FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سنن نسائی

 

 

               امام ابو نسائی

 

جلد اول

 

 

 

تذکرہ امام نسائی

 

ولدیت اور نام و نسب : امام موصوف کا سلسلہ نسب اس طرح ہے:نام احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحرین دینار نسائی خراسانی، ابو عبدالرحمن کنیت ہے،لقب حافظ الحدیث ہے۔سن ولادت ٢١٤ھ (اور کچھ کی رائے میں ٢١٥ھ ) مذکور ہے۔ امام کی ولادت نساء شہر میں ہوئی، اسی وجہ سے نسائی مشہور ہیں۔

زبردست قوت حافظہ: امام نسائی کو اللہ عز و جل نے غیر معمولی قوت حافظہ سے مالا مال کیا تھا حضرت امام ذہبی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ سے دریافت کیا کہ امام مسلم اور امام نسائی میں سے حدیث کا زیادہ حافظ کون ہے ؟تو فرمایا: امام نسائی

اساتذہ اور اشتیاق طلب حدیث: امام نسائی نے طلب حدیث کے لیے حجاز،عراق،شام،مصر وغیرہ کا سفر کیا اور اپنے دور کے مشائخ عظام سے استفادہ فرمایا۔ آپ کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ آپ نے ١٥ برس کی عمر ہی سے تحصیل علم کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ کے نامور اساتذہ کرام میں سے امام بخاری،امام ابوداؤد،امام احمد،امام قتیبہ بن سعید،وغیرہ معروف ہیں۔

اس کے علاوہ امام بخاری کے توسط سے آپ کے اساتذہ کا سلسلہ سراج الائمہ،امام اعظم ،سرتاج الاولیاء ابوحنیفہ بن نعمان بن ثابت سے بھی جا ملتا ہے،جس کا تذکرہ یہاں باعث طوالت ہو گا۔

 

تصانیف

امام نسائی نے مجاہد و ریاضت اور زہد و ورع کے ساتھ ساتھ جہاد ایسی مصروفیات کے باوجود متعدد کتب تصنیف کیں،جن کا اجمالی ذکر یوں ہے:السنن الکبریٰ ،المجتبیٰ ،خصائص علی، مسند علی ،مسند مالک،کتاب التمیز،کتاب المدلسین،کتاب الضعفاء،کتاب الاخوۃ،مسند منصور،مسیخۃ النسائی،اسماء الرواۃ ،مناسک حج

 

اہمیت و خصوصیت ’’سنن نسائی‘‘

علامہ سیوطی فرماتے ہیں کہ ذخیرہ احادیث میں یہ بہترین تصنیف ہے۔ اس سے قبل ایسی کتاب موجود نہ تھی۔علامہ سخاوی فرماتے ہیں: بعض علماء سنن نسائی کو روایت و درایت کے اعتبار سے صحیح بخاری سے افضل گردانتے ہیں۔ ابن رشید تحریر کرتے ہیں۔جس قدر کتب حدیث سنن کے انداز پر مرتب کی گئی ہیں ،ان میں سے سنن نسائی صفات کے اعتبار سے جامع تر تصنیف ہے کیونکہ امام نسائی نے امام بخاری اور امام مسلم کے انداز کو مجتمع کر دیا ہے۔

 

وفات حسرت آیات

امام نسائی کی وفات حسرت آیات کا واقعہ یہ ہے کہ جس وقت امام حضرت علی کرم اللہ وجہ اور دیگر حضرات اہل بیت کے فضائل و مناقب تحریر فرما کر فارغ ہو گئے تو امام نے چاہا کہ میں یہ فضائل و مناقب (دمشق کی جامع مسجد میں ) پڑھ کر سناؤں تاکہ لوگ فضائل اہل بیت سے واقف ہوں۔چنانچہ ابی اپنی تحریر کا کچھ حصہ ہی پڑھا تھا کہ مجمع میں سے ایک شخص نے دریافت کیا: آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ تحریر فرمایا ہے؟امام نسائی نے جواباً فرمایا: وہ اگر برابر ہی چھوٹ جائیں جب بھی غنیمت ہے۔(یعنی امیر معاویہ کے مناقب کی ضرورت نہیں ) یہ بات سنتے ہی لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کو شیعہ،شیعہ کہہ کر مارنا شروع کر دیا اور اس قدر مارا کہ بے ہوش ہو گئے،لوگ ان کو گھر لے آئے۔جب ہوش آیا تو فرمایا: مجھ کو لوگ مکہ مکرمہ پہنچا دو چنانچہ مکہ معظمہ پہنچا دیا گیا اور وہیں امام موصوف کی وفات ہوئی اور صفا اور مروہ کے درمیان تدفین ہوئی۔سنہ وفات ماہ صفر ٣٠٣ھ ہے۔

بہر حال امام موصوف کی یہ عظیم تصنیف آج عالم اسلام کی ہر ایک دینی درسگاہ میں دورہ حدیث میں داخل شامل نصاب ہے اور اپنی انفرادی اور امتیازی خصوصیت اور طرز نگارش کے اعتبار سے بلاشبہ بخاری و مسلم کی طرح اہمیت سے پڑھائی جانے کے درجہ میں ہے۔

اگر قارئین امام موصوف کے مزید حالات جاننے کے مشتاق ہوں تو بستان المحدثین ،نزہۃ الخواطر،مبادیات حدیث،کشف الظنون وغیرہ کتب کا مطالعہ بے حد نافع رہے گا۔

 

 

روزوں سے متعلقہ احادیث

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابو صالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ

 

ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عطاء، ابو صالح، زیات، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انسان کا تمام کام اس کے ہی واسطے ہوتا ہے لیکن روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ لغو اور بے ہودہ بات نہ بولے۔ نہ غیبت کرے نہ شور مچائے اور نہ ہی چیخ و پکار کرے اور اگر اس کو کوئی شخص گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اس طرح سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ روزہ رکھنے والے شخص کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس وقت کہ جس وقت کہ وہ روزہ کھولتا ہے روزہ افطار کرنے سے اور دوسری خوشی اس کو اس وقت حاصل ہو گی کہ جس وقت کہ وہ خداوند قدوس سے ملاقات کرے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، سوید، عبد اللہ، ابن جریج، عطاء بن ابی رباح، عطاء زیاد وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انسان کا تمام کام اس کے ہی واسطے ہوتا ہے لیکن روزہ میرا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ ڈھال ہے جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ لغو اور بے ہودہ بات نہ بولے۔ نہ غیبت کرے نہ شور مچائے اور نہ ہی چیخ و پکار کرے اور اگر اس کو کوئی شخص گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو اس طرح سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشبہ روزہ رکھنے والے شخص کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس وقت کہ جس وقت کہ وہ روزہ کھولتا ہے روزہ افطار کرنے سے اور دوسری خوشی اس کو اس وقت حاصل ہو گی کہ جس وقت کہ وہ خداوند قدوس سے ملاقات کرے گا۔ یہ حدیث ابو ہریرہ و سعید بن مسیب سے بھی مروی ہے

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا انسان کا ہر کام اس کے ہی واسطے ہے لیکن روزہ میرے ہی واسطے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا اور اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بدبو خداوند قدوس کے نزدیک مشک (اور عنبر وغیرہ) کی خوشبو سے بہتر ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عیسی، ابن وہب، عمرو، بکیر، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ارشاد خداوندی ہے کہ انسان کو ہر ایک نیک عمل کا بدلہ دس نیک عمل کا ثواب ملے گا لیکن روزہ صرف میرے ہی واسطے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔

 

حضرت ابو امامہ کی حدیث حضرت محمد بن ابی یعقوب پر اختلاف

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن، مہدی بن میمون، محمد بن عبداللہ بن ابو یعقوب، رجاء بن حیوٰۃ، ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ مجھ کو ایک کام کا حکم فرمائیں جس کو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حاصل کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم روزہ کو اختیار کرو اس کے برابر کوئی (دوسری عباد ت) نہیں ہے۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، جریر بن حازم، محمد بن عبداللہ بن ابو یعقوب، رجاء بن حیوٰۃ، ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اس طریقہ کا کام ارشاد فرمائیں کہ جس سے خداوند قدوس مجھ کو نفع عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم روزہ اپنے ذمہ لازم کر لو اس کے برابر کوئی (دوسرا) کام نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد ضعیف شیح صالح و ضعیف، یعقوب حضرمی، شعبۃ، محمد بن عبداللہ بن ابو یعقوب، ابو نصرۃ، رجاء بن حیوٰۃ، ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کونسا کام افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کے عوض اور اس کے برابر کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔

 

 

٭٭ یحیی بن محمد، ابن سکین ابو عبید اللہ، یحیی بن کثیر، شعبۃ، محمد بن ابو یعقوب ضبی، ابو نصر ہلالی، رجاء بن حیوٰۃ، ابو امامۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کسی کام کے کرنے کا حکم فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم روزہ رکھا کرو اس کے برابر کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن سمرۃ، محاربی، فطر، حبیب بن ابو ثابت، حکم بن عتیبۃ، میمون بن ابو شبیب، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، یحیی بن حماد، ابو عوانہ، سلیمان، حبیب بن ابی ثابت، حکم، میمون بن ابی شبیب، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، حکم، عروٰۃ بن نزال، معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روزہ ڈھال ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجا ج،شعبہ رضی اللہ عنہ وہ فرماتے ہیں کہ حکم نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث سابق کی طرح روایت منقول ہے

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عطاء، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روزہ ڈھال ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، سوید، عبد اللہ، ابن جریج، عطاء، عطاء زیات، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے (گناہوں سے )

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، سعید بن ابو ہند، مطرف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جو کہ عامر بن صعصہ کی اولاد میں سے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا تو عثمان بن عاص نے ان کے پلانے کے واسطے دودھ منگوایا۔ انہوں نے جواب دیا میرا تو روزہ ہے۔ اس پر عثمان نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے روزہ ڈھال ہے جس طریقہ سے تمہارے میں سے کسی شخص کے پاس جنگ کی ڈھال ہوتی ہے۔

 

 

٭٭ علی بن حسین، ابن ابو عدی، ابن اسحاق، سعید بن ابو ہند، مطرف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن عثمان بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے دودھ منگایا۔ میں نے کہا میرا روزہ ہے۔ انہوں نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے روزہ ڈھال ہے دوزخ کی آگ سے۔ جس طریقہ سے کہ تم میں سے کسی شخص کے پاس جنگ(سے محفوظ رہنے کی) ڈھال ہوتی ہے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، ابو مصعب، مغیرہ، عبداللہ بن سعید بن ابی ہند، محمد بن اسحاق، سعید بن ابی ہند رضی اللہ عنہ سے بھی سابق حدیث کی مثل مروی ہے

 

 

٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، واصل، بشار بن ابو سیف، ولید بن عبدالرحمن، عیاض بن غطیف، ابو عبیٍدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے سنا کہ روزہ ڈھال ہے جس وقت کہ اس کو نہ پھاڑے (مراد یہ ہے کہ جس وقت تک کسی کی غیبت نہ کرے یا جب تک خلاف شرح کام نہ کرے یا جھوٹ بات نہ بولے کیونکہ اس سے روزہ اس طریقہ سے بگڑ جاتا ہے جس طریقہ سے کہ ڈھال پھٹ جاتی ہے اور برباد ہو جاتی ہے )

 

 

٭٭ محمد بن یزید الادمی، معن، خارجۃ بن سلیمان، یزید بن رومان، عروٰۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روزہ ڈھال ہے آگ سے (یعنی روزہ انسان کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا (اور جو کوئی شخص صبح میں روزہ رکھ کر اٹھے اور وہ کسی قسم کی جہالت نہ کرے اگر کوئی شخص اس سے جہالت کرے تو وہ گالی نہ دے (اور برا نہ کہے ) بلکہ اس طریقہ سے کہہ دے کہ میرا روزہ ہے اور اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان ہے البتہ روزہ دار شخص کی منہ کی بدبو خداوند قدوس کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ پسند ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، مسعر، ولید بن ابو مالک، اصحاب، ابو عبیٍدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جس وقت تک کہ اس کو کوئی شخص (گناہ کر کے ) نہ پھاڑ ڈالے

 

 

٭٭ علی بن حجر، سعید بن عبدالرحمن، ابو حازم، سہل بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روزہ رکھنے والوں کے واسطے جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو کہ ریان کہا جاتا ہے اس دروازہ میں کوئی نہیں داخل ہو گا علاوہ روزے داروں کے اور جس وقت تمام روزہ دار یہاں تک کہ آخری آدمی اس میں داخل ہو گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا جو کوئی اس میں داخل ہو گا تو وہ وہاں کے پانی کو پی لے گا اور جو شخص پئے گا تو وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، یعقوب، ابو حازم، سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت کے دن آواز دی جائے گی کہ روزہ رکھنے والے کس جگہ ہیں تم لوگ ریان (جو کہ روزہ داروں کے داخل ہونے کا دروازہ ہے ) اس کی طرف آتے ہو۔ جو اس شخص اس میں داخل ہو گا تو وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا جس وقت کے تمام کے تمام لوگ اس میں داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا پھر دوسرا کوئی شخص اس میں داخل نہ ہو گا۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح و حارث بن مسکین، ابن وہب، مالک و یونس، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں جوڑا صدقہ کرے (یعنی دو اشرفی دو روپے پیسے یا دو گھوڑے یا دو کپڑے وغیرہ یا دو غلام صدقہ کرے ) تو جنت میں پکارا جائے گا اے بندہ خدا یہ تیرا نیک عمل ہے۔ تو جو شخص نمازی ہو گا تو وہ نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص جہادی ہو گا تو وہ شخص جہاد کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو شخص صدقہ دینے والا ہو گا تو وہ شخص صدقہ کے دروازہ سے پکارا جائے گا اور جو شخص روزہ دار ہو گا تو وہ شخص روزہ کے دروازے سے پکارا جائے گا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کوئی روزہ داروں میں سے پکارا اور بلایا جائے گا اس کو کس قسم کی تکلیف ہو گی اور کوئی شخص اس قسم کا ہو گا کہ جس کو کہ تمام ہی دروازوں سے آواز لگائی جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! اور مجھ کو اس بات کی توقع ہے کہ تم لوگ اسی طرح کے لوگوں میں سے ہوں گے (وہ خوش قسمت لوگ تم ہی ہو)۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو احمد، سفیان، اعمش، عمارۃ بن عمیر، عبدالرحمن بن یزید، عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نکلے اور ہم لوگ نوجوان تھے اور ہم لوگوں میں (شہوت کے دبانے کی) طاقت نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے جوانوں کے گروہ! اور اے جوانوں کی جماعت! تم لوگ نکاح کر لو کیونکہ نکاح کرنے سے انسان کی نگاہ نیچی رہتی ہے (یعنی نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے عام طور سے انسان محفوظ رہتا ہے اور انسان کی شرم گاہ زنا سے بچ جاتی ہے ) اور جو شخص نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہو وہ شخص روزے رکھ لے کیونکہ روزہ سے شہوت جاتی ہے۔

 

 

٭٭ بشر بن خالد، محمد بن جعفر، شعبۃ، سلیمان، ابراہیم، علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے (مقام) عرفات میں ملاقات ہوئی اور تنہائی میں ان سے گفتگو کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا میں تمہارا نکاح ایک نوجوان خاتون سے کر دوں ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور یہ حدیث شریف بیان فرمائی کہ تمہارے میں سے جو کوئی نکاح کرنے کی طاقت رکھے تو وہ شخص نکاح کرے یہ اس کی نظر کی حفاظت کرے گا) یعنی نامحرم عورت کو دیکھنے سے محفوظ رہے گا) اور شرم گاہ کو اچھا رکھے گا اور جو کوئی نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص روزہ رکھے روزہ اس کو خصی بنا دے گا۔

 

 

٭٭ ہارون بن اسحاق ، محاربی، اعمش، ابراہیم، علقمۃ واسود، عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے جو کوئی نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ نکاح کرے جس میں اس قدر طاقت نہ ہو تو وہ شخص روزہ رکھے روزہ اس کو خصی بنا دے گا۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء بن ہلال، وہ اپنے والد سے ، علی بن ہاشم، اعمش، عمارۃ، عبدالرحمن بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم لوگ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس وقت ہم لوگوں کے ساتھ حضرت اسود رضی اللہ عنہ اور حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ان حضرات نے ایک حدیث نقل فرمائی۔ میرا خیال ہے کہ وہ حدیث میرے ہی واسطے بیان فرمائی۔ اس لیے کہ میں ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ کم عمر تھا۔ (وہ حدیث یہ ہے ) کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے نوجوانوں کی جماعت! تم لوگوں میں سے جو شخص نکاح کرنے کی طاقت رکھے تو اس کو چاہیے کہ وہ شخص نکاح کرے کیونکہ نکاح کرنا انسان کی نظر کو (گناہوں سے ) باز رکھتا ہے اور شرم گاہ کو اچھا رکھتا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، یونس، ابو معشر، ابراہیم، علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس تھا اور وہ اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جوان عورت کے پاس سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے جو کوئی قدرت نکاح رکھتا ہو تو اس کو چاہیے کہ نکاح کر لے اس لیے کہ نکاح انسان کی نظر کو باز رکھتا ہے (یعنی نامحرم کو دیکھنے سے حفاظت رہتی ہے ) اور شرم گاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو شخص اس قدر طاقت نہ رکھے تو وہ روزہ رکھے روزہ اس کو خصی (شہوت کو کم) کر دے گا۔ امام نسائی نے فرمایا اس حدیث شریف میں جو راوی ابو معشر ہیں ان کا نام زیاد بن کلیب ہے اور وہ ثقہ ہیں اور وہ راوی ابراہیم نخعی کے رفقاء میں سے تھے اور ان سے ہی روایت منضور مغیرہ اور شعبہ نے نقل کی اور ایک راوی ابو معشر مدینہ منورہ کے باشندہ ہیں ان کا نام نجیح ہے اور ایک ضعیف راوی ہیں اور انہوں نے ضعیف روایات نقل کرنے کے ساتھ ساتھ منکر احادیث بھی ساتھ شامل کر لی اور ان راوی کی منکر احادیث (اور ضعیف روایات) میں سے ایک روایت وہ ہے کہ جو انہوں نے محمد عمرو سے روایت کی اور انہوں نے حضرت ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے اور ایک روایت وہ ہے جو کہ حضرت ہشام بن عروہ سے روایت کی اور انہوں نے اپنے والد صاحب سے اور انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ گوشت کو چاقو چھری سے مت کاٹو لیکن اس کو نوچ کر کھاؤ۔

 

ماہ رمضان المبارک کو صرف رمضان کہنے کی اجازت سے متعلق

 

عمران بن یزید بن خالد، شعیب، ابن جریج، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انصاری خاتون سے ارشاد فرمایا جس وقت ماہ رمضان المبارک آئے تو اس میں عمرہ کرو کیونکہ ماہ رمضان المبارک میں ایک عمرہ ادا کرنا حج کے برابر ہے۔

 

اگر چاند کے دیکھنے میں ملکوں میں اختلاف ہو

 

علی بن حجر، اسماعیل، محمد، ابن ابو حرملۃ، کریب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام فضل نے ان کو معاویہ بن ابی سفیان کی خدمت میں ملک شام بھیجا انہوں نے کہا کہ میں شام میں آیا اور ان کا کام مکمل کیا اس دوران رمضان کا چاند نظر آیا اور میں ملک شام میں ہی تھا تو میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھ لیا پھر میں مدینہ منورہ میں ماہ رمضان المبارک کے آخر میں حاضر ہوا۔ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا اور چاند کا تذکرہ فرمایا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے کہا کہ ہم نے چاند جمعہ کی رات میں دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم نے جمعہ کی رات کو دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں اور دوسرے لوگوں نے بھی چاند دیکھا ہے اور سب نے روزہ رکھ لیا اور حضرت معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات میں دیکھا اور مسلسل روزے رکھے جائیں گے۔ یہاں تک کہ تیس دن مکمل ہوں یا چاند نظر آئے۔ میں نے کہا کہ تم معاویہ اور ان کے لوگوں کے چاند دیکھنے میں خیال نہ کرو گے۔ انہوں نے کہا نہیں۔ ہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طریقہ سے حکم فرمایا ہے۔

 

رمضان کے چاند کے لئے ایک آدمی کی گواہی کافی ہے

 

محمد بن عبدالعزیز بن ابو رزمۃ، فضل بن موسی، سفیان، سماک، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے اور بھیجے ہوئے ہیں اس نے عرض کیا۔ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان کرا دیا کہ تم لوگ روزے رکھو۔

 

 

٭٭ موسی بن عبدالرحمن، حسین، زائدۃ، سماک، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ایک دیہاتی شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں نے رات میں چاند دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی سچا پروردگار نہیں ہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندہ ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے ہیں (یعنی اس کے رسول ہیں )؟ اس نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ کل روزہ رکھ لیں۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو داؤد، سفیان، عکرمہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت منقول ہے

 

 

٭٭ محمد بن حاتم بن نعیم مصیصی، حبان بن موسیٰ مروزی، عبد اللہ، سفیان، سماک، عکرمہ رضی اللہ عنہ سے بھی سابق حدیث ہی کی طرح مروی ہے

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، سعید بن شعیب، ابو عثمان، ابو زائدۃ، حسین بن حارث، عبدالرحمن بن زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شک والے دن خطبہ پڑھا (یعنی جس روز شبہ تھا کہ یہ پہلی تاریخ ہے یا مزبہ ہو گیا ہے ) تو انہوں نے کہا میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام کی صحبت میں گیا اور ان سے دریافت کیا انہوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نقل کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اور اس طریقہ سے حج میں عمل کرو اگر آسمان پر ابر ہو تو تم لوگ تیس روزے پورے کر لو البتہ اگر دو آدمی چاند کے دیکھنے کی بشارت دیں جس وقت آسمان ابرآلود ہو تو روزے رکھو یا چھوڑ دو۔

 

اگر فضا ابر الود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرنا اور حضرت ابو ہریرہ سے نقل کرنے والوں کا اختلاف

 

مومل بن ہشام، اسماعیل، شعبۃ، محمد بن زیاد، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے بند کر دو اگر بادل ہوں تو تیس دن پورے کر لو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، وہ اپنے والد سے ، ورقاء، شعبۃ، محمد بن زیاد، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے بند کر دو اگر بادل ہوں تو تیس دن مکمل کر لو۔

 

 

اس حدیث شریف میں راوی زہری کے اختلاف سے متعلق

 

محمد بن یحیی بن عبداللہ نیسابوری، سلیمان بن داؤد، ابراہیم، محمد بن مسلم، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ چاند دیکھ لو تو روزے رکھو پھر جس وقت چاند دیکھ لو تو روزے بند کر دو اگر بادل ہو جائیں تو تیس دن روزے رکھ لو۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس وقت چاند دیکھ لو تو روزے رکھو اور جس وقت چاند دیکھ لو تو روزے بند کر دو اگر بادل آ جائے تو اندازہ کر لو۔ یعنی تیس دن مکمل لو۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماہ رمضان سے متعلق بیان فرمایا تو ارشاد فرمایا جس وقت تک چاند نہ دیکھ لو اس وقت تک روزے نہ رکھو اور جس وقت چاند نہ دیکھ لو تو اس وقت تک روزے رکھنا بند نہ کرو اگر مطلع ابر آلود ہو تو اندازہ کر لو۔

 

اس حدیث شریف میں عبید اللہ کے راویوں سے اختلاف سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی، عبید اللہ، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ روزے نہ رکھو۔ یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور روزے بند نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اگر مطلع ابر آلود ہو جائے تو اس کا اندازہ کر لو۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن علی صاحب، ابو بکر بن ابو شیبہ ، محمد بن بشر، عبید اللہ، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاند کا تذکرہ کیا تو ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ چاند دیکھ لو تو روزے رکھو اور جس وقت پھر چاند دیکھو تو روزے موقوف کر دو اگر مطلع ابرآلود ہو تو تیس دن پورے کر لو۔

 

حضرت ابن عباس کی حدیث میں حضرت عمرو بن دینار پر راویوں کے اختلاف کا بیان
احمد بن عثمان، ابو جوزاء، ثقۃ بصری، ابو عالیٰۃ، حبان بن ہلال، حماد بن سلمہ، عمرو بن دینار، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے بند کر دو اگر بادل ہو جائے تو تیس دن شمار کر لو (یعنی ایسی صورت میں تیس دن روزے رکھو)۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، عمرو بن دینار، محمد بن حنین، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ انہوں نے کہا کہ میں حیرت کرتا ہوں اس شخص پر جو کہ مہینہ ہونے سے قبل روزے رکھتا ہے حالانکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ چاند دیکھو تو تم لوگ روزے رکھو اور جس وقت چاند دیکھ لو روزے بند کر دو اگر بادل ہو تو تیس دن پورے شمار کر لو۔

 

 

حضرت منصور پر ربعی کی روایت میں راویوں کے اختلاف سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ربعی بن حراش، حذیفۃ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ ماہ رمضان المبارک کے آگے تک جس وقت تک چاند نہ دیکھ لو تو روزے نہ رکھو یا جب تک تم لوگ ماہ شعبان کے تیس دن مکمل نہ کر لو۔ پھر روزے رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو یا تیس دن روزے مکمل کر لو۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، ربیعی، بعض اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ رمضان المبارک کے آگے تک روزے نہ رکھو جس وقت تک کہ گنتی (یعنی 30 کی گنتی) پوری نے کر لو یا تم لوگ چاند نہ دیکھ لو تو روزے رکھو اور موقوف نہ کرو روزوں کو جس وقت تک تم لوگ چاند نہ دیکھ لو یا گنتی پوری کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، حجاج بن ارطاٰۃ، منصور، ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ چاند دیکھو تو روزے رکھو اور جس وقت چاند پھر دیکھو تو روزے بند کر دو۔ اگر چاند (بادل میں ) چھپ جائے تو شعبان کے 30 روز مکمل کر لو مگر جس وقت چاند اس سے پہلے دیکھ لو پھر رمضان المبارک کے 30 روزے رکھو مگر یہ کہ چاند اس سے پہلے دیکھو۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل بن ابراہیم، حاتم بن ابو صغیرۃ، سماک بن حرب، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے بند کر دو اگر تم لوگوں کے اور چاند کے درمیان میں بادل آ جائے تو 30 روز کا عدد پورا کر لو اور مہینے سے آگے روزے نہ رکھو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو احوص، سماک، عکرمۃ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رمضان المبارک سے قبل تم لوگ روزے نہ رکھو (ایک دو دن کے استقبال کے واسطے ) بلکہ تم لوگ چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے رکھنا بند کر دو اور اگر بادل ہو جائے تو تم لوگ تیس روز مکمل کر لو۔

 

مہینہ کتنے دن کا ہوتا ہے اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ میں حضرت زہری پر راویوں کے اختلاف سے متعلق

 

نصر بن علی جہنی، عبدالاعلی، معمر، زہری، عروٰۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھائی کہ ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن تک ٹھہرے رہے (یعنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں تشریف لے گئے ) آپ نے یہی فرمایا قسم کھائی تھی ایک ماہ کے لیے اور شمار سے ابھی دن ہوئے ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، عمی، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن ابو ثور، عمرو بن منصور، حکم بن نافع، شعیب، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن ابو ثور، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو اس بات کا بہت شوق تھا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان ازواج مطہرات کے بارے میں دریافت کروں جن کا تذکرہ خداوند قدوس نے اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے یعنی اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو تمہارے لیے بہتر ہے ) اس لیے کہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں پھر حدیث کو آخر تک نقل کیا گیا اور فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ دیا جو کہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ظاہر کر دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دو راتوں تک حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ان خواتین کے نزدیک نہیں جاؤں گا ایک ماہ تک کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سخت ناراضگی تھی ان پر لیکن جس وقت خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کی حالت بتلائی جس وقت راتیں گزر گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے فرمایا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسم کھائی تھی ایک ماہ تک نہ آنے کی اور ابھی 29 تاریخ کی صبح ہوئی ہے ہم لوگ شمار کرتے جاتے تھے (یہ سن کر) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔

 

اس سلسلہ میں حضرت ابن عباس کی حدیث سے متعلق

 

عمرو بن یزید، ابو یزید جرمی بصری، بہز، شعبۃ، سلمہ، ابو حکم، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک روز میرے پاس جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے انہوں نے فرمایا کہ مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، سلمہ، سلمہ، ابو حکم، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔

 

حضرت سعد بن مالک کی روایت میں حضرت اسمعیل سے اختلاف

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بشر، اسماعیل بن ابو خالد، محمد بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ مبارک دوسرے ہاتھ پر مارا اور ارشاد فرمایا کہ مہینہ یہ ہے یہ ہے یہ ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخر میں ایک انگلی کم کر لی (مطلب یہ ہے کہ 29 دن کا)۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، اسماعیل، محمد بن سعد، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مہینہ اس طرح اور اس طرح کاہے یعنی مہینہ 29 روز کا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، محمد بن عبید، اسماعیل، محمد بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مہینہ یہ ہے اور یہ ہے اور یہ ہے راوی نے انگلیوں سے بتلایا اور پھر راوی محمد عبید نے تیسری مرتبہ میں بائیں انگوٹھا کو بند کر لیا مطلب یہ ہے کہ 29 دن کا۔

 

حضرت ابو سلمہ کی حدیث میں یحییٰ بن ابی کثیر پر اختلاف

 

ابوداؤد، ہارون، علی، ابن مبارک، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مہینہ دن کا ہوتا ہے اور مہینہ 30 دن کا بھی ہوتا ہے اس وجہ سے جس وقت تم چاند دیکھ لو تو تم لوگ روزے رکھنا شروع کر دو اور اس کو دیکھنے پر ہی موقوف کیا کرو یعنی اگر موسم گرد الود ہو تو تم 30 دن مکمل کر لو۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، محمد، معاویہ، احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان بن سعید، معاویہ، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ، عبد اللہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مہینہ 30 دن کا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، اسود بن قیس، سعید بن عمرو، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم لوگ امی (یعنی بے پڑھی لکھی) امت ہیں اور ہم نہ تو لکھتے ہیں اور نہ ہی ہم لوگ حساب کتاب کرتے ہیں مہینہ اس طرح اور اس طرح کاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مہینہ کے 29 روز شمار فرمائے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی و محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، اسود بن قیس، سعید بن عمرو بن سعید بن ابو عاص، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم لوگ امی امت ہیں۔ نہ حساب کرتے ہیں نہ لکھتے ہیں۔ مہینہ یہ ہے اور یہ ہے اور تیسری مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگوٹھے کو بند فرما لیا اور مہینہ یہ ہے اور یہ اور یہ پورے تیس ارشاد فرمائے۔ یعنی کبھی مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، جبلۃ بن سحیم، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مہینہ یہ ہے اور حضرت شعبہ نے حضرت جبلہ بن صحیم سے نقل فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے اس طریقہ سے کہ دوسری مرتبہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اشارہ فرمایا اور تیسری مرتبہ میں ایک انگلی بند کر لی۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد، شعبۃ، عقبہ، ابن حریث، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔

 

سحری کھانے کی فضیلت

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، ابو بکر بن عیاش، عاصم، زر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، عبدالرحمن، ابو بکر بن عیاش، عاصم، زر، عبداللہ اس روایت میں یہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول نقل فرمایا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سحری کرو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، عبدالعزیز، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

 

اس حدیث میں عبدالملک بن ابی سلیمان کے متعلق راویوں کا اختلاف

 

علی بن سعید بن جریر نسائی، ابو ربیع، منصور بن ابی اسود، عبدالملک بن ابی سلیمان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یزید، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، ابن ابی لیلی، عطاء، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے

 

 

٭٭ عبدالاعلیٰ بن واصل بن عبدالاعلی، یحیی بن اللہدم، سفیان، ابن ابی لیلی، عطاء، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، ابو بکر بن خلاد، محمد بن فضیل، یحیی بن سعید، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند توحسن ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ غلطی حضرت محمد بن فضیل کی جانب سے ہے۔

 

سحری میں تاخیر کی فضیلت

 

محمد بن یحیی بن ایوب، وکیع، سفیان، عاصم، زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کسی وقت سحری کی؟ انہوں نے فرمایا کہ دن ہو چکا تھا لیکن سورج نہیں نکلا تھا (یعنی فجر کا وقت بالکل قریب تھا) اور بعض حضرات کے نزدیک سورج کے نکلنے سے سحری درست ہے لیکن یہ قول قرآن و سنت کے بالکل خلاف ہے اور بالکل مردود اور متروک ہے اور صحیح یہی ہی ہے کہ سحری فجر تک کھانا درست ہے اس کے بعد نہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عدی، زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حذیفہ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم لوگ نماز ادا کرنے کے واسطے چل دیئے۔ مسجد جا کر ہم لوگوں نے نماز فجر کی سنتیں ادا کیں کہ اس دوران نماز کی تکبیر کچھ دیر کے بعد ہوئی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، محمد بن فضیل، ابو یعفور، ابراہیم، وصلۃ بن زفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم لوگ نماز پڑھنے کے واسطے نکلے تو نماز فجر کی سنتیں ادا کیں اس دوران نماز کی تکبیر ہوئی ہم لوگوں نے نماز ادا کی۔

 

نماز فجر اور سحری کھانے میں کس قدر فاصلہ ہونا چاہئے ؟
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، ہشام، قتادۃ، انس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سحری کی پھر نماز پڑھنے کے واسطے کھڑے ہو گئے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ نماز فجر اور سحری میں کس قدر فاصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ جس قدر دیر میں آدمی پچاس آیات تلاوت کرے۔

 

 

اسی حدیث میں ہشام اور سعید کا قتادہ کے متعلق اختلاف

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، قتادۃ، انس، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سحری کی پھر ہم لوگ نماز ادا کرنے کے واسطے اٹھ گئے شاید حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کس قدر فاصلہ دونوں میں تھا؟ انہوں نے فرمایا اس قدر کہ جس قدر دیر میں انسان پچاس آیات کریمہ تلاوت کرے۔

 

 

٭٭ ابو اشعث، خالد، سعید، قتادۃ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سحری کی پھر دونوں کھڑے ہو گئے اور نماز فجر پڑھنے لگے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کھانے سے فراغت کے بعد کس قدر فاصلہ تھا۔ یعنی سحری اور نماز میں کس قدر فاصلہ تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس قدر فاصلہ تھا کہ جس قدر دیر میں انسان پچاس آیات کریمہ تلاوت کرے۔

 

سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں سلیمان بن مہران کے متعلق راویوں کا اختلاف

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، سلیمان، خیثمۃ، ابو عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ہمارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے دو حضرات ہیں ایک تو روزہ جلدی افطار کرتا ہے اور سحری دیر میں کھاتا ہے (وقت فجر کے نزدیک) اور دوسرے روزہ دیر میں افطار کرتا ہے انہوں نے کہا وہ کون شخص ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور تاخیر سے سحری کھاتا ہے ؟ میں نے عرض کیا عبداللہ بن مسعود۔ انہوں نے جواب دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے کرتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، اعمش، خیثمۃ، ابو عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا ہمارے میں دو آدمی ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام میں سے ایک تو روزہ جلدی افطار کرتا ہے اور سحری تاخیر سے کھاتا ہے (یعنی قریب وقت فجر) اور دوسرا افطار تاخیر سے کرتا ہے اور سحری جلدی کھاتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا وہ کون آدمی ہے جو کہ روزہ جلدی افطار کرتا ہے اور سحری تاخیر سے کھاتا ہے میں نے عرض کیا حضرت عبداللہ بن مسعود۔ انہوں نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے کرتے تھے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، حسین، زائدۃ، اعمش، عمارۃ، ابو عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت مسروق دونوں کے دونوں ایک روز عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ مسروق نے فرمایا کہ دو حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے ہیں اور دونوں کے دونوں نیک کام میں کوتاہی نہیں کرتے۔ لیکن ان میں سے ایک نماز بھی تاخیر سے ادا کرتا ہے اور روزہ بھی تاخیر سے افطار کرتا ہے اور دوسرا شخص نماز بھی جلدی سے پڑھتا ہے اور وہ شخص روزہ بھی جلد افطار کرتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ کون شخص ہے جو کہ نماز بھی جلدی ادا کرتا ہے اور روزہ بھی جلدی افطار کر لیتا ہے ؟ حضرت مسروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ بات سن کر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طریقہ سے عمل فرمایا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، عمارۃ، ابو عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت مسروق رضی اللہ عنہ دونوں کے دونوں ایک دن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت مسروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا دو آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے ہیں اور دونوں کے دونوں نیک کام میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کرتے۔ لیکن ان دونوں میں سے ایک شخص تو نماز بھی تاخیر سے پڑھتے ہیں اور روزہ بھی تاخیر سے ہی افطار کرتے ہیں اور دوسرا شخص نماز بھی جلدی ادا کرتا ہے اور روزہ بھی جلد افطار کرتا ہے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا وہ کون شخص ہے جو کہ نماز بھی جلدی ادا کرتا ہے اور روزہ بھی جلد ہی افطار کرتا ہے ؟ مسروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طریقہ سے عمل فرمایا کرتے تھے۔ اور وہ صحابی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے۔

 

سحری کھانے کے فضائل

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، شعبۃ، عبدالحمید صاحب زیادی، عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سحری تناول فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ برکت ہے جو کہ خداوند تعالیٰ نے تم کو عطا فرمائی ہے تو تم لوگ اس کو نہ چھوڑو۔

 

سحری کھانے کے واسطے بلانے سے متعلق

 

شعیب بن یوسف بصری، عبدالرحمن، معاویہ بن صالح، یونس بن سیف، حارث بن زیاد، ابو رہم، عرباض بن ساریٰۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ ماہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سحری کھانے کے واسطے لوگوں کو دعوت دیتے تو ارشاد فرماتے تم لوگ صبح کے مبارک کھانے کے واسطے آ جا۔

 

سحری کو صبح کا کھانا کہنا کیسا ہے ؟

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، بقیٰۃ بن ولید، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے اوپر صبح کا کھانا (یعنی سحری) لازم کرو اس لیے کہ وہ صبح کا مبارک کھانا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، ثور، خالد بن معدان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا تم صبح کے کھانے (یعنی سحری) کھانے کے واسطے آ جا جو کہ بابرکت ہے۔

 

ہم لوگوں کے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق؟

 

قتیبہ، لیث، موسیٰ بن علی، وہ اپنے والد سے ، ابو قیس، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہم لوگوں کے اور اہل کتاب کے روزے میں یہی فرق ہے سحری کھانا (اس لئے کہ وہ لوگ سحری نہیں کھاتے )

 

سحری میں ستو اور کھجور کھانا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، قتادۃ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انس رضی اللہ عنہ سے سحری کے وقت ارشاد فرمایا اے انس! میں روزہ رکھتا ہوں مجھے کچھ کھلا چنانچہ میں کھجور لے کر حاضر ہوا اور ایک پانی کا برتن لے کر آیا۔ اس وقت حضرت بلال اذان سے فارغ ہو گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے انس! تم کسی آدمی کو تلاش کرو جو کہ میرے ہمراہ سحری کھائے یعنی میرے ساتھ سحری میں شرکت کرے۔ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ کو بلایا وہ حاضر ہوئے انہوں نے فرمایا کہ میں نے ستو کا گھونٹ پی لیا ہے اور میری نیت روزہ رکھنے کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری بھی نیت روزہ رکھنے کی ہے۔ پھر حضرت زید نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سحری کھائی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ گئے اور دو رکعت ادا فرمائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے واسطے نکل پڑے۔

 

تفسیر ارشاد باری تعالیٰ

 

ہلال بن العلاء بن ہلال، حسین بن عیاش، زہیر، ابو اسحاق ، براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پہلے طریقہ یہ تھا کہ اگر روزہ رکھنے والا شخص شام کو کھانا کھانے سے قبل سو جائے پھر اس کو تمام رات کچھ کھانا پینا درست نہ ہوتا تھا۔ اگلے دن غروب آفتاب تک کہ یہ آیت کریمہ آخر تک نازل ہوئی۔ آیت مذکورہ کا ترجمہ یہ ہے تم لوگ کھاؤ اور پیو حتی کہ نظر آ جائے تم کو سفید فجر کی دھاری سیاہ دھاری سے۔ (یعنی سفید دھاری سے سیاہ دھاری میں امتیاز ہو جائے ) انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ حضرت ابو قیس بن حضرت عمر سے متعلق نازل ہوئی۔ کہ وہ ایک دن اپنی زوجہ کے پاس تشریف لائے مغرب کے بعد اور وہ اس وقت روزہ رکھے ہوئے تھے انہوں نے دریافت فرمایا تمہارے پاس کچھ کھانے کے واسطے ہے ؟ ان کی محترمہ اہلیہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے لیکن میں جاتی ہوں اور تمہارے واسطے تلاش کر کے کچھ کھانا لے کر حاضر ہوتی ہوں چنانچہ وہ باہر تشریف لے گئی اور یہ صحابی سو گئے۔ وہ جس وقت واپس آئی تو ان کو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں چنانچہ انہوں نے ان کو بیدار کیا۔ لیکن انہوں نے کچھ نہیں کھایا (کیونکہ ان کے خیال میں سونے کے بعد کچھ کھانا درست نہ تھا) اور وہ تمام رات اسی طریقہ سے رہے پھر صبح کا روزہ رکھا جس وقت دوپہر کا وقت ہو گیا تو ان کو بے ہوشی ہو گئی اس وقت تک یہ آیت کریمہ نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، جریر، مطرف، شعبی، عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ +سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا کہ سفید دھاری اور کالے رنگ کی دھاری کا کیا مطلب ہے ؟ مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کالے رنگ کی دھاری رات کی سیاہی ہے اور سفید دھاری دن کی سفیدی ہے۔

 

فجر کس طرح ہوتی ہے ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، التیمی، ابو عثمان، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلال رات میں اذان دیتے ہیں (جب رات کا کچھ حصہ باقی ہو) تاکہ تم میں سے جو شخص سو رہا ہو وہ بیدار ہو جائے اور وہ تہجد کی نماز پڑھ لے کچھ دیر سونے کے واسطے یا کھانا کھانے کے واسطے یا نماز وتر پڑھنے کے واسطے اور نماز فجر اس طریقہ سے نہیں ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ہتھیلی سے اشارہ فرمایا بلکہ نماز فجر اس طریقہ سے ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں شہادت کی انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبۃ، سوادۃ بن حنظلۃ، سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کو حضرت بلال کی اذان اور یہ سفیدی دھوکہ نہ دے جس وقت یہ فجر کی روشنی ظاہر ہو۔ اس طریقہ سے یعنی چوڑائی میں۔ حضرت امام ابو داؤد نے فرمایا حضرت شعبہ نے اپنے دونوں ہاتھ دائیں اور بائیں جانب کھینچ کر پھیلائے۔

 

ماہ رمضان المبارک کا استقبال کرنا کیسا ہے ؟

 

اسحاق بن ابراہیم، ولید، وازاعی، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ مہینہ سے قبل روزے نہ رکھو لیکن وہ شخص روزے رکھے جس کا دن روزہ کا آ جائے۔ مطلب یہ کہ کسی شخص کی عادت تھی ایک روزہ روز رکھنے کی۔ اب دو دن رمضان المبارک سے قبل آ گیا تو روزہ رکھ لے کیونکہ اس کی نیت استقبال کرنے کی نہیں ہے۔

 

اس حدیث شریف میں حضرت ابو سلمہ پر راویوں کا اختلاف

 

عمران بن یزید بن خالد، محمد بن شعیب، اوزاعی، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص رمضان المبارک سے قبل روزے نہ رکھے ایک دن یا دو دن آگے لیکن وہ شخص جو کہ پہلے سے اس دن روزہ رکھا کرتا تھا وہ شخص روزہ رکھے۔

 

 

٭٭ محمد بن العلاء، ابو خالد، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رمضان المبارک سے ایک دن دو دن قبل روزہ نہ رکھو مگر جس وقت وہ دن آ جائے جس دن کہ تمہارے میں سے کوئی شخص روزہ رکھا کرتا تھا تو وہ شخص روزہ رکھے لے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث خطا ہے۔

 

اس سلسلہ میں حضرت ابو سلمہ کی حدیث شریف

 

شعیب بن یوسف و محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، منصور، سالم، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان کو ماہ رمضان المبارک سے ملا دیا کرتے تھے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان کا روزہ رکھتے تھے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے شامل ہو جاتا تھا۔

 

حضرت محمد بن ابراہیم پر راویوں کا اختلاف

 

اسحاق بن ابراہیم، نضر، شعبۃ، توبۃ عنبری، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان کو ماہ رمضان المبارک سے ملا دیا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، اسامۃ بن زید، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں سے متعلق تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ افطار نہیں کریں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ روزے نہیں رکھیں گے اور آپ پورے ماہ شعبان یا آخر ماہ شعبان میں روزے رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ احمد بن سعد بن حکم، عمی، نافع بن یزید، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ابن عبدالرحمن، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم لوگوں میں سے (یعنی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے ) ماہ رمضان المبارک میں کوئی خاتون روزہ افطار کرتی تھی (یعنی روزے نہیں رکھتی تھی) پھر اس کو قضا کرنے کی مہلت نہ ملتی یہاں تک کہ ماہ شعبان آ جاتا اور جس قدر روزے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان میں رکھتے اس قدر کسی دوسرے ماہ میں روزے نہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر ماہ شعبان میں بلکہ پورے ماہ شعبان میں روزے رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، عبداللہ بن ابو لبید، ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھا کرتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے ہی رکھے جائیں گے اور افطار فرماتے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار ہی کرتے جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مہینہ میں ماہ شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے زیادہ حصہ میں یا پورے شعبان میں روزے رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، وہ اپنے والد سے ، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سال کے کسی ماہ میں ماہ شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان کے تمام مہینہ میں روزے رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو داؤد، سفیان، منصور، خالد بن سعد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے مہینہ میں روزے رکھا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ ہارون بن اسحاق ، عبدۃ، سعید، قتادۃ، زرارۃ بن اوفی، سعد بن ہشام، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ کو اس بات کا (قطعی) علم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی ایک رات میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت فرمائی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی رات میں پوری رات عبادت فرمائی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی مہینہ کے پورے کے پورے روزے رکھے ہوں علاوہ ماہ رمضان المبارک کے۔

 

 

٭٭ محمد بن احمد بن ابو یوسف، محمد بن سلمہ، ہشام، ابن سیرین، عبداللہ بن شقیق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھتے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھے جائیں گے اور افطار فرماتے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار کرتے جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی مہینہ پورے ماہ کے روزے نہیں رکھے۔ جس وقت کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے لیکن رمضان المبارک میں۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، ابن حارث، کہمس، عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز چاشت پڑھا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں لیکن جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لاتے (یعنی سفر سے واپس تشریف لاتے ) میں نے عرض کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی ماہ کے پورے روزے رکھتے ؟ نہیں لیکن رمضان المبارک کے اور نہ کسی ماہ میں پورے مہینہ تک روزے افطار کرتے۔ یعنی ایک روزہ بھی نے رکھیں حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی۔

 

 

٭٭ ابواشعث، یزید، ابن زریع، جریری، عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز چاشت پڑھتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ لیکن جس وقت سفر سے واپس تشریف لاتے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کوئی روزہ مقرر ہوتا تھا علاوہ رمضان المبارک کے ؟ انہوں نے فرمایا خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی مقررہ مہینہ کے روزے نہیں رکھے علاوہ رمضان المبارک کے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ افطار فرمایا کسی ماہ میں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ایک مہینہ میں روزہ رکھا۔

 

اس حدیث میں خالد بن معدان کے متعلق اختلاف

 

عمرو بن عثمان، بقیٰۃ، بحیر، خالد، جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روزوں کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے ماہ شعبان میں روزے رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کے دن کے روزے کا خیال فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبداللہ بن داؤد، ثور، خالد بن معدان، ربیعۃ جرشی، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان اور ماہ رمضان المبارک کے مہینہ کا روزہ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خیال فرماتے تھے پیر اور جمعرات کے دن کا۔

 

شک کے دن کا روزہ

 

عبد اللہ بن سعید الاشج، ابو خالد، عمرو بن قیس، ابو اسحاق ، حضرت صلہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی۔ عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا کھا کچھ حضرات پیچھے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اسی پر عمار رضی اللہ نے فرمایا جس نے شک والے دن روزہ رکھا اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا (عمل مبارک) کی نافرمانی کی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابن ابو عدی، ابو یونس، سماک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں شک والے دن حاضر ہوا یعنی اس روز شک تھا کہ آج رمضان المبارک ہے یا شعبان ہے۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اس وقت روٹی اور سبزی کھا رہے تھے انہوں نے فرمایا آ جاؤ۔ میں نے عرض کیا میرا روزہ ہے۔ انہوں نے اللہ کی قسم کھائی کہ تم روزہ توڑ دو گے۔ میں نے دو مرتبہ کہا۔ جس وقت میں نے دیکھا کہ وہ قسم تو (مسلسل) کھا رہے ہیں لیکن قسم کے ساتھ انشاء اللہ نہیں کہتے۔ میں نے عرض کیا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ لاؤ۔ انہوں نے فرمایا میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے تم لوگ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ اگر تم لوگوں کے اور چاند کے درمیان بادل آ جائے (یعنی موسم ابرآلود ہو جائے ) یا  اندھیرا ہو جائے (جس کی وجہ سے چاند نظر نے آئے ) تو تم لوگ ماہ شعبان کے تیس روزے پورے کر لو اور ماہ رمضان المبارک سے پہلے روزے نہ رکھو اور نہ ہی تم لوگ رمضان المبارک کو شعبان کے ساتھ شامل کرو۔

 

 

شک کے دن کس کے لیے روزہ رکھنا درست ہے ؟

 

عبدالملک بن شعیب بن لیث بن سعد، وہ اپنے والد سے ، جدی، شعیب بن اسحاق ، اوزاعی و ابن ابو عروبۃ، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے تم لوگ روزے نہ رکھو رمضان المبارک سے ایک یا دو دن قبل لیکن وہ شخص جو کہ ہمیشہ اس دن روزہ رکھا کرتا تھا وہ شخص (اگر عادت ہے تو) روزہ رکھ لے۔

 

جو شخص رمضان المبارک میں دن میں روزہ رکھے اور رات میں عبادت میں مشغول رہے؟

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد، ابن ابو ہلال، ابن شہاب، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ماہ رمضان المبارک میں رات میں عبادت میں مشغول رہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن جبلۃ، معافی، موسی، اسحاق بن راشد، زہری، عروٰۃ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو رمضان المبارک میں عبادت کرنے کی تلقین فرماتے تھے لیکن شدت سے کسی کام کا حکم نہیں فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑا ہو (تراویح پڑھے ) ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کے واسطے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، اسحاق ، عبداللہ بن حارث، یونس، زہری، عروٰۃ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے وقت مسجد میں نماز پڑھنے کے واسطے باہر تشریف لائے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی اور ایک حدیث میں نقل کیا اور یہاں تک بیان کیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو رغبت دلاتے تھے رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑے ہونے کی (نماز تراویح پڑھنے کیلئے ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شدت سے حکم نہیں فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص شب قدر میں کھڑا ہو ایمان کے ساتھ (یعنی ایمان اور یقین کے ساتھ عبادت کرے چاہے بیٹھ کر یا کسی بھی طرح) اجر و ثواب کیلئے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات پائی اور اسی طریقہ سے حکم دیا۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان المبارک کے متعلق فرماتے تھے کہ جو شخص ایمان کے ساتھ اس ماہ میں کھڑا ہوا تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن خالد، بشر بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، زہری، عروٰۃ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو رمضان المبارک میں عبادت کرنے کی رغبت دیتے تھے لیکن سختی کے ساتھ حکم نہیں فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص رمضان المبارک میں ایمان کے ساتھ کھڑا ہوا اجر و ثواب کے لیے تو اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن خالد، بشر بن شعیب، وہ اپنے والد سے ، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان المبارک کے لیے ارشاد فرماتے تھے جو شخص اجر و ثواب کے واسطے کھڑا ہوا تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

 

 

٭٭ ابوداؤد، یعقوب بن ابراہیم، وہ اپنے والد سے ، صالح، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کے لیے ماہ رمضان میں کھڑا ہو (یعنی عبادت کرے نماز تراویح ادا کرے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ نوح بن حبیب، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان المبارک میں کھڑے ہونے کی (یعنی تراویح اور عبادت کی) ترغیب فرمایا کرتے تھے لیکن سختی کے ساتھ حکم نہیں فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک میں ایمان کے ساتھ کھڑا ہوا اجر و ثواب کے واسطے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی الہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھے ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کے واسطے تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں (اجر و ثواب کی نیت سے ) ایمان کے ساتھ کھڑا ہوا تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل، عبداللہ بن محمد بن اسماء، حویریٰۃ، مالک، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن و حمید بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں ایمان کے ساتھ ثواب کے واسطے کھڑا ہو تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ (اس جگہ مراد عبادت ہے )

 

 

٭٭ قتیبہ و محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑا ہو (یعنی عبادت کرے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص (شب) قدر کی رات میں کھڑا ہو یعنی عبادت کرے ثواب اور ایمان کے ساتھ تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ قتیبہ ,سفیان، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑا ہو (یعنی عبادت کرے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص (شب) قدر کی رات میں کھڑا ہو یعنی عبادت کرے ثواب اور ایمان کے ساتھ تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑا ہو (یعنی عبادت کرے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص (شب) قدر کی رات میں کھڑا ہو یعنی عبادت کرے ثواب اور ایمان کے ساتھ تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ علی بن منذر، ابن فضیل، یحیی بن سعید، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑا ہو (یعنی عبادت کرے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص (شب) قدر کی رات میں کھڑا ہو یعنی عبادت کرے ثواب اور ایمان کے ساتھ تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابن ابی کثیر اور نضر بن شیبان پر راویوں کا اختلاف

 

محمد بن عبدالاعلی، محمد بن ہشام، ابو اشعث، خالد، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں کھڑا ہو (یعنی عبادت کرے ) تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جو شخص (شب) قدر کی رات میں کھڑا ہو یعنی عبادت کرے ثواب اور ایمان کے ساتھ تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمود بن خالد، مروان، معاویہ بن سلام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص روزے رکھے اور جو شخص کھڑا ہو عبادت کرے ماہ رمضان میں تو اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، فضل بن دکین، نصر بن علی، نضر بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے ایک دن ملاقات فرمائی اور ان سے کہا کہ تم لوگ مجھ سے رمضان کی سب سے عمدہ فضیلت بیان کرو جو کہ تم نے سنی ہو۔ حضرت ابو سلمہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حدیث شریف بیان فرمائی انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان المبارک کا تذکرہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ماہ کو تمام مہینوں پر فضیلت دی پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص ماہ رمضان میں ایمان کے ساتھ کھڑا ہو کر اجر و ثواب کے واسطے تو وہ شخص گناہوں سے اس طریقہ سے ایسا نکلے گا کہ جیسے اس دن کہ جس دن وہ شخص پیدا ہوا تھا۔ امام نسائی نے فرمایا کہ یہ روایت غلط ہے اور صحیح اس طریقہ سے ہے کہ حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے سنا ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، نضر بن شمیل، قاسم بن فضل، نضر بن شیبان سے مروی دوسری روایت میں بھی اسی طریقہ سے ہے لیکن اس میں ہے جو شخص روزے رکھے اور ماہ رمضان میں کھڑا ہو ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کیلئے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو ہشام، قاسم بن فضل، نضر بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے عرض کیا کہ مجھ سے اس طریقہ کی کوئی روایت اور حدیث بیان کرو جو کہ تم نے اپنے والد صاحب سے سنی ہو اور تمہارے والد نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہو اور درمیان میں کوئی دورا واسطہ نہ ہو یہ سن کر انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے حدیث شریف میرے والد ماجد نے بیان فرمائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس نے روزے فرض قرار دئیے ہیں اور سنت (موکدہ) ہے اس میں کھڑا ہونا (تراویح ادا کرنا) کہ جو شخص رمضان المبارک میں روزے رکھے اور راتوں کو کھڑا ہو تو وہ شخص گناہوں سے اس طریقہ سے پاک ہو جائے گا جس طرح سے اس کی والدہ نے اسی دن اس کی ولادت کی ہو۔

 

روزوں کی فضیلت

 

ہلال بن العلاء، وہ اپنے والد سے ، عبید اللہ، زید، ابو اسحاق ، عبداللہ بن حارث، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے ہی واسطے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی وہ ہے کہ جس وقت وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی وہ ہے کہ جس وقت وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بدبو خداوند قدوس کو بہت محبوب ہے (بنسبت) مشک کی خوشبو سے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، ابو اسحاق ، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خداوند قدوس فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے ہی واسطے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی وہ ہے کہ جس وقت وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی وہ ہے کہ جس وقت وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بدبو خداوند قدوس کو بہت محبوب ہے (بنسبت) مشک کی خوشبو سے۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابو صالح پر راویوں کے اختلاف کا تذکرہ

 

علی بن حرب، محمد بن فضیل، ابو سنان ضرار بن مرۃ، ابو صالح، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ارشاد خداوندی ہے روزہ صرف میرے واسطے ہی مخصوص ہے دوسرے کے واسطے نہیں اور خداوند قدوس نے فرمایا میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہوتی ہیں۔ ایک خوشی تو اس وقت کہ جس وقت وہ روزہ کھولتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ہو گی کہ جس وقت وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بدبو خداوند قدوس کو زیادہ پسندیدہ ہے مشک (اور عنبر) کی خوشبو سے۔

 

 

٭٭ سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو، منذر بن عبید، ابو صالح سمان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خداوند قدوس فرماتا ہے کہ روزہ خاص میرے ہی واسطے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی وہ ہے کہ جس وقت وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی وہ ہے کہ جس وقت وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرے گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے البتہ روزہ دار کے منہ کی بدبو خداوند قدوس کو بہت محبوب ہے (بنسبت) مشک کی خوشبو سے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد خداوندی ہے جو شخص نیک کام کرتا ہے اس کی دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں سات سو نیکی تک اور خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا۔ بس روزہ میرے واسطے ہی مخصوص ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا اور میرا بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو چھوڑتا ہے اور روزہ ڈھال ہے جس طریقہ سے کہ جنگ میں ڈھال انسان کو زخموں سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح روزہ روزہ دار کو شیطانی حملوں سے روکتا ہے اور محفوظ کر دیتا ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں ایک تو روزہ کھولتے وقت اور دوسری خداوند قدوس سے ملاقات کے وقت البتہ روزہ دار کے منہ کی بدبو خداوند قدوس کو مشک سے زیادہ محبوب ہے۔

 

جو شخص اللہ عزوجل کی راہ میں ایک روزہ رکھے اور اس سے متعلق حدیث میں سہیل بن ابی صالح پر اختلاف

 

یونس بن عبدالاعلی، انس، سہیل بن ابو صالح، وہ اپنے والد سے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ داؤد بن سلیمان بن حفص، ابو معاویہ ضریر، سہیل، مقبری ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، ابن ابی مریم، سعید بن عبدالرحمن، سہیل، اپنے والد سے ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، سہیل، صفوان، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکیم، شعیب، ابن الہاد، سہیل، ابن ابی عیاش، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ حسن بن قزعہ، حمید بن اسود، سہیل، نعمان بن ابی عیاش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کی میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت سفیان ثوری پر راویوں کا اختلاف

 

مومل بن اہاب، عبدالرزاق، ابن جریج، یحیی بن سعید و سہیل بن ابی صالح، انہوں نے نعمان بن ابی عیاش سے سنا وہ فرماتے ہیں میں نے ابو سعید خدری سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن منیر نیسابوری، یزید عدنی، سفیان، سہیل بن ابی صالح، نعمان بن ابی عیاش، ابو سعید رضی اللہ عنہ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص راہ خدا میں ایک دن روزہ رکھے (یعنی بغیر جہاد میں یا حج کے سفر میں روزہ رکھے ) تو خداوند قدوس اس شخص کو روزہ کی وجہ سے ستر سال کے فاصلہ پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، قاسم، سفیان، سہیل بن ابی صالح، نعمان بن ابی عیاش، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا جس نے خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو روزہ کی وجہ سے جہنم سے ستر سال کے فاصلے پر کر دے گا۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن احمد بن محمد بن حنبل، ابن نمیر، سفیان بن ابی عیاش، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ الفاظ احادیث میں معمولی سا اختلاف ہے لیکن ترجمہ اور مفہوم حدیث گزشتہ احادیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمود بن خالد، محمد بن شعیب، یحیی بن حارث، قاسم ابو عبدالرحمن، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے سو سال کے فاصلے پر کر دے گا

 

بحالت سفر روزہ رکھنے کے مکروہ ہونے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، صفوان بن عبد اللہ، ام درداء، کعب بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ دوران سفر روزہ رکھنا نیک کام نہیں ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، محمد بن کثیر، اوزاعی، زہری، سعید بن مسیب، کعب بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ دوران سفر روزہ رکھنا نیک کام نہیں ہے۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ روایت خطا ہے اور پہلی روایت درست ہے اور زیرنظر روایت میں حضرت ابن کثیر کا کسی دوسرے راوی نے ساتھ نہیں دیا۔

 

اس سے متعلق تذکرہ کہ جس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے ارشاد فرمایا اور حضرت جابر کی روایت میں محمد بن عبدالرحمن پر اختلاف

 

قتیبہ، بکر، عمارۃ بن غزیٰۃ، محمد بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ بن عبداللہ رضی الہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کے پاس ہجوم لگائے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے لوگوں نے بتلایا کہ یہ شخص روزہ رکھنے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہے (واضح رہے کہ مذکورہ واقع حالت سفر کاہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیک کام نہیں ہے۔

 

 

٭٭ شعیب بن شعیب بن اسحاق ، عبدالوہاب بن سعید، شعیب، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، محمد بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا جو کہ ایک درخت کے سایہ میں تھا اور اس پر لوگ پانی ڈال رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھ کر صحابہ کرام سے دریافت فرمایا کہ اس شخص کو کیا ہو گیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ شخص روزہ رکھے ہوئے ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیک کام نہیں ہے تم لوگ خداوند قدوس کی رخصت کو قبول کرو جو کہ اس نے تم لوگوں کو عطا فرمائی ہے۔

 

٭٭ محمود بن خالد، فریابی، اوزاعی، یحیی، محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بھی مذکورہ سند سے اس شخص سے اسی طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں جس نے جابر سے سنی۔

 

 

زیر نظر حدیث میں حضرت علی بن مبارک کے اختلاف کا تذکرہ

 

اسحاق بن ابراہیم، وکیع، علی بن مبارک، یحیی بن ابو کثیر، محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن ایک شخص کے پاس گزرے جو کہ ایک درخت کے سایہ میں تھا اور اس پر لوگ پانی ڈال رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کو کیا ہو گیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس آدمی کا روزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیک کام نہیں ہے۔ تم لوگ خداوند قدوس کی رخصت کو قبول کرو جو اس نے تم کو عطا فرمائی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن المثنی، عثمان بن عمر، علی بن المبارک، یحیی، محمد بن عبدالرحمن، جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید و خالد بن حارث، شعبۃ، محمد بن عبدالرحمن، محمد بن عمرو بن حسن، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس پر سایہ کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیک کام نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، ابن ہاد، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس سال فتح مکہ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان میں مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ رکھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (وادی) کراع الغمیم پہنچ گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ روزے رکھتے رہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کی اطلاع ملی کہ روزہ رکھنا لوگوں کو دشواری اور تکلیف کا سبب بن گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک پیالہ پانی طلب فرمایا نماز عصر کے بعد اور پی لیا۔ لوگ دیکھ رہے تھے۔ اس پر بعض حضرات نے روزہ کھول ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر اور بعض حضرات نے روزہ رکھا۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطلاع ملی کہ بعض حضرات روزہ رکھے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ گناہ گار ہیں۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبداللہ و عبدالرحمن بن محمد بن سلام، ابو داؤد، سفیان، اوزاعی، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا (مقام) مرالظہران میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تم لوگ نزدیک آ جاؤ اور کھانا کھا لو۔ ان دونوں نے عرض کیا ہمارا تو روزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کی تیاری کرا دو اور تم لوگ ان دونوں (یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی الہ عنہما) کا کام کرو کیونکہ ان کا روزہ ہے۔

 

 

٭٭ عمران بن یزید، محمد بن شعیب، اوزاعی، یحیی، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے ہی حدیث شریف مسلسل روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کا کھانا (سحری) نوش فرما رہے تھے مرالظہران نامی بستی میں جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان جگہ کا نام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا تم دونوں میرے نزدیک آ جاؤ اور کھانا کھا لو۔ ان دونوں نے حضرات نے فرمایا ہمارا تو روزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ ان دونوں دوستوں کی سواری تیار کرو اور ان کے حصہ کا کام کرو کیونکہ ان دونوں کا روزہ ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن المثنی، عثمان بن عمر، علی ، یحیی، ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

مسافر کے واسطے روزہ کے معاف ہونے سے متعلق

 

عبدہ بن عبدالرحیم، محمد بن شعیب، اوزاعی، یحیی، ابو سلمہ، عمرو بن امیٰۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم صبح کے کھانے کے واسطے ٹھہر جاؤ۔ میں نے کہا کہ میرا تو روزہ ہے یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میرے پاس آ جاؤ میں تم کو مسافر کا حکم بتلاتا ہوں خداوند قدوس نے (مسافر کے لیے ) روزہ اور آدھی نماز معاف کر دی ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، ولید ، الاوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، ابو قلابۃ، جعفر بن عمرو، امیۃ ضمری، ابیہ، ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، ابو مغیرۃ، اوزاعی، یحیی، ابو قلابۃ، ابو مہاجر، ابو امیٰۃ ضمری رضی اللہ عنہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن اس روایت میں اس قدر اضافہ ہے کہ میں سفر میں حاضر ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے سلام کیا جس وقت میں چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کھانے کے واسطے ٹھہر جاؤ۔ آخر تک۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، موسیٰ بن مروان، محمد بن حرب، الاوزاعی، یحیی، ابو قلابۃ، ابو المہاجر، ابو امیۃ یعنی الضمری رضی اللہ عنہ سابق کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ شعیب بن شعیب بن اسحاق، عبد الوہاب، شعیب، الاوزاعی، یحیی، ابو قلابۃ ابجرمی، ابا ایمۃ الضمری رضی اللہ عنہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت معاویہ بن سلام اور حضرت علی بن مبارک پر اختلاف

 

محمد بن عبید اللہ بن یزید بن ابراہیم الحرانی، عثمان، معاویۃ، یحیی بن ابو کثیر، ابو قلابہ، ابو امیۃ الضمری رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ بھی سابقہ حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن المثنی، عثمان بن عمر، علی، یحیی، ابو قلابۃ، ابو امیۃ رضی اللہ عنہ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عمر بن محمد بن حسن بن تل، وہ اپنے والد سے ، سفیان ثوری، ایوب، ابو قلابۃ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس نے مسافر کو روزہ اور آدھی نماز کو معاف فرمایا ہے اور حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی روزہ معاف فرما دیا ہے اور روزہ رکھنے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ دیں بعد میں قضا کر لیں۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، ابن عیینہ، ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بوڑھے سے سنا جو کہ (قبیلہ) قشبیہ کا تھا۔ اس بوڑھے شخص نے اپنے چچا سے سنا ایوب نے نقل کیا کہ پہلے اس بوڑھے نے ہم سے حدیث نقل کی تھی پھر ہم نے اس کے اونٹوں میں اس کو دیکھا تو ابو قلابہ نے فرمایا کہ تم حدیث نقل کرو اس نے کہا کہ مجھ سے حدیث نقل کی میرے چچا نے کہ وہ اپنے اونٹوں کے ساتھ گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت کھانا نوش فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میرے نزدیک آ جاؤ اور کھانا کھالو۔ میں نے کہا میں روزہ دار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے معاف فرما دیا ہے مسافر سے آدھی نماز اور روزہ اور اسی طریقہ سے حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی خاتون سے بھی روزہ معاف فرما دیا ہے۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن علی، سریج، اسماعیل ابن علیٰۃ، ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو قلابہ نے مجھ سے حدیث بیان کی پھر کہا کہ تم اس حدیث شریف کے بیان کرنے والے سے ملاقات کرو گے پھر مجھ سے اس کا نشان بتلایا میں نے اس سے ملاقات کی اس نے کہا کہ مجھ سے میرے ایک رشتہ دار نے نقل کیا کہ جس کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں اپنے اونٹ لے کر حاضر ہوا جس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت کھانا نوش فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو بلایا کھانا کھانے کے واسطے۔ میں نے عرض کیا میرا روزہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نزدیک آ جاؤ میں تم سے نقل کروں خداوند قدوس نے مسافر کو آدھی نماز اور روزہ معاف فرما دیا ہے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، خالد، ابو قلابۃ رضی اللہ ایک شخص سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک کام کے واسطے حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت صبح کا کھانا نوش فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میرے پاس آ جاؤ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میں نے عرض کیا میرا تو روزہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس طرف آ جاؤ۔ میں تم کو روزہ کا حکم بتلاؤں خداوند قدوس نے مسافر کو آدھی نماز اور روزہ معاف فرما دیا ہے۔ اس طریقہ سے حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی خاتون کو بھی رخصت دی ہے (یعنی وہ روزہ بعد میں قضا کر لے اگر رمضان میں روزہ نہ رکھ سکے تو۔)۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، خالد الحذاء، ابو علاءبن شخیر، رجل، اس حدیث کا مضمون گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانۃ، ابو بشر، ہانی بن شخیر، رجل سے روایت ہے انہوں نے ایک آدمی سے سنا کہ جو کہ قبیلہ بل حریش میں سے تھا۔ اس نے اپنے والد سے سنا میں ایک مرتبہ مسافر تھا اور میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور میرا روزہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانا پکا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم بھی کھانے میں شرکت کر لو۔ میں نے عرض کیا کہ میرا تو روزہ ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم آ جاؤ۔ تم کو اس بات کا علم نہیں ہے خداوند قدوس نے مسافر کے واسطے معافی دے دی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا معافی بخشی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا روزہ اور آدھی نماز معاف کر دی ہے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام، ابو داؤد، ابو عوانۃ، ابو بشر، ہانی بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ اس نے قبیلہ حریش کے ایک شخص سے سنا اس شخص نے اپنے والد سے عرض کیا ہم لوگ سفر میں رہتے تھے جس وقت خداوند قدوس کو منظور ہوتا تو ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت کھانا کھا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ کھانے میں شرکت کرو۔ میں سے عرض کیا میں روزہ سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم کو روزہ کے متعلق بتلاتا ہوں کہ خداوند قدوس نے روزہ معاف فرما دیا ہے اور آدھی نماز معاف فرما دی ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن عبدالکریم، سہل بن بکار، ابو عوانۃ، ابو بشر، ہانی بن عبداللہ بن شخیر، ابیہ، اس حدیث شریف کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عبید اللہ، اسرائیل، موسی، ابن ابو عائشہ صدیقہ، غیلان سے روایت ہے کہ میں ایک دن سفر میں ابو قلابہ کے ساتھ نکلا انہوں نے سامنے کھانا پیش کیا۔ میں نے کہا کہ میرا روزہ ہے۔ حضرت ابو قلابہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر کیلئے روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں کھانا پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے فرمایا کہ آ جاؤ اور کھانا کھا لو۔ اس شخص نے عرض کیا میں تو روزہ رکھے ہوئے ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس نے مسافر کو آدھی نماز اور روزہ معاف فرما دیا ہے تم آ جا اور کھانے میں شرکت کر لو۔ چنانچہ میں حاضر خدمت ہوا اور کھانے میں شریک ہوا۔

 

بحالت سفر روزہ نہ رکھنے کی فضیلت سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، عاصم احول، مورق عجلی، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر کی حالت میں تھے ہمارے میں سے بعض حضرات نے روزہ رکھا اور بعض حضرات نے افطار فرمایا یعنی روزہ نہیں رکھا ایک روز بہت گرمی تھی ہم لوگ ٹھہرے اور سایہ کئے ہوئے تھے کہ روزہ دار تھک کر گر گئے اور بغیر روزہ والے اٹھ گئے اور ہم نے اونٹوں کو پانی پلایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آج کے دن کا اجرو ثواب بغیر روزہ دار والے لوگوں کے حصہ میں آ گیا۔

 

دوران سفر روزہ رکھنا ایسا ہے کہ جس طریقہ سے مکان میں بغیر روزہ کے رہنا

 

محمد بن ابان بلخی، معن، ابن ابو ذنب، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ لوگ بیان کرتے تھے کہ دوران سفر روزہ رکھنا ایسا ہے کہ جس طریقہ سے گھر میں یعنی دوران قیام افطار کرنا (یعنی بغیر روزہ رہنا)۔

 

 

٭٭ محمد بن یحیی بن ایوب، حماد بن خیاط و ابو عامر ابن ابو ذنب، زہری، ابو سلمہ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ دوران سفر روزہ رکھنا ایسا ہی ہے کہ جس طریقہ سے حالت قیام میں۔ یعنی گھر میں افطار کرنا۔

 

 

٭٭ محمد بن یحیی بن ایوب، ابو معاویہ، ابن ابو ذنب، زہری، حمید بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ سفر کے دوران روزہ رکھنے والا شخص ایسا ہے کہ جسے حالت قیام میں افطاری کرنے والا۔

 

بحالت سفر روزہ رکھنے سے متعلق

 

محمد بن حاتم، سوید، عبد اللہ، شعبۃ، حکم، مقسم، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان المبارک میں (سفر پر) روانہ ہوئے تو وہ روزہ سے رہے حتی کہ وہ مقام قدید جو کہ مدینہ سے سات منزل پر مکہ کی جانب واقع ہے پہنچے پھر ایک پیالہ دودھ کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش ہوا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام نے پی لیا۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا، سعید بن عمرو، عبشر، العلاء بن مسیب، حکم بن عتیبۃ، مجاہد، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ مقام قدید پہنچے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ افطار فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، حسن بن عیسی، ابن مبارک، شعبۃ، حکم، مقسم، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بحالت سفر روزہ رکھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مقام) قدید میں تشریف لائے پھر ایک پیالہ دودھ کا طلب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دودھ پیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام نے دودھ پیا۔

 

راوی حدیث منصور کے اختلاف سے متعلق

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، منصور، مجاہد، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے تو روزے رکھتے رہے۔ یہاں تک کہ مقام عسفان میں پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں پر ایک پیالہ منگوایا رمضان میں (دودھ پیا)۔ حضرت ابن عباس فرماتے تھے جس شخص کا دل چاہے وہ دوران سفر روزہ رکھے اور جس کا دل چاہے افطار کرے (یعنی روزہ نہ رکھے )۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان المبارک میں سفر شروع فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (دوران سفر) روزہ رکھتے رہے یہاں تک کہ مقام عسفان میں داخل ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک برتن منگوایا اور دن میں پانی پی لیا لوگ یہ دیکھتے رہے پھر روزہ نہیں رکھا۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعدۃ، سفیان، عوام بن حوشب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت مجاہد سے عرض کیا کہ دوران سفر روزہ رکھنا کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ رکھتے رہے اور افطار فرماتے رہے۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء، حسین، زہیر، ابو اسحاق ، مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ماہ رمضان المبارک میں روزے رکھے اور پھر دوران سفر روزہ افطار بھی فرمایا۔

 

حضرت حمزہ بن عمرو کی روایت میں حضرت سلیمان بن یسار کے متعلق راویوں کا اختلاف

 

محمد بن رافع، ازہر بن قاسم، ہشام، قتادۃ، سلیمان بن یسار، حمزٰۃ بن عمرو سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا دوران سفر روزہ رکھنا کیسا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور دل چاہے تو نہ رکھو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، بکیر، سلیمان بن یسار، حمزہ بن عمرو نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث سابق کی مثل روایت کی ہے (کہ دوران سفر دل چاہے تو روزہ رکھو نہ چاہے تو نہ رکھو)

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابی انس، سلیمان بن یسار، حمزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سفر میں روزہ کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دوران سفر دل چاہے تو روزہ رکھو نہ چاہے تو نہ رکھو)

 

 

٭٭ محمد بن بشار، ابو بکر، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابو انس، سلیمان بن یسار، حمزٰۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں مسلسل روزے رکھا کرتا تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں دوران سفر مسلسل روزے رکھا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا اگر دل چاہے تو تم روزہ رکھو اور دل چاہے تو تم افطار کرو (یعنی روزہ نہ رکھو۔)

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، عمرو بن حارث، لیث، بکیر، سلیمان بن یسار، حمزہ عمرواسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کی میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں سفر کی حالت میں روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارا اگر دل چاہے تو تم روزہ رکھو اور دل چاہے تو تم افطار کرو (یعنی روزہ نہ رکھو۔)

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، محمد بن بکر، عبدالحمید بن جعفر، عمران بن ابو انس، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حمزٰۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ دوران سفر روزہ رکھا کرتے تھے۔ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم (سفر میں ) روزہ رکھ لو اور دل چاہے تو نہ رکھو۔

 

 

٭٭ عمران بن بکار، احمد بن خالد، محمد، عمران بن ابو انس، سلیمان بن یسار و حنظلۃ بن علی، حمزٰۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا میں اپنے اندر سفر میں یعنی خود میں روزہ رکھنے کی قوت محسوس کرتا ہوں کیا مجھ پر دوران سفر (روزہ رکھنے میں ) کسی قسم کا کوئی گناہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ ایک رخصت اور گنجائش ہے خداوند قدوس کی جانب سے پس جو شخص یہ رخصت حاصل کرے تو بہتر ہے اور جو شخص روزہ رکھنا چاہے تو اس کے ذمہ کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، عمی، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق ، عمران بن ابو انس، حنظلۃ بن علی، حمزٰۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا میں دوران سفر روزہ رکھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو روزہ نہ رکھو۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد، عمی، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق ، عمران بن ابو انس، سلیمان بن یسار، ابو مراوح، حمزٰۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں تو کیا میں دوران سفر بھی روزہ رکھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو روزہ نہ رکھو۔

 

حضرت حمزہ کی روایت میں حضرت عروہ پر اختلاف

 

ربیع بن سلیمان، ابن وہب، عمرو، اسود، عروٰۃ، ابو مراوح، حمزٰۃ بن عمرو، دوران سفر روزہ رکھا کرتے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میں اپنے اندر دوران سفر روزہ رکھنے کی طاقت و قوت رکھتا ہوں تو کیا مجھ پر کسی قسم کا کوئی گناہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ ایک رخصت و سہولت ہے خداوند قدوس کی طرف سے جو شخص یہ رخصت حاصل کرے تو بہتر ہے اور جو شخص روزہ رکھنا چاہے تو اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے۔

 

 

اس حدیث شریف میں حضرت ہشام بن عروہ پر اختلاف سے متعلق

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، محمد بن بشر، ہشام بن عروٰۃ، وہ اپنے والد سے ، حمزٰۃ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (وہ دوران سفر روزہ رکھا کرتے تھے ) انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو تم روزہ نہ رکھو۔

 

 

٭٭ علی بن حسن، عبدالرحیم رازی، ہشام، عروہ، عائشہ، حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (وہ دوران سفر روزہ رکھا کرتے تھے ) انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو تم روزہ نہ رکھو۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ہشام بن عروٰۃ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں دوران سفر روزہ رکھوں ؟ اور وہ بہت زیادہ روزے رکھتے تھے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو تم روزہ نہ رکھو۔

 

 

٭٭ عمرو بن ہشام، محمد بن سلمہ، ابن عجلان، ہشا م، عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو تم روزہ نہ رکھو۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور اگر دل چاہے تو تم روزہ نہ رکھو۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں حضرت ابو نضرہ پر اختلاف سے متعلق

 

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، سعید جریری، ابو نضرۃ، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ماہ رمضان المبارک میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر کیا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی روزہ رکھتا اور ہمارے میں سے کوئی شخص روزہ نہیں رکھتا تھا اور ایک دوسرے کو کوئی شخص کسی قسم کا عیب نہ لگاتا تھا۔

 

 

٭٭ سعید بن یعقوب طالقانی، عبداللہ واسطی، ابو سلمہ، ابو نضرہ، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ ماہ رمضان المبارک میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر کیا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی روزہ رکھتا اور ہمارے میں سے کوئی شخص روزہ نہیں رکھتا تھا اور ایک دوسرے کو کوئی شخص کسی قسم کا عیب نہ لگاتا تھا۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن علی، قواریری، بشر بن منصور، عاصم احول، ابو نضرۃ، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر کیا تو بعض حضرات نے ہمارے میں سے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا۔

 

 

٭٭ ایوب بن محمد، مروان، عاصم، ابو نضرۃ منذر، ابو سعید و جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان دونوں حضرات نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر کیا تو کوئی شخص روزہ رکھتا تھا اور کوئی شخص افطار کرتا اور کوئی شخص ایک دوسرے پر عیب نہ لگاتا۔

 

مسافر کے واسطے ماہ رمضان المبارک میں اس کا اختیار ہے کہ وہ کچھ دن روزہ رکھے اور کچھ دن نہ رکھے

 

قتیبہ، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس سال مکہ مکرمہ کی فتح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (مدینہ منورہ سے ) باہر تشریف لائے روزے رکھتے ہوئے اور جس وقت مقام قدید پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ افطار فرمایا۔

 

جو کوئی ماہ رمضان المبارک میں روزہ رکھے پھر وہ سفر کرے تو روزہ توڑ سکتا ہے

 

محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل، منصور، مجاہد، طاؤس، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفر شروع فرما کر روزہ رکھا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام عسفان میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک برتن طلب فرمایا اور دن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی پیا اس واسطے تاکہ لوگ دیکھ لیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ نہیں رکھا۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں رمضان میں داخل ہوئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حالت سفر میں روزہ رکھا اور روزہ افطار کیا۔ جس کا دل چاہے روزہ رکھ لے اور جس شخص کا دل چاہے وہ روزہ افطار کرے یعنی نہ رکھے۔

 

حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ کی معافی سے متعلق احادیث

 

عمرو بن منصور، مسلم بن ابراہیم، وہیب بن خالد، عبداللہ بن سوادۃ قشیری، وہ اپنے والد سے ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت دن کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آ جاؤ کھانا کھا لو۔ انس نے فرمایا میں روزہ دار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے مسافر کو روزہ معاف فرما دیا ہے اور آدھی نماز بھی معاف فرما دی ہے۔ اسی طریقہ سے حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ معاف کر دیا ہے۔

 

آیت کریمہ کی تفسیر کا بیان

 

قتیبہ، بکر، ابن مضر، عمرو بن حارث، بکیر، یزید، سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی جو شخص رکھنے کی طاقت رکھتا ہو وہ شخص ایک مسکین کو کھانا دے اور اگر روزہ نے رکھنا چاہے تو وہ شخص فدیہ ادا کر دے۔ یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، ورقاء، عمرو بن دینار، عطاء، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے جن حضرات کو روزہ رکھنے کی تکلیف ہے یعنی ان پر روزہ رکھنا فرض ہے ان کو ایک مسکین کو کھانا دینا چاہیے اگر کوئی شخص ایک دوسرے مسکین کو کھانا دے دے تو وہ اس کے واسطے بہتر ہے لیکن روزہ رکھنا بہتر ہے اور واضح رہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے بلکہ اس شخص کے واسطے رخصت ہے جو کہ روزہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ جس طرح کہ کمزور شخص جس کو کہ روزہ رکھنے سے نقصان کا اندیشہ ہے یا ایسا بیمار شخص جو کہ تندرست نہیں ہوتا بلکہ مسلسل بیمار رہتا ہے۔

 

حائضہ کیلئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت

 

علی بن حجر، علی، ابن مسہر، سعید، قتادۃ، معاذٰۃ العدویہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ کیا حائضہ خاتون جس وقت وہ حیض سے پاک ہو جائے تو وہ خاتون نماز کی قضا کرے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم تو حروری تو نہیں ہو (دراصل) عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم خواتین کو حیض آیا کرتا تھا پھر ہم حیض سے پاک ہو جاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو روزہ کے قضا کرنے کا حکم فرماتے اور نماز قضا کرنے کا حکم نہ فرماتے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، یحیی بن سعید، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رمضان المبارک کے روزے مجھ پر لازم ہوتے تو میں ان کی قضا نہیں کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ماہ شعبان آ جاتا۔ (یعنی فوت شدہ روزے شعبان میں رکھتی تھی)۔

 

جس وقت کوئی خاتون حیض سے پاک ہو جائے یا سفر سے رمضان میں کوئی مسافر واپس آ جائے اور رمضان کا دن باقی ہو تو کیا کرنا چاہیے ؟

 

عبد اللہ بن احمد بن عبداللہ بن یونس ابو حصین، عبشر، حصین، شعبی، محمد بن صیفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عاشورہ کے دن ارشاد فرمایا کیا تمہارے میں سے آج کے دن کسی شخص نے کچھ کھایا ہے ؟ لوگوں نے کہا ہمارے میں سے بعض حضرات نے روزہ رکھ لیا ہے اور بعض نے روزہ نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم باقی دن مکمل کر لو (یعنی دن کے باقی حصہ میں اب تم کچھ نہ کھاؤ) اور یہ کہلوایا ان لوگوں کو جو کہ شہر کے کنارے رہتے ہیں یعنی قریب قریب گاؤں والوں کو کہ وہ دن پورا کریں باقی حصہ کا۔

 

اگر رات میں روزہ کی نیت نہیں کی تو کیا دن میں نفلی روزہ رکھنا درست ہے ؟

 

محمد بن مثنی، یحیی، یزید، سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن ایک شخص سے ارشاد فرمایا کہ تم عاشورہ کے دن یہ اعلان کر دو کہ جس شخص نے کھانا کھا لیا ہے وہ دن کا باقی حصہ کچھ نہ کھائے پیئے اور جس نے نہیں کھایا ہے تو وہ شخص روزہ رکھے۔

 

روزہ کی نیت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں طلحہ بن یحییٰ کے متعلق اختلاف

 

عمرو بن منصور، عاصم بن یوسف، ابو احوص، طلحہ بن یحیی بن طلحہ، مجاہد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا کھانے کے واسطے کچھ موجود ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرا تو روزہ ہے پھر دوسرے روزہ تشریف لائے اور میرے پاس حصہ آیا تھا حیس کا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے وہ چھپا کر رکھا تھا۔ اس واسطے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حیس پسند تھا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے پاس حیس کا حصہ آیا ہے جو کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے چھپا کر رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم وہ لے کر آؤ۔ میں نے روزہ رکھا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ کھایا۔ اس کے بعد فرمایا نفلی روزہ کا ایسی مثال ہے جسے کوئی شخص اپنے مال میں سے (نفل) صدقہ نکالے اب اس کو اختیار ہے چاہے وہ صدقہ دے یا نہ دے۔

 

 

٭٭ ابوداؤد، یزید، شریک، طلحہ بن یحیی بن طلحہ، مجاہد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک مرتبہ میرے پاس تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کے واسطے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھانے کے واسطے نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میرا تو روزہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے نزدیک دوسری مرتبہ تشریف لائے میرے پاس اس وقت حیس (پنیر) کا حصہ پہنچا تھا۔ میں اس کو لے کر حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ حیس کھا لیا۔ مجھ کو اس پر تعجب ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے تشریف لائے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا روزہ تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اب حیس کھا لیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہاں ! اے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا۔ اے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جو کوئی روزہ رکھے لیکن وہ روزہ ماہ رمضان کا نہ ہو اور نہ رمضان المبارک کی قضا کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو تو اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کسی شخص نے اپنے مال سے صدقہ نکالا اس کے بعد جس قدر چاہا سخاوت کر کے اس میں سے دے دیا اور جس قدر چاہا کنجوسی کر کے اس میں سے رکھ لیا

 

 

٭٭ عبد اللہ بن ہیثم، ابو بکر حنفی، سفیان، طلحہ بن یحیی، مجاہد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اور دریافت فرماتے کہ تم لوگوں کے پاس کھانا موجود ہے ؟ ہم عرض کرتے کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے میں روزہ دار ہوں پھر ایک دن تشریف لائے تو ہم لوگوں کے پاس حیس آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے دریافت فرمایا کوئی چیز موجود ہے ؟ ہم نے کہا کہ حیس آیا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے صبح کو روزے رکھنے کی نیت کر لی تھی پھر کھانا کھایا۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، قاسم، سفیان، طلحہ بن یحیی، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا ہمارے پاس حیس کا حصہ آیا تھا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حصہ رکھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں روزہ سے ہوں پھر روزہ توڑ ڈالا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، طلحہ بن یحیی، عائشہ صدیقہ بنت طلحہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس روزہ کی حالت میں تشریف لائے اور دریافت فرماتے کہ کچھ کھانے کے واسطے ہے ؟ ہم عرض کرتے کہ جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ میں روزہ سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کے ایک دن کے بعد تشریف لائے میں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس (حیس کا) حصہ آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا چیز ہے۔ ہم نے کہا کہ حیس آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے تو روزہ رکھا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ حیس تناول فرما لیا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، وکیع، طلحہ بن یحیی، عائشہ صدیقہ بنت طلحہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا تمہارے پاس کچھ موجود ہے ؟ میں نے عرض کیا جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا تو روزہ ہے۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن علی، نصر بن علی، وہ اپنے والد سے ، قاسم بن معن، طلحہ بن یحیی، عائشہ صدیقہ بنت طلحہ و مجاہد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانے کے واسطے کچھ موجود ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا تو روزہ ہے پھر ایک اور دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس حیس کا تحفہ آیا ہے چنانچہ وہ حیس کا تحفہ منگایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تو صبح کو روزے کی نیت کی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس (حیس) میں سے کچھ تناول فرما لیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، معافی بن سلیما ن، قاسم، طلحہ بن یحیی، مجاہد و ام کلثوم نے بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اسی قسم کی روایت نقل کی ہے۔

 

 

٭٭ صفوان بن عمرو، احمد بن خالد، اسرائیل، سماک بن حرب، رجل، عائشہ صدیقہ بنت طلحہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک روز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ کھانا موجود ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس حیس کا ایک حصہ ایک جگہ سے آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو میں وہ روزہ افطار کئے لیتا ہوں اور میں تو روزہ فرض اور لازم کر چکا تھا۔

 

حضرت حفصہ کی حدیث شریف میں راویوں کے اختلاف سے متعلق حدیث

 

قاسم بن زکریا بن دینار، سعید بن شرجیل، لیث، یحیی بن ایوب، عبداللہ بن ابو بکر، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص روزہ کی نیت نہ کرے وقت فجر سے قبل تو اس کا روزہ نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭ عبدالملک بن شعیب بن لیث بن سعد، یحیی بن ایوب، عبداللہ بن ابی بکر، ابن شہاب، سالم، عبد اللہ، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص روزہ کی نیت نہ کرے وقت فجر سے قبل تو اس کا روزہ نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن حکم، اشہب، یحیی بن ایوب، عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، وہ اپنے والد سے ، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص روزہ کی نیت فجر نکلنے سے قبل کرے تو وہ شخص روزہ رکھ لے۔

 

 

٭٭ احمد بن الازہر، عبد الرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، سالم، ابن عمر، حفصہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، عبید اللہ، ابن شہاب، سالم، عبد اللہ، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جو شخص رات سے ہی روزہ کی نیت نہ کرے تو وہ شخص روزہ نے رکھے۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حمزہ بن عبداللہ بن عمر، وہ اپنے والد سے ، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ جو شخص فجر نکلنے سے قبل نیت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، حسن بن عیسی، ابن مبارک، معمر، زہری، حمزہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ جو شخص فجر نکلنے سے قبل نیت کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، سفیان بن عیینہ، معمر، الزہری، حمزۃ ابن عبداللہ بن عمر، ابیہ، حفصہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا ترجمہ گزشتہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم ، سفیان، الزہری، حمزۃبن عبداللہ بن عمر، حفصہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن حرب، سفیان، الزہری، حمزۃبن عبد اللہ، حفصہ رضی اللہ عنہا ترجمہ گزشتہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ روایت کے مطابق ہے

 

 

٭٭ ترجمہ گزشتہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن عمر سے مذکورہ مضمون کے مطابق روایت منقول ہے۔

 

حضرت داؤد کے روزہ سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، عمرو بن دینار، عمرو بن اوس، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمام روزوں سے زیادہ خدا کو حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ پسند ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک روز افطار فرماتے اور تمام نمازوں میں سے خداوند قدوس کو حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز پسند ہے۔ وہ آدھی رات تک سویا کرتے تھے اور تہائی رات سے بیدار رہتے پھر وہ رات کے چھٹے حصہ میں سوتے تھے۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا، عبید اللہ، یعقوب، جعفر، سعید، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایام بیض میں افطار نہیں فرماتے تھے نہ سفر میں نہ حالت قیام میں۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اب روزہ افطار نہیں فرمائیں گے یعنی روزہ نہیں چھوڑیں گے اور جب چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے نہیں رکھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی ایک ماہ تک مسلسل روزے نہیں رکھے۔ علاوہ رمضان المبارک کے جس وقت سے وہ مدینہ منورہ میں آئے۔

 

 

٭٭ محمد بن نضر بن مساور مروزی، حماد، مروان، ابو لبابۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب روزے رکھتے تو ہم لوگ کہتے تھے اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار نہیں فرمائیں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار فرماتے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ نہیں رکھیں گے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، سعید، قتادۃ، زرارۃ بن اوفی، سعد بن ہشام، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اس کا علم نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہی رات میں مکمل قرآن پاک تلاوت فرما لیا ہو یا تمام ہی رات صبح تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبادت فرمائی ہو یا کسی ماہ پورے کے پورے ماہ کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزے رکھے ہوں علاوہ رمضان المبارک کے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، ایوب، عبداللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزے کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ رکھا کرتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے ہی رکھیں گے پھر افطار فرماتے یہاں تک کہ ہم لوگ کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار ہی فرمائیں گے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں (رمضان کے علاوہ) کبھی کسی ماہ کے پورے روزے نہیں رکھے۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، معاویہ بن صالح، عبداللہ بن ابو قیس، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تمام مہینوں میں روزہ رکھنے کے واسطے شعبان کا مہینہ پسندیدہ تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس ماہ کو ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان بن داؤد، ابن وہب، مالک و عمرو بن حارث، ابو نضر، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھا کرتے تھے حتی کہ ہم لوگ یہ کہنے لگتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ افطار نہ فرمائیں گے (یعنی روزے ہی رکھتے رہیں گے ) اور میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کسی مہینہ میں ماہ شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔

 

 

٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبۃ، منصور، سالم بن ابو جعد، ابو سلمہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی دو ماہ پے درپے اور مسلسل روزے نہ رکھتے علاوہ ماہ شعبان اور ماہ رمضان المبارک کے (یعنی ان دونوں مہینے کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلسل روزے رکھتے تھے۔)

 

 

٭٭ محمد بن ولید، محمد، شعبۃ، توبۃ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے سال کسی مہینہ کے روزے نہ رکھتے تھے علاوہ ماہ شعبان کے اور شعبان کے روزے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان المبارک کے ساتھ شامل فرما دیتے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، عمی، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی ماہ میں ماہ شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے شعبان میں روزے رکھتے تھے یا ماہ شعبان کے زیادہ تر حصہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزے رکھتے۔

 

 

٭٭ عمرو بن ہشام، محمد بن سلمہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ شعبان کے روزے رکھتے لیکن کچھ دن روزے نہ رکھتے (یعنی افطار فرماتے )

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیٰۃ، بحیر، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پورے ماہ شعبان میں روزے رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، ثابت بن قیس، ابو غصن شیخ، ابو سعید مقبری، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ماہ شعبان کے علاوہ کسی دوسرے ماہ میں اس طریقہ سے (یعنی پابندی سے ) روزہ رکھتا ہوا نہیں دیکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ مہینہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی برکت (اور عظمت) سے لوگ غافل ہیں اور ماہ رجب اور ماہ رمضان کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں انسان کے اعمال خداوند قدوس کے پاس اٹھائے جاتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو جس وقت میرا روزہ ہو۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، ثابت بن قیس ابو غصن شیخ، ابو سعید مقبری، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب روزہ رکھتے ہیں تو اس قدر روزے رکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اب افطار نہیں فرمائیں گے اور جس وقت روزہ رکھنا چھوڑتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی روزہ نہیں رکھیں گے اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ افطار فرماتے ہیں (یعنی روزہ رکھنا چھوڑ دیتے ہیں ) تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو دن کے علاوہ روزہ نہیں رکھیں گے اور وہ دن اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روزوں کے درمیان میں آ جائیں تو بہتر ہے نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دو دن میں بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا وہ دن کون سے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ وہ دن (کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزہ ضرور رکھتے ہیں ) پیر اور جمعرات کے دن ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزید ارشاد فرمایا یہ وہ (مبارک) دن ہیں جن میں بندوں کے اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش کیے جاتے ہیں میری خواہش ہے کہ جس وقت میرے اعمال بارگاہ خداوندی میں پیش ہوں تو میں اس وقت روزہ دار ہوں۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، زید بن حباب، ثابت بن قیس غفاری، ابو سعید مقبری، ابو ہریرہ، اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برابر (مسلسل) روزے رکھا کرتے تھے لوگ کہتے اب افطار نہیں فرمائیں گے یعنی روزے ہی رکھتے رہیں گے لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار فرماتے تو لوگ کہتے کہ اب روزہ نہ رکھیں گے (یعنی افطار ہی فرماتے رہیں گے )۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیٰۃ، بحیر، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کے دن کے روزے کا (خاص) خیال فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبداللہ بن داؤد، ثور، خالد بن معدان، ربیعۃ الجرشی، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا ترجمہ سابقہ روایت کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم ، عبید اللہ بن سعید، سفیان، ثور، خالد بن معدان، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، ابو داؤد، سفیان، منصور، خالد بن سعد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کے دن کا (خاص طریقہ سے ) خیال فرمایا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم بن حبیب بن شہید، یحیی بن یمان، سفیان، عاصم، مسیب بن رافع، سواء خزاعی، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن علی، ابو نصر تماد، حماد بن سلمہ، عاصم، سواء، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں تین تین روزے رکھا کرتے تھے ایک تو ہفتہ میں پیر اور جمعرات کو اور دوسرے ہفتہ کے پیر کو (روزہ رکھتے تھے )

 

٭٭ زکریا بن یحیی، اسحاق ، نضرل حماد، عاصم بن ابو نجود، سواء، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ کو پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے پھر دوسرے ہفتہ کے پیر کو روزہ رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، حسین، زائدۃ، عاصم، مسیب، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سوتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دائیں طرف کی ہتھیلی کو دائیں رخسار مبارک کے نیچے رکھتے تھے اور پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن علی بن حسن بن شقیق، ابو حمزٰۃ، عاصم، زر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں شروع سے (یعنی مہینہ کی پہلی تاریخ سے ) تین روزے رکھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ کے روز کم افطار کرتے (یعنی جمعہ کے دن زیادہ تر روزہ رکھا کرتے تھے )

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، ابو کامل، ابو عوانۃ، عاصم بن بہدلۃ، رجل، اسود بن ہلال، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو نماز چاشت کی دو رکعات پڑھنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا تم لوگ اس وقت تک نہ سویا کرو کہ جس وقت تک نماز وتر نہ پڑھ لو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ماہ تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عبید اللہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ کو اس کا علم نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن کے علاوہ کسی اور دن کا روزہ اور دنوں کے مقابلہ میں بہتر سمجھ کر رکا ہو یعنی رمضان المبارک اور عاشورہ کے دن کا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، زہری، حمید بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ عاشورہ کے دن (مسجد کے ) پر منبر تھے اس وقت میں نے ان سے سنا وہ فرمایا کرتے کہ اے اہل مدینہ! تم لوگوں کے علماء کہاں ہیں ؟ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج کے دن فرماتے تھے میں روزہ دار ہوں۔ جس کا دل چاہے وہ روزہ رکھ لے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، شیبان، ابو عوانۃ، حر بن صیاح، ہنیدۃ بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ سے سنا انہوں نے کہا مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ نے بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عاشورہ کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ ذی الحجہ کے نو دن میں اور ہر ماہ کے تین دن میں ایک پہلے پیر اور دو جمعرات کو (روزہ رکھتے تھے )۔

 

 

٭٭ حاجب بن سلیمان، حارث بن عطیۃ، اوزاعی، عطاء بن ابو رباح، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ہمیشہ روزہ رکھا تو اس شخص نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔

 

 

٭٭ عیسی بن مساور، ولید، اوزاعی، عطاء، عبد اللہ، محمد بن عبد اللہ، ولید، اوزاعی، عطاء، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے تو اس شخص نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔

 

 

٭٭ عباس بن ولید، وہ اپنے والد سے ، وازاعی، عطاء، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے تو اس شخص نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔ (یعنی اس کا یہ عمل پسندیدہ نہیں ہے )۔

 

 

٭٭ اسمعیل بن یعقوب، محمد بن موسی، اوزاعی، عطاء، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے تو اس شخص نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔ (یعنی اس کا یہ عمل پسندیدہ نہیں ہے )۔

 

 

٭٭ احمد بن ابراہیم بن محمد، ابن عائذ، یحیی، الاوزاعی، عطاء، عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کی روایت مذکور ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، ابن جریج، عطاء، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع پہنچی کہ میں روزہ رکھتا ہوں پھر حدیث نقل فرمائی۔ عطاء راوی نے بیان کیا کہ مجھے یہ بات یاد اور محفوظ نہیں رہی لیکن اس قدر یاد ہے کہ اس طریقہ سے کہا جس شخص نے ہمیشہ روزے رکھے گویا اس شخص نے روزے رکھے ہی نہیں۔

 

ہمیشہ (بلا ناغہ) روزہ رکھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، جریری، یزید بن عبداللہ بن شخیر، مطرف، عمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فلاں شخص کبھی دن میں افطار نہیں کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن ہشام، مخلد، اوزاعی، قتادۃ، مطرف بن عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک آدمی کا تذکرہ ہوا جو کہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہ تو اس نے روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، ابو داؤد، شعبۃ، قتادۃ، مطرف بن عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیشہ مستقل روزہ رکھنے سے متعلق ارشاد فرمایا نہ تو وہ روزہ ہے اور نہ وہ افطار ہے۔

 

زیر نظر حدیث شریف میں راوی غیلان پر اختلاف

 

ہارون بن عبد اللہ، حسن بن موسی، ابو ہلال، غیلان، ابن جریر، عبد اللہ، ابن معبد زمانی، ابو قتادۃ، عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ہمارا ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! یہ شخص اتنے زمانہ سے افطار نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ تو اس شخص نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا (یعنی ایسا شخص روزہ کے ثواب سے محروم ہے کیونکہ بھوک پیاس اس کی عادت بن گئی ہے )۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، غیلان، عبداللہ بن معبد زمانی، ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس قدر روزہ رکھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سوال سے ناراض ہو گئے (کیونکہ اس شخص کا یہ سوال نامناسب اور بے موقع تھا) اس کو یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ مجھے کس قدر روزے رکھنا چاہیے تاکہ اس کی قوت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو حکم شرح ارشاد فرماتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا غصہ کم کرنے کے واسطے فرمایا ہم لوگ خداوند قدوس کے معبود برحق اور اسلام کے دین ہونے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رسول ہونے پر رضامند ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس طریقہ سے کرے تو (گویا کہ) اس نے نہ تو روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔

 

پے درپے روزے رکھنے سے متعلق حدیث

 

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، ہشام، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں کیا میں دوران سفر بھی روزہ رکھ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارا دل چاہے تو تم روزہ رکھ لو اور تم چاہو تو افطار کر لو (یعنی روزہ نہ رکھو)

 

دو دن روزہ رکھنا اور ایک دن ناغہ کرنا

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، اعمش، ابو عمار، عمرو بن شرجیل ایک صحابی سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو کہ ہمیشہ روزہ دار رہا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس سے افضل یہ تھا کہ وہ آدمی کبھی کچھ نہ کھاتا۔ اس پر لوگوں نے عرض کیا اگر وہ شخص دو دن روزے رکھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بھی زیادہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا اگر وہ شخص ایک دن روزہ چھوڑ دے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بھی زیادہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تم کو اس قسم کا عمل نہ بتلا دوں کہ جس سے قلب کے وسوسے زائل ہو جائیں۔ وہ یہ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھ لینا۔

 

 

٭٭محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، ابو عمار، عمرو بن شرحبیل، اس حدیث شریف کا وہی ترجمہ ہے جو کہ مذکور ہوا اس حدیث میں ہے کہ ایک آدمی خدمت نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے متعلق جو کہ ہمیشہ روزہ دار رہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، حماد، غیلان بن جریر، عبداللہ بن معبد زمانی، ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ روزہ دار رہنا کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نہ تو وہ روزہ ہے اور نہ افطار ہے۔ پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جو شخص دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی کون شخص طاقت رکھتا ہے پھر انہوں نے کہا جو شخص ایک روزہ رکھے اور ایک روز افطار کرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ پھر انہوں نے فرمایا جو کوئی ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری خواہش ہے کہ اس قدر طاقت رکھوں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ماہ میں تین روزے رکھنا اور رمضان کے روزے رکھنا ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہیں۔

 

ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن افطار کرنا کیسا ہے ؟

 

احمد بن منیع، ہشیم، حصین و مغیرۃ، مجاہد، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہترین روزہ داؤد علیہ السلام کاہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار فرماتے (یعنی روزہ نے رکھتے )

 

 

٭٭ محمد بن معمر، یحیی بن حماد، ابو عوانۃ، مغیرۃ، مجاہد، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے میرا نکاح ایک اعلیٰ خاندان کی عورت سے کر دیا تو وہ اس خاتون کے پاس آئے اور اس کے شوہر کی حالت یعنی میری خیریت دریافت فرمائی۔ اس خاتون نے کہا کہ وہ بہت عمدہ آدمی ہے اس نے آج تک ہمارے بستر کو استعمال نہیں کیا اور نہ اس نے کبھی کھایا کہ اس کو اجابت کی ضرورت پیش آتی (مطلب یہ ہے کہ بہت زیادہ یکسو اور دنیا سے الگ قلندر شخص ہے ) جس وقت سے ہم لوگ اس کے پاس آئے ہیں۔ میرے والد صاحب نے اس کا تذکرہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ میں اپنے والد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ہفتہ میں تم تین روزے رکھا کرو۔ میں نے عرض کیا مجھ کو اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم دو روز روزے رکھا کرو اور ایک روز افطار کیا کرو۔ (یعنی روزے نے رکھا کرو) اس پر میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو تمام روزوں سے زیادہ افضل روزے رکھ اور وہ داد علیہ السلام کے روزے ہیں۔ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کرو۔ (یعنی ایک دن روزہ چھوڑ دو)۔

 

 

٭٭ ابوحصین عبداللہ بن احمد بن عبداللہ بن یونس، عبشر، حصین، مجاہد، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے میرا نکاح ایک عورت سے کر دیا پھر وہ اس کو دیکھنے کے واسطے تشریف لائے اور ان سے دریافت کیا کہ تمہارا شوہر کیسا ہے ؟ اس نے عرض کیا کیا خوب ہے وہ ایک اچھا انسان ہے کہ رات میں نہیں سوتا ہے اور نہ دن میں افطار کرتا ہے اس بات پر وہ مجھ سے لڑنے لگ گئے اور فرمانے لگے کہ تم نے ایک مسلم خاتون کو ایذاء پہنچائی ہے میں نے ان کی بات کا دھیان نہیں دیا کیونکہ میں اپنے اندر طاقت محسوس کرتا ہوں۔ یہ خبر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو رات میں عبادت میں مشغول رہتا ہوں اور سوتا بھی ہوں روزہ بھی رکھتا ہوں افطار بھی کرتا ہوں تم بھی عبادت الہی میں مشغول رہو اور رات میں آرام کیا کرو اور روزہ رکھا کرو اور افطار کرتے رہو (یعنی روزہ چھوڑتے رہا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرو۔ میں نے عرض کیا مجھ کو اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم حضرت داد علیہ السلام کا روزہ رکھو وہ ایک روز روزہ رکھتے اور ایک روز افطار کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم حضرت داد علیہ السلام کا روزہ رکھو ایک دن روزہ اور ایک روز افطار (یعنی صوم دادی یہ ہے کہ ایک روز روزہ رکھو اور ایک روز ناغہ کرو) اس پر میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک ماہ میں مکمل قرآن کریم ختم کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کم فرماتے فرماتے پندرہ روز تک پہنچ گئے اور میں وہی بات کہتا جاتا تھا کہ مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے۔

 

 

٭٭ یحیی بن درست، ابو اسماعیل، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمۃ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے کمرہ میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو یہ خبر ملی ہے کہ تم تمام رات عبادت میں مشغول رہتے ہو اور تم دن میں روزہ دار رہتے ہو۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ جی ہاں سچ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس طریقہ سے نہ کرو لیکن تم عبادت میں مشغول رہو اور تم روزہ رکھو اور افطار کرو کیونکہ تمہارے ذمہ تمہاری آنکھوں کا بھی حق ہے (وہ آرام کرنا چاہتی ہیں ) اور تمہارے ذمہ تہماری اہلیہ کا بھی حق ہے اور تمہارے پاس آنے والے مہمان کا بھی تمہارے ذمہ حق ہے اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری لمبی عمر ہو (چنانچہ واقع اسی طرح سے پیش آیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ ضعیف العمر ہو کر وفات ہوئے ) اور تمہارے واسطے ہر ماہ میں تین روزہ رکھنا کافی ہیں (جب کہ زندگی زیادہ ہو جائے تو اسی قدر روزے کافی ثابت ہوں گے ) اور یا ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہیں (مطلب یہ ہے کہ اس قدر اجر و ثواب ہے ) کیونکہ ہر ایک نیک عمل کا اجر دس گنا ہوتا ہے میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ اور میں نے اپنے ذمہ سختی کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی شدت اور سختی فرمائی اور ارشاد فرمایا ہر ایک ماہ میں تم تین روزے رکھو اس پر میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے اور میں نے اپنے ذمہ شدت اور سختی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی شدت کی اور فرمایا کہ حضرت داد علیہ السلام کا تم روزہ رکھا کرو۔ میں نے عرض کیا وہ روزہ کیسا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آدھا زمانہ (یعنی ایک روز روزہ اور ایک روز افطار)۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی شخص نے عرض کیا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ تمام رات عبادت میں مشغول رہوں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا۔ جس وقت تک زندہ رہوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم یہ بات کہتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بلاشبہ میں نے یہ کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس قدر طاقت نہیں رکھتے ہو۔ تم روزہ رکھو اور افطار کرو اور تم عبادت کرو اور ہر ماہ میں تین دن روزے رکھو کیونکہ نیک عمل کا اجر و ثواب دس گنا ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ بہتر کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہتر ہے کہ تم ایک دن روزہ رکھو اور دو روز افطار کرو۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ بہتر کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا ایک روز تم روزہ رکھو اور ایک دن تم افطار کرو حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ روزہ بہت زیادہ مناسب اور معتدل ہے۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ بہتر کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس سے بہتر کچھ نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگر میں پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبول کرتا یعنی تین روز ہر ماہ روزہ رکھتا تو وہ میرے واسطے مجھ کو میرے گھر اور میرے اہل وعیال اور دولت سے زیادہ محبوب ہوتا۔

 

 

٭٭ احمد بن بکار، محمد، ابن سلمہ، ابن اسحاق ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے چچا جان! تم مجھ سے وہ بیان کرو جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم سے بیان فرمایا ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ اے میرے بھتیجے میرے بھائی کے لڑکے ! میں نے اس کا ارادہ کیا کہ میں بہت زیادہ کوشش عبادت میں کروں یہاں تک کہ میں تمام زندگی روزہ رکھوں گا۔ اور ہر ایک رات دن میں قرآن کریم پڑھا کروں گا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اطلاع سنی تو وہ میرے پاس تشریف لائے اور میرے مکان میں داخل ہو گئے اور ارشاد فرمایا۔ میں نے سنا ہے تم نے یہ کہا ہے کہ میں تمام زندگی روزہ دار رہوں گا اور قرآن کریم کی تلاوت کروں گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! بلاشبہ میں نے اسی طرح سے بیان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایسا نہ کرو اور تم ہر ماہ کے تین روزے رکھو میں نے کہا میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ہر ایک ہفتہ میں دو روز پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم داد علیہ السلام کا روزہ رکھ لیا کرو وہ تمام روزوں سے زیادہ اعتدال والا ہے خداوند قدوس کے پاس۔ وہ ایک دن روزہ رکھا کرتے تھے اور ایک روز افطار فرماتے تھے اور وہ جس وقت کسی بات کا وعدہ فرماتے تو اس کے خلاف نے فرماتے اور جس وقت جنگ شروع فرماتے تو پھر میدان سے پیچھے نہ ہٹتے۔

 

روزوں میں کمی بیشی سے متعلق احادیث مبارکہ کا بیان

 

محمد بن مثنی، محمد، شعبۃ، زیاد بن فیاض، ابو عیاض، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم ایک دن روزہ رکھو تم کو اس کا اجر ملے گا باقی نو روز کے روزوں کا (یعنی دس روز میں سے ایک روز کا روزہ رکھو) انہوں نے بیان فرمایا کہ میرے اندر اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم دو روز کا روزہ رکھو اور باقی ایام کا تم کو اجر ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ میرے اندر اس سے زیادہ قوت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم تین دن کے روزے رکھو اور تم کو باقی دن کا اجر بھی ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام روزوں میں سب سے افضل روزہ داؤد علیہ السلام کاہے اور تم داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک روز افطار فرماتے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، وہ اپنے والد سے ، ابو العلاء، مطرف، ابن ابو ربیعۃ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روزوں کے متعلق عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ایک دس روز میں تم ایک روزہ رکھو اور تم کو باقی نو روز کا اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اچھا ہر ایک نو روز میں سے ایک روز روزہ رکھو اور تم کو اجر باقی آٹھ روزوں کا ملے گا۔ میں نے عرض کیا مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ایک آٹھ روز میں ایک روز روزہ رکھو اور تم کو باقی سات دنوں کے روزوں کا بھی اجر ملے گا۔ میں سے عرض کیا میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے بیان فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایک دن کا روزہ رکھو اور تم ایک روز افطار کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، حماد، زکریا بن یحیی، عبدالاعلی، حماد، ثابت، شعیب بن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ایک روز روزہ رکھو دس روز کے روزوں کا تم کو اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا اس میں اضافہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو روز روزہ رکھ لو تم کو اس طرح سے نو دن کے روزوں کا اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا اس میں اور اضافہ فرمائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم تین روز کا روزہ رکھو تم کو آٹھ روزوں کا اجر ملے گا۔ حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت مطرف سے یہ حدیث نقل کی انہوں نے فرمایا مجھ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جس قدر عمل میں اضافہ ہو گا اسی قدر اجر میں کمی واقع ہوتی جائے گی۔

 

ہر مہینے میں دس روزے رکھنے کا بیان

 

محمد بن عبید، اسباط، مطرف، حبیب بن ابو ثابت، ابو عباس، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تمام ہی رات عبادت میں مشغول رہتے ہو اور روزانہ ہی روزہ رکھتے ہو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری نیت نہ تھی لیکن ثواب کی نیت (ضرور) تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ہمیشہ روزہ رکھا تو اس نے دراصل روزہ نہیں رکھا لیکن میں تم کو ہمیشہ روزے کا اجر بتلاتا ہوں۔ ہر ماہ میں تین روز روزے رکھو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ہر ماہ میں پانچ دن روزے رکھو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہر مہینہ میں دس روز روزہ رکھو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ میں اس سے زیادہ کی قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (ہر ماہ میں ) تم حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو۔ وہ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز وہ افطار فرماتے تھے (یعنی روزہ چھوڑتے تھے۔)

 

 

٭٭ علی بن الحسین، امیہ، شعبہ، حبیب، ابو عباس، اہل شام کا ایک آدمی جو شاعر اور سچا تھا، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، حبیب بن ابو ثابت، ابو عباس، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے عبداللہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور تمام رات تم عبادت میں مشغول رہتے ہو جس وقت تم اس طرح سے کرو گے تو تمہاری آنکھ اندر ہی کی طرف ہو جائیں گی اور تمہاری طبیعت میں تھکن آ جائے گی کہ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا۔ ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرو یہ ہمیشہ روزے کے برابر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک دن تم روزہ رکھو اور ایک روز افطار کرو۔ جس طریقہ سے کہ داؤد علیہ السلام کیا کرتے تھے اور وہ لڑائی سے نہیں بھاگتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، عمرو بن دینار، ابو عباس، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تم قرآن کریم ایک ماہ میں پڑھو میں نے عرض کیا میرے اندر اس سے زیادہ پڑھنے کی قوت ہے پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی عرض کرتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم قرآن کریم پانچ روز میں پڑھو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ہر ماہ میں تین روزے رکھو۔ میں نے عرض کیا میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ پھر میں یہی عرض کرتا رہا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمام روزوں میں خداوند قدوس کو داؤد کا روزہ پسندیدہ ہے وہ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز افطار فرماتے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، عطاء، ابو عباس، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع ملی کہ میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں اور رات میں نماز میں مشغول رہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو طلب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود مجھ سے ملاقات فرمائی اور ارشاد فرمایا مجھ کو اس بات کا علم ہوا ہے کہ تم روزہ دار رہتے ہو اور افطار نہیں کرتے (یعنی تم مستقل روزے ہی روزے رکھتے رہتے ہو اور تمام رات نماز میں مشغول رہتے ہو۔ تم اس طرح سے نہ کرو کیونکہ تمہاری آنکھوں کا بھی حق ہے اور تمہارے نفس کا بھی ایک حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا بھی ایک حصہ (اور حق) ہے تم روزہ رکھو اور افطار کرو یعنی (روزہ چھوڑ دو) اور تم کو بقایا نو روزوں کا بھی اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم حضرت داد علیہ السلام کا روزہ رکھ لو۔ میں نے عرض کیا کہ ان کا روزہ کس قسم کا ہوا کرتا تھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ ایک دن تو روزہ رکھتے تھے اور ایک روز روزہ افطار فرماتے (یعنی چھوڑ دیتے ) اور جس وقت جنگ میں مقابلہ ہوتا تو آپ راہ فرار اختیار نہ کرتے۔ میں نے عرض کیا کہ کون شخص یہ کر سکتا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

 

ہر ماہ پانچ روزے رکھنے سے متعلق احادیث

 

زکریا بن یحیی، وہب بن بقیٰۃ، خالد، خالد، ابو قلابۃ، ابو ملیح، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے میرے روزوں کا تذکرہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے چمڑے کا بنا ہوا ایک تکیہ بچھایا کہ جس کے اندر کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زمین پر تشریف فرما ہوئے اور میرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان تکیہ حائل ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم کو ہر ماہ میں تین روزے رکھنا کافی نہیں ہیں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سات۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نو۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ گیارہ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزہ سے بڑھ کر کوئی دوسرا روزہ نہیں ہے وہ آدھے زمانہ میں روزہ رکھتے تھے اور اس طریقہ سے کہ ایک روز روزہ رکھتے اور ایک روز افطار فرماتے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، شعبۃ، زیاد بن فیاض، عیاض، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ تم ہرماہ میں تم ایک روزہ رکھا کرو اور تم کو باقی نو دن کا اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم دو روز روزہ رکھ لو اور تم کو باقی ایام کے روزے کا اجر مل جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر ماہ تین روز روزہ رکھ لو اور تم کو باقی دن کے روزے کا اجر ملے گا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم چار روز روزے رکھ لو اور تم کو باقی دن کے روزے کا ثواب مل جائے گا۔ میں سے عرض کیا کہ میرے اندر اس سے زیادہ کی قوت ہے۔ اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمام روزوں میں سب سے بہتر حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے وہ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز افطار فرماتے (یعنی روزہ چھوڑتے )

 

ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق احادیث شریفہ

 

علی بن حجر، اسماعیل، محمد بن ابو حرملۃ، عطاء بن یسار، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو میرے محبوب الہی نے وصیت فرمائی (خداوند قدوس ان پر سلامتی اور رحمت نازل فرمائے ) انہوں نے مجھ کو تین بات کی وصیت فرمائی ایک تو نماز چاشت کی اور سونے سے قبل نماز وتر ادا کرنے کی اور تیسرے ہر ماہ میں تین روز روزہ رکھنے کی۔

 

 

٭٭ محمد بن علی بن حسن، وہ اپنے والد سے ، ابو حمزٰۃ، عاصم، اسود بن ہلال، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو تین باتوں کا حکم فرمایا ایک تو سونے سے قبل نماز وتر کا اور دوسرے جمعہ کے روز غسل کرنے کا اور تیسرے ہر ماہ میں تین دن روزے رکھنے کا۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، ابو کامل، ابو عوانۃ، عاصم بن بہدلۃ، رجل، اسود بن ہلال، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو دو رکعت نماز چاشت ادا کرنے کا حکم فرمایا اور بغیر وتر کی نماز پڑھنے نہ سونے کا اور ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کا۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، ابو نضر، ابو معاویہ، عاصم، اسود بن ہلال، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو نماز وتر ادا کرنے کے بعد سونے کا حکم فرمایا اور جمعہ کے دن غسل کرنے کا اور ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کا۔

 

حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں حضرت عثمان پر اختلاف

 

زکریا بن یحیی، عبدالاعلی، حماد بن سلمہ، ثابت، ابو عثمان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ ماہ رمضان المبارک میں اور ہر ماہ میں تین روز روزے رکھنا ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔

 

 

٭٭ علی بن حسن، عبدالرحیم، ابن سلیمان، عاصم احول، ابو عثمان، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مہینہ میں تین روزے رکھے پھر بیان کیا کہ خداوند قدوس نے قرآن میں سچ ارشاد فرمایا جو کوئی ایک نیک عمل کرے تو اس شخص کو دس گنا اجر ملے گا۔

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، عاصم، ابو عثمان، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص مہینہ میں تین روزے رکھے تو اس کو پورے ماہ کے روزوں کا ثواب ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، سعید بن ابو ہند، مطرف، عثمان بن ابو عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اچھے روزے ہر ماہ میں تین دن روزے رکھنا ہے۔

 

 

٭٭ زکریا بن یحیی، ابو مصعب، مغیرہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن سعید بن ابو ہند، محمد بن اسحاق، سعید بن ابو ہند، عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ اس کا مضمون سابقہ روایت جیسا ہے۔

 

 

٭٭ یوسف بن سعید، حجاج، شریک، حر بن صیاح، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے۔

 

ہر ماہ میں تین روزے کس طریقہ سے رکھے جائیں ؟

 

حسن بن محمد زعفرانی، سعید بن سلیمان، شریک، حر بن صیاح، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے ایک تو پہلے پیر کو اور دوسرا اس کے بعد کی جمعرات کو اور تیسرا اس کے بعد کی جمعرات کو۔

 

 

٭٭ علی بن محمد بن علی، خلف بن تمیم، زہیر، حر بن صیاح، ہنیدۃ خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ام المومنین (حضرت حفصہ) رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا وہ فرماتی تھیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے۔ ایک تو پہلے پیر کو اور دوسرے جمعرات کو پھر ایک دوسری جمعرات کو۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن ابو نضرل ابو نضر، ابو اسحاق اشجعی، عمرو بن قیس، ملاعی، حر بن صیاح، ہنیدۃ بن خالد خزاعی، حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی عاشورہ کے روزے کو نہیں چھوڑتے تھے اور دوسرے ماہ ذی الحجہ کے دس روزوں کو اور تیسرے ہر ماہ کے تین روزوں کو اور چوتھے فجر سے قبل کی دو رکعت کو نہیں چھوڑا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ احمد بن یحیی، ابو نعیم، ابو عوانۃ، حر بن صیاح، ہنیدۃ بن خالد، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ ذوالحجہ میں نو روزے رکھتے تھے (یعنی یکم تاریخ سے لے کر نو تاریخ تک) اور عاشورہ کے روز یعنی اویں محرم کو روزہ رکھتے تھے اور ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے ایک پیر کا روزہ اور دو جمعرات کا روزہ۔

 

 

٭٭ محمد بن عثمان بن ابو صفوان ثقفی، عبدالرحمن، ابو عوانۃ، حر بن صیاح، ہنیدۃ بن خالد رضی اللہ عنہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ ذوالحجہ کے دس دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ماہ میں تین دن ایک پیر اور دو دو جمعرات کا روزہ رکھتے تھے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن سعید جوہری، محمد بن فضیل، حسن بن عبید اللہ، ہنیدۃ خزاعی، امہ، ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین دن روزہ رکھنے کا حکم فرماتے ایک تو نو چندی جمعرات کو اور دوسرے پیر کو تیسرے اس کے بعد والے پیر کو۔

 

 

٭٭ مخلد بن حسن، عبید اللہ، زید بن ابو انیسۃ، ابو اسحاق، جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر ماہ میں تین روز روزے رکھ لینا ہمیشہ روزہ کے رکھنے کے برابر ہے اور ایام بیض (یعنی 13ویں رات کی فجر سے 14ویں 15 ویں تک ہیں ان کو ایام بیض اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ان کی رات چاند کی روشنی روشن اور صاف معلوم ہوتی ہے۔

 

 

زیر نظر حدیث شریف میں موسیٰ بن طلحہ پر اختلاف

 

محمد بن معمر، حبان، ابو عوانۃ، عبدالملک بن عمیر، موسیٰ بن طلحہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی باشندہ ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے ایک خرگوش بھون کر پکایا اس نے وہ بھنا ہوا خرگوش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے کھانے سے رک گئے اور خرگوش نہیں کھایا لیکن لوگوں کو حکم فرمایا تو انہوں نے کھا لیا اور وہ گاؤں والا بھی کھانے سے باز رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم کس وجہ سے نہیں کھاتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میں ہر ماہ میں تین روزے رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم روزے رکھتے ہو تو چاندنی کے دنوں میں روزہ رکھا کرو۔ (یعنی تاریخ کو)

 

 

٭٭ محمد بن عبدالعزیز، فضل بن موسی، فطر، یحیی بن سام، موسیٰ بن طلحہ، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو مہینہ میں تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا یعنی ایام بیض کے روزوں کا حکم فرمایا (یعنی تاریخ کو)

 

 

٭٭ عمرو بن یزید، عبد الرحمن، شعبہ، الاعمش، یحیی بن سام، موسیٰ بن طلحہ، ابو ذر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یزید، عبدالرحمن، شعبۃ، اعمش، یحیی بن سام، موسیٰ بن طلحہ، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ مہینہ میں روزہ رکھا کرو تو تم13 ویں 14 ویں 15 اور ویں تاریخ کا روزہ رکھو۔

 

زیر

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، بیان بن بشر، موسیٰ بن طلحہ، ابن حوتکیٰۃ، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے اوپر13 ویں 14 ویں اور 15ویں تاریخ کا روزہ رکھنا لازم کر لو۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، سفیان، رجلان محمد و حکیم، موسیٰ بن طلحہ، ابن حوتکیٰۃ، ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے ارشاد فرمایا تم 13 ویں 14 ویں اور15 ویں تاریخ کا روزہ لازم کر لو۔

 

 

٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم، بکر، عیسی، محمد، حکم، موسیٰ بن طلحہ، ابن حوتکیہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک دیہاتی شخص حاضر ہوا جو کہ ایک خرگوش لیے ہوئے تھا جس کو اس شخص نے بھونا تھا اور اس کے ساتھ روٹی بھی تھی۔ اس نے (وہ کھانا) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے رکھا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ یہ خرگوش خون بہا رہا تھا (یعنی حیض کا خون اس میں سے نکل رہا تھا کیونکہ خرگوش وہ جانور ہے کہ جس کو کہ عورت کی طرح حیض آتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے تم لوگ یہ خرگوش کھا اور اس گاؤں کے رہنے والے سے فرمایا تم بھی یہ کھا لو۔ اس شخص نے عرض کیا میرا تو روزہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا کس طرح کا روزہ ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا مہینہ میں تین روزے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم یہ روزے رکھا کرو تو سفید روشن راتوں میں رکھا کرو۔ یعنی 31ویں 14ویں 51ویں تاریخ کو روزہ رکھا کرو۔ امام نسائی نے فرمایا کہ صحیح ہے کہ ابن حوتکیہ نے حضرت ابو ذر سے سنا لیکن ہو سکتا ہے کہ بھول سے بجائے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے ابی لکھا گیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن یحیی بن حارث، معافی بن سلیمان، قاسم بن معن، طلحہ بن یحیی، موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ خرگوش لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مبارک ہاتھ اس کی جانب بڑھایا (خرگوش کھانے کے واسطے ) اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تھا کہ اس خرگوش کو خون آ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا مبارک ہاتھ روک لیا اور ان حضرات کو حکم فرمایا اس کے کھانے کے واسطے ایک آدمی دور بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے دریافت کیا تم کو کیا ہو گیا ہے۔ اس شخص نے کہا میں تو روزہ دار ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایام بیض کے کس وجہ سے روزے نہیں رکھتے ہو۔ 13ویں 14 ویں 15 ویں تاریخ کو (روزہ رکھا کرو)

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یعلی، طلحہ، موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک خرگوش آیا جس کو ایک آدمی (اپنے کھانے کے واسطے ) بھون کر لایا تھا۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے وہ خرگوش پیش کیا گیا تو اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے دیکھا ہے کہ اس کو (حیض کا) خون آ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات سن کر اس کو چھوڑ دیا اور نہیں کھایا اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے تھے ان سے بیان کیا کہ تم یہ خرگوش کھالو کیونکہ میرا دل چاہتا تو میں بھی وہ خرگوش کھاتا۔ ایک دوسرا شخص وہاں پر بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص سے فرمایا کہ تم نزدیک آ جاؤ اور تم لوگوں کے ساتھ کھانے میں شرکت کر لو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو روزہ دار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے بیض کے روزے کس وجہ سے نہیں رکھے ؟ یہ دریافت کیا گیا کہ بیض کے روزے کس طرح کے ہوتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا 13 ویں 14ویں 15 ویں تاریخ کو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، انس بن سیرین، رجل، عبدالملک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایام بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ روزے مہینہ کے برابر ہیں (یعنی ان روزوں کی فضیلت ایک ماہ کے روزے رکھنے جیسی ہے )

 

 

٭٭ محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، شعبۃ، انس بن سیرین، عبدالملک بن منہال رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان ہی ایام بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ پورے ماہ کے روزے ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن معمر، حبان، ہمام، انس بن سیرین، عبدالملک بن قدامۃ بن ملحان اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں ارشاد فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاندنی راتوں کہ دنوں میں روزے رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے اور وہ 4 1، 13اور 15 تاریخ ہیں۔

 

ایک ماہ کے دو روزے رکھنا

 

عمرو بن علی، سیف بن عبید اللہ، خیار الخلق، اسود بن شیبان، ابو نوفل بن ابو عقرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روزوں کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں اضافہ فرما دیں اس میں اضافہ فرمائیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں اضافہ فرمائیں ہر ماہ میں دو روزے۔ عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اضافہ فرمائیں میں اپنے اندر طاقت و قوت محسوس کرتا ہوں (یعنی زیادہ روزے رکھ سکتا ہوں ) یہ بات سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری تردید فرما دیں گے۔ یعنی اضافہ نہیں فرمائیں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ہر ماہ میں تین روزے رکھو۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن محمد بن سلام، یزید بن ہارون، اسود بن شیبان، ابو نوفل بن ابو عقرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روزے کے متعلق دریافت فرمایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا تم ہر ماہ میں ایک روزہ رکھو اور اس میں اضافہ کی خواہش کی حضرت ابو عقرب نے عرض کیا میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا ہو جائیں میں خود میں ایک قوت محسوس کرتا ہوں طاقت محسوس کرتا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں مزید اضافہ نہیں فرمایا جس وقت تک صحابی نے بہت زیادہ عاجزی کا اظہار کیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرو۔

 

 

 

زکوٰۃ سے متعلقہ احادیث

 

چاندی کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث

 

محمود بن غیلان، ابو اسامۃ، سفیان، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرۃ، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے گھوڑوں اور غلاموں میں زکوٰۃ معاف کر دی ہے اس لئے تم لوگ مال و دولت کی زکوٰۃ ادا کیا کرو اور دو سو درہم میں سے پانچ درہم (چالیسواں حصہ) زکوٰۃ میں نکالا کرو۔

 

 

٭٭ حسین بن منصور، ابن نمیر، اعمش، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرۃ، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کر دی ہے اور دو سو درہم سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

 

زیور کی زکوٰۃ کے متعلق احادیث

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، حسین، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون جو کہ ملک یمن کی باشندہ تھی ایک روز وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دو عد د موٹے موٹے سونے کے کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کی تم کو یہ اچھا لگتا ہے کہ قیامت کے دن خداوند قدوس تم کو آگ کے دو کنگن پہنائے۔ یہ بات سن کر اس نے دونوں کنگن اتار دیئے اور عرض کیا یہ دونوں کنگن خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے لیے ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر بن سلیمان، حسین، عمرو بن شعیب، ابو عبدالرحمن خالد، معتمر رضی اللہ عنہ سے حدیث سابق کی طرح مروی ہے (کہ ایک خاتون جو کہ ملک یمن کی باشندہ تھی ایک روز وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دو عدد موٹے موٹے سونے کے کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم کو یہ اچھا لگتا ہے کہ قیامت کے دن خداوند قدوس تم کو آگ کے دو کنگن پہنائے۔ یہ بات سن کر اس نے دونوں کنگن اتار دیئے اور عرض کیا یہ دونوں کنگن خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ہیں)۔

 

مال دولت کی زکوٰۃ ادا نہ کرنے سے متعلق سزا

 

فضل بن سہل، ابو نضر ہاشم بن قاسم، عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابو سلمہ، عبداللہ بن دینار، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مال دولت کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس شخص کا مال ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اس کے آنکھوں پر دو نقطے کالے رنگ کے ہوں گے وہ سانپ اس شخص سے لپٹ جائے گا اور کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں۔

 

 

٭٭ فضل بن سہل، حسن ابن موسیٰ الاشیب، عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار مدنی، وہ اپنے والد سے ، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس جس کو دولت عطا فرمائے پھر وہ شخص اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس شخص کی دولت ایک گنجا سانپ بن کر آئے گی اور اس کی آنکھ پر دو نقطے ہوں گے۔ وہ ان کی بانچھیں پکڑ کر کہے گا میں تیری دولت ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آیت تلاوت فرمائی۔ یعنی کنجوس لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے واسطے بخل ایک اچھی چیز ہے بلکہ وہ تو بہت بری چیز ہے اور قیامت کے دن جس دولت سے یہ لوگ کنجوسی کیا کرتے تھے تو ان کے واسطے ہی وہ ہی دولت گلے کا ہار ہو گی اور باعث عذاب ہو گی۔

 

کھجوروں کی زکوٰۃ سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، سفیان، اسماعیل بن امیٰۃ، محمد بن یحیی بن حبان، یحیی بن عمارۃ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ وسق غلہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے یا پانچ وسق کھجور سے کم میں کسی قسم کی زکوٰۃ نہیں ہے۔

 

گیہوں کی زکوٰۃ سے متعلق

 

اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، روح بن قاسم، عمرو بن یحیی بن عمارۃ، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گیہوں اور کھجور میں زکوٰۃ نہیں ہے جس وقت تک کہ وہ پانچ وسق نہ ہوں اور چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جس وقت تک پانچ اوقیہ نہ ہوں اور اونٹوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے جس وقت تک کہ پانچ اونٹ نہ ہوں۔

 

غلوں کی زکوٰۃ سے متعلق

 

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، اسماعیل بن امیٰۃ، محمد بن یحیی بن حبان، یحیی بن عمارۃ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی دانے اور کھجور میں صدقہ واجب نہیں ہے جس وقت تک پانچ وسق نہ ہوں اور پانچ اونٹ سے کم اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

 

کس قدر دولت میں زکوٰۃ واجب ہے ؟

 

محمد بن عبداللہ بن مبارک، وکیع، ادریس الاودی، عمرو بن مرۃ، ابو بختری، ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عبدۃ، حماد، یحیی بن سعید و عبید اللہ بن عمر، عمرو بن یحیی، وہ اپنے والد سے ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے (یعنی چاندی میں ) اور پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور پانچ وسق غلہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

 

عشر کس میں واجب ہے اور بیسواں حصہ کس میں ؟

 

ہارون بن سعید بن ہیثم، ابو جعفر الایلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو غلہ بارش نہر اور چشموں کے پانی سے پیدا ہو یا زمین کی تری سے اس کی پیداوار ہو تو اس میں دسواں حصہ وصول کیا جائے گا اور جو کچھ اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے سنچائی کی جائے تو اس میں بیسواں حصہ وصول کیا جائے گا۔

 

 

٭٭ عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو و احمد بن عمرو والحارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو پیداوار آسمان یا نہر یا چشموں کے پانی سے ہو تو اس پیداوار میں سے دسواں حصہ نکالا جائے اور جو پیداوار جانوروں پر پانی لانے سے ہو تو اس میں سے دسواں حصہ لیا جائے گا اور جو پیداوار جانوروں پر پانی لانے سے ہوتی ہو تو اس میں بیسواں حصہ ہے۔

 

 

٭٭ ہناد بن سری، ابو بکر، ابن عیاش، عاصم، ابو وائل، معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ملک یمن کی جانب روانہ فرمایا اور حکم فرمایا جو پیداوار بارش کے پانی سے پیدا ہو تو اس میں دسواں حصہ وصول کرنے کا اور جو پیداوار ڈول کے پانی سے پیدا ہو تو اس میں سے بیسواں حصہ وصول کر نے کا۔

 

اندازہ چھوڑنے والا شخص کس قدر اندازہ چھوڑے ؟

 

محمد بن بشار، یحیی بن سعید و محمد بن جعفر، شعبۃ، خبیب بن عبدالرحمن، عبدالرحمن بن مسعود بن نیار، سہل بن ابو حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ درختوں پر پھل کا اندازہ کرو تو تم لوگ تیسرا حصہ چھوڑ دیا کرو اگر تیسرا حصہ نہ چھوڑ سکو تو پھر چوتھائی حصہ چھوڑ دو۔

 

 

آیت کریمہ کی تفسیر

 

یونس بن عبدالاعلیٰ و حارث بن مسکین، ابن وہب، عبدالجلیل بن حمید یحصبی، ابن شہاب، ابو امامۃ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے سلسلہ میں یعنی تم لوگ خراب مال اور گندے مال دینے کا ارادہ نہ کرو اس کو تم خرچ کرتے ہو لیکن تم گندہ مال نہیں لیتے۔ آخر آیت کریمہ تک۔ انہوں نے بیان کیا کہ خبیث سے مراد (کھجور کی بہت خراب قسم) جعرور اور لون جیق ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زکوٰۃ میں گندے اور خراب مال قبول کرنے سے منع فرمایا ہے

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی، عبدالحمید بن جعفر، صالح بن ابو عریب، کثیر بن مرۃ خضرمی، عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک ہاتھ میں لکڑی تھی ایک آدمی خشک اور خراب قسم کی کھجور لٹا کر چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھجور کے اس خوشہ میں لکڑی مارتے تھے اور ارشاد فرماتے اگر اس کا مالک چاہتا تو وہ عمدہ قسم کی کھجور دے سکتا تھا بلاشبہ (اس کا قیامت کے دن یہ حال ہو گا کہ) وہ شخص ایسی ہی خراب کھجور کھائے گا۔

 

کان (معدنیات) کی زکوٰۃ سے متعلق احادیث

 

قتیبہ، ابو عوانۃ، عبید اللہ بن اخنس، عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ (راستہ میں ) پڑی ہوئی چیز سے متعلق کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص آمدورفت کے راستہ میں آیا یا کوئی شخص کسی آباد گاؤں میں ملاقات کرے تو ایک سال تک اس کا اعلان اور شہرت کرو اگر اس چیز کا مالک آ جائے تو وہ چیز اس کو واپس دے دو اگر اس کا مالک نہ آئے تو وہ چیز تمہاری ہے اور جو راستہ آباد نہ ہو یا جو گاؤں آباد نہ ہو تو اس میں سے اور کان میں سے پانچواں حصہ وصول کیا جائے گا باقی تمام حصہ اس شخص کاہے جس کو وہ چیز ملی ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، سعید، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جانور کے زخم کا بدلہ نہیں ہے اور کنواں کھودنے میں اگر کسی مزدور کی وفات ہو جائے تو کسی قسم کا بدلہ نہیں ہے اور اگر کان میں یعنی کان کی کھدائی میں مزدور مر جائے تو کسی قسم کا بدلہ نہیں ہے اور کفار کے دفن کئے ہوئے خزانہ میں (یا کان میں ) پانچواں حصہ ہے بیت المال کا۔

 

 

٭٭ یونس بن عبد الاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید، عبید اللہ بن عبد اللہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، اب شہاب، سعید، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، منصور و ہشام، ابن سیرین، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

شہد کی زکوٰۃ

 

مغیرۃ بن عبدالرحمن، احمد بن ابو شعیب، موسیٰ بن اعین، عمرو بن حارث، عمرو بن شعیب، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ شہد کا دسواں حصہ لے کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جنگل کہ جس کا نام سلبہ تھا وہ میرے واسطے مقرر فرما دیں (تاکہ کوئی دوسرا شخص وہاں سے شہد کا چھتہ نہ توڑ سکے ) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ جنگل ان کے واسطے متعین فرما دیا جس وقت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو سفیان بن وصب نے ان کو تحریر فرمایا اور بذریعہ تحریر دریافت فرمایا کہ وہ جنگل بلال رضی اللہ عنہ کے پاس رہے یا نہ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا اگر وہ تجھ کو شہد کا دسواں حصہ ادا کرتے رہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو حصہ ادا کرتے تھے اگر تم کو بھی بلال اسی قدر حصہ ادا کرتے رہیں وہ جنگل بلال کے پاس ہی رہنے دو اور اگر وہ اس قدر حصہ ادا نہ کریں تو بارش کی مکھیاں شہد دیتی ہیں جس شخص کا دل چاہے وہ اس کو کھائے۔

 

 

 

نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث

 

ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، اعمش، شقیق، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں ان تمام سورتوں سے واقف ہوں کہ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور وہ سورتیں بیس ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سورتوں کو دس رکعات میں پڑھا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے حضرت علقمہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اندر داخل ہوئے۔ اس کے بعد حضرت علقمہ باہر کی جانب نکلے۔ حضرت شقیق نے بیان فرمایا کہ ہم نے ان سے دریافت کیا ان سورت سے متعلق تو انہوں نے بیان فرمایا۔

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، عمرو بن مرۃ، ابو وائل سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن مسعود کے سامنے نقل کیا کہ میں نے مفصل کو (یعنی اس کی تمام سورتوں کو یعنی سورت حجرات سے لے کر آخر تک کی سورت کو) ایک ہی رکعت میں تلاوت کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ تو شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھنا ہو گیا اور میں ان سورتوں کو شناخت کرتا ہوں جو کہ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ جن کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ساتھ شامل کر کے پڑھا کرتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مفصل کی بیس سورتیں بیان فرمائیں اور ہر ایک رکعت میں دو دو سورت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، عبداللہ بن رجاء، اسرائیل، ابو حصین، یحیی بن وثاب، مسروق، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میں نے آج کی رات ایک رکعت میں پوری مفصل سورتیں پڑھ دیں انہوں نے فرمایا کہ کیا شعر کی طرح سے تم اڑتے ہوئے چلے گئے لیکن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو سورت کو جوڑ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے اور وہ مفصل کی بیس سورتیں تھیں یعنی حم سے لے کر آخر قرآن کریم تک۔

 

سورت کا کوئی حصہ نماز میں پڑھنا

 

محمد بن علی، خالد، ابن جریج، محمد بن عباد، رفعہ، ابن سفیان، عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا میں اس روز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ کی جانب رخ فرما کر نماز ادا کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جوتے اتار کر بائیں جانب رکھے اور سورہ مومنون شروع فرمائی پس جس وقت حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی تذکرہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانسی ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کر لیا۔

 

جس وقت دوران نماز عذاب الہی سے متعلق آیت کریمہ تلاوت کرے تو اللہ سے پناہ مانگے

 

محمد بن بشار، یحیی و عبدالرحمن وابن ابو عدی، شعبہ، سلیمان، سعد بن عبیدۃ، مستورد بن احنف، حذیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ہیں پس جس وقت عذاب الہی سے متعلق آیت کریمہ آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رک جاتے اور خداوند قدوس کی پناہ مانگتے اور جس وقت آیت رحمت نازل ہوتی تو رک جاتے اور دعا مانگتے اور دوران رکوع سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ اور سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی پڑھتے۔

 

رحمت کی آیت پڑھنے پر رحمت کی دعا کرنا

 

محمد بن آدم، حفص بن غیاث، العلاء بن مسیب، عمرو بن مرۃ، طلحہ بن یزید، حذیفہ و اعمش، سعد بن عبیدۃ، مستورد بن احنف، صلۃ بن زفر، حذیفہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران اور سورہ نساء ایک رکعت میں تلاوت فرمائی جس وقت رحمت کی آیت تلاوت فرماتے تو اللہ تعالیٰ سے رحمت مانگتے اور جس وقت آیت عذاب تلاوت فرماتے تو اس (اللہ عزوجل) کی پناہ مانگتے۔

 

ایک ہی آیت کریمہ کو متعدد مرتبہ تلاوت کرنا

 

نوح بن حبیب، یحیی بن سعید القطان، قدامۃ بن عبد اللہ، جسرۃ بنت دجاجۃ، ابو ذر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں کھڑے ہو گئے اور ایک آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کر دی (یعنی صبح ہونے تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ہی آیت کریمہ تلاوت فرماتے رہے ) اور وہ آیت کریمہ یہ تھی یعنی اے خدا اگر تو بندوں پر عذاب نازل کر دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو مغفرت فرما دے تو تو بلاشبہ غالب اور حکمت والا ہے۔ (واضح رہے کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی دن بارگاہ خداوندی میں عرض کریں گے )

 

آیت کریمہ کی تفسیر

 

احمد بن منیع و یعقوب بن ابراہیم الدورقی، ہشیم، ابو بشر، جعفر بن ابو وحشیٰۃ، ابن ایاس، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ مکرمہ میں روپوش تھے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے احباب کے ہمراہ نماز ادا فرماتے تھے تو قرآن کریم بلند آواز سے تلاوت فرماتے اور جس وقت اہل شرک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز سنتے تو نعوذ باللہ قرآن کریم کو برا کہتے اور جس ذات نے قرآن کریم نازل فرمایا اور جو قرآن کریم لے کر حاضر ہوئے (جبرائیل ) اس کو بھی برا بھلا کہتے اس پر خداوند قدوس نے اپنے پیغام لانے والوں سے ارشاد فرمایا تم اتنی آواز میں نے پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کریم بہت زیادہ آواز سے نہ پڑھو۔ ایسا نہ ہو کہ مشرکین قرآن کریم سن لیں اور قرآن کریم کو برا کہہ دیں اور نہ بہت زیادہ آہستہ سے قرآن کریم پڑھو کہ تمہارے ساتھی نہ سن سکیں بلکہ تم درمیان درمیان کا راستہ اختیار کرو۔ وہ راستہ یہ ہے کہ تمہارے ساتھی سن لیں اور باہر والے کافر نہ سنیں۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، اعمش، جعفر بن ایاس، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بلند آواز سے قرآن کریم تلاوت فرماتے اور جس وقت اہل شرک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز سنتے تو وہ لوگ قرآن کریم کو برا کہتے اور جو شخص قرآن کریم لے کر آیا ہے اس کو بھی برا کہتے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم کو ہلکی آواز سے پڑھنے لگے اس قدر آہستہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھیوں کو بھی نہ سنائی دے سکے اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔

 

قرآن کریم کو بلند آواز سے تلاوت کرنا

 

یعقوب بن ابراہیم الدورقی، وکیع، مسعر، ابو العلاء، یحیی بن جعدۃ، ام ہانی سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کو (مسجد میں ) سنتی تھی اور میں اپنی چھت کے اوپر ہوتی تھی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، جریر بن حازم، ابو قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے تلاوت قرآن فرمایا کرتے تھے ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آواز کھینچ کر تلاوت فرماتے تھے۔

 

قرآن کریم عمدہ آواز سے تلاوت کرنا

 

علی بن حجر، جریر، اعمش، طلحہ بن مصرف، عبدالرحمن بن عوسجۃ، براء بن عازب کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، طلحہ، عبدالرحمن بن عوسجۃ، براء بن عازب سے روایت کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ قرآن کریم کو اپنی (عمدہ) آواز سے زینت دو۔ ابن عوسجہ نے فرمایا میں اس بات کو بھول گیا تھا تو مجھ کو یہ بات ابن مزاحم نے یاد دلائی۔

 

 

٭٭ محمد بن زنبورمکی، ابن ابو حازم، یزید بن عبد اللہ، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس کسی شئی کو اس طریقہ سے نہیں سنتا کہ جس طریقہ سے قرآن کریم کو سنتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے جو کہ عمدہ آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ، کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس طرح نہیں سنتے جس طرح کسی اچھی آواز والے نبی کی زبان سے قرآن سنتے ہیں۔

 

 

٭٭ سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو موسیٰ کی قرأت سنی تو فرمایا کہ تم کو حضرت داؤد علیہ السلام کا لہجہ عطا فرمایا گیا ہے۔

 

 

٭٭ عبدالجبار بن العلاء بن عبدالجبار، سفیان، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کی تلاوت قرآن کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا کہ تم کو حضرت داؤد علیہ السلام کے خاندان کی ایک بانسری عطا کی گئی ہے یعنی تمہارا اگلا اور لہجہ حضرت داؤد جیسا ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی تلاوت قرآن کریم سنی تو ارشاد فرمایا کہ ان کو حضرت داؤد کی ایک بانسری ملی ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث بن سعد، عبداللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکۃ، یعلی بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تلاوت اور نماز کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ تم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز سے کیا تعلق ہے ؟ پھر انہوں نے بیان فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قرأت کو کہ وہ قرأت بالکل صاف تھی اور ایک ایک کر کے ہر ایک حرف علیحدہ معلوم ہوتا تھا۔

 

بوقت رکوع تکبیر پڑھنا

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جس وقت ابو ہریرہ کو مدینہ میں مروان نے خلیفہ مقرر کیا تو وہ جس وقت نماز فرض کے واسطے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے پھر رکوع فرماتے وقت تکبیر فرماتے پھر جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ پڑھتے پھر تکبیر کہتے۔ جس وقت آپ سجدے کے واسطے جھک جاتے پھر جس وقت دو رکعت کے بعد تشہد پڑھ کر اٹھ جاتے تو تکبیر کہتے اور اس طریقہ سے وہ پوری نماز میں کرتے پھر جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی اور سلام پھیرا تو لوگوں کی جانب مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تم سب سے زیادہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیادہ مشابہ ہوں نماز پڑھنے کے اعتبار سے۔ (یعنی میری نماز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز سے زیادہ مشابہ ہے )

 

بوقت رکوع کانوں تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، سعید، قتادہ، نصر بن عاصم لیثی، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے جس وقت تکبیر فرماتے اور جس وقت رکوع فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے دونوں کان کی لو تک۔

 

دونوں مونڈھوں تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق

 

قتیبہ، سفیان، زہری، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے مونڈھوں تک اور اسی طریقہ سے جس وقت رکوع فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے۔

 

مونڈھوں تک ہاتھ نہ اٹھانا

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، سفیان، عاصم بن کلیب، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کیا میں تم کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں نہ بتلا دوں پھر وہ کھڑے ہوئے انہوں نے دونوں ہاتھ اٹھائے پہلی مرتبہ میں (یعنی جس وقت نماز شروع کی) پھر ہاتھ نہ اٹھائے

 

رکوع میں پشت برابر رکھنا

 

قتیبہ، فضیل، اعمش، عمارۃ بن عمیر، ابو معمر، ابو مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو اپنی پشت کو برابر نہ کرے رکوع اور سجدہ میں۔

 

 

 

 

نماز قصر سے متعلقہ احادیث

 

مکہ معظمہ میں نماز پڑھنا

 

اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، سعید، قتادہ، موسیٰ بن سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ ابن عباس سے عرض کیا اگر میں باجماعت نماز نہ پڑھ سکو اور بطحاء مکہ معظمہ میں ہوں تو کتنی رکعات نماز ادا کروں ؟ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کے مطابق دو رکعت۔

 

منیٰ میں نماز قصر ادا کرنا

 

قتیبہ، ابو احوص، ابو اسحاق ، حارثۃ بن وہب خزاعی، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ منیٰ میں نماز ادا کی۔ جس وقت ہم لوگ حالت امن میں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت سے زیادہ نماز ادا نہ فرمائی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، شعبہ، ابو اسحاق ، عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سفیان، ابو اسحاق ، حارثۃ بن وہب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھائی۔ حالانکہ لوگوں کی بہت بڑھی تعداد تھی اور ہر طرف امن تھا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، بکیر، محمد بن عبداللہ بن ابو سلیمان، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر صدیق حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے ابتداء زمانہ میں ان حضرات کے ساتھ منیٰ میں (ہمیشہ) دو رکعت ہی پڑھیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، عبدالواحد، اعمش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید، محمود بن غیلان، یحیی بن آدم، سفیان، اعمش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مننی کے مقام پر دو رکعات پڑھیں۔

 

 

٭٭ علی بن خشرم، عیسی، اعمش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید، عثمان، عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ عثمان نے منیٰ میں چار رکعات ادا کیں اور اس بات سے عبداللہ بن مسعود کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعات ہی پڑھیں تھیں۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ابو بکر و عمر کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز ہی پڑھی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں دو رکعات ادا فرمائیں۔ پھر ابو بکر عمر اور عثمان غنی رضی اللہ عنھم نے بھی اپنی ابتداء خلافت کے دور میں دو رکعات ہی ادا فرمائیں۔

 

کتنے دن تک ٹھہر نے تک قصر کرنا جائز ہے ؟

 

حمید بن مسعدۃ، یزید، یحیی بن ابو اسحاق ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جانے کیلئے سفر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تک (مدینہ) واپس نہ لوٹے تب تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں دو رکعت ہی پڑھاتے رہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ میں قیام بھی کیا تھا؟ فرمایا ہاں ! دس دن ٹھہرے تھے۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن اسود بصری، محمد بن ربیعۃ، عبدالحمید بن جعفر، یزید بن ابو حبیب، عراک بن مالک، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ میں پندرہ دن قیام کیا اور (اس عرصہ میں ) دو رکعت ہی نماز پڑھتے رہے ۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالملک بن زنجویہ عبدالرزاق، ابن جریج، اسماعیل بن محمد بن سعد، حمید بن عبدالرحمن، سائب بن یزید، علاء بن حضرمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہاجرین ارکان حج کو پورا کر چکے تو اس کے بعد تین دن تک مکہ میں قیام پذیر رہیں۔

 

 

٭٭ ابوعبدالرحمن، حارث بن مسکین، سفیان، عبدالرحمن بن حمید، سائب بن یزید، علاء بن حضرمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مہاجرین حج کے ارکان پورا کر چکنے کے بعد مکہ میں تین دن قیام کریں

 

 

٭٭ احمدن یحیی صوفی، ابو نعیم، علاء بن زہیر ازدی، عبدالرحمن بن اسود، عائشہ صدیقہ نے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عمرہ کا سفر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ گئیں۔ جب مکہ مکرمہ پہنچی تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان میں (دوران سفر) قصر بھی پڑھتی رہی افطار بھی کرتی رہی اور روزے بھی رکھتی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عائشہ صدیقہ! تم نے عمدہ کام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے اس فعل پر مجھ کو تنبیہ نہیں کی۔

 

دوران سفر نوافل ادا کرنا

 

احمد بن یحیی، ابو نعیم، العلاء بن زہیر، وبرۃ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمر دوران سفردو سے زیادہ رکعت نہیں ادا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ نہ ان رکعت سے پہلے کچھ پڑھتے اور نہ ان کے بعد۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ نوح بن حبیب، یحیی بن سعید، عیسیٰ بن حفص بن عاصم فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ عبداللہ ابن عمر کے ساتھ سفر میں تھا کہ انہوں نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعت پڑھیں اور پھر اپنے رہنے کی جگہ پر چلے گئے۔ جب انہوں نے باقی لوگوں کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا نوافل ادا کر رہے ہیں۔ کہنے لگے اگر میں نماز فرض سے ماقبل یا بعد میں کچھ نماز پڑھنی ہوتی تو میں فرض ہی پورے ادا کر لیتا لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر میں دو رکعت سے زائد نماز نہیں ادا فرماتے تھے۔ پھر میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کی وفات تک رہا۔ اس کے بعد عمر فاروق رضی اللہ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی وقت گزارا۔ یہ سب حضرات اسی طرح (دو رکعت ہی) پڑھا کرتے تھے۔

 

 

 

گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب

 

چاند گرہن اور سورج گرہن کا بیان

 

قتیبہ، حماد، یونس، حسن، ابو بکرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سے ہیں۔ ان میں کسی کے زندہ رہنے یا مر جانے کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لئے گرہن لگاتے ہیں۔

 

بوقت سورج گرہن تسبیح و تکبیر پڑھنا اور دعا کرنا

 

محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو ہشام، مغیرۃ بن سلمہ، وہیب، ابو مسعود جریری، حیان بن عمیر، عبدالرحمن بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں اپنے تیروں سے کھیل میں مصروف تھا کہ سورج گرہن لگ گیا۔ چنانچہ میں نے اپنے تیر اکھٹے کئے اور سوچنے لگا کہ چل کر دیکھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج گرہن کی وجہ سے کوئی نئی ہدایت فرماتے ہیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پشت سے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور تسبیح اور تکبیر ادا کرتے ہوئے دعا فرما رہے تھے۔ حتی کہ گرہن ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور چار سجدوں کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی۔

 

سورج گرہن کے وقت نماز ادا کرنا

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، عبدالرحمن بن قاسم، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سورج یا چاند گرہن کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتا یہ تو رب ذوالجلال والاکرام کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اس وجہ سے اگر تم لوگ (گرہن) دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔

 

چاند گرہن کے وقت نماز پڑھنے کا حکم

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، اسماعیل، قیس، ابو مسعود، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو رب کریم کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اگر تم ایسا دیکھا کرو (گرہن) تو نماز پڑھا کرو۔

 

ابتدائے گرہن سے گرہن ختم ہو جانے تک نماز میں مصروف رہنا

 

محمد بن کامل مروزی، ہشیم، یونس، حسن، ابو بکرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چاند اور سورج اللہ جل جلالہ کی دو نشانیاں ہیں اور انہیں کسی کے مر جانے یا زندہ رہنے کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔ اگر تم ایسا (گرہن) دیکھو تو نماز ادا کیا کرو حتی کہ وہ (گرہن) ختم ہو جائے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی و محمد بن عبدالاعلی، خالد، اشعث، حسن، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب بیٹھے ہوئے تھے کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیزی سے اپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے کھڑے ہوئے اور دو رکعات ادا فرمائیں حتی کہ سورج گرہن ختم ہو گیا۔

 

صلوٰۃ کسوف (گرہن کی نماز) کے لئے اذان دینا

 

عمرو بن عثمان بن سعید، ولید، اوزاعی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مؤذن کو حکم فرمایا تو انہوں نے اعلان کیا کہ لوگوں نماز کے لئے اکھٹے ہو جاؤ چنانچہ لوگ اکھٹے ہو گئے اور اپنی صفیں درست کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار سجدوں اور چار رکوع کے ساتھ دو رکعات نماز پڑھائی۔

 

گرہن کی نماز میں صفیں بنانے کا بیان

 

محمد بن خالد بن خلی، بشر بن شعیب، زہری، عروہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر تکبیر کہی۔ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صفیں بنا لیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار رکوع اور چار سجدے ادا کئے۔ اس سے پہلے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فراغت حاصل کرتے گرہن ختم ہو چکا تھا۔

 

نماز گرہن کا طریقہ

 

یعقوب بن ابراہیم، اسماعیل ابن علیٰۃ، سفیان ثوری، حبیب بن ابو ثابت، طاؤس، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گرہن کے وقت نماز ادا فرمائی تو اس میں آٹھ رکوع کئے اور چار سجدے کئے۔ عطاء بھی عبداللہ ابن عباس سے اسی طرح کی روایت نقل کرتے ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، یحیی، سفیان، حبیب بن ابو ثابت، طاؤس، عبداللہ ابن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گرہن کی نماز میں پہلے قرأت فرمائی پھر رکوع کیا اور پھر سجدے میں گئے۔ پھر دوسری رکعت بھی اسی طرح سے ادا فرمائی۔

 

سیدنا عبداللہ ابن عباس سے نماز گرہن سے متعلق ایک اور روایت

 

عمرو بن عثمان بن سعید، ولید، ابن نمر، عبدالرحمن بن نمیر، زہری، کثیر بن عباس، عمرو بن عثمان، ولید، اوزاعی، زہری، کثیر بن عباس، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج گرہن کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی تو دو رکعات پڑھیں اور اس میں چار رکوع اور چار سجدے کئے۔

 

ایک اور طریقہ کی گرہن کی نماز

 

یعقوب بن ابراہیم، ابن علیٰۃ، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا مجھ سے اس شخص نے یہ بیان کیا کہ جسے میں سچا انسان سمجھتا ہوں۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کے ساتھ بہت طویل قیام کیا۔ پہلے کھڑے رہے پھر رکوع فرمایا پھر کھڑے ہوئے پھر رکوع فرمایا اور دو رکعت ادا فرمائیں ان میں ہر رکعت میں تین رکوع ادا کئے اور تیسرے رکوع کے بعد سجدہ میں چلے گئے۔ حتی کہ بعض لوگ طویل قیام کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے اور ان پر پانی کے گلاس انڈیلے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رکوع فرماتے تو اللہ اکبر کہتے پھر رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت تک نماز میں مصروف رہے جب تک کہ گرہن ختم نہیں ہو گیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا سورج اور چاند کو گرہن کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے اور اللہ اس سے تمہیں ڈراتا ہے۔ لہذا جب انہیں گرہن لگے تو اللہ کو یاد کرنے کے لئے دوڑ پڑو (یعنی صلوٰۃ کسوف ادا کرنے کے لئے )۔ یہاں تک کہ وہ (گرہن) صاف ہو جائے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، قتادہ، عطاء، عبید بن عمیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی اور اس میں چھ رکوع اور چار سجدے کئے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے معاذ سے دریافت کیا کہ یہ (نماز) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے ؟ راوی حدیث نے فرمایا اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔

 

 

سیدہ ّ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا گیا ایک اور طریقہ

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صفیں بنا لیں۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قرأت کی پھر تکبیر کہہ کر کافی لمبا رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہا۔ اس کے بعد کھڑے ہوئے اور طویل قرأت کی لیکن یہ پہلی قرأت سے نسبتاً کم تھی۔ پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور طویل رکوع کیا۔ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کی نسبت کم تھا۔ پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہہ کر سجدہ کیا۔ اس کے بعد دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا۔ چنانچہ چار سجدے ادا کیئے۔ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز (صلوٰۃ الکسوف) سے فارغ ہوتے گرہن صاف ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ چنانچہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی کہ جس کا وہ اہل ہے۔ پھر فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیوں میں سے ہیں۔ انہیں کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے ہرگز گرہن نہیں لگتا۔ لہذا اگر تم (گرہن) دیکھو تو اس وقت تک نماز ادا کرتے رہو جب تک کہ گرہن ختم نہ ہو جائے۔ پھر فرمایا میں نے اس جگہ سے وہ چیزیں دیکھیں ہیں جن کے متعلق تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ میں (دوران نماز) ذرا آگے ہوا تھا۔ اس وقت میں جنت کے میوؤں میں سے ایک گچھا توڑنے لگا تھا اور جب میں پیچھے ہٹا تھا تو اس وقت میں نے جہنم کو دیکھا اس حالت میں کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا تھا۔ پھر میں نے جہنم میں عمرو بن لحی کو دیکھا جس نے سب سے پہلے سائبہ نکالا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو نماز با جماعت ادا کرنے کے لئے لوگوں کو پکارا گیا۔ تمام لوگ جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں دو رکعات نماز پڑھائی جس میں چار رکوع اور چار ہی سجدے ادا کئے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ چنانچہ پہلے طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے اور پہلے سے ذرا کم طویل قیام کیا پھر رکوع کیا تو وہ بھی کافی لمبا تھا لیکن پہلے رکوع سے نسبتاً کم تھا۔ پھر کھڑے ہوئے اور سجدے میں چلے گئے اور اسی طرح دوسری رکعت بھی ادا فرمائی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو سورج بالکل صاف ہو چکا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اللہ جل جلالہ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا اگر تم لوگ ایسا دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو۔ پھر ارشاد فرمایا اے امت محمدیہ! تم میں سے کوئی بھی شخص اپنی باندی یا غلام کے زنا کرنے پر بھی اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند (یعنی ان کے زنا کرنے پر تمہیں تو غیرت آئے لیکن یہ سوچو کہ تمہارے زنا کرنے پر اللہ تعالیٰ کو کتنی غیرت آتی ہو گی) نہیں ہو سکتا۔ اے امت محمدیہ اگر تم لوگوں کو وہ کچھ معلوم ہو جو مجھے پتہ ہے تو تم لوگ ہنسنا کم کرو دو اور رونا زیادہ کر دو۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، یحیی بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک یہودیہ ان کے پاس آئی اور کہنے لگی اللہ تمہیں عذاب قبر سے بچائے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا لوگوں کو قبر میں بھی عذاب ہو گا؟ فرمایا ہاں ! میں قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر نکلے تو سورج گرہن ہو گیا۔ چنانچہ ہم سب حجرہ میں آ گئے اور عورتیں بھی ہمارے پاس جمع ہونے لگیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے۔ اس وقت تقریباً چاشت کا وقت ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا کی اور طویل قیام کرنے کے بعد طویل رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اور پہلے قیام سے ذرا کم طویل قیام کیا اور اس طرح پہلے رکوع سے ذرا کم طویل رکوع کیا۔ پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعات بھی اسی طرح پڑھی فرق یہ تھا کہ اس میں قیام اور رکوع پہلی رکعت سے ذرا کم طویل تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں گئے تو سورج گرہن ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا لوگوں کی قبر میں اس طرح آزمائش کی جائے گی جس طرح کہ دجال کے سامنے آزمائش کی جائے گی۔ اس کے بعد ہم اکثر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا کرتے تھے۔

 

ایک اور قسم

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، یحیی بن سعید، انصاری، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک یہودیہ آئی اور کہنے لگی اللہ تعالیٰ تمہیں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا لوگوں کو قبر میں عذاب دیا جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی پناہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور اتنے میں سورج کو گرہن لگ گیا۔ میں حجرہ میں دیگر خواتین کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سواری سے نیچے اترے اور مصلی کی طرف تشریف لے گئے۔ پھر صحابہ کی امامت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا اور طویل قیام کیا پھر سجدے میں چلے گئے اور سجدے بھی طویل کئے پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور پہلے سے ذرا کم طویل قیام کیا پھر پہلے رکوع سے ذرا کم طویل رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور پہلے سے کم قیام کیا۔ یہ کل چار رکوع اور چار سجدے ہوئے۔ اتنے میں سورج گرہن ختم ہو گیا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ قبر میں اسی طرح فتنہ میں مبتلا کئے جاؤ گے جس طرح دجال کے آنے پر فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ اس کے بعد میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر کے عذاب سے پناہ مانگ رہے تھے۔

 

 

٭٭ عبٍدۃ بن عبدالرحیم، ابن عیینہ ، یحیی بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گرہن کے موقع پر زمزم کے پاس نماز ادا فرمائی اور اس میں چار رکوع اور چار ہیں سجدے کئے۔

 

 

٭٭ ابوداؤد، ابو علی حنفی، ہشام صاحب دستوانی، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سورج گرہن ہوا تو اس روز گرمی بہت سخت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کی امامت فرمائی اور اتنا طویل قیام کیا کہ لوگ (بیہوش ہو کر) گرنے لگے۔ پھر طویل رکوع کیا پھر طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر طویل قیام کیا اور سجدے میں چلے گئے اور دو سجدے کرنے کے بعد پھر کھڑے ہوئے۔ اور اسی طرح سے کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذرا آگے ہوئے (دوران نماز) اور پھر پیچھے ہٹے۔ یہ کل چار رکوع اور چار سجدے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ یہ کہتے تھے کہ سورج اور چاند کو گرہن صرف اسی صورت میں ہوتا ہے کہ کوئی بڑی شخصیت وفات پا جائے۔ حالانکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں دکھاتا ہے۔ پس اگر دوبارہ ایسا ہو تو نماز پڑھا کرو حتی کہ گرہن ختم ہو جائے۔

 

ایک اور (طریقہ) نماز گرہن

 

محمود بن خالد، مروان، معاویہ بن سلام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبداللہ بن عمرو ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو با جماعت نماز کا اعلان کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کے ساتھ نماز ادا فرمائی اور اس میں دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے تو نہ کبھی (اس سے پہلے ) اتنا لمبا رکوع کیا اور نہ سجدہ۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ محمد ابن حمیر نے اس روایت کے نقل کرنے میں اختلاف کیا ہے۔

 

 

٭٭ یحیی بن عثمان، ابن حمیر، معاویہ بن سلام، یحیی بن ابو کثیر، ابو طعمۃ، عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکوع اور دو سجدے کیے پھر کھڑے ہوئے (پہلی رکعت سے ) اور دو رکوع اور دو سجدے کیے۔ پھر سورج گرہن ختم ہو گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ارشاد فرماتی ہیں کہ (میرے مشاہدہ کی حد تک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس سے پہلے ) کبھی اتنا طویل سجدہ یا رکوع نہیں کیا۔

 

 

٭٭ ابوبکر بن اسحاق ، ابو زید سعید بن ربیع، علی بن مبارک، یحیی بن ابو کثیر، ابو حفصہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے اعلان کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور طویل قیام کیا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اتنا طویل قیام کیا کہ) سورہ بقرہ پڑھی ہو گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل رکوع کیا پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہہ کر کھڑے ہو گئے اور کافی دیر تک توقف کرنے کے بعد رکوع میں گئے۔ پھر رکوع کیا پھر سجدہ کے بعد کھڑے ہو گئے اور بعینہ اسی طرح دوسری رکعت میں دو رکوع کرنے کے بعد سجدہ میں گئے۔ جب سجدہ سے سر اٹھایا تو گرہن ختم ہو چکا تھا۔

 

ایک اور (طریقہ) نماز

 

ہلال بن بشر، عبدالعزیز بن عبدالصمد، عطاء بن سائب، ابو سائب، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے جو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب تھے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے طویل قیام کیا اور پھر طویل رکوع پھر سر اٹھایا اور سجدہ کیا وہ بھی بہت طویل تھا پھر سجدہ سے سر اٹھایا اور کافی دیر تک بیٹھے رہے پھر دوسرا سجدہ ادا کیا وہ بھی اسی طرح طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور کھڑے ہو گئے اور دوسری رکعت میں بھی رکوع قیام سجدہ اور جلوس کافی طویل کیے جیسے پہلی رکعت میں کیے تھے۔ پھر دوسری رکعت کے آخری سجدہ میں اونچی سانس لینے لگے (بوجہ طویل نماز) اور روتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ اے اللہ! تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا۔ ابھی تو میں بھی ان میں موجود ہوں۔ تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا۔ ہم تجھ سے مغفرت کے طالب ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر اٹھایا تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور خطبہ دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا سورج اور چاند اللہ جل جلالہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اگر ان میں سے کسی (سورج یا چاند) کو گرہن لگ جائے تو اللہ تعالیٰ کے لئے تیزی دکھایا کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان ہے۔ جنت مجھ سے اتنی نزدیک کر دی گئی تھی (دوران نماز) کہ اگر میں ہاتھ آگے کرتا تو اس کے چند گچھے توڑ لیتا اور جہنم بھی مجھ سے اتنی قریب کر دی گئی تھی کہ میں ڈرنے لگا کہ کہیں تم لوگوں کو ہی اپنے اندر نہ سمو لے۔ یہاں تک کہ میں نے اس میں حمیرا کی ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا نہ تو اسے زمین کے کیڑے مکوڑے کھانے دیتی اور نہ خود اسے کھانے پینے کے لئے کچھ دیتی حتی کہ وہ مر گئی۔ میں نے دیکھا کہ وہ بلی اس عورت کونوچتی ہے۔ جب سامنے آتی تو اس کونوچتی اور جب وہ پشت موڑ جاتی تو پیچھے کندھوں سے اس کونوچتی۔ پھر میں نے اس میں بنو دعداع کے بھائی دو جوتیوں والے کو دیکھا اسے دو شاخوں والی لکڑی سے مار کر جہنم کی طرف دھکیلا جارہا تھا۔ پھر میں نے اس میں ایک ذرا (نیچے سے ) ٹیڑھی (نوکدار) لکڑی والے کو دیکھا جو حجاج کرام کا مال چرایا کرتا تھا۔ وہ لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھا اور پکار رہا تھا کہ میں لکڑی کا چور ہوں۔

 

 

٭٭ محمد بن عبید اللہ بن عبدالعظیم، ابراہیم سبلان، عباد بن عباد مہلبی، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور باجماعت نماز پڑھائی پہلے طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے اور پہلے سے کم طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور پہلے سے کم طویل رکوع کیا پھر طویل سجدہ کیا پھر سجدے سے سر اٹھا کر کافی دیر بیٹھے رہے۔ پھر طویل سجدہ کیا۔ لیکن یہ سجدہ پہلے سے کم طویل تھا۔ پھر کھڑے ہوئے دو دو رکوع کیے ان میں بھی اسی طرح کیا۔ پھر اسی طرح دو سجدے کیے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے پھر فرمایا سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ اگر تم ایسا دیکھو تو فوراً اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرو اور نماز پڑھنی شروع کر دیا کرو۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء بن ہلال، حسین بن عیاش، زہیر، اسود بن قیس، ثعلبۃ بن عباد عبدی بصری سے منقول ہے کہ انہوں نے سمرہ بن جندب کا خطاب سنا۔ جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث بیان کی کہ ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا تیراندازی (کی مشق) کر رہے تھے۔ کہ سورج دو یا تین نیزے بلند ہونے کے بعد اچانک کالا ہو گیا۔ ہم نے سوچا کہ چلو مسجد چلتے ہیں۔ یہ واقعہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کے لئے کوئی نئی چیز پیدا کرائے گا۔ ہم مسجد کی طرف چلے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں نکلتے ہوئے ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ اس میں قیام اتنا طویل کیا کہ کبھی کسی اور نماز میں اتنا طویل قیام نہیں کیا تھا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اتنا طویل رکوع کیا کہ کبھی (پہلے ) کسی نماز میں اتنا طویل رکوع نہیں کیا تھا۔ اس میں بھی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز نہ سنی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا طویل قیام نہیں کیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل سجدہ کیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا طویل سجدہ نہیں کیا تھا۔ اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز ہمیں سنائی نہیں دی۔ پھر اسی طرح دوسری رکعت بھی پڑھائی اور جب دوسری رکعت کے بعد بیٹھے تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا اور اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنے کے بعد اس بات کی شہادت دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالوہاب، خالد، ابو قلابۃ، نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کپڑوں کو گھسیٹتے ہوئے جلدی سے باہر نکلے اور مسجد تشریف لے گئے۔ پھر متواتر اس وقت تک ہماری امامت کرواتے رہے جب تک گرہن ختم نہیں ہو گیا۔ جب سورج صاف ہو گیا تو ارشاد فرمایا لوگ خیال کرتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن کسی عظیم شخصیت کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ہرگز نہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں تو وہ ان کی مطیع ہو جاتی ہے۔ اگر تم لوگ ایسا دیکھو تو فرض نماز کی طرح نماز پڑھو جو گرہن ہونے سے پہلے گزری ہو۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، عمرو بن عاصم، عبید اللہ بن وازع، ایوب سختیانی، ابو قلابۃ، قبیصۃ بن مخارق ہلالی فرماتے ہیں کہ جب سورج گرہن ہوا تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پریشانی کے عالم میں اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے کھڑے ہوئے اور تیزی سے باہر نکلے اور دو طویل رکعات پڑھائیں۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے اسی وقت (تقریبا) سورج گرہن بھی ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور ارشاد فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی وفات یا حیات کی وجہ سے ہرگز گرہن نہیں لگتا۔ لہذا اگر تم ایسا دیکھو تو اس نماز کی طرح نماز پڑھا کرو جو گرہن سے پہلے پڑھی ہو۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، معاذابن ہشام، وہ اپنے والد سے ، قتادہ، ابو قلابۃ، قبیصہ ہلالی فرماتے ہیں کہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعات نماز پڑھی۔ حتی کہ سورج گرہن ختم ہو گیا۔ پھر فرمایا سورج اور چاند کو کسی کی موت و حیات کی وجہ سے ہرگز گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ کی مخلوق میں سے دو چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں جو چاہتے ہیں (تصرف) فرماتے ہیں۔ نیز اللہ جل جلالہ جب اپنی مخلوق میں سے کسی مخلوق پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں تو وہ چیز ان کی فرمانبردار ہو جاتی ہے۔ اگر ان (سورج و چاند) میں سے کسی کو گرہن لگ جائے تو اس وقت تک نماز پڑھا کرو جب تک کہ وہ (گرہن) ختم نہ ہو جائے یا پروردگار کوئی نئی چیز (بات) پیدا فرما دیں۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، معاذبن ہشام، قتادہ، ابو قلابۃ، نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر سو رج یا چاند گرہن ہو جائے تو اس سے پہلے پڑھی گئی (فرض) نماز کی طرح نماز ادا کیا کرو۔

 

 

٭٭ احمد بن عثمان بن حکیم، ابو نعیم، حسن بن صالح، عاصم الاحول، ابو قلابۃ، نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گرہن ہو جانے پر عام (فرض) نمازوں ہی کی طرح نماز پڑھائی اور اس میں رکوع و سجود کیے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، معاذبن ہشام، قتادہ، حسن، نعمان بن بشیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی سے مسجد تشریف لے گئے۔ اس وقت سورج کو گرہن لگا ہوا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی امامت کروائی یہاں تک کہ گرہن ختم ہو گیا۔ پھر ارشاد فرمایا دور جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج یا چاند کسی بڑی شخصیت کی وفات کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ، انہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہی دو چیزیں ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جس طرح چاہتا ہے تغیر پذیر کرتا رہتا ہے۔ لہذا اگر سورج یا چاند گرہن ہو جائے تو جب تک وہ ختم نہ ہو جائے تم نماز پڑھا کرو۔ یا ایسا ہو کہ اللہ تعالیٰ کوئی (اس گرہن کی وجہ سے ) نئی بات رونما کریں۔

 

 

٭٭ عمران بن موسی، عبدالوارث، یونس، حسن، ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب تھے کہ سورج گرہن ہو گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کرتے کو گھسیٹتے ہوئے مسجد تک تشریف لے گئے اور دو رکعات ادا فرمائیں۔ پھر جب گرہن ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور ان کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو تنبیہ کرتا ہے۔ نیز انہیں کسی کی وفات یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا اگر تم ایسا دیکھو تو گرہن کے ختم ہو جانے تک نماز ادا کیا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ اسی روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ چنانچہ لوگ کہنے لگے کہ سورج گرہن بھی اسی وجہ سے ہوا ہے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، اشعث، حسن، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سورج گرہن کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روز مرہ نمازوں کی طرح دو رکعات نماز ادا فرمائی۔

 

نماز گرہن میں کتنی قرأت کرے ؟

 

محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صلوٰۃ الکسوف پڑھی۔ صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قیام کیا اور اس میں اتنی قرأت کی جتنی سورۃ البقرہ کی طوالت ہے۔ پھر طویل رکوع کیا پھر اٹھے اور پہلے قیام سے کم قیام کیا۔ پھر رکوع میں گئے اور پہلے رکوع سے کم طویل رکوع کیا۔ پھر سجدہ کیا پھر پہلے قیام سے کم طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور پہلے سے کم طویل رکوع کیا پھر کھڑے ہوئے اور پہلے سے کم طویل قیام کیا پھر سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے۔ اس وقت سورج صاف ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورج اور چاند رب کریم کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ انہیں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ تم اگر کبھی ایسا دیکھو تو اپنے رب کو یاد کیا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے (دوران نماز) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ سے شاید کوئی چیز پکڑنے کے لئے آگے ہوئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیچھے کی طرف ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے جنت دکھائی گئی یا فرمایا میں نے جنت دیکھی تو اس میں سے میووں کا ایک گچھا توڑنے کے لئے آگے بڑھا۔ اگر میں لے لیتا تو جب تک دنیا باقی ہے اس میں سے کھاتے رہتے۔ پھر میں نے دوزخ دیکھی۔ میں نے آج تک اس سے خوفناک کوئی چیز نہیں مشاہدہ کی۔ اس میں اکثریت عورتوں کی تھی لوگوں نے دریافت کیا کیوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! فرمایا ان کی ناشکری (کی عادت) کی وجہ سے۔ لوگوں نے عرض کیا اللہ کے ساتھ؟ فرمایا خاوند کے ساتھ ناشکری کرتی ہیں اور اس کا احسان نہیں مانتیں۔ اگر تم کسی خاتون کے ساتھ تا زندگی احسان کرتے رہو پھر اسے تمہاری کوئی ایک بات بھی ناگوار محسوس ہو تو وہ فوراً کہے گی۔ میں نے کبھی تجھ سے بھلائی نہیں دیکھی۔

 

نماز گرہن میں با آواز بلند قرأت کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، ولید، عبدالرحمن بن نمیر، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار رکوع اور چار سجدے فرمائے اور با آواز بلند قرأت فرمائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر اٹھاتے تو سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ارشاد فرماتے۔

 

صلوٰۃ کسوف میں بغیر آواز کے قرأت

 

عمرو بن منصور، ابو نعیم، سفیان، اسود بن قیس، ابن عباد، عبدالقیس، سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گرہن کی نماز ادا کی تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز نہیں سنی۔

 

نماز گرہن میں بحالت سجدہ کیا پڑھا جائے ؟

 

عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن بن مسور زہری، غندر، شعبہ، عطاء بن سائب، عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور طویل سجدہ کیا۔ یا اس طرح فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدوں میں روتے رہے اور سسکیاں لیتے ہوئے فرمانے لگے اے اللہ! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا میں تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔ تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا۔ جب تک میں ان میں موجود ہوں۔ پھر نماز سے فارغ ہو چکے تو ارشاد فرمایا جنت میرے سامنے پیش کی گئی یہاں تک کہ اگر میں ہاتھ کو آگے کرتا تو اس کے گھچے توڑ سکتا تھا۔ پھر جہنم بھی میرے سامنے پیش کی اور میں اسے پھونکنے لگا اس خوف سے کہ تم لوگوں کو اس کی گرمی نہ اپنی لپیٹ میں لے لے۔ پھر میں نے اس میں اپنے اونٹ کے چور کو دیکھا۔ پھر بنو دعدع کے بھائی کو دیکھا جو حاجیوں کا مال چوری کیا کرتا تھا اور اگر کوئی اسے پکڑ لیتا (دیکھ لیتا) تو کہتا کہ یہ لکڑی (بوجہ نوک) کی وجہ سے ہے۔ پھر میں نے اس میں ایک لمبی سیاہ خاتون کو دیکھا جسے بلی کی وجہ سے عذاب ہو رہا تھا۔ اس نے اس بلی کو باندھ رکھا تھا اور اسے کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہیں دیتی تھی۔ حتی کہ وہ مر گئی۔ پھر فرمایا سورج یا چاند میں کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ جل جلالہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اگر سورج یا چاند گرہن ہو جائے تو فوراً اللہ عزوجل کا ذکر (صلوٰۃ الکسوف) شروع کر دیا کرو۔

 

نماز گرہن میں تشہد پڑھنا اور سلام پھیرنا

 

عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، ولید، عبدالرحمن بن سے مروی ہے کہ انہوں نے زہری سے گرہن کی نماز کا طریقہ دریافت کیا تو فرمایا مجھ سے حضرت عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ صدیقہ کے حوالے سے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو حکم فرمایا اور اس نے باجماعت نماز کے لئے لوگوں کو جمع ہونے کا اعلان کیا۔ لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز شروع فرمائی۔ پہلے تکبیر کہہ کر طویل قرأت کی۔ پھر رکوع میں گئے اور قیام کی طرح یا اس سے بھی طویل رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہا۔ پھر تکبیر کہی اور رکوع کی طرح طویل یا اس سے بھی کچھ زائد طویل سجدہ کیا۔ پھر تکبیر کہی اور سر اٹھایا پھر تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا۔ پھر تکبیر کہہ کر سر اٹھایا پھر تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کیا پھر تکبیر کہہ کر کھڑے ہو گئے اور پہلی رکعت کی قرأت سے کم طویل رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہا پھر اس سے طویل رکوع کیا پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں گئے اور پہلے سے کم طویل رکوع کیا پھر تکبیر کہہ کر اٹھے اور سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہا پھر تکبیر کہہ کر سجدے میں گئے اور پہلے سجدوں سے کم طویل سجدے کیے۔ پھر تشہد پڑھا اور سلام پھیر دیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا سورج اور چاند کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک کو گرہن لگ جائے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کیا کرو اور نماز ادا کیا کرو۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، موسیٰ بن داؤد، نافع بن عمر، ابن ابو ملیکۃ، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسوف کی نماز پڑھی تو پہلے طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر اٹھے اور طویل قیام کیا پھ طویل رکوع کیا پھر اٹھے اور طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور طویل رکوع کیا پھر اٹھے اور سجدے میں چلے گئے اور طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھایا اور پھر دوسرا سجدہ بھی اسی طرح طویل کیا پھر کھڑے ہوئے اور طویل قیام کیا۔ پھر طویل رکوع کیا پھر اٹھے اور طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور طویل رکوع کیا۔ پھر اٹھے اور سجدہ میں گئے اور طویل سجدہ کیا۔ پھر اٹھے اور دوسرا سجدہ بھی اسی طرح طویل کیا پھر اٹھے اور نماز سے فراغت حاصل کی۔

 

صلوٰۃ الکسوف کے بعد منبر پر بیٹھنا

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، یحیی بن سعید، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور انتہائی لمبا قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور انتہائی لمبا رکوع کیا پھر اٹھے اور بہت طویل لیکن نسبتاً پہلے سے کم طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور پہلے سے نسبتاً کم لیکن طوالت میں پھر کافی طویل رکوع کیا پھر سجدے میں گئے اور پھر سجدے سے سر اٹھا کر کھڑے ہو گئے پھر پہلے سے کم طویل قیام کیا پھر رکوع بھی پہلے سے کم طویل کیا پھر سر اٹھایا اور پہلے سے کم طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے اور پہلے رکوع سے کم طویل رکوع کیا۔ پھر سجدے کیے اور نماز سے فراغت حاصل کی۔ اس وقت تک سورج گرہن ختم ہو چکا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبے ارشاد فرمایا اور اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ اگر تم ایسا دیکھو تو نماز ادا کرو صدقہ دو اور اللہ کو یاد کرو۔ پھر فرمایا اے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ سے تو زیادہ غیرت مند نہیں کہ اس کی باندی یا غلام زنا کرے۔ پھر ارشاد فرمایا اے امت محمدیہ اگر تم لوگوں کو ان چیزوں کا علم ہو جائے جو مجھے معلوم ہیں تو ہنسنا کم اور رونا زیادہ کر دو۔

 

نماز گرہن کے بعد کیسے خطبہ دیا جائے ؟

 

اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ کہیں جانے کے ارادہ سے کہیں تشریف لے گئے تو سورج گرہن ہو گیا۔ ہم حجرے میں چلی گئیں اور دیگر عورتیں میرے پاس جمع ہو گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس تشریف لائے وہ چاشت کا وقت تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور طویل قیام کیا پھر طویل رکوع کیا پھر سر اٹھایا اور پہلے سے کم طویل قیام کیا پھر رکوع میں گئے پھر سر اٹھایا اور پہلے سے کم طویل رکوع کیا پھر سجدہ کیا اور دوسری رکعت شروع کی۔ اس میں بھی اسی طرح کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قیام اور رکوع اس رکعت میں پہلی رکعت سے کم طویل تھے پھر سجدے کیے تو سورج صاف ہو گیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ چکے تو منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں سے ایک بات یہ ہے کہ لوگ قبر میں بھی اسی طرح فتنے میں مبتلا کیے جائیں گے جس طرح دجال کے آ جانے پر وہ فتنہ میں مبتلا ہو جائیں گے۔

 

نماز گرہن کے بعد کیسے خطبہ دیا جائے ؟

 

احمد بن سلیمان، ابو داؤد حفری، سفیان، اسود بن قیس، ثعلبۃ بن عباد، سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورج گرہن ہونے پر خطبہ دیا تو اما بعد! ارشاد فرما کر خطبہ کی ابتداء کی۔

 

گرہن کے موقع پر حکم دعا

 

عمرو بن علی، یزید، ابن زریع، یونس، حسن، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورج گرہن ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی سے چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیگر لوگ بھی جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیگر نمازوں کی طرح دو رکعات نماز کی امامت فرمائی۔ پھر فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جن سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور انہیں کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ اگر دونوں (چاند یا سورج) میں سے کسی کو گرہن لگ جائے تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو حتی کہ گرہن ختم ہو جائے۔

 

سورج گرہن کے موقع پر استغفار کرنے کا حکم

 

موسی بن عبدالرحمن مسروقی، ابو اسامۃ، یزید، ابو برٍدۃ، ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیامت کے خوف سے گھبرا کر اٹھے اور مسجد میں تشریف لائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتہائی طویل قیام رکوع سجود کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ اس سے پہلے ایسے (اتنا طویل ارکان) کبھی نہیں کیا تھا۔ پھر ارشاد فرمایا یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ دکھاتے ہیں یہ کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے نہیں پیش آتیں۔ بلکہ اللہ ان کی وجہ سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہذا اگر تم ان میں سے کوئی نشانی دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکر کرو۔ اس سے دعا کرو اور استغفار کرو۔

 

 

 

بارش طلبی کی نماز سے متعلقہ احادیث

 

امام نماز استسقاء کی امامت کب کرے ؟

 

قتیبہ بن سعید، مالک، شریک بن عبداللہ بن ابو نمر، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! مویشی مر گئے اور راستوں کی بندش ہو گئی۔ لہذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کی تو اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک بارش برستی رہی۔ پھر ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! گھر گر گئے اور راستے بند ہو گئے اور مویشی بھی مرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کی کہ یا اللہ! بارش پہاڑوں کی چوٹیوں ٹیلوں وادیوں اور درختوں پر برسا۔ اسی وقت مدینہ منورہ سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گئے۔ (یعنی منتشر ہو گئے اور آسمان صاف ہو گیا)

 

امام کا بارش کی نماز کے لئے باہر نکلنا

 

محمد بن منصور، سفیان، مسعودی، ابو بکر بن عمرو بن حزم، عباد بن تمیم، سفیان، عبداللہ بن ابو بکر، عباد بن تمیم، عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز استسقاء پڑھنے کیلئے عیدگاہ تشریف لے گئے اور قبلہ رخ ہو کر اپنی چادر کو پلٹ دیا اور دو رکعت نماز کی امامت فرمائی۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ سنیان بن عیینہ کی غلطی ہے کہ عبداللہ بن زید وہ ہیں جنہوں نے خواب میں اذان سنی تھی وہ تو عبداللہ بن زید بن عبدربہ ہیں اور یہ عبداللہ بن زید بن عاصم ہیں۔

 

 

امام کے لئے (نماز استسقاء میں ) کس طریقہ سے نکلنا بہتر ہے

 

اسحاق بن منصور و محمد بن مثنی، عبدالرحمن، سفیان، ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانۃ، اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے مجھ عبداللہ ابن عباس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز استسقاء سے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز استسقاء کے لیے تشریف لے گئے تو انتہائی عاجزی اور انکساری کی حالت میں بغیر کسی زینت اور آرائش کے نکلے اور دو رکعت ادا فرمائی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ نہیں ارشاد فرمایا جیسا کہ آج کل تمہارے یہاں شروع ہو گیا ہے

 

 

٭٭ قتیبہ، عبدالعزیز، عمارۃ بن غزیٰۃ، عباد بن تمیم، عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز استسقاء پڑھی تو ایک کالی چادر اپنے اوپر لے رکھی تھی۔

 

استسقاء میں امام کا منبر پر تشریف رکھنا

 

محمد بن عبید بن محمد، حاتم بن اسماعیل، ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے روایت ہے کہ فرمایا فلاں شخص سے مجھے عبداللہ ابن عباس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز استسقاء کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے بھیجا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم استسقاء کے لیے عاجزی انکساری اور بغیر کسی آرائش و زینت کے تشریف لے گئے۔ پھر منبر پر تشریف لائے لیکن خطبہ ارشاد نہیں فرمایا جیسا کہ تم لوگوں نے آج کل دینا شروع کر دیا ہے بلکہ مسلسل دعا و عاجزی کرتے رہے اور تکبیر کہتے رہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعینہ عیدین کی نماز جیسی دو رکعات کی امامت فرمائی۔

 

بوقت استسقاء امام دعا مانگے اور پشت کو لوگوں کی طرف پھیر لے

 

عمرو بن عثمان، ولید، ابن ابو ذئب، زہری، عباد بن تمیم فرماتے ہیں کہ ان کے چچا نے ان سے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ استسقاء کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر کو الٹا اور لوگوں کی طرف کمر کر کے دعا کی پھر دو رکعت ادا فرمائیں اور ان میں قرأت با آواز بلند کی۔

 

بوقت استقاء امام کا چادر الٹ دینا

 

قتیبہ، سفیان، عبداللہ بن ابو بکر، عباد بن تمیم اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے استسقاء کے موقع پر دو رکعات نماز ادا فرمائی اور اپنی چادر کو الٹ دیا۔

 

کس وقت امام اپنی چادر کو الٹے

 

قتیبہ، مالک، عبداللہ بن ابو بکر، عباد بن تمیم، عبداللہ بن زید، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارش کے لیے دعا کرنے کے ارادے سے تشریف لے گئے تو قبلہ رخ ہو کر اپنی چادر الٹی۔

 

امام کا بوقت استسقاء بغرض دعا ہاتھوں کا اٹھانا

 

ہشام بن عبدالملک ابو تقی حمصی، بقیٰۃ، شعیب، زہری، عباد بن تمیم اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے استسقاء کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبلہ کی طرف رخ فرمایا پھر اپنی چادر پلٹی اور دونوں ہاتھوں کو اٹھایا۔

 

ہاتھ کہاں تک بلند کیے جائیں ؟

 

شعیب بن یوسف، یحیی بن سعیدقطعان، سعید، قتادہ، انس، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے لیکن استسقاء میں ہاتھ اتنے اونچے اٹھاتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغلوں میں موجود سفیدی دکھائی دینے لگتی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، خالد بن یزید، سعید بن ابو ہلال، یزید بن عبد اللہ، عمیر، ابو الحم سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احجارالزیت کے پاس بارش کے لیے دعا فرماتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ہتھیلیاں اٹھا رکھی تھیں۔

 

 

٭٭ عیسی بن حماد، لیث، سعید، مقبری، شریک بن عبداللہ بن ابو نمر، انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ بروز جمعہ مسجد میں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطبہ مبارک سن رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم راستے بند ہو گئے جانور مر گئے اور شہروں میں قحط پڑ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ سے بارش کے لیے دعا کیجئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ چہرے کے سامنے تک اٹھائے اور دعا فرمائی یا اللہ! ہم پر مینہ برسا۔ اللہ کی قسم رسول اللہ ابھی منبر سے نیچے بھی تشریف نہیں لائے تھے کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی اور اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک مسلسل بارش برستی رہی۔ چنانچہ ایک شخص نے (اگلے جمعہ) عرض کیا یا رسول اللہ! بارش زیادہ ہونے کی وجہ سے راستے مخدوش ہو گئے اور جانور مر گئے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ بارش رک جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کی کہ یا اللہ! ہم پر نہیں ہمارے اردگرد برسا پہاڑوں پر اور درختوں پر برسا۔ انس کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ یہ فرمانا تھا کہ بادل چھٹ گئے اور اس حد تک چھٹ گئے کہ ہمیں ان میں سے پھر کوئی نظر نہیں آتا تھا۔

 

دعا کے متعلق

 

محمد بن بشار، ابو ہشام مغیرۃ بن سلمہ، وہیب، یحیی بن سعید، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا فرمائی تھی اللَّہُمَّ اسْقِنَا۔ یعنی اے اللہ! ہمیں پانی پلا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، معتمر، عبید اللہ بن عمر، عمریٰ، ثابت، انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ لوگ کھڑے ہو کر بولنا شروع ہو گئے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! بارش نہ ہونے کی وجہ سے جانور مر گئے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ بارش برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! ہمیں پانی دے۔ اللہ کی قسم اس وقت ہمیں آسمان پر (دور دور تک) بادل کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ اتنے میں ایک بادل دکھائی دیا اور پھر پھیلتا گیا۔ پھر بارش ہونے لگی۔ رسول اللہ منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھ کر فارغ ہوئے۔ پھر اگلے جمعہ تک مسلسل مینہ برستا رہا۔ جب اگلے جمعہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگ پکارنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! گھر تباہ ہو گئے راستے بند ہو گئے۔ پروردگار سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرانے لگے اور دعا کی کہ یا اللہ! ہم پر نہیں ہمارے اردگرد برسا۔ یہ فرمانا تھا کہ بادل مدینہ سے چھٹ گئے اور مدینہ کے اردگرد مینہ برستا رہا لیکن مدینہ میں ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ کی طرف (نظر اٹھا کر دیکھا) تو یوں محسوس ہوا گویا اس نے تاج پہن رکھا تھا اور اس پر مینہ برس رہا تھا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل بن جعفر، شریک بن عبد اللہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عین سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے۔ رب قدوس سے دعا کیجئے کہ ہم پر مینہ برسائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور دعا کی کہ اے اللہ مینہ برسا۔ اے اللہ مینہ برسا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! آسمان پر کہیں بادل یا بادل کی ایک ٹکڑی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہمارے اور سلع کے درمیان (پہاڑ کا نام ہے ) کوئی آڑ نہیں تھی۔ پھر بادل کا ایک ٹکڑا ڈھال کی طرح ظاہر ہوا اور آسمان کے وسط میں آ کر پھیل گیا۔ پھر مینہ برسنے لگا۔ انس کہتے ہیں اللہ کی قسم! پھر ایک ہفتے تک ہمیں سورج نہیں دکھائی دیا۔ پھر آئندہ جمعہ اسی دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہوا اور دوران خطبہ رسول اللہ کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! جانور مر گئے اور راستے مخدوش ہو گئے۔ اللہ سے دعا فرمائیے کہ بارش رک جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی یا اللہ! ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر نہیں۔ اے اللہ ٹیلوں پست جگہوں وادیوں اور درختوں پر برسا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمانا تھا کہ بادل چھٹ گئے اور ہم دھوپ میں چلتے ہوئے نکلے۔ شریک کہتے ہیں کہ میں نے انس سے پوچھا کیا یہ وہی شخص تھا جو پچھلے جمعہ آیا تھا ؟ فرمایا نہیں۔

 

دعا مانگنے کے بعد نماز ادا کرنا

 

حارث بن مسکین، ابن وہب، ابن ابو ذئب و یونس، ابن شہاب، عباد بن تمیم، کہتے ہیں کہ ان کے چچا نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارش کے لیے نکلے تو لوگوں کی طرف پشت کی اور قبلہ کی طرف رخ کر کے اللہ سے دعا کی اور اپنی چادر کو الٹا کیا۔ پھر دو رکعات نماز ادا فرمائی اور دونوں رکعات میں قرأت فرمائی۔

 

نماز استقاء کی رکعتیں

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، یحیی، ابو بکر بن محمد، عباد بن تمیم، عبداللہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم استسقاء کے لیے باہر تشریف لائے اور قبلہ رخ ہو کر دو رکعت نماز ادا فرمائی

 

نماز استسقاء ادا کرنے کا طریقہ

 

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، ہشام بن اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ روایت کرتے ہیں کہ ایک امیر نے مجھے عبداللہ ابن عباس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز استسقاء کے متعلق دریافت کرنے کے لیے بھیجا؟ انہوں نے فرمایا اس نے خود کیوں نہیں پوچھا؟ پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خشوع خضوع کے ساتھ عام کپڑے پہنے آہ و زاری کرتے ہوئے نکلے۔ پھر عیدین کی نماز کی طرح کی دو رکعات نماز ادا فرمائیں اور تم لوگوں کے اس خطبہ کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔

 

نماز استسقاء میں بآواز بلند قرأت کرنا

 

محمد بن رافع، یحیی بن آدم، سفیان، ابن ابو ذنب، زہری، عباد بن تمیم اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز استسقاء کے لیے نکلے تو دو رکعات ادا فرمائیں اور ان میں باآواز بلند قرأت فرمائی۔

 

بارش کے وقت کیا دعا کی جائے ؟

 

محمد بن منصور، سفیان، مسعر، مقدام بن شریح، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بارش ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا فرماتے اے اللہ! اسے موسلا دھار برسا اور اسے فائدہ مند بنا دے۔

 

 

ستاروں کی وجہ سے مینہ برسنے کے عقیدہ کا رد

 

عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں اپنے بندوں پر کسی نعمت کا نزول کرتا ہوں تو ان میں سے ایک فریق اس کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں ستارہ کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، صالح بن کیسان، عبید اللہ بن عبد اللہ، زید بن خالد جہنی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں بارش ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم لوگوں نے نہیں سنا کہ تمہارے رب نے رات کو کیا حکم فرمایا ہے ؟ اس نے فرمایا میں جب اپنے بندوں پر کسی نعمت کا نزول کرتا ہوں تو ان میں سے کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں ستارے کی وجہ سے مینہ برسا۔ چنانچہ جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور بارش کے برسنے پر میرا شکر ادا کیا تو وہ شخص مجھ پر ایمان لایا اور ستارے سے کفر اختیار کیا اور جس کسی نے کہا کہ ستارے کی وجہ سے مینہ برسا تو اس نے مجھ سے کفر اختیار کیا اور ستارے پر ایمان لے آیا۔

 

 

٭٭ عبدالجبار بن العلاء، سفیان، عمرو، عتاب بن حنین، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر رب قدوس (مسلسل) پانچ برس تک بارش نہ برسائیں اور پھر بارش شروع ہو جائے تو بھی ایک گروہ کافر ہی رہے گا اور کہے گا کہ مجدح (ستارے کا نام) کے نکلنے کی وجہ سے ہم پر مینہ برسا۔

 

اگر نقصان کا خطرہ ہو تو امام بارش کے تھمنے کے لیے دعا کرے

 

علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ پورے سال تک بارش نہیں ہوئی تو لوگ جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ بارش نہیں ہو رہی زمین خشک ہو گئی ہے اور جانور مر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو آسمان پر بالکل بادل نہیں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ زیادہ آگے بڑھائے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالیٰ سے بارش کے لیے دعا فرما رہے تھے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ جب ہم نے نماز جمعہ سے فراغت حاصل کی تو جس کا گھر قریب تھا اس کا گھر جانا بھی دشوار ہو گیا اور وہ بارش اگلے جمعہ تک برستی رہی۔ پھر لوگ حاضر ہوئے (اگلے جمعہ) اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکانات گر رہے ہیں سواروں کا چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے کہ آدمی کتنی جلدی دل گرفتہ ہو جاتا ہے۔ پھر ہاتھوں سے اشارہ کیا اور دعا کی کہ یا اللہ! ہمارے اردگرد برسا۔ ہم پر نہیں۔ اسی وقت مدینہ سے بادل چھٹ گیا۔

 

 

٭٭ محمود بن خالد، ولید بن مسلم، ابو عمرو اوزاعی، اسحاق بن عبد اللہ، انس بن مالک، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک مرتبہ ایک برس تک بارش نہیں برسی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جانور مر گئے اور بچے بھوکے ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے حق میں دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے تو اس وقت تک آسمان پر بادل کا ایک بھی ٹکڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابھی ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ بادل پہاڑوں کی طرح امڈ آئے اور چھا گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی منبر سے نیچے بھی تشریف لائے تھے کہ میں نے بارش کا پانی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ریش مبارک پر پڑتے دیکھا۔ پھر اس روز بارش ہوئی دوسرے روز ہوئی تیسرے روز ہوئی حتی کہ اگلا جمعہ آ گیا۔ پھر وہی اعرابی یا کوئی اور کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! مکان گر رہے ہیں۔ مال (جانور) غرق ہونے لگے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ یا اللہ! ہمارے ارد گرد بارش برسا۔ ہم پر نہیں اور بادل کی طرف اشارہ کیا۔ جس طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ کیا تھا وہاں سے بادل چھٹ گیا۔ اور مدینہ منورہ گھڑے کی طرح ہو گیا۔ پھر نالوں میں پانی بھر گیا اور جو آدمی بھی خواہ کسی سمت سے مدینہ آیا اس نے آگاہ کیا کہ ہر طرف بارش برس رہی ہے۔

 

 

خوف کی نماز

 

 

٭٭  اسحاق بن ابراہیم، وکیع، سفیان، اشعث بن ابو شعثاء، اسود بن ہلال، ثعلبہ بن زہد فرماتے ہیں کہ ہم سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبرستان میں موجود تھے۔ حذیفہ بن یبان بھی ہمارے ساتھ تھے۔ سعید نے فرمایا کیا تم سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی ہے ؟ حذیفہ کہنے لگے ہاں ! میں نے پڑھی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طائف میں نماز پڑھنے کا طریقہ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جماعت کے ساتھ ایک رکعت ادا فرمائی اور دوسری جماعت اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور دشمن کے درمیان حائل تھی۔ پھر دوسری جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف بندی کی اور ایک رکعت ادا فرمائی اس وقت تک پہلی رکعت والی جماعت دشمن کے مقابلے میں کمربستہ ہو چکی تھی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، اشعث بن سلیم، اسود بن ہلال، ثعلبۃ بن زہد فرماتے ہیں کہ ہم سعید بن عاص کے ساتھ طبرستان میں تھے کہ انہوں نے پوچھا کوئی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز خوف ادا فرمائی ہو؟ حذیفہ نے کہا ہاں ! میں نے ادا فرمائی ہے۔ چنانچہ حذیفہ کھڑے ہوئے اور ان کے پیچھے دو صفیں بنائی گئیں۔ ایک صف دشمن کے مقابلے میں صف آرا رہی اور دوسری نے ان کے پیچھے نماز ادا فرمائی۔ پھر وہ لوگ اٹھ کر ان کی جگہ چلے گئے اور وہ ان کی جگہ (نماز کے لئے ) آ گئے۔ پھر حذیفہ نے انہیں ایک رکعت پڑھائی اور کسی نے (باقی نماز کی) قضا نہیں ادا کی۔

 

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، رکین بن ربیع، قاسم بن حسان، زید بن ثابت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز خوف کے متعلق حذیفہ کی طرح ہی روایت کرتے ہیں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، بکیر بن اخنس، مجاہد، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے تم پر حضر میں چار رکعت نماز سفر میں دو رکعت نماز اور حالت خوف میں ایک فرض نماز فرض کی ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، ابو بکر بن ابو جہم، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذی قرد کے مقام پر نماز ادا فرمائی تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے دو صفیں آراستہ کیں۔ ایک دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر رہی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک صف کو ایک رکعت نماز پڑھائی۔ پھر یہ لوگ ان کی جگہ چلے گئے اور وہ لوگ ادھر آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں ایک رکعت نماز پڑھائی۔ پھر کسی نے قضا (یعنی رہ جانے والی ایک رکعت) نہیں پڑھی۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، محمد، زبیدی، زہری، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی (نماز کے لیے )۔ لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا اور انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سجدہ ادا کر لیا تھا وہ پیچھے ہوتے گئے اور اپنے بھائیوں کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ پھر دوسری جماعت آگے بڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رکوع و سجدہ کیا چنانچہ سب کے سب نماز میں تھے تکبیر کہتے اور ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہوئے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم، عمی، وہ اپنے والد سے ، ابن اسحاق ، داؤد بن حصین، عکرمۃ، عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نماز خوف میں صرف دو سجدے تھے جیسے آج کل تمہارے محافظ تمہارے ان اماموں کے پیچھے ادا کرتے ہیں۔ الا یہ کہ وہ لوگ پیچھے ہٹتے اس طرح کہ پہلے ایک جماعت بلکہ سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور ان میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سجدہ ادا کرتی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوتے تو سب کھڑے ہو جاتے پھر رکوع کرتے تو سب ساتھ رکوع کرتے پھر سجدہ میں جاتے تو صرف وہی لوگ ساتھ سجدہ میں جاتے جو پہلی رکعت میں کھڑے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھتے تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ جنہوں نے یہ رکعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پڑھی تھی۔ پھر پہلی رکعت والے سجدہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سب لوگ ایک ساتھ سلام پھیرتے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، صالح بن خوات، سہل بن ابی حثمۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوف کی نماز پڑھائی تو ایک صف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیچھے کھڑی ہوئی اور دوسری دشمن سے کمربستہ رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت پڑھی تو وہ لوگ چلے گئے اور جو دشمن کے مقابلہ میں (صف آراء) تھے وہ آ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی۔ پھر سب کھڑے ہو گئے اور ایک ایک رکعت جو بقایا تھی ادا کی۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، یزید بن رومان، صالح بن خوات اس شخص سے نقل کرتے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع میں نماز خوف پڑھی تھی کہ پہلے ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صف بنائی اور ایک دشمن کے مقابلہ میں صف آراء رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے رہے اور دوسری جماعت آئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ دوسری رکعت ادا فرمائی۔ پھر بیٹھے رہے اور انہوں نے اپنی رہ جانے والی ایک رکعت ادا کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، معمر، زہری، سالم، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جماعت کے ساتھ ایک رکعت ادا فرمائی اور دوسری دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہی۔ پھر یہ چلے گئے اور وہ ان کی جگہ آ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ دوسری رکعت ادا فرمائی پھر سلام پھیرا اور دونوں جماعتوں نے اپنی انفرادی رکعت پڑھی جو ابھی پڑنی رہ گئی تھی۔

 

 

٭٭ کثیر بن عبید، بقیٰۃ، شعیب، زہری، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کی غرض سے گیا تو ہم دشمن کے برابر صف آراء ہوئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ہم میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں سینہ سپر رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع و سجود کیے پھر وہ گئے اور اس جماعت کی جگہ لے لی جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی پھر وہ لوگ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ رکوع و سجود ادا کیے۔ جن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو ہر شخص باقی رہ جانے والے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کیے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالرحیم برقی، عبداللہ بن یوسف، سعید بن عبدالعزیز، زہری، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو ہم میں سے ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف بنائی اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں صف آراء رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجود کیے۔ پھر دشمن کے مقابلہ کے لیے چلے گئے اور وہ لوگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی اسی طرح (نماز پڑھی) کیا۔ پھر سلام پھیر دیا۔ پھر دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی باقی رہ جانے والی رکعت ادا کی۔

 

 

٭٭ عمران بن بکار، محمد بن مبارک، ہیثم بن حمید، العلاء و ابو ایوب، زہری، عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز خوف پڑھی تو تکبیر کہی اور ہم میں سے ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف آراء ہوئی جب کہ دوسری جماعت دشمن کے مقابلے میں ڈٹی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ ایک رکعت پڑھی یعنی ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ پھر یہ لوگ سلام پھیرے بغیر چلے گئے اور اس جماعت کی جگہ دشمن کے مقابلے میں برسر پیکار ہو گئے اور وہ جماعت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دو رکوع اور چار سجدے پورے ہو گئے تھے چنانچہ ہر آدمی نے ایک رکوع اور دو سجدے کر کے اپنی نماز ادا کی۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ ابو بکر بن انس نے فرمایا زہری نے عبداللہ ابن عمر سے صرف دو احادیث کی سماعت کی ہے۔ یہ حدیث ان احادیث میں سے نہیں ہے۔

 

 

٭٭ عبدالاعلیٰ بن واصل بن عبدالاعلی، یحیی بن آدم، سفیان، موسیٰ بن عقبۃ، نافع، عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز خوف ادا فرمائی تو ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑی ہوئی اور ایک دشمن کے ساتھ سینہ سپر رہی۔ پھر جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے ساتھ ایک رکعت ادا فرمائی اور وہ جماعت چلی گئی پھر دوسری جماعت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکعت ادا فرمائی۔ پھر دونوں جماعتوں نے باقی ایک رکعت ادا کی۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، عبداللہ بن یزید مقری، محمد بن عبداللہ بن یزید، حیوٰۃ، ابو الاسود، عروہ بن زبیر، مروان بن حکم، مروان بن حکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خوف کی نماز ادا کی ہے ؟ فرمایا ہاں ! اس نے پوچھا کب؟ انہوں نے فرمایا غزوہ نجد میں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عصر کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صف آراء ہو گئی اور دوسری دشمن کے مقابلہ میں کھڑی رہی۔ ان کی پشت قبلہ رخ تھی۔ آپ نے تکبیر کہی۔ ان لوگوں نے بھی جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور ان لوگوں نے بھی جو دشمن کے مقابل تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو صرف اس جماعت نے ہی رکوع کیا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہی کے ساتھ سجدہ کیا اور ایک جماعت دشمن کے مقابلے میں کھڑی رہی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے تو وہ جماعت بھی کھڑی ہوئی اور دشمن کے مقابلے کے لیے چلی گئی۔ جب کہ دوسری جماعت جو دشمن سے برسرپیکار تھی آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح کھڑے تھے۔ وہ لوگ بھی کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسری رکعت کے رکوع اور سجود کیے۔ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رکوع اور سجود کیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور وہ جماعت بیٹھ گئی۔ پھر سلام ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب لوگوں کے ساتھ سلام پھیرا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو دو رکعات ادا فرمائیں اور باقی دونوں جماعتوں نے ایک ایک رکعت ادا فرمائی۔

 

 

٭٭ عباس بن عبدالعظیم، عبدالصمد بن عبدالوارث، سعید بن عبید ہنائی، عبداللہ بن شقیق، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ضجنان کے درمیان مشرکین کا محاصرہ کیا تو مشرکین کہنے لگے۔ یہ لوگ نماز کو اپنی اولاد اور ازواج سے بھی زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ لہذا اپنی قوت جمع کر کے ایک ہی دفعہ ان (مسلمانوں ) پر حملہ آور ہوا جائے۔ اس پر جبرائیل تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں منقسم فرما دیں۔ ایک حصہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسرا حصہ اپنے ہتھیار اور بچاؤ کی چیزیں لے کر دشمن کے مقابلے میں کمربستہ رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جماعت کو ایک رکعت نماز پڑھائیں اور وہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں۔ پھر دوسری جماعت کے ساتھ ایک رکعت ادا فرمائی۔ اس طرح ان کی تو ایک ایک رکعت ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو رکعات ادا ہو جائیں گی۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن، حجاج بن محمد، شعبہ، حکم، یزید الفقیر، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ نماز خوف پڑھی۔ چنانچہ ایک صف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھڑی ہوئی اور ایک پیچھے۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھے ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکوع اور دو سجدے ادا فرمائے۔ پھر وہ لوگ آگے بڑھ کر ان کی جگہ جا کھڑے ہو گئے (جنگ کرنے والوں کی جگہ) اور وہ لوگ ان کی جگہ پر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجود ادا کیے۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو دو رکعت ادا ہو گئیں اور باقیوں نے ایک ایک رکعت ادا فرمائی۔

 

 

٭٭ احمد بن مقدام، یزید بن زریع، عبدالرحمن بن عبداللہ مسعودی، یزیدالفقیر، جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ نماز کی اقامت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے ایک جماعت صف آراء ہوئی۔ جب کہ دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ جو لوگ آپ کے ساتھ تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجود کیے۔ پھر وہ چلے گئے اور ان کی جگہ لے لی جو دشمن سے بر سر پیکار تھے اور وہ لوگ ان کی جگہ آ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکوع اور دو سجود کیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو ان لوگوں نے بھی سلام پھیرا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صف آراء تھے اور ان لوگوں نے بھی جو دشمن سے بر سر پیکار تھے۔

 

 

٭٭ علی بن حسین الدرہمی و اسماعیل بن مسعود، خالد، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم خوف کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شریک تھے۔ چنانچہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے دو صفیں بنائیں۔ دشمن مقابلے کی جانب تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو ہم نے بھی تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو ہم نے بھی رکوع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع سے اٹھے تو ہم سب بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر جب سجدے کے لئے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اگلی والی صف حالت سجدہ میں ہو گئی اور پچھلی صف کھڑی رہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس صف کے سجدہ کرنے کے بعد دوسری صف نے سجدے کیے۔ اس کے بعد اگلی صف پیچھے ہٹ گئی اور پچھلی صف آگے بڑھ گئی۔ یعنی یہ ان کی جگہ اور وہ ان کی جگہ آ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع ادا کیا تو ہم نے بھی رکوع کیا جب اٹھے تو ہم سب بھی اٹھے لیکن جب سجدہ میں گئے تو صرف اگلی صف نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سجدہ کیا پچھلی صف کھڑی رہی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدے سے اٹھے تو پچھلی صف نے بھی سجدہ کیا اور سب نے اکٹھے سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھجوروں کے درختوں میں موجود تھے اور دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو سب نے تکبیر کہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو سب نے رکوع کیا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں گئے تو صرف پہلی صف سجدہ میں گئی پچھلی صف حفاظت کیلئے کھڑی رہی۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر پچھلی صف والے اگلی صف کی جگہ اور اگلی صف والے پچھلی صف کی جگہ آ گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو سب نے رکوع کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع سے اٹھے تو سب اٹھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ کیا تو صرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے والی ایک صف سجدہ میں گئی پچھلی صف کھڑی حفاظت کرتی رہی۔ جب وہ سجدہ کر کے بیٹھ گئے تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا پھر سلام پھیرا۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جیسے تمہارے آج کل کے امراء کا دستور ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی ومحمد بن بشار، محمد، شعبہ، منصور، مجاہد، ابو عیاش زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام عسفان میں دشمن کے مقابلہ میں برسرپیکار تھے۔ مشرکین کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز کی امامت کی تو مشرکین کہنے لگے اس کے بعد ان کی ایک نماز ایسی ہے جو ان کے نزدیک ان کی اولاد اور اموال سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عصر پڑھانے لگے تو اپنے پیچھے لوگوں کی دو صفیں بنائیں۔ پھر سب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رکوع کیا پھر سب رکوع سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہی کھڑے ہوئے لیکن سجدہ صرف پہلی صف نے کیا پچھلی صف بدستور کھڑی رہی جب اگلی صف سجدہ کر چکی تو پچھلی صف بھی سجدہ میں چلی گئی۔ پہلی صف پیچھے اور پچھلی صف آگے آ گئی یعنی دونوں صفیں ایک دوسرے کی جگہ کھڑی ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کیا تو سب نے ساتھ رکوع کیا پھر رکوع سے سر اٹھایا تو پہلی صف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سجدہ میں چلی گئی۔ پچھلی صف کھڑی رہی جب وہ سجدے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب (مقتدیوں ) کے ساتھ سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالعزیز بن عبد الصمد، منصور، مجاہد، ابو عیاش زرقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم عسفان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اس وقت مشرکین کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے۔ مشرکین کہنے لگے۔ ہم نے انہیں دھوکہ دینے کے لئے ایک وقت معلوم کر لیا ہے جس میں یہ لوگ غافل ہو جاتے ہیں۔ اس پر ظہر اور عصر کے درمیان نماز خوف کا حکم نازل ہوا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور ہم گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی اور ایک گروہ بدستور حفاظت کرتا رہا۔ وہ اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو سب نے (دونوں گروہوں نے ) ساتھ تکبیر کہی۔ پھر رکوع کیا تو سب نے رکوع کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے والوں نے سجدہ کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ پھر (دوسرا گروہ) آگے بڑھا اور سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور سب کے ساتھ دوسری رکعت پڑھی۔ جب سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیچھے والی صف نے سجدہ کیا اور وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ پھر پیچھے والے آگے بڑھے اور سجدہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سب کے ساتھ سلام پھیرا اس طرح دونوں گروہوں نے امام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ دو دو رکعات نماز ادا کی۔ پھر ایک دفعہ بنو سلیم کے علاقے میں بھی نماز خوف ادا کی گئی۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلیٰ و اسماعیل بن مسعود، اشعث، حسن، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ لوگوں کے ساتھ نماز خوف پڑھی تو دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا پھر دوسری جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیرا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار رکعات پڑھیں۔ (دیگر لوگوں نے دو دو رکعات ادا کی)

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، عمرو بن عاصم، حماد بن سلمہ، قتادہ، حسن، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ دو رکعات پڑھ کر سلام پھیرا۔ پھر دوسری جماعت کے ساتھ بھی دو رکعات ادا فرمائیں اور سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ ابوحفص، عمرو بن علی، یحیی بن سعید، یحیی بن سعید، قاسم بن محمد، صالح بن خوات، سہل بن ابی حثمہ نماز خوف کے متعلق فرماتے ہیں کہ امام قبلہ کی جانب کھڑا ہو اور ایک جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہو جب کہ دوسری جماعت دشمن کے مقابلہ میں ان کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو پھر امام ایک رکعت پڑھے۔ حتی کہ وہ لوگ اپنی اپنی ایک ایک رکعت پڑھ کر چلے گئے۔ پھر وہ ان کی جگہ چلے جائیں اور وہ ان کی جگہ آ جائیں۔ پھر امام ان کے ساتھ رکوع اور دو سجدے کرے اس طرح امام کی دو رکعت پوری ہو جائیں گی اور ان لوگوں (ہر گروہ) کی ایک رکعت ادا ہو گی۔ لہذا وہ لوگ اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالاعلی، یونس، حسن، جابر بن عبداللہ رضی اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام کے ساتھ نماز خوف ادا کی تو ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑی ہوئی اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں سینہ سپر رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ دو رکعات ادا فرمائیں۔ پھر وہ ان کی جگہ اور یہ ان کی جگہ چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی دو رکعات ادا فرمائیں۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، اشعث، حسن، ابو بکرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ والی جماعت کے ساتھ دو رکعات ادا فرمائیں۔ پھر دوسری جماعت آئی تو ان کے ساتھ بھی دو رکعات ادا فرمائیں۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تو چار رکعت ہوئیں اور باقیوں کی دو دو رکعات ادا ہوئیں۔

 

 

عیدین سے متعلقہ احادیث کی کتاب

 

عیدین  کا بیان

 

علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس بن مالک فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگوں نے سال میں دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ارشاد فرمایا تم لوگوں کے کھیلنے کودنے کے لیے دو دن مقرر تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سے بہتر دنوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی عیدالفطر اور عیدالضحی۔

 

عیدین (کی نماز) کے لیے دوسرے دن نکلنا

 

عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، ابو بشر، ابو عمیر بن انس اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے چاند دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور بتایا۔ اس وقت دن چڑھ چکا تھا لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور دوسرے روز عید کی نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا۔

 

بالغ اور با پردہ خواتین کا نماز عید کے لیے جانا

 

عمرو بن زرارۃ، اسماعیل، ایوب، حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ام عطیہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر کرتیں تو کہتی بابا یعنی میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان۔ میں نے کہا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات سنی ہے ؟ کہنے لگیں ہاں ! بابا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جوان باپردہ اور حائضہ خواتین نماز عید کے لیے جائیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ لیکن جن خواتین کو حیض ہو وہ نماز کی جگہ سے فاصلے پر رہیں۔

 

حائضہ خواتین کا نماز کی جگہ سے علیحدہ رہنا

 

قتیبہ، سفیان، ایوب، محمد فرماتے ہیں کہ میں ام عطیہ سے ملا تو پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ (ان کی عادت تھی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جوان اور باپردہ خواتین کو (نماز عید) کے لیے نکالو کہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی دعا اور بھلائی میں حصہ دار ہوں۔ لیکن حیض والی خواتین نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔

 

عید کے دن آرائش کرنا

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یونس بن یزید و عمرو بن حارث، ابن شہاب، سالم، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ایک ریشمی کپڑے کا لباس بازار میں فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے خرید لیجئے۔ اور عید کے موقع پر یا وفود سے ملاقات کے وقت پہنا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ لباس تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کا (بروز آخرت) کوئی حصہ نہیں اور اسے وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جتنی دیر اللہ کو منظور تھا ٹھہرے۔ پھر ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمر کو ایک ریشمی جبہ بھیجا۔ وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر مجھے کیوں بھیج دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس لیے کہ اسے فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لو۔

 

نماز عید سے پہلے نماز (نفل) ادا کرنا

 

اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، اشعث، اسود بن ہلال، ثعلبۃ بن زہدم ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو مسعود کو لوگوں کا حاکم مقرر کیا تو وہ عید کے روز نکلے اور فرمایا اے لوگو! امام سے پہلے نماز پڑھنا سنت نہیں۔ (نماز عید سے پہلے عید گاہ میں یا گھر پر نفل پڑھنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ نہیں۔)

 

عیدین کے لیے اذان نہ دینے کا بیان

 

قتیبہ، ابو عوانہ، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کی نماز خطبہ سے پہلے ادا فرمائی اور بغیر اذان و تکبیر کے ادا فرمائی۔

 

عید کے روز خطبہ دینا

 

محمد بن عثمان، بہز، شعبہ، زبید، شعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے ایک ستون کے قریب بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عیدالضحی کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا تو فرمایا ہم آج کے دن کی ابتداء نماز سے کریں گے پھر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت پر عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر لی اس نے اپنے گھر والوں کے لیے گوشت مہیا کیا۔ چنانچہ ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس ایک چھ ماہ کا دنبہ ہے جو ایک برس کے دنبے سے بھی (صحت میں ) اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اسے ذبح کر لو لیکن تمہارے بعد یہ رعایت کسی کے لیے نہیں ہے۔

 

نماز عیدین خطبہ سے پہلے ادا کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ بن سلیمان، عبید اللہ، نافع، عبداللہ ابن عمر، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکرو عمر رضی اللہ عنھما عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے ادا کرتے تھے۔

 

برچھی گاڑ کر (بطور سترہ) اس کے پیچھے نماز ادا کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، ایوب، نافع، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر اور عیدالضحی کی نماز کے موقع پر برچھی نکالتے اور اس کو (بطور سترہ اپنے آگے زمین میں ) گاڑ کر نماز ادا فرماتے۔

 

 

رکعات عیدین

 

عمران بن موسی، یزید بن زریع، سفیان بن سعید، زبیدالایامی، عبدالرحمن بن ابی لیلی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدالفطر عیدالضحی صلوٰۃ المسافر اور جمعہ کی نماز دو دو رکعات ہیں اور یہ سب پوری ہیں ان میں قصر نہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد پاک ہے۔

 

عیدین میں سورہ ق اور سورہ قمر کی تلاوت کرنا

 

محمد بن منصور، سفیان، ضمرۃ بن سعید، عبید اللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عید کے دن نکلے تو ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج کے دن کونسی سورتیں تلاوت کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا سورہ ق اور سورہ قمر۔

 

عیدین میں سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ تلاوت کرنے کا بیان

 

قتیبہ، ابو عوانہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حبیب بن سالم، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اگر کبھی جمعہ کی عید ہو جاتی تب بھی دونوں نمازوں میں یہی سورتیں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

 

عیدین میں نماز کے بعد خطبہ دینا

 

محمد بن منصور، سفیان، ایوب، عطاء عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عید کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھاتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو احوص، منصور، شعبی، براء بن عازب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عیدالضحی کے موقع پر نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔

 

عیدین (کے روز) خطبہ کیلئے بیٹھنے یا کھڑے ہونے دونوں کا اختیار ہے

 

محمد بن یحیی بن ایوب، فضل بن موسی، ابن جریج، عطاء، عبداللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید کی نماز پڑھی اور ارشاد فرمایا جو جانا چاہے جائے اور جو خطبہ سننا چاہے وہ بیٹھا رہے۔

 

خطبے کے لیے بہترین لباس زیب تن کرنا

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، عبید اللہ بن ایاد، وہ اپنے والد سے ، ابو رمثہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو سبز چادریں اوڑھے ہوئے تھے۔

 

اونٹ پر بیٹھ کر خطبہ دینا

 

یعقوب بن ابراہیم، ابن ابو زائٍدۃ، اسماعیل بن ابو خالد، اخیہ، ابو کاہل حمسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اونٹ پر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا اور ایک حبشی اونٹ کی نکیل تھامے ہوئے تھا۔

 

کھڑے ہو کر خطبہ دینا

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، سماک فرماتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہو جاتے۔

 

خطبہ پڑھتے وقت امام کا کسی شخص سے ٹیک لگانا

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عید کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز ادا فرمائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور آخرت کی یاد دلائی۔ نیز لوگوں کو اطاعت کی ترغیب دی۔ پھر چلے اور عورتوں کی طرف تشریف لے گئے۔ بلال رضی اللہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو بھی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا اور انہیں بھی وعظ و نصیحت کی۔ پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور انہیں اطاعت کی ترغیب دلائی۔ پھر فرمایا (اے عورتو!) صدقہ دیا کرو کیونکہ جہنم کے ایندھن کی اکثریت عورتیں ہی ہیں۔ اس پر ایک ادنی درجہ کی کالے گالوں والی خاتون بھول اٹھی کہ کیوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس لیے کہ شکوہ بہت اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ یہ سن کر عورتوں نے اپنے ہار بالیاں اور انگوٹھیاں اتار کر بلال رضی اللہ کے کپڑے میں ڈالنا شروع کر دی اور صدقہ دے دیں۔

 

خطبہ دیتے وقت امام کا منہ لوگوں کی طرف ہو

 

قتیبہ، عبدالعزیز، داؤد، عیاض بن عبد اللہ، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالفطر اور عیدالضحی کے موقع پر عیدگاہ جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ جب دوسری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرتے تو لوگوں کی طرف چہرہ کر کے کھڑے ہو جاتے۔ لوگ بیٹھے رہتے۔ چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی کام ہوتا مثلا کہیں لشکر وغیرہ بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے بیان کر دیتے ورنہ لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم ارشاد فرماتے اور تین مرتبہ فرماتے صدقہ دو چنانچہ سب سے زیادہ خواتین صدقہ دیا کرتی تھیں۔

 

دوران خطبہ دوسرے کو کہنا خاموش رہو

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، ابن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم نے اپنے ساتھی سے کہا کہ خاموش رہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے ناپسندیدہ بات کہی۔

 

خطبہ کیسے پڑھا جائے ؟

 

عتبہ بن عبد اللہ، ابن مبارک، سفیان، جعفر بن محمد، وہ اپنے والد سے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے جیسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں ) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔ پھر فرماتے میں اور قیامت اتنی قریب ہیں جتنی یہ دو انگلیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخسار مبارک سرخ ہو جاتے آواز بلند ہو جاتی اور غصہ تیز ہو جاتا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی لشکر کو ڈرا رہے ہوں کہ صبح یا شام کے وقت تم لوگوں کو لشکر لوٹ لے گا۔ جو شخص مال چھوڑ کر مرے گا وہ اس کے ورثاء کاہے اور جو شخص قرض یا بچے چھوڑ کر مرے گا اس کا قرض اور بچوں کی پرورش کا میں ذمہ دار ہوں کیونکہ کہ میں مسلمانوں کا ولی ہوں۔

 

امام کا دوران خطبہ صدقہ دینے کی تلقین کرنا

 

عمرو بن علی، یحیی، داؤد بن قیس، عیاض، ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے دن نکلتے تو دو رکعت نماز ادا فرمانے کے بعد خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتے۔ خواتین سب سے زیادہ صدقہ کیا کرتیں۔ نیز اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی کام ہوتا یا کوئی لشکر بھیجنا ہوتا تو بیان کر دیتے ورنہ واپس آ جاتے۔

 

امام کا دوران خطبہ صدقہ دینے کی تلقین کرنا

 

علی بن حجر، یزید، ابن ہارون، حمید، حسن، عبداللہ ابن عباس، نے ایک مرتبہ بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اپنے روزوں کی زکوٰۃ دیا کرو۔ یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ انہوں نے فرمایا یہاں اہل مدینہ میں سے کون کون ہیں ؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ فطر ہر چھوٹے بڑے آزاد و غلام اور مرد و عورت پر فرض کیا ہے۔ اس کی مقدار نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع (تقریباً تین کلو) جو کی ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو الاحوص، منصور، شعبی، براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عید الضحی کے بعد خطبہ میں فرمایا جو شخص ہماری اس نماز کی طرح پڑھے گا اور قربانی کرے گا (صرف) اسی کی (نماز و) قربانی ہو گی۔ جس نے نماز سے قبل قربانی کی وہ صرف گوشت ہے۔ ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! واللہ! میں تو نماز سے قبل قربانی کر چکا۔ میں یہ کھانے کا دن سمجھا لہذا خود بھی کھایا ہمسائیوں کو بھی کھلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ تو صرف گوشت تھا۔ انہوں نے کہا میرے پاس چھ ماہ کا دنبہ ہے جو دو بکریوں سے بہتر ہے کیا اس سے قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں ! صرف تمہارے لیے تمہارے بعد کسی کے لیے نہیں۔

 

متوسط خطبہ دینا

 

قتیبہ، ابو الاحوص، سماک، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز بھی متوسط (درمیانی) ہوتی اور خطبہ بھی۔

 

دو خطبوں کے درمیان بیٹھنا اور سکوت کرنا

 

قتیبہ، ابو عوانہ، سماک، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیا پہلے کھڑے ہو کر خطبہ دیا۔ پھر بیٹھ گئے اور خاموش رہے۔ پھر کھڑے ہوئے اور دوسرا خطبہ دیا۔ لہذا اگر کوئی تمہیں بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا تو اس کو سچ مت سمجھا کرو۔

 

خطبہ دوم میں تلاوت قرآن و ذکر الہی کرنا

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، سماک، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھتے اور پھر کھڑے ہوتے اور قرآن کریم کی آیات تلاوت کرتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز اور خطبہ دونوں چیزیں اعتدال پر ہوتیں تھیں۔

 

اختتام خطبہ سے قبل امام کا نیچے آنا

 

یعقوب بن ابراہیم، ابو تمیلۃ، حسین بن واقد، ابن بریٍدۃ، ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسن و حسین آ گئے دونوں نے سرخ کرتے پہن رکھے تھے اور گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر سے نیچے اترے اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سچ فرماتے ہیں کہ تمہارے مال اور اولادیں فتنہ ہیں۔ میں نے انہیں گرتے پڑتے ہوئے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہ کر سکا۔ یہاں تک کہ منبر سے اتر کر انہیں (گود میں ) اٹھا لیا۔

 

خطبہ کے بعد خواتین کو نصیحت اور صدقے کی ترغیب

 

عمرو بن علی، یحیی، سفیان، عبدالرحمن بن عباس، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے ان سے دریافت کیا کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (نماز عید کے لئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلے تھے ؟ فرمایا ہاں ! اگر میرا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک کوئی مقام ہوتا تو میں نہیں جا سکتا تھا۔ (کیونکہ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کثیر بن صلت کے مکان کے پاس موجود اس نشان کے قریب آئے۔ (اشارے سے بتایا یا سمجھایا) نماز ادا کی پھر خطبہ ارشاد فرمایا پھر خواتین کے پاس گئے اور انہیں وعظ و نصیحت کی اور آخرت کی یاد دلائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو خواتین اپنا ہاتھ گلے کی طرف لے جاتیں (اور زیور اتار کر) بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالتی جاتیں۔

 

نماز عید سے قبل یا بعد نماز پڑھنا

 

عبد اللہ بن سعید، الاشج، ابن ادریس، شعبہ، عدی، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عید کے دن نکلے تو صرف دو رکعت ادا فرمائیں۔ نہ ان سے ماقبل کچھ پڑھا اور نہ بعد میں۔

 

امام کا قربانی کرنا تعداد قربانی

 

اسماعیل بن مسعود، حاتم بن وردان، ایوب، محمد بن سیرین، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیدالضحی کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور دو دنبوں کے قریب گئے جو سفید اور کالے تھے۔ پھر انہیں ذبح کیا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، کثیر بن فرقد، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی عیدگاہ میں کیا کرتے تھے۔

 

 

جمعہ کے دن عید ہو تو کیا کرے ؟

 

محمد بن قدامۃ، جریر، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حبیب بن سالم، نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جمعہ اور عیدین کے دن میں سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ پڑھا کرتے تھے۔ اگر جمعہ اور عید کبھی ایک ہی دن ہو جاتے تو بھی ان ہی سورتوں کی تلاوت فرماتے۔

 

اگر عید اور جمعہ ایک ہی روز ہوں تو جس شخص نے نماز عید پڑھی ہو اسے جمعہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کا اختیار ہے

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، اسرائیل، عثمان بن مغیرۃ، ایاس بن ابو رملۃ، معاویہ بن سفیان نے زید بن ارقم سے پوچھا کہ کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عیدین کے موقع پر موجود تھے ؟ فرمایا ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کی عید کی نماز پڑھائی تھی پھر جمعہ کے لیے اجازت تھی کہ اگر (کوئی شخص) چاہے تو آئے اور جی نہ چاہے تو نہ آئے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی، عبدالحمید بن جعفر، وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ ابن زبیر کے زمانہ خلافت میں عید جمعہ کے دن ہو گئی۔ تو انہوں نے دن چڑھے تک نکلنے میں تاخیر کی پھر نکلے اور ایک طویل خطبہ دینے کے بعد منبر سے اتر کر نماز ادا فرمائی اور اس دن لوگوں نے جمعہ کی نماز نہیں پڑھی۔ جب اس وقعہ کا ذکر عبداللہ ابن عباس کے سامنے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا انہوں نے سنت پر عمل کیا۔

 

عید کے روز دف بجانا!

 

قتیبہ بن سعید، محمد بن جعفر، معمر، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لائے تو بچیاں دف بجا رہی تھیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ابو بکر بجانے دو۔ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے۔

 

عید کے دن امام کے سامنے کھیلنا

 

محمد بن آدم، عبٍدۃ، ہشام، عائشہ صدیقہ رضی اللہ فرماتی ہیں کہ عید کے دن چند حبشی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھیلتے ہوئے آئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بھی بلایا۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کندھے کے اوپر سے انہیں دیکھنے لگی اور مسلسل دیکھتی رہی یہاں تک کہ جب میرا جی چاہا تب وہاں سے ہٹی۔

 

عید کے دن مسجد میں کھیلنا اور خواتین کا کھیل دیکھنا

 

علی بن خشرم، ولید، اوزاعی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی چادر سے میرے سامنے پردہ کر دیا اور میں حبشیوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ خود ہی تھک کر ہٹ گئی۔ تم خود ہی اندازہ کر لو کہ جوان کم سن اور کھیل کود کی شوقین لڑکی کتنی دیر تک کھڑی رہ سکتی ہے۔ (یعنی کافی دیر کھڑی رہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا کہ ہٹ جا بلکہ میں خود ہی کافی دیر بعد اکتا کر ہٹی۔)

 

 

٭٭ اسحاق بن موسی، ولید بن مسلم، اوزاعی، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ عمر مسجد میں داخل ہوئے تو حبشی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے انہیں (ان حبشیوں کو) ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا عمر! نہیں کھیلنے دو۔ یہ تو حبشی ہیں۔

 

عید کے روز گانے اور دف بجانے کی اجازت کا بیان

 

احمد بن حفص بن عبد اللہ، ابراہیم بن طہمان، مالک بن انس، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی چادر لپیٹے ہوئے تھے۔ (ابوبکر صدیق رضی اللہ نے انہیں ڈانٹا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے منہ سے چادر ہٹائی اور فرمایا ابو بکر انہیں گانے دو کیونکہ یہ عید کے دن ہیں۔ وہ منیٰ کے ایام تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ ہی میں قیام پذیر تھے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید