگی اس طرح آپ کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہے کہ میرا جی چاہتا ہے میں آگے بڑھ کر آپ کو تھام لوں اور آپ کے وجود کو محسوس کروں۔”

"یہ آپ نہیں کر سکتے کیونکہ میرے اور آپ کے درمیان آئینہ حائل ہے۔ نہ میں آئینے سے باہر آ سکتی ہوں نہ آپ اس کے اندر آ سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ چاہنے کے باوجود میرے وجود کو تھام کر اس کا احساس نہیں کر سکتے۔” لڑکی نے مترنم آواز سے جواب دیا۔

آئینے میں قید لڑکی سے باتیں کرتے رشید کو وقت گزرنے کا کچھ احساس نہیں ہوا۔

وہ صبح اٹھنے کے بعد روز مرہ کے معمولات سے فارغ ہونے کے بعد دفتر جانے کی بجائے اسی طرح آئینے کے سامنے کھڑا اس لڑکی سے باتیں کر رہا تھا۔

اسی چکر میں نہ وہ دفتر گیا نہ دفتر کال کر کے اس نے کسی کو بتایا کہ وہ آج دفتر نہیں آئے گا۔

جیسے جیسے رشید آئینے میں قید لڑکی سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا۔

اس میں رشید کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ وہ تھی ہی اتنی جاذب نظر اور خوبصورت کہ اگر کوئی اور بھی اسے دیکھتا تو اسی طرح اس کے حسن میں گرفتار ہو جاتا۔

رشید اس سے ایک سوال کرتا تو وہ ایسے دلکش انداز میں اتنی سادگی کے ساتھ ایسا تہہ دار جواب دیتی کہ اس میں سے سو سوال اور جنم لیتے۔

آئینے میں قید لڑکی کے ساتھ انہی سوالوں اور جوابو ں میں رشید کے گھنٹے پہروں میں اور پہر دنوں میں تبدیل ہو گئے۔

اس کے کئی دن دفتر نہ جانے کی وجہ سے اس کے دفتر کے ساتھیوں کو اس کے بارے میں تشویش ہوئی۔ پہلے انہوں نے اس سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی- لیکن کئی دن تک اس سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے پولیس میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی۔

یہاں کئی راتیں اور دن گزرنے کے باوجود آئینے میں قید لڑکی اور رشید کے درمیاں سوالوں اور جوابوں کا ایک سلسلہ تھا جو پھیلتا چلا جا رہا تھا- نہ رشید کے سوال ختم ہو رہے تھے نہ آئینے میں قید لڑکی کے جواب۔

رشید اس سے سوال پر سوال کئے جا رہا تھا اور وہ انتہائی آرام سے اس کے سب سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔

اس کے چہرے پر نہ تھکن تھی اور نہ بوریت۔ رشید سے گفتگو کرنے کی وجہ سے اب اس کی سسکیاں بھی رک چکی تھیں۔ اور وہ رشید کے ساتھ گفتگو میں اس طرح مگن تھی جیسے وہ رشید کی زندگی کا حصہ ہو اور وہ اس کی زندگی کا۔

"آپ آئینے میں قید ہیں تو آپ کھاتی پیتی کیا ہیں ؟”

"آئینے کی قید ایک عجیب و غریب قید ہے۔ جیسے ہی ایک شخص اس قید میں پہنچتا ہے وہ کھانے پینے کے ضرورتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ نہ اسے بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔ نہ اسے تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ سونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ جس حالت میں ہوتا ہے اسی حالت میں رہتا ہے۔

میں اس وقت جیسی آپ کو نظر آ رہی ہوں۔ اس قید میں آتے وقت ایسی ہی تھی۔ یہی لباس زیب تن تھا۔ ایسے ہی بال بنے ہوے تھے۔ بالکل اب بھی اسی طرح ہوں جیسے یہاں لائی گئی تھی۔”

"لیکن آپ کب سے اس آئینے میں قید ہیں ؟ "

"مجھے وہ لمحہ صحیح طور پر یاد نہیں جب مجھے آئینے کی اس قید میں دھکیل دیا گیا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ رات کا وقت تھا۔ آسمان پر پورا چاند چمک رہا تھا۔ میں نے چاند کی طرف دیکھا اور چاند مجھے اچھا لگا۔ میں نے چاند کی طرف اپنے بازو پھیلا ے تا کہ اسے تھام لوں۔ عین اس لمحے مجھے اس قید میں دھکیل دیا گیا۔”

"اور تب سے اب تک آپ ویسی ہی ہیں جیسی اس قید میں آئی تھیں۔”

"ہاں۔ وقت کو اس آئینے کے اندر رسائی حاصل نہیں۔ اس لیے یہاں کسی چیز پر مرور ایام کا اثر نہیں ہوتا۔ گزرتے شب و روز کے اثرات اس آئینے  سے باہر کی چیزیں ہیں۔”

"اگر یہ بات ہے تو پھر آپ زانوؤں پرسر رکھے سسکیاں کیوں بھر رہی تھیں ؟”

"اسے آپ احساس تنہائی کہہ لیں یا اس قید سے نجات پانے کی خواہش۔”

"میں اس سلسلے میں آپ کی کیسے مد د کر سکتا ہوں ؟” رشید نے آئینے میں قید لڑکی سے پوچھا۔

"میری مدد کرنے کے لیے آپ کو آئینے کے اندر آنا ہو گا یا مجھے آئینے سے باہر۔ میں خود بخود آئینے سے باہر نہیں آ سکتی۔ یہاں سے مجھے باہر لے جانے کے لیے آپ کو آئینے کے اندر آنا ہو گا "

"لیکن میں آئینے کے اندر کیسے آ سکتا ہوں۔ اگر میں نے کسی طرح آئینے میں گھسنے کی کوشش کی تو آئینہ ٹوٹ جائے گا۔ اور آئینہ ٹوٹ گیا تو آپ آئینے کے ساتھ بکھر جائیں گی۔ نہیں۔ نہیں۔ یہ اچھا خیال نہیں۔ کسی طرح آپ کو آئینے سے خود باہر آنا ہو گا۔”

” میں آئینے میں قید ہوں۔ قیدی کو قید سے باہر آنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی کو اسے قید سے رہائی دلانی پڑتی ہے۔ اگر میں خود رہا ہو سکتی تو آپ مجھے یہاں سسکیاں بھرتے نہ پاتے۔ اس لیے آپ کسی طرح آئینے کے اندر آنے کی ترکیب کریں۔ اور مجھے اپنے ساتھ یہاں سے باہر نکال لے جائیں۔” لڑکی نے رشید سے التجا کی۔

” لیکن آپ یہ بھی تو بتائیں کہ میں آئینے کے اندر آؤں کیسے ؟”

"کاش میں یہ جانتی کہ آپ آئینے کے اندر کیسے آ سکتے ہیں۔ لگتا ہے آئینے کی قید سے رہائی میری قسمت میں نہیں۔ اور پھر وہ ہلکے ہلکے دوبارہ سسکیاں بھرنے لگی۔”

"نہیں۔ نہیں۔ پلیز آپ دوبارہ سسکیاں نہ بھریں۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ ” یہ کہہ کر وہ اٹھا اور آئینے کے اندر جانے کی تدبیر کرنے لگا۔

یہاں رشید اور آئینے میں قید لڑکی انہی تدبیروں میں گم تھے اور ادھر پولیس رشید کی بازیابی کے لیے اسے ادھر ادھر ڈھونڈھنے سے تھک کر اس کے گھر پہنچی تا کہ وہاں سے اس کی گمشدگی کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کر سکے۔

پولیس افسر بہت دیر تک اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے۔ جب کسی نے گھر کے اندر سے جواب نہیں دیا تو وہ دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔

گھر میں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے گھر میں ہر جگہ کوئی نشان ڈھونڈھنے کی کوشش کی جس سے انہیں کوئی نقطہ آغاز مل سکے۔ لیکن انہیں کہیں کوئی نشان نہ ملا۔

تھک ہار کر جانے لگے تو ایک پولیس افسر کی باتھ روم اور خواب گاہ کی مشترکہ دیوار پر آویزاں قد آدم آئینے پر نظر پڑی۔ اس نے دیکھا آئینے پر چند قدموں کے نشاں تھے جو کہیں نہیں جا رہے تھے۔

٭٭٭

ماخذ:

یاہو گروپ رائٹرس فورم سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید